↧
سلامی دو ارب کی
↧
ایک زرداری بلاول پر بھاری
↧
↧
’وہ نظام لایا جا رہا ہے جو غلاموں کے لیے تھا‘
حزب مخالف کی جماعتوں نے پنجاب حکومت کی جانب سے صوبے بھر میں ڈپٹی کمشنر کا نظام دوبارہ متعارف کرانے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت بلدیاتی نظام چلانا نہیں چاہتی۔ پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے ڈپٹی کمشنر کے نظام کی بحالی پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ حکمران اقتدار منتخب بلدیاتی نمائندوں کے سپرد نہیں کرنا چاہتے. پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر کے نظام کی بحالی کے وقت سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ حکومت اس نظام کو کیوں بحال کرنا چاہتی ہے اور اس کی وجہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پنجاب کے حکمران بلدیاتی نظام کو چلانا نہیں چاہتے اسی لیے اسے بےاختیار کیا جا رہا ہے۔
ان کے بقول ڈپٹی کمشنر کو تمام اختیارات دیے جا رہے ہیں تا کہ بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو بے اختیار بنا دیا جائے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما نے افسوس کا اظہار کیا کہ ایک ایسے وقت میں بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو ان کے اختیار سے محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جب منتخب بلدیاتی نمائندے اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے والے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ حکمران تمام اختیارات اپنے پاس رکھنا چاہتے اور اختیارات کو منقتل کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔ پنجاب میں حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف نے بھی صوبے میں ڈپٹی کمشنر کا نظام بحال کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور حکمران آئین سے متصادم قانون بنا رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب مخالف میاں محمود الرشید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی کمشنر کے نظام کو بحال کرنے سے منتخب بلدیاتی نمائندے کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔میاں محمود الرشید نے تعجب کا اظہار کیا کہ ایک طرف بلدیاتی ادارے فعال کیے جا رہے ہیں اور دوسری جانب ان نمائندوں کو بےاختیار کیا جا رہا ہے. انھوں نے کہا کہ حکومت کا اقدام آئین کے آرٹیکل 140 اے کے منافی ہے جو بلدیاتی منتخب نمائندوں کو انتظامی اور مالیاتی طور پر بااختیار بناتا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ حکومت نے عوامی نمائندوں کو بےاختیار اور ان کے مقابلے ڈپٹی کمشنر کو بااختیار بنا دیا جو آئین اور جمہوریت کی نفی ہے۔ میاں محمود الرشید نے حیرت کا اظہار کیا کہ'حکومت آگے بڑھنے اور عوامی نمائندوں کو بااختیار کرنے کے بجائے الٹا پہیہ گھما رہی ہے اور اب انگریز کے دور کا وہ نظام لایا جا رہا ہے جو غلاموں کے لیے تھا۔'قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے کہا کہ اب ضلعے کا مالک ڈپٹی کمشنر ہو گا اور عوامی منتخب میئر یا چیئرمین بےاختیار ہو گا۔ میاں محمود الرشید نے بتایا کہ اس نظام کے خلاف مذمتی قرارداد اسمبلی میں جمع کرا دی ہے۔ قائد حزب اختلاف نے اعلان کیا کہ اسمبلی کے اجلاس میں ڈپٹی کمشنر کا نظام بحال کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔
تحریک انصاف کے رہنما نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر کے نظام کو عدالت میں چیلنج کرنے معاملے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ادھر پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کی یونین کونسل کے منتخب نمائندوں نے ڈپٹی کمشنر کے نظام کو دوبارہ رائج کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ لاہور کی یونین کونسل کے چیئرمین حفیظ صدیقی نے کہا کہ بلدیاتی نمائندے پہلے ہی بےاختیار تھے اور اب سے بچے کھچے اختیارات بھی چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حفیظ صدیقی کا کہنا ہے کہ اب میئر لاہور کے پاس لاہور کی چابی تو ہو گی لیکن تالے نہیں۔ ان کے بقول میئر یا چیئرمین ڈپٹی کمشنر کا ملازم بن کر رہ جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کو انگریز کے فرسودہ نظام کے تحت استحصالی نظام کے دھکیل دیا گیا ہے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے یونین کونسل کے چیئرمین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ بےاختیار نمائندے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ پہلے ترقیاتی کام کے لیے متعلقہ رکن پنجاب اسمبلی سے رجوع کیا جائے اور اس کے بعد رکن صوبائی اسمبلی متعلقہ ڈپٹی کمشنر سے اجازت لیں۔ان کے بقول منتخب بلدیاتی نمائندے نمائشی نمائندے بن کر رہ جائیں گے.
