Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4341 articles
Browse latest View live

اس بار ضمیر کا ریٹ کیا تھا؟

$
0
0

میں نے شاہ جی سے پوچھا کہ شاہ جی! یہ ضمیر کیا چیز ہے؟ شاہ جی ہنسے اور کہنے لگے: یہ موم کی ناک ہے جیسے چاہو گھما لو اور جیسے چاہے بنا لو‘ لیکن تمہیں اچانک اس بات کا خیال کیسے آیا ہے؟ میں نے کہا: شاہ جی! دراصل مجھے ملکی سیاست میں ضمیر کی حرکتوں نے تنگ و پریشان کر رکھا ہے۔ شاہ جی ایکدم سے پریشان ہو کر کہنے لگے خیر تو ہے؟ میں نے کہا: شاہ جی! میری تو خیر ہے مجھے تو پریشانی اس بات کی ہے کہ حقیقت میں ضمیر ہے کیا چیز؟ خصوصاً ہماری سیاست میں ضمیر نے یہ کیا گھڑمس مچا رکھا ہے؟ ضمیر اور بریف کیس میں کیا فرق ہے اور ان کے درمیان حد فاضل کہاں قائم ہوتی ہے؟ شاہ جی کہنے لگے: تمہارا سوال غیر واضح ہے براہ کرم پہلے اپنے سوال کی کھل کر وضاحت کرو۔ میں نے کہا: شاہ جی! دور کیوں جائیں؟ صرف سینیٹ الیکشن کو دیکھ لیں۔ حکومت کو سادہ عددی اکثریت کے باوجود قومی اسمبلی سے اپنے امیدوار کے لیے سولہ ووٹ کم ملے ہیں اور وہ ہار گیا ہے جبکہ قومی اسمبلی میں حکومت کے مقابلے میں کم ارکان کی حامل پی ڈی ایم کی پارٹیوں کو ان کی گنتی سے زیادہ ووٹ ملے ہیں اور ان کا امیدوار جیت گیا ہے۔ 

شاہ جی نے قطع کلامی کرتے ہوئے مجھ سے کہا کہ ممکن ہے پی ڈی ایم کا امیدوار تحریک انصاف کے امیدوار سے بہتر ہو؟ یقین کریں شاہ جی کی اس بات پر میری تو ہنسی چھوٹ گئی۔ میں نے کہا: شاہ جی! قبلہ نہ تو آپ اتنے بھولے اور لاعلم ہیں کہ دونوں امیدواروں کے بارے میں نہ جانتے ہوں اور نہ ہی ان امیدواروں کے درمیان کوئی میرٹ کا مسئلہ درپیش تھا۔ دونوں کی خوبیاں سب پر عیاں تھیں۔ سید یوسف رضا گیلانی کے اوپر ان کی وزارت عظمیٰ کے دوران کرپشن کی کہانیاں زبان زدعام تھیں۔ لوگ ان کو ایم بی بی ایس کے نام سے یاد کرتے تھے۔ شاہ جی نے حیران ہو کر پوچھا: واقعی؟ میں نے سنی ان سنی کر دی۔ مجھے علم تھا کہ شاہ جی حسب معمول کھچرے پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ میں نے کہا: ان کے ایک بیٹے پر ایفیڈرین کا کوٹہ جاری کروانے اور اس میں مال پانی کمانے کا الزام ہے‘ دوسرے بیٹے کا نام حج سیکنڈل میں تھا۔ ان کے باقی معاملات پر چار حرف بھیجیں‘ لیکن ترک خاتون اول کا ہار تو بصد مشکل ان سے برآمد کروایا گیا‘ اب بھلا مال مسروقہ کی ان کے گھر سے برآمدگی کے بعد جرم میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے‘ لیکن خود اعتمادی کی حد دیکھیں کہ وہ ارکان اسمبلی سے میرٹ، کارکردگی اور ایمان داری کی بنیاد پر ووٹ مانگ رہے تھے۔

دوسری طرف ہر بار آئی ایم ایف کے نمائندے کے طور پر عالمی استعمار کے تحصیل دار کے طور پر پاکستانی سیاست میں پیرا شوٹ کے ذریعے اترنے والے ڈاکٹر حفیظ شیخ تھے‘ یعنی نتھو سنگھ اینڈ پریم سنگھ، ون اینڈ دی سیم تھنگ والی بات تھی؛ تاہم دونوں فریقوں کا ضمیر کے بارے میں موقف بڑا مزیدار ہے۔ پی ڈی ایم کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ حکومتی ارکان نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہمارے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیا۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے امیدوار کو ووٹ دینے سے منحرف ان سولہ ارکان نے ضمیر کی کس آواز پر سید یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیئے یا ان کے برخوردار کی ہدایات کی روشنی میں اپنے ووٹ ضائع کیے‘ اور کون سے ضمیر کی آواز پر چار دن بعد انہی سولہ ارکان نے عمران خان کو اعتماد کا ووٹ دے دیا؟ خوردبین سے جائزہ لینے کے باوجود مجھے ایسی کوئی ایک بھی معقول وجہ نظر نہیں آئی جو ان سولہ اراکین قومی اسمبلی کے ضمیر کو جگا کر یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینے پر مائل کر سکتی۔ 

حقیقت یہ ہے کہ اگر ضمیر کو مدِ نظر رکھ کر ووٹ ڈالے جاتے تو گیلانی صاحب کی تو ضمانت ضبط ہو جاتی، اس لئے مجھے ذاتی طور پر ان سولہ ووٹوں کے ضمیر کے بارے میں یہ کہتے ہوئے کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی کہ یہ قابل خرید قسم کا ضمیر تھا جو خفیہ ووٹنگ میں جاگ پڑا اور حکومت کے مخالف امیدوار کو پڑ گیا اور محض تین دن بعد ہی ان کے ضمیر کی ایک بار پھر آنکھ کھل گئی اور وہ قومی اسمبلی میں جا کر عمران خان کے حق میں اپنا ووٹ ڈال آئے۔ اس خفیہ ووٹنگ کے حق میں بھی بہت سے دلائل دیئے جا سکتے ہیں اور مخالفت میں بھی۔ ہر دو طریقہ ہائے کار میں اچھی اور خراب روایات بھی موجود ہیں اور امکانات بھی؛ تاہم میرے خیال میں اس آمریت بھرے جمہوری نظام میں جہاں کوئی بندہ اپنی مرضی سے بات کر کے ذلیل و خوار ہو جائے اور جہاں جمہوریت کے نام لیوا پارٹی لیڈرز اپنے ارکان اسمبلی کو زر خرید نوکروں اور مزارعوں سے زیادہ اہمیت نہ دیتے ہوں‘ اوپر سے میاں نواز شریف کے دور کی فلور کراسنگ والی آئینی ترمیم ان کو اپنی مرضی استعمال کرنے سے روک دے وہاں ارکان اسمبلی کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں رہ جاتا کہ وہ خفیہ ووٹ میں اپنے پارٹی لیڈرز کو اپنے عدم اطمینان کا پیغام دے سکیں۔

جس ملک کی جمہوری سیاست میں بڑے نام والا تجربہ کار، پرانا اور نمایاں لیڈر اپنی گود میں کھلائے ہوئے پارٹی لیڈر کے سامنے تابعداری کا مظاہرہ کرنے پر مجبور نظر آئے‘ جہاں ایک نیک نام، معقول اور سینئر رہنما زندگی میں پہلی بار عوامی جلسے کے ذریعے سیاست میں اپنی انٹری ڈالنے والی نوعمر سے سیاست سیکھنے کی خواہش کا اظہار کرے‘ جہاں تیسرے بڑے آئینی عہدے پر فائز رہنے والا سینئر سیاستدان اپنے سے دسواں حصہ سیاسی زندگی والے رہنماؤں کے لئے دروازہ کھول کر مؤدب کھڑا ہو اور اخبار نویسوں کو اپنے نام کے ساتھ ''سردار‘‘ کا لقب نہ پکارنے پر گرم ہو جانے والا سینئر سیاستدان اپنے بیٹوں کے ہم عمر کے سامنے ہاتھ باندھ کر مؤدب کھڑا ہو بھلا وہاں کس کی جرأت ہے کہ وہ اپنے پارٹی لیڈر کی پالیسیوں سے کھل کر اختلاف کر سکے؟ سینیٹ میں شو آف ہینڈز اور سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے انتخاب کی صورتوں میں ایک فرق تو صاف نظر آتا ہے کہ اگر شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخاب ہو تو امیدوار سارا پیسہ ٹکٹ کے خریدنے پر لگائے گا اور ظاہر ہے یہ پیسہ ٹکٹ دینے والا وصول کرے گا اور سیکرٹ بیلٹ کی صورت میں امیدوار اپنے ووٹ خریدنے کے لئے خرچہ کرے گا۔ 

اگر ووٹروں کے حساب سے دیکھا جائے تو سیکرٹ بیلٹ بہترین طریقہ ہے جس میں ووٹر کی یعنی ارکان اسمبلی کی جیب گرم ہوتی ہے۔ اگر پارٹی لیڈر اور امیدوار سے پوچھا جائے تو شو آف ہینڈز بہترین طریقہ انتخاب ہے کہ اس میں سارا معاملہ صرف دو لوگوں کے درمیان طے ہو جائے گا اور ٹکٹ دینے والا بھی خوش ہو گا اور ٹکٹ لینے والا بھی کہ ایسی صورت میں ایک شخص سے معاملات طے کر کے وہ بے فکر جائے گا اور خرچہ بھی مقابلتاً بہت کم ہو گا۔ سینیٹ کی ٹکٹوں کی اکثریت پہلے بھی ارب پتی لوگوں کو ملتی تھی اور آئندہ بھی انہی کو ملتی رہے گی۔ تاج حیدر ٹائپ لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہے گی۔ لوٹا بننے والے سولہ ارکان اسمبلی قومی اسمبلی کے بارے میں لوگ اپنی اپنی جگہ پر اندازے لگا رہے ہیں مگر یہ صرف اندازے ہیں؛ تاہم یہ بات لازمی نہیں کہ سب نے پیسے ہی پکڑے ہوں۔ ممکن ہے کہ منہ پر بات نہ کر سکنے والے ہمت سے عاری ایک دو ارکان اسمبلی نے مؤرخہ تین مارچ کو یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دے کر اپنے دل کے پھپھولے پھوڑے ہوں؛ تاہم بقول ہمارے دوست خان صاحب کے، ووٹ ضائع کرنے والوں کا ریٹ تھوڑا کم تھا اور ووٹ بیچنے والوں کا ریٹ بھی زیادہ تھا اور آئندہ الیکشن میں ٹکٹ کا وعدہ بھی تھا۔ اس بار ضمیر کا ریٹ اڑھائی سے پانچ کروڑ روپے تھا۔

خالد مسعود خان

بشکریہ دنیا نیوز


عالمی وبا : لاک ڈائون حل نہیں ہے

$
0
0

بھارت میں کورونا کی وبا آج کل ایسی بھیانک شکل اختیار کر رہی ہے کہ اس نے پورے ملک میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔ پاک بھارت جنگوں کے وقت اتنا خوف نہیں تھا، جتنا آج کل ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم مودی کو قوم سے خطاب کرنا پڑا اور بتانا پڑا کہ حکومت اس وبا سے لڑنے کے لیے کیا کر رہی ہے۔ آکسیجن، انجکشن، بیڈ، دوائیوں کی کمی کو کیسے دور کیا جائے؟ اپوزیشن رہنمائوں نے حکومت پر غفلت اور لاپروائی کا الزام عائد کیا ہے‘ لیکن انہی قائدین کو کورونا نے پکڑ لیا ہے۔ کورونا کسی بھی ذات، حیثیت، مذہب، صوبے وغیرہ سے امتیازی سلوک نہیں کر رہا ہے۔ سب ویکسین کیلئے دوڑ لگا رہے ہیں۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے فوج سے اپیل کی ہے کہ وہ متاثرہ لوگوں کی مدد کریں۔ یہاں بڑا سوال یہ ہے کہ یہ وبا ہر روز لاکھوں نئے لوگوں میں کیوں پھیل رہی ہے اور اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ لوگوں میں بے احتیاطی بہت بڑھ گئی تھی۔ دہلی، ممبئی، کلکتہ، پونے جیسے شہروں کے علاوہ، چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں ماسک پہنے بغیر لوگ گھومتے ہوئے نظر آئے۔ 

شادیوں، ماتمی جلسوں اور کانفرنسوں میں ایک بہت بڑا ہجوم نظر آیا۔ بازاروں میں، لوگ ایک دوسرے کے قریب چلتے رہے۔ یہاں تک کہ ٹرینوں اور بسوں میں بھی لوگ جسمانی فاصلہ برقرار رکھنے اور منہ چھپانے میں عدم توجہی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ ایسے حالات میں پھر یہ کورونا کیوں نہیں پھیلے گا؟ شہروں سے دیہاتوں میں فرار ہونے والے لوگ اپنے ساتھ کورونا کے جراثیم بھی لے کر جا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں، ہم ہر روز لاکھوں لوگوں کیلئے ہسپتالوں میں جگہ کیسے تلاش کر سکتے ہیں؟ حکومت نے یقینی طور پر نرمی کی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ کورونا کا دوسرا حملہ اتنا خوفناک ہو سکتا ہے۔ وہ اس نئے حملے کا مقابلہ کرنے کیلئے پوری کوشش کر رہی ہے۔ کچھ صوبائی حکومتیں ایک بار پھر لاک ڈائون کا اعلان کر رہی ہیں، جبکہ کچھ نائٹ کرفیو نافذ کر رہی ہیں۔ وہ خوفزدہ ہیں۔ ان کے ارادے نیک ہیں، لیکن کیا وہ نہیں جانتے کہ بیروزگار لوگ بھوک سے مر جائیں گے، معیشت تباہ ہو جائے گی اور بحران دوگنا ہو جائے گا۔ بھارتی سپریم کورٹ اور وزیر اعظم نریندر مودی نے مکمل لاک ڈائون کو غیر ضروری قرار دیا ہے۔ ابھی، سب سے اہم بات یہ ہے کہ لوگ منہ پر ماسک لگائے رکھیں، جسمانی فاصلہ رکھیں اور اپنے روزمرہ کے تمام کام کرتے رہیں۔ یہ ضروری ہے کہ لوگ خوفزدہ نہ ہوں۔ کورونا ان لوگوں کو ہوا ہے جو مندرجہ بالا احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کر سکے ہیں۔

بھارت کی سکڑتی ہوئی مڈل کلاس
کورونا وبا کے دوسرے حملے کا اثر اتنا شدید ہے کہ لاکھوں مزدور ایک بار پھر اپنے گائوں بھاگنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرنے والوں اور منشیات فروشوں کے سوا تمام تاجر پریشان ہیں۔ ان کے کاروبار تباہ ہو رہے ہیں۔ اس دور میں، صرف لیڈر اور ڈاکٹر زیادہ مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ دوسرے تمام شعبوں میں سُستی کا ماحول ہے۔ گزشتہ سال، تقریبا 10 ملین افراد بیروزگار ہوئے تھے۔ اس وقت حکومت نے غریبوں کی کھانے پینے کی اشیا کے حوالے سے مدد ضرور کی، لیکن یورپی حکومتوں کی طرح اس نے بھی خود عام آدمی کی 80 فیصد آمدنی کا بوجھ نہیں اٹھایا۔ اب ورلڈ بینک کے اعدادوشمار کی بنیاد پر، پیو ریسرچ سنٹر کا کہنا ہے کہ اس وبا کی وجہ سے بھارت کی معیشت اس قدر گر چکی ہے کہ اس کے غریبوں کا تو کیا، جسے ہم مڈل کلاس کہتے ہیں، اس کی تعداد بھی 10 کروڑ سے کم ہو کر 7 کروڑ رہ گئی ہے یعنی درمیانی طبقے سے 3 ملین افراد غریبی کی سطح پر آ چکے ہیں۔ متوسط طبقے کے خاندانوں کے یومیہ اخراجات 750 سے 3750 روپے تک ہوتے ہیں۔ 

یہ اعدادوشمار خود ہی کافی مایوس کن ہیں۔ اگر ہندوستان کا متوسط طبقہ 10 کروڑ ہے تو غریب طبقہ کتنے کروڑ ہو گا؟ اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ اعلیٰ متوسط طبقے اور اعلیٰ آمدنی والے گروپ میں 5 کروڑ افراد یا اس سے بھی زیادہ 10 کروڑ لوگ ہیں تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ کیا یہ نہیں ہے کہ بھارت کے 100 کروڑ سے زیادہ لوگ غریب طبقے میں آگئے ہیں؟ ہندوستان میں انکم ٹیکس جمع کرنے والے کتنے لوگ ہیں؟ پانچ چھ کروڑ بھی نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 1.25 بلین افراد کے پاس کھانے، لباس، رہائش، تعلیم، دوا اور تفریح کے کم سے کم وسائل بھی موجود نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آزادی کے بعد بھارت نے کوئی پیشرفت نہیں کی۔ اس نے ترقی کی ہے لیکن اس کی رفتار بہت سست رہی ہے اور اس کا فائدہ بہت کم لوگوں تک محدود رہا ہے۔ چین بھارت سے بہت پیچھے تھا لیکن اس کی معیشت آج ہندوستان سے پانچ گنا بڑی ہے۔ وہ کورونا پھیلانے کے لئے پوری دنیا میں بدنام ہوا ہے، لیکن اس کی معاشی ترقی اس دور میں بھی بھارت کی نسبت زیادہ ہے۔ وہ دوسری سپر پاورز کے مقابلے میں کورونا کو کنٹرول کرنے میں زیادہ کامیاب ہے۔بھارت کی بدقسمتی یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے کے باوجود، وہ اب بھی ذہنی طور پر انگریزوں کا غلام ہی ہے۔ اس کی زبان، اس کی تعلیم، اس کی دوائی، اس کا قانون، اس کا طرز زندگی حتیٰ کہ اس کا نقلچی پن بھی آج تک زندہ ہے۔ خود انحصاری کی عدم موجودگی میں، بھارت نہ تو کورونا کی وبا کا شدت سے مقابلہ کر پا رہا ہے اور نہ ہی یہ ایک بڑی طاقت بننے کے قابل ہے۔

بھارت روس تعلقات
روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف اور بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے مابین پچھلے دنوں ہونے والی گفتگو کے اقتباسات شائع ہو چکے ہیں اور اگر آپ نے ان کی پریس کانفرنس میں ان دونوں کی باتوں کا گہرائی سے جا ئزہ لیا ہو گا تو بھارتیوں کو کچھ خوشی ہوئی ہو گی لیکن وہ غمزدہ ہوئے بغیر بھی نہیں رہ سکے ہوں گے۔ بھارتی لوگ اس بات پر خوش ہو سکتے ہیں کہ بھارت روس سے ایس 400 میزائل خرید رہا ہے اور یہ خریداری امریکی پابندیوں کے باوجود جاری رہے گی۔ روس بھارت سے ساڑھے سات لاکھ کورونا ویکسین خریدے گا۔ اگرچہ بھارت نے روسی ہتھیاروں کی خریداری میں تقریباً 33 فیصد کی کمی کر دی ہے، لیکن لاوروف نے یقین دہانی کرائی ہے کہ روس اب جدید اسلحہ سازی میں بھارت کے ساتھ مکمل تعاون کرے گا۔ لاوروف نے ہند روس سٹریٹیجک اور تجارتی تعاون بڑھانے کا اشارہ بھی دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ بھارت کسی بھی ملک کے ساتھ اپنے تعلقات بند کرنے کیلئے آزاد ہے۔ یہاں اس کا اشارہ شاید بھارت اور امریکہ کی بڑھتی ہوئی قربت کی طرف تھا، لیکن اس نے بہت سی باتیں بھی کہی ہیں، جن پر تھوڑا سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔ 

