Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

گوگل کا 120 سے زائد زبانوں میں ٹائپنگ کرنے والا ’’جی بورڈ‘‘

$
0
0

 گوگل نے اینڈروئیڈ اسمارٹ فونز کے لیے ’’جی بورڈ‘‘ پیش کر دیا جس میں 120 سے زیادہ زبانوں میں ٹائپنگ اور کسی بھی ایپ میں رہتے ہوئے ویب سرچنگ اور شیئرنگ تک کی سہولت موجود ہے۔ جی بورڈ جسے پہلے ’’گوگل کی بورڈ‘‘ کہا جاتا تھا، مئی 2016 میں ایپل آئی فونز کے لیے متعارف کروایا گیا تھا۔ اب اسے اینڈوروئیڈ فونز کے لیے بھی تیار کر لیا گیا ہے اور اس کا اینڈروئیڈ ورژن گوگل پلے اسٹور سے مفت میں ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔

گوگل آفیشل بلاگ کے مطابق، جی بورڈ میں ایسی کئی خوبیاں ہیں جو اس وقت دنیا کے کسی دوسرے اسمارٹ فون کی بورڈ میں موجود نہیں۔ مثلاً اس میں دنیا کی 120 سے زائد زبانوں میں ٹائپ کیا جا سکتا ہے (جن میں اردو بھی شامل ہے) البتہ اس سے پہلے صارف کو اپنی مطلوبہ زبانیں ایکٹیویٹ کرنا ہوں گی، تقریباً اسی طرح جیسے کسی ڈیسک ٹاپ آپریٹنگ سسٹم میں کیا جاتا ہے۔ اینڈروئیڈ کا ڈیفالٹ کی بورڈ ہونے کی بدولت جی بورڈ بیشتر ایپس کے لیے کارآمد ہے یعنی آپ چیٹنگ کے دوران کسی ایپ میں رہتے ہوئے ویب سرچنگ بھی کر سکتے ہیں اور سامنے دکھائی دینے والے نتائج کو میسج کے طور پر شیئر بھی کرسکتے ہیں۔
اس میں ایموجی اور گف سرچ کے علاوہ انہیں سرچ رزلٹس ہی میں سے براہِ راست چیٹنگ میں شیئر کرانے کی سہولت بھی موجود ہے جب کہ کسی ایموجی کے لیے آپ کو صرف اس کا نام لکھنا ہو گا اور جی بورڈ خود ہی متعلقہ ایموجیز ڈھونڈ نکالے گا جن میں سے اپنی من پسند ایموجی منتخب کر کے آپ اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کرسکتے ہیں۔ البتہ گف شیئرنگ کی صلاحیت اس وقت صرف گوگل میسنجر، ایلو اور ہینگ آؤٹ تک محدود ہے جسے دوسری ایپس تک وسعت دینے کی تیاریاں جاری ہیں۔

آن اسکرین ٹائپنگ کو تیز رفتار اور بہتر بنانے کے لیے اس میں ’’گلائیڈ ٹائپنگ‘‘ کا فیچر بھی رکھا گیا ہے جس کے تحت آپ کو ٹائپنگ کرتے دوران اسکرین سے انگلی ہٹانے کی ضرورت نہیں بلکہ انگلی کو اسکرین پر پھسلاتے ہوئے ایک سے دوسرے کریکٹر پر لے جانا ہی کافی ہوگا۔ ان سب کے علاوہ آٹو کریکٹ اور دوسرے اسمارٹ فیچرز کی بدولت جی بورڈ اپنے صارف کے مزاج اور پسند ناپسند کو مدنظر رکھتے ہوئے خود بھی سیکھتا رہتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی کارکردگی بہتر ہوتی چلی جاتی ہے۔ گوگل پلے اسٹور کے مطابق اب تک جی بورڈ کو 10 کروڑ سے زیادہ اسمارٹ فونز پر انسٹال کیا جا چکا ہے جب کہ اسے لانچ کیے ہوئے صرف تین دن ہوئے ہیں۔


فیروز والہ

$
0
0

ضلع شیخوپورہ کا قصبہ اور تحصیل، اس کے شمال میں گوجرانوالہ، جنوب میں ضلع امرتسر (بھارت) اور ضلع لاہور، مغرب میں ننکانہ صاحب اور مشرق میں ضلع سیالکوٹ واقع ہے۔ لاہور سے پشاور جانے و الی جی ٹی روڈ پرواقع ہے۔ کئی سو سال پہلے اس کو بھٹی قوم کے ایک فرد فیروز دین نے آباد کیا اور اپنے نام پر فیروز والہ نام رکھا۔ اس کے ہاں نرینہ اولاد نہ تھی۔ دو بیٹیاں تھیں جو بُٹر اور ران قوم میں بیاہی گئیں۔ فیروز نے گائوں کی تمام ملکیت اپنے دامادوں کے نام کر دی۔ یہا ں کے زمیندار رعایت خان کی مہاراجہ رنجیت سنگھ کے باپ مہان سنگھ سے لڑائیاں ہوئیں۔ بعدازاں کرم سنگھ بھنگی نے رعایت خان کو پکڑ کر نظر بند کردیا۔ اس طرح فیروز والہ مہان سنگھ کے قبضے میں آگیا۔ اس علاقے کی گندم بہت مشہور رہی ہے۔ ۱۸۱۱ ء میں اس کی آبادی ۲۸۳۸ افراد پر مشتمل تھی جبکہ یہاں ۵۰۲ گھر اور ۴۲ دوکانیں موجود تھیں۔ فیروز والہ ابتدا میں ضلع گوجرانوالہ میں شامل رہا۔ بعد میں جب شیخوپورہ کو ضلع بنایا، تو اس میں شامل کر دیا گیا۔

اب یہ تحصیل کا درجہ رکھتا ہے، جس میں ۴۵۷ دیہات شامل ہیں۔ یہاں تحصیل سطح کی عدالتیں، تھانہ، طلبا و طالبات کے ہائی ، مڈل اور پرائمری سکول، ریسٹ ہائوس اور ہسپتال موجود ہیں۔ ممتاز صحافی اور ادیب مولوی محبوب عالم کا تعلق فیروز والہ سے تھا۔ ابتداً فیروز والہ میں خادم التعلیم کے نام سے ایک چھاپہ خانہ قائم کیا۔ ایک سال بعد ۱۸۸۶ء میں ماہنامہ ’’زمیندار‘‘ جاری کیا، جس کی ادارت، کتابت، سنگ سازی اور طباعت خود کرتے تھے۔ پھر ہفت روزہ ’’ہمت‘‘ جاری کیا۔ ۱۸۸۷ ء میں پیسہ اخبار جاری کیا ۔ جب پریس کو لاہور منتقل کیا تو پیسہ اخبار بھی لاہور سے چھپنا شروع ہوا۔ یہ اپنے دَور میں ہندستان کا مقبول ترین اخبار تھا۔ آپ نے مختلف موضوعات پرقریباً پچاس تصانیف مرتب کیں۔ ۱۹۳۳ ء میں آپ کا انتقال ہوا۔ 

معروف پنجابی شاعر اور ادیب شیخ محمد شریف صابر کا تعلق بھی فیروز والہ سے ہے، وہ اس کے قریبی گائوں سرائے بختہ میں ۱۹۲۸ء میں پیدا ہوئے۔ فرہنگ نگار ہیر وارث شاہ ، مکمل کافیاں بُلّھے شاہ، مکمل ابیات باہُو، سیف الملوک میاں محمد۔ پورن بھگت قا دریار وغیرہ آپ کی تصنیفات و تالیفات ہیں۔ اسلام آباد میں مقیم معروف ادیب اکبر حمیدی کا تعلق بھی فیروز والہ سے ہے۔ آپ ۱۹۳۶ء میں پیدا ہوئے۔ لہو کی آگ، آشوب صدا، جزیرے کا سفر، تلوار اس کے ہاتھ، تتلی کے تعاقب میں، شہربدر، قدم آدم، مضامین غیب، وزیر آغا کے خطوط اکبر حمیدی کے نام، دشت بام و در، جھاڑیاں اور جگنو اور عالم افغاں وغیرہ آپ کی تخلیقات ہیں۔ ۱۹۹۸ء کی مردم شماری کے مطابق فیروز والہ کی آبادی ۵۵۴۳۳ نفوس تھی جبکہ اب اس کی آبادی ۷۵ ہزار کے قریب ہے۔

