Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

Karachi Airport Attack by Masood Asher

$
0
0


 Karachi Airport Attack by Masood Asher

Enhanced by Zemanta

دہشت گردی اور اصل چیلنجز.......Karachi Airport Attack

$
0
0


پاکستان اس وقت دو قسم کی دہشت گردی کا شکار ہے ۔ ایک براہ راست اور دوسر ی بالواسطہ۔ ایک عمل ہے اور دوسرا نتیجہ۔ پہلی قسم کا نظارہ کراچی ایئر پورٹ پر حملے کی صورت میں تمام قوم نے کیا ۔ اس طرح کے حملے مقامی بندوق بردار گروپ نہیں کر سکتے ۔ اس میں صرف انتظام نہیں ، بہترین انتظام کارفرما ہے ۔ ان کو ترتیب دینے والے یقیناً ایسے دماغ ہیں جو پاکستان کو بہت عرصے سے دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے لیے تحقیق کر رہے ہیں۔

پچھلے حملوں کی طرح اس حملے کا مقصد ملک کے اثاثوں کو تباہ کرنا اور اس سے کہیں زیادہ خطرناک اس خطہ زمین کے بارے میں یہ تصور پیدا کرنا مقصود ہے کہ یہاں پر اب کسی قسم کا امن ممکن نہیں۔ جہازوں کی آمدورفت اور ایئر پورٹ کی گہما گہمی بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے اپنے مال کے تحفظ کی نفسیا تی ضمانت گردانی جاتی ہے۔یہ ہو تو سرمایہ کاری نہیں ہوتی ۔ اور پھر کراچی کے ہوائی اڈے پر حملہ پاکستان کے معاشی استطاعت کے دل پر وار کے برابر ہے ۔ آنے والے دنوں میں ممکنہ طور پر یہ حملے تجارتی مراکز،بندرگاہوں اور فوجی تنصیبات پر مرکوز ہوں گے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ اب یہ معاملہ رکنے کا نہیں ۔ اب حملہ آور سالوں یا مہینوں انتظار نہیں کریں گے ۔

دہشت گردی کی لہریں یکے بعد دیگرے اس ملک کو اپنی زد میں لا سکتی ہیں۔ پہلی نوعیت کی دہشت گردی میں پچھلے واقعات کی نسبت ریاست کا رد عمل چست اور کامیاب تھا۔ ہوائی اڈے کی سیکیورٹی فورس کے جوانوں نے اپنی جان کا نذرانہ دیا۔ رینجرز اور فوج نے دہشت گردوں کو محدود کر کے تین گھنٹے میں یہ حملہ ناکام بنا دیا۔ صبح 3:30 کے بعدصرف باقی ماندہ خطرات کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے باقی کارروائیوں کے لیے کچھ اور کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ دہشت گرد جہازوں کو تباہ نہیں کر سکے، اپنے پنجے جما نہیں سکے۔اغواء کرکے ملک کے لیے طویل دورانیہ کی شرمندگی کا باعث نہ بن سکے اور یا تو ماردیے گئے اور یا خود کشی پر مجبور ہو گئے ۔

یہ سب ایک کامیاب آپریشن کی نشانیاں ہیں۔ اگرچہ دہشت گردوں کا منصوبہ بنانا اور اس کو عملی جامع پہنانا از خود انتہائی فکر انگیز اور پریشانی کا امر ہے ۔ دہشت گرد گوریلا لڑائی کی اس تکنیک پر عمل کرتے ہیں کہ افراد ر،یاستی طاقت ور اداروں پر حملہ آور ہو کر اگر مر بھی جائیں تو ریاستی طاقت کو شدید نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ اس زاویے سے دیکھیں تو ہوائی اڈے پر حملہ ہونا ہی پاکستان کے لیے ایک بڑا دھچکاہے ۔ مگر حملہ ہونے کے بعد ان کے منصوبے کو ناکام بنانا وہ کامیابی ہے جس کو ہم سرا سکتے ہیں۔ اس قسم کی دہشت گردی جاری رہے گی اور اس نپٹنے کے لیے ردعمل کی لڑائی دہشت گردوں کو مار دینا اس کارروائی کی طرح ہے جو بڑے پیمانے پر لگی ہوئی آگ کو بجھانے کے لیے فائر انجن کرتے ہیں۔ اور اگر آگ ہر دوسری جھاڑی میں لگائی جا رہی ہو تو پانی ڈالنے کی یہ کوشش کتنی مہنگی اور محنت طلب ہو سکتی ہے اس کا اندازہ ہم سب کو ہے ۔ اب آئیے دہشت گردی کی دوسری قسم کی طرف ۔ اس کا تعلق بین الاقوامی اور مقامی سازشوں سے بنے ہوئے اس جال سے نہیں ہے جس میں پاکستان اس وقت پھنسا ہوا نظر آ رہا ہے ۔ نہ ہی اس کا ہدف جانتے بوجھتے ہوئے ملک کو تباہ کرنا ہے۔

اگرچہ بد قسمتی سے اس کے ہاتھوں ہوا نقصان دہشت گردوں کی کارروائیوں کے نتائج سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہی ہے۔ میں اس انتظامی اور سیاسی افراتفری کا ذکر کر رہا ہوں جو کراچی ہوائی اڈے پر حملے کے دوران نظر آئی ۔ وزیر اعلی سے لے کر ڈی سی تک ادارے انتہائی گھبراہٹ اور حماقتوں کا منبع نظر آئے۔ دوران آپریشن وزیر اعلی ہوائی اڈے پر آن موجود ہوئے ۔ ان کے حواری تصویریں کھینچوانے اور پروٹوکول لینے دینے میں مصروف ہو گئے ۔ مظفر ٹپی بھی پہنچ گئے۔ یہ وہ انتظامیہ تھی جس کو آگ بجھانی تھی۔ ملبے میں دبے ہوئے افراد کو نکالنا تھا ، لوگوں کی معلومات کے لیے وہاں پر کوئی عارضی انتظام کرنا تھا، ان مشینوں اور افرادی قوت کا انتظام کرنا تھا جس نے کولڈ اسٹوریج میں پھنسے ہوئے افراد کے لیے رستہ بنانا تھا ۔

وفاقی حکومت کو صوبائی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطہ بنانا تھا ۔ کابینہ کے کلیدی ممبران کو ایمر جنسی میٹنگز کا اہتمام کرنا تھا۔ دوسرے الفاظ میں اوپر سے لے کر نیچے تک نظام کو غیر معمولی، تحریک، نظم ، اتحاد اور صلاحیت کا مظاہرہ کرنا تھا۔ یہ ثابت کرنا تھا کہ ایسے حملوں پر رد عمل ٹی وی اور بیانات جاری کرنے تک محدود نہیں ہو گا۔ بڑے اور چھوٹے سب مل کر سیسہ پلائی دیوار بن جائیں گے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ عوام کو بدترین بد انتظامی کے مناظر دکھائے گئے۔ جو لوگ ریاست کے وسائل کھا کھا کر پھول چکے ہیں ، وہ کولڈ اسٹوریج میں چھپے ہوئے بدقسمت نوجوانوں کے لواحقین کو پانی پلوانا بھی بھول گئے۔ کام ایک دھیلے کا نہیں کیا۔

میٹنگز اور پریس کانفرنسز خوب کی۔ ٹی وی پر فون کے ذریعے بات چیت ایسے کرتے ہوئے سنائی دیے جیسے ان کو ہر پل کی خبر ہے اور یہ پہلو ان کے قابو میں ہے۔ حقیقت یہ تھی کہ آگ بجھانے والا مواد بھی میسر نہیں تھا۔ما نگی تانگی مشینیں بھی اس وقت آئیں جب کیمروں کے سامنے کھڑے لواحقین پھٹ پڑے۔ اگر یہ بد نصیب خاندان واویلا نہ مچاتے تو کولڈ اسٹوریج کی لاشوں کو شاید ایک مہینے کے بعد ’’دریافت‘‘ کیا جاتا۔ ان خاندان کے پیارے ان کوتاہیوں کی وجہ سے اس دنیا سے چلے گئے، ان کو اس سے کیا غرض کہ ان کا نقصان دہشت گردوں کے ہاتھوں ہوا ہے یا نکمے حکمرانوں کے ذریعے ان کے لیے یہ بحث بے معنی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا۔ وقتی طور پر جواب دینے کی صلاحیت اس نظام میں موجود ہے۔ مگر انتظامی اور سیاسی فیصلہ سازی کے بخیے اس طرح ادھیڑ چکے ہیں۔

ہمارے یہاں موجودہ صورت حال سے نپٹنے کے لیے دیرپا منصوبہ بندی کی کوئی بنیاد مو جود نہیں۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اپنے آڑھے ترچھے انداز درست نہ کیے تو ان کی کو تاہیوں سے جنم لینے والا نقصان نا قابل تلافی ہو سکتا ہے۔بد قسمتی سے چھوٹے بڑے درجنوں واقعات ہونے کے باوجود سیاسی اور انتظامی نظام کی یہ کل درست نہیں ہو پا رہی۔ اس نظام کو چلانے والے اپنے طور طریقے نہیں بدل رہے۔ وہ کھانے کھلانے،پینے پلانے اور مواقعے گنوانے میں مصروف ہیں۔

وفاقی حکومت ہندوستان کے ساتھ سا ڑھی سفارت کاری میں مصروف ہے۔ قائم علی شاہ اس میں خوش ہیں کہ وہ ابھی تک قائم ہیں۔ عمران خان اپنے جلسے دیکھ کر اترا رہے ہیں۔ جب کہ بلوچستان میں بھی سیاسی ڈھانچہ اس خوش فہمی میں ہے کہ اچھا وزیر اعلیٰ مل جانے کے بعد حالات خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔ پاکستان میں اصلی مسئلہ دہشت گردوں کی منصوبہ بندی کا نہیں ہے، اس منصوبہ بندی کے فقدان کا ہے جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کرنی ہے مگر 
وہ نہیں کر رہے ۔

طلعت حسین
Karachi Airport Attack

US-Taliban prisoner swap by Ishtiaq Baig

$
0
0


US-Taliban prisoner swap by Ishtiaq Baig

Khair Bakhsh Marri and Pakistan by Hamid Mir

$
0
0


Khair Bakhsh Marri and Pakistan by Hamid Mir

قومی ریاستوں کی سرحدوں کا زوال..........

$
0
0

آج سے تقریباً سو سال قبل جب دنیا کو قومی ریاستوں میں تقسیم کیا جا رہا تھا تو ایک پر فریب اور جعلی تصور عام کیا گیا کہ ہر ریاست خود مختار ہو گی، اس کا ایک اقتدار اعلیٰ ہو گا اور اس کی سرحدیں عالمی طور پر قابل احترام ہوں گی۔ اس پر فریب اور جعلی اقتدارِ اعلیٰ کی بنیاد پر سب سے پہلے لیگ آف نیشنز قائم کی گئی۔ ہر قومی ریاست کو اس بحث مباحثے کے فورم (Debating Club) میں نمایندگی دے کر یہ ثابت کیا گیا کہ یہ آزاد خود مختار ریاستیں ہیں۔

جھنڈے، قومی ترانے، کرنسی، پاسپورٹ، ویزا ریگولیشن اور سرحدوں کی حفاظت پر مامور مسلح افواج سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی جو غیر منصفانہ تقسیم دنیا میں کی گئی ہے وہ ایک عالمی حقیقت ہے اور ہم ایک دوسرے کی سالمیت اور خود مختاری کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن اس احترام کی دھجیاں صرف چند سالوں کے بعد جنگِ عظیم دوم میں ہوا میں اڑا دی گئیں۔ نہ کسی کو عالمی سرحدیں یاد رہیں اور نہ ریاستوں کا اقتدار اعلیٰ۔ انسانی خون اس بے دردی کے ساتھ بہایا گیا کہ اس کے بدنما چھینٹے آج بھی قومی ریاستوں کے منہ پر بدنما داغ کی طرح چسپاں ہیں۔ اتنا خون بہانے، شہر برباد کرنے اور بستیاں اجاڑنے کے بعد صرف چند سال سکون کے گزرے، اقوام متحدہ بنی اور ایک بار پھر ریاستوں کو یہ فریب دیا گیا کہ تم خود مختار ہو۔ لیکن اب کی بار اس عالمی دہشت گردی اور بڑی طاقتوں کی غنڈہ گردی نے ایک نیا لبادہ اوڑھ لیا۔

اب سرحدوں کی خلاف ورزی ایک ایسے طریقے سے کی جانے لگی کہ ان قومی ریاستوں کے اندر اپنے پالتو افراد کے ذریعے خانہ جنگی، گوریلا کارروائی، دھونس اور لالچ کے ذریعے اپنے زر خرید حکمرانوں کو مسلط کیا جانے لگا۔ ہر بڑی طاقت نے اپنی ایک خفیہ ایجنسی بنائی اور اس کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ دوسرے ملکوں میں ان کے مفادات کے لیے عام آدمی سے لے کر حکمرانوں تک کو خریدے، مخالف حکومتوں کے خلاف گوریلا کارروائی کے لیے مدد فراہم کرے، ملکوں کو آپس میں لڑائے، نسل، رنگ، زبان اور مذہب کی بنیاد پر لوگوں میں تفریق پیدا کرے اور امن و امان کو تباہ کرے۔ ان خفیہ ایجنسیو ں کا ایک اور کام تھا، کہ وہ نظریاتی طور پر ہونے والی جدوجہد کی مدد کریں۔ کیمونزم اور کارپوریٹ جمہوریت دونوں کی جنگ میں سرحدوں کا احترام خاکستر ہو کر رہ گیا۔

