Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

دنیا بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے - رپورٹ


پاک افغان سرحدی تنازع : چند حقائق اور ممکنہ حل

موبائل کارڈ چارج کرنے پر حکومت آُپ سے کتنا ٹیکس وصول کرتی ہے ؟

کیا افغان احسان فراموش ہیں ؟

دنیا میں پناہ گزینوں کی تعداد ساڑھے چھ کروڑ سے زیادہ

$
0
0

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزیناں (یو این ایچ سی آر) کا کہنا ہے کہ دنیا میں جنگوں اور تنازعات کے سبب بےگھر ہونے والے افراد کی تعداد اپنی ریکار ڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ ادارے کے مطابق سنہ 2015 کے آخر تک دنیا بھر میں تارکین وطن، پناہ گزینوں اور اندرون ملک نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد چھ کروڑ 53 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جو کہ ایک سال میں 50 لاکھ کا اضافہ ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ دنیا میں ہر 113 میں سے ایک آدمی بےگھر ہے۔ دریں اثنا پناہ گزینوں کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارے کے سربراہ نے کہا ہے کہ پناہ گزینوں کے بحران سے نبردآزما یورپ میں ’غیرملکیوں سے نفرت کا ماحول‘ پریشان کن ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد نقل مکانی کے سب سے بڑے سیلاب سے انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں اور متنازع امیگریشن مخالف پالیسیوں کو وسیع حمایت ملی ہے۔
پناہ گزینوں پر اقوامِ متحدہ کی رپورٹ

65.3 ملین افراد پناہ گزین، پناہ کے طالب یا بےگھر ہیں یعنی ہر 113 میں 1 فرد بےگھر ہے
12.4 ملین سنہ 2015 میں تنازعات کی وجہ سے پناہ گزین بننے پر مجبور ہوئے
24 افراد سنہ 2015 میں ہر منٹ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے
54% پناہ گزینوں کا تعلق تین ممالک سے ہے
50% پناہ گزینوں کی عمر 18 برس سے کم ہے
یو این ایچ سی آر
عالمی یوم پناہ گزیناں کے موقع پر جاری کی جانے والی سالانہ رپورٹ میں اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار پناہ گزینوں کی تعدا چھ کروڑ سے بڑھ گئی ہے۔ ان چھ کروڑ 53 لاکھ افراد سے میں نصف تین جنگ زدہ ممالک شام، افغانستان اور صومالیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے یورپ میں پناہ گزینوں کے بحران پر زیادہ تر توجہ کے باوجود 86 فی صد پناہ گزین کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں مقیم ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے پناہ حاصل کرنے کے لیے جرمنی کو سب سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئی ہیں جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ ملک پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے لیے کتنا تیار ہے۔

انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائگریشن (آئي او ایم) کے مطابق سمندر کے راستے ایک لاکھ 11 ہزار سے زائد پناہ گزین یورپ کے سواحل پر اترے جبکہ دوسرے ادارے اس تعداد کو زیادہ بتاتے ہیں۔ آئي او ایم کے مطابق زمینی راستے سے تقریبا 35 ہزار افراد یورپ پہنچے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کی پسندیدہ منزل جرمنی اور سویڈن جیسے امیر ممالک ہیں۔ اس بحران سے یورپی یونین کے ممالک میں سیاسی تضاد پیدا ہوئے ہیں اور بعض ممالک نے اپنی سرحدوں پر باڑ لگانے یا پھر سے سرحدوں کے ضوابط عائد کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک علیحدہ بیان میں اقوا متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے کے سربراہ نے کہا ہے کہ یورپی رہنما تعاون کرنے کی پالیسیوں اور پناہ گزینوں کے بارے میں پھیلائے جانے والے منفی تاثرات سے لڑنے کے لیے زیادہ کوشش کریں۔

بشکریہ بی بی سی اردو

ترکی اور پاکستان مہاجرین کو پناہ دینےمیں سرفہرست

$
0
0

اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے اپنی سالانہ
رپورٹ جاری کردی جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں مہاجرین کی تعداد 6 کروڑ 53 لاکھ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز'کے مطابق حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس تقریباً 6 کروڑ 53 لاکھ افراد کو جنگ، مسلح تصادم، سخت قوانین اور حقارت پر مبنی رویوں کی وجہ سے بے گھر ہونا پڑا۔ اس حساب سے دنیا میں ہر 113 میں سے ایک شخص مہاجر، پناہ کا متلاشی یا پھر اپنے ہی ملک میں گھر سے دور رہنے پر مجبورہے۔
رپورٹ کے مطابق 2014 میں دنیا بھر میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 5 کروڑ 95 لاکھ تھی، گزشتہ 5 برسوں میں اس تعداد میں 50 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
شام، افغانستان، برونڈی، جنوبی سوڈان اور دیگر ممالک میں جاری تنازعات کی وجہ سے تقریباً 2 کروڑ 13 لاکھ افراد ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے جن میں نصف تعداد بچوں کی ہے۔ یہ رپورٹ عالمی یوم مہاجرین کے موقع پر ’گلوبل ٹرینڈز‘ کے نام سے جاری کی گئی۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فلیپو گرانڈی نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ مہاجرین اور تارکین وطن کا بحیرہ روم کا پُرخطر سفر کرکے یورپ پہنچنا ہمارے لیے پیغام ہے کہ اگر ہم نے مسائل حل نہ کیے تو یہ ہم تک پہنچ جائیں گے۔
مہاجرین کا تعلق کہاں سے ہے؟
رپورٹ کے مطابق ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ مہاجرین کی تعداد 6 کروڑ سے تجاوز کرگئی ہے، ان میں سے تقریباً نصف مہاجرین کا تعلق شام، افغانستان اور صومالیہ سے ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان، عراق اور دیگر ممالک سے بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے یورپ کی جانب بہتر مستقبل کے لیے ہجرت کی۔
  
مہاجرین کیسے سفر کرتے ہیں؟
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ میں عالمی تنظیم برائے مہاجرین (آئی او ایم) کی جانب سے پیش کردہ اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ تقریباً 10 لاکھ 11 ہزار 700 تارکین وطن سمندری راستے سے یورپ پہنچے تاہم دیگر ایجنسیوں کے نزدیک تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً 35 ہزار مہاجرین زمینی راستے سے یورپ پہنچے اور ان افراد کے پسندیدہ ترین ملک جرمنی اور سوئیڈن رہے۔
کس ملک نے سب سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دی؟
رپورٹ کے مطابق 2015 میں صنعتی طور پر مستحکم ممالک میں پناہ کی 20 لاکھ نئی درخواستیں موصول ہوئیں، تقریباً ایک لاکھ بچے اپنے خاندان سے بچھڑ گئے اور یہ تعداد 2014 کے مقابلے میں تین گنا جبکہ تاریخ میں بلند ترین ہے۔ پناہ کی سب سے زیادہ 4 لاکھ 41 ہزار 900 درخواستیں جرمنی میں سامنے آئیں جس کے بعد امریکا کا نمبر ہے جہاں پناہ کے لیے ایک لاکھ 72 ہزار درخواستیں دی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق مہاجرین کی کل تعداد کے 86 فیصد حصے کو ترقی پذیر ممالک میں پناہ ملی، ترکی نے سب سے زیادہ 25 لاکھ شامی مہاجرین کو پناہ دی، جس کے بعد پاکستان اور لبنان مہاجرین کو پناہ دینے میں سب سے آگے رہے۔

