Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

ابن ِبطوطہ دنیا کے عظیم سیاح کی داستان

0
0

عالم گیر شہرت کے حامل مسلمان سیاح ابن ِ بطوطہ نے 28 سال کی مدت میں 75ہزار میل کا سفر کیا، جن ملکوں کی انہوں نے سیاحت کی، کہاجاتا ہے کہ اُن میں موجودہ پاکستان اور ہندوستان سمیت ایران، شام، تیونس، جزائر شرق الہند، روس، مصر، دمشق، ترکی، افریقا، فلسطین، یروشلم اور چین شامل تھے۔ان تمام سفروں کی روداد انہوں نے ایک کتاب ’عجائب الاسفارنی غرائب الجبار‘ میں درج کی ہے، جسے عالمی ادب میں کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ یہ کتاب عربی ادب میں اوّلین سفرنامے کے طور پر بھی معروف ہے۔ ابن ِبطوطہ 1304ء میں مراکش کے ایک شہر طنجہ کے ایک علمی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ اُن کے بارے میں معلومات زیادہ تر اُن کی اپنی تحریروں میں دستیاب ہیں، جو انہوں نے اپنے سفروں سے متعلق لکھی ہیں۔ طنجہ ہی میںابن ِبطوطہ نے اسلامی فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ 
اُن کے والد اور خاندان کے دیگر افراد قاضی کے عہدوں پر کام کرتے رہے تھے اور علم فقہ کے شعبے میں اُن کے خاندان کے علمی کمال کی بڑی دھوم تھیں، لیکن فقہ کے میدان میں مہارت حاصل کرنے کے باوجود ابن ِبطوطہ اس شعبے میں کیریئر بنانے میں چنداں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ نوجوانی ہی میں اس شعبے کی طرف راجع ہوئے، جسے انہوں نے آنے والے برسوں میں اپنی پہچان بنانا تھا اور جس میں اُن کے گراں قدر کام نے انہیں ہمیشہ کے لیے ایک افضل رتبہ عطا کیا۔ اکیس برس کی عمر میں وہ حج کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ اپنے شہر سے باہر ان کا پہلا سفر تھا۔ یہ سفر جو سولہ مہینوں میں مکمل ہونا تھا، اگلے چوبیس برسوں پر محیط ہوگیا، جس دوران میں شوق سیاحت نے انہیں کہیں ایک جگہ قیام کرنے سے مانع رکھا۔ اُن کے لیے منزل اہم نہیں تھی بلکہ سفر جاری رکھنے کا ایک بہانہ تھا۔ وہ سفر کے اسیر تھے۔ یہی شوق انہیں دنیا بھر میں مختلف خطوں میں لیے پھرتا رہا۔ زیادہ تر انہوں نے زمینی راستوں کو سفر کے لیے منتخب کیا اور لوٹ مار سے بچنے کے لیے قافلوں میں شامل ہوجاتے ،جو انہیں ہر شعبے کے ماہرین سے ملنے اور ان کے ساتھ سفر کرنے کے مواقع فراہم کرتا۔ وہ خود لکھتے ہیں کہ زیادہ تر سفر انہوں نے تنہا طے کیے، نہ کسی کارواں میں شامل ہوئے، نہ کسی ساتھی کی صحبت کا سہارا لیا۔ ساتھ رہی تو بس ایک خواہش، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدید ہوتی گئی اور وہ خواہش اجنبی سرزمینوں اور ثقافتوں کی سیر اور اجنبی آبادیوں اور انسانوں سے ملنے کی تھی۔

اس خواہش نے ابن ِ بطوطہ کو اس کے گھر بار، رشتہ داروں اور دوستوں سے دور کردیا۔ گھر اور عورت کا سکھ، دوستوں کی صحبت اور جانی پہچانی راہوں کا اطمینان انہوں نے تج دیا۔ ان سفروں میں انہیں بھوک پیاس سے نڈھا ل ہوکر پیدل سفر کی صعوبت بھی برداشت کرنی پڑی۔ کئی بار وہ فوجوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے، لٹیروں کے حملوں کا شکار بنے، باربار لوٹ لیے گئے، ایک سے زائد مرتبہ مرتے مرتے بچے اور متعدد بار راستہ بھٹک کر نئی منزلوں کی جانب رواں ہوئے۔ اپنے سفروں کا آغاز ابن ِبطوطہ نے مشرق وسطی کے ممالک سے کیا، پھر وہ بحیرہ احمر سے ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچے ،جہاں انہوں نے حج کا فریضہ ادا کیا۔ طویل صحرائی سفر کے بعد وہ عراق اور ایران پہنچے۔ 1330ء میں وہ پھر سے بحیرہ احمر کے ذریعے عدن اور تنزانیہ گئے۔ ابن ِبطوطہ نے اپنے سفروں کے دوران چار مرتبہ حج کیے۔ 1332ء میں وہ ہندوستان آئے۔ یہاں ہندوستان کے علم دوست بادشاہ محمد بن تغلق کی حکومت تھی۔ اس کے دربار میں اُن کی شہرت اُن کی آمد سے پہلے پہنچ چکی تھی۔ 

بادشاہ نے اُن کی خوب آؤ بھگت کی اور انہیں قاضی کے عہدے پر متعین کیا۔ یہاں وہ سولہ برس رہے۔ اس دربار میں علما، صوفیا اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، جنہیں سرکاری سرپرستی حاصل تھی۔ ان سولہ برسوں میں ابن ِبطوطہ کو سرکاری دوروں میں برصغیر کے متعدد علاقوں کی سیر کا موقع ملا، جس کا احوال انہوں نے تفصیل سے درج کیا ہے،لیکن وہ خود لکھتے ہیں کہ وہ اس ملک میں بادشاہ کے عتاب کے خوف سے قید ہوکر رہ گئے تھے کہ نہ نوکری چھوڑ کر جا سکتے تھے، نہ خود کو محض اس خطے تک محدود کرنے ہی پر مطمئن ہوتے تھے۔ ہندوستان سے باہر نکلنے کا موقع انہیں 1347ء میں میسر آیا جب وہ سرکاری وفد کے ساتھ چین گئے۔ اس سفر میں وہ ڈاکوؤں کے ہاتھوں لوٹ لیے گئے اور شدید زخمی ہوئے، لیکن پھر سے اپنے قافلے سے آن ملے۔ آئندہ برسوں میں ابن ِبطوطہ مالدیپ اور سری لنکا بھی گئے۔ مالدیپ میں تو وہ قاضی اعلیٰ کے طورپر بھی کام کرتے رہے۔ سری لنکا سے روانہ ہوتے ہوئے بحری قزاقوں کے حملے کے نتیجے میں وہ ڈوبتے ڈوبتے بچے۔ اپنے سفروں میں ابن ِبطوطہ مختلف ثقافتوں اور اُن کے رسوم و رواج کے بیان پر خاص توجہ صرف کرتے ہیں۔ انہیں وہ ایسی تفصیلات کے ساتھ بیان کرتے ہیں، جن میں تجسس کے ساتھ ایک عالمانہ تحقیق بھی کارفرما دکھائی دیتی ہے۔

وہ جہاں کہیں کوئی معمول سے ہٹ اور نیا رویہ یا رواج دیکھتے، اس کا قریب سے مشاہدہ کرتے اور پھر اس کی تفصیلات لکھ لیتے۔ یہ رسوم و رواج انہیں حظ بھی دیتے اور حیرتوں کے نئے دَر اُن پر وَا کرتے۔ ایک موقع پر انہوں نے ہندوؤں میں ستی کی رسم کا مشاہدہ کیا اور اسے تفصیل سے لکھا۔ وہ اس کی ہیبت سے اس قدر دہل گئے کہ لکھتے ہیں کہ جلائی جانے والے عورت کے کرب نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا اور وہ بے ہوش ہوگئے۔ وہ اس بہیمانہ رسم کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ ترکوں اور مغلوں میں عورتوں کی غیر معمولی قدر افزائی پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔ مغربی افریقا میں انہوں نے آدم خور قبیلوں کی بودوباش کا مشاہدہ کیا۔ اس سے متعلق ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ’’حبشی آدم خوروں کا ایک گروہ سلطان سلیمان سے ملنے آیا۔ سلطان کی طرف سے انہیں ایک حبشی کنیز تحفے میں دی گئی۔ انہو ں نے اسے مار کر کھا لیا اور اس کا خون اپنے چہروں پر لگا کر اظہار تشکر کے لیے سلطان سے ملنے آئے۔کسی نے مجھے بتایا کہ وہ کہتے ہیں کہ عورتوں کے گوشت کا سب سے مزیدار حصہ اُن کی ہتھیلیوں اور پاؤں کا گوشت ہوتا ہے۔‘‘ 1349ء میں ابن ِبطوطہ چوبیس سالہ سیاحت کے بعد اپنے آبائی وطن مراکش پہنچے، جہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہو ا کہ پندرہ برس پہلے اُن کا باپ اور چند ماہ پہلے اُن کی ماں فوت ہوچکی تھی۔ چند ماہ بعد ہی وہ پھر سے سفر پر روانہ ہوئے۔ 

1354ء میں وہ پھر سے مراکش لوٹے تو اس بار یہیں مستقل اقامت اختیار کرنے کے ارادہ کیا۔ مراکش کے حکمران ابو انان فارس کی فرمائش پر انہوں نے اپنے سفروں کا احوال قلم بند کیا۔ اس کتاب کا پورا نام ’تحفہ النظار فی غرائب الامصار و عجائب الاسفار‘ہے ،تاہم اسے ’الرحلۃ‘ کے مختصر سے بھی پکارا جاتا ہے، جس کا مطلب ’سفر‘ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابن ِبطوطہ کو سفر کے دوران نوٹس لینے کی عادت نہیں تھی۔ انہوں نے سفروں کے اختتام پر اپنی یادداشت کی بنیاد پر اُن کی روداد لکھی یا پھر پہلے سے موجود مختلف سیاحوں کے سفرناموں سے مدد لی۔ چند ایک مورخین کا یہ کہنا بھی ہے کہ جن سفروں کا ابن ِبطوطہ نے اپنے سفرنامے میں ذکر کیا ہے اور جن عجائبات کا بیان ہمیں اُن کے سفرنامے میں پڑھنے کو ملتا ہے، وہ سبھی سوفیصد درست نہیں ۔ بعض تو یہ بات بھی شک کی نظر سے پڑھتے ہیں کہ ابن ِ بطوطہ کبھی چین گئے تھے۔ اسی طرح انتولیا، بلخ وغیرہ کئی سفر ایسے ہیں، جن کے بارے میں اس شک کا اظہار کیا جا تا ہے کہ انہیں مختلف سیاحوں کے سفرناموں کی بنیاد پر تحریر کیا گیا۔ ابن ِبطوطہ کی مسلم دنیا سے باہر شہرت کا آغاز انیسویں صدی میں ہوا جب جرمن سیاح الرچ جیسپر سیٹزن نے مشرق وسطی میں چند مسودات حاصل کیے۔

انہی مسودات میں 94 صفحات پر مشتمل ایک مسودہ ابن ِبطوطہ کی کتاب کے خلاصے کی صورت میں موجود تھا۔ اس خلاصے کے جرمن زبان میں ترجمے کے بعد ابن ِبطوطہ کے مسودات کی تلاش اور اُن کے تراجم کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1355ء میں ابن ِبطوطہ نے اپنا سفر نامہ مکمل کیا اور مستقل طورپر دمشق میں اپنے آبائی گاؤں میں اقامت اختیار کی۔ ابن ِبطوطہ کی اس کے بعد کی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات موجود ہیں۔ انہیں مراکش میں قاضی کے عہدے پر تعینات کردیا گیا تھا۔ 1369ء میں اسی شہر میںاُن کی وفات ہوئی۔ 

محمدعاصم بٹ
(کتاب ’’دانش ِ مشرق‘‘ سے مقتبس)
 


موم بتی مافیا کی شہید

0
0

موم بتی مافیا نے قندیل بلوچ کوقتل ہونے کے بعد اپنی شہید قرار دیتے ہوئے ایسی ایسی باتیں کہیں کہ اللہ کی پناہ، مجھے یوں لگا کہ وہ معصوم اور مظلوم تھی جبکہ ہم سب بطور معاشرہ ظالم اورمجرم ، جی جی، آپ نے درست کہا کہ وہ جیسی بھی تھی اس کے قتل کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ، میں اس پرآپ سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں مگر کیا آپ مجھے قائل کرپائیں گے کہ قندیل بلوچ اپنی زندگی میں جو کچھ کرتی رہی، کیا اس کے قتل کے بعد وہ سب کچھ جائز قرار دیا جا سکتا ہے، اسے آئیڈیلائز کر تے ہوئے معاشرے کے کچے ذہنوں کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے ۔ میں اس کے قاتل بھائی کی ہرگز وکالت نہیں کر رہا، اسے یقینی طور پر ایک قتل کے مجرم کی حیثیت سے ہی سزا ملنی چاہئے مگر سوال یہ ہے کہ میرا موم بتی مافیا قندیل بلوچ کو بہادر، باغی اور جرات مند قرار دیتا ہے لیکن اگر اس کے آس پاس، چاردیواری کے اندر، کوئی لڑکی دوسرے مردوں کے نام اپنے بیڈ روم سے قابل اعتراض حالت میں لیٹ کر ایسی ویڈیوز بنا کے پوسٹ کر رہی ہو جس میں ان کے ساتھ سب کچھ کرنے کی دعوت بھی موجود ہو توو ہ کیا کریں گے جنہیں غیرت کے نام سے گھن آتی ہے، جنہیں اس بے چارے مشرقی معاشرے کی تمام روایات انتہائی بری لگتی ہیں۔

میں نے قندیل بلوچ کی سوشل میڈیا پروفائل دیکھی اور جانا کہ جس طرح ایک صدقہ جاریہ ہوتا ہے اسی طرح کچھ گناہ بھی ’گناہ جاریہ‘ کے زمرے میں آتے ہیں، جو کوئی قندیل بلوچ کے کردار سے متاثر ہو گا اور اس کی راہ پر چلے گا میرے خیال میں اس کے گناہ میں قندیل بلوچ کا حصہ بھی ہو گا، اس نے ایک سیاسی رہنما کو شادی کی پیش کش کرتے اور انڈین ٹی وی چینل کی طرف سے اس کے رئیلٹی شو میں شرکت کی دعوت ملنے پر بار بار لکھا، ’ نو ون کین سٹاپ می‘ ، یعنی اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اگر قندیل بلوچ ’ بگ باس ‘ میں شرکت کر لیتی تو وہ وینا ملک کے ریکارڈ بھی توڑ دیتی اور پاکستان کی بدنامی کا باعث بنتی ، وہ یقینی طورپر اس کی ’ بین ویڈیو‘ سے بھی آگے کی چیز ہوتی ،موم بتی مافیا کی شہید اسی تیز رفتاری کی قائل تھی جس کی موٹر وے پر ممانعت کی گئی ہے اور جگہ جگہ لکھا گیا ہے کہ تیز رفتاری سب کو بھاتی ہے مگر جان اسی میں جاتی ہے۔
بہت ساری خواتین قندیل بلوچ کو صرف اس لئے ’ خراج عقیدت ‘ پیش کر رہی ہیں کیونکہ وہ خود کو معاشرے میں مردانہ بالادستی کے خلاف ’ جہاد‘کی مجاہدہ سمجھتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ جب مردوں کو غیرت کے نام پر قتل نہیں کیا جاتا تو پھر ایک عورت کوانہی افعال کیوں قتل کیا جائے جنہیں مرد اپنی محفلوں میں فخر کے ساتھ چٹخارے لے لے کر بیان کرتے ہیں مگر اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ اگرمرد غلط کرتے ہیں تو اسے عورتوں کی غلط کاری کاجواز نہیں بنایا جا سکتا، ہونا تو یہ چاہئے کہ مردوں کی غلط کاریوں کی روک تھام کے لئے تحریک چلائی جائے نہ کہ ان کی بنیاد پر عورتوں کی غلط کاریوں کو بھی جواز دے دیا جائے۔مجھے انتہائی ادب کے ساتھ عرض کرنے دیجئے کہ قندیل بلوچ کا کردار کسی طور بھی عورتوں اور مردوں میں جاری کشمکش کا شاخسانہ نہیں، یہ ایک عورت کی طرف سے دولت اور شہرت کے حصول کا شارٹ کٹ تھا، ہاں، یہ بات درست ہے کہ مردوں میں قندیل بلوچوں کی کمی نہیں، علمائے کرام میں مفتی عبدالقوی نام کے شخص کو آپ اس کی ایک بہترین یا بدترین مثال قرار دے سکتے ہیں۔