وہ دن گزر گئے جب بھارت روس تعلقات کو آہنی دوستی کہا جاتا تھا۔ نئی دہلی میں پریس کانفرنس ختم ہوتے ہی لاوروف اسلام آباد پہنچ گئے۔ بھارت کے بارے میں روس کا رویہ ویسا ہی ہو گیا ہے، جیسا کبھی امریکہ کا تھا۔ وہ اسلام آباد کیوں گئے؟ کیونکہ وہ افغانستان کے بحران کو حل کرنے میں مصروف ہیں۔ سوویت روس ہی اس تکلیف کا باعث بنا تھا اور وہی اس کی دوا تلاش کر رہا ہے۔ لاوروف نے واضح طور پر کہا کہ طالبان کے ساتھ سمجھوتہ کیے بغیر افغان بحران حل نہیں ہو سکتا۔ لاوروف نے طالبان کے ساتھ روسی تعلقات پر اصرار کیا۔ انہوں نے 'انڈو پیسیفک‘ کے بجائے 'ایشیا پیسیفک‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ انہوں نے امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلوی چوکڑی کو 'ایشین نیٹو‘ بھی کہا۔ روس، چین اور پاکستان کے ساتھ مل کر اب امریکی تسلط کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے لیکن یہ بہتر ہو گا کہ بھارت کسی دھڑے کا پچھ لگو نہ بنے۔ جے شنکر نے اس نکتے کو واضح کیا ہے۔

ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک  

بشکریہ دنیا نیوز
 

اشرافیہ پاکستان کو کھا گئی

$
0
0

ویسے تو پاکستان کو بہت سی بیماریوں کا سامنا ہے اور جس طرف دیکھیں مایوسی ہی مایوسی ہے۔ اخبارات پڑھیں یا ٹی وی کھولیں تو کم ہی اچھی خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں لیکن جنگ اخبار میں صحافی رفیق مانگٹ کی ایک خبر شائع ہوئی جو ہمارے ایک ایسے مرض کے متعلق ہے جس کی وجہ سے پاکستان اور اس ملک کا غریب طبقہ دونوں شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ عالمی ادارے (UNDP) کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوے خبر میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت کے 26 کھرب 60 ارب روپے (17.4 ارب ڈالر) اشرافیہ کی مراعات پر خرچ ہوتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر، جاگیردار، سیاسی طبقہ اور اسٹیبلشمنٹ سمیت پاکستان کی اشرافیہ کو دی جانے والی معاشی مراعات ملکی معیشت کا چھ فیصد ہیں جو تقریباً 17.4 ارب ڈالر (2,659,590,000,000روپے) بنتے ہیں۔

خبر کے مطابق گزشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کے تحت نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ (NHDR) جاری کی گئی جس میں 22 کروڑ نفوس کے ملک پاکستان میں عدم مساوات کے معاملات پر توجہ مرکوز کی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طاقتور طبقہ اپنے منصفانہ حصے سے زیادہ کے لئے اپنا استحقاق استعمال کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مراعات سے سب سے زیادہ فائدہ کارپوریٹ سیکٹر اُٹھاتا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق اس نے سات کھرب 18 ارب روپے (4.7 ارب ڈالر) کی مراعات حاصل کی ہیں۔ دوسرے اور تیسرے نمبر پر مراعات حاصل کرنے والا ملک کا ایک فیصد امیر ترین طبقہ ہے جو ملک کی مجموعی آمدن کا نو فیصد مالک ہے، جاگیر دار اور بڑے زمیندار جو آبادی کے 1.1 پر مشتمل ہیں لیکن ملک کی 22 فیصد قابلِ کاشت زمین کے مالک ہیں۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں جنوبی ایشیاء میں پاکستان آخر سے دوسرے نمبر پر ہے۔ پہلے پر افغانستان ہے۔ خبر کے مطابق اس رپورٹ کے نتائج پر تبادلۂ خیال کے لئے، یو این ڈی پی کی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اور علاقائی چیف، کنی وگینا راجا دو ہفتوں کے ورچوئل ٹور پر ہیں، انہوں نے وزیراعظم عمران خان اور وزراء سمیت ان کی کابینہ کے دیگر اراکین جن میں امور خارجہ اور منصوبہ بندی کے وزرا شامل ہیں، سے اس رپورٹ کی فائنڈنگ پر بات چیت کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پاکستانی رہنماؤں نے اس رپورٹ کو سنجیدگی سے لیا ہے اور اِس حوالے سے کارروائی کرنے کا عہد کیا ہے۔ بہت اچھی بات ہے اگر موجودہ حکومت اس بیماری کو دور کرنے کے لئے کچھ اقدامات اُٹھا سکے لیکن جو اشرافیہ پاکستان اور غریب عوام کا خون چوس رہی ہے، وہ تو اُس چینی اور آٹا مافیا سے بہت مضبوط ہے جسے قابو کرنے میں حکومت ناکام رہی۔ حکومت تو گزشتہ ایک دو دن سے ملک بھر میں ہونے والے احتجاج کے سامنے بھی بےبس نظر آئی جس کی وجہ سے شہر شہر بلاک ہوئے، خون خرابہ ہوا، جانیں ضائع ہوئیں، توڑ پھوڑ ہوئی، نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر دلی تکلیف ہوتی ہے لیکن کوئی حل نظر نہیں آتا۔

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ

 
 

تعلیمی اداروں کا بگڑتا ماحول

$
0
0

لاہور کی ایک یونیورسٹی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو ہالی وڈ اور بالی وڈ کے ذریعے پھیلائے جانے والے کلچر کا شاخانہ تھا اور جس کا اپنے حالیہ انٹرویوز میں وزیراعظم عمران خان نے بار بار ذکر کیا۔ واقعہ جس کی وڈیو اور تصاویر سوشل میڈیا پر جاری ہوئیں کچھ یوں ہے کہ مغربی لباس میں زیب تن ایک طالبہ ہاتھ میں پھولوں کا گلدستہ تھامے گھٹنوں کے بل ایک لڑکے کے سامنے بیٹھ کر اُسے وہ گلدستہ پیش کرتی ہے جس کا مقصد اُس بچی کی طرف سے لڑکے کو Propose کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی لڑکا لڑکی کو کھڑا کرتا ہے اور دونوں گلے لگ جاتے ہیں اور یہ سین یونیورسٹی میں موجود درجنوں دوسرے طلباء و طالبات کے درمیان فلموں کی طرز میں موبائل کیمروں میں فلمایا بھی گیا۔ اچھا ہوا کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ایکشن لیتے ہوئے دونوں کو یونیورسٹی سے نکال دیا۔ یہ واقعہ ہماری حکومت، ہمارے معاشرے، ماں باپ اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی بند آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہئے۔ 

یہ خطرے کی وہ گھنٹی ہے جسے اگر مزید Ignore کیا گیا تو ہماری رہی سہی معاشرتی اور مذہبی اقدار کو مکمل طور پر تباہ کر دیا جائے گا اور ہمیں اُس گندگی کی طرف دھکیل دیا جائے گا جس کا شکار آج کل مغربی معاشرہ بن چکا اور جس کی نقالی میں بھارت بھی آگے نکل چکا۔ اسکول، کالج، یونیورسٹیوں میں بچے بچیاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں لیکن جس تیزی سے بالخصوص پرائیویٹ اسکولوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کا ماحول مغربی کلچر سے مرعوب ہو کر آزاد خیالی کی طرف جا رہا ہے وہ اِن اداروں میں زیر تعلیم بچوں کے علاوہ پورے معاشرے کے لئے بہت خطرناک ہے جس کے تدارک کے لئے فوری اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔ اِس بگڑتے ماحول کو دیکھ کر تو بڑی تعداد میں والدین اِس فکر میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے بچے بچیوں کو ایسے تعلیمی اداروں میں بھیجیں بھی کہ نہیں؟ تعلیمی ادارے بچوں کی تربیت کی بجائے اگر شرم و حیا کو تار تار کرنے اور مغربی کلچر کو پھیلانے کا سبب بن جائیں تو پھر ایسی تعلیم معاشرے کی تباہی کی وجہ بن جاتی ہے۔ 

ایک اسلامی ملک میں اصولاً تو لڑکے لڑکیوں کے لئے تعلیمی ادارے علیحدہ علیحدہ ہونے چاہئیں لیکن اگر کسی مجبوری کی بنیاد پر ہر جگہ ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو یہ حکومت اور تعلیم اداروں کی انتظامیہ کی ذمہ داری ہونی چاہئے کہ ایسے ماحول کی فراہمی کو یقینی بنائیں جہاں بچے اپنی تعلیم پر توجہ دیں نہ کہ تعلیمی اداروں کو ہالی وڈ اور بالی وڈ کے کلچر کے پھیلاؤ کا ذریعہ بنائیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں کو فیشن کا گھر نہ بنایا جائے۔ بچوں بچیوں دونوں کے لئے اپنے معاشرتی و دینی اقدار کے مطابق مہذب لباس پہننے کو لازمی قرار دیا جائے اور اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ تعلیمی اداروں میں کسی قسم کی نازیبا حرکت کو برداشت کرنے کے متعلق زیرو ٹالرنس ہو۔ حال ہی میں گورنر خیبر پختون خوا کی طرف سے صوبہ کی کچھ اہم جامعات میں لڑکے لڑکیوں کے لئے مخصوص یونیفارم کا لازمی کیا جانا ایک احسن اقدام ہے۔ تمام وفاقی و صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ پبلک اور پرائیویٹ دونوں قسم کی جامعات کے ماحول کو اپنے دینی اور معاشرتی اقدار کے مطابق سختی سے Discipline کرنے کے لئے ضروری ہدایات جاری کریں تاکہ جو تماشا ہم نے لاہور کی یونیورسٹی میں دیکھا وہ کہیں معمول نہ بن جائے۔

مغربی کلچر پھیلانے والوں کی سختی سے حوصلی شکنی کرنی چاہئے اور اس میں ریاست کا کردار بہت اہم ہے لیکن افسوس کہ وزیراعظم عمران خان کا بار بار اسلام اور ریاستِ مدینہ کی بات کرنے کے باوجود اُن کی ان باتوں اور وعدوں کا عملی طور پر کوئی عکس نظر نہیں آتا۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ آئینِ پاکستان کے مطابق وہ معاشرے میں ایسا ماحول پیدا کرے جو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو۔ اس آئین کے ہم سب پابند ہیں۔ میڈیا ہو، سیاسی جماعتیں ہوں، حکومت ہو، پارلیمنٹ ہو، عدلیہ ہو یا کوئی اور ریاستی ادارہ ہو، سب کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنائے نہ کہ اس کے خلاف کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں۔

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ

کیونکہ وائرس ووٹر نہیں ہوتا

$
0
0

ایک ایسے وقت جب بھارت کوویڈ متاثرین کی شکل میں امریکا اور برازیل جیسے سب سے زیادہ متاثر ممالک کو بہت پیچھے چھوڑ گیا ہے، خود نریندر مودی کو اپنے ماہانہ ریڈیو خطاب میں اعتراف کرنا پڑ گیا ہے کہ یہ وہ بحران ہے جس نے بھارت کو ہلا ڈالا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے دنیا سے ہنگامی مدد کی اپیل کی ہے۔ امریکا ، جرمنی اور فرانس نے مہارت اور آلات کی شکل میں فوری مدد پہنچانے کی حامی بھری ہے۔ مگر مصیبت کی اس گھڑی میں بھی کوویڈ تعصبات کو ہلاک کرنے میں ناکام ہے۔ عالمی طاقتوں میں سب سے پہلے چین نے گزشتہ ہفتے اپنے سب سے بڑے ہمسائے کی اپیل سے بھی پہلے مدد کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کھلے الفاظ میں کہا کہ ہم حکومتِ بھارت کی اس کڑے وقت میں ہر طرح کی مدد کے لیے تیار ہیں۔ پاکستانی کی فلاحی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن اور پھر حکومتِ پاکستان نے مدد کی پیش کش کی مگر تاحال مودی حکومت نے شکریہ تو درکنار پاکستان اور بھارت کی جانب سے مدد کی پیش کش کا رسمی شکریہ تک ادا کرنا گوارا نہیں کیا۔

ایک ایسے وقت جب بھارت کی دردناک تصاویر عالمی میڈیا پر چھائی ہوئی ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ مودی حکومت کو اس بحران سے تیزی سے نمٹنے کے بجائے اپنے امیج کی کہیں فکر پڑی ہوئی ہے۔ آج بھی اسے اتنی فرصت ہے کہ اس نے ٹویٹر کو کوویڈ سے متعلق سرکاری حکمتِ عملی پر تنقید کرنے والے ایک سو اکاؤنٹس کو بند کرنے کے لیے قانونی نوٹس بھجوایا ہے۔ بجائے یہ کہ آر ایس ایس اپنے تیس لاکھ سے زائد کارسیوکوں ( رضا کاروں ) کو آکسیجن کی فراہمی کی پہرے داری اور لوگوں کی شہر شہر مدد کے لیے متحرک کرتی، اس کی قیادت کو یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ کہیں اس وبا کی سنگینی کی آڑ میں ملک کے اندرونی و بیرونی دشمن بھارت کو نقصان پہنچانے کے لیے کوئی کارروائی نہ کر ڈالیں۔ کل میں بھارت کے سرکردہ صحافی اور دی پرنٹ کے ایڈیٹر شیکھر گپتا کا ایک تجزیہ پڑھ رہا تھا۔ ان کے بقول ’’ ہم سب واقف ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ، جے بولسنارو ( برازیل کے صدر )، نیتن یاہو یا نریندر مودی جیسے طاقتور کہلانے کی شوقین شخصیات میں ایک بنیادی قدرِ مشترک یہ ہے کہ ان کی پوری توجہ اپنے ووٹ بینک کو یکجا رکھنے پر ہوتی ہے۔

مضبوط لیڈر کی آج کل ایک نشانی یہ بھی سمجھی جاتی ہے کہ وہ کبھی اپنی ناکامی یا چھوٹی سے چھوٹی کمزوری کا اعتراف نہیں کرتا، بھلے اس کے آس پاس کی دنیا اینٹ اینٹ بکھر رہی ہو۔ اس کے بارے میں تاثر ابھارا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی خطرے کے سامنے پلک نہیں جھپکتا۔ ووٹ بینک انھی خوبیوں کے سبب اپنے لیڈر پر لٹو رہتا ہے۔ ووٹ بینک تصور ہی نہیں کر سکتا کہ اس کے لیڈر کے منہ سے کبھی ایسے فقرے نکلیں گے جیسے ’’معافی چاہتا ہوں دوستو! میں اس صورتحال کو غلط سمجھا ‘‘۔غلطی کے اعتراف کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ بھی کسی دوسرے انسان کی طرح خطا کے پتلے ہیں۔ آپ بھی دیوتا یا اوتار نہیں ہیں۔ آپ سے تو ہماری ہمیشہ یہی توقع رہے گی کہ آپ مٹی کو بھی چھو لیں تو وہ سونا بن جائے۔ آپ کا ہر قدم ماسٹرا سٹروک ہو اور جس کام میں بھی ہاتھ ڈالیں اس میں کامیابی آپ کے پاؤں چھوتے ہوئے پیچھے پیچھے چلے۔

مگر گزشتہ ہفتے پہلی بار ایسا لگا کہ ’’ ناقابلِ تسخیر قیادت ’’کے بھی تھوڑے بہت ہاتھ پاؤں پھولے ہیں۔ سابق وزیرِ اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے اس آفت سے نپٹنے کے لیے ویکسینیشن میں تیزی لانے سمیت مودی جی کے نام اپنے خط میں جو بھی تجاویز دیں، لگتا ہے حکومت اعتراف کیے بغیر ان پر عمل درآمد کرنے پر خود کو مجبور پا رہی ہے۔ وزیرِ اعظم نے عین آخری دن بادلِ نخواستہ اعلان کیا کہ وہ مغربی بنگال کی انتخابی مہم میں آخری بڑے جلسے سے خطاب کرنے نہیں جا رہے۔مگر مودی بھگتوں کو اب بھی امید ہے کہ جیسے ہی مغربی بنگال کے ریاستی انتخابات میں اگلے ہفتے بی جے پی کی کامیابی کا گجر بجے گا، بھارت واسی کوویڈ شوویڈ بھول بھال کر پھر سے نریندر مودی بھائی کی شاندار شخصیت کے سحر میں مبتلا ہو جائیں گے اور اس کامیابی کے شور میں کوویڈ ہاتھ سے نکلنے کا غل غپاڑہ کہیں دب دبا جائے گا۔

مشکل یہ ہے کہ دنیا کے بہترین سائنسی دماغ آج بھی کوویڈ کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں کچھ دماغ ہیں جو بہت پہلے ہی معاملے کی تہہ تک پہنچ چکے ہیں۔ پر کیا کیا جائے کہ یہ کم بخت وائرس ووٹر نہیں ہوتا۔ نہ ہی اسے پرواہ ہے کہ کون ہارا کون جیتا۔ اسے انسانوں کی طرح تقسیم بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا کام تو سیاسی و مذہبی عقائد کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بس تکلیف، بیماری اور موت پھیلانا ہے۔ اس نے حال ہی میں امریکا ، برازیل اور برطانیہ جیسے ممالک کی قیادت کے حد سے زیادہ اعتماد کو بھی پارہ پارہ کر دیا اور اب بھارت کی باری ہے۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ہمارے لیڈر (مودی) نے جنوری میں ڈیوس میں ہونے والے عالمی اکنامک فورم کے اجلاس میں چھپن انچ کا سینہ پھلاتے ہوئے دنیا کو بتایا کہ ’’ جب کوویڈ شروع ہوا تو دنیا بھارت کے بارے میں پریشان ہونے لگی کہ کوویڈ کا سونامی ٹکرانے والا ہے۔

سات سو سے آٹھ سو ملین بھارتی اس سے متاثر ہوں گے اور بیس لاکھ سے زائد اموات ہوں گی۔ مگر بھارت نے نہ صرف ایسا ہونے نہیں دیا بلکہ دنیا کو بھی ایک بڑی تباہی سے بچا لیا۔ ہم نے اپنی صلاحیتوں کو بلا تاخیر بڑھایا۔ ملک میں دنیا کا سب سے بڑا ویکسینشن پروگرام شروع کیا۔ دو میڈ ان انڈیا ویکسینز تیار کی گئیں اور باقی تیاری کے مختلف مراحل میں ہیں۔ اور اب بھارت اس قابل ہے کہ وہ ان ویکسینز کی برآمد کے ذریعے باقی دنیا کی مدد کر سکے‘‘۔ پھر فروری میں بی جے پی کی ایگزیکٹو کے اجلاس میں ایک قرار داد کے ذریعے کوویڈ پر فتح کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’’ ہمیں فخر ہے بھارت نے نہ صرف نریندر مودی کی فعال اور ویژنری قیادت تلے کوویڈ کو شکست دی بلکہ ہر بھارتی کو یہ اعتماد بخشا کہ ایک خودکفیل بھارت کی تعمیر ممکن ہے۔ پارٹی بھارت کو دنیا کے سامنے کوویڈ کو شکست دینے والی قوم کے طور پر پیش کرنے پر اپنی قیادت کو بھرپور خراجِ تحسین پیش کرتی ہے‘‘۔

شکر ہے کہ اس قرار دار میں ایک عظیم الشان مہرابِ فتح تعمیر کرنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے اس لمحے کی یاد دلا دی جب نعرہ لگا تھا کہ ’’ اندرا ہی انڈیا ہے ‘‘۔ مگر مسئلہ پھر وہی ہے کوویڈ نہ صرف ناخواندہ ہے بلکہ اندھا اور بہرا بھی ہے۔ اسے تو بس یہی یاد رہتا ہے کہ کب غافلوں پر پہلے سے بڑا شبخون مارنا ہے۔ اسی دوران ہاروڈ یونیورسٹی کے ایک تحقیقی مقالے کا بھی ڈھنڈورا پیٹا گیا جس میں اتر پردیش میں کوویڈ کے حملے کو روکنے کے لیے وزیرِِ اعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ کی کوششوں کو سراہا گیا۔ فروری کے وسط میں پنجاب ، کیرالا اور مہاراشٹر کی حکومتوں نے مرکز سے درخواست کی کہ وبا کا تیسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے لہٰذا انھیں تیزی سے ویکسین فراہم کی جائے۔ مگر چونکہ ان تینوں ریاستوں میں حزبِ اختلاف کی حکومتیں تھیں لہٰذا مرکز نے ان کی اپیل کو شیر آیا شیر آیا والا واویلا سمجھ کر سنجیدگی سے نہیں لیا۔ آج کوویڈ ہر طرف سے ہر کسی کو کھا رہا ہے مگر مودی حکومت نے جنوری اور فروری میں آتے ہوئے طوفان کو دیکھنے کے بجائے عالمی اور مقامی سطح پر فتح کے جو لمبے لمبے دعوی کیے اب انھیں نگلے کیسے اور کیسے تسلیم کرے کہ ہم سے سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ وہ ذہن ہے جو کوویڈ سے بھی بڑی مصیبت ہے۔‘‘

