New Dams Construction in Pakistan
↧
↧
Ansar Abbasi Column on Egypt Crises
↧
بندے کو خدا کیا لکھناBy Habib Jalib
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گُہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہُما کیا لکھنا
اک حشر بپا ہے گھر گھر میں ، دم گُھٹتا ہے گنبدِ بے دَر میں...
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رُسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ورو اس ذلت کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
یہ اہلِ چشم یہ دارا و جَم سب نقش بر آب ہیں اے ہمدم
مٹ جائیں گے سب پروردۂ شب ، اے اہلِ وفا رہ جائیں گے ہم
ہو جاں کا زیاں، پر قاتل کو معصوم ادا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
لوگوں ہی پہ ہم نے جاں واری ، کی ہم نے انہی کی غم خواری
ہوتے ہیں تو ہوں یہ ہاتھ قلم ، شاعر نہ بنیں گے درباری
ابلیس نُما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
حق بات پہ کوڑے اور زنداں ، باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں ، خونخوار درندے ہیں رقصاں
اس ظلم و ستم کو لطف و کرم ، اس دُکھ کو دوا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
ہر شام یہاں شامِ ویراں ، آسیب زدہ رستے گلیاں
جس شہر کی دُھن میں نکلے تھے ، وہ شہر دلِ برباد کہاں
صحرا کو چمن، بَن کو گلشن ، بادل کو رِدا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
اے میرے وطن کے فنکارو! ظلمت پہ نہ اپنا فن وارو
یہ محل سراؤں کے باسی ، قاتل ہیں سبھی اپنے یارو
ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملا ، اس غم کو نیا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء، صَر صَر کو صبا ، بندے کو خدا کیا لکھنالکھناBy Habib Jalib
پتھر کو گُہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہُما کیا لکھنا
اک حشر بپا ہے گھر گھر میں ، دم گُھٹتا ہے گنبدِ بے دَر میں...
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رُسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ورو اس ذلت کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
یہ اہلِ چشم یہ دارا و جَم سب نقش بر آب ہیں اے ہمدم
مٹ جائیں گے سب پروردۂ شب ، اے اہلِ وفا رہ جائیں گے ہم
ہو جاں کا زیاں، پر قاتل کو معصوم ادا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
لوگوں ہی پہ ہم نے جاں واری ، کی ہم نے انہی کی غم خواری
ہوتے ہیں تو ہوں یہ ہاتھ قلم ، شاعر نہ بنیں گے درباری
ابلیس نُما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
حق بات پہ کوڑے اور زنداں ، باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں ، خونخوار درندے ہیں رقصاں
اس ظلم و ستم کو لطف و کرم ، اس دُکھ کو دوا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
ہر شام یہاں شامِ ویراں ، آسیب زدہ رستے گلیاں
جس شہر کی دُھن میں نکلے تھے ، وہ شہر دلِ برباد کہاں
صحرا کو چمن، بَن کو گلشن ، بادل کو رِدا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
اے میرے وطن کے فنکارو! ظلمت پہ نہ اپنا فن وارو
یہ محل سراؤں کے باسی ، قاتل ہیں سبھی اپنے یارو
ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملا ، اس غم کو نیا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء، صَر صَر کو صبا ، بندے کو خدا کیا لکھنالکھناBy Habib Jalib
↧
جنھیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ھوں میں
جنھیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ھوں میں
کہاں گئی وہ نیند کی شراب ڈھونڈتا ھوں میں
مجھے نمک کی کان میں مٹھاس کی تلاش ھے
برہنگی کے شہر میں لباس کی تلاش ھے
وہ برف باریاں ہوئیں کہ پیاس خود ہی بجھھ گئی
میں ساغروں کو کیا کروں کہ پیاس کی تلاش ھے
یہ کتنے پھول شاخچوں پہ مر گئے یہ کیا ھوا
یہ کتنے پھول ٹوٹ کے بکھر گئے یہ کیا ھوا
پڑی وہ تیز روشنی کہ دمک اٹھی روش روش
مگر لہو کے داغ بھی ابھر گئے یہ کیا ھوا
انہیں چھپاوں کسطرح نقاب ڈھونڈتا ھوں میں
↧
Heart Attack First Aid Tips
↧
↧
Pakistan Army Power in Pictures
↧
Pakistan Air Force in Pictures
↧
!!!...............یہ کِس نے کہا تُم کُوچ کرو، باتیں نہ بناؤ اِنشاء جی
↧
افسوس اس قوم پر۔۔۔
↧
↧
Revolutionary Poetry of Habib Jalib
↧
راہِ وفا میں ہر سو کانٹے دھوپ زیادہ سائے کم
راہِ وفا میں ہر سو کانٹے دھوپ زیادہ سائے کم
لیکن اس پر چلنے والے خوش ہی رہے پچھتائے کم
عمر گلوں کی دو دن جس میں یہ بھی قیامت بیت گئی
دستِ ہوس نے نوچے لاکھوں شاخوں پر مرجھائے کم...
