Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4341

زینب کیس، سینیٹ نے سر عام پھانسی کی حمایت کر دی

$
0
0

سینیٹ نے اپنی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے قانون و انصاف کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کو منظور کر لیا جس میں زینب کیس میں ملوث ملزمان جیسے قصور وار افراد کو سر عام پھانسی کی سزا تجویز کی گئی تھی، اس بات پر اصرار کیا گیا کہ ’’قومی کی بیٹیوں کے ریپ اور ان کے قتل جیسے سنگین اور ہولناک جرم‘‘ میں ملوث افراد کو ایسی سزا دینے میں کوئی عدالتی حکم رکاوٹ نہیں ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین جاوید عباسی کی جانب سے سینیٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں یہ تنازع طے کر دیا گیا ہے کہ سنگین جرائم میں ملوث شخص کو سر عام پھانسی دینے کیلئے موجودہ قوانین میں تبدیلی ہونی چاہئے یا نہیں۔ 

قصور واقعے میں ملوث زانی اور قاتل کو سر عام پھانسی کو روکنے کیلئے ’’حقوق انسانی‘‘ کا ایشو اٹھانے والوں سے نمٹنے کیلئے رپورٹ میں اصرار کیا گیا ہے کہ قصور وار شخص کے حقوق کی تشریح متاثرہ شخص کے حقوق کے تناظر میں کرنا ہو گی۔ سینیٹر جاوید عباسی کی قیادت میں حالیہ ہفتوں کے دوران سینیٹ کمیٹی کے تین اجلاس منعقد ہوئے تھے اور ان میں قصور واقعے کے بعد درج ذیل معاملات پر بحث ہوئی تھی: ۱؍ جیل کے قوائد سر عام پھانسی کے حوالے قانونی طور پر جواز پیش کرتے ہیں۔ ۲؍ قوم کی بیٹیوں کے ریپ اور ان کے قتل جیسے سنگین اور ہولناک جرائم میں ملوث افراد کو سر عام پھانسی دینے کے معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ رکاوٹ نہیں ہے۔ ۳؍ صرف قصور وار افراد کے حقوق کا تعین نہیں کیا جا سکتا، ان کا متاثرہ شخص کے حقوق کے تناظر میں جائزہ لینا ہو گا۔ ۴؍ صوبے اگر ضروری سمجھیں تو وہ جیل کے قوائد (جیل رولز) میں ترمیم کر سکتے ہیں تاکہ سر عام پھانسی کے حوالے سے انتظامی معاملات حل کیے جا سکیں، اگر کوئی ہیں تو۔ 

سینیٹ کی ہیومن رائٹس کمیٹی نے سینیٹر رحمان ملک کی قیادت میں مطالبہ کیا تھا کہ تعزیراتِ پاکستان میں ترمیم کر کے بچوں کے اغو، ریپ اور قتل میں ملوث افراد کو سر عام پھانسی دی جائے۔ اس کے بعد یہ معاملہ سینیٹ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو بھیجا گیا تھا۔ ہیومن رائٹس کمیٹی نے تجویز دی تھی کہ سیکشن 364؍ اے میں ترمیم کی جائے، جس کے مطابق : قتل یا انتہائی حد تک چوٹ پہنچانے، غلام بنانے یا ہوس کا نشانہ بنانے کے مقصد سے 14؍ سال سے کم عمر بچوں کو اغوا کرنے والے شخص سر عام پھانسی (یا پھر عمر قید) یا زیادہ سے زیادہ 14؍ سال قید بامشقت کی سزا دی جا سکتی ہے اور یہ سزا سات سال سے کم نہیں ہو گی۔ سینیٹ کمیٹی برائے قانون نے ہیومن رائٹس کمیٹی کی تجاویز پر غور کیا اور یہ پایا کہ قانون میں کسی ترمیم کی ضرورت نہیں۔

تاہم، کمیٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جیل قوائد (پرزن رولز) میں ترمیم کی جا سکتی ہے تاکہ 40؍ لوگ گواہی کے مقصد سے مجرم کی سرعام پھانسی کی سزا کا مشاہدہ کر سکیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ قوائد میں اس بات کی بھی اجازت ہے کہ سزا کا عمل جیل سے باہر بھی کیا جا سکتا ہے۔ رپورٹ میں اس معاملے پر بھی بات کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ نے 1994ء میں کس طرح اس معاملے پر فیصلہ سنایا تھا۔ رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تیز رفتار ٹرائل ایکٹ 1992ء کے سیکشن 10؍ کا جائزہ لیا تھا۔ یہ سیکشن ایکٹ کے تحت دی جانے والی کسی بھی سزا کے مقام کے متعلق ہے اور یہ اس سزا کے معاشرے میں جرائم کیخلاف مزاحمتی عنصر پیدا کرنے کے حوالے سے ہے۔

رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے آئین کے سیکشن 14؍ کا حوالہ دیتے ہوئے قرار دیا تھا کہ تمام حالات میں ہر شخص کی تعزیم واجب ہے اور سر عام پھانسی دیئے جانے سے بدتر مجرموں کی بھی تعزیم کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور یہ آرٹیکل 14؍ میں وضع کردہ بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ کمیٹی رپورٹ میں اسلامی نظریاتی کونسل، وزارت قانون اور تمام صوبائی حکومتوں کے سرعام پھانسی کے متعلق موقف کو شامل کیا گیا ہے اور اختتام میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جیل قوائد سر عام پھانسی کی اجازت دیتے ہیں، ایسی صورت میں سپریم کورٹ کا فیصلہ قوم کی بچیوں کے زنا اور قتل میں ملوث افراد کو سر عام پھانسی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں، مجرم کے حقوق کی تشریح متاثرین کے حقوق کے تناظر میں ہو گی، اور صوبے چاہیں تو سر عام پھانسی کے حوالے سے انتظامی معاملات حل کرنے کیلئے اپنے جیل قوائد میں ترمیم کر سکتے ہیں۔

انصار عباسی
 


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4341

Trending Articles