وسعت اللہ خان 

بشکریہ ایکسپریس نیوز

وبا سے بچ جانے والوں کے پیغامات

$
0
0

برادر عزیز ۔ مجھے احساس ہے کہ آپ ابّا اور امّی کے انتقال پر کیوں نہیں آسکے۔ اس ظالم کورونا نے پوری دُنیا کو مفلوج کر رکھا ہے۔ ﷲ تعالیٰ کی رضا یہی تھی۔ یہ سب المیے اسی طرح رُونما ہونے تھے۔ آپ احتیاط کریں۔ بھابھی اور بچوں کا بھی پورا خیال رکھیں۔ انڈیا کی طرح اب کینیڈا میں بھی برا حال ہے۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمارے دنیا بھر میں مقبول ناول نگار ابّو اس طرح ہمیں اچانک چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ ان کے نامکمل ناول مجھے خون کے آنسو رُلارہے ہیں۔ ان کی جدائی مجھ اکیلے کے لیے تو بہت تکلیف دہ ہے۔ مجھے تو ابّو اور امّی کی طرح اپنے محسوسات قلمبند کرنا بھی نہیں آتے۔ یہ غم میرا مقدر تھا۔ دو روز بعد ہماری پیاری امّی بھی ابّو کے پاس چلی گئیں۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ مجھ اکیلے کا کیا ہو گا۔ مجھے کون سنبھالے گا۔ پورا گھر بھائیں بھائیں کر رہا ہے۔ ابّو کے دوست احباب دو تین روز آتے رہے۔ اب تو دروازے پر دستک ہی نہیں ہوتی۔ 

رشتے دار تو پہلے بھی کب پوچھتے تھے۔ سب کہتے تھے تمہارے ابّو بہت بڑے آدمی ہیں۔ ہماری کیا ضرورت ہے۔ ہمارے ابو یقیناً بڑے آدمی تھے۔ ان کے ناولوں کی دھوم تو پوری دنیا میں مچی ہوئی ہے۔ اخبارات میں ان کے بارے میں بہت اچھے مضامین آئے۔ بھائی۔ میں بہت اُداس ہوں۔ دل گرفتہ ہوں۔ بہت سے مراحل طے کرنے ہیں۔ بینک اکائونٹس کی تصدیق ۔ منتقلی ۔ مکان کے معاملات۔ کل میں نے ابّو کی ڈائری اچانک نکالی۔ ان کے ابتدائی حالات پڑھے۔ اب میں بہت پُر عزم ہوں۔ مجھے پوری امید ہے۔ اعتماد ہے۔ ﷲ تعالیٰ سب کچھ ٹھیک کر دے گا۔ میرے کالج کے دوست میرا حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔ آپ اپنا خیال رکھیں۔ وبا کا زور ٹوٹے تو پھر ہم مشورہ کر لیں گے کہ آپ اِدھر آئیں یا میں آپ کی طرف آئوں گا۔ آپ نے پوچھا ہے تو بتا رہا ہوں ورنہ میں نے یہاں کسی سے ذکر تک نہیں کیا۔ ابّو کے آخری لمحات بہت ہی کربناک تھے۔ پھیپھڑوں نے کام چھوڑ دیا تھا۔ پھر گردے ناکام ہونے لگے۔ مجھ سے تو یہ حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔ ﷲ کسی کو کورونا میں مبتلا نہ کرے۔ آپ کا بھائی احسن۔


میرے دوست۔ آج اس قابل ہوا ہوں کہ موبائل فون پکڑ سکوں۔ سب سے پہلے تمہیں ہی واٹس ایپ کر رہا ہوں۔ تمہارے فون چھوٹی ہوئی کالوں میں ہیں۔ کیسے فون سن سکتا تھا۔ میرے دونوں بیٹے۔ میرے بڑھاپے کے سہارے۔ میرے بازوئوں میں دم توڑ گئے۔ صرف 24 گھنٹوں کے وقفے میں۔ جانا تو مجھے ان کے کندھوں پر تھا لیکن مجھے انہیں کندھا دینا پڑا۔ وہ مجھے احتیاط کی تلقین کرتے رہے۔ میں بھی انہیں بہت سمجھاتا تھا لیکن ایک کے دفتر والے مجبور کرتے رہے اور دوسرے کے بازار والے۔ دنیا بھر میں واویلا مچا ہوا تھا لیکن ہمارے شہر میں تو گویا فکر ہی نہیں تھی۔ چھوٹے والا تو پھر بھی ماسک کبھی کبھی اوڑھ لیتا تھا۔ بڑے والا تو مان کے ہی نہیں دیتا تھا۔ مجھ سے تو ان کی ماں کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔ جس نے انہیں 9 ماہ تک پیٹ میں پالا۔ پھر گود میں کھلایا۔ کتنی منتوں مرادوں سے تو آئے تھے۔ مت پوچھو کہ ان کے آخری دن کیسے گزرے وہ لمحے میری تو آنکھوں میں اٹکے ہوئے ہیں۔ بس اور نہیں لکھا جاتا۔

ہیلو۔ السلام علیکم۔ بھائی معاف کرنا میں پیغام دے سکی نہ بات کر سکی۔ ان دو ہفتوں میں تو قیامتیں گزر گئیں۔ ہم تو سب ہی بہت ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے۔ کورونا کے حملے جاری تھے۔ میں تو روزانہ دفتر جارہی تھی۔ پھر یہ پابندی لگی کہ ایک دن دفتر دو روز گھر سے کام۔ گھر سے کام والے دنوں میں ہی بیماری نے گھر کا راستہ دیکھ لیا۔ ابّو تو پہلے ہی بستر سے لگے ہوئے تھے۔ پہلے سے ہی انہیں دمہ رہتا تھا۔ یہ کورونا کی لہر نہ جانے کہاں سے آئی۔ ان کو اپنے ساتھ لے گئی۔ ان کے آخری لمحے تو دیکھے نہیں جاتے تھے۔ اسپتال والے بھی کیا کرتے۔ بل بناتے رہے۔ جو جمع پونجی تھی لگ گئی۔ قسمت کو نہ جانے کیا منظور تھا۔ امی جو ابو کی دیکھ بھال میں مصروف تھیں وہ بھی کھانسنے لگیں۔ ابو کے بعد تین روز ہی سانس لے سکیں۔ بھائی دنیا اجڑ گئی ہے۔ بڑی مشکل سے میں یہ ریکارڈ کررہی ہوں۔ میرے میاں نے بہت خیال کیا۔ سارے بل اس نے ہی دیے ہیں۔ ﷲ کا شکر ہے کہ وہ سخت احتیاط کرتا رہا۔ محفوظ رہا۔ بھائی اپنا خیال رکھنا۔ ایسی بیماری تو پہلے دیکھی نہ سنی۔
۔۔۔۔
انکم ٹیکس آفیسر۔ ابھی تو خدا کا واسطہ۔ ان دنوں تو تنگ نہ کرو۔ کاروبار بالکل تباہ ہوگیا ہے۔ اپنے ورکرز جو برسوں سے ساتھ کام کررہے تھے۔ کمپنی کا اثاثہ تھے۔ ان سب سے معذرت کرنا پڑی ہے۔ سالوں کی محنت اکارت گئی ہے۔ کچھ خبر نہیں آگے کیا ہو گا۔
۔۔۔۔۔
میں بوڑھی اکیلی رہ گئی ہوں۔ یہ چھوٹے چھوٹے پوتا پوتی پالنے کے لیے۔ بیٹا بہو دونوں ہی کورونا کی نذر ہو گئے۔ کیا سوچوں ۔ کیا کروں۔ میں کتنے دن جیوں گی۔ انہیں کون پالے گا۔ کون خیال رکھے گا۔
۔۔۔۔۔
میں ایک ہندو ہوں۔ چھوٹی ذات کا۔ پولیس میں ہوں۔ میرا قصبہ بلا کی زد میں ہے۔ میں تو اس مسجد کے پاس سے بھی نہیں گزرتا تھا۔ آر ایس ایس سے ڈرتا تھا مگر اب میں مسجد کی دہلیز پر کھڑا ہوں۔ امام صاحب سے اپیل کر رہا ہوں۔ اپنے ﷲ سے دعا مانگیں۔ میرے شہر کو بچائے۔ لوگ سسکیاں لے لے کر تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔
ہیلو: یار یہاں تو بہت برا حال ہے۔ وہاں چین میں کیا ہورہا ہے۔
یہاں تو بہت سختی ہے۔ الحمد للہ۔ وبا کو روکا ہوا ہے۔
دکاندار شور نہیں مچا رہے۔
یہاں جمہوریت شمہوریت نہیں ہے۔ لوگوں کی زندگی کا خیال رکھا جاتا ہے۔
ہم بھی کمروں میں بند ہیں۔ زندہ تو ہیں۔

محمود شام

بشکریہ روزنامہ جنگ

روشن پاکستان ڈیجیٹل اکاؤنٹ

$
0
0

گزشتہ دنوں میں نےایک نجی بینک کی ’’روشن پاکستان ڈیجیٹل اکائونٹ‘‘ کی تقریبِ رونمائی میں شرکت کی۔ تقریب میں مہمانِ خصوصی اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر کے علاوہ حبیب میٹروپولیٹن اور حبیب بینک اے جی زیوریخ کے گروپ چیف ایگزیکٹو آفیسر محمد علی حبیب، بینک کے صدر محسن نتھانی، اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر ڈاکٹر مرتضیٰ سید، سیما کامل، ڈپازٹ پروٹیکشن کارپوریشن (DPC) کے منیجنگ ڈائریکٹر سید عرفان علی، سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر شمشاد اختر، عارف حبیب، پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے منیجنگ ڈائریکٹر فرخ خان اور سینئر بینکرز نے شرکت کی۔ گورنر اسٹیٹ بینک اور دیگر شرکا کی درخواست پر میں آج ’’روشن ڈیجیٹل اکائونٹ‘‘ پر کالم تحریر کر رہا ہوں تاکہ پاکستان اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اس جدید سہولت سے آگاہی حاصل ہو سکے۔

روشن پاکستان ڈیجیٹل اکائونٹ پر کام کا آغاز 2020 میں ہوا جب وزیراعظم نے گورنر اسٹیٹ بینک کو بیرون ملک مقیم اوورسیز پاکستانیوں کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستانی بینکنگ نیٹ ورک میں آسان طریقے سے شامل کرنے کو کہا جس پر گورنر اسٹیٹ بینک نے ڈپٹی گورنر ڈاکٹر مرتضیٰ سید کی سربراہی میں ایک ٹیم تشکیل دی جس میں ڈپازٹ پروٹیکشن کارپوریشن (DPC) کے منیجنگ ڈائریکٹر سید عرفان علی بھی شامل تھے۔ روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کا اجرا کئی بینکوں نے کیا جس کی بدولت گھر بیٹھے ملک کے 9 بڑے بینکوں میں غیرملکی کرنسی یا پاکستانی روپے میں بیرون ملک مقیم پاکستانی اور پاکستان میں مقیم (RPs) ایسے شہری جن کے بیرونی اثاثے ڈکلیئرڈ ہیں، اپنا آن لائن اکائونٹ کھلوا سکتے ہیں اور اِس اکائونٹ سے نیا پاکستان سرٹیفکیٹ، اسٹاک ایکسچینج، ٹریژری بلز وغیرہ میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ 

بعد میں اس اکائونٹ سے بجلی اور گیس کے بلز بھی ادا کئے جا سکیں گے۔ اکائونٹ کھولنے کیلئے آپ کو اپنی تصویر، شناختی کارڈ، پاسپورٹ یا بیرون ملک قیام کی دستاویزات فراہم کرنا ہوں گی۔ روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کا دوسرا نام ’’دور رہ کر بھی پاس‘‘ رکھا گیا ہے جو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی پاکستان سے وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے پہلے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے پاکستان میں اپنا اکائونٹ کھولنا ایک نہایت مشکل کام تھا جس کیلئے ان کا پاکستان میں موجود ہونا ضروری تھا لیکن اب روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کے ذریعے وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں گھر بیٹھے صرف 48 گھنٹے میں اپنا اکائونٹ کھول کر پاکستان کی نئی پرکشش اسکیموں میں غیرملکی کرنسی اور پاکستانی روپے میں محفوظ سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ اب تک 97 ممالک سے 86,000 اکائونٹ کھل چکے ہیں جن میں 480 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے جس میں 307 ملین ڈالر نیا پاکستان سرٹیفکیٹ اور 173 ملین ڈالر اسلامک (شریعہ) سرمایہ کاری ہے۔

قارئین! نیا پاکستان سرٹیفکیٹ (NPC) میں ڈالر میں 5 سال مدت کیلئے سرمایہ کاری پر منافع 7 فیصد اور 6 ماہ کی سرمایہ کاری پر 6 فیصد ہے جبکہ پاکستانی روپے میں 5 سالہ مدت کیلئے سرمایہ کاری پر منافع 11 فیصد اور 6 ماہ کیلئے سرمایہ کاری پر 10 فیصد ہے۔ موجودہ حالات میں محفوظ سرمایہ کاری پر اتنا پرکشش منافع دنیا میں کہیں نہیں مل سکتا اور یہی وجہ ہے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے روشن ڈیجیٹل اکائونٹ میں 5 مہینوں میں 480 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جو اُن کے اعتماد کا مظہر ہے۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے اپنے شہریوں کو ڈیجیٹل آن لائن بینکنگ کی سہولت فراہم کی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے اس موقع پر ملکی معیشت پر کچھ اہم معلومات فراہم کیں جو میں اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔ 

روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کھولنے کیلئے بیرون ملک پاکستانیوں کو یہ اعتماد ہونا چاہئے کہ پاکستان میں اُن کی سرمایہ کاری محفوظ ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 20ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں جن میں 13 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک کے ذخائر اور 7 ارب ڈالر کمرشل بینکوں کے ڈپازٹس ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ جو بڑھ کر 19 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا، گزشتہ کئی مہینوں سے خسارے کے بجائے سرپلس میں ہے یعنی اب حکومت کو زرمبادلہ کے ذخائر سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ پورا کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان وجوہات کی بنیاد پر پاکستانی روپیہ، ڈالر کے مقابلے میں 168 روپے سے کم ہو کر 158 روپے کی سطح پر آگیا ہے جو مارکیٹ ریٹ کی بنیاد پر ہے اور پاکستان کے مالی استحکام کو ظاہر کرتا ہے۔

سوال، جواب کے سیشن میں، میں نے گورنر اسٹیٹ بینک اور ان کی ٹیم کی توجہ نیا پاکستان سرٹیفکیٹ میں ایک بے ضابطگی کی طرف مبذول کروائی جس میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو نیا پاکستان سرٹیفکیٹ میں منافع پر 10 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جو ان کی حتمی ادائیگی ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں مقیم پاکستانیوں (RPs) جن کے اثاثے ڈکلیئرڈ ہیں، کو نیا پاکستان سرٹیفکیٹ میں منافع پر 15 سے 20 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جو ایک بے ضابطگی ہے جس کے بارے میں، میں نے ایف بی آر کے ممبر ان لینڈ ریونیو آپریشن ڈاکٹر محمد اشفاق احمد سے کراچی میں اپنی میٹنگ کے دوران کہا تھا کیونکہ پاکستان میں مقیم پاکستانیوں کے ظاہر شدہ اثاثے قانونی ہیں جن پر وہ ٹیکس ادا کر رہے ہیں، اگر وہ اپنی آفیشل ڈکلیئرڈ رقم سے روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کے ذریعے نیا پاکستان سرٹیفکیٹ میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو ان کے منافع پر بھی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرح 10 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس عائد کیا جانا چاہئے۔ 

گورنر، ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک اور پینل کے دیگر شرکاء نے میری اس تجویز کی تائید کی اور مجھ سے وعدہ کیا کہ ایف بی آر کے ذریعے اس بے ضابطگی کو دور کروایا جائے گا۔ میں اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر اور اُن کی پوری ٹیم کو روشن پاکستان ڈیجیٹل اکائونٹ کی سہولت فراہم کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اُمید ہے کہ ان شاء ﷲ آنے والے دنوں میں اس اکائونٹ کے ذریعے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کئی گنا بڑھے گی۔

ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ

بشکریہ روزنامہ جنگ

ممتا بینرجی مودی کیلئے چیلنج بن سکتی ہیں

$
0
0

پانچ غیر ہندی بولنے والی ریاستوں کے انتخابی نتائج کے اسباق کیا ہیں؟ پہلا سبق یہ ہے کہ بھارت ایک متنوع جمہوریت ہے۔ اب یہاں ''ایک پارٹی اور ایک رہنما‘‘ کی حکمرانی کام نہیں کر سکتی۔ ہو سکتا ہے کہ بی جے پی آسام میں جیت گئی ہو لیکن تین بڑی ریاستوں مغربی بنگال ‘ تامل ناڈو اور کیرالہ میں ہار گئی۔ پڈوچیری میں وہ فاتح اتحاد کی رکن ہے۔ مغربی بنگال کی 200 نشستوں پر اس کا دعویٰ ہوائی قلعہ ثابت ہوا ۔ کیرالہ میں انہوں نے میٹرومین سریدھرن کو بھی داؤ پر لگا دیا ‘ لیکن اس سے قبل انہوں نے اپنے پاس محفوظ ایک نشست بھی گنوا دی۔ دوسرے لفظوں میں اب مرکز میں بی جے پی حکومت کو شمال اور جنوب کی مضبوط حزب اختلاف کی حکومتوں کے ساتھ ہم آہنگی کی سیاست کرنا ہو گی۔ داداگیری چلانا مشکل ہو گا۔ بی جے پی بنگال میں ہاری ہے لیکن اس نے 72 سیٹیں جیتی بھی ہیں۔ بنگال اور آسام جیسے غیر ہندی بولنے والے اور سرحدی صوبوں میں بی جے پی کے غلبے کی وجہ کیا ہے؟

بی جے پی ایک طویل عرصے سے حزبِ اختلاف اور ہندی علاقائی پارٹی رہی ہے۔ کیا ان علاقوں میں اس کا اضافہ قومی اتحاد کے عروج کی علامت نہیں ہے؟ یہ نمو بی جے پی کے اپنے کردار اور وژن میں توسیع کے بغیر نہیں ہو گی ۔ کانگریس کا تقریبا ًتمام ریاستوں میں پیچھے رہ جانا قومی سیاسی اتحاد کے نقطہ نظر سے اچھا نہیں ہے۔ اس سے اس کی قیادت اور پالیسی کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے ‘ لیکن اتنے وسیع بھارت کو ایک دھاگے میں رکھنے کیلئے ایک طاقتور فوج اور مضبوط حکومت کے ساتھ منظم آل انڈیا پارٹی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ کیا کمیونسٹ پارٹی کے کمزور ہونے پر طاقتور سوویت یونین ٹوٹ گیا تھا یا نہیں؟ بنگال میں ترنمول کانگریس ‘ تمل ناڈو میں ڈی ایم کے اور کیرالا میں مارکسسٹ پارٹی کی زبردست کامیابی ان کی خالص مقبولیت اور خدمات کی بنیاد پر رہی ہے‘ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کانگریس تینوں ریاستوں میں بُری طرح ہار چکی ہے اور بی جے پی بھی پیچھے رہ گئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں آل انڈیا پارٹیوں کے بجائے صوبائی پارٹیوں کا پرچم بلند ہوا ہے۔ یعنی ان ریاستوں میں بنگلہ ‘ تامل اور ملیالی قومیت غالب رہی ہے۔ مرکزی حکومت کو ان تینوں ریاستوں کے ساتھ انتہائی احتیاط برتنا ہو گا۔ ان انتخابات نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ فرقہ واریت کا ٹرمپ کارڈ کبھی کبھی الٹا پڑ جاتا ہے۔ 