نفرت انگیز رویوں میں اضافہ
کمشنر یو این ایچ سی آر فلیپو گرانڈی نے بتایا کہ اپنے ملک میں جاری تنازعات اور تکلیف سے جان چھڑا کر دوسرے ملک آنے والے مہاجرین کو یہاں مقامی افراد کے نفرت انگیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یورپ میں دیکھا کہ کس طرح متعدد ممالک نے مہاجرین کے لیے اپنی سرحدیں بند کردیں جو کبھی خود پناہ گزینوں کے حقوق کی باتیں کیا کرتے تھے۔ مہاجرین پر یورپی ممالک کے دروازے بند ہونے کے بعد یورپی یونین اور ترکی میں مہاجرین کی آباد کاری کے حوالے سے معاہدہ طے پایا اور انہیں ترکی بھیجا جانے لگا۔

کشمنر یو این ایچ سی آر فلیپو گرانڈی نے کہا کہ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے یورپی یونین کے فیصلوں پر رکن ممالک کی جانب سے عمل نہ کرنا افسوس ناک ہے۔ یورپی ممالک اب تک یونان اور اٹلی میں موجود صرف ایک لاکھ 60 ہزار پناہ گزینوں کو آپس میں بانٹنے پر ہی متفق نہیں ہوسکے۔ یورپی یونین کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک صرف 2 ہزار 406 تارکین وطن کی منتقلی ممکن ہوئی ہے، گرانڈی کا کہنا ہے کہ پناہ دینے کے بجائے یورپ کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے، سب کو ذمہ داری ادا کرنی ہوگی۔

کیا آپ واٹس ایپ کا یہ خفیہ فیچر جانتے ہیں؟

$
0
0

واٹس ایپ دنیا کا مقبول ترین چیٹنگ مسینجر ہے، جس کے صارفین کی تعداد ایک ارب سے زائد ہے۔ اس ایپ کو ہوسکتا ہے آپ روز استعمال کرتے ہو، مگر اس میں چھپے ایک دلچسپ فیچر سے ہوسکتا ہے، آپ واقف نہ ہوں۔ جی ہاں! واٹس ایپ میں ایک فیچر چھپا ہوا ہے، جس سے اکثر افراد لاعلم ہیں اور اس کی مدد سے آپ بیک وقت متعدد افراد کو ایک پیغام بھیج سکتے ہیں ،جس کے بارے میں انہیں علم نہیں ہوتا کہ اسے آپ نے کس کس کو send کیا ہے۔ اگر اس کو آزمانا چاہیں، تو واٹس ایپ چیٹس کے اوپر بائیں جانب سکرین پر ایک فیچر موجود ہے، جس پر براڈ کاسٹ لیسٹس لکھا ہوگا۔

اس کی مدد سے آپ کسی بھی میسج کو متعدد افراد کو بیک وقت بھیج سکتے ہیں اور یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ آپ نے کس کس کو بھیجا ہے، آسان الفاظ میں یہ ای میل میں Bcc بٹن کی طرح کام کرنے والا فیچر ہے۔ اس کی مدد سے آپ گروپ چیٹ کو تشکیل دیئے بغیر ہی ایک میسج کو واٹس ایپ پر اپنے تمام دوستوں کو بھیج سکتے ہیں،تو سب سے پہلے چیٹس اوپن کریں، پھر براڈ کاسٹ لسٹس پر کلک کرکے نئی لسٹ کو بنائیں اور اس میں دوستوں کو ایڈ کرلیں۔ اس کے بعد بس اپنا پیغام تحریر یا کاپی پیسٹ کریں اور send کے بٹن کو دبا دیں۔ یہ پیغام سب کو مل جائے گا، بس اس کے آگے ایک چھوٹا سا میگافون آئیکون بنانا ہوگا، مگر انہیں معلوم نہیں ہوسکے گا کہ آپ نے ان کے علاوہ بھی اسے دیگر افراد کو بھیجا ہے.

(انٹر نیٹ سے ماخوذ) 

وزیرستان کے صحافی ’سیلف سنسر شپ‘ پر مجبور

$
0
0

آن لائن اخبار ’وزیرستان ٹائمز‘ کے نوجوان قبائلی مدیر فاروق محسود کے لیے
کسی بھی خبر میں توازن لانا سب سے بڑی مشکل ہے۔ جب سرکاری یا فوجی اہلکار اپنا موقف دینے میں طویل وقت لیتے ہیں یا پھر دیتے ہی نہیں تو ایسے حالات میں انھیں خبر کو روکے رکھنا یا اس کا ’ہلکا‘ موقف شائع کرنا پڑتا ہے۔ انھیں اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اکثر سیلف سینسرشپ کرنی پڑتی ہے۔
اگرچہ وہ خود قبائلی ہیں لیکن ان کے لیے اپنے علاقے وزیرستان میں سفر کرنا بھی اتنا ہی دشوار ہے۔

فاروق محسود کی کہانی قبائلی علاقوں میں کام کرنے والے اکثر صحافیوں کی کہانی ہے۔ اگرچہ یہ قصہ شروع تو سنہ 2001 میں ہوا لیکن اس میں شدت دو سال پہلے اس وقت آئی جب شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف ضرب عضب کے نام سے کارروائی کا آغاز ہوا۔ اس کارروائی کا دائرہ اختیار آہستہ آہستہ اب ملک کے دیگر حصوں تک پھیلا دیا گیا ہے۔ بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کہہ چکے ہیں کہ یہ آپریشن اپنے 99 فیصد اہداف حاصل کر چکا ہے۔ اس کارروائی کے دوران لاکھوں قبائلیوں کو بےگھر ہونا پڑا اور فوجیوں کو اپنی جانیں کھونی پڑیں لیکن جتنی قیمت میڈیا کو ادا کرنی پڑی اس کا تعین نہیں ہو سکا ہے۔
کچھ لوگوں کے خیال میں شاید میڈیا کو کنٹرول کرنا بھی اس آپریشن کا ایک اہم جزو ہے۔ اس حکمت عملی نے دوہرا نقصان کیا۔ متاثرین تک اہم معلومات بروقت نہیں پہنچ سکیں اور باقی عوام وزیرستان کے اندر کی صحیح صورتحال جاننے سے قاصر رہے۔
 آج بھی وزیرستان میں میڈیا کا مکمل بلیک آؤٹ ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ وہاں واپس لوٹنے والے قبائل کن مشکلات سے دوچار ہیں. قبائلی صحافی ’ہاتھ ہلکا‘ رکھنے کی وجہ سے قبائلیوں کی نظر میں یا تو حکومت یا پھر فوج کے ’ایجنٹ‘ قرار پاتے ہیں۔ انھیں اس الزام کا سامنا قبائلی عوام کی خراب حالت زار پر کھل کر رپورٹنگ نہ کر سکنے کی وجہ سے کرنا پڑ رہا ہے۔ فاروق محسود کو بھی یہ باتیں اکثر سننے کو ملتی ہیں۔ قبائلی علاقوں سے عارضی بے گھر افراد کی مشکلات کی میڈیا میں مناسب کوریج نہ ہونے یا اس کے معیار سے متعلق کافی تنقید ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں توپوں کا رخ ٹی وی چینلز کی جانب زیادہ ہے۔ غیر ملکی نشریاتی ادارے بھی سفری اجازت نہ ملنے کی وجہ سے اپنی رپورٹنگ کی روایات قائم نہیں رکھ پائے ہیں۔

