Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

آو سب مل کر بولیں


انسانی دماغ کے اسرار

$
0
0

تحقیق و تجربات سے سائنسدان انسانی جسم کے کئی عجائبات جان چکے لیکن وہ دماغ کے اسرار سے واقف نہیں ہو سکے۔ تاہم جدید سائنسی تحقیق سے رفتہ رفتہ نت نئے راز افشا ہو رہے ہیں۔ انہی میں سے حیرت انگیز انکشافات پیش خدمت ہیں۔

(1) ایک سوارب عصبی خلیے
انسان جب کوئی بات یاد کرنے کی کوشش کرے تو کچھ دیر لگتی ہے۔ ایسی حالت میں بعض لوگ اپنی یادداشت کو بْرا بھلا کہتے ہیں۔ حالانکہ اس میں بیچارے دماغ کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ دراصل ہمارا دماغ 100 ارب عصبی خلیوں کا مجموعہ ہے۔ جب ہم کوئی بات یاد کرنے کی سعی کریں تو ہمارے احکامات دماغ میں فی سیکنڈ 250 تا  390  فٹ کی شرح سے دوڑتے ہیں۔ چناں چہ احکامات بجا لانے میں کچھ دیر لگ جاتی ہے۔ ایک اور دلچسپ بات: انسانی جسم کے وزن میں میں دماغ کے وزن کا حصہ صرف دو فیصد ہے لیکن وہ اپنی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے جسمانی توانائی کا 20 فیصد حصہ استعمال کرتا ہے۔
(2) گوگل دماغ کو کمزور بنا رہا ہے
حال ہی میں میں کولمبیا یونیورسٹی، امریکا کے محققوں نے بعدازتحقیق دریافت کیا ہے کہ انسان جب انٹرنیٹ استعمال کرے تو سوچ بچار پر کم اور یادداشت پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔ لیکن یہ امر دماغ کو کمزور کر سکتا ہے اور وہ کئی باتیں بھولنے لگتا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ انٹرنیٹ پہ وقت گزارتے ہوئے غوروفکر پر زیادہ دھیان دیں۔

(3) ردّی (Junk) غذائیں اور منشیات
چند ماہ قبل ولندیزی ماہرین نے ایک انوکھا تجربہ کیا۔ انھوں نے پانچ لوگوں کے سامنے برگر، چرغہ، چپس وغیرہ کے نام بولے۔ تب ان کے دماغ میں وہی حصے متحرک ہو گئے جو منشیات استعمال کرنے والوں کے دماغوں میں بھی تحرک پیدا کرتے ہیں۔ ماہرین کی رو سے یہ تحرک ہم میں جوش و جذبہ اور لذت پیدا کرنے والے ہارمون، ڈوپامائن سے جنم لیتا ہے۔

(4) پیشین گوئی کرنے کی صلاحیت
جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دماغ کا سب سے اگلا حصہ، کورٹیکس فرنٹ پولر (Frontpolar Cortex) ماضی کے تجربات سے نتائج اخذ کر کے مستقبل کی پیشین گوئی کر سکتا ہے۔ وہ کسی قسم کی فوق البشر طاقت (سپرپاور) تو نہیں رکھتا تاہم تجربوں کے بل پر مختصر مدتی پیشین گوئیاں کرنے کے ضرور قابل ہے۔

(5) دماغی کمپیوٹر کھیل مفید نہیں
ایک تجربے میں ماہرین نے بیس بچوں کو تین ماہ تک کمپیوٹر میں کھیلے جانے والے دماغی کھیل (Brain games ) کھلائے۔ اس دوران بچے بعض سرگرمیاں بہتر انجام دینے لگے مگر ماہرین نے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ دماغی کھیل کام یا یادداشت اور سیکھنے کی صلاحیتوں پر مثبت اثرات نہیں ڈالتے۔ 

سید عاصم محمود

پاکستان میں ڈاک ٹکٹوں کی تاریخ

$
0
0

غیر ممالک کے ڈاک ٹکٹوں کی پہلی بار طباعت 

پاکستان نے پہلی مرتبہ 1965ء میں عراق‘ کویت اور نیپال کیلئے ڈاک ٹکٹ طبع کیے ان ٹکٹوں کی طباعت سکیورٹی پرنٹنگ پریس کراچی میں عمل میں آئی۔

 ایٹمی ری ایکٹر کے سلسلے میں ڈاک ٹکٹ

  پاکستان کا ایٹمی ری ایکٹر اپریل 1966ء میں نصب کیا گیا اس ضمن میں محکمہ ڈاک نے 30 اپریل کو 15 پیسے کا ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا جس پر ری ایکٹر کی تصویر بھی بنائی گئی۔ 

غیر ملکی ماہر علم فلکیات کی سالگرہ پر ڈاک ٹکٹ

  کوپرنیکس پہلا ماہر علم فلکیات ہے جس کی 500 ویں سالگرہ پر محکمہ ڈاک پاکستان نے 19 فروری 1973ء کو ڈاک ٹکٹ جاری کیا اس کا سائز 32.5x44.5 ایم ایم ہے۔ محکمہ ڈاک نے یہ ٹکٹ دس لاکھ کی تعداد میں شائع کئے۔ ٹکٹ سکیورٹی پرنٹنگ پریس نے طبع کیا۔ کوپرنیکس 19 فروری 1473ء کو ہالینڈ میں پیدا ہوئے۔ 

اسلامی سربراہی کانفرنس کے لیے ڈاک ٹکٹ

 پاکستان میں منعقد ہونے والی اسلامی ممالک کی پہلی اور ترتیب کے لحاظ سے دوسری سربراہ کانفرنس 22 فروری 1974ء کو لاہور میں منعقد ہوئی اس میں37 ممالک کے سربراہان اور ان کے نمائندوں نے شرکت کی۔ پاکستان میں اسلامی ممالک کے سربراہوں کی یہ پہلی کانفرنس تھی اور اس میں دوررس فیصلے کئے گئے مثلاً بنگلہ دیش کو تسلیم کیا گیا اور گنی بسائو (جو آزاد نہ ہوا تھا) کے نمائندوں نے بھی شرکت کی ڈاک ٹکٹوں کی تعداد دو تھی۔ ہر ایک ڈاک ٹکٹ پر اسلامی سربراہی کانفرنس کا نشان بنا ہوا تھا۔ ان کی مالیت علی الترتیب 20 پیسے اور 65 پیسے تھی۔ 

پہلے وزیراعظم جن کی تصویر ڈاک ٹکٹ پر چھپی 

نوابزادہ لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے جن کی تصویر پہلی بار 16 اکتوبر 1974ء کو ان کی 23 ویں برسی کے موقع پر ڈاک ٹکٹ پر چھپی۔

 ٹکٹ میں سونے کا استعمال 

قائداعظمؒ محمد علی جناح کے صد سالہ جشن (25 دسمبر 1976ء) کے موقع پر 10 روپے مالیت کا جو ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا اس ٹکٹ میں پہلی مرتبہ 25 ملی گرام (24,23 قیراط) سونا استعمال کیا گیا۔ اس کی طباعت فرانس میں عمل میں آئی۔ 

چھ ٹکٹوں کے ڈاک ٹکٹوں کا سیٹ 

14 اگست 1989ء کو یوم آزادی کے موقع پر پاکستان کے محکمہ ڈاک نے پہلی مرتبہ خصوصی طور پر قائداعظم کی پورٹریٹ والی نہایت خوبصورت اور پروقار تصویر کا چھ ٹکٹوں کا ایک سیٹ شائع کیا یہ ٹکٹیں چھ مختلف رنگوں میں تھیں اور ٹکٹوں کی مالیت ایک روپیہ‘ ایک روپیہ پچاس پیسہ‘ دو روپے‘ تین روپے‘ چار روپے اور پانچ روپے رکھی گئی۔ ان کے لیے کاسنی‘ نیلا‘ پیلا‘ سبز اور ہلکے سرخ رنگوں کا امتزاج پیدا کیا گیا ۔

 کسی ریاست کے الحاق کی پہلی سالگرہ پر یادگاری ٹکٹ کا اجراء 

13 اکتوبر 1948ء کو ریاست بہاولپور کی پاکستان سے الحاق کی پہلی سالگرہ پر ڈیڑھ آنہ کا یادگاری ٹکٹ ریاست بہاولپور کی جانب سے جاری کیا گیا۔ اس پر امیر آف بہاولپور نواب سر صادق محمد خان عباسی پنجم اور گورنر جنرل آف پاکستان قائداعظمؒ محمد علی جناح کی تصویر تھی۔ تصویر کے نیچے دونوں ریاستوں کے پرچم بنے ہوئے تھے۔ ان کی 5 لاکھ کاپیاں چھاپی گئی تھی۔ 

بیرون ملک قائداعظم کی ڈاک ٹکٹ پر تصویر 

29 مئی 1997ء کو جمہوریہ ترکی نے پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا اس پر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر بنی ہوئی تھی اس کی قیمت تیس ہزار لیرا رکھی گئی پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ جب کسی غیر ملک نے پاکستانی شخصیت کے بارے میں ڈاک ٹکٹ شائع کرنے کا اہتمام کیا۔ 