آسام میں ‘ جہاں شہریت کے سوال کو کارپٹ کے نیچے منتقل کرنا پڑا ‘ وہیں بنگال میں بی جے پی کو زیادہ تر ہندو ووٹوں کا حصہ نہیں مل سکا۔ وہ الگ ہو گئے۔ اقلیتوں کو ان کے خوف نے ممتا کی طرف کھینچ لیا اور بنگالی اور غیر بنگالی قانونی دعویداروں نے ہندو ووٹ کی تقسیم میں اہم کردار ادا کیا۔ ممتا بینرجی نے بنگالی اور بیرونی شخص کا بھوت پیدا کیا لیکن خود کو برہمن اور وفادار ہندو ثابت کرنے کیلئے کس چیزکا سہارا نہیں لیا؟ دیدی اس کھیل میں مودی پر غالب آگئیں۔ ٹوٹی ہوئی ٹانگوں اور پہیے والی گاڑی کے ساتھ ہمدردی نے پورے ملک کی توجہ مبذول کر لی۔ دوسری طرف ‘ رابندر ناتھ ٹیگور جیسی داڑھی اور ڈھاکہ یاترا بھی کام نہیں کر سکی۔ اس انتخاب نے ممتا بینرجی کو بنگال کا لاجواب لیڈر بنایا اور انہیں آل انڈیا مہم جو بنا دیا۔ بنگال میں ان پانچ ریاستوں کے انتخابات میں سب سے زیادہ مہم چلائی گئی تھی کیونکہ بی جے پی نے بہت کوشش کی ‘ مجھے یاد نہیں ہے کہ کسی بھی صوبائی انتخابات میں ‘کسی بھی مرکزی پارٹی نے کبھی ایسا کیا تھا۔ وزیر اعظم کے علاوہ وزیر داخلہ ‘ وزیر دفاع ‘ پارٹی صدر ‘ درجنوں وزرا‘ وزیر اعلیٰ ‘ سینکڑوں ارکانِ پارلیمنٹ ‘ ہزاروں بیرونی کارکن اور بی جے پی کی طرف سے بھاری رقم بہانے کے باوجود ممتا کی بال نہیں روکی جا سکی‘ بلکہ ممتا کی سیٹوں اور ووٹوں میں اضافہ ہوا۔ 

ممتا کو موصول ہونے والی ہمدردی سے انہیں حزب ِاختلاف کے تقریباً تمام صوبائی رہنماؤں کی حمایت حاصل ہو گئی۔ متعدد اپوزیشن کے وزرائے اعلیٰ‘ سابق وزرائے اعلیٰ اور مرکزی وزرا ترنمول کانگریس کو جتانے کیلئے بنگال پہنچ گئے۔ کیا اب یہ قائدین پورے ملک میں مودی کے خلاف ممتا کوگھمانے کی کوشش نہیں کریں گے؟ ممتا کو مودی کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ انہوں نے بنگال جنگ میں اپنے آپ کو ممتا کے برابر کھڑا کیا۔ بنگال میں بی جے پی کا وزیر اعلیٰ کا چہرہ نہیں تھا‘ اتر پردیش میں کھیلے گئے اسی کارڈ کو بنگال میں شکست دی گئی۔ یہ ناممکن نہیں کہ ممتا اب اگلے تین سالوں میں ملک کے تمام اپوزیشن رہنماؤں کو متحد کر دیں۔ یہ کام آسان نہیں ہے ‘ کیونکہ اگرچہ آج کل کورونا کی وبا کی وجہ سے مرکزی حکومت کی شبیہ دھندلا رہی ہے لیکن ابھی تک کوئی بھی آل انڈیا لیڈر مودی کا مقابلہ کرنے کیلئے سامنے نہیں آیا۔ ممتا نے انتخابات سے قبل ہی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرنے کی کوشش کی تھی۔ 

کانگریس اور مارکسسٹ پارٹی کیلئے ممتا کو متعدد وجوہات کی بناپر رہنما تسلیم کرنا مشکل ہو گا۔ اس طرح ‘ معلوم نہیں کہ کیا ممتا ان معنی میں خود کو ترقی دے سکے گی جو ہندوستان کے تمام لوگوں میں مقبول ہونے کیلئے ضروری ہے؟ یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا اس کے انتہائی جذباتی ‘ اس کی عجیب ہندی اور انگریزی اور اس کے انداز بیان سے کروڑوں غیر بنگالی ووٹرز متاثر ہوں گے۔ اگر ملک کی تقریباً تمام اہم پارٹیاں مودی مخالف اتحاد تشکیل دیتی ہیں اور ممتا کو قائد سمجھتی ہیں تو کانگریس اور کمیونسٹ بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ پھر بھی انہیں جے پرکاش نارائن جیسے نامور اور بے باک قائد کی ضرورت ہو سکتی ہے ‘ جیسے 1977ء میں اندرا گاندھی کے خلاف ہوا تھا۔

کورونا سے سیکھیں سبق
پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ حکومت ‘ میڈیا اور عوام کی توجہ کورونا پر مکمل طور پر قابو پانے میں صرف ہو گی لیکن ہلاکتوں کے جو اعداد وشمار سامنے آرہے ہیں وہ افسوسناک اور مایوس کن ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہر جگہ لاک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے مریضوں کی تعداد میں معمولی کمی واقع ہوئی ہے لیکن یہ کتنا درست ہے ‘ کچھ معلوم نہیں۔ ایسے ہزاروں اور لاکھوں لوگ ہیں جن کو یہ تک نہیں معلوم کہ ان کو انفیکشن ہوا ہے یا نہیں؟ وہ صرف خوف کی وجہ سے ڈاکٹروں کے پاس نہیں جا رہے۔ زیادہ تر لوگوں کے پاس ڈاکٹروں کی فیس کی ادائیگی کیلئے رقم نہیں ہے تو ہسپتالوں میں ان کے داخلے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ ریٹائرڈ سفیر ‘ معروف فلمی ستارے اور قائدین کے لواحقین بھی ہسپتال میں داخل ہونے کے انتظارمیں دم توڑ رہے ہیں۔ وہ لوگ جو اپنے اثر و رسوخ کی بنیاد پر ہسپتال میں بیڈ کے اہل ہیں وہ بھی کراہ رہے ہیں۔ وہ لوگ جو محل نما بنگلوں میں رہنے اور گھر سے باہر فائیو سٹار ہوٹلوں میں رہنے کے عادی ہیں یا تو وہ متعدد مریضوں والے کمروں میں پڑے ہوئے ہیں یا ہسپتال کے برآمدے میں پڑے ہیں۔ 

بہت سے لوگ جو داخل نہیں ہو سکے ہیں ‘ وہ اپنی گاڑی میں یا ہینڈ کارٹ پر پڑے آکسیجن لے کر اپنی جان بچا رہے ہیں ‘ لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ مصیبت کی اس فضا میں ہمارے ملک میں بھی ایسی درندے ہیں جو بے شرمی سے منشیات کی کالا بازاری کر رہے ہیں۔ گزشتہ 15‘ 20 دنوں میں روزانہ ایسی اطلاعات آرہی ہیں۔ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے کئی شہروں میں لوگ مر رہے ہیں مگرسلنڈروں کی بلیک مارکیٹنگ ہو رہی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ہماری عدالتیں اور حکومتیں کیا کر رہی ہیں؟ وہ خصوصی آرڈیننس جاری کر کے فوری طور پر ان لوگوں کو کیوں سزا نہیں دیتے؟ حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ آکسیجن کی کمی نہیں ‘ پھر ملک کے ہسپتالوں میں افراتفری کیوں ہے؟ اب یہ کورونا شہروں سے دیہات میں منتقل ہو چکا ہے اور درمیانے اور نچلے طبقے میں بھی گھس آیا ہے۔ ان لوگوں کیلئے جن کے پاس کھانے کیلئے کافی روٹی نہیں ہے ‘ مفت اور فوری علاج کا انتظام کیوں نہیں کیا جاتا؟ ملک کے لاکھوں قابل افراد آگے کیوں نہیں آرہے ہیں؟

ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک

بشکریہ دنیا نیوز


واٹس ایپ نئی شرائط قبول نہ کرنے والےصارفین کے ساتھ کیا کرے گا؟

$
0
0

واٹس ایپ نے اپنی متنازعہ پرائیویسی پالیسی کو 15 مئی سےلاگو کر دیا ہے، لیکن جن لوگوں نے اس پالیسی کو قبول نہیں کیا ہے تو ان کے اکاؤنٹس کے ساتھ کیا ہو گا؟ رواں سال 4 جنوری کو واٹس ایپ نے صارفین کے لیے نئی پرائیویسی پالیسی متعارف کرائی جس میں کچھ شرائط متنازع تھی، ان شرائط کے سامنے آنے کے بعد دنیا بھر میں واٹس ایپ کے لاکھوں صارفین اس کے حریف میسجنگ پلیٹ فارمز ٹیلی گرام، سنگل وغیرہ پر منتقل ہونے لگے۔ بعد ازاں واٹس ایپ نے ایک وضاحتی بیان جاری کیا جس میں اس نئی پالیسی کے متعلق پھیلنے والی افواہوں کی تردید کی گئی۔ 

تاہم صارفین کی تمام تر مخالفت کے باوجود بالاخرواٹس ایپ نے دو دن قبل اس پالیسی کو دنیا بھرمیں موجود صارفین پرلاگو کر دیا ہے۔ جن صارفین نے اب تک اس پالیسی کو منظور نہیں کیا ہے ان کے واٹس ایپ اکاؤنٹس کے ساتھ کیا ہو گا یہ بات ابھی تک غیر یقینی تھی۔ لیکن فیس بک کی اس انسٹنٹ میسیجنگ ایپ نے اپنے حالیہ بیان میں نئی شرائط کو قبول نہ کرنے والے اکاؤنٹس کے بارے میں تفصیلی بیان جاری کردیا ہے۔ جس کے مطابق؛ آپ کا اکاؤنٹ ڈیلیٹ نہیں ہو گا کمپنی کا کہنا ہے کہ 15 مئی کے بعد بھی پالیسی قبول نہ کرنے والے صارفین کے اکاؤنٹس نہ ہی ختم کیے جائیں اورنہ ہی واٹس ایپ کی کارکردگی میں فرق پڑے گا۔ 

صارفین کو نئی شرائط قبول کرنے کی یاد دہانی جاری رہے گی
اگر چہ کمپنی شرائط قبول نہ کرنے والے اکاؤنٹس کو ختم نہیں کر رہی لیکن، صارفین کو ایک مخصوص مدت کے بعد یاد دہانی کا نوٹی فیکیشن اس وقت تک ملتا رہے گا جب تک صارف نئی شرائط کو قبول نہیں کر لیتا۔ جب تک آپ نئی اپ ڈیٹس کو قبول نہیں کر لیتے اس وقت تک آپ کو واٹس ایپ کے افعال محدود ہونے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ استعمال کنندگان اپنی چیٹ لسٹ تک رسائی کے اہل نہیں ہوں گے، تاہم وہ وائس اور ویڈیو کالز کا جواب دے سکتے ہیں۔ تاہم ایسے صارفین جنہوں نے نوٹی فیکیشن کےفیچر کو موثر رکھا ہوا ہے وہ نوٹی فیکیشن میں آنے والے پیغامات کو پڑھنے، جواب دینے کے ساتھ مِسڈ کالز کا جواب بھی دے سکتے ہیں۔

کمپنی کی نئی شرائط کے حوالے سے وضح کردہ FAQ (زیادہ پوچھے جانے والے سوالات) میں واضح لکھا ہوا ہے کہ کمپنی کچھ ہفتوں بعد ایسے صارفین کو کال اور پیغامات بھیجنے کا سلسلہ بھی بند کر دے گی۔ ایسے صارفین جو نئی پرائیویسی اپ ڈیٹ کو قبول نہیں کرنا چاہتے تو وہ اینڈرائیڈ یا آئی فون پر موجود اپنی چیٹ ہسٹری کو ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ اگر آپ نے واٹس ایپ اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دیا تو پھرآپ اپنی چیٹ ہسٹری اور بیک اپ کو دوبارہ حاصل نہیں کر سکتے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

پاکستان کا قدیم ترین شہر ملتان

$
0
0

ملتان گزرے وقت میں ایک سلطنت کا درجہ رکھتا تھا اس کے وسیع و عریض رقبے کی حدود لاہور کے قرب و جوار تک پھیلی ہوئی تھی۔ ساہیوال، پاک پتن، اوکاڑہ، میاں چنوں، خانیوال، لودھراں، مظفر گڑھ اور بھکر اس کے علاقوں میں شامل تھے۔ لیکن بے رحم وقت نے اسے علاقہ در علاقہ تقسیم کر دیا۔ ملتان کے محل وقوع کی بات کی جائے تو اس کے مشرق میں وہاڑی ، جنوب مشرق میں لودھراں ، شمال میں خانیوال ، جنوب میں بھاولپور اور مغرب میں دریائے چناب کے پار مظفر گڑھ واقع ہے۔ ملتان ایک ہزار بیس کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے جس کی آبادی انیس لاکھ بہتر ہزار آٹھ سو چالیس نفوس پر مشتمل ہے۔ ملتان کی زمین اپنی زرخیزی اور پیداواری صلاحیتوں میں مثال ہے اس کی اہم فصلوں میں گنا ، چاول، کپاس اور گندم شامل ہیں۔ آموں کو بڑے بڑے اور نایاب اقسام کے باغات موجود ہیں۔ یہاں کے آم نہ صرف پاکستان بھر میں بلکہ دنیا میں مشہور ہیں۔ ملتان میں سرائیکی، اردو اور پنجابی زبانیں بولی جاتی ہیں۔

یہاں کافی تعداد میں اولیا، صوفیا کرام و بزرگان دین کے مزارات ہیں، مشہور مزارات میں حضرت شاہ شمس تبریزؒ، حضرت بہاالحسنؒ، حضرت بہاالدین زکریاؓؒ ملتانی، حضرت شاہ رکن عالم ؒ، حضرت موسیٰ پاک شہید اور حضرت حافظ محمد جمالؒ ؒ کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے اولیا، صوفیا اور بزرگان دین کے مزارات یہاں موجود ہیں۔ دنیا کی قدیم ترین تہذیبیں دریاؤں کی وادی میں پیدا ہوئیں اور وہیں پروان چڑھیں ، نہر دجلہ ، فرات اور سندھ تہذیبیں دریاؤں کی تہذیبیں ہیں۔ دریائے سندھ کی وسیع و عریض آبادی کے علاقوں میں شہر اور اس کا نواحی علاقہ بھی شامل ہے۔  ملتان قدیم تاریخی شہروں میں سے ایک شہر ہے جن کا ذکر اندر پرست کے دور میں ہوتا ہے۔ قدیم ہندو گھرانوں میں اس کا ذکر ’’مالی تھان‘‘ کے نام سے موجود ہے۔
تاریخ کی کتب میں یہ بھی ہے کہ ایک قوم جس کا نام ’’مالی تھان‘‘ یہاں آکر آباد ہوئی اور سنسکرت میں آباد ہونے کو ’’ستھان‘‘ کہتے ہیں۔ شروع میں اس کا نام مالی استھان پڑ گیا بعد میں بدل کر مالی تھان بن گیا، وقت کے ساتھ ساتھ مالی تھان پھر مولتان اور اب یہ ملتان بن گیا۔ بہت سے قدیمی شہر آباد ہوئے یہاں حالات زمانہ کا شکار ہوکر مٹ گئے، لیکن شہر ملتان پہلے بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے۔

ملتان کو صفحہ ہستی سے ختم کرنے والے سیکڑوں حملہ آور خود نیست و نابود ہوگئے۔ آج ان کا نام لیوا بھی نہیں۔ لیکن ملتان آج بھی اپنے پورے تقدس کے ساتھ زندہ ہے۔ ملتان پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک اہم شہر ہے یہ دریائے چناب کے کنارے آباد ہے آبادی کے لحاظ سے یہ پاکستان کا پانچواں بڑا شہر ہے۔ ضلع ملتان، تحصیل ملتان کا صدر مقام بھی ہے۔ تحصیلوں میں تحصیل صدر، تحصیل شجاع آباد، تحصیل جلال پور پیراں والا شامل ہے۔ اس کی ثقافت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پانچ ہزار سال پرانی ہے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہو سکتا ہے اس سے بھی قدیم ہو۔ اس امر پر مورخین کا اتفاق ہے کہ ملتان اور قلعہ ملتان کا وجود تاریخ دیو مالائی دور سے بھی پہلے کا ہے۔ قابل افسوس بات ہے کہ حملہ آوروں نے قلعہ ملتان کو نشانہ بنایا اور اسے فتح کرنے کے بعد خوب لوٹ مار آتش زدگی ہوتی رہی۔ 1200 قبل مسیح میں دارا نے اسے تباہ کیا۔ 325 قبل مسیح میں سکندر نے اس پر چڑھائی کی۔ بعد ازاں عرب ، افغان ، سکھ اور فرنگی حملہ آوروں نے قدیم قلعہ ملتان کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

تاریخ کے اوراق میں ملتان قبل از مسیح سے ہی حربی اور ثقافتی فنون کا حصہ اور مرکز رہا ہے۔ چونکہ جنگی آلات ہر زمانے میں طاقت کے اظہار کا بہترین ذریعہ رہے ہیں لہٰذا وہ تمام افراد جو جنگی آلات بنانے کے فن سے جڑے ہوتے تو ان کا معاشرے میں ایک خاص مقام ہوتا تھا۔ خطہ ملتان میں حربی فنون کی مہارت اور تیر کمان سازی کا سب سے قدیم حوالہ 323 قبل از مسیح میں ملتا ہے ایک حوالے کے مطابق سکندر یونانیوں کو لگنے والا تیر ملتان کا تیار کردہ تھا۔ ابوالفضل نے اپنی مشہور کتاب ’’آئین اکبری‘‘ میں ملتان کی حدود کچھ اس طرح بیان کی ہیں۔ صوبہ ملتان کے ساتھ ٹھٹھہ کے الحاق سے قبل یہ صوبہ فیروز پور سے فیوستان تک چوڑائی میں کف پور سے جیسلمیر تک، ٹھٹھہ کے الحاق کے بعد یہ صوبہ کیچ مکران تک وسیع ہو گیا۔ مشرق میں اس کی سرحدیں سرہند سرکار سے، شمال میں پشاور سے جنوب میں اجمیر کے صوبہ اور مغرب میں کیچ (تربت) مکران سے ملتی ہیں۔ کیچ مکران پہلے صوبہ سندھ میں شامل تھا۔ ملتان کے صوبہ میں تین سرکاریں ملتان خاص ، دیال پور اور بھکر تھیں۔ 

ملتان کی وسعت اور عظمت پر تاریخ آج بھی رشک کرتی ہے۔ 792 کو محمد بن قاسم نے ملتان فتح کیا اور اسلامی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ 997 کو محمود غزنوی نے ہندوستان کو فتح کرنے کے ساتھ ملتان کو بھی فتح کیا۔ 1175 میں سلطان شہاب الدین محمد غوری نے خسرو ملک کو شکست دے کر ملتان پر قبضہ کر لیا۔ سلطان شہاب الدین محمد غوری کے بعد بے شمار خاندانوں نے اسے پایہ تخت بنائے رکھا۔ جن میں خاندان غلامان، خاندان خلجی، غیاث الدین تغلق، خاندان سادات، خاندان لودھی، پھر مغلیہ سلاطین کے حکمرانوں تک ملتان مسلم سلطنت کا حصہ رہا۔ رنجیت سنگھ نے ملتان پر حملہ کیا ایک زوردار جنگ ہوئی تاریخ میں اسے جنگ ملتان کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ جنگ مارچ 1818 میں شروع ہوئی اور 2 جون 1818 کو ختم ہو گئی۔ رنجیت سنگھ کی فوج نے قلعہ ملتان پر 2 جون 1818 میں قبضہ کر لیا۔ 1857 تک رنجیت سنگھ کے بیٹوں کی حکمرانی رہی۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد فرنگیوں نے ملتان پر قبضہ کر لیا اور 1947 تک برٹش امپائر کے زیر اثر رہا۔ آزادی کے بعد ملتان پاکستان کا حصہ بن گیا۔