ہمارے ایک صحافی اور مصنف دوست نے اپنے قلم کے ذریعے اسی امر کی نشاندہی کی کہ غیرت کے نا م پر مرد کیوں قتل نہیں ہوتے اور پھر اگلے ہی روز قندیل بلوچ کے شہر ڈیرہ غازی خان سے ہی خبر آ گئی کہ اللہ دتہ نام کے ایک شخص کو غیرت کے نام پر پانچ افراد نے تشدد کا نشانہ بنایا، ناک کان اور ہونٹ سمیت اس کے مختلف اعضا کاٹ لئے اور اپنے ساتھ لے گئے، اللہ دتہ کو ہسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گیا، بس ایک کمی رہی کہ کچھ لوگوں کے مطابق یہ کام خواتین کا گلابی گینگ کرتا تو انہیں تسلی ہوتی۔ قندیل محض دولت ،شہرت اور کامیابی کی اندھی ہوس میں مبتلا تھی  وہ معاشرے میں اصلاح کے لئے کوئی جہاد نہیں کر رہی تھی کہ اسے سراہا اور اس پر تنقید کرنے والوں کو گالیوں سے نوازا جائے، جواس کی زندگی میں برا فعل تھا وہ اس کی موت کے بعد بھی قابل مذمت ہی رہے گا۔

بہت ساروں نے کہا، اپنی حرکتوں کی قندیل ذمہ دارنہیں، ذمہ دار تو یہ معاشرہ ہے، کچھ نے منٹو کے کسی افسانے کا یہ زریں قول بھی بیان کیا کہ یہ معاشرہ عورت کو ٹانگا چلانے کی اجازت تو نہیں دیتا مگر کوٹھا چلانے کی اجازت دے دیتا ہے اور مجھے ان سے کہنا ہے کہ اس قتل نے ثابت کر دیا ہے یہ گیا گزرا معاشرہ بھی کسی کو کوٹھا چلانے کی اجازت نہیں دیتا ، ہاں، اگر ٹانگا چلانے سے مراد روزگار کا حصول ہے تو میرے معاشرے کی ہزاروں نہیں لاکھوں خواتین محنت مزدور ی کر کے اپنے بزرگوں اور بچوں کے پیٹ کے جہنم کی آگ بجھا رہی ہیں، وہ شہروں میں دفاتر میں کام کرتی ہیں اور دیہات میں کھیتوں میں اپنا پسینہ اپنے مردوں کے ساتھ بہاتی ہیں مگر اپنی عزت کا سودا نہیں کرتیں ، اپنے جسم کی تشہیر نہیں کرتیں اگر آپ ڈیرہ غازی خان کی فوزیہ کو دولت کے حصول کے لئے قندیل بلوچ بننے کو قابل تحسین گردانتے ہیں تومجھے کہنے دیجئے آپ ان تمام محنت کش خواتین کو احمق قرار دیتے ہوئے ان کی توہین کر رہے ہیں جو آپ کی نظر میں ’کامیابی‘ کے لئے فحاشی اور بے حیائی کے اس شارٹ کٹ کو استعمال نہیں کر رہیں، جی ہاں، مجھے آپ کے اس سوال کا بھی اندازہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں تو مرنے کے بعد متوفی کی برائیاں نہیں صرف خوبیاں ہی بیان کی جاتی ہیں،

 اس کے گناہوں کی معافی اور اس کی جہنم کی آگ سے نجات کے لئے دعا کی جاتی ہے اور میں اپنی معاشرتی روایات کے بالکل الٹ اس بی بی کے مرنے کے بعد بھی اس کی برائیاں بیان کر رہا ہوں، جہاں میں قندیل بلوچ کی مغفرت کے لئے دعاگو ہوں وہاں یہ دعا بھی پورے خلوص سے کرتا ہوں کہ مجھے بھی میرا رب معاف فرمائے۔ اے موم بتی مافیا! میرا جواب اس خدشے میں چھپا ہوا ہے کہ تم لوگ قندیل بلوچ کو ہماری خواتین، خاص طور پر وہ جوبہت سارے مردوں کی طرح شارٹ کٹ میں دولت اور شہرت کے حصول کے لئے دیوانی ہو رہی ہوتی ہیں، ان کے سامنے ایک آئیڈیل کے طور پر پیش کر رہے ہو۔ میں پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ تم اس کے قتل کو بنیاد بناتے ہوئے اسے جتنا مرضی مظلوم ، معصوم ، باغی اور انقلابی بنا کے پیش کرتے رہوہمیں اپنے معاشرے میں مزید قندیل بلوچیں کسی طور قابل قبول نہیں ہیں۔ میں تمہارے ساتھ مل کر اس قتل کی مذمت کرنے کے لئے تیار ہوں مگر اس کے کردار اور افعال کو جائزیت عطا نہیں کر سکتا۔ بہت ساروں نے سوال کیا کہ اس کے بھائی کی غیرت اب کیوں جاگی، اس سے پہلے جاگتی تو وہ قندیل بلوچ ہی نہ بنتی اور میں موم بتی مافیا کی اسی غیرت کو اب جگانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ وہ اپنا قبلہ درست کر لے۔

قندیل بلوچ جیسی عورتوں کی اخلاق باختہ اوردعوت گناہ دیتی ہوئی ویڈیوز دیکھنے کے بعد انہیں جرات اوربہادری قرار دینا کسی بھی غیرت مند انسان کے لئے ایک انتہائی مشکل کام ہے لیکن چونکہ ہم سب کچھ مختلف کہنا اور اس پر داد لیناچاہتے ہیں لہذا اس کے قتل کی آڑ لیتے ہوئے ہم یہ بھی کر گزرتے ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اپنے گھر میں کسی قندیل بلوچ کو برداشت نہیں کرسکتا۔ موم بتی مافیا اگر واقعی اس مقتولہ کو معاشرے کی باغی کے طور پر آئیڈیلائز کرنے میں منافقت نہیں کر رہا ، محض مشرقی او ر مذہبی روایات کی مخالفت میں جنونی نہیں ہو رہا ، د ل کی گہرائیوں سے مقتولہ کے کردار کو سراہتا ہے تو میں اسے دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنی بیٹیوں کے نام قندیل بلوچ رکھنے کی تحریک کا اعلان کر دے کہ موم بتی مافیا کو اپنی شہید رہنما کا لہوکم از کم اس طرح رائیگاں نہیں جانے دینا چاہیے اور اسے سپورٹ کرنے والے ہر گھر میں کم از کم قندیل بلوچ تو ضرور ہونی چاہئے تاکہ معاشرہ ان کی نظر میں عزت او ر غیرت کے فرسودہ تصورات سے جلد از جلد باہر نکل سکے بلکہ اپنے طور پر قرار دی گئی اس مقدس جنگ میں وہ خود بھی پوری طرح شامل ہوں، محض لفاظی ہی نہ کرتے رہ جائیں۔
 وما علینا الاالبلاغ۔

نجم ولی خان

ضلع وہاڑی

0
0

محل وقوع: ضِلع وِہاڑی پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک ضلع ہے۔ اس کا مرکزی شہر وہاڑی ہے، 1998 میں کی آبادی کا تخمینہ 20,90,416 تھا۔ ضلع وہاڑی میں عمومی طور پر اردو، پنجابی بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 4364 مربع کلومیٹر ہے۔ضلع وہاڑی یکم جولائی 1976ء کو ضلع ملتان کی تین تحصیلوں (وہاڑی، میلسی، بوریوالہ) کو یکجا کرکے ضلع وہاڑی بنادیا گیا جس کا صدر مقام وہاڑی شہر ہے۔ وہاڑی کا مطلب’’سیلابی پانی کی گزرگاہ کی وجہ سے آبادی‘‘ ہے۔ ضلع وہاڑی دریائے ستلج کے دائیں کنارے پر واقع ہے ضلع کی جنوبی سرحد کے ساتھ ساتھ دریائے ستلج بہتا ہے۔

 ضلع وہاڑی میں اردو اور پنجابی بڑی زبانیں ہیں۔ سکولوں اور دفاتر میں زیادہ تر اردو اور انگریزی رائج ہے 1998ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع وہاڑی کی 94 فیصد آبادی پنجابی بولنے والوں کی ہے ان 94% میں سے 83 % ماجھی لہجہ بولنے والوں کی ہے ۔ سرائیکی یا ملتانی لہجے کی پنجابی تحصیل میلسی کے کچھ حصوں میں بولی جاتی ہے ۔ ضلع کی کل آبادی کا 11 فیصد پنجابی کا لہجہ سرائیکی بولتے ہیں جبکہ باقی 6 % دیگر زبانیں (پشتو وغیرہ) بولتے ہیں۔ اردو قومی زبان کے طور پر ہر جگہ بولی اور سمجھی جاتی ہے جبکہ انگریزی پڑھے لکھے طبقے میں مقبول ہے۔

 جغرافیہ:ضلع وہاڑی کے درمیان واقع ہے۔ اس کے جنوبی طرف ضلع بہاولنگر اور ضلع بہاولپور مشرقی طرف ضلع پاکپتن مغربی جانب ضلع لودھراں اور ضلع خانیوال اور شمالی طرف ضلع ساہیوال اور خانیوال واقع ہیں۔ ضلع وہاڑی کا کل رقبہ 4364 مربع کلومیٹر(1685مربع میل) ہے۔ اس کی لمبائی تقریباً 93 کلومیٹر (58میل) اور چوڑائی 47 کلومیٹر(29میل) ہے۔ 

ضلع وہاڑی کا زیادہ تر علاقہ میدانی اور زرخیز زمین پر مشتمل ہے اس کی زمین کپاس، گندم اور دیگر زرعی اجناس کے لیے انتہائی موزوں ہیں۔ ضلع وہاڑی نیلی بار علاقے میں ہے جو دریائے ستلج اور دریائے راوی کے درمیان کا علاقہ ہے۔ ضلع وہاڑی کی زرخیز زمین دریائے چناب اور راوی کے پانی سے سیراب کی جاتی ہے۔ ضلع وہاڑی میں وسیع اور اچھا نہری نظام موجود ہے اس میں دو بڑی نہریں ہیں پاکپتن کینال اور میلسی کینال(سدھنائی میلسی لنک کینال)۔ ضلعے میں تمام چھوٹی بڑی نہروں کی تعداد 19 ہے جن کی کل لمبائی 1380 کلومیٹر ہے۔ 

نْلّہ:دریائے بیاس کا مقامی نام وِیاہ بھی ہے دریائے بیاس کی پرانی گزرگاہ ضلع وہاڑی میں ہی واقع ہے جسے سک بیاس کا نام دیا جاتا ہے اسے نلہ بھی کہتے ہیں شدید بارشوں اور سیلاب کے دوران کبھی کبھار اس میں پانی آجاتا ہے یہ شیخ فاضل کے قریب وہاڑی میں داخل ہوتا ہے اور پکّہی موڑ اور پْل کے قریب دریائے ستلج سے ملتا ہے۔ نلہ کا راستہ کئی سالوں سے تبدیل ہوتا رہا ہے اب یہ بورے والہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

 کھیل:ضلع وہاڑی کی سرزمین نے کئی کھلاڑیوں کو جنم دیا ہے۔ یہ علاقہ ہاکی میں مشہور ہے۔ کھیل میں وہاڑی سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کی فہرست درج ذیل ہے۔ وقار یونس قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم احمد قومی ہاکی ٹیم کے سابق کپتان چوہدری طلعت وحید گولڈ میڈلسٹ۔ انٹر بورڈ اتھلیٹک چیمپیئن شپ(لانگ جمپ) محمد سجاد تھوٹا گولڈ میڈلسٹ پاکستان انٹر بورڈ تاکیوانڈو چمپیئن شپ محمد عرفان قومی کرکٹ ٹیم کے سب سے طویل القامت کھلاڑی - 

فیس بک کا ’اسلام و فوبیا‘ : کشمیر سنسر شپ پر فیس بک پر کڑی تنقید

0
0

برطانوی اخبار دی گارڈیئن میں چھپنے والی ایک خبر کے مطابق کشمیر میں
سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ایک اہم علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد فیس بک نے درجنوں پوسٹس اور یوزر اکاؤنٹس سینسر کیے ہیں۔ برہانی وانی کو اس ماہ کے آغاز پر انڈین فوج نے ایک آپریشن میں ہلاک کیا تھا۔ کشمیر میں ماہرِ تعلیم، صحافی اور مقامی اخبارات کے اپنے وہ تمام صفحات ڈیلیٹ کر دیے گئے جہاں حالیہ واقعات کے متعلق تصاویر اور ویڈیوز لگائی گئی تھیں۔ مقامی کشمیری عسکریت پسند برہان وانی کی نو جولائی کو سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد کشمیر میں ہونے والے احتجاج میں 40 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
دس روز سے جاری ہنگاموں میں 2000 کے قریب عام کشمیری شہری اور 1600 سکیورٹی اہلکاروں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ کشمیر کے بعض علاقوں میں اب بھی کرفیو نافذ ہے اور موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی بدستور معطل ہے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک مقامی عسکریت پسند برہان وانی کی ہلاکت کے بعد کشمیر میں شروع ہونے والے ہنگاموں کے بعد حکومت نے اخبارات کی اشاعت کو عارضی طور پر معطل کر دیا تھا۔ اب انتظامیہ نے اخبارات کی اشاعت پر تین روز سے عائد پابندی کو اٹھا لیا ہے۔ تاہم اخبارات کے مدیران نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے آزادی صحافت کی تحریری ضمانت دیے جانے تک اخبارات کی اشاعت شروع نہیں ہو گی۔

