ساری دنیا میں اس بات پر ہمارا مذاق اڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں صرف ایک فیصد فائلرز ہیں۔ حکومت ہر جگہ نان فائلرز کا رونا روتی ہے۔ مگر آخر 99 فیصد لوگ اس طرف آتے کیوں نہیں؟ موجودہ حکومت اور چیئرمین ایف بی آر کی توجہ اس طرف دلانا چاہتا ہوں۔ ہماری 85 فیصد آبادی عام لوگوں پر مشتمل ہے، جو ساری زندگی محنت مزدوری کر کے، بچے پالنے اور گھر بار سیدھا کرنے کے بعد کوئی ایک آدھا چھوٹا موٹا پلاٹ اپنے بچوں کےلیے ہی لے پاتے ہیں۔ اور ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہ سارا سال ایک ایک چیز پر ٹیکس دیتے ہیں۔ ان کی پورے سال کی ریٹرن ایک صفحے سے زیادہ کی نہیں ہوتی۔ مگر انہیں یہ تک پتا نہیں کہ ’’ریٹرن‘‘ کہتے کسے ہیں۔
خود حکومت کے اپنے سرکاری ملازمین کی بات کی جائے تو کچھ عرصہ پہلے اسی حکومت نے سرکاری ملازمین کو فائلر بنانے کی مہم کا آغاز کیا تھا۔ اس میں خاصے ملازمین فائلر بنے۔ جو نہیں بن سکے، اس کی مندرجہ ذیل وجہ ہمارے سامنے آئی۔ انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کا پروسیس بے حد پیچیدہ ہے جو ایک ماہر کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ ایف بی آر ملازمین اور وکلاء نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور وہ سہولت جو ایف بی آر آفس سے مفت ملنی چاہیے، اس کے ہر ملازم سے تین تین، چار چار ہزار روپے وصول کیے۔ بھکر سے مجھے ایک دوست نے بتایا کہ جو سب سے سستا وکیل ملا اس نے بھی سب ملازمین سے تین تین ہزار روپے لیے اور سب کے آئی ڈی/ پاسورڈ بھی اپنے پاس ہی رکھے تاکہ اگلے سال منہ مانگی فیس وصول کرکے ریٹرن فائل کرے۔
ایک اور ملازم دوست نے کمالیہ سے بتایا کہ ہم ایف بی آر آفس ریٹرن کے لیے گئے تو وہاں ملازمین نے کہا کہ آپ ہمیں تین ہزار روپے دے دیں، ہم کر دیتے ہیں۔ انکار پر کہا کہ وکیل کے ذریعے آئیں، ایسے ریٹرن نہیں ہوتی۔ جس نے پیسے دیئے، اس کا کام ہو گیا۔ سال 19۔2018 میں (جس کی اب جون کے بعد ریٹرن فائل کرنی ہے) چار لاکھ سے آٹھ لاکھ سالانہ آمدنی پر 1000 روپے ٹیکس ہے اور آٹھ سے بارہ لاکھ سالانہ روپے آمدنی پر 2000 روپے۔ آپ ذرا المیہ دیکھیے کہ ایک ملازم جس کا سالانہ ٹیکس ایک یا دو ہزار روپے بنے گا، اس نے سارا سال ٹیکس بھی کٹوا دیا اور اب کٹوانے کے بعد اس کی ریٹرن کےلیے وکیل کو دوبارہ تین سے چار ہزار ادا کرے گا۔ کیا یہ ظلم نہیں کہ وہ ٹیکس کٹوا کر پھر چار گنا رقم اسے ثابت کرنے پر لگا دے کہ جی میں نے جتنا میرا ٹیکس بنتا تھا، وہ کٹوا دیا ہے۔
اور ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا وہ ملازم یہ فالتو کا تین چار ہزار روپیہ اپنی جیب سے ادا کرے گا ؟ ہرگز نہیں۔ وہ ان پیسوں کی وصولی کے لیے لازماً کرپشن کرے گا۔ کاروباری اور دیگر باقی ماندہ لوگ بھی وکیلوں کے چکروں کی وجہ سے اسی لیے آرام سے بیٹھے رہتے ہیں کہ کوئی مسئلہ ہو گا تو دیکھا جائے گا۔ مسئلے کے حل کی طرف آتے ہیں : مندرجہ بالا 85 فیصد عام شہریوں کی ٹیکس ریٹرن کے لیے ایک ایپلی کیشن/ ایپ بنا دی جائے جس میں سادہ سے فارم پر سب معلومات درج کی جا سکیں، اٹیچمنٹ میں کوئی تحریری ثبوت دیا جا سکے۔ سمپل ’’سبمٹ‘‘ پر کلک کر کے ریٹرن جمع ہو جائے۔ ملازمین پر کامیابی سے چلنے کے بعد ایسی ہی ایپلی کیشن کاروباری لوگوں کے لیے بھی بنائی جائے۔
اگر فوری طور پر یہ ممکن نہیں تو ایف بی آر دفاتر میں وافر تعداد میں تربیت یافتہ لوگوں کو بٹھایا جائے۔ آن لائن اور مینوئل ٹوکن سسٹم سے ہر شخص جو ریٹرن جمع کروانا چاہتا ہے، اسے باری دی جائے اور اس چیز کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے کہ وہاں صارف ایک روپیہ خرچ کیے بغیر اپنی ریٹرن جمع کروا سکے۔ کوئی بلاوجہ تنگ کرے یا پیسوں کی ڈیمانڈ کرے تو فوراً ہیلپ لائن پر کمپلین کی جا سکے اور اس ملازم کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ اس طرح ایف بی آر ملازمین اور وکیل مافیا سے عوام کی جان چھوٹ جائے گی؛ اور کرپشن کا ایک دروازہ بھی بند ہو جائے گا۔ ملک کے کروڑوں ذمہ دار شہری ٹیکس ریٹرن جمع کروانا چاہتے ہیں مگر پیچیدہ سسٹم، وکیلوں کے چکروں اور بلیک میلنگ کی وجہ سے نہیں کرواتے۔ ٹیکس نیٹ بڑھانا ہے تو خدارا اس سسٹم کو آسان بنائیے۔ ٹیکس ریٹرن فائل کرنا اتنا آسان بنا دیجیے کہ ہر شہری آسانی سے کروا سکے یا خود کر سکے۔