Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

فیصل مسجد اسلامی روایات کی نشانی

$
0
0

شاہ فیصل مسجد کی تعمیر کی تحریک سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے 1966 کے اپنے دورہ اسلام آباد میں دی۔ 1969 میں ایک بین الاقوامی مقابلہ منعقد کرایا گیا جس میں 17 ممالک کے 43 ماہر فن تعمیر نے اپنے نمونے پیش کیے۔ چار روزہ مباحثہ کے بعد ترکی کے ویدت دالوکے کا پیش کردہ نمونہ منتخب کیا گیا۔ پہلے پہل نمونے کو روایتی مسجدی محرابوں اور گنبدوں سے مختلف ہونے کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں مسجد کی خوبصورت تعمیر نے تمام نقادوں کی زبان گنگ کر دی۔

سعودی حکومت کی مدد سے دس لاکھ سعودی ریال (کم و بیش ایک کروڑ بیس لاکھ امریکی ڈالر) کی لاگت سے 1976 میں مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ تعمیری اخراجات میں بڑا حصہ دینے پر مسجد اور کراچی کی اہم ترین شاہراہ 1975ء میں شاہ فیصل کی وفات کے بعد ان کے نام سے موسوم کردی گئی۔ تعمیراتی کام 1986ء میں مکمل ہوا اور احاطہ میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی بنائی گئی۔ 











مرتے دم تک پاکستان آتا رہوں گا : مارلن سیموئلز

$
0
0

ویسٹ انڈیز کے کرکٹر مارلن سیموئلز نے پاکستانی فوج میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ وہ مرتے دم تک پاکستان آتے رہیں گے۔
36 سالہ سیموئلز پاکستان سپر لیگ یعنی پی ایس ایل کا فائنل کھیلنے کے لیے لاہور آئے تھے جہاں انھوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا۔ واضح رہے کہ سیموئلز پی ایس ایل میں پشاور زلمی کی نمائندگی کر رہے تھے اور لاہور ہونے والے فائنل میں اسی ٹیم نے پی ایس ایل کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔ اس کے مالک جاوید آفریدی نے ٹوئیٹر پر ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں جمیکا کے اس کھلاڑی نے پاکستانی فوج کے سیکورٹی انتظامات کی تعریف کی۔ پشاور زلمی کے پی ایس ایل جیتنے کے بعد پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فاتح ٹیم سے ملاقات کی تھی۔
ڈیڑھ منٹ سے زیادہ کے اس ویڈیو میں سیموئلز نے کہا کہ ان کے لیے پاکستان میں آ کر کرکٹ کھیلنا یہاں کا محض دورہ کرنے سے زیادہ تھا۔ یہاں کھیلنے سے ان اداس چہروں پر خوشی لوٹ آئی ہے، جو طویل عرصے سے یہاں کرکٹ نہیں دیکھ پا رہے تھے۔ سیموئلز نے کہا: 'میں دل سے پاکستانی ہوں اور یہی وجہ ہے کہ مجھے پاکستان آنے کے بارے میں فیصلہ کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی۔‘ پاکستانی فوج کے سربراہ کو براہ راست خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’جنرل میں آپ کو سليوٹ کرتا ہوں۔ میں اپنے کندھوں پر پاکستانی فوج کا مٹیلک بیج لگنے کا انتظار کر رہا ہوں۔ میں بھی پاکستانی فوج کا حصہ بننا چاہتا ہوں۔ میں مرتے دم تک اس ملک میں آتا رہوں گا۔‘

خیال رہے کہ پاکستان میں ایک عرصے کے بعد کرکٹ کے بین الاقوامی کھلاڑیوں کی آمد شروع ہوئی ہے۔ 2009 میں سری لنکا کی ٹیم پر ہونے والے حملے کے بعد پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ ختم ہو گئی۔

سیت پور

$
0
0

تحصیل علی پور کا تاریخی قصبہ سیت پور کا شمار قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے اس کا ذکر ہندوئوں کی مذہبی کتاب ’’رگ وید‘‘ میں ملتا ہے جس کے مطابق آریائی قوم جن دیوتائوں کو پوجتے تھے انہی کے ناموں سے شہروں کو منسوب کر دیا جاتا تھا۔ تین سو قبل مسیح راجہ سنگھ کے نام سے دیو گڑھ اور اس کی دو بہنوں سیتارانی کے نام سے سیت پور اور اوچارانی کے نام سے اُچ شریف جیسے شہر آباد کئے گئے۔ سیت پور‘ علی پور سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے تاریخی قصبہ سیت پور زرخیزی کے حوالے سے بڑی اہمیت رکھتا ہے سکندر اعظم جب ایران کے آخری کیان بادشاہ داراسوم کو شکست دے کر پنجاب میں راجہ پورس کو شکست دیتے ہوئے ملتان پہنچا تو ملتان میں ملہی قوم کے ہاتھوں زخمی ہوا اور پھر سیت پور سے ہوتا ہوا بلوچستان کے راستے اپنے وطن لوٹ گیا۔ 

مرقع ڈیرہ غازی خان اور بندوبست 1872ء محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق اسلام خان نے دریائے سندھ کے دائیں کنارے لودھی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ ڈسٹرکٹ گزٹیئر مظفر گڑھ کی روشنی میں لودھی حکومت کا صدر مقام سیت پور تھا یہ حکومت راجن پور‘ شکار پور‘ علی پور اور کوہ سلیمان کے علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی روایت ہے کہ یہاں کا ایک حکمران بہت ظلم کرتا تھا۔ متاثرہ عوام نے انہیں ’’تابڑ‘‘ کا نام دیا جس کی وجہ سے حکمران ’’تابڑ خاندان‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئے۔ ڈسٹرکٹ گزٹیئر بہاولپور میں لکھا ہے کہ بہلول لودھی کے چچا اسلام خان لودھی نے جب ریاست کی بنیاد ڈالی تو اس کا صدر مقام سیت پور کو بنایا گیا اس بات کی تصدیق تذکرہ روسائے پنجاب سے بھی ہوتی ہے کہ ملتان کے گورنر بہلول لودھی نے اپنے دور میں اپنے چچا اسلام خان کو مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان کے جنوبی اور سندھ کے شمالی حصے کا ناظم مقرر کیا۔
اسلام خان ثانی اور جلال خان اسلام خان کے دو بیٹے تھے۔ اسلام خان ثانی سیت پور کی سلطنت کا اور جلال خان نے دکن میں حکمرانی کے مزے لوٹے یوں یہ سلسلہ اسلام خان دوم اکرام خان اور اس کے دو بیٹوں سلطان محمد خان اور شاہ عالم خاں کا چلتا رہا۔ سلطان محمد خان کی حکمرانی اور اصولوں کے ڈنکے طول و عرض میں بجتے تھے پھر اس کے بیٹے طاہر محمد خان نے حکمرانی سنبھالی۔ روایت ہے کہ سخی حکمران ہونے کی وجہ سے یہ ظاہر محمد خان سخی کہلانے لگا۔ اس نے کثیر سرمائے سے اپنے باپ کا مقبرہ اور شاہی مسجد بھی تعمیر کرائی جو اب تک قائم ہے۔ مقبرہ میں طاہر خان سخی اپنے والد سلطان محمد خان کے پہلو میں ابدی نیند سو رہا ہے لیکن اس کے تعمیر کردہ مزار نے اسے اب تک زندہ رکھا ہوا ہے ہشت پہلو مقبرہ اسلامی طرز تعمیر کا خوبصورت شاہکار اس پر ملتانی ٹائل اور نقاشی کا عمدہ کام کیا گیا ہے۔

کھجور کی لکڑی کا مرکزی دروازہ مضبوطی میں اپنی مثال آپ ہے۔ آپ محرابوں کے راستوں نے اسے ہوادار اور روشن بنا رکھا ہے۔ اس سے ملحقہ سیت پور کی سب سے بڑی جامع مسجد ہے۔ یہاں بھی ملتانی نقاشی کے عمدہ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں جب طاہر خان ثانی کا دور حکومت شروع ہوا تو یہاں کثیر تعداد میں مخادیم آباد تھے جوتاہڑ حکومت کی طرف سے مختلف علاقوں میں ناظم مقرر تھے۔ لالہ ہنورام کی کتاب ’’گل بہار‘‘ کے مطابق تاہڑ خاندان کی حکومت اس وقت کمزور ہو گئی جب نادہ شاہ کے دور میں شیخ محمد راجو اول نے اپنی سلطنت کا اعلان کر دیا۔ بہاولپور گزٹیر میں لکھا ہے کہ شیخ محمد راجو نے نادر شاہ سے سیت پور سلطنت کا پروانہ اپنے نام لکھوا لیا اور یوں تاہڑ خاندان کی حکومت ختم ہو کر رہ گئی۔ 

1781ء میں تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا اور نواب بہاول خان ثانی نے شیخ راجو ثانی کے دور میں جتوئی پر قبضہ کر لیا 1790ء میں جب دریائے سندھ کا رخ سیت پور کے مغرب میں ہوا تو نواب آف بہاولپور کے لیے مزید آسانیاں پیدا ہو گئیں۔ یوں نواب آف بہاولپور نے علی پور شہر سلطان خیرپور سادات کے علاقے سیت پور سے ریاست بہاولپور میں شامل کر دیئے۔ 1816ء میں رنجیت سنگھ نے اس علاقے کی بچی کھچی ریاست کو اپنے قبضے میں لیا یوں مخادیم کی حکمرانی بھی ختم ہو گئی اور سیت پور ایک معمولی علاقے تک محدود ہو کر رہ گیا۔

شیخ نوید اسلم
(پاکستان کے آثار قدیمہ سے انتخاب)
 