بیورو رپورٹبی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
↧
Punjab Pakistan : Farmers wash carrots on a polluted stream
↧
گوادر کا تاریخی پس منظر
گوادر، کراچی سے تین سو میل کے فاصلے پر ایران کی سرحد کے قریب بلوچستان کا ایک ایسا ساحلی قصبہ ہے جس میں فطری طور پر گہرے پانی کی قدرتی بندرگاہ بننے کی گنجائش پائی جاتی ہے لیکن ایک ایسے دور افتادہ مقام پر واقع ہونے کے باعث جس کا پانی ملک کے ساتھ ریل اور سڑک کے رابطے نہ ہونے کے برابر ہیں اپنی فطری صلاحیت کے باوجود اب تک گوادر کو محض مقامی سطح پر ماہی گیری کی بندرگاہ کے طور پر بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان میں ساحل مکران پر واقع گوادر، پاکستان کا نقشے پر کراچی سے بہت آگے ایرانی سرحد کے قریب واقع ایک نہایت پسماندہ شہر ہے شہر کے اردگرد کا علاقہ گوادر کا ضلع کہلاتا ہے اس ضلع میں تین قصبے ہیں گوادر، پسنی اور مرا۔
گوادر کا قصبہ 1958ء تک چھوٹی سی ہمسایہ خلیجی ریاست مسقط کے قبضہ میں تھا۔ مسقط جس کا نام سلطنت العمان ہے اس کے حکمران سلطان السعید ( موجودہ سلطان کے والد) نے اپنی معاشی پریشانیوں کے باعث گوادر کو بھارت کے ہاتھ فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا۔ حکومت پاکستان کو بمبئی میں ان کے میزبان مسلمان تاجروں کی وساطت سے اس سودے کے بارے میں علم ہوا تو پاکستان کی اُس وقت کی حکومت نے جس کے وزیر اعظم فیروز خان نون تھے کسی تساہل سے کام لیے بغیر فوری طور پر بھارت سے زیادہ قیمت ادا کرکے گوادر کو خرید لیا اس طرح 1958ء میں گوادر پاکستان کا حصہ بنا گوادر کی فروخت کے وقت مسقط اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان یہ طے پایا کہ گوادر کے باشندوں کو بیک وقت دونوں ممالک کی شہریت حاصل ہوگئی البتہ 1985ء کے بعد پیدا ہونے والے صرف پاکستان کے شہری تصور ہوں گے.اس معاہدے کے تحت آج بھی سلطنت اومان میں گوادر کے باشندوں کو شہری حقوق حاصل ہیں ان کی ایک کثیر تعداد سلطنت اومان کی فوج اور دیگر محکموں میں ملازم ہے اور بہت سے بلوچ باشندے اومان میں کاروبار بھی کرتے ہیں جس طرح پاک افغان سرحد کے دونوں طرف بسنے والے قبائل میں سماجی، ثقافتی کاروباری اور خاندانی رشتے ہیں بالکل اس طرح گوادر کے بلوچوں اور سلطنت اومان کے بلوچوں میں قدیم اور گہرے خاندانی سیاسی، سماجی، اور تجارتی رشتے پائے جاتے ہیں۔ نصیر خان نوری حکمران قلات نے مسقط کے شہزادے سید سلطان کو گذر اوقات کے لیے حوالے کیا تھا تا ہم بعد میں مسقط کے حکمرانوں نے اسے اپنی حکومت کا حصہ بنا لیا 1822-23 میں خان قلات ناصر خان مرحوم نے اپنی فوج کی مدد سے گوادر پر قبضہ کر نے کی ناکام کوشش کی اس کی بڑی وجہ گوادر کے گورنر نے خان قلات کے کمانڈروں کو لالچ دے کر خرید لیا تھا۔
1957ء میں پاکستانی حکومت نے اومان سے گوادر پونے تین کروڑ روپے باقاعدہ معاہدے کے تحت واپس خریدا کیوں کہ خان آف قلات کے آباؤ اجداد نے تحفہ میں یہ اومان کے شہزادے کو دیا تھا گوادر اس علاقے سے فاصلاتی طور پر بھی نہایت قریب ہے بلکہ اومان اور گوادر کے درمیان تاریخی روابط بھی استوار ہیں 1957ء سے قبل مسقط کی طرح گوادر بھی پسماندہ علاقہ رہا یہاں پر سلطان نے کسی قسم کی سماجی ترقی لانے کی کوشش نہیں کی تاہم گوادر میں فوجی ملازمتوں کے دروازے کھولے گئے۔ گوادر کی کل آباد ی تقریباً دو لاکھ کے قریب ہے اور مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے سارا ضلع ساحل سمندر پر واقع ہے اس لیے یہاں 3400 افراد ماہی گیری کا پیشہ اختیار کیے ہوئے ہیں غربت کی وجہ سے وہ پرانی کشتیوں اور جالوں کے ذریعے مچھلیاں پکڑتے ہیں ساحلی علاقے کے قریب سمندر میں ٹیونا مچھلی عام ہے جس کی مغربی دنیا میں بڑی زبردست مانگ ہے ماہی گیر ناخواندہ ہونے کی وجہ سے سے مچھلی کو کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کرتے ہیں یہ صوتحال 1958ء سے اب تک ویسی کی ویسی ہے۔
بلوچستان میں 35 مختلف رنگ و نسل کی مچھلیاں جن کا وزن ایک لاکھ چودہ میٹرک ٹن اور جو 910 ملین روپے کی مالیت کی ہوتی ہیں کو روایتی طریقوں سے پکڑا جاتا ہے جن میں ساٹھ ملین روپے کی مالیت کی دس ہزار ٹن ٹیونا مچھلی ہوتی ہے خشک کرنے کے بعد ٹیونا مچھلی کو نہایت ہی کم قیمت پر سری لنکا کو دو سے 3 روپے فی کلو گرام پر بیچ دیا جاتا ہے جبکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کی قیمت 15 سے 20 ڈالر فی کلو ہوتی ہے۔ گوادر کے ساحل کا کل رقبہ 130 ایکڑ ہے گوادر کا ساحل 21 ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق پاکستان کی شہ رگ بن چکا ہے جو ملک و قوم اور سمندری وسائل کے حوالے سے بہرہ ور ہو گا یہ علاقہ سمندری وسائل سے مالا مال ہے یہاں بندرگاہ کو ترقی دے کر خام سمندری وسائل کو استغمال کرکے کثیر زر مبادلہ حاصل کیا جاسکتا ہے.
