↧
پاکستان میں جبری گمشدگیاں
لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے حکومتوں کی طرف سے تعاون کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ نے کہا کہ حکومتیں تعاون تو کرتی ہیں لیکن سب لوگ شائد نہیں کرتے۔ ’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سارے لوگ تعاون کرتے ہیں حکومت کے اندر؟ کیا وہ لوگ تعاون کرتے ہیں جو شائد ذمہ دار ہوں (گمشدگیوں کے) یا باغی (روگ) عناصر ہوں، سارے تو ایسے نہیں ہیں۔‘ جسٹس چوہان نے کہا کہ قانون کی عدم موجودگی کے باعث گمشدہ افراد کے مقدمات کی تفتیش کرنے میں ان کا ادارہ بعض اوقات بے بس ہو جاتا ہے۔ قانون نہ ہونے کی وجہ سے ان افراد کی کسی ایجنسی کی تحویل میں ہونے کی تصدیق کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ اگر یہ طریقہ کار بن جائے تو ایجنسیوں یا پولیس میں جو (پالیسیوں سے ) باغی عناصر ہیں ان کا احتساب ہو سکے گا اور وہ قانون کے مطابق چلیں گے۔'جب تک گمشدہ فرد الزام علیہ (ایجنسیوں) کے ہاں سے برآمد نہیں ہو گا یا وہ ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرے گا تو ہم تو بے بس ہیں۔' اس سوال پر کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جب تک ایجنسیاں، جن پر الزام ہے کہ انھوں نے کسی شخص کو غیر قانونی حراست میں رکھا ہوا ہے، انسانی حقوق کمیشن کے ساتھ تعاون نہیں کرتیں تو یہ ادارہ کچھ نہیں کر سکے گا، جسٹس چوہان نے کہا کہ یہ تاثر کلی طور پر درست نہیں ہے۔ 'کچھ تو ہم کر سکتے ہیں۔ جیسے دباؤ ڈال سکتے ہیں، شور مچا سکتے ہیں اور ایجنسیوں کو بلا بھی لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان سے کچھ حاصل ہو جائے۔' جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر ایجنسیاں جبری گمشدہ افراد کے بارے میں رضا کارانہ معلومات نہیں دیتیں تو ان کا ادارہ کچھ نہیں کر سکتا، جسٹس چوہان نے اس رائے سے اتفاق کیا۔
↧