پارلیمنٹ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی۔ شراب کی فروخت اور اس کے پینے پر پابندی لگانے کے لیے ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے اقلیتی ایم این اے ڈاکٹر رمیش کمار ایک آئینی ترمیم بل پیش کرتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ اسلام ہو یا کوئی دوسرا مذہب شراب پینے کی کوئی مذہب اجازت نہیں دیتا لیکن اس کے باوجود پاکستان میں شراب کو اقلیتوں کےنام پر فروخت کیا جاتا ہے جبکہ پینے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ ڈاکٹر رمیش کمار کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران وہ دوسرے مذاہب کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کا بھی حوالہ دیتے رہے، اُنہوں نے پاکستان کی بنیادی اساس کا بھی حوالہ دیا، وہ یہ بھی کہتے رہے کہ کسی بھی مذہب کے نام پر اگر شراب کا کاروبار پاکستان میں ہوتا ہے تو یہ سراسر غلط اور زیادتی ہے۔
رمیش کمار نے یہ بھی کہا کہ پاک سرزمین میں شراب پورا سال بیچی جاتی ہے حتیٰ کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں بھی اس کی فروخت جاری رہتی ہے۔ اس اقلیتی ممبر قومی اسمبلی نے یہ بھی دہائی دی کہ وہ پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا وہاں اسلامی تعلیمات کے برعکس شراب کے دھندے کی اجازت نہیں ہونا چاہیے۔ رمیش کمار نے یہ بھی کہا کہ اس پاک زمین کو پاک رکھنا ہم سب کا فرض ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نہ صرف وہ پاکستان کی تاریخ سے واقف ہیں بلکہ قرآن پاک کو بھی پڑھ رکھا ہے۔ رمیش کمار نے ریاست مدینہ کی بھی بات کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ریاست مدینہ کے بات کی جائے تو پھر شراب کی فروخت اور پینے کا کوئی تصور نہیں ہو سکتا۔ لیکن جب رمیش کمار کی آئینی ترمیم کے لیے قومی اسمبلی کی رائے لی گئی تو وہاں موجود اکثریت نے اس بل کو پیش کرنے کی مخالفت کر دی۔
شراب پر پابندی کے خلاف رائے دینے والوں میں حکومت و اپوزیشن کی اکثریت نے باآواز بلند ـ’’NO‘‘ کہا۔ ایسا کرنے والوں میں حکومتی بنچوں پر بیٹھنے والی تحریک انصاف اور اپوزیشن میں موجود ن لیگ اور پی پی پی بھی شامل تھیں۔ ریاست مدینہ کی مثالیں دینے والی تحریک انصاف حکومت کے چند ایک وزرا تو ڈاکٹر رمیش کمار پر جیسے پھٹ پڑے اور اُنہیں یہ تک مشورہ دے دیا کہ وہ افغانستان چلے جائیں یا بھارت۔ قومی اسمبلی میں اسلام کا نام لینے والوں کی اکثریت نے ایک ہندو ایم این اے کی طرف سے شراب کی فروخت پر پابندی لگانے کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔ افسوس صد افسوس۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے۔ یہ پارلیمنٹ اور یہ اسمبلیا ں کسے دھوکہ دے رہی ہیں۔
اسلام کے نام پر بننے والے ملک اور یہاں کی عوام سے کتنا بڑا فراڈ ہو رہا ہے۔ جنہوں نے حلف اٹھایا اُس آئین کا جوپاکستان میں قرآن و سنت کے نفاذ کا وعدہ کرتا ہے وہی اسلامی نظام کے رستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آ چکے۔ ڈاکٹر رمیش کمار نے رد شدہ آئینی ترمیمی بل دوبارہ اسمبلی سیکریٹریٹ میں آئندہ اجلاس میں پیش کرنے کےلیے جمع کرا دیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بل پر باقاعدہ ووٹنگ ہو تاکہ عوام کو کم از کم یہ پتا تو چل جائے کہ اسمبلی ممبران میں سے کون کون شراب کی فروخت اور پابندی کے خلاف ہے۔ ڈاکٹر رمیش کمار کافی عرصہ سے شراب پر پابندی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ سپریم کورٹ تک بھی اپنی اس تحریک کی کامیابی کے لیے جاچکے ہیں لیکن وہاں سے بھی اُنہیں کوئی مثبت جواب نہ ملا۔
امید کی جا سکتی ہے میڈیا پر تشہیر سے اس مسئلہ سے اب وزیر اعظم عمران خان بھی واقف ہوںگے اس لیے اُن پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ رمیش کمار کی اس آئینی ترمیم کی حمایت کےلیے حکومتی بنچوں کو فعال بنائیں تاکہ اس شراب کی فروخت کو روکا جا سکے۔ اپوزیشن خاص طور پر ن لیگ اور اس کے قائد میاں نواز شریف کو بھی چاہیے کہ وہ اس بل کی حمایت کریں۔ ویسے تو ہر ممبر اسمبلی کے لیے یہ ایک ایسے امتحان کا وقت ہے جس کا بدلہ اُسے یومِ حشر ہی ملے گا لیکن یہ بڑی شرم اور حیا کی بات ہے کہ شراب پر پابندی کےلیے اقلیتی ممبر کوشش کرے اور اکثریتی مسلمان پارلیمنٹیرین اس کی مخالفت کریں۔