جس وقت غداری کیس میں خصوصی عدالت نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف موت کی سزا سنائی تو عین اسی وقت پارلیمینٹ ہاؤس کے سامنے پنجاب بھر سے آئے معطل بلدیاتی اداروں کے نمائندے احتجاج کر رہے تھے۔ ان احتجاجی مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے لیے مسلم لیگ نون کے مرکزی سیکرٹری جنرل احسن اقبال بھی موجود تھے۔ فیصلے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی تو پارلیمینٹ ہاؤس میں موجود میڈیا نمائندوں نے بھی اس معاملے پر احسن اقبال سے تبصرے کے لیے سوال داغے تو احسن اقبال نے اس فیصلے کی حمایت میں کہا کہ ’اس سے مستقبل میں آئین توڑنے کی روایت ختم ہو گی یہ وہ فیصلہ ہے جو آج سے پچاس سال پہلے دے دیا جاتا تو مارشل لا کی لعنت اور نحوست مسلط نہ ہوتی اور مشرقی پاکستان ہم سے جدا نہ ہوتا۔‘
پرویز مشرف کی عدالتی سزا پر اپوزیشن جماعت مسلم لیگ نون کی قیادت کو جیسے سانپ سونگھا ہو لیکن پارٹی کی جانب سے باضابطہ ردعمل احسن اقبال کے اسی بیان کی صورت سامنے آیا۔ مسلم لیگ نون میں احسن اقبال کو احتیاط پسند سیاستدان کے طور پر جانا جاتا ہے جو کبھی تنقید کرتے ہوئے بھی ایک خاص حد سے آگے نہیں جاتے۔ احسن اقبال نون لیگ میں نوازشریف کے وفاداروں میں سے ایک ہیں لیکن کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ شہباز شریف کے بھی کافی قریب ہیں۔ ان کا پارٹی سیکرٹری جنرل بننا بھی اسی بات کی علامت تھا کہ شہبازشریف اپنے ساتھ ایک احتیاط پسند رہنما کو ہی رکھنا چاہتے تھے۔ احسن اقبال کی احتیاط پسندی شاید ان کی پشتوں سے سیاست کا سبق ہے جو وہ کبھی نہیں بھولتے۔
احسن اقبال کی والدہ آپا نثار فاطمہ ستر اور اسی کی دہائی میں پنجاب کی معروف سیاسی شخصیت رہی ہیں۔ احسن کے نانا چوہدری عبدالرحمان خان پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے ہیں۔ آپا نثار فاطمہ کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ پنجاب میں بھٹو مخالف سیاسی مزاحمت کا ایک استعارہ تھیں۔ یہ آپا نثار فاطمہ ہی تھیں جنہوں نے ملک میں ضیا کی آمریت کے دوران توہین رسالت قانون پارلیمینٹ سے منظور کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق کے قریب جانی جاتی تھیں۔ اسے تاریخ کا جبر کہیں یا کچھ اور کہ مئی 2018 میں اسی آپا نثار فاطمہ کے بیٹے احسن اقبال کو اس کی اپنی حکومت کے دوران ان کے اپنے حلقہ انتخاب میں توہین رسالت کا الزام لگا کر قتل کرنے کی کوشش کی گئی کہ جس نے جنرل ضیا کے دور حکومت میں توہین رسالت کا قانون پاس کرنے کی کوشش کی تھی۔
احسن اقبال یوں تو سیاست میں ہیں مگر اصل میں وہ درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے ہیں۔ امریکہ کی پینسلوینیا یونیورسٹی کے وارٹن سکول سے انیس سو چھیاسی میں ایم بی اے کی ڈگری کے حامل ہیں۔ اس سے قبل لاہور یونیورسٹی آف انجنیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے بی ایس سی مکینیکل انجنیرنگ کی ڈگری کے حامل بھی ہیں یہاں وہ انیس سو اسی اور اکیاسی میں طلبہ یونین کے صدر بھی رہے ہیں۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ احسن اقبال کا شمار امریکہ کو مطلوب کالعدم جماعت الدعوۃ کے زیر حراست سربراہ حافظ سعید احمد کے شاگردوں میں بھی ہوتا ہے۔ یہ انجنیرنگ یونیورسٹی لاہور ہی تھی جہاں احسن اقبال حافظ سعید کے شاگرد رہے۔ احسن اقبال کے حافظ سعید سے تعلقات میں ایک اہم موڑ 2018 میں آیا۔ ان دنوں مرکز میں نوازشریف سپریم کورٹ کے حکم پر وزیراعظم کی حیثییت سے معزول ہو چکے تھے اور ان کی جگہ شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم تعینات کر دیا گیا تھا۔
نوازشریف کے وزیرداخلہ چوہدری نثار نے شاہد خاقان کی کابینہ میں وزارت قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا اس لیے وزارت داخلہ کا اضافی قلمدان احسن اقبال کے پاس آ گیا تھا جبکہ وزارت پلاننگ کمشن آف پاکستان بدستوران کے پاس تھی۔ عالمی سطح پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے کالعدم جماعت الدعوۃ کے اثاثے منجمند کرنے کی بات کی جا رہی تھی اور اس حوالے سے حکومت کڑے فیصلے لے چکی تھی۔ اس ماحول میں ایک روز احسن اقبال خاموشی سے لاہور میں اپنے استاد حافظ سعید سے ملے اور انہیں صورتحال سے آگاہ کر دیا۔ احسن اقبال ان دنوں وزیرداخلہ تو تھے مگر ان کا دل کبھی وزارت داخلہ میں نہیں لگا بلکہ وہ اس بات کا برملا اظہار بھی کرتے تھے کہ ان کی دلچسپی پلاننگ کمشن آف پاکستان میں ہی ہے ۔ وہ جون دو ہزار تیرہ سے سال دو ہزارسترہ میں مسلم لیگ نون کی حکومت کے خاتمے تک پلاننگ کمشن کے وزیر بھی رہے۔
احسن اقبال سال 1993 میں پہلی بار رکن قومی اسمبلی بنے پھر نوازشریف کے دوسرے دور حکومت می٘ں 1997 سے 1999 تک بھی ایم این اے اور ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمشن رہے۔ پرویزمشرف کی فوجی بغاوت کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں وہ پارلیمنٹ کا حصہ نہیں تھے بلکہ اسلام آباد کی ایک نجی یونیورسٹی میں معلم کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔ وہ سال 2008 میں پارٹی میں ایک موثر رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ ان کی زیادہ تر توجہ اپنی پارٹی کی اندرونی سیاست، گورننس اور پلاننگ کے ایشوز پر ہی مرکوز رہی۔ تاہم پارٹی کے اندر بھی وہ تنازعات سے دور بھاگنے والے رہنما کے طورپر ہی جانے جاتے ہیں۔ جب وہ وزیرداخلہ بنے تو ان کے پیشرو چوہدری نثارعلی خان نے ایک سے زائد مواقعے پر ایسے بیانات دئیے جن سے احسن اقبال کو شرمندگی اٹھانا پڑی مگر جواب میں احسن اقبال نے احتیاط کا دامن ہی تھامے رکھا۔ احسن اقبال احتیاط پسند تو تھے مگر اپنے پارٹی رہنماؤں کی حراست پر ہمیشہ حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ۔ رانا ثنا اللہ ہو٘ں یا شاہد خاقان عباسی احسن اقبال نے ہر فورم پر ان کا کیس لڑا اور ان کی آواز بنے اور بالاخر خود نیب کی حراست میں چلے گئے۔