Quantcast
Channel: All About Pakistan

پاکستان کی ترقی : اعلیٰ تعلیم

$
0
0

پاکستان کو آج بیشمار مسائل کا سامنا ہے جن میں حکمرانی کا ناقص نظام، مناسب طویل مدتی منصوبہ بندی کا فقدان، آبادی میں بے قابو اضافہ، انتہائی ناقص تعلیمی نظام، مناسب صنعتکاری کا فقدان، روزگار کے مواقع میں کمی، بدعنوان قیادت اور انصاف کی عدم فراہمی شامل ہیں۔ اسکا نتیجہ ایک دیوالیہ ملک ہے جسکو پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے ناقابل برداشت شرح سود پر نئے قرضے لینا پڑ رہے ہیں۔ پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی میں پالیسی کی بڑی غلطیوں میں سے ایک طویل مدتی منصوبہ بندی کا مسلسل فقدان ہے۔ پائیدار اقتصادی حکمت عملیوں پر اکثر قلیل مدتی سیاسی تحفظات کو فوقیت حاصل رہی ہے۔ اس کم نظری کے نتیجے میں متعدد Adhoc پالیسیاں وجود میں آتی ہیں اور سنہرے مواقع ضائع ہوتے ہیں۔ علم پر مبنی معیشت کی طرف منتقلی کے واضح طویل مدتی نظریے کے بغیر، ہم نے مخصوص سماجی و اقتصادی ترقی کے اہداف حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کی ہے۔ اس غلطی کو دور کرنے کیلئے، ہمیں اسکی سماجی و اقتصادی ترقی کی پالیسیوں میں طویل المدتی منصوبہ بندی کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے جس کا بنیادی ہدف جدید ٹیکنالوجی پر مبنی معیشت حاصل کرنا ہو۔ اس میں واضح، قابل پیمائش اہداف اور مقاصد کا تعین، جامع حکمت عملی تیار کرنا اور سیاسی تبدیلیوں کے دوران پالیسی کے تسلسل کو یقینی بنانا شامل ہونا چاہئے۔ ایسا کرنے سے پاکستان معاشی ترقی کیلئے مزید مستحکم اور پائیدار راہ ہموار کر سکتا ہے۔

ہماری سماجی و اقتصادی ترقی کی پالیسیوں میں نااہل انتظامیہ ایک مستقل رکاوٹ رہی ہے۔ بدعنوانی، افسر شاہی کی نااہلی اور کمزور اداروں نے موثر پالیسی کے نفاذ اور وسائل کی تقسیم میں رکاوٹیں ڈالی ہیں، جس سے ملک کی اقتصادی ترقی کو نقصان پہنچا ہے۔ اسکے علاوہ اعلیٰ پیمانے پربدعنوانی کی بدنامی نے عالمی سطح پر ہماری ساکھ کو کافی نقصان پہنچایا ہے، جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں اور امداد دینے والوں کیلئے پاکستان اپنی ساکھ کھو چکا ہے، ناقص انتظامیہ کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے ہمیں جامع اصلاحات کی ضرورت ہے جو شفافیت، احتساب اور اداروں کو مضبوط بنانے پر مرکوز ہوں۔ اس میں خود مختار انسداد بدعنوانی ایجنسیوں کے ذریعے بدعنوانی کا مقابلہ کرنے کی کوششیں شامل ہوں، نوکر شاہی کے عمل کو ہموار کرنا اور سرکاری ملازمین کیلئے صلاحیت سازی میں سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔ مزید برآں، قانون کی بالادستی کو برقرار رکھنے اور شہریوں اور کاروباری اداروں کی انصاف تک رسائی کو یقینی بنانے کیلئے قانونی اصلاحات ضروری ہیں۔ آبادی میں بے قابو اضافے نے ہمارے مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ ہمیں آبادی پر قابو پانے کے موثر اقدامات کرنے چاہئیں اور خاندانی منصوبہ بندی کے پروگراموں میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔

پاکستان کا ناقص تعلیمی نظام ایک بڑی خرابی ہے جو سماجی و اقتصادی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ تعلیمی نظام نے کم شرح خواندگی، فرسودہ نصاب اور ناکافی سرمایہ کاری کے ساتھ جدوجہد کی ہے، جس سے اقتصادی ترقی محدود ہو گئی ہے۔ اس لیے ہمیں فوری طور پر سماجی و اقتصادی ترقی کے بنیادی محرک کے طور پر تعلیم کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی بنیادی ڈھانچےمیں سرمایہ کاری میں اضافہ، اساتذہ کی تربیت ، معیار کو بہتر بنانا اور روزگار کی ضروریات کے مطابق نصاب کو جدید بنانا ضروری ہے۔ اس کے بعد ہی ہم ایک ایسی ہنر مند اور باشعور افرادی قوت پیدا کر پائیں گے جو معاشی ترقی کو آگے بڑھا سکے۔ اس کی ایک بہترین مثال پاک آسٹرین جامعہ برائے اطلاقی سائنس و انجینئرنگ ہے جو میری نگرانی میں ہری پور ہزارہ میں قائم کی گئی جس کی فنڈنگ کے پی حکومت کی طرف سے فراہم کی جا رہی ہے۔ یہ کاروبا ر کو فروغ دینے کیلئے ایک ’’انٹرپرینیورئل جامعہ‘‘ ہے جسکی کارکردگی کا اندازہ صرف پی ایچ ڈی حاصل کنندگان کی تعداد، تحقیقی اشاعتوں یا دیگر تعلیمی معیارات کی تعداد سے نہیں بلکہ اسکے فیکلٹی اور طلباء کی پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی پر پڑنے والے اثرات سے لگایا جائے گا۔ 

یہ جامعہ تین آسٹرین، ایک جرمن اور پانچ چینی جامعات کے ساتھ قریبی شراکت داری میں قائم کی گئی ہے، جن میں سے ہر ایک نے جامعہ کے ایک حصے کو ترقی دینے کا مکمل ذمہ لیا ہے۔ اس میں تمام طلباء کیلئے ڈگری کا اہل ہونے سے پہلے اعلیٰ کارکردگی کے ساتھ کم از کم 500 گھنٹے صنعت میں کام کر نا لازمی ہے۔ اگرچہ یہ جامعہ صرف 3 سال پرانی ہے لیکن اس کے ٹیکنالوجی پارک میں تجارتی ترقی کے مختلف مراحل میں دس مصنوعات تیار کی جارہی ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور جامعہ میری نگرانی میں سیالکوٹ کے قریب سمبڑیال میں وفاقی حکومتوں کے فنڈز سے بنائی جا رہی ہے۔ اگر سندھ حکومت مقامی صنعت سے منسلک ایسی ’’انٹرپرینیورل جامعہ‘‘ میں دلچسپی ظاہر کرے تو غیر ملکی تعاون سے سندھ میں بھی ایسی ہی جامعہ جلد قائم کی جاسکتی ہے۔ تحقیق اور ترقی، جدت طرازی اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرنے سے متحرک اور متنوع معیشت کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ مزید برآں، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری ادارے (SMEs) نئی صنعتوں کی ترقی کی حوصلہ افزائی ، نئی صنعتیں اور ملازمتیں پیدا کر سکتے ہیں۔ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں (SOEs) نے ہماری حکومت کے وسائل کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور پاکستان کی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بنے ہیں۔

لہٰذا ناکارہ سرکاری اداروں کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے، ہمیں ان اداروں کے نظم و نسق میں جامع اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔ بدعنوانی اس ملک میں ہمیشہ سے ایک اہم مسئلہ رہا ہے، جو ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کو نقصان پہنچا رہا ہے، اداروں پر عوامی اعتماد کو ختم کر رہا ہے اور ترقی میں رکاوٹ کا سبب ہے۔ اسکا انتہائی مربوط تانا بانا ہے جس کی جڑیں سیاست اور افسر شاہی سے لیکر قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور کاروبار تک معاشرے کے مختلف شعبوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ 230 ملین افراد کی آبادی میں 30 سال سے کم عمر آبادی 67 فیصد ہے، اگر ہم اس حقیقی دولت میں سرمایہ کاری کریں تو پاکستان کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں ملک کے بہترین ماہرین اقتصادیات، سائنسدانوں اور انجینئرز کو اپنے وفاقی اور صوبائی وزراء اور سیکرٹریز کے طور پر مقرر کرنا چاہیے جو علم پر مبنی معیشت کی طرف منتقلی کی اہمیت اور راستے کو سمجھتے ہوں۔ آگے بڑھنے کا راستہ صرف تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی، جدت طرازی، اور صنعت کاری میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری میں مضمر ہے۔ تاہم، یہ صرف ایک ایماندار، پربصیرت، اور تکنیکی طور پر قابل حکومت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

ڈاکٹر عطاء الرحمٰن

بشکریہ روزنامہ جنگ


پی ٹی آئی کو نئے چیلنچ کا سامنا

$
0
0

بلّا چھینے جانے کے بعد تحریک انصاف کے امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لیں گے۔ اب بحث یہ ہو رہی ہے کہ کیا 8 فروری کےانتخابات کے نتیجے میں آزاد حیثیت سے جیتنے والے ارکین قومی و صوبائی اسمبلی تحریک انصاف یا کسی ایسی سیاسی جماعت جس کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی میں شامل ہو سکتے ہیں؟ اس بارے میں قانونی افراد کی رائے میں اختلاف ہے کیوں کہ کسی سیاسی جماعت جس کا انتخابی نشان واپس لے لیا گیا ہو اور اُسے بحیثیت سیاسی جماعت الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دی جائے تو کیا ایسی سیاسی جماعت میں آزاد حیثیت سے الیکشن جیتنے والے شامل ہو سکتے ہیں یا نہیں اس بارے میں نہ آئین میں کچھ لکھا ہے اور نہ ہی الیکشن ایکٹ میں اس بارے میں کوئی وضاحت موجود ہے۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف سے انتخابی نشان واپس لیا گیا جس کی وجہ سے بحیثیت سیاسی جماعت وہ آئندہ کا الیکشن نہیں لڑ سکتی لیکن قانونی طور پر تحریک انصاف اب بھی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے۔ آئین کے مطابق آزاد حیثیت سے جیتنے والے ممبران قومی و صوبائی اسمبلیوں کے پاس اُن کے الیکشن جیتنے کے نوٹیفیکیشن کے تین دن کے اندر یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں۔ 

آئین کی شق نمبر 51 اور 106 میں تین دن میں آزاد حیثیت سے جیتنے والے ممبران قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی بات کی گئی ہے۔ ان آئینی شقوں میں جہاں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے انتخاب کی بات کی جاتی ہے تو وہاں آئین جن سیاسی جماعتوں میں آزاد اراکین اسمبلی کی شمولیت کی بات کرتا ہے تو وہ سیاسی جماعتیں وہ ہیں جنہوں نے عام انتخابات میں حصہ لے کر ایک یا ایک سے زیادہ نششتیں جیتی۔ آئین کے مطابق ’’۔ کسی سیاسی جماعت کی طرف سے حاصل کردہ عام نشستوں کی کل تعداد میں وہ کامیاب آزاد امیدوار شامل ہوں گے جو سرکاری جریدے میں کامیاب امیدواروں کے ناموں کی اشاعت سے تین یوم کے اندر باضابطہ طور پر مزکورہ سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں۔ اگر ان آئینی شقوں پر انحصار کیا جائے تو پھر تو تحریک انصاف کے آزد اراکین اسمبلی کسی ایسی سیاسی جماعت میں ہی شامل ہو سکتے ہیں جس نے انتخابات میں اپنے نام اور انتخابی نشان کے ساتھ ہی حصہ لیا ہو اور اُس کا کوئی نہ کوئی امیدوار الیکشن جیت کر اسمبلی میں پہنچ گیا ہو۔ ایسی صورت میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے آزاد امیدوار الیکشن جیتنے کے بعد بھی تحریک انصاف میں شامل ہو کر تحریک انصاف کو قومی و صوبائی اسمبلیوں میں عوام کی نمائندہ جماعت کی حیثیت نہیں دلوا سکتے۔ 

لیکن اگر ان آئینی شقوں کو صرف اور صرف خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشتوں کے حوالے سے پڑھا جائے تو پھر آئین اور قانون آزاد اراکین اسمبلی کی طرف سے تحریک انصاف جسے الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیا گیا اُس کی ایسے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی اسمبلیوں میں پابندی یا آزاد اراکین کی طرف سے اُس کی نمائندگی کرنے کے معاملے پر خاموش ہیں۔ تحریک انصاف کو اگرچہ یہ درست خدشہ ہے کہ آزاد ارکین کی حیثیت سے جیتنے والے اُس کے کچھ یا کئی اراکین کو انتخابات کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں میں دباو یا لالچ کے ذریعے شامل کیا جا سکتا لیکن اب یہ الیکشن کمیشن اور عدلیہ نے ہی فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا تحریک انصاف کو آئندہ کی اسمبلیوں میں الیکشن جیتنے والے آزاد ارکین کے ذریعے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بحال کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔

انصار عباسی 

بشکریہ روزنامہ جنگ

قاضی فائز عیسیٰ کا جسٹس منیر سے موازنہ

$
0
0

گاہے خیال آتا ہے شاید ہم پاکستانیوں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ آج تک ہم جسٹس منیر کو اسلئے مطعون کرتے چلے آئے ہیں کہ انہوں نے نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے کرنیکی روایت کیوں ڈالی مگر اچانک مزاج بدلا تو اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اسلئے ہدف تنقید بنا لیا گیا ہے کہ انہوں نے نظریہ ضرورت کے بجائے آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنا کیوں شروع کر دیئے ہیں۔ میرا خیال ہے ایک بار ہم یہ طے کر لیں کہ عدلیہ کو آئین و قانون کی رو سے کام کرنا چاہئے یا پھر اخلاقیات، آئین کی روح اور سیاسی مصلحت جیسی مبہم اصطلاحات کے پیش نظر فیصلے کرنے چاہئیں۔ اگر تو آئین کے بجائے آئین کی روح، اخلاقی تقاضوں اور زمینی حقائق کے تحت کام چلانا ہے تو پھر یہ سب اصول بدلتے رہیں گے۔ ہر چیف جسٹس کی اپنی لغت اور اپنی تشریح و تعبیر ہو گی۔ لہٰذا بہتر یہی ہو گا کہ ہر عدالتی فیصلے کو آئین و قانون کی کسوٹی پرجانچنے کے بعد رائے دی جائے۔ سب سے پہلا اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ جس طرح اے این پی کو ایک موقع دیدیا گیا اور چتائونی دینے کے بعد لالٹین کا انتخابی نشان لوٹا دیا گیا اسی طرح پی ٹی آئی کو بھی جرمانہ کر دیا جاتا، اس قدر سخت سزا نہ دی جاتی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر پارٹی الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اپنے دستور کے مطابق پارٹی الیکشن کروانے کی پابند ہے۔ 

مثال کے طور پر پی ٹی آئی کے دستور میں لکھا ہے کہ ہر تین سال بعد انٹرا پارٹی الیکشن ہونگے۔ لیکن الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق جماعتی انتخابات کیلئے پانچ سال کی مہلت دی گئی ہے۔ اے این پی کے انٹرا پارٹی الیکشن مئی 2019ء میں ہوئے تھے اور پانچ سال کی مہلت مئی 2024ء میں ختم ہو گی اسلئے عوامی نیشنل پارٹی کو جرمانہ کر کے انتخابی نشان لوٹا دیا گیا مگر پی ٹی آئی کی واردات کتنی گھنائونی ہے، آپ سنیں گے تو حیران رہ جائیں گے۔2017ء میں پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن ہوئے، کتنے شفاف تھے، اس تفصیل میں نہیں جاتے۔ اب 2022ء میں پانچ سال پورے ہونے سے پہلے دوبارہ انتخابات کروانے تھے۔ الیکشن کمیشن نے مئی 2021ء میں جب عمران خان وزیراعظم تھے، تب پہلا نوٹس جاری کیا۔ پی ٹی آئی نے اسے جوتے کی نوک پر رکھا۔ کچھ عرصہ بعد دوسرا نوٹس جاری کیا گیا اور 13 جون 2022ء کی ڈیڈلائن مقرر کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس تاریخ سے پہلے انتخابات نہ کروائے تو پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا جائیگا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین کی طرف سے جون 2022ء میں الیکشن کمیشن کو بتایا گیا کہ انٹرا پارٹی الیکشن ہو گئے ہیں۔ 

اگرچہ حقیقی انتخابات کسی بھی سیاسی جماعت میں نہیں ہوتے مگر ضابطے اور قانون کے مطابق رسمی کارروائی ضرور کی جاتی ہے مگر پی ٹی آئی نے رسمی انتخابات کا تکلف اور تردد بھی گوارہ نہ کیا۔ 13 ستمبر 2023ء الیکشن کمیشن نے اس جعلسازی اور فراڈ کا سراغ لگا لیا۔ قانونی تقاضا تو یہ تھا کہ اسی موقع پر انتخابی نشان واپس لے لیا جاتا لیکن مقبول سیاسی جماعت کو ایک موقع اور دیتے ہوئے دوبارہ انتخابات کروانے کا موقع دیدیا۔ الیکشن کمیشن کی ہدایات پر عمل کرنے کے بجائے اس نوٹس کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ اور پھر 2 دسمبر 2023ء کو نام نہاد انتخابات کے ذریعے نئی قیادت کا اعلان کر دیا گیا۔ جب انہیں چیلنج کیا گیا اور الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ دیا تو لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کے بجائے پشاور ہائیکورٹ سے حکم امتناع لے لیا گیا۔ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کا دفاع تو ان کے وکلاء نے بھی نہیں کیا لیکن سچ تو یہ ہے کہ انتخابات کے لئے محض رسمی کارروائی بھی پوری نہیں کی گئی۔مثلاً سپریم کورٹ میں سماعت کے د وران سوال ہوا، پارٹی الیکشن کے لئے کوئی نامزدگی فارم تو بنایا ہو گا؟

بتایا گیا، جی نامزدگی فارم ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ چیف جسٹس نے اسی وقت ویب سائٹ کھولی تو وہاں نامزدگی فارم موجود نہیں تھا۔ دعویٰ کیا گیا کہ پارٹی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے لئے پچاس ہزار روپے فیس مقرر کی گئی تھی۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا، کس اکائونٹ میں وہ فیس جمع ہوئی، اس کا کوئی ثبوت ہے؟ آپ بھی تو اپنے سیاسی مخالفین سے رسیدیں مانگتے رہے ہیں تو ایسی کوئی رسید ہے تو پیش کر دیں۔ مگر کوئی ثبوت ہوتا تو سامنے آتا۔ جب اور کوئی جواب نہیں بن پاتا تو کہا جاتا ہے کہ دیگر جماعتوں کے انتخابات بھی تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) یا کسی اور سیاسی جماعت کے لوگوں نے اپنے پارٹی انتخابات کو چیلنج کیا؟ کسی اور سیاسی جماعت نے اس نوعیت کے فراڈ اور جعلسازی کا ارتکاب کیا؟ کیا کسی اور سیاسی جماعت کو اس قدر مہلت ملی جتنی پی ٹی آئی کے حصے میں آئی؟ عدالت میں کہا گیا، اکبر ایس بابر کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا، انہوں نے کب استعفیٰ دیا؟ کسی اور پارٹی میں شمولیت اختیار کی یا پھر کب انہیں پارٹی سے نکالا گیا، کوئی ثبوت ہے تو پیش کریں۔ پی ٹی آئی کے وکلا ء خاموش رہے۔ کہا جاتا ہے کہ تکنیکی بنیادوں پر ملک کی بڑی سیاسی جماعت کو میدان سے باہر کر دیا گیا۔ قانون نام ہی تکنیک کا ہے۔ ہم سب اپنی آمدنی و اخراجات سے متعلق جو گوشوارے جمع کرواتے ہیں کیا وہ 100 فیصد ٹھیک ہوتے ہیں، نہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص گوشوارے جمع ہی نہ کروائے یا پھر جعلسازی کرتا پکڑا جائے تو ٹیکنیکل گرائونڈز پر اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔

محمد بلال غوری

بشکریہ روزنامہ جنگ


عام انتخابات اور عوامی لاتعلقی

$
0
0

عام انتخابات کے انعقاد میں گنتی کے دن باقی ہیں لیکن سوشل میڈیا کے علاوہ گراؤنڈ پر عام انتخابات کا ماحول بنتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ کسی بڑی سیاسی جماعت کو جلسے کرنے کی جرات نہیں ہو رہی اور اگر کوئی بڑا سیاسی لیڈر جلسہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے عوامی سرد مہری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میاں نواز شریف جیسا سینئر سیاستدان اپنی تقریر 20 منٹ میں سمیٹتے ہوئے وہاں سے نکل جانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ اگرچہ بعض جگہوں پر بلاول بھٹو اور مریم نواز جلسے منعقد کر رہے ہیں لیکن وہاں کی رونق ماضی کے انتخابی جلسوں سے یکسر مختلف ہے۔ پاکستان کا مقبول ترین سیاسی لیڈر اس وقت پابند سلاسل ہے اور اس کی جماعت کو جلسے کرنے کی اجازت نہیں جبکہ عوام اسی کی بات سننا چاہتے ہیں۔ جبکہ جنہیں 'آزاد چھوڑ دیا گیا ہے انہیں جلسے کرنے کی آزادی تو ہے لیکن عوام ان کی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ کراچی سے لے کر خیبر تک سنسان انتخابی ماحول ہے تقریریں ہیں کہ بے روح اور عوام ہیں کہ لا تعلق۔ 

اس لاتعلقی کی متعدد وجوہات ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کے خلاف جاری کریک ڈاؤن ہے۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور ان کے نامزد امیدواروں کو بغیر نشان کے انتخابات لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ایک مرتبہ پھر وہی عمل دہرایا گیا جو 2017 میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ کیا گیا تھا۔عمران خان اور ان کے اہم ساتھی مقدمات کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں اور وہ 9 مئی سمیت متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان اقدامات نے نہ صرف انتخابات کو متنازع بنا دیا ہے بلکہ انہیں عوام سے بھی دور کر دیا ہے۔ دوسری بڑی وجہ گزشتہ دو سال سے جاری شدید معاشی بحران ہے۔ شہباز حکومت نے عوام کی بنیادی استعمال کی چیزوں اور اشیاء خورد و نوش عوام کی پہنچ سے دور کر دیے تھے اور ان اقدامات کا نتیجہ یہ ہے کہ عام آدمی بجلی کا بل بھی ادا کرنے سے قاصر ہے۔ بیشتر عوام اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں اگلی حکومت کون بناتا ہے، حکومت کا اتحادی کون کون ہو گا اور اپوزیشن کس کا مقدر ٹھہرے گی۔

انہیں تو اس بات سے غرض ہے کہ ان کے بچے کھانا کھا سکیں گے یا نہیں، وہ اپنے بچوں کی فیسیں ادا کر سکیں گے یا نہیں۔ شہباز حکومت کے اقدامات کے باعث آج معیشت اوندھے منہ پڑی ہے۔ ملازم پیشہ افراد اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے ایک سے زائد جگہوں پر ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ کاروباری طبقہ جو پہلے ہی بے ہنگم ٹیکسوں کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھا عوام کی کمزور ہوتی معاشی حالت نے اس کی کمر بھی توڑ کے رکھ دی ہے۔ مالی بد انتظامی اور سیاسی عدم استحکام نے معیشت کی ڈوبتی کشتی پر بوجھ میں اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ معاشی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے جس کے براہ راست اثرات عوام پر منتقل ہو رہے ہیں۔ نگراں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی ہے لیکن بدانتظامی کے باعث اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے۔ ذرائع نقل و حمل کے کرایوں میں کمی نہیں آئی نہ ہی بازار میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ جس کے باعث عوامی بیزاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو انہیں انتخابات اور انتخابی عمل سے دور کر رہا ہے۔ 

میری دانست میں اس کی تیسری بڑی وجہ ریاستی اداروں اور عام آدمی کے مابین اعتماد کا فقدان ہے عوام اس بات پر توجہ ہی نہیں دے رہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں کون سی جماعت زیادہ نشستیں حاصل کرے گی کیونکہ ایک تاثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آپ جس کو چاہیں ووٹ دیں ایک مخصوص سیاسی جماعت کو ہی اقتدار کے منصب پر فائز کیا جائے گا۔ اس عدم اعتماد کے باعث بھی عوام اس انتخابی مشق سے لا تعلق نظر آتے ہیں۔ رہی سہی کسر الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی ووٹر لسٹوں نے پوری کر دی ہے۔ ان ووٹر لسٹوں میں بد انتظامی اور نالائقیوں کے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے ووٹ ماضی میں قائم کردہ پولنگ اسٹیشن پر موجود ہیں۔ ووٹر لسٹوں میں غلطیوں کی بھرمار ہے، ایک وارڈ کے ووٹ دوسرے وارڈ کے پولنگ اسٹیشن پر شفٹ کر دیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا سسٹم ابھی سے بیٹھ گیا ہے اور مخصوص نمبر پر کیے گئے میسج کا جواب ہی موصول نہیں ہوتا۔

ووٹر لسٹیں جاری ہونے کے بعد امیدواروں اور ان کے انتخابی ایجنٹوں میں عجیب بے چینی اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ شہروں میں ووٹر لسٹوں کی یہ کیفیت ہے تو دیہات میں کیا حال ہو گا۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ روزانہ انتخابات کے حوالے سے نت نئی افواہوں کا طوفان آ جاتا ہے جو امیدواروں کو بددل کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں غیر یقینی کی کیفیت پختہ کر دیتا ہے۔ اور پھر یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر ایک مخصوص گروہ کو انجینئرنگ کے ذریعے اقتدار پر مسلط کر بھی دیا گیا تو کیا وہ عوام کے دکھوں کا مداوا کر بھی سکے گا؟ عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی اشد ضرورت ہے جس میں تمام جماعتوں کو انتخاب میں حصہ لینے کے مساوی مواقع میسر ہوں اور ساتھ ساتھ ووٹر لسٹوں میں پائی جانے والی غلطیوں بے ضابطگیوں اور نالائقیوں کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔عوام کو ان کے جمہوری حق کے استعمال سے محروم کرنے کی سازش اگر کامیاب ہو گئی تو یہ ملک کے جمہوری نظام کے لیے اچھا شگون نہیں ہو گا۔

پیر فاروق بہاو الحق شاہ

بشکریہ روزنامہ جنگ

   


سیاسی مایوسی کا موسم کیسے بدلے گا؟

$
0
0

مایوسی گناہ ہے، مایوسی کا عمل ہمیں آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف دھکیلتا ہے اور اگر آپ کچھ کرنا بھی چاہیں توکچھ نہیں ہوتا بلکہ آپ اپنی اس مایوسی کو دوسروں تک بھی منتقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ہمیں مایوسی کے بجائے امید کا دامن قائم رکھنا چاہیے اور اہل دانش کا کام بھی اندھیرے کے مقابلے میں روشنی اور آگے بڑھنے کا راستہ فراہم کرنا ہونا چاہیے لیکن آج ہم جب اپنے ہی حالات کا جائزہ یا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں مختلف حوالوں یا معاملات پر مایوسی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ مایوسی کا یہ عمل محض کسی ایک طبقہ تک محدود نہیں بلکہ اوپر سے لے کر نیچے تک تمام طبقات میں ایک ہی سوچ اور فکر غالب نظر آتی ہے۔ اگر ہم مایوس ہوکر بیٹھ جائیں تو ایک تو ہمارے حالات بدلیں گے نہیں بلکہ ان میں اور زیادہ خرابی ہو گی اور دوسرا طاقتور طبقہ اسی بنیاد پر خوش ہوتا ہے کہ لوگ مایوس ہو کر بیٹھ جائیں اور کسی بھی سطح پر ان میں حالات سے مزاحمت کرنے کا جنون پیدا نہ ہو۔ اگرچہ ہمیں یہ ہی منطق اور دلیل دی جاتی ہے کہ صبر سے کام لیا جائے اور جذباتیت کے مقابلے میں اپنے اندر ٹھہراؤ پیدا کر کے حالات کا مقابلہ کیا جائے۔

یہ بات درست ہے لیکن حالات کا مقابلہ کرنے اور سختیاں برداشت کرنے کے پیچھے لوگوں میں ایک امید اور حالات کی بہتری کا کوئی روڈمیپ ہوتا ہے جس کو بنیاد بنا کر وہ حالات کی سختیوں کو جھیلتا ہے لیکن اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہی سامنے جہاں خود کو حالات کی بنیاد پر بے بس سمجھتا ہے تو دوسری طرف وہ اس ملک کے طاقتور طبقات جو ہر شعبہ میں موجود ہیں، کو مختلف قسم کی مراعاتوں، عیاشیوں، آسائشوں، معاشی خوشحالی اور نئے سے نئے ترقی کے مواقعوں یا ان کی بڑھتی ہوئی دولت یا وسائل کو دیکھتا ہے تو اس کا زخم بھی گہرا ہوتا ہے اور ریاست پر اعتماد بھی کمزوری کا سبب بنتا ہے۔ آپ ایک عمومی رائے اس ملک میں بڑے سے بڑے طاقتور افراد یا اداروں سے پوچھیں کہ کیا موجودہ سیاسی نظام اور آنے والے عام انتخابات کے نتیجے میں کوئی مثبت تبدیلی افراد یا ریاستی وحکومتی نظام میں ممکن ہوسکے گی، تو جواب نفی میں ملے گا۔ ایک ہی نقطہ نظر سب طبقوں میں بالادست ہے کہ انتخابات کے بعد بھی ہماری سیاسی، سماجی، معاشی، انتظامی اور ریاستی مشکلات سمیت عام آدمی کی مشکلات میں اور سنگین بحران یا مسائل دیکھنے کو ملیں گے۔

ان کے بقول نئے انتخابات کے نتیجے میں بھی مسائل حل نہیں ہوںگے بلکہ جو سیاسی تقسیم ہر طبقہ میں موجود ہے اس سے اور زیادہ بگاڑ کے پہلو دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ عام آدمی کے پاس سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں اور اپنے انتخابی امیدواروں پر اعتماد کمزور ہے اور ان کی جذباتی گفتگو، خوش نما نعروں سے عام آدمی کا کوئی پیٹ بھرنے والا نہیں یا ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی کے امکانات نہیں ہیں۔ یہ خوش فہمی بھی لوگوں میں کمزور ہو رہی ہے کہ یہ ملک، اس کا ریاستی وحکومتی نظام اور اداروں کی سرپرستی میں عام آدمی کا کوئی حصہ ہے۔ ان میں یہ سوچ مضبوط جڑیں پکڑ رہی ہے کہ یہ ملک عام آدمی کا نہیں بلکہ اس ملک کے طاقتور طبقات یا اشرافیہ کا ہے اور ان کی بڑی حیثیت ان تمام طاقتور طبقات کے سامنے سرجھکانے یا ان کی طرف سے دی جانے والی بھیک سے جڑا ہوا ہے کیونکہ جب عام آدمی کا بنیادی حقوق کے حصول سے رشتہ کمزور ہو جائے تو ریاست، عوام اور سماجی معاہدہ کمزور شکل اختیار کر لیتا ہے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ ہماری قسمت میں یہ موروثی سیاست ہے اور خاندانوں کی سیاست کے سامنے ہماری حیثیت محض ایک تماشائی کی ہے۔

مسئلہ محض عام آدمی یا کمزور آدمی تک محدود نہیں بلکہ اس معاشرے میں پڑھے لکھے افراد جو بڑے بڑے اہم عہدوں پر یا فیصلہ سازی کا حق رکھتے ہیں ان کے سامنے بھی حکمرانی کا نظام آئین و قانون کے مقابلے میں شخصیت کی بالادستی کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ یہ بڑے بڑے عہدیدار لوگ بھی گورننس یا ریاستی و حکومتی فیصلوں میں خود کو بے بس سمجھتے ہیں اور ان فیصلوں پر مجبور ہوتے ہیں جو ان کو طاقتور اشرافیہ کی جانب سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر وہ مزاحمت کریں تو نتیجہ میں ملازمت یا عہدوں کے کھوجانے کا خوف ان کا بالادست ہوتا ہے جو خود ان کو بھی عملی طور پر سمجھوتوں کی سیاست پر مجبور کرتا ہے۔ ایسا نہیں کہ یہاں اچھے لوگ نہیں یا وہ ملک کو تبدیل نہیں کرنا چاہتے بلکہ اصل بحران یہ ہے کہ ہم عملاً ان کو کوئی موقع دینے کے لیے تیار نہیں اور ان کے مقابلے میں چھوٹے افراد کو بڑے عہدوں پر سجا کر پورے نظام کو ہی یرغمال بنانا ہماری ترجیحات کا حصہ ہے۔ 

ایک بحران یہ بھی ہے کہ اس ملک میں سوچنے، سمجھنے اور متبادل تبدیلی کا ایجنڈے رکھنے والے افراد اور ریاست میں عملاً موجود طاقتور افراد کی فیصلہ سازی میں ایک بڑی خلیج موجود ہے اس لیے اچھے منصوبے، خیالات، سوچ اور فکر اعلیٰ دماغوں یا ان کی باتیں ردی کی ٹوکری تک ہی محدود ہو جاتی ہیں۔ جب ریاستی نظام اہل دانش سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہی تیار نہیں تو حالات کو کیسے بدلا جاسکتا ہے۔ ریاست نے عملاً حقیقی اہل دانش کے مقابلے میں ایک جعلی اہل دانش کا طبقہ پیدا کر کے اپنے لیے یا اپنی پذیرائی کے لیے گروہ پیدا کر لیا ہے جو ان کی جی حضوری میں پیش پیش نظر آتا ہے۔ اب مسئلہ محض مایوسی کا نہیں بلکہ اس مایوسی کو حالات کی بہتری میں امید یا روشنی کے پہلوؤں کے ساتھ جوڑنے سے ہے۔ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی سوچ، فکر اور حکمت عملی درکار ہے۔ سب سے پہلے اس بنیادی نقطہ پر اتفاق کرنا ہو گا کہ ہمارا یہ بوسیدہ سیاسی، سماجی، قانونی، انتظامی اور معاشی نظا م اپنی مدت پوری کر چکا ہے۔

ہمیں اس نظام میں آگے بڑھنے کے لیے ایک بڑی سرجری درکار ہے اور یہ اگرچہ مشکل فیصلہ ہے مگر ناگزیر ہے۔ اب لوگوں میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ ہمیں تبدیلی کے لیے غیرمعمولی اقدامات کو ہی بنیاد بنانا ہو گا۔ سیاسی جماعتوں کو ہر طرف سے یہ واضح پیغام سیاسی جماعتوں کے اندر سے بھی اور رائے عامہ بنانے والے افراد یا اداروں کی جانب سے واضح طور پر جانا چاہیے کہ وہ ان کی ذاتی مفادات پر مبنی سیاست کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی اس بوسیدہ نظام کی کسی بھی صورت مزید حمایت کی جاسکتی ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا اور نئی نسل کی بنیاد پر یا ان کے باہمی تعلق کے ساتھ اس بحث کو سیاسی، جمہوری، آئینی بنیاد پر آگے بڑھانا چاہیے کہ ہم موجودہ نظام اور اس کے طور طریقوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ ہم اگرچہ نوجوانوں پر تنقید کی تو بات کرتے ہیں مگر ان میں روایتی سیاسی اور سماجی بیانیہ ٹوٹ رہا ہے، وہ روایتی بنیادوں پر ذات برادری، لسانی، علاقائی، فرقہ وارانہ یا مذہبی بنیادوں پر سوچنے کے بجائے اپنے بہتر مستقبل کو بنیاد بنا کر سوالات اٹھا رہے ہیں یا اپنا ردعمل دے رہے ہیں۔

یہ ہی نوجوانوں کی طاقت اس وقت روایتی سیاست اور روایتی کرداروں کے لیے ایک بڑا سیاسی چیلنج بن گیا ہے کہ کیسے ان نوجوانوں میں موجود سیاسی خیالات یا ردعمل کو لگام دی جاسکے لیکن یہ ممکن نہیں، آپ آوازوں کو روک تو سکتے ہیں، ان میں مزاحمت بھی ممکن ہے مگر یہ روکنے اور مزاحمت کا عمل نئی نسل میں مزید ردعمل کا سیاست کو جنم دے گا۔ ہمارا کام ان نئی نسل میں اٹھنے والی آوازوں کو درست سمت دینا ہے اور ان کو تبدیلی کے لیے سیاسی وجمہوری بنیادوں پر تیار کرنا ہے کیونکہ اقربا پروری، دولت، خاندانی رشتوں یا کرپشن کی بنیاد پر چلنے والا ریاستی نظام مزید آگے نہیں چل سکے گا۔ یہ بات اس ملک کی طاقتور اشرافیہ جتنا جلدی سمجھ لے گی بہتر ہو گا۔

سلمان عابد 

بشکریہ ایکسپریس نیوز

اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلہ بننے کا مقابلہ آخر کب تک؟

$
0
0

اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کردار ختم ہونا چاہیے۔ یہ ہے اصول کی بات جو ہم سب کرتے رہتے ہیں اور اکثر جو تجزیوں او رتبصروں میں کہی سنی جاتی ہے۔ آئین و قانون کے تحت بھی ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست سے پیچھے ہٹ جائے اور سیاست دانوں کوسیاست کرنے دے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کی وجہ سے ہماری جمہوریت لولی لنگڑی ہی رہی اور اس نے عوام کو کچھ نہ دیا۔ یہ سب سچ ہے لیکن اس کا ایک دوسرا رخ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا ہمارے سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کو روکنے میں واقعی سنجیدہ ہیں بھی یا نہیں۔؟ تاریخی طور پر اس معاملہ کو سمجھا جائے تو یہ طاقت کی ایک ایسی لڑائی ہے جس میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہمیشہ اوپر رہا جبکہ سیاستدان اور سول حکومتیں اس لڑائی میں ہمیشہ ہارتی ہی رہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ہائیبرڈ یا کنٹرولڈ جمہوریت ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ ہمارا المیہ یہ رہا کہ ہمارے سیاستدانوں نے ہمیشہ اقتدار میں آنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں کو استعمال کیا۔ اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کا حصول ہمارے سیاستدانوں کی سیاست کا ہمیشہ سے محور رہا۔ اگر ایک سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کا منظور نظر ہوتا ہے تو اُس کیلئے سیاست اور اقتدار کا حصول آسان ہو جاتا ہے۔ 

ایسے میں مخالف سیاست دان کبھی کبھار سویلین بالادستی کی بات کرتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر تنقید کرتے ہیں لیکن بار بار دیکھا گیا کہ اصل کوشش ان مخالف سیاستدانوں کی بھی یہی ہوتی ہے اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر کو اسٹیبلشمنٹ سے دور کیا جائے اور خود کو اسٹیبلشمنٹ کا منظور نظر بنایا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ کی چھتری کے نیچے آنے کی ریس نے ہمارے سیاستدانوں کو سیاست کے اصل مقصد اور عوامی خدمت سے دور کر دیا اور یہی وجہ ہے کہ حکومتیں آتی ہیں، جاتی ہیں، کبھی ایک سیاسی جماعت کی حکومت تو کبھی دوسری سیاسی جماعت کی حکومت لیکن عوام کی خدمت، سروس ڈلیوری، پرفارمنس، بہترین گورننس اور سسٹمز کی مضبوطی، ایک کبھی نہ پورا ہونے والا خواب ہی رہا۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ نواز شریف تین بار وزیر اعظم بنے، عمران خان نے بھی ساڑھے تین سال حکومت کی، پیپلزپارٹی کو بھی حکومتیں ملیں لیکن ایسا کیوں ہے کہ کوئی ایک بھی اسلام آباد جیسے شہر میں سی ڈی اے جیسے محکمے کو ٹھیک نہ کر سکا، پولیس کا نظام ہو، محکمہ مال، بجلی یا گیس کنکشن لینے کا معاملہ ہو یا بچے کی پیدائش یا کسی کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ، ہر جگہ رشوت اور سفارش کا راج ہے۔

دوسرے شہروں، صوبوں اور دور دراز علاقوں میں سرکاری محکموں کا تو حال بہت ہی بُرا ہے۔ اب نظام کو درست کرنا ہے تاکہ عوام کو سہولتیں ملیں، اُن کے سرکاری محکموں میں کام جائز طریقہ سے باآسانی ہوں، پولیس، کچہری انصاف دینے میں فعال ہوں، یہ وہ کام ہیں جس کیلئے پیسہ نہیں بلکہ نیت اور نظام بنانے کا عزم درکار ہے لیکن کوئی نظام کو ٹھیک کرنے کیلئے تیار ہی نہیں۔ عوام دھکے کھا رہے ہیں اور سیاست دانوں کے بار بار کے وعدوں سے تنگ ہیں۔ سیاستدان پرفارمنس اور اچھی حکمرانی کرنے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ہی خواہاں رہتے ہیں۔ سیاستدانوں میں مقابلہ اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا بننے کا رہتا ہے۔ نواز شریف تین بار وزیراعظم بنے اور اب جس طریقے سے وہ لندن سے واپس آئے اور چوتھی بار وزیراعظم بننے کے خواہاں ہیں اُس کا سویلین سپریمیسی سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں۔ عمران خان جیل میں ہیں اور جب سے اُن کو نکالا گیا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کی پالیسی اختیارے کیے ہوئے ہیں لیکن اُن کی ساری لڑائی کا مقصد اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنا ہی ہے۔ وہ ساستدانوں سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کر کے اپنے معاملات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ 