تاریخ میں قلعہ ملتان کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ یہ قلعہ اندر دفاعی صلاحیتوں کے ساتھ طرز تعمیر میں بھی یگانگت رکھتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس قلعے کی دیواریں تقریباً چالیس سے ستر فٹ اونچی اور دو میل کے علاقے کا گھیراؤ کرتی تھیں۔ اس کی دیواریں برج دار تھیں اس کے ہر داخلی دروازے کے پہلو میں حفاظتی مینار تعمیر کیے گئے تھے۔ 1818 میں رنجیت سنگھ کی افواج کے حملے میں اندرونی چھوٹے قلعے کو شدید نقصان پہنچا۔ جوکہ ’’کاتوچوں‘‘ یعنی راجپوتوں کی حکمرانی کے دوران تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ جنگ کے لیے مورچہ نما چھوٹا قلعہ کہلایا جس کے پہلو میں تیس حفاظتی مینار ایک مسجد ایک مندر اور خواتین کے محلات تعمیر کیے گئے تھے۔ ملتانی قلعہ کے باہر خندق بھی بنائی گئی تھی۔

ایم قادر خان  

بشکریہ ایکسپریس نیوز 

رنگ روڈ ۔ دوسرا پاناما اسکینڈل

$
0
0

راولپنڈی رنگ روڈ کی کہانی وزیراعظم عمران خان کے دفتر سے شروع ہوئی‘ وزیراعظم کو کسی دوست نے بتایا آپ کے خلاف بھی پاناما اسکینڈل بن چکا ہے۔ آج آپ کی حکومت ختم ہو جاتی ہے تو آپ کے لیے راولپنڈی رنگ روڈ کافی ہو گی‘ آپ باقی زندگی فائلیں اٹھا کر ایک عدالت سے دوسری عدالت دھکے کھاتے رہیں گے‘ وزیراعظم کے لیے یہ انکشاف پریشان کن تھا‘ وزیراعظم کو دوست نے چند اکاؤنٹ نمبرز‘ چند فون نمبرز‘ چار اعلیٰ سرکاری افسروں کے عہدے اور 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نام دیے اور وزیراعظم کو کمشنر راولپنڈی کیپٹن (ر) محمد محمود سے چند سوال پوچھنے کا مشورہ دیا۔ وزیراعظم نے خفیہ تحقیقات کرائیں‘ الزام سچ نکلا‘ وزیراعظم نے کمشنر راولپنڈی کیپٹن محمود کو بلایا اور ان سے صرف ایک سوال پوچھا ’’آپ کو راولپنڈی رنگ روڈ کا روٹ بدلنے اور اٹک لوپ کو اس میں شامل کرنے کا مشورہ کس نے دیا تھا‘‘ کیپٹن محمود نے فوراً جواب دیا ’’مجھے کسی نے نہیں کہا تھا‘‘ وزیراعظم نے دوبارہ پوچھا ’’کیا آپ کو کسی وفاقی وزیر یا اسپیشل ایڈوائزر ٹو پی ایم نے سفارش نہیں کی؟‘‘ کمشنر نے صاف انکار کر دیا۔

یہ انکار وزیراعظم کو برا لگا‘ کیوں؟ کیوں کہ وزیراعظم کے پاس سارا ریکارڈ موجود تھا‘ یہ جانتے تھے وفاقی وزیر غلام سرور خان اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ذلفی بخاری کمشنر راولپنڈی پر اثرانداز ہوئے تھے اور اس اثرورسوخ کی وجہ سے 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے چند ماہ میں اربوں روپے کمائے تھے۔ کمشنر کے انکار نے وزیراعظم کے خدشات کو مضبوط بنا دیا اور انھوں نے راولپنڈی کی ساری انتظامیہ کمشنر کیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود‘ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی محمد انوار الحق‘ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیوکیپٹن (ر) شعیب علی اور اسسٹنٹ کمشنر صدر غلام عباس کو عہدوں سے ہٹا دیا اور چیئرمین چیف منسٹر انسپکشن ٹیم گلزارحسین شاہ کو کمشنر راولپنڈی لگایا اور انھیں راولپنڈی رنگ روڈ کی انکوائری کا حکم دے دیا‘ کمشنر گلزار حسین شاہ نے کام شروع کیا اور 11 مئی کو انکوائری رپورٹ آ گئی۔ بیورو کریسی میں گلزار حسین شاہ کی شہرت اچھی نہیں‘ یہ ڈسکہ میں این اے 75 کے الیکشن کے دوران کمشنر گوجرانوالہ تھے اور ان پر الیکشن میں اثرانداز ہونے کا الزام لگا تھا مگر اس کے باوجود گلزار حسین کی انکوائری رپورٹ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا‘ میں نے اپنے 28 سال کے صحافتی کیریئر میں کسی سرکاری افسر کی تیار کردہ اتنی تگڑی اور جامع رپورٹ نہیں دیکھی‘ اس رپورٹ نے ثابت کر دیا اگر سرکاری افسر کام کرنا چاہے تو یہ ایک ہفتے میں تمام تحقیقاتی اداروں اور جے آئی ٹیز کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔


یہ رپورٹ ہمارے پورے سسٹم کا نوحہ بھی ہے اور یہ ثابت کرتی ہے سیاست دان‘ بیوروکریٹس اور طاقتور اداروں کے ریٹائرڈ افسر کس طرح مل کر پورے نظام کو توڑ مروڑ کر ایک ایک رات میں عوام کی جیب سے کھربوں روپے نکال لیتے ہیں‘ میں عمران خان کا ناقد ہوں‘ میں چھ سال سے ان پر تنقید کر رہا ہوں لیکن یہ رپورٹ پڑھ کر پہلی مرتبہ مجھے ان پر ترس آیا‘ یہ شخص واقعی ہر طرف سے مفاد پرستوں میں گھرا ہوا ہے‘ سرکاری افسر‘ وزیراعظم کے دوست اورحکمران پارٹی کے عہدیدار ملک کو لوٹ رہے ہیں اور یہ ملک اور اپنے آپ کو ان سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن سوال یہ ہے یہ کس کس سے بچے گا؟ اس ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ میں انکشاف ہوا پنجاب حکومت نے 2017 میں راولپنڈی پر ٹریفک کا دباؤ کم کرنے کے لیے 40 کلومیٹر کی رنگ روڈ بنانے کا فیصلہ کیا‘ پلان بھی بن گیا اور بینک آف چائنہ سے 400 ملین ڈالر لون بھی منظور ہو گیا لیکن منصوبہ شروع ہونے سے پہلے میاں شہباز شریف کی حکومت ختم ہو گئی اوریہ منصوبہ بھی دوسرے بے شمار منصوبوں کی طرح ٹھپ ہو گیا لیکن پھر یہ اچانک نہ صرف ایکٹو ہو گیا بلکہ اس میں 26 کلومیٹر کا اضافہ بھی ہو گیا‘ اس میں اٹک لوپ بھی شامل ہو گئی۔

اسلام آباد کے دو سیکٹر بھی اس میں ڈال دیے گئے اور حکومت کو یہ تاثر بھی دیا جانے لگا ہمیں غیرملکی قرضوں کی ضرورت نہیں‘ ہمارے پاس ایسی کمپنیاں موجود ہیں جو اپنی جیب سے 66 کلو میٹر لمبی سڑک بنائیں گی اور ٹول ٹیکس شیئرنگ کے ذریعے اپنی سرمایہ کاری واپس لے لیں گی‘ یہ منصوبہ بظاہر شان دار لگتا تھا لیکن اس کامقصد رنگ روڈ بنانا نہیں تھا‘ اس کے ذریعے 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان نے لوگوں سے کھربوں روپے جمع کرنا تھے‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ کے مطابق نوا سٹی کے نام سے راتوں رات ایک ہاؤسنگ سوسائٹی رجسٹرڈ ہوئی۔ سوسائٹی کے پاس 970 کنال زمین تھی لیکن سوسائٹی کے مالک جنید چوہدری نے 20 ہزار فائلیں بنائیں اور مارکیٹ میں ایک ماہ میں یہ ساری فائلیں بیچ دیں‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ کے بعد مزید تحقیقات ہوئیں تو پتا چلا فائلیں صرف 20 ہزار نہیں تھیں ان کی تعداد 30 ہزار ہے اور اس میں ہوا بازی کے وفاقی وزیر غلام سرور خان کے صاحب زادے منصور خان پارٹنر ہیں‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ نے سول ایوی ایشن کی طرف سے نوا سٹی کے فوری این او سی پر بھی سوال اٹھایا‘ یہ این او سی حیران کن اسپیڈ سے جاری ہوا تھا‘ جنید چوہدری نے یہ فائلیں رئیل اسٹیٹ مارکیٹنگ کمپنیوں کو بلک میں دیں‘ پراپرٹی ڈیلروں نے سوشل میڈیا پر اشتہارات دیے اور ایک ماہ میں 20 ہزار فائلیں بیچ دیں۔

تحقیقاتی اداروں نے تحقیقات کیں تو پتا چلا صرف ایک ایجنٹ نے ایک ماہ میں 34 کروڑ روپے کمائے‘ آپ باقی کا اندازہ خود لگا لیجیے‘ یہ بھی پتا چلا نیو ائیرپورٹ سوسائٹی کے مالک راجہ سجاد حسین نے بھی رنگ روڈ کے نام پر اندھا دھند سرمایہ کمایا‘ اس کی کمپنی کا نام الآصف ڈویلپر ہے جب کہ لائف اسٹائل کے نام سے جنوری 2020 میں جنید چوہدری نے ایک دوسری کمپنی بھی بنائی اور اس کمپنی نے کمشنر آفس کی معلومات پر تھوڑی سی زمینیں خریدیں اور ہاؤسنگ اسکیموں نے اس زمین کی بنیاد پر دھڑا دھڑ فائلیں بیچنا شروع کر دیں۔ حبیب رفیق گروپ نے رنگ روڈ میں مورت انٹرچینج ڈال کر اسمارٹ سٹی کو بوسٹ دیا اور اپنی سیل میں اضافہ کر لیا‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم میں کمشنر کیپٹن محمود بے نامی حصے دار ہیں‘ رنگ روڈ سے اس کو بھی بوسٹ ملا اور اس کے مالکان بھی اربوں روپے کھا گئے‘ بلیو ورلڈ سوسائٹی نے بھی بوسٹ لی اور اسلام آباد کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی (ICHS) بھی پیچھے نہ رہی‘ رپورٹ میں میجر جنرل ریٹائرڈ سلیم اسحاق‘ کرنل ریٹائرڈ عاصم ابراہیم پراچہ اور کرنل ریٹائرڈ مسعود کا نام بھی شامل ہے‘ اتحاد ہاؤسنگ سوسائٹی‘ میاں شہباز شریف کے سابق پرنسپل سیکریٹری توقیر شاہ اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ذلفی بخاری کے رشتے داروں کی زمینوں کا ذکر بھی ہے۔

یہ لوگ پسوال زگ زیگ کے بینی فشریز ہیں‘ یہ انکشاف بھی کیا گیا کمشنر کیپٹن (ر) محمد محمود نے گریڈ 17 کے افسر وسیم علی تابش کو غیرقانونی طور پر اٹک میں پوسٹ کیا‘ اسے رنگ روڈ کے لیے زمینیں خریدنے کی ذمے داری سونپ دی اور اس نے پانچ ارب روپے کی لینڈ ایکوزیشن کر دی۔ رپورٹ میں قرطبہ سٹی اور کمشنر کیپٹن محمود کے دو بھائیوں کا ذکر بھی ہے‘ یہ ہاؤسنگ سوسائٹیز میں پارٹنر بھی تھے اور بے نامی دار بھی‘ وسیم علی تابش بھی ٹاپ سٹی کے مالک کے دوست اور رشتے دار ہیں‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی رنگ روڈ میں تبدیلی کا سب سے بڑا ’’بینی فشری‘‘ تھا‘ کمشنر نے رپورٹ کے آخر میں درخواست کی نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے نوا سٹی‘ نیو ائیرپورٹ سوسائٹی‘ بلیو ورلڈ سٹی‘ اتحاد سٹی‘ میاں رشیدہ گاؤں میں موجود 300 بے نامی زمینوں‘ گاؤں تھالیاں میں 200 کنال بے نامی زمین‘ جاندو اور چھوکر گاؤں میں ملٹی پروفیشنل ہاؤسنگ اسکیم کی زمین‘ گاؤں راما میں لائف ریزیڈینشیا‘ اڈیالہ روڈ پر موجود روڈن انکلیو‘ ایس اے ایس ڈویلپرز‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی اور ٹاپ سٹی کے خلاف تحقیقات کی جائیں جب کہ کمشنر راولپنڈی کیپٹن (ر) محمد محمود سمیت اسکینڈل میں ملوث تمام سرکاری افسروں کو نوکری سے فارغ کیا جائے اور ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے۔

مجھے کل دوپہر پتا چلا ملزمان کے خلاف خفیہ تحقیقات شروع ہو چکی ہیں‘ نوا سٹی کے مالک جنید چوہدری کے دو وفاقی وزراء اور وزیراعظم کے اسپیشل اسسٹنٹ سے روابط بھی نکل آئے ہیں‘ تحائف کی تفصیلات کا علم بھی ہو چکا ہے‘ نوا سٹی کے ایجنٹوں کے اکاؤنٹس‘ فون ڈیٹا‘ جائیدادوں اور بے نامی پراپرٹیز کی فہرستیں بھی بن رہی ہیں‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی‘ نیو ائیرپورٹ سوسائٹی‘ بلیو ورلڈ‘ اتحاد سٹی اور روڈن کے خلاف بھی ثبوت جمع ہو رہے ہیں اور وزیراعظم نے تمام ملزموں کو گرفتار کرنے اور عوام کی رقم واپس دلوانے کا حکم بھی دے دیا ہے‘ وزیراعظم اور ذلفی بخاری کے تعلقات میں بھی دراڑ آ چکی ہے‘ وزیراعظم ان سے یہ توقع نہیں رکھتے تھے‘ ان کی وزارت کے اندر بھی چند فائلیں کھل رہی ہیں اور وہ انکشافات بھی حیران کن ہوں گے۔ یہ ملک کس طرح چل رہا ہے؟ آپ صرف گلزار حسین کی رپورٹ پڑھ لیں‘ آپ کو مزید کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی‘ آپ ظلم دیکھیے‘ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ مل کر کس طرح فضا بناتے ہیں‘ پورے پورے شہر کاغذوں میں بناتے اور پلاٹوں کی فائلیں بنا کر مہینے میں اربوں روپے جمع کر لیتے ہیں اور عوام سستے پلاٹوں اور گھروں کے لالچ میں اپنی عمر بھر کی کمائی سے محروم ہو جاتے ہیں‘ یہ کیسے لوگ ہیں؟ کیا ان کے دل رحم سے بالکل خالی ہو چکے ہیں؟ عمران خان سچ کہتے ہیں اس ملک میں مافیاز کی حکومت ہے اور یہ مافیاز ہر حکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیتے ہیں۔

جاوید چوہدری 

بشکریہ ایکسپریس نیوز

چین نے کورونا کو کیسے پسپا کیا؟

$
0
0

حرف و دانش حیرت زدہ ہیں۔ سائنس ٹیکنالوجی نے انگلیاں دانتوں میں دبا رکھی ہیں۔ سب سے زیادہ آبادی والے ملک اور جہاں کووڈ 19 کی عالمگیر وبا نے پہلا وار کیا۔ وہیں اس وبا کو صرف تین ماہ میں کیسے پسپا کر دیا گیا۔ امریکہ انڈیا جیسے ممالک اگر اس ہلاکت خیز وبا کے مقابلے میں یہی کامیابی حاصل کرتے تو ڈھول بجا رہے ہوتے۔ چین نے اس پر کسی تکبر اور تفاخر کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ امریکہ میں اب تک پانچ لاکھ ستاسی ہزار شہری اسی وبا سے ہلاک ہو چکے میں۔ یہ وہی امریکہ ہے جو کسی ملک میں اپنے ایک شہری کی ہلاکت پر میزائلوں کی بارش کر دیتا ہے۔ انڈیا جو اس علاقے کی سپر طاقت بننا چاہتا ہے جو امریکہ اور یورپ کو چین کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی پیشکش کرتا ہے ۔ وہاں دو لاکھ اکیانوے ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔ چین میں صرف 4636 اموات ہوئیں۔ 31 دسمبر 2019 کو ووہان میں یہ وبا پھوٹی۔ چین نے اپنی جامع حکمت عملی ۔ تیز رفتار اقدامات سے مارچ 2020 تک وبا کو اپنے شکنجے میں کس لیا تھا۔ نئے متاثرین آنا بند ہو گئے تھے۔

ماضی کے گراں خواب افیمی چینیوں نے قدیم و جدید کے امتزاج سے کورونا کی یلغار روکی۔ قدیم ترین طریقہ سختی۔ ڈسپلن اور جدید ترین طریقہ ٹیکنالوجی۔ نام نہاد انسانی حقوق۔ پارلیمنٹ۔ جمہوریت کے دُم چھلوں پر انسانی جان کی بقا کو اہمیت دی۔ صرف اور صرف انسان کو بچایا۔ چین کی 96 فیصد سے زیادہ شرح خواندگی رکھنے والی قوم نے اپنی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا۔ انہیں بھی اپنی ۔ اپنے پیاروں کی جان ۔ آزادیٔ اظہار۔ اور آزادیٔ اجتماع سے زیادہ عزیز تھی۔ عین اس وقت جب یورپ کی جمہوریتوں میں انسان بڑی تعداد میں دم توڑ رہے تھے۔ صحت کے نظام ریت کی دیواریں ثابت ہو رہے تھے۔ اس وقت چین نے ایک ذمہ دار جدید سوچ رکھنے والے معاشرے کا مظاہرہ کیا۔ چین 2003 میں سارس severe acute respiratory syndrome سانس لینے میں شدید مشکل حالت کی وبا کا سامنا کرتے ہوئے اپنی سات سو سے زیادہ قیمتی جانوں کا نقصان برداشت کر چکا تھا۔ اس لیے اب وہ کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں تھا۔ ووہان میں پہلی متاثرہ مریض 57 سالہ جھینگا فروش خاتون وی گوئیکسیان کے کورونا پوزیٹو آنے کے بعد ہی پوری چینی حکومت حرکت میں آگئی۔ 

سارس سے سیکھے ہوئے اسباق کو فوری نافذ کر دیا گیا۔ اس نئی بیماری کی مکمل تشخیص اور تحقیق سے پہلے ہی۔ مریضوں کو قرنطینہ کی اور عام لوگوں میں سماجی فاصلے کی پابندی کروائی گئی۔ سب سے سخت اقدام اس پابندی پر عملدرآمد تھا۔ 1۔ پہلا قدم سرکاری محکموں میں ہنگامی حالت کا اعلان۔ 2۔ متاثرہ آبادیوں اور شہروں میں مکمل لاک ڈائون۔ 3۔ ملک گیر میڈیکل تحریک۔ 4۔ میڈیکل برادری اور دوا ساز کمپنیوں کی مالی اعانت اور ان کے لیے ترجیحی پالیسیاں۔ 5۔ احتیاطی تدابیر۔ اطلاعات کو ہر چینی تک پہنچانے کی جامع پالیسی۔ ان پانچوں بنیادی اقدامات پر عملدرآمد کا ہر لمحہ جائزہ لینے کے لیے ہر شہر ہر محلے میں ٹاسک فورسز ۔ بلدیاتی اداروں سے بھرپور کام لیا گیا۔ آن لائن اشیا فراہم کرنے والے ہرکاروں کو حکومت نے اپنی رضا کار فورس میں شامل کر لیا۔ ووہان میں ہر بلڈنگ۔ ہر سرکاری دفتر کے باہر ایمرجنسی ٹینٹ۔ ٹیکنالوجی کا ہر قدم استعمال کسی شہری میں اگر کوئی علامت پائی گئی تو اسے گھر یا دفتر نہیں جانے دیا گیا۔ اسپتال لے جا کر اس کے ٹیسٹ کیے گئے۔ ووہان میں پورے ملک سے ماہرین اور معالجین کو بلا کر تحقیق۔ تشخیص اور علاج پر مامور کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی دوا ساز کمپنیوں کو ویکسین کے لیے تحقیق اور تیاری پر لگا دیا گیا۔ 