کوئٹہ کی تہذیب

$
0
0

کوئٹہ کی تہذیب صرف پانچ نواحی ٹیلوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ وسعت 120 میل جنوب کی طرف پھیلا ہوا ہے ، بعض مورخین کا خیال ہے کہ یہ تہذیب کوئٹہ سے لے کر ٹوگائو محلات سراب، سیاہ ومب سراب اور انجیرہ تک پھیلی ہوئی ہے لیکن مادام بیڑی دی کارڈی، مسٹر فیر سروس اور دیگر ملکی و غیر ملکی ماہرین کی تحقیقات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ کوئٹہ کی تہذیب کا دائرہ اثراور اس کی حدود بلوچستان میں وسیع تر ہے۔ مادام ڈی کارڈی نے انجیرہ اور دوسرا مقام سیاہ ومب سراب پر کھدائی کی تھی۔ جن سیاہ ومب نامی ٹیلوں پر کھدائی کی گئی ہے ان میں سے تین ٹیلوں کے آثار کے متعلق اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ وہ 6 ہزار سال پرانے ہیں۔ یہاں کے لوگ مکانات مٹی گارے سے بناتے تھے اور یہاں سے مٹی اور سنگ جراحت کے کچھ برتن ملے ہیں۔ 

کوئٹہ کے ظروف کا رنگ عام طور پر بادامی ہے جن پر سرخی مائل بھورے رنگ (قدرے سیاہ) کے نقش و نگار ہیں۔ برتنوں پر آدمی جانور یا درختوں کی تصاویر کی بجائے ہندسی اشکال ہیں برتن بھانڈوں میں عام طور پر ہانڈیاں ، کاسے اور طشتریاں شامل ہیں، بعض برتن منہ اور پیندے دونوں طرف سے مخروطی ہیں۔ کوئٹہ کے ظروف کے مشابہہ و متماثل ظروف ایران ،عراق اور روسی ترکستان میں بھی ملے ہیں جن سے اس تہذیب کے دائرہ اثر اور تمدنی یک جہتی کا پتہ چلتا ہے۔ پاکستان کے حجری دور کے آثار و با قیادت وادی کوئٹہ میں کلی گل محمد کے مقام پر سب سے پہلے ماہر آثار قدیمہ فیر سروس نے 1956ء میں دریافت کیے تھے اور اس حجری دور کے آثار 1980ء اور 1982ء میں مسٹر جیرج اور میڈونے کچھی کے میدان میں مہر گڑھ اور بنو بسین میں شیرے خان اور تاراکئی میں دریافت کیے۔
یہ مقامات 6 ہزار سال قبل مسیح یا 5 ہزارسال قبل مسیح میں آباد ہوئے اور باہمی طور پر مربوط رہے۔ ان کے تمدنی اور تجارتی روابط بلوچستان کے دوسرے مقامات کے علاوہ وادی سندھ اور جنوبی افغانستان کیساتھ بھی استوار رہے، بعض ماہرین کا خیال ہے کہ سوات اور وادی ٹیکسلا کے بعض آثار کا تعلق بھی اسی نئے حجری دور سے ہے۔ متاخر حجری دور یا نئے حجری دور کے اہم ترین آثار و باقیات وادی کوئٹہ میں کلی گل محمد میں دریافت ہوئے ہیں۔ کلی گل محمد ایک قدیم ڈھیری ہے۔ بعض محققین کے نزدیک اس کا زمانہ پانچ ہزارسال قبل مسیح سے لیکر چار ہزار سال قبل مسیح تک ہے لیکن ریڈیو کارین ٹیسٹ کے ذریعے کلی گل محمد کلچر کے آغاز کی تاریخ تقریباً 6 ہزار سال قبل مسیح کا آخری دور متعین ہوئی ہے۔

کلی گل محمد I یعنی پہلے دور کے لوگ برتن استعمال نہیں کرتے تھے یہ تھوبے کی بنی دیواروں پرگھاس پھوس یا چٹامی کی جھونپڑیاں بنا کر زندگی بسر کرتے تھے، زیادہ تر لوگ زراعت پیشہ تھے، بھیڑ بکریاں اور گائے پالتے تھے۔ کلی گل محمد II یعنی دوسرے دور کے لوگ برتن ہاتھوں سے بناتے تھے اور کچی اینٹوں کے مکانات میں رہائش پذیر تھے۔ کل گل محمد III یعنی تیسرے دور کے لوگ برتن ہاتھوں کے بجائے چاک پر بنانا جانتے تھے، وہ برتنوں پر سرخ رنگ کرنے کے بعد اس کے اوپر کالے رنگ سے نقاشی کرتے تھے، اس قسم کے ظروف غالباً جنوبی افغانستان میں منڈی گاک کے پہلے دور میں بھی برآمد ہوئے ہیں۔ ایسے ظروف چونکہ کلی گل محمد میں سب سے پہلے دریافت ہوئے ہیں اس لیے ان کا نام’’کلی گل محمد‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس دور (III) میں لوگ خانہ بدوشی کی بجائے مستقل طور پر رہائش پذیر ہونا زیادہ پسند کرتے تھے تقریباً 16 مقامات کا تعلق اسی دور(III) سے ہے جو اب تک وادی کوئٹہ میں دریافت ہو چکے ہیں۔ کل گل محمد (IV) یعنی چوتھے دور میں زائرین کو سطح پر، ومب سادات کلچر نظر آتا ہے۔ 

شیخ نوید اسلم
(پاکستان کے آثار قدیمہ سے انتخاب)
 

وائبر کا نیا کارآمد فیچر

$
0
0

سوشل میڈیا کی دنیا نے ایک او ر سنگ میل عبور کر لیا۔ واٹس ایپ اور میسنجر کے بعد سب سے زیادہ استعمال ہوانے والی سوشل ایپ وائبر نے ایک خصوصی فیچر متعارف کرا دیا۔ نئے ''سیکرٹ چیٹ فیچر''کے تحت ایک مخصوص وقت کے بعد تمام پیغامات خودکار طریقے سے ختم ہو جائیں گے دنیا میں وائبر استعمال کرنیوالوں کی تعداد 80 کروڑ سے زائد ہے۔ پاکستان میں بھی اسے کافی استعمال کیا جاتا ہے اور اب صارفین کیلئے اس ایپ میں وہ فیچر متعارف کرا دیا گیا ہے جو واٹس ایپ ، سنیپ چیٹ اور میسنجر میں خود کار طور پر ڈیلیٹ ہونیوالے پیغامات کی صورت میں موجود ہے۔ اپنے صارفین کو زیادہ پرائیویسی اور سیکیورٹی فراہم کرنے کیلئے وائبر میں’’ سیکرٹ چیٹس ‘‘نامی فیچر متعارف کرایا گیا ہے۔ 
اس فیچر کے تحت ایک مخصوص وقت کے بعد پیغامات خود بخود اپنے آپ کو ختم کرلیں گے۔ اس سے قبل رواں سال کے شروع میں وائبر میں سیکرٹ میسنجر نامی فیچر متعارف کرایا گیا تھا جس میں کچھ وقت کے بعد انفرادی پیغامات خود کار طور پر ختم ہو جاتے تھے مگر سیکرٹ چیٹس میں صارف کے پیغامات کو کسی اور جگہ فارورڈ نہیں کیا جا سکے گا جبکہ آئی او ایس میں اس کا سکرین شاٹ لینے پر مطلع بھی کیا جائیگا اور اینڈرائیڈ میں سکرین شاٹ بھی نہیں لیا جا سکے گا۔ صارف چاہیں تو سیکرٹ چیٹس کو پن کوڈ کے ذریعے بھی محفوظ بنا سکیں گے۔ یہ فیچر وائبر کے صارفین کیلئے پیش کر دیا گیا ہے جبکہ جلد ہی دنیا بھر میں لوگ اسے استعمال کر سکیں گے۔

معصومہ مبشر

حسین حقانی کی کہانی

$
0
0

یا اللہ پاکستان کی خیر کی خیر ہو، حسین حقانی کا وار بڑا کاری ہے اس کا ہدف جناب زرداری یا ملتان والے یوسف رضا گیلانی نہیں ! جناب والا پاکستان ہے۔ حسین حقانی امریکی حکام کی روسی سفیر سے تعلقات پر واشنگٹن میں ہونے والی لے دے اور اکھاڑ پچھاڑ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں، سفارتکاروں کا بنیادی کام ہی مہمان ملک کے حکام سے تعلقات استوار اور میل ملاقات ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ ان ملاقاتوں کی وجہ سے صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر مائیکل فلن کو مستعفی ہونا پڑا ۔ غیرملکی سفیروں سے اعلیٰ حکام کے روابط اور میل ملاقات میں کوئی ہرج نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ دشمن اور متحارب ممالک کے سفارتی عملے سے ملاقاتیں بھی معمول کا عمل ہوتی ہیں۔ متحارب سپر پاور روس جس پر امریکہ نے مختلف النوع پابندیاں عائد کر رکھی ہیں کے سفارت کاروں سے اس قسم کی ملاقاتوں میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔

حسین حقانی بلاشبہ شاہکار نثرنگار ہیں، بڑے دھیمے سروں میں لے اٹھاتے ہیں اور آہستہ آہستہ دلائل کی دیوار کھڑی کرتے ہوئے فرماتے ہیں، امریکی رائے عامہ کا مسئلہ یہ نہیں کہ روسی سفارتکار سے امریکی حکام نے کیا تبادلہ خیال کیا۔ ان کو صرف اس بات سے غرض ہے کہ کیا ان کی ملاقاتیں قانونی تھیں اور ان کا طرزعمل باوقار تھا یا نہیں؟ کیونکہ سفارتکاری کے ذریعے ہی متحارب دشمنوں کو دوست و ہمنوا بنا کر اتحادی بنایا جاتا ہے۔ روس کی موجودہ خارجہ حکمت عملی سے قطع نظر غیرملکی سفارتکاروں سے آزادانہ میل ملاپ نے ہمیشہ امریکی مفادات کو آگے بڑھایا ہے۔ حسین حقانی کی تمہید واقعی نثری حسن کا شاہکار ہے جس کے بعد اصل معاملے کی طرف رْخ کرتے ہوئے انکشاف فرماتے ہیں، میرے دور سفارت میں گرم جوش تعلقات کی وجہ سے پاک فوج اور اس کے خفیہ اداروں کی مدد کے بغیر امریکی اسامہ بن لادن کو ڈھونڈنے اور اس کا صفایا کرنے میں کامیاب ہوئے۔

اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے حسین حقانی لکھتے ہیں کہ امریکی حکام نے اپنے جاسوسوں کے خصوصی دستے پاکستان میں تعینات کرنے کے لئے مدد و تعاون کی درخواست کی جس سے صدر آصف زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو مطلع کر دیا۔ اثبات پر جواب ملنے کے بعد ان جاسوسوں کو ویزے جاری کر دیئے گئے۔ ان امریکی جاسوسوں کی کارروائیوں کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں تھا لیکن انہیں جاسوسوں کی معلومات پر اوباما نے امریکی بحریہ کے خصوصی کمانڈو دستہ بھیج کر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو قتل کروایا۔ اس آپریشن سے پاکستان کو بالکل لاعلم رکھا گیا تھا۔ بدقسمتی سے امریکہ افغانستان میں فتح حاصل نہ کر سکا اسی طرح پاکستان کا اسلامی انتہاپسندوں کے حوالے سے رویہ مستقل تبدیل نہ ہو سکا لیکن میرے دور سفارت میں امریکہ اور پاکستان نے مشترکہ اہداف کے حصول کیلئے ہم آہنگ ہو کر کام کیا اور یہی سفارتکاری کی روح ہوتی ہے۔

حسین حقانی میموگیٹ اور اپنے’’کرشمات ‘‘کا تذکرہ کئے بغیر اپنی مظلومیت کا رونا شروع کرتے ہوئے لکھتے ہیں، جب اقتدار کی ادارہ جاتی لڑائی میں فوج اور اس کے خفیہ اداروں نے سیاسی حکمرانوں پر برتری حاصل کر لی تو مجھے مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک ڈرائونا کردار، اعلیٰ فوجی افسر جو اس کالم نگار کے ساتھ شریک ملزم رہے ہیں، وہ بتایا کرتے تھے کہ اقتدار کی سیڑھیاں تیزی سے طے کرنے کے لئے حقانی ہر غیرملکی دورے سے واپسی پر ان کے لئے پیش قیمت جوتوں کے تحائف لایا کرتے تھے اور بڑے چاؤ اور لاڈ پیار سے اپنے ہاتھوں سے پہنایا کرتے تھے کہ وہ افسر اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف کے اتالیق ہوتے تھے۔
حقانی دعویٰ کرتے ہیں کہ سفارتکاری سے ہٹانے کے لئے جو الزامات فوجی خفیہ اداروں نے لگائے ان میں سب سے اہم الزام یہ تھا کہ میں نے پاک فوج کے علم میں لائے بغیر امریکی جاسوسوں کی بہت بڑی تعداد کو ویزے جاری کئے۔ جن امریکی جاسوسوں نے کامیابی سے اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے میں کامیابی حاصل کر لی ’’میں نے یہ سب کچھ منتخب عوامی نمائندوں اور جمہوری حکمرانوں کی اجازت سے قانون کے مطابق کیا تھا‘‘۔ حسین حقانی نے اس مرحلے پر یہ انکشافات بلاوجہ نہیں کئے ہیں وہ آصف زرداری اور پیپلزپارٹی کے سیاسی مستقبل سے مایوس ہو چکے ہیں اس لئے موقع کی مناسبت سے حسین حقانی نے اپنے گناہوں کا سارا ملبہ آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی پر ڈال کر دوبارہ اہمیت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ 

سپریم کورٹ کو مطلوب مفرور ملزم حسین حقانی پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کے لئے جاری اس کھیل کا اہم کردار ہے جو نفسیاتی جنگ میں پیپلزپارٹی کی قیادت پر کاری وار کر گیا ہے۔ امریکہ کا ذکر کرتے ہوئے حسین حقانی بڑے دھڑلے سے ’’ہم‘‘ کا صیغہ استعمال کرتے ہیں جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ موصوف امریکی شہریت اختیار کر چکے ہیں جو کوئی بری چیز نہیں، بری بات نہیں لیکن ادنیٰ دنیاوی مفادات کے لئے ماں مٹی کو بیچ دینا اور اس پر علم الکلام کا مظاہرہ کرتے ہوئے دلیلیں تراشنا اور جمہوریت کے سبق پڑھانا کوئی تر دماغ حسین سے سیکھے، نہیں جناب حسین حقانی کی شاگردی اختیار کرے۔

جناب حسین حقانی دور نوجوانی میں سابق امیر جماعت اسلامی اور شاندار مقرر سید منور حسن کے بستہ بردار ہوتے تھے۔ ان کے جلسوں کو گرمایا کرتے تھے اور صبح منور شام منور۔ روشن تیرا نام منور کے نعرے لگایا کرتے تھے پھر یہ پیپلزپارٹی کا راستہ روکنے کے لئے تخلیق دیئے جانے والے اسلامی جمہوری اتحاد (IJI) میں جماعت اسلامی کی سیڑھی لگا کر گھسے اور پنجاب کے ابھرتے ہوئے رہنما میاں نواز شریف کے مقرب بن گئے۔ اس کارخانے کو چلانے والے جرنیلوں کے یہ کفش بردار تھے، کون ان کی راہ روک سکتا تھا۔ انگریزی پر دسترس ان کا ہتھیار تھی۔ قبل ازیں جنرل ضیا کے جنازے پر شدت غم سے بے طرح روتے پائے گئے۔ غلام اسحاق خان نواز شریف کشیدگی کے مرحلے پر یہ اندازے کی غلطی کھا گئے اور کولمبو سے سفارتکاری چھوڑ کر مرحوم غلام اسحق خان کے کیمپ میں آن شامل ہوئے، ان کی روانگی کے بعد آصف زرداری کے چرنوں میں جا بیٹھے۔ ذرا نہیں گھبرائے ذرا نہیں شرمائے کہ بی بی بے نظیر اور نصرت بھٹو کی نیم عریاں جعلی تصاویر ہیلی کاپٹر سے لاہور پر گرانے کا مبینہ منصوبہ انہیں کے دماغ کا شاہکار تھا۔

حسین حقانی اپنی واردات ڈال کر غائب ہو چکے ہیں اور شیری رحمان اب لکیر پیٹ رہی ہیں۔ حسین حقانی کو شاطر قرار دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ وہ تو اب وہیں کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ وہ بہت دبائو میں ہیں لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ ان کے تمام دعوے اور انکشافات بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔ حسین حقانی کے جبری استعفیٰ کے بعد شیری رحمان کو امریکہ میں سفیر بنایا گیا وہ بتا رہی تھیں کہ امریکی جاسوسوں کے سینکڑوں ویزے ہم نے روکے تھے کہ میں نے 7,7 فٹ تڑنگے دیوقامت کمانڈوز کو معصوم انجینئر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور یہ بھی بتایا کہ اسامہ بن لادن کے واقعے کے بعد پارلیمان کا اِن کیمرہ 11 گھنٹے طویل اجلاس ہوا تھا، صدر زرداری نے انہیں امریکی ویزوں کے حوالے سے مکمل اختیارات دیئے تھے ۔ 

امریکی حکام لاتعداد درخواستیں کرتے رہتے تھے لیکن ہم قومی مفاد میں فیصلے کرتے تھے، کسی کی ایک نہیں سنتے تھے۔ حرفِْ آخر یہ کہ کیا اچھا ہوتا ہے کہ حقانی کے الزامات کا جواب آصف زرداری یا یوسف رضا گیلانی خود دیتے ویسے تو سانپ نکل گیا اور ہم لکیر  پیٹے جارہے ہیں اور اس کام میں ہم بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ ڈان لیکس، ایبٹ آباد کمشن رپورٹ سب کھوہ کھاتے میں جا چکیں اور پاناما لیکس سپریم کورٹ کی تجوریاں میں بند پڑی ہے یہ سب قومی مفاد کے تحفظ کے نام پر ہوتا رہا ہے اور جب تک یہ ہوتا رہے گا کچھ نہیں بدلے گا۔ پاکستان کے دشمن کھل کھیلتے رہیں گے.

محمد اسلم خان 
 

ملازمت کے دوران خوش رہنے کے سنہری اصول

$
0
0

دنیا بھر میں کروڑوں لوگ ملازمت کرتے ہیں ، تقریباََ ہر جگہ کے مسائل میں ایک چیز مشترکہ ہے اور وہ ہے کام کا پریشر۔ ملازمت کے دوران کام کے پریشر کی وجہ سے غصہ، ذہنی تنائو، ڈپریشن اور جھگڑے بھی ہوتے ہیں ۔ اصل سوال یہ ہے کہ ملازمت کے دوران ان تکلیف دہ چیزوں سے کیسے بچا جائے۔ عمومی طور پر افسران اور ماتحتوں کا رشتہ ساس بہو کے رشتہ کی طرح ہی ہوتا ہے۔ کہیں افسران ماتحتوں سے خوش نہیں تو کہیں ماتحت افسران سے خوش نہیں ۔ 

٭جب ماتحتوں کی طرف سے کام کو ایک ذمہ داری کے طور پر لیا جائے گا اور افسران بے جا دبائو سے گریز کریں گے تو کسی حد تک ماحول نارمل ہوجائے گا۔
 
٭کام کو جب آپ دبائو اور بوجھ سمجھ کر کرینگے تو کوفت ہو گی۔ پہلے تو آپ کو اپنے پسندیدہ شعبہ میں ہی جانا چاہیے ۔ جس کام میں آپ کا شوق شامل ہوگا وہاں کام آپ کو بوجھ محسوس نہیں ہوگا اور آپ مقررہ وقت سے زیادہ بھی خوش دلی سے کام کرنے میں عار محسوس نہیں کرینگے۔ 
 
