امریکی ڈرون حملے میں دو روز پہلے ایران کی القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کے نشانہ بنائے جانے کے بعد بین الاقوامی سطح پر کشیدگی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور دنیا ایک اور تباہ کن جنگ کے دہانے پر پہنچتی نظر آ رہی ہے۔ بغداد میں جنرل قاسم کی نماز جنازہ کے بعد امریکی سفارت خانے اور ایئربیس کے قریب راکٹ حملوں کی اطلاع منظر عام پر آئی۔ اس سے پہلے ایرانی فوج کے کمانڈر جنرل غلام علی ابو حمزہ نے خبردار کیا تھا کہ خطے میں 35 امریکی اہداف کے علاوہ تل ابیب بھی ایران کے نشانے پر ہے۔ بغداد میں راکٹ حملے کس نے کیے، یہ بات تو اب تک واضح نہیں تاہم ان حملوں کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان سامنے آیا کہ ایران نے کسی بھی امریکی شہری یا تنصیب کو نشانہ بنایا گیا تو امریکہ 52 اعلیٰ سطحی ایرانی تنصیبات اور مقامات پر حملہ کرے گا جو ایران اور اس کی ثقافت کے لیے نہایت اہم ہیں۔
امریکہ ایران اختلافات میں شدت مئی 2018ء میں صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران کے ساتھ اوباما دور میں کیے گئے ایٹمی معاہدے کی منسوخی اور پھر ایران پر سخت معاشی پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد رونما ہوئی۔ ایران نے ان پابندیوں کو عالمی عدالت انصاف میں چیلنج کیا تو اسی سال اکتوبر کی تین تاریخ کو عدالت نے اپنے ابتدائی فیصلے میں بعض پابندیاں ختم کرنے کا حکم دیا لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے اقوام متحدہ اور اپنے مغربی اتحادیوں کی مخالفت کے باوجود مئی 2019ء میں ایران پر مزید پابندیاں عائد کر دیں جبکہ شام اور یمن کی خانہ جنگی نے مشرق وسطیٰ میں ایران اور امریکہ کے اتحادی عرب ملکوں کے درمیان فاصلے پیدا کیے۔
کشیدگی کی اس فضا میں ایران کی جانب سے بھی امریکہ اور مشرق وسطیٰ میں اس کے اتحادی ملکوں کے خلاف اقدامات کیے گئے اور بالآخر نوبت یہ آگئی کہ ایران اور امریکہ کے درمیان بظاہر کسی بھی لمحے باقاعدہ جنگ شروع ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے جسے روکنا پوری عالمی برادری خصوصاً مسلم دنیا کے مفاد کا ناگزیر تقاضا ہے کیونکہ خدا نخواستہ جنگ کا خطرہ حقیقت بن گیا تو اس کا میدان مشرق وسطیٰ ہی ہو گا۔ ان حالات میں اسرائیل بھی اپنے مفادات کے حصول کے لیے لازماً پوری طرح سرگرم ہو جائے گا اور جنگ کے دائرے کو شرقِ اوسط میں واقع بیشتر مسلم ملکوں تک وسیع ہونے سے روکا جانا اور پاکستان سمیت کئی دوسرے غیر عرب مسلم ملکوں کا اس کے منفی اثرات سے محفوظ رہنا محال ہو گا۔
پاکستان، امریکہ اور اس کے اتحادی عرب ملکوں کے ساتھ ساتھ ایران سے بھی گہرے دوستانہ تعلقات رکھتا ہے لہٰذا حکومت پاکستان کو وقت کا ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر جنگ کے خطرے کے سدباب کے لیے ہر وہ تدبیر اختیار کرنا ہو گی جو دائرہ امکان میں ہو۔ یہ امر اطمینان بخش ہے کہ ایران کے خلاف اقدام کے لیے امریکہ کے مغربی اتحادی بھی اس کی حمایت نہیں کر رہے جس کا شکوہ امریکی وزیر خارجہ نے اپنے تازہ اظہار خیال میں کیا ہے جبکہ چین اور روس جیسی طاقتیں اور ادارہ اقوام متحدہ نے صدر ٹرمپ کے شوقِ جنگجوئی سے کھل کر اظہارِ اختلاف کیا ہے۔ خود کئی امریکی سیاسی رہنما، دانشور اور عوام امریکی حکومت کی طرف سے دنیا میں ایک نئی جنگ چھیڑے جانے کے شدید مخالف ہیں۔
حالات کے یہ ایسے امید افزا پہلو ہیں جن سے درست طور پر استفادہ کیا جائے تو دنیا کو ایک نئی جنگ سے بچایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے جنگ مخالف طاقتوں کے ساتھ مل کر اس کوشش میں زیادہ سے زیادہ سرگرم اور مؤثر کردار ادا کرنا وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ اس حوالے سے قومی اتفاق رائے پر مبنی حکمت عملی وضع کرنے کی خاطر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صورت حال کے تمام پہلوؤں کا دِقت نظر کے ساتھ جائزہ لیا جانا لازمی ہے بلکہ بہتر ہو گا کہ یہ کام کل جماعتی کانفرنس میں کیا جائے جس میں عسکری قیادت بھی شریک ہو۔