قبائلی علاقوں میں پیدا صورتحال سے وہاں کے صحافی بھی بری طرح متاثر ہوئے۔ وہ بھی اپنے علاقے چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ انھوں نے ابتدا میں عارضی طور پر بنوں کو شمالی وزیرستان کا میڈیا مرکز بنایا مگر اب یہ مرکز بھی نہیں رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں فوجی یا سرکاری اہلکار محض ’ کنٹرولڈ معلومات‘ کا تبادلہ کرتے ہیں۔ قبائلی علاقوں تک رسائی کا واحد حل فوج کے ساتھ اس کی اجازت سے سفر کرنا ہے۔ ایسے ہی ایک حالیہ دورے کے بعد ایک عالمی خبر رساں ادارے کی خبر دلچسپ تھی۔ خبر یہ تھی کہ سکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان میں مکانات کی چھتیں ڈھا دیں تاکہ وہاں چھپے دہشت گردوں کو اوپر سے دیکھ سکیں۔ یہ ان مشکل حالات میں کیسی صحافت ہے؟

قبائلی علاقوں تک رسائی کا واحد حل فوج کے ساتھ اس کی اجازت سے سفر کرنا ہی ہے. قبائلی صحافیوں نے مقامی طور پر چند حل تلاش کیے ہیں۔ ایک صحافی نے بتایا کہ ایک حل ’زیادہ تر خبروں کو کِل کرنا ہے۔‘ ایک اور کا کہنا تھا کہ ’براہ راست سکیورٹی اداروں کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے ہم سرکاری اہلکار یا پولیٹکل انتظامیہ پر تمام ملبہ ڈال دیتے ہیں۔‘ضرب عضب کے بعد کے دو سال میں جو حل زیادہ شدت کے ساتھ اپنایا گیا ہے وہ ہے ’سیلف سینسر شپ‘ یعنی خود خبریں سینسر کرنا۔

حکومتی دباؤ کے تحت شدت پسندوں کے بیانات کا مکمل بائیکاٹ بھی کیا گیا ہے لیکن اس حکمت عملی کے صحافیوں کے لیے سنگین مضمرات رہے اور اس کے نتیجے میں حکومت نواز سمجھے جانے والے میڈیا کو ہدف بھی بنایا گیا۔ خیال ہے کہ قبائلی صحافی زمان محسود کا نومبر 2015 میں قتل ٹانک میں اسی وجہ سے ہوا۔ ایک طالبان کمانڈر قاری سیف اللہ کے بقول وہ صحافت میں ’غیر جانبدار‘ نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ دیگر صحافیوں کے لیے بھی ان کا یہی پیغام ہے۔ آج کے پاکستانی صحافی کے لیے غیر جانبدار ہونا مشکل ہوگیا ہے۔ اس پر ’سہولت کار‘ یا ’غیر محب وطن‘ جیسے سنگین الزامات لگ سکتے ہیں۔
 یہ صورتحال قومی ایکشن پلان کے آنے کے بعد سے زیادہ گھمبیر ہوگئی ہے۔ میڈیا کو سرکاری طور پر ایک آلہ بنا دیا گیا ہے۔ اس پلان کے 20 نکات میں ہم سب جانتے ہیں کہ ایک نکتہ میڈیا پر بھی ہے۔ نئی صورتحال میں ’دوسرے فریق‘ کی رائے چاہے تحریری، ہو یا صوتی کسی خبر کا حصہ نہیں بن سکتی۔ بات اتنی آگے چلی گئی ہے کہ میڈیا کو باقاعدہ ’ہدایت‘ دی جانے لگی ہے۔ سابق گورنر پنجاب کے قاتل ممتاز قادری کے جنازے کی خبر میڈیا سے جیسے مکمل طور پر غائب ہوئی اس کی شاید مثال نہیں ملتی۔ ایک قومی اخبار کے مدیر کا کہنا ہے کہ ’ہم نے اس خبر کو مکمل طور پر کِل کرنے سے ایک بری مثال قائم کی ہے۔ اب حکومت یا ریاستی ادارے ہر قسم کی فرمائش کر سکتے ہیں۔‘

آج بھی وزیرستان میں میڈیا کا مکمل بلیک آؤٹ ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ وہاں واپس لوٹنے والے قبائل کن مشکلات سے دوچار ہیں۔ حکومت یا فوج میڈیا پر ’سہولت کار‘ ہونے کے الزام لگانے کی بجائے خود اگر میڈیا کی ’سہولت کار‘ بن جائے تو اس سے صحافت کا معیار بھی بہتر ہوگا اور عام لوگوں کی زندگیاں بھی بچائی جا سکیں گی۔

اقبال خٹک
ماہرِ ابلاغیات


ملک کی 39 فیصد آبادی تاحال غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور

$
0
0

ملک کے طول و عرض میں آج بھی آبادی کا 39 فیصد حصہ غربت کی زندگی
گزارنے پر مجبور ہے، جس میں سب سے زیادہ شرح فاٹا اور بلوچستان کی ہے۔
لیکن 2004 میں ملک میں غربت کی شرح 55 فیصد تھی، جو اب کم ہو کر 39 فیصد پر آچکی ہے۔ پاکستان کی تاریخ کی پہلی کثیر الجہتی غربت انڈیکس (ایم پی آئی) رپورٹ کے مطابق، ملک کے مختلف خطوں میں غربت کے حوالے سے پیشرفت ناہموار ہے اور شہری علاقوں میں 9 اعشاریہ 3 فیصد شرح غربت کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں غربت کی شرح 54 اعشاریہ 6 فیصد ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے غربت کے حوالے سے مختلف صوبوں میں بھی عدم مساوات پائی جاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق فاٹا کے 73 فیصد اور بلوچستان کے 71 فیصد عوام غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ خیبر پختونخوا میں شرح غربت 49 فیصد ہے، جبکہ سندھ اور گلگت بلتستان میں 43، 43 فیصد، پنجاب میں 31 فیصد اور آزاد جموں و کشمیر میں 25 فیصد ہے۔ انڈیکس مرتب کرنے میں تعلیمی میدان میں محرومی نے سب سے زیادہ 43 فیصد کردار ادا کیا، جس کے بعد معیار زندگی کا تقریباً 32 اور صحت کا 26 فیصد کردار رہا۔ ان نتائج سے اس بات کی مزید تصدیق ہوجاتی ہے کہ پاکستان میں اقتصادی اشاریے تو مثبت اور مضبوط نظر آتے ہیں، لیکن اس کے مقابلے میں سماجی اشاریے بہت کمزور ہیں۔