(کتاب ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس) - 

ٹویٹر کے دلچسپ حقائق

$
0
0

ٹویٹر ایک آن لائن خبر رساں اور سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ ہے۔ ٹویٹر کے صارفین 140 لفظوں پر مشتمل اپنے پیغامات آن لائن چھوڑ سکتے ہیں، جسے ’’ٹویٹ‘‘ کہتے ہیں۔ ٹویٹر پر رجسٹرڈ صارفین نئی پوسٹ کر سکتے ہیں اور پڑھ بھی سکتے ہیں جبکہ غیر رجسٹرڈ حضرات صرف پوسٹ پڑھ سکتے ہیں۔ فیس بک کی طرح ٹویٹر نے بھی اپنی ایک ایپلی کیشن متعارف کروا رکھی ہے جبکہ کئی اہم پوسٹوں سے ٹویٹر اپنے صارف کو بذریعہ SMS بھی آگاہ کرتا ہے۔ ٹویٹر کا ہیڈ کوارٹر امریکی ریاست سان فرانسسکو میں واقع ہے جبکہ دنیا بھر میں اس کی 25 شاخیں مزید ہیں۔ ٹویٹر کی ڈیزائننگ اور اعداد و شمار پر کام 2006ء میں ہی شروع کر دیا گیا تھا، تاہم اسے جولائی 2007ء میں عام استعمال کے لیے متعارف کروایا گیا۔ آغاز کے کچھ عرصہ بعد ہی ٹویٹر دنیا بھر کے لوگوں میں مقبول ہو گیا۔
عالمی شہرت سمیٹتے ہوئے 2012ء تک ٹویٹر کے صارفین کی تعداد 100 ملین تک پہنچ گئی جو ہر روز قریباً 340 ملین پوسٹ کیا کرتے تھے۔ 2013ء میں اسے دنیا کی 10 سب سے زیادہ انٹرنیٹ پر تلاش کی جانے والی ویب سائٹس میں شامل کر لیا گیا۔ ٹویٹر نے گذشتہ امریکی الیکشن 2016ء میں انتخابات کو براہ راست متاثر کیا۔ صارفین کی بڑی تعداد نے پوسٹ کے ذریعہ اپنے رائے سے آگاہ کیا۔ ٹویٹر کا خیال نیویارک یونیورسٹی کے طالب علم جیک ڈور سے کے ذہن میں آیا۔ ڈورسے دراصل ایک ایسا انفرادی SMS گروپ بنانا چاہتے تھے، جس میں شامل تمام افراد کو تازہ ترین خبروں اور دیگر معلومات سے آگاہ رکھا جا سکے۔ 

ڈورسے نے ٹویٹر سے قبل اپنی ویب سائٹ کا نام ’’فرینڈ سٹالکر ‘‘ تجویز کیا، لیکن چند وجوہات کی بنا پر جلد ہی تبدیل کر دیا۔ بعدازاں دوستوں کے مشوروں اور کاروباری نظریے سے دیکھنے پر ڈورسے نے آن لائن انٹرنیٹ سروس 15 جولائی 2006ء میں بحال کر دی۔ بقول ڈورسے وہ ’’فلیکر(سوشل ویب سائٹ)‘‘ سے متاثر تھے۔ امریکی خفیہ ایجنسی CIA ہر روز ٹویٹر پر 5 ملین ٹویٹس کنگھالتی ہے۔ ٹویٹر پر چائنا میں پچھلے 7 سالوں سے پابندی عائد ہے۔ ہر منٹ میں ٹویٹر پر 3 لاکھ 50 ہزار ٹویٹ کیے جاتے ہیں، یعنی ٹویٹر پر ایک دن میں کی جانے والی پوسٹوں سے 10 ملین صفحوں کی کتاب تیار کی جا سکتی ہے۔ مشہور گلوکار جسٹن بائیبر کے ٹویٹر پر سپین کی آبادی سے زیادہ فالوورز ہیں۔

ٹویٹر کے44 فیصد رجسٹرڈ صارفین نے آج تک کوئی ٹویٹ ہی نہیں کیا۔ 2013ء میں کسی ہیکر نے ایسوسی ایٹ پریس کا اکاؤنٹ ہیک کر کے یہ پیغام چھوڑا کہ ’’وائٹ ہاؤس میں 2 بم ہیں جو جلد ہی پھٹنے والے ہیں‘‘۔ ہیکر کی اس حرکت سے امریکن سٹاک مارکیٹ منٹوں میں گر گئی۔ دنیا بھر کے 90 فیصد انٹرنیٹ صارفین ٹویٹر استعمال نہیں کرتے۔ 2013ء میں ٹویٹر نے انکشاف کیا کہ 123456 انتہائی عام پاس ورڈ ہے، جو قریباً 120,000 افراد کے زیرِ استعمال ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی کہ گذشتہ ریو اولمپکس میں ایک انگلش کھلاڑی کو صرف اس بناء پر گولڈ میڈل سے نواز دیا گیا کہ ٹویٹر پر اس کے 9000 فالوورز دوسرے کھلاڑی سے زیادہ تھے۔

دانش احمد انصاری

 

مانگا منڈی

$
0
0

ضلع لاہور کا قصبہ، لاہور ملتان مین روڈ پر لاہور سے ۱۹ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ قریبی ریلوے اسٹیشن رائے ونڈ ہے، جو یہاں سے ۸ میل کے فاصلے پر ہے۔ رائے ونڈ سے پُختہ سڑک بھی یہاں آکر ملتی ہے۔ یہ مانگا سنگھ کے نام پر مانگا منڈی کہلاتا ہے۔ قریب ہی نہر اپر باری دو آب کی شاخ نیاز بیگ بہتی ہے۔ یہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ ہائی سکول، ڈاک خانہ، تھانہ، ٹیلیفون ایکسچینج ہیں۔ یہاں ایک معروف اقامتی تعلیمی ادارہ علیگڑھ پبلک سکول کے نام سے بھی قائم ہے ۔ اس سکول سے متصل پنجاب کے محکمہ ماہی پروری کا فِش سیڈ نرسری یونٹ بھی ہے۔ اس یونٹ کے اندر سکھوں کی وہ اہم یادگار واقع ہے، جو گوردوارہ چھوٹا نانکیانہ کے نام سے موسوم ہے۔

سکھ روایات کے مطابق سکھ مذہب کے بانی بابا گورونانک نے اپنے ایک سفر کے دوران کچھ وقت یہاں پر قیام کیا تھا۔ بعد میں سکھوں کے چھٹے گرو، گرو گو بند صاحب نے بھی اس مقام کو گورونانک کے ساتھ مُسلمہ نسبت کی وجہ سے یہاں قیام کیا۔ اس مقام پر بعدازاں سکھوں نے گوردوارہ قائم کیا، جو اب خستہ حالت میں ہے۔ قیا مِ پاکستان کے بعد مقامی لوگوں نے اس کی چھتیں اُکھاڑ کر اس کے دروازے، کھڑکیاں اور روشندان نکال لیے۔ ۱۹۴۷ء میں اسے نذر آتش بھی کیا گیا۔ اس کی اب صرف دیواریں ہی رہ گئی ہیں۔ اس گوردوارے کے ساتھ ہی ایک وسیع و عریض تالاب ہے، جو بہت حد تک اصل صورت میں قائم ہے۔ اسکول کے احاطے میں ایک بائولی بھی ہوا کرتی تھی، جس کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ یہ بائولی بھی بابا گورونانک کے واقعہ کی یادگار کے طور پر بنوائی گئی تھی۔ مانگا سے چار پانچ کلومیٹر دور موضع بھیلے میں بھی ایک گوردوارہ کے آثار موجود ہیں۔

(کتاب ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس)   

چناب

$
0
0

پنجاب کے بڑے دریائوں میں سے ایک، اس کا پنجابی لفظ ’’چن‘‘ چاند اور فارسی لفظ ’’آب‘‘(پانی) سے مل کر بنا ہے۔ یہ دریا ہماچل پردیش میں تانڈی کے مقام پر دو معاون دریا ’’چندر‘‘ اور’’بھاگ‘‘ کے اتصال سے وجود میں آتا ہے۔ یہ دونوں معاون دریا ہمالیائی پہاڑیوں میں گلیشیئر پگھلنے سے وجود میں آئے۔ بھارت میں یہ دریا ’’چندر بھاگ‘‘ کہلاتا ہے۔ ہماچل پردیش سے جموں و کشمیر میں داخل ہوتا اور پھر پنجاب چلا آتا ہے۔ دریائے چناب تریموں کے مقام پردریائے جہلم سے ہم آغوش ہوتا ہے۔ احمد پور سیال کے قریب دریائے راوی بھی اس سے آملتا ہے۔

