بھارت کے عام انتخابات میں ملک کی اہم کاروباری شخصیات انتخابی مہم اور سیاسی جماعتوں کی حمایت میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں جس کے باعث انتخابی عمل کے متاثر ہونے کا امکان ہے۔ فرانسیسی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی اتتخابی مہم کو بھارت کے کاروباری سیکٹر کی جانب سے مالی تعاون فراہم کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری عمل کی شفافیت سے متعلق خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ دوسری جانب کانگریس پارٹی کے راہول گاندھی فائٹر جیٹ معاہدے کو ناکام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس میں صنعت کار انیل امبانی بھی شامل ہیں جبکہ وجے مالیا اور نیرو مودی لندن سے انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بھارت میں انتخابات کے اخراجات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں نامعلوم کاروباری افراد سے ملنے والے عطیات پر زیادہ انحصار کر رہی ہیں جس کی وجہ سے شفافیت میں کمی کے خدشات سامنے آرہے ہیں۔ آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے رکن نرنجن ساہو نے بتایا کہ ’ پلوٹو کریسی ( دولت کی طاقت ) کا رجحان ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’ بے قابو سرمایہ کاری پالیسیوں پر سنگین اثرات مرتب کر سکتی ہے‘۔ نئی دہلی میں قائم سینٹر فار میڈیا اسٹڈیز کے ایک اندازے کے مطابق 2014 کے انتخابات میں 5 ارب ڈالر خرچ کیے گئے تھے جس کی وجہ سے مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اقتدار میں آئی تھی جبکہ 2009 کے انتخابات میں 2 ارب ڈالر خرچ کیے گئے تھے۔
ادارے کا خیال ہے کہ 2019 کے الیکشن میں 7 ارب ڈالر تک خرچ کیے جائیں گے یہ عالمی طور پر دنیا کے مہنگے ترین انتخابات میں سے ایک ہے۔ کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے ملن ویشنو کا کہنا ہے کہ ’ بڑھتی ہوئی آبادی، سیاسی مقابلے میں اضافہ، نقدی اور دیگر صورت میں ووٹرز کی امیدیں، تکنیکی تبدیلیاں جس کا مطلب میڈیا اور ڈیجیٹل ذرائع کے لیے زیادہ سے زیادہ اخراجات کرنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ الیکشن بہت مہنگے ہو گئے ہیں‘۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فنڈنگ کے روایتی طریقے جیسا کہ پارٹی ممبرشپ میں کمی آرہی ہے جس کی وجہ سے انتخابی مہم کی فنڈنگ میں دولت مند ڈونرز پر انحصار میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز ( اے ڈی آر) کی جانب سے مرتب کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 18-2017 میں کارپوریٹس اور انفرادی شخصیات نے کانگریس سمیت دیگر 6 قومی جماعتوں کے مقابلے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو 12 گنا زیادہ چندہ دیا۔ اے ڈی آر کے تجزیے کے مطابق 18-2017 میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 20 ہزار روپے کے 93 فیصد عطیات حاصل کیے جس میں بی جے پی کو 4 ارب 37 کروڑ روپے اور کانگریس کو 26 کروڑ 70 لاکھ روپے ملے تھے نرنجن ساہو کا کہنا ہے کہ ’ اب فنڈنگ میں بہت بڑا فرق ہے، کانگریس کے پاس الیکشن لڑنے کے لیے پیسے نہیں ہیں‘۔
مودی حکومت کا کہنا ہے کہ انہوں نے نقد عطیات میں دی جانی والی رقم میں کمی کر کے سیاست میں بلیک منی کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے، جس کے تحت اب صرف 20 ہزار سے 2 ہزار روپے کی عطیات نقد دی جا سکتی ہیں۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اب دولت مند طبقے کے لیے سیاسی جماعتوں کو پیسے دینا اور بھی آسان ہو گیا ہے۔ دو روز قبل سماجی کارکنان کی جانب سے بانڈ سسٹم کو چیلنج کرنے کے بعد سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کو ڈونرز کی شناخت ظاہر کرنے کا حکم دیا تھا۔ کاروباری شخصیات عموماً امیدواروں کی حمایت نہیں کرتیں لیکن مودی کئی بڑے ٹائیکونز کے قریب معلوم ہوتے ہیں۔ بھارت کے کاروباری افراد زیادہ قیمت کے بینک نوٹ منسوخ ہونے اور نئے ٹیکس کے ناقص نفاذ سے اقتصادی ترقی کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے اس مرتبہ مودی کے لیے کم پرجوش دکھائی دے رہے ہیں۔