Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4341

ﺍﻣﺎﻡ ﺷﺎﻓﻌﯽ : تعارف و مختصر حالاتِ زندگی

$
0
0

ہم پرانے زمانے کے لوگوں کی یہ عادت پختہ ہو چکی ہے کہ جب کوئی تحریر پسند آتی ہے تو اسے سنبھال کر رکھ لیتے ہیں ایسی ہی ایک سنبھالی ہوئی تحریر پیش خدمت ہے دراصل یہ ایسے ہی موضوعات ہیں جن کے بارے میں ہمیں لکھنا اور پڑھنا چاہیے۔ ماضی کے ان چراغوں میں مستقبل کی روشنی ہے یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔ حضرت امام شافعیؒ سنی عقیدے کے چار فقہی مکاتب میں سے ایک کے امام اور بانی ہیں اور ان چند لوگوں میں سے ہیں جن کو مسلمانوں کا حافظہ کبھی فراموش نہیں کر سکے گا۔ حضرت امامؒ نے اپنی ابتدائی زندگی کی یہ مختصر روداد اپنے ایک شاگرد ربیع بن سلیمان سے بیان کی اور اس شاگرد رشید نے یہ نیکی کی کہ اس آنے والے زمانوں کے لیے قلمبند کر لیا۔ یوں یہ نادر حکائت ہم تک پہنچی اور میں یہ تحفہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ اسے میرا سیاسی قصے کہانیوں کا کفارہ سمجھئے۔

حضرت امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ جب میں مکہ سے روانہ ہوا تو میری عمر چودہ برس تھی اس حال میں کہ دو یمنی چادریں میرے جسم پر تھیں ۔ ذی طویٰ پہنچا تو ایک پڑاؤ دکھائی دیا میں نے صاحب سلامت کی تو ایک ضعیف العمر شخص میری طرف بڑھا اور مجھے اپنے ساتھ کھانے میں شرکت کی دعوت دی۔ میں نے بے تکلفی سے وہ دعوت قبول کر لی، کھانے سے فارغ ہو کر میں نے خدا کا شکر اور اس بوڑھے میزبان کا شکریہ ادا کیا ۔ کھانے کے بعد باتیں ہونے لگیں تو میزبان نے سوال کیا کہ ’’کیا تم مکی ہو‘‘ میں نے اثبات میں جواب دیا، پھر پوچھا ’’کیا تم قریشی ہو‘‘ میں نے جواب میں ہاں کہا اور پوچھا کہ چچا آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں مکی اور قریشی ہوں ۔ انھوں نے جواب دیا کہ شہری ہونا تو تمہارے لباس سے ظاہر ہے اور قریشی ہونا تمہارے کھانے سے معلوم ہوا۔ جو شخص دوسروں کے کھانے میں بے تکلفی برتتا ہے وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی اس کا کھانا دل کھول کر کھائیں اور یہ خصلت صرف قریش میں ہے۔ میں نے پھر پوچھا کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں جواب ملا رسول اللہﷺ کا شہر مدینہ میرا وطن ہے۔ میں نے پوچھا کہ مدینے میں کتاب و سنت کا سب سے بڑا عالم و مفتی کون ہے۔ بزرگ نے جواب دیا قبیلہ بنی اصبح کا سردار مالک بن انس (امام مالکؒ) ۔ میں نے عرض کیا خدا ہی جانتا ہے مجھے امام مالک سے ملنے کا کتنا شوق ہے۔