اوچ شریف کے قریب ستلج دریا ملنے پر ’’پنجند‘‘ کا تاریخی مقام وجود میں آتا ہے (پانچواں دریا ’’بیاس‘‘ ہے ،جو فیروز پور کے مقام پر ستلج سے ملتا ہے) چناب آخر میں مٹھن کوٹ کے نزدیک دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ یہ قریباً 960 کلو میٹر لمبا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی رو سے اس کا پانی پاکستان کے لیے مخصوص ہے۔ پنجاب میں بسنے والوں کے لیے چناب ایسی ہی دیومالائی حیثیت رکھتا ہے، جیسی ’’رائسن‘‘ جرمنوں یا ’’ڈینوب‘‘ آسٹروی وہنگرین باشندوں کے لیے۔ ہیر رانجھا اور سوہنی مہینوال کی لوک داستانوں میں چناب کا کردار بڑا اہم ہے۔

 (پاکستان کی سیر گاہیں)

کاہنہ - ضلع لاہور

$
0
0

یہ دو آبادیوں پر مشتمل ایک قصبہ ہے ،جو ضلع لاہور میں شامل ہے۔ یہ قصبہ لاہور- قصور روڈ پر لاہور سے ۱۵ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ سکھ مت کے بانی گورونانک کی والدہ کا تعلق اسی قصبے سے تھا۔ اس کو سندھو جاٹ قوم کے کاہنہ نامی زمیندار نے آباد کیا تھا۔ دوسری آبادی بھی ایک زمیندار کاچھہ کے نام سے تھی۔ مغلوں کے زوال کے زمانے میں جب جے سنگھ اور سوبھا سنگھ کنہیا مثل کے سردار بنے اور انہو ں نے پنجاب کو خوب لُوٹا۔ وہ یہیں کے رہنے والے تھے اور اس وجہ سے اس قصبے کی آبادی اور رونق میں اضافہ ہو گیا. کیونکہ دیگر علاقوں کے لوگ یہاں آکر اس وجہ سے پنا ہ لیتے کہ اسے دیگر لوگ لُوٹنے سے گریز کرتے۔

اس کی آبادی اتنی بڑھی کہ ایک نئی آبادی اور بن گئی ،جو نیا کاہنہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کی غلہ منڈی نواحی دیہات کے لیے مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ طلبا او رطالبات کے لیے علیحدہ علیحدہ ہائی، مڈل اور پرائمری سکول ہیں۔ مربوط دیہی ترقیاتی مرکز، تھانہ، ڈاکخانہ اورہسپتال بھی ہیں۔ اس کی آبادی ۱۹۸۱ء میں ۱۹۱۶۹ اور ۱۹۹۸ء کی مردم شمار ی کے مطابق ۳۸۲۷۹ نفوس پر مشتمل تھی.

(کتاب ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس)


ہائے بیچارے ، تارکین وطن پاکستانی ؟

وٹس ایپ کی بے پناہ مقبولیت اور دلچسب حقائق

$
0
0

وٹس ایپ کا نام what's up سے لیا گیا ہے، جس کا اُردومیں معنی ’’کیا چل رہا ہے‘‘کے ہیں ۔ وٹس ایپ کو آپ مستقبل کا سوشل میڈیا بھی کہہ سکتے ہیں، جس کی وجہ اس کے جدید فیچرز ہیں۔ وٹس ایپ کا ہیڈ کوارٹر ماؤٹین ویو، کیلیفورنیا میں واقع ہے۔ پہلے پہل وٹس ایپ iOS آپریٹنگ سسٹم رکھنے والے سمارٹ فونز کے لیے ہی دستیاب تھا، بعدازاں اس کی بڑھی ہوئی مقبولیت کے پیشِ نظر پہلے بلیک بیری، پھر اینڈرائیڈ اور آخر میں ونڈوز کے لیے بھی الگ سافٹ ویئرز متعارف کروا دِیے گئے۔ وٹس ایپ سے وائس کال، ویڈیو کال، ٹیکسٹ میسج، PDF فائلیں، تصویریں، اپنا مقام، آڈیو اور ویڈیو فائلیں بھی بھیجی سکتی ہیں، لیکن یہ سب تو آج کی بات ہے۔ اس سے قبل یعنی 2008ء سے 2009ء تک یہ فیچرز دستیاب نہ تھے۔
وٹس ایپ کو مشہورِ زمانہ سرچنگ اور سوشل ویب سائٹ ’’یاہو‘‘ کے ملازمین برین ایکٹن اور جین کوم نے ڈیزائن کیا۔ 2007ء میں یاہو سے مستعفی ہونے کے بعد دونوں دوستوں نے اپنا ذاتی سافٹ ویئرز ڈیزائن کرنے کا سوچا، جس کے لیے وہ جنوبی امریکا پہنچے، یہاں انہوں نے فیس بک اور ٹویٹر میں نوکری کے لیے کئی بار تگ و دو کی، لیکن ناکام ٹھہرے۔ اسی اثناء میں جین کوم نے ایک روسی ڈویلپر کے ساتھ مل کر وٹس ایپ ڈیزائن کیا اور جلد ہی اسےiOS کے ایپ سٹور پر ریلیز کر دیا۔ ریلیز کے کچھ عرصہ بعد ہی وٹس ایپ دنیا بھر میں مقبول ہو گئی، یہاں تک کہ 2009ء میں دنیا کی سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی میسجنگ ایپلی کیشن بن گئی۔ 2013ء تک وٹس ایپ پرقریباً 200 ملین صارفین سرگرم رہے ۔

اس دوران اعداد و شمار کی ذمہ داری 50 ملازموں پر مشتمل سٹاف پر تھی۔ 2014ء تک صارفین کی تعداد بڑھ کر 500 ملین تک پہنچ گئی۔ اپریل 2014ء کی ایک رپورٹ کے مطابق وٹس ایپ صارفین ہر روز 700 ملین تصویریں، 100 ملین ویڈیوز، 10 بلین میسج کیا کرتے تھے۔ جین کوم نے وٹس ایپ کو اِن کارپوریٹ کروایا اور 19 فروری 2014ء کو 19.3 بلین ڈالر میں فیس بک کو فروخت کر دیا ۔ 19.3 بلین کی بھاری رقم دنیا ئے تاریخ کی سب سے زیادہ خریداری میں صرف کی جانے والی رقم تھی۔ بقول جین اور کوم اگر فیس بک یا ٹویٹر انہیں اپنے پاس ملازمت دے دیتے، تو ان سے بے شمار فائدے اُٹھا سکتے تھے۔ فیس بک نے وٹس ایپ میں ہر وہ چیز شامل کی، جس کی عام مواصلاتی زندگی میں لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے۔ 

70 فیصد کے قریب وٹس ایپ صارفین روزانہ کی بنیاد پر آن لائن ہوتے ہیں۔ وٹس ایپ کے مطابق ہر روزقریباً 1 ملین نئے صارف شامل ہوتے ہے۔ وٹس ایپ اینڈرائیڈ سمارٹ فونز میں تیسری سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی ایپ ہے۔ وٹس ایپ اب کمپیوٹر پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، جس کے لیے سمارٹ فون سے صرف ایک QR کوڈ سکین کرنا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں1 بلین دفعہ ڈاؤن لوڈ ہونے کے دوران کوم سمیت صرف 4 لوگ وٹس ایپ کے تمام اعداد و شمار سنبھالے ہوئے تھے، جو اپنے آپ میں ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔ ٹویٹر اور فیس بک کی طرف سے رد کیے جانے پر برین ایکٹن نے ٹویٹ کیا کہ ’’یہ میرے لیے ایک بڑا موقع تھا کہ میں فیس بک یا ٹویٹر کے با کمال سٹاف کے ساتھ کام کر تا، لیکن ایسا نہ ہوا، پھر بھی میرا ایڈونچر ابھی باقی ہے‘‘ اور دلچسپ بات یہ کہ ایکٹن کے اس ٹویٹ کے کچھ عرصے بعد وٹس ایپ کا قیام عمل میں آیا۔

دانش احمد

 


مشرف صاحب : سلامت رہو

بلوچستان کی محرومیاں

$
0
0

بلوچستان کی اہمیت سے انکار کسی طرح ممکن نہیں۔ لیکن بلوچ قوم کی محرومیوں سے انکار بھی ممکن نہیں۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ اگر پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ حقیقت نہ بنتا تو ہماری توجہ بلوچستان پر کبھی نہ 
ہو تی۔ آج پاک چین اقتصادی راہداری کی وجہ سے بلوچستان پر توجہ نظر آ رہی ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور کا دورہ کرنے والے طلبا و طالبات کے ایک وفد نے جب وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات کی تو ایک طالبعلم نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت ساری ترقی پنجاب اور لاہور میں ہی ہو رہی ہے۔ بلوچستان تو ابھی تک اس سے محروم ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سی پیک کی وجہ سے بھارت بلوچستان میں بہت متحرک ہے اور بلوچ قوم میں ایک منظم سازش کے تحت پاکستان کے لیے نفرت پیدا کر رہا ہے۔

