Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4341

پاکستان میں کرونا ٹیسٹ ذیادہ ہونے چاہئیں

$
0
0

اس وقت، کہ وطن عزیز میں کورونا وبا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد بڑھ رہی  ہے۔ یہ بات خاصی حد تک اطمینان بخش ہے کہ اس عالمی وبا کے بارے میں اندرونِ ملک آگہی بڑھی ہے اور لوگ عمومی طور پر حفاظتی ماسک اوردستانے پہنے نظر آرہے ہیں۔ گنجان کچی آبادی والے شہروں میں ایک فرد کی یومیہ آمدنی پر گزارا کرنے والے خاندانوں کا لاک ڈائون میں رہنا عملاً کتنا دشوار یا آسان ہے، یہ ایک طویل بحث اور تحقیق کا موضوع ہے اور اس میں سامنے آنے والے نکات پر حکومت اور صاحبانِ دانش کو ایسے تحقیقی مقالوں کا اہتمام ضرور کرنا چاہئے جن سے آگے چل کر فائدہ اٹھایا جاسکے۔ 

لیکن یہ بات بہر طور قابل توجہ ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس آنے کے بعد اس کی روک تھام کا منظم لائحہ عمل بنانے میں جہاں اس وبا کی علامات اور بدلتی شکلوں کے بارے میں واقفیت سے دنیا کی ناکامی کا عنصر رکاوٹ رہا ہے وہاں جدید طبی ٹیسٹوں کے بعض آلات کی عدم موجودگی، ماسک، دستانوں، جراثیم سے بچائو کے لباس کا فقدان، وینٹی لیٹر جیسی جان بچانے والی اشیا کی کمی سمیت بہت سی رکاوٹیں بھی حائل رہیں۔ دوست ملک چین نے اپنے تجربات سے آگہی دینے اور ضروری سامان کی فراہمی کی صورت میں اسلام آباد کی ممکنہ حد تک معاونت کی اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

اس وقت وطن عزیز سمیت دنیا بھر کو جس وبا کا سامنا ہے اس سے بچائو کی ایک صورت تو وہ احتیاطی تدبیر ہے جس نے سنگاپور سمیت کئی ممالک میں ممکنہ متاثرین کو قرنطینہ یا سماجی تنہائی میں رکھنے کے باعث اچھے نتائج دیے اور اب تک کا سب سے کامیاب طریقہ سمجھا گیا۔ دوسرا طریقہ لوگوں کے طبی ٹیسٹ کر کے کورونا کی موجودی یا عدم موجودی کا پتا چلانا ہے۔ وطن عزیز میں پچھلے مہینوں کے دوران کورونا کے متاثرین کا شمار کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ٹیسٹ کی سہولتوں کے فقدان یا کمی کے باعث متاثرین کی درست تعداد کا تعین ممکن ہی نہیں تھا۔ 

اب صورتحال یہ ہے کہ ہم کورونا سے بچائو کا خاصا سامان اور ضروری آلات اندرونِ ملک تیار کر رہے ہیں جبکہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (NCOC) کی صدارت کرنیوالے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقیات اسد عمر کا کہنا ہے کہ پاکستان اس وقت یومیہ 25 ہزار افراد کا کورونا ٹیسٹ کرنے کے قابل ہے اور مئی کے اواخر یا جون کی ابتدا میں یومیہ 30 ہزار ٹیسٹ کرنا ممکن ہو گا تو صورتحال کا درست اندازہ لگانے اور مستقبل کی بہتر حکمت عملی ترتیب دینے میں مدد ملے گی۔ اس وقت یومیہ ٹیسٹوں کی تعداد اگرچہ 14 ہزار کے لگ بھگ ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے زیادہ ٹیسٹ نہیں کیے جاسکتے۔ 

ہماری ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت 30 ہزار یومیہ تک پہنچے گی تو ابتدائی طبی امداد دینے والے اسپتالوں اور انٹری پوائنٹس پر مسافروں سے لئے گئے سیمپلز کا تجزیہ کر کے انہیں کلیئر یا قرنطینہ کرنے کا فیصلہ آسانی سے کیا جاسکے گا۔  ملکی معیشت کی ضروریات کے لئے لاک ڈائون میں نرمی کے دوران احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کیساتھ بروقت ٹیسٹ کی سہولت بروئے کار لا کر حالات کو کنٹرول میں رکھا جاسکتا ہے۔ عام لوگوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ احتیاط کے تقاضوں اور حکومت کی طرف سے وقتاً فوقتاً جاری ہونے والی ہدایات پر سختی سے عمل کریں تاکہ صورتحال کو دوبارہ لاک ڈائون کا متقاضی ہونے سے روکا جاسکے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4341

Trending Articles