آہ یہ ظالم تلخ حقیقت جتنے بھی سفینے غرق ہوئے
اکثر اپنی موج میں ڈوبے طوفاں سے ٹکرائے کم
راہروی کا سب کو دعویٰ سب کو غرورِ عشق و وفا
راہِ وفا پر چلنے والے ہم نے لیکن پائے کم
دھیمی دھیمی چال سے ہم کو راہگذر طے کرنی ہے
ناز تھا جن کو تیز روی پر منزل تک وہ آئے کم
مجھ سے شکایت دنیا بھر کو شدتِ غم میں رونے کی
لیکن مجھ کو اس کا رونا آنکھ میں آنسو آئے کم
صرف یہی ہے ایک طریقہ دنیا میں خوش رہنے کا
دستِ تمنا کھینچے زیادہ دامنِ دل پھیلائے کم
صبر و سکوں کی دنیا لوٹے حسن دکھا کر جلووں کو
عشق مگر خود شب بھر تڑپے اوروں کو تڑ پائے کم
عشق ادب کا نام ہے کیفی یہ بھی ادب میں شامل ہے
جس کی محبت دل میں بسی ہو اس کی گلی میں جا ئے کم
لیکن اس پر چلنے والے خوش ہی رہے پچھتائے کم
عمر گلوں کی دو دن جس میں یہ بھی قیامت بیت گئی
دستِ ہوس نے نوچے لاکھوں شاخوں پر مرجھائے کم...
آہ یہ ظالم تلخ حقیقت جتنے بھی سفینے غرق ہوئے
اکثر اپنی موج میں ڈوبے طوفاں سے ٹکرائے کم
راہروی کا سب کو دعویٰ سب کو غرورِ عشق و وفا
راہِ وفا پر چلنے والے ہم نے لیکن پائے کم
دھیمی دھیمی چال سے ہم کو راہگذر طے کرنی ہے
ناز تھا جن کو تیز روی پر منزل تک وہ آئے کم
مجھ سے شکایت دنیا بھر کو شدتِ غم میں رونے کی
لیکن مجھ کو اس کا رونا آنکھ میں آنسو آئے کم
صرف یہی ہے ایک طریقہ دنیا میں خوش رہنے کا
دستِ تمنا کھینچے زیادہ دامنِ دل پھیلائے کم
صبر و سکوں کی دنیا لوٹے حسن دکھا کر جلووں کو
عشق مگر خود شب بھر تڑپے اوروں کو تڑ پائے کم
عشق ادب کا نام ہے کیفی یہ بھی ادب میں شامل ہے
جس کی محبت دل میں بسی ہو اس کی گلی میں جا ئے کم
↧
picture of Typhoon Haiyan
Typhoon Haiyan seen from the International Space Station: Astronaut Karen Nyberg shared this picture of Typhoon Haiyan early in the morning of Nov. 9, 2013 from the station, some 240 miles above the Earth.