پاکستان کا پہلا پوسٹل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ 

 پاکستان کا پہلا پوسٹل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کراچی میں 1953ء میں قائم ہوا۔ غبارے کے ذریعے مقامی ڈاک کا بھیجا جانا: 23 فروری 1964ء کا دن پاکستان کی ڈاک کی تاریخ میں پہلا دن تھا جب مقامی ڈاک غبارے کی تاریخی پرواز کے ذریعے لانڈھی بھیجی گئی۔ بے نظیر بھٹو کی پہلی برسی پر یادگاری ٹکٹ کا اجراء: حکومت پاکستان نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی پہلی برسی 27 دسمبر 2008ء کو چار روپے کا یادگاری ٹکٹ اور 20 روپے کی سووینر شیٹ جاری کی۔ 

زاہد حسین انجم

(ماخذ: انسائیکلوپیڈیا واقعات پاکستان )

 

گوگل کا عبدالستار ایدھی کو خراج عقیدت

$
0
0

دنیا بھر میں اپنی سماجی خدمات کی بناءپر پاکستان کا نام روشن کرنے والے عبدالستار ایدھی (مرحوم) کی 89 ویں سالگرہ مقبول ترین سرچ انجن گوگل نے انہیں ایک ڈوڈل کے ذریعے خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ 28 فروری 1928 کو پیدا ہونے والے عبدالستار ایدھی کو ان کی سماجی خدمات کی بناء پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں جانا جاتا تھا۔ بھارتی گجرات میں پیدا ہونے والے قیام پاکستان کے بعد کراچی منتقل ہوگئے تھے اور یہاں مختلف شعبوں میں پاکستانیوں کی مشکالت کا احساس کرتے ہوئے انہوں نے اپنی زندگی دیگر افراد کی مدد کے لیے وقف کر دی۔
1951 میں ایدھی فاﺅنڈیشن کی بنیاد رکھی جس کو چلانے کے لیے لوگوں سے عطیات لیے جاتے تھے۔
اس زمانے میں بالکل صفر سے آغاز کرنے والے عبدالستار ایدھی نے پاکستان کو سب سے بڑا فلاحی ادارہ دیا اور پاکستانی کے ہیرو قرار پائے۔ انہیں کئی بار نوبل امن انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔ اپنی سوانح حیات 'اے میرر ٹو دی بلائنڈ'میں ایدھی صاحب نے لکھا، 'معاشرے کی خدمت میری صلاحیت تھی، جسے مجھے سامنے لانا تھا۔'عبدالستار ایدھی اور ان کی ٹیم نے میٹرنٹی وارڈز، مردہ خانے، یتیم خانے، شیلٹر ہومز اور اولڈ ہومز بھی بنائے، جس کا مقصد ان لوگوں کی مدد کرنا تھا جو اپنی مدد آپ نہیں کر سکتے۔ اس ادارے کا سب سے ممتاز حصہ اس کی 1500 ایمبولینس ہیں جو ملک میں دہشت گردی کے حملوں کے دوران بھی غیر معمولی طریقے سے اپنا کام کرتی نظر آتی ہیں۔

مذہب سے بالا تر ہو کر انسانی اقدار کو فروغ دینے اور لوگوں کو بااختیار بنانے کے سفر میں ایدھی کو کئی انتہا پسند سوچ رکھنے والوں کا سامنا کرنا پڑا، جنہوں نے ان کے کام کو غیر اسلامی اور ایدھی صاحب کو کافر تک قرار دے دیا۔ لیکن ایدھی صاحب نے اپنی انتھک کوششوں اور محنت کے ساتھ اپنے دشمنوں کے منہ بند کروا دیئے۔ انھیں اس کام میں اتنی عزت ملی کہ مسلح گروہ اور ڈاکو بھی ان کی ایمبولینس کو بخش دیا کرتے تھے۔ گزشتہ سال 8 جولائی کو طویل علالت کے بعد 88 برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کے انتقال بعد آنے والی پہلی سالگرہ پر گوگل نے ایک ڈوڈل کے ذریعے انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے جو پاکستان میں رات بارہ بجے اس سرچ انجن پر دیکھا جا سکے گا۔ تاہم جہاں 28 فروری شروع ہوچکا ہے (آسٹریلیا)، وہاں یہ ڈوڈل اپ لوڈ کیا جا چکا ہے۔ یہ ڈوڈل پاکستان سمیت آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان، امریکا، برطانیہ، پرتگال، یونان، سوئیڈن، آئس لینڈ اور جنوبی کوریا میں دیکھا جا سکے گا۔

جدوجہد آزادی کی کہانی، سید علی گیلانی کی زبانی

$
0
0

سیدعلی گیلانی جدوجہد آزادی کا جواں مرد ،بزرگ سو دن کی کہانی سنا رہا ہے۔ برہان مظفر وانی کی شہادت سے شروع ہونے والی کشمیر کی جدوجہد آزادی کے نئے اورتازہ مرحلے کی اس داستان میں ستر سال پر محیط مختلف ادوار کا احاطہ کیا گیا ہے جس نے علی گیلانی کے خطاب کو تاریخی دستاویز کا درجہ دے دیا ہے بھارت کی کٹھ پتلی سری نگر انتظامیہ کے خوف کا یہ عالم ہے کہ کشمیر ی ذرائع ابلاغ واخبارات کو یہ تقریر مکمل بلیک آئوٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔

میرے عزیز ہم وطنو!
اللہ کی رحمتیں آپ پر ہوں جو دو جہانوں کامالک ہے، وہ خدائے ذوالجلال، جس نے نہتے کشمیریوں کو دُنیا کی بہت بڑی فوجی طاقت کے سامنے کھڑا ہونے کا حوصلہ دیا وہ فوجی طاقت، بھارت جس نے ظلم وبربریت کو ہتھیار بنا کر ہماری مقدس سرزمین پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ خدائے مہربان کا فضل و کرم ہے جس نے نہتے، بہادر کشمیر ی عوام کی جرات اوردلیری کے سامنے دشمن کے ہیبت ناک ہتھیاروں کو بے معنی بنا کر رکھ دیا ہے اورآج کشمیری متکبر ہندو بادشاہت کی آہنی زنجیریں توڑ کر حصول آزادی کے حتمی مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ ہماری جدوجہد آزادی کا یہ مرحلہ اور اس کے سو دن مکمل ہو رہے ہیں۔ اس تاریخی مرحلے پر میں آپ کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے لازوال عزم و ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کی ہیبت ناک فوج کو نہتے، خالی ہاتھوں سے عظیم شکست سے دوچار کر دیا ہے۔ آج بھارت کے چہرے سے تمام نقاب اُتر چکے ہیں جمہوریت کی خوش نما نقاب، ترقی اور قانون کی حکمرانی کی نقابیں بھارتی فوجیوں کے بوٹوں تلے روندی جا رہی ہیں۔
میرے جوانو! آج ہمارے اورآزادی کے درمیان واحد رکاوٹ یہ بندوق بردار بھارتی فوجی ہیں جو اپنے محفوظ بنکروں میں خودکشیاں کر رہے ہیں جبکہ بھارتی ریاست ہمارے عزم وہمت کے سامنے لرز رہی ہے اگرچہ ان کے پاس لاکھوں بندوقیں ہیں لیکن وہ ہمارے سچ کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے کیونکہ کبھی بھی بندوقوں سے سچ کو قتل نہیں کیا جا سکا۔ گذشتہ سو دنوں میں ہم نے اپنے لہو سے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ سچائی کا بول بالا ہوتا ہے اورآزادی ہر بنی نوع انسان کا بنیادی حق ہے اورہم بھی آزادی کی منزل پا کر رہیں گے اورہر کشمیری مرد و زن اورہمارے معصوم بچوں نے دُنیا عالم پر یہ واضح کر دیا ہے کہ ہم سے زیادہ آزادی کا مستحق کوئی نہیں کہ آزادی کی منزل کبھی ایک لمحے کے لیے بھی ہماری نظر سے اوجھل نہیں ہوئی۔ بھارت فوجی محاذ پر اپنی شکست کوچھپانے کے لیے کٹھ پتلی کشمیریوں کومیدان میں لایا ہے جو یہ بے بنیاد پراپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ تحریک آزادی کے جاری باب کا انجام مایوسی اور شکست ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی روح بھارتی شیطانوں کے ہاتھ فروخت کر دی ہے جو ہمیں بے حوصلہ اور کم ہمت بنانے کے لیے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم سو دنوں سے جاری تازہ ترین جدوجہد میں کچھ حاصل نہیں کر پائے۔

موجودہ مرحلہ کئی دہائیوں سے جاری لازوال تحریک حریت کا تسلسل ہے ۔ ان بھارتی کٹھ پتلیوں کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں کہ انہوں نے ادنی مالی مفادات کے لیے اپنی روحیں دشمن کے پاس گروی رکھی ہوئیں ہیں۔ انہوں نے کشمیر کی خود مختاری کو قسطوں میں ادنیٰ مفادات کے لیے ہندوستان کے ہاتھوں بیچ دیا تھا یہ لوگ اپنی خفت مٹانے کے لیے اس طرح کا بے بنیاد اور لغو پراپیگنڈہ کر رہے ہیں کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ گذشتہ سو دنوں میں وہ رہی سہی عزت تکریم اورعوامی حمایت سے بالکل محروم ہو چکے ہیں۔ اب وہ بھارت کے اشارے پر اقوام عالم کی توجہ کشمیریوں کی تاریخی جدوجہد آزادی سے ہٹانے کے لیے علاقے میں جنگی جنون پیدا کر رہے ہیں یہ عناصر اپنے آپ کو دھوکہ دے سکتے ہیں لیکن وہ اقوام عالم اورحریت پسند کشمیریوں کو گمراہ نہیں کر سکتے ملت کشمیر پر یہ واضح ہو چکا ہے کہ بھارت کے ہاتھوں اپنی روح کا سوداکرنے والے مختلف ناموں سے حریت پسندوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہو کر اب متحد ہو رہے ہیں لیکن بھارت کا یہ پتلی تماشا بھی ناکام و نامراد ٹھہرے گا ۔