بوڑھے نے جواب میں کہا کہ خوش ہو جاؤ خدا نے تمہارا شوق پورا کر دیا ۔ اس بھورے اونٹ کو دیکھو یہ ہمارا سب سے اچھا اونٹ ہے تم اسی پر سوار ہو گے ۔تیار ہو جاؤ قافلہ کوچ کرنے والا ہے ۔ پھر بہت جلد تمام اونٹ ایک قطار میں کھڑے کر دیے گئے مجھے اسی اونٹ پر بٹھا دیا گیا اور قافلہ روانہ ہو گیا۔ میں نے تلاوت شروع کر دی ۔ مکہ مدینہ تک کے سفر میں سولہ قرآن پاک ختم ہو گئے ۔ ایک دن میں ختم کر لیتا دوسرا رات میں۔ آٹھویں دن عصر کے وقت ہمارا قافلہ مدینہ میں داخل ہوا۔ مسجد نبویﷺ میں نماز پڑھی ، پھر مزار مقدس کے قریب حاضر ہوا۔ درود و سلام پڑھا۔ امام مالک ؒ دکھائی دیے ۔ ایک چادر کی تہہ بند باندھے تھے دوسری چادر اوڑھے ہوئے تھے اور بلند آواز میں حدیث کی روائت کر رہے تھے۔ یوں روائت کرتے تھے ’’مجھ سے نافع نے ابن عمر کے واسطے سے اس قبر کے مکین سے روائت کیا ‘‘ اور یہ کہہ کر اپنا ہاتھ پھیلا دیا اور قبر مبارک کی طرف اشارہ کیا۔ سبحان اللہ ۔ درس و تدریس کا کیا انداز ہے ۔ امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ یہ انداز اور نظارہ دیکھ کر میرے دل پر امام مالک کی ہیبت چھا گئی اور درس میں جہاں جگہ ملی وہیں بیٹھ گیا ۔ میں نے جلدی سے ایک تنکا اٹھا لیا اور امام جب کوئی حدیث سناتے تو میں تنکے کو لعاب دہن میں تر کر کے اپنی ہتھیلی پر لکھ لیتا۔

امام میری یہ حرکت دیکھ رہے تھے مگر مجھے اس کی خبر نہ تھی ۔ آخر مجلس ختم ہو گئی اور امام مالک دیکھنے لگے کہ سب کی طرح میں بھی اٹھ جاتا ہوں یا نہیں ۔ میں اپنی جگہ پر ہی بیٹھا رہا تو امام مالک نے مجھے اشارے سے بلایا، میں قریب پہنچا تو کچھ دیر مجھے بڑے غور سے دیکھتے رہے پھر فرمایا تم حرم کے رہنے والے ہو۔ میں نے عرض کیا۔ جی ہاں۔ پوچھا مکی ہو۔ میں نے کہا جی ہاں! فرمایا سب اسباب پورے ہیں ۔ مگر تم میں ایک بے ادبی ہے ۔ میں رسول اللہ ﷺ کے کلمات طیبہ سنا رہا تھا اور تم تنکا لیے اپنے ہاتھ سے کھیل رہے تھے ۔ میں نے عرض کیا کاغذ پاس نہیں تھا اس لیے جو کچھ سنتا ہاتھ پر لکھتا جاتا تھا ۔ اس پر امام مالک ؒنے ہاتھ کھینچ کر دیکھا اور فرمایا ہاتھ پر تو کچھ بھی لکھا ہوا نہیں ہے ۔ میں نے عرض کیا لعاب تو باقی نہیں رہتا ۔ لیکن آپ نے جتنی حدیثیں سنائی ہیں مجھے سب یاد ہو چکی ہیں ۔ امام کو تعجب ہوا فرمایا سب نہیں ایک ہی سنا دو ۔ میں نے امام صاحب کے انداز میں اور ہاتھ کے اشارے سے ایک نہیں پوری پچیس احادیث جو اس محفل میں بیان ہوئی تھیں سنا دیں۔

اب سورج ڈوب چکا تھا۔ امام مالک ؒنے نماز پڑھی پھر میری طرف اشارہ کیا اور خادم سے کہا اپنے آقا کا ہاتھ تھام اور مجھ سے فرمایا کہ اٹھو اور خادم کے ساتھ میرے گھر جائو ۔ میں اٹھ کھڑا ہوا جب گھر پہنچا تو خادم ایک کوٹھڑی میں لے گیا اور کہنے لگا گھر میں قبلہ اس طرف ہے اور پانی کا لوٹا یہ ہے اور بیت الخلاء ادھر ہے ۔ تھوڑی دیر کے بعد امام بھی آ گئے ۔ خادم کے ہاتھ میں ایک خوان تھا۔ امام مالکؒ نے خوان لے کر فرش پر رکھا ۔ پھر مجھے سلام کیا اور خادم سے کہا ہاتھ دھلائو۔ خادم برتن لے کر میری طرف بڑھا مگر امام نے ٹوک دیا ۔ جانتا نہیں کھانے سے پہلے میزبان کو ہاتھ دھونے چاہئیں اور کھانے کے بعد مہمان کو۔ میں نے اس کی حکمت پوچھی تو فرمایا کہ میزبان کھانے پر مہمان کو بلاتا ہے اس لیے اسے خود کھانے کے لیے تیار ہونا چاہیے اور کھانے کے بعد آخر میں اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ اس دوران کوئی مہمان آ جائے اور اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہونا پڑے اس لیے میزبان کو ہاتھ پہلے نہیں دھونے چاہئیں ۔

