Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4341

پاکستان میں جبری گمشدگیاں

$
0
0

پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کے سرکاری ادارے کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان نے کہا ہے کہ جبری گمشدگیوں کے معاملے میں پاکستان میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے۔ بی بی سی کو جبری طور پر گمشدہ ہونے والے افراد کے بارے میں دیے گئے انٹرویو میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان میں جبری طور پر گمشدہ ہونے والے لوگوں کے بارے میں کوئی قانون نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان نے اس بارے میں بین الاقومی معاہدوں کی توثیق کی ہے۔ انھوں نے کہا: 'قانون نہ ہونے کی وجہ سے ان افراد کی کسی ایجنسی کی تحویل میں ہونے کی تصدیق کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ اگر یہ طریقہ کار بن جائے تو ایجنسیوں یا پولیس میں جو پالیسیوں سے باغی عناصر ہیں ان کا احتساب ہو سکے گا اور وہ قانون کے مطابق چلیں گے۔'

لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے حکومتوں کی طرف سے تعاون کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ نے کہا کہ حکومتیں تعاون تو کرتی ہیں لیکن سب لوگ شائد نہیں کرتے۔ ’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سارے لوگ تعاون کرتے ہیں حکومت کے اندر؟ کیا وہ لوگ تعاون کرتے ہیں جو شائد ذمہ دار ہوں (گمشدگیوں کے) یا باغی (روگ) عناصر ہوں، سارے تو ایسے نہیں ہیں۔‘ جسٹس چوہان نے کہا کہ قانون کی عدم موجودگی کے باعث گمشدہ افراد کے مقدمات کی تفتیش کرنے میں ان کا ادارہ بعض اوقات بے بس ہو جاتا ہے۔ قانون نہ ہونے کی وجہ سے ان افراد کی کسی ایجنسی کی تحویل میں ہونے کی تصدیق کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ اگر یہ طریقہ کار بن جائے تو ایجنسیوں یا پولیس میں جو (پالیسیوں سے ) باغی عناصر ہیں ان کا احتساب ہو سکے گا اور وہ قانون کے مطابق چلیں گے۔
'جب تک گمشدہ فرد الزام علیہ (ایجنسیوں) کے ہاں سے برآمد نہیں ہو گا یا وہ ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرے گا تو ہم تو بے بس ہیں۔' اس سوال پر کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جب تک ایجنسیاں، جن پر الزام ہے کہ انھوں نے کسی شخص کو غیر قانونی حراست میں رکھا ہوا ہے، انسانی حقوق کمیشن کے ساتھ تعاون نہیں کرتیں تو یہ ادارہ کچھ نہیں کر سکے گا، جسٹس چوہان نے کہا کہ یہ تاثر کلی طور پر درست نہیں ہے۔ 'کچھ تو ہم کر سکتے ہیں۔ جیسے دباؤ ڈال سکتے ہیں، شور مچا سکتے ہیں اور ایجنسیوں کو بلا بھی لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان سے کچھ حاصل ہو جائے۔' جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر ایجنسیاں جبری گمشدہ افراد کے بارے میں رضا کارانہ معلومات نہیں دیتیں تو ان کا ادارہ کچھ نہیں کر سکتا، جسٹس چوہان نے اس رائے سے اتفاق کیا۔

انھوں نے کہا: 'بہت حد تک آپ ٹھیک کہ رہے ہیں۔ اگر ایجنسیاں رضا کارانہ طور پر ہمیں یہ نہ بتائیں کہ کوئی گمشدہ شخص ان کے پاس موجود ہے تو ہمارے پاس تو کوئی طریقہ نہیں ہے جس سے ہم یہ معلوم کر سکیں کہ یہ فرد کہاں ہے۔' اس معاملے میں پولیس کے کردار کے بارے میں ایک سوال پر جسٹس چوہان نے کہا کہ پولیس اتنی طاقتور نہیں ہے کہ وہ اس معاملے میں کچھ کر سکے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ تو پھر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا معاملہ ہو گیا تو جسٹس چوہاں نے کہا کہ کچھ ایسا ہی ہے۔ 'میں اس سے انکار نہیں کروں گا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ تو ہے۔ لیکن یہیں پر قانون کا معاملہ آ جاتا ہے۔ اگر قانون میں اختیار اور طاقت دی جائے تو معاملات بہتر ہو سکتے ہیں۔' انھوں نے کہا کہ اس بارے میں نئے قوانین بنائے اور ایجنسیوں اور پولیس کو ان قوانین کے دائرے میں لائے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔

'اس (قانون نہ ہونے) کی وجہ سے ہم حکومت کے مرہون منت ہیں کیونکہ ہمارے پاس اپنی تو کوئی ایجنسی نہیں ہے جس سے ہم ڈھونڈھ سکیں کہ گمشدہ فرد کہاں ہے۔' انھوں نے کہا کہ وہ حکومت کو تجویز دے چکے ہیں کہ اس معاملے پر قانون سازی کی جائے لیکن ایسا ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔

آصف فاروقی 

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

 


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4341

Trending Articles