دی گارڈیئن کے مطابق کشمیری کہتے ہیں کہ فیس بک پر سینسر شپ نے معلومات پر پابندی کو بڑھاوا دیا ہے۔ کشمیری بلاگر اور پی ایچ ڈی کے طالب علم زرگر یاسر نے بتایا کہ ’کوئی اخبارات نہیں ہیں اور ہمارے پاس صرف دو ٹی وی چینل ہی آتے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ جب انھوں نے وانی کے متعلق ایک بلاگ پوسٹ کو لنک کیا تو ان کا اکاؤنٹ ایک ہفتہ سے زیادہ عرصے کے لیے بلاک کر دیا گیا اور کچھ پوسٹس ہٹا دی گئیں۔ ’جب کوئی خبر نہیں ملتی، تو ہم عموماً معلومات کے لیے سوشل میڈیا کا رخ کرتے ہیں۔ اس طرح کم از کم ہم ایک دوسرے سے بات کر سکتے ہیں، ہم اپنے دوستوں اور خاندانوں سے ان کا احوال پوچھ سکتے ہیں۔ لیکن فیس بک نے میرا اکاؤنٹ معطل کیا ہے، تو میں اب ایسا کیسے کر سکتا ہوں؟‘

حکومتی پابندیوں سے بچ کر لوگوں کو معلومات پہنچانے کے لیے رپورٹر نیوز ویب سائٹ کو اپ ڈیٹ کر رہے تھے اور سوشل میڈیا پر پوسٹس لگا رہے تھے۔  
کشمیر مانیٹر کے لیے لکھنے والے صحافی مبشر بخاری کہتے ہیں: ’جب میں کل کام پر آیا، میں نے دیکھا کہ فیس بک نے وہ ویڈیو ہٹا دی تھی جو ہم نے لگائی تھی۔ اس ویڈیو میں علیحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی کو برہان وانی کی موت کی مذمت کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس سے پہلے ہمارے فیس بک کے صفحے پر سے کبھی کوئی چیز نہیں اتاری گئی تھی۔‘

فیس بک جیسی سوشل میڈیا کمپنیوں پر بہت دباؤ ہے کہ وہ انتہا پسندوں کے پروپیگنڈے کو محدود کریں۔ لیکن ان پر یہ تنقید بھی ہوتی ہے کہ وہ بہت آگے چلے گئے ہیں۔ رضوان واجد کا اکاؤنٹ اس وقت بلاک کر دیا گیا جب انھوں نے برہان وانی کی تصویر کو اپنی پروفائل تصویر بنایا۔ وہ کہتے ہیں کہ فیس بک کا یہ عمل ’اسلام و فوبیا‘ یا اسلام مخالف جیسا ہے۔ ’مسلمانوں کو ہی کیوں بلاک کیا جاتا ہے؟ بھارتی فوج کے مظالم کی حمایت کر کے فیس بک یکطرفہ دکھائی دے رہی ہے۔ دورے لوگ جو چاہے کہہ سکتے ہیں لیکن جب مسلمان کچھ کہیں تو ہمیں بلاک کر دیا جاتا ہے۔ یہ نارمل نہیں ہے۔‘ایسا کچھ ہی کیلیفورنیا میں کشمیری طالبہ ہما ڈار کے ساتھ ہوا۔ جیسے ہی انھوں نے گذشتہ اتوار وانی کے جنازے کی تصاویر لگائیں تو بغیر کسی وارننگ کے ان کے پروفائل کو ڈیلیٹ کر دیا گیا۔

کشمیر میں پیلٹ گن کا قہر - پیلٹ گن مارتی نہیں زندہ لاش بنا دیتی ہے

0
0

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سکیورٹی فورس مظاہرین کو منتشرکرنے کے
لیے پیلٹ گن یعنی چھرے والی بندوق کا استعمال کر رہے ہیں۔ یہ بندوق جان لیوا نہیں ہے لیکن ان بندوقوں کے سبب کئی مظاہرین کو شدید چوٹیں لگی ہیں۔ کئی بار مظاہرین کے پاس کھڑے ہوئے لوگ بھی ان سے زخمی ہوئے ہیں اس سے بہت سے لوگوں کی آنکھوں کی روشنی تک چلی گئی ہے۔

پیلٹ گن کیا ہے؟
یہ پمپ کرنے والی بندوق ہے جس میں کئی طرح کے کارتوس استعمال ہوتے ہیں۔یہ کارتوس 5 سے 12 کی رینج میں ہوتے ہیں، پانچ کو سب سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ اس کا اثر کافی دور تک ہوتا ہے۔ پیلٹ گن سے تیز رفتار چھوٹے لوہے کے بال فائر کیے جاتے ہیں اور ایک کارتوس میں ایسے لوہے کے 500 تک بال ہو سکتے ہیں۔ فائر کرنے کے بعد کارتوس ہوا میں پھوٹتے ہیں اور چھرے چاروں سمت میں جاتے ہیں۔ پیلٹ گن، عام طور سے شکار کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، کیونکہ اس سے چھرے چاروں طرف بکھرتے ہیں اور شکاری کو اپنے ہدف پر نشانہ لگانے میں آسانی ہوتی ہے۔ لیکن کشمیر میں یہ گن انسانوں پر استعمال ہو رہی ہے اورلوگوں میں خوف پیدا کر رہی ہے۔
اس ہتھیار کو 2010 میں کشمیر میں بدامنی کے دوران سکیورٹی فورسز نے استعمال کیا تھا جس سے 100 سے زیادہ مظاہرین کی موت ہو گئی تھی۔ سکیورٹی فورس کیا کہتی ہیں؟ کشمیر میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے پبلک ریلشنز آفیسر راجیشور یادو کہتے ہیں کہ سی آر پی ایف کے جوان مظاہرین سے نمٹنے کے دوران’زیادہ سے زیادہ تحمل‘ برتتے ہیں۔ راجیشور یادو کہتے ہیں ’احتجاج کو ناکام کرنے کے لیے ہم 9 نمبر کی کارٹریجز (کارتوس) استعمال کرتے ہیں اس کا کم سے کم اثر ہوتا ہے اور یہ مہلک نہیں ہے‘۔
  
پیلٹ گن سے زخمی ہونے والوں کی بینائی واپس آنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے
لیکن یادو کی بات سے اتفاق نہ کرنے والے ایک اعلیٰ پولیس افسران اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ سکیورٹی فورسز کو مجمے کو منتشر کرنے کے لیے 12 نمبر کے کارتوس استعمال کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت ہی مشکل حالات میں نمبر 9 کارتوس کا استعمال ہونا چاہیے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جاری تازہ مظاہروں کے دوران دو افراد کی موت ایسی ہی گنز سے ہوئی ہے۔لوگوں نے پیلٹ گنز کے استعمال پر سوال اٹھائے ہیں. جو لوگ پیلٹ گن کے استعمال سے زخمی ہوتے ہیں، ان کو گھر والوں کو علاج کے لیے کشمیر کے باہر لے جانا پڑتا ہے۔
شمالی کشمیر کے بارہ مولہ علاقے کے رہنے والے کبیر کی پیلٹ گن سے زخمی ہونے کے بعد دونوں آنکھوں کی روشنی چلی گئی ہے. کبیر کے خاندان کو اس کے علاج کے لیے کافی رقم کا انتظام کرنا پڑا ان کے والد سڑک کے کنارے ریڑی لگا کر بہت ہی مشکل سے گھر چلاتے ہیں. کبیر کی ماں کہتی ہیں،’مجھے اپنے زیورات فروخت پڑے تاکہ کشمیر کے باہر علاج کا خرچ اٹھایا جا سکے، وہ بھی ناکافی رہا اور ہمیں اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے پیسے قرضے لینے پڑے‘۔ اسی سال مارچ میں 15 سالہ عابد میر کو اس وقت پیلٹ گن سے چوٹ لگی جب وہ ایک شدت پسند کی تدفین سے واپس آ رہے تھے۔  میر کے خاندان کو دوسروں سے ادھار مانگ کر اپنے بیٹے کا علاج کرانا پڑا. کشمیر میں ٹھیک طریقے سے علاج نہ ہو پانے کی وجہ ان لوگوں نے امرتسر میں علاج کرنے کا فیصلہ کیا۔ میر کے چچا کا کہنا ہے کہ ’انہیں علاج میں تقریباً دو لاکھ روپے خرچ کرنے پڑے‘۔

’مردوں کی طرح جینے سے موت بہتر‘
جن لوگوں کی پیلٹ گنز لگنے سےبینائی مکمل طور پر چلی جاتی ہے، وہ ذہنی جھٹکا، مایوسی اور ڈپریشن میں ڈوب جاتے ہیں۔ ایک پل میں ان کی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہو جاتی ہے۔ ڈار گریجویشن کے آخری سال میں تھے جب ان کی آنکھیں پیلٹ سے زخمی ہوئیں۔ ڈار کہتے ہیں، ’مجھے پانچ مرتبہ سرجری کرانی پڑی اور تقریباً ایک سال تک میں مکمل اندھیرے میں رہا۔ اب میری بائیں آنکھ میں تھوڑی روشنی واپس آئی ہے‘۔ انھوں نے کہا جب میری آنکھوں کی روشنی چلی گئی تو میں اکثر اوپر والے سے دعا کرتا تھا کہ وہ مجھے مار ہی ڈالے کیونکہ مردوں کی طرح زندہ رہنے کی بجائے موت بہتر ہے‘۔

بشکریہ بی بی سی اردو

ٹیکسٹائل شعبے میں عدم سرمایہ کاری

0
0

ڈاکٹرمرزا اختیار بیگ


قائم علی شاہ کے آٹھ سال کیسے رہے؟

0
0

سندھ میں گذشتہ 8 سال میں کئی ایسے موقع آئے جب بات اس نہج پر پہنچی کہ وزیر اعلیٰ کو تبدیل کرنا چاہیے لیکن سید قائم علی شاہ اپنی فرمانبرداری کی وجہ سے ہمیشہ اس صورتحال کو مات دیکر پارٹی قیادت کا اعتماد حاصل کرلیتے تھے۔
 2008 کے انتخابات کے بعد جب وزیر اعظم کے لیے یوسف رضا گیلانی کی نامزدگی سیاسی حلقوں کے لیے باعث حیرانگی تھی ایسے ہی ایک معمر شخصیت کی بطور وزیر اعلیٰ نامزدگی کو کچھ حلقوں میں پسندیدگی سے نہیں دیکھا گیا تھا، لیکن اعلیٰ قیادت کے تیور دیکھ کر یہ خاموش رہے۔ سید قائم علی شاہ کی سربراہی میں صوبائی حکومت پر صحت، تعلیم، امن و امان سمیت کئی شعبوں میں طرز حکمرانی اور بدعنوانی کے الزامات عائد ہوتے رہے۔

 اس میں 2010 اور 2011 کے سیلابوں کی تباہ کاریاں، کراچی میں سیاسی و لسانی بنیادوں پر قتلِ عام، متحدہ قومی موومنٹ کا سیاسی دباؤ یہ وہ چیلینجز تھے جو ان کی کرسی کو بار بار ہلاتے رہے، معاملات جب سپریم کورٹ میں پہنچے تو ان کی طرز حکمرانی پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔ 2013 کے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی دیگر صوبوں میں شکست کے بعد سندھ میں قیادت کی نظر کرم پھر بھی سید قائم علی شاہ پر پڑی اور انہیں دوبارہ اس منصب پر منتخب کردیا گیا، لیکن اس بار وفاق میں پیپلز پارٹی نہیں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور اس مدت سے ہی 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کے وسائل میں بھی اضافے ہوا لیکن اس سے طرز حکمرانی میں بہتری کے بجائے کرپشن کے شکایت سامنے آنے لگیں۔

تھر میں بچوں کی ہلاکت ہی نہیں، صحت، تعلیم اور آبپاشی سمیت خدمات کے ہر شعبے میں وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کی زیر سربراہی حکومت کی کارکردگی لوگوں کو متاثر نہیں کرسکی۔ غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں سندھ حکومت کی کارکردگی مجموعی طور پر کمزور رہی، مایوس کن حد تک۔ ’گذشتہ آٹھ سالوں مں ان کی کوئی کامیابی تلاش کرنا بہت مشکل ہے، صرف اتنا کہ انہوں نے کام چلایا ہے باوجود اس کے پارٹی کے اندر گروہ بندی تھی اور سندھ کا منقسم مینڈیٹ تھا۔‘  
تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا ہے سید قائم علی شاہ اور ان کا خاندان کسی بھی سکینڈل میں ملوث نہیں ہوئے۔ جو گورننس اور میرٹ پامال ہوا اور پورا سندھ کوڑے دان میں تبدیل ہوگیا اس میں غلطی قائم علی شاہ کی تھی یا پیپلز پارٹی کی قیادت کی جنہوں نے قائم علی شاہ کو آزادی سے کام کرنے نہیں دیا اور نتیجے میں کرپشن میں اضافہ ہوا اور مجموعی طور پر سندھ پسماندگی کا شکار ہوا۔
سندھ کے روز مرہ کے جو معاملات ہیں وہ آصف زرداری کی بہن فریال ٹالپر چلاتی رہی ہیں، اس سے قبل اویس مظفر وزیر اعلیٰ سے زیادہ بااختیار سمجھے جاتے تھے، اسی طرح سابق وزیر داخلہ ذوالقفار مرزا وزیر اعلیٰ سے زیادہ بااختیار اور طاقتور نظر آتے تھے۔  

کراچی میں جب ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تو صوبائی حکومت کی گرفت شہر تک کمزور ہوئی اور جب رینجرز نے ڈاکٹر عاصم حسین، فشر مین کوآپریٹو سوسائٹی کے چیئرمین نثار مورائی کی گرفتاری کے بعد بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب قدم بڑھائے اور کرپشن کے معاملات کو اٹھایا تو صوبائی حکومت نے ایک لکیر کھینچ لی اور اسے رینجرز کے اس کردار کو اختیارات سے تجاوز قرار دیا۔
کراچی میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کی گمشدگی، دورانِ تحویل ہلاکتوں اور سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کی آمد اور سیاسی جماعت کےاعلان پر ایم کیو ایم کے خدشات اور تحفظات کو سنا ان سنا کردیا لیکن باقرانی سے صوبائی وزیر سہیل انور سیال کے بھائی کے دوست اسد کھرل کی گرفتاری اور حملہ آوروں کی جانب سے رہائی نے ایک نیا تنازعہ جنم دیا اور رینجرز نے اندرون سندھ آپریشن پر اپنے موقف کو اور سخت انداز میں پیش کیا۔ سید قائم علی شاہ رینجرز کی تعیناتی اور اختیارات میں توسیع پر قیادت سے مشاورت کے لیے دبئی گئے تھے، جہاں ان کی تبدیلی کا فیصلہ سامنے آیا۔

صحافی اور تجزیہ نگار فیاض نائچ سمجھتے ہیں کہ جب آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے تو اس وقت بھی وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ ہی تھے ابھی تو اس سے زیادہ تو صورتحال کشیدہ نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ جو بھی ہوگا وہ موقف وہی اختیار کرے گاجو آصف علی زرداری کا ہوگا، جن بھی فریقین سے سیاسی و انتظامی معاملات طے ہوتے ہیں وہ وزیر اعلیٰ کے ساتھ نہیں بلکہ دبئی میں قیادت طے کرتی ہے۔ غیر سرکاری تتنظیم فیئر اینڈ فری الیکشن یعنی فافن کے سربراہ مدثر رضوی کا کہنا ہے کہ قیادت کی تبدیلی سے مثبت تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے۔ سندھ کی صورتحال 2008 سے ایک جیسی ہے اس میں کوئی تبدیلی لائی ہی نہیں لائی گئی یقیناً جب نیا وزیر اعلیٰ آئےگا تو اس کے سامنے چیلینجز ہوں گے اور ذمہ داری بھی بڑھ جائے گی کیونکہ اس اپنی قابلیت ثابت کرنا ہوگی۔