کھانے سے فارغ ہوئے تو امام نے مکہ والوں کے حالات دریافت کیے ۔ جب رات زیادہ ہو گئی تو فرمایا اب تم آرام کرو ۔ پچھلے پہر کوٹھڑی پر دستک ہوئی ۔ خدا کی تم پر رحمت ہو نماز! میں اٹھ بیٹھا کیا دیکھتا ہوں کہ امام خود ہاتھ میں لوٹا لیے کھڑے ہیں ۔ مجھے بڑی شرمندگی ہوئی ۔ تو وہ کہنے لگے۔ کچھ خیال نہ کرو مہمان کی خدمت تو فرض ہے۔ امام کے ساتھ نماز فجر مسجد نبویﷺ میں ادا کی ۔ اندھیرا بہت تھا ۔ جب دھوپ نمودار ہوئی تو امام مالک ؒ جس جگہ کل بیٹھے تھے آج بھی اسی جگہ جا بیٹھے اور اپنی کتاب موطا میرے ہاتھ میں دے دی ۔ میں نے کتاب سنانی شروع کر دی اور لوگ لکھنے لگے ۔ میں امام مالک ؒ کے ہاں آٹھ مہینے رہا ۔ پوری موطا مجھے حفظ ہو گئی۔ مجھ میں اور امام مالک میں اس قدر محبت اور بے تکلفی پیدا ہو گئی کہ ناواقف ہمیں دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ مہمان کون ہے اور میزبان کون۔

صبح کے بعد مدینہ کی زیارت کے لیے اور موطا امام مالک سننے کے لیے لوگ مصر سے آئے۔ میں نے مصریوں کو موطا زبانی سنا دی ۔ اس کے بعد اہل عراق آئے ۔ مجھے ایک صاف ستھرا مہذب نوجوان دکھائی دیا ۔ پوچھنے پر معلوم ہوا وہ کوفہ کا باشندہ ہے ۔ میں نے وہاں کے علماء کے بارے میں پوچھا تو اس نوجوان نے بتایا کہ ابو یوسف اور محمد بن حسن جو امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد ہیں ۔ یہ سن کر میرے دل میں عراق جانے کا شوق پیدا ہوا ۔ میں امام مالک ؒ کے پاس گیا کہ ان کا عندیہ معلوم کروں ۔ انھوں نے حصول علم کے لیے میری حوصلہ افزائی کی اور میرے زاد سفر کا انتظام کر کے مجھے رخصت کرنے کے لیے صبح صبح بقیع تک آئے اور اونچی آواز میں پکارنے لگے۔ کوفہ کے لیے کون اپنا اونٹ کرائے پر دے گا ۔ میں نے سن کر عرض کیا آپ یہ کیا کر رہے ہیں نہ میرے پاس کوئی رقم ہے اور نہ خود آپ کی حالت اس قابل ہے ۔ پھر کرائے کا اونٹ کیا؟ امام مسکرائے اور فرمانے لگے کل نماز عشاء کے بعد دروازے پر دستک ہوئی باہر نکلا تو عبد الرحمٰن بن قاسم ( امام کے ایک معروف شاگرد) کھڑے تھے ۔ ہدیہ لائے تھے۔ منت کر نے لگے کہ قبول کر لوں اور ہاتھ میں ایک تھیلی تھما دی ۔ تھیلی سے سو دینار نکلے ۔ پچاس میں نے اپنے اہل و عیال کے لیے رکھ لیے اور پچاس تمہارے لیے ۔ پھر امام نے چار دینار میں اونٹ طے کر لیا اور باقی رقم میر ے حوالے کر کے مجھے خدا حافظ کہا۔

