↧
جب مجھے اپنے ہندو ہونے پر شرم محسوس ہوئی
انڈیا کے مقدس شہر ایودھیا میں چھ دسمبر سنہ 1992 میں ہندوؤں کے ایکمشتعل ہجوم نے سولہویں صدی عیسوی میں تعمیر کی گئی تاریخی بابری مسجد کو مسمار کر دیا تھا۔ اس سانحے کے بعد فسادات میں دو ہزار افراد لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ اس واقع سے ایک دن قبل فوٹوگرافر پروین جین ہندو کار سیوکوں یا رضاکاروں میں شامل ہو گئے تھے۔ اس دن کو بابری مسجد کو مسمار کرنے کی مشق قرار دیا گیا تھا۔ پروین جین نے اس مشق کی تصاویر کے ساتھ اس روز کی روداد بیان کی ہے۔
پروین جین کے مطابق بی جے پی کے رکن پارلیمان نے مجھ سے کہا کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے انھیں واضح احکامات ہیں کہ کسی بھی صحافی یا ذرائع ابلاغ کے نمائندے کو قریب نہ آنے دیا جائے لیکن'کیونکہ آپ سے ہماری دوستی ہے اس لیے میں آپ کو یہ جانکاری (معلومات) دے رہا ہوں۔' زعفرانی رنگ کا گمچھا یا سر پر ڈالنے والے رومال اوڑھے اور سینے پر خصوصی پاس (اجازت نامہ) سجائے، ایک کار سیوک کے روپ میں مجھے بابری مسجد کے قریب فٹ بال گراؤنڈ کے برابر ایک میدان میں لے جایا گیا۔
اس کے اگلے روز میں دوسرے صحافیوں کے ساتھ ایک چار منزلہ عمارت کی چھت پر موجود تھا جہاں سے بابری مسجد اور اس کے قریب لگائے گئے سیٹج کو صاف طور پر دیکھا جا سکتا تھا جہاں سے وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور بی جے پی کے رہنما ڈیڑھ لاکھ کے قریب کارکنوں اور لوگوں سے خطاب کر رہے تھے۔ یہاں پر موجود پولیس اہلکار بھی ہجوم کے نعروں کا جواب دے رہے تھے۔ دوپہر کے وقت ہجوم اس قدر مشتعل ہو گیا کہ اس نے مسجد کی حفاظت پر معمور پولیس اہلکاروں اور رضاکاروں پر دھاوا بول دیا۔ اور چند گھنٹوں میں مسجد کی عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی۔
بشکریہ بی بی سی اردو
↧