بیان بازی۔ جوابی بیان بازی نہیں تھی۔ سرخ فیتہ نہیں تھا۔ ریڈیو پاکستان کے زبیر بشیر اس وقت ریڈیو بیجنگ سے وابستہ ہیں۔ ان کے مطابق چین کی 87 سالہ نائب وزیر اعظم کو ووہان میں ان سب اقدامات کا انچارج بنا کر سب اختیارات دے دیے گئے۔ کسی بھی ایکشن کے لیے دو گھنٹے سے زیادہ کا وقت نہیں تھا۔ اس میں تاخیر قابلِ گردن زدنی تھی۔ ضرورت کی ہر چیز دوسرے صوبوں سے چارٹرڈ طیاروں کے ذریعے پہنچائی جارہی تھی۔ ووہان کو چینی حکومت نے ایک تجربہ گاہ سمجھا۔ تاکہ دوسرے صوبوں تک یہ وبا نہ پہنچے۔ اگر ضرورت پڑتی تو طے شدہ ہدایات میں فوری طور پر تبدیلی لائی جاسکتی تھی۔ پورے ملک میں رضا کار و کمیونسٹ پارٹی کے ارکان بھی الرٹ کر دیے گئے۔ بیماریوں سے مزاحمت پر تحقیق کرنے والے اداروں کے لئے چین کے شعبۂ ریسرچ فنڈنگ اور وسائل نے فوری طور پر فنڈز بڑھا دیے۔ بینکوں کو بھی اس سلسلے میں فوری ہدایات دے دی گئیں۔ 

میڈیا کو بھی اسی روشنی میں اپنی نشریات کرنے کی ہدایت دی گئی۔ درآمد برآمد۔ صنعت و تجارت سارے محکمے اب نئی ہنگامی حالت کے مطابق کام کر رہے تھے۔ ہدف تھا۔ کووڈ 19کو روکنا۔ ٹرانسپورٹ پالیسی ۔ زمینی۔ فضائی۔ بحری بھی سب اس مطابقت میں ترتیب دی گئی۔ مارچ 2020ء میں جب نئے متاثرین کی خبریں آنا بند ہوگئیں تو لاک ڈائون میں نرمی کا سوچا گیا۔ پہلے مرحلے میں ہی پبلک ٹرانسپورٹ نہیں کھولی گئی۔ پہلے اپنی گاڑیاں خود چلانے والوں کو باہر نکلنے کی اجازت دی گئی۔ ٹرانسپورٹ کے منظر نامے پھر کسی وقت تفصیل سے لکھیں گے۔ کیونکہ یہی پالیسی دوسرے صوبوں تک وبا کے روکنے میں نتیجہ خیز رہی ہے۔ اس لیے اس کا مطالعہ الگ سے ہونا چاہئے۔ اب ہماری رگوں میں چین کی جو ویکسین دوڑ رہی ہے اس کے لیے اسی وقت حکم دے دیا گیا تھا ۔ اس کی تیاری جولائی 2020 میں شروع ہو گئی۔ سب اپنا اپنا کام کرتے تھے۔ 

ہمارے وزیروں کی طرح ٹاک شوز میں آنے یا ٹوئٹ کرنے کے شوقین نہیں تھے۔ ویکسین کے لیے ساری چینی قوم رضا مند ہے۔ اپنی رجسٹریشن کروا چکی ہے۔ 20 کروڑ سے زیادہ چینی ویکسین کی خوراکیں لے چکے ہیں۔ معیشت کے ذمہ داروں نے اپنی نظر معیشت پر رکھی۔ 2020 میں وبا کی وجہ سے جی ڈی پی کی شرح 2.3 فی صد پر چلی گئی تھی۔ اب وہ واپس آرہی ہے۔ جلد ہی 8.4 فی صد کا ہدف حاصل کرنے کا امکان ہے۔ صحت عامہ کے لیے بجٹ 2019 میں 6.64 فی صد تھا۔ 2020 میں زوال کے باوجود 6.43 فیصد رکھا گیا۔ سخت ڈسپلن کا قدیم نسخہ ہی سب سے زیادہ کامیاب رہا۔ سماجی فاصلوں اور تنہائی کی صورت میں خوراک اور اشیائے ضروریہ کی فراہمی کے لیے آن لائن ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھایا گیا۔ چین کے لوگ 70 فیصد سے زیادہ آن لائن چیزیں منگواتے ہیں۔ اسپتالوں میں انسانوں کی جگہ روبوٹ استعمال ہو رہے ہیں۔ Cloud mind کمپنی روبوٹ تیار کررہی ہے۔ 100 سے زیادہ روبوٹ اس خدمت میں مصروف ہیں۔ Little Peanut۔ ننھی مونگ پھلی نامی روبوٹ مریضوں کو کھانا دیتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی اس طلسمی دنیا کے بارے میں بھی کہانیاں پھر کبھی سہی۔

محمود شام

بشکریہ روزنامہ جنگ

جہانگیر ترین کا گروپ

$
0
0

جہانگیر خان ترین کے گروپ نے تہلکہ مچایا ہوا ہے۔ ہر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ اس گروپ نے اتنی تیزی سے اتنی اہمیت کیسے اختیار کی؟ جہانگیر ترین تاحیات نااہل ہو کر عملی سیاست سے علیحدہ ہو چکے ہیں۔ ہاں اگر آرٹیکل 62، 63 مستقبل میں کبھی آئین سے نکال دیا جائے اور ثاقب نثار جیسے کوئی منصف کسی آئینی شق کو استعمال کر کے ان کو یہ حق واپس دلوا دیں تو علیحدہ بات ہے۔ مگر فی الحال جہانگیر خان ترین سیاسی میدان سے باہر ہیں اور ان کی تمام تر دولت اپنے حلقے میں ایک یونین کونسل کا الیکشن جتوانے کے لیے بھی ناکافی ہے۔ ایسے میں کائیاں سیاست دانوں کا ان کے ساتھ چپک جانا، ان کے حق میں کھڑے ہو جانا اور عمران خان پر ایسی تنقید کرنا کہ دشمن بھی کانوں کو ہاتھ لگائے یقیناً ایک پہیلی سے کم نہیں۔ جہانگیر خان ترین گروپ کے بننے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ کچھ اہم اور مرکزی، کچھ ضمنی اور نسبتاً کم اہم۔ 

مگر سب نے مل کر نتیجہ ایک ہی نکالا ہے اور وہ یہ کہ وزیر اعظم عمران خان جیسے سخت گیر کپتان جو اپنی قیادت کے سائے میں اپنی مرضی کے بغیر گھاس بھی نہیں اگنے دیتے، اپنے سامنے اپنے کھلاڑیوں کی بغاوت اور ان کے پرانے دوست اور مہربان کے ہاتھ پر بعیت ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عثمان بزدار کو پنجاب میں رکھا اس لیے گیا تھا کہ ان جیسا وزیر اعلیٰ پنجاب جیسے بڑے صوبے کو مرکز کی ہدایت، مرضی اور حکم کے بغیر نہ چلا سکے اور اس طرح پنجاب سے پارٹی کے اندر مرکزی قیادت کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ اگر کوئی پنجاب صحیح چلانے لگے تو اسلام آباد کو سنبھالنا کون سا مشکل کام ہو گا۔ لہٰذا پنجاب میں کمزور وزیر اعلیٰ اسلام آباد میں مضبوط اور بااعتماد وزیر اعظم کی ضمانت ہے۔ یہ فارمولہ لاگو کرنے والے یہ بھول گئے کہ پنجاب کی کمزوری اس سیاسی بنیاد کو ہی ہلا سکتی ہے جس پر پارٹی طاقت میں رہنے کے لیے تکیہ کرتی ہے۔ 

اگر ممبران صوبائی اسمبلی اپنے چیف منسٹر کو اپنی سیاست کے لیے ایک بحران کے طور پر دیکھیں تو ان کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی راستہ موجود نہیں۔ اسلام آباد میں قد آور سینیٹرز اور وزرا کو سفارشیں کر کے وقت ملتا ہے۔ دور دراز کے صوبائی اسمبلی کے نمائندگان کو کون پوچھے گا؟ جہانگیر خان ترین کے ساتھ کھڑے ہونے والے بیشتر لوگ وہ ہیں جو پنجاب میں ترقیاتی کاموں سے جڑی ہوئی حکمرانی کے بکھرے ہوئے شیرازے میں بری طرح زخمی ہوئے ہیں۔ عثمان بزدار پنجاب جیسے مشکل اور حساس صوبے کے سیاسی جذبات کو کسی طور سنبھال نہیں پائے۔ اوپر سے عوامی جذبات ہر گاؤں، قصبے اور حلقے میں ابل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترین گروپ کے اکثر ممبران ٹی وی پروگراموں میں اپنے سیاسی مستقبل کا رونا روتے سنے گئے۔ ان کی سیاست داؤ پر لگی ہے۔ 

تین سال میں پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہو کر انہوں نے جو قربانی دی اب وہ رائیگاں جاتی نظر آ رہی ہے۔ دو سال بعد انتخابات ہیں۔ وہ ووٹر کو کیا منہ دیکھائیں گے؟ حکومتی جماعت ہونے کے باوجود وہ اپنی ناقص کارکردگی کو ن لیگ یا پیپلز پارٹی سے نہیں جوڑ سکتے۔ ان کو پتہ ہے کہ ووٹر اس قسم کی فضول وضاحتیں سن کر تنگ آ گیا ہے۔ پچھلی حکومتوں کو مورد الزام ٹہرانا اپنے سر پر سیاسی جوتے برسوانے کے مترادف ہے۔ اب یہ تمام لوگ جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنی حکومت کو کوستے ہوئے اپنی ساکھ برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اس دباؤ کی وجہ سے عثمان بزدار کی نیند بھی کھل گئی ہے اور اس طرح یہ گروپ اپنے لیے کچھ خصوصی مراعات بھی حاصل کر پائے گا۔ اس گروپ کے بننے کی دوسری وجہ پنجاب کے حلقوں میں یہ پھیلتا ہوا تصور ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اگلے انتخابات میں طاقت حاصل نہیں کر پائے گی۔ 

یہ تصور حقیقی ہے یا فرضی اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ مگر یہ موجود ضرور ہے۔ حلقوں کے سیاست دان چوراہوں اور چوپالوں میں ہونے والی بحث کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کو یہی فکر لاحق ہے کہ اگلا الیکشن کیسے جیتا جائے۔ اگر وہ پی ٹی آئی کے مستقبل کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں تو ان کے پاس یا ن لیگ کی آپشن موجود ہے اور یا پھر پیپلز پارٹی۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا مستقبل پی ٹی آئی سے بھی زیادہ مشکوک ہے۔ ن لیگ کے اپنے حلقے بھرے ہوئے ہیں۔ آپشنز کی تلاش میں مصروف حلقے کے سیاست دان جہانگیر ترین کے ساتھ نتھی ہو کر خود کو یہ اعتماد دینا چاہتے ہیں کہ برا وقت آنے پر وہ کسی ایسے پلیٹ فارم پر کھڑے ہو پائیں گے جہاں سے حکومت کی ناکامیوں کا ریلا ان کو بہا نہ لے جا سکے۔ مگر یہ سب عوامل اپنی جگہ، حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ گروپ جہانگیر ترین کی اپنی کاوش اور مقتدر حلقوں کی مدد کے بغیر جنم نہ لے پاتا۔

جہانگیر ترین نے اپنی سر توڑ کوشش سے وہ سیاسی اثرورسوخ حاصل کیا ہے جو سیاست سے نااہلی کی وجہ سے بے دخلی کا بہترین متبادل ہے۔ انہوں نے اپنے ساتھ ان سیاست دانوں کو ملا کر ایک ایسا دھڑا بنا دیا ہے جس سے سینگ لڑا کر حکومت اور عمران خان صرف نقصان ہی اٹھا سکتے ہیں۔ ظاہر ہے جہانگیر ترین نے یہ سب کچھ دھڑے کے ممبران کے لیے نہیں کیا۔ ان کو معلوم ہے کہ اگر مخصوص قسم کا احتساب ایسے ہی چلتا رہا تو تحریک انصاف میں ان کے خون کے پیاسے ان کا کاروبار اور مستقبل مکمل طور پر تباہ کر دیں گے۔ اس گروپ کی طاقت جہانگیر ترین کی طاقت ہے۔ اگر اس گروپ کے ذریعے جہانگیر خان کے پرانے دوست اس حکومت کی مشکیں کس سکتے ہیں تو سونے پر سہاگہ۔ جہانگیر ترین ایک مالدار شخص ہیں مگر اس وقت ان کا سب سے قیمتی اثاثہ یہ گروپ ہے جو ان کے قریبی ذرائع کے مطابق آئندہ انتخابات تک پھلتا پھولتا رہے گا۔

سید طلعت حسین  

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

ریکوڈک کیس میں پاکستان کی اہم کامیابی

$
0
0

ریکوڈک کے عالمی مقدمے میں دو اہم قومی اثاثوں کی بحالی کا فیصلہ پاکستان کو ملنے والی ایسی اہم کامیابی ہے جس میں ملکی قانونی ٹیم کا کردار کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی میں کئی عالمی مقدمات میں وطن عزیز پر جرمانے عائد کئے جاتے رہے 2006 میں پاکستان اسٹیل کی نجکاری کو کالعدم قرار دینے کے نتیجے میں ملکی معیشت کو اربوں روپے کا بوجھ اٹھانا پڑا اسی طرح 2012 میں ترک کمپنی ’’کارکے‘‘ کا معاہدہ کالعدم قرار دینے پر عالمی مصالحتی ٹریبونل نے پاکستان پر ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر جرمانہ عائد کیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ برٹش ورجن آئی لینڈ ہائیکورٹ نے ریکوڈک کیس میں قومی ایئر لائن پی آئی اے کے اثاثے روز ویلٹ ہوٹل نیو یارک اور اسکرائب ہوٹل پیرس ٹیتھیان کاپر کمپنی کے حق میں ضبط کرنے کا اپنا گزشتہ فیصلہ واپس لیتے ہوئے یہ اثاثے غیر منجمد کر دیے ہیں۔ تاہم عدالت نے پاکستان کے خلاف 6 ارب ڈالرز کا ایوارڈ برقرار رکھا اور دعویدار کمپنی کے پاس اپیل کرنے کا حق بھی موجود ہے۔ 

واضح رہے کہ ریکوڈک تانبے اور سونے کے پانچویں بڑےعالمی ذخیرے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ 2013 میں پاکستان سپریم کورٹ نے ریکوڈک کے حوالے سے بلوچستان حکومت اور غیرملکی مائننگ کمپنی کے مابین معاہدے کو ملکی قوانین کے منافی قرار دیتے ہوئے کالعدم کر دیا تھا جس پر غیر ملکی کمپنی نے عالمی ثالثی ٹریبونل سے رجوع کیا اور عدالت نے معاہدہ منسوخ کرنے پر کمپنی کے حق میں پاکستان کے خلاف 6 ارب ڈالرز کا ایوارڈ دیا اور گزشتہ سال پاکستان کی طرف سے جرمانے کی 25 فیصد رقم مقررہ مدت کے اندر جمع نہ کرانے پر پی آئی اے کے اثاثے منجمد کر نے کا بھی حکم دیا ۔ یہ بات حکومتی سطح پر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عالمی سطح پر کئے گئے معاہدوں کی پاسداری لازم ہوتی ہے اور ان پر عدم عمل درآمد سے مختلف جرمانوں کی صورت خمیازہ بھگتا پڑتا ہے اس لئے کوئی بھی معاہدہ کرتے ہوئے قومی مفاد و دیگر پہلوئوں کو پہلے ہی مدنظر رکھنا چاہئے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

کیا بات ہے سیالکوٹ کی

$
0
0

بین الاقوامی شہرت یافتہ شہر سیالکوٹ ملک کے شمال مشرق میں پاک، بھارت کنٹرول لائن پر واقع ہے یہاں کئی بزرگان دین کے مزارات موجود ہیں جنہوں نے اس خطے میں لاکھوں انسانوں کو کلمۂ توحید پڑھایا۔ بتایا جاتا ہے کہ سیالکوٹ کی بنیاد 5 ہزار سال پہلے راجہ سالبان نامی حکمران نے رکھی تھی جس کی بناء پر اس کا نام سل کوٹ رکھا گیا تھا ہزاروں سال پرانا تاریخی شہر علامہ اقبالؒ، فیض احمد فیض ''پاکستان کا مطلب کیا‘‘ نعرے کے خالق پروفیسر اصغر سودائی کی جنم بھومی ہے۔ سیالکوٹ کو ایکسپورٹ سٹی بھی کہا جاتا ہے یہ کراچی، لاہور کے بعد ملک کا سب سے زیادہ زرمبادلہ کمانے والا شہر ہے ایک اندازے کیمطابق سیالکوٹ کی سالانہ برآمدات اڑھائی ارب ڈالرز سے زیادہ ہیں اور سب سے زیادہ ٹیکسز اور ریونیو دینے والے شہروں میں سیالکوٹ تیسرے یا چوتھے نمبر پر ہے یہاں سٹیٹ بینک کی شاخ بھی قائم ہے۔ 

سیالکوٹ کی انڈسٹری سے نہ صرف قومی معیشت میں قابل قدر اضافہ ہوتا ہے بلکہ ان صنعتوں سے لاکھوں مزدوروں کا روزگار بھی وابستہ ہے۔ سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے زیرانتظام کئی پراجیکٹ مکمل ہو چکے ہیں۔ سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئر پورٹ دنیا بھر میں پرائیویٹ سیکٹر کا واحد ایئر پورٹ ہے جہاں سے دنیا بھر کیلئے پروازیں جاری ہیں ۔ جذبۂ خدمت سے سرشار سیالکوٹ کے صنعتکاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت سڑکوں اور دیگر فلاحی منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کیے جن سے سیالکوٹ کے عوام کیساتھ دیگر اضلاع گجرات جہلم، گوجرانوالہ اور نارووال کے عوام بھی مستفید ہو رہے ہیں۔ دفاع وطن کیلئے بھی سیالکوٹ کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی سب بڑی ٹینکوں کی لڑائی سیالکوٹ میں چونڈہ کے مقام پر لڑی گئی تھی جب بھارت نے ستمبر 1965ء کی جنگ کے دوران رات کی تاریکی میں سیالکوٹ کی سرحد پر 500 ٹینکوں کیساتھ حملہ کر دیا۔ 

پاک فوج کے بہادر شیر جوانوں اور غیور عوام نے قوت ایمانی اور بہادری کے ایسے مظاہرے کیے جس کی دنیا میں مثال ملنا مشکل ہے ہمارے شیر جوانوں نے اپنے جسموں کیساتھ بم باندھے اور بھارتی ٹینکوں کیساتھ ٹکرا گئے اور آن کی آن میں سینکڑوں بھارتی ٹینکوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ۔ سیالکوٹ کی دھرتی پر لڑی جانے والی 17 دنوں کی یہ جنگ بھارت کی کو ہمیشہ یاد رہے گی کہ جس میں ایک نوزائیدہ ملک نے اپنے سے 10 گُنا طاقتور ملک کو ناکوں چنے چبوا دئیے تھے۔ اس جنگ میں پاک فوج اور عوام کی جرأت وبہادری کے اعتراف میں سیالکوٹ کو ہلالِ استقلال کے اعزاز سے نواز گیا تھا۔