بلاول بچارے کا تو گلہ ہی یہ ہے کہ اُس میں کیا کمی ہے کہ اُسے لاڈلہ نہیں بنایا جا رہا۔ باقی سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو ایک طرف رکھیں، پاکستان کی بڑی تین سیاسی جماعتیں تحریک انصاف، ن لیگ اور پیپلز پارٹی ہی یہ فیصلہ کیوں نہیں کرتیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اُن میں سے نہ کبھی کوئی سیاسی معاملہ پر بات کرے گا نہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار حاصل کرے گا اور نہ ہی لاڈلہ بنے گا۔ لیکن مجھے ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آرہا۔

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ

غلطیاں، جن کی وجہ سے گھر چور کیلئے آسان ہدف ہو جاتا ہے

$
0
0

امریکا کی ایک خاتون جو کہ ماضی میں گھروں میں چوریاں کرتی تھیں، نے اب حال ہی میں ایسی غلطیوں کی نشاندہی کی ہے جن کی وجہ سے ایسے گھروں میں چوری کرنا چوروں کیلئے آسان ہو جاتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نیویارک سے تعلق رکھنے والی جینی ریڈکلف نے اپنے والدین کی طرف سے نوعمری میں چوری کے کرتب سیکھے جس کے بعد انہوں نے خالی گھروں میں گھُس کر کارروائی ڈالنا شروع کی۔ جینی کی چوری کا کام 20 سال قبل اس وقت تک چلتا رہا جب تک ان کی ملاقات ایک فٹبالر سے نہیں ہو گئی جس نے انکی طرز زندگی کو بدل ڈالا اور انہوں نے اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کو خیرباد کہہ دیا۔ اب انہوں نے اپنے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے چند ایسی غلطیوں کی طرف عوام کی توجہ دلائی ہے جس کی وجہ سے ان کا گھر چوروں سے غیرمحفوظ ہو جاتا ہے۔ لوگوں کی طرف سے کی جانے والی یہ غلطیاں درج ذیل ہیں:

1) سوشل میڈیا پر اپنے گھر یا خود سے متعلق معلومات شیئر کرنا: جینی نے بتایا کہ یہ کرنے سے مجرموں کو آپ کی ہر حرکت پر نظر رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ انٹرنیٹ کے آغاز کے بعد سے چوروں کو اب لوگوں کی گفتگو سننے کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ وہ صرف سوشل میڈیا کو ٹرول کر کے اپنا ٹارگٹ چن لیتے ہیں۔

2) گھروں میں نصب سی سی ٹی وی سسٹم: گھر میں نصب پورا سی سی ٹی وی سسٹم کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھیں بجائے یہ کہ کسی کمپنی کو اس پر مامور کریں، انہوں نے بتایا کہ اسطرح معلومات کو ٹریک اور شیئر کیا جاسکتا ہے اور کسی بھی منسلک ڈیوائس کو ہیک کیا جاسکتا ہے۔ لہذا اپنی حفاظت اور رازداری کا خیال رکھیں۔ 

3) اپنے گھریلو استعمال کے اوزاروں کی جگہ: اوزاروں کو ایسی جگہ پر نہ چھوڑیں جہاں مجرم آسانی سے ان تک رسائی حاصل کر سکیں اور ان کا استعمال کر کے وہ گھروں میں گھُس سکیں۔

4) پڑوسیوں پر حددرجہ اعتماد: پڑوسیوں پر حددرجہ اعتماد نہ کریں کہ گھر کی چابی کی ایک نقل ان کے حوالے ہی کر دیں۔

5) پیڑ یا بڑے پودوں کی بھرمار: جینی نے بتایا کہ ایک چور کو چھپنے کی ضرورت ہوتی ہے چاہے وہ اس وقت ہو جب وہ اندر داخل ہونے کی کوشش کررہا ہو یا جب وہ فرار ہو رہا ہو۔ صحن یا لان میں موجود درختوں اور بڑی جھاڑیاں مجرم کے چھپنے کی بہترین جگہ ہے لہٰذا ان کو فوری ختم یا کم کرنا چاہیے۔ 

6) چور کے ذہن کو نہ سمجھنا: چور کو چکما دینے کا ہنر گھر کو محفوظ رکھنے کی کلید ہے۔ جس سے آپ اپنے گھر کو چوروں کے لیے ایک مشکل ہدف بنا سکتے ہیں۔ جب بھی آپ باہر ہوں تو چور کو ایسا لگے کہ آپ گھر پر یا لوگ موجود ہیں۔ مثال کے طور پر جب آپ باہر جائیں تو گھر کو روشن کریں، یا ہلکی سی موسیقی لگا دیں یا زیادہ چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نقلی مجسمے بنا کر مخصوص مقامات پر روشنیوں میں کھڑا کر دیں جس کے ہیولے کو دیکھ کر لوگوں کو لگے کہ گھر خالی نہیں ہے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز
 

مسئلہ فلسطین عالمی عدالت انصاف میں

$
0
0

مسئلہ فلسطین عالمی دنیا کے ماتھے پر ایک ایسا بد نما داغ بن چکا ہے جس کو مٹانے کے لیے شاید صدیاں لگ جائیں۔ عالمی طاقتوں کا دہرا معیار، مسلم امہ کی بے حسی، مغرب کی طوطا چشمی، اپنوں کی بے وفائی اور غیروں کی سنگ دلی نے مسئلہ فلسطین کو ایک انسانی المیہ بنا دیا ہے۔ یوں تو تمام عالمی ادارے مغرب کی خواہشات کے غلام ہیں اور انہی کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو یا غزہ میں بے گناہ انسانوں کا قتل عام ، عالمی عدالت انصاف یا دیگر عالمی اداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اقوام متحدہ اور اس کے تمام ذیلی ادارے محض مذمتی بیانات تک محدود ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی حملوں اور انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں پر امریکہ سمیت تمام مغربی طاقتوں کی خاموش حمایت نے انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کی قلعی کھول دی ہے اور عالمی امن کے ٹھیکیداروں کے چہرے سے بھی نقاب اتار کے رکھ دیا ہے۔ امریکہ سمیت تمام با اثر عالمی قوتوں نے اقوام متحدہ کو اپنے مفادات کے محافظ کے طور پر رکھا ہوا ہے اور یہ عالمی ٹھیکے دار جب اور جہاں چاہیں اقوام متحدہ کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ان حالات میں عالمی عدالت انصاف نے گزشتہ دنوں ایک اہم فیصلہ دے کر امید کی ایک نئی کرن پیدا کی ہے۔ جب مسلم امہ اور عالمی دنیا فلسطینیوں کی مسئلہ کے حوالے سے کوئی مثبت کردار ادا نہ کر سکے، مسلم امہ بھی خاموشی کے ساتھ تماشہ دیکھتی رہے،عالمی امن کے ٹھیکیدار فلسطینیوں کی نسل کشی رکوانے میں مکمل طور پر ناکام رہے تو جنوبی افریقہ نے ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے حوالے سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا۔ گزشتہ سال کے آخری ایام میں جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف میں اس حوالے سے شکایت درج کرائی۔جنوبی افریقہ کے صدر راما فوسا نے عالمی عدالت انصاف سے درخواست کی کہ وہ اسرائیل کو جنگ بندی کا حکم دے اس کے جنگی جرائم اور نسل کشی جیسے جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کرے۔ جنوبی افریقہ کا اپنی درخواست میں یہ کہنا تھا کہ اسرائیل غزہ میں جنگی جرائم اور نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے۔ ہسپتالوں اور دیگر انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ 

ہزاروں فلسطینی موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔ لہذا اسرائیل کو نسل کشی کے جرائم سے روکا جائے اور اس کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا جائے۔ اسرائیل نے یہ موقف اختیار کیا کہ ہم صرف دفاعی کارروائیاں کر رہے ہیں اور ان جرائم کا ارتکاب نہیں کر رہے۔ عالمی عدالت انصاف کے 17 رکنی پینل میں سے 16 ججز موجود تھے۔ جن میں سے 15 ججوں نے متفقہ فیصلہ دیا جبکہ دو ججز نے اختلافی نوٹ جاری کیا۔عالمی عدالت انصاف نے قرار دیا کہ غزہ میں شامل تمام فریق عدالتی احکامات کے پابند ہیں۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ جنوبی افریقہ کے عائد کردہ الزامات درست ہیں اور غزہ میں اسرائیلی حملوں میں بڑے پیمانے پر بے گناہ شہری شہید ہوئے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف نے مزید کہا کہ عدالت غزہ میں انسانی المیے کی حدت سے آگاہ ہے اور ہم اسرائیل کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں کہ غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں ہو رہیں۔ یوں تو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں کی ایک لمبی تاریخ ہے تاہم 7 اکتوبر کے بعد غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی کا سلسلہ شروع ہوا ہزاروں افراد شہید ہوئے۔

63 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ 9 اکتوبر کو اسرائیلی وزیر دفاع نے غزہ کے محاصرے کا اعلان کیا بجلی اور پانی کی سپلائی معطل کر دی۔ ہسپتالوں کو بھی نہ بخشا گیا اسپتالوں میں زیر علاج مریضوں زخمیوں اور بچوں کو بھی شہید کیا گیا۔یہاں پر ایک ایسے المیہ نے جنم لیا جس کی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی۔ یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ عالمی عدالت انصاف نے فلسطینیوں کا موقف تسلیم کیا اور انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ عدالت غزہ میں فلسطینیوں کو نسل کشی سے محفوظ رکھنے کا حق تسلیم کرتی ہے اور اسے نسل کشی کنونشن کے تحت یہ کیس سننے کا اختیار حاصل ہے انہوں نے اپنے تاریخی فیصلے میں قرار دیا کہ اسرائیل کے خلاف غزہ میں نسل کشی کا کیس خارج نہیں کریں گے اور نسل کشی کنونشن پر عمل درآمد کرنے کے لیے اسرائیل کو ہنگامی احکامات جاری کیے اور حکم دیا کہ وہ اس نوعیت کے اقدامات سے اجتناب کرے۔ عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ اسرائیل اس امر کا پابند ہے کہ وہ غزہ میں نسل کشی نہ کرے عدالت نے اسرائیل کو غزہ میں انسانی صورتحال بہتر بنانے کا بھی حکم دیا اور کہا کہ اس علاقے میں شہریوں کو ان مشکل حالات سے نکالنے اور بحران حل کرنے کے لیے اسرائیل اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔

فلسطینی مسلمانوں کے لیے ہر دن قیامت کا دن بن کر طلوع ہوتا ہے۔ ایک طرف تو وہ بنیادی انسانی سہولتوں سے محروم ہیں دوسری طرف اسرائیلیوں کی کارپٹ بمباری نے وہاں زندگی کے آثار ہی معدوم کر دیے ہیں۔عالمی عدالت انصاف نے اگرچہ جنگ بندی کا حکم نہیں دیا لیکن امید کی کرن پیدا ہوئی ہے کہ کہیں سے تو فلسطینیوں کے لیے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا ہے۔

پیر فاروق بہاو الحق شاہ

بشکریہ روزنامہ جنگ


سائفر کیس کا فیصلہ : انگنت دائروں کا سفر؟

$
0
0

سائفر کیس کا فیصلہ سنا تو دل کو ٹٹولا، وہاں نہ خوشی کے جذبات تھے نہ افسوس کے۔ یہ وہی منیر نیازی والا معاملہ تھا کہ
وہ بےحسی ہے مسلسل شکستِ دل سے منیر
کوئی بچھڑ کے چلا جائے غم نہیں ہوتا
کچھ غور کیا تو یاد آیا کہ کپتان کے حالات حاضرہ کی شرح بھی منیر نیازی نے ہی بیان کر دی ہے کہ
کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن
کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی
(کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے / کچھ ہمیں بھی مرنے کا شوق تھا)

عمران خان کا معاملہ بھی صرف شہر کے لوگ نہیں، ان کے اپنے شوق نے بھی انہیں یہ دن دکھانے میں کوئی کسر نہیں رہنے دی۔ سیاسی قیادت کا قانونی نزاکتوں کے ہاتھوں تحلیل ہو جانا اچھی بات نہیں۔ سیاسی قیادت عوام کے ہاتھوں ہی تحلیل ہونی چاہیے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے، پاناما میں سے اقامہ نکلا تو جناب عارف علوی نے ضرورت سے کافی زیادہ منہ کھول کر عمران خان سے لڈو کھائے۔ معلوم نہیں آج کون لڈو کھا رہا ہو گا اور یہ بھی خبر نہیں یہ آخری لڈو ہو گا یا پیر مغاں کے انگوروں کے رس سے لڈو بنتے اور بٹتے رہیں گے۔ دائروں کا ایک سفر ہے، جسم شل ہو جاتا ہے مگر گھر نہیں آتا۔ گھوم پھر کر وہی مقام آ جاتا ہے جہاں سامنے کیلے کا چھلکا پڑا ہوتا ہے۔ ہم اسے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں: لو جی اک بار پھر گرنا پڑ گیا۔ یہاں فیصلے ہوتے ہیں تو گماں گزرتا ہے سو سال یاد رکھے جائیں گے۔ دوسری برسات برستی ہے تو نئی حقیقتوں کے ہاتھوں فیصلے اور منصف دونوں اجنبی ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے قانون میں تو قدرت نے ویسے ہی اتنی لچک رکھی ہے کہ چاہے تو ہاتھی کو گزرنے دے اور چاہے تو مچھر پکڑ لے۔ سیاسی قیادت کو بھی مگر یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ڈی چوک کے اطراف میں سازگار موسم حسب ضرورت ضرور اتر سکتے ہیں لیکن ریاست کا کوئی داماد نہیں ہوتا۔

ریاست کسی وجہ سے صرف نظر کر سکتی ہے لیکن دائمی ہیجان کی کیفیت میں نہیں رہ سکتی۔ عمران خان نے سیاست کو کلٹ بنایا اور سمجھا وہ اس فصیل میں محفوظ ہیں۔ یہ خوش فہمی جاڑے کی پہلی بارش کے ساتھ بہہ گئی۔ کلٹ اور ریاست زیادہ دیر ساتھ نہیں چل سکتے۔ نظام نے ابھی بھی عمران خان کو نہیں اگلا۔ سزا اس سے بھی سخت ہو سکتی تھی۔ مقدمے کی کارروائی میں ایسا بہت کچھ موجود ہے کہ اپیل کے مراحل میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ گویا زبان حال بتا رہی ہے کہ گنجائش موجود ہے۔ اس گنجائش کا حصول مگر کلٹ سے ممکن نہیں، اس کے لیے سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے۔ سیاسی عصبیت قانون کے کٹہرے میں ختم نہی ہوتی۔ تارا مسیح کا پھندا بھی بھٹو کی عصبیت ختم نہیں کر سکا۔ نواز شریف بھی وقت کا موسم بدلا تو میدان میں موجود ہیں۔ عمران خان کی سیاست بھی ختم نہیں ہوئی۔ وقت کا موسم بدل سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے عمران خان کو ایک سیاست دان بن کر دکھانا ہو گا۔ بدلتے موسموں میں ان کے لیے قبیلے کے خان جیسا کوئی امتیازی مرتبہ دستیاب نہیں ہے۔ جیسے دوسرے ہیں، ویسے وہ بھی ہیں۔ زمینی حقائق کے ہمراہ امکانات کا جہاں اب بھی آباد ہے مگر صاحب کو زمین پر آنا ہو گا۔

عمران خان اپنی افتاد طبع کے اسیر ہیں۔ امور سیاست ہی کو نہیں، امور خارجہ تک کو انہوں نے بازیچہ اطفال بنا دیا۔ ابھی تو وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی زد میں آئے ہیں، بطور وزیر اعظم جو فرد جرم انہوں نے ایران میں کھڑے ہو کر پاکستان پر عائد کی تھی، وہ کسی انتہائی سنگین روب کار کی شکل بھی اختیار کر سکتی تھی۔ شکر کریں، بچ گئے۔ عمران خان اور ان کی ٹیم نے شاید ہی کسی مقدمے کو سنجیدگی سے لیا ہو۔ فارن فنڈنگ کیس سے لے کر اب تک، ہر مقدمے کو کھیل سمجھا گیا۔ ان سب کا خیال شاید یہ تھا کہ خان تو پھر خان ہے۔ قانون کی کیا مجال خان کی طرف دیکھے۔ خان خفا ہو گا تو جون میں برف پڑنے لگے گی، خان خوش ہو گا تو جاڑے میں بہار آ جائے گی۔ اب وقت نے انہیں بتا دیا ہے کہ قانون خود ایک خان ہے۔ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں اور مقبولیت کتنی ہی کیوں نہ ہو، قانون جب دستک دے تو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ ملزم اور قانون کے بیچ صرف وکیل ہوتا ہے۔ اسے پوری قوت سے بروئے کار آنا چاہیے۔ 

سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ وکیلوں کو فیس دی جاتی ہے پارٹی ٹکٹ نہیں دیے جاتے۔ مزید سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وکیل پیپلز پارٹی سے نہیں لیے جاتے، اپنی پارٹی سے لیے جاتے ہیں۔ روایت ہے کہ کپتان نے ہدایت کی تھی ’سائفر سے کھیلنا ہے۔‘ سوچتا ہوں، کیا سے کیا ہو گئے کھیل ہی کھیل میں۔ لیجیے منیر نیازی پھر یاد آ گئے:
ہُن جے ملے تے روک کے پچھاں
ویکھیا ای اپنا حال!
(اب جب ملے تو روک کے پوچھوں
دیکھا ہے اپنا حال؟) 

آصف محمود 

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

عمران خان کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئیں

$
0
0

دو دن میں دو فیصلے۔ پہلے ’ریاستی راز افشا کرنے پر‘ 10 سال کی سزا اور پھر ’بدعنوانی‘ پر 14 سال کی سزا۔ پہلے ان کے قریب ترین ساتھی اور اب ان کی شریک حیات کو بھی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا ہے لیکن سابق وزیراعظم عمران خان کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں۔ ریاست اپنی دشمنی ظاہر کرنے میں کس حد تک جائے گی؟ 8 فروری کے انتخابات تک مزید ’سرپرائز‘ آسکتے ہیں۔ فی الحال ہم صرف بیٹھ کر تماشہ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح حقائق، ضابطہ کار، قوانین اور ادارے ان لوگوں کی مرضی کے سامنے جھکتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک وہ نہ چاہیں کوئی بھی منتخب رہنما آزادی کا حق نہیں رکھتا۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران تحفے کے طور پر ملنے والے زیورات کے سیٹ کی قیمت کم بتانے پر سزا سنائی گئی ہے۔ یہ فیصلہ احتساب عدالت کے جج کے ذریعے سنایا گیا ہے جنہوں نے گزشتہ عام انتخابات سے چند روز قبل ایون فیلڈ ریفرنس میں 2024ء کے انتخابات کی دوڑ میں سب سے آگے نظر آنے والے رہنما کو سزا سنائی تھی۔ 

اس فیصلے کو گزشتہ سال نومبر میں منسوخ کر دیا گیا تھا۔ اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان کی سزا کا فیصلہ بھی زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہے گا۔ اتفاق سے یا شاید جانتے بوجھتے ہوئے ان ہی جج صاحب کو اسی طرح کے ایک اور کیس کی سماعت کرنی ہے جو توشہ خانہ سے حاصل کی گئی اشیا سے متعلق ہے۔ اس مقدمے میں متعدد گاڑیاں شامل ہیں جو مبینہ طور پر نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور آصف علی زرداری نے توشہ خانہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے پاس رکھی تھیں۔ تاہم، یہ دیکھتے ہوئے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران جج کی توجہ اور توانائیاں عمران خان اور ان کی شریک حیات کو ’احتساب‘ برانڈ کا انصاف فراہم کرنے کے لیے وقف کر دی گئی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس زیر التوا دیگر معاملات کے لیے بہت کم وقت بچا ہے۔ وہ 11 سال نیب کی احتساب عدالتوں میں رہنے کے بعد مارچ میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ احتساب عدالتوں کے زیادہ تر جج تین سال کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں۔ 