امین احمد
یہ خبر 21 جون 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


امریکی اتحادی افواج، افغانستان میں براجمان کیوں؟

$
0
0

چندہفتے قبل، ایک ڈرون حملے میں مُلّا منصور کو ہلاک کر دیا گیا ۔ امریکی صدر
باراک اوباما کی حکومت کے مطابق وہ چار فریقی مذاکرات میں امریکی پالیسیوں کی خواہشات کے تحت، افغانستان میں قیام امن کے لئے مثبت کردار ادا کرنے سے گریزاں تھے۔ گزشتہ چند ماہ سے یہ مذاکرات تعطل کا شکار چلے آ رہے تھے۔ امریکی اتحادی افواج، اگرچہ آج کل افغانستان میں، نسبتاً کم تعداد میں موجود ہیں، لیکن امن کے رعب و داب کی بنا پر، صدر افغانستان اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے پالیسی بیانات اور اُن کا لب و لہجہ دہشت گردی کے بارے میں پاکستان کی سیاسی قیادت کے ساتھ تاحال زیادہ تر جارحانہ اور حاکمانہ ہی جاری ہے۔

امریکی حکمرانوں نے گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران، دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے حکومت کی مخلصانہ کوششوں اور پاکستان کے عوام کے جان و مال کی بیش قیمت قربانیوں کا صحیح انداز میں اعتراف نہیں کیا ہے۔ امریکی اتحادی افواج تو دیگر ممالک سے ہزاروں میل کا سفر کر کے یہاں براجمان ہوئی ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی کے سدِ باب کی آڑ میں افغانستان اور قرب و جوار کے خطۂ ارض میں لاکھوں کی تعداد میں بے قصور مسلمانوں کو شہید، مضروب اور معذور کر دیا ہے۔ مُلّا منصور ان ظالمانہ کارروائیوں کا تازہ ہدف بنے ہیں۔ کیا یہ پالیسی، علامتی امن اور انصاف کے اصولوں کی غمازی کرتی ہے؟ کیا اقوام متحدہ کے منشور میں عالمی امن اور رکن ممالک کے تحفظ اور سلامتی کے لئے عملی طور پر محض کسی ایک یا زیادہ بڑی طاقتوں کو اپنی من مانی پالیسیوں کی اجارہ داری اختیار کرنے کا کھلا استحقاق فراہم کر دیا گیا ہے؟
اگر ایسی صورت حال نہیں تو پھر موجودہ جارح مزاج طاقتیں مسلم ممالک بشمول پاکستان میں گاہے بگاہے ڈرون حملوں کی ظالمانہ کارروائیوں کا تسلسل کیوں جاری رکھ رہی ہیں؟ امریکہ بہادر خود ہی پاکستان کو چند سال قبل اپنا نان نیٹو اتحادی دوست مُلک بنانے کا اہم درجہ دینے کا اعلان کر چکا ہے تو پھر ایسی صورت حال میں کیا صدر اوباما متذکرہ بالا قابلِ اعتراض طرزِ عمل پر نظرثانی کے لئے تیار ہیں؟ امریکی حکمرانوں کو یہ حقائق پسندی پر مبنی عادلانہ اصول، ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے، کہ وہ بھی بین الاقوامی قوانین پر عمل و احترام کے اسی طرح پابند اور جوابدہ ہیں، جس طرح اقوام متحدہ کے دیگر192ممالک، اس طرح امریکہ بہادر اور اُن کے اتحادی ممالک، اپنی من مرضی اور خواہش کے تابع ہو کر کسی وقت بھی متعلقہ بین الاقوامی قوانین کو پامال اور تباہ حال کرنے کا کوئی حق و اختیار نہیں رکھتے۔ افغانستان براعظم ایشیا میں واقع ایک اہم مُلک ہے۔ یہاں کی اکثریتی آبادی بہادر، جفا کش اور باغیرت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

پاکستان اس مُلک کے مشرق میں واقع ہے۔ امریکی اتحادی افواج، اپنے اپنے ممالک سے ہزاروں میل دور آ کر اب یہاں کیا کر رہی ہیں؟ اگر امریکہ اور اس کے اتحادی یورپی ممالک کو جمہوری نظام حکومت کے قیام و استحکام کی اشد ضرورت ہے، تو پھر افغانستان کے عوام کا کیا قصور ہے؟ کہ انہیں اِس بنیادی انسانی حق سے یکسر محروم رکھا جائے۔ امریکی اتحادی افواج، اب افغانستان کی سرزمین سے براہ مہربانی، اپنے ممالک کو واپس چلی جائیں۔ مذکورہ بالا اتحادی حکمران جانتے ہیں کہ جب غیر ملکی افواج، دیگر مفتوحہ علاقوں میں داخل ہوتی اور کئی برسوں کے لئے وہاں ڈیرے ڈالے رکھتی ہیں تو پھر وہ بیشتر معاملات میں اپنی پسند، مرضی اور غیر قانونی کارروائی کے حسبِ منشا ارتکاب سے گریز نہیں کرتیں۔

سابقہ ادوار کی مثالوں سے صاف ظاہر ہے کہ حملہ آور قوتیں، مفتوحہ علاقوں کو نہ صرف، بے تحاشا تباہی اور بربادی سے دوچار کرتی ہیں، بلکہ وہاں کی روایات تہذیب و ثقافت کو تباہ و برباد کر کے جان و مال کے وسیع پیمانے پر نقصانات سے بھی، دوچار کرتی ہیں۔ پاک آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا تازہ بیان قابلِ غور ہے کہ مُلّا منصور کو امریکی ڈرون حملے میں مارنے کا وقوعہ محض قابل مذمت سے کہیں بڑا اور ناقابلِ معافی سانحہ ہے۔ اس ردعمل اور پاکستان کے لوگوں کے احتجاج پر بھی اوباما انتظامیہ کو اب سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ بہتر یہ ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج جلد واپس کُوچ کر جائیں۔

مقبول احمد قریشی ایڈوکیٹ


سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کی دولت ہندوستان سے زیادہ

$
0
0

 سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کی دولت ہندوستان کے شہریوں سے زیادہ ہوگئی.
 سوئس بینکوں میں زیادہ رقم رکھنے والے ممالک کی فہرست میں ہندوستان 61 ویں سے 75 ویں نمبر پر چلا گیا ہے جبکہ برطانیہ اب بھی سرِفہرست ہے۔
گزشتہ برس تک ہندوستان عالمی درجہ بندی میں 61 ویں پوزیشن پر تھا جبکہ 2007 تک یہ سوئس بینکوں میں سب سے زیادہ دولت رکھنے والے 50 ممالک میں شامل تھا۔ 2004 میں تو ہندوستان 37 ویں نمبر پر پہنچ گیا تھا تاہم اب اس کے شہریوں کی سوئس بینکوں میں موجود رقم مسلسل کم ہورہی ہے۔