Beginning with the Mercury missions in the early 1960s, astronauts have taken photographs of the Earth. Today, the International Space Station (ISS) continues the NASA tradition of Earth observation from human-tended spacecraft.
Operational since November 2000, the ISS is well suited for documenting Earth features and provides an excellent stage for observing most populated areas of the world. Images coming down from the International Space Station are processed on a daily basis and include over 1.2 million images through Nov. 1, 2013.
Image credit: NASA
#typhoon#haiyan#hurricane#supertyphoon#iss#astronauts#astropix#spacestation#earth#storms#severewx#weather
↧
اللہ کے شیروں کو آتی نھیں روباھی...........علامہ محمد اقبال
علامہ محمد اقبال بھت بڑے دانشور شاعر اور مفکر تھے۔ان کے مشاھدے اور استدلال سے با شعور انسان بھت ذیادہ استفادہ کرتا ھے۔علامہ اقبال کا یہ نظریہ تھا کہ مسلمان کو کسی بھی صورت حق کا دامن نھیں چھوڑنا چاھیے۔انھوں نے ان اسباب کی بھی نشاندھی کی جو انسان کو حق سے دور لے جاتے ھیں۔ان اسباب میں سے بڑا سبب انسان کے مادی مفا دات اور معاشی مجبوریاں ھیں۔ان مجبوریوں کا آغاز اس کے گھر بنانے ھی سے شروع ھو جاتا ھے۔آپ فرماتے ھیںتعمیر آشیاں سے میں نے یہ راز پایااھل نوا کے حق میں بجلی ھے آشیانہآپ مسلمانوں کو ملی غیرت کا سودا کر کے معیشت بھتر بنانے سے روکتے رھے۔آپ کے نزدیک اس رزق سے اجتناب ضروری ھے جو انسان کو حق پرستی سے دور لے جا ےْ۔ اس حوالے سےآپ نے اپنے جذبات کا اظھار بڑے خوبصورت انداز میں کیا ھے۔آپ فرماتے ھیں:اے طایْر لاھوتی اس رزق سے موت اچھیجس رزق سے آتی ھو پرواز میں کوتاھیدارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولٰیٰھو جس کی فقیری میں بو اسداللہی
آیْینِ جوانمردی حق گوْیی و بے باکیاللہ کے شیروں کو آتی نھیں روباھییقینا حکمت اور دانایْ مومن کی گم گشتہ متاع ھے جھاں سے ملے اس کو اپنا لینا چاھیے۔اللہ ھمیں ھمیشہ علم و حکمت کے راستے پر کاربند رکھے آ مین۔
↧
↧
امامت { علامہ اقبال }............(ضرب کلیم)
امامت { علامہ اقبال }تونے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سےحق تجھے میری طرح صاحبِ اَسرار کرےہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحقجو تجھے حاضروموجود سے بیزار کرےموت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رُخِ دوستزندگی تیرے لیے اور بھی دُشوار کرےدے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دےفقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرےفتنہء ملتِ بیضا ہے امامت اس کیجو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے(ضرب کلیم)
Allama Iqbal
↧
خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں؟ …شاہنواز فاروقی
خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں؟ …شاہنواز فاروقی
ایک وقت تھا کہ خاندان ایک مذہبی کائنات تھا۔ ایک تہذیبی واردات تھا۔ محبت کا قلعہ تھا۔ نفسیاتی حصار تھا۔ جذباتی اور سماجی زندگی کی ڈھال تھا… ایک وقت یہ ہے کہ خاندان افراد کا مجموعہ ہے۔ چنانچہ جون ایلیا نے شکایت کی ہے ؎
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
ٹوکنے کا عمل اپنی نہاد میں ایک منفی عمل ہے۔ مگر آدمی کسی کو ٹوکتا بھی اسی وقت ہے جب اُس سے اس کا ’’تعلق‘‘ ہوتا ہے۔ جون ایلیا کی شکایت یہ ہے کہ اب خاندان سے ٹوکنے کا عمل بھی رخصت ہوگیا ہے۔ یہی خاندان کے افراد کا مجموعہ بن جانے کا عمل ہے۔ لیکن خاندان کا یہ ’’نمونہ‘‘ بھی بڑی نعمت ہے۔ اس لیے کہ بہت سی صورتوں میں اب خاندان افراد کا مجموعہ بھی نہیں رہا۔ اسی لیے شاعر نے شکایت کی ہے ؎
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
بعض لوگ اس طرح کی باتوں کو مشترکہ خاندانی نظام کے ٹوٹ جانے کا سانحہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام مشترکہ خاندانی نظام پر نہیں صرف خاندان پر اصرار کرتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹ رہا ہے تو اپنی خرابیوں کی وجہ سے ٹوٹ رہا ہے اور اسے ٹوٹ ہی جانا چاہیے۔ اور اب اگر لوگ الگ گھر بناکر رہ رہے ہیں تو اس میں اعتراض کی کون سی بات ہے! لیکن مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اب کوئی کہیں، کوئی کہیں رہتا ہے، بلکہ یہ ہے کہ جو جہاں بھی رہتا ہے محبت کے ساتھ دوسرے سے نہیں ملنا چاہتا۔ ایک وقت تھا کہ لوگ کسی ضرورت کے تحت خاندان سے سیکڑوں بلکہ ہزاروں میل دور جاکر آباد ہوجاتے تھے، مگر یہ فاصلہ صرف جغرافیائی ہوتا تھا… نفسیاتی، ذہنی اور جذباتی نہیں ہوتا تھا۔ اب لوگ ایک گھر میں رہتے ہیں تو ان کے درمیان ہزاروں میل کا نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی فاصلہ ہوتا ہے… اور یہی فاصلہ اصل خرابی ہے، یہی فاصلہ خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کی علامت ہے، یہی ہمارے عہد کا ایک بڑا انسانی المیہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس المیے کی وجہ کیا ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خاندان اپنی اصل میں ایک مذہبی تصور ہے۔ کائناتی سطح کے مفہوم میں مرد اللہ تعالیٰ کی ذات اور عورت اللہ تعالیٰ کی صفت کا مظہر ہے، چنانچہ شادی کا ادارہ ذات اور صفت کے وصال کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں شادی کی غیرمعمولی اہمیت ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو نصف دین کہا ہے۔ مرد اور عورت کے تعلق کی اسی نوعیت کی وجہ سے اسلام طلاق کو سخت ناپسند کرتا ہے، کیونکہ اس سے انسانی سطح پر ذات اور صفت میں علیحدگی ہوجاتی ہے۔ لیکن مرد اور عورت کے اس تعلق کا مرکز اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اسی ذات نے انسانوں کو ’’جوڑے‘‘ کی صورت میں پیدا کیا۔ اسی ذات نے زوجین کے درمیان محبت پیدا کی۔ اسی ذات نے بچوں کی پیدائش کو عظیم نعمت اور رحمت میں تبدیل کیا اور اسی ذات نے بچوں کی پرورش پر بے پناہ اجر رکھا۔ مذہبی معاشروں میں خاندان کا یہ تصور انسانوں کے شعور میں پوری طرح راسخ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خاندان کا ادارہ لاکھوں یا ہزاروں سال کا سفر طے کرنے کے باوجود بھی نہ صرف یہ کہ باقی اور مستحکم رہا بلکہ اس میں کروڑوں انسان ایک حسن و جمال اور ایک گہری رغبت بھی محسوس کرتے رہے۔ لیکن جیسے ہی خدا انسانوں کے باہمی تعلق سے غائب ہوا خاندان کا ادارہ اضمحلال، انتشار اور انہدام کا شکار ہوگیا۔
مذہب کی وجہ سے خاندان کے ادارے کی ایک تقدیس تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ تھا۔ اس میں کائناتی سطح کی معنویت تھی جس کا کچھ نہ کچھ ابلاغ بہت کم پڑھے لکھے لوگوں تک بھی کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا تھا۔ مذہبی بنیادوں کی وجہ سے خاندان میں ایک برکت تھی اور اس کے ساتھ اجروثواب کے درجنوں تصورات وابستہ تھے۔ لیکن خدا کے تصور کے منہا ہوتے ہی اور مذہب سے رشتہ توڑتے ہی خاندان اچانک صرف ایک حیاتیاتی، سماجی اور معاشی حقیقت بن گیا۔ یعنی انسان محسوس کرنے لگے کہ خاندان انسانی نسل کی بقا اور تسلسل کے لیے ضروری ہے۔ خاندان نہیں ہوگا تو انسانی نسل فنا ہوجائے گی۔ خاندان کے خالص حیاتیاتی تصور نے مرد اور عورت کے باہمی تعلق کو صرف جسمانی تعلق تک محدود کردیا۔ اس تعلق کی اہمیت تو بہت تھی مگر اس میں معنی کا فقدان تھا، اور اس سے کوئی تقدیس وابستہ نہ تھی۔ خدا اور مذہب سے بے نیاز ہوتے ہی انسان کو محسوس ہونے لگا کہ خاندان صرف ہماری سماجی ضرورت ہے۔ انسان ایسی حالت میں پیدا ہوتا ہے کہ اسے طویل عرصے تک ماں باپ اور دوسرے خاندانی رشتوں کی ’’ضرورت‘‘ ہوتی ہے، لیکن ضرورت ایک ’’مجبوری‘‘ اور ایک ’’جبر‘‘ ہے اور اس کی کوئی اخلاقیات نہیں۔ چنانچہ مغربی دنیا میں کروڑوں انسانوں نے اس مجبوری اور جبر کے طوق کو گلے سے اتار پھینکا۔ انسان صرف سماجی نفسیات کا اسیر ہوجاتا ہے تو اس سے ’’معاشی ضرورت‘‘ کے نمودار ہونے میں دیر نہیں لگتی، اور معاشی ضرورت دیکھتے ہی دیکھتے سماجی ضرورت کو بھی ’’ثانوی ضرورت‘‘ بنادیتی ہے۔ خاندان کے ادارے کے حوالے سے یہی ہوا۔ خاندان کے سماجی ضرورت ہونے کے تصور سے معاشی ضرورت کا تصور نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے خاندان کے ادارے کے تشخص کا نمایاں ترین پہلو بن گیا۔
خاندان کے ادارے کے حوالے سے خدا اور مذہب کے بعد سب سے زیادہ اہمیت محبت کے تصور کو حاصل ہے۔ محبت انسانی زندگی میں کتنی اہم ہے اس کا اظہار میر تقی میرؔ نے اس سطح پر کیا ہے جس سے بلند سطح کا تصور ذرا مشکل ہے۔ میرؔ نے کہا ہے ؎