اپنی توسیعی مدت کے دوران انہوں نے 4 سابق وزرائے اعظم کے مقدمات کا فیصلہ کیا ہے، یہ سبھی اس وقت ان کے سامنے لائے گئے جب ان کو دی گئی چھوٹ اپنے اختتام کو پہنچی۔ یہاں کچھ ذکر نیب کا بھی کر لیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ادارہ صرف طاقتوروں کی خواہشات کی بنیاد پر سیاسی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ہے۔ سیاست دان کو ملی چھوٹ ختم ہونے پر نیب اس پر پِل پڑتا ہے اور ہدف بنائے گئے سیاست دانوں کے خلاف ہر طرح کے ’بدعنوانی‘ کے مقدمات قائم کرکے انہیں قانونی چارہ جوئی میں پھنسا دیتا ہے۔ بعض اوقات، ضابطے کی پروا کیے بغیر کمزور شواہد کی بنیاد پر قانونی کارروائی کے ذریعے ایک یا دو سزائیں سنادی جاتی ہیں۔ حیرت کی بات نہیں کہ زیادہ تر مقدمات اور سزائیں چند سالوں میں ہی ختم ہو جاتی ہیں اور جن پر کبھی سنگین بددیانتی کا الزام لگایا جاتا ہے وہ آخرکار سیاسی شہید بن کر واپس آجاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا چکر ہے جس نے دھیرے دھیرے احتساب کے خیال کو کسی بھی قانونی جواز سے محروم کر دیا ہے۔ اس تازہ ترین سزا سے بھی یہ لگتا ہے کہ کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔

بشکریہ ڈان نیوز


اچھا جج بشیر، بُرا جج بشیر

$
0
0

احتساب عدالت کے جج بشیر نے نیب کے مقدمہ میں سال 2018 میں نواز شریف اور اُنکی بیٹی مریم نواز کو ایون فیلڈ کیس میں مجرم قرار دیتے ہوے دس سال اور سات سال کی قید بامشقت کی سزا دی۔ اُس موقع پر عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنماوں اور ووٹروں، سپوٹروں نے خوشیاں منائیں، مٹھائیاں تقسیم کیں اور اسے انصاف اور احتساب کے نام پر سراہا اور اس فیصلہ کا ہر جگہ دفاع کیا۔ آج تقریباً کوئی پانچ چھ سال کے بعد اُسی احتساب عدالت کے اُسی جج بشیر نے اُسی نیب کے توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور اُنکی اہلیہ کو 14,14 سال کی قید بامشقت اور کوئی ڈیڑھ ارب کے جرمانے کی سزا سنا دی۔ آج تحریک انصاف جج بشیر کے فیصلہ کو انصاف کا قتل قرار دے رہی ہے جبکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے مٹھائیاں تو نہیں بانٹیں لیکن دونوں سیاسی جماعتیں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف فیصلہ کو انصاف کی عملداری کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ یاد رہے کہ انہی جج بشیر کی اسی عدالت کے سامنے اسی نیب کا توشہ خانہ ریفرنس کا مقدمہ نواز شریف، آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف درج ہے۔ 

نواز، زرداری اور گیلانی کے خلاف نیب نے توشہ خانہ ریفرنس چند سال پہلے دائر کیا تھا۔ عمران خان اور اُنکی اہلیہ کے خلاف توشہ خانہ کا کیس چند ماہ پہلے جج بشیر کی عدالت کے سامنے دائر کیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کا کیس چند ماہ پہلے دائر ہوا، اُس کا نیب نے خوب پیچھا کیا اور آج جج بشیر کی عدالت نےاس مقدمہ میں فیصلہ بھی سنا دیا۔ جو توشہ خانہ کیس جج بشیر کی عدالت کے سامنے بہت پہلے دائر کیا گیا تھا وہ کہاں گم ہے، اُسکے حوالے سے نیب کیوں سویا ہوا ہے اور اُس کیس میں جج بشیر کیوں روزانہ کی بنیاد پر مقدمہ نہیں چلا رہے۔ جج بشیر کو ایک فرد کے طور پر نہ دیکھا جائے بلکہ یہ ایک ایسے نظام کا نام ہے جس نے احتساب کے نام پر گزشتہ 25 سال کے دوران ہماری سیاست، ہماری ریاست، ہمارے نظام احتساب اور عدالتی سسٹم کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کیا لیکن اسکے باوجود جاری و ساری ہے۔ جج بشیر نے ماضی میں جو فیصلہ نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف دیا اُس میں اُنکی بریت ہو چکی۔ 

نیب اور عدلیہ کی آنکھیں نواز شریف کے حوالے سے بالکل بدل چکیں اور اب عمران خان جس نظام احتساب کو ماضی میں احتساب کے نام پر انصاف کا نام دیتے تھے، خوشی مناتے تھے، دوسروں کو مٹھائیاں کھلاتے تھے اُن کو آج سود سمیت وہی نظام 14 سال قید بامشقت واپس لوٹا رہا ہے اور آج وہ کہہ رہے ہیں کہ اُن کے ساتھ نانصافی ہو گئی اور احتساب کے نام پر اُن کو سیاسی وجہ پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ن لیگ کی طرف سے عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا کے بعد پریس کانفرنس کی گئی اوراس فیصلے کو Justify کیا گیا۔ یاد رہے کہ جج بشیر کی طرف سے نیب کے توشہ خانہ کیس میں فیصلہ کو سراہنے والی ن لیگ نے اپنے حالیہ الیکشن منشور میں اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد نیب کے ادارہ کو ختم کر دے گی، جس سے نیب کی عدالتیں بھی ختم ہو جائیں گی کیوں کہ ن لیگ یہ سمجھتی ہے کہ نیب کے ادارے نے کبھی احتساب کیا ہی نہیں بلکہ احتساب کے نام پر سیاسی انجینئرنگ کی، غلط طریقہ سے سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کو جیلوں میں ڈالا، اُن کو خلاف جھوٹے سچے مقدمات میں سزائیں دیں۔ 

وہ نیب جو بُرا تھا اور جسے ختم کیا جانا چاہیے اُس کے عمران خان کے خلاف فیصلے پر ن لیگ مطمئن کیوں ہے؟ دوسری طرف اس فیصلہ کے بعد عمران خان کی بہن علیمہ خان نے پاکستان کے عدالتی نظام پر سوالاٹ اُٹھا دیے۔ علیمہ خان اور ان کے بھائی نے یہی سوالات ماضی میں کیوں نہیں اُٹھائے جب اُن کے سیاسی مخالفین کو احتساب کے نام پر نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ایسا نہیں کہ ہمارے حکمران اور سیاستدان کرپشن ، بدعنوانی یا غیر قانونی عمل میں شریک نہیں ہوتے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارا نظام احتساب اور نظام عدل ایک آنکھ سے دیکھنے کا عادی بن چکا ہے۔ اُن کو ایک آنکھ سے جو دکھایا جاتا ہے وہ وہی کچھ دیکھتے ہیں اور جب اُن کی ایک آنکھ بند کر کے دوسری آنکھ کھولنے کو کہا جاتا ہے تو وہ دوسری آنکھ سے بالکل اُس کے برعکس دیکھنا شروع کر دیتے ہیں جو کچھ اُنہیں پہلے دکھایا جاتا ہے۔ ہماری سیاست، نواز شریف اورعمران خان کا جرم یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے اس ناقص نظام کے ہاتھوں ڈسے جانے پر خوشی مناتے ہیں اور جب خود ڈسے جاتے ہیں تو ناانصافی کا رونا روتے ہیں۔ سیاستدانوں کی یہ ناکامی رہی کہ وہ اس ملک کو ایک با اعتبار، آزاد اور انصاف پسند احتساب کا نظام دینے میں ناکام رہے۔ وہ کبھی اقتدار اور کبھی سزا اور جیل کی قید کاٹنے کے دائرہ کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ نیب اورجج بشیر والا نظام احتساب اپنی جگہ قائم ہے۔

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ

 

جب آئے گا عمران، کب آئے گا عمران

$
0
0

اسلام آباد میں طاقت کے ایوانوں کی دیواروں سے کان لگا کر ہمیں گیان بانٹنے والے بتاتے ہیں کہ دو سے تین سال لگیں گے۔ جس عجلت کے ساتھ عمران خان کو سزائیں سُنائی جا رہی ہیں تو عدالتی فیصلوں میں بہت سے قانونی سُقم ہیں جس کی وجہ سے یہ فیصلے اعلیٰ عدالتوں میں معطل ہوں گے۔ تجزیہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہمارے اصلی حکمران جس کو بھی چُن کر اسلام آباد میں اقتدار دیتے ہیں اُس سے اُن کا جی بھرنے میں دو تین سال کا وقت ہی لگتا ہے۔ اُن کی سچی محبت بھی دو تین سال کے بعد بیزاری میں بدل جاتی ہے، پر یہ بیزاری دشمن داری میں تبدیل ہوتی ہے۔ فائلیں ہر وقت تیار رہتی ہیں، گواہ ڈھونڈنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی، جج رات گئے تک عدالتیں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور سزائیں اس طرح سُناتے ہیں جیسے آج ہی فیصلہ نہ سُنایا تو شاید رات کو نیند نہ آئے۔ عمران خان تین سال کی سزا پہلے ہی کاٹ رہے تھے، پھر ایک دن دس سال کی سزا، اُس سے اگلے دن 14 سال کی سزا۔ مبصرین ان سزاؤں کے محاسن اور نقائص بتا رہے تھے میرا دماغ کیلکولیٹر بنا ہوا تھا کہ جتنے عمران خان پر مقدمات ہیں اور جس تیزی سے فیصلے آ رہے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ الیکشن کے دن تک عمران خان کو کم از کم ڈیڑھ ہزار سال کی قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق عمران خان پر درجنوں مقدمات ہیں، ان پر ایک سرسری نظر بھی ڈالیں تو وہ دہشت گرد بھی ہیں، کرپٹ بھی ہیں، چور بھی ہیں، ملکی سلامتی کے لیے شدید خطرہ بھی ثابت ہوئے ہیں (جس کا مطلب ہے کہ انھوں نے ملک سے غداری کی ہے) ایک کیس ایسا بھی چل رہا ہے جس میں اُن کے آخری نکاح کو مبینہ طور پر ’عدت کے دوران‘ ثابت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ عمران خان نے جب اپنا سیاسی سفر شروع کیا تھا تو اُن پر دو الزام لگتے تھے کہ وہ ذرا طبعیت کے عیاش ہیں اور سیاسی طور پر بے وقوف ہیں۔ پاکستان میں کسی مرد سیاستدان کی چھوٹی موٹی عیاشیاں اُن کے حق میں ہی جاتی ہیں اور اس سیاسی بے وقوفی نے سب پرانے سیانوں کی دوڑیں لگوا دیں۔ جو لوگ پاکستان کی سیاست میں عمران خان کو ایک ہلکا پھلکا لطیفہ یا آئٹم نمبر سمجھتے تھے انھیں بھی اُن کے قہر کی تپش محسوس ہوئی۔ لیکن آخر میں اُن سے وہی غلطی ہوئی جو پاکستان میں منتخب ہونے والے ہر وزیر اعظم کے ہاتھوں کی لکیروں میں لکھی ہوتی ہے یعنی وہ اپنے آپ کو وزیر اعظم سمجھنے لگتے ہیں۔ 

اور وہ اپنی اس پہلی بھول پر اپنے لیے اڈیالہ میں یا سہالا میں یا اٹک قلعے والی جیل میں ایک سیل بُک کروا لیتے ہیں۔ ان جیلوں کے سب سے بڑے عادی رہائشی اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ جیل سیاستدانوں کی یونیورسٹی ہوتی ہے۔ انھیں اب کچھ سیکھنا چاہیے۔ ایک اور سیانے نے سمجھایا کہ ہوسکتا ہے جیل میں سوشل میڈیا سے دور رہے گا تو کچھ عقل آجائے گی۔ سوشل میڈیا کے شور پر ملک میں حکمرانی کرنے کے خواب دیکھنے والے دیوانے بہت ہیں۔ ان سے ان کی پارٹی چھین لی گئی ہے، جنھوں نے انھیں انقلاب کا ہراول دستہ بنایا تھا وہی ان کو غدارِ وطن کہتے ہیں۔ ان کے خوابوں میں اب بھی یہ آس باقی ہے کہ وہ الیکشن کے دن اپنی ایپس اور واٹس ایپس کے ذریعے، اپنا خواب زندہ رکھنے کے لیے، اپنے خان کے لیے، اتنے ووٹ ڈالیں گے کہ اڈیالہ جیل کی دیواریں ہل جائیں گی۔ قیدی نمبر 804 کو قید نہ رکھ پائیں گی۔ اور وہ پھر ہمارے درمیان میں ہو گا۔ 

پاکستان میں الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی پر بہت پابندیاں ہیں لیکن خواب دیکھنے کی پابندی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے جیل میں ڈالنے والوں اور ان کے سابقہ قیدیوں نے کچھ ایسا معاہدہ کیا ہو کہ اس دفعہ ہم آپس میں نہیں لڑیں گے اور عمران خان کو نہ صرف جیل میں رکھیں گے بلکہ نہ اس کی آواز، نہ اس کی تصویر کبھی باہر آنے دیں گے۔ جیل کے سیل سے نکال کر جیل میں لگی عدالت میں پیش کریں گے اور دس، بیس، تیس ہزار سال کی سزا دلوائیں گے۔ اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ ہزار سال کی قید پوری کر کے اڈیالہ جیل سے نکلیں، باہر پھر الیکشن ہو رہا ہو، ملک میں کرکٹ کا خاتمہ ہو چکا ہو اور وادی میں بیٹھا کوئی سیانا ہمیں یاد دلانے کی کوشش کر رہا ہو کہ ایوب خان کے دور میں سب اچھا تھا، ہم آپ کو وہیں لے جا رہے ہیں۔

محمد حنیف

بشکریہ  بی بی سی اردو


کیسے اور کس کو ووٹ دینے کا وقت ہے

$
0
0

پاکستان کے عام انتخابات جن کے بارے میں بہت ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، بالا آخر پولنگ کا وقت آہی پہنچا ہے۔ جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوںگے تو انتخابی مہم اختتام پذیر ہوچکی ہو گی۔ اب ووٹر نے فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے ساری انتخابی مہم کے بعد کس کو ووٹ دینا ہے۔ اسی طرح انتخابی امیدواروں نے پولنگ ڈے کی تیاری کرنی ہے، ووٹر کو پولنگ اسٹیشن لانے کے انتظامات کرنے ہیں۔ پولنگ ایجنٹ مقرر کرنے ہیں۔ پولنگ کیمپ لگانے ہیں۔ پولنگ ڈے پر کام کرنے والے پارٹی کارکنوں اور انتخابی عملے کو کھانا پہنچانا ہے، سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج اکٹھے کرنے کے لیے اپنے سیل بنانے ہیں۔ تمام ٹی وی چینلز نے الیکشن سیل قائم کر دیے ہیں۔ لوگوں کو چھٹی دے دی گئی ہے تا کہ وہ آرام سے اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔ جن دوستوں نے یہ شرط لگائی تھی کہ انتخابات نہیں ہوںگے، ان کی شرط ہارنے کا دن قریب آگیا ہے۔ جن دوستوں نے انتخاب ہونے کی شرط لگائی ہوئی تھی ان کے شرط جیتنے کا دن آگیا ہے۔ پاکستان کے انتخابی معرکوں کے نتائج عوام کے لیے خاص دلچسپی کاباعث ہوںگے۔ ایک تجسس تو تحریک انصاف کے آزاد امیدواران کے بارے میں رہے گا کہ ان میں سے کتنے جیتے اور کتنے ہارتے ہیں۔ لوگوں کو یہ بھی تجسس ہے کہ جن وکلا کو ٹکٹ دیے گئے تھے، کیا وہ جیت جائیں گے؟ وکلا کو ٹکٹ دینے کی حکمت عملی کتنی کامیاب اور کتنی ناکام رہی ہے۔

بہت دوستوں نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ کیا یہ وکلا سیٹ نکال لیں گے؟ میں سمجھتا ہوں کہ کچھ وکلا تو تحریک انصاف کی بہت محفوظ سیٹوں سے کھڑے ہیں، یہ وہ سیٹیں ہیں جو تحریک انصاف گزشتہ دو انتخابات سے جیت رہی ہے۔ وہاں تو وکلا کا کچھ چانس ہے۔ لیکن باقی حلقوں میں مجھے ان کی کامیابی کے زیادہ امکانات نہیں لگتے۔ مجھے لگتا ہے کہ وکلا کی اکثریت ہار جائے گی۔ سیاسی لوگوں کے جیتنے کا زیادہ چانس لگ رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے ووٹر کو پاکستان کے نازک حا لات کا اندازہ ہونا چاہیے۔ انھیں پاکستان کے معاشی بحران کا اندازہ ہونا چاہیے۔ پاکستان اس وقت کسی بھی تقسیم اور محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ووٹر کو محاذ آرائی بڑھانے نہیں بلکہ محاذ آرائی ختم کرنے کے لیے ووٹ ڈالنا ہو گا۔ پاکستان کے ووٹر کو یہ بات سامنے رکھنا ہو گی کہ اس کے ووٹ کے نتیجے میں پاکستان میں کوئی بحران پیدا نہ ہو بلکہ اس کے ووٹ کے نتیجے میں پاکستان کے لیے آسانیاں پیدا ہونی چاہیے۔ اس کو اپنے ووٹ کا استعمال کسی فرد یا جماعت کے حق میں نہیں بلکہ پاکستان کے حق میں استعمال کرنا چاہیے ووٹر کو یہ سمجھنا ہو گا کہ کسی بھی قسم کا بحران پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ بیانیے کے تحت ووٹ دینے کا وقت نہیں۔

یہ پاکستان کو آنے والی مشکلات سے بچانے کے لیے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ ذاتی پسند سے بالاتر ہو کر پاکستان کے لیے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ جوش سے نہیں ہوش سے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان کی قوم نے اس نازک وقت پر اپنے ووٹ کا درست فیصلہ نہ کیا تو خطرناک نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔ پاکستان کے معاشی چیلنجز بہت خطرناک ہو گئے ہیں۔ اس لیے کمزور حکومت پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کسی بھی قسم کی مخلوط حکومت بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ پاکستان اب اس نہج پر پہنچ گیا ہے جہاں کسی بھی قسم کا سیاسی عدم استحکام برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے پاکستان کے ووٹر کو ایک مستحکم حکومت کے لیے ووٹ دینا ہو گا۔ انھیں اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ ان کے ووٹ کے نتیجے میں پاکستان میں مزید تقسیم پیدا نہ ہو۔ بلکہ ایک مستحکم اور مضبوط حکومت قیام ہو۔ پاکستان اب مزید کسی سیاسی چوں چوں کے مربہ حکومت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں ووٹر ز کو کسی ایک جماعت کو پاکستان کی باگ دوڑ دینا ہو گی۔ کسی ایک جماعت کو سادہ اکثریت دینا ہو گی۔ تا کہ وہ بحرانوں سے نبٹنے کے لیے کسی کی محتاج نہ ہو۔

پاکستان اسٹبلشمنٹ اور سیاست کی لڑائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ وقت لڑائی کا نہیں ہے، مل کر چلنے کا ہے۔ میں مقتدر حلقوں کے سیاسی کردار کو جائز قرار نہیں دے رہا۔ لیکن آج وہ حقیقت ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پہلے ان سے لڑائی لڑیں یا پہلے پاکستان کے معاشی مسائل حل کر لیں۔ ایک طرف پاکستان کے معاشی ، معاشرتی اور عوامی مسائل ہیں، دہشت گردی ہے۔ دوسری طرف اسٹبلشمنٹ ہے۔ کیا یہ وقت اسٹبلشمنٹ سے لڑنے کا ہے یا یہ وقت ملک کے مسائل حل کرنے کا ہے۔ ایک دفعہ ہم نے معاشی مسائل حل کر لیے، لوگوں کے مسائل حل کر لیے پھر اسٹبلشمنٹ سے بھی لڑائی ہو سکتی۔ آپ کہیں گے کہ میں اسٹبلشمنٹ کے کردار کو جائز قرار دینے کی راہ تلاش کر رہا ہوں۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں پاکستان کسی بحرانی کیفیت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ووٹر کو یہ بات سامنے رکھنی چاہیے۔ باقی یہ بات بھی حقیقت ہے کہ سب سیاسی جماعتیں اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے حق میں نہیں ہیں لیکن سب نے ہی ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ اس لیے نہ تو کسی کا ماضی صاف ہے، اس لیے کسی ایک کو کوئی استثنا حاصل نہیں ہے۔ 