ٹیونا مچھلی کثیر تعداد میں پائی جاتی ہے اس کا نرخ عالمی منڈی میں بہت زوروں پر ہے اس لیے ضروری ہے کہ مچھلی کو پکڑنے کی جدید سہولتوں میں اضافہ ہو جس سے مچھلی کو محفوظ رکھا جا سکے اور بہتر قیمت پر فروخت کی جاسکے۔ دوم یہ کہ ہر قسم کی شورش سے پاک اور وسیع علاقہ ہے جہاں لیبر بھی سستی حاصل ہوتی ہے یہاں کے سمندری راستے بھی جہاز رانی کے لیے بے مثال ہیں روس کی وسط ایشیائی ریاستیں اور افغانستان جبکہ دوسرے طرف متحدہ عرب امارات اور دیگر علاقوں کے راستے میں گوادر جو کراچی سے قریباً 265 میل دور ہے اور سب سے خاص بات یہ کہ گوادر کی بندرگاہ خلیج فارس کے عین دہانے پر واقع ہے اور وسطی ایشیاء سے گوادر تک زمینی فاصلہ محض 500 کلومیٹر ہے وسطی ایشیائی نو آزاد مسلم ریاستوں کی باقی دنیا کے ساتھ تجارتی روابط موزوں ترین ذریعہ گواردر کی بندرگاہ ہے اگر دفاعی اعتبار سے سی پورٹ بنایا جائے تو کراچی کی نسبت زیادہ اہم ثابت ہو گا دنیا بھر کے سمندری راستوں کے لیے ایک آئیڈیل بندرگاہ بن سکتی ہے۔
اب جب سی پیک کا باقاعدہ افتتاح ہو چکا، تو اس خواب کی تکمیل ہو سکتی ہے۔ بلوچستان کے ساحلی علاقے میں آٹھ قصبے ہیں جن میں 34 مختلف آبادیوں میں تین لاکھ سے زائد افراد آباد ہیں ان میں سے تقریباً 3400 افراد مچھلی کے کاروبار سے منسلک ہیں مچھلی کی پیداوار میں بلوچستان کا حصہ 23 فی صد ہے جس میں گوادر کا حصہ 34 فی صد ہے گوادر بندرگاہ کی پیداوار34000 میٹرک ٹن ہے جس کی مالیت 250 ملین روپے ہے۔ اس کے مقابلے میں پسنی، ہاربر کی آمدنی 220ملین روپے ہے اس علاقے میں مچھلیاں پکڑنے کے آٹھ مقامات ہیں جن میں پسنی، گوادر، جیوانی، اوڑمارا، گڈانی، پشوکان اور سونمیانی شامل ہیں۔ گوادر کی بندرگاہ کو بلجیئن کمپنی نے 1610 ملین روپے کی لاگت سے تین سال میں مکمل کر لیا تھا اس کے لیے مجموعی طور پر 604 ملین روپے کا قرضہ لیا گیا تھا جس میں بلجیم کے 221 ملین اور کنشوریم کے 383 ملین روپے بھی شامل ہیں۔ قرضہ واپس کرنے کی مدت 13 سال ہے گوادر کی بندرگاہ 1700 میٹر لمبی 60 فٹ چوڑی اور اس کی گہرائی 3.5 میٹر ہے۔
شیخ نوید اسلم
(پاکستان کی سیر گاہیں)
شیخ نوید اسلم
↧
↧
کنگن پور
ضلع قصور، تحصیل چونیاں کا ایک قصبہ۔ یہ نہر دیپالپور کے کنارے چونیاں سے جانب مغرب بیس میل اور قصور ریلوے جنکشن سے ۸۳ میل کے فاصلے پر ہے۔ دفاعی اعتبار سے اس کو بڑی اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ ضلع قصور کا پاک بھارت سرحد کے قریب آخری قصبہ ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ابتداً اسے ایک عورت کنگنا رائے نے تیرہ سو برس پہلے آباد کیا تھا اور اس کا نام کنگن پور مشہور ہوا۔ محمد بن قاسم کے ہندوستان پر حملہ کے زمانے میں یہ بستی اُجڑ گئی اور پھر کئی سو برس تک ویران رہی۔ تقریباً تین سو سال قبل علی اکبر مغل نے قصبہ پٹی سے آکر اس پرانے ٹیلے کے اوپر اس کی دوبارہ آبادکاری کی اور اسے پُرانے نام سے موسوم رکھا۔ اس روز سے مغل قوم یہاں کی مالک بنی۔ پھر کھتری، اروڑے اور راجپوت وقتاً فوقتاً آتے گئے اور بستے گئے۔