چودھری عبدالقیوم

بشکریہ دنیا نیوز


پاکستان کا مستقبل : ایک مضبوط علمی معیشت

$
0
0

پاکستان کا مستقبل اعلیٰ تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی، جدّت طرازی اور کاروباری صلاحیتوں پر مبنی مضبوط علمی معیشت کی ترقی میں مضمر ہے۔ ضروری ہے کہ غیر معیاری زرعی معیشت کے جال سے نکل کر ایک مضبوط علمی معیشت کی طرف گامزن ہوا جائے۔ اس کیلئے ہمیں ایک انتہائی ہنر مند افرادی قوت تشکیل دینےاور ایسی حکمتِ عملی متعارف کرانے کی ضرورت ہے جس سے اس افرادی قوت کی صلاحیتوں کو اعلیٰ ٹیکنالوجی کی حامل مصنوعات کی تیاری اور برآمد کے لئے بڑی صنعتوں کے قیام کے لئے بروئے کار لا یا جا سکے۔ یہی سنگاپور، کوریا اور چین جیسے ممالک کی تیز رفتار ترقی کا راز ہے۔ ہمیں انجینئرنگ مصنوعات، ادویات، بائیو ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، توانائی کے اسٹوریج سسٹم، جدید دھات کاری، پریسیشن مینو فیکچرنگ، مائیکرو الیکٹرونکس، دفاعی مصنوعات، جہاز سازی، آٹو موبائل مینو فیکچرنگ اور اس طرح کی معیاری مصنوعات کی تیاری کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے مگر افسوس کہ پاکستان نے ہمیشہ کم آمدنی والے شعبوں پر ہی توجہ مرکوز کی ہے جس نے ہمیں فی کس آمدنی کے لحاظ سے بہت نچلے درجے پر پہنچا دیا ہے۔ 

علمی معیشت کے لئے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے، بین الضابطہ شعبوں میں کام کرنے اور تقریباً ہر شعبے میں رونما ہونے والی تیز رفتار تبدیلیوں کو تیزی سے اپنانے کی صلاحیتوں کے ساتھ بہترین تکنیکی مہارتوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح کی مہارتیں جو آج کے نئے ڈیجیٹل دور میں مصنوعی ذہانت اور انٹرنیٹ آف تھنگز کاروبار کو تیزی سے تبدیل کر رہی ہیں، خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک علمی معیشت کو چلانے کے لئے چار بنیادی ستونوں کی ضرورت ہوتی ہے، پہلا ستون، ایک ہنر مند اور تعلیم یافتہ افرادی قوت کی دستیابی، ملازمین کا اپنے اپنے شعبوں میں اعلیٰ تربیت یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ، پیچیدہ مسائل حل کرنے اور اپنی صلاحیتوں کو نئے چیلنجوں کے مطابق ڈھالنے کا اہل ہونا ضروری ہے۔ دوسرا ستون جدید معلوماتی اور مواصلاتی ٹیکنا لوجی ذرائع تک رسائی ہے تاکہ تازہ ترین معلومات، نئی پیش رفتوں اور موثر طریقے سے اس کے استعمال کو یقینی بنایا جاسکے۔ 

تیسرا ستون تجارتی اداروں اور صنعتوں کے ساتھ ساتھ ملک میں ایک موثر جدت طرازی کا نظام ہے تاکہ دانشور جو اثاثہ ہوتے ہیں کو محفوظ رکھا جا سکے اور نئے خیالات کو جدید مصنوعات اور عمل میں تبدیل کرنے کے لئے نظام فراہم ہو۔ چوتھا ستون قومی ماحولیاتی نظام کا قیام ہے جس میں جدت طرازی پروان چڑھ سکے۔ اس کے لئے اچھی قیادت، یعنی ماہر وفاقی وزرا ء اور سیکرٹریوں کی ضرورت ہوتی ہے جو یہ ادراک رکھتے ہوں کہ کس طرح علمی معیشت کی طرف بڑھا جا سکتا ہے تاکہ ایک قابل ماحولیاتی نظام قائم کیا جا سکے۔ ایک مضبوط علمی معیشت کی ترقی کی شروعات صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں کی گئی تھی جب سال 2000 میں وفاقی وزیر سائنس کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد میں نے انہیں سائنس اور تعلیم کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے پر راضی کیا بعد ازاں ہائر ایجوکیشن کے بانی چیئرمین کی حیثیت سے میری تقرری کے بعد، بہت بڑی تبدیلیاں رُونما ہوئیں جنہیں اقوامِ متحدہ سمیت متعدد بین الاقوامی اداروں کی طرف سے بے حد سراہا گیا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پروگراموں کا جائزہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے سائنس، ٹیکنالوجی اور ترقی کے چیئرمین پروفیسرمائیکل روڈ نے لیا۔

 انہوں نے متعدد بار پاکستان کا دورہ کیا اور 2008 میں پاکستان کے ایک اخبار میں ایک تفصیلی مضمون لکھا جس میں میری پالیسیوں کی تعریف کی، ایچ ای سی کی قیادت کے طور پر میرا یہ رویہ تھا کہ’’معیار مقدار سے کہیں زیادہ اہم ہے‘‘۔ نیچر، دُنیا کا معروف سائنسی جریدہ ہے، اِس نے چار اداریے تحریر کئے جن میں پاکستان کے اس شعبے میں کئے جانے والے اقدامات کو سراہا گیا۔ دُنیا کی سب سے مشہور سائنسی سوسائٹی، دِی رائل سو سائٹی (لندن) نے ’’اے نیو گولڈن ایج‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں پاکستان کی اعلیٰ تعلیم کی پالیسیوں کودوسرے ترقی پذیر ممالک کے لئے بہترین مثال قرار دیا۔ ہم نے سائنسدانوں کی تنخواہوں کے ڈھانچے میں اہم تبدیلیاں متعارف کروائیں۔ ایک نئے ٹینور ٹریک نظام کے تحت پروفیسروں کی تنخواہوں میں 4 سے 5 گنا اضافہ کیا گیا جو وفاقی وزرا کی تنخواہوں سے چار گنا زیادہ تھا، جامعہ فیکلٹی ممبروں کے گریڈ میں اضافہ کیا گیا اور جامعہ کے اساتذہ کو 75 فیصد ٹیکس میں چھوٹ بھی دی گئی۔ ادبی سرقہ کو روکنے کے لئے ایک سوفٹ وئیر متعارف کروایا گیا جس کے ذریعے تمام تحقیقی مقالوں کی جانچ پڑتال کی جانے لگی۔

 اس طرح کے دیگر اقدامات کی وجہ سے پاکستانی جامعات کی تحقیقی پیداوار میں اتنی بڑی تبدیلی آئی کہ جہاں ہم 2000 میں بین الاقوامی جرائد میں ریسرچ کی اشاعت کے معاملے میں ہندوستان سے 400 فیصد پیچھے تھے، ہم نے 2017 میں ہندوستان کو پیچھے چھوڑ دیا اور 2019 تک ہم ہندوستان سے تقریباً 25 فیصد آگے ہو گئے۔ ہندوستان کے وزیر اعظم کو 22 جولائی 2006 کو میرے اور HEC کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی جس کے بارے میں27 جولائی 2006 کو ہندوستان کے اخبار ہندوستان ٹائمز میں ایک تفصیلی خبر شائع ہوئی جس کی سُرخی تھی ’’ہندوستان کو پاکستان کی سائنس میں ترقی سے خطرہ‘‘۔ موجودہ حکومت نے وزیر اعظم کی زیر صدارت علمی معیشت پر ایک ٹاسک فورس تشکیل دی جس کا، میں وائس چیئرمین ہوں، ایک علمی معیشت کی طرف گامزن سفر جو 2000 میں شروع ہوا تھا دوبارہ شروع ہو چکا ہے۔

ڈاکٹر عطاء الرحمٰن
(کالم نگار سابق وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اورسابق چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن ہیں)

بشکریہ روزنامہ جنگ


ملک ترقی کیوں نہیں کرتا؟

$
0
0

صحافت کہتے کسے ہیں؟ صحافت شہریوں کو باخبر رکھنے کا نام ہے۔ عوام کو روز مرہ واقعات اور مسائل کے پیچھے کارفرما محرکات سے آگاہ کیا جائے۔ سیاست دان کے موقف اور ریاست کی پالیسیوں کے رمز و کنائے واضح کئے جائیں۔ معیشت کی گرہ کشائی کی جائے۔ معلومات کے تجزیے، بحث مباحثے اور حقائق کی چھان پھٹک کے ذریعے شہریوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ جمہوری عمل میں پرکشش نعروں سے گمراہ ہونے کی بجائے ایسے فیصلے کر سکیں جو ان کی زندگیوں کو زیادہ محفوظ اور آسودہ بنا سکیں۔ صحافت اور عملی سیاست میں باریک سی لکیر ہے۔ صحافی انتخابی عزائم نہیں رکھتا، ریاستی منصب کا خواہاں نہیں ہوتا۔ صحافت حتمی تجزیے میں سیاسی عمل کا لازمی جزو ہے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں امریکا کے موقر ترین صحافی والٹر کرونکائٹ نے کہا تھا، ’’صحافت محض جمہوریت کے لئے اہم نہیں، صحافت خود جمہوریت ہی کا دوسرا نام ہے‘‘۔ 

ثبوت یہ کہ تمام غیر جمہوری حکومتیں اور ریاستیں صحافت کو ناپسندیدہ اکائی سمجھتی ہیں۔ ہمارا ملک تو ایسا جنت نظیر نمونہ ہے کہ ہمارے براہ راست آمر بھی صحافت کی آزادی اور جمہوریت کی حمد و ثنا کیا کرتے تھے۔ بس ذرا جمہوریت کے ساتھ کوئی مفید مطلب اسم صفت (بنیادی، اسلامی یا کنٹرولڈ وغیرہ) ٹانک دیتے تھے اور صحافت سے مثبت رپورٹنگ کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے قومی اشاریے ہماری قومی ترجیحات کی توانائی اور صحافت کی آزادی کی گواہی کیوں نہیں دیتے؟ عوام کے معیار زندگی کی درجہ بندی میں ہم 111 ممالک میں 93 نمبر پر ہیں۔ دنیا کے کل 97 ممالک تیسری دنیا میں شمار ہوتے ہیں۔ ہم اس صف میں بھی 84 نمبر پر ہیں۔ اکنامسٹ انٹلیجنس یونٹ نے جمہوری درجہ بندی میں 165 ممالک میں سے ہمیں 105ویں درجے پر رکھا ہے۔ Global Innovation Index نے ہمیں کاروباری اپج اور صلاحیت میں تین درجے گرا کے 107 پر کھڑا کر دیا ہے۔ صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم نے ہمیں آزادی صحافت میں 145ویں زینے پر سرفراز کیا ہے۔ 

شرح خواندگی میں ہم 200 ممالک میں نیچے سے 18ویں درجے پر ہیں۔ صنفی مساوات میں 156 ممالک کی درجہ بندی میں صرف تین ملک ہم سے پیچھے ہیں۔ انصاف تک شفاف رسائی میں 128 ممالک میں ہم 120ویں درجے پر ہیں۔ علاج معالجے تک رسائی میں ہم 195 ممالک میں 154 درجے پر ہیں۔ متوقع عمر، شرح خواندگی نیز نوزائیدہ بچوں اور دوران زچگی ماؤں کی اموات میں جنوبی ایشیا میں افغانستان کے بعد سب سے پیچھے ہیں۔ تاہم ایسا نہیں کہ ہم ہر میدان میں پھسڈی ہیں۔ ایک تو یہ کہ آبادی میں ہم برازیل کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پانچویں نمبر پر آ گئے ہیں۔ 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں میں اسکول سے محروم آبادی میں ہم دوسرے نمبر پر ہیں۔ ایک تیسرا درخشاں اشاریہ بھی یاد آ رہا ہے لیکن اس کا ذکر بوجوہ ممکن نہیں۔ یہ وہ اشاریے ہیں جو دہائیوں کی محنت سے بہتر ہوتے ہیں۔ ہم پیاز ٹماٹر کی قیمت، افراطِ زر، جی ڈی پی کے حجم یا فی کس آمدنی کا ذکر نہیں کر رہے۔

ہم درمیانے درجے کے ممالک میں شمار ہوتے تھے پھر ایسی کیا آفت ٹوٹی؟ ہمارے عوام کو معیار زندگی، تعلیم اور صحت کی بجائے بے معنی نعروں کے تعاقب میں روانہ کیا گیا۔ جب ہم پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ناپسندیدہ اخبار اور جرائد بند کرنے کے درپے ہو رہے تھے، ہماری معیشت رہن رکھی جا رہی تھی۔ جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھی جا رہی تھی، تب پروگریسو پیپرز ضبط کر کے نیشنل پریس ٹرسٹ کے بھونپو نصب کئے جا رہے تھے۔ ستر کی دہائی عالمی معیشت میں بریک تھرو کے برس تھے۔ ہم صحافیوں کو کوڑے مار رہے تھے۔ سرد جنگ کے بعد کمپیوٹر اور انٹرنیٹ دنیا بدل رہے تھے، ہم جمہوریت اور صحافت کی آتما رگید رہے تھے۔ سول سوسائٹی کا گلا گھونٹ رہے تھے۔ ہم نے جدیدیت کی مزاحمت پر کمر باندھ رکھی ہے اور قدم قدم پر جدید دنیا کے محتاج ہیں۔ معاشرتی اقدار میں پسماندگی برقرار رکھتے ہوئے معاشی ترقی چاہتے ہیں۔

ہم نے علم، تحقیق، معیشت، جمہوریت اور روزمرہ اخلاقیات میں قدامت پسندی کی بارودی سرنگیں لگا رکھی ہیں۔ قدامت پسندی وسائل پر اجارے، معاشی بدحالی اور پیوستہ مفادات کے تسلسل کا نسخہ ہے۔ قومی ترقی کے لئے اجتماعی زندگی میں تنوع کے احترام، فیصلہ سازی میں عوام کی شرکت، معاشی مواقع میں مساوات، اختیار کی جوابدہی اور انفرادی آزادیوں کے تحفظ کی ضرورت پڑتی ہے۔ صحافت ملک دشمن نہیں ہوتی اور خامیوں کی نشاندہی غیرملکی ایجنڈا نہیں ہوتا۔ ہم تزویراتی گہرائی سے نکلتے ہیں تو ففتھ جنریشن وار فیئر کی دلدل میں اتر جاتے ہیں۔ ایسا ہی کسی کو سلامتی کی سائنس پر عبور کا غرہ ہے تو پچھلے پانچ برس میں سیکورٹی اسٹڈیز کے کسی بین الاقوامی تحقیقی جریدے سے اس اصطلاح کی تعریف کا حوالہ پیش کر دے۔

وجاہت مسعود 

بشکریہ روزنامہ جنگ

شہباز شریف کا شکوہ اور جواب شکوہ

$
0
0

شہباز شریف کا شکوہ ہے کہ ان کے بھائی اور بعد میں ان کی بھتیجی کی ضد نے پاکستان مسلم لیگ ن کے لیے بطور سیاسی جماعت زمین تنگ کر دی ہے۔ ایک حد تک یہ شکوہ درست ہے۔ میاں محمد نواز شریف کی سیاست اتنے پیچ و خم سے گزری ہے کہ نہ ان کے اعتراض سمجھ میں آتے ہیں اور نہ ہی اعتراف۔ شہباز شریف کیمپ کا یہ کہنا جائز ہے کہ ان کی قیادت کی سیاست کی جڑوں میں کسی انقلاب کا خون نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات کو طے کر کے قافلے کو آگے بڑھانے والے لائحہ عمل نے اسے سینچا ہے۔ یہ اعتراض بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ نواز شریف پاناما کیس میں خود سے چل کر اس جکڑ کا شکار ہوئے جس نے ان کو طاقت، سیاست اور ملک سے جلاوطن کرنے کا ماحول بنایا۔ اس بات میں بھی وزن ہے کہ مریم نواز ہر وقت تلوار اٹھا کر جو سیاسی خونریزی کرتی ہیں اس کے نتائج شہباز شریف کو بھی بھگتنے پڑے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا کچھ غصہ مریم اور نواز شریف پر نکلا مگر زیادہ متاثر شہباز شریف ہوئے۔

نواز شریف کی اولاد کے بر عکس ان کے کاروبار پاکستان میں ہیں جہاں پر ریاستی اداروں کا زور زیادہ چلتا ہے، لہذا شہباز شریف کی بازو مریم نواز کی سیاست کی وجہ سے زیادہ مروڑی گئی۔ اس اعتراض کا جواب دینا بھی مشکل ہے کہ نواز شریف موجودہ پالیسی کو کب تک چلا پائیں گے۔ وہ کون سی منزل ہے جو اپنے جنگجوانہ رویے سے قریب آتی نظر آ رہی ہے۔ تین سال سے مسلسل جھگڑے نے اسٹیبلشمنٹ کی آنے والی قیادت کو بھی جماعت کے بارے میں شکوک میں مبتلا کر دیا ہے۔ جو مسائل اب کھڑے کیے گئے ہیں وہ موجودہ قیادت کے جانے سے حل نہیں ہوں گے۔ آنے والے پچھلے چار سال کی تاریخ سے ہونے والی ذہن سازی کے ماتحت رہیں گے۔ وقت گزرتا جائے گا، لڑائی جاری رہے گی۔ نہ کوئی نتیجہ نکلے گا، نہ فائدہ ہو گا۔ خدا بھی نہ ملے گا، صنم بھی ناراض ہو گا۔ ایسے میں لائحہ عمل کو تبدیل کرنا ناگزیر ہے۔

مگر ہر شکوے کا جواب بھی ہوتا ہے۔ اس کو سنیئے تو محسوس ہو گا کہ شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ سے دوستی کرنے کے بارے میں اس سے کہیں زیادہ ذہنی دھند کا شکار ہیں جو نواز شریف کی مزاحمتی پالیسی پر چھائی ہوئی ہے۔ یہ فرق ضرور ہے کہ مزاحمت و اعتراض کرنے والے اپنے ضمیر کو مطمئن کر سکتے ہیں کیوں کہ وہ آئین، قانون اور تاریخ کے فیصلوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایسی تسلی شہباز شریف کے یہاں نہیں پائی جاتی۔ جواب شکوہ کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ مفاہمت کا اگلا قدم کیا ہو گا اور یہ کیسے حاصل کی جائے گی؟ جنرل قمر باجوہ اور جنرل فیض حمید جاتی عمرا تو نہیں جائیں گے۔ نہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے بیٹھ کر نیا سیاسی معاہدہ طے کریں گے۔ وہ میز کہاں پر سجے گی جس پر بیٹھ کر شہباز شریف اپنے مفاہمتی فارمولے کو اسٹیبلشمنٹ کے بڑوں کے سامنے رکھیں گے؟ پھر یہ ٹیبل کتنی وسیع ہو گی؟ 

اس پر عمران خان کی جماعت کی کرسی دونوں جنرل صاحبان کے درمیان میں رکھی ہوگی، دائیں ہو گی، بائیں ہو گی، اونچی ہو گی یا وہ سب کے ساتھ بیٹھیں گے؟ اور اگر وہ سب کے ساتھ بیٹھیں گے تو کیا ضمانت ہے کہ وہ میز کو الٹانے سے پہلے اس پر پڑی چیزوں سے شریف خاندان، بھٹو خاندان اور فضل الرحمان پر تاک تاک کر نشانے نہیں لگائیں گے؟ اس کی وضاحت کوئی نہیں کرتا کہ وہ کون سا عمل ہے، جس کے ذریعے سیاسی کھیل کے نئے قوائد وضع ہوں گے؟ اور پھر ایجنڈا آئٹم کیا ہوں گے؟ کیا شہباز شریف فوج اور انٹیلی جنس کے سربراہان کو بتائیں گے کہ خارجہ اور دفاعی امور کا کتنا حصہ راولپنڈی اور آبپارہ میں طے ہونا ہے اور کتنا وزیراعظم ہاؤس میں؟ معیشت میں سے فوج کو مستقل بنیادوں پر کتنے پیسے مختص ہونے ہیں اور کتنے عوام کے لیے رکھنے ہیں؟ مہینے میں کتنے سیاست دان فوجی سربراہ سے مل سکتے ہیں اور کیا کور کمانڈر کو سیاست دانوں سے ملنے کی اجازت ہو گی؟ 

