↧
جاوید ہاشمی نے نہیں پوچھا کہ ’مجھے کیوں بلایا؟
مخدوم جاوید ہاشمی قومی سیاست کے ایک باعزت مِس فٹ بزرگ ہیں۔ ایسے بزرگ جن کے سبق آموز جرات مندانہ تجربات کی دھاک محلے میں ہر کسی پر ہوتی ہے۔ ان کی بات کو کوئی نہ نہیں کرتا اور دل ہی دل میں ہاں بھی نہیں کہتا۔ بابا جی کی نصیحت محلے کے بڑے چھوٹے سر جھکا کے کھڑے کھڑے سنتے ہیں اور پھر پیڈل مارتے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ مخدوم صاحب میں 66 برس کی عمر میں بھی اتنی ہی توانائی ہے جتنی 45 برس پہلے کی پنجاب یونیورسٹی کے 21 سالہ طلبا یونین کے صدر میں تھی۔ سدابہار توانائی نے اگر کہیں ڈیرہ ڈالا ہے تو وہ جاوید ہاشمی کا ڈیرہ ہے۔ برین ہیمبرج کا حملہ بھی ان کی شعلہ صفتی نہ بجھا سکا۔
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
نواز شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مصیبت کے وقت وہ اور لوگوں پر تکیہ کرتے ہیں اور راحت ملتی ہے تو تکیے بھی بدل جاتے ہیں۔ جیسے دورِ جلاوطنی میں انھیں جاوید ہاشمی پارٹی صدارت کے لیے موزوں دکھائی دیے اور پرویز مشرف نے فوج کو بغاوت پر اکسانے کے الزام میں جاوید ہاشمی کو ساڑھے تین برس کے لیے جیل میں ڈال دیا۔ لیکن جب شریفوں کے اچھے دن آئے تو اینٹی اسٹیبلشمنٹ جاوید ہاشمی کی جگہ اسٹیبشلمنٹ نواز چوہدری نثار علی خان کو قائدِ حزبِ اختلاف چن لیا گیا۔ زرداری کے مقابلے میں صدارتی امیدوار جاوید ہاشمی کو بنانے کے بجائے جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی کو بنا دیا گیا۔
↧