↧
عالمی عدالت میں بھارت نے کیا کھویا اور کیا پایا ؟
پاکستان میں اپوزیشن نے عالمی عدالت کے فیصلے کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہراتے ہوئے فیصلے کو نواز، جندل ملاقات کا نتیجہ قرار دیا اور وزیراعظم کو ملکی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیا جبکہ کچھ ٹی وی اینکرز نے عالمی عدالت میں پاکستان کی پیروی کرنے والے وکیل کو بھی نہیں بخشا اور اُنہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ خاور قریشی عالمی عدالت میں پاکستان کے کیس کا صحیح طرح سے دفاع نہیں کر سکے۔ میرے خیال میں عالمی عدالت کے فیصلے کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرانا اور خاور قریشی کی صلاحیتوں پر شک کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ اس سلسلے میں جب میں نے لندن میں مقیم اپنے دوست نسیم احمد جو ایک معروف وکیل ہیں، سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ خاور قریشی کے بارے میں کیا جانے والا پروپیگنڈہ درست نہیں، خاور قریشی نے برطانیہ کی مشہور کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کی اعلیٰ ترین بیرسٹر کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور وہ اِسی یونیورسٹی میں کافی عرصے تک تدریس سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں جبکہ وہ قانون پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں اور کوئن کونسل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ خاور قریشی 1993ء میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں کیس کی پیروی کرنے والے سب سے کم عمر وکیل تصور کئے جاتے تھے جبکہ وہ 2013ء میں برطانوی ہائیکورٹ کے نائب جج بھی رہ چکے ہیں۔
ایک تجزیہ نگار کی حیثیت سے میرے نزدیک بھارت نے کلبھوشن کے کیس کو عالمی عدالت لے جا کر بہت بڑی غلطی کی ہے جس سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ کلبھوشن کوئی عام شہری نہیں بلکہ بھارتی جاسوس اور دہشت گرد ہے جسے بھارت اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتا رہا۔ دہشت گرد کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد شروع میں بھارت نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ کلبھوشن کا بھارت سے کوئی تعلق نہیں مگر بعد میں بھارت نے اسے اپنا شہری تسلیم کر لیا۔ کلبھوشن کے معاملے میں بھارت کے عالمی عدالت جانے کی بڑی وجہ بھارتی حکومت پر عوام اور اسٹیبلشمنٹ کا دبائو تھا کہ حکومت، کلبھوشن کو تنہا نہ چھوڑے اور اُس کی رہائی کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں جس پر بھارتی وزیر خارجہ کو یہ بیان دینا پڑا کہ ’’بھارت کلبھوشن کی رہائی کیلئے کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔‘‘ شاید اسی دبائو اور بوکھلاہٹ میں بھارت نے عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا حالانکہ عام طور پر دو ممالک میں جاسوسوں کی رہائی کیلئے اِس طرح کا طریقہ اختیار نہیں کیا جاتا بلکہ اِن ممالک کے مابین جاسوسوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ امریکہ اور روس میں جاسوسوں کے تبادلے کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
↧