Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4341

سعودی عرب کو پاکستان کی ضرورت کیوں ہے؟

$
0
0

کے انتہائی گہرے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں‘ یہ وہ الفاظ ہیں جو دہائیوں سے دونوں ممالک کے سربراہان متعدد بار دہرا چکے ہیں۔ اور شاید یہ ہی وجہ ہے کہ جب بھی پاکستان کو اندرونی معاشی یا سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہوا تو اس نے سب سے پہلے سعودی عرب سے مدد طلب کی۔ چاہے وہ جنرل ضیاالحق کے دور آمریت میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا معاملہ ہو یا نوے کی دہائی میں ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کو درپیش معاشی بحران یا پھر جنرل مشرف کی ڈکٹیٹرشپ کے دور میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو سعودی عرب کی مداخلت کے بعد رہائی کا پروانہ ملنا ہو۔ سعودی عرب نے ہمیشہ سیاسی و معاشی بحران میں مبتلا پاکستان کی مدد کرنے کی کوشش کی۔

سات دہائیوں سے قائم یہ دو طرفہ تعلقات میں پاکستان کے لیے سعودی عرب کی اہمیت کی متعدد وجوہات سامنے آئیں ہیں جن میں سب سے پہلی اور اہم مذہبی طور پر سرزمین حجاز سے عقیدت و محبت اور بیت اللہ کا ہونا ہے۔ جبکہ دیگر میں پاکستان کو سستا تیل مہیا کرنا، مالی معاونت کرنا، اندرونی سیاسی بحران میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کے ساتھ متعدد معاملات پر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا ساتھ دینا۔ مگر پاکستان، جس کے پاس نہ تو تیل ہے اور نہ ہی مضبوط معیشت، ایسے میں سعودی عرب کے لیے کیوں اہم ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے نکلیں تو بہت سے دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں۔

دفاعی اور عسکری معاونت
جب کبھی بھی سعودی عرب کو دفاعی، داخلی و خارجی سلامتی یا بین الاقوامی سیاسی میدان میں مشکل پیش آئی تو پاکستان فوراً مدد کو پہنچا ہے۔ یہ کہنا ہے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کا جنھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس خطے کی چار بڑی ریاستیں پاکستان، ایران، ترکی اور سعودی عرب مذہبی، تاریخی اور تمدنی بنیادوں پر بہت قریب ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترکی، ایران اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتی خلیج نے سعودی عرب کے لیے پاکستان کی اہمیت اور بھی زیادہ کر دی ہے۔

عسکری و دفاعی تعاون کے ساتھ ساتھ سعودی عرب پاکستان کو قابل اعتماد دوست تصور کرتا ہے. سعودی حکمرانوں کا پاکستان پر اعتماد ہے، پاکستان نے گذشتہ 60 برسوں میں متعدد بار سعودی عرب کی سلامتی اور دفاع کےلیے مدد فراہم کی ہے۔ پاکستان نے نہ صرف سعودی عرب کی فوج کی تربیت سازی میں اہم کردار ادا کیا بلکہ سعودی سلطنت کے استحکام پر بھی تعاون فراہم کیا ہے۔ سعودی عرب میں تعینات پاکستان کے سابق سفیر اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اسد درانی نے اس پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ عسکری و دفاعی تعاون کے ساتھ ساتھ سعودی عرب پاکستان کو قابل اعتماد دوست ملک تصور کرتا ہے جو اس کو ہر مشکل کے وقت ایک بہتر مشورہ دے سکتا ہے۔

دفاعی تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ سنہ 1983 میں کیے جانے والا دفاعی معاہدہ جس پر پاکستان آج بھی قائم ہے اور جس کے نتیجے میں پاکستان نے اس وقت بہت سے فوجی دستے سعودی عرب کی سرزمین کے دفاع کے لیے فراہم کیے تھے اس کی اہمیت کو اجاگر کر دیتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اب اس وقت وہاں پاکستانی فوجیوں کی دس ہزار سے بھی کم تعداد موجود ہے لیکن سعودی عرب کو یقین ہے کسی بھی ہنگامی صورتحال میں پاکستان اس کی سالمیت کا دفاع ضرور کرے گا۔

پاکستان کی ایٹمی صلاحیت
اس ضمن میں پاکستان کا واحد اسلامی ایٹمی قوت ہونا بھی اس کو سعودی عرب کے لیے اہم بناتا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کے خلاف پاکستان بطور ایٹمی ریاست ان کی ڈھال ہے۔ حالانکہ سعودی عرب کا امریکہ سے دفاعی، معاشی اور تجارتی تعلق بہت مضبوط ہے لیکن ان کو اپنی داخلی اور خارجی سلامتی کے حوالے سے اس پر اعتبار نہیں ہے۔

سفارتی سطح پر پاکستان کی ضرورت
سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان عسکری تعلقات، سفارتی تعلقات سے زیادہ گہرے اور مضبوط ہونے کے باوجود سعودی عرب کو مسلم دنیا سمیت بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی سفارتی حمایت کی بھی ضرورت ہے جس کی مثال ہمیں صحافی خاشقجی کے قتل کے معاملےمیں ملتی ہے۔ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کا کہنا تھا کہ سفارتی سطح پر سعودی عرب کے ایران اور ترکی سے بڑھتے اختلافات بھی پاکستان کو ان کی نظر میں اہم بناتی ہے۔