سندھ اسمبلی کے 168 اراکین کے ایوان میں پاکستان پیپلز پارٹی کو 92 نشستیں حاصل ہیں، وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں اس کو کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوگا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو ملک کی سب سے بڑی جماعت حاصل ہونے کا اعزاز رہا ہے، اب ا س کی حکمرانی سکڑ کر صوبہ سندھ تک محدود رہ گئی ہے، اس صوبے کو ماڈل بنانا پیپلز پارٹی اور آنے والے وزیر اعلیٰ دونوں کے لیے ایک کٹھن امتحان ہے۔ کیونکہ یہ کارکردگی اس کو آگے بڑھنے یا آگے بڑھنے سے روکنے کا سبب بنے گی۔ تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ پی پی پی کا ماضی کا 8 سالہ تجربہ ہے چاہے وہ وفاق کا ہو، بلوچستان، کشمیر یا سندھ کا ہو اس سے تو یہی ثابت ہوا ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کو آزادی سے کام کرنے کا موقع نہیں دے گی لیکن اگر اب بھی زرداری نے نوشتہ دیوار کو نہیں پڑھا تو پھر پیپلز پارٹی کا مستقبل سندھ میں بھی مخدوش ہو جائے گا۔

فافن کے سربراہ مدثر رضوی کہتے ہیں کہ ’پیپلز پارٹی کی قیادت سندھ حکومت پر بہت اثرانداز ہوتی ہے لیکن وہ اس کو غلط نہیں سمجھتے کیونکہ پارٹی کا جو پروگرام ہے اس پر تو حکومت عملدرآمد کرے۔ جو اس نے حکمرانی میں بہتری، کرپشن اور غربت میں خاتمے کے لیے وعدے کیے ہیں ان کو پورا کرے۔‘

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

نامزد وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کون ہیں ؟

0
0

مراد علی شاہ صوبہ سندھ کے 26 ویں وزیر اعلیٰ ہوں گے ، ان سے قبل ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 1973 سے لیکر آج تک سات مرتبہ یہ منصب رہا ہے۔ جامشورو سے تعلق رکھنے والے والے مراد علی شاہ کو سیاست وراثت میں ملی اور اسمبلی کی رکنیت کے لیے انھیں زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑی۔ ان کے والد اور صوبے کے سابق وزیرِ اعلیٰ عبداللہ شاہ جس نشست سے منتخب ہوئے تھے بعد میں مراد علی شاہ وہیں سے دو بار انتخابات میں کامیاب قرار دیےگئے۔

2013 کے انتخابات سے قبل دوہری شہریت کی وجہ سے انھیں نااہل قرار دیا گیا لیکن وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ انھوں نے کینیڈا کی شہریت پہلے ہی چھوڑ دی تھی، جس کے بعد وہ دوبارہ منتخب ہو کر اسمبلی پہنچے۔ مراد علی شاہ کو ایک اور چیز بھی وراثت میں ملی ہے وہ ہے کراچی آپریشن۔ جب ان کے والد وزیر اعلیٰ تھے تو ایم کیو ایم کے خلاف جاری آپریشن اپنے عروج پر تھا اور موجودہ وقت بھی شہر اور ایم کیو ایم کو اس آپریشن کا سامنا ہے۔ وہ کراچی میں قیام امن کو اپنے لیے سب سے بڑا چیلینج سمجھتے ہیں۔ عبداللہ شاہ کے دور حکومت میں بینظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو، ان کے سگے چچا احسان علی شاہ اور ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کے بھائی ناصر حسین اور بھتیجے عارف حسین کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ جب سیاسی رنجشیں ختم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نائن زیرو پہنچے تھے تو مراد علی شاہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس وفد نے ایم کیو ایم کے ’شہدا قبرستان‘ میں جاکر فاتحہ پڑھی تھی، جس میں وہ کارکن بھی شامل تھے جو اس آپریشن میں ہلاک ہوئے۔
  
مراد علی شاہ دو بچوں کے والد ہیں زیادہ تر وقت کراچی میں گزارتے ہیں ارباب غلام رحیم کے دور حکومت میں مراد علی شاہ بطور اپوزیشن پارلیمینٹیرین کافی سرگرم رہے۔ اسمبلی قوانین و ضوابط پر عبور کی وجہ سے وہ سینیئر پارلیمینٹیرین اسپیکر مظفر شاہ کو بھی پریشان کردیتے تھے اور اس وقت حکومت اور موجودہ اپوزیشن میں شامل ایم کیو ایم کے اراکین سے بھی ان کی نوک جھونک چلتی آئی ہے۔ سید عبداللہ شاہ کی طرح مراد علی شاہ ملنسار اور میڈیا دوست نہیں اور وہ انتہائی کم بات کرتے ہیں۔ سوائے بجٹ پریس کانفرنسوں کے انھیں شاذ و نادر میڈیا کا سامنا کرتے دیکھا گیا تھا۔ محکمہ مالیات اور توانائی کے قلمدان ان کے پاس ہونے کے باوجود ان کا کبھی بھی کوئی ترجمان نہیں رہا تھا۔ میڈیا سے دوری کے بارے میں ایک نجی محفل میں انھوں نے کہا تھا میڈیا میں الٹی سیدھی خبریں آتی ہیں جو انھیں پسند نہیں اسی لیے وہ دور رہتے ہیں۔ اسمبلی میں بجٹ تقریر سے قبل نجی چینلز پر بجٹ منظر عام پر آنے کی دوڑ شروع ہوجاتی ہے، بطور وزیر خزانہ انھوں نے ان کوششوں کو کافی حد تک کمزور کیا اور افسران کو متنبہ کردیا کہ اگر بجٹ دستاویزات لیک ہوئیں تو اس افسر کے خلاف کارروائی ہوگی۔
 
این ای ڈی یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے والے مراد شاہ امریکہ کی سٹینفرڈ یونیورسٹی سے بھی سول سٹرکچرل انجینئرنگ اور اکنامک انجینئرنگ کے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ حصولِ تعلیم کے بعد انھوں نے اپنے کریئر کی ابتدا واپڈا میں بطور جونیئر انجنیئر کی اور پھر پورٹ قاسم اتھارٹی، حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور کراچی ہاربر پر بھی مختلف عہدوں پر فائز رہے۔
روایتی سیاست دانوں کے برعکس ان کے طرز عمل اور رویے پر ’افسر شاہی‘ زیادہ حاوی ہے۔ وہ صبح نو بجے دفتر پہنچ جاتے ہی اور صرف اپنے پسندیدہ سیکریٹریوں کے ساتھ کام کرنے کو اولیت دیتے ہیں۔

 اپنے والد سابق وزیراعلیٰ سندھ سید عبداللہ شاہ کی طرح مراد علی شاہ ملنسار اور میڈیا دوست نہیں، وہ انتہائی کم بات کرتے ہیں سوائے بجٹ پریس کانفرنسوں کے انھیں شاذ و نادر ہی میڈیا کا سامنا کرتے دیکھا گیا تھا۔ موجودہ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کے مقابلے میں مراد علی شاہ کو نسبتاً جذباتی شخصیت کا مالک سمجھا جاتا ہے۔ وہ وزیرِ اعلیٰ نامزد ہونے سے قبل صوبائی وزیر خزانہ، وزیرِ توانائی اور وزیرِ آبپاشی بھی رہ چکے ہیں۔ سنہ 2010 میں سندھ میں جب سیلاب آیا تو اس وقت مراد علی شاہ ہی وزیر آبپاشی تھے اور انھیں ہٹا کر جام سیف اللہ دہاریجو کو یہ وزارت دی گئی تھی۔

مراد علی شاہ اپنا زیادہ تر وقت کراچی میں گذارتے ہیں جہاں ان کا خاندان بھی مقیم ہے، جبکہ ان کے حلقے کے لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ وہ ان سے کم ملتے ہیں۔ ان کے اس رویے کی وجہ سے انھیں انتخابات میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جب مخالف امیدوار حبیب رند نے انھیں ’ٹف ٹائم‘ دیا تھا تاہم اس کے بعد انھوں نے حلقے میں اپنے نمائندے تعینات کر دیے ہیں جو لوگوں کی شکایت سنتے اور ان کے حل کی کوشش کرتے ہیں۔ سندھ کے سبکدوش ہونے والے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کے مقابلے میں مراد علی شاہ کو نسبتاً ایک جذباتی شخصیت سمجھا جاتا ہے۔ ملنسار نہ ہونا اور جلد ناراض ہونے کی عادت وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے ان کی اپنی جماعت کے ارکان اسمبلی آنے والے دنوں میں خود کو ان کے ساتھ ’کمفرٹیبل‘ محسوس نہیں کرتے۔

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


پاکستانی فوج کے کتنے کاروبار ہیں ؟

0
0

گیارہ سال قبل بھی کِسی سیاستدان نے پارلیمنٹ میں یہ بیہودہ سوال اُٹھایا تھا کہ پاکستانی فوج کے کتنے کاروبار ہیں۔ اُس وقت کے وزیر دفاع مرحوم راؤ سکندر نے تحریری جواب دیا تھا کہ 55۔ اِس ہفتے پارلیمنٹ میں پھر سوال اُٹھایا گیا کہ کُل کتنے دھندے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے جواب دیا 50۔ دھندہ مندہ ہونے پر پریشانی تو اپنی جگہ لیکن جو چیز اُس وقت بھی پریشان کن تھی اور اب بھی ہے کہ پارلیمنٹ میں دی گئی فہرست کے مطابق پاکستان نیوی کے پاس اپنی کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی نہیں ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ایک خاندان کے ایک سو سے زیادہ کاروبار بھی ہیں پاکستانی افواج کا پچاس پچپن بزنس چلانا کوئی اچنبے کی بات نہیں لیکن پاکستان نیوی کے پاس اپنی ایک بھی ہاؤسنگ سکیم نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے۔

پاکستان نیوی ایک مدبر ادارہ ہے اِس پر نہ کبھی کوئی جنگ شروع کرنے کا الزام لگا ہے نہ کوئی جنگ ہارنے کا۔ اکثر مارشل لاء بھی بغیر اِسے بتائے لگا دیے جاتے ہیں۔ جہوریت آئے یا مارشل لاء بحریہ سمندری سرحدوں کی حفاظت میں مصروف رہتی ہے۔ بحریہ پاکستانی فوج میں وہ سفید پوش بھائی ہے جو ہو سکتا ہے اپنے بھائیوں کی خوشحالی دیکھ کر دِل میں کڑھتا ہو لیکن بظاہر اُن کی مال و دولت دیکھ کر ماشا اللہ ہی کہتا ہے۔ کبھی بھی کھل کر اپنا حصہ نہیں مانگتا کہ محلے والے کیا سوچیں گے۔ اگر پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی فہرست پر نظر ڈالیں تو پاکستان کی بّری فوج اور فضائیہ نے آپ کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے ایسی ایسی سہولیات فراہم کر دی ہیں کہ آپ کو کسی سویلین سیٹھ کو منہ لگانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ آپ ایک ملٹری ہسپتال میں پیدا ہو سکتے ہیں جہاں پر ملٹری میڈیکل کالج کے تربیت یافتہ ڈاکٹر مناسب معاوضے پر آپ کی ابتدائی صحت یقینی بنائیں گے۔ بچے سیریل شوق سے کھاتے ہیں تو فوجی سیریل پیش خدمت ہے۔ اِس کے لیے دودھ چاہیے ہو گا تو نُور پور کا خالص دودھ دستیاب ہے۔
چینی بھی چاہیے؟ آرمی ویلفیئرشوگر مل سے لے لیں۔ بچہ تھوڑا بڑا ہو گا تو اُسے عسکری پراجیکٹ سے جوتے اور کپڑے دلوا دیں۔ سکول بھیجنا ہے تو فضائیہ ویلفیئر ایجوکیشن سسٹم میں ڈال دیں اُس کے بعد کئی یونیورسٹیوں میں معیاری تعلیم کا بندوبست ہے۔ کاشتکاری کا رجحان ہے تو اوکاڑہ سیڈز سے بیج خریدیے، فوجی فرٹیلائزرز سے لے کر کھاد ڈالیے۔ گوشت کی ضرورت ہے تو فوجی میٹ سے خریدیے۔ باہر کھانے کا چسکا ہے تو بلیو لیگون ریسٹورنٹ آ جایے، گھر چاہیے تو ڈی ایچ اے میں پلاٹ خریدیے، عسکری سیمنٹ لیں۔ پیسے کم پڑ رہے ہیں تو عسکری بینک حاضر ہے۔

ذاتی حفاظت کے لیے اگر پولیس اور رینجرز سے اعتبار اُٹھ گیا ہے تو عسکری گارڈز یا فوجی سکیورٹی سروسز میں کسی کا اِنتخاب کر لیں۔ اور اگرچہ پارلیمنٹ میں اِس کا ذکر نہیں کیا گیا اگر کوئی چوری چکاری ہوئی ہے تو تربیت یافتہ سراغ رساں کتوں کی خدمات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ یا عسکری جنرل انشورنس سے پالیسی خریدیں اور اِن سب جھمیلوں سے نجات حاصل کریں۔ اگر آپ پاکستان کی پھلتی پھولتی معیشت کو دیکھیں تو یہ کافی چھوٹے چھوٹے دھندے ہیں۔ اصل کاروبار جائیداد کا ہے جس میں فوج نے بڑا نام کمایا ہے۔ آٹھ ڈی ایچ اے بن چکے ہیں اور جو پہلے سے بنے تھے اُن کی حدیں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ کراچی ڈی ایچ اے کا فیز 8 اِتنا بڑا ہے کہ اِس میں پہلے ساتوں فیز سما جائیں۔

پاک فضائیہ نے اِس کاِر خیر میں دیر سے حصہ ڈالنا شروع کیا لیکن چھوٹتے ہی گوجرانوالہ میں رہائشی سکیم بنا ڈالی۔ گوجرانولہ میں فضائیہ کا کوئی بیس نہیں ہے لیکن شاہین جب آشیانہ بنانے پر آتا ہے تو اِن باتوں کی پرواہ نہیں کرتا۔ اب کراچی میں شاہینوں کے آشیانے کے نام پر لگژری فلیٹ بن رہے ہیں اور دھڑا دھڑ بِک رہے ہیں۔ اب اِس پلاٹوں اور فلیٹوں کی ریل پیل میں نیوی کے پاس کیا ہے۔ کچھ نہیں۔ بس کراچی میں دو تین بلڈنگیں جہاں دفاتر کرائے پر دے کر گزارا ہوتا ہے۔ ایک کشتیاں بنانے کی ورکشاپ، کچھ پٹرول پمپ اور شاید ایک آدھ ایل این جی ٹرمینل کا وعدہ۔