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
میرؔ نے اس شعر میں محبت کو پوری کائنات کی تخلیق کا سبب قرار دیا ہے۔ محبت نہ ہوتی تو یہ کائنات ہی وجود میں نہ آتی۔ محبت کے حوالے سے میرؔ کا ایک اور شعر بے مثال ہے۔ انہوں نے کہا ہے ؎
محبت مسبّب محبت سبب
محبت سے ہوتے ہیں کارِ عجب
محبت کے ’’کارِ عجب‘‘ کرنے کی صلاحیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ہر انسان ایک دوسرے سے مختلف کائنات ہوتا ہے، لیکن محبت شادی کی صورت میں دو کائناتوں کو اس طرح ایک کردیتی ہے کہ ان کے درمیان کوئی تضاد اور کوئی کش مکش باقی نہیں رہتی۔ یہ عمل معجزے سے کم نہیں، مگر محبت نے اس معجزے کو تاریخ و تہذیب کے سفر میں اتنا عام کیا ہے کہ یہ معجزہ کسی کو معجزہ ہی نظر نہیں آتا۔
بچوں کو پالنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اس میں ماں باپ کی شخصیت کی اس طرح نفی ہوتی ہے کہ اس کا بوجھ اٹھانا آسان نہیں۔ بچوں کی پرورش ماں باپ کی نیندیں حرام کردیتی ہے، ان کا آرام چھین لیتی ہے، ان کی ترجیحات کو تبدیل کردیتی ہے۔ لیکن ماں باپ کی محبت ہر قربانی کو سہل کردیتی ہے۔ ماں باپ کے دل میں بچوں کے لیے محبت نہ ہو تو وہ بچوں کو پالنے سے انکار کردیں، یا ان کو ہلاک کر ڈالیں۔ لیکن محبت، بے پناہ مشقت کو بھی خوشگوار بنادیتی ہے اور انسان کو تکلیف میں بھی ’’راحت‘‘ محسوس ہونے لگتی ہے، پریشانی بھی بھلی معلوم ہوتی ہے، قربانی میں بھی بے پناہ لطف کا احساس ہوتا ہے۔ بچوں کو ماں باپ کی محبت کا جو تجربہ ہوتا ہے وہ ان کی شخصیت کو ایسا بنادیتا ہے کہ جب ماں باپ بوڑھے ہوجاتے ہیں تو اکثر بچے اسے لوٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ محبت ہی ہے جو بچوں ہی نہیں بڑوں کو بھی اس لائق بناتی ہے کہ وہ اپنے وقت، خوشیوں اور وسائل میں دوسروں کو شریک کریں۔ لیکن مغرب میں انسان خدا اور مذہب سے دور ہوا تو اس کے دل میں محبت کا کال پڑگیا، اور محبت کے قحط نے والدین کے لیے بچوں اور بچوں کے لیے والدین کو بوجھ بنا دیا۔ یہاں تک کہ شوہر اور بیوی بھی ایک دوسرے کو ایک وقت کے بعد ’’اضافی‘‘ نظر آنے لگے۔ مغرب کا یہ ہولناک تجربہ اب مشرق میں بھی عام ہے، یہاں تک کہ اسلامی معاشرے بھی اس سے محفوظ نہیں۔ اس سلسلے میں اسلامی اور غیر اسلامی معاشروں میں فرق یہ ہے کہ غیر اسلامی معاشروں میں خدا اور مذہب لوگوں کی زندگی سے یکسر خارج ہوچکے ہیں، جبکہ اسلامی معاشروں میں مذہب آج بھی اکثر لوگوں کے لیے ایک زندہ تجربہ ہے۔ البتہ جدید دنیا کے رجحانات کا دبائو اتنا شدید ہے کہ مسلم معاشروں میں بھی مذہب پیش منظر سے پس منظر میں چلا گیا ہے۔ چنانچہ مسلم معاشروں میں بھی خاندان کا ادارہ اضمحلال، انتشار اور انہدام کا شکار ہورہا ہے۔