قصوری پٹھانوں کی اس علاقے میں عملداری ہوئی تو انہوں نے یہاں ایک قلعہ بنایا جس میں انگریزی دور میں پولیس کی چوکی قائم ہوئی۔ سکھوں کے عہد میں جوند سنگھ موکل یہاں کا جاگیردار تھا جس نے بھی یہاں ایک قلعہ بنوایا تھا۔ انگریزوں کے پنجاب پر قبضے کے بعد یہ قلعہ مسمار کر دیا گیا۔ ۰۷۸۱ء میں اس کی آبادی ۰۹۳۱ تھی جبکہ ۴۳۳ گھر یہاں موجود تھے۔ ۹۱۹۱ء کی سرکاری رپورٹ کے مطابق یہاں تھانہ اور ڈاکخانہ موجود تھے۔ یہاں سکھوں کا ایک تاریخی گوردوارہ موجود ہے۔ جو باباگورونانک کی زندگی کے ایک واقعہ کی یاد میں تعمیر کیا گیا۔
کنگن پور کا گوردوارہ ۹۳۹۱ء میں تعمیرہوا تھا۔ جو اب خستگی کی حالت میں ہے۔ سکھوں کے مذہبی مقامات کے مُصنف اقبال قیصر کے مطابق کنگن پنجاب کا واحد علاقہ ہے جہاں گلہڑ کی بیماری بکثرت پائی جاتی ہے. کنگن پور میں ستلج رینجرز کا وِنگ ہیڈکوارٹر قائم ہے۔ کنگن پور کی علمی و ادبی شخصیات میں عباد نبیل شاد، اسلم شاہد، اسلم عابد، اسلم شیراز، باقر رضا اور نذیر احمد زاہد کے نام نمایاں ہیں۔ کنگن پور کی آبادی ۱۸۹۱ء میں ۹۰۰۲۱ اور ۸۹۹۱ء کی مردم شماری کے مطابق ۳۴۶۸۱ نفوس پر مشتمل تھی ۔ اب اس کی آبادی ۵۲ ہزار کے لگ بھگ ہے۔
(کتاب ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس)
↧
گلگت
گلگت جو ریشم کی سرزمین مشہور ہے، دلکش نظاروں کی وجہ سے بے نظیر ہے، یہاں کے قبائلی لوگ نہایت ملنسار، گرم جوش اور بھرپور میزبان ہیں۔ یہ فوجی اعتبار سے اہم خطہ سمجھنے کے ساتھ ساتھ آب رسانی اور کئی ایک پہاڑوں کے درمیان ہے اور اپنی دلکشی انفرادیت پیدا کیے ہوئے ہے۔ گلگت شہر چونکہ چائنہ کے قریب ہے۔ اس وجہ سے چائنہ کی مصنوعات کا یہ مرکز بھی ہے، جہاں خرید وفروخت ہوتی ہے۔ چائنہ کا مشہور زمانہ ریشم اور مصالحہ جات گلگت کے شہر میں دستیاب ہوتے ہیں۔ یہاں کے بازاروں میں ہر وقت گہما گہمی رہتی ہے۔ منگول، تاجک، چینی اور افغانی لوگ یہاں بازاروں اور گلیوں میں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ تھوڑے بہت وسطی ایشیا کے لوگ بھی موجو دہیں۔ یہ تمام روایتی لباس پہنتے ہیں۔ گلگت ہی ایک شہر ہے، جہاں ابھی تک پرانے روایتی انداز میں پولو کھیلی جاتی ہے۔
تیسری صدی سے گیارہویں صدی تک گلگت بلور کے بدھا بادشاہت کا حصہ تھا۔ بدھ مجسموں کی کندہ کاری اس تمام خطے میں ابھی تک دیکھی جا سکتی ہے، جس طرح مشہور ’’کارتھا بدھا‘‘ کی کندی کاری موجود ہے۔ آٹھویں صدی کے اوائل میں تین بڑی طاقتیں چائنہ، عرب اور تبت اس خطہ کی طرف مائل ہوئے۔ بہت ساری لڑائیوں کے بعد آخر یہ خطہ سات بادشاہتوں، جن میں پانچ مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں میں بٹ گیا۔ تیرہویں صدی میں مارکوپولو نے اس علاقے کو شوروغل کی بادشاہت کا علاقہ کہہ دیا تھا، یہاں پہنچنے والے شائقین اسلام آباد سے پندرہ گھنٹے کی قراقرم شاہراہ پر مسافت طے کرنے کے بعد پہنچتے ہیں۔ شاہراہ قراقرم بھی دنیا کی آٹھویں عجوبہ میں شامل ہو چکی ہے جو کہ پرانی شاہراہ ریشم کی افسانوی کہانیوں کی یاد دلاتی ہے۔ اس کے علاوہ صرف ایک گھنٹہ کی ہوائی پرواز سے اس دلکش خوصورت علاقہ میں پہنچا جا سکتا ہے۔
