چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ لوگ پیسہ لوٹ کر ملک سے باہر لے گئے، جنہوں نے غیر ممالک میں اپنے بینک اکاونٹس ظاہر نہیں کیے ان کا پتہ چلنا چاہیے، پاکستانیوں کےاربوں روپے سوئٹزرلینڈ اور دبئی میں پڑے ہیں، اصل مقصد پیسے کی بیرون ملک منتقلی کو روکنا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پاکستانیوں کے غیر ممالک میں اکاونٹس اور روپے کی بیرون ملک منتقلی کے مقدمے کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے کہا عدالت نے حکم دیا تھا کہ بتائیں کتنے لوگوں کے غیر ملکی اکاوئنٹس ہیں؟ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت کو بتایا متحدہ عرب امارات میں 4 ہزار 2 سو 21 افراد کے اثاثے اور اکاوئنٹس ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پیسے کی بیرون ملک منتقلی 1992 میں بنائے گئے کے قانون کے تحت ہوئی ، کچھ لوگ قانونی طریقے سے بھی پیسہ باہر لے کر گئے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو کرپشن اور ٹیکس چوری کا پیسہ باہر لے کر گئے، یہ پیسہ یورپ امریکہ اور کینیڈا بھی لے جایا گیا۔ ڈی جی ایف آئی نے کہا کہ پیسہ واپس لانے کے لئےراستہ نکالنا ہو گا ، ہمارے پاس باہمی قانونی معاونت کا اختیار نہیں، بیرون ملک پیسہ ہنڈی کے ذریعے بھی منتقل ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا پیسہ کو باہر جانے سے روکنے کے لئے طریقہ کار بنانا ہو گا۔ یہ ضروری نہیں کہ ملک سے باہر جانے والے 200 ڈالرز بھی ظاہر کریں، ایسی غیر مناسب پابندی بھی نہیں لگا سکتے، لوگ خریداری کے لئے بھی ملک سے باہر جاتے ہیں، اصل مقصد پیسے کی بیرون ملک منتقلی کو روکنا ہے۔