مادی دنیا حقیقی خدا کے انکار تک محدود نہ رہی بلکہ اس نے دولت کی صورت میں اپنا خدا پیدا کرکے دکھایا، اور وہ معاشرے جو کبھی ’’خدا مرکز‘‘ یا God Centric تھے وہ دولت مرکز یا Money Centric بنتے چلے گئے۔ ان معاشروں میں دولت ہر چیز کا نعم البدل بن گئی۔ اس نے حسب نسب کی صورت اختیار کرلی۔ وہی شرافت اور نجابت کا معیار ٹھیری۔ اسی سے علم و ہنر منسوب ہوگئے، اسی سے انسانوں کی اہمیت کا تعین ہونے لگا، اسی نے خوشی اور غم کی صورت اختیار کرلی۔ یہاں تک کہ دولت ہی ’’تعلق‘‘ بن کر رہ گئی۔ دولت کی اس بالادستی اور مرکزیت نے معاشروں میں قیامت برپا کردی۔ مغرب کی تو بات ہی اور ہے، ہم نے اپنے معاشرے میں دیکھا ہے کہ والدین تک معاشی اعتبار سے کامیاب بچوں کو اپنے اُن بچوں پر ترجیح دینے لگتے ہیں جو معاشی اعتبار سے نسبتاً کم کامیاب ہوتے ہیں، خواہ معاشی اعتبار سے کمزور بچوں میں کیسی ہی انسانی خوبیاں کیوں نہ ہوں۔ پاکستان اور دوسرے ملکوں میں مشرق وسطیٰ جانے کا رجحان پیدا ہوا تو کروڑوں لوگ اپنے خاندانوں کو چھوڑ کر بہتر معاشی مستقبل کے لیے عرب ملکوں میں جا آباد ہوئے۔ یہ لوگ دس پندرہ اور بیس سال کے بعد لوٹے تو ان کے پاس دولت تو بہت تھی مگر وہ اپنے بچوں کے لیے تقریباً اجنبی تھے۔ یہاں تک کہ ان کی بیویوں اور ان کے درمیان بھی ’’نیم اجنبی‘‘ کا تعلق استوار ہوچکا تھا۔
انسانوں کی شخصیتوں کی جڑیں معاشیات میں اتنی گہری پیوست ہوئیں کہ ہم نے متوسط طبقے کے بہت سے بچوں کو یہ کہتے سنا کہ ہمیں ہمارے باپ نے دیا ہی کیا ہے؟ حالانکہ ان کے پاس شرافت کی دولت تھی، ایمان داری کا سرمایہ تھا، علم کی میراث تھی، تخلیقی رجحانات کا ورثہ تھا۔ لیکن انہیں ان میں سے کسی چیز کی موجودگی کا شعور نہ تھا، کسی چیز کی موجودگی کا احساس نہ تھا۔ انہیں شعور اور احساس تھا تو صرف اس چیز کا کہ ان کے پاس دولت نہیں ہے۔ کار اور کوٹھی نہیں ہے۔ بینک بیلنس نہیں ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ شادی بیاہ کے معاملات میں دولت تقریباً واحد معیار بن چکی ہے۔ اس سلسلے میں مذہبی اور سیکولر کی کوئی تخصیص نہیں۔ دولت کے حمام میں سب ننگے ہیں۔ اس کے بعد بھی لوگ سوال کرتے ہیں کہ خاندان کا ادارہ کیوں کمزور پڑرہا ہے!
↧
Why Pakistani Society Don’t Read Book? By Shenawaz Farooqi
↧
پیشہ ور قاتلوں تم سپاہی نہیں
"پیشہ ور قاتلوں تم سپاہی نہیں"
میں نے اب تک تمھارے قصیدے لکھےاورآج اپنے نغموں سے شرمندہ ہوںاپنے شعروں کی حرمت سے ہوں منفعلاپنے فن کے تقاضوں سے شرمندہ ہوںاپنےدل گیر پیاروں سےشرمندہ ہوںجب کبھی مری دل ذرہ خاک پرسایہ غیر یا دست دشمن پڑاجب بھی قاتل مقابل صف آرا ہوئےسرحدوں پر میری جب کبھی رن پڑامیراخون جگر تھا کہ حرف ہنرنذر میں نے کیا مجھ سے جو بن پڑاآنسوؤں سے تمھیں الوداعیں کہیںرزم گاہوں نے جب بھی پکارا تمھیںتم ظفر مند تو خیر کیا لوٹتےہار نے بھی نہ جی سے اتارا تمھیںتم نے جاں کے عوض آبرو بیچ دیہم نے پھر بھی کیا ہےگوارا تمھیںسینہ چاکان مشرق بھی اپنے ہی تھےجن