٭جب کام پر بیٹھ جائیں تو سب سے پہلے جو چیز اپنائیں وہ خوش اخلاقی اور مسکراتا ہوا انداز ہو۔ دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ خوامخواہ افسر بننے کے زعم میں اپنے چہرے پر بے جا سنجیدگی سجائے رکھتے ہیں اور ایسا وہ اس لئے کرتے ہیں کہ ماتحت ان سے دبے رہیں اور زیادہ توجہ سے کام کریں ۔ حالانکہ خوش اخلاقی کے ساتھ بھی آپ اچھا کام لے سکتے ہیں ۔ 
٭سخت الفاظ کی بجائے دوسروں سے مناسب اور بارعب نپے تلے الفاظ کے ساتھ بات کریں ۔ آپ کا مخاطب کوئی ہو چاہے صارف ہو ، ماتحت ہو یا افسر ہو الفاظ نپے تلے اور بے ادبانہ نہ ہوں تو بہت سے سخت معاملات آسانی سے حل ہو جاتے ہیں جس سے آپ کی شخصیت بھی مجروح نہیں ہوتی اور آپ پر غصہ بھی سوار نہیں ہوتا ۔ 

٭یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ ٹینشن گھر سے لے کر آتے ہیں اور دفتر میں ایک دوسرے پر نکالتے ہیں ۔ اس کے لئے واضح اصول اپنا لیں کہ گھر کی ٹینشن گھر تک ۔ کام کو دوسرے افراد (صارف، ماتحت یا افسر) کے لئے آسان بنانے کی کوشش کریں جتنا زیادہ دبائو میں کام لیا یا دیا جائے گا اتنا ہی غلطیاں زیادہ ہوں گی ۔ زیادہ سے زیادہ آسانیاں تقسیم کریں ۔
 
٭ماتھے پر تیوری چڑھا کر بات کرنے کی بجائے اگر پرسکون اور ہنس مکھ انداز میں بات کی جائے چاہے وہ کتنی سخت کیوں نہ ہو اس کا برااثر نہیں ہو گا۔ دوستانہ انداز میں بہتر کام ہوتا ہے بجائے اس کے کہ کسی کو آپ ہر وقت ذہنی دبائو میں رکھیں۔ 

٭جن دفاتر کے کائونٹرز کا عوام سے براہ راست واسطہ پڑتا ہے وہاں چڑچڑاپن زیادہ دیکھا گیا ہے ۔ کچھ لوگ جلدباز ہوتے ہیں کچھ ویسے ہی الٹا جواب دیتے ہیں تو ان سب سے نمٹنے کے لئے خوش اخلاقی اور تمیز سے بات کرنا کام کو آسان کرنے کے لئے بہترین ہتھیار ہے۔ دوسروں کے لئے خوامخواہ مشکلات کھڑی نہ کریں ۔ دفاتر میں معمولی سا کام بھی کروانا ہو تو عملہ آپ کی دوڑیں لگوا دے گا ۔ دفاتر کے عملہ کو بھی چاہیے کہ وہ دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرینگے تو ان کی مشکلات بھی دور ہونگی کیونکہ معاشرہ ایک دوسرے سے منسلک ہوتا ہے ۔ آپ کسی کی مشکل کو آسان کرنے کی روایت ڈالیں گے تو دوسرے آپ کے لئے راستہ صاف کرینگے۔ اس طرح دیکھا دیکھی مشکلات اور مسائل کے حل نکلتے آئیں گے اور کام بھی آسان ہوتا جائیگا۔

طیب رضا عابدی

 

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد

$
0
0

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد پاکستان میں قائم ہونیوالی پہلی زرعی یونیورسٹی ہے۔
ابتدا میں اس کی بنیاد پنجاب زرعی کالج و ریسرچ انسٹی ٹیو ٹ کے طور پر رکھی گئی ۔ یہ یونیورسٹی 1906 ء میں قائم کی گئی ۔ 1909 میں اس کی عمارت مکمل ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد زراعت کو فروغ دینے کے لئے 1961 ء میں اسے یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ ڈاکٹر زیڈ اے ہاشمی اس کے پہلے وائس چانسلر تھے۔ زرعی یونیورسٹی کا نیو کیمپس بھی تعمیر کیا جا چکا ہے ۔ نیوکیمپس میں یونیورسٹی کی ابتدائی طور پر چھ فیکلٹیاں تھیں ۔ علامہ اقبال آڈیٹوریم بھی اس میں تعمیر کیا گیا ہے ۔ یہ اقامتی یونیورسٹی ہے اور اس میں اس وقت پانچ ہزار سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں ان میں سے ایک سو کے قریب غیرملکی ہیں ۔ 

پاکستانی خواتین بھی زرعی تحقیق میں حصہ لے رہی ہیں ۔ جن شعبوں میں تحقیق پر کام ہو رہا ہے ان میں کلیہ زراعت، زرعی اقتصادیات و دیہی عمرانیات، فیکلٹی آف ایگری انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ، فیکلٹی آف ویٹرنری سائنس ، فیکلٹی آف اینیمل سائنس، فیکلٹی آف سائنس شامل ہیں۔ اس یونیورسٹی کی بدولت زراعت کو بڑی ترقی ملی ہے اور مختلف فصلوں کی پیداوار بڑھانے اور انہیں بیماریوں سے محفوظ کرنے کے طریقے بھی دریافت کئے گئے ہیں ۔ پاکستان کی کلر زدہ زمینوں کو کاشت کرنے کے لئے بھی تجربات کئے گئے۔ گندم کی انتہائی مفید قسم ایل یو کی ایجاد بھی اسی یونیورسٹی کے ماہرین کی کاوشوں کا نتیجہ ہے ۔

زاہد حسین انجم


دربار محل

$
0
0

نواب صادق محمد خان رابع نے دو لاکھ روپے کی لاگت سے بہاولپور میں ایک محل تعمیر کروایا جو پہلے دولت خانہ اور پھر دربار کے نام سے مشہور ہوا۔ محل میں نواب کی بیگمات کے لئے کئی چھوٹے چھوٹے محل بھی قائم تھے ۔ ایک وسیع و عریض ہال میں نواب آف بہاولپور دربار لگاتے تھے جو’’دربار محل‘‘ کے نام سے مشہورہے۔ 

ریاست کے پاکستان میں ضم ہونے کے بعد وہاں ڈویثرنل کمشنر اور مقامی افسران کے دفاتر قائم ہوئے جبکہ عوامی دور میں اس کے ہال میں اسمبلی کے اجلاس منعقد ہوتے تھے اور آجکل یہاں عارضی طور پر بہاولپور پریس کلب قائم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اے پی این ایس کا پہلا اجلاس بھی اسی محل کے ہال میں ہوا تھا۔ جس میں ملک بھر سے صف اول کے صحافی شریک ہوئے تھے۔  

پاکستان کی پہلی سرنگ

$
0
0

پاکستان میں پہلی آبی سرنگ کا افتتاح 10 جنوری 1960ء کو وزیر بحالیات محمد اعظم خان نے پشاورسے اٹھارہ میل دوری پر وارسک میں کیا وارسک کی ساڑھے تین میل لمبی سرنگ پر ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ وارسک کے ذخیرہ آب سے ایک ہزار میل لمبی دو نہریں اس سرنگ سے گزرتی ہیں ۔ 

اس سرنگ کی کھدائی کا کام جولائی1957 ء میں شروع ہوا۔ انجینئروں اور مزدوروں کی دن رات محنت کی بدولت یہ کام تین ماہ میں مکمل ہوا۔ جبکہ سڑک کی پہلی سرنگ لواری میں تعمیر کی گئی۔ بھٹو دور حکومت میں اس کی تعمیر کا کام فوج کی نگرانی میں شروع ہوا۔ یہ سرنگ تیس فٹ چوڑی اور پچیس فٹ اونچی ہے۔ یہ چترال کو پاکستان کے دوسرے علاقوں کے ساتھ ملاتی ہے۔ 

(پاکستان میں اول اول سے اقتباس)  

چترال کا صدیوں پرانا شاہی قلعہ

$
0
0

چترال کا موسم کافی گرم تھا لیکن قلعے کی طرف جانے والی سڑک پر قدیم اور گھنے چنار کے پیڑوں کا سایہ فرحت بخش تھا۔ بہت سے مقامی لوگ قلعے کی طرف جا رہے تھے۔ قلعے سے پہلے میدان میں کوئی اہم فٹ بال میچ تھا۔ اور چترال کی ساری مذکر آبادی ادھر ہی رواں تھی۔ سڑک سے اترتے ہی پہلے بائیں ہاتھ شاہی مسجد آتی ہے اور اس سے آگے شاہی قلعہ۔ ہم پہلے قلعے کی اور چلے اس خطے میں قلعے ویسے نہیں ہوتے جیسا قلعہ لاہور ہے، پرہیبت اور پروقار بل کہ یہ ایک مستطیل یا چوکور احاطہ ہوتا ہے جس کی دیواریں مٹی پتھر اور چوبی شہتیروں سے اٹھائی جاتی ہیں اور بہت زیادہ بلند بھی نہیں ہوتیں۔ چاروں کونوں پر نگہبانی کے چورس برج ہوتے ہیں اور اندر عام رہائشی تعمیرات۔ 