غاصب ہندو فوج نے کشمیر کے صدیوں پرانے تعلیمی نظام کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے لیکن یاد رکھو کہ ان ہتھکنڈوں سے ہماری نوجوان نسل کو جہالت کے اندھیروں میں نہیں دھکیلا جا سکتا اور آج کشمیر کا گھر گھر علم کے نور اور حریت فکر کے چراغوں سے روشن ہے۔ تعلیم برے بھلے، حق اور باطل میں تمیز سکھاتی ہے، تعلیم حق کی راہ پر چلنے کا حوصلہ دیتی ہے، تعلیم انصاف اور نا انصافی کے درمیان تمیز سکھاتی ہے اور انصاف کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونے کا سبق سکھاتی ہے۔ تعلیم محض خواندگی نہیں، بے جان حروف کی پہچان اور شناخت نہیں یہ تو ایسا نور ہے جو قلب و ذہن کومنور کرتا ہے جو سچائی اور برائی میں فرق کرنا سیکھاتا ہے جو انسانی ضمیر کو زندہ وبیدار کرتا ہے جو غلامی کی زنجیریں توڑنے کا حوصلہ بخشتا ہے علم کا یہ نور اورجذبوں کی یہ شمعیں مایوسی کے اندھیروں کو تار تار کرکے رکھ  دیتی ہیں یہ حوصلہ، یہ روشنی اورنور کا یہ سفر گذشتہ 70 سال پر محیط ہے.

 یہ کشمیر کی جدوجہد آزادی کی یادوں کے وہ روشن چراغ ہیں جنہوں نے ہماری راہیں منور کر رکھی ہیں یہ وہ روشنی ہے جو نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کی تاریک آنکھوں سے پھوٹ رہی ہے۔ جنہیں چھرے والی بندوقوں سے نشانہ بنا کر اندھا کردیا گیا تھا ۔ یہ وہ روشنی ہے جو ان تاریک عقوبت خانوں سے آ رہی ہے جہاں ہمارے کشمیری نوجوان قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں یہ روشنی جنت کے ان باغوں سے آ رہی ہے جہاں ہمارے شہداء خدائے مہربان کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں گذشتہ سو دنوں کے دوران ہم نے کئی نئے سبق سیکھے ہیں جبکہ ہمارے بچوں نے عملاً یہ دیکھا ہے کہ بھارت کے کٹھ پتلی کشمیری کس قدر کھوکھلے ہیں کہ ان پر ان کے اہل خانہ بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ۔

محمد اسلم خان 

صحرائے تھر کا خوب صورت پرندہ 'مور' : موت کے ہاتھوں بے بس

خان صاحب سے یہ امید نہ تھی

موبائل فون ایک متعدی بیماری بھی ہے ؟

$
0
0

آج کا لکھا پڑھا ہر پاکستانی نہ چاہتے ہوئے بھی میڈیا کی یلغار کی زد میں ہے۔ دنیا جہان کی خبروں پر ’’تسلط‘‘ حاصل کرنے کا جنون ہمارے دل و دماغ پر مسلط رہتا ہے۔ آج اوسط آمدنی والے ہر پاکستانی کے پاس ایک اوسط قیمت کا موبائل فون ضرور موجود ہے۔ کہنے کو تو یہ ٹیلی فون ہے اور ہم اس کے ذریعے ہر آن اپنے جاننے والوں سے منسلک رہتے ہیں لیکن اس انسلاک کے علاوہ بھی اس سیل فون کے استعمالات اتنے زیادہ ہیں کہ ہمیں کبھی تنہائی کا غم نہیں ستاتا۔ ذرا سی فراغت ملی اور ہم نے جھٹ موبائل نکال کر بٹن دبایا اور معلومات اور حیرت کا ایک پورا آفاق ہمارے سامنے پھیل گیا!

سکول ہو یا کالج یا یونیورسٹی آپ کسی بھی مضمون کے کسی بھی درجے کے سٹوڈنٹ ہوں آپ کے سارے سوالوں کے جواب موبائل پر موجود ہیں۔ آپ خدانخواستہ بیمار ہوں تو مختلف عوارض کی وجوہات اور ان کا علاج بمعہ پرہیز موجود ہے۔ حتیٰ کہ مختلف ادویات کی قیمتیں اور وہ جہاں جہاں سے دستیاب ہیں، سب کچھ آپ کی دسترس میں ہے۔ اگر آپ کا ڈاکٹر کے پاس جانے کا موڈ نہیں تو نہ سہی، موبائل آپ کی مدد کے لئے تیار ہے۔ آپ کسی بھی شعبے میں ہوں ،کسی بھی مضمون کے استاد، لیکچرار یا پروفیسر ہوں، آپ کو آپ کی استطاعت اور مبلغِ علم و ہنر کے مطابق ہر قسم کا مواد اس 3"x5"حجم والے موبائل میں مل جائے گا۔ زیادہ پڑھا لکھا ہونا بھی شرط نہیں۔ میں نے اَن پڑھ لڑکوں، لڑکیوں، مردوں اور خواتین کو اس آلے سے حسبِ توفیق مستفید ہوتے دیکھا ہے۔
اس کے اندر معلومات و اطلاعات کا جو خزانہ مدفون ہے اس کو کھود کر باہر نکالنے کے لئے کسی جسمانی مشقت یا محنت وغیرہ کی ضرورت بھی نہیں۔ آپ کو اگر دماغ سے کام لے کر انگلیاں چلانی آتی ہیں تو کوئی نہ کوئی دوست یار آپ کو ضرور بتا دے گا کہ فلاں بٹن کو دباؤ تو فلاں چیز سامنے آ جائے گی۔ یعنی اس ایکسرسائز میں زیادہ تعلیم و تعلّم کی کوئی ضرورت نہیں۔ اور کچھ نہیں تو صرف پانچ سات روپے روزانہ میں آپ جس سے جتنی دیر چاہیں بات چیت کر سکتے ہیں۔۔۔۔ پیکیج زندہ باد۔۔۔

ہرکس و ناکس کی جیب میں یہ آلہ موجود ہے۔ پھر یہ سہولت بھی موجود ہے کہ اگر آپ نہ چاہیں تو آپ کی خلوت و جلوت میں اس آلے کے دخیل درمعقولات ہونے کی کوئی گنجائش نہیں۔ آپ اسے شٹ اپ کال دے کر ’’سلا‘‘ سکتے ہیں اور پھر جب دل چاہے، جگا بھی سکتے ہیں۔ ایسا بندۂ بے دام آپ نے ماضی میں کسی الف لیلوی داستان میں بھی شاید ہی پڑھا سنا ہو گا۔ اگر یہ کہیں گم ہو جائے یا گر کر ٹوٹ جائے تو کوئی غم نہیں۔ بازار سے دوسرا مل جائے گا۔ یہ آپ کی جیب پر منحصر ہے کہ آپ کتنا مہنگا یا کتنا سستا موبائل افورڈ کر سکتے ہیں۔ ایک ڈیڑھ ہزار سے لے کر ایک ڈیڑھ لاکھ تک کے موبائل عام بِک رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ایک ڈیڑھ ہزار والا موبائل صرف ٹیلی فون ہے لیکن اس کے بعد ’’فروعات‘‘ کی اتنی طویل قطار ہے کہ سارے ’’اصول‘‘ پسِ پشت دھکیل دیئے جاتے ہیں۔۔۔ یہی وہ ’’مسئلہ‘‘ ہے جس پر کچھ عرض کرنے کیلئے میں نے اس کالم کا سہارا لیا ہے۔

ہماری قوم کو بالعموم یہ معلوم نہیں کہ اس موبائل کے، ٹیلی فون کے علاوہ، جتنے اضافی فوائد گنوائے جاتے ہیں وہ فائدے کم اور نقصانات زیادہ ہوتے ہیں۔ فائدوں کی طرف تو میں نے سطور بالا میں کچھ اشارے کر دیئے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی قسم کے گفتنی اور ناگفتنی فوائد اور نقصانات بھی ہیں جن کے استعمال سے پوری قوم اگر فائدہ لے رہی ہے تو ساتھ ساتھ ایسے نقصانات بھی خرید رہی ہے جن کے اثرات گہرے اور مستقل بلکہ انمٹ ہوتے ہیں۔آج نہیں تو آنے والے کل میں اگر آپ کو نہیں تو آپ کی آئندہ نسل کو لگ پتہ جائے گا! ویسے ان فوائد و نقصانات کی گوناگونی کا حصول آپ کے اپنے بس میں ہے۔ لیکن میں نے اس ذیل میں جس قدر سوچا ہے مجھے معلوم ہوا ہے کہ نقصانات کا تناسب فوائد کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