لیکن سعودی عرب پر یہ حقیقت بھی آشکار ہے کہ پاکستان ان ممالک کے ساتھ اس کی وجہ سے اپنے تعلقات خراب نہیں کرے گا۔ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے اس بارے میں رائے دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت سعودی عرب کو اسلامی دنیا کے اندر سے چیلنجز کا سامنا ہے مثلاً ترکی اور قطر سے معاملات خراب ہیں، یمن سے بھی جنگ لڑ رہا ہے اور ایران پہلے ہی اس کے خلاف ہے ایسے میں اگر وہ پاکستان کو بھی نظر انداز کر دے گا تو اسلامی دنیا میں سعودی عرب کے ہاتھ میں کیا رہ جائے گا۔

واشنگٹن ڈی سی میں سنٹر فار گلوبل پالیسی کے سنیر رکن اور انٹرنیشنل جیو پولیٹکس کے ماہر ڈاکٹر کامران بخاری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا سعودی عرب کی دنیا بھر کو خام تیل کی برآمد کے باوجود وہ اب تک سیاسی اور عسکری طور پر ایک کمزور ریاست ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب گذشتہ سات آٹھ برسوں سے عالمی سطح پر مختلف شعبوں میں خودمختاری حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس میں وہ پاکستان کو اپنے لیے اہم معاون سمجھتا ہے۔

یمن جنگ اور پاکستان
سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری کا کہنا ہے کہ ان دو طرفہ تعلقات کو ایک بڑا دھچکا یمن کی جنگ کے دوران لگا جب سعودی عرب نے پاکستان سے عسکری مدد طلب کی لیکن پاکستان نے یمن میں فوج نہ بھیجنے اور اس جنگ میں فریق نہ بننے کا درست فیصلہ کیا تھا۔ تاہم اس معاملے کو اس وقت کی حکومت سفارتی سطح پر اچھی طرح ہینڈل نہیں کر سکی۔ جس کے سبب پاک سعودی تعلقات میں کچھ سرد مہری بھی آئی۔ جس کے بعد سعودی عرب نے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کو دورے پر نہ صرف خوش آمدید کہا بلکہ ان کو سعودی عرب کا سب سے بڑا قومی ایوارڈ بھی دیا گیا جو اس وقت پاکستان سے ناراضی کا ایک اظہار بھی تھا۔ جبکہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے سربراہ اور دفاعی تجزیہ کار عامر رانا کا کہنا ہے کہ یمن کے معاملے پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دہائیوں سے قائم دو طرفہ تعلقات میں اعتماد کی فضا کو ٹھیس نہیں پہنچی۔

سعودی معیشت میں پاکستان کا کردار
جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کی ضرورت یا اہمیت کی ایک اور بڑی وجہ سعودی حکومت کا صنعتی پیداوار بڑھانے اور اس کے ذریعے معیشت کی بہتری کا پلان ہے۔ جس کے تحت سعودی عرب اپنے مالی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے گوادر کی بندرگاہ میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب مستقبل میں اپنی معیشت کا ڈھانچہ تبدیل کرنا چاہتا ہے اور اپنا انحصار تیل کی آمدن پر کم کر کے معیشت کا رخ موڑنا چاہتا ہے۔ جس کے لیے اس کو مختلف منڈیوں کی تلاش ہے اور پاکستان 20 کروڑ کی آبادی کے ساتھ ایک ممکنہ بزنس مارکیٹ کے طور پر موجود ہے۔

کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار ڈاکٹر کامران بخاری نے بھی کیا کہ سعودی عرب اب تیل سے ہٹ کر دیگر ذرائع آمدن کے مواقع پیدا کرنا چاہتا ہے۔ جب ایران انڈیا کے تعاون سے چاہ بہار بندرگاہ پر کام کر رہا ہے جس کا اثر خلیج فارس کی دیگر بندرگاہوں پربھی مرتب ہونے کا امکان ہے ایسے میں پاکستان کی نئی بندرگاہ گوادر میں سرمایہ کاری کرنا سعودی عرب کے اپنے مفاد میں ہے۔ 57 ممالک پر مشتمل اسلامی دنیا کا مرکز سمجھے جانے والی اس ریاست میں سب سے زیادہ بیرونی افرادی قوت پاکستانیوں کی ہے اور یہ تعداد 22 لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔
بدلتا افغانستان اور پاکستان کی ضرورت
افغان امن عمل کے تحت امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات کے نتیجے میں مستقبل میں بدلتے افغانستان پر سعودی عرب کے کردار پر بات کرتے ہوئے جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ابتدائی مذاکرات میں سعودی عرب کو بٹھا کرعالمی تنہائی سے نکالا ہے اور خطے میں اس کی حیثیت کو بحال کرنے میں مدد دی ہے۔ جبکہ عامر رانا کا کہنا تھا کہ ماضی میں افغان جہاد میں سعودی عرب کا کردار ضرور رہا ہے مگر وقت کے ساتھ اس نے اس معاملے سے خود کو علیحدہ کیا تھا۔ لیکن اب ہونے والی ایک پیش رفت جس کا تعلق براہ راست مشرق وسطیٰ سے ہے، جب طالبان نے اپنا دفتر قطر میں قائم کیا جس کے بعد خطے میں اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے طالبان اور افغان امن عمل ان کے لیے اہم بن گیا ہے اور یہ سب پاکستان کی براہ راست مدد کے بنا ممکن نہیں ہے۔

عماد خالق

بشکریہ بی‌ بی‌ سی اردو، اسلام آباد


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4341

Trending Articles