سوئٹزرلینڈ کے مرکزی بینک (سوئس نیشنل بینک) کی جانب سے جارہ کردہ سوئس بینکوں کے سالانہ اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر سوئس بینک میں موجود غیر ملکیوں کی دولت میں 4 فیصد تک کمی آئی ہے اور 2015 کے آخر تک اس کا مجموعی حجم 14 کھرب 20 ارب سوئس فرانکس ہوگیا ہے۔
پاکستانی شہریوں کے تقریباً 1.5 ارب سوئس فرانکس سوئس بینکوں میں موجود ہیں اور اس اعتبار سے پاکستان کا 69 واں نمبر ہے۔
برطانیہ سوئس بینکوں میں سب سے زیادہ رقم رکھنے والا ملک برقرار ہے جس کے تقریباً 350 ارب سوئس فرانکس وہاں موجود ہیں اور یہ سوئس بینکوں میں موجود مجموعی غیر ملکی دولت کا 25 فیصد بنتا ہے۔ امریکا کا دوسرا نمبر ہے اور اس کے تقریباً 196 ارب فرانکس یا 14 فیصد سوئس بینکوں میں موجود ہیں۔
سوئس بینکوں میں زیادہ اثاثے رکھنے والے ممالک کی فہرست میں ٹاپ ٹین میں ویسٹ انڈیز، جرمنی، بہاماس، فرانس، لگسمبرگ، ہانگ کانگ اور پاناما شامل ہیں۔
سوئس بینکوں میں ہندوستان کے صرف 1.2 ارب سوئس فرانکس موجود ہیں جو وہاں موجود کل بیرونی دولت کا 0.1 فیصد بھی نہیں ہے اور یہ ہندوستان کی سوئس بینکوں میں موجود 1996 کے بعد سے کم ترین رقم ہے۔

برکس گروپ میں شامل تمام ممالک سے موازنہ کیا جائے تو بھی ہندوستان کے سب سے کم پیسے سوئس بینکوں میں موجود ہیں، روس 17.6 ارب کے ساتھ 17 ویں، چین 7.4 ارب کے ساتھ 28 ویں، برازیل 4.8 ارب کے ساتھ 37 ویں اور جنوبی افریقا 2.2 ارب سوئس فرانکس کے ساتھ 60 ویں نمبر پر ہے۔
سوئس بینکوں میں ہندوستان سے زیادہ رقم رکھنے والے دیگر ممالک میں ماریشس، قازقستان، ایران، چلی، انگولا، فلپائن، انڈونیشیا اور میکسیکو شامل ہیں۔
ٹیکس جنت کہلانے والے ممالک بھی ہندوستان سے اوپر ہیں جن میں جرسی، کے مین آئی لینڈ، قبرص، مارشل جزائر، برمودا، بیلیز، جبل الطارق، سیچیلیس، سینٹ ونسینٹ، آئل آف مین اور گریناڈائنز شامل ہیں۔

آف شور فنانشل سینٹرز کے مجموعی طور پر سوئس بینکوں میں 378 ارب سوئس فرانکس موجود ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک کے 207 ارب فرانکس اور ترقی یافتہ ممالک کا حجم اس سے کہیں زیادہ ہے۔ 1996 سے 2007 کے دوران ہندوستان ٹاپ 50 ممالک میں شامل تھا تاہم اس کے بعد بتدریج سوئس بینکوں میں موجود ہندوستانی شہریوں کی رقم میں کمی آنے لگی، 2008 میں ہندوستان 55 ویں، 2009 میں 59 ویں، 2012میں 71 ویں اور 2013 میں پھر 58 ویں نمبر پر آگیا تھا۔

(نوٹ:ایک سوئس فرانکس 1.03 ڈالر اور 107.57 روپے کے برابر ہے)
یہ خبر 4 جولائی 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

موئن جودڑو کی تہذیب مصر سے بھی زیادہ قدیم ہے، تحقیق

$
0
0

تازہ تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب (جس میں موئن جو دڑو اور ہڑپہ بھی شامل ہیں) ہماری سابقہ معلومات کے مقابلے میں ڈھائی ہزارسال زیادہ یعنی 8,000 سال قدیم ہے! اس تحقیق کے نتائج ’’سائنٹفک رپورٹس‘‘ نامی تحقیقی جریدے کی ایک حالیہ آن لائن اشاعت میں شائع ہوئے ہیں۔ شمالی ہندوستان میں ’’بھیرانا‘‘ کی ایک کھاڑی سے ملنے والے، وادی سندھ کی قدیم تہذیب سے تعلق رکھنے والے برتنوں اور پالتو جانوروں کے دانتوں اور ہڈیوں کی ’’ریڈیو آکسیجن تاریخ نگاری‘‘ سے یہ دریافت ہوئی۔ اس تحقیق میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا، انسٹی ٹیوٹ آف آرکیالوجی، دکن کالج پونا اور آئی آئی ٹی کھڑگ پور سے ماہرین شریک ہوئے۔
وادی سندھ کی تہذیب (Indus valley civilization) کا شمار قدیم مصر اور میسوپوٹیمیا کے ساتھ، دنیا کی تین قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے۔ لیکن اس حالیہ دریافت کے ساتھ ہی یہ دنیا کی قدیم ترین تہذیب بن گئی ہے جو مصر سے بھی زیادہ قدیم ہے۔ وادی سندھ کی قدیم تہذیب اُن علاقوں میں پھیلی ہوئی تھی جو موجودہ پاکستان، ہندوستان اور افغانستان میں شامل ہیں۔ دنیا کے اوّلین غسل خانے، نکاسی کےلئے ڈھکی ہوئی نالیاں اور شہر کی تعمیر میں شہری منصوبہ بندی کے جدید اصولوں کا اطلاق، وادی سندھ کی قدیم تہذیب کے طرہ ہائے امتیاز ہیں۔ اپنے عروج کے زمانے میں وادی سندھ کی قدیم تہذیب کی مجموعی آبادی 50 لاکھ افراد کے لگ بھگ تھی، جو اُس وقت ساری دنیا کی انسانی آبادی کا 10 فیصد تھی۔

جدّہ شہر: ایک پاکستانی کی شجاعت اور دوسرے کی خیانت کا گواہ

$
0
0

  • فرمان خان اور عبداللہ خان دونوں ہی پاکستانی شہریت کے حامل تھے تاہم دونوں کے درمیان قربانی اور غداری کے حوالے سے ایک بڑا فاصلہ پایا جاتا ہے۔ ان میں ایک نے اپنی جان پر کھیل کر 14 افراد کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جب کہ دوسرے نے بے قصور لوگوں کی جان لینے کی کوشش کی۔ فرمان خان نے اپنا نام سنہرے الفاظ سے درج کرایا اور جدہ میں اس کے نام سے ایک سڑک بھی موسوم کی گئی ہے۔ یہ اقدام فرمان خان کی بہادری اور قربانی کو خراج تحسین پیش کرنے کے سلسلے میں عمل میں آیا۔ پاکستان کے اس قابلِ فخر سپوت نے 2009 میں جدہ میں سیلابی ریلے کے اندر سے 14 افراد کو نکال کر بچایا تھا جب کہ 15 ویں شخص کو بچانے کے لیے جاتے ہوئے فرمان زندگی کی بازی ہار بیٹھا۔ سعودی شہریوں کی جانب سے فرمان کی قربانی کو بھرپور طور پر سراہا گیا۔

