کالون پیٹرک لوگوں کو پیدل چلنے کا مشورہ دیتا ہے، اس کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہے، لیکن وہ ابھی تک چاق چوبند ہے۔ گزشتہ سال اس نے پیدل چلنے کے ایک مقابلے میں حصہ لیا اور اوّل آیا۔ اس نے ساٹھ میل کا فاصلہ 12 گھنٹے 36 منٹ اور 20 سیکنڈ میں طے کیا اور اوّل آنے کا اعزاز حاصل کیا۔ حالانکہ اس مقابلے میں اس سے بھی کم عمر کے لوگ شریک تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کے قدم اٹھا کر چلنے سے اس کی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ دنیا میں صحت برقرار رکھنے کا بہترین نسخہ باقاعدگی سے پیدل چلنا ہے۔ پھر لطف یہ کہ اس میں خرچ بھی کچھ نہیں، صحت بھی اچھی رہتی ہے اور اچھی خاصی تفریح بھی ہو جاتی ہے۔
جب انسان کے دو پیر سلامت ہوں اور اس کے دل میں یہ خواہش ہو اور ارادہ بھی کہ اپنی جسمانی اور دماغی صحت کو برقرار رکھا جائے، اس وقت تک اس مقصد کے حصول کے لیے پیدل چلنے سے بہتر کوئی طریقہ نہیں۔ کالون پیٹرک (جس نے ایک مقابلے میں یہ کام یابی حاصل کی) کا بیان ہے کہ اگر میں یہ کہوں:’’میری اس امتیازی کامیابی اور جسمانی صحت کا باعث بڑی حد تک میری پابندی سے پیدل چلنے کی عادت ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ لوگوں کو پیدل چلنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے۔ مجھے اس میں بھی ذرا ساشبہ نہیں کہ اگر آپ یہ عادت ڈال لیں تو آپ کو کس قدر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔‘‘
میرے خیال میں صحیح طریقے سے پیدل چلنا بھی ایک فن ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ پیدل چلنے والے بھی اس پرانے فن کو فراموش کر چکے ہیں جو حقیقت میں بہترین ورزش ہی ہے۔ اس کا بڑا سبب موٹروں اور موٹر سائیکلوں کا کثرت سے استعمال ہے، جنھوں نے انسانی پیروں کی جگہ لے لی ہے۔ اس سے میرا یہ مطلب نہیں کہ آمدورفت کے ان ذرائع کو ختم کر دیا جائے، لیکن میرا یہ مطلب ضرور ہے کہ انہیں انسان کے روزانہ پیدل چلنے کی ورزش کے راستے میں حائل نہ ہونا چاہیے۔
صحیح طریقے سے پیدل چلنے کا مطلب یہ ہے کہ اعضا کی ہم آہنگی کے ساتھ حرکت سے نہ صرف صحت ملتی اور فائدہ پہنچتا ہے، بلکہ حقیقت میں سارے جسم کو قوت بھی حاصل ہوتی ہے، چوں کہ پیدل چلنے کی ورزش میں انسان گہرے سانس لیتا ہے، اس لیے اس کے جسمانی نظام میں آکسیجن کی مقدار بھی زیادہ داخل ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قلب زیادہ قوت سے کام کرتا ہے، دوران خون بڑھتا ہے اورجسم انسانی کے تمام اندرونی اعضا زیادہ فعال ہو جاتے ہیں۔ اعضا کی فعالیت کے باعث شگفتگی اور اپنی بہتر حالت کا احساس ہوتا ہے اور اس کو وہی لوگ بہتر طریقے سے سمجھتے اور محسوس کر سکتے ہیں جنہیں باقاعدہ پیدل چلنے کی عادت ہوتی ہے۔ اس احساس کو سمجھنے کے لیے پیدل چلنا ضروری ہے۔ چال قدرے تیز ہونی چاہیے۔ فاصلہ بھی کافی ہونا چاہیے اور ہفتے میں کم از کم پانچ روز چلنا فائدے مند ثابت ہوتا ہے۔
عام طور سے لوگ قدرتی اور متوازن چال کے بجائے اکڑ کر اور بناوٹی انداز سے چلنے لگتے ہیں، اس طرح وہ اس فائدے سے جو صحیح طریقے سے چلنے پر حاصل ہونا چاہیے، محروم رہتے ہیں، کیوں کہ صحیح طرح سے چلنے کے معنی یہ ہیں کہ جسم سیدھا رہے، سختی نہ ہو اور چال میں موسیقی کی سی ہم آہنگی ہو۔ عام آدمی اور مقابلوں میں حصہ لینے والے تجربہ کار پیادہ رو لوگ بھی، جنہیں بہتر علم ہونا چاہیے، پیدل چلنے میں گھٹنوں سے زیادہ اور ٹخنوں سے کم کام لیتے ہیں۔ اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ ابتدائی دونوں میں پیدل چلتے رہنے کے بعد بھی جلد تھکن ہو جاتی ہے، اس کی پیٹھ میں درد ہوتا ہے اور اعصاب دکھنے لگتے ہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اپنے اعصاب سے صحیح کام نہیں لے رہا ہے اور اس کا توازن درست نہیں۔