حال ہی میں جرمنی میں دہشتگردی کے واقعہ کے بعد جس ایک پاکستانی کو شک کی بنا پر گرفتار کیا گیا اور بعد میں رہا کر دیا گیا وہ بھی ایک بلوچ تھا اور اس نے وہاں بلوچستان کے حالات کے خلاف سیاسی پناہ لی ہوئی ہے۔ ایک طرف براہمداغ بگٹی بھارت کی شہریت لے رہا ہے۔ اور بلوچستان سے طرح طرح کی آوازیں آرہی ہیں۔ ایسے میں ہمیں جہاں بلوچستان کی محرومیاں ہنگامی بنیادوں پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ وہاں بلوچستان کی نئی نسل کے دل میں پاکستان سے محبت کا رشتہ مضبوط کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
مجھے خوشی ہوئی جب کوئٹہ میں حافظ سعید کی جانب سے دفاع اسلام کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اور اس میں شاہ زین بگٹی میر ظفر اللہ شہوانی اور دیگر بلوچ سرداروں نے شرکت کی۔ اگر ایک طرف براہمداغ بگٹی ہیں جو بھارت کے ساتھ ہیں دوسری طرف شاہ زین بگٹی ہیں جو پاکستان کا دم بھرتے ہیں ۔ دونوں ہی بگٹی کے پوتے ہیں۔ ایک ہی خون ہے۔ ایک بھارت کی گود میں اور دوسرا پاکستان کے وفادار حافظ سعید کے ساتھ۔ کم از کم ہمیں یہ تو یقین ہے کہ حافظ سعید سچا پاکستانی ہے۔ ورنہ بلوچستان میں تو اس وقت ہر کوئی دوسرے کو را کا ایجنٹ کہہ رہا ہے۔ ویسے ہر ناراض بلوچ کو را کا ایجنٹ کہنا بھی ٹھیک حکمت عملی نہیں ہے۔ ناراضگیاں جائز بھی ہو سکتی ہیں۔

حافظ سعید کی تنظیم فلاح انسانیت فاؤنڈیشن ویسے تو کافی عرصہ سے بلوچستان میں کام کر رہی ہے۔ چند سال قبل بلوچستان کے دور دراز علاقوں آواران میں آنے والے زلزلہ میں بحالی کے کام نے وہاں کے علاقہ کے لوگوں کے دل جیت لیے تھے۔  حالانکہ آواران اور دیگر علاقوں میں زلزلہ سے ریلیف سرگرمیاں انجام دینا اپنی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ فراری اور قوم پرست ریلیف کے اس کام کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھے۔ لیکن علیحدگی پسندوں کی دھمکیوں اورہر قسم کے خطرات کے باوجود جماعۃالدعوۃ کے کارکنان نے وہاں پہنچ کر لوگوں کی مدد کی‘ مشکل وقت میں انھیں دلاسا دیا اور ان کے کھانے، پینے اور رہائش کا بندوبست کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس سال چودہ اگست کو آواران سمیت ان علاقوں میں پاکستان زندہ باد ریلیاں نکالی گئیں جہاں ماضی میں کبھی ایسا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

انھی فلاحی کاموں نے حافظ سعید کے اور بلوچ سرداروں کے درمیان پل کا کام کیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان میں کام کرنیوالی غیر ملکی این جی اوز کو  شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ ایک تاثر ہے کہ غیر ملکی این جی اوز اپنے فلاحی کام کی آڑ میں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھاتی ہیں۔ جب کہ پاکستان اس وقت بلوچستان میں کسی غیر ملکی ایجنڈا کی نرسری کو پھلنے پھولنے دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہم سب کو بلوچستان میں کام کرنا ہو گا۔ لیکن بلوچستان میں کام کرنا آسان نہیں ہے۔ پاکستان کے مفاد میں کام کرنے والی این جی اوز اور سرکاری اہلکاروں کو غیر ملکی ایجنسیاں کے پروردہ عناصر نشانہ بناتے ہیں۔ اس میں شک نہیں ہے کہ بلوچ قوم کا استحصال ہو رہا ہے۔ اسی استحصا ل کو روکنے اور بلوچستان کی عوام تک ان کا حق پہنچانے میں فلاح انسانیت جیسی فلاحی تنظمیں بہت کار گر ہو سکتی ہیں۔

یہ بھی درست ہے کہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں یہ تنظیم اب تک پانی کی کمی سے نبٹنے کے لیے آٹھ سو کنویں کھدوا چکی ہیں۔ اور صحت و تعلیم کے بھی کئی منصوبے مکمل کر چکے ہیں۔  میری تجویز ہے کہ حافظ سعید کچھ عرصہ کے لیے بلوچستان میں مستقل رہائش اختیار کر لیں اس سے پاکستان کے لیے بھی بہتر ہو گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے سامنے پنجاب کی ترقی پر تنقید کرنے والا نوجوان ہونہار طالبعلم کوئی بھارتی ایجنٹ نہیں ہے۔ وہ پاکستان کا مستقبل ہے۔ وہ جب اپنے شہروں کا لاہور سے موازنہ کرتا ہے تو اسے یہ فرق سمجھ نہیں آتا۔ اسے اپنی تعلیمی اداروں اور پنجاب کے تعلیمی اداروں کے ماحول میں فرق سمجھ نہیں آتا۔ ایسے میں ان ننھے ہونہار ذہنوں میں اٹھنے والوں سوالوں کا جواب ایک ہی ہے کہ بلوچستان کی ترقی پر ساری توجہ دی جائے۔ وہاں زندگی کی بنیادی سہولیات پہنچائی جائیں۔ جہاں ہمارے ادارے نہیں پہنچ سکتے وہاں حافظ سعید جیسے لوگوں کی مدد لی جائے۔

ہمیں اس تاثر کو بھی ختم کرنا ہو گا کہ سی پیک صرف گوادر کی ترقی کا نام ہے۔ اگر گوادر میں ایشیا کا سب سے بڑا ایئرپورٹ بن بھی جائے گا اور کوئٹہ تربت دالبدین کے ایئر پورٹ ویران رہیں گے تو بلوچستان کے عوام کی محرومیاں ختم نہیں ہو نگی۔ بلوچ طلبا ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ گوادر کی نام نہاد ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے پلاٹ بھی پنجاب میں ہی بک رہے ہیں۔ چین کا قونصلیٹ بھی لاہور میں ہی بن رہا ہے۔ انھیں کیا مل رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ بلوچستان کی محرمیوں میں وہاں کی قیادت کا بھی قصور ہے۔ بلوچستان کو اس این ایف سی سے اس کے حصہ کی رقم ملتی رہی ہے۔ مگر وہاں کرپٹ بیوروکریٹ اس کو کھاتے رہے ہیں۔ ابھی تو ایک مشتاق رئیسانی قانون کی گرفت میں آیا ہے۔ لیکن بلوچ بتاتے ہیں کہ وہاں ایسے اور بھی بہت ہیں۔ دراصل تو یہ بلوچ قوم کے مجرم ہیں۔ لیکن مشتاق رئیسانی کا پلی بارگین منظور کر کے ہم نے اپنا یہ مقدمہ بھی کمزور کر لیا ہے۔
اگر ہم بلوچ قوم کی محرومیوں کے ان اصل ذمے داران کو مثالی سزائیں دیں تو شاید بلوچ عوام سمجھ سکیں کہ ان کی محرمیوں کے ذمے دار پنجاب نہیں بلکہ ان کے اپنے لوگ ہیں۔ لیکن یہ بات سمجھانے کے لیے وہاں کے کرپٹ لوگوں کو محفوظ راستہ نہیں سخت سزائیں دینا ہو نگی۔ کیونکہ ان کی وجہ سے آج پاکستان کی سالمیت کو خطرہ ہے۔

مزمل سہروردی

زرداری کی واپسی

$
0
0

سابق صدر آصف علی زرداری اٹھارہ ماہ کی خود ساختہ جلاوطنی کاٹ کر واپس وطن پہنچ گئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ چند روز کے لئے یہاں قیام کریں گے اور اپنی مرحومہ اہلیہ کی برسی کی تقریب سے خطاب کرنے کے بعد دبئی روانہ ہو جائیں گے کہ ۔۔۔’’گوشے میں ’’قفس‘‘ کے مجھے آرام بہت ہے‘‘۔۔۔ زرداری صاحب ایک دھواں دھار تقریر کرنے کے بعد بیرون ملک روانہ ہوئے تھے۔ انہوں نے فوجی قیادت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ تم تو تین سال کے لئے آتے ہو، لیکن ہمارا قیام یہاں مستقل ہے۔ اس وقت ڈاکٹر عاصم اور زرداری صاحب کے کئی قریبی افراد کے خلاف کارروائیاں جاری تھیں اور فضا میں یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے زرداری صاحب کا گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔

گورنر ہاؤس کراچی کے ایک اعلیٰ ترین سطح کے اجلاس میں جنرل راحیل شریف اور ان کے درمیان (مبینہ طور پر) ایسے جملوں کا تبادلہ بھی ہوا تھا جنہیں کسی طور خوشگوار نہیں کہا جا سکتا ۔ زرداری سٹپٹائے ہوئے تھے، یہاں تک کہ انہوں نے دل کی بھڑاس نکال لی۔ بادل کی طرح گرجے، بارش کی طرح برسے اور پھر ہوا کی طرح یہ جا اور وہ جا۔ اس تقریر کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ان سے وزیراعظم نوازشریف کا براہِ راست رابطہ منقطع ہو گیا۔ عمران خان کے دھرنا نمبر ایک کے دوران پیپلزپارٹی نے ڈٹ کر ان کی مخالفت کی تھی۔ پارلیمنٹ کی طاقت سے نادیدہ قوتوں کو نوشتہ دیوارپڑھنے پر مجبور کر دیا تھا۔ آتشیں تقریر کے بعد نواز، زرداری طے شدہ ملاقات منسوخ ہو گئی۔ فواد حسن فواد کو معذرت کرنے کے لئے بھیج دیا گیا۔ وزیراعظم اس تقریر کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نہیں تھے کہ حریف یہ طوفان اٹھا سکتے تھے کہ انہوں نے اس پر زرداری کی پیٹھ ٹھونکی ہے۔ ملاقات سے معذرت نے زرداری صاحب اور وزیراعظم کے درمیان فاصلے پیدا کر دیئے۔ اس سے پہلے وہ ایک دوسرے سے بے تکلفانہ مل سکتے یا ٹیلی فون پر بات کر سکتے تھے۔ اس کے بعد یہ ممکن نہ رہا۔ زرداری صاحب اس سبکی کو پی تو گئے، لیکن بھلا نہیں پائے۔ دونوں کے درمیان اب رابطہ بلاواسطہ نہیں رہا۔
زرداری صاحب کو بقول بلاول ان کے ڈاکٹروں نے سفر کی اجازت دے دی ہے۔ یہ اور بات کہ مذکورہ ڈاکٹروں کے نام کسی کو معلوم نہیں ہیں۔ اہلِ سیاست سے ڈاکٹروں کا تعلق بھی خوب ہے، یہ ہر مشکل وقت میں ان کے کام آتے ہیں۔ ایسی ایسی بیماریاں ایجاد کر لیتے ہیں جو صرف اہلِ سیاست کو لاحق ہوتی ہیں اور اپنے اثرات چھوڑے بغیر رخصت بھی ہو جاتی ہیں۔ اس موضوع پر سیاست یا تاریخ کے طالب علم پی ایچ ڈی کے کئی مقالے تحریر کر سکتے ہیں کہ کس سیاستدان کو کس وقت کیا ناقابل بیان (یا ناقابل علاج) بیماری لاحق ہوئی۔ ایک معینہ عرصے تک اس سے چمٹی رہی اور اس کے بعد کبھی پلٹ کر بھی اس کی طرف نہیں آئی۔ہمارے ہاں ڈاکٹروں نے ایسے ایسے امراض دریافت کر لئے ہیں جن کی بدولت مریض کا چلنا پھرنا ممکن نہیں رہتا، اس کا بیرون ملک جانا بھی ضروری ہوجاتا ہے، وہ عدالت میں حاضر ہونے کے قابل نہیں ہوتا، لیکن حالات بدلتے ہی رفو چکر ہو جاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف بھی ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہیں۔ ان کے معالجین نے انہیں پاکستان کی کسی عدالت میں پیش ہونے کے ناقابل بنایا، بیرون ملک بھجوایا اور اب وہ وہاں چوکڑیاں بھرتے پھر رہے ہیں۔ جب وطن واپسی کی بات کی جائے تو کمر پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں کہ نگوڑی سے پوچھ کر بتاؤں گا۔

زرداری صاحب کا معاملہ پرویز مشرف سے خاصا مختلف ہے۔ جس نے بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا ہے، جانتا ہے کہ وہ ہمیشہ پرہیز یافتہ اشیاء استعمال کرتے ہیں اور ادویات بھی ان کی خوراک کا حصہ ہیں۔ جیل سے یوں وہ نہیں گھبراتے کہ کئی سال پسِ دیوار زنداں رہ کر مجید نظامی مرحوم تک سے ’’مردِ حر‘‘ کا خطاب پا چکے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے تو ابھی اس مکتب میں قدم نہیں رکھا۔ دیکھیں راحیل شریف صاحب کے جانے کے بعد ان کی حفاظت کون کرتا ہے؟۔۔۔ عرض یہ کرنا مقصود ہے کہ زرداری صاحب واپس آئے ہیں تو سب کچھ بدل چکا ہے۔ آرمی چیف ، کور کمانڈر کراچی، ڈی جی رینجرز سندھ، ڈی جی آئی ایس پی آر۔۔۔ زرداری صاحب نے بھی کراچی پہنچ کر بدلی ہوئی تقریر کی۔

ایک مدبر سیاستدان کی طرح ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولے، لوگوں کو امید دلائی اور پاکستان کے اچھے مستقبل کی نوید دی، لیکن ان کی آمد سے پہلے رینجرز نے ان کے ایک انتہائی قریبی دوست کے دفتر پر چھاپہ مار کر بڑی تعداد میں اسلحہ برآمد کر لیا۔ مبصرین کہہ رہے ہیں کہ اس سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ بہت کچھ بدلنے کے باوجود سب کچھ نہیں بدلا۔ ادارے اپنے ہاتھ دکھانے پر بضد ہیں۔ نام بدلنے سے کام نہیں بدل پایا۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ سندھ حکومت اپنے اطوار بدل لے۔ سرکاری ملازمین (بشمول آئی جی سندھ) کو ذاتی ملازم سمجھنا چھوڑ دے۔ ان سے کاروباری مفادات کی رکھوالی کی توقع نہ قائم کرے ۔ سیاسی اور غیر سیاسی افراد اور اداروں سے اگر یہ بات عرض کر دی جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ ماضی کو دہرانے سے دونوں گریز کریں، وگرنہ سیاست بھی ہاتھ ملے گی اور وہ بھی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے، جو دفاعِ وطن کا حلف اٹھائے ہوئے ہیں۔

مجیب الرحمٰن شامی

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کب رہا ہوں گی ؟

$
0
0

 اداریہ روزنامہ جنگ

چھٹی جماعت کے طالب علم نے ایوان صدر کو چیلنج کر دیا

$
0
0

اسلام آباد میں چھٹی جماعت کے طالب علم نے مبینہ طور پر یوم قائد کی تقریر چوری کرنے پر ایوان صدر کو چیلنج کر دیا۔ اسلام آباد ماڈل کالج فار بوائز ایف ٹین تھری کے چھٹی کلاس کے 11 سالہ طالب علم سبیل حیدر نے اپنے وکیل خاور امیر بخاری کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ انہوں نے 23 مارچ 2016 کو ایوان صدر میں تقریر کی، جس کے بعد یوم قائد پر ’پاکستان کا مستقبل‘کے عنوان پر بھی انہیں تقریر کے لیے کہا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی تقریر کا اسکرپٹ خود لکھ کر ایوان صدر منظوری کے لیے بھجوایا۔ 