بلکہ جو کوئی کسی دوسرے ملک میں جا کر لڑا وہ ہیرو کہلانے لگا۔ چی گویرا چار سے زیادہ ملکوں میں لڑتا رہا اور آج تک اس کی تصویریں لہرائی جاتی ہیں۔ یہی حال ویت نام، انگولا، چلی، ہنڈوراس، کوریا اور نکارا گوا جیسے ممالک کا تھا جن میں دنیا بھر سے لوگ جا کر لڑتے رہے اور انھوں نے سرحدوں کا احترام خاک میں ملایا، مگر ہیرو کہلائے۔ یہی کیفیت ان عالمی طاقتوں کی تھی جو وہاں اسلحہ بھی سپلائی کرتی رہیں اور جہاں ممکن ہوا، فوجیں بھی اتارتی رہیں۔ یہ سب کچھ پچاس سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہا۔ ہر ایک نے اپنے حمایت یافتہ لوگوں کے ایسے گروہ تخلیق کیے جو فنِ حرب اور خصوصاً گوریلا جنگ میں اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے مالک تھے۔

ہر ایسے ملک میں ایسے لوگوں کے منظم گروہ تخلیق کیے گئے جو حکومتوں کو ناکوں چنے چبوانے کی اہلیت رکھتے تھے۔ کسی کو علاقائی آزادی کے نام پر اور کسی کو نظریے کی بنیاد پر منظم کیا گیا۔ اب یہ گروہ اس قدر منظم اور خود مختار ہو گئے تھے کہ ان کے نزدیک قومی ریاستوں کی سرحدوں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی تھی۔ اس لیے کہ جب عالمی طاقتیں ہی کسی دوسرے ملک کی سرحدوں کا احترام نہ کرتی ہوں تو یہ لوگ جو نظریاتی چھتری تانے لڑ رہے تھے وہ کیسے سرحدوں کا احترام کرتے۔ افغانستان میں روس آیا تو دنیا بھر سے لوگ وہاں جا کر لڑنے لگے۔ پاکستان کے کتنے گھرانے ایسے ہیں جن کے بیٹے افغان جہاد میں شہید ہوئے اور ان کی میتیں یا تو وہیں دفن کر دی گئیں یا کسی خوش قسمت کو یہاں اپنے ملک کی مٹی نصیب ہوئی۔

ایران عراق جنگ شروع ہوئی تو ایک اور مسلک کے لوگ وہاں ایران کی جانب سے لڑنے چلے گئے۔ ایرانی اگرچہ ایک قومی جنگ لڑ رہے تھے لیکن عقیدت لوگوں کو کہاں تک لے جاتی ہے کہ پاکستان کے ایک شخص کے دو بیٹے ایران عراق جنگ میں شہید ہوئے۔ وہ اسے تہران کے قریب بہشتِ زھرا قبرستان میں دفن کرنا چاہتا تھا، لیکن اسے اجازت نہ دی گئی کہ وہ دونوں ایرانی النسل نہ تھے۔ ایسی ہی کیفیت افغانستان کے جہاد میں موجود تھی۔ قومی ریاستوں اور قومیتوں کا نشہ قائم تھا۔ باہر سے آکر لڑنے والے محترم تو تھے لیکن زمین پر حق اور احترام زمین پر صدیوں سے بسنے والوں کا ہی مقدم رہا۔

لیکن گیارہ ستمبر نے تو دنیا ہی بدل ڈالی۔ وہ اقوام متحدہ جو عالمی سرحدوں کے تقدس کی ضمانت تھی، اس نے دنیا کے اڑتالیس غنڈوں (نیٹو) کو یہ اجازت دی کہ افغانستان کی سرحدوں کو عالمی ضمیر کے نام پر پامال کر دیا جائے۔ پوری دنیا تماشہ دیکھتی رہی۔ اب کی بار اقوام متحدہ کی اجازت کی بھی ضرورت نہ محسوس کی گئی۔ امریکا اپنے حلیف برطانیہ اور دیگر ممالک کے ہمراہ سرحدیں عبور کرتا عراق میں گھس گیا۔ یوں قومی ریاستوں کی خود مختاری، آزادی اقتدار اعلیٰ اور سرحدوں کے تقدس کا تصور ملیا میٹ ہو گیا۔ اس تصور کو ختم امریکا کے اس اعلان نے بھی کیا کہ ہم جس ملک میں بھی ایسے لوگوں کو دیکھیں گے جو ہماری قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں انھیں خود جا کر ختم کریں گے۔ ہمیں ریاستوں کی حکومتوں پر اعتبار نہیں۔ ڈرون حملے اسی تصور کی پیداوار تھے جن کا نشانہ سب سے زیادہ پاکستان بنا۔

جب خود ریاستوں نے ہی سرحدوں کے تقدس کا تصور پامال کر دیا تو وہ گروہ جو ان ریاستوں کو اپنا دشمن تصور کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ان ریاستوں کا ظلم اور مسلمانوں کے خلاف پالیسیاں پوری دنیا میں بربریت کو ہوا دیتی ہیں۔ انھوں نے ایک اور راستہ اختیار کر لیا کہ فلسطین کا بدلہ یمن اور افغانستان میں بھی لیا جا سکتا ہے اور افغانستان کا بدلہ لندن اور نیویارک میں بھی۔ پوری دنیا کی ریاستی حکومتوں اور ان کے مقابلے میں کھڑے ہونے والوں کے درمیان ایک واضح تقسیم ہو گئی۔ عراق میں عرب دنیا کے لڑنے والے جا پہنچے اور شام میں ایران نے اپنے تیار کردہ افراد کو بھیج دیا۔ حالات یہاں تک آپہنچے کہ دنیا میں یورپ کے بائیس ممالک ایسے ہیں جہاں سے مسلمان شام میں لڑنے کے لیے گئے ہوئے ہیں۔ ان میں کئی تو نسلاً گورے ہیں۔ جس کو جس قدر زمین کا ٹکڑا ملا اس نے وہاں ایک ریاست کا اعلان کر دیا۔

اماراتِ اسلامیٔ شام و عراق اور اماراتِ اسلامی افغانستان ، جہاں جہاں ریاستی دہشتگردی بڑھی وہاں سے لوگ ہجرت کر کے ان گرہوں میں شامل ہوتے گئے۔ چیچنیا، ازبکستان، تاجکستان، صومالیہ، یمن، افغانستان غرض دنیا کے ہر خطے سے لوگ ایک ایسے بڑے گروہ کی شکل اختیار کر چکے ہیں جو کسی طرح بھی عالمی سرحدوں کا احترام نہیں کرتا بالکل ویسے ہی جیسے عالمی طاقتیں کمزور ملکوں کی سرحدوں کا احترام نہیں کرتیں۔ یہ سرحدیں جو ماڈرن قومی ریاستوں کی علامت تھیں اب کی ان حیثیت صرف نقشے کی لکیروں سے زیادہ نہیں رہ گئی۔ اس کے باوجود بھی دنیا بھر میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ہماری سرزمین، ہمارا علاقہ اور ہماری ریاست دہشتگردی کے لیے کیوں استعمال کی جاتی ہے۔ یہ بیج تو قومی ریاستوں نے خود بویاہے۔

ستر سال ہم نے ریاستی سرپرستی میں دوسروں کی سرحدوں کو پامال کر کے ان کے گھروں میں آگ اور خون کا کھیل کھیلا اور اب ہم کس قدر معصوم خواہش رکھتے ہیں کہ یہ آگ اور خون کا کھیل ہماری سرحدوں میں نہ کھیلا جائے۔ اب تو جو فصل بوئی گئی ہے اسے کاٹنے کے دن ہیں۔ جو بھی ریاست جس کیمپ میں ہو گی اسے دوسرے کیمپ کی ریاستوں اور نان اسٹیٹ ایکٹرز اور یہاں تک کہ ریاستی اداروں کی دخل اندازی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سرحدیں اور ملک و قوم کی خودداری ایک عورت کی عصمت کی طرح ہوتی ہے۔ اس کو ہر کسی سے بچانا فرض ہوتا ہے۔ اگر محلے کا غنڈہ کسی عورت کی عصمت پامال کرتا رہے تو وہ عورت دوسرے محلے کے اوباش لوگوں کی دست برد سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔


بہ شکریہ روزنامہ ’’ایکسپریس 

فٹبال ورلڈ کپ کے ابتدائی راؤنڈ کا مکمل شیڈول........

ایک اور جنگ کی ضرورت.......

Distribution of honorary doctorate degrees and prestigious national awards in Pakistan

$
0
0


Distribution of honorary doctorate degrees and prestigious national awards in Pakistan

بچوں کی معصومیت خطرے میں.......

$
0
0


بچے معصوم و بے گناہ ہوتے ہیں، اس پر کسی ذات، مذہب، فرقہ، قوم و ملک میں دو رائے نہیں پائی جاتی۔ بچے معاشرے اور خصوصاً خاندان میں پودوں کی حیثیت رکھتے ہیں، جن کی وجہ سے معاشرے اور گھروں کا ماحول خوشگوار رہتا ہے، بہت سے لڑائی جھگڑے اور رنجشیں پیدا نہیں ہوتیں یا پھر طول نہیں پکڑتی ہیں۔ بچے مذہبی، سیاسی، علاقائی، سرحدی، سیاسی و معاشی تنازعات، لڑائیوں اور تقسیم و تفریق کا کوئی تصور نہیں رکھتے ہیں نہ فریق ہوتے ہیں۔
بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی عالمی ادارے بھی وجود میں آئے ہوئے ہیں جو دنیا بھر میں ان کے حقوق اور مفادات کی نگرانی کرتے ہیں۔ سب کے باوجود ہر مہذب معاشرے میں بچوں کے ساتھ مشفقانہ سلوک کیا جاتا ہے، ان کی تکلیف و پریشانی دیکھ کر بلبلا اٹھتے ہیں، ان کی معصومانہ حرکتیں دیکھ اپنے اور غیر سب محظوظ ہوتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود عالمی سطح سے لے کر ملکی اور معاشرتی سطح تک بچوں کے ساتھ زیادتی، ظلم و جبر اور سفاکی کا رویہ عام ہے۔ جنگوں، فسادات، قحط و دیگر قدرتی آفات میں بھی بچے سب سے زیادہ اور ناحق طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ چائلڈ لیبر، بانڈیڈ لیبر، گداگری، بچوں کی اسمگلنگ، ان کا اغوا، تاوان، فروخت، قتل، جنسی تشدد اور لڑائیوں پر صلح کے لیے مخالفین کے حوالے کردینے کا سلسلہ، ہمارے ملک میں تو منظم طور پر استوار ہے۔

اس مسئلے پر حکومتی سماجی اداروں کی بے حسی اور بے اعتنائی مجرمانہ قسم کی ہے۔ بچے کیونکہ ووٹ بینک نہیں رکھتے اس لیے حکومت، سیاسی و سماجی جماعتیں ان کے قانونی و سماجی حقوق کے تحفظ کے لیے منظم طور پر کوششیں نہیں کرتیں البتہ ان کے نام پر ان کی تصاویر شایع کرکے اشتہار بازی سے زکوٰۃ، خیرات، فطرہ، چندے، اعانتیں بڑے پیمانے پر وصول کی جاتی ہیں۔ سال بھر بچوں کے یتیم خانوں، مدرسوں اور دیگر رفاہی کاموں کے نام پر چندے کی وصولی کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔

بچوں کے حقوق کے استحصال اور زیادتی کا سلسلہ حکومتی اور معاشرتی سطح کے علاوہ خاندانوں کے اندر بھی پایا جاتا ہے، ان کے احساسات و جذبات کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے، نہ ان پر غور کرنے اور بچوں پر توجہ دینے کا والدین کے پاس وقت ہوتا ہے۔ وہ بڑی شہرت اور نام کے حامل تعلیمی اداروں میں بچوں کو داخل کرواکر اور مادی آسائشات فراہم کرکے اپنے فرائض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں اور سمجھ بیٹھتے ہیں حالات کی بھٹی سے ان کا بچہ کندن بن کر نکلے گا۔ یہ رویہ اولاد اور ماں باپ کے درمیان خلیج پیدا کر رہا ہے، جس کی وجہ سے کمسن بچوں میں خودکشی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔
دو سال قبل ایبٹ آباد کے ایک اسکول کے ہاسٹل میں رہائش پذیر کمسن بچے کی خودکشی کا واقعہ پیش آیا تھا، جس نے خودکشی سے پہلے اپنی ماں کو آخری خط میں تحریر کیا تھا کہ وہ ’’اس کی موت پر زیادہ نہ روئے، وہ ہاسٹل نہیں جانا چاہتا تھا اس لیے خودکشی کر رہا ہے۔ دنیا سے بہت پیار تھا لیکن اسے چھوڑنے پر مجبور ہے۔ اس کے چھوٹے بہن بھائیوں کو کبھی ہاسٹل نہ بھیجا جائے۔ اس کی الماری میں رکھی ڈائری میں مزید تفصیلات ہیں، جب ڈائری کھولی گئی تو اس میں تحریر تھا کہ اسکول میں اس کی تذلیل کی جاتی ہے۔ کلاس میں اردو بولنے پر جرمانہ کیا جاتا ہے۔‘‘ والدین اور اساتذہ دونوں کی توجہ اور شفقت سے محروم اس بچے کا یہ آخری خط تمام والدین اور اساتذہ کے خلاف چارج شیٹ ہے۔