پیدل چلتے وقت انسان کا سر، کندھے اور سینہ جھکا ہوا نہیں رہنا چاہیے، کیوں کہ اس طرح خمیدہ کمری یا کبڑے ہونے سے بچاؤ ہوتا ہے۔ اسی طرح کولہوں کو ادھر ادھر جھکانے کے رجحان سے بھی بچنا چاہیے۔ پیدل چلتے وقت جسم کی ہر حرکت کو راست اور سامنے کی جانب ہونا چاہیے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ جسم کا وزن ایک پیر سے دوسرے پیر پر ٹھیک طریقے سے منتقل کیا جائے۔ مطلب یہ کہ جو پیر آپ کو آگے کی طرف بڑھا رہا ہے، اس وقت تک زمین سے نہ اٹھے، جب تک جسم کا وزن پوری طرح سے آگے بڑھتے ہوئے پیر پر منتقل نہ ہو جائے۔ بہتر یہ ہے کہ نہ کولھے جھکائے جائیں اور نہ قدم بڑھاتے وقت کندھوں کو جھٹکا دیا جائے۔
سینہ ابھرا ہوا ہونے کے بجائے خوب پھیلا ہوا ہونا چاہیے اور چلتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ آپ کس قسم کے جوتے پہنے ہوئے ہیں، کیوں کہ جوتوں کا آرام دہ ہونا بے حد ضروری ہے۔ چلتے وقت اپنے پیروں کی طرف توجہ رکھیں اور یہ دیکھیں کہ قدم صحیح رخ پر پڑ رہے ہیں یا نہیں۔ قدم بڑھا کر سیدھے چلنے میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جسم کا بوجھ پیر کے اگلے اور چوڑے حصے پر پڑتا اور متوازن رہتا ہے۔ ایڑیوں پر بوجھ ڈالنے سے اجتناب کرنا چاہیے کیوں کہ اس سے توازن پوری طرح برقرار رکھنے میں دقت ہوتی ہے۔ پیدل چلنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کے ٹانگوں کو کولھوں سے آگے بڑھائیں۔ گھٹنے ان کے ساتھ ہم آہنگی سے حرکت کریں۔ ایڑیاں پہلے زمین کو چھوئیں، لیکن اتنی تیزی سے کہ ایڑیوں سے قطعاً آواز نہ نکلے۔
باقاعدہ پیادہ روی، گھر میں ورزش، پابندی سے غسل اور مناسب اور موزوں غذا جسم انسانی کی تقریباً جملہ خرابیوں کو دور کر کے صحت قائم رکھتی ہے اور ان کے ذریعے سے جوانی، شگفتگی، تازگی اور صحت کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ صبح تڑکے روزانہ پیدل چلنا، جب ہوا صاف اور پاکیزہ ہوتی ہے، بہترین، ارزاں ترین اور آسان ترین نسخہ ہے، ہر اس انسان کے لیے جو اپنی صحت اور جسمانی قوت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ کالون پیٹرک کا یہ کہنا ہے کہ ’’میں اسی اصول پر مدتوں سے عمل کر رہا ہوں۔ بعض اوقات میں پیدل چلتا ہوا دور تک حسین مناظر دیکھنے چلا جاتا ہوں اور وہاں کسی جھیل میں آبی پرندوں کے تیرنے اور غوطے لگانے کا لطف اٹھاتا ہوں۔‘‘ تجربے سے معلوم ہوا کہ پیدل چلنے سے نہ صرف عمر میں اضافہ ہوتا ہے، بلکہ مسلسل مشق سے انسان کی صلاحیتوں اور قوتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور اس طرح ’’بڑھاپا‘‘ دور رہتا ہے۔
ہمارے ملک میں بہت کم لوگ صبح کو ہوا خوری کے لیے نکلتے ہیں اور جو نکلتے بھی ہیں وہ پابندی نہیں کرتے۔ بڑے شہروں کی زندگی میں جہاں بہت سی سہولتیں اور آسائشیں ہیں، وہیں بعض بہت سی خرابیاں بھی ہیں۔ مثال کے طور پر دن میں مختلف قسم کی گاڑیوں کے چلنے اور کارخانوں، فیکٹریوں اور ملوں وغیرہ سے دھواں نکلنے کے باعث ہوا بہت کثیف رہتی ہے، اس لیے بڑے بڑے پارک بنائے جاتے ہیں۔ اگر صبح کے وقت پیدل چلنے کی عادت ڈالی جائے تو صاف اور تازہ ہوا مل سکتی ہے، جو کسی اچھے سے اچھے ٹانک سے بھی بہتر ہوتی ہے۔