دوسری جانب پاکستان کے ہی شہری عبداللہ گلزار خان نے بے قصور لوگوں کو ہلاک کرنے کی کوشش میں جدہ شہر کی ایک مسجد کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ سعودی عرب میں فرمان خان کی قربانی کو تو ہر سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی مگر دہشت گرد عبداللہ خان کے حوالے سے یکسر مختلف موقف اپنایا گیا۔ اس دہشت گرد کارروائی کو اُس قوم کے ساتھ عمومی طور نہیں جوڑا جاسکتا جس کے صرف ایک ہی فرزند نے اس قبیح عمل کا ارتکاب کیا ہو۔ اگرچہ عبداللہ خان نے اپنی بیوی اور والد کے ساتھ اہلیان جدہ کے درمیان 12 سال گزارے تھے اس کے باوجود عبداللہ نے خود کو داعش کے ہاتھوں فروخت کر ڈالا۔

قصيم - محمد الحربی

Jammu and Kashmir celebrates Eid with Pakistan

$
0
0
Despite Indian authorities announcing Eid on Thursday, people in India-held Kashmir celebrated the festival today.




’میں بلیئر کے منہ پر تھوکوں گا‘

$
0
0

عراق کے دارالحکومت بغداد میں اپنے آپ کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم کی جانب سے کیے جانے والے دھماکے کے 24 گھنٹوں بعد لوگ منہدم ہونے والے شاپنگ سینٹر کے تہہ خانے کی کھدائی کر رہے ہیں۔ یہ لوگ تہہ خانے میں لاشیں تلاش کر رہے ہیں لیکن ان کو کچھ جوتے ملے اور راکھ۔. عمارت کے باہر لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی جن میں سے بہت سے یا تو آنسو بہا رہے تھے یا پھر دعا مانگ رہے تھے۔ میں نے ایک مسیحیٰ کو موم بتی لیے کھڑے دیکھا دعا مانگ رہا تھا اور نوجوان شیعہ لڑکے جو نوحے پڑھ رہے تھے۔ عراق میں اتنی زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں لیکن سوگ کم نہیں ہوا۔ عراقی افراد اپنے درد میں اتنے گم ہو چکے ہیں کہ ان کو بدھ کے روز 2003 میں عراق پر حملے کی رپورٹ چلکوٹ رپورٹ میں دلچسپی نہیں ہو گی۔

میں نے بہت لوگوں سے بات کی اور زیادہ تر عراق پر حملے کے اثرات کے حوالے سے اپنا ذہن بنا چکے ہیں۔ ان افراد میں سے ایک ہیں کاظم الجبوری۔ کاظم عراقی لوگوں کی نجات اور صدام حسین کے لیے نفرت کی علامت ہیں۔ کاظم وہی شخص ہیں جنھوں نے بغداد کے فردوس سکوائر میں صدام حسین کے مجسمے کو گرانے کے لیے سب سے پہلا ہتھوڑا مارا تھا۔ کاظم الجبوری کی مشہور موٹر سائیکل کی دکان تھی اور وہ مشہور موٹر سائیکل ہارلے ڈیوڈسن کے ماہر مانے جاتے تھے۔ انھوں نے کچھ عرصہ صدام حسین کی موٹر سائیکلیں ٹھیک کیں لیکن جب ان کے خاندان کے 14 افراد کو قتل کر دیا گیا تو انھوں نے کام کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کے انکار پر حکومت نے ان کو دو سال قید کی سزا سنائی۔ جیل میں انھوں نے ویٹ لفٹنگ کلب کا آغاز کیا۔
 
نو اپریل 2003 میں کاظم اپنی ذاتی آزادی اور انتقام چاہتے تھے۔ انھوں نے بڑا ہتھوڑا اٹھایا اور مجسمے پر مارنا شروع کیا۔ فردوس سکوائر میں واقع فلسطین ہوٹل سے صحافیوں نے نکلنا شروع کیا اور ان کا یہ عمل پوری دنیا میں لائیو براڈکاسٹ کیا۔ ان صحافیوں کی موجودگی کے باعث ہی صدام کی خفیہ پولیس ان کے قریب نہیں آئی۔ جب امریکی فوج فردوس سکوائر پہنچی تو انھوں نے صدام کے مجسمے کی گردن میں سٹیل کی کیبل ڈالی اور جو کام کاظم نے شروع کیا اس کو اختتام تک پہنچایا۔ یہ سب لائیو دکھایا گیا۔ کاظم کی کہانی سے امریکی صدر جارج بش کو مطلع کیا گیا لیکن کاظم کا اب کہنا ہے کہ کاش وہ ہتھوڑا گھر ہی چھوڑ گئے ہوتے۔

دیگر عراقیوں کی طرح کاظم بھی صدام دور کے استحکام کو یاد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے ان کو اس بات کا احساس ہوا کہ یہ آزادی نہیں بلکہ تسلط ہے۔ پھر ان کو نئے عراق میں بدعنوانی، بدانتظامی اور تشدد سے نفرت ہوئی۔ اور سب سے زیادہ ان کو عراق کے نئے قائدین سے نفرت ہے۔ ’صدام حسین چلا گیا لیکن اب یہاں پر ایک ہزار صدام ہیں۔ ایسا صدام کے دور حکومت میں نہیں ہوتا تھا۔ ایک نظام تھا ایک طریقہ تھا۔ ہم اسے پسند نہیں کرتے تھے لیکن وہ ان لوگوں سے بہتر تھا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا ’صدام بغیر وجہ کے کسی کوسزا نہیں دیتا تھا۔ وہ ایک مضبوط شخص تھا۔ ہم محفوظ تھے کیونکہ اس کے دور میں نہ تو بدعنوانی تھی اور نہ ہی لوٹ مار۔‘

 بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ ’صدام ایک سخت شخص تھا اور انھوں نے ملک کو جنگوں میں گھسیٹا۔ لیکن 13 سال بعد نو اپریل 2003 سے پہلے کا عراق زیادہ پرامن اور محفوظ تھا۔ جب سے صدام حکومت ختم ہوئی ہے تب سے ایک دن بھی امن کا نہیں دیکھا۔‘جہاں تک جمہوریت کی بات ہے تو لوگوں کا کہنا ہے کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر بٹا ہوا نظام مایوس کن ہے۔ کم از کم صدام کے دور حکومت میں نظام تو تھا۔ کچھ لوگوں کو امید تھی کہ فلوجہ میں دولت اسلامیہ کو شکست کے بعد صورتحال بہتر ہو جائے گی لیکن اتوار کو بغداد میں ہونے والے دھماکے میں 250 افراد کی ہلاکت نے وہ امید بھی توڑ دی۔