ان نقصانات کو گنوایا جائے تو بعض مرئی (Visible) ہیں اور بعض غیر مرئی (Invisible) ۔۔۔ مرئی نقصانات کی اگرچہ کوئی حد نہیں لیکن اصل نقصان یہ ہے کہ آپ ان مرئی نقصانات کو پلک جھپکنے میں اپنے دوستوں میں بھی ’’مفت‘‘ تقسیم کر سکتے ہیں۔۔۔ یہ متعددی المتعدی مرض ہے۔۔۔کچھ مہذب لوگ، اس کے ذریعے مہذب ویڈیوز اور مرئی تصاویر کو اپنے احباب میں تقسیم کر کے عند اللہ ماجور ہو جاتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو غیر مہذب بلکہ انتہائی ناگفتنی ویڈیوز کو چشم زدن میں درجنوں لوگوں تک بانٹ بانٹ کر ایک گونہ نشاط سے سرشار رہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں آپ کا موبائل ایک دو دھاری تلوار ہے۔ آپ اسے دشمن کے خلاف بھی استعمال کر سکتے ہیں اور خود اپنا گلا بھی کاٹ سکتے ہیں۔ لیکن آپ کا دشمن چونکہ آپ کی زد میں نہیں ہوتا اور بالعموم دوست ہی نشانے پر ہوتے ہیں اس لئے یہ تلوار دوستوں کو زیادہ کاٹتی ہے۔ ایک بار جب آپ کے احباب اس قسم کی یلغاروں کے عادی ہوجاتے ہیں تو وہ نت نئی یلغاروں کے منتظر رہتے ہیں۔

یہ چند الفاظ جو میں اس کالم میں لکھ رہا ہوں یہ محض مختصر ترین اشارے ہیں۔ بس تھوڑے لکھے کو زیادہ جانئیے گا۔ ان کی تفصیلات کی کوئی حد نہیں اور اس میں یہ تخصیص بھی نہیں کی جاتی کہ کس کو کیا دنیا سے اور کس سے کیا لینا ہے۔ یہ ’’لین دین‘‘ بعض حالات میں اتفاقی اور حادثاتی بھی ہو جاتا ہے۔ آپ کے موبائل میں ’’فیس بک‘‘ اور ’’واٹس آپ‘‘ دو ایسی Apps ہیں جو بیک وقت مضرت رساں بھی ہیں اور فائدہ مند بھی۔ لیکن فائدہ ہو یا نقصان ’’وقت کا ضیاع‘‘ ایک ایسا مشترک سٹرٹیجک عنصر ہے جس کی طرف ہماری توجہ نہیں جاتی۔ ہم فیس بک کھولتے ہیں تو اپنے دوست احباب کے علاوہ پوری دنیا کے مناظر نگاہوں تلے گھوم جاتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک منظر زیادہ جاذبِ توجہ نظر آتا ہے۔ بعض باکمال تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں اوربعض لاجواب تحریریں پڑھنے کو۔ ان کے علاوہ لاتعداد Apps ہیں جو آپ کوچونکا دینے والی ہوتی ہیں۔

اس نظری چکاچوند میں آپ کو احساس نہیں رہتا کہ آپ اپنی زندگی کی سب سے قیمتی متاع یعنی ’’وقت‘‘ کو ضائع کر رہے ہیں۔ آ پ کے وقت کا ایک ایک لمحہ کتنا قیمتی ہے، آپ کو اس کا احساس نہیں۔ یہ ایک فلسفیانہ موضوع ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جس ’’لمحے ‘‘یا جن لمحات میں آپ کو تفکر اور تدبر کرنا ہوتا ہے وہ اوقات مختلف فضول تصاویر و تحاریر کو دیکھنے اور پڑھنے میں گزر جاتے ہیں۔ اگر اس نکتے پر ذرا اور بلند نگاہی سے غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ’’فیس بک‘‘ اور ’’واٹس آپ‘‘ وغیرہ کے تماشوں نے آپ کو تفکر و تدبر کے جذبہء ایجاد سے غافل کر دیا ہے۔ کوئی ایجاد، کوئی نیا آئیڈیا، کوئی نادر نکتہ یا کوئی اچھوتا خیال اس وقت تک آپ کے ذہن میں نہیں آتا جب تک ذہن کو خلوت کی دولت میسر نہیں آتی ۔آپ کا یہ موبائل آپ کی متاعِ خلوت کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ آپ کی ظاہری نگاہیں جب موبائل کی سکرین پر تیر رہی ہوتی ہیں تو تفکر و تدبر کی سکرین اُس ایک باطنی نگاہ کو سامنے نہیں لاتی جس کو انگریزی زبان کے ایک مشہور شاعر نے ’’عطائے خلوت‘‘ کا نام دیا ہے۔

ورڈز ورتھ کی ایک مشہور نظم ’’کنول کے پھول‘‘ کے نام سے آپ کی نگاہوں سے گزری ہو گی۔ اگر اب تک ایسا نہیں ہوسکا تو آپ اپنے موبائل پر ورڈز ورتھ اور ڈیفوڈل (Daffodils) ٹائپ کر کے اس نظم کا آخری بند ضرور پڑھئیے جس کا اردو ترجمہ یہ ہے :’’ میں اکثر اوقات جب بھی اپنے بستر پر لیٹتا ہوں اور مجھ پر تفکر و تدبر کا موڈ طاری ہوتا ہے تو کنول کے یہ پھول میری ان باطنی آنکھوں تلے پھیل جاتے ہیں جن کو تنہائی کی عطا کہا جاتا ہے۔۔۔۔ اس تنہائی کے لمحے کو پا کر میرا دل مسرت سے معمور ہو جاتا ہے اور میں کنول کے ہمراہ (بے خود ہو کر) ناچنے لگتا ہوں‘‘۔ 

چلئے میں آپ کو نظم کی تلاش کی زحمت نہیں دیتا اور اسی بند کو یہاں درج کر دیتا ہوں جو اس طرح ہے:
For oft when on my couch I lie
In vacant or in pensive mood
They flash upon that inward eye 
Which is the bliss of solitude
And then my heart with pleasure fills 
And dances with the daffdills

مجھے 101 فی صد یقین ہے کہ اگر آپ کے ہاتھ میں موبائل پکڑا ہوا ہے تو آپ کو وہ مسرت میسر نہیں آسکتی جو صرف اور صرف ’’خلوت کی عطا‘‘ ہے۔ یہ خلوت صرف خدا کے برگزیدہ بندوں کو نصیب ہوتی ہے ہر کسی کو نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ عہد حاضر کی نسل کو چونکہ موبائل فون نے خلوت کی دولت سے تقریباً فارغ کر دیا ہے اسی لئے وہ تفکر و تدبر کرنا نہیں جانتی اور جب تک تفکر و تدبر کسی انسان کو نصیب نہیں ہوتا وہ افکارِ تازہ کا خیال دل و دماغ میں نہیں لاسکتا۔ آج کے انسان کا المیہ یہی ہے کہ ان مشینوں اور ان مکینیکل کھلونوں نے ہم جیسی پس ماندہ (یا زیادہ سے زیادہ ترقی پذیر قوم ) کو کسی جذبہء ایجاد سے عاری اور کسی تصورِ جدیدہ سے فارغ کر رکھا ہے۔ اہل مغرب کی بات اور ہے۔ انہوں نے یہ کھلونے ہم جیسی اقوام کے ہاتھوں میں دے کر ہماری رہی سہی قوتِ ارتکاز (Power of Concentration) کو بھی منتشر کر دیا ہے۔

پاکستانی قوم میں یہ شعور پیدا ہونے میں شائد بہت وقت لگے کہ موبائل فون جیسے میڈیا ئی کھلونوں کو ہم نے اپنے بچوں اور جوانوں کے ہاتھوں میں دے کر ان کے اندر رہی سہی استعدادِ ایجاد بھی ختم کر دی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر کبھی یہ شعور بیدار ہو بھی جائے تو تب شائد اس ’’چمکتی دمکتی بیماری‘‘ کا علاج ممکن نہ رہے!

لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان 


ویڈیو گیمز : بچوں کو ڈپریشن کا مریض بناتی ہیں ؟

$
0
0

بچوں کو آئوٹ ڈور سرگرمیوں کا عادی ہونا چاہیے۔ ان سرگرمیوں سے ان کی ذہنی
اور جسمانی صلاحیت بڑھتی ہے۔ والدین بچے کی اِن ڈور سرگرمیوں کو کم کر آئوٹ ڈور سرگرمیوں کے لئے بھی موقع اور وقت دیں تا کہ اس کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ ہو اور وہ ڈپریشن میں مبتلا نہ ہو۔ مغرب میں بچوں کو اسکول اور کالج میں وڈیو گیمز کی بجائے اسکریبل اور ایسے دوسرے کھیلوں میں دلچسپی پیدا کی جاتی ہے۔ جس سے ان کا آئی کیو لیول بڑھتا ہے اور وہ تعلیم کے میدان میں بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ طبی ماہرین کے نزدیک وڈیو گیمز بچوں کو ڈپریشن کا مریض بناتی ہیں، نئی تحقیق کے مطابق زیادہ وڈیو گیم کھیلنا بچوں کی ذہنی صحت کے لیے اچھا نہیں۔ 
مگرہمارے ہاں والدین اپنے بچوں کو وڈیو گیمز کا تحفہ بہت خوشی سے دیتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں وڈیو گیمز بچوں کا سب سے پسندیدہ مشغلہ ہیں۔نیویارک میں ایک فلاحی تنظیم نے ہائی اور پرائمری اسکولوں کے تقریباً تین ہزار بچوں پر دو سال تک تحقیق کی۔ جس کے بعد بین الاقوامی ماہرین کے ایک گروپ نے یہ نتیجہ نکالا کہ وڈیو گیمز کوزیادہ وقت دینے والے بچوں میں ڈپریشن اور پریشانی بڑھ جاتی ہے ، وہ دوسروں سے ملنے جلنے سے گھبراتے ہیں،وہ کسی سے میل جول پسند نہیں کرتے اور تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک امریکی ادارے کا کہنا ہے کہ چھوٹے بچوں کو روزانہ ایک گھنٹے سے زیادہ وڈیو گیمز کھیلنے، کمپیوٹر استعمال کرنے یا ٹی وی دیکھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی کچھ طبی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طرح سے بچوں کے اعصابی بیماری میں مبتلا ہونے کا امکان ہوتا ہے کیونکہ بچہ وڈیو گیمز کے کریکٹرز کے ساتھ ساتھ خود کوبھی اس کا حصہ محسوس کرتا ہے ۔ 