حاجیوں کے اس قافلے کے ساتھ ہم بیسویں دن کوفہ پہنچے ۔ وہاں کی مسجد میں عصر کے وقت محمد بن حسن اور ابو یوسف سے ملاقت ہوئی ۔ میری باتوں سے ان دونوں کو گمان ہوا کہ میں کوئی صاحب علم ہوں چنانچہ مجھ سے پوچھا کہ امام مالک کو تم نے دیکھا ہے۔ میں نے عرض کیا جی ہاں ، امام مالک کے پاس سے آرہا ہوں ۔ (امام حسن ابوحنیفہؒ کے ترجمان سمجھے جاتے ہیں اور امام یوسف خلافت عباسیہ کے چیف جسٹس رہے ہیں اور مشہور عالم کتاب ’’کتاب الاموال‘‘ کے مصنف ہیں جو دنیا میں معاشیات پر پہلی کتاب تصور کی جاتی ہے)۔ یہ سن کر پوچھا کہ تم نے موطا بھی دیکھی ہے ، میں نے کہا پوری حفظ بھی کر چکا ہوں ۔ محمد بن حسن اس پر متعجب ہوئے ، اسی وقت لکھنے کا سامان منگوایا اور ابواب فقہ کا ایک مسئلہ لکھا ۔ ہر دو مسئلوں کے درمیان کافی جگہ خالی چھوڑ دی اور کاغذ میری طرف بڑھا دیا اور کہا، ان دو سوالوں کا جواب موطا سے لکھ دو۔ میں نے جوابات لکھ دیے ۔ 

اس کے بعد امام محمد نے مجھے خادم کے ہمراہ اپنے گھر بھجوا دیا ۔ خادم نے کہا آقا کا حکم ہے کہ آپ سواری پر ان کے گھر جائیں ۔ ایک سجا سجایا خچر پیش کیا گیا۔ (علماء گھوڑے کی جگہ عموماً خچر کی سواری کیا کرتے تھے) جب میں سوار ہوا تو مجھے اپنے پرانے بوسیدہ کپڑے کھٹکنے لگے اور اپنی حالت پر افسوس ہوا۔ کچھ دیر بعد امام محمد بھی گھر آگئے ۔ انھوں نے ایک ہزار دینار کا قیمتی جوڑا مجھے پہنایا اور اپنے کتب خانے سے امام ابو حنیفہؒ کی کتاب ’’الاوسط‘‘ نکال کر دی۔ میں نے کتاب الٹ پلٹ کر دیکھی اور اور رات کو اسے حفظ کرنا شروع کر دیا۔ صبح تک مجھے پوری کتاب حفظ ہو گئی ۔ کچھ دن بعد میں نے امام محمد سے سفر کی اجازت چاہی ۔ فرمایا میں اپنے کسی مہمان کو جانے کی اجاز ت نہیں دیتا ۔ میرے پاس جو مال و دولت موجود ہے اس میں سے آدھا تم لے لو ۔ انھوں نے ساری نقدی منگوائی ، تین ہزار درہم نکلے ۔ آدھے میرے حوالے کیے اور میں بلاد فارس اور عراق کی سیاحت کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ 