بچوں کے ساتھ ظلم و زیادتی اور استحصال پر بحیثیت مجموعی پورا معاشرہ فریق ہے۔ یہاں ڈیڑھ سال سے 6 سال تک کے بچوں پر دہشتگردی، قتل، اقدام قتل اور زمینوں پر قبضے کے مقدمات قائم کرنے کے واقعات متعدد بار پیش آچکے ہیں، انھیں تعزیرات پاکستان اور حدود آرڈیننس کی دفعات کے تحت زنجیریں پہناکر عدالتوں میں پیش کیا گیا، ریمانڈ حاصل کیا گیا۔ حالانکہ چلڈرن ایکٹ کے تحت 12 سال سے کم عمر بچوں کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس عمر کے بچے کم فہم اور اپنے فعل کے مضمرات سے آگاہ نہیں ہوتے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ وکیل، ڈاکٹر، صحافی، تاجر اور معاشرے میں نیک نام اور شہرت رکھنے والے افراد بھی بچوں اور کم سن ملازماؤں کے ساتھ انسانیت و حیا سوز واقعات میں ملوث نظر آتے ہیں۔ ان کی جان اور عزتوں سے کھیلنے کے بعد دادرسی کے طلب گار ان کے لواحقین پر اثر انداز ہوکر سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر مضبوط ہونے کے ناتے بچ نکلتے ہیں اور ان انسانیت سوز مظالم پر حکومتی، سیاسی و سماجی سطح پر اس قسم کا ردعمل دیکھنے میں نہیں آتا، جیساکہ دیگر چھوٹے چھوٹے معاملات پر ظاہر کیا جاتا ہے۔ اسی لیے سو بچوں کو تیزاب کے ڈرموں میں بہا دینے والے قاتل جاوید جیسے مجرموں کے چہروں پر نہ پشیمانی دیکھنے میں آتی ہے نہ ہی پریشانی، نہ جانے جاوید جیسے کتنے سفاک قاتل، گروہ اور ان کے سرپرست اس معاشرے میں کیا کیا گل کھلا رہے ہوں گے۔

گزشتہ دنوں کراچی کے شاہ نیشنل چلڈرن اسپتال کورنگی میں آکسیجن سلنڈر ختم ہوجانے اور بجلی کے تعطل کے باعث پانچ بچے لقمہ اجل بن گئے، اس اسپتال میں ٹیکنیشن ڈاکٹر سے فون پر ہدایات لے کر اینکوبیٹر یا وینٹی لیٹر کو آپریٹ کر رہے تھے جس کی وجہ سے یہ المناک سانحہ رونما ہوا۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ بچوں کے امراض کے قومی ادارے کے عملے کے افراد ملی بھگت سے بچوں کو علاج کے لیے اس اسپتال ریفر کرتے تھے۔ یہ شکایات بھی عام ہیں کہ اسپتالوں کا عملہ اور خصوصاً ایمبولینس ڈرائیورز کسی ایمرجنسی کی صورت میں مریض کے تیمارداروں کو داخلہ اور ٹیسٹ کے لیے مخصوص اسپتالوں اور لیبارٹریز لے جانے کے لیے اصرار کرتے ہیں جہاں ان کا فی مریض اور فی ٹیسٹ معاوضہ یا کمیشن مقرر ہوتا ہے۔

معصوم بچوں کی ہلاکت پر روایتی طور پر مالک اور ڈاکٹر کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ضرورت محسوس ہوئی تو مقدمے میں تحفظ پاکستان آرڈیننس کو بھی شامل کیا جائے گا۔ حالانکہ بعید ازقیاس ہے کہ پولیس اس کی ضرورت محسوس کرے گی یا ان دفعات کو شامل کرنے میں آزاد و خودمختار ہوگی۔ جس ملک کا وزیراعظم سیٹھ کی مجرمانہ غفلت کی بھینٹ چڑھ جانے والے ڈھائی سو مزدوروں کی راکھ پر کھڑے ہوکر علی الاعلان ایف آئی آر سے قتل کی دفعات حذف کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہو وہاں پولیس سے انصاف کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ اس واقعے کے مرتکب ڈاکٹروں کی ڈگریاں چیک کرنے کی بات بھی کی گئی۔
اس سلسلے میں پی آئی اے کے پائلٹس اور کیپٹن کی روداد ہمارے سامنے جو اتنی بڑی تعداد میں کمرشل پائلٹ لائسنس نہ ہونے کے باوجود سالہا سال سے انسانی زندگیوں اور املاک کی قیمت پر جہاز اڑا رہے تھے ان کے خلاف آج تک کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔ شیرخوار بچوں کی ہلاکتوں پر بھی یہی روایتی عمل دہرایا جائے گا، اس سانحے پر محکمہ صحت، وزارت صحت، کمشنر کراچی، گورنر اور وزیراعلیٰ نے اپنی اپنی تحقیقاتی کمیٹیاں قائم کرکے 24 گھنٹے اور تین دنوں میں رپورٹیں طلب کرلی ہیں۔ محکمہ صحت کی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں تمام بچوں کو پیدائشی طور پر مختلف امراض کا شکار قرار دے کر ان کی ہلاکتوں کو طبعی قرار دے دیا ہے۔

دیگر کمیٹیوں کی جانب سے آنے والی رپورٹوں پر بھی یہی قیاس ہے کہ دیگر قومی سانحات کی طرح یہ رپورٹیں بھی صرف سرکاری ردی میں اضافے کا سبب ہی بنیں گی۔ لواحقین کا حکومت اور سیاسی و سماجی تنظیموں اور شخصیات اس معاملے پر انصاف کی توقع رکھنا، ان سے اپیلیں کرنا اور ان کے سامنے گڑگڑانا بے معنی و سعی لاحاصل ہوگا۔ البتہ کم ازکم والدین اور انسانیت دوست ارباب خیر کو بچوں سے متعلق ایسے معاملات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ان کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کے خاتمے کے لیے اپنے تئیں انفرادی اور اجتماعی کوششیں ضروری کرنی چاہئیں۔ اس سلسلے میں شیرخوار بچوں کے لواحقین اگر چاہیں تو بغیر کسی فیس اور اخراجات کے قانونی دادرسی حاصل کرنے کے لیے 
راقم سے بنا کسی جھجھک بتوسط روزنامہ ایکسپریس رجوع کرسکتے ہیں۔

عدنان اشرف ایڈووکیٹ

Asian Tiger Pakistan

$
0
0


20 روپے من ہے آٹا ۔ اس پر بھی ہے سناٹا ۔ صدر ایوب زندہ باد ۔ صدر ایوب زندہ باد ۔ یہ عوامی شاعر حبیب جالب کے اشعار ہیں ۔ 20 روپے من آٹے سے مراد 50 پیسے سیر آٹا ہے ۔ اس زمانے میں کلو گرام کی جگہ سیر استعمال ہوتا تھا ۔ ایک سیر لگ بھگ کلو گرام کے برابر ہی ہوتا ہے ۔ ایک من میں 40 سیر ہوتے ہیں ۔ لہذا 20 روپے من آٹے کی قیمت کا سیدھا سا مطلب ہے کہ پچاس پیسے سیر آٹے کی قیمت ہوجانے پر حبیب جالب چیخ اٹھے تھے اور عوام کو غیرت دلاتے ہوئے فرما رہے تھے کہ 20 روپے من آٹے کی قیمت ہوجانے پر بھی کوئی احتجاج سامنے نہیں آرہا ہے آخر اس سناٹے اور خاموشی کی وجہ کیا ہے؟ پھر ایوبی آمریت پر طنز کرتے ہوئے وجہ بھی خود ہی بتا دیتے ہیں کہ صدر ایوب زندہ باد ۔ صدر ایوب زندہ باد ۔ آج آٹا پچاس روپے کلو ہوچکا ہے ۔

میرا دل چاہتا ہے کہ حکمران جو 62 ء کے ایوبی آئین پر لکھی گئی حبیب جالب کی شہرہ آفاق نظم ۔ صبح بے نور کو ایسے دستور کو میں نہیں مانتا ۔ میں نہیں مانتا ۔ کو جلسوں میں جھوم جھوم کر پڑھتے ہیں اور جذبات کی شدت میں بہہ کر مائیک توڑ دیتے ہیں ،کسی ایک جلسے میں کم سے کم ایک مرتبہ تو یہ اشعارگنگنا دیں کہ ’’ پچاس روپے کلو ہے آٹا ۔ اس پر بھی ہے سناٹا ‘‘ ۔ میں جانتا ہوں کہ آج کے حکمران یہ اشعار نہیں پڑھیں گے ۔ ہاں پیپلز پارٹی کی گورنمنٹ آگئی یا پی ٹی آئی کی حکومت آگئی تو کچھ بعید نہیں کہ وہ یہ اشعار پڑھ ہی ڈالیں ۔

اپوزیشن کی ڈراما بازی کرنا نہایت آسان ہوتا ہے ۔ اور خود حکومت کے منہ زور گھوڑے پر سواری کرنا کچھ اور ہی بات ہوتی ہے ۔ مینار پاکستان کے کیمپ میں بیٹھ کر جو دستی پنکھے چلائے گئے تھے اب نہ جانے کس کونے میں پڑے ہوئے ہیں ؟ علی بابا چالیس چور اسی ملک میں موجود ہیں لیکن گرفت میں نہیں آرہے اور اس لیے گرفت میں نہیں آرہے کہ انھیں پکڑنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی ۔ علی بابا اور چالیس چور پکڑے جائیں یا نہ پکڑے جائیں کیونکہ اس سے پہلے کون پکڑا گیا ہے ؟ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم ہو یا نہ ہو، لیکن بس ایک معصوم سی خواہش ہے کہ کسی جلسے میں لہک لہک کر اپنی سریلی آواز میں 50 روپے کلو ہے آٹا ۔ اس پر بھی ہے سناٹا ایک مرتبہ ضرور سنا دیں۔
آخر وہ جالب کے عاشقوں میں شامل ہیں اور جالب نے صرف ’’ میں نہیں مانتا ‘‘ کی صرف ایک ہی نظم تھوڑی کہی ہے ۔ ’’ لاڑکانے چلو ، ورنہ تھانے چلو ‘‘ ۔ ہر بلاول ہے دیس کا مقروض ، پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے ۔ اور صر صر کو صبا اور ظلمت کو ’’ ضیا ‘‘ کیا کہنا یہ بھی اسی عوامی اور انقلابی شاعر کی تخلیقی صلاحیتوں اور بے باک و نڈر بات کہنے کے ہنر کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ کیونکہ یہ تمام نظمیں جالب صاحب نے اس وقت کہیں جب یہ صاحبان اقتدار اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے ۔ آج ن لیگ ایک مرتبہ پھر اس ملک کے راج سنگھاسن پر براجمان ہے ۔ کیا اسے پچاس روپے کلو آٹے کا مطلب سمجھ میں آتا ہے ؟یا سمجھنا نہیں چاہتی ۔

وہ اسحاق ڈار کے ساتھ مل کر پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کے لیے تن من دھن سے کام میں جتی ہوئی ہے ۔مگر کیا 50 روپے کلو آٹے کی قیمت کے ساتھ پاکستان ایشین ٹائیگر بن سکتا ہے ؟ بجلی کی موجودہ لوڈشیڈنگ کے دورانیے اور فی یونٹ قیمت کے ساتھ ہم ایشین ٹائیگر بن کر چھلانگ لگا سکتے ہیں ؟ ایشین ٹائیگر کے ائیرپورٹ پر دہشت گرد منظم حملہ کرسکتے ہیں ؟ سوال یہ نہیں کہ ہم نے یہ حملہ ناکام بنا دیا اور تمام دہشت گرد مارے گئے ۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ حملہ ہوا ہی کیوں ؟ دہشت گرد جس مقام تک پہنچ گئے تھے اس مقام تک تو ان ممالک کے ائیرپورٹس تک بھی نہیں پہنچ سکے جو ایشین ٹائیگر بننے کی دوڑ میں شامل ہی نہیں ہیں۔
کولڈ اسٹوریج میں موجود سات عدد بے گناہ لوگوں کو ہم بچا نہیں سکے کیونکہ ہمارے پاس انھیں بچانے کے لیے جو مشینری اور آلات درکار ہیں وہ موجود ہی نہیں ہیں کیونکہ ہماری ساری توجہ ایشین ٹائیگر بننے پر مرکوز ہے ، اور ہم ایشین ٹائیگر بننے جا رہے ہیں ۔ وزیر خزانہ پرانے قرضے چکا کر نئے قرضے لے رہے ہیں جو ان کی مدت اقتدار ختم ہونے کے بعد واجب الادا ہونگے ۔ یعنی ادائیگی عوام ہی کریں گے ۔ اور دعویٰ یہ ہے کہ معیشت درست سمت میں گامزن ہے ۔ آٹا پچاس روپے کلو اور پیٹرول ایک سو آٹھ روپے لیٹر ہے ۔ مزدور کی دہاڑی 300 روپے سے زیادہ نہیں اور ہم ایشین ٹائیگر بننے جارہے ہیں کیونکہ ہم نے لاہور میں میٹرو بس چلادی ہے جسے سبسڈی دیکر چلایا جارہا ہے ۔ اب ہم 24 ارب روپے سے یہ میٹرو بس دوسرے شہر میں چلانے جا رہے ہیں ۔

بجلی پر سبسڈی ہم نے واپس لے لی ہے کیونکہ آئی ایم ایف کو سبسڈی دینا پسند نہیں ہے ۔ ہم کراچی سے لاہور تک موٹر وے بنانے جارہے ہیں کیونکہ ہم نے ایشین ٹائیگر بننا ہے اور دنیا میں نام پیدا کرنا ہے ۔ ہم بھاگ بھاگ کر ترکی کے دورے کر رہے ہیں اور وہاں سے بریفنگ لے لے کر آرہے ہیں کہ ترکی ٹائیگر کیسے بنا ؟ ہم ترکی کے تعاون سے میٹروبس کے منصوبے تو لے کر آگئے ، لیکن ہم نے وہاں یہ مطالعہ نہیں کیا کہ ترکی نے اپنے عوام کی قوت خرید میں اضافہ پہلے کیا پھر میٹرو بس چلائی ۔ اپنے عوام کو پہلے اتنا خوشحال کیا کہ وہاں کی فوج جس کا ترکی میں آئینی کردار تھا ، عوامی قوت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئی۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ترک عوام نے موجودہ حکومت کے حق میں بیلٹ بکس بھر دیے ۔ اور ہم ایشین ٹائیگر بننے کے خواہشمند بلدیاتی انتخابات کروانے سے ہی خوفزدہ ہیں۔

توانائی کے خوفناک بحران ، مہنگائی کے بے لگام گھوڑے پر سوار ہماری اشرافیہ امن و امان کو تہہ بالا کرنے والے دہشت گرد ۔ اشیاء صرف کی قیمتوں پر نظر رکھنے والی اتھارٹی کی عدم موجودگی اور لسانیت و صوبائیت کے ساتھ ساتھ مذہبی اور مسلکی سیاست کرنے والے پیشہ ور سیاستدانوں کی موجودگی اور سب سے بڑھ کر تعلیمی نظام کے مختلف معیار رکھنے والے ملک صرف میٹروبس چلانے اور موٹر وے بنانے سے ایشین ٹائیگر نہیں بن جاتے ہیں ۔ پہلے اس ملک میں متوسط طبقہ تو پیدا کرلو ، جو کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہاں تو اکثریت انتہائی غریب اور ایک اقلیت انتہائی امیر ہے ، جب متوسط طبقہ موجود ہی نہیں ہے تو کیسا ایشین ٹائیگر ؟ ہاں ایک صورت ضرور ہے ایشین ٹائیگر بننے کی اور وہ یہ کہ جاپان ، کوریا ، چین اورانڈیا رضاکارانہ طور پر ’’ بھیگی بلی ‘‘ بن جائیں ۔


Asian Tiger Pakistan

نواب خیر بخش مری۔ ایک باب تمام ہوا..........