ایوان صدر کے سیکریٹری اور ایڈیشنل سیکریٹری نے ان کے اسکرپٹ کو پاس کر دیا، جس کے بعد سبیل ریہرسل کے لیے ایوان صدر گئے، 21 دسمبر کو فل ڈے ریہرسل پر بھی انہوں نے تقریر کی۔ بعد ازاں جب 22 دسمبر کو وہ ریکارڈنگ کے لیے ایوان صدر پہنچے تو ایوان صدر کی ایڈیشنل سیکریٹری شائستہ سہیل نے انہیں یہ کہتے ہوئے تقریر کرنے سے روک دیا سیکریٹری صاحب کا حکم ہے کہ یومِ قائد پر عائشہ اشتیاق تقریر کرے گی۔ سبیل حیدر نے اپنی درخواست میں کہا کہ جب انہوں نے اس لڑکی کی تقریر سنی تو وہ ان کا ہی چُرایا ہوا اسکرپٹ تھا۔
درخواست گزار بچے کے وکیل خاور امیر بخاری نے عدالت عالیہ کے جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ 11 سالہ بچے نے خود تقریر کا اسکرپٹ تیار کیا، جو اس کی اجازت کے بغیر کسی اور کو دے دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ انٹیلیکچوئل پراپرٹی کے سیکشن 3 اور کاپی رائٹس آرڈیننس 1967 کے تحت جو مواد کسی نے اپنی ذاتی محنت سے تیار کیا ہو، اسے کوئی دوسرا شخص اس کی مرضی کے بغیر ڈیلیور نہیں کرسکتا، اور عدالت کو اختیار ہے کہ وہ کسی بھی غیر قانونی، غیر منصفانہ اقدام کو روکے۔ وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ یوم قائد کی چُرائی ہوئی تقریر کو نشر ہونے سے روکا جائے۔
عدالت عالیہ کے جسٹس عامر فاروق نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ درخواست میں ایوان صدر کے سیکریٹری، ایڈیشنل سیکریٹری، ڈائریکٹر کالجز، پی ٹی وی، پیمرا اور عائشہ اشتیاق کو فریق بنایا گیا ہے۔

طاہر نصیر

پروفیسر غفور احمد کی سیاسی و سماجی خدمات

$
0
0

26 دسمبر 2012ء کو عزیزی سید طلحہ حسن کے ولیمے میں شرکت کے لئے کراچی گیا، اس مبارک تقریب سے فارغ ہوا ہی تھا کہ یہ دل خراش ایس ایم ایس موصول ہوا کہ برادرم محترم و مکرم پروفیسر عبدالغفور احمد اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں __ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنo۔ کراچی کے سفر کے مقاصد میں پروفیسر عبدالغفور کی عیادت سرفہرست تھی۔ تقریب میں ان کے صاحب زادے عزیزی طارق سے 27 دسمبر کو ان کے گھر آنے کا پروگرام طے کیا تھا، لیکن کیا خبر تھی کہ 27 کو عیادت نہیں، تعزیت کے لئے ان کے گھر جانا ہو گا اور اسی شام ان کے جنازے میں شرکت کر کے ، ان کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہنا ہو گا۔ پروفیسر عبدالغفور احمد ملک و ملّت کا زریں اثاثہ تھے۔ تعلیم و تدریس، دعوت و تبلیغ اور خدمت و سیاست، ہر میدان میں انہوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ 11 جون 1927ء کو یوپی کے مشہور علمی اور دینی گہوارے بریلی میں پیدا ہوئے۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے 1948ء میں ایم کام کی سند حاصل کی اور اسی سال اسلامیہ کالج لکھنؤ میں بطور لیکچرار اپنے تدریسی کردار کا آغاز کیا۔ اگلے ہی سال ہجرت کر کے کراچی آئے اور ایک پرائیویٹ تجارتی ادارے میں اکاؤنٹس کے شعبے میں ذمہ داری سنبھالی۔ پھر اُردو کالج میں تجارت اور حسابیات کے لیکچرار کی اضافی ذمہ داری سنبھال لی، یہ سلسلہ 1961ء تک جاری رہا۔ اس کے بعد انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکاؤنٹس، انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹس اور جناح انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکاؤنٹس میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ یہ سلسلہ 1972ء تک جاری رہا جس کے بعد قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے ہمہ وقتی بنیاد پر پارلیمنٹ اور جماعت اسلامی کی ذمہ داریوں کو ادا کرتے رہے۔
1970ء میں کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1977ء کے انتخاب میں بھی ساری دھاندلی کے علی الرغم جماعت کے 9 منتخب ارکان میں شامل تھے، 1972ء سے قومی اسمبلی میں دستور سازی، جمہوریت کے تحفظ، ختم نبوت اور نظامِ مصطفی کی تحریکوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔ متحدہ جمہوری محاذ (یو ڈی ایف) اور پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) (1977ء تا 1979ء) کے سیکرٹری جنرل رہے۔ 1978ء تا 1979ء میں وفاقی وزیرپیداوار کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور 2002ء سے 2005ء تک سینیٹ آف پاکستان کے رکن رہے۔ پروفیسر عبدالغفورنے پاکستان کے سیاسی حالات پر آٹھ کتابیں مرتب کیں جو پاکستان کی تاریخ کا ایک مستند ماخذ ہیں۔ پروفیسر عبدالغفور سے میرا پہلا تعلق تو شاگرد اور استاد کے رشتے سے ہے۔ گو مَیں نے بلاواسطہ ان سے پڑھا نہیں لیکن جب مَیں گورنمنٹ کالج آف کامرس اینڈ اکانومکس میں بی کام کی تعلیم حاصل کر رہا تھا تو وہ اُردو کالج اور کچھ دوسرے پروفیشنل اداروں میں پڑھا رہے تھے اور میرے استاد متین انصاری کے قریبی دوست تھے جس واسطے سے مجھے ان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ بی کام میں وہ میرے ممتحن بھی رہے اور اس طرح بلاواسطہ استاد بھی ہو گئے۔ نیز جماعت اسلامی میں میرے سینئر تھے، اور مَیں نے تحریکی زندگی اور ملکی سیاست دونوں کے سلسلے میں ان سے بہت کچھ سیکھا۔

1964ء میں ساڑھے نو مہینے ہمیں جیل میں ایک ہی کمرے میں باقی ساتھیوں کے ساتھ رہنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مَیں نے ان کو ایک نفیس، باذوق، خداترس، محبت کرنے والا، بے غرض اور راست باز انسان پایا جو اپنے چھوٹوں سے بھی کچھ ایسا معاملہ کرتا ہے کہ یہ فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون بڑا ہے اور کون چھوٹا۔ مَیں نے ان 60 برسوں میں ان سے شفقت، محبت اور عزت کا جو حصہ پایا وہ زندگی کا قیمتی ترین سرمایہ ہے۔ پروفیسر عبدالغفور کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو ان کی سادگی، نفاست، انکسار، محبت اور شفقت تھا۔ تصنع کا کوئی شائبہ بھی ان کی زندگی کے کسی پہلو میں مَیں نے کبھی نہیں دیکھا۔ مشکل سے مشکل وقت میں بھی وہ سلیقے اور نرمی سے بات کرنے کا سلیقہ رکھتے تھے۔ اختلاف میں شائستگی اور دوسرے کے موقف کا احترام ان کا طریقہ تھا۔ انہوں نے ہمیشہ ذاتی مفاد سے بالا ہوکر اپنے اجتماعی تعلقات کو استوار کیا، اور ہرشخص کے ساتھ عزت اور مروت کا رویہ اختیار کیا جس نے ہردل میں خود ان کے لئے عزت و احترام کا چشمہ رواں کر دیا۔

ملک کی سیاسی زندگی میں ان کا کردار بڑا نمایاں ہے۔ انہوں نے جمہوریت کے فروغ اور اسلام کی ترجمانی کا فریضہ بڑی حکمت، بے باکی اور بے غرضی سے انجام دیا۔ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد جو کچھ بھی تھا اس کو سنبھالنے اور ایک نئی زندگی دینے کے لئے جو جدوجہد 1972ء کے بعد قومی اسمبلی میں اور اس کے باہر ہوئی، اس میں پروفیسر عبدالغفور صاحب کا کردار سنہری حروف میں لکھے جانے کے لائق ہے۔ 1970ء کے انتخابات کے نتائج کا جو اثر تحریکِ اسلامی اور اس کے بہی خواہوں پر پڑا تھا، اس کا جس سمجھ داری اور جرأت سے مقابلہ کیا وہ ہماری تحریکی اور ملکی زندگی کا ایک تابناک باب ہے۔ 1973ء کا دستور بنانے میں ان کا اور اس وقت کی حزبِ اختلاف کے ارکان کا بڑا تاریخی کردار ہے۔ 1972ء ہی میں ایک پہلے سے بنائے ہوئے مسودۂ دستور کو ملک پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی اور اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر ایک قسم کی سول آمریت کا خطرہ ایک حقیقت بنتا نظر آرہا تھا، لیکن ایک چھوٹی سی اپوزیشن نے جس میں پروفیسر عبدالغفور احمد، مولانا ظفر احمد انصاری ، مولانا مفتی محمود ، خان عبدالولی خان ، شیرباز مزاری، مولانا شاہ احمد نورانی وغیرہم نے بڑی حکمت کے ساتھ اس مجوزہ دستور کو صرف ایک عبوری دستور کے طور پر تسلیم کرکے وقت کے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ ایک دستوری کمیٹی بنا ئیں بلکہ نئے دستور کی تدوین کا کام کریں۔