(شیخ نوید اسلم کی تصنیف ’’پاکستان کی سیر گاہیں‘‘ سے مقتبس) -
↧
Polio Still Challenging in Pakistan
↧
تارکین وطن کی قبریں کہاں ہوں گی ؟
↧
↧
کولیسٹرول کیسے کم کیا جائے؟
زندگی مزے سے گزر رہی تھی۔ چٹ پٹے مرغن کھانے، سری پائے، گردے کپورے، مغز، نہاری اور ناشتے میں انڈا اور مکھن کھانا معمول تھا۔ اس طرح کے کھانے اور کھابے کھانا مزیدار لگتا خود کھانے کے ساتھ اور دوسروں کو کھلانا بہت اچھا لگتا۔ صحت بھی خوب تھی۔ ڈاکٹر کے پاس کم کم جانا ہوتا۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے سینے میں گھٹن محسوس ہوئی۔ ڈاکٹر کے پاس پہنچے ECG اور دوسرے ٹیسٹ ہوئے تو پتا چلا کہ خون میں کولیسٹرول کی مقدار کافی حد تک بڑھ چکی ہے۔ ECG میں بھی گڑبڑ ہے۔ خون میں کولیسٹرول بڑھنا خاصا تشویشناک ہوتا ہے۔ اس کے بڑھنے اور مضمرات کے بارے میں ذہن میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔
کولیسٹرول کیا ہے؟کولیسٹرول چربی کی ایک قسم ہے، جس کی مناسب مقدار کا جسم میں ہونا ضروری ہے۔ ایک نارمل آدمی کے جسم میں کولیسٹرول کی مقدار قریباً 100 گرام یا اس سے تھوڑی سی زیادہ ہوتی ہے کولیسٹرول جسم میں بنتا اور جمع ہوتا ہے۔ اس کی مناسب مقدار جسم میں ضروری ہارمونز پیدا کرنے کے لیے اور نظام ہضم میں مدد دینے کے لیے ضروری ہے۔ مختلف قسم کی خوراک مثلاً گوشت، انڈے، دودھ، مکھن اورگھی وغیرہ میں کولیسٹرول کی خاصی مقدار ہوتی ہے، اسی طرح کی غذا کھانے سے خون میں کولیسٹرول کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ جب خون میں کولیسٹرول کی مقدار حد سے بڑھ جائے، تو پھر یہ خون کی نالیوں کے اندرونی حصے میں جمع ہو کر اور چکنائی کی تہیں بنا کر خون کے نارمل بہائو میں رکاوٹ پیدا کر کے ہارٹ اٹیک کا سبب بن سکتا ہے، جس سے فوری موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔کولیسٹرول کی اقسام :کولیسٹرول خون میں گردش کرتا ہے۔ جسم میں موجود چکنائی اور لحمیات Protein کے چھوٹے چھوٹے مرکبات کو لیسٹرول کو اس کے استعمال کی جگہ پر لے جاتے ہیں۔ ان مرکبات کو Lipo proteins کہتے ہیں۔ ان کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں: (1) Very Low Denity Lipoproteins (VDVL) (2) Low Density (LDL) Lipoproteins (3) High Density Lipoproteins (HDL) LDL اور VLDL جسم میں موجود کولیسٹرول کو جسم کے مختلف حصوں تک پہنچاتے ہیں جبکہ HDL اصل میں خون میں موجود کولیسٹرول کو کم کرنے کا کام کرتے ہیں کیونکہ یہ جسم سے زیادہ کولیسٹرول کو جگر تک پہنچاتے ہیں جہاں سے وہ صفرا وغیرہ بنانے کے کام آتا ہے۔ اگر خون میں LDL اور VLDL کی مقدار زیادہ ہو گی تو پھر لازماً کولیسٹرول کی زیادہ مقدار خون میں شامل ہو کر اس کی وریدوں یا شریانوں کو تنگ کرنے کا باعث بنے گا۔ مرغن غذائیں یا کولیسٹرول والی زیادہ خوراک کھانے سے جسم میں مختلف قسم کی چربی Triglycerdies بھی زیادہ ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے خون کی نالیوں میں Clot آنے کا خطرہ مزیدبڑھ جاتا ہے۔ کولیسٹرول کا لیول :
جسم میں کولیسٹرول اور مختلف قسم کے Lipoproteins اور چکنائی کی مقدار معلوم کرنے کیلئے خون کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ اسے Lipid profile کا نام دیا جاتا ہے۔ اس ٹیسٹ کو کروانے کے لیے کم از کم بارہ گھنٹے بھوکا رہنا ضروری ہے۔ تبھی خون میں کولیسٹرول وغیرہ کی مقدار کا صحیح پتہ چلتا ہے۔
ایک تندرست آدمی کا Lipid profile مندرجہ ذیل ہونا چاہیے: کولیسٹرول 200 - 120 ملی گرام/ ڈیسی لٹر HDL 41-52 ملی گرام/ ڈیسی لٹر LDL 108-188 ملی گرام/ ڈیسی لٹر ٹرائی گلیسرائیڈ ز 150 ملی گرام تک.
خون میں کولیسٹرول کی زیادتی کے مضمرات:خون میں کولیسٹرول کی زیادتی کے باعث دل کے دورے کے امکانات 10-8 گنا بڑھ جاتے ہیں۔ خون میں کولیسٹرول زیاہ ہونے کے ساتھ اگر سگریٹ نوشی یا شراب نوشی کی بھی لت ہو ،تو پھر ہر وقت دل کے دورے کا خطرہ ہوتا ہے۔ زیادہ کولیسٹرول اور ٹرائی گلیسرائیڈز دل کو خون پہنچانے والی نالیوں میں CLOT بن کر دل کو خون کی سپلائی بند کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں دل کے دورے سے واپسی کے تمام امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔ موٹاپے کے ساتھ اگر ذیابیطس بھی ہو ، تو دل کے دورے کے امکانات اور بھی بڑھ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ
↧
گھریلو ملازمین : سماجی رویہ بدلیں
↧
نظام کی یہ بے بسی
↧
ملکہ کوہسار مری میں موسم سرما کی پہلی برف باری
ملک بھر سے سیاحوں کی بڑی تعداد نے موسم سرما کی پہلی برف باری سے لطف اندوز ہونے کے لیے ملکہ کوہسار مری اور ملک کے شمالی علاقوں کا رخ کرلیا۔مری میں روئی کے برستے گالے دیکھ کر لوگوں کے چہرے کھل اٹھے اور انہوں نے خوب ہلہ گلہ کیا، جبکہ تفریحی مقامات پر میلے کا سماں نظرآنے لگا۔ کاغان میں موسم سرما کی پہلی برفباری نے وادی کے حسن کو چار چاند لگا دیئے۔ سوات میں برف کے سفید گالوں نے ہر چیز کو ڈھک دیا اور درختوں اور عمارتوں کی چھتوں اور سڑکوں نے سفید چادر اوڑھ لی۔ چترال میں برفباری کے باعث لواری ٹاپ بند ہوگیا جس کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں سے زمینی رابطہ منقطع ہو گیا۔
↧
↧
جنت نظیر وادی کشمیر میں برف باری کا دل فریب منظر