$
0
0


نواب خیر بخش مری کو میں نے پہلی دفعہ حکومت پاکستان کے فوجی طیارے سی 130 سے کوئٹہ ایئر پورٹ پر اترتے دیکھا۔ ضیاء الحق کی عام معافی کے اعلان بعد تمام بلوچ اور پشتون جلا وطنی ختم کر کے افغانستان سے پاکستان واپس لوٹ رہے تھے اور نواب مری نے اپنے قبیلے کو حکم دیا تھا کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر افغانستان ہجرت کر جائیں۔ قبائلی زندگی کی بھی کیا مجبوریاں ہوتی ہیں۔ سردار جہاز میں سوار ہے اور قبیلے کے لوگ پا پیادہ‘ چھپتے چھپاتے‘ غیر معروف راستوں سے ہوتے اس کے حکم کو قبائلی مجبوری کے طور پر بجا لاتے ہیں۔

مریوں کے افغانستان جانے کے کچھ ہی دیر بعد روسی افواج افغانستان میں داخل ہو گئیں اور افغان عوام نے اسی بیرونی جارحیت کے خلاف جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ خیر بخش مری نظریاتی طور پر کمیونسٹ تھے لیکن اپنے آپ کو اسٹالن کا پرستار سمجھتے تھے۔ یوں انھوں نے جس سرزمین میں پناہ لی‘ اسی کے عوام کے خلاف روس کے ہمنوا بنے رہے۔ ان کا بیٹا گزین مری میرا دوست ہے۔ وہ روس میں زیر تعلیم تھا۔ اسے وہاں جس قدر خرچہ ملتا‘ وہ اس سے ایک شاہانہ زندگی گزارتا۔ بولان میڈیکل کالج کے ساتھ بنے ہوئے اس کے انتہائی شاندار گھر میں جب بھی اس سے ملنے گیا وہ روس میں گزری عیش کی داستانوں میں سے ایک قصہ ضرور سناتا۔ یہ اس زمانے میں بلوچستان کا وزیر داخلہ تھا اور اس کی گاڑیاں اور گارڈوں کی فوج ظفر موج نواب مری کے تصرف میں ہوتی۔

نواب مری کے تمام بیٹوں پر روس کی نوازشات تھیں جب کہ افغانستان جہاں وہ پناہ لیے ہوئے تھے اس پر روس کے بموں کی بارشیں۔ نواب مری نے زندگی بھر کبھی خود مسلح جدوجہد نہ کی لیکن اپنے پورے قبیلے کو گوریلا جنگ کی تربیت دی۔ ان کے قبیلے کی گوریلا جنگ کا سربراہ شیر محمد مری عرف جنرل شیروف تھا۔ وہ نواب مری کا اس قدر تابع فرمان تھا کہ سردار چاکر خان ڈومکی نے بتایا کہ ایک دفعہ وہ کوئٹہ جا رہے تھے کہ راستے میں شیروف کی گاڑی حادثے کا شکار ہوئی‘ انھوں نے زخمی شیروف کو گاڑی میں ڈالا اور کوئٹہ کی طرف روانہ ہوئے تا کہ کسی اسپتال لے جائیں لیکن شیروف نے کہا مجھے پہلے نواب کے پاس لے جائو‘ میں اس سے پوچھ کر اسپتال جائوں گا۔
ارباب کرم خان روڈ پر نواب کے گھر پہنچے‘ وہ اس وقت ورزش کرنے میں مصروف تھے، زخمی شیروف اور سردار چاکر خان انتظار کرنے لگے۔ دو گھنٹے کے بعد اندر سے پیغام آیا‘ جہاں جانا چاہتا ہے اسے لے جائو۔ لیکن اسی وفا دار شیروف مری کے ساتھیوں کی زابل‘ افغانستان میں نواب مری کے لوگوں سے لڑائی ہو گئی۔ مجھے شیروف کے بھائی نے بتایا کہ بھارت سے آنے والی امداد یہ لوگ خود اپنے پاس رکھے ہوئے تھے۔

دربدر اور خاک بسر بجارانی مریوں نے احتجاج کیا تو شدید لڑائی ہو گئی۔ جس کا بدلہ نواب مری کے لوگوں نے کوہلو میں بجارانی لیویز کے سپاہیوں کو قتل کر کے لیا۔ شیروف کا یہی بھائی اس وقت میرے ساتھ تھا جب میں سبی میں ڈپٹی کمشنر کے طور پر 114 سال سے بند سبی ہرنائی روڈ تعمیر کروا رہا تھا۔ جہاں جہاں روڈ کھلتی مری قبائل کے لوگ افغانستان میں گزرے ایام پر تلخ ہو جاتے۔ یہ سڑک بجارانی مری علاقے سے گزرتی تھی۔ صرف تین کلو میٹر نواب مری کے اپنے قبیلے سے تھی۔ روڈ جب وہاں پہنچی تو نواب مری کے افراد نے روکنے کی کوشش کی لیکن بجارانیوں اور شیروف کے بھائی کی صرف تلخ کلامی سے واپس چلے گئے۔
افغانستان میں نجیب اللہ کی حکومت ختم ہوئی تو نواب مری کو وہاں اپنا وجود خطرے میں محسوس ہوا۔ دوسری جانب بلوچستان میں جمالی قبیلہ نواب اکبر بگٹی سے خوفزدہ تھا۔ تاج محمد جمالی وزیراعلیٰ تھے۔ نواب اکبر بگٹی کو ایک شک تھا کہ ان کے بیٹے سلال بگٹی کے قاتلوں نے جمالیوں کے ہاں پناہ لی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ظفر اللہ جمالی گھر میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ دوسری جانب نواب مری کے بیٹے افغانستان میں اپنی زندگیوں کو خطرے میں دیکھ کر پاکستان آ چکے تھے اور باپ کو پاکستان لانے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب مریوں کی آباد کاری کے لیے ایک خطیر رقم حکومت نے دی۔

یہ رقم چونکہ چیک کے بجائے کیش میں دی گئی‘ اس لیے اس زمانے کے فنانس سیکریٹری نیازی کو نیب کا کیس بھگتنا پڑا‘ ملازمت گئی اور آج تک دربدر ہیں۔ تاج محمد جمالی نواب مری کو پاکستان لانا چاہتے تھے تا کہ وہ نواب بگٹی کے غیظ و غضب کا مقابلہ کر سکیں۔ افغان مجاہدین نواب مری کو اپنا دشمن گردانتے تھے۔ آئی ایس آئی حرکت میں آئی۔ مجاہدین کو راضی کیا گیا۔ فوج کا سی 130 طیارہ کوئٹہ سے اڑا جس میں نواب اسلم رئیسانی اس وفد کی قیادت کر رہے تھے۔
جب یہ سب معاملات چل رہے تھے تو میں نے ایک دن نواب اکبر بگٹی سے سوال کیا کہ کیا نواب خیر بخش مری واپس آ جائیں گے تو ان کا جواب تھا وہ جس قسم کی قسمیں کھا کر یہاں سے گیا ہے‘ اگر وہ بلوچ ہے تو واپس نہیں آئے گا۔ لیکن نواب مری کابل میں اپنے ساٹھ ستر مرغوں سمیت جہاز میں بیٹھ گئے۔ تاج محمد جمالی نے استقبال کرنے والوں کو ایئر پورٹ پر کھل کر کھیلنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ پولیس کو تحمل کا ثبوت دینے کے لیے کہا گیا تھا۔ جیسے ہی پاکستان کا فوجی سی 130 طیارہ کوئٹہ ایئر پورٹ پر اترا چند نوجوان ایئر پورٹ کی چھت پر چڑھے اور انھوں نے پاکستان کا جھنڈا اتار کر بی ایس او کا پرچم لہرا دیا۔ نواب مری پاکستان کی سرحد پر قدم رکھتے ہی جیسے خاموش سے ہو گئے۔ گم سم بس اپنی لاٹھی گھماتے رہتے۔
خوبصورت‘ سرخ و سفید نواب مری کا بچپن انگریز ڈپٹی کمشنر سبی کی کفالت میں گزرا۔ میں نے آرتھنگٹن ڈبوں کی ان کے استادوں کے ساتھ خط و کتابت دیکھی ہے جنہوں نے لکھا تھا کہ یہ بچہ ہر مضمون شوق سے پڑھتا ہے سوائے حساب کے۔ اس کے بعد وہ ایچی سن کالج میں سرکاری خرچ پر داخل کیے گئے۔ کالج کی مسجد ان کا ٹھکانہ تھا جسے وہ اپنے ہاتھ سے جھاڑو دے کر صاف کرتے۔ ایچیسن کالج سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے نیوی میں ملازمت اختیار کر لی۔ ڈسپلن راس نہ آیا اور ایک دن منوڑہ کے قریب سمندر میں چھلانگ لگائی اور تیرتے ہوئے ایک بلوچ گائوں جا نکلے۔ وہاں سے واپس اپنے علاقے میں آ گئے۔ سبی کے ڈپٹی کمشنر کی فائلوں میں نواب مری کی فائل بہت دلچسپ ہے۔

اس میں ان دونوں کے ایک مکالمے کو ڈپٹی کمشنر نے رپورٹ کیا ہے۔ اس نے لکھا‘ نواب مری میرے پاس آئے اور کہا مجھے سردار بنا دو‘جواب دیا‘ تمہاری عمر کم ہے‘ کہا اکبر بگٹی کو کیوں بنایا‘ کہا اس نے وہاں لیویز تھانہ بنانے کی اجازت دی‘ نواب مری نے کہا اچھا میری سندھ کی زمین مجھے دے دو‘ جیسے اکبر بگٹی کو ملی ہیں‘ جواب دیا وہ تو انھیں اس لیے دی گئیں کہ انھوں نے حروں کے خلاف انگریز کا ساتھ دیا‘ آپ کی زمینیں بھاگ ٹیل کی نہر کے ساتھ موجود ہیں۔ نواب مری غصے میں آ گئے اور کہا تم لوگوں نے میری زمینیں ہڑپ کی ہیں اور اب کٹھن میں موجود تیل کے چشموں پر قبضہ کرنا چاہتے ہو لیکن اپنی زندگی میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔

نواب مری کی زندگی کا چراغ گل ہو گیا ہے لیکن پاکستان واپسی کے بعد انھوں نے اپنے نظریات کی پسپائی کا جو حشر دیکھا وہ ایک داستان ہے۔ انھوں نے ’’حق توار‘‘ نامی تنظیم بنائی جس نے سریاب پھاٹک کے پاس بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا۔ میں نے خود جائنٹ روڈ پر پچیس تیس لوگوں کے مختصر ہجوم سے نواب مری کو انقلاب پر تقریر کرتے دیکھا۔ وہ سیلاچی قبیلہ جو نواب مری پر جان چھڑکتا تھا‘ انھوں نے مری فراری کیمپ کے سربراہ توکل اور اس کے ساتھیوں کو پکڑ کر سبی انتظامیہ کے حوالے کیا کہ یہ لوگ کرنل علمدار کے قاتل ہیں لیکن شاید نواب مری کی جدوجہد کو عزت ملنا تھی کہ 1999ء میں پرویز مشرف جیسے شخص کو اللہ نے اقتدار دے دیا۔

وہ بلوچستان جو بھول چکا تھا کہ پنجابی استعمار بھی کوئی چیز ہے۔ جہاں تفتان سے لے کر ڈیرہ بگٹی تک آدمی تنہا سفر کر سکتا تھا۔ اس بلوچستان کو پرویز مشرف نے نجانے کس کے ایجنڈے پر تباہی کے رستے پر ڈالا۔ مری جو افغانستان سے واپسی کے وقت افغانستان میں ہونے والے مظالم کی داستانیں سنا کر رو پڑتے تھے۔ انھوں نے بندوق اٹھا لی‘ جو امن سے رہنے کا گر سیکھ چکے تھے انھیں اس لیے آرمی ایکشن کی زد میں لے لیا گیا کہ مشرف کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ ہوئی تھی۔ وہی مری سوال کرتے تھے کہ جھنڈا چچی پل پر مشرف کے قافلے پر حملہ ہوا تھا۔ کیا ویسا ہی سلوک راولپنڈی میں کیا گیا۔

نواب مری کے لیے جمہوری ہو یا فوجی تمام ادوار میں ایک جیسا سلوک کیا گیا۔ بے نظیر نواب مری سے ان کے بیٹے بالاچ مری کی موت کا افسوس کرنے گئیں تو کہنے لگیں آمریتوں میں ایسا ہوتا ہے تو اس خاموش رہنے والے سردار نے کہا تمہارے باپ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ہمارے ساتھ ایسا ہی کیا تھا۔ خوش نصیب ہے نواب خیر بخش مری جسے اپنے وطن کی مٹی نصیب ہوئی ورنہ وہ باچا خان کی طرح جلال آباد میں دفن ہونے کی وصیت بھی کر سکتے تھے لیکن وہ کہاں دفن ہوتے‘ ایرانی بلوچستان میں‘ جہاں بلوچ بدترین
زندگی گزار رہے ہیں‘ نہ سرکاری ملازمت‘ نہ عزت۔

Khair Bakhsh Marri

Karachi Airport Attack and Its Impact on Pakistan's Economy

$
0
0


Karachi Airport Attack and Its Impact on Pakistan's Economy

حب الوطنی میں پاکستانی دنیا بھر میں سرفہرست ہیں، سروے..........