پاکستان کے ووٹر پر بہت بھاری ذمے د اری ہے۔ کل کو وہ کسی اور کو اس کا ذمے دار نہیں ٹھہرا سکتا۔ اس نے مستقبل کو سامنے رکھ کر ووٹ دینا ہے۔ وہ آنکھیں بند کر کے ووٹ نہیں دے سکتا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے تو بس ووٹ دے دیا ہے۔ پاکستان میں تقسیم اور سیاسی بحران پاکستان کے دشمنوں کی خواہش ہے، دشمن بحران چاہتا ہے، دشمن انتشار چاہتا ہے، دشمن لڑائی چاہتا ہے۔ لڑائی ختم کرنے کے لیے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ یہ کسی فرد کی محبت میں نہیں پاکستان کی محبت میں ووٹ دینے کا وقت ہے، لڑنے والوں کو نہیں صلح کرنے والوں کو ووٹ دینے کا وقت ہے۔ کام کرنے والوں کو ووٹ دینے کا وقت ہے۔ سب کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے۔ آپ نے کسی کو پہلی باری نہیں دینی ہے۔ سب نے باریاں لے لی ہیں ان کی کارکردگی کو سامنے رکھ کر ووٹ دینے کا وقت ہے۔ مناظروں کے تحت نہیں موازنوں کے تحت ووٹ دینے کا وقت ہے۔ کارکردگی کے تقابلی جائزہ کے تحت ووٹ دینے کا وقت ہے۔

مزمل سہروردی  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

شہید حکیم محمد سعید … یادیں اور باتیں

$
0
0

کتاب ’’شہید حکیم محمد سعید…. یادیں اور باتیں‘‘ میں سعدیہ راشد ’’ابا جان‘‘ کے عنوان سے لکھتی ہیں۔ ’’ہمیں پورا آئیڈیل کسی شخصیت میں مل جائے ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ اس کے ٹکڑے ضرور لوگوں کی شخصیت میں بکھرے مل جاتے ہیں۔ کبھی ایسی کوئی شخصیت بھی مل جاتی ہے جس کے وجود میں ہمارے آئیڈیل کے بیش تر رنگ، بیش تر ستارے زیادہ سے زیادہ نقوش چمک رہے ہوتے ہیں اور پھر ہم غیر شعوری طور پر اس کی طرف کھنچتے چلے جاتے ہیں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے ایک شخصیت ایسی مل گئی جس میں میرے آئیڈیل کے سارے رنگ، سارے نقوش موجود تھے۔ یہ ابا جان تھے، حکیم محمد سعید، میرے آئیڈیل۔ وہ ایک مکمل شخصیت تھے۔‘‘ سعدیہ لکھتی ہیں ’’بیٹیاں یوں بھی باپ سے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ میں اپنی امی کے مقابلے میں ابا جان سے زیادہ قریب تھی۔ میں شروع میں ان سے ڈرتی تھی لیکن سب سے زیادہ ان سے محبت کرتی تھی۔ میں وہی ہونا چاہتی تھی جو وہ مجھے دیکھنا چاہتے تھے۔ مجھ سے یہ کسی نے نہیں کہا، میری امی نے بھی نہیں لیکن مجھے یہ احساس شدت سے رہتا تھا کہ میں کوئی بات ایسی نہ کروں جو میرے ابا جان کے معیار سے گری ہوئی ہو۔

میرے قول اور عمل میں کوئی پہلو ایسا نہ ہوکہ کوئی یہ کہے ’’یہ حکیم محمد سعید کی بیٹی ہے۔‘‘ مجھے ہر وقت یہ احساس رہتا تھا کہ ابا جان نے بڑی محنت، بڑی قربانیوں سے اپنا ایک مقام بنایا ہے، ایک نام پیدا کیا ہے۔ ان کی نیک نامی پر کوئی حرف نہ آئے۔‘‘ سعدیہ راشد لکھتی ہیں ’’ابا جان نے میری تربیت اس طرح کی کہ کبھی مجھے بٹھا کر یہ نہیں کہا کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا ہے۔ تربیت کا ان کا اپنا طریقہ تھا۔ وہ عمل کر کے دکھاتے تھے، انھیں کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ انھوں نے خاموشی سے میری تربیت کی اور وہ تمام قدریں جو انھیں عزیز تھیں، اپنے عمل سے بتا دیں۔ سچائی، دیانت داری، تواضع، شائستگی، رواداری، اخلاق، دین داری۔ انھوں نے مجھے سب سکھا دیا۔ میں چودہ سال کی تھی کہ ابا جان نے مجھے پارٹیز میں لے جانا شروع کر دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پہلی پارٹی جس میں مجھے وہ اپنے ساتھ لے گئے چینی سفارت خانے میں تھی۔ چینی سفارت خانہ ان دنوں ہمارے گھر کے قریب تھا۔‘‘

سعدیہ لکھتی ہیں ’’ابا جان اپنے بڑے بھائی، حکیم عبدالحمید سے بہت محبت کرتے تھے۔ دونوں کی قدریں ایک تھیں، ان کی سوچ، خدمت کا جذبہ، عام لوگوں کی بھلائی، ذاتی خوبیاں ایک تھیں، البتہ شخصیتیں مختلف تھیں، کام کا انداز مختلف تھا۔ نہ جانے ابا جان انھیں دلی میں چھوڑ کر کیسے چلے آئے۔ یہ پاکستان کا جذبہ تھا اور مسلم لیگ سے وابستگی جس نے انھیں پاکستان آنے پر مجبورکیا۔ میں سمجھتی ہوں یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت تھی۔ اللہ کو ان سے اچھے کام کرانے تھے۔ انھوں نے دل و جان سے پاکستان کی خدمت کی، لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کیا۔ سعدیہ راشد لکھتی ہیں ’’دفتر میں ابا جان ایک ڈسپلن قائم رکھتے تھے۔ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے رفقائے کار سے مشورہ ضرور کرتے تھے۔ وہ شوریٰ بینہم کے قائل تھے۔ جو لوگ ان کے اعتماد میں تھے وہ ان سب کی رائے سنتے، غور کرتے اور پھر فیصلہ کرتے۔ ایک دفعہ فیصلہ کر لیتے تو بس اس پر قائم رہتے۔ اپنے مشن کی کامیابی کے لیے انھیں بڑی محنت کرنا پڑی۔ 

ایک طرف ہمدردکی تعمیر و ترقی، دوسری طرف طب یونانی کا جسے ابا جان کہتے تھے کہ یہ طب اسلامی ہے، دنیا میں نام روشن کرنا اور اسے تسلیم کرانا اور پھر علم کے میدان میں ان کی پیش قدمیاں، یہ سب بڑے کام تھے۔ ان میں بڑی جانفشانیاں تھیں۔ ان معاملوں میں جب انھیں کوئی فکر لاحق ہوتی تو وہ عموماً خاموش ہو جاتے۔ زیادہ تر اپنے اوپر ہی جھیل جاتے۔ ابتدا میں کسی سے ذکر نہ کرتے لیکن اب بعد میں وہ کہنے لگے تھے۔ آخر دنوں میں تو انھوں نے مجھ سے یہ کہا کہ ’’مجھے اب اپنی نیند کا ایک گھنٹہ اور کم کرنا پڑے گا۔‘‘ میں نے کہا ’’یہ آپ کیسے کریں گے؟ چارگھنٹے تو آپ سوتے ہیں۔ تین گھنٹے سو کر اپنے فنکشن کس طرح پورے کریں گے؟‘‘ وہ کہنے لگے، ’’نہیں مجھے بہت کام ہے، مجھے اپنی نیند کا ایک گھنٹہ کم کرنا پڑے گا۔‘‘ سعدیہ لکھتی ہیں ’’میں اب محسوس کرتی ہوں کہ ابا جان کو جلدی کیوں تھی، وہ اپنا مشن پورا کرنا چاہتے تھے۔ جو پودے انھوں نے لگائے تھے، انھیں بار آور دیکھنے کے لیے بے چین تھے وہ اور بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ 

اپنی سوچ کو انھوں نے اپنے تک محدود نہیں رکھا، برملا اظہار کر دیا۔ وہ اپنی زندگی کے ہر ہر لمحے کو، اپنے خیالات کو، احساسات کو، سب ریکارڈ کر گئے ہیں۔ ان کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو چھپا رہ گیا ہو۔ وہ ایک کھلی کتاب کی مانند تھے جسے انھوں نے لوگوں کے سامنے رکھ دیا تھا۔ لو پڑھ لو، جان لو، پرکھ لو۔‘‘ سعدیہ راشد لکھتی ہیں ’’جب غیر ملکی کرنسی پر پابندیاں تھیں اور بیرونی سفر کے لیے بینک سے مقررہ زر مبادلہ ملتا تھا تو ابا جان سفر سے واپس آ کر ایک ایک ڈالر واپس کر دیتے تھے۔ انھیں بین الاقوامی کانفرنسوں میں بلایا جاتا، یونیسکو، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، یونی سیف، اسلامی ملکوں کی تنظیم اور دوسرے اداروں کے اجلاس میں شرکت کے لیے بلایا جاتا اور سفری خرچ پیش کیا جاتا۔ ابا جان لکھ دیتے کہ ’’اس کی ضرورت نہیں۔ میں اپنے خرچ پر آؤں گا۔‘‘ کانفرنسوں اور سیمیناروں میں مقالوں پر معاوضہ پیش کیا جاتا۔ عموماً یہ اچھی خاصی رقم ہوتی، وہ اسے قبول نہیں کرتے۔ کہہ دیتے کہ علمی کاموں کا معاوضہ لینا مجھے پسند نہیں۔ 

زندگی کے تمام معاملات میں انھوں نے ہمیشہ اصول پسندی اور دیانت داری سے کام لیا اور اسی نے ان میں وہ اخلاقی جرأت پیدا کردی تھی کہ وہ ہر بددیانتی کو، ہر غلط کام کو ٹوک دیتے تھے اور لوگ اسے خاموشی سے برداشت کر لیتے تھے۔ ابا جان کی کسی سے دشمنی نہیں تھی۔ انھوں نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا، کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی۔ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کی۔ جنھوں نے انھیں نقصان پہنچانا چاہا، ان کے کاموں میں رکاوٹ ڈالی، ان کے لیے در پردہ مشکلات پیدا کیں، ابا جان نے ان کے ساتھ بھی بھلائی کی۔ ان سے شکوہ تک نہ کیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے اُجلے، ایسے بھلے، نیک نفس انسان پرکیسے گولیاں چلائی گئیں، جو دوسروں کے لیے جیتا تھا اسی کی زندگی کا چراغ گل کر دیا۔ اس روشنی کو بجھا دیا جو نہ جانے کتنے گھروں کی روشنی کا سامان کیے ہوئے تھی۔ ابا جان شہید ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے، خدمت کرنے والے امر ہو جاتے ہیں، وہ امر ہو گئے۔‘‘

رفیع الزمان زبیری  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

اسٹیبلشمنٹ سے جیت کا واحد رستہ

$
0
0

عمومی طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ آج سلیکشن ڈے ہے، الیکشن کا تماشہ تو صرف ایک رسم کے طور پر رچایا جا رہا ہے ۔ یہ بھی تاثر عام ہے کہ ن لیگ کو حکومت دینے کے ارادے ہیں لیکن یہ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ کیا ن لیگ قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت لے بھی پائے گی کہ نہیں۔ سرپرائیز کی بھی بات کی جا رہی ہے اور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ تحریک انصا ف کے ووٹر سپورٹر غصے میں ہیں اور وہ بڑی تعداد میں نکل کر سلیکشن کے پراسس کو الیکشن میں بدل کر تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے آزاد اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد کو کامیابی دلوا کر اس سلیکشن کو الیکشن میں بدل دیں گے۔ لیکن ایسا ہوا تو پھر کہا جا رہا ہے کہ آزاد آزاد نہیں رہیں گے اور اُنہیں قابو کر لیا جائے گا اور تحریک انصاف کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہے گا۔ بحرحال آج کا دن بہت اہم ہے اور آج رات تک الیکشن ہے یا سلیکشن اس کا فیصلہ سامنے آجائے گا۔ کوئی شک نہیں کہ اب جس قسم کی جمہوریت ہم دیکھنے جا رہے ہیں وہ پہلے سے زیادہ ہائبرڈ اور کنٹرولڈ ہو گی۔ بنگلہ دیش ماڈل کی بھی بات ہو رہی ہے۔ ایک بات طے ہے کہ سیاستدانوں اور سول حکومت نے بہت سپیس کھو دی ہے جس کی واپسی کیسے ممکن ہو سکتی ہے اُس پر میں بات کرنا چاہوں گا۔ 

اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بغیر کچھ کیے یہ سپیس سول حکومت اور سیاستدانوں کو دے دے گی تو بھول جائیں ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ کوئی اگر یہ سوچتا ہے کہ عمران خان کی طرح فوج سے ہی ٹکر لے کر اور 9 مئی جیسے واقعات سے اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور کیا جا سکتا ہے تو ہم نے دیکھا کہ اس سے تو ملک، سیاست کے نقصان کے ساتھ سب سے زیادہ نقصان اپنا ہی ہوتا ہے اور اس صورتحال کا عمران خان اور تحریک انصاف کو سامنا ہے۔ مسئلہ لڑائی سے حل نہیں ہو گا۔ اگر اسٹیبلشمنٹ سے جیتنا ہے تو پھر سیاستدانوں کو دائرہ کا سفر ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جب حکومت ملے، جیسے بھی ملے، تو پھر کام، کام اور کام پر ہی زور دینا پڑے گا۔ پرفارمنس بہترین ہو گی، طرز حکمرانی اچھا ہو گا، عوام دیکھے گی، محسوس کرے گی اور سمجھے گی کہ حکمراں اُن کی زندگیوں کو بہتر بنانے اور سرکاری محکموں کو سروس ڈیلوری کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں تو پھر سولین سپریمیسی کا رستہ ہموار ہو گا، اسٹیبلشمنٹ کے لیے سپیس کم ہوتی جائے گی۔ اس کے علاوہ کوئی شارٹ کٹ موجود نہیں۔ عمران خان بے شک ایک پروجیکٹ تھے، وہ سلیکٹڈ تھے۔

اگر اُن کی حکومت نے بہترین کارکردگی دکھائی ہوتی، گڈ گورننس کی مثال قائم کی ہوتی، سرکاری اداروں کو سروس ڈیلوری کے لیے فعال کیا ہوتا تو آج عمران خان یہ کچھ نہ دیکھ رہے ہوتے اور نہ ہی جمہوریت مزید کنٹرولڈ ہوتی۔ نواز شریف بھی ایک پروجیکٹ کے طور پر ہی سامنے آرہے ہیں، وزیراعظم وہ بنتے ہیں یا شہباز شریف یا کوئی اور اس کا فیصلہ بھی جلد ہو جائے گا۔ لیکن اگر ن لیگ کا وزیراعظم بنتا ہے اور کوئی سرپرائز نہیں ملتا تو پھر چاہے نواز شریف ہوں یا شہباز اُن کا سارا زور پرفامنس، پرفامنس، پر فامنس پر ہی ہونا چاہئے۔ اگر ایک طرف دن رات لگا کر معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات اُٹھانے پڑیں گے تو دوسری طرف ایک ایک سرکاری محکے کو عوام دوست بنانے کے لیے سول سروس کو میرٹ اور غیر سیاسی انداز میں چلانا پڑے گا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ چند ایک کاموں پر تو توجہ دی جائے لیکن باقی ذمہ داریوں سے بے فکر ہو جائیں۔ آئین پاکستان کے مطابق عوام سے متعلق حکومت کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں اور ان ذمہ داریوں سے پہلو تہی کریں گے تو اسٹیبلشمنٹ کو مزید سپیس ملے گی۔ 

اگر کارکردگی بہترین ہو گی تو اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی معاملات میں مداخلت کے لیے سپیس نہیں ملے گی۔ اگر سیاستدان بادشاہوں کی طرح حکومت کریں گے، نہ طرز حکمرانی کو ٹھیک کریں گے نہ ہی سرکاری اداروں کو عوامی خدمت کے لیے فعال بنائیں گے، معیشت کا بھی ستیاناس کریں گے تو پھر اسٹیبلشمنٹ کے لیے سیاسی معاملات میں مداخلت کا رستہ آسان ہو جائے گا۔

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ



عزیز ووٹر ۔۔۔ اس تحریر کو ضرور پڑھیے

$
0
0

اگر آپ آج ووٹ ڈالنے جا رہے ہیں تو پہلے چند منٹ نکال کر اس تحریر کو پڑھ لیں۔ میں یہاں کسی امیدوار کی حمایت نہیں کررہا۔ ہم سب ایک ہی چیز چاہتے ہیں، ہمارا ملک خوشحال ہو، ہمارے حقوق کا تحفظ ہو اور ہمارے بچوں کا مستقبل روشن ہو۔ عزیز ووٹر، براہ کرم اس بات کو سمجھیں کہ یہ اتخابات 2007ء کے بعد سے کسی بھی الیکشن سے زیادہ اہم ہیں۔ یہ مبالغہ نہیں ہے۔ اُس سال پاکستان نے فوجی حکمرانی سے سویلین جمہوریت کی طرف ایک انتہائی مشکل منتقلی کا آغاز کیا تھا۔ فوجی حکمرانی کے دور کے اثرات سخت تھے، ادھار کے ڈالروں سے مصنوعی طور پر کھڑی کی جانے والی معیشت واپس نیچے آرہی تھی، آمر کی طرف سے سپریم کورٹ کو محدود کرنے کی کوشش سے عدلیہ مجروح تھی، لال مسجد کے واقعے کے بعد دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا تھا، میدان جنگ میں طالبان کی کامیابیوں کے ساتھ امریکا سے تعلقات کشیدہ ہوتے جارہے تھے، بینظیر بھٹو کا قتل اور بہت کچھ۔ منتقلی کے اس سفر کو انجام دینا تقریباً ناممکن تھا۔ اس میں معیشت کو مستحکم کرنے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کو تیز کرنے اور ملک میں اپنی گہری جڑیں رکھنے والے جہادی گروہوں کے غضب کو دعوت دینے اور وکلا کی تحریک کو سنبھالنے کی سیاسی قیمت کو برداشت کرنا شامل تھا۔

یقیناً یہ مکمل فہرست نہیں ہے۔ یہ صرف ایک یاد دہانی ہے کہ معاملات ایسے ادوار میں انتہائی پیچیدہ ہو جاتے ہیں جب ملک کو فوجی حکمرانی سے سویلین جمہوریت کی طرف منتقل ہونا پڑتا ہے۔ موجودہ لمحہ شاید فوجی حکمرانی سے جمہوری حکمرانی کی طرف منتقلی جیسا نہیں ہے۔ لیکن اس میں منتقلی کے کچھ عناصر شامل ہیں جو اُن لمحات سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ مثال کے طور پر، غور کریں کہ ملک 2017ء سے ہائبرڈ حکومتوں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ صرف یہی نہیں، اس سال کے بعد سے ہر ایک ہائبرڈ تجربہ قلیل المدتی تھا، یعنی اسے ضرورت کی وجہ سے چلایا جارہا تھا اور بنیادی طور پر اس کی بقا کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ 2017ء کے ہر ہائبرڈ تجربے کی اپنی منفرد ساخت تھی۔ مثال کے طور پر عدالتوں کی جانب سے نواز شریف کو نااہل کرنے کے بعد 2017ء میں شاہد خاقان عباسی کی زیر قیادت حکومت حکمران جماعت کی باقیات میں سے چنی گئی قیادت پر مشتمل تھی۔ اگلی حکومت ایک نئی سیاسی جماعت کی تھی جس نے پہلے کبھی ملک پر حکومت نہیں کی تھی، یہ حکومت عمران خان کی زیر قیادت تھی۔

اس کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت آئی جس کی قیادت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے ایک غیر متوقع اتحاد کے ذریعے کی گئی تھی، یہ عمران خان کی مخالفت کرنے یا ملک بچانے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے، اس کا انحصار آپ کے سیاسی نظریے پر ہے۔ پی ڈی ایم کے بعد نگران حکومت آئی جسے ہم ووٹر آج گھر بھیجنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہائبرڈ حکومتوں کے ان نہ ختم ہونے والے سات طویل سالوں نے معیشت پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ انہی سات سالوں میں ملکی تاریخ کے کسی بھی دوسرے سات سالہ دور کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی قدر میں اب تک کا سب سے بڑا نقصان دیکھا گیا ہے۔ ڈالر کی قدر میں 2017ء کے موسم گرما سے 2023ء کے موسم گرما تک، تقریباً تین گنا اضافہ ہوا جس کے بعد آخر کار اس میں کچھ کمی آئی لیکن اس کمی کو یہ 2024ء کے موسم گرما تک دوبارہ پورا کرسکتا ہے۔ ان برسوں نے ملک میں مہنگائی کے سب سے زیادہ خوفناک دور کو بھی دیکھا 2021ء سے شروع ہونے والی مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا جو ہماری تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ ایک لمحے کے لیے، ایسا لگ رہا تھا کہ ہم اپنا گزارا کرنے کے لیے جس رقم پر انحصار کرتے ہیں اس کی قدر ہماری آنکھوں کے سامنے ختم ہو رہی تھی۔