بُرا ہو ملک ریاض کا جو 1996 میں نیوی سے ایک معاہدہ کر کے اِس کا نام لے اُڑا۔ تب سے پورے ملک میں بحریہ ٹاؤن کے نام سے گھر، پلاٹ اور اُن کی فائلیں بیچ بیچ کر اربوں کما چکا ہے۔ پاکستان کی اصلی بحریہ 20 سالوں سے عدالتوں کے چکر لگا رہی ہے کہ ہمارا نام ہمیں واپس دلوایا جائے لیکن عدالتیں اُس کے ساتھ وہی کر رہی ہیں جو سفید پوشوں کے ساتھ کرتی ہیں۔ کوئی ہے جو پاکستان کی بحریہ کو اُس کا نام واپس دِلوا سکے تا کہ وہ بھی اپنے دوسرے وردی پوش افسر بھائیوں کی طرح مستقبل کی فکر سے آزاد ہو سکے۔ اب تو ایئر پورٹ سکیورٹی فورس نے بھی اپنی ہاؤسنگ سکیم بنا ڈالی۔ کیا ہمارے سفید وردی والے محافظوں کی اِتنی بھی عزت نہیں؟

محمد حنیف
مصنف اور تجزیہ نگار

بھارت میں 15 روپے کے لیے دلت جوڑے کا بیہمانہ قتل

0
0

ضلع مین پور کے گاؤں لکھنی پور میں معمولی رقم کے تنازع پر دلت جوڑے کو کلہاڑی سے وار کرکے قتل کردیا گیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست اترپردیش میں ضلع مین پورکے گاؤں لکھنی پورمیں پیش آیا جہاں دکاندارنے معمولی رقم کے تنازع پردلت جوڑے کو کلہاڑی سے وارکرکے قتل کردیا گیا۔  پولیس کا کہنا ہے کہ اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے دکاندارنے دلت جوڑے کو بسکٹ کے پیکٹ ادھاردیے تھے جن کی قیمت 15 روپے تھی۔
پولیس نے کہا کہ یہ جوڑا جب مزدوری کے لیے جا رہا تھا تو دوکاندار نے رقم کا تقاضا کیا جس پر دلت شخص نے اس سے شام تک کی مہلت مانگی اور کہا کہ مزدوری ملنے پر وہ ادھار چکا دیں گے، تاہم دوکاندار اس بات پر بضد تھا کہ اسے وہ 15 روپے کی رقم اسی وقت چاہیئے اور تلخ کلامی کے بعد اس نے مکان سے کلہاڑی لا کر ان میاں بیوی پر حملہ کر دیا جس سے وہ ہلاک ہوگئے جب کہ ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔

An Indian soldier tries to avoid stones thrown at him by Kashmiri protesters

0
0
An Indian paramilitary soldier tries to avoid stones thrown at him by Kashmiri protesters during a protest in Srinagar, Indian-controlled Kashmir.

دنیا کے امیر ترین افراد : "فیس بُک"کے بانی نے ایک گھنٹے میں 3.4 ارب ڈالر کمائے

0
0

بدھ کے روز تاریخ میں نادر و نایاب نوعیت کا ایک ایسا گھنٹہ گزرا جو وقت کے لحاظ سے تو دیگر گھنٹوں کی طرح 60 منٹ اور 3600 سیکنڈ پر ہی مشتمل تھا تاہم "فیس بک"کی ریاست کے بانی مارک زوکربرگ نے اس ایک گھنٹے میں ایسے منافع کو یقینی بنایا جو اس سے پہلے کسی نے حاصل نہ کیا۔ ایک گھنٹے کے دوران حاصل ہونے والے منافع کی مالیت 3 ارب 40 کروڑ ڈالر ہے۔ اس بات کا انکشاف امریکی جریدےForbes کی ویب سائٹ نے کیا جو دنیا بھر میں ارب پتی افراد کی دولت سے متعلق روزانہ کی بنیاد پر تازہ ترین معلومات فراہم کرتی ہے۔
بدھ کے روز مشرقی امریکا کے مقامی وقت کے مطابق شام 5:15 پر ختم ہونے والے اس ایک گھنٹے کے دوران زوکر برگ نے ہر منٹ میں اوسطا 5 کروڑ 66 لاکھ 66 ہزار 700 ڈالر کے قریب منافع کمایا جو ایک سیکنڈ میں 9 لاکھ 45 ہزار ڈالر بنتا ہے۔ ہر منٹ کمایا جانے والا یہ منافع 10 لاکھ خاندانوں کے کم از کم ایک ہفتے کے گزارے کے لیے کافی ہے۔
نئے منافع کے ذریعے اپنا ہی ریکارڈ بہتر بنا لیا
اس تازہ ترین منافع کے بعد 32 سالہ مارک زوکربرگ دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں پانچویں نمبر پر آگیا ہے۔ اس لیے کہ اسُ روز اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار کے آخری گھنٹے کے بعد زوکر برگ کی مجموعی دولت 56 ارب 70 کروڑ ڈالر سے زیادہ ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس روزFacebook کے شیئر کی قیمت ایک ہی مرتبہ میں 6.5 % بڑھ کر 131.40 ڈالر ہوگئی۔ اس کی ایک اہم وجہ فیس بک کے صارفین کی مجموعی تعداد 1.71 ارب ہوجانے کا اعلان تھا۔ اس طرح زوکر برگ نے خود ہی اپنا سابقہ ریکارڈ بہتر بنا لیا۔ اس کا سابقہ ریکارڈ گزشتہ اپریل میں اس وقت قائم ہوا تھا جب اس نے 4.2 ارب ڈالر کا منافع کمایا تھا۔ تاہم یہ اضافہ اسٹاک ایکسچینج میں کئی گھنٹوں کے کاروبار کے بعد دیکھنے میں آیا تھا۔ جہاں تک اس نئے خطیر منافع کا تعلق ہے تو یہ صرف ایک گھنٹے کا کرشمہ ہے۔
زوکربرگ اپنے ہم وطن وارن بوفے کے بعد امیر ترین افرد کی فہرست میں پانچویں نمبر پر آگیا ہے۔ وارن بوفے 80 برس کی عمر میں بھیBerkshire Hathaway کمپنی کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ ان کی مجموعی دولت 64.9 ارب ڈالر ہے۔ دوسری جانب 52 سالہ امریکی شہری Jeff Bezos جو Amazon.com کے بانی شریک اور اس کے 18% اثاثوں کے مالک ہیں. پہلی مرتبہ وارن بوفے سے اوپر نکل گئے ہیں۔ ان کی مجموعی دولت 65.3 ارب ڈالر ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور لبنانی نژاد کارلوس سلیم کی دولت
امیر ترین افراد کی فہرست میں دوسرا نمبر 80 سالہ ہسپانوی نژاد امریکی امانسيو اورتیگا کا ہے۔ وہ مشہور فیشن برانڈ ZARA کے مالک ہیں۔ اسپین کے شمال مغرب میں واقع خودمختار علاقے Galicia میں قیام پذیر ارب پتی کی مجموعی دولت 72.7 ارب ڈالر ہے۔ جہاں تک فہرست میں اول نمبر پر موجود دنیا کی امیر ترین شخصیت کی بات ہے تو وہ مائیکروسافٹ کمپنی کے بانی بل گیٹس کے سوا کوئی اور نہیں۔ 60 سالہ بل گیٹس کی مجموعی دولت اس وقت 77.7 ارب ڈالر ہے۔
جہاں تک لبنانی نژاد میکسیکی کارلوس سلیم اور امریکی صدارتی انتخابات کے ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا سوال ہے تو 76 سالہ کارلوس 50.3 ارب ڈالر کے ساتھ دنیا کے ساتویں امیر ترین شخص ہیں.. جب کہ ان سے عمر میں 7 برس چھوٹے ٹرمپ کا 4.5 ارب ڈالر کے ساتھ امیر ترین افراد کی درجہ بندی میں نمبر 390 ہے۔ واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی میں انکشاف کیا تھا کہ ان کی مجموعی دولت 10 ارب ڈالر ہے تاہم بہت سے لوگوں کے نزدیک ٹرمپ نے بھولے سے یہ دعوی کر دیا۔

لندن- كمال قبيسی

اسحاق ڈار کیا کر رہے ہیں ؟

0
0

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پاکستان میں پراپرٹی کے بزنس میں خصوصی دلچسپی کے پیچھے واقعی پاکستان میں جائیدادوں کی خریدوفروخت کے نظام کو ٹیکس نیٹ میں لانا، کالے دھن کی روک تھام اورحکومتی ریونیو میں اضافے کے لئے سنجیدہ اور مخلصانہ کوششیں ہیں یا پھر وہ کہانی سچی ہے جس کے مطابق دوبئی میں پراپرٹی کے دھندے میں چند برس پہلے شدید مندا ہوا،ایک تحقیق کے مطابق دوبئی میں بھارتیوں اور برطانویوں کے بعد تیسرے بڑے سرمایہ کار پاکستانی ہیں، اسحاق ڈار اور ان کے صاحبزادوں کی دوبئی میں جائیدادیں اور کاروباری مفادات ہیں لہٰذا وہاں کے حکمرانوں نے انہیں طلب کیا اور حکم دیا کہ پاکستان میں پراپرٹی کے شعبے میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کا رخ دوبئی کی طرف کیا جائے اور یہ کام حکومت ہی اپنے ہتھکنڈوں کے ساتھ کر سکتی ہے تاکہ دوبئی کی مارکیٹ مکمل بحال ہو سکے، یہی وجہ ہے کہ وفاقی وزارت خزانہ نے اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبائی خود مختاری کو کچلتے اور معاملات میں غیر روایتی مداخلت کرتے ہوئے پاکستان میں پراپرٹی کی سرکاری قیمتوں میں اچانک دو سو فیصد سے ایک ہزار فیصد تک اضافہ کر دیا جو اس سے پہلے ڈی سی ریٹ کے ذریعے طے کی جا رہی تھیں، پلاٹوں کی خریدو فروخت پر ہی ٹیکس میں ہوش ربا اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ پلاٹ رکھنے پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا۔
یہ بہت ہی ٹیکنیکل معاملہ ہے کہ حکومتیں ہمیشہ ملکوں میں سرمایے کے داخلے کو یقینی بنانے کے لئے کام کرتی ہیں، کسی بھی دوسرے ملک کی طرح پاکستان میں بھی دو طرح کے لوگ پلاٹ خریدتے ہیں ، ایک وہ ہیں جو زندگی بھر کی بچت کے ساتھ گھر بنانا چاہتے ہیں اور دوسرے سرمایہ کار ہوتے ہیں۔ سرمایہ کاروں میں بھی دو بڑی اقسام ہیں، ایک وہ ہیں جو پاکستان میں کارخانے لگانے اور کاروبار جمانے کی مشق اس وجہ سے نہیں کرتے کہ حکمرانوں کے کرپٹ ہونے کی وجہ سے تمام ادارے کرپٹ ہیں۔ وہ ہاتھی کا پیٹ ، اژدھے کاڈنگ رکھنے والے ان مگرمچھوں کامقابلہ نہیں کرپاتے، وہ پلاٹوں میں سرمایہ کاری کرتے اور اپنا سرمایہ محفوظ رکھتے ہوئے منافعے کی امید لگاتے ہیں۔ دوسرے سرمایہ کار وہ ہیں جو دن رات بیرون ملک محنت کر کے پیسہ کما رہے ہیں، وہ پاکستان پیسہ بھیجتے ہیں ، بینک میں رکھنے کو غیر سود مند سمجھتے ہیں، اپنے رشتے داروں پرکاروبار کے سلسلے میں اعتماد نہیں کر پاتے تو سرمایہ پلاٹوں کی صورت میں محفوظ کر لیتے ہیں تاکہ جب عمر بھر کی محنت کے بعد واپس آئیں تو ان کے پاس بڑھاپا گزارنے کا سہارا موجود ہومگر پاکستان کی وزارت خزانہ اوراس کے ماتحت ادارے لوگوں کی بچتوں کو کالا دھن قرار دے کر اس سرمایہ کاری کا راستہ بند کر رہے ہیں۔ جب لوگوں کو یہ بتایا جائے گا کہ وہ پاکستان میں اپنی بچتیں رکھنے کی صورت میں ٹیکس جمع کرنے والے کرپٹ اداروں کے ہتھے چڑھ جائیں گے تو وہ یقینی طور پر اپنا سرمایہ پاکستان کی بجائے کسی دوسرے ملک میں محفوظ کر لیں گے او ر اس کے لئے دوبئی سے بہتر کون سی جگہ ہو 
سکتی ہے۔

یہاں دو خواب دکھائے جا رہے ہیں، ایک یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں پلاٹ سستے ہوجائیں گے اور غریبوں کو دستیاب ہوں گے اور دوسرا یہ کہ پاکستان کو تیس سے بتیس ارب روپے کا خطیر ریونیو میسر آئے گا۔ میں سیاسیات کا طالب علم ہوں ، معاشیات کا نہیں مگر کامن سینس ضرور رکھتا ہوں۔ یہ درست ہے کہ جب یہاں سے انویسٹر بھاگ جائے گا تو پلاٹ سستے ہوجائیں گے مگر یہ کس قیمت پر سستے ہوں گے کیا آپ نے اس کے بارے سوچا ہے۔ سب سے پہلے یہاں کی گئی سرمایہ کاری ڈوبے گی اور سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کا اعتماد بحال کرتے ہوئے اسی طرح عشرے لگا دے گا جس طرح اسحاق ڈار نے فارن کرنسی اکاونٹس کو منجمد کرتے ہوئے ان کے اعتماد کا قتل کیا تھا۔ دوسرا سب سے بڑی زک پراپرٹی ڈیلرز نہیں بلکہ ڈویلپرز کے کاروبار پر پڑے گی۔ اس وقت ڈویلپرز کی وجہ سے درجنوں صنعتوں کا پہیہ چل رہا ہے جن میں سڑکیں، اینٹیں ، رنگ روغن سمیت بہت سارے کارخانے اور ان سے وابستہ مزدور شامل ہیں۔ جب آپ درجنوں صنعتوں میں بے روزگاری کی کیفیت پیدا کریں گے تو یقینی طور پر آپ کی جی ڈی پی متاثر ہوگی۔ جب آبادی کا ایک بڑا حصہ روزگار اور روزی روٹی بارے تشویش کا شکار ہو گا تو اس کے بعد کوئی احمق ہی یہ خیال کر سکتا ہے کہ کسی کے پاس سستے پلاٹ خریدنے اور گھر بنانے کے لئے رقم موجود ہو گی چاہے وہ پہلے سے آدھی قیمت پر ہی کیوں نہ دستیاب ہوں۔ آپ کسی بھی شعبے میں سرمایہ کاری کا قتل کر نے کے بعد ترقی کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں ، یہ وہ شعبہ ہے جس نے دوسرے شعبوں کے مقابلے میں تیز رفتاری سے ترقی کی ہے اور پاکستان کا چہرہ سجایا ہے اور آپ دانستہ یا نادانستہ طور پراسے ہی تباہ کرنے جا رہے ہیں۔ اسحاق ڈار ریونیو بڑھانے کے نام پروہی غلطی کرنے جا رہے ہیں جوپنجاب میں بڑی گاڑیوں کی خریداری پر بھاری ٹیکس لگا کر کی گئی تھی۔ اس کے نتیجے میں پنجاب میں چلنے والی بڑی گاڑیوں کی بہت بڑی تعداد سندھ اور اسلام آباد کی نمبر پلیٹوں کے ساتھ نظر آتی ہیں، صوبائی ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کا ریونیو بڑھنے کی بجائے کم ہوگیا تھا، گاڑیاں خریدنے والوں نے لاکھوں روپے اضافی ٹیکس دینے کی بجائے محض پانچ ، سات ہزار دے کرکار ڈیلرز کے ذریعے پنجاب سے باہر کا نمبر لگوالیا تھا۔