اس طرح اس میں جذباتی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو اس کے لیے ٹھیک نہیں۔ دور حاضر میں جدید سے جدید وڈیو گیمز تیار کی جا رہی ہیں ۔ اینی میشن کے استعمال سے بھی بچوں کو اس طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کامک بکس کے کردار بھی وڈیو گیمز کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اس وجہ سے بچوں کی وڈیو گیمز میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کی خاطر اس پر کنٹرول کرنا سب والدین کا فرض ہے۔  

طاہرہ منیر

پاکستان میں ہائی بلڈ پریشر اور امراض قلب میں تشویشناک اضافہ

سماجی تنہائی کا سبب سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال

$
0
0

امریکی ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ٹوئٹر، فیس بک اور پنٹریسٹ جیسی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی وجہ ہے زیادہ تعداد میں لوگ تنہائی محسوس کر رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایک دن میں دو گھنٹے سے زیادہ سوشل میڈیا کے استعمال سے ایک فرد میں سماج سے الگ تھلگ ہونے کے امکانات دگنے ہوسکتے ہیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دوسرے افراد کی زندگیوں کے خیالی تصور سے حسد کے جذبات پیدا ہوسکتے ہیں۔ یونیورسٹی آف پٹسبرگ کے شعبہ طعبیات کی پروفیسر اور رپورٹ کی معاون مصنف الزبتھ ملر کا کہنا ہے کہ ’یہ تحقیق انسٹاگرام، سنیپ چیٹ اور ٹمبلر استعمال کرنے والوں سے متعلق ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ پہلے کیا آتا، سوشل میڈیا کا استعمال یا پہلے سے ہی موجود تنہائی کا رجحان۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ممکن ہے کہ نوجوان جو ابتدائی طور پر معاشرے میں تنہا محسوس کرتے ہیں انھوں نے سوشل میڈیا کا رخ اختیار کیا ہو ۔ یا یہ ان کا سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے وہ حقیقی دنیا میں تنہائی محسوس کرنے لگ گئے ہوں۔‘ اس رپورٹ کے مطابق ایک فرد جتنا زیادہ وقت آن لائن صرف کرتا ہے اتنا ہی کم وقت وہ حقیقی دنیا میں میل جول کرتا ہے۔ سوشل میڈیا کے استعمال سے بے دخل کیے جانے کے جذبات بھی بڑھ سکتے ہیں، جیسا کہ کسی تقریب میں دوستوں کی تصویر دیکھنا جہاں آپ کو مدعو نہ کیا گیا ہو۔
یہ تحقیق کرنے والی ٹیم نے 19 سے 32 سال کے عمر کے تقریبا 2000 افراد سے سوشل میڈیا کے استعمال کے بارے میں سوالات کیے تھے۔ یونیورسٹی آف پٹسبرگ کے سکول آف میڈیسن کے پروفیسر برائن پریمیک کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک اہم معاملہ ہے کیونکہ دماغی صحت کے مسائل اور سماجی تنہائی نوجوانوں میں وبائی امراض کی سطح پر ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم خلقی طور پر سماجی جانور ہیں، لیکن جدید زندگی ہمیں یکجا کرنے کے بجائے تقسیم کرنے کا رجحان رکھتی ہے۔‘ وہ کہتے ہیں: ’اگرچہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سوشل میڈیا سماجی تنہائی ختم کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وہ حل نہیں جس کی لوگ امید کر رہے ہیں۔‘

اب آخر میں سب کچھ خراب ہو رہا ہے

$
0
0

پاک افغان سرحد پر ایک افغان خاتون دم توڑ گئیں جبکہ بیشتر بیمار افراد سرحد پر
لاٹھی کے سہارے کی تلاش میں رہے تا کہ انھیں دو فرلانگ کا فاصلہ پیدل کرنے میں مدد مل سکے۔ احمد اللہ کی زوجہ نور ضیا منگل کو سفری کاغذات کے ساتھ افغانستان جا رہی تھی کہ سرحد کے قریب بھگدڑ مچنے سے وہ گر گئیں اور پھر سنبھل نہ سکیں۔ حکام کے مظابق نور ضیا افغانستان کے علاقے پروان کی رہنے والی تھیں لیکن سرحد پر دم توڑ گئیں جس کے بعد ان کی میت ان کے رشتہ دار ایک ایمبولینس میں ڈال کر افغانستان لے گئے۔ سرحد پر صرف نور ضیا ہی بیمار نہیں تھیں بلکہ سینکڑوں افراد ایسے تھے جو علاج کے لیے پشاور آئے تھے لیکن سرحد کی بندش کی وجہ سے یہاں پھنس گئے تھے۔ کسی نے گردے کا آپریشن کروا رکھا تھا تو کوئی سر پر پٹیاں باندھے کھڑا تھا۔

زبیح اللہ کی عمر 30 سال ہے اور وہ لمبی قطار میں کھڑے اپنی باری آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ علاج کے لیے پشاور آئے تھے۔
زبیح اللہ نے کہا کہ انھوں نے ڈاکٹر سے معائنہ کروانے کے بعد ادویات خریدی تھیں اور واپسی کے لیے تیار تھے کہ سرحد بند ہو گئی، اب صبح سے یہاں کھڑے ہیں کبھی خاصہ دار ایک طرف دھکا دیتے ہیں تو کھبی میلیشیا کے اہلکار دوسری جانب کھینچتے ہیں۔ طور خم سرحد پر جہاں واپس جانے والے افراد کے پاسپورٹ اور کاغذات کی جانچ پڑتال کی جا رہی تھی وہاں سے دو فرلانگ تک واپس جانے والے افراد کی قطاریں بھی تھیں۔ سکیورٹی پر تعینات اہلکار انھیں قطار میں کھڑے رہنے کی بار بار تلقین کرتے رہے۔
ایک بزرگ لمبی قطار میں کافی دیر تک کھڑے رہنے کے بعد بیٹھ گئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ مزید کھڑے رہنے کی سکت نہیں رکھتے، ہڈیوں میں دم نہیں رہا اس لیے بیٹھ گیا تھا۔ ایک فارسی بولنے والے بزرگ ہتھ ریڑھی میں اپنے جوان بیٹے کو لے جا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا جوان بیٹا بیمار ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے کاغذات کی جانچ پڑتال جلد ہو جائے تا کہ وہ اپنے وطن واپس جا سکیں۔ سرحد پر ایک کونے میں بیٹھی خواتین روتے بچوں کو خاموش کراتی رہیں اور ہر اس شخص کو بڑی امید بھری نظروں سے دیکھتیں جن پر انھیں یہ توقع ہوتی کہ وہ ان کی کوئی مدد کر سکتے ہیں۔

امیگریشن سے فارغ ہو کر واپس جانے والے ایک افغان حاجی شاہ ولی نے بتایا کہ وہ مجبوری کے تحت یہاں آئے تھے۔ حاجی شاہ ولی نے کہا کہ ایک طرف قندوز کے حالات خراب ہیں دوسری جانب افغان حکومت مشکلات کا شکار ہے۔ وہ کیا کریں 40 سال تک پاکستان کے لوگوں نے ہمارے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا لیکن اب آخر میں سب کچھ خراب ہو رہا ہے۔ افغان شہریوں نے پاکستان آنے کی مختلف وجوہات بتائیں۔ ایک بچی کا پشاور میں برین ٹیومر کا علاج ہو رہا تھا لیکن ان کے بھائی انھیں اس لیے واپس لے گئے کیونکہ انھیں یہ خدشہ تھا کہ اگر سرحد پھر سے بند ہو گئی تو وہ واپس کیسے جائیں گے۔

پاک افغان سرحد پر کچھ عرصہ پہلے تک دونوں جانب سے روزانہ آٹھ سے دس ہزار افراد سرحد عبور کرتے تھے لیکن جب پاسپورٹ اور ویزے کی شرط عائد کی گئیں تو اس کے بعد یہ آمد و رفت کم ہو کر 1500 تک رہ گئی۔ ایک اندازے کے مطابق سرحد کی بندش سے 25 ہزار افراد پاکستان میں پھنس گئے تھے اور اب انھیں واپسی کے لیے صرف دو روز دیے گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر ایک دن میں پانچ ہزار افراد کے کاغذات کو جانچ پڑتال کے بعد واپسی کی اجازت دی جائے تو دو دن میں صرف دس ہزار افراد ہی واپس جا سکیں گے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی واپسی کے لیے زیادہ وقت درکار ہو گا۔