میں اس بحث کو دوبارہ نہیں چھیڑنا چاہتا کہ اس کا ذمہ دار کون تھا اور مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی کے محرکات کیا تھے۔ میں ان معاملات کے بارے میں پہلے ہی کافی لکھ چکا ہوں۔ آج کے لیے صرف اس بات پر زور دینا کافی ہے کہ یہ دونوں مظاہر آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ ایک کے بعد ایک ہائبرڈ حکومتوں کے سات سال مہنگائی میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ ساتھ درآمدی پابندیوں میں شدت آنے اور زرمبادلہ کے قلیل ذخائر کے انتظام کی کوششوں اور اس کے نتیجے میں ترقی کے زوال اور بےروزگاری میں اضافے کا باعث بنے۔ یہ چیزیں ایک دوسرے سے منسلک نہیں بلکہ ایک ہی سکے کو دو رخ ہیں۔ ہمیں اسی چیز کو آج نکال باہر کرنا ہے۔ آج فوجی حکومت کو نہیں بلکہ ہائبرڈ حکومتوں کا سلسلہ ختم کرنے کا دن ہے۔ آج جس حکومت کو آپ اور میں مل کر وجود میں لانے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں، اس کے پاس اس ہائبرڈ دور سے باہر نکلے کا ایجنڈا ہو گا۔ اس حکومت کو بھی ایک مہنگائی زدہ معیشت ملے گی جوکہ شاید کم تو ہو جائے لیکن یہ تلوار پھر بھی لٹکی رہے گی۔ ایک بار پھر اس حکومت کو بڑھتی دہشتگردی اور یکے بعد دیگرے ہائبرڈ دور کے سیاسی اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

آنے والی حکومت کے پاس مبہم مینڈیٹ نہیں ہونا چاہیے۔ اس حکومت کے سامنے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ معاشی محاذ پر کن اقدامات کی ضرورت ہے چاہے ان کے لیے حکومت کو انتخابی مہم کے کچھ وعدوں کو ایک طرف رکھنا پڑے۔ اسے اپنے ماضی کا یرغمال نہیں بننا چاہیے اور اور بدلے لینے کے کھیل میں نہیں پڑنا چاہیے۔ اسے جمہوری اصولوں اور طریقہ کار کا احترام کرنا سیکھنا اور اپنی مثال سے دوسروں کو سکھانا چاہیے۔ جمہوریت کے اس گھر کو آہستہ آہستہ دوبارہ تعمیر کرنا چاہیے جو ان دنوں تقسیم اور نفرت کی آگ سے جل رہا ہے۔ نئی حکومت کو آئین کو دوبارہ پڑھنا چاہیے اور قانون کے دائرے میں رہنا چاہیے۔ آدھی رات کو پی ٹی آئی کے کارکنوں اور امیدواروں اور دیگر افراد کا اغوا بند ہونا چاہیے۔ جبری گمشدگیاں ختم ہونی چاہئیں۔ مفاہمت کی سیاست کو چلنے دینا چاہیے۔ بدلہ لینے کی خواہش پر جمہوریت پر یقین کو ترجیح ملنی چاہیے۔ آیئے، میرے ساتھ آپ بھی اپنے ملک کے لیے ایک نئی شروعات کی خواہش میں اس لائن میں کھڑے ہوں۔ آئیے مل کر اپنا راستہ تلاش کرنے کا عزم کریں۔ اپنے اختلافات کو نہ ختم ہونے والی نفرتیں نہ بننے دیں۔ جمہوریت کو موقع دیں کہ وہ خود بھی ٹھیک ہو اور ہمارے لیے بھی بہتری کے راستے نکلیں۔ پیارے ووٹر، یہی آپ کے لیے اور اپنے لیے میری دعا ہے۔

خرم حسین  

بشکریہ ڈان نیوز

ووٹ کو نہ سہی خود کو ہی عزت دے دو

$
0
0

ماڈل بھی وہی ستر برس پرانا ہے اور خواہش بھی جوں کی توں یعنی انتخابات اچھے ہیں اگر نتائج کنٹرول میں رہیں۔ مگر سوار لاکھ اچھا ہو کبھی کبھی گھوڑا بدک بھی جاتا ہے۔ جیسے 1970 میں صدرِ مملکت کو حساس اداروں نے رپورٹ پیش کی گئی کہ ’ایک آدمی ایک ووٹ‘ کے اصول پر پہلے عام انتخابات کی تاریخی کلغی پی کیپ میں سجانے میں کوئی حرج نہیں۔ کسی بھی پارٹی کو قطعی اکثریت حاصل نہیں ہو گی مشرقی پاکستان کی 162 نشتسوں میں سے اگرچہ عوامی لیگ زیادہ نشستیں لے گی مگر نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) اور جماعتِ اسلامی کو بھی اچھی خاصی نشستیں ملیں گی۔ اسی طرح مغربی پاکستان کی 148 نشستیں پیپلز پارٹی، قیوم لیگ، جماعتِ اسلامی اور نیپ وغیرہ میں انیس بیس کے فرق سے تقسیم ہو جائیں گی۔ ان جماعتوں کے پاس مخلوط حکومت بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ چار و ناچار انھیں آپ کا تعاون حاصل کرنا ہو گا اور یوں آپ چاہیں تو وردی اتار کے بھی معقول حد تک بااختیار صدر بنے رہیں گے۔ پھر یوں ہوا کہ حساس اداروں کی تجزیاتی رپورٹیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ ووٹروں نے ملک کے دونوں بازوؤں میں وہ میز ہی الٹ دی جس پر مستقبل کا نقشہ بچھایا گیا تھا اور پھر یہ میز ہی چھینا جھپٹی میں ٹوٹ ٹاٹ گئی۔ 

2018 میں تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ وہی ڈیزائن دوبارہ استعمال ہوا اور کم و بیش سب چیزیں توقعات کے مطابق کنٹرولڈ ماحول میں خوش اسلوبی سے انجام پا گئیں۔ جن کی مشکیں کسنی تھیں انھوں نے بہت زیادہ چوں چاں نہیں کی۔ جس جماعت کو فری ہینڈ ملا اس نے بھی لگ بھگ ڈھائی سال تک تابعداری دکھائی اور اس کے عوض اسے بھی ریاستی بزرگ انگلی پکڑ کے چلاتے سکھاتے رہے۔ پھر پتہ ہی نہ چلا کہ بچے کا قد کیسے بانس کی طرح بڑھنے لگا مگر بزرگ تو بزرگ ہوتے ہیں وہ اسے ببلو گبلو سعادت مند بچہ ہی سمجھتے رہے۔ یہ کرو وہ نہ کرو، یہ کھاؤ وہ کھاؤ، اس سے ملو اس سے گریز کرو وغیرہ وغیرہ۔ ایک دن اس کی بس ہو گئی اور اس نے کوئی ایسی گستاخی کی کہ بزرگوں سے برداشت نہ ہو سکا اور انھوں نے کھڑے کھڑے یہ کہہ کر نکال دیا کہ لاڈ پیار نے اس کا دماغ خراب کر دیا ہے۔ کچھ دن ٹھوکریں کھانے کے بعد خود ہی سمجھ جائے گا اور آ کے معافی مانگ لے گا اور پھر پہلے کی طرح ہمارے کہنے پر چلتا رہے گا۔

مگر آپ کو تو پتہ ہے کہ آج کل کے بچے کیسے ہوتے ہیں۔ مر جائیں گے پر اپنی غلطی تسلیم نہیں کریں گے۔ چنانچہ بزرگوں کی پگڑی ہوا میں اڑا دی گئی اور پھر جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ برخوردار برابری کی سطح پر منھ کو آ گیا۔ لہذا تمام مروتیں اور روایات ایک طرف رکھ کے کمبل کٹائی شروع ہو گئی اور اسے عاق نامہ تھما دیا گیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ اس گستاخ بے وفا برخوردار کے چکر میں جن نسلی تابعداروں کو چور ڈاکو بدعنوان قرار دے کر راندہِ درگاہ کیا گیا۔ انھیں دوبارہ منا کے واپس لایا جائے اور آئندہ کسی نئے لمڈے کو اس کے شجرہِ وفاداری کی چھان پھٹک کے بغیر گود نہ لیا جاوے۔ مگر ضدی بچہ کچھ لے دے کے بھی جان چھوڑنے پر تیار نہیں بلکہ مسلسل مفاداتی کباب میں ہڈی بنا ہوا ہے اور فیصلہ خدا پر چھوڑ کے سائیڈ پکڑنے کے بجائے اپنے حصے سے بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔

1970 کے بعد پہلا موقع ہے کہ پلان اے، بی، سی یکے بعد دیگرے ناکام ہوتے جا رہے ہیں اور بزرگوں کو ستر پوشی مشکل ہو رہی ہے۔ ان کے اعمال انہی کے سامنے ناچ رہے ہیں۔ انہی کے ہاتھوں میں پلنے والا برخوردار انہی کو اپنی جیتی ہوئی نشستیں ہلا ہلا کے دکھا رہا ہے اور مزید کا بھی دعوی دار ہے۔ مگر بزرگ ہیں کہ اس لمحے تک بھی سوشل میڈیا کے بدتمیز دور میں بیسویں صدی کے مائنڈ سیٹ میں مبتلا ہیں کہ ’ڈنڈہ پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا۔‘ مشکل یہ آن پڑی ہے کہ یہ 1979 نہیں کہ لٹکانے سے کام چل جائے۔ انیس سو ستانوے بھی نہیں کہ دو تہائی اکثریت کو ٹھکانے لگا کے ڈنڈہ ڈولی کر کے جہاز میں بٹھا دیا جائے۔ یہ تو عقل سے پیدل گروہ ہے جو اپنا نفع نقصان دیکھنے اور بزرگوں کی سننے کے بجائے ’ساڈا حق ایتھے رکھ‘ ٹائپ گیتوں پر ناچتا ہے۔ آگے کا راستہ بہت آسان بھی ہے اور بہت مشکل بھی۔ ان نوجوانوں کے غصے کی اصل وجوہات جاننے کی سنجیدگی سے کوشش کی جائے۔ ان کو محض بچہ سمجھ کے چپس، لیپ ٹاپ اور مفت دواؤں کے لالی پاپ دکھاتے رہیں گے تو یہ اور بھڑکیں گے۔

انھیں عزت کے ساتھ بٹھا کے ان کی بات تحمل سے سنی جائے۔ ان کا جتنا حصہ بنتا ہے دے دیا جائے اور ان پر اعتماد کیا جائے کہ یہ ڈگمگا بھی گئے تو خود کو گر پڑ کے سنبھال ہی لیں گے۔ جب اور جتنا مشورہ مانگیں بس اسی پر اکتفا کیا جائے۔ ویسے بھی جو خاکی و نوری افلاطون اس نسل کے تاحیات مامے بننے پر مصر ہیں وہ زیادہ سے زیادہ پانچ دس برس جئییں گے یا اپنے عہدوں پر رہیں گے۔ بعد میں بھی تو انہی لڑکے لڑکیوں نے ملک چلانا ہے۔ بہتر ہے کہ انھیں ابھی سے برابر کا حصہ دار بنا لیا جائے تاکہ آگے کی زندگی گذارنے کے لیے کچھ مشق ہو جائے اور وہ تلخیوں اور بدزنی کے ماحول سے نکل کے مستقبل کے چیلنج جھیل سکیں۔ اگر آپ خدا سے لو لگانے کی عمر میں بھی ڈھیلی لنگوٹ پہن کے اس نسل کے سامنے کبڈی کبڈی کرتے رہیں گے تو پھر تھپڑ، قینچی اور دھوبی پٹکے کے لیے بھی اپنے لخلخاتے انجر پنجر کو تیار رکھیں۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ بی بی سی اردو


متنازع ترین انتخابات کے حیران کن نتائج

$
0
0

آٹھ فروری کو پاکستان کے ’متنازع ترین‘ انتخابات کے بعد نتائج تقریباً مکمل ہو چکے ہیں، جس کے بعد پاکستانیوں کی اکثریت نے سکون کا سانس لیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ گذشتہ کئی مہینوں سے قید اور سینکڑوں مقدمات میں الزامات کا سامنا کرنے والے پاکستان کے ’مقبول ترین‘ رہنما عمران خان سٹیبلشمنٹ کے خلاف سیاسی لڑائی جتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ پارلیمان سے باہر سیاسی تنازعات اور کڑوا ترین وقت اب ممکنہ طور پر ماضی کا حصہ ہے۔ کچھ مخصوص نتائج کو چھوڑ کر عمومی نتائج کے بعد سیاسی مفاہمت کا امکان بڑھ گیا ہے۔ انتخابات کے بہت سے حیران کن نتائج میں سے تین قابل ذکر ہیں۔ پہلا یہ کہ پاکستان مسلم لیگ ن، جس کی قیادت نے 2018 میں شکست کھانے کے بعد دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کا سہارا لیا، نتائج کے بعد کافی مایوسی کا شکار ہے۔ مسلم لیگ ن اور اس کے قائد نواز شریف کلین سویپ کی امید لگائے بیٹھے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان کی جماعت نے قومی اسمبلی میں 70 سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جب کہ پاکسان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے 100 کے قریب سیٹوں پر کامیابی سمیٹی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے طور پر حکومت نہیں بنا سکتی۔

صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنانے کا امکان ہے جہاں پی ٹی آئی ان سے چند سیٹیں ہی پیچھے ہے، اس لیے مسلم لیگ ن کی صفوں میں مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ جہاں پورا شریف خاندان، کم از کم چھ، اپنی اپنی نشستیں جیت چکا ہے، وہیں مسلم لیگ ن کے کئی بڑے رہنما بشمول تجربہ کار وزرا جیسے خرم دستگیر اور رانا ثنا اللہ کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ درحقیقت پنجاب کے بڑے شہروں بشمول گوجرانوالہ، فیصل آباد اور شیخوپورہ سے مسلم لیگ ن سے منسوب گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ کی شناخت فی الحال مٹ چکی ہے۔ دوسرا یہ کہ عمران خان کی عدم موجودگی میں پی ٹی آئی سے انتخابات میں اچھی کارکردگی کی توقع نہیں تھی، اس لیے نہیں کہ اسے عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی بلکہ اس لیے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد نو مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے فوجی تنصیبات پر دھاوا بولنے کے بعد مبینہ طور پر طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اعلیٰ کمان اس کی شکست کی خواہاں تھی۔ بہت سے لوگوں کو پہلے ہی اندازہ تھا کہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی کا نام مٹانے کے لیے ہر ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں گے۔ 

انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان ’بلے‘ سے محروم کر دیا گیا اور پی ٹی آئی کی چھتری تلے الیکشن لڑنے کی کوشش کرنے والے آزاد ارکان کے خلاف ریاستی طاقت، قید و بند، ہراسانی، ٹارگٹڈ حملے، وکٹمائزیشن اور قانون نافذ کرنے والی فورسز کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ عوامی عزم اور جرات، جو پی ٹی آئی کے لیے ڈالے گئے ووٹوں سے ظاہر ہوتی ہے، کے برعکس قابل اعتراض عدالتی فیصلے اور ان کے رہنما کی سزا اور قید و بند سے توڑنے کی کوشش کی گئی۔ عمران خان نے تقریباً 66 سال سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عوامی طاقت ہی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے منصوبوں کو ناکام بنا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر عدلیہ نے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور انتخابات کے دوران پارٹی کو مؤثر طریقے سے انتخابی مہم چلانے سے روکا گیا جیسا کہ لاکھوں پاکستانی ووٹرز کے لیے پی ٹی آئی کے سینکڑوں قومی اور صوبائی امیدواروں کے انفرادی انتخابی نشان یاد رکھنا ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس کے باوجود عوام نے ملک بھر میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو مایوس نہیں کیا۔

انتخابی نتائج کا اعلان تقریباً مکمل ہو گیا اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار 97 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی دوڑ میں آگے ہیں اور مسلم لیگ ن 71 اور پی پی پی 54 نشستوں کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ تاریخ ساز نتائج میں خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی نے ان انتخابات میں کلین سویپ کیا ہے ملک کے دوسرے سرے یعنی کراچی میں بھی پی ٹی آئی نے کئی نشستیں حاصل کی ہیں۔ تیسرا یہ کہ پی ٹی آئی کے سابق بڑے رہنما، جنہوں نے عمران خان ان سے راہیں جدا کر لی تھیں، کو انتخابات میں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ماضی میں عمران خان کے اہم معتمد اور حامی جہانگیر ترین اور ان کے سابق وزیر اعلیٰ اور وزیر دفاع پرویز خٹک دونوں ہی جیتنے میں ناکام رہے ہیں۔ باغی رہنماؤں نے عمران خان کی بظاہر ڈوبتی ہوئی کشتی سے اترنے کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ پرویز خٹک کی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے خٹک خاندان کے تمام سات ارکان ہار گئے ہیں۔ 

پی ٹی آئی کے لیے اب بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ کئی سیٹوں سے اس کے امیدواروں نے نتائج کو چیلنج کر رکھا ہے۔ انتخابی نتائج شیئر کے طریقہ کار پر اس کے ارکان سوال اٹھا رہے ہیں۔ کچھ اس معاملے کو عدالتوں میں لے گئے ہیں۔ اگلی حکومت میں پی ٹی آئی کے کردار کے ساتھ ساتھ قانونی لڑائیاں بھی زور پکڑیں گی۔ پی ٹی آئی کے لیے یہ اب بھی مشکل وقت ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کے بہت سے اہم معاملات پر مسائل حل طلب ہیں، بشمول اس کے کہ نو مئی کی کہانی کو کیسے ختم کیا جائے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان، پارٹی اور ملک کو آگے بڑھانے کے لیے بہترین راستے کے بارے میں سوچیں۔

 نسیم زہرہ  

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

بدنام سیاست میں چھپے خوبصورت چہرے

$
0
0

پاکستانی سیاست میں سچ، اصول اور کردار کی بہت کمی ہے۔ سیاست کا جب نام لیا جاتا ہے تو دماغ میں فوری طور پر ایک منفی تاثر ابھرتا ہے۔ اکثر جب کسی کو جھوٹ نہیں بلکہ سیدھی اور صحیح بات کرنے کیلئے کہنا مقصد ہوتا ہے تو اُسے کہا جاتا ہے کہ ’’مجھ سے سیاست نہ کرو، سیدھی اور سچی بات کرو‘‘۔ ہمارے ہاں سیاست بہت بدنام ہو چکی اور اس میں سیاستدانوں کا اپنا بہت بڑا کردار ہے۔ ایک دن حلف دے کر جو بات کی جاتی ہے، دوسرے دن اُس سے کھلے عام مکر کر بالکل الٹ بات کر دی جاتی ہے۔ اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد کیلئے اپنی ہی کی گئی باتوں ، وعدوں اور اصولوں سے پھرنا سیاستدانوں کیلئے بہت عام ہے۔ گزشتہ چند سال سے اس سیاست کو نفرت اور گالم گلوچ نے مزید خراب کر دیا اور سیاسی اختلاف کو دشمنی میں بدل کے رکھ دیا۔ ایسے ماحول میں حال ہی میں ہماری سیاست میں کچھ ایسے مثالیں سامنے آئی ہیں جن کو دیکھ اور سن کر دل خوش ہوا اور سیاست کا وہ خوبصورت چہرہ سامنے آیا جسے سراہنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری سیاست کا یہ خوبصورت چہرہ عام ہو اور اُس بدصورتی کو ختم کرنے میں مددگار ہو جو پاکستانی سیاست کی بدنامی کا سبب بنا ہوا ہے۔

جن خوبصورت مثالوں کی میں بات کرنا چا ہ رہا ہوں اُن میں ایک کراچی سے جماعت اسلامی کے رہمنا حافظ نعیم الرحمن کی طرف سے سندھ اسمبلی کی سیٹ پر اپنی جیت سے اس وجہ سے دستبرداری کا اعلان کرنا کہ فارم 45 کے تحت تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے امیدوار نے اُن سے زیادہ ووٹ لیے اس لیے وہ نہیں بلکہ اُن کا مخالف الیکشن جیتا، شامل ہے۔ اُنہوں نے الیکشن کمیشن کے اپنے حق میں فیصلہ کو رد کرتے ہوے کہا کہ وہ خیرات میں اسمبلی سیٹ نہیں لینا چاہتے۔ مبینہ طور پر نجانے کتنے ہارے ہوئوں کو جتوایا گیا لیکن پورے پاکستان میں صرف حافظ نعیم صاحب ہی وہ واحد فرد ہیں جنہوں نے جھوٹ کی بنیاد پر جیت کو قبول کرنے سے انکار کر کے بہترین کردار کا مظاہرہ کیا۔ ن لیگ کے خواجہ سعد رفیق کے حوالے سے یہ بات کی جا رہی ہے کہ الیکشن کمیشن کا آر ٹی ایس (یعنی ایم ای ایس) خواجہ صاحب کو بھی مبینہ طور پر جتوانا چاہ رہا تھا لیکن اُنہوں نے ایسی جیت قبول کرنے سے نہ صرف معذرت کی بلکہ اپنے مخالف لطیف کھوسہ کو جیت پر مبارکباد بھی دی۔ 