چترال صدیوں سے یورپی اور ایشیائی حکمرانوں کی راہ گزر رہا ہے۔ کیوں کہ یہ چین اور شمالی مغربی ہندوستان کے درمیان شارٹ کٹ تھا۔ اس لیے بے حد اہم راستہ تھا۔ چنانچہ پہلے یہاں بدھ آئے پھر اسماعیلی آئے، ان کے بعد عرب آئے۔ برصغیر پر انگریز قابض ہوئے تو چترال بھی ان کے زیر نگیں رہا۔ مارکوپولو خود تو چترال نہیں آیا لیکن اپنے چین کے سفرنامے میں اس کا ذکر ضرور کرتا ہے۔ اب ایسی اہم جگہ پر قلعے تو ہوں گے ہی۔ لیکن چترال کے قلعے کا داخلی دروازہ چھوڑ کر، جواب بھی، اپنی تمام تر خستہ حالی اور بدحالی کے باوجود، خوش نما ہے۔ باقی قلعہ مضحکہ خیز حد تک ازکار رفتہ اور غیر دل چسپ ہے۔ مرے پہ سو درے اب مقامی پولیس اسے اپنے تصرف میں لیے ہوئے ہے اور سیاح کو مرکزی پھاٹک پر ’’رہائشی عمارت۔ داخلہ بند ہے۔‘‘ کی تختی ٹنگی ملتی ہے۔ اور اگر کوئی پھر بھی اندر جانے کی کوشش کرے تو اسے سختی سے روک دیا جاتا ہے۔

 یہاں چنار کے گھنے، قدیم اور کافی بلند پیڑ تھے۔ ہم قلعے سے متصل ایک مہنگے ہوٹل کے سیبوں اور اخروٹوں کے پیڑوں سے بھرے باغیچے کے گرد گھوم کر دریائے کونار پر چلے گئے۔ سرمئی دریا بڑی تیزی سے بہہ رہا تھا۔ دریا کا مشرقی کنارہ شام کی دھوپ میں چمک رہا تھا۔ پہاڑ خشک اور زرد تھے جن کی ڈھلوانوں پر آبادیاں تھیں۔ ہوا تیز تھی اور ہم کچھ دیر پتھروں پر بیٹھے کونار کے ٹھنڈے پانی میں پائوں بھگوتے اور چھوٹے چھوٹے کنکر دریا میں اچھالتے رہے۔پھر ہم ایک کھڑکی سے قلعے کے اندر داخل ہو گئے۔ یہ ایک تاریک راہ داری تھی جس کی اونچی چھت اندھیرے میں گم تھی۔ دائیں بائیں زمین سے اونچے برآمدے تھے جنہیں بھاری ستون سہارا دئیے تھے۔ برآمدوں کی بالائی منزل پر رہائشی کمرے تھے۔ جن کے آگے پردے ٹنگے تھے۔ آگے صحن تھا جس میں بڑھی ہوئی گھاس، چند پیڑ اور گندگی کے ڈھیر تھے۔ اردگرد منہدم کمرے تھے جیسے دیہاتی مکتبوں میں ہوتے ہیں۔ پیچھے کمرے آگے لکڑی کے برآمدے بلکہ ان کا ملبہ۔ 

قلعے کا عقبی دروازہ ایک شکستہ بالکنی پر کھلتا تھا جس کی ریلنگ غائب ہو چکی تھی۔ کافی نیچے گھاس کا میدان تھا جس کے پار دریائے کونار بہہ رہا تھا۔ بائیں ہاتھ شمال مشرقی برج کا خستہ دروازہ تھا۔ ہم کنڈی کھول کر اندر داخل ہوئے جہاں کافی کھلی اور پست سیڑھیاں بل کھاتی اوپر جاتی تھیں۔ ہوا میں پرانی مٹی کی بُو تھی اور دیواریں چھونے پر خنک محسوس ہوتی تھیں۔ سوکھے پتوں اور مٹی سے ڈھکی سیڑھیوں پر بے آواز چڑھتے ہم اوپر آئے۔ اوپر ایک چوکور کمرہ تھا جس کی چھت جگہ جگہ سے اور فرش کہیں کہیں سے ٹوٹا ہوا تھا۔ اس کمرے کے چاروں طرف لکڑی کا برآمدہ تھا۔ میں چاروں طرف گھوم کر تصویریں بنانے لگا۔ سامنے شاہی مسجد کے دو گنبد اور مینار نظر آتے تھے۔ میں نے وہیں بلندی سے کچھ لمحے منہدم قلعے کے آثار دیکھا. کیا دیواریں، چھتیں، تہہ خانے، کھڑکیاں، دروازے، سب شکستہ، اجاڑ اور خاموش بے جان سے تھے جن سے یہ قلعہ آباد تھا وہ کہاں گئے۔

(کتاب’’بستی بستی پربت پربت ‘‘سے منقبس)  

کیلاش کے نام زندگی کر دی

$
0
0

پاکستان کے انتہائی پسماندے ضلع چترال میں کیلاش قبیلے کی فلاح کے لیے
زندگی وقف کرنے والی برطانوی خاتون مورین لائنز 80 سال کی عمر میں پشاور میں انتقال کر گئی ہیں۔ پشاور میں بی بی سی نامہ نگار عزیز اللہ خان کے مطابق مورین لائنز کی آخری رسومات اتوار کو پشاور کے گورا قبرستان میں ادا کر دی گئیں۔ مورین لائنز سنہ 1982 میں چترال کے علاقے بھمبوریت آئیں جہاں کیلاش قبیلہ آباد ہے اور پھر مستقل طور پر یہیں کی ہو کر رہ گئیں۔ مورین لائنز چند ماہ سے بیمار تھیں اور گذشتہ شب ان کی طبعیت زیادہ خراب ہوئی تو پشاور کے نجی ہسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ دم توڑ گئیں۔ گورا قبرستان میں آخری رسومات کے وقت وہ دو خاندان موجود تھے جن کے پاس مورین لائنز چترال اور پشاور میں رہتی تھیں۔
مورین لائنز 1980 میں پاکستان آئیں اور پھر واپس برطانیہ چلی گئیں جہاں انھوں نے نرسنگ کی تربیت حاصل کی اور پھر 1982 میں واپس آئیں تا کہ چترال کے ان نظر انداز لوگوں کی خدمت کر سکیں جنھیں صحت کی سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔
مورین لائنز کے سیکریٹری جانس خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسی شخصیت انھوں نے نہیں دیکھی جو صرف انسانیت کی خدمت پر یقین رکھتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا اگر چترال کے علاقے میں کوئی بیمار ہوتا اور وہاں اس کا علاج نہیں ہو پاتا تھا تو وہ اسے اپنے خرچ پر علاج کے لیے پشاور لاتیں، یہاں ان کا علاج کرایا جاتا اور پھر واپس انھیں چترال لے جایا جاتا۔

ان کا کہنا تھا کہ مورین لائنز بنیادی طور پر چترال میں طب کے حوالے سے کام کرتی رہی ہیں لیکن اس کے علاوہ انھوں نے کلچر کے میدان میں کام کیا ہے۔
مورین لائنز گرمیوں میں چترال اور سردیوں میں پشاور میں قیام کرتی تھیں۔
خیبر پختونخوا میں محکمہ آثار قدیمہ میں کام کرنے والی کیلاش قبیلے کی ایک خاتون نے بتایا کہ مورئنز لائن چترال میں آثار قدیمہ کے تحفظ کے لیے بھرپور جدو جہد کی اور انھوں نے اس بارے میں ہر جگہ آواز اٹھائی ۔ انھوں نے کہا کہ وہ خود اس سکول میں پڑھتی رہی ہیں جو مورین لائنز نے ان کے علاقے میں قائم کیا تھا اور آج وہ ایک اہم محکمے میں اچھی ملازمت کر رہی ہیں تو اس کا سہرا بھی مورین لائنز کے سر ہے۔ مورین لائنز کی عمر 80 سال پانچ ماہ تھی اور اپنی عمر کے 34 سال انھوں نے پاکستان میں گزارے۔ ان کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ مورین لائنز کا کہنا تھا کہ وہ انسانیت کی خدمت کر رہی ہیں۔

بشکریہ بی بی سی اردو

سائبر کرائمز : ایک ارب ای میل اکائونٹس ہیک ؟

$
0
0

ان دنوں ہر طرف ای میل چوروں کا چرچہ ہے۔ کہیں وکی لیکس زیر بحث ہے تو کوئی امریکی انتخابات میں ای میلز اکائونٹس کی ہیکنگ کے ذریعے روسی مداخلت پر تبصرہ کر نے میں مگن ہے۔ ایک اور چونکا دینے والی رپورٹ اس کے علاوہ ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل ،عالمی شہرت یافتہ گلوکار جسٹن بیبرر، شکاگو یونیورسٹی اور اٹلانٹا پولیس ڈیپارٹمنٹ سمیت کئی ٹوئٹڑ اکائونٹس کی ہیکنگ پر لوگوں کا دھیان کم ہی گیا ہے۔ چند ہیکروں نے ٹوئٹر اکائونٹس ہیک کر کے ان پر مغرب کے خلاف مہم کا آغاز کر دیا تھا ۔ بعض اکائونٹس پر ترکی کے جھنڈے کے پوسٹ کر کے ہٹلر کا رسوائے زمانہ ’’سواسٹکا‘‘ پوسٹ کر دیا ہے۔ مقصد یہ باور کرانا ہے کہ بعض مغربی ممالک میں ہٹلر کا اثر اب بھی باقی ہے ۔

صدر طیب اردگان کے ہالینڈ کے خلاف سخت جملے بھی ہیکروں نے تصویروں کے ساتھ لکھ دئیے ہیں۔ ایک کمپنی نے اپنے ایک ارب ای میل اکائونٹس کی ہیکنگ کا اعتراف کیا ہے۔ ہیکروں نے ان اکائونٹس کی ہیکنگ کے لئے ہزاروں اکائونٹس کا سہارا لیا۔ ایک سرچ انجن نے 2014ء میں 50 کروڑ اکائونٹس ہیک کر نے کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد اپنے سسٹم کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ ہیکروں کے بعض گروپس نے کم از کم 80 لاکھ اکائونٹس کی معلومات چرائیں۔ 2013ء میں بھی کم از کم ایک ارب اکائونٹس میں سے لوگوں کی نجی زندگی کی معلومات چرا لی گئی تھیں۔ ایسا دوسرا بڑا واقع پچھلے سال 22 ستمبر کو پیش آیا۔ اس دوران یہ بھی انکشاف ہوا کہ ایک کم عمر بچہ بھی اس کام میں ملوث ہے۔ یہ بھی کہنا ہے کہ بعض ہیکروں کو پس پردہ بعض حکومتوں کی حمایت حاصل ہے۔ 
ایک سرچ انجن کی درخواست پر امریکہ کے قائم مقام اٹارنی جنرل نے غیر قانونی طور پر لوگوں کی نجی زندگی میں داخل ہونے اور ای میلز ہیک کرنے پر 33 سالہ روسی تی متری الیگزینڈرو ،43 سالہ روسی ایگور اینا تولی وچ ، 39 سالہ روسی الیگزے اور 22 سالہ کریم باراتوف کے خلاف مقدمات بنا دئیے ہیں۔ کریم بارہ توف کو امریکی پولیس نے 14 مارچ کو کینیڈا سے حراست میں لے لیا ہے جبکہ باقی تین روسی ’’اشتہاری‘‘ قرار دے دئیے گئے ہیں۔ ان پر روس کے لئے جاسوسی کرنے کے الزامات ہے۔