عزیزالله خان
بي بي سي اردو ڈاٹ کام، طور خم

سی آئی اے کے’ ہیکنگ میں استعمال ہونے والے خفیہ ہتھیار‘

$
0
0

وکی لیکس نے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی جانب سے ہیکنگ میں
استعمال ہونے والے خفیہ ہتھیاروں کی تفصیلات کو جاری کیا ہے۔ وکی لیکس کی جانب سے شائع کیے جانے والے ہیکنگ کے مبینہ ہتھیاروں میں ونڈوز، اینڈرائڈ، ایپل کے آئی او سی آپریٹنگ سٹسم، او ایس ایکس، لینکس کمپیوٹرز اور انٹرنیٹ روٹرز کو متاثر کرنے والے وائرس یا نقصان دے سافٹ وئیر بھی شامل ہیں۔ وکی لیکس کے مطابق ہیکنگ میں استعمال ہونے والے چند سافٹ وئیر سی آئی اے نے خود ہی تیار کیے ہیں تاہم برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو کے بارے میں اطلاع ہے کہ اس نے سام سنگ کے ٹی وی سیٹس کی ہیکنگ میں استعمال ہونے والے جاسوسی کے سافٹ ویئر کو تیار کرنے میں مدد کی تھی۔

سی آئی اے کے ایک ترجمان نے افشا ہونے والی معلومات کی تصدیق کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم مبینہ انٹیلیجنس دستاویزات کی صداقت یا اس کے مواد پر بیان نہیں دے سکتے۔ دوسری جانب برطانوی دفتر داخلہ نے بھی دستاویزات پر ردعمل دینے سے اجتناب کیا ہے۔ بی بی سی کے سکیورٹی نامہ نگار گورڈن کوریرا کے مطابق امریکی ادارے نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کو اس وقت شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا جب اس کے ایک ملازم ایڈورڈ سنوڈن نے اس کی خفیہ معلومات کو افشا کیا تھا اور اب بظاہر سی آئی اے کو بھی اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے۔
وکی لیکس کا کہنا ہے کہ اس کے ذرائع نے معلومات کا تبادلہ کیا ہے تا کہ اس بحث کو شروع کیا جا سکے کہ آیا سی آئی اے کی ہیکنگ صلاحتیں اس کو حاصل اختیارات سے تجاوز ہیں۔ وکی لیکس کے مطابق سی آئی اے گاڑیوں کے کمپیوٹر کنٹرول سسٹم کو ہیک کرنے کے طریقوں پر کام کر رہی تھی اور ہو سکتا ہے کہ اس طریقہ کار کے ذریعے کسی کو مارنے میں استعمال کیا ہو تا کہ وجوہات کے بارے میں کسی کو معلوم نہ ہو سکے۔ اس کے علاوہ ایسے طریقہ کار ایجاد کیے جن کے ذریعے ایسے کمپیوٹرز اور مشینوں کو ہیک کیا جا سکے جو انٹرنیٹ یا کسی غیر محفوظ نیٹ ورکس سے منسلک نہیں ہیں۔

ہیکنگ کے طریقہ کاروں میں معلومات کو تصاویر یا کمپیوٹر میں مواد کو ذخیرہ کرنے والے خفیہ حصوں میں چھپانا، وائرس کے خلاف کام کرنے والے سافٹ وئیرز پر حملے، جبکہ ہیکنگ کے طریقہ کاروں پر مبنی ایک لائبریری کی تشکیل شامل ہے۔ جس میں روس اور دیگر جگہوں سے چوری کیے جانے والے نقصان دے سافٹ وئیر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سام سنگ، ایچ ٹی سی، سونی کی تیار کردہ مصنوعات ہیکنگ میں متاثر ہوئی جس کی مدد سے سی آئی اے واٹس ایپ، سگنل، ٹیلی گرام، ویئبو اور چیٹ کی دیگر ایپس پر ہونے والی چیٹ یا بات چیت کو پڑھ سکتی ہے۔

اس کے علاوہ دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سی آئی اے نے آئی فونز، آئی پیڈز کو ہدف بنانے کے لیے خصوصی یونٹ قائم کیا جس کے ذریعے معلوم کیا جا سکتا تھا کہ صارف کس جگہ موجود ہے، ڈیوائسز کے کمیرے اور مائیکرو فون کو آن کیا جا سکتا تھا اور فون پر ٹیکسٹ پیغامات کو پڑھا جا سکتا تھا۔ وکی لیکس کی جانب سے افشا کی جانے والی 2014 کی دستاویز کے مطابق سام سنگ کے سمارٹ ٹی وی سیٹس ایف 8000 کو ہیک کرنے کے منصوبہ کا خفیہ نام ویپنگ اینجل تھا جس میں صارفین کو بیوقوف بنایا جاتا تھا کہ ان کے ٹی وی بند ہو گئے ہیں لیکن اصل میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ دستاویزات کے مطابق ٹی وی سیٹ خفیہ طور پر آوازیں ریکارڈ کرتا اور بعد میں انٹرنیٹ کے ذریعے سی آئی اے کے کمپیوٹر کو منتقل کر دی جاتیں۔

ناکام افراد نا امید نہ ہوں

$
0
0

آپ کے ساتھ ایسا کئی بار ہوا ہو گا کہ مقابلے کے امتحان دیئے اور فیل ہوئے۔
کوئی کاروبار شروع کیا تو پیسہ ڈوب گیا ، جس کام میں ہاتھ ڈالا ناکامی ہوئی حتی کہ آپ کو کسی کام کے لئے جس میں آپ کا شوق تھا نااہل قرار دے دیا گیا ۔ زندگی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے ہر دوسرا فرد ناکامی کا منہ ضرور دیکھتا ہے ہاں کچھ لوگ بہت زیادہ ناکام ہوتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ قابل نہیں انہیں اس دنیا میں جینے کا حق نہیں ۔ لیکن ہوتا یہی ہے کہ جب بار بار کوئی ناکام ہوتا ہے تو معاشرہ اسے کم تر سمجھنا شروع کر دیتا ہے گھروالے طعنے دینے لگتے ہیں ۔ یار دوست بھی سخت سست کہتے ہیں جس کا بس چلتا ہے وہ تضحیک بھی کر دیتا ہے اور کمزور دیکھتے ہوئے لوگ اس کی گردن پر پورا پائوں بھی رکھ دیتے ہیں ۔ ناکام لوگوں کا لوگ مذاق اڑاتے ان کا جیتا حرام کر دیتے ہیں ۔
ناکام ہونے والے افراد بعض اوقات بددل ہوکرمعاشرہ سے الگ تھلگ ہوجاتے ہیں۔ دنیا ایسے افراد سے بھی بھری پڑی ہے جنہیں ناکام کہا گیا لیکن وہ منشہ ء شہود پر ستارہ بن کر ابھرے۔ بھارت کے سابق صدر ڈاکٹر عبدالکلام جوپائلٹ بننے گئے لیکن ناکام ہوئے بعد میں وہ انڈیا کے عظیم سائنسدان بنے۔ آئین سٹائن کو کلاس میں استاد سخت سست اور حساب میں زیرو کہتے تھے لیکن وہ دنیا کے عظیم سائنسدان بنے۔ ایپل کمپنی کے مالک سٹیو جاب جگہ جگہ ناکام رہے۔ غربت کی وجہ سے سافٹ ڈرنکس کی خالی بوتلیں فروخت کرکے کھانے کا اہتمام کرتے رہے لیکن بعد میں وہ ایک عظیم کمپنی بنانے میں کامیاب ہوئے۔ سابق امریکن صدر رونالڈریگن کو کہا گیا کہ وہ اداکاری نہیں کرسکتے انہوں نے اس شعبہ میں بھی خود کو منوایا تاہم سیاست میں آنے کی وجہ سے اداکاری کو خدا حافظ کہا۔

فاسٹ بائولر شعیب اختر کو کہا گیا کہ تمہارے پائوں چپٹے ہیں تم فاسٹ بائولر نہیں بن سکتے لیکن وہ دنیائے کرکٹ کے عظیم بیٹسمینوں کو فاسٹ بائولنگ سے خوف زدہ کرتے رہے ۔ وسیم اکرم کو شروع میں لاہور ٹیم کے ٹرائل میں ڈراپ کیا گیا لیکن بعد میں وہ عالمی کرکٹ میں عظیم کرکٹر بن کر ابھرے ۔ اسی طرح کے واقعات سے تاریخ بھری پڑ ی ہے کہ جب انسان بار بار ناکام ہوا لیکن اپنے جذبہ کو ناکام نہیں ہونے دیا ۔ قابلیت کو زنگ نہ لگنے دیں ۔ جس دن قابلیت کو زنگ لگا دیا اس دن آپ ناکامی کا حصہ بن گئے ۔ ناکامیاں اورغلطیاں بہت کچھ سکھاتی ہیں ۔ سٹیو جاب ہی نے کہا تھا کہ ’’Mistakes are big schools‘‘ ۔ دنیا نے ہمیشہ فاتح کو کندھوں پر اٹھایا جو ناکام ہوا اس کو ایسا برا بھلا کہا کہ کئی بد دل ہو کر وہ فیلڈ ہی چھوڑ گئے ۔