جج صاحبان کو فیصلوں کی آزادی ہے یا نہیں؟ ذرائع ابلاغ اور اس کے مالکان کتنی ہدایات لے سکتے ہیں اور کہاں سے؟ کیا صرف آئی ایس پی آر کی سننی ہے یا وزارت اطلاعات کی بھی؟ کون سے صحافی ڈنڈے سے سدھارے جائیں اور کون سے وٹس ایپ پیغامات کے ذریعے؟ سیاست دانوں کے خلاف موجودہ مقدمات کس نے اور کیسے واپس لینے ہیں؟ کیا یہ مفاہمت کے نکات ہوں گے؟ کیا سب کچھ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہو گا؟ یا کسی پردے کے پیچھے خاموش نشست ہو گی؟ یہ مفاہمت ہوگی کیسے؟ یہ بتائے بغیر اس کی رٹ لگا کر خواہ مخواہ کی سیاسی کنفیوژن پیدا کی جا رہی ہے۔ شہباز شریف یا تو مفاہمت کے خدوخال بیان کر دیں اور اس کے طریقہ کار پر روشنی ڈالیں اور یا پھر اس کے بارے میں بات کرنا چھوڑ دیں۔ دوسرا نکتہ شہباز شریف کی اپنی سیاست سے متعلق ہے۔ ان پر بننے والے مقدمات کا تعلق نواز شریف کی پالیسی سے نہیں۔ ان کی اپنی حکومت کے منصوبے اور ان کے خاندان کے کاروبار سے ہے۔ 

اس پر کوئی یقین نہیں کرتا کہ شہباز شریف نواز شریف کے مبینہ سخت بیانات کی وجہ سے زیر عتاب ہیں۔ ان کا بڑا بھائی اگر مسلسل چپ کا روزہ بھی رکھ لیتا تب بھی شہباز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف مقدمات بننے ہی تھے۔ مسئلہ پنجاب کی سیاست سے ہے۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے شہباز شریف اس جماعت کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں جو پنجاب میں ایک بڑا ووٹ بینک رکھتی ہے۔ اگر وہ بلوچستان یا خیبر پختونخوا میں کسی جماعت کے نمائندے ہوتے تو جو من میں آتے کرتے، کوئی کچھ نہ پوچھتا۔ بغیر پرمٹ کی گاڑیاں لاتے، نقلی سیگریٹ بیچتے یا شہد کا کاروبار کرتے، سب کچھ جائز تصور ہوتا۔ مگر چونکہ پنجاب میں سیاسی جڑیں رکھتے ہیں لہذا ان کے غم کم نہیں ہو سکتے۔ عمران خان کا احتساب اور اسٹیبلشمنٹ کا ڈنڈا ن لیگ کی پنجاب میں سیاست کو بظاہر لگام ڈالنے کے لیے ہے، جس کے بغیر پاکستان میں سیاسی تجربہ گاہ نہیں چل سکتی۔

اور پھر آخر میں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ شہباز شریف مفاہمت کی بات اپنی ذاتی سیاست اور کاروبار کے زاویے سے کرتے ہیں۔ وہ بےشک اپنے پالیسی کے عمومی فائدے گنواتے رہیں لیکن یہ واضح ہے کہ وہ ہاتھ ملا کر اپنے لیے سہولت مہیا کروانا چاہتے ہیں۔ یہ کوئی قابل اعتراض فعل نہیں ہے۔ کسی کو بھی بغیر جرم کے معاشی و سیاسی و ذہنی و کاروباری تکلیف میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے بچاؤ کا حق سب کا ہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ شہباز شریف نے مفاہمت بھی کی اور جیل بھی کاٹی۔ فی الحال نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے۔ یہاں سے وہ کدھر جائیں گے؟ اس کے بعد وہ کیا ایسا کریں گے جو انہوں نے پہلے نہیں کیا؟ اور جس کے باوجود ان کے ساتھ وہ سب کچھ ہوا جو مزاحمت اور اعتراض کرنے والوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ مفاہمت، جواب شکوہ کی روشنی میں ایک مضحکہ خیز اصطلاح ہے۔ ایک بے سروپا کہانی ہے بیچارگی کی اور بس۔

سید طلعت حسین  

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

’پاک ویک‘ ویکسین : پاکستان میں تیار کردہ کورونا ویکسین

$
0
0

قومی ادارہ صحت کی جانب سے دوست ملک چین کی مدد سے کورونا ویکسین مقامی طور پر تیار کئے جانے کی خبر نہایت حوصلہ افزا ہے اس سے جہاں مکمل تیار کورونا ویکسین کی درآمد پر آنے والی لاگت میں کمی آئے گی وہیں ملکی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر ویکسین کی تیاری بھی ممکن ہو سکے گی۔ پاکستان میں تیار کردہ کورونا ویکسین ’’پاک ویک‘‘ کے نام سے متعارف کرائی گئی ہے، پہلے مرحلے میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں چینی خام مال سے چینی ماہرین کی زیر نگرانی ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد خوراکیں تیار کی گئیں جبکہ کورونا ویکسین کی دوسری کھیپ رواں ماہ تیار کرنے کیلئے انتظامات کو حتمی شکل بھی دے دی گئی ہے جس کیلئے 10 لاکھ ڈوز کا خام مال رواں ہفتے آئے گا جو چینی کمپنی کین سائنو فراہم کرے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ مذکورہ کمپنی 10 لاکھ تیار ڈوزز بھی فراہم کرے گی۔ اچھی بات یہ ہے کہ دوسری کھیپ مکمل طور پر پاکستانی ماہرین تیار کریں گے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں صحت کے اعلیٰ ماہرین کی تو کوئی کمی نہیں البتہ وسائل کی کمی اور حکومتی عدم توجہی آڑے آتی ہے اور اگر حکومتی سرپرستی حاصل ہو تو ملکی ماہرین مکمل طور پر کورونا ویکسین مقامی طور پر تیار کر سکتے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عالمی وبا کے انسداد کیلئے کورونا ویکسین کا عمل دنیا بھر میں تیزی سے جاری ہے۔ اگرچہ وطن عزیز میں ویکسین کا عمل قدرے تاخیر سے شروع ہوا تاہم دیر آید درست آید کے مصداق اب اس عمل میں تیزی آرہی ہے۔ ملک میں اب تک کورونا وائرس سے بچاؤ کی 76 لاکھ 48 ہزار 481 خوراکیں لگائی جا چکی ہیں جس کے نتیجے میں 2 لاکھ 76 ہزار 600 افراد کی ویکسی نیشن مکمل ہو چکی ہے۔ تاہم ملکی آبادی کو دیکھتے ہوئے اس عمل کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے اسی طرح کورونا وبا سے مکمل بچائو ممکن ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

سیاسی قائدین سے گزارش

$
0
0

مقاصدِ شرعیہ میں ایک ''سَدِّ ذرائع‘‘ ہے، یعنی ایسی حکمتِ عملی اختیار کرنا کہ برائی کا راستہ رک جائے۔ شریعت میں اس کی متعدد مثالیں ہیں؛ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور (اے مسلمانو!) تم مشرکوں کے باطل معبودوں کو برا نہ کہو، ورنہ وہ نادانی اور سرکشی سے اللہ کی شان میں بے ادبی کریں گے‘‘ (الانعام: 108)۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے باطل معبودوں کو برا کہنے سے اس لیے منع نہیں فرمایا کہ وہ تعظیم کے لائق ہیں بلکہ اس لیے منع فرمایا کہ مبادا ان کے پجاری ضد میں آکر اللہ کی شان میں کوئی نازیبا کلمہ کہہ دیں۔ جب حضرت آدم و حوا علیہما السلام کو جنت میں داخل کیا گیا تو انہیں حکم ہوا: ''اس درخت کے قریب نہ جانا، ورنہ تم زیادتی کرنے والوں میں سے ہو جائو گے‘‘ (الاعراف: 19)۔ اس میں براہِ راست درخت کا پھل کھانے سے منع نہیں فرمایا بلکہ قریب جانے سے منع فرمایا کیونکہ جب قریب جائیں گے تو پھل کھانے کی نوبت بھی آ سکتی ہے۔

احادیث مبارکہ میں بھی ایسی ہدایات موجود ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''حلال واضح ہے اور حرام (بھی) واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے، پس جو شخص مشتبہ امور سے بچا، اس نے اپنے دین اور آبرو کو بچا لیا اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہو گیا، وہ اس چرواہے کی طرح ہے، جو ممنوعہ چراگاہ کے اردگرد اپنے مویشی چَراتا ہے، اس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ اس کے مویشی ممنوعہ چراگاہ میں داخل ہو جائیں گے۔ خبردار! ہر بادشاہ کی کچھ ممنوعہ حدود ہوتی ہیں اور اس زمین میں اللہ کی ممنوعہ حدود اس کے محرّمات ہیں۔ خبردار! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جب وہ درست ہو تو پورا جسم درست ہوتا ہے اور جب اس میں خرابی پیدا ہو تو پورا جسم فاسد ہو جاتا ہے، سنو! وہ (گوشت کا لوتھڑا) دل ہے‘‘ (بخاری: 52)۔ پس مشتبہات اور ممنوعہ امور سے بچنا ہی دانش مندی ہے اور اسی میں عزت و آبرو اور دین و دنیا کی فلاح ہے۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی شخص کا اپنے ماں باپ کو گالی دینا ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کی: یارسول اللہﷺ! کیا کوئی ایسا (بدبخت) شخص بھی ہے جو اپنے ماں باپ کو گالی دیتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں! وہ دوسرے شخص کے باپ کو گالی دیتا ہے اور وہ (ردِّعمل میں) اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، وہ دوسرے شخص کی ماں کو گالی دیتا ہے اور وہ (ردِّعمل میں) اس کی ماں کو گالی دیتا ہے‘‘ (مسلم: 90)۔ الغرض دوسرے کے ماں باپ کو گالی دینے والا دراصل اپنے ماں باپ کو گالی دینے کا سبب بنتا ہے، دوسرے کے ماں باپ کی بے عزتی کرنے والا اپنے ماں باپ کی بے توقیری کا سبب بنتا ہے، اگر اس کے ہاتھوں دوسرے کے ماں باپ کی عزت و آبرو پامال نہ ہو تو اس کے ماں باپ کی آبرو بھی سلامت رہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (1) ''یہ اللہ کی (ممنوعہ) حدود ہیں، پس ان کے قریب بھی نہ جائو، اللہ اسی طرح لوگوں کے لیے اپنی نشانیاں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیزگار بن جائیں‘‘ (البقرہ:187)، (2) ''اور عَلانیہ اور پوشیدہ بے حیائیوں کے قریب نہ جائو‘‘ (الانعام: 151)، (3) ''اور بدکاری کے تو قریب بھی نہ جائو، بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے‘‘ (الاسراء: 32)۔ 

رسول اللہﷺ نے فرمایا: (1) ابنِ آدم پر زنا کا حصہ لکھ دیا گیا ہے، جسے وہ لازماً پائے گا، پس آنکھ کا زنا (ہوس بھری نظروں سے) دیکھنا ہے اور جب مرد کی نامَحرم پر نظر پڑتی ہے، تو (نامَحرم سے) منہ پھیر لینے سے (اس کی پاکبازی کی) تصدیق ہوتی ہے اور زبان کا زنا (شہوت انگیز) باتیں کرنا ہے اور دل میں (زنا کی) تحریک پیدا ہوتی ہے اور شرم گاہ (گناہ میں مبتلا ہو کر) کبھی اس کی تصدیق کرتی ہے اور کبھی (گناہ سے بچ کر) اس کی تکذیب کرتی ہے‘‘ (مسند احمد: 8215)، (2) ''جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرم گاہ (کوشریعت کے تابع رکھنے) کی ضمانت دے، میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں‘‘ (بخاری: 6474)۔ اعلانِ نبوت سے پہلے سیلاب کے سبب کعبۃ اللہ کے منہدم ہونے کے بعد قریش نے از سرِ نو اس کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا، رسول اللہﷺ کی عمرِ مبارک اُس وقت پینتیس برس تھی، آپﷺ نے بھی تعمیرِ کعبہ میں حصہ لیا، پھر جب حجرِ اسود کو اپنے مقام پر نصب کرنے کا وقت آیا تو قریش کے سرداروں میں جھگڑا ہونے لگا، وہ کسی ایک کو یہ اعزاز دینے پر آمادہ نہ ہوئے، چنانچہ آپﷺ کو منصف بنایا گیا۔ آپﷺ نے ایک چادر بچھائی، اُس پر حجرِ اسود کو رکھا اور قریش کے تمام قبیلوں کے سرداروں سے فرمایا: اس کا ایک ایک کونا پکڑ کر اسے اٹھائیں اور جب وہ اپنے مقام تک بلند ہو گیا تو آپﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے اُسے اٹھا کر اس کے مقام پر نصب فرما دیا، اس طرح آپﷺ کی قائدانہ بصیرت سے یہ مسئلہ حل ہوا۔ 

قریش نے یہ طے کیا تھا کہ بیت اللہ کی تعمیر پر صرف حلال مال لگایا جائے گا، مگر حلال مال اس قدر جمع نہ ہو سکا تھا کہ بِنائے ابراہیمی کے مطابق بیت اللہ کی عمارت کو مکمل کیا جا سکے، تو انہوں نے شمال کی جانب کم و بیش تین میٹر کا حصہ موجودہ عمارت سے باہر رکھا، اسی کو ''حطیمِ کعبہ‘‘ کہا جاتا ہے، اس میں نماز پڑھنا ایسا ہی ہے جیسے بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنا۔ رسول اللہﷺ کی دلی خواہش تھی کہ کعبۃ اللہ کو دوبارہ بنائے ابراہیمی پر تعمیر کیا جائے، لیکن آپﷺ نے وسائل ہونے کے باوجود دینی حکمت کے تحت اپنی خواہش پر عمل نہیں فرمایا، آپﷺ نے فرمایا: عائشہؓ! اگر تمہاری قوم کا زمانۂ شرک تازہ تازہ نہ ہوتا تو میں کعبۃ اللہ کو منہدم کر کے زمین سے ملا دیتا اور پھر اس کے دو دروازے بناتا؛ ایک مشرقی جانب اور ایک مغربی جانب اور اس میں حِجر (حطیم) کی جانب تقریباً تین گز کا اضافہ کرتا، کیونکہ قریش نے جب کعبہ بنایا تو عمارت کے رقبے میں کچھ کمی کر دی تھی‘‘ (مسلم: 401)۔

قرآن و حدیث اور سیرتِ مصطفیﷺ سے ہم نے یہ مثالیں اس لیے بیان کی ہیں کہ ہمارے سیاسی قائدین ان سے سبق حاصل کریں، کئی سالوں سے ہمارے قائدین کا وتیرہ بن گیا ہے: حزبِ اقتدار والے اپنے مخالفین کو چور، ڈاکو، خائن، غدار اور نجانے کیا کیا کہتے ہیں، اس کے جواب میں اپوزیشن والے اُن پر نااہل، نالائق، کشمیر کا سودا کرنے والے، چینی چور، آٹا چور، پیٹرول، میڈیسن مافیا اور نجانے کیا کیا کہتے ہیں۔ بعض لوگ یہ سب کچھ سن کر کہتے ہیں: ''یہ دونوں سچے ہیں، یہ ایک دوسرے کے بارے میں جو فتوے صادر کرتے ہیں، وہی سچ ہے اور یہ ایسے ہی ہیں جیسے کہ کہا جا رہا ہے‘‘۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی کی بھی عزت محفوظ نہیں ہے۔ عربی کا مقولہ ہے:''جس نے دوسروں کی عزت کی، اُس نے خود اپنے لیے عزت کمائی‘‘۔ احتساب کے لیے گالی گلوچ ضروری نہیں ہے، شفاف، بے لاگ، غیر جانبدار اور نظر آنے والا انصاف ضروری ہے، اس کے لیے ادارے قائم ہیں، اُن کو بیرونی جبر سے آزاد ماحول میں اپنا کام کرنے دیا جائے۔ اس شور وغوغا میں ان اداروں کی حرمت بھی پامال ہو رہی ہے، ایسا تاثر مل رہا ہے کہ وہ حکومتِ وقت کے دبائو میں ہیں اور احتساب یک طرفہ ہو رہا ہے۔

ہمارے ہاں گالی گلوچ کے لیے باقاعدہ فوجِ ظفر موج رکھی گئی ہے، جو میڈیا کے سامنے، ٹاک شوز میں اور سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کی توہین، تذلیل اور تحقیر میں مصروف ہے۔ نئی نسل کے ذہنوں پر اس کے انتہائی منفی اثرات مرتّب ہو رہے ہیں۔ اب یہ اندازِ گفتار اور لب و لہجہ ہمارے نوجوانوں کے روز مرہ کا حصہ بن رہا ہے، اس کا ثبوت سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ وہ لوگ جو قیادت کے منصب پر فائز ہیں، انہیں مدبّر، متین اور بردبار ہونا چاہیے تاکہ لوگ انہیں ان کی خوبیوں سے پہچانیں۔ اندازِ کلام کسی بھی معاشرے کے آداب اور اقدار کا ترجمان ہوتا ہے، انسان اپنی گفتار سے پہچانا جاتا ہے، شرافت اور متانت انسانیت کے محاسن ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا: ''اُس کی نشانیوں میں سے تمہاری بولیوں اور رنگتوں کا مختلف ہونا ہے‘‘ (الروم: 22) نیز فرمایا: ''اور اگر آپ کا رب چاہتا تو سب لوگوں کو ایک امت بنا دیتا مگر لوگ برابر ایک دوسرے سے اختلاف کرتے رہیں گے سوائے اُس کے کہ جن پر تمہارا رب رحم فرمائے‘‘ (ہود: 118)۔

ایک دور تھا کہ ہمارے سیاسی و مذہبی قائدین میں وضع داری اور رواداری قائم تھی، اختلاف کے باوجود وہ مشترکات کے لیے مل بیٹھتے تھے، ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملہ نہیں کرتے تھے، ایک دوسرے کے موقف اور پالیسیوں سے اپنے دلائل کی روشنی میں اختلاف کرتے تھے، مگر اب آغاز ہی ذاتیات سے ہوتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (1) ''مومن لعن طعن کرنے والا، فحش گو اور بدزبان نہیں ہوتا‘‘ (ترمذی: 1977)، (2) ''ایک انسان سوچے سمجھے بغیر کوئی ایسا کلمہ زبان سے کہہ دیتا ہے، وہ کلمہ اس کو جہنم کے اندر اتنی گہرائی تک گرا دیتا ہے جتنا مشرق اور مغرب کے درمیان فاصلہ ہے‘‘ (بخاری: 6477)، (3) ''جو کسی مسلمان کی ایسی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اللہ تعالیٰ اُسے اُس وقت تک ''رَدْغَۃُ الْخَبَال‘‘ میں رکھے گا جب تک کہ اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہو جائے‘‘ (ابودائود: 3597)۔ ''رَدْغَۃُ الْخَبَال‘‘ جہنم کی اُس وادی کو کہتے ہیں جس میں جہنمیوں کا پیپ اور خون جمع ہوتا ہے۔ 

معراج النبی کے موقع پررسول اللہﷺ کا گزر ایک چھوٹے پتھر کے پاس سے ہوا جس سے روشنی نکل رہی تھی، آپﷺ نے دیکھا: اُس سے ایک بیل نکلا، پھر وہ اُسی سوراخ میں واپس داخل ہونا چاہتا ہے مگر داخل نہیں ہو پاتا۔ آپﷺ نے جبریل سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ اُس شخص کی مثال ہے جو سوچے سمجھے بغیر بات کر لیتا ہے، پھر اس پر نادم ہوتا ہے اور اُسے واپس لینا چاہتا ہے، مگر ایسا کر نہیں سکتا‘‘ (دَلَائِلُ النُّبُوَّۃ لِلْبَیْہَقِیْ، ج: 2، ص: 397)۔ پس سیاسی قائدین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے فریقِ مخالف کی نہیں تو اپنی عزت کا پاس رکھیں، ایسا شعار، اندازِ گفتار اور رویہ اختیار نہ کریں کہ ردِّعمل میں ان کی اپنی عزت پامال ہو اور دنیا کو یہ تاثر ملے کہ ہمارے قانون ساز ادارے بے وقعت ہیں، بے توقیر ہیں، باہمی نفرتوں کا مرکز ہیں۔ یہ جس مقصد کے لیے قائم کیے گئے ہیں، اُس کو چھوڑ کر غیر ضروری باتوں میں اپنا اور قوم کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ یہ سطور ہم نے خیر خواہی کے طور پر لکھی ہیں، نہ کسی کی حمایت مقصود ہے اور نہ مخالفت، کیونکہ لوگ پسند کریں یا ناپسند، یہ قوم کے رہنما بنے بیٹھے ہیں۔

مفتی منیب الرحمٰن

بشکریہ دنیا نیوز

Viewing all 4341 articles
Browse latest View live