سرمایہ کاری سے باہر نکلتے ہیں، غریب لوگوں کی بچتوں بارے سوچتے ہیں،وراثت میں ملے ہوئے پلاٹوں کو ایک طرف رہنے دیں مگر دوسرے پلاٹ وہ ہیں جو غریبوں نے محنت مزدوری کر کے خریدے اور سوچا کہ وہ دوبارہ محنت مزدوری کر کے پیسے جمع کریں گے اور گھر بنا لیں گے ۔ ایک طرف وہ کرائے کے گھر میں رہ رہے ہیں اور دوسری طرف یہ پلاٹ یقینی طور پر انہیں کچھ کما کر نہیں دے رہے، سوال یہ ہے کہ ان غریبوں کی بچتوں پر آپ ٹیکس کس طرح لگا سکتے ہیں جنہیں وہ اپنے بچوں کے ا چھے مستقبل کے لئے محفوظ کرنا چاہتے ہیں ، وہ پلاٹ کے اندر سے ٹیکس کہاں سے نکال کر دیں گے۔ یہاں رہائشی گھروں اور دوکانوں پر ٹیکس کی سمجھ آتی ہے مگرکیا ان پلاٹوں کی مٹی بیچ کر ٹیکس ادا کیا جائے گا۔ یہاں اس معاملے کا دوسرا پہلو بھی اہم ہے، کیا آپ اس امر کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتے ہیں کہ لوگ پلاٹ بار بار مت بیچیں کہ آپ نے تین سال کے اندر پلاٹ دوبارہ بیچنے پر ٹیکس عائد کر دیا ہے جوکیپٹیل گین کی صورت پہلے برس دس فیصد، دوسرے برس ساڑھے سات فیصد اور تیسرے برس بیچنے کی صوررت پانچ فیصد وصول کیا جائے گا مگر چوتھے برس ٹیکس نہیں ہو گا لیکن پلاٹ فروخت ہونے پر تو حکومت کو ہمیشہ سے ٹیکس ملتا ہے اور اب یوں ہو گا کہ بہت سارے لوگ پلاٹ بیچنے سے باز آجائیں گے یوں ریونیو بڑھنے کی بجائے کم بھی ہو سکتا ہے۔ کیا یہ امر مضحکہ خیز نہیں ہے کہ کنزیومرز کے رائٹس پر ڈیلرز نے آپ کے ساتھ معاملات طے کئے ہیں اوریوں حکومت نے پاکستان میں کنزیومرز کی تنظیمیں نہ ہونے کا فائدہ اٹھایا ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ڈیلرز کے سامنے کمیشن پر ان کے اپنے ٹیکس کا معاملہ بھی رکھا گیا، جب وہ پوری طرح ہراساں ہو گئے تو معاملات کو قومی مفادمیں طے کرنے کا لالی پاپ دے دیا گیا۔

سوال غیر اخلاقی سہی مگر پانامہ میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے بہتر کون جانتا ہے کہ حکومتیں اپنے ملک میں سرمایہ لانے اور اپنے ملکوں کی معیشت کو کھڑا کرنے کے لئے کیسے کیسے پاپڑ نہیں بیلتیں، کیا غریب ممالک ان اعلیٰ اصولوں کو اپنا سکتے ہیں جن کے نتائج ڈرتے ہوئے جدید اور امیر ترین ریاستیں بھی اپنے اور اپنے شہریوں کے مفاد میں آنکھیں بند کر لیتی ہیں۔ کیا انگلینڈ اور دوبئی جیسے ممالک کی چمکتی دمکتی معیشت کے پیچھے وہ کالا دھن نہیں جو وہ دوسرے ممالک کے شہریوں سے کھینچ کر لائے ہیں۔ یہاں ہمیں جناب اسحاق ڈار کے بارے دو طرح کے لوگوں میں سے ایک کے ساتھ اتفاق کرنا پڑے گا،ایک وہ ہیں جو ان کی معاشی منصوبہ بندی کی اہلیت بارے شکوک کاشکار ہیں،وہ کہہ رہے ہیں کہ ایک چارٹرڈ اکاونٹنٹ ہی روزا نہ سونے کا انڈا دینے والی مرغی کوذبح کر کے تمام انڈے ایک ہی دن نکال لینے کا سوچ سکتا ہے اور دوسرے وہ ہیں جو، معذرت کے ساتھ،ان کی اہلیت نہیں بلکہ نیت پر شک کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک کے معاشی فیصلہ سازوں کے خاندانی کاروباری مفادات اس ملک سے باہر ہرگز نہیں ہونے چاہئیں۔ ہم بھی دوبئی کے مالیاتی بحران کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں مگر اس کی قیمت کسی بھی صورت پاکستان کے شہریوں، سرمایہ کاروں، معیشت اور کامیاب اکنامک سیکٹرز سے وصول نہیں کی جا نی چاہیے۔

نجم ولی خان

کشمیر میں ہلاکتیں کب ختم ہوں گی؟ خالد المعینا

0
0

ایک مرتبہ پھر کشمیر شہ سرخیوں میں ہے۔ پچاس سے زیادہ مظاہرین مارے
جاچکے، نوجوانوں کو (پیلیٹ گولیوں) سے اندھا کردیا گیا اور تھوک کے حساب سے گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ بھارتی میڈیا اس تمام صورت حال پر خاموش رہا ہے۔ماسوائے ان کے جنھوں نے ٹیلی ویژن نیٹ ورکس پر قبضہ کررکھا ہے اوروہ داعش اور طالبان کے بارے میں مزاحیہ انداز میں غوغا آرائی کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان رٹو طوطوں میں سے بعض نے ان نوعمروں کی مزید ہلاکتوں کی بات کی ہے جو اجتماعی عصمت ریزیوں ،ماورائے عدالت قتل اور نوجوانوں کو لاپتا کرنے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ یہ کھلے حقائق ہیں اور بھارت کے قومی انسانی حقوق کمیشن نے بھی ان کو تسلیم کیا ہے،ان کی تصدیق کی ہے۔
میڈیا ریاستی پروپیگنڈے ہی کی تشہیر کررہا ہے اور خطے کی حقیقی صورت حال کو مسموم کررہا ہے۔ چند ایک صحافی حضرات ہی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے حقیقی صورت حال کے بارے میں کچھ لکھ رہے ہیں۔ برکھا دت نے این ڈی ٹی وی پر اپنے پروگرام میں اس ایشو کو گفتگو کا موضوع بنایا۔ موجودہ صورت حال پر ایک دانشورانہ مباحثے کو دیکھنے کا یہ دراصل ایک حوصلہ افزا تجربہ تھا۔ ارون دتی رائے ایسی دانشوروں نے بھی کشمیریوں کے بارے میں لکھا ہے۔کشمیری امن اور وقار کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے خطے میں فوجیوں کی موجودگی نہیں چاہتے کیونکہ وہ ان کی خواتین کو پوچھ تاچھ کے لیے پکڑ لیتے اور ان سے ناروا سلوک کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ وہ جب کسی صبح کو بیدار ہوں تو وہ یہ سنیں کہ ان کے خاندان کے کسی رکن کو ہلاک کردیا گیا ہے یا پھر غائب کردیا گیا ہے۔ جیسا کہ ایک اُبھرتے ہوئے نوجوان کرکٹر کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا ہے اور اس کو فوج نے ہندواڑہ کے علاقے میں ایک کارروائی میں موت سے ہمکنار کردیا ہے۔

کشمیریوں سے تشدد کے ذریعے اعترافی بیانات لینے سے متعلق باتیں اب عام ہوتی جارہی ہیں۔ عام لوگ ان کے بارے میں گفتگو کررہے ہیں۔ بلال ڈار کا کہنا ہے کہ انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور دوسروں کو ماخوذ کرنے کے لیے انھیں غلط بیانات دینے پر مجبور کیا گیا۔ میڈیا کا ایک بڑا حصہ دستانے پہنے سکیورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔ من گھڑت خبروں کی شرح بلند تر ہوچکی ہے۔ اپنے دفاع میں مہلک ہتھیاروں اور فوجی طاقت کے بلا امتیاز استعمال کا تناسب خطرناک سطح پر پہنچ چکا ہے۔ بھارت کی موجودہ سیاست کی فرقہ وار نوعیت جلتی پر تیل کا کام دے رہی ہے اور آگ کے شعلوں کو مزید بلند کررہی ہے۔کشمیر کوئی مذہبی معاملہ نہیں ہے۔

شیخ عبداللہ نے برسوں قبل کہا تھا:''یہ ضروری نہیں کہ ہماری ریاست کو بھارت یا پاکستان کا حصہ بن جانا چاہیے''۔ آج کے کشمیری بھی اسی بات میں یقین رکھتے ہیں۔ میری یہاں یا دنیا میں کسی اور جگہ کسی ایک بھی ایسے کشمیری سے ملاقات نہیں ہوئی ہے جس کا یہ کہنا ہو کہ ہم پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں۔ لندن میں ایک کشمیری ڈاکٹر نے مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''یہ تو ایسے ہی ہے جیسے فرائنگ پین سے آگ میں کود جایا جائے''۔ بھارت کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے۔ آر ایس ایس ،شیوسینا اور ایسی ہی دوسری تنظیموں  پُرامید سیاست دانوں اور شہرت کے حریص میڈیا کے لوگوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قوم کو مشتعل کرنے کے الم ناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

سرحدپار حافظ سعید ایسے مجمع باز لوگوں کو گرفتار کیا جانا چاہیے جن کا یہ دعویٰ ہے کہ انھوں نے ہی کشمیر میں بغاوت برپا کی ہے۔ اقتدار کے حریص اور ووٹوں کی سیاست کرنے والے پاکستانی سیاست دانوں کو خاموش کرایا جانا چاہیے۔ انھیں کشمیری عوام کی انصاف کے لیے خواہش اور جدوجہد کو اپنی اقتدار کی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے ایک پہیے کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

توجہ کا رُخ موڑیں

دونوں ممالک ہی اقتصادی طور پر خوف ناک صورت حال سے دوچار ہیں۔ بھارت کو اس کے بجائے اقتصادی طور پر اسمارٹ شہروں پر توجہ دینی چاہیے جہاں زہریلے فضلات کی بہتات ہے۔ وہ خودکشیاں کرنے والے کاشت کاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر قابو پائے۔ بدعنوانیوں کے خلاف جنگ آزما ہو، وسائل کے ضیاع پر قابو پائے اور انسانی زندگی کا احترام کرے۔ سرحدپار پاکستان میں بھی یہی مسائل موجود ہیں۔ دن کا آغاز بجلی کی بندش ،اغوا اور کرپشن کے ساتھ ہوتا ہے۔ کراچی کی شاہراہوں پر قاتل گھومتے پھرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو قتل کرتے اور پورے شہر کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ دونوں ممالک کو ان مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے اور ایسے لوگوں پر جنگ آزما نہیں ہوجانا چاہیے جو ان دونوں ممالک پر برابر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔

کشمیریوں کی مساوات اور وقار کے لیے جدوجہد ایک ہے۔ انھوں نے اس سے انحراف کی کبھی بات نہیں کی۔ وہ جبرواستبداد اور ہلاکتوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ وہ معاشی مساوات کے طالب ہیں۔ بے روزگاری کی 40 فی صد شرح کوئی ہضم ہونے والی چیز نہیں ہے۔ کشمیر کو عام طور پر ''مشرق کا سوئٹزر لینڈ''کہا جاتا ہے اور اس کے عوام اس کو ایسا ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ یہی تو چاہتے ہیں کہ جب وہ بیدار ہوں تو ایک آزاد فضا میں سانس لیں۔ خوبصورت مہکتے پھولوں اور درختوں کی کونپلوں کی خوش بُو کو سونگھیں اور انھیں فوجی بوٹوں اور بندوق سے گولیاں چلنے کی آواز ہرگز ہرگز بھی سنائی نہ دے اور ان کا یہ کوئی بہت بڑا مطالبہ نہیں ہے۔

خالد المعینا
کہنہ مشق تجربے کار صحافی اور تجزیہ کار خالد المعینا سعودی گزٹ کے ایڈیٹر ایٹ لارج ہیں۔ ان سے ان پتوں پر برقی رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
kalmaeena@saudigazette.com.sa اور Twitter: @KhaledAlmaeena

تونسہ بیراج

0
0

تونسہ بیراج بنیادی طور پر آبپاشی کے لیے بنایا گیا۔ بیراج کی اوپر کی جانب پانچ عدد مٹی کے بند ہیں۔ ان بندوں کی وجہ سے 6,576 ایکڑ رقبے میں پانی کا ذخیرہ جمع ہوگیا ہے، جس میں مختلف اقسام کی آبی حیات آباد ہوچکی ہے صرف 1987ء کے موسم سرما میں تونسہ بیراج پر24,000 مختلف اقسام کے پرندے شمار کیے گئے تھے۔ دریاؤں پر بیراج بننے کے نتیجے میں قائم ہونے والے سب ہی آبی ذخائر کم و بیش ایک جیسے ہی ہیں۔ ان میں پانی کی گہرائی کا دارو مدار دریا میں پانی کی مقدار پر ہوتا ہے۔ دریائے سندھ جب کنارے کنارے بہتا ہے، تو تونسہ کے آبی ذخیرے میں 5 میٹر تک پانی ہوتا ہے۔ موسم سرما میں یہ پانی ایک میٹر سے بھی کم ہو جاتا ہے۔ تونسہ بیراج کے اردگرد کی زمین زرخیز ہے اور یہاں کپاس، گندم اور گنا وغیرہ کاشت ہوتا ہے۔ دریائے سندھ کے کنارے خود رو جھاڑیوں میں پلچھی کی تعداد زیادہ ہے، اگرچہ زیر کاشت رقبے پر درختوں کی نئی نسلیں متعارف ہوچکی ہیں۔
رامسر آب گاہ کا درجہ حاصل ہونے کے بعد تونسہ بیراج آبی حیات پر تحقیق کا اہم مراکز بن چکا ہے۔ 1983ء سے لے کر اب تک باقاعدگی سے پرندوں کے شمار کے علاوہ ’’ڈولفن منصوبے‘‘ پر محکمہ ماہی پروری پنجاب اور زولوجیکل سروے کے مشترکہ کام قابل قدر ہیں۔ ہجرت کرکے آنے والے بگلوں کے لیے تحقیقی سینٹر کے تونسہ بیراج پر قیام کی تجویز بھی زیر غور ہے اور محکمہ جنگلی حیات پنجاب میں جنگلی حیات کے لیے یہاں مصنوعی گھونسلے بنانے پر بھی غور ہو رہا ہے تاکہ مہمان آبی پرندوں کو زیادہ محفوظ اور پرسکون ماحول میسر آسکے اور ان کی آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہو۔ پنجاب میں واقع رسول قادر آباد، چشمہ بیراج، اور السلام ہیڈ ورکس کی طرح تونسہ بیراج رامسر آب گاہ میںبھی بڑے پیمانے پر ماہی پروری کا آغاز ہوچکا ہے، جس سے ہر سال کروڑوں روپے حاصل کیے جا رہے ہیں۔ چولستانی ہرن Hog Deer ابھی تک اس علاقے میں موجود ہے۔ تونسہ بیراج کا رامسر سائٹ نمبر 817 ہے۔