کا خوں منہ پہ ملنے کو تم آئے تھےمامتاؤں کی تقدیس کو لوٹنےیا بغاوت کچلنے کو تم آئے تھےان کی تقدیر تم کیا بدلتے مگران کی نسلیں بدلنے کو تم آئے تھےاس کا انجام جو کچھ ہوا سو ہواشب گئی خواب تم سے پریشاں گئےکس جلال و رعونت سے وارد ہوئےکس خجالت سے تم سوئے زنداں گئےتیغ در دست و کف در وہاں آئے تھےطوق در گردن و پابجولاں گئےجیسے برطانوی راج میں گورکھےوحشتوں کے چلن عام ان کے بھی تھےجیسے سفاک گورے تھے ویت نام میںحق پرستوں پہ الزام ان کے بھی تھےتم بھی آج ان سے کچھ مختلف تو نہیںرائفلیں وردیاں نام ان کے بھی تھےپھر بھی میں نے تمھیں بے خطا ہی کہاخلقت شہر کی دل دہی کےلیئےگو میرے شعر زخموں کے مرہم نہ تھےپھر بھی ایک سعی چارہ گری کیلئےاپنے بے آس لوگوں کے جی کیلئےیاد ہوں گے تمھیں پھر وہ ایام بھیتم اسیری سے جب لوٹ کر آئے تھےہم دریدہ جگر راستوں میں کھڑےاپنے دل اپنی آنکھوں میں بھر لائے تھےاپنی تحقیر کی تلخیاں بھول کرتم پہ توقیر کے پھول برسائے تھےجنکے جبڑوں کو اپنوں کا خوں لگ گیاظلم کی سب حدیں پاٹنے آگئےمرگ بنگال کے بعد بولان میںشہریوں کے گلے کاٹنے آگئےٓاج سرحد سے پنجاب و مہران تکتم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیواتنی غارتگری کس کی ایما پہ ہےکس کے آگے ہو تم سر نگوں غازیوکس شہنشاہ عالی کا فرمان ہےکس کی خاطر ہے یہ کشت و خوں غازیوکیا خبر تھی کہ اے شپرک زادگاںتم ملامت بنو گے شب تار کیکل بھی غا صب کے تم تخت پردار تھےآج بھی پاسداری ہے دربار کیایک آمر کی دستار کے واسطےسب کی شہ رگ پہ ہے نوک تلوار کیتم نے دیکھے ہیں جمہور کے قافلےان کے ہاتھوں میں پرچم بغاوت کے ہیںپپڑیوں پر جمی پپڑیاں خون کیکہ رہی ہیں یہ منظر قیامت کے ہیںکل تمھارے لیئے پیار سینوں میں تھااب جو شعلے اٹھے ہیں وہ نفرت کے ہیںآج شاعر پہ بھی قرض مٹی کا ہےاب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیںخون اترا تمھاراتو ثابت ہواپیشہ ور قاتلوں تم سپاہی نہیںاب سبھی بے ضمیروں کے سر چاہیئےاب فقط مسئلہ تاج شاہی نہیں
↧
↧
یہ ملیں یہ جاگیریں کس کا خون پیتی ہیں؟
دس کروڑ انسانو!زندگی سے بیگانو!صرف چند لوگوں نےحق تمہارا چھینا ہےخاک ایسے جینے پریہ بھی کوئی جینا ہےبے شعور بھی تم کوبے شعور کہتے ہیںسوچتا ہوں یہ ناداںکِس ہوا میں رہتے ہیںاور یہ قصیدہ گوفکر ہے یہی جن کوہاتھ میں عَلَم لے کرتم نہ اُٹھ سکو لوگوکب تلک یہ خاموشیچلتے پھرتے زندانودس کروڑ انسانو!………یہ ملیں یہ جاگیریں،کس کا خون پیتی ہیں؟بیرکوں میں یہ فوجیںکس کے بل پہ جیتی ہیں؟کس کی محنتوں کا پھلداشتائیں کھاتی ہیں؟جھونپڑوں سے رونے کیکیوں صدائیں آتی ہیں؟جب شباب پر آ کرکھیت لہلہاتا ہےکس کے نَین روتے ہیں؟کون مُسکراتا ہے ؟کاش تم کبھی سمجھوکاش تم کبھی جانو
↧
Garmai Bazar Tu Tum Khod Peda Kertae Hu By Orya Maqbool Jan
↧
Help each other by Ansar Abbasi
↧
More Pages to Explore .....