اب میری عمر اکیس برس ہو گئی تھی۔ یہ امیر المومنین ہارون الرشید کا زمانہ تھا۔ جب بغداد آیا تو دروازے پر قدم رکھا ہی تھا کہ ایک شخص نے روکا اوربڑی نرمی سے نام پوچھا ، میں نے کہا محمد بن ادریس شافعی۔ اس نے جیب سے ایک نوٹ بک نکالی اور میرا بیان قلمبند کر کے مجھے جانے دیا ۔ میں ایک مسجد میں جا کر قیام پذیر ہوا ۔ آدھی رات کے بعد پولیس نے مسجد پر چھاپہ مارا اور ہر شخص کو روشنی میں دیکھنا شروع کر دیا ۔ آخر میں میری باری آئی ۔ پولیس نے پکار کر کہا ڈرنے کی بات نہیں ، جس کی تلاش تھی وہ مل گیا ۔ پھر مجھے شاہی محل پہنچا دیا گیا۔ جب امیر المومنین پر میری نظر پڑی تو میں نے صاف مضبوط آواز میں انھیں سلام کیا۔ امیر کو میرا انداز پسند آیا۔ سلام کا جواب دیا اور پوچھا تم کہتے ہو کہ ہاشمی ہو ، پھر نسب نامہ دریافت کیا ۔ میں نے بتا دیا بلکہ آدم علیہ السلام تک پہنچا دیا ۔ اس پر امیر المومنین کہنے لگے، بے شک یہ فصاحت و بلا غت اولاد مطلب ہی کا حصہ ہے ۔ پھر کہا، تم کتاب و سنت کے مطابق اپنا اور میرا حکم چلانے کے لیے مسلمانوں کے قاضی بن جاؤ ، کیا تم یہ پسند کرو گے؟ میں نے جواب دیا، سلطنت میں شرکت تو مجھے ایک دن کے لیے بھی منظور نہیں۔ یہ سن کر امیر المومنین رو پڑے۔

اب مجھے تین برس اور ہو چکے تھے ۔ اسی اثناء میں حاجی حجاز سے لوٹے تو مجھے ایک نوجوان ملا ۔ میں اس سے امام مالک ؒ اور حجاز کے بارے میں پوچھنے لگا۔ اس نے بتایا کہ امام مالک بہت دولت مند ہو گئے ہیں ۔ یہ سن کر مجھے شوق ہوا کہ امام صاحب کی غربت کو میں دیکھ چکا ہوں، اب دولت مندی کو بھی دیکھنا چاہیے ۔ چنانچہ میں نے سفر کی تیاری شروع کر دی۔ ایک دولت مند آدمی نے مجھے با اصرار چالیس ہزار دینار کی نقدی پیش کی ۔ میں نے اسے خدا حافظ کہا اور سفر پر روانہ ہو گیا۔ راستے میں اصحاب حدیث ملے ۔ان میں امام احمد بن حنبل، سفیان بن عینیہ اور اوزاعی وغیرہ شامل تھے (یہ تینوں فقہ میں بلند ترین مقام کے مالک علماء ہیں اور امام احمد تو فقہ حنبلی کے امام ہیں) میں نے ان تمام اصحاب کو اپنے پاس سے اتنا کچھ دیا جتنا ان کا مقدر تھا ۔ اگلے پڑاؤ تک میرے پاس صرف دس دینار رہ گئے تھے ۔ میں نے کرائے پر سواری لی اور اور ستائیسویں دن مدینہ منورہ پہنچا۔

مسجد نبویﷺ میں نماز پڑھی ۔ اب کیا دیکھتا ہوں کہ لوہے کی ایک کرسی مسجد میں رکھی ہے ۔ کرسی پر قباطی مصر کا تکیہ رکھا ہوا ہے اور کرسی کے اوپر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے ۔ میں ابھی حیرت کے ساتھ دیکھ ہی رہا تھا کہ امام مالک آئے اور پوری مسجد عطر کی خوشبو سے مہک اٹھی ۔ ان کے جلو میں چار سو یا اس سے زائد کا مجمع تھا ۔ مجلس میں پہنچے تو سب لوگ احتراماً کھڑے ہو گئے۔ امام صاحب کرسی پر بیٹھ گئے ۔ آپ نے اپنے شاگردوں کے سامنے عمداً زخم لگانے کا مسئلہ پیش کیا۔ میں نے اپنے بغل میں بیٹھے ہوئے ایک جاہل آدمی کو اس کا جواب لکھا دیا ۔ اس نے بلند آواز میں جواب بتا دیا۔ دوسرے شاگردوں کے جواب غلط تھے ۔ دو تین بار ایسا ہی ہوا تو امام صاحب اس جاہل کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا یہاں آؤ، وہ جگہ تمہاری نہیں ہے۔ اس شخص نے صاف بتا دیا کہ میری بغل میں ایک نوجوان بیٹھا ہے جو مجھے یہ جواب لکھا رہا ہے ۔ اب تو امام صاحب نے میری طرف گردن گھمائی اور قریب بلایا۔ غور سے دیکھ کر پوچھا شافعی ہو۔ میں نے عرض کیا جی ہاں ! آپ نے مجھے گھسیٹ کر سینے سے لگا لیا ۔ پھر کرسی سے اتر پڑے اور مجھ سے کہا علم کا جو باب ہم شروع کر چکے ہیں، تم اس کو پورا کرو۔ میں نے تعمیل کی لیکن میرے چار سوالوں کا کوئی بھی جواب نہ دے سکا۔