اس میں ذوالفقار علی بھٹو، محمود علی قصوری اور عبدالحفیظ پیرزادہ کا بھی اہم کردار رہا اور یہ کرشمہ رُونما ہوا کہ 1973ء میں ایک متفقہ دستور بن سکا جس نے اب تک پاکستان کے سیاسی نظام کو ساری دراندازیوں اور سیاسی و عسکری طالع آزمائیوں کی زوردستیوں کے باوجود جمہوریت کی پٹڑی پر قائم رکھا ہے۔ پروفیسر عبدالغفور احمد کا اس پورے عمل میں ایک مرکزی کردار تھا۔ اسی طرح سیاسی اختلافات کے باوجود، سیاسی قوتوں کو منظم کرنے اور متعین مقاصد کے لئے اتحاد قائم کرنے اور ان کی بنیاد پر تحریک چلانے کے باب میں پروفیسر عبدالغفور کا کردار منفرد تھا۔ دستور سازی اور پھر سیاسی تحریکوں میں ان کے کردار کو دیکھ کر الطاف گوہر اور خالد اسحق جیسے افراد نے میرے اور دوسرے دسیوں افراد کے سامنے یہ راے ظاہر کی تھی کہ اگر ملک کی سیاسی قیادت پروفیسر عبدالغفور جیسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو تو یہ ملک دن دونی اور رات چوگنی ترقی کرسکتا ہے، بلکہ الطاف گوہر نے تو ’’ڈان‘‘ لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں ان کو پاکستان کے لئے مطلوب وزیراعظم تک کی حیثیت سے پیش کیا۔

پروفیسر عبدالغفور کی سیاسی سوجھ بوجھ، معاملہ فہمی اور شدید اختلافات کے درمیان مشترکہ باتوں پر اتفاق راے پیدا کرنے کی صلاحیت کے دوست اور دشمن سب قائل تھے، یہی وجہ ہے کہ ہرحلقے میں ان کی عزت تھی۔

پروفیسر خورشید احمد

انٹرنیٹ پر جھوٹی خبر کس حد تک اثرانداز ہو سکتی ہے ؟

$
0
0

ایک جھوٹی خبر کس حد تک اثرانداز ہو سکتی ہے اس کا مظاہرہ تین ہفتے قبل واشنگٹن نے دیکھا جب ایک شخص ایک جھوٹی خبر کے ردعمل میں ایک پیزا ریستوران میں فائرنگ کر دی۔ اطلاعات کے مطابق اس واقعے میں کسی کو نقصان نہیں پہنچا اور پولیس نے مسلح شخص کو حراست میں لے لیا۔ اسی طرح حال ہی میں منعقدہ امریکی انتخابات میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کر جھوٹی خبروں کی اشاعت کا معاملہ سامنے آیا اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ ان سے امریکی ووٹروں کی رائے عامہ میں تبدیلی ہوئی۔

جھوٹی خبروں اور اس کے ردعمل کے طور پر کوئی بیان جاری کرنے یا کوئی قدم اٹھانے کا معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ اس کے حالیہ شکار پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف بنے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ کیا اسرائیل بھول گیا ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ وزیر دفاع نے یہ بیان اسرائیل کے وزیر دفاع کے مبینہ بیان کے جواب میں دیا۔  منگل کے روز آے ڈبلیو ڈی نامی ویب سائٹ پر شائع ایک خبر شائع ہوئی جس میں کہا گیا 'اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ اگر پاکستان نے کسی بھی بہانے سے شام میں زمینی فوج بھیجی تو ہم اس ملک کو ایٹمی حملے میں تباہ کر دیں گے۔'اس خبر کے مطابق اسرائیل کے سابق وزیر دفاع موشے یالون نے پاکستان کو دھمکی دی۔
اے ڈبلیو ڈی میں شائع ہونے والی کہانی کے مطابق یالون نے مزید پاکستانی فوج کی شام میں آمد کے حوالے سے کہا 'جہاں تک ہمارا تعلق ہے یہ ایک دھمکی ہے اور اگر بدقسمتی سے وہ شام میں آتے ہیں تو ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔ ہم ان کو ایٹمی حملے میں تباہ کردیں گے۔'اس 'دھمکی'کے جواب میں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا 'اسرائیلی وزیر دفاع نے پاکستان کے شام میں داعش کے خلاف کردار پر قیاس آرائی کرتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دی۔ اسرائیل بھول رہا ہے کہ پاکستان بھی جوہری صلاحیت رکھتا ہے الحمداللہ۔'

تاہم اسرائیلی وزارت دفاع نے ٹوئٹ میں خواجہ آصف کو ٹیگ کرتے ہوئے کہا ہے 'جو بیان سابق وزیر دفاع یالون کے حوالے سے نشر کیا گیا ہے وہ کبھی دیا ہی نہیں گیا۔' ایک اور ٹوئٹ میں اسرائیلی وزارت دفاع نے ایک بار پھر خواجہ آصف کو ٹیگ کرتے ہوئے کہا ہے ’خواجہ آصف جس رپورٹ کا ذکر کر رہے ہیں وہ بالکل من گھڑت ہے۔'تاہم واضح رہے کہ موشے یالون اسرائیل کے وزیر دفاع نہیں ہیں۔ ان کو عہدے سے مئی میں ہٹا دیا گیا تھا اور ان کی جگہ لائیبرمین کو مقرر کیا گیا ہے۔ حال ہی میں فیس بک پر غلط خبروں کے معاملے پر تنازع اس وقت کھڑا ہوا تھا جب بعض صارفین نے کہا کہ فیس بک پر پھیلنے والی بعد غلط خبریں امریکی صدارتی انتخاب کے نتائج پر اثرا انداز ہوئی ہیں۔

خیال رہے کہ کچھ اعداد و شمار سے یہ امر سامنے آیا تھا کہ کچھ جعلی خبریں فیس بک پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی تھی جبکہ ان کی تردید زیادہ شیئر نہیں ہوئی۔ خیال رہے کہ انٹرنیٹ پر نقلی خبروں پر نظر رکھنے والی ایک ویب سائٹ mediabiasfactcheck.com کے مطابق انٹرنیٹ پر کئی ایسی ویب سائٹس ہیں جو نقلی خبریں پھیلاتی ہیں۔ 'ایسی ویب سائٹس یہ غلط خبریں چھاپتی ہیں جن کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ ان ویب سائٹس پر خبریں قیاس آرائیوں پر مبنی ہوتی ہیں۔'

رضا ہمدانی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد



نیب کے نام

$
0
0
Read senator-tariq-chaudhry Column nab-ke-naam published on 2016-12-27 in Daily JangAkhbar

سینیٹر(ر) طارق چوہدری


سی پیک کی سیاست

کوٹ رادھا کشن

$
0
0

ضلع قصور کا قصبہ اور تحصیل۔ کراچی لاہور ریلوے لائن پر لاہور سے 56 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ 1976ء میں اسے ضلع قصور میں شامل کیا گیا۔ اسے قدیم وقتوں میں را دھا کشن نے اپنے نام پر آباد کیا تھا جس کے متعلق یہ بھی روایت ہے کہ وہ کنگن کی بہن تھی جس نے کنگن پور بسایا تھا۔ اسے رائے ونڈ اور چھانگا مانگا کے درمیان اہم تجارتی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ گُڑ، شکر، توریہ، کپاس اور گندم کی بڑی منڈی ہے۔ ایک درجن سے ز ائد کپاس بیلنے کے کارخانے ہیں۔ ہربل میڈیسن تیار کرنے کے چند یونٹ بھی کام کر رہے ہیں۔ ان میں خاص طور پر اے، ون یونانی لیبارٹری زیادہ مشہور ہے۔ دیسی ادویات سازی کے دیگر اداروں میں احمد برادرز ، ایم اے یونانی اور ہدایت سنگ یونانی لیبارٹری وغیرہ شامل ہیں۔