شیخ نوید اسلم

 (پاکستان کی سیر گاہیں)
 


آئندہ 20 برسوں میں امریکا کو چین، روس اور پاکستان سے خطرہ

0
0

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ 20 برسوں میں روس،
چین، پاکستان اور شمالی کوریا کا نیا اتحاد بن سکتا ہے اور ان سے امریکی برتری کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ پینٹاگون کے ڈیفنس ٹیکنیکل انفارمیشن سینٹر کی جانب سے مرتب کی جانے والی رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ آئندہ دو دہائیوں میں امریکا عالمی سطح پر طاقت ور ترین ملک تو برقرار رہے گا لیکن عالمی منظر نامے میں اس وقت تک نئے کردار بھی سامنے آچکے ہوں گے۔
'جوائنٹ فورس ان کنٹیسٹڈ اینڈ ڈس آرڈرڈ ورلڈ'نامی اس رپورٹ میں موجودہ اور 2035 کے دوران ہونے والی معاشی اور سیاسی تبدیلیوں کے رجحان اور اس کے امریکی بالادستی پر اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
رپورٹ میں روس اور چین کو تبدیلی کی خواہاں ریاستیں قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ممکن ہے یہ دونوں ممالک موجودہ عالمی نظام کو تبدیل کرنے کیلئے چھوٹے لیکن عسکری طور پر متحرک پاکستان اور شمالی کوریا جیسے ممالک سے اتحاد کرلیں اور انہیں شراکت دار بنالیں۔ رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ ہوسکتا ہے چین مشرقی اور جنوبی بحیرہ چین کے متنازع جزائر پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کیلئے مزید متحرک حکمت عملی اپنا لے۔  روس کے بارے میں رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ روس مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا میں خود کو بطور سیکیورٹی پارٹنر پیش کرکے اپنے اثر و رسوخ کو وسیع کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین خطے میں قائم اتحاد کو کمزور کرنے کی کوشش کرسکتا ہے اور پڑوسی ممالک کو اپنی برتری تسلیم کرنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوستان اور ایران بھی خطے میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے اور نئے اتحادی بنانے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔


گائے کے لیے انسانوں کو نہ ماریں

0
0

انڈیا میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک سینیئر وزیر
نے لوگوں کو بہترین مشورہ دیا ہے کہ گائے کا احترام کرنا تو اچھی بات ہے، لیکن اس بہانے انسانوں کو نہ ماریں۔ بی جے پی رہنما اور وزیر وینکیا نائڈو کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ گائے کا احترام کرتے ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے، لیکن دوسرے انسانوں کو بھی زندہ رہنے اور اپنی روزی روٹی کمانے کا حق حاصل ہے، آپ کو گائے کا احترام کرنا ہے تو کیجیے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس بہانے آپ کسی کی جان لے سکتے ہیں۔ یہ بالکل غلط ہے۔‘

انڈیا میں آج کل گائے جیسا سیدھا سادہ جانور حکومت کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ چند روز قبل وزیر اعظم نریندر مودی کی ریاست گجرات میں گائے کی حفاظت کا بیڑا اٹھانے والے نام نہاد ’گئو رکشک‘ یا گائے کے محافظوں نے کچھ دلتوں کو بے رحمی کے ساتھ پیٹا۔ دلتوں کا قصور یہ تھا کہ وہ ایک مردہ گائے کی کھال اتار رہے تھے۔ اس واقعے کے خلاف دلت یا وہ لوگ جو ہندو معاشرے میں ذات کے لحاظ سے ’نیچ‘ مانے جاتے ہیں، متحد ہوگئے ہیں اور سڑکوں پر ان کا احتجاج اور ناراضی ریاست کی وزیراعلیٰ آندنی بین کے استعفے کی ایک اہم وجہ مانی جا رہی ہے۔

 گذشتہ چند مہینوں میں ایسے کئی واقعات پیش آئے ہیں، حال ہی میں مدھیہ پردیش میں دو مسلمان عورتوں کو پیٹا گیا، صرف اس شبے میں کہ وہ گائے کا گوشت لے جا رہی تھیں، جو بعد میں بھینس کا گوشت ثابت ہوا۔ اور اس پس منظر میں ان مطالبات کے باوجود کہ گئو رکشکوں کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ کہ انھیں قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے سے روکا جانا چاہیے، ایک وزیر نے کہا کہ ’گئو رکشکوں کو صرف افواہوں کی بنیاد پر کارروائی نہیں کرنی چاہیے۔۔۔!‘ وزیر کے اس بیان پر بہت سے اخبارات نے سخت اداریے لکھے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ گئو رکشک بے قابو گھوم رہے ہیں اور انھیں لگام دینے کی ضرورت ہے۔

’ٹائمز آف انڈیا‘ میں کالم نگار امولیہ گوپال کرشن کہتے ہیں کہ ’اس بیان سے پیغام یہ جاتا ہے کہ اگر واقعی گئوکشی ہوئی ہے اور گئو رکشک اگر ملزمان کو خود نشانہ بناتے ہیں تو کوئی غلط بات نہیں ہے۔‘  گجرات میں جو ہوا اس کی بی جے پی کو بھاری سیاسی قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔ ’دی ہندو‘ اخبار میں شو وشواناتھن لکھتے ہیں کہ ’گئو رکشک ہندوستانی جمہوریت کے لیے خطرہ ہیں اور اس خطرے کو اجاگر کیا جانا چاہیے۔‘ 

’انڈین ایکسپریس‘ نے ایک اداریہ میں لکھا ہےکہ ’گجرات میں اونچی ذات کے جن لوگوں نے دلتوں کو زد و کوب کیا تھا، انھوں نے ہی اس پورے واقعے کی ویڈیو بناکر اسے انٹرنیٹ پر اپ لوڈ بھی کیا۔ سنگھ پریوار ایسے واقعات انجام دینے والوں سے دو ٹوک الفاظ میں لا تعلقی کا اظہار کرنے کو تیار نہیں، اور ریاستی حکومتیں ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتیں۔ تو کیا حیرت ہے کہ ان لوگوں کے حوصلے اور بلند ہوتے ہیں۔‘  بہت سے ہندو گائے کو مقدس مانتے ہیں اور شاید ہندو نظریاتی تنظیموں کو لگتا ہے کہ گائے کے تحفظ کے نام پر ہندو قوم متحد ہو جائے گی، لیکن جیسا تجزیہ نگار باور کرا رہے ہیں، اگر گئو رکشک یوں ہی بے لگام گھمتے رہے تو گائے ہی بی جے پی کو ہرا بھی سکتی ہے!

سہیل حلیم
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی

عالمی غربت کا باعث جنگیں ۔۔۔ اور جنگوں کا باعث۔۔۔؟

0
0

پاکستان میں کبھی کبھی میڈیا غربت کی ایسی بھیانک تصویر کشی کرتا ہے کہ حب وطن کی کمی کے شکار لوگ مایوس ہو کر پاکستان کو کوسنے لگتے ہیں۔ بے شک پاکستان میں غربت ہے، لیکن پاکستان کوئی دنیاسے الگ تھلگ خطہ نہیں ہے۔ اللہ ہمارے حکمرانوں کو توفیق دے کہ وہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دے سکیں۔ احتجاجی سیاست ہمیں غیر منقسم ہندوستان سے ورثے میں ملی ہے اور اب تک بعض سیاسی گروہوں کے نزدیک سب سے بڑا کام ہی یہ ہے کہ نہ خود چین سے بیٹھنا ہے، نہ دوسروں کو بیٹھنے دینا ہے کہ یہی سیاست ہے۔غربت صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے، یہ عالمی مسئلہ ہے یورپی یونین کے ممالک بھی اس سے دو چار ہیں۔ دنیا کی آدھی آبادی، یعنی تین ارب انسان صرف اڑھائی ڈالر یومیہ پر گزارہ کرتے ہیں۔ امریکہ جیسے ممالک میں اس اڑھائی ڈالر کا ایک برگر بھی نہیں آتا، لیکن پاکستان میں یہ رقم دو سو پچیس روپے کے برابر ہے،جبکہ کولمبیا میں کئی لاکھ پیسو ہیں۔ ایک پاکستانی اس رقم سے دو وقت کی معمولی روٹی کھا سکتا ہے،جبکہ امریکہ میں کچرے سے پس خوردہ تلاش کر کے کھانے والے بے گھر بھی ہیں، جو اس اڑھائی ڈالر سے ایک وقت کے لئے پیٹ بھرنے کی کوئی نہایت معمولی چیز بمشکل حاصل کرسکتے ہیں۔ اگرچہ اس اڑھائی ڈالر والے طبقے میں امریکی غربا کا شمار نہیں ہے۔
انسانوں کی اسی فیصد آبادی دس ڈالر یومیہ سے کسی قدر کم پر گزر بسر کررہی ہے۔ دنیا کی چالیس فیصد آبادی کل عالمی آمدنی کے پانچ فیصد کی مالک ہے اور دنیا کے امراء کی بیس فیصد تعداد وہ ہے جس کو عالمی آمدنی کے چوتھائی پر قبضہ حاصل ہے۔ ہمارے ہاں صوبہ سندھ میں بچے بھوک سے مرتے ہیں تو وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ(اب سابق) فرماتے ہیں کہ یہ بھوک سے نہیں، بیماری سے مرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسفکی ایک رپورٹ ہے کہ دنیا بھر میں بائیس ہزار بچے روزانہ بھوک سے مررہے ہیں اور جہاں جہاں یہ بچے مرتے ہیں وہاں کے سید سائیں ان کی موت کو بہت کم اہمیت دیتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں ستائیس اٹھائیس فیصد بچے معیاری وزن سے کم وزن رکھتے ہیں۔ ایسے بچے یا تو جنوبی ایشیا میں ہیں یا پھر افریقہ کے صحرائی علاقے میں۔ 2005ء میں بھی72 ملین بچے سکول جانے کی عمر کو پہنچنے کے باوجود سکول جانے نہیں پائے، ان بچوں میں 57فیصد بچیاں تھیں، جن کی تعلیم پر آئندہ نسل کی تعلیم وتربیت کا انحصار ہوتا ہے۔ ایک بچہ پڑھ جائے تو معاشرے کا ایک فرد تعلیم یافتہ ہو جاتا ہے، ایک بچی پڑھ جائے تو آئندہ نسل کے تعلیم یافتہ ہونے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔

اکیسویں صدی گویا انسانیت کے لئے ترقی کے ایک نئے باب کا افتتاح تھا لیکن ایک ارب لوگ اس اکیسویں صدی میں اس طرح داخل ہوئے کہ وہ نہ ایک حرف پڑھ سکتے تھے، نہ اپنا نام تک لکھ سکتے تھے۔ ساری دنیا ہر سال جنگی ہتھیاروں پر جتنی دولت خرچ کرتی ہے، اگر اس کا ایک فیصد سے بھی کچھ کم خرچ کردیا جائے تو اس سے ساری دنیا کے سکول جانے سے محروم بچے سکول جاسکتے ہیں۔ امریکہ میں ایک اور طرح سے بھی یہ غربت اپنا رنگ دکھاتی ہے، مثلاً بیرون امریکہ پیدا ہونے والے غیر شہری (Non-citizens) بچوں میں سے چوبیس فیصد غربت کا شکار ہیں۔ امریکی غربت میں بچوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے کل آبادی کے 23.1 فیصد بچے غریب ہیں جبکہ غریب آبادی میں غریب بچوں کیشرح33.3 فیصد ہے۔ امریکی غربت پر آراء میں اختلاف بھی ہے ۔ مثلاً فوربس میگزین کہتا ہے کہ غربت 14.5 فیصد نہیں4.5 فیصد ہے، جبکہ غُربأ کی حمائت کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ حقیقت میں غربت 14.5 فیصد سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

اس غربت کا سبب کیا ہے؟ تیسری دنیا کا تو ذکر ہی جانے دیجئے کہ وہاں وسائل ہیں، نہ ان سے استفادہ کیا جارہا ہے ۔ یورپی ممالک پانچ سال سے ایک عظیم مالی اور معاشی بحران کا شکار ہیں ، گزشتہ دنوں اس صورت حال پر یورپی ممالک کے معاشی ماہرین برسلز میں سر جوڑ کر بیٹھے رہے، لیکن کوئی ٹھوس لائحہ عمل طے نہ کر پائے، یورپ کے اس معاشی بحران کا سبب فوجی اور جنگی اخراجات ہیں۔ ان یورپی ممالک ، حتیٰ کہ امریکہ میں اس بحران سے نمٹنے کے لئے جنگی اخراجات میں کمی کی بجائے معاشرے کے پس ماندہ افراد، غریب اور لاچار شہریوں، کم آمدنی والے مزدورں، سابق فوجیوں، بالخصوص معذور سابق فوجیوں کی مراعات اور سرکاری امداد میں کٹوتیاں کی جارہی ہیں،ملازموں کی اجرت اور پنشن میں کمی کی جارہی ہے۔ دوسری طرف اسلحہ ساز کمپنیوں کے منافع میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اسلحہ ساز کمپنیوں کو ان کے مال کے آرڈر دھڑا دھڑ مل رہے ہیں۔ اسلحہ خریدنے والی حکومتیں اور ریاستیں ان کی قرض دار ہیں۔ یہ ایک لرزہ خیز حقیقت ہے کہ 2010ء میں یورپی یونین کے جنگی یا فوجی اخراجات 194 بلین یورو تھے جو یونان، اٹلی اور سپین کے سالانہ مجموعی خسارے کے برابر ہیں۔

برسلز میں ہونے والے اجلاس میں کسی نے غربت کے خاتمے کے لئے کوئی تجویز نہیں دی، بلکہ جنگی اور فوجی اخراجات کی حامی اور اسلحہ ساز اداروں کی لابی نے فوجی اور جنگی اخراجات میں کمی کے خیال پر شدید احتجاج کیا۔ انہوں نے وارننگدی کہ اگر فوجی اخراجات میں کمی کی گئی تو یہ نہایت تباہ کن ہوگا،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تباہ کن صورتِ حال اب بھی ہے اور اس کا ایک سبب اسلحہ اور جنگی ہتھیار خریدنا اور ان کے سودوں میں ناقابل یقین کرپشن ہے۔ اسی تباہ کن صورتِ حال کے سبب یونان معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے۔ پرتگال بھی اسی صورتِ حال سے دو چار ہے۔ دُنیا بھر میں اسلحہ ساز کمپنیاں طاقتور لابی کی حامل ہیں، یہ اپنا مال بیچنے کے لئے جنگوں کا ماحول پیدا کئے رکھنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرتی ہیں۔ دنیا کے بہت سے طاقتور ملک ان سے بلیک میل ہوتے ہیں اور یہ ملک اپنے ملک میں جنگی جنون کو ہوا دینے کے لئے خوف کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ دیدہ نا دیدہ دشمن کا خوف پیدا کر کے اور عدم تحفظ کا احساس بڑھا کر یہ ملک جنگوں کو اپنے عوام کے تحفظ اور دشمن سے نجات کے لئے ان کوملنے والی سہولتوں کی قیمت پر دھڑا دھڑ اسلحہ خریدتی ہیں اور خوف زدہ عوام اس عوام دشمن رویے پر خوش ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اسلحہ کے ان انباروں کے ذریعے ان کا اوران کے بچوں کا مستقبل محفوظ ہو رہاہے۔