لوگ ہمیشہ چمکنے والی چیز کی طرف بھاگتے ہیں لیکن ناکام ہونے والے کو کوئی دلاسہ نہیں دیتا ۔ مقابلے کا امتحان پاس کرلیا تو کہیں گے واہ جی واہ دن رات پڑھتا تھا کہیں نہیں جاتا تھا شادی ہو کوئی تقریب ہو وہ کہیں شریک نہیں ہوتا تھا اس لئے کامیاب ہوا اور اگر فیل ہو گیا تو چاہے جتنا مرضی پڑھتا رہا ہو طعنے یہ ملیں گے کہ پڑھتا ہی نہیں تھا لاپرواہ بہت تھا جو جو ڈھکی چھپی خامیاں ہونگی سامنے لے آئیں گے۔ کبھی ہارنے والے کو کوئی گلے سے نہیں لگاتا ۔ ہارنے والوں اور ناکام لوگوں کو اگر گلے سے لگانے کی رسم چل پڑ ے تو یقین جانئے یہ ناکام لوگ ہی دنیا کی قسمت بدل دیں گے یہ ٹھکرائے ہوئے لوگ ذرا سے دلاسے سے زندگیوں میں انقلا ب لے آئیں گے ۔ بات صرف کسی کو کم تر نہ سمجھنے اور حوصلہ دلانے کی ہے ۔ یہ حوصلہ ہی ہے جو پستوں کو جلا بخشتا ہے اور جینے کی نئی تمنا دیتا ہے ۔ ناکام لوگوں سے بھی گزارش ہے کہ ناکامیوں سے خوف زدہ نہیں ہونا یقین جانئے آپ بہت قابل ہیں بس قسمت نے ساتھ نہیں دیا ۔ محنت سے لگن سے آپ قسمت بھی بدل سکتے ہیں ۔ بس اپنی قابلیت کو زنگ نہ لگنے دیں ورنہ وہی طعنے دینے والے لوگ پھر جیت جائیں گے ۔

طیب رضا عابدی

ملک کی 84 فیصد آبادی پینے کےصاف پانی سے محروم

$
0
0

سینیٹ میں پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 84 فیصد آبادی کو
پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں جبکہ ملک کے متعدد کمرشل بینک گذشتہ تین سال کے دوران 475 ارب روپے غیرمتوقع اضافہ منافع حاصل کر چکے ہیں۔ تحقیقاتی کونسل برائے آبی وسائل پاکستان (پی سی آر ڈبلیو آر) کی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین کا کہنا تھا کہ ملک میں پانی کی سپلائی کرنے والے 72 فیصد منصوبے فعال ہیں اور ان میں سے 84 فیصد منصوبوں سے فراہم ہونے والا پانے پینے کے قابل نہیں۔

وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کے مطابق سندھ اور پنجاب کو 14 فیصد پانی کی سپلائی میں آرسینک (سنکھیا) کی بھاری مقدار سامنے آئی جو اس کی مقررہ حد سے کہیں زیادہ تھی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گذشتہ 4 سال کے دوران پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر 279 ارب روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔ خیال رہے کہ اس منصوبے کے تحت آبی وسائل کونسل کی جانب سے پانی کی جانچ کے لیے 6 مقامی لیبارٹریاں کو اپ گریڈ کیا گیا ہے جبکہ ضلعی سطح پر 17 نئی لیبارٹریاں قائم کی گئی ہیں جو پانی کی کوالٹی پر نظر رکھتی ہیں۔
رانا تنویر حسین کے مطابق پانی کی سپلائی کرنے والی ایجنسیوں سے وابستہ 3 ہزار پیشہ ورانہ افراد کی تربیت کے لیے بھی فنڈز استعمال کیے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب وزیر قانون زاہد حامد نے سینیٹ کو بتایا کہ گذشتہ 3 سال کے دوران ملک کے کمرشل بینک 472 ارب روپے سے زائد منافع حاصل کرچکے ہیں۔
قانون سازوں کو فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق تین سالوں کے دوران منافع میں واضح اضافہ سامنے آیا ہے، 2013 میں منافع 115 ارب روپے، 2014 میں 164 ارب روپے, جبکہ 2015 میں منافع کی حد 193 ارب روپے کو چھو گئی۔


پاک افغان سرحد کھل گئی، آمدورفت بحال

$
0
0

 پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں تیزی کے بعد پاکستانی حکومت نے پاک افغان سرحد مختلف مقامات پر بند کر دی تھی جو کہ دو دن کے لیے کھول دی گئی ہے۔












Closed Afghan-Pakistani Border Is Becoming 'Humanitarian Crisis

$
0
0
Security personnel check Afghan nationals as they prepare to leave the country. Thousands of Afghans gathered at the border to return home as Pakistan temporarily reopened two main crossings that had been closed last month after a wave of militant attacks.

ہم اپنے ملک سے کیوں بھاگ رہے ہیں ؟

$
0
0

کوئی حکومت اس لیے قائم کی جاتی ہے کہ وہ عوام کی زندگی میں آسانیاں پیدا
کرے تا کہ وہ ایک باعزت زندگی کا سفر طے کر سکیں۔ حکمرانوں کی ذاتی عبادات یا نیکی سے ان کی ذات کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے لیکن عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنا وہ اصل نیکی ہے جوکہ ایک حکمران کی اولین ذمے داری ہے۔ ہم تو اس ذات کے پیروکار ہیں جس نے درس ہی انسانیت کی بھلائی کا دیا اور اپنے بدترین دشمنوں کے حق میں بھی کلمہ خیر کہا۔ حضورؐ کے بعد خلفائے راشدین بھی اس پر عمل پیرا رہے اور حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا کہ دجلہ کے کنارے اگر ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو اس کا حساب مجھے دینا ہو گا۔

موجودہ زمانے کے حکمرانوں کی اصلاح کے لیے یہ مثالیں تو ان کے گوش گزار کی جا سکتی ہیں لیکن اس طرح کی طرزحکمرانی سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں، کجا کہ یہ عوام کی بھلائی کے لیے کام کریں بلکہ انھوں نے عوام الناس کو معاشی مصیبتوں میں مبتلا کر رکھا ہے تاکہ وہ حکمرانوں کے قابو میں رہیں۔
ہم نے جب سے اپنے معاشی نظام کو جدید دنیا کے بے رحم معاشی نظام سے منسلک کیا، اس کے بعد ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان آ گیا اور آئے روز دنیا بھر کی معیشت کی بدلتی صورت حال کے مہلک وار ہم پر مسلسل جاری ہیں۔ ردوبدل کے اس نظام نے ہمیں اس بری طرح جکڑ لیا ہے کہ اس سے جان چھڑانے کی وہی صورت حال ہے کہ ’’نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔‘‘ اپنی معیشت کے استحکام اور عالمی منڈیوں سے منسلک کرنے کے لیے ہم نے مجبوراً ڈالر کو بنیادی کرنسی بنایا جو کہ اس وقت ہمارے روپے کے مقابلے میں کہیں مستحکم تھی جس کی وجہ سے بہتری آنے کے بجائے معاشی دباؤ میں مزید اضافہ ہو گیا۔
اس معاملے کو کچھ عرصہ تک تو ہمارے امپورٹ کیے گئے آئی ایم ایف کے پروردہ حکمرانوں نے مصنوعی طور پر روکے رکھا لیکن وہ جوں ہی اپنے وطن واپس روانہ ہوئے اور جمہوری حکومت نے باگ ڈور سنبھالی، ہمارے روپے کی قدر یکلخت کمی کی شکار ہو گئی جس سے نہ صرف بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوا بلکہ ہماری معیشت ایک ناقابل برداشت بوجھ تلے دب گئی جس کا خمیازہ قوم بھگت رہی اور ابھی بھگتتی رہے گی۔ تیل کی قیمتوں میں ردوبدل ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے جس سے خاص طور پر عوام کو فراہم کی جانے والی اجناس کی قیمتوں کا تعین بھی ہوتا ہے خاص طور پر ہماری وہ زرعی پیداوار جس کا انحصار اس کی بیجائی سے لے کر برداشت اور منڈیوں تک پہنچانے میں ڈیزل پر ہے۔ ہمارے ملک میں رواج رہا ہے کہ تیل کی بڑھتی قیمتوں کے ساتھ اجناس کی قیمتوں میں اضافہ تو ہو جاتا ہے لیکن ان قیمتوں میں کمی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچتے۔ حکومتی سطح پر اس سلسلے میں سخت اقدامات کے ذریعے اس کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔

عالمی منڈی میں پچھلے ماہ کے دوران تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں 3 فیصد اضافہ ہوا لیکن ہمارے معاشی اکاؤنٹنٹس نے اس میں 10 فیصد سے زائد اضافے کا بوجھ براہ راست عوام پر ڈال دیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ معمولی اضافہ حکومت خود برداشت کرتی یا پھر اگر ان میں اضافہ ہی مقصود تھا تو اتنا کیا جاتا جتنا کہ عالمی منڈی میں ہوا تھا تاکہ عوام پر بوجھ کم سے کم پڑتا لیکن ہماری حکومت نے اس کو اپنی کمائی کا سب سے بڑا ذریعہ بنایا ہوا ہے کیونکہ یہ واحد ذریعہ ہے جس سے عوام کی جیب سے پیشہ نکالا جا سکتا ہے اور اس کو حکومتی خزانہ بھرنے میں مدد ملتی ہے۔