کھوسہ صاحب نے البتہ یہ کہہ کر کہ سعد رفیق نے اُنہیں مبارکباد دینے میں بڑی دیر کر دی، اپنے بارے میں کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔ اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کی رہنما ثمر ہارون بلور صاحبہ نے الیکشن ہارنے کے بعد اپنے مخالف کی جیت پر اُن کے گھر جا کر مبارکباد دی۔ تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیر مملکت علی محمد خان نے الیکشن میں کامیابی کے بعد جو بیان دیا وہ بھی انتہائی قابل تعریف ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے دیے گئے اپنے بیان میں علی محمد خان نے اپنے مقابلے میں الیکشن لڑنے والے ایک ایک امیدوار کا احترام کے ساتھ نام لکھ کر کہا کہ الیکشن ہو گیا، ایک جمہوری عمل مکمل ہو چکا، جہاں تحریک انصاف کے لوگوں کا شکرگزار ہوں وہیں اپنے مدمقابل امیدواروں کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ سب میرے لئے قابل احترام ہیں اور میرے بھائی ہیں، یہ میری نہیں بلکہ اُن سب کی جیت ہے اور میری طرف سے علاقہ کی ترقی کیلئے ہمیشہ اُن کی طرف تعاون اور دوستی کا ہاتھ بڑھے گا۔ 

اس کے ساتھ ساتھ علی محمد خان نے مخالف سیاسی جماعتوں کے ووٹرز، سپورٹرز کو مخاطب کرتے ہوے کہا کہ وہ سب میرے لیے جھوٹے بھائیوں جیسے ہیں اور علاقہ کی ترقی میں ہمیشہ اُن کی رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھوں گا۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ دوسری سیاسی جماعتوں کے ووٹرز، سپورٹرز کسی بھی کام کیلئے مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں، میرے حجرے اور میرے دل کے دروازے سب کو ہمیشہ کھلے ملیں گے، سب مل کر علاقہ کو ترقی اور اخلاق کا گہوارا بنائیں گے۔

انصار عباسی 

بشکریہ روزنامہ جنگ

پاکستان میں مہنگائی کا سونامی آنے والا ہے

$
0
0

امریکا میں سرمایہ کاری اور مالیاتی امور کے حوالے سے مشاورتی خدمات دینے والی ایک بڑی کمپنی فرانوٹمنٹس نے خبردار کیا ہے کہ بڑھتے قرضوں کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام بڑی معیشتیں اپنی ’’مالی موت‘‘کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ کمپنی کے سربراہ نے امریکی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں پیش گوئی کی ہے کہ آنے والی ایک دہائی’’مشکل قرضہ جات کی دہائی‘‘ہو گی۔ قرض لینے کے بحران نے ترقی یافتہ اور ابھرتے ممالک کو اپنی لپٹ میں لے رکھا ہے اور اس بحران کا انجام اچھا نہیں ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران عالمی قرضہ جات میں ایک ہزار ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ ستمبر میں یہ حد 3 ہزار ارب ڈالر سے اوپر جا پہنچی ہے۔ یہ صورت حال گزشتہ چالیس برسوں میں عالمی شرح سود میں سب سے زیادہ اضافے کے موقع پر سامنے آئی۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور جاپان جیسے ملکوں میں قرضوں میں اضافے کی شرح بے قابو ہو چکی ہے اور عالمی قرضہ جات میں انھی ممالک کا قرضہ 80 فیصد سے زائد ہے۔ ابھرتی مارکیٹوں کو دیکھیں تو چین بھارت اور برازیل نے سب سے زیادہ قرضے لیے ہیں۔ کمپنی کے سربراہ آرتھر لافر کا کہنا ہے کہ خدشہ اس بات کا ہے کہ اپنے قرضوں کے مسائل حل نہ کرنے والے کچھ بڑے ممالک سست نمو کا شکار ہو کر اپنی مالیاتی موت مر جائیں گے جب کہ کچھ ابھرتی معیشتیں دیوالیہ بھی ہو سکتی ہیں۔

بری خبر یہ ہے کہ دنیا کی دو بڑی معیشتیں جاپان اور برطانیہ 2023 کے دوسرے نصف میں سرد بازاری کا شکار ہو گئی ہیں۔ دوسری طرف جاپان کی معیشت غیر متوقع طور پر گراوٹ کا شکار ہو کر اس کی GPD گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی میں 3.3 فیصد تک سکڑ گئی ہے۔ جب کہ برطانوی معیشت میں گراوٹ اس سال میں آنے والی ہے۔ جو اعداد و شمار جاپان کی کابینہ نے دیے ہیں اس کے مطابق جاپان عالمی معیشتوں میں اپنی تیسرے نمبر کی پوزیشن کھو چکا ہے۔ اب وہ دنیا کی تیسری بڑی عالمی معیشت نہیں رہا۔ گزشتہ اکتوبر میں آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی تھی کہ اب جرمنی برطانیہ کی جگہ تیسری بڑی عالمی معیشت بن جائے گا۔ برطانوی جریدے اکنامسٹ کے معاشی تجزیہ نگار نے بی بی سی کو بتایا کہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق کہ جاپانی معیشت کی قدر 4.2 ٹریلین ڈالر کے برابر ہے جب کہ اس کے مقابلے میں جرمن معیشت کی قدر 2023 میں 4.4 ٹریلین ڈالر رہی۔ آئی ایم ایف کی ڈپٹی ہیڈ گیتا گوپی ناتھ نے ایک پریس کانفرنس نے اس کی اہم وجہ یہ بتائی کہ جاپانی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں گزشتہ سال 9 فیصد تک گر گئی۔

برطانیہ کے لیے بھی برا ٹائم شروع ہونے والا ہے۔ گزشتہ سال میں اس کی GDP 0.3 فیصد رہی۔ اور گزشتہ سال ہی جولائی سے ستمبر کے درمیان اس کی معیشت 0.1 فیصد سکڑ گئی۔ جب کہ اسڑلنگ ڈالر اور یورو کے مقابلے میں کمزور رہا۔ گزشتہ ہفتے جو ڈیٹا ریلیز ہوا ہے اس کے مطابق برطانیہ اور جاپان جو گروپ آف سیون کہلاتے ہیں کو سرد بازاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کنزرویٹو پارٹی پچھلے ستر سالوں سے زیادہ تر اقتدار میں رہی ہے اب معاشی معاملات میں عوام لیبر پارٹی پر زیادہ اعتماد کر رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی عوام کا پہلی مرتبہ معیار زندگی گرا ہے۔ اب پاکستان کی طرف آجاتے ہیں۔ جب دنیا کی اتنی بڑی معیشتیں اتنے بڑے بحران میں ہیں تو اس کا اثر لامحالا پاکستان پر بھی پڑے گا۔ نئی حکومت بہت بڑے معاشی بحران کا سامنا کرنے جا رہی ہے۔ عوام پر مزید ٹیکسوں کی بھر مار ہو گی۔ عوام کی رہی سہی برداشت بھی جواب دے جائے گی۔ پرائیو ٹائزیشن سے عوام کی ایک بڑی تعداد بیروزگار ہو کر سڑکوں پر آجائے گی۔ ایسی مہنگائی ہو گی جو عوام نے نہ کبھی دیکھی سنی ہو گی۔ 

عوام اگلے دو سال کسی بھی ریلیف کو بھول جائیں۔ مسلسل بڑھتی ہوئی بجلی کی قیمتیں۔ اس دفعہ اتنے زیادہ بجلی کے بل آئیں گے کہ عوام پنکھے چلانا بھی بھول جائیں گے۔ ایرکنڈیشنر کا تو عام آدمی کو سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ مہنگی بجلی اور گیس کی وجہ سے صنعت کار فیکٹریاں بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس طرح بے روزگاری غربت مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔ سیاست دانوں کی طرف سے انتخابات میں کیے گئے وعدے سبز باغ ہی رہیں گے۔ انتخابی نتائج کے پیش نظر مستقبل میں ممکنہ سیاسی بحران کے نتیجے میں ڈیفالٹ کا خطرہ خدانخواستہ پھر منڈلا سکتا ہے۔ ایک غیر ملکی رپورٹ کے مطابق آیندہ جون تک پاکستان کو 28 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ عالمی بینک نے حکومت پاکستان پر غیر ملکی قرضہ جون 2024 تک 820 کھرب روپے تک پہنچ جانے کا تخمینہ لگایا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح بڑھ کر 41 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ اس کے مطابق پاکستان میں غربت کے شکار افراد کی تعداد 12 کروڑ 66 لاکھ ہے۔ اندازہ کریں یہ تعداد تو پاکستان کی نصف آبادی سے بھی زائد ہے۔ ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد بے روزگاری کا شکار ہیں۔ ﷲ پاکستانی عوام اور پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

زمرد نقوی  

بشکریہ ایکسپریس نیوز


بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاست میں جمہوریت؟

$
0
0

عالمی جمہوریت انڈیکس کے مطابق آمرانہ رجیم درجہ بندی میں گر کر پاکستان کا اسکور 3.25 ہو گیا ہے اور 11 درجے تنزلی ہو گئی ہے۔ پاکستان پہلے دنیا کی 165 ریاستوں میں ایک برس قبل 5.23 انڈیکس پر تھا جو اب گر کر 3.25 پر آ گیا ہے جس کے نتیجے میں یہ ہائبرڈ رجیم سے تنزلی کے بعد آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں آ گیا ہے جب کہ عالمی سطح پر ریٹنگ میں گیارہ مقام نیچے چلا گیا ہے۔ ای آئی یو نے حالیہ انتخابات پر کہا ہے کہ یہ بات حیران کن نہیں کہ بنگلہ دیش، پاکستان اور روس میں رجیم چینج یا زیادہ جمہوریت نہیں آئے گی اور پاکستان میں بھی مکمل جمہوریت نہیں آئے گی اور ناقص جمہوریت چلتی رہے گی۔ قیام پاکستان کے بعد ملک کو 1956 میں آئین ملا تھا جس کے نتیجے میں ملک کو 1958 میں جنرل ایوب خان کا جو طویل مارشل لا ملا تھا اس کے خاتمے کے بعد کہنے کو ملک کو 1973 کا متفقہ آئین ملا تھا جو بعد میں مارشل لاؤں کو نہیں روک سکا تھا جس کے بعد 1977ء اور 1999ء میں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز کے مارشل لا آئے تھے جو جنرل پرویز کی وردی اترنے کے بعد ختم ہو گئے تھے۔ 

2002ء سے 2024ء تک ملک میں چار بار قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور پہلی بار اسمبلیوں نے اپنی اپنی مدت پوری کی اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ (ق) کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) نے پانچ پانچ سال اور پی ٹی آئی حکومت نے پونے چار سال حکومت کی اور عمران خان کی اپنی حماقت کے نتیجے میں سولہ ماہ ملک میں ایک اتحادی حکومت رہی اور ملک میں کوئی مارشل لا نہیں لگا۔ انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے پر ملک میں جنرل یحییٰ نے جو الیکشن کرائے اور جیتنے والی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا تھا جس کے نتیجے میں 1971 میں ملک دولخت ہوا تھا جس کے بعد بھٹو صاحب نے 1972 میں حکومت بنائی تھی اور 1973 کا ایسا متفقہ آئین بنوایا تھا جو ملک میں جمہوریت برقرار رکھ سکے اور کسی اور جنرل کو آمریت قائم کرنے کا موقعہ نہ مل سکے مگر ایسا نہیں ہوا۔ ملک میں بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاسی حکومتیں آئیں اور ابتدا ہی میں بھٹو صاحب نے اقتدار میں آ کر اپنی آمریت قائم کی اور اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ جمہوریت کے نام پر وہ سلوک کیا جو کبھی جمہوریت میں نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں 1977 میں جنرل ضیا الحق کو مارشل لا لگانا پڑا تھا۔

جنرل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ قرار دی جانے والی حکومت میں سیاستدان شامل رہے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ سنبھالا تھا۔ جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز کو وردی میں صدر منتخب کرانے میں سیاستدانوں کا اہم کردار رہا۔ جمہوریت کے نام پر منتخب ہونے والے وزرائے اعظم نے خود کو بادشاہ سلامت بنا لیا اور جمہوریت کے نام پر ملک میں اپنی ذاتی آمریت مسلط رکھی اور ملک میں حقیقی جمہوریت کسی ایک بھی سیاسی وزیر اعظم نے قائم نہ ہونے دی۔ محمد خان جونیجو نے کچھ کوشش کی تو برطرف کر دیے گئے۔ 1988 سے 2024 تک ملک میں جتنے بھی عام انتخابات ہوئے وہ سب متنازع رہے اور سیاسی رہنما اپنے مفادات کے لیے برسر اقتدار سیاستدانوں کی ٹانگیں کھینچتے رہے اور مقتدر قوتوں کی سرپرستی سے اقتدار میں آئے اور بعد میں وہ بھی اپنے لانے والوں کو آنکھیں دکھانے لگتے تھے۔ ملک کو جو ترقی ملی اس میں بھی جنرلوں کے نام آئے مگر کسی سیاستدان کو تو تمغہ جمہوریت نہیں ملا مگر ایک جج نے اپنے پسندیدہ سیاستدان کو صادق اور امین قرار دینے کا فیصلہ ضرور دیا تھا جو ان کا کام ہی نہیں تھا۔

بھٹو سے عمران خان تک تمام وزرائے اعظم اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آئے اور پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے اقتدار میں آ کر جمہوریت کا جنازہ نکال دیا اور فخریہ طور پر اپنی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک پیج پر قرار دیتے تھے۔ انھوں نے اپنے تمام مخالف سیاستدانوں پر مقدمات بنوا کر سب کو جیل میں ڈلوایا جو بعد میں کوئی ثبوت نہ ہونے پر عدالتوں سے بری ہوئے۔ پی ٹی آئی کی نام نہاد جمہوریت پونے چار سال ملک میں بدترین آمریت کی شکل میں قائم رہی اور وزیر اعظم نے اپنی حکومت میں اپنے مخالف سیاستدان حتیٰ کہ اپوزیشن لیڈر سے ملنا گوارا نہ کیا جو کبھی آمریت میں نہ ہوا وہ عمران خان نے اپنی حکومت میں کر دکھایا مگر جب دانشوروں نے انھیں سمجھانا چاہا تو وہ نہ مانے اور اپنے آمرانہ فیصلے کرتے تھے جو ان کی جمہوریت تھی۔ جمہوریت کے نام پر اپنے اقتدار میں آمریت قائم کرنے والے سیاسی وزیر اعظم اگر واقعی حقیقی جمہوریت پر یقین رکھنے والے اور جمہوریت پر عمل کرتے تو ملک کو آج اس بدنامی کا سامنا نہ ہوتا اور آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں پاکستان مسلسل نہ گرتا اور جمہوریت بھی مستحکم ہوتی مگر جمہوریت کے لبادے میں اپنے اپنے اقتدار میں اگر سیاسی رہنما ذاتی آمریت قائم نہ کرتے اور ایک دوسرے سے انتقام نہ لیتے تو جمہوریت حقیقی شکل میں عوام کو میسر آتی۔ ملک میں آمریت کے ذمے دار صرف آمر ہی نہیں نام نہاد جمہوری وزرائے اعظم اور مفاد پرست بے اصول سیاستدان بھی ہیں۔

محمد سعید آرائیں 

بشکریہ ایکسپریس نیوز

معیشت اور جمہوریت کو بچانے کا چیلنج؟

$
0
0

پاکستان میں توقع یہی تھی کہ عام انتخابات کے انعقاد کے بعد ملکی حالات میں بہتری آجائے گی اور اس کے باعث معاشی مشکلات بڑھنے کی بجائے کم ہوتی جائیں گی، اِس طرح پاکستان میں پُرامن باشعور جمہوریت پسند رحجان معاشرے میں فروغ پائے گا، جس کے باعث صنعتی و تجارتی شعبہ کی سرگرمیاں بھی مثبت سمت پر شروع ہو پائیں گی، مگر یہاں’’ اُلٹی ہو گئیں سب تدبریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘‘ اور ملکی تاریخ میں ایک بارپھر الیکشن تنازع ہو گئے، اس بار تو کچھ ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ ہارنے والے تو شور مچاتے ہی ہیں جتنے والے بھی اندر ہی اندر سے گھبرائے اور پریشان پریشان نظر آرہے ہیں، انتخابات کے بعد یہ سب کچھ نہ ہوتا تو پاکستان اور عوام کیلئے اچھا ہوتا، اس سے اندرون ملک تو ہمارے 25 کڑور سے زائد عوام پر یشان ہیں اور انہیں روز مرہ مہنگائی اور بے روزگاری نے کئی مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے، اصل پریشانی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور اُن کے خاندانوں کو ہے ، میں ابھی آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں آٹھ دس ہفتے گزار کر آیا ہوں ، وہاں جمہوریت سے زیادہ ریاست کو عوام کو معاشی ریلیف اور Peace of Mind کی فکر ہے، وہاں ہر شخص روزگار کمانے میں مصروف ہے، وہاں ٹریفک اور روزمرہ زندگی میں مثالی ڈسپلن نظر آتا ہے، 

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آسٹریلیا ہو یا نیوزی لینڈ یا دیگر کئی ترقی یافتہ مغربی ممالک وہاں پاکستان اور پاکستانیوں کے حوالے سے کوئی اچھی رائے نہیں رکھی جاتی بلکہ اس سے پاکستان کا امیج سنورنے کی بجائے بگڑتا جا رہا ہے، یہ بات ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے جس پر قومی اداروں کو ایک سوچ کے تحت کوئی کام کرنا ہو گا، ہمارے سیاسی نظام میں بڑھتی ہوئی ناہمواری ایک قومی مسئلہ بنتا جا رہا ہے، قومی معاشی مسائل حل ہونے کی بجائے دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں اندرون ملک تو عوام کی ایک بڑھتی تعداد جمہوریت ہی سے بیزار نظر آرہی ہے، جبکہ عالمی مالیاتی ادارے بھی پاکستان کے معاشی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں، اب وہ بھی پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کو قومی وسائل کا ضیاع سمجھ رہے ہیں، اس سارے پس منظر میں پاکستان کے جمہوری نظام کو برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کے حوالے سے کئی خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے جو ایک مثبت سوچ نہیں ہے اس سوچ کو دور کرنے کیلئے ہمارے سیاسی قائدین کو مل بیٹھ کر سیاسی کشیدگی اور مختلف اداروں پر نام لئے بغیر عدم اعتماد کے اظہار کے رحجان کو دور کرنا ہو گا، 

دنیا بھر میں جمہوری نظام میں کئی جماعتیں ہوتی ہیں لیکن وہاں کی جمہوری سیاسی جماعتیں خود اپنے آپ کو ٹھیک کرنے پر فوکس کرتی ہیں، اگر دنیا بھر میں ایسا ہو سکتا ہے تو پھر پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا، اس وقت خدشہ یہ ہے کہ اگر وفاق اور صوبوں میں کوئی مستحکم حکومت نہ ہوئی تو سیاسی عدم استحکام بڑھے گا اور پاکستان کے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ نئے قرضوں کے حصول اور پرانے قرضوں کی ری شیڈولنگ کے پلان متاثر ہو سکتے ہیں اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے ریاست اور عوام سب سے زیادہ متاثر ہوں گے اور پھر سرکاری اداروں کے دعوئوں کے برعکس خوفناک قسم کی مہنگائی کا سیلاب آئے گا، جس سے سب سے زیادہ جمہوریت متاثر ہو گی، اس لئے پاکستان کو بچانا ہے تو جمہوریت کو بچانا پڑے گا، چاہے اس کیلئے شراکت اقتدار کا فارمولا ہو یا مشاورت کا سلسلہ ہو، سب چیزوں پر اتفاق رائے ضروری ہے، اس سلسلے میں قومی سطح پر قومی اداروں اور سیاسی قائدین کو مل بیٹھ کر ایک متوازن اصلاحاتی نظام وضع کرنا ہو گا اس سے پاکستان میں زوال پذیر حالات شاید بہتری کی طرف چلے جائیں، اس وقت ہم سب کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے کہ پاکستان کو ناکام ریاست بننے سے کیسے بچایا جائے۔ 