میں نے کاظم الجبوری سے پوچھا کہ اگر وہ اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر سے ملے تو وہ کیا کریں گے؟ کاظم نے کہا ’میں اس سے کہوں گا کہ وہ ایک مجرم ہے اور میں اس کے منہ پر تھوکوں گا۔‘ اور اگر اس وقت وقت کے امریکی صدر جارج بش سے ملیں تو وہ کیا کہیں گے؟ کاظم نے جواب دیا ’میں اس سے کہوں گا کہ وہ بھی مجرم ہیں۔ انھوں نے عراق کے بچے مروائے۔ تم نے عراقی عورتیں اور معصوم لوگ مارے۔ میں بلیئر کو بھی یہی کہوں گا۔ میں ان اتحادی فوجوں کو بھی یہی کہوں گا جس نے عراق پر حملہ کیا۔ میں کہوں گا کہ تم سب مجرم ہو اور تم سب کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔‘
 
امریکہ اور برطانیہ نے ایک آمر کو تو ہٹا دیا اور اس کی فوج اور ریاست کو تحلیل کر دیا لیکن اس ملک کو دوبارہ منظم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ جیسے جیسے قدم اٹھائے گئے صورتحال بدتر ہوتی گئی۔ عراق پر حملے سے قبل عراق میں کوئی جہادی نہیں تھا۔ شیعہ اور سنی اکٹھے رہ رہے تھے اور ان میں خانہ جنگی تسلط کے دوران شروع ہوئی۔ عراق پر حملہ کرنے والوں کے پاس اتنی فوج نہیں تھی کہ عراق پر قابو پایا جا سکتا۔ جہادی کھلی سرحدوں سے عراق میں آنا شروع ہوئے۔ القاعدہ نے اپنے قدم جمائے اور آخر میں دولت اسلامیہ کی شکل اختیار کی۔ عراقیوں نے بھی اپنے آپ کے لیے مشکلات پیدا کیں لیکن امریکہ اور برطانیہ کی غلطیوں نے عراق کو مصیبت میں ڈالا۔

جیرمی بووِن
بی بی سی کے مدیر برائے مشرق وسطیٰ، بغداد
 
 


''بلیئر عراق جنگ سے پہلے ہی صدر بش سے پیمان کرچکے تھے''

$
0
0

سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کو مارچ 2003ء عراق پر چڑھائی سے آٹھ ماہ قبل ہی یہ یقین دہانی کرادی تھی کہ ''جو کچھ بھی ہوجائے ،میں آپ کے ساتھ ہوں گا''۔ انھوں نے عراق جنگ میں کودنے کے لیے ناقص انٹیلی جنس معلومات اور قانونی مشوروں پر انحصار کیا تھا۔ یہ بات برطانیہ کی عراق جنگ سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ میں کہی گئی ہے۔ سات سال کی تحقیقات کے بعد بدھ کو یہ رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ اس میں ٹونی بلیئر کو مختلف ایشوز پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے عراقی آمر صدام حسین کے مبینہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا اور مابعد جنگ کی منصوبہ بندی بالکل ناکافی اور نامناسب تھی۔

ٹونی بلیئر نے اس رپورٹ کے ردعمل میں کہا ہے کہ انھوں نے جنگ میں شریک ہونے کا فیصلہ ''نیک نیتی'' (اچھے عقیدے) کی بنیاد پر کیا تھا اور انھیں اب بھی یقین ہے کہ صدام حسین کو ہٹایا جانا ایک اچھا فیصلہ تھا۔ ان کے خیال میں ان کی عراق میں کارروائی آج مشرق وسطیٰ یا دنیا میں کہیں بھی ہونے والی دہشت گردی کا سبب نہیں تھی۔ سابق برطانوی وزیراعظم نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''اس وقت جنگ لڑنے کے لیے وضع کردہ انٹیلی جنس جائزے بعد میں غلط ثابت ہوئے تھے۔ مابعد جنگ حالات ہمارے تصور سے بھی زیادہ خراب اور خونیں ہوگئے تھے۔ اس سب کے لیے میں زیادہ افسوس اور معذرت کا اظہار کرتا ہوں''۔
واضح رہے کہ ٹونی بلئیر لیبر پارٹی کے واحد وزیراعظم تھے جو تین انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے ۔ وہ 2007ء تک مسلسل دس سال تک وزیراعظم رہے تھے مگر عراق جنگ نےان کی شہرت کو بری طرح تار تار کردیا تھا اور انھیں اقتدار سے سبکدوش ہونا پڑا تھا۔ تحقیقاتی رپورٹ حجم میں بائبل سے تین گنا بڑی ہے لیکن اس میں عراق جنگ کو غیر قانونی قرار نہیں دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ٹونی بلیئر کے بہت سے ناقدین کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عراق جنگ کی تحقیقات کرنے والے اس کمیشن کے چئیرمین جان شلکوٹ نے اپنے حاصلات کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے:''ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں جن حالات میں فوجی کارروائی کے قانونی ہونے کا فیصلہ کیا گیا تھا،وہ ہرگز بھی اطمینان بخش نہیں تھے''۔

ٹونی بلیئر نے مزید کہا ہے کہ انھیں رپورٹ میں جھوٹ بولنے اور بدنیتی وغیرہ کے حوالے سے الزامات سے بری الذمہ قرار دیا جانا چاہیے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ مجھ سے اتفاق کریں یا نہ کریں میں نے صدام حسین کے خلاف کارروائی کا فیصلہ نیک نیتی اور ملک کے مفاد میں کیا تھا۔ عراق جنگ کے دوران مارے گئے 179 فوجیوں کے رشتے داروں نے سابق برطانوی وزیراعظم پر جھوٹا ہونے کا الزام عاید کیا تھا۔ عراق میں ہلاک ہونے والے بعض برطانوی فوجیوں کے رشتے داروں نے کہا ہے کہ وہ رپورٹ کا اس پہلو سے جائزہ لیں گے کہ آیا اس کی بنیاد پر ذمے داروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے یا نہیں۔