اس کاروبار میں یہاں کی مغل برادری زیادہ تر پیش پیش ہے جبکہ شیخ برادری دوکانداری میں آگے ہے۔ یہاں طالبات کا کالج، طلباء کا ہائیر سیکنڈری اور متعدد سرکاری و غیر سرکاری سکولز، ہسپتال ، دفتر یونین کونسل تھانہ اور ڈاکخانہ وغیرہ موجود ہیں۔ پرانی منڈی، لالہ زار کالونی، جاوید نگر، عمر آباد، فیصل ٹائون، اشرفیہ ٹائون، لالہ پاک ہائوسنگ سکیم وغیرہ یہاں کی رہائشی بستیاں جبکہ بائی پاس، شجاع مارکیٹ، شیر گڑھ بازار، ساندہ بازار، ریل بازار اور غلہ منڈی وغیرہ اہم تجارتی مراکز ہیں۔ انگریزی عہد میں یہاں ریلوے لائن بچھی اور ریلوے اسٹیشن قائم ہوا تو علاقے کی اقتصادی ترقی کو بھی فروغ ملا۔ چنانچہ یہاں غلہ منڈی بھی قائم ہو گئی۔ یوں رفتہ رفتہ اس کی آبادی بڑھتی چلی گئی۔ قیام پاکستان سے قبل یہاں ہندو اور سکھ زیادہ تعداد میں آباد تھے۔ 1947ء میں تمام سکھ اور ہندو نقل مکانی کر کے بھارت چلے گئے اور ان کی جگہ بھارت سے آئے ہوئے مسلمان مہاجرین آکر آباد ہوئے۔

انور زاہد، دین محمد پردیسی اور شفیق سلیمی شعری ادب کے حوالے سے کوٹ رادھا کشن کی پہچان ہیں۔ انور زاہد 1951ء میں پیدا ہوئے اور درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے پنجابی اور اردو دونوں زبانوں میں شاعری کرتے ہیں۔ ’’بھلادے زخم‘‘ اور ’’پیاس‘‘ آپ کے شعری مجموعے ہیں‘‘ . دین محمد پردیسی 1923ء میں پیدا ہوئے۔ پنجابی منظوم قِصّے لکھے۔ غریب دا حال، شانِ رمضان اور سفر نامہ حج آپ کی پنجابی شعری تصانیف ہیں۔ وہ نعت، سہ حرفی اور نظم کے شاعر ہیں۔ شفیق سلیمی 1944ء میں ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد کوٹ رادھا کشن میں آبسے۔ ابو ظہبی میں درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ’’تمازت‘‘ آپ کا شعری مجموعہ ہے جو شائع ہوا۔ یہاں کے محمد دین ساگر نے شعر و شاعری کے حوالے سے قریباً 80 کتب منتخب کیں۔ اس کے علاوہ پہلا چراغ اور لمحے، مجموعہ کلام بھی شائع کئے۔ اس کے علاوہ تصوف کے حوالے سے کافی کام کیا۔ 

(اسد سلیم شیخ کی کتاب ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس)

مشکل حالات سے کیسے نمٹیں؟

$
0
0

مثبت رویہ کامیاب زندگی کی کلید ہے۔ اچھے حالات میں تو مثبت رویہ رکھنا اتنا مشکل نہیں لیکن وقت پلٹا کھا جائے تو ہم اس سے دامن چھڑا لیتے ہیں۔ جان رکھیں کہ ناکامیاں، مشکلات اور پریشانیاں بھی زندگی کا ہی حصہ ہیں، چاہے وہ چھوٹی ہوں یا بڑی، اس لیے اگر آپ واقعی ایک کامیاب شخصیت بننا چاہتے ہیں تو ہر طرح کے حالات میں اپنا رویہ اور سوچنے کا انداز برقرار رکھنا پڑے گا۔ خراب حالات کے باوجود اپنی سوچ کو ہمیشہ بہتر رکھنے کے لیے کچھ آزمودہ طریقے ہیں، جیسا کہ

وقفہ لیں آپ کی زندگی معمول کے مطابق گزر رہی ہو تو ایسا لگتا ہے کہ یہ ہمیشہ ہی ایسی رہے گی، پھر اچانک کچھ ہو جاتا ہے۔ آپ کے تمام منصوبے درہم برہم ہو جاتے ہیں، ہم حیران رہ جاتے ہیں اور پھر ردِ عمل دکھاتے ہیں۔ بد قسمتی سے یہی ردِ عمل بسا اوقات مسئلے کو خطرناک بنا دیتا ہے۔ ہم ایسے فیصلے کرتے ہیں جو اچھی طرح سوچ بچار کے بعد نہیں کیے جاتے۔ اس لیے جب بھی ایسے حالات کا سامنا ہو، کچھ قدم پیچھے ہٹیں اور مسئلے کے بارے میں سوچیں۔ یہ قدم آپ کو اس کا معقول حل سوچنے کا موقع دے گا۔ 
منزل پر نظر ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ایسے حالات میں توجہ ان چیزوں پر چلی جاتی ہے جن پر نظر ڈالنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔ گاڑیوں کی ریس میں جب ڈرائیور کو مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اپنی نظر آگے کی طرف رکھتے ہیں، ورنہ ان کی گاڑی تباہ ہونے کا خطرہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ یعنی ان کی نظر ہدف پر رہتی ہے اور یہی رویہ انہیں مسئلے سے باہر نکالتا ہے۔ توجہ حل پر، مسائل پر نہیں خراب حالات خاموش نہیں رہتے، وہ چیخ چیخ کر آپ کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتے ہیں اور آپ اس پر بھرپور ردِ عمل دکھاتے ہیں۔

اتنا کہ اُٹھتے بیٹھتے بات بھی انہی مسائل کے بارے میں کرتے ہیں یعنی انہیں ضرورت سے زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ مسئلے کے بجائے اگر آپ اس کے حل پر بات کریں تو یہ حالات آپ کو بہت کچھ سکھا سکتے ہیں۔ اس لیے شکوہ شکایت کے بجائے مسئلے کے حل کی حوصلہ افزائی کریں اور مثبت نتائج پر زور دیں۔ مثبت طاقت حاصل کریں ذہن کی ساخت کچھ ایسی ہے کہ اسے کسی سمت میں بس دھکا دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر یہ پہاڑی سے لڑھکتے پتھر کی طرح ہو جاتا ہے اور اس سمت میں چلتا چلا جاتا ہے۔ 

اس لیے آپ کو اپنی سوچ کو مستحکم کرنے کے لیے کچھ کام کرنا ہو گا۔ جب خراب حالات آپ کے جذبات کو چھیڑیں تو کسی ایسے دوست سے ملاقات کریں جو آپ کے حوصلے بلند کرے۔ خود کلامی انسان کی سب سے بڑی طاقتوں میں سے ایک اپنی سوچ پر گرفت پانے کی قوت ہے۔ مسائل کے بجائے اپنی زندگی کی اچھی چیزوں پر سوچیں۔ خود سے بات کر کے زندگی کے مثبت پہلوؤں پر دھیان دیں، ان کا لطف اُٹھائیں اور خوشی اور سکون کو محسوس کریں۔ یہ وقت بھی گزر جائے گا اس جملے کو ہمیشہ اپنے ذہن میں تازہ رکھیں۔ کتنے بھی بُرے حالات ہوں، لیکن یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ یوں آپ بدترین صورت حال میں بھی امید سے جڑے رہیں گے۔ اس سے آپ کا رویہ بھی بدلے گا، بہتر احساس بھی جنم لے گا اور آپ کو دوبارہ آگے بڑھنے کے لیے راستہ بھی ملے گا۔
 
زرتاشیہ میر

بے نظیر بھٹو کی زندگی ایک نظر میں

$
0
0

ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن اور دو مرتبہ ملک کی وزیراعظم بننے والی محترمہ بے نظیر بھٹو 1953ء میں پیدا اور 27 اکتوبر 2007ءکو راولپنڈی میں جاں بحق ہوئیں۔ بے نظیر بھٹو کراچی میں ذوالفقارعلی بھٹو کے گھر پیدا ہوئیں، انہوں نے برطانیہ اور امریکا میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی، تعلیم مکمل ہی کی تھی کہ ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ 
والد کو پھانسی کے بعد بے نظیر بھٹو کو نظر بندی اور جلا وطنی کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں، وہ 1986ء میں وطن واپس آئیں، 1987ء میں آصف علی زرداری سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ 1988 میں وہ تاریخ کی سب سے کم عمر اور اسلامی دنیا کے کسی ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں تاہم 20 ماہ بعد ہی ان کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا۔

1993 میں وہ دوسری مرتبہ برسراقتدار آئیں لیکن 1996 میں ایک مرتبہ پھر ان کی حکومت ختم کر دی گئی، 1998 میں انہوں نے پھر جلاوطنی اختیار کی اور 18 اکتوبر 2007 کو وطن واپس پہنچی تو ان پر پہلا حملہ ہوا جس میں وہ تو بچ گئیں  لیکن 200 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے۔ پہلے حملے کے ٹھیک 2ماہ 9 دن بعد 27 دسمبر 2007 راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ان پر دوسرا حملہ ہوا جس میں وہ جاں بحق ہو گئیں۔


Viewing all 4314 articles
Browse latest View live