محمد سعد صہیب

 

سوئس بینکوں میں کالے دھن تک رسائی

$
0
0
Read dr-mirza-ikhtiar-baig Column swiss-bankon-men-kalay-dhan-tak-rasaee published on 2017-03-20 in Daily JangAkhbar

ڈاکٹرمرزا اختیار بیگ

قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کے بڑے مسائل

$
0
0

پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کارپوریشن لیمیٹڈ کے معاملات ان دنوں بہت سارے فورمز پر موضوعِ بحث ہیں مگر گذشتہ دنوں سینیٹ کی پی آئی اے پر قائم کی گئی خصوصی ذیلی کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ میں کیمیٹی کے اراکین نے پی آئی اے مسائل کا ایک جائزہ پیش کیا اور اس کے حل کے لیے اقدامات بھی تجویز کیے۔ سینیٹ کی اس خصوصی ذیلی کمیٹی کے کنوینر سینیٹر سید مظفر حسین شاہ تھے جبکہ اس کے اراکین میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر، مسلم لیگ نواز کے سینیٹر ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم شامل تھے۔

اس ذیلی کمیٹی نے پی آئی اے کی انتظامیہ سے دو دن تک معاملات پر بریفنگ لی، پی آئی اے کے مختلف شعبوں کا دورہ کیا، اور کمپنی کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹرز اور چیئرمین سے بھی بات کی۔ اس کے علاوہ کمیٹی نے سول ایوی ایشن کے سابق ڈائریکٹرز اور سیکرٹری ایوی ایشن سے بھی بات کی۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں پی آئی اے میں اس وقت پائی جانے والی بڑی خرابیوں کا ذکر کیا جن میں سے پانچ نمایاں خرابیاں درج ذیل ہیں۔

1: سیاسی مداخلت اور سیاست دانوں کی ناکامی
ماضی کی حکومتوں نے اس کمپنی پر درکار توجہ نہیں دی اور اس کی انتظامیہ میں سیاسی بنیادوں پر تیزی سے تبدیلیاں کی گئیں۔ من پسند افراد کو بھرتی کیا گیا جن میں نہ تو کوئی سٹریٹیجک سوچ تھی اور نہ ہی ایسی صلاحیت کہ وہ منافع بخش منصوبہ بنا سکیں۔ تباہی کی ایک اہم وجہ ادارے کو سیاست کی نذر کرنا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں غیر مناسب افراد کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا۔ یہ سب اب تک پی آئی اے پر ایک بہت بڑا بوجھ بن چکے ہیں۔

2: اعتماد اور لیڈرشپ کا بحران
پی آئی اے قیادت اور اعتماد کے بحران سے دوچار ہے۔ آج بھی پی آئی اے کا مستقل سی ای او یا سربراہ نہیں ہے اور قائم مقام سی ای او دراصل چیف آپریٹنگ آفسر ہیں۔ موجودہ قائم مقام سی ای او نے نے حکومت اور بورڈ کی جانب سے انتظامی اور آپریشنل معاملات میں ناجائز مداخلت کا شکوہ کیا جو کام صرف سی ای او اور مینیجنگ ڈائریکٹر کا ہونا چاہیے۔

3: عہدوں کے لیے غیر موزوں ڈائریکٹرز
کمیٹی کا کہنا ہے کہ عہدوں پر فائض کچھ ڈائریکٹر ان عہدوں کے لیے غیر موزوں ہیں۔ کمیٹی نے یہ بات لکھی ہے کہ تین ایسے ڈائریکٹرز ہیں جو تین لاکھ سے زیادہ ماہانہ تنخواہ وصول کر رہے ہیں اور اب تک انہیں کوئی کام نہیں سونپا گیا اور وہ بغیر کام کیے ایک سال سے تنخواہ لے رہے ہیں۔

4: یونینز اور ایسوسی ایشنز کی سیاسی پشت پناہی
کمیٹی نے لکھا ہے کہ بدقسمتی سے یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستان کی تمام سٹیٹ اونڈ ایٹرپرائزز میں ہر یونین کے پیچھے کوئی نہ کوئی سیاسی جماعت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ یونینز اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے اپنے استعداد کا غلط استمعال کرتی ہیں اور انتظامیہ کو بلیک میل کرتی ہیں اور تبادلوں اور تقرریوں میں اپنی من مرضی ٹھونستی ہیں۔ حتیٰ کہ آپریشنل تعیناتیوں میں بھی انتظامیہ پر دباؤ ڈالتی ہیں۔ کمیٹی کو پتا چلا کہ سی بی اے کے علاوہ سات دوسری ایسوسی ایشنز ہیں جو پی آئی اے کے آپریشنز کو غیر قانونی طور پر مفلوج کرنے میں ماضی میں بھی ملوث رہی ہیں اور اب بھی ہیں۔ یہاں تک کے وہ اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ کس روٹ پر کون سا عملہ جائے گا جو کہ ایک انتظامی معاملہ ہے۔

5: کرپشن
طیاروں کے فاضل پرزوں کی خریداری سے لے کر فریٹ یعنی سامان لے جانے کے لیے جگہ کی الاٹمنٹ، بھرتیوں اور تبادلوں اور انجنیئرنگ اور کیٹرنگ شعبوں میں کرپشن بھرپور ہے۔ عہدوں کی تنخواہ ان کے کام کے مقابلے میں بعض جگہوں پر غیر متوازن ہے۔ آج بھی پی آئی اے کا مستقل سی ای او یا سربراہ نہیں ہے اور قائم مقام سی ای او دراصل چیف آپریٹنگ آفسر ہیں۔

کمیٹی کی سفارشات
پی آئی اے کے بورڈ کو فی الفور تحلیل کر دیا جائے اور نئے بورڈ میں ہوابازی اور متعلقہ شعبوں کے ماہرین کو تعینات کیا جائے۔ بورڈ اپنا چیئرمین خود منتخب کرے۔ بورڈ صرف وسیع پالیسی معاملات، نئے منصوبوں پر غور کرے اور تمام انتظامی اور آپریشنل معاملات کو انتظامیہ کے سپرد کر دے۔ سی ای او کو اپنی ماہرین کی ٹیم تعینات کرنے کا پورا اختیار دیا جائے۔ تنخواہوں اور مراعات کو معقول بنایا جائے اورحکومت فوری طور پر چیف آپریٹنگ آفیسر تعینات کرے۔ بورڈ اور سی ای او سیاسی مداخلت کو کبھی خاطر میں نہ لائیں اور بھرتی اور برخاست کرنے کا اختیار سی ای او کو دیا جائے جو وہ میرٹ اور کارکردگی کی بنیاد پر کرے۔

سی بی اے اپنی سرگرمیوں کو گریڈ ایک سے چار کے عملے کی فلاح و بہبود تک محدود رکھے اور ایسی ایسوسی ایشنز جنھوں نے غیر قانونی طور پر سی بی اے کا کردار اپنا لیا ہے کو ان کے مقام پر رکھا جائے اور انتظامیہ کو بلیک میل کرنے کی بالکل اجازت نہ دی جائے۔

طاہر عمران
بی بی سی اردو ڈاٹ کام


بھارتی جمہوریت ذات پات کے حصار میں

$
0
0

ہم جمہوریت کے جتنے دعوے چاہے کریں ہمارے معاشرے سے ذات پات کا نظام ہر گز ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ ہر روز ملک کے کسی نہ کسی علاقے میں دلتوں کے زندہ جلائے جانے کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ابھی اگلے ہی دن دہلی کے قریب دادریDaddary کے مقام پر ایک پورے دلت گھرانے کو آگ میں جھونک دیا گیا۔ حتیٰ کہ وفاقی دارالحکومت میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے اپنے ساتھ ناروا امتیازی سلوک سے دل برداشتہ ہو کر خود کو پھندے سے لٹکا لیا۔ 28 سالہ ایم فل کا طالب علم جو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں داخلے کے خواب دیکھتا رہا تھا اور جسے اپنی خوش قسمتی سے چوتھی کوشش میں بالآخر اس موقر مادر علمی میں داخلہ مل گیا۔