$
0
0


ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق امریکا، چین اور دیگر ممالک کے مقابلہ میں پاکستانی کہیں زیادہ محب وطن ہیں اور88 فیصد پاکستانی ہر وقت ملک کے لیے جان دینے کو تیار رہتے ہیں۔
گیلپ کے حالیہ بین الاقوامی سروے کے مطابق88 فیصد پاکستانی ہر وقت کے لئے جان دینے کو تیار رہتے ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں چینی 74 فیصد، امریکی 58 فیصد اور چلی کے صرف 47فیصد شہری جنگ کی صورت میں ملک کی خاطر ہتھیار اٹھانے پرتیار نکلے۔ گیلپ کی جانب سے پاکستان سمیت امریکا، چین اور چلی کے ممالک میں حب الوطنی اور ملک کی خاطر جان دینے کے جذبے کو چیک کرنے کیلیے سروے منعقد کیا گیا جس کے دوران پاکستان میں مہنگائی، غربت، بے روزگاری، افراتفری، دہشت گردی، بجلی اور لوڈشیڈنگ کے باوجود ملک کی خاطر جان دینے کی بات کی گئی تو سب سے زیادہ پاکستانی اس کیلیے تیار نظر آئے۔

گیلپ سروے کے مطابق 88فیصد پاکستانیوں نے ملک کی خاطر جان دینے کی حامی بھرلی،10 فیصد نے انکار جب کہ 2 فیصد نے کوئی جواب نہیں دیا۔ چین میں 74فیصد نے ہاں،20 فیصد نے انکار جب کہ 6 فیصد نے جواب نہیں دیا۔ اسی طرح امریکا کے 50فیصد شہریوں نے ہاں میں جواب دیا، 41فیصد نے کہا نہیں جب کہ ایک فیصد نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔ چلی کے شہریوں نے اس حوالے سے مایوس کن ردعمل کا اظہار کیا جس میں 41فیصد نے ہاں میں جواب دیا۔

پاشا ماڈل..... Waziristan operation

$
0
0


فوج نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کی پہلی سنجیدہ منصوبہ بندی اکتوبر 2010ء میں کی‘ جی ایچ کیو کے ’’وار روم‘‘ میں اعلیٰ سطح کی عسکری میٹنگ تھی‘ آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل احمد شجاع پاشا بھی میٹنگ میں شریک تھے‘ یہ آئی ایس آئی کے سربراہ بننے کے بعد فوجی حکمت عملی کے پراسیس سے الگ ہو چکے تھے لیکن یہ کیونکہ اپریل 2006ء سے اکتوبر 2008ء تک ڈی جی ملٹری آپریشنز بھی رہے تھے۔ انھوں نے سوات کے کامیاب آپریشن کی منصوبہ بندی بھی کی تھی اور یہ آئی ایس آئی کے ڈی جی بننے کے بعد امریکی انتظامیہ کے ساتھ بھی براہ راست ڈیل کرتے تھے چنانچہ انھیں بھی میٹنگ میں شرکت کی دعوت دی گئی.

جنرل پاشا نے میٹنگ میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کا ایک ماڈل پیش کیا‘ میں آپ کی سہولت کے لیے اس ماڈل کا نام پاشا ماڈل رکھ رہا ہوں‘ جنرل پاشا نے پاک فوج کی اعلیٰ کمان کو مشورہ دیا ’’ سی آئی اے اور پینٹا گان شمالی وزیرستان کی بحالی اور ترقی کے لیے ہر قسم کی مدد کے لیے تیار ہیں‘ ہمیں بس ایک مکمل اور جامع آپریشن کرنا ہوگا‘‘۔
جنرل پاشا نے اس کے بعد پاشا ماڈل پیش کیا‘ جنرل کا خیال تھا ’’شمالی وزیرستان میں روایتی جنگ ممکن نہیں‘ دہشت گرد نسلوں سے اس علاقے میں رہ رہے ہیں‘ یہ زمین کے چپے چپے سے واقف ہیں‘ یہ لوگ زمین کے اندر خندقیں اور پہاڑوں میں میلوں لمبے غار بھی کھود چکے ہیں‘ ان کے پاس گولے‘ بارود اور جدید ترین اسلحے کے ذخائر بھی ہیں‘ یہ خود کش حملوں‘ بم دھماکوں اور پہاڑوں پر بیٹھ کر فائرنگ کے ماہر بھی ہیں اور یہ لوگ مشکل وقت میں افغانستان بھی چلے جاتے ہیں‘ افغانستان میں ان کی خفیہ اسٹیبلشمنٹ قائم ہے‘ یہ وہاں زمین جائیداد اور کاروبار کے مالک ہیں۔

ان کے پاس افغان شناختی کارڈ اور پاسپورٹس بھی ہیں اور افغانستان کے مختلف شہروں میں ان کے ٹھکانے بھی ہیں چنانچہ پاک فوج جب ان سے روایتی جنگ لڑے گی تو یہ شروع میں ہماری فوج کو شمالی وزیرستان میں داخل ہونے کا موقع دیں گے‘ ہم جب پوری طرح علاقے میں داخل ہو جائیں گے تو یہ فوج پر حملے شروع کر دیں گے‘ ہم پر گھروں کے اندر سے بھی حملے ہوں گے‘ پہاڑوں سے بھی‘ غاروں سے بھی اور خندقوں سے بھی۔ یہ فوج کی سپلائی لائین بھی آئے دن کاٹتے رہیں گے یوں ہماری فوج کو نقصان ہو گا‘ ہم جب اس نقصان کے بعد ’’ری ایکٹ‘‘ کریں گے تو یہ افغانستان بھاگ جائیں گے۔

محاذ پر خاموشی ہو جائے گی لیکن یہ لوگ چند ماہ بعد دوبارہ حملے کریں گے اور ہم ان حملوں کی وجہ سے شمالی وزیرستان میں مستقل فوج رکھنے پر مجبور ہو جائیں گے‘ اس فوج کے لیے سپلائی لائین بھی بنائی جائے گی اور اس پر اربوں روپے کے اخراجات ہوں گے‘ ہماری فوج کا ایک بڑا حصہ طویل مدت کے لیے وہاں انگیج رہے گا اور ہماری سویلین آبادی بھی ’’ڈس پلیسڈ‘‘ رہے گی‘ جنرل پاشا کا خیال تھا ’’ہمیں روایتی جنگ کے بجائے مستقل اور ٹھوس حل کی طرف جانا چاہیے‘ ہم علاقے میں منادی کروائیں‘ لوگوں کو علاقے سے نکلنے کے لیے ایک مہینہ دیں۔
سویلین آبادی کو نکالیں اور اس کے بعد میر علی اور میران شاہ دونوں قصبوں پر ہیوی بمباری کریں‘ جہازوں‘ ٹینکوں اور توپوں سے حملہ کیا جائے‘ ہم اس آپریشن کے بعد ملبہ اٹھائیں اور یہاں دو نئے اور جدید شہر آباد کر دیں‘ سویلین کو واپس لائیں اور انھیں نئے گھروں میں آباد کریں‘‘۔ جنرل پاشا کا کہنا تھا’’ امریکی آپریشن‘ نئے شہروں کی تعمیر اورشہریوں کی آباد کاری کے لیے ہر قسم کی مدد دینے کے لیے تیار ہیں‘ یہ ان شہروں کی سیکیورٹی کا جدید انتظام بھی کریں گے‘‘ جنرل پاشا کا ماڈل پسند کیا گیا لیکن فوج کیونکہ اس وقت آپریشن نہیں کرنا چاہتی تھی چنانچہ یہ معاملہ وقت کی فائل میں دب گیا۔

ہماری افواج نے 15 جون سے شمالی وزیرستان میں باقاعدہ آپریشن شروع کر دیا‘ یہ آپریشن ضروری تھا کیونکہ دہشت گردی اب تک 60 ہزار لوگوں کی جانیں لے چکی ہے‘ یہ ریاست کو اندر اور باہر دونوں طرف سے کھوکھلا بھی کر چکی ہے‘ ہم اگر آج لڑنے کا فیصلہ نہ کرتے تو ہم شاید یہ فیصلہ کبھی نہ کر پاتے‘ میں میاں نواز شریف کی مذاکراتی حکمت عملی کا حامی تھا‘ حکومت کو مذاکرات کو موقع دینا چاہیے تھا اور حکومت نے طالبان کو یہ موقع ضرورت سے زیادہ دیا مگر دہشت گردوں نے اسے ریاست کی کمزوری سمجھا چنانچہ ریاست اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے پرمجبور ہوگئی۔

یہ مظاہرہ ضروری بھی تھا اور ناگزیر بھی اور قوم مذاکرات کی طرح اب آپریشن پر بھی حکومت کے ساتھ ہے لیکن ہمیں آپریشن کے ساتھ ساتھ دہشتگردی کی وجوہات پر بھی توجہ دینی ہوگی‘ ہم جب تک مسئلے کی ملکہ مکھی کو نہیں ماریں گے‘ دہشت گردی کے چھتے اس وقت تک ختم نہیں ہوں گے‘ دہشت گرد آج شمالی وزیرستان میں ہیں‘ یہ کل بلوچستان چلے جائیں گے‘ ہم وہاں فوج بھجوائیں گے تو یہ سندھ کے اندرونی علاقوں کی طرف نکل جائیں گے اور ہم انھیں وہاں گھیریں گے تو یہ جنوبی پنجاب میں پناہ لے لیں گے‘ ہم کہاں کہاں آپریشن کریں گے‘ ہم کہاں کہاں فوج بھیجیں گے لہٰذا ہمیں اس ناسور کا مستقل حل تلاش کرنا چاہیے۔

ملک میں دہشت گردی کی تین بڑی وجوہات ہیں‘ ہم جب تک یہ وجوہات دور نہیں کرتے‘ یہ سلسلہ آپریشنوں کے باوجود چلتا رہے گا‘ پہلی وجہ افغانستان کی منشیات ہیں‘ افغانستان کا قومی بجٹ سات ارب ڈالر ہے جب کہ وہاں 30 ارب ڈالر کی منشیات پیدا ہوتی ہیں‘افغان منشیات فروشوں نے 2012ء میں صرف دوبئی میں 12 ارب ڈالر کی پراپرٹی خریدی‘ افغانستان نے 13-2012ء میں تین ہزار ٹن ہیروئن پیدا کی‘ افغانستان کی ہیروئن کا بڑا حصہ پاکستان میں فروخت ہوتا ہے یا پھر پاکستان کے راستے بین الاقوامی مارکیٹ میں جاتا ہے‘ فاٹا کے علاقے منشیات کے گودام ہیں‘ افغان منشیات ہمارے علاقوں میں ذخیرہ ہوتی ہیں اور یہاں سے باہر جاتی ہیں۔
یہ منشیات فروش دہشت گردوں کے سیاسی اور معاشی سپورٹر ہیں‘ ہم جب تک امریکا اور افغانستان کے ساتھ مل کر منشیات کا یہ کاروبار ختم نہیں کریں گے‘ ہم جب تک پاکستان کو ہیروئن‘ افیون اور چرس فری نہیں کریں گے‘ دہشت گردی کی سیاسی اور معاشی امداد اس وقت تک جاری رہے گی اوریوں دہشتگردی بھی جاری رہے گی‘ دو‘طالبان۔ ہمیں طالبان کے مختلف گروپوں کا تجزیہ اور ان کے ایجنڈے کا مطالعہ بھی کرنا ہو گا‘ طالبان میں پانچ قسم کے لوگ ہیں‘ افغان طالبان‘ یہ گروپ القاعدہ اور تحریک طالبان افغانستان کے لوگوں پر مشتمل ہے‘ یہ لوگ عیسائی اور یہودیوں کو تباہ کرنے کے لیے ایک مضبوط اسلامی ملک چاہتے ہیں۔

افغانستان‘ سوڈان‘ کینیا اور پاکستان چار اسلامی ممالک ان کے ہدف ہیں‘ یہ لوگ ان چاروں ممالک میں کام کر رہے ہیں لیکن پاکستان ان کے لیے مناسب ترین ملک ہے‘کیوں؟ کیونکہ پاکستان میں انفرا سٹرکچر بھی ہے‘ یہ جوہری بم بھی رکھتا ہے‘ اس کی آبادی بھی 19 کروڑ ہے اور پاکستانی عوام بھی امریکا‘ اسرائیل اور یورپ سے نفرت کرتے ہیں چنانچہ طالبان خواہ افغانستان میں بیٹھے ہوں یا سوڈان اور کینیا میں ان کا اصل ہدف پاکستان ہی رہے گا‘ ہم جب تک پاکستان کو ان لوگوں سے نہیں بچاتے یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا‘ پاکستانی مجاہدین‘ یہ لوگ افغانستان میں روس اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت سے لڑتے رہے‘ یہ جنگ کے لیے ٹرینڈ ہیں‘ 1990ء میں افغان جہاد ختم ہوا تو مجاہدین کا ایک حصہ فارغ ہوگیا۔

