کسی بھی نظام کو چلانے میں نہ صرف انتظامیہ ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے بلکہ یہ نظام کو درست سمت میں گامزن بھی رکھتی ہے۔ پاکستان کا افسر شاہی نظام چونکہ ہندوستان پر قابض تاجِ برطانیہ سے مستعار لیا گیا اس وجہ سے اس میں حاکم و محکوم کا فرق نمایاں نظر آتا ہے۔ اس نظام کا بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس میں افسران کو احتساب سے محفوظ رکھنے کا بالخصوص التزام کیا گیا ہے، یہی وجہ سے اکثر افسران نظام کی خامی و خرابی کی وجہ سے محفوظ رہتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے 2017-18 کے بارے میں اپنی سالانہ رپورٹ میں صلاحیت اور نظم و ضبط قواعد (ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن رولز) کے تحت سرکاری ملازمین کے احتساب کے نظام کی ناکامی کا اعتراف کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ قواعد پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے سرکاری ملازمین کے خلاف انضباطی کارروائی کا عمل سست روی کا شکار ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن رولز اور متعلقہ ہدایات پر انکوائری افسران/ مجاز افسران (اے او/ آئی او) عمل نہیں کرتے لیکن ایسے افسران کے خلاف کارروائی کیلئے کوئی قانونی شق موجود نہیں ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ایسے بھی کیسز ہیں جب نقائص دور کرنے کرنے کیلئے پوری کارروائی دوبارہ شروع کی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2017-18ء کے دوران مختلف ڈویژنوں اور وزارتوں کے ماتحت سروسز کے 96 افسران کے خلاف کارروائی شروع کی گئی جن میں سے 42 کیسز کو حتمی شکل دیدی گئی یا انہیں بند کر دیا گیا۔ سال کے دوران افسران کو محض 4 بڑی اور 6 چھوٹی سزائیں دی گئیں جبکہ 23 افسران کو بری قرار دیا گیا۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ ای اینڈ ڈی رولز پر اب نظر ثانی کی جا رہی ہے تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ سرکاری افسران کے احتساب کے نظام کو بے لاگ اور شفاف بنایا جائے اور انکوائری کے لئے مقررہ مدت مقرر کی جائے تاکہ سست روی اور تاخیری حربوں کے باعث چھٹکارے کا چور دروازہ بند کیا جا سکے، نیز دورانِ انکوائری ریٹائر ہونے والے افسران کو انکوائری مکمل ہونے تک مراعات و دیگر سہولتیں فراہم نہ کی جائیں۔