کشمیر کے گرمیوں کے دارالحکومت سری نگر میں جاری رہنے والی برف باری نے درجہ حرارت میں کمی کے ساتھ ساتھ وادی کے قدرتی حسن کو چارچند لگادیئے، درخت برف کی نرم، سفید، چمکتی ہوئی چادر اوڑھ کی الگ ہی روپ میں نظر آئے۔ مسلسل 4 روز تک آسمان میں گرتے روئی کے گالوں نے سر نگر جموں نیشنل ہائی وے پر ٹریفک کی روانی کو بھی متاثر کیا اور وادی میں ہوائی ٹریفک کو بھی بند کردیا گیا۔ کشمیر کے تاج میں نگینہ قرار دی جانے والی دَل جھیل بھی سردی کی شدت کے باعث کئی مقامات پر منجمد ہوتی دیکھی دی۔
↧
کرپشن کے ملکی معیشت پر اثرات
↧
وادی چترال میں برف باری کے خوبصورت مناظر
چترال میں بارش جبکہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بالائی علاقوں میں برف باری ہوئی جس کے باعث چترال سردی کی شدید لپیٹ میں ہے۔ شدید برف باری کے باعث چترال کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والا واحد زمینی راستہ لواری ٹاپ ہر قسم ٹریفک کیلئے بند ہوا ہے جبکہ چترال سے پشاور جانے والے اور پشاور سے چترال آنے والے سینکڑوں مسافر گاڑیوں کو لواری ٹنل کے سامنے کئی گھنٹوں تک انتظار کرنا پڑا۔
↧
راحیل شریف کی سعودی عرب میں تعیناتی کی تین شرائط
سعودی اتحاد کی کمان سابق آرمی چیف راحیل شریف نے تین شرائط پر سنبھالنے
کی حامی بھری جبکہ سعودی عہدیداروں سے ملاقات میں وزیراعظم نوازشریف نے بھی آمادگی ظاہر کرتے ہوئے راحیل شریف کی تعیناتی کو پاکستان کیلئے اعزاز قرار دیا۔ جنرل (ر) امجد شعیب کا کہنا تھا کہ سعودی حکام نے وزیراعظم نواز شریف سے بات کی تھی کہ جنرل راحیل شریف کو اسلامی فوجی اتحاد کا سربراہ بنایا جائے جس کی انہوں نے اجازت دی تھی ۔ اُنہوں نے کہا کہ راحیل شریف نے اسلامی فوجی اتحاد کا سربراہ بننے کیلئے سعودی عرب کے سامنے 3 شرائط رکھی تھیں، پہلی شرط، ایران کو فوجی اتحاد میں شامل کیا جائے، چاہے وہ مبصر کی حیثیت سے ہی ہو، دوسری شرط یہ تھی کہ راحیل شریف کسی کی کمان میں کام نہیں کریں گے، ایسا نہ ہو کہ اصل سربراہی کسی سعودی کمانڈر کے پاس ہو اور انہیں اس کے نیچے کام کرنا پڑے۔ تیسری شرط یہ تھی کہ انہیں مسلم ممالک میں ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے صلح کار کے طور پر کام کرنے کی اجازت ہونی چاہئے، بوقت ضرورت وہ مسلم دنیا میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ راحیل شریف سے رابطہ ہوا اور یہ سب کچھ راحیل شریف نے ہی بتایا۔
کی حامی بھری جبکہ سعودی عہدیداروں سے ملاقات میں وزیراعظم نوازشریف نے بھی آمادگی ظاہر کرتے ہوئے راحیل شریف کی تعیناتی کو پاکستان کیلئے اعزاز قرار دیا۔ جنرل (ر) امجد شعیب کا کہنا تھا کہ سعودی حکام نے وزیراعظم نواز شریف سے بات کی تھی کہ جنرل راحیل شریف کو اسلامی فوجی اتحاد کا سربراہ بنایا جائے جس کی انہوں نے اجازت دی تھی ۔
↧
↧
منفی 10 درجہ حرارت میں ہنہ جھیل جم گئی
↧
فوجی عدالتیں مستقل حل نہیں
↧
بیشتر پاکستانی امریکہ کے بجائے چین سے بہتر تعلقات کے خواہاں
↧