اسلام آباد میں موجود ہونے کے باوجود عمران خان نے سینٹ کے انتخاب میں ووٹ نہیں ڈالا۔ وہ ایوب پارک کے قریب ایک ہوٹل میں پرانے کارکنوں سے ملاقات میں مصروف رہے۔ شاید انہوں نے سوچا ہو کہ میرے ووٹ ڈالنے یا نہ ڈالنے سے کیا فرق پڑے گا۔ تحریک انصاف کے کسی امیدوار کو میرے ووٹ کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا لیکن ان کے مخالفوں کو یہ کہنے کا موقع ضرور مل گیا ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو جمہوری عمل سے الگ رکھ کر اچھی مثال قائم نہیں کی۔ سینٹ کے انتخاب میں مسلم لیگ (ن) پنجاب میں اپنے حمایت یافتہ تمام امیدواروں کو کامیاب کرانے میں کامیاب رہی ہے۔
سندھ میں پیپلز پارٹی نے بھی اپنے امیدواروں کی اکثریت کو کامیاب کرا لیا۔ پیپلز پارٹی خیبر پختونخواہ میں اپنی ایک خاتون سینیٹر کو کامیاب کرانے میں کامیاب رہی ہے۔ خیبرپختونخواہ میں بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے جنرل نشستوں پر اپنے امیدوار پیر صابر شاہ کو کامیاب کرایا ہے اور ٹیکنو کریٹس کی نشست پر دلاور خان کامیاب ہوئے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ممتاز عالم دین مولانا سمیع الحق شکست کھا گئے۔ انہیں صرف تین ووٹ مل سکے ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی خیبر پختونخواہ میں خواتین کی نشست پر اپنی امیدوار روبینہ خالد کو کامیاب کرا چکی ہے۔ خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف سینٹ میں وہ اکثریت نہیں لے سکی۔ جسے وہ تھوڑی بہت توجہ اور محنت سے حاصل کر سکتی تھی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے ارکان نے دوسری جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ ڈالا۔ حال ہی میں پنجاب میں تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اور ملک کے ایک قدآور سیاستدان جہانگیر ترین کا بیٹا ان کے اپنے حلقہ لودھراں میں ن لیگ کے امیدوار سے شکست کھا چکا ہے۔
اگلے الیکشن سے چند ماہ پہلے تحریک انصاف کے لئے سینٹ کا الیکشن ایک ایسا سیاسی سیٹ بیک ہے جو اس پارٹی کے مستقبل کو بڑا دھچکا لگا سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے کیمپ میں یہ چہ مگوئیاں ہونا شروع ہو گئی ہیں کہ ان کی قیادت پے در پے سیاسی غلطیاں کر رہی ہے۔ اس کے پاس کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں۔ 2013ءکے انتخابات کے بعد تحریک انصاف نے سیاسی سطح پر رائے عامہ کو دھرنوں کے ذریعے اور بعد میں جلسوں کے زور پر اور پھر مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس سپریم کورٹ سے جیت کر جو سیاسی فوائد حاصل کئے تھے وہ ان کو کیش نہیں کر پا رہی ہے۔ تحریک انصاف کے اندر جو سنجیدہ اور منجھے ہوئے لیڈر اور کارکن ہیں وہ اس بات پر پریشان ہیں کہ اس کی قیادت کے پاس اگلے انتخابات میں کامیابی کے لئے کیا حکمت عملی ہے؟ اگلے عام انتخابات میں بڑا سیاسی معرکہ پنجاب میں ہو گا جو پنجاب کو جیتے گا وہ حکومت بنائے گا۔ اب تک کے سیاسی واقعات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلوں کے باوجود پنجاب کی حد تک اس جماعت کوکوئی بڑا فرق نہیں پڑا۔ سینٹ کے انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب مسلم لیگ ن کے پاس ہی رہے گا۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے حال ہی میں پنجاب کے مختلف شہروں میں کامیاب جلسے کئے ہیں۔ پنجاب میں وہ جلسوں کا ایک اور پروگرام بھی بنا رہے ہیں۔ اس کے باوجود تحریک انصاف میں جو کمی محسوس ہوتی ہے وہ تنظیم کی کمی ہے۔ ملک کے چاروں صوبوں میں تحریک انصاف اپنے آپ کو منظم نہیں کر سکی ہے۔ پارٹی کی تنظیم کے بغیر وہ انتخابات میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکے گی۔ محض جلسوں اور دھرنوں کی بنیاد پر اگلہ الیکشن جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ اس حکومت کے بارے میں خان صاحب نے ہمیشہ دعویٰ کیا ہے کہ صحت اور تعلیم کے میدان میں ان کی صوبائی حکومت نے صوبے کی کایا پلٹ دی ہے۔
عمران خان پولیس کو بدلنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ لیکن اب تک رائے عامہ کا کوئی ایسا ٹھوس سروے سامنے نہیں آیا جس سے ثابت ہو سکے کہ خیبر پختونخواہ میں گورننس دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بہتر ہوئی ہے یا انہیں انتظامی اعتبار سے کوئی غیر معمولی کامیابی ملی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو سینٹ کے انتخابات کے بعد حالات کا معروضی اور غیر جذباتی جائزہ لینا چاہئے کہ وہ کہاں غلطیاں کر رہی ہے۔ 2018ء کے انتخابات سے پہلے اسے اپنا ہوم ورک کرنا ہو گا اور غلطیوں کا ازالہ کرنا ہو گا ورنہ اسے کامیابی ملنے کے امکانات معدوم ہوتے جائیںگے۔