ملک میں مہنگائی کے طوفان نے عوام الناس کو اس قدر پریشان کر رکھا ہے کہ ایک معاصر میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک عشرے کے دوران 57 لاکھ پاکستانیوں نے ملک کی ابتر معاشی حالت اور روزگار نہ ہونے کی وجہ سے ترک وطن کیا اور اس میں زیادہ تعداد مزدور طبقے کی ہے جس کا تمام تر دارومدار روزانہ اجرت پر ہے۔ بیرون ملک سکونت اختیار کرنے والوں کے لیے پسندیدہ ملک سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک ہیں جہاں پر روزگار ملنے میں نسبتاً آسانی ہے لیکن اب یہ ممالک بھی دنیا کے بدلتے معاشی حالات کے شکنجے میں جکڑے جا رہے ہیں اور ان کی معیشت بھی کمزور ہو رہی ہے۔ ملک میں روزگار کے محدود وسائل کے باعث ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بیرون ملک حصول روزگار کے لیے منتقلی لمحہ فکریہ ہے۔ اس سے ملک میں ہنرمند اور قابل افرادی قوت میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔ حکومت کا اولین کام عوام کو سہولیات کی فراہمی تو ہے ہی لیکن سڑکوں اور پلوں کے ذریعے روزگار کی فراہمی ممکن نہیں۔

اس کے لیے صنعتوں کا جال بچھانے کی ضرورت ہے جو کہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم توانائی یعنی بجلی کی وافر فراہمی میں خودکفیل ہوں اور وہ صنعتکار جو اپنی صنعتیں اس بحران کی وجہ سے دوسرے ممالک منتقل کر چکے ہیں انھیں واپس لے آئیں تاکہ روزگار کے وسیلے پیدا ہوں اور ہم ملکی ترقی کا انحصار کسی کمیونسٹ ملک کے بجائے اپنے زور بازو پر کریں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہمیں اپنے معاشی ماہرین کی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے جو ان کے پاس فالتو مقدار میں بھی پڑی رہتی ہے لیکن وہ صرف خاص مقاصد کے لیے ہی استعمال ہوتی ہے۔ ہمارے پاس کیا ہے جو موجود نہیں ہے، بس ایک ہم ہیں جو ملک سے باہر ادھر ادھر رہتے ہیں اور مفید دورے کرتے ہیں جس سے اہل خانہ بہت خوش ہوتے ہیں۔

عبدالقادر حسن

بچوں کی تربیت کیسے کریں ؟

$
0
0

آجکل کے والدین کو اپنے بچوں سے سب سے پہلے جو شکایت ہوتی ہے وہ یہ کہ
اُن کی بات نہیں مانتے ،چھوٹے ہوتے ہیں تب بھی نہیں مانتے اور جب بڑے ہو جائیں تو پھر تو بہت ہی کم والدین ہیں جو اپنے بچوں کی تابعداری سے مطمئن ہیں ایک زمانہ تھا جب بچے چاہے کتنے بڑے کیوں نہ ہو جائیں والد بغیر کسی جھجک کے کسی بھی غلط بات پہ پٹا ئی بھی کر دیں تو اولاد سر جھکا کر مار کھا لیتی تھی لیکن آجکل کے دور میں تو شائد ہی ایسے گھرانے ہوں گے جہاں والدین کی اتنی عزت اور اہمیت ہو گی۔
ایک دفعہ مسجد میں ایک بچے کو دیکھا کہ مولانا صاحب جو بچے کے اُستاد تھے وہ اپنے جوتے باہر اُتار کر مسجد میں چلے گئے پیچھے یہ بچہ آ رہا تھا اِس نے یہ دیکھا کہ لوگ مسجد میں داخل ہو تے جا رہے ہیں اور اُس کے اُستاد کی جوتیوں پر جوتیاں رکھ کر گزرتے جا رہے ہیں ، بچہ تیزی سے آگے لپکا اور اپنے اُستا د یعنی مولوی صاحب کی جوتیاں اپنے ہاتھوں سے صاف کیں اور ایک طرف رکھ دیں جبکہ اُس کے اُستاد وہاں موجود بھی نہیں تھے کہ یہ کہا جا سکتا کہ شائد بچے نے اپنے اُستا د کے خوف سے یہ عمل کیا ۔ بظا ہر یہ معمولی سی بات ہے لیکن یہ عمل بہت بڑی بات کا پتہ دے رہا ہے کہ بچے کے دل و دماغ میں اپنے اُستاد کیلئے اتنی عزت اور مقام کیسے پیدا ہو گیا ؟ 

اتنی بات تو میں سمجھ گیا کہ یقینا اس کی تربیت ہوئی ہے لیکن یہ تربیت کیسے کی گئی ؟ مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا کہ بچوں کی تربیت یہی ہے جو وہ اپنے والدین اور اساتذہ کو کرتے دیکھتے ہیں ، لہٰذا آپ کو بچوں سے یہ شکائیت نہیں ہو نی چاہیے کہ وہ آپ کی تابعداری نہیں کرتے یا بات نہیں مانتے چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑ ے۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم چیز جو اس واقعہ سے ثابت ہو ئی کہ جو ماحول آپ نے اُنھیں مہیا کیا ہو گا بچے ویسے ہی بنیں گے ، ماحول بہت اہم کردار ادا کرتا ہے بچوں کی تربیت میں،بچوں کو ہمیشہ وہ ماحول دیں جیسا آپ اُنھیں بنانا چاہتے ہیں اسلئے کہ جب بچے اجتماعی طور پر سب کو ایک ہی کام کرتے دیکھتے ہیں پھر وہ وہی کرتے ہیں۔

بعض والدین تعلیمی اداروں کے چنائو میں غیر محتا ط ہوتے ہیں اور اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ جس ادارے میں وہ بچوں کو پڑھنے بھیج رہے ہیں وہاں کا ماحول کیسا ہے؟ کہیں وہ اُن کے اسلامی کلچر ، ثقافت ،روایات سے متصادم تو نہیں ہے؟ اور اگر ایسا ہو جائے تو اس بات کا احساس والدین کو تب ہوتا ہے جب بچے غلط راستے پر چل پڑتے ہیں اور معاملہ اُن کے ہاتھ سے نکل چکا ہو تا ہے۔ اسلئے بچوں کی تربیت میں ان باتوں کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔

عمیر احمد قادری

بھتہ خور ہیکرز

$
0
0

عالمی مارکیٹ میں کام کرنے والی شائد ہی کوئی ایسی ملٹی نیشنل کمپنی ہو کہ جس کی اپنی ویب سائٹ نہ ہو۔ سوشل میڈیا کے ذریعے تشہیر اب تمام بڑے برانڈز کی مجبوری بن گئی ہے، جس کے پیش نظر ان بڑے اداروں میں ایک منظم آئی ٹی ڈیپا رٹمنٹ ضرور ہوتا ہے۔ کمپنی ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکائونٹس صارفین کو اپنی مصنوعات کی جانب راغب کرتے ہیں اور ان سے لاکھوں کی تعداد میں صارف بذریعہ انٹرنیٹ منسلک بھی ہوتے ہیں۔ لیکن پچھلے کچھ عرصہ سے حیران کن طور پر بڑی کمپنیز کی ویب سائٹس کو ہیک کرکے اس پر ایسے مواد اپ لوڈ کردیا جاتا ہے کہ کمپنی اور صارف دنوں کے لیے پریشان کن ثابت ہوتا ہے۔ 
انٹرنیٹ سکیورٹی کے ایک ماہر بروس شنائر نے اپنے ایک بلاگ میں انتباہ کیا ہے کہ انٹرنیٹ کے اہم اداروں پر ایک سال سے شدید حملے جاری ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حملے ان اداروں کے دفاعی نظام میں کمزوریاں تلاش کرنے کی کوشش ہیں۔بروس کے ’ابتدائی اندازے‘ کے مطابق ان سلسلہ وار حملوں کے پیچھے چین یا روس کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ ان حملوں میں کسی ویب سائٹ پر لاتعداد ڈیٹا بھیج کر اسے مفلوج کر دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات ہیکر ویب سائٹ کے مالکان کو ڈی ڈوس (سسٹم پراضافی بوجھ) کی دھمکی دے کر تاوان وصول کرتے ہیں۔ بروس کے مطابق یہ حملے کہیں بڑے پیمانے پر کیے جا رہے ہیں اور ان کا دورانیہ بھی عام حملوں سے بہت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ حملے زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں کیوں کہ اس میں بھیجے جانے والا ڈیٹا سلسلہ وار لہروں کی شکل میں ارسال کیا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ 31 دسمبر 2015ء کو بی بی سی کو بھی ڈی ڈوس حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ انٹرنیٹ کمپنی ویری سائن کی ایک حالیہ رپورٹ سے شنائر کے دعوے کی تصدیق ہوتی ہے، جس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈی ڈوس حملے ’زیادہ اور پیچیدہ‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ آربر نیٹ ورکس نامی کمپنی کے مرکزی انجینئر رولینڈ ڈابنز کہتے ہیں کہ یہ بات ’واضح طور پر‘ غلط ہے کہ ان حملوں کے پیچھے صرف ملکوں کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ ’بعض حملہ آوروں کو ملکوں کی سرپرستی حاصل ہے، کچھ غیر سرکاری نظریاتی حملہ آور ہیں، اور کچھ ایسے ہیں جو مجرمانہ طور پر مالی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

عمیر لطیف

 

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live