جنرل پرویز مشرف نے 2005ء میں کشمیر آپریشن ختم کرکے دوسرے حصے کو فارغ کر دیا‘ یہ دونوں مل گئے‘ یہ لوگ جنرل پرویز مشرف اور ان کی جہاد مخالف پالیسیوں کی وجہ سے فوج سے ناراض ہیں‘ یہ ڈرون حملوں پر بھی شدید غصے میں ہیں‘ ہم جب تک ان لوگوں کو نیوٹرل نہیں کریں گے‘ یہ ایکٹو رہیں گے‘ فرقہ پرست گروپ‘ یہ لوگ سنی شیعہ اختلافات کی پیداوار ہیں‘ ہمارے بعض مدارس اور چند علماء کرام ان کے سپورٹر ہیں۔

ہم جب تک ان علماء کرام اور ان مدارس تک نہیں پہنچتے‘ ہم ان کے جائز مطالبات نہیں مانتے‘ یہ گروپ بھی فعال رہیں گے‘ جرائم پیشہ گروپ‘ یہ لوگ ملک میں اغواء برائے تاوان‘ قتل‘ ڈکیتی‘ کار چوری‘ منشیات‘ بردہ فروشی اور بھتہ خوری کی وارداتیں کرتے ہیں اور پولیس‘ عدلیہ اور فوج سے بچنے کے لیے طالبان کے پیچھے پناہ لے لیتے ہیں‘ ہم جب تک انھیں مجرم سمجھ کر ان سے نہیں نبٹیں گے‘ یہ گروپ بھی جوں کے توں رہیں گے اور پانچواں اور آخری گروپ گڈ طالبان ہیں۔
یہ ریاست کے پالے ہوئے طالبان ہیں‘ ہم لوگ ان کے ذریعے 20 سال سے افغانستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ یہ لوگ جب پاکستان اور افغانستان میں حملے کرتے ہیں تو ہماری ریاست ملک کے اندر اور ملک کے باہر ان کی وکیل بن جاتی ہے‘ ہم جب تک یہ فیصلہ نہیں کریں گے‘ سفارت کاری وزارت خارجہ کا کام ہے‘ فوج کا نہیں‘ ملک میں اس وقت تک یہ گروپ بھی قائم رہے گا اور یوں ان کے ساتھ ہمارا مسئلہ زندہ رہے گا کیونکہ بیڈ طالبان کے بعد گڈ طالبان بیڈ ہو جائیں گے اور ہم ایک جنگ کے بعد دوسری میں پھنس جائیں گے۔

ہم اب تیسری وجہ کی طرف آتے ہیں‘ ہمارے ملک میں دہشت گردی کی تیسری وجہ مذہب کی ٹھیکیداری ہے‘ ہمارے ملک میں 72 قسم کے مسالک یا فرقے ہیں اور ہر فرقہ‘ ہر گروپ 19 کروڑ لوگوں پر اپنی مرضی کا اسلام نافذ کرنا چاہتا ہے‘ ملک میں موجود ہر فرقہ دوسرے فرقے کو کافر اور قابل گردن زنی سمجھتا ہے‘ یہ لوگ قرآن مجید بھی اپنے مفسروں کا پڑھتے ہیں اور دوسرے فرقے کی مسجدوں تک کو عبادت گاہ تسلیم نہیں کرتے‘ آپ ملک میں کسی بھی شخص کو شیعہ‘ وہابی‘ بریلوی یا اہل حدیث قرار دے کر اس کی جان خطرے میں ڈال سکتے ہیں‘ حکومت جب تک اس مذہبی سوچ کی جڑ نہیں کاٹتی‘ یہ تمام مسجدوں اور امام بارگاہوں کو قومی تحویل میں نہیں لیتی یہ فرقہ واریت پر پابندی نہیں لگاتی اور یہ متنازعہ کتابوں اورنفرت انگیز مذہبی تقریروں پر سزائے موت طے نہیں کرتی‘ یہ مسئلہ اور اس مسئلے سے جڑی دہشت گردی اس وقت تک ختم نہیں ہوگی چنانچہ ہمارے ملک‘ ہماری ریاست کو دہشت گردی کی مکمل بیخ کنی کے لیے عسکری کے ساتھ ساتھ سماجی پاشا ماڈل بھی درکار ہے‘ ہم جب تک ان دونوں ماڈلز کو بیک وقت متحرک نہیں کریں گے‘ یہ مسئلہ پھوڑے پھنسیوں کی طرح جوں کا توں رہے گا‘ سردی آئے گی تو پھوڑے غائب ہو جائیں گے لیکن مون سون کا موسم شروع ہوتے ہی دانوں میں دوبارہ پیپ پڑ جائے گی اور قوم 
ناخنوں سے اپنی پیٹھ کھرچنے میں مصروف ہو جائے گی۔



زخم کے بھرنے تلک.......

$
0
0


فرد کو فیصلہ کرنے میں بہت زیادہ دیر نہیں لگتی لیکن ادارے چونکہ فرد سے بڑے اور وزنی ہوتے ہیں اور جگہ بھی خوب گھیرتے ہیں، اس لیے وہ فرد کی سی تیزی سے فیصلہ نہیں کر سکتے۔ کچھ لوگ اس بابت یہ تاویل رکھتے ہیں کہ فرد کے مقابلے میں ادارے کو فیصلہ کرنے اور عمل درآمد سے پہلے اندرونی و بیرونی نتائج و عواقب کو دیکھنا اور تولنا پڑتا ہے۔ اسی لیے وقت زیادہ لگتا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ اداروں کی عمومی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ فیصلے تب تک ٹالتے رہو جب تک اپنی بقا کا سوال سروں پر تلوار کی طرح نہ لٹک جائے۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو شمالی وزیرستان میں کارروائی شروع ہو چکی ہے۔
اگرچہ گذشتہ تیرہ برس میں دہشت گردی کے خاتمے کی نیت سے قبائلی و غیر قبائلی علاقوں میں چھ بڑے آپریشن کیے گئے مگر ان میں سے دو ہی آپریشن کامیاب ہو سکے۔ سوات آپریشن کلی طور پر اور جنوبی وزیرستان آپریشن جزوی لحاظ سے۔ اس عرصے میں سات امن معاہدے ہوئے۔ ان میں سے پانچ ان فریقوں سے ہوئے جنہوں نے دو ہزار سات میں تحریکِ طالبان پاکستان تشکیل دی۔ جب کہ دو سمجھوتے ان سے ہوئے جنہوں نے اپنا انفرادی تنظیمی تشخص برقرار رکھا (ملا نذیر اور حافظ گل بہادر) اور یہی دو معاہدے زیادہ پائیدار ثابت ہوئے۔ چھ آپریشنوں اور سات معاہدوں کا بنیادی محرک فوج تھی جب کہ سیاسی اسٹیبلشمنٹ کا کردار ذیلی تھا۔

تازہ آپریشن سے پہلے سیاسی قیادت نے مذاکرات کی متبادل حکمتِ عملی اختیار کرنے پر زور دیا تاہم فوج کی مکمل حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔ ان مذاکرات کے سلسلے میں سرکردہ سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی کامیاب کوشش بھی ہوئی۔ گو پارلیمنٹ بھی انھی سیاسی جماعتوں کے ارکان پر ہی مشتمل ہے لیکن پارلیمنٹ کو براہ راست اعتماد میں لینا یا مشاورت کا عمل اسمبلی ہال میں لے جانے کی بوجوہ ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ خود پارلیمنٹ نے بھی اس سلسلے میں اپنا استحقاق مجروح ہونے کی کوئی اجتماعی شکایت نہیں کی۔
ہو سکتا ہے کہ یہ رویہ یورپ، امریکا یا بھارت جیسی جمہوریتوں میں قابلِ قبول نہ ہو جہاں جنگ اور امن کا فیصلہ پارلیمنٹ کی منظوری سے ہی کرنے کی روایت ہے۔ لیکن انیس سو اڑتالیس کی جنگِ کشمیر سے انیس سو ننانوے کی کرگل لڑائی تک اور نائن الیون کے بعد قبائلی جنگجوؤں سے معاہدوں اور جنگوں کے تناظر میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اسے کوئی غیر معمولی بات نہیں سمجھتی۔
یہاں فیصلہ پہلے ہوتا ہے اور پارلیمنٹ کو بعد میں پتہ چلتا ہے اور نہ بھی پتہ چلے تب بھی شکوہ نہیں۔ زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو تو جانے دیں جن سیاسی جماعتوں سے امن مذاکرات شروع کرنے کی گذشتہ ستمبر میں رسمی منظوری لی گئی تھی ان جماعتوں کو مذاکرات کی ناکامی کے اسباب اور اس کے نتیجے میں انتہائی قدم اٹھانے کی وجوہات رسمی طور پر بتانا بھی حکومت بھول گئی۔ بہرحال اس وقت ایسی باتیں کرنا فروعی اور بال کی کھال اتارنا ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ آپریشن کراچی ایئرپورٹ کے بڑے واقعے کا شاخسانہ ہے یا اس کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا تھا۔ بادی النظرمیں کراچی ایئرپورٹ کا حملہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکہ ثابت ہوا۔ لیکن اگر ہم پچھلے دو ماہ کی واقعاتی نقل و حرکت دیکھیں تو اس کا نتیجہ آپریشن کی شکل میں ہی نکلنا تھا۔
مذ اکراتی عمل اب سے دو ماہ قبل عملاً مردہ ہو چکا تھا۔ جماعتِ اسلامی کے بارے میں تو نہیں کہا جاسکتا البتہ جوشیلی تحریک ِ انصاف اور گرگِ باران دیدہ جمیعت علمائے اسلام (فضل الرحمان ) کو اگلے نقشے کی بابت کچھ نہ کچھ اشارے دے دیے گئے تھے۔ لہٰذا ان دونوں جماعتوں کی جانب سے ’’صرف اور صرف مذاکرات ہی واحد حل ہیں‘‘ کی پرزور تکرار بھی رسمی حدود میں آ گئی تھی۔ (تحریکِ انصاف تو بہت پہلے ہی ڈرون حملوں اور ناٹو سپلائی کے معاملے پر اپنی حکمتِ عملی کے بوجھ سے تھک کر خاموشی سے پتلی گلی سے نکل چکی تھی۔ جب کہ دفاعِ پاکستان کونسل حسبِ ضرورت بٹن سے آن اور آف ہونے والی تنظیم ہے)۔

مذاکرات کے بظاہر سب سے پرجوش حکومتی وکیل چوہدری نثار علی خان کی وکالت میں بھی ایک ماہ پہلے صرف خانہ پری والا جوش باقی رہ گیا اور پھر وہ بھی نہ رہا۔ قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ فوجی قیادت دو ڈھائی ماہ پہلے ہی اس نتیجے پر پہنچ گئی تھی جس کا اظہارِ آپریشن عضب کی شکل میں سامنے آیا ہے۔
چھ فروری سے یکم مئی کے دوران جنرل راحیل شریف دو مرتبہ سعودی عرب کے دورے پر گئے۔ انیس مئی کو انھوں نے کابل میں ایساف کے کمانڈر جنرل جوزف ڈنفرڈ اور افغان چیف آف جنرل اسٹاف جنرل شیر محمد کریمی کے ساتھ معمول کے سہ فریقی اجلاس میں شرکت کی اور خطے کی تازہ صورتحال کا مشترکہ جائزہ لیا اور قائم مقام افغان صدر یونس قانونی اور وزیرِ دفاع جنرل بسم اللہ محمدی سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ تئیس مئی کو چینی صوبہ شن جیانگ کے شہر ارمچی میں کار بم حملوں میں تیس سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ دو جون کو جنرل شریف نے چین میں تین دن گذارے۔ چھ جون کو کابل میں افغان صدارتی امیدوار ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے قافلے پر حملہ ہوا۔ اس عرصے میں طالبان کی اندرونی دھڑے بندی کھل کے سامنے آگئی۔ یہ دھڑے بندی قدرتی تھی یا انجینئرڈ؟ خدا بہتر جانتا ہے۔

آٹھ جون کی رات کراچی ایئرپورٹ پر حملہ ہوا۔ دس جون کو جنرل شریف کی ملاقات وزیرِ اعظم نواز شریف سے ہوئی۔ تین گھنٹے کی اس ملاقات میں وزیر ِداخلہ چوہدری نثار علی کے علاوہ چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم اور آئی ایس آئی کے کاؤنٹر انٹیلی جنس شعبے کے نگران میجر جنرل ناصر دلاور شاہ بھی موجود تھے۔ گیارہ جون کو کور کمانڈرز اور فارمیشن کمانڈرز کی مشترکہ شش ماہی کانفرنس میں صورتحال پر حتمی غور و خوض ہوا۔ اور چودہ و پندرہ جون کی درمیانی شب کو فضائی بمباری سے آپریشن عضب کا آغاز ہوا۔
اس آپریشن کی پہلی باضابطہ خبر وزیرِ اطلاعات یا وزیرِ دفاع کی جانب سے نہیں بلکہ فوج کے شعبہِ تعلقاتِ عامہ کے پریس ریلیز کی شکل میں جاری ہوئی۔ بعد ازاں حکومت نے بھی اس آپریشن کی تصدیق کر دی۔ کیا خیبر پختون خوا کی حکومت کو اعتماد میں لیا گیا۔کیا ممکنہ بے گھر افراد کے انخلا اور قیام و طعام کے انتظامات پہلے سے تسلی بخش طور پر ہو چکے تھے؟ اس بارے میں حقائق فی الحال غیر واضح ہیں۔ تاہم شمالی وزیرستان کے مکینوں کو دو ہفتے پہلے ہی بادلوں کی رفتار سے اندازہ ہو گیا تھا کہ کوچ کا وقت آن پہنچا۔