اس کا تعلق ملک کے جنوبی علاقے مٹھو کرشنن سے تھا اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت سنجیدہ مزاج نوجوان تھا جو صرف اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس الم ناک واقعے کا نہ تو معاشرے پر کوئی اثر ہوا ہے چہ جائیکہ پورے ملک میں اس کا کوئی اثر نظر آیا ہو۔ یہ بھی ایسا ہی واقعہ ہے جسے بآسانی فراموش کر دیا جائے گا حالانکہ اسقدر الم ناک واقعے پر پورا ملک ہل کر رہ جاتا۔ اونچی ذات کے کسی طالب علم کا واقعہ ہوتا تو بہت سے طلبہ مطالبہ کرتے کہ اس کا پارلیمنٹ میں نوٹس لیا جائے، لیکن چونکہ یہ نچلی ذات کے نوجوان کا واقعہ تھا جسے ہندو معاشرے میں اچھوت قرار دیا جاتا ہے لہٰذا اس کے حق میں کوئی سرگوشی بھی سنائی نہیں دی۔ اس حوالے سے میڈیا بھی برابر کا قصور وار ہے کیونکہ اس نے یہ خبر دوسری کئی بڑی خبروں کی ضمنی کے طور پر شایع کی ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چونکہ میڈیا میں بھی زیادہ تر اونچی ذات کے لوگ کام کرتے ہیں لہذا ان کا مائنڈ سیٹ بھی وہی پرانا ہے حالانکہ نوجوانوں کو پر جوش اور انقلابی مزاج کا ہونا چاہیے مگر نچلی ذات والوں کے لیے وہ پُر جوش اور انقلابی ہونے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
یہ ظاہر ہے کہ ہلاک ہونیوالے طالب علم کے والد اور چند دیگر طلباء کا خیال ہے کہ یہ خودکشی نہیں بلکہ اسے قتل کیا گیا ہے تاہم پولیس نے اپنی بچت کی خاطر اسے خودکشی ہی قرار دیا ہے۔ طالب علم کے والدین نے سرکاری تحقیقاتی بورڈ سی بی آئی سے تفتیش کرانے کا مطالبہ کیا ہے لیکن سی بی آئی بھی دہلی پولیس پر انحصار کرتا ہے۔ گزشتہ سال اسی طرح کا ایک واقعہ حیدر آباد یونیورسٹی کے ایک طالب علم روہت وزولا کے ساتھ بھی پیش آیا جس کا تعلق بھی دلت کمیونٹی کے ساتھ تھا لیکن یہ معاملہ طلباء کی طرف سے زبردست احتجاج اور شور شرابے کی وجہ سے اعلیٰ حکام تک پہنچ گیا جنہوں نے یونیورسٹی ڈیپارٹمنٹ کے محافظ عملے کو تبدیل کر دیا۔ مٹھو کرشنن کے طالب علم کی ہلاکت کے واقعے سے روہت کی ہلاکت کا واقعہ بھی یاد آ گیا جس پر حیدر آباد یونیورسٹی کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔

نہرو یونیورسٹی کے طالب علم نے ایک فیس بک پوسٹ میں نہرو یونیورسٹی کی نئی داخلہ پالیسی کو ہدف تنقید بنایا اور اس حوالے سے ایسی بہت سی مثالیں پیش کیں جن میں اسے امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ آخر یونیورسٹیوں میں ہونے والے اس قسم کے واقعات کس چیز کی نشان دہی کرتے ہیں؟ ہمیں اپنا ذہن استعمال کر کے دیکھنا چاہیے کہ دلت طلباء کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اس قسم کے حالات کیوں پیش آتے ہیں۔ اس بات کو زیادہ وقت نہیں گزرا جب حیدر آباد یونیورسٹی کو ان تمام طلباء کی معطلی ختم کرنا پڑی تھی جن کو روہت کی موت کے بعد معطل کیا گیا تھا۔ حیدر آباد میں 2007ء سے 2013ء کے دوران درجن بھر سے زائد دلت طلباء کی خود کشی کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ شمالی علاقے میں آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز دہلی میں جنوری 2007ء سے اپریل 2011ء کے دوران طلباء کی خودکشی کے 14 واقعات رپورٹ کیے گئے۔

ایسے لگتا ہے کہ دلت طلباء کی پے در پے خودکشیوں کا ہم نے نوٹس لینا ہی چھوڑ دیا ہے۔ اب اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں طلباء میں بہت سی ذاتیں شامل ہو گئی ہیں جیسا پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ 2008ء میں اکٹھے کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اعلیٰ تعلیم میں 4 فیصد طلباء کا تعلق قبائل سے‘ 13.5 فیصد کا تعلق شیڈول کاسٹ سے اور 35 فیصد کا تعلق دوسرے پسماندہ طبقوں سے ہے۔ صرف ہندوؤں کی شرح طلباء میں 85 فیصد ہے جس کے بعد مسلمانوں کا نمبر آتا ہے جن کی شرح 8 فیصد ہے جب کہ عیسائی صرف 3 فیصد ہیں اور 25میں سے 23 دلت ہیں۔ اس حوالے سے کرائی جانے والی ریسرچ سے ظاہر ہوتا ہے کہ امتیازی سلوک کے ساتھ توہین آمیز رویہ بھی نچلی ذات کے طالب علموں کو دلبرداشتہ ہونے کی بڑی وجہ ہے۔ گویا خودکشیوں کی بڑی وجہ ذات پات کی تفریق ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایسے تعلیمی ادارے جہاں پیشہ وارانہ تعلیم دی جاتی ہے وہاں پر ذات پات کا تعصب زیادہ شدید ہوتا ہے لیکن بھارتی معاشرے میں اس کو کوئی غیرمعمولی چیز نہیں سمجھا جاتا بلکہ معمول کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔

2010ء میں پروفیسر میری تھورنٹن اور ان کے ساتھیوں نے بھارت اور انگلینڈ میں اعلیٰ تعلیم کے 5 اداروں میں تحقیقاتی مطالعہ کیا جس میں یہ ظاہر ہوا کہ اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں طلباء و طالبات گروپوں کی صورت میں علیحدہ علیحدہ ہو جائے ہیں اور اس طرح ان میں مسابقت کی فضا برقرار رہتی ہے۔ ان گروپوں میں نسلی امتیاز مذہبی امتیاز‘ قومیت‘ ذات پات اور تذکیر و تانیث کے حساب سے گروپنگ کی جاتی ہے۔ 2013ء میں میمسن اووچگن نے بھارت کی ایلیٹ یونیورسٹی میں دلت طلباء کے تجربات پر ایک مطالعاتی تحقیق کی اور یہ ثابت ہوا کہ اس یونیورسٹی میں بھی ذات پات کی تفریق اپنی شدت سے موجود ہے۔ یونیورسٹی کا ماحول دلت اور غیر دلت طلباء میں تفریق کو اور زیادہ واضح کرتا ہے جب کہ دلت طالب علم کھلے اور خفی امتیازی سلوک کا نشانہ بنتے ہیں۔ جیسے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں ذات پات کے تعصبات نہایت شدت کے ساتھ موجود ہیں لیکن کوشش یہ کی جاتی ہے کہ اس پہلو کو اجاگر نہ کیا جائے۔

یہی وجہ ہے کہ خودکشی کے واقعات کو تعصبات اور امتیازی سلوک کا نتیجہ قرار نہیں دیا جاتا حالانکہ خودکشی کے 25 واقعات میں سے 23 دلت طلباء تھے اور یہ محض اتفاق نہیں تھا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے پالیسیاں تشکیل دینے والوں کو حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کیونکہ انکار کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اب حالات بہتر ہو رہے ہیں لیکن ذات پات کے نظام کی شرمندگی کسی نہ کسی شکل میں بدستور موجود ہے۔ دلت طلباء اور اساتذہ اور انتظامیہ کے تعلقات میں افراط و تفریط کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں ہمیں دلت اور دوسرے نچلی ذات کے طلباء کے حوالے سے قانونی تحفظ فراہم کرنے کے انتظامات کرنے چاہئیں اور تمام فیصلہ کن مراحل میں دلتوں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ 

کلدیپ نائر
بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"

پاکستان : وعدے اور کارکردگی

$
0
0

ڈاکٹر عبدلقدیر خان


پیمرا سے جُڑی امیدیں کیا پوری ہوں گی؟

پاکستان میری ٹائم میوزیم

$
0
0

پاکستان میری ٹائم میوزیم کا افتتاح 27مارچ 1997ء کو کیا گیا تھا۔ اسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اس کے احاطے میں انتظامیہ کے دفاتر کے ساتھ ساتھ مختلف گیلریاں بنائی گئی ہیں۔ گیلریوں کے فرش ، دیواروں اور ستونوں پر شیشم کی لکڑی سے کام کیا گیا ہے۔’’ میرین ہسٹری گیلری‘‘ میں محمد بن قاسم کا مجسمہ بنا کر اس پر لوہے کی زنجیروں سے بنی ہوئی زرہ بکتر پہنائی گئی ہے قریبی بنے ہوئے شیشے کے شیلف میں ڈھال رکھی ہوئی ہے، یہ دونوں قیمتی تاریخی اشیاء اور ماڑی کی بندرگاہ کی کھدائی کے دوران ملی تھیں۔ ان کی ساخت کو دیکھتے ہوئے قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ دونوں قیمتی اشیاء محمد بن قاسم کے دور کی ہیں۔

گیلری میں موہنجوداڑو کے تجارتی راستوں، محمد بن قاسم کی فوج کے دیبل پر حملے ، مسلمانوں کے قدیم بحری سازو سامان اور نقشوں کی پینٹنگز آویزاں کی گئی ہیں ۔’’نیول گیلری‘‘ میں 1965ء کی جنگ کے دوران بحریہ کی کامیابیوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ یہاں بحریہ کے سازو سامان کا ڈسپلے کیا گیا ہے ۔ ’’دوار کا آپریشن پورٹس اینڈ ہاربر گیلری ‘‘میں پاکستان کی مختلف بندرگاہوں اور منوڑہ فورٹ قاسم کی پینٹنگز آویزاں کی گئی ہیں۔ کراچی کی بندرگاہ کا ماڈل بھی بنایا گیا ہے۔ ایک گیلری میں لکڑی کی پرانی طرز کی بنی ہوئی بارودی سرنگ کے خول میں کمپیوٹر ٹچ سسٹم کے ذریعہ پاک بحریہ اور میوزیم کے اوپن ایریا میں رکھی گئی چیزیں دکھائی جاتی ہیں۔ جن بچوں کو کمپیوٹر استعمال کرنا نہیں آتا وہ کمپیوٹر کی اسکرین پر انگلی رکھیں تو پوری اسکرین پر میوزیم کے کھلے علاقے میں رکھی گئی اشیاء کی فہرست آ جاتی ہے ۔
اس فہرست میں جو چیز دیکھنا چاہیں اس پر انگلی رکھنے سے اسکرین پر وہی چیز سامنے آ جاتی ہے۔ دوسرے کمپیوٹر سے نیوی کی تاریخ کے بارے میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ ایک لابی میں وہ ڈنر سیٹ بھی محفوظ کیا گیا ہے جس میں حضرت قائد اعظمؒ کو پاک بحریہ کے پہلے دور کے موقع پر کھانا پیش کیا گیا تھا، دوسرے منزل کے داخلی راستے کے دائیں جانب دیوار میں ’’ شہدا آف پاکستان نیوی‘‘ کے عنوان سے ان تمام شہدا کے نام دیئے گئے ہیں جنہوں نے وطن عزیز کے دفاع کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ ’’ نیول چیف گیلری ‘‘ میں بحریہ کے تمام ریٹائر ہونے والے سربراہوں کے پورٹریٹ ، یونیفام اور زیر استعمال اشیاء محفوظ کر کے رکھی گئی ہیں ۔’’میرسن لائف گیلری ‘‘ فائبر سے بنائی گئی ہے، اس وسیع گیلری میں زیر آب دنیا کے مختلف حسین قدرتی مناظر دکھائے گئے ہیں۔ 

