↧
روپے کی قدر کون طے کرتا ہے اور کیسے؟
مثلاً بین الاقوامی منڈی سے تیل خریدنے کے لیے ایک کمپنی نے ایک بڑا آرڈر بک کروایا اور انٹر بینک مارکیٹ سے ایک ہفتے بعد دو کروڑ ڈالر خریدنے کا آرڈر بک کروا دیا۔ اس دوران ایک اور کمپنی نے کچھ اور مال درآمد کرنے کے لیے مزید دو کروڑ ڈالر خرید لیے تو پاکستانی مارکیٹ میں موجود ڈالرز کم ہو جائیں گے اور اس کی قیمت اچانک دباؤ کا شکار ہو کر بڑھ جائے گی۔ یعنی روپے کی قدر میں کمی واقع ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر پاکستان میں (سرکاری خزانے کے علاوہ) کہیں سے بہت سے ڈالرز آ جائیں، مثلاً بیرون ملک پاکستانی بہت سارے ڈالر بھجوا دیں یا بہت سے برآمدی ٹھیکے مل جائیں اور اس کے بدلے بڑی رقم ادائیگیوں کی صورت میں کسی نجی یا سرکاری کمپنی کو پاکستان میں مل جائیں تو ڈالر کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے اس پر دباؤ کم ہو گا، اس کی مانگ کم ہو گی اور اس کی قیمت کم ہو جائے گی اور روپے کی قدر خود بخود بڑھ جائے گی۔
کراچی میں سٹیٹ بنک کے مرکزی دفتر میں ایک کمپیوٹر پر ڈالر اور روپے کی قیمت اور اس کی خریدو فروخت کا سارا ریکارڈ براہ راست چل رہا ہوتا ہے۔ بالکل جیسے سٹاک مارکیٹ میں ہوتا ہے۔ سٹیٹ بنک کو لمحے لمحے کی خبر ہوتی ہے کہ کون ڈالر خرید رہا ہے، کون بیچ رہا ہے اور اگر کوئی بڑی مقدار میں ڈالر خریدتا یا بیچتا ہے تو سٹیٹ بنک کو اس سے سوال پوچھنے کا حق بھی ہوتا ہے۔ اور اگر کوئی مشکوک سرگرمی نظر آئے مثلاً کوئی خریدار بلا جواز بہت بڑی مقدار میں ڈالر خریدے تو سٹیٹ بنک مداخلت کر کے اسے ایسا کرنے سے روک سکتا ہے۔
حکومت اپنی معاشی پالیسی پر عمل کرنے کے لیے روپے کی قدر پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ مثلاً نواز شریف کے وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کی یہ سخت ہدایت تھی کہ روپے کی قیمت کو ایک سو روپے فی ڈالر تک نہیں پہنچنا چاہیے۔ یہ ان کی معاشی پالیسی کا اہم نکتہ تھا اور انہوں نے روپے کی قیمت مستحکم رکھنے کے لیے سٹیٹ بینک کا سہارا لیا۔ ان کا طریقہ واردات یہ تھا کہ جیسے ہی انہیں خبر ہوتی کہ ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی قیمت بڑھنے کا خدشہ ہے، وہ سٹیٹ بنک کو ہدایت کرتے کہ کچھ لاکھ ڈالر اوپن مارکیٹ میں ڈال دیں۔ یوں جو دباؤ ڈالر پر آ رہا ہوتا وہ کم ہو جاتا اور اسے مہنگا ہونے سے روک دیتا۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ ہدایت زبانی دی جاتی کیوں کہ قواعد کی رو سے حکومت اس طرح کی کوئی ہدایت دینے کا حق نہیں رکھتی اور نہ ہی سٹیٹ بینک کو اس طرح کی ہدایت ماننے کی اجازت ہے۔ لیکن ایسا ہوتا ہے۔
↧