چنانچہ انھوں نے سرحد پار افغانستان اور اندرونِ ملک بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان وغیرہ کا رخ کر لیا۔ اس تناظر میں خیبر پختون خوا حکومت کا یہ موقف عجیب سا لگتا ہے کہ اسے ہوا کے بدلتے رخ کا اندازہ نہیں ہوا اور سب کام ’’اچانک سے‘‘ہوا ہے اس لیے اس ناگہانی کے اثرات سے نمٹنے کی خاطر خواہ مہلت نہ مل سکی۔ لیکن صوبائی حکومت کے سابقہ ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے اس کے موقف پر اعتبار کرنا ہی پڑے گا۔ ڈیرہ اسماعیل خان جیل ٹوٹٹنے کی اطلاع بھی خٹک حکومت کو بعد میں ہی ملی تھی۔
اب تک شمالی وزیرستان آپریشن اس لیے بھی ٹلتا رہا کیونکہ بقول سیاسی و فوجی اسٹیبلشمنٹ اس نازک آپریشن کے نتائج و ردِ عمل کا سامنا کرنے کے لیے قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔ تو کیا اب قومی اتفاقِ رائے ہے؟ اس موقع پر مجھے سابق چیف آف اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ایک بات یاد آ رہی ہے۔جب ان پر امریکا کی جانب سے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لیے دباؤ بہت ہی بڑھ گیا تو انھوں نے کہا کہ پاکستان کو کوئی ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن کب اور کیسے ہو گا اس کا فیصلہ وقت آنے پر کیا جائے گا۔

شائد افغانستان سے مغربی فوجوں کی انخلائی مدت کے آخری چھ ماہ، چینی صوبے شن جیانگ میں بڑھ جانے والی دہشت گردی، کراچی ایئرپورٹ، عراق میں القاعدہ سے بھی دو ہاتھ آگے آئی ایس آئی ایس کے ہاتھوں ریاستی عمل داری کے تیزی سے زوال اور اس کے نتیجے میں سعودی عرب، ایران اور امریکا کی مشترکہ گھبراہٹ اور پاک افغان پہاڑی علاقوں میں سردی شروع ہونے سے پہلے کے آخری موسمِ گرما نے آپریشن عضب کے اجزائے ترکیبی کا کام کیا ہے۔
ہاں ردِ عمل ہو گا۔ شہروں اور اہم تنصیبات پر چھاپہ مار اور خود کش حملے بڑھ جائیں گے۔ لیکن یہ تو تب بھی ہو رہا تھا جب آپریشن شروع نہیں ہوا تھا۔ تو کیا آپریشن سے مسئلہ حل ہوجائے گا؟مالاکنڈ میں کامیاب آپریشن کے باوجود آج تک وہاں سویلین انتظامیہ اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو پائی۔ حالانکہ توقعاتی خاکہ یہ تھا کہ فوجی آپریشن کی تکمیل کے تین ماہ بعد معاملات مرحلہ وار شہری انتظامیہ کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ قانون نافذ کرنے والے سویلین اداروں کو اسلحے اور تربیت کے اعتبار سے اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ فوج کی براہ راست مدد لیے بغیر روزمرہ انتظام چلا سکیں۔ لیکن اس بات کو بھی پانچ برس ہو گئے اور سویلین عملداری کی بحالی کا مرحلہ وہیں کا وہیں اٹکا ہوا ہے۔ اسی طرح چار برس قبل جنوبی وزیرستان کے آپریشن کی تکمیل کے باوجود وہاں کے لاکھوں مکین اب تک علاقہ سے باہر ہیں۔

جب رویہ یہ ہو کہ آپریشن کے بعد مریض کی مرہم پٹی کے بجائے اسے آپریشن ٹیبل پر ہی چھوڑ دیا جائے تو پھر آپ ہی کو ہر چند برس بعد شکایت ہوتی ہے کہ ہم نے تو پچھلوں کا صفایا کردیا تھا تو اب نئے شدت پسندوں کی تازہ کھیپ کہاں سے آ گئی۔ زخم کے ناسور بننے تک علاج ملتوی کیے رکھنا ہی در اصل انتہا پسندی کی جڑ ہے۔ ببول کے درخت سے اگر ایک مرتبہ سارے کانٹے نوچ بھی لیں تو اگلے موسم میں پھر یہی عمل دھرائیں گے کیا؟

دوست غمخواری میں میری، سعی فرمائیں گے کیا

زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا

وسعت اللہ خان


ایک سال بیت گیا، توقعات پوری نہ ہوئیں........

Lahore Tragedy and North Waziristan IDP's by Hamid Mir

$
0
0


 Lahore Tragedy and North Waziristan IDP's by Hamid Mir

گلّو بٹ سے ڈرتے ہو؟ گلّو بٹ تو تم بھی ہو ! ........

$
0
0

گذشتہ چند دنوں میں ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کی بدولت ’گلو بٹ‘ کو جو پذیرائی اور شہرت حاصل ہوئی ہے وہ ہر خاص و عام کا نصیب نہیں۔۔۔ بھلا بتائیے، تین روز پہلے تک آپ اور میرے جیسے لوگ ’گلو بٹ‘ کا نام تک جانتے تھے؟ کیا ہمیں معلوم تھا کہ لاہور کی گلیوں میں ایک ایسا شیر دل بھی بستا ہے جو دن کی روشنی میں، عین اس وقت جبکہ پولیس اور شہریوں کے درمیان تصادم ہو رہا ہو، ماڈل ٹاؤن جیسے علاقے میں ایک بڑے گنڈاسے کی مدد سے سڑک پر کھڑی گاڑیوں کو تہس نہس کر دے گا، جن کا اس پورے معاملے میں کوئی لینا دینا نہیں تھا۔۔۔

میڈیا نے بھی سنسنی اور ہر غیر اہم خبر کو اہم بنانے کا کاروبار اتنے اچھے طریقے سے چلا رکھا ہے کہ منہاج القرآن کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان تصادم، بے گناہ شہریوں کی ہلاکت، طاہر القادری کا اپنے کارکنوں سے خطاب، سب کچھ جیسے گلو صاحب کے سامنے ہیچ رہ گیا۔۔۔ صبح سے رات اور رات سے اگلی صبح تک مختلف بھارتی گانوں کے پس منظر میں گلو بٹ کی جانب سے گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کے مناظر چلتے رہے۔۔۔ محض ایک ہی دن میں پورے پاکستان کے منہ پر یہی سوال تھا کہ یہ ’گلو بٹ‘ کون ہے؟

کسی نے گلو بٹ کو مولا جٹ کا شاگرد قرار دیا، کسی نے گلو بٹ کو پاگل کہا، کچھ نے مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ اس کی وابستگی پر مہر لگائی۔۔۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔۔۔ اخباری اطلاعات کے مطابق گلو بٹ پولیس کا مخبر ہے جسے عرف ِعام میں ’خبری‘ بھی کہا جاتا ہے اور لاہور کے مختلف علاقوں میں گھروں اور فلیٹوں پر قبضہ کرنے والے مافیا کا کارندہ بھی ہے۔۔۔ اور شاید انہی خصوصیات کی بنا پر گلو بٹ کو ’شیر ِپنجاب‘ بھی کہا جاتا ہے۔۔۔

وہی شیر ِپنجاب، جو پولیس کے سامنے گاڑیوں کو روندتا آگے بڑھ رہا تھا اور پولیس اسے داد و تحسین سے نواز رہی تھی۔۔۔ چند پولیس والوں کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ آگے بڑھ کر اس کارنامے پر گلو بٹ کو چوم ہی ڈالیں۔۔۔

ہمارے جیسے ملکوں کی پولیس کے لیے ’خبری‘ ویسے ہی لازم و ملزوم ہے جیسے پنجابی فلموں کے ہیرو کے لیے گنڈاسا۔۔۔ جی ہاں، وہی گنڈاسا جس کی مدد سے گلو بٹ نے سڑک پر کھڑی گاڑیوں کو توڑا۔۔۔ مگر شاید پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ گاڑیوں کے شیشے توڑنے والے کو نہ صرف میڈیا پر دکھایا گیا بلکہ اسے گرفتار کرکے اس پر مقدمہ بھی درج کر دیا گیا۔

اخباری خبروں کے مطابق موصوف کا فرمانا ہے کہ عوامی تحریک کے کارکنوں کی جانب سے فائرنگ کے بعد اشتعال آنے پر انہوں نے توڑ پھوڑ شروع کی۔ جمعرات کی صبح جب گلو بٹ کو عدالت میں پیش کیا گیا تو وہاں موجود وکلاء اور شہریوں نے گلو بٹ کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کی ویسی ہی ’مرمت‘ کی جیسی گلو بٹ نے ماڈل ٹاؤن میں گاڑیوں کی ’مرمت‘ کی تھی۔۔۔

الله جانے گلّو بٹ کے اس ڈرامے کا انجام کیا ہوگا۔۔۔ مگر ایک بات تو طے ہے وطن ِعزیز میں تماشوں کی کمی نہیں۔۔۔ اگر ایک گلو بٹ پکڑنے سے ان ہزاروں ’گلّو بٹوں‘ کا قلع قمع کیا جا سکتا، جو ہمارے ارد گرد دندناتے پھرتے ہیں تو کیا ہی بات تھی۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ ان گلو بٹوں کو ہم نے اور ہمارے معاشرے نے خود تراشا ہے، ان کی آبیاری کی ہے اور اب یہ ’گلو بٹ‘ اس حد تک ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکے ہیں کہ انہیں پکڑنا اور ان کا خاتمہ کرنا خود ہمارے بس میں بھی نہیں رہا۔۔۔

سو باتوں کی ایک بات تو یہ ہے کہ گلّو بٹ ایک انسان کا نہیں بلکہ ایک سوچ کا نام ہے۔۔۔ جب تک کسی معاشرے میں قانون کی عملداری نہیں ہوگی اور پولیس کا قبلہ درست نہیں کیا جائے گا، ایسے تماشے چلتے رہیں گے اور ہمارا منہ چڑاتے رہیں گے۔۔۔ آج ہمارے ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر جس گلو بٹ کے چرچے ہیں، کل کو کوئی اور ان سے زیادہ من چلا گلو بٹ ان کا جانشین بن جائے گا اور میڈیا اس کے پیچھے سرپٹ بھاگنا شروع کر دے گا۔۔۔ کیونکہ یہی ہماری افسوسناک حقیقت ہے۔۔۔

شمالی وزیرستان کے حرماں نصیب........

$
0
0



شمالی وزیرستان سے بنوں جانے والا راستہ آج کل ان خانما ں بربادوں کی شکستہ دھول سے اٹا ہوا ہے جوـ ’’ ضربِ عضب ‘‘کی ضرب کا پہلا شکار ہوئے ہیں۔ ناکردہ گناہوں کی سزا کا ٹنے والے ان بدنصیبوں کو حکومت نے اپنے گھر بار چھوڑ کر ان جانی منزلوں کی طرف جانے کے لیے صرف پانچ دن دیے۔ شمالی وزیرستان کے سات لاکھ مکینوں میں سے کچھ سر پھرے قبائل نے تو اپنی دھرتی کو چھوڑنے سے صاف انکار کر دیا ہے کہ شاید در بدری کاٹنے کی ان میں سکت نہیں،باقی مانندہ اب شب و روز محفوظ علاقوں کی طرف رواں دواں ہیں ۔جون کی چلچلاتی دھوپ میں کچھایسے بھی ہیںجو پیادہ ان راستوں کی خاک چھان رہے ہیں کیونکہ ان کی عسرت گاڑیوں پر ہجرت کرنے کی عیاشی افورڈ نہیں کر سکتی ۔ کاش پاکستان سڑ سٹھ سالوں میں ان کو اتنا تو عطا کر دیتا کہ جب ان کی بستیوں کو بموں سے جلایا جانے لگے تو ان کی جیبوںمیں اتنے پیسے تو ہوںکہ گاڑیوں پر ہجرت کر سکیں ۔ بے گھری کے کرب سے گزرتے ایک قبائلی نے درست کہا کہ حکومت اگر سنبھال نہیں سکتی تو ہم پر ایک ایٹم بم مار کر سارا قصہ ہی ختم کر دے۔

ایسا نہیں ہے کہ حکومت نے شمالی وزیرستان آپریشن کا فیصلہ کسی کولیشن سپورٹ فنڈکی رکی ہوئی ناہنجار قسط جاری کروانے کے لیے جلدی میں کیا ہوبلکہ اطلاعات کے مطابقیہ آپریشنکئی سال سے حکومت کے زیرِ غور تھا ۔اوراس نے تین محاذوں پر اس کی تیاری کی ہوئی تھی جس میں آپریشن کے ہدف گروہوں کو الگ کرنا، فوجی کاروائی کے لیے سیاسی حمایت حاصل کرنا اور شہروں کوآپریشن کے ممکنہ ردِعمل سے بچانے کے لیے اقدامات شامل ہیں۔ 
انتظامی سطح پر حکومت کے ان اقدامات کے ساتھ ساتھ ہماری فوج نے بھی اس کے لیے جامع عسکری منصوبہ بندی کر رکھی تھی ۔ غرض اس ہم آپریشن کی تمام جزئیات طے ہو چکی تھیں بس حکومت یہ طے کرنا بھول گئی کہ وہ سات لاکھ قبائلی جو اس بدقسمت سر زمین کے باسی ہیںجب گھروں سے نکالے جائیں گے تو کہاں جائیں گے۔ وہ جن کی کل کائنات کچے گھر اور دو چار مویشی ہیں جب اپنی زمین سے بے زمیں کیے جائیں گے تو کہاں کہاں کی ٹھوکریںکھائیں گے۔ اس چھوٹی سی بھول کی وجہ سے ابشمالی وزیرستان کے باسیوںکو چند چھوٹے چھوٹے مسائل کا سامنا ہے۔ ان کے سروں پر چھت نہیں، پیٹ میںکھانا نہیں اور کرنے کے لیے حکومت و طالبان کو کوسنے کے علاو ہ اور کوئی کام نہیں۔

