اقوام متحدہ کے تحت حقوقِ اطفال کے ادارے یونیسف کے ترجمان کرسٹوفی بولائیرک نے کہا ہے کہ شام میں جاری لڑائی میں اس سال اب تک کم سے کم ایک ہزار بچے مارے جا چکے ہیں۔ انھوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ شامی فوج کے محاصرے کا شکار مشرقی الغوطہ میں لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے زیر زمین پناہ گاہوں میں رہ رہے ہیں اور یہ اس محصور علاقے کے مکینوں کی ایک طرح سے روایت بن چکی ہے۔ شامی دارالحکومت دمشق کے نواح میں واقع مشرقی الغوطہ میں اس وقت کم سے کم چار لاکھ افراد مقیم ہیں اور وہ نان جویں کو ترس رہے ہیں لیکن شامی حکومت ان تک امدادی سامان پہنچانے کی اجازت نہیں دے رہی ہے اور اس کی فوج نے مختلف علاقوں پر گولہ باری اور فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دریں اثناء اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ مشرقی الغوطہ میں ایک اور امدادی قافلہ بھیجنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔عالمی ادارے نے سوموار کو مشرقی الغوطہ میں واقع بڑے شہر دوما اور دوسرے قصبوں میں سامان سے لدے 46 ٹرک بھیجے تھے لیکن علاقے میں شدید گولہ باری کی وجہ سے ان میں سے 14 ٹرکوں سے تمام سامان اتارا نہیں جا سکا تھا۔ اقوام متحدہ کے رابطہ کار دفتر برائے انسانی امور کے ترجمان جینز لائرکی نے کہا ہے کہ ’’ یہ امدادی قافلہ نو گھنٹے تک وہاں رکا رہا تھا اور جب وہاں سامان اتارنا ممکن نہیں ہو سکا تو پھر وہاں سے سکیورٹی وجوہ کی بنا پر نکل جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا تاکہ برسرزمین موجود انسانی امدادی ٹیموں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے اور انھیں کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