بش،بلیئر مراسم
اس رپورٹ میں عراق جنگ میں کودنے سے قبل ٹونی بلیئر اور جارج ڈبلیو بش کے درمیان نامہ وپیام اور عہد وپیمان کی تفصیل بھی منظرعام پر لائی گئی ہے۔عراق پر امریکا اور برطانیہ کی فوجوں کی چڑھائی سے آٹھ ماہ قبل 28 جولائی 2002ء کو ٹونی بلئیرنے ایک میمو میں لکھا تھا کہ ''میں آپ کے ساتھ ہوں گا ،خواہ کچھ ہی ہوجائے۔ لیکن اس مرحلے پر مشکلات کے دقت نظر سے جائزے کی ضرورت ہے''۔ ''اس پر منصوبہ بندی اور حکمت عملی وضع کرنا بہت ہی مشکل ہے کیونکہ یہ کوسوو نہیں ہے۔ یہ افغانستان بھی نہیں ہے اور خلیجی جنگ بھی نہیں ہے''۔ انھوں نے مزید لکھا تھا۔ شلکوٹ کے مطابق بلیئر نے برطانیہ کی جانب سے حمایت کی پیش کش کرتے ہوئے بش کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی لیکن ان کا کہنا ہے کہ بلیئر نے امریکا کے عراق جنگ سے متعلق فیصلوں پر اثرانداز ہونے کے لیے اپنی صلاحیت کا غلط اندازہ لگایا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عراق پر مارچ 2003ء میں فوجی چڑھائی کے وقت صدام حسین سے کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔ اس کے بعد عراق اور خطے میں جو بدامنی اور طوائف الملوکی پیدا ہوئی ہے،اس کا اندازہ کیا جانا چاہیے تھا۔ یاد رہے کہ 2009ء تک عراق میں جنگ کے نتیجےمیں کم سے کم ڈیڑھ لاکھ عراقی شہری ہوگئے تھے اور دس لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوگئے تھے۔ رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ برطانیہ نے مسئلے کے پُرامن حل کے تمام آپشنز کو بروئے کار لائے بغیر ہی جنگ میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ اس طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اتھارٹی کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔

ناقص انٹیلی جنس
شلکوٹ نے لکھا ہے کہ ''اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ عراق کے بارے میں پالیسی ناقص انٹیلی جنس معلومات اور غلط جائزے کی بنیاد پر بنائی گئی تھی''۔ انھوں نے مزید کہا کہ بلیئر حکومت کے عراق کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے متعلق فیصلے غیر منصفانہ انداز میں پیش کیے گئے تھے۔ جنگ کے بعد عراق سے اس طرح کے کوئی ہتھیار نہیں ملے تھے۔ شلکوٹ کا کہنا تھا کہ بعد میں ٹونی بلیئر نے عراق کے غیر قانونی ہتھیاروں کے وسیع ذخیرے سے متعلق موقف کو بھی تبدیل کر لیا تھا اور انھوں نے یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ صدام حسین ایسے خطرناک ہتھیار حاصل کرنا چاہتے تھے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کررہے تھے حالانکہ جنگ میں کودنے سے قبل وہ کوئی اور وضاحتیں پیش کررہے تھے۔ لیبر پارٹی کے موجودہ لیڈر جریمی کاربائن نے پارلیمان میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ عراق جنگ ایک جارحانہ کارروائی تھی۔ یہ ایک غلط بنیاد لڑی گئی تھی اور اس کی وجہ سے بعد میں پورے مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی پھیلی اور اس کو ہوا ملی ہے۔

دنیائے انسانیت کا روشن چراغ بجھ گیا، عبدالستار ایدھی ہم میں نہ رہے

$
0
0

 انسانی خدمت کی عظیم ہستی اور ممتاز سماجی رہنما عبدالستار ایدھی انتقال کرگئے۔ ممتاز سماجی رہنما عبدالستار ایدھی گزشتہ کئی روز سے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ (ایس آئی یو ٹی) میں زیرعلاج تھے جہاں دوران علاج وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ عبدالستار ایدھی کے گردے ناکارہ ہوچکے تھے آج جب انہیں سانس کی تکلیف ہوئی تو انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا جہاں 6 گھنٹے کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔
عبدالستار ایدھی کے صاحبزادے قیصر ایدھی نے ان کی وفات کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کل بعد نماز ظہرعبدالستار ایدھی کی نماز جنازہ میمن مسجد میں ادا کی جائے گی اور ان کی وصیت کے مطابق ایدھی ولیج میں تدفین ہوگی۔ والد کے انتقال سے متعلق بتاتے ہوئے قیصر ایدھی زار و قطار روتے رہے جن کا کہنا تھا کہ عبدالستار ایدھی نے وصیت کی تھی کہ انہیں اسی کپڑوں میں دفنایا جائے جس میں ان کا انتقال ہو اس لئے عبدالستار ایدھی کی وصیت پرعمل کیا جائے گا۔

عبدالستارایدھی کے انتقال کے بعد سیاسی و سماجی رہنماؤں کی جانب سے تعزیتی بیانات کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے بیان میں عبدالستار ایدھی کے اہلخانہ سے اظہارافسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ عبدالستار ایدھی پاکستان کا حقیقی اثاثہ تھے، ہم انسانیت کی خدمت کرنے والی عظیم ہستی سے محروم ہوگئے، اللہ تعالی ایدھی صاحب کا سفر آخرت آسان کرے۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان ایک عظیم سرمائے سے محروم ہوگیا، دکھ کی اس گھڑی میں ایدھی صاحب کے اہلخانہ کے ساتھ ہیں۔

واضح رہے کہ عبدالستار ایدھی کے گردے ناکارہ ہوچکے تھے اور زیادہ عمرہونے کی وجہ سے ان کے گردوں کی پیوند کاری بھی نہیں ہوسکتی تھی جس کی وجہ سے ہفتے میں 2 سے 3  مرتبہ ان کا ڈائلیسسز کیا جاتا ہے۔

عبدالستار ایدھی، انسانی خدمت کی عظیم داستان

$
0
0

 عبدالستار ایدھی، جو ’’مولانا عبدالستار ایدھی‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے، انسانی خدمت اور فلاح و بہبود کے حوالے سے عالمی شہرت رکھتے تھے۔ امریکی جرائد انہیں ’’فادر ٹیریسا آف پاکستان‘‘ کا خطاب بھی دے چکے ہیں۔
عبدالستار ایدھی 1928ء میں بھارتی گجرات کے شہر ’’بانٹوا‘‘ میں پیدا ہوئے، ان کے والد کپڑوں کے ایک تاجر تھے۔ 1947ء میں قیامِ پاکستان کے وقت وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کرکے کراچی آئے۔ 1951ء میں انہوں نے ذاتی دکان میں ایک ڈاکٹر کی مدد سے مختصر شفاخانہ کھولا۔

ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز 1957ء میں اس وقت ہوا جب کراچی میں بڑے پیمانے پر زکام (فلو) کی وبا پھیلی اور اس موقع پرایدھی صاحب نے مخیر حضرات کی مدد سے کراچی کے قرب و جوار میں مفت طبّی کیمپ لگوائے۔ ان کے کام سے متاثر ہوکر مخیر حضرات نے انہیں خطیر رقم کا عطیہ کیا، جسے استعمال کرتے ہوئے انہوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری قائم تھی۔ اسی عمارت میں انہوں نے ایک زچہ خانہ اور نرسوں کے لئے ایک تربیتی ادارہ قائم کیا۔ ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز بھی یہیں سے ہوا۔
بتدریج ترقی کرتے کرتے ایدھی فاؤنڈیشن نے اپنی خدمات کا دائرہ پاکستان کے دوسرے علاقوں کے علاوہ دیگر ممالک تک بھی وسیع کیا۔ انہوں نے ایمبولینس سروس کا آغاز صرف ایک ایمبولینس سے کیا اور اب ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