المیہ یہ ہے کہ آپریشن کے لیے یک زبان ہو کر عرصہ دراز سے راگ الاپنے والی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے صوبوں کے دروازے اس آپریشن کے متاثرین پر بند کر چکی ہیں۔اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں کے نغموں پر قوم کوتھر کانے والے لیڈر خود کو علاقائیت کے حصار میں بند کر کے شمالی وزیرستان کے حرماں نصیبوں کا بوجھ اٹھانے سے پوری ڈھٹائی کے ساتھ انکاری ہو چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی جس کے نو آموز چئیر مین آپریشن کے اعلان پر ایک انہونی خوشی سے سر شار ہو کر دما دم مست قلندر کے نعرے لگا رہے تھے ۔ اب شمالی وزیرستان کے لٹے پٹے بے کسوں کو سندھ کی دھرتی پر قدم نہیں رکھنے دینا چاہتے۔

حیرت ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جو آپریشن کی سب سے بڑی حامی تھیں صرف آگ و بارود کو اپنانے پر مصر ہیں وزیرستان کے لٹے پٹے باسیوں کے لیے ان کے دلوں میں ہمدردی کی کوئی رمق نہیں۔ بھلا ہوخیبر پختونخواہ کی حکمراں تحریک ِ انصافاور جماعتِ اسلامی کا جنہوں نے اپنے بازو آپریشن کے متاثرین کے لیے پھیلا کر پاکستانی قوم کے جعلی اتحاد کا بھرم رکھ لیا۔ خیبر پختونخواہ پچھلے کئی سالوں سے قبائلی علاقوں کے آپریشنوں سے متاثر ہونے والے خانماں بربادوں کے لیے اپنے دل اور در وا کیے ہوئے ہے ۔آپریشن سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے اس صوبے کی حکومت کو آخری لمحے تک آپریشن کے فیصلے سے آگاہ کرنے کی زحمت نہیں کی گئی اور نہ ہی اسے کوئی خصوصی فنڈ جاری کیا گیا لیکن اب سارا بوجھ اسے ہی اٹھا نا ہے ۔وفا قی حکومت تحریک انصاف کو نیچا دکھانے کے لیے اس نادر موقعے کو بھی شاید ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتی!

دوسری طرف سارے جہاں کا درد رکھنے والی ہماری این جی اوز کے دلوں میں ابھی تک شمالی وزیرستان کے متاثرین کے لیے کوئی درد نہیں اٹھا۔ خیبر پختونخواہ حکومت میں شامل جماعتِ اسلامی کی الخدمت فائونڈیشن باقی این جی اوز کی بے حسی کا کفار ا تن تنہا ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن لاکھوں متاثرین کا بوجھ خیبر پختونخواہ یا الخدمت فائونڈیشن کے بس کی بات نہیں ۔ شمالی وزیرستان آپریشن دو چار ہفتوں کا کھیل نہیں نہ جانے کب تک متاثرین کو اپنے ہی ملک میں مہاجر بننے کے عذاب سے گزرنا پڑے۔ شمالی وزیرستان کے باسیوں کا جرم یقینابہت بڑاہے کہ انہوں نے تین دہائیوں سے دہشت گردوں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی تھی۔ ان دہشت گردوں کو جو کبھی ہماری حکومت اور فوج کی آنکھوں کا تارا تھا۔ پسماندہ قبائلی ہماری طرح ہوا کے رخ کے ساتھ نہ چل سکے ا ورآج اسی لیے در بدر بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ لیکن ہمیں ان کی سادہ لوحی کے سبب اب انہیں معاف کرنا ہو گا۔ اپنے دل اور دروازے ان کے لیے کھولنے ہوں گے ورنہ ہجرت کا ایک اور المیہ ہماری ناقابل فخر ِ تاریخ میں رقم 
ہونے جا رہا ہے۔

شاہد اقبال

سانحہ جلیانوالہ باغ سے سانحہ ماڈل ٹائون تک.......

$
0
0

بریگیڈیئر جنرل ایڈورڈ ہیری ڈائر ہندوستان کی    تاریخ آزادی کا مکروہ 
کردار ہے جس نے 13 اپریل 1919ء کو امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں نہتے، پرامن اور سوگوار شہریوں پر گولی چلانے کا حکم دیا ہے اور احاطے سے نکلنے والوں کو بھون کر رکھ دیا۔ برطانوی تاریخ دان اس سانحہ کوتاج برطانیہ کے زوال اور جدوجہد آزادی کی کامیابی کا سنگ میل تصور کرتے ہیں۔ اسی بنا پر لیبر پارٹی نے پارلیمنٹ میں اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا مگر سانحہ جلیانوالہ باغ اپنی تمام تر سنگینی، بے رحمی اور بے تذبیری کے باوجود سانحہ ماڈل ٹائون سے مشابہ نہیں۔

سانحہ جلیانوالہ اس وقت پیش آیا جب امرتسر میں مارشل لا نافذ تھا، جنرل ایڈوائر کی ہدایت پر بریگیڈیئر ڈائر نے امرتسر کے شہریوں کو پابند کیا تھا کہ وہ گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ ہندوستان پر غیرملکی انگریز کی حکمرانی تھی اور بریگیڈیئر مقامی تھانہ۔ کسی کا ہم زبان، ہم رنگ، ہم نسل اورہم مذہب۔ اسے عوام کا جان و مال نہیں انگریز کا اقتدار عزیز تھا اور وہ انگریز حکومت کا رعب و دبدبہ برقرار رکھنے کے لیے ایک ہزار تو کیا جلیانوالہ باغ کے نام سے اس گرائونڈ میں موجود بیس ہزار کے بیس ہزار باشندوں کو موت کے گھاٹ اتار سکتا تھا۔

جنرل ڈائر نے فوج کو گولی چلانے کا حکم اپنی موجودگی میں دیا اور بعدازاں تحقیقاتی کمشن کے سامنے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس نے ہوائی فائر کرنے والے فوجیوں کو روکا اور سیدھی گولی چلانے کی ہدایت کی۔ ’’امرتسر کے قصاب‘‘ نے برملا یہ کہا کہ میں گھروں سے نہ نکلنے کے اپنے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والے امرتسریوں کو سبق سکھانا چاہتا تھا۔ امرتسر لندن سے بھی ہزاروں میل دور تھا۔

مگر لاہور میں ظلم کی داستان بھارتی فوج یا اسرائیلی پولیس نے رقم نہیں کی شہر میں کرفیو نافذ تھا نہ منہاج القرآن کے کارکنوں کو گھروں سے باہر نکلنے سے منع کیا گیا تھا۔ بیرئیر ہٹانے کا موقع محل تھا نہ رات کے اندھیرے میں چوروں کی طرح پولیس بھیجنے کی تُک۔ حد یہ ہے کہ بریگیڈیئر ڈائر کی طرح کسی میں یہ اخلاقی جرات بھی نہیں کہ وہ اپنے اقدام کا دفاع کر سکے۔ اپنے پروردہ، فرسودہ گلو بٹ کی سربراہی میں پولیس ایکشن کی ذمہ داری قبول کرے ۔

سب جانتے ہیں اور پولیس و انتظامیہ کے تمام ایماندار، باضمیر افسر واہلکار، حکمران جماعت کے خوف خدا رکھنے والے کارکن آف دی ریکارڈ گفتگو اپنے ہرجاننے والے کو بتا چکے کہ کہاں اجلاس ہوئے، کس نے صدارت اور شرکت کی پولیس کو ’’گلو بٹ‘‘ کی قیادت میں کیا مشن سونپا گیا اور اس توڑ پھوڑ، قتل و غارت گری میں اور کتنے گلو بٹ شریک تھے؟ وغیرہ وغیرہ مگر ہر ایک اپنے انجام سے خوفزدہ جھوٹی کہانیاں سنانے اور عوام کو بے وقوف بنانے میں مصروف ہے۔ اس بنا پر ہمارے بڑے بوڑھے انگریزوں کو یاد کرتے ہیں کہ وہ اگر کوئی زیادتی کرتے تو اس کا برملا اعتراف بھی کرتے تھے اور جھوٹ بول کر مظلوموں کے زخموں پر نمک پاشی کے عادی نہ تھے۔

اگر واقعی میاں شہباز شریف اس خونیں واقعہ سےبے خبر تھے اور کوئی وجہ نہیں کہ ان کی زبان پر اعتبارنہ کیا جائے تو پھر میاں صاحب کو کسی تاخیر کے بغیر اپنے ان وزیروں، مشیروں، ابلاغی ماہرین ، قابل اعتماد مخبروں، انتظامی و پولیس افسروں اورماڈل ٹائون میں رہائش پذیر مسلم لیگی رہنمائوں کے خلاف قتل عمد، اختیارات سے تجاوز، فرائض کی ادائیگی میں غفلت اور حکومت و حکمرانوں کی بدنامی کے الزام میں تعزیرات پاکستان کی مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کر کے فی الفور نذر حوالات کرنا چاہئے جن کی وجہ سے بیدار مغز، مستعد، باخبر، چوکس اور پولیس و انتظامیہ کے علاوہ اپنے ساتھیوں کی ہر حرکت پر نظر رکھنے والے حکمران کی ذاتی شہرت داغدار ہوئی۔ پولیس و انتظامیہ پر مضبوط گرفت کے دعوے غلط ثابت ہوئے اور پل پل کی خبر دے کر داد وصول کرنے والوں کی نمک حرامی واضح ہوئی۔

حقیقت مگر یہ نہیں دراصل اس ملک میں جس طرح کا مکروہ، عوام دشمن، انسانیت کش نظام جمہوریت کے نام پر مسلط ہے وہ ایسے ہی گروہوں، افراد اور رویوں کو جنم دیتا اور ظلم کی پرورش کرتا ہے سرکاری ملازم ریاست کے وفادار اور عوام کے خدمتگار نہیں حکمرانوں کے اطاعت گزار، تابعدار اور غلام ہیں۔ 9 اپریل 1977ء کو عوام پر گولی چلی تو اعتزاز احسن نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا مگر سیاستدانوں کی وہ نسل معدوم ہوئی اب تو حکمران اگر حکم دیں تو یہ وزیر، مشیر، سرکاری افسر اور اہلکار اپنے ماں باپ کے ساتھ بھی وہ سلوک کرنے سے باز نہ آئیں جو 17 جون کی صبح خواتین، بوڑھوں، بچوں کے ساتھ ماڈل ٹائون میں ہوا۔

یہی نظام عسکریت پسندی، تشدد اور عدم برداشت کو جنم دیتا اور گرم خون کو ہتھیار پکڑنے پر اکساتا ہے۔ دنیا بھر میں جنم لینے والی عسکریت پسندی کی 13 تحریکوں کے مطالعہ سے یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ حکومتوں کی نااہلی، سوشل اور جوڈیشل سسٹم کی ناکامی، وسائل کی نامنصفانہ تقسیم، خونخوار جرائم پیشہ اشرافیہ کی سرپرستی اور مظلوموں سے زیادتی انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کو جنم دیتی اور معاشرے کے لئے ناسور بن جاتی ہے۔

یہ المیہ پاکستان میں رونما ہو چکا ہے پاک فوج نے معاشرے کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لئے آپریشن کا آغاز کیا ہے پوری پاکستانی قوم اس کے لئے دعاگو ہے مگر دہشت گردی کو جنم دینے والے نظام کا خاتمہ اور اس نظام سے عشروں تک مستفید ہونے والوں کی سرکوبی نہ ہوئی تو پائیدار امن ممکن ہے نہ شازیہ اور تنزیلہ پر سیدھی گولی چلانے والی ذہنیت کا سدباب آسان۔ آخر فوج کب تک آپریشن کرتی رہے گی۔ ہر گلو بٹ سے گلو خلاصی ضروری ہے تاکہ اس کی دیکھا دیکھی کوئی بندوق تھامے نہ معاشرے کا امن تباہ کرے۔ بریگیڈئر ڈائر نے سلطنت برطانیہ کے زوال کی پہلی اینٹ رکھی، 9 اپریل کا تشدد بھٹو حکومت کے خاتمے کا نقطہ آغاز تھا۔ لال مسجد آپریشن جنرل پرویز مشرف کو لے ڈوبا معلوم نہیں سانحہ ماڈل ٹائون کے شر سے کیا خیر برآمد ہوتا ہے۔




دانش مند اور دوراندیش حکمران ایسے مواقع پر سیاسی قربانی دیکر اپنا اقتدار بچاتے اور عوام میں پایا جانے والا اشتعال کم کرتے ہیں مگر میاں شہباز شریف پر حیرت ہے کہ لوگ ان کی زندگی بھر کی نیک نامی کو برباد کرنے، انہیں ایک ایسا حکمران اور ایڈمنسٹریٹر ثابت کرنے پر تلے ہیں جس سے کسی نے آپریشن سے قبل پوچھا نہ مزاحمت شروع ہونے پر اطلاع دی اور نہ وحشیانہ فائرنگ کی اجازت طلب کی۔ لیکن اب تک انہوں نے ان میں سے کسی کی قربانی نہیں دی۔

دو چار بے تدبیر افسر اور ایک دو یاوہ گو وزیر اب تک جیل میں بیٹھے اپنی وفاداری اور تابعداری کی داستان بیان کررہے ہوتے اوران قصیدہ خوانوں کی بھی زبان بندی کی جاتی جو ایک دوسرے سے بڑھ کر میاں صاحب کی لاعلمی، بے خبری اور کمزور طرز حکمرانی کا تاثر ابھا رہے ہیں تو شاید صورتحال روبہ اصلاح ہوتی اور عوامی مایوسی و بے چینی میں کمی کے آثار نمایاں ہوتے مگر وہ بھی مستقبل کے ان وعدہ معاف گواہوں پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ گرے بیروں کا اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔

بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ‘‘
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live