امام صاحب نے میری پیٹھ تھپکی۔ میری تعریف کی اور نماز کے بعد مجھے اپنے گھر لے گئے ۔ پرانی عمارت کی جگہ اب نئی عمارت کھڑی تھی ۔ میں یہ دیکھ کر بے اختیار رونے لگا۔ یہ دیکھ کر امام نے کہا، تم روتے کیوں ہو، شاید یہ سمجھ رہے ہو کہ میں نے دنیا کے لیے آخرت تج کر دی ہے۔ عرض کیا یہی اندیشہ میرے دل میں پیدا ہوا تھا ۔ کہنے لگے تمہارا دل مطمئن رہے، تمہاری آنکھیں ٹھنڈی رہیں جو کچھ دیکھ رہے ہو ، یہ سب ہدیہ اور تحفہ ہے ۔ خراسان سے ، مصر سے ، دنیا کے دور دراز گوشوں سے ہدیئے چلے آرہے ہیں۔ نبیﷺ ہدیہ قبول فرما لیا کرتے تھے اور صدقہ رد فرما دیتے تھے ۔ میرے پاس اس وقت خراسان اور مصر کے اعلیٰ ترین کپڑوں کے تین سو خلعت موجود ہیں ۔ اب یہ سب تمہارے لیے ہدیہ ہیں ۔ صندوقوں میں پانچ ہزار دینار ہیں ۔ ان کی زکوۃ نکلی ہوئی ہے ، اس کی آدھی رقم تمہاری ہے۔ صبح نماز فجر ادا کر کے نکلے تو ہم ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ دروازے پر خراسانی گھوڑے اور مصری خچر کھڑے تھے ۔ میرے منہ سے نکل گیا ایسے خوبصورت گھوڑے تو میں نے آج تک نہیں دیکھے ۔ امام صاحب نے فرمایا کہ یہ تمام سواریاں تمہارے لیے ہدیہ ہیں ۔ میں نے عرض کیا کم از کم ایک جانور تو اپنے لیے رکھ لیجیے ۔ امام نے جواب دیا مجھے خدا سے شرم آتی ہے کہ اس زمین کو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندوں جس کے نیچے رسول پاکﷺ آرام فرما رہے ہیں۔

تین دن بعد میں مکہ روانہ ہو گیا مگر اس حال میں کہ خدا کی بخشی ہوئی خیرو برکت اور مال و متاع میرے آگے آگے جارہے تھے۔ حدود حرم کے قریب والدہ مکرمہ چند عورتوں کے ساتھ ملیں۔ انھوں نے مجھے گلے سے لگایا ۔ میں نے آگے بڑھنا چاہا تو والدہ کہنے لگیں کہاں جا رہے ہو۔ میں عرض کیا گھر چلیں۔ فرمانے لگیں افسوس! کل تو مکہ سے فقیر کی صورت میں گیا تھا اور آج امیر بن کر لوٹا ہے تا کہ اپنے چچیرے بھائی بندوں پر گھمنڈ کرے۔ میں نے عرض کیا پھر کیا کروں ، کہنے لگیں منادی کرا دو، بھوکے آئیں اور کھائیں ، پیدل آئیں اور سواری لے جائیں ، ننگے آئیں اور کپڑے پہن لیں ۔ اس دنیا میں تیری آبرو بڑھے گی اور آخرت میں اجر بھی محفوظ رہے گا۔ میں نے والدہ کے حکم کی تعمیل کی ۔ یہ خبر امام مالکؒ نے بھی سنی اور کہلا بھیجا جتنا دے چکا ہوں، اتنا ہر سال بھیجتا رہوں گا۔ چنانچہ گیارہ سال تک انھوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا۔

عبدالقادر حسن

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4341

Trending Articles