پاکستان الحمد للہ قدرتی وسائل سے مالا مال مثالی ملک ہے اس کے پاس 60 فیصد سے زائد یوتھ ہے، یہ اثاثہ ترقی یافتہ ممالک کے پاس بھی نہیں ہے، لیکن وہاں اس کے باوجود قومی ترقی کو ذاتی مفادات اور کاروبار پر ترجیح دی جاتی ہے کاش یہ سب کچھ پاکستان میں بھی ہو جائے، اور قومی وسائل قوم پر ہی استعمال کرنے کے قوانین اور نظام بن جائے، پھر عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں ہو گی کہ جمہوریت ہے یا نہیں، عوام کو روٹی ، سیکورٹی اور ذہنی سکون چاہئے اور یہ سب کچھ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے اور ریاست کو یہ سمجھنا ہو گا۔

سکندر حمید لودھی

بشکریہ روزنامہ جنگ


پاکستانی دوسری بار کیوں ہجرت کر رہے ہیں ؟

$
0
0

اس برس کے پہلے دو ماہ میں پی آئی اے کے تین فضائی میزبان کینیڈا پہنچ کے غائب ہو گئے۔ ان میں سے دو پچھلے ہفتے ہی ’سلپ‘ ہوئے ہیں جبکہ گذشتہ برس پی آئی اے کے سات فضائی میزبان پاکستان سے ٹورنٹو کی پرواز پر گئے مگر واپس نہیں لوٹے۔ یہ سلسلہ 2018 کے بعد سے بالخصوص بڑھ گیا ہے۔ پی آئی اے کے اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ جب سے اس ادارے کی نج کاری کا فیصلہ ہوا ہے ہر کوئی مسلسل بے یقینی کے سبب اپنے معاشی مستقبل سے پریشان ہے۔ اگر بس میں ہو تو آدھے ملازم ملک چھوڑ دیں۔ تین ماہ پہلے گیلپ پاکستان کے ایک سروے میں یہ رجہان سامنے آیا کہ 94 فیصد پاکستانی ملک سے جانا چاہتے ہیں۔ 56 فیصد معاشی تنگی کے سبب، 24 فیصد امن و امان اور جان و مال کے خوف سے اور 14 فیصد مستقبل سے مایوس ہو کے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اگر گیلپ سروے کے نتائج کی صحت پر آپ میں سے بہت سوں کو یقین نہ آئے تو آپ خود اپنے اردگرد متوسط اور نیم متوسط خاندانوں کو کرید کر دیکھ لیں۔ ان میں سے کتنے ہر حال میں یہاں رہنا چاہتے یا پھر چاہتے ہیں کہ کم ازکم ان کے بچے کہیں اور اپنا مستقبل ڈھونڈیں ؟

کیا ستم ظریفی ہے کہ 76 برس پہلے جس پیڑھی نے ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی آس میں گھر بار چھوڑا یا نہیں بھی چھوڑا۔ آج اسی پیڑھی کی تیسری اور چوتھی نسل بھی ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ جو لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں، اقتصادی و روزگاری بحران یا امن و امان کی ابتری کے باوجود بیرونِ ملک نہیں جا سکتے وہ اندرونِ ملک بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں یا کم ازکم اس بارے میں سوچتے ضرور ہیں۔ سٹیٹ بینک کے اپنے آنکڑوں کے مطابق 2018 تک ترقی کی شرحِ نمو ڈیڑھ فیصد سالانہ تک رہے گی جبکہ آبادی بڑھنے کی رفتار لگ بھگ دو فیصد سالانہ ہے۔ گویا معاشی ترقی کی شرح آبادی بڑھنے کی شرح یعنی دو فیصد کے برابر بھی ہو جائے تب بھی معیشت کی بڑھوتری کی شرح صفر رہے گی۔ اس تناظر میں مجھ جیسوں کو ایسی خبریں سن سن کے کوئی حیرت نہیں کہ اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو کے مطابق پچھلے پانچ برس میں لگ بھگ 28 لاکھ پاکستانی قانونی ذرائع سے بیرونِ ملک چلے گئے۔

اس تعداد میں وہ لوگ شامل نہیں جو اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو میں رجسٹر ہوئے بغیر ملازمتی یا تعلیمی مقصد کے لیے براہِ راست بیرون ملک چلے گئے اور وہ لاکھوں بھی شامل نہیں جو جان جوکھوں میں ڈال کر غیر قانونی راستوں سے جا رہے ہیں۔ اگر ان سب کو بھی ملا لیا جائے تو پچھلے پانچ برس میں چالیس سے پچاس لاکھ کے درمیان پاکستانیوں نے ملک چھوڑا۔ نقل مکانی کرنے والے صرف متوسط، نیم متوسط یا غریب طبقات ہی نہیں۔ فیصلہ ساز اشرافیہ کو بھی اس ملک کے روشن مستقبل پر یقین نہیں ہے۔ چند برس پہلے عدالتِ عظمی نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ہدایت کی کہ ان بیوروکریٹس کی فہرست مرتب کی جائے جن کی دوہری شہریت ہے۔ اس کے بعد کوئی خبر نہ آئی کہ اس ہدایت پر کتنا عمل ہوا۔ البتہ اسلام آباد میں یہ تاثر ہر طبقے میں پایا جاتا ہے کہ بہت کم سیاستدان، حساس و نیم حساس و غیر حساس اداروں کے افسر، جرنیل، جج اور سہولت کار ہیں جن کی دوہری شہریت نہ ہو یا بیرونِ ملک رہائش کا بندوبست، سرمایہ کاری یا بینک اکاؤنٹ نہ ہو یا کم ازکم ان کے اہلِ خانہ بیرونِ ملک مقیم نہ ہوں۔

کئی ’ریٹائرینِ کرام‘ کی تو پنشنیں بھی ڈالرز میں ادا ہوتی ہیں حالانکہ ان کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے اور بہتوں کے پاس تو جتنا اللہ نے دیا اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ اور کروڑوں سے وہ بھی چھن رہا ہے جو اوپر والے نے انھیں دیا ہو گا۔ اور پھر یہی بندوبستی اشرافیہ عوام کو سادگی، اسلامی و مشرقی اقدار، نظریہِ پاکستان، ایمان، اتحاد، یقینِ محکم، قربانی اور اچھے دن آنے والے ہیں کا منجن بھی بیچتی ہے اور ان کا مستقبل بھی بار بار بیچتی ہے۔ میرے ہمسائے ماسٹر برکت علی کے بقول ’انگریز میں کم ازکم اتنی غیرت ضرور تھی کہ ایک بار لوٹ مار کر کے واپس جو گیا تو پھر اپنی شکل نہیں دکھائی‘ ۔ ایسے میں اگر محکوم اپنی زمین چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں تو انھیں کیوں الزام دیں۔ ویسے بھی ان کے پاؤں تلے زمین کھسک ہی رہی ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک جو کروڑوں نارسا ہاتھ کسی امیدِ موہوم کے آسرے پر ووٹ دیتے تھے، اب ان کے پاؤں ووٹ دے رہے ہیں۔

سفر درپیش ہے اک بے مسافت
مسافت ہو تو کوئی فاصلہ نہیں ( جون ایلیا )

صرف گذشتہ برس آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار پاکستانیوں نے بیرونِ ملک نقل مکانی کی۔ یہ تعداد 2015 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ ان میں آٹھ ہزار آٹھ سو انجینیرز، مالیاتی شعبوں سے وابستہ سات ہزار چار سو افراد ، ساڑھے تین ہزار ڈاکٹر اور لگ بھگ ڈیڑھ ہزار اساتذہ، تین لاکھ پندرہ ہزار دیگر ہنرمند، چھیاسی ہزار نیم ہنرمند اور چار لاکھ سے کچھ کم غیر ہنرمند مزدور شامل ہیں۔

 وسعت اللہ خان

بشکریہ بی بی سی اردو

کیا اسلام آباد میں ایک دیوانے کی گنجائش بھی نہیں؟

$
0
0

نگران حکومت کے سنہرے دور کے آغاز میں ہی ایک وزیر نے سب کو خبردار کیا تھا کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اس لیے یہاں پر اداروں کو بدنام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ میرا خیال تھا نگران شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے چلے ہیں۔ جتنا بڑا آپ کے پاس ہتھیار ہوتا ہے، خوف اتنا ہی کم ہونا چاہیے۔ جب سے ہم نے بم بنایا ہے ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ اب دشمن ہمیں کبھی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ امریکہ سے انڈیا تک جتنی آوارہ طاقتیں ہیں، جہاں چاہے گھس جاتی ہیں وہ پاکستان کی سرحدوں کے اند آتے ہوئے سو دفعہ سوچیں گے۔ دفاعی تجزیہ نگار بھی یہی بتاتے تھے کہ یہ والا بم چلانے کے لیے نہیں، دشمن کو دھمکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جب نگران وزیر صاحب نے اس بم سے اپنے ہی عوام کو دھمکانا شروع کیا تو لگا کے شاید پاکستان ایک اور طرح کی دفاعی ریاست بننے جا رہی ہے۔ کل اسلام آباد میں زیرِ حراست صحافی اور یوٹیوبر اسد طور کی 78 سالہ والدہ کا ایک مختصر سا ویڈیو دیکھا جب وہ اپنے بیٹے سے مل کر آئی تھیں۔ وہ کھانا لے کر گئیں تھیں طور نے نہیں کھایا، وہ اصرار کرتی رہیں۔ طور بھوک ہڑتال پر تھا اس لیے غالباً والدہ کو ٹالنے کے لیے کہا بعد میں کھا لوں گا۔

ان کی والدہ نے ایف آئی اے کو، عدالتوں کو یا کسی اور ادارے سے کوئی شکوہ نہیں کیا صرف یہ دعا کی کہ اللہ میرے بیٹے کو ہدایت دے۔ اسلام آباد کو ہمیشہ دور سے حسرت کی نظر سے دیکھا ہے۔ کبھی جانے کا اتفاق ہوا تو ایک ہی شام میں دس سیانوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ کسی کے پاس اندر کی خبر، کسی کے پاس اندر سے بھی اندر کی اور پھر وہ جو اندر کی خبر باہر لانے والوں کے نام اور حسب نسب بھی بتا دیتے ہیں۔ اسد طور سے نہ کبھی ملاقات ہوئی نہ کبھی سیانا لگا۔ کبھی کبھی اس کے یوٹیوب چینل پر بٹن دبا دیتا تھا۔ منحنی سا، جذباتی سا، گلی کی نکڑ پر کھڑا لڑکا جو ہاتھ ہلا ہلا کر کبھی ٹھنڈی کبھی تلخ زبان میں باتیں کرنے والا۔ گذشتہ ماہ اسلام آباد میں بلوچستان سے اپنے اغوا شدہ پیاروں کا حساب مانگنے آئی ہوئی بچیوں اور بزرگوں نے کیمپ لگایا اور اسلام آباد کے زیادہ تر سیانے اپنے آتش دانوں کے سامنے الیکشن کے نتائج پر شرطیں لگا رہے تھے تو وہ کیمرا لے کر احتجاجی کیمپوں سے ان کی آواز ہم تک پہنچاتا رہا۔

میں نے سوچا کہ یہ کیسا یوٹیوبر ہے جسے یہ بھی نہیں پتا کہ بلوچ کہانیاں سنا کر کبھی بھی کوئی یوٹیوب سٹار نہیں بنا۔ اس سے پہلے سنا ہے کہ جب سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس پر بُرا وقت آیا تھا تو ان کی عزت کا محافظ بنا ہوا تھا۔ عدلیہ کی سیاست کی کبھی سمجھ نہیں آئی لیکن میں یہی سمجھا کہ سیانوں کے اس شہر اسلام آباد میں شاید ہمیشہ ایک دیوانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری تاریخ اور ثقافتی روایت بھی ہے۔ بادشاہ بھی اپنے دربار میں مسخرہ رکھتے تھے، گاؤں کا چوہدری بھی میراثی کو برداشت کرتا ہے۔ گاؤں میں ایک ملنگ نہ ہو تو گاؤں مکمل نہیں ہوتا۔ اسد طور بھی مجھے کیمرے والا ملنگ ہی لگا جس کے بغیر اسلام آباد کا گاؤں مکمل نہیں ہوتا۔ اس گاؤں میں ابھی تک یہ طے نہیں ہے کہ طور پر زیادہ غصہ عدلیہ عظمیٰ کو ہے یا ان کو جن کے لیے اسلام آباد کے صحافی کندھوں پر انگلیاں رکھ کر بتاتے تھے، پھر کسی نے بتایا کہ یہ کوڈ ورڈ پاکستان کے عسکری اداروں کے لیے ہے۔ اسلام آباد کے ایک بھیدی نے بتایا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ کس ادارے کی زیادہ بےعزتی ہوئی ہے لیکن یہ کہ اسد طور تھوڑا سا بدتمیز ہے، کسی کی عزت نہیں کرتا۔

مجھے اب بھی امید ہے کہ اسلام آباد میں کوئی سیانا کسی بڑے سیانے کو سمجھا دے گا کہ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں اور ہم نے دشمن چنا ہے اتنا دبلا پتلا طور۔ اچھا نہیں لگتا۔ ہمارے نگران وزیراعظم ہمیں ایک دفعہ یہ بھی بتا چکے ہیں کہ دہشت گردوں کی بھی مائیں ہوتی ہیں۔ اسد طور کی والدہ کیمرے پر دعا مانگ چکی ہیں کہ اللہ ان کے بیٹے کو ہدایت دے۔ دونوں ادارے جن کے ساتھ اسد طور نے بدتمیزی کی ہے، ان کے سربراہ ہمیں کبھی کبھی دین کا درس دیتے ہیں۔ دعا ہر دین کا بنیادی عنصر ہے۔ اگر وہ انصاف نہیں دے سکتے تو طور کی والدہ کی دعا کے ساتھ دعا کریں کہ اللہ ہمارے بیٹے کو ہدایت دے اور اس کے ساتھ اپنے لیے بھی اللہ سے ہدایت مانگ لیں۔

محمد حنیف

بشکریہ بی بی سی اردو

اینڈرائیڈ فون کے سسٹم کی رفتار کو کیسے بڑھایا جا سکتا ہے؟

$
0
0

سمارٹ فون استعمال کرنے والے بیش تر افراد کو یہ شکایت رہتی ہے کہ ان کا اینڈرائیڈ سسٹم چلتے چلتے سست پڑ جاتا ہے جس کی وجہ سے انہیں کافی دشواری کا سامنا رہتا ہے۔ مجلہ ’سیدتی‘ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق اینڈرائیڈ سسٹم کے سست پڑنے کی متعدد وجوہات ہوتی ہیں جن میں سب سے کامن وجہ سٹوریج کا بھر جانا ہوتا ہے جس کے باعث سسٹم کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے ماہرین کے مطابق سمارٹ فون کی رفتار کو بڑھانے کے متعدد طریقے ہیں جن میں فون کو ’ری سٹارٹ‘ کرنا سب سے پہلا طریقہ ہے۔ ایسا کرنے سے فون کی میموری بھی دوبارہ مرتب ہو جاتی ہے اور اضافی جگہ بھی مل جاتی ہے جس سے فون کی رفتار میں قدرے بہتر آ جاتی ہے۔ ایسا کرنے سے یعنی فون کو ری سٹارٹ کرنے کے باوجود بھی حالت میں بہتری نہ آنے کی صورت میں کچھ اور طریقوں پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ 
۔ ممکن ہے کہ فون کی میموری بھر چکی ہو۔ اس میں کمی کریں۔
۔ اینڈرائیڈ سسٹم کو اَپ ڈیٹ کیا جائے۔
۔ فون میں انسٹالڈ متعدد ایپلی کیشنز جو بیک گراؤنڈ میں ایکٹیو رہتی ہیں، وہ بھی فون کی رفتار کو متاثر کر سکتی ہیں۔
۔ جدید ایپلی کیشنز جو کہ مخصوص فونز کے لیے ہوتی ہیں، اگر انہیں پرانے ورژن کے فون میں انسٹال کیا جائے تو اس سے پرانے فون کی رفتار پر فرق پڑ سکتا ہے۔

اینڈرائیڈ فون کو فاسٹ کرنے کے بعض طریقے
سکرین کو صاف کرنا
بعض اوقات سمارٹ فون کی سکرین بھی رفتار کو کم کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔
متعدد ونڈوز سکرین پر ایکیٹو ہوتی ہیں جیسے ای میلز ، موسم کے حالات یا کیلنڈر وغیرہ، اس صورت میں بھی فون کی رفتار کم ہو سکتی ہے۔ جب بھی آپ اپنے فون کو استعمال کرنے کے لیے ایکٹیو کرتے ہیں تو اس صورت میں آپ کا فون ان تمام ایپلی کیشنز کو ایکٹیو کرتا ہے۔ اگر ان ایپلی کیشنز کی تعداد کو کم کر دیا جائے تو فون کی رفتار بھی قدرے بہتر ہو سکتی ہے۔

ایپلی کیشنز کی صفائی
وقت کے ساتھ ساتھ آپ کے فون پر ایپلی کیشنز کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات آپ ضروری سمجھ کر کسی ایپلی کیشن کو انسٹال کر لیتے ہیں مگر وہ آپ کے استعمال میں نہیں آتی مگر فون کی میموری میں جگہ بنا لیتی ہے جس سے فون کے سٹوریج بھر جاتی ہے۔  ’فیس بک‘ ایپلی کیشن آپ کے فون کی زیادہ سپیس استعمال کرتی ہے۔ اس کی جگہ اگر آپ ’فیس بک لائٹ‘ استعمال کریں تو یہ زیادہ مناسب ہو گی جو فون کے وسائل کو بھی زیادہ استعمال نہیں کرتی۔ اسی طرح ’ایکس ایپ‘ سابق ٹوئٹر یا اوبر اور یوٹیوب کے بھی لائٹ ورژن موجود ہیں تاہم یہ ورژن تمام ممالک کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔ اس کے لیے آپ کو چاہیے کہ ’اینڈرائیڈ گو‘ سسٹم کو استعمال کریں۔

محفوظ ڈیٹا کی صفائی
اس مرحلے میں آپ کو چاہیے کہ اپنے فون کی رفتار کو بہتر بنانے کے لیے غیرضروری سٹور کیے ہوئے ڈیٹا کو فون سے نکالیں کیونکہ اضافی و غیرضروری ڈیٹا آپ کے فون کی رفتار کو کم کرنے کا باعث ہوتا ہے۔ اس عمل کو بہتر طور پر کرنے کے لیے آپ کو گوگل سے ’فائلز‘ ایپ کو انسٹال کرنا ہو گا جو خودکار طریقے سے آپ کے فون کی سٹوریج کا جائزہ لینے کے بعد تمام غیرضروری یا ڈبل سٹور ہونے والی فائلز جو آپ کے استعمال میں نہیں، کو ڈیلیٹ کر دے گی۔ اگر آپ کے فون کی سٹوریج کیپسٹی 16 گیگا بائٹس ہو تو اس ایپ کے ذریعے اضافی ڈیٹا کو اپنے فون سے نکالنے میں معاون ثابت ہو گی۔ اس کے علاوہ آپ اپنے فون کو اضافی لوڈ سے محفوظ رکھنے کے لیے ’گوگل ڈرائیو‘ یا ’کلاؤڈ‘ کا بھی استعمال کر سکتے ہیں تاکہ فون کی سٹوریج پر دباؤ میں کمی کی جا سکے۔

بیک گراؤنڈ کے عمل کو محدود کرنا
فون کے بیک گراؤنڈ میں استعمال ہونے والی ایپس کسی بھی ڈیوائس کے لیے مفید نہیں ہوتیں، ان سے کارکردگی بہترین نہیں ہو سکتی۔

جی پی یو کی کارکردگی
فون کی رفتار کو بہتر رکھنے کےلیے اپنے سیٹ کے سافٹ ویئر پر انحصار کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ ’جی پی یو‘ سسٹم کی کارکردگی کو فعال کریں۔ اس سے سیٹ کی کارکردگی بہتر ہو گی۔

نقصان دہ پروگرامز سے بچیں
سمارٹ فونز کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ وہ پروگرامز ہوتے ہیں جو فون کی میموری کے لیے نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ یہ پروگرامز بعض ایپلی کیشنز کے ساتھ ضمنی طور پر انسٹال ہو جاتے ہیں، اس لیے انہیں فون سے نکالنا ضروری ہوتا ہے۔
آخر میں اس بات کو یاد رکھیں کہ فون کو وائرس سے محفوظ رکھنے اور اس کی رفتار کو بہتر رکھنے کےلیے ضروری ہے کہ آپ اچھی قسم کا اینٹی وائرس اپنے فون میں انسٹال کریں اور اس کے ذریعے اپنے فون کو ان نقصان دہ پروگراموں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

بشکریہ اردو نیوز