پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں کشیدگی یوں تو ہمیشہ رہی لیکن اچھے ہمسائیوں کے طور پر رہنے کے لیے جتن بھی خوب ہوئے۔ عالمی و علاقائی حالات اور ان کوششوں کے سبب کئی بار وہ ایک دوسرے کے قریب آئے۔ یا یوں ہوا کہ ٹکراؤ کی صورت حال کو ٹال دیا گیا۔ حال ہی میں ایسی ایک کوشش کی گئی جو کامیاب ہوئی۔ کرتار پور راہداری سے طے کیا جانے والا سفر چاہے مختصر ہو لیکن خطے کی سیاست اور باہمی تعلقات کے حوالے سے یہ کہیں بڑا سفر ہے۔ یہ سفر جوہری ہتھیار رکھنے والے دو ممالک کے درمیان طے ہوا ہے ، جن میں دنیا کی کل آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ آباد ہے۔ اس لیے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھنا خاصا اہم ہے۔
راہداری کے افتتاح کی خبر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے موجودہ دور کے انتہائی تیز خبررساں یعنی ٹویٹر سے دی تھی مگر داستان کا آغاز عمران خان کی بطور وزیراعظم تقریب حلف برداری سے ہوا۔ سابق کرکٹر اور حالیہ وزیر نوجوت سنگھ سدھو ان معروف بھارتیوں میں شامل تھے جنہیں عمران خان کی جانب سے تقریب حلف برداری میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی۔ جن دنوں وہ اس تقریب میں شرکت کے لیے آئے تھے کیمرے کی آنکھ کے سامنے ان کی ملاقات آرمی چیف قمر جاوید باجوہ سے ہوئی تھی، اور انہوں نے ان سے کوئی بات بھی کی تھی۔ بات کچھ وقت کے لیے معمے کی صورت اختیار کر گئی۔ یہ گتھی جلد سلجھ گئی۔
سدھو نے بتایا کہ انہیں کرتار پور راہداری کھولنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ واپس جا کر انڈیا میں ایک پریس کانفرنس کے موقع پر سدھو نے واضح کیا کہ پاکستان گرونانک کی 550 ویں سال گرہ پر کرتارپور کا راستہ کھولنے کو تیار ہے، پنجاب کے لوگوں کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات نہیں ہو سکتی۔ عین ممکن ہے اس سلسلے میں بیک ڈور سفارت کاری کا عمل پہلے سے جاری ہو، لیکن جو سامنے تھا، سامنا اسے ہی کرنا پڑا۔ سدھو کو پاکستان آنے کے فیصلے پر بھارت میں انتہا پسند حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا رہا۔ بہرحال پاکستان نے سکھوں کے مذہبی پیشوا گرونانک کی 550 ویں سال گرہ کی مناسبت سے جس مختصر سی راہداری کو کھولنے کا اعلان کیا تھا اب وہ حقیقت بننے جا رہا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی ہم خیال جماعتوں کی سیاسی اور بھارتی کاروباریوں کی معاشی کامیابیوں کے بعد بھارت میں جو فضا قائم ہوئی ہے اس میں پاکستان مخالف لہر واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ پس پاکستان سے واپس جا کر سدھو کو کڑے سوالوں کے جواب دینا پڑے۔ صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرنے والے سدھو کل دوبارہ ایک وفد کے ساتھ پاکستان پہنچے تاکہ کرتار پور راہداری کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شریک ہو سکیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے سدھو اور دیگر کے علاوہ بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج کو بھی کرتار پور راہداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن انہوں نے پہلے سے طے شدہ مصروفیات کو وجہ بتا کر اس تقریب میں شرکت سے معذرت کر لی۔
پاکستان میں اس راہداری کے سنگ بنیاد کی تقریب میں ’’ہائی پروفائل‘‘ بھارتی شریک نہ بھی ہوں تو بھی اس کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ بظاہر یہ سہولت زائرین کے لیے ہے یعنی اس کی نوعیت مذہبی ہے۔ تاہم موجودہ حالات میں اس کی کڑیاں سیاست، معیشت، عسکریت ودیگر شعبوں سے جا ملتی ہیں۔ اسے ایک مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھا جا نا چاہیے۔ بھارت میں مذہبی انتہاپسندوں کو پاکستان سے تعلقات اور تعاون کی ہر کاوش کھٹکتی ہے۔ ان کی حیات اور نمو باہمی تناؤ، کشیدگی اور نفرت کی مرہون منت ہے۔ مگر کرتار پور پر شاید وہ بھی کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ اگر مخالفت کرتے تو کس بنیاد پر؟ کروڑوں سکھوں کو ناراض کیسے کرتے؟ پس اس معاملے پر بھارت میں ان دنوں قدرے خاموشی رہی۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں بھی ایسے افراد موجود ہیں جو کھلے دل اور وسیع النظری کا مظاہرہ نہیں کرتے اور باہمی امن کے لیے ہونے والی کاوشوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یا انہیں سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کرتار پور میں واقع دربار صاحب گرودوارہ ہے تو پاکستان کے ضلع نارووال میں لیکن انڈیا کی سرحد کے بالکل قریب۔ انڈیا میں واقع قریب ترین ریلوے سٹیشن سے اس کا فاصلہ چند کلومیٹر ہے۔ راہداری کا کچھ حصہ پاکستان تعمیر کرے گا اور کچھ انڈیا۔بھارت نے اپنی جانب سے سرحد تک راہداری کا سنگ بنیاد رکھا۔
انڈیا کے نائب صدر ونکیا نائیڈو اور انڈین پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ نے کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس موقع پر وزیرِ اعلی امریندر سنگھ کا کہنا تھا کہ اب یاتریوں کو ویزے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ سکھوں کے مطابق گرو نانک 1522ء میں کرتار پور گئے تھے اور انہوں نے زندگی کے آخری 18 برس وہیں گزارے۔ ان کا انتقال بھی وہیں ہوا اور گرودوارہ بھی وہیں تعمیر کیا گیا۔ لہٰذا وہ اسے انتہائی مقدس مانتے ہیں۔ فی الحال انہیں طویل فاصلہ طے کر کے یہاں جانا پڑتا ہے۔ ان کی ایک مشکل آسان ہوئی۔ اب اس سے بڑھ کر یہ تمنا کی جانی چاہیے کہ کشمیریوں کی مشکلیں آسان ہوں، جو کہیں زیادہ بڑی ہیں۔