کوئی شک نہیں کہ ٹرین کا سفر ہمارے ہاں مقبول اور سستا ترین ذریعہ رہا اور اب بھی ہے لیکن دوسری جانب یہ خسارے کا بھی شکار ہے اور پہلے جیسا فعال نظام بھی عنقا ہو چکا۔ اس کی وجہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں بتاتے ہوئے انکشاف کیا گیا ہے کہ ریلوے میں گھوسٹ ملازمین ہیں جو نصف تنخواہ افسران کو دیتے ہیں۔ ان کے بائیو میٹرک بھی ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے فرائض سرانجام نہیں دے رہے۔ ریلوے حکام نے آگاہ کیا کہ خسارے میں چلنے والی ٹرینیں بند کر دی جائیں گی۔ تیل کی قیمت اور ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ سے ایک سال کے دوران کرائے 18 فیصد تک بڑھائے گئے ہیں۔
یہ ہماری حرماں نصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ انگریز سے ملنے والے متعدد شاندار ادارے ہمارے چند بدعنوان افراد کی دست برد کے باعث، سہولتیں فراہم کرنے اور نفع کمانے کے بجائے بوجھ بن گئے، جن میں ریلوے بھی شامل ہے، جس کے بارے میں یہاں تک انکشاف ہوا کہ نجی ٹرانسپورٹ کی ترویج کے لئے دانستہ طور پر اس کو تباہ کیا گیا۔ قائمہ کمیٹی میں گھوسٹ ملازمین کے بارے میں انکشاف بھی نیا نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض اداروں کی خستہ حالی کی وجہ حد سے متجاوز سیاسی مداخلت ہی ہے، ہر کسی نے اپنے حامیوں کو نوازا جس سے اداروں پر بوجھ بڑھا اور پھر وہ تباہی کا شکار ہوتے چلے گئے، تاہم یہ حقیقت بھی ناقابلِ تردید ہے کہ طویل سفر کے لئے اب بھی ریلوے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
لاہور سے کراچی یا پھر پشاور اور کوئٹہ جانے والی ٹرینوں میں مسافروں کا ہجوم اس بات کا گواہ ہے۔ ریلوے کو بچانا کوئی مشکل کام نہیں، گھوسٹ ملازمین اور ان کے سرپرستوں کا سراغ لگا کر انہیں بیک جنبش قلم فارغ کیا جائے، ملک بھر میں خام مال اور تیل کی ترسیل ریلوے سے مشروط کر دی جائے اور عوام کو نجی ٹرانسپورٹ کے بجائے ریلوے کی طرف راغب کیا جائے تو بعید نہیں کہ ایک دو سال میں یہ ادارہ مستحکم ہو کر منافع دینے لگے۔ ہمیں سخت اقدامات کرکے اپنے اس ادارے کو بچانا ہو گا۔