اس وقت دنیا بھر میں دس عظیم ترین اور مؤثر ترین اسلحہ ساز ادارے اسلحہ سازی اور اسلحے کی تجارت میں مصروف ہیں۔ ان میں سے چھ کے صدر دفاتر نیدر لینڈ میں ہیں۔ نیدر لینڈ بھی پامانا کے مین آئی لینڈ، بہاماس اور امریکی ریاست نیواڈا وغیرہ کی طرح آف شور کمپنیوں کی جنت ہے۔ یہ چھ بڑے اسلحہ سازادارے اپنے ملک میں ٹیکس سے بچتے ہیں۔ نیدر لینڈ میں ٹیکس مراعات کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور دنیا میں جنگوں کو جاری رکھنے کے لئے دن رات کوشاں رہتے ہیں، ان میں اٹلی کی بدنام زمانہ بلیک لسٹ نن میکانیکا بھی شامل ہے۔ ان اسلحہ ساز اداروں کی تجارتی سرگرمیاں تو امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں ہوتی ہیں، لیکن انہوں نے اپنے مرکزی دفاتر نیدر لینڈ میں رکھے ہوئے ہیں، جہاں بمشکل ایک یا دو ملازم موجود ہوتے ہیں، بعض اتنا تکلف بھی نہیں کرتے۔ ایک پوسٹ آفس بکس کرائے پر حاصل کرتے ہیں، اس پر اپنی ڈاک منگواتے ہیں، اس پتے کو اپنا صدر دفتر ظاہر کرتے ہیں۔ اللہ اللہ خیر سلا۔

اسلحہ سازی کی ٹاپ سو کمپنیاں سالانہ 450 بلین ڈالر کا اسلحہ تیار کرتی ہیں۔ ان کمپنیوں کا کاروبار 392 بلین ڈالر تک کا ہے۔ ان سو میں سے ایک تہائی نے اپنے دفاتر یا تو نیدر لینڈ میں بنا رکھے ہیں یا ایسا ظاہر کرتی ہیں یعنی پوسٹ آفس بکس کا پتہ استعمال کرتی ہیں نیدرلینڈ میں صدر دفاتر کا ہو نا یا ظاہر کرنا محض ٹیکس میں بچت ہی کے کام نہیں آتا،بلکہ اس سے ہر طرح کی کرپشن کرنے میں بھی سہولت ہوتی ہے۔ سٹاک ہام انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا اندازہ ہے کہ عالمی کرپشن کا چالیس فیصد صرف ان اسلحہ ساز اداروں سے متعلق ہے۔
تنظیم برائے معاشی تعاون و ترقی اوای سی ڈی کا کہنا ہے کہ عالمی سطح کے رشوت ستانی کے جو بائیس الزامات ہیں، ان میں بارہ ان اسلحہ ساز اور اسلحہ فروش اداروں سے متعلق ہیں اور یہ بارہ وہ کمپنیاں ہیں، جن کے دفاتر نیدر لینڈ میں بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔

ان کے صرف میل باکس پائے جاتے ہیں۔ ان کمپنیوں کی پیداوار کا بڑا حصہ حکومتیں خریدتی ہیں۔ ریسرچ وترقی (ڈیویلپمنٹ) کے نام پر ان کمپنیوں کو سب سڈی دیتی ہیں اور سرکاری، نیم سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کو تحقیق کے نام پر ’’مال‘‘ چڑھاتی ہیں دنیا میں جنگیں جاری رکھنے اور انہیں ہوا دینے کے لئے نت نئے حربے اختیار کرتی رہتی ہیں۔  یاد رہے کہ یہ ان کی تجارتی ضرورت ہے۔ کپڑا بنانے کی فیکٹریاں فیشن کے فروغ کے لئے کام کرتی ہیں۔ فیشن کی تعلیم دیتی ہیں۔ فیشن شو منعقد کراتی ہیں اور جانے کیا کیا کرتی ہیں ،جنگی سازو سامان بنانے والی فیکٹریاں یہ سامان اپنے گوداموں میں رکھنے کے لئے نہیں بناتیں، جنگیں ان کی تجارت کے فروغ کا باعث ہیں تو وہ جنگوں کے فروغ کے لئے کام کیوں نہ کریں؟

اشرف قریشی


بھارت میں دلتوں کی زندگی اجیرن

0
0

غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ظلم،غربت اور سماجی تفریق کے شکار نچلی ذات کے ہندو تیزی سے دیگر مذاہب میں داخل ہورہے ہیں جن میں سب سے زیادہ افراد اسلام کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ 1950ء میں بھارت نے ہندو ذات پات کو ختم کر دیا تھا، لیکن اس کے باوجود صدیوں پرانی تفریق اور تعصب بھارتی معاشرے میں موجود ہے۔ بھارت کی ایک ارب 20 کروڑ کی آبادی میں 84 فیصد ہندو ہیں اور اب بھی برہمن، کیشتریا، ویشیا اور شودر جیسے طبقات میں تقسیم ہیں جب کہ دلت (نچلی ذات) یا شودر بھارتی کچرا اْٹھانے اور صفائی وغیرہ کے کام کررہے ہیں اور اسی بنا پر ان کی بڑی تعداد اسلام کی جانب مائل ہورہی ہے اور اس کے علاوہ ان کی تعداد سکھ اور عیسائیت کی جانب بھی راغب ہو رہی ہے۔

دلت افراد کی عام شکایت یہ ہے کہ ملازمتوں میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا اور وہ صرف غلاظت اٹھانے اور لاشوں کو ٹھکانے لگانے کا کام کرتے ہیں۔ بھارت کے دیگر علاقوں کے دلت افراد بدھ ازم سمیت دیگر مذاہب اختیار کر رہے ہیں، جبکہ مدھیا پردیش میں دلت افراد کی سب سے زیادہ تعداد اسلام قبول کر رہی ہے۔رپورٹ کے مطابق اسلام قبول کرنے والے ایک شخص عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ دلت سے مسلمان ہونے کے بعد ان کے پرانے مذہب کے افراد نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا،جس میں ان کے پیر اور سینے پر گولیاں ماری گئیں۔
انڈیا کی ریاست گجرات میں حال ہی میں گؤ رکشک کی جانب سے بھرے بازار میں تشدد کرنے کے خلاف احتجاج کے طور پر 30 سے زیادہ دلت افراد نے خودکشی کی کوشش کی ہے۔ بھارت میں ہندو نوجوانوں نے’گؤ رکشک‘ کمیٹیاں بنالی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو گائے کو مقدس مانتے ہیں اور اکثر گائے کی حفاظت کے نام پر قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے سے پرہیز نہیں کرتے۔ گزشتہ چند مہینوں میں کہیں گؤ کشی تو کہیں گائے کی سمگلنگ کے الزام میں کئی مرتبہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے،لیکن اس مرتبہ نشانے پر دلت نوجوان تھے۔ نچلی ذات کی دلت برادری کا کہنا ہے کہ گؤ رکشک نے چار دلت افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کے خلاف وہ احتجاج کے طور پر خود کشی کر رہے ہیں۔ ایک تازہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چار دلت افراد جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ چمڑے کے کارخانے میں کام کرتے تھے، گؤرکشک کے کارکنان نے ننگا کر کے لاٹھیوں سے مارا۔ اس واقعے کے بعد دلت برادری نے مظاہرے کئے۔ ایک دلت شخص مہیش راجہ راٹھور جنھوں نے خودکشی کی کوشش کی، ان کے والد کا کہنا ہے کہ ہاں یہ درست ہے کہ ہمیں تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ آج تک ہم گاؤں میں اونچی ذات کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتے۔ آپ نے شاید اخباروں میں پڑھا ہو گا کہ گجرات میں دلتوں کے ساتھ کتنا خراب سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ واقعات رک نہیں رہے۔

دلت اس طبقے کو کہا جاتا ہے جسے صدیوں سے ہندو معاشرے میں اتنا نیچ سمجھا جاتا تھا کہ وہ اس کے سماجی نظام میں بھی شامل نہیں تھے۔ ہندو معاشرہ زمانہ قدیم سے چار طبقوں میں تقسیم تھا، برہمن یا پجاری، شتریہ یا حکمراں، ویشیہ یا تاجر اور شودر یا وہ نام نہاد نیچی ذاتیں جو ان باقی تینوں طبقوں کی خدمت گزار تھیں، لیکن اس کے باوجود اچھوت مانی جاتی تھیں۔ دلت وہ لوگ ہیں جنہیں شودر کے زمرے سے بھی باہر رکھا گیا۔ (انہیں اے ورن کہا جاتا تھا، یعنی وہ لوگ جو طبقاتی یا ورن نظام میں شامل ہی نہیں تھے)، لیکن اب وقت بدل گیا ہے۔ دلتوں کو بھی ووٹ کا حق حاصل ہے اور اتر پردیش اور گجرات میں ان کے ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ اس لئے اب سب کو ان کی فکر ہے۔ روایتاً بی جے پی اونچی ذاتوں کی پارٹی ہے، لیکن گزشتہ برسوں میں اس نے دلتوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اگر وہ بی جے پی کے ساتھ آ جائیں تو مُلک کی سیاست پوری طرح بدل سکتی ہے۔

لیکن ان کی محبتوں کے دعویدار اور بھی ہیں اور ان میں سب سے اوپر مایاوتی ہیں جو پانچ مرتبہ اتر پردیش کی وزیراعلیٰ رہ چکی ہیں۔ ان کا تعلق بھی ایک دلت خاندان سے ہے اورگزشتہ دو دہائیوں میں دلتوں کا ایک بڑا حصہ مضبوطی سے ان کے ساتھ رہا ہے۔ جب دلت ان کا ساتھ چھوڑتے ہیں تو وہ ہار جاتی ہیں، لیکن 2007ء میں جب انہوں نے اپنے سوشل انجینئرنگ کے فارمولے کے تحت برہمنوں کو بھی ٹکٹ دیے تو انہیں ریاستی اسمبلی میں اپنے ہی دم پر اکثریت حاصل ہوگئی۔ اتر پردیش میں اب جلدی ہی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس لئے گجرات میں دلتوں کے ساتھ پیش آنے والے اس کیس کی گونج پورے مُلک میں سُنی جا رہی ہے۔

بھارت میں دلتوں کی زندگی اتنی ارزاں ہے کہ پندرہ روپے قرض واپس نہ کرنا دلت جوڑے کا جرم بن گیا، جس پربھارتی ریاست اتر پردیش میں اشوک مشرا نامی دکاندار نے دلت میاں بیوی کو قتل کردیا۔ دلت جوڑے نے ایک دکاندار کو15 روپے دینے تھے، دونوں جب سودا لینے دکان پر گئے تو دکاندار نے انہیں رقم واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس بات پر ان کے درمیان بحث شروع ہو گئی اور دکاندار نے غصے میں آکر کلہاڑی اٹھائی اور مسلسل وار کر کے میاں بیوی کو قتل کردیا۔ دلت میاں بیوی کو قریبی ہسپتال لے جایا گیا ،جہاں ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کر دی۔

مودی کی سرکار نے کشمیر میں حالیہ دنوں میں جس طرح برہان وانی کو شہید کیا اور جس طرح لوگوں پر ظلم و ستم کئے اِس سارئے ظلم پر قدرت نے مودی سرکاری کے مْنہ پر طمانچہ رسید کیا ہے کہ دلت جن کو ہندو معاشرے میں انتہائی نیچ جانا جاتا ہے۔ اِن سے ہاتھ ملانا تو کْجا۔ جہاں سے دلت گزر جائے ہندووں کے نزدیک وہ جگہ ناپاک ٹھہرتی ہے۔ مسلمانوں سے بھی اْن کا سلوک ایسا ہی ہے، لیکن یہی دلت برادری تاریخ کے ایک اہم موڑ پر آکھڑی ہوئی ہے۔ اڑھائی ہزار سال سے ظلم و ستم سہنے ولی دلت برادری نے اچانک تاریخ کو بدل دیا ہے اور مودی سرکار کے خلاف اْٹھ کھڑئے ہوئے ہیں۔ سرعام گائے ذبح کرنا شروع کر دیا۔
مسلمانوں کے بعد اچانک اس مہینے کے آغاز میں دلتوں کی اس طرح باری آگئی کہ چار دلت لڑکے ایک مردہ بھینس کی کھال اُتار رہے تھے کہ پکڑے گئے اور انہیں اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ ان میں سے دو ہلاک ہوگئے، جس سے یہ تحریک پھوٹی اور یہ تحریک پھر اس قدر آگے بڑھی کہ مودی تخت ڈولنے لگا،جس کے بعد کشمیریوں کے ساتھ ساتھ بھارت کے اندر بھی صورت حال میں سنگینی آگئی اور حکومت نے ہر طرح کے تشدد سے تحریک کو روکنے کی کوشش کی،مگر یہ تحریک وزیراعظم کی ریاست سے نکل کر دوسری ریاستوں میں پھیل گئی اور اب تک درجن سے زائد دلت اس تحریک میں پولیس کے ہاتھوں اپنی جان دے چکے ہیں۔ ہزاروں زخمی ہیں۔ دلتوں نے ہندوں کے باڑوں سے مقدس گائیوں کو نکالا اور سرکاری دفاتر کے سامنے لے جاکر درجنون کی تعداد میں ہلاک کر کے ان کے ٹکڑے بڑے افسران اور سیاست دانوں کے گھروں کے دروازوں پر پھینک دئیے۔

یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے بھارت میں پھیل گئی، مگر انتظامیہ کے سامنے معذرت اختیار کرنے کی بجائے دلت برادریا ور زیادہ اعتماد میں آچکی ہے۔ بھارت کے لوگوں نے تاریخ کو نئے سرے سے لکھنا شروع کر دیا ہے۔ اعلیٰ ذات کے ہندووں کی مقدس گائیوں کو، خواہ وہ زندہ ہوں یا مری ہوں، انہیں کاٹ کر درجنوں کی تعداد میں پھینکنے کی ہمت کبھی کسی نے نہیں کی تھی۔ یہ تحریک بظاہر چھوٹی سطح سے اٹھی، لیکن دنوں میں اس نے پورے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ بھارت میں دلتوں کی آبادی 16 فیصد ہے اور یہی بھارت کے اصل باشندے ہیں۔ بھارتی معاشرے کے اندر جتنا ظلم وستم ہے اور جس طرح سے انسانوں کی درجہ بندی کی گئی ہے اْس لحاظ سے دیکھا جائے تو بھارت میں چھوت چھات کی وجہ ہی مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کا باعث بنی،جو لوگ نظریہ اسلام اور نظریہ پاکستان کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں وہ دیکھ لیں کہ بھارت میں انسانوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔

ریاض احمد چودھری

الحمداللہ صرف چورانوے بچے اغوا ہوئے ؟

0
0

عمار مسعود


Viewing all 4314 articles
Browse latest View live