پہلی منزل پر ’’ بوٹ گیلری‘‘ میں ایک قدیمی نامکمل کشتی رکھی گئی ہے۔ عمارت میں ساٹھ سیٹوں پر مشتمل ایک ائیرکنڈیشنڈ آڈٹیوریم بھی بنایا گیا ہے جہاں سرکاری وفود کو بریفنگ دینے کے علاوہ دستاویزی فلموں کی نمائش بھی کی جاتی ہے۔ عمارت میں موجود لابرئیری میں تقریباً ایک ہزار کتب کا ذخیرہ موجود ہے۔ پاکستان میری ٹائم میوزیم ’’ تقریباً 22ایکڑ رقبے پر قائم کیا گیا ہے۔ میوزیم کے داخلی گیٹ کے بالکل سامنے ایک آہنی مچھلی کا ماڈل بنایا گیا ہے۔ اس کے احاطے میں ایک بڑی جھیل بنا کر یہاں سمندری ماحول بنانے کی کوشش کی گئی ہے بارش کا پانی جھیل میں جانے سے روکنے کے لیے جھیل کے کنارے پتھروں کی دیوار بنائی گئی ہے اس جھیل میں ایک مائن سوئیپر اور ایک مچڈ ( چھوٹی آبدوز) رکھی ہوئی ہے۔

مائن سوئیپر کا نچلا حصہ لکڑی کا ہے یہ بحری جہاز سمندر میں دشمن کی جانب سے بچھائی جانے والی بارودی سرنگیں صاف کرنے کا کام کرتا ہے۔ میوزیم میں اس لائٹ ہاؤس کا ایک ماڈل بنایا گیا ہے جس میں اوپر جانے کے لیے زینہ موجود ہے لائٹ ہاوس سے میوزیم کا دلکش نظارہ کیا جا سکتا ہے ان پر کشش اہم چیزوں کے علاوہ کھلے علاقے میں پی این ایس ہاربر کا پرانا ماڈل بوفرگسن ، مارک 7 اے ( توپ) ڈیتھ چارج 5-38 انچ مارک 38 ( توپ) 21 انچ تار پیڈو مارک 20 ایم ایم گن ، میزائل لانچر ، مارٹر مارک 10 سکوڈ ماونٹنگ ، سمیت معلوم کرنے کا آلہ کمانڈ اینڈ کنٹرول کنسول، سمت معلوم کرنے کی کیبنٹ ، ٹارگٹ ایکوریشن یونٹ     ( ریڈار کا حصہ) مارک 4556 انچ ، رینچ فانڈر ، شنگین ، ویبلے ریوالور مارک 6 کولٹ 38، رلوایور نمبر 2 مارک اور ریوالور ، 32 انچ دھانے کا ریوالور وغیرہ موجود ہیں یہاں پاک بحریہ کی وہ میت گاڑی بھی رکھی گئی ہے جس میں حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا جنازہ گورنر ہاؤس کراچی سے قائد کی آخری آرام گاہ تک لے جایا گیا۔ بعد میں لیاقت علی خانؒ اور دیگر اکابرین کی میتیں لے جانے کے لیے بھی یہی میت گاڑی استعمال کی گئی ۔

شیخ نوید اسلم
(کتاب’’پاکستان کے آثارِ قدیمہ‘‘سے منقبس)
 

پاکستان میں کم سِن گھریلوں ملازمین تشدد کا شکار کیوں بنتے ہیں؟

$
0
0

ماں باپ کا سہارا بننے کے لیے گھر سے نکلنے والی رضیہ تین مہینے بعد گھر
لوٹی تو لہولہان تھی۔ فیصل آباد میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنے والی رضیہ کا ایک ہی قصور تھا: روٹی جلنا۔ رضیہ ان ہزاروں پاکستانی بچوں میں شامل ہے جو غربت کے باعث لوگوں کے گھروں میں کام کرنے پر مجبور ہیں، کبھی قرضہ اتارنے کے لیے تو کبھی گھر کے معاشی حالات سدھارنے کے لیے۔ رضیہ کا تعلق فیصل آباد کے گاؤں بچیانہ سے ہے اور وہ فیصل آباد کے ایک متمول گھرانے میں ملازم تھیں۔ رضیہ نے خود پر ہونے والے تشدد کے بارے میں بتایا۔

'میں روٹی بنانے گئی تو روٹی جل گئی۔ مالکن نے بہت مارا۔ میں ڈر کر چھت پر چھپنے کے لیے بھاگی۔ لیکن وہ مجھے چھت سے کھینچتے ہوئے نیچے لے آئی۔ پھر شیشے کی بوتل میرے سر پر دے ماری۔ دوسری بار مارنے لگی تو میں نے ہاتھ آگے کر دیا۔ میرے ہاتھ پر لگی اور میں بری طرح زخمی ہو گئی۔ لیکن وہ نہیں رکی، اس کے بعد اس نے مجھے چھری ماری۔'پاکستان میں نابالغ بچوں کو گھروں میں ملازم رکھنا عام ہے۔ مگر ان کم عمر بچوں کے بنیادی حقوق اور تحفظ کے لیے کوئی قانون موجود ہی نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں گھریلو ملازمین بالخصوص بچوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
گذشتہ برس پاکستان 167 ممالک کے گلوبل سلیوری انڈیکس یعنی غلامی کے عالمی اشاریے میں چھٹے سے تیسرے نمبر پر آ گیا تھا۔ ڈومیسٹک ورکرز یونین کے سیکریٹری مختار اعوان نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معاشرتی بے حسی اور معاشی مجبوری کے باعث پاکستان میں کم عمر بچوں سے مشقت کروانا ایک ایسا جرم ہے میں خود والدین اعانت جرم کے مرتکب ہیں۔
'یہ لوگ دیہی علاقوں سے آتے ہیں اور انتہائی غریب لوگ ہوتے ہیں۔ کچھ پیسوں کے عوض اپنے بچوں کو دوسروں کے گھروں میں کام کرنے کے لیے چھوڑ آتے ہیں۔ گھریلو ملازمین میں زیادہ ترچھوٹی عمر کی بچیاں رکھی جاتی ہیں کیونکہ نہ اس نے بولنا ہے اور نہ ہی کسی چیز سے انکار کرنا ہے۔ گھریلو ملازمین پر تشدد کے تقریباً 80 سے 90 فیصد کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔'

مبینہ تشدد کے بعد رضیہ کے گھر والوں نے اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی بہت کوششیں کیں۔ رضیہ کے والد نے تھانے کے متعدد چکر لگائے لیکن ایف آئی آر تک نہ کٹی۔ محمد اسلم کا کہنا تھا کہ انصاف صرف امیروں کو ہی ملتا ہے۔ 'غریب ہیں، جس تھانے میں بھی جاتے ہیں وہ آگے کہیں اور بھیج دیتے ہیں۔ وہ امیر لوگ ہیں انہوں نے پیسے دیے ہوئے ہیں، ہمارے پاس کوئی پیسہ نہیں، اسی لیے ہماری نہیں سنی گئی۔'گلوبل سلیوری انڈیکس ترتیب دینے والے ادارے واک فری فاؤنڈیشن کے مطابق اس وقت پاکستان میں اکیس لاکھ سے زیادہ بچے جبری مشقت پر مجبور ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ متعلقہ قانون کی عدم موجودگی ہے۔ اسی لیےاگر رضیہ جیسے متاثرین تھانے تک پہنچ بھی جائیں تو معاملہ لمبی کاغذی کارروائی کی نظر ہو جاتا ہے۔ رضیہ کا کیس فیصل آباد کے تھانے مدینہ ٹاون میں زیر تفتیش رہا۔ تاہم کئی ہفتے گزرنے کے بعد بھی ایف آئی آر تک درج نہ ہوئی۔ جب بی بی سی نے مدینہ ٹاون تھانے کے انویسٹی گیشن انچارج محمد اشرف سے اس بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ کیس کی تحقیقات زخمیوں کی نوعیت کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے رکی ہوئی ہے۔ جس کے لیے میڈیکل رپورٹ ڈیکلیئر ہونا ضروری ہے۔
رضیہ کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ شہر سے دور رہتے ہیں مگر کرایہ نہ ہونے کے باوجود وہ تھانے کے کئی چکر لگا چکے ہیں۔ تاہم کیس میں خاطرخواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ طویل قانونی چارہ جوئی سے بچنے کے لیے عام طور پر اس طرح کے معاملات میں کچھ رقم لے دے کر معاملہ رفع دفع کر دیا جاتا ہے۔ مختار اعوان کا کہنا ہے اس کیس میں بھی رضیہ کے والدین کو بالآخر صلح کرنی پڑی۔

حنا سعید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہو

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live