Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4341

کورونا : ہمیں ذمہ دار قوم بنا کر جائے گا

$
0
0

اب جب ہم سب کی زندگیاں خطرے میں ہیں تو ہمیں کون ہیرو دکھائی دے رہا ہے۔ وہ ڈاکٹر جو دن رات مریضوں کی جان بچانے میں مصروف ہیں یا وہ جن کو ہم نے ووٹ دیے ہیں۔ وہ جو دن رات ٹی وی پر اپنا فلسفہ بگھارتے تھے۔ اب بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔ ان دنوں ہمیں تاریخ کی ساری کتابیں بے وقعت لگ رہی ہیں جن میں ہیرو وہ دکھائے جاتے ہیں جنہوں نے دہلی۔ بغداد۔ روم اجاڑ دیے۔ کشتوں کے پشتے لگا دیے۔ قصیدے بھی ان کے لکھے گئے۔ گزشتہ صدیوں کی تاریخ تو ایک طرف رکھ دیں۔ پچھلی دو دہائیوں میں دیکھ لیں۔ ہمیں جارج بش۔ ڈک چینی۔ کولن پائول۔ ٹونی بلیئر یاد ہیں۔ امریکہ برطانیہ یورپ کے صحت عامہ کے وزیروں یا سائنسدانوں میں سے کسی کے نام سے آشنائی نہیں ہے۔ وہ جو 1989 سے ممکنہ وبائوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ویکسین ایجاد کر رہے ہیں۔ ان کو میڈیا اہم سمجھتا ہے۔ نہ عوام۔ دنیا انسانوں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نائب انسان ہے۔ اللّٰہ کی سب سے بڑی نعمت زندگی ہے۔ اس زندگی کو تحفظ دینے والے ہمارے لیے کبھی اہم نہیں رہے ہیں۔ صحت عامہ اولیں ترجیح نہیں رہی ہے۔

کیا اس عالمگیر سانحے کے بعد اب ہماری سوچ تبدیل ہو گی۔ ہم چنگیزوں۔ ہلاکوئوں۔ نادروں۔ ڈک چینیوں۔ چک ہیگلوں۔ رمز فیلڈوں۔ کولن پائولوں کو یاد رکھنے کی بجائے اس دَور کے صحت عامہ کے محافظوں کو یاد کریں گے۔ کیا اب دنیا بھر میں صحت اولیں ترجیح بن سکے گی۔ کیا اب بمبار طیاروں۔ ایٹمی میزائلوں۔ اور ہلاکت خیز ہتھیاروں کی بجائے پیسہ زندگی بخش انتظامات اور دوائوں پر خرچ کیا جائے گا۔ آج اتوار ہے۔ میں آپ سے پہلے صرف یہ ایک دن اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں کے ساتھ گزارنے کی اپیل کرتا رہا ہوں۔ اب تو ہفتے کا ہر دن ہی اتوار ہے۔ آپ سارے دن ہی ان کے ساتھ گزار رہے ہیں جو مقاصد ہم اتوار سے حاصل کرنا چاہتے تھے اب تو ہر روز مل رہے ہیں۔

اللّٰہ نے ہمیں کتنی فرصت بخشی ہے۔ اہل خانہ ایک دوسرے کو سمجھ رہے ہیں۔ مجھے جیل کے دن یاد آتے ہیں۔ جب سورج غروب ہونے کے ساتھ ساتھ ساری بیرکوں اور کوٹھڑیوں کا ٹوٹل (گنتی) ہوتا تھا پھر تالے لگا دیے جاتے تھے۔ طلوع آفتاب تک کے لیے۔ اب تو تالا ہر وقت لگا ہوا ہے۔ اب تو ہمارا ٹوٹل 24 گھنٹے ہو رہا ہے۔ مشترکہ خاندان کی دم توڑتی روایت پھر سے مستحکم ہو رہی ہے۔ ہمیں پابند زندگی گزارنے کی عادت ہو رہی ہے۔ مثبت سوچ کو تقویت مل رہی ہے۔ منفی طرز فکر ساتھ نہیں دے رہا ہے۔ ٹی وی سے چپکنے سے بے زاری ہو رہی ہے۔ طبیعت اچھی فلموں اور اچھی کتابوں کی طرف مائل ہو رہی ہے۔ مجھے تو یہ نوید مل رہی ہے کہ ایک ذمہ دار قوم بننے کی طرف ہمارا سفر شروع ہو چکا ہے۔ حکومت کی عائد کردہ پابندیوں کو ہم اپنے مفاد میں سمجھ کر اپنا رہے ہیں۔ اپنے گھر والوں کی فکر کر رہے ہیں۔ حفظ ماتقدم ہمارا شیوہ بن رہا ہے۔ آپ سب یہ حقیقت تسلیم کریں گے کہ پاکستان اپنے 73 برسوں میں ایسے ابتلا سے نہیں گزرا ہے۔

اس قوم نے سفاک آمریتوں کا سامنا کیا۔ بھارت کی جارحیت کا مقابلہ کیا۔ اپنوں کی نا اہلیوں اور نا لائقیوں کا خمیازہ بھگتا۔ لیکن اس طرح پابند دن رات گزارنے کا تجربہ نہیں کیا تھا۔ اب تک ہم میں سے اکثریت بڑی دلجمعی اور استقامت سے ان مشقت بھرے دنوں کو برداشت کر رہی ہے۔ ہم جو پہلے صوبوں۔ لسانی گروپوں۔ طبقاتی کشمکش۔ برادریوں۔ اور فرقوں میں گھرے ہوئے تھے۔ اب روزانہ ہمیں پنجاب۔ سندھ۔ خیبر پختونخوا۔ بلوچستان۔ آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کا ذکر ایک ہی سانس میں سننے کو ملتا ہے۔ روزانہ سب کی صورت حال کا علم ہوتا ہے۔ مالی امداد۔ طبی آلات۔ کی فراہمی سب کے لیے ہو رہی ہے۔ آبادی کے تناسب کا خیال بھی رکھا جارہا ہے۔ مریضوں کی تعداد بھی پیش نظر رہتی ہے۔ خدمت کرنے والے ڈاکٹروں۔ نرسوں۔ اسپتال کے عملے۔ سینٹری ورکرز سب کا احترام دل میں بڑھ رہا ہے۔ کھرے کھوٹے کی پہچان ہو رہی ہے۔ 

صحت عامہ اور تعلیم کے شعبوں میں خامیوں کا احساس ہو رہا ہے۔ سماجی فاصلوں اور گھر میں قیام کی وجہ سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ اس طرح پاکستانی قوم صدیوں کی پسماندگی سے نکل کر جدید ترین ٹیکنالوجی سے روشناسی کے دائرے میں داخل ہو رہی ہے۔ یہ سماجی اور عمرانی طور پر ایک طویل جست ہے۔ اب انسانی زندگی۔ اور بقائے بنی نوع انسان مرکز سخن ہیں۔ انسانی بہبود کے لیے بجٹ میں گنجائش اوّلیت پارہی ہے۔ گھروں میں بیٹھنے والے۔ اور انتظامی مشینری انتظام جدید کی تربیت پارہے ہیں۔ انسانی نفسیات کے ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ ان چند ہفتوں میں عوام کی اکثریت جن مثبت عادتوں کو اختیار کرے گی وہ ان کے معمولات کا حصّہ بن جائیں گے۔ ایسا نہیں ہو گا کہ لاک ڈائون ختم ہوتے ہی ہم پھر سے خود غرض اور لاپروا بن جائیں گے۔ پھر انہی موقع پرست سیاستدانوں کی غلامی اختیار کر لیں گے۔ 

حکمران پارٹیاں ہوں یا دوسرے سیاستدان جو صرف 2023 کے الیکشن یا مڈ ٹرم کا سوچ رہے ہیں۔ وہ مسترد ہو سکتے ہیں۔ باقی وہی رہیں گے جو اگلی نسلوں کی فکر کر رہے ہیں۔ کیونکہ اب اکثریت زیادہ باشعور۔ زیادہ متحرک۔ زیادہ بے باک ہو جائے گی۔ ان کے بیٹے بیٹیاں۔ پوتے پوتیاں۔ نواسے نواسیاں۔ انہیں پھر اشرافیہ۔ جاگیرداروں۔ سرمایہ داروں۔ مافیا اور مذہبی سیاستدانوں کا آلۂ کار نہیں بننے دیں گے۔ قوم کا یہ وقت عبادتوں علم اور سائنس کے جلو میں گزر رہا ہے۔ نماز کی پابندی بھی ہو رہی ہے۔ انٹرنیٹ اور کتابوں سے رہنمائی بھی حاصل کی جارہی ہے۔ اب اس جاگی ہوئی اکثریت کی قیادت ان کو ہی نصیب ہو گی جو اپنے مذہب۔ اپنی ثقافت۔ اپنی روایات۔ اپنی تہذیب۔ جدید علوم اور سائنس کا ادراک رکھتے ہوں گے۔ کسی ایک شخص میں ظاہر ہے یہ ساری صفات یکجا نہیں ہو سکتی ہیں۔ اجتماعی قیادت ظہور میں آئے گی۔ سچّے اور کھرے ہی اس جنگ کے فاتح ہوں گے۔ قیادت پاکستان کے روایتی حکمرانی طبقوں سے چھن سکتی ہے۔

محمود شام

بشکریہ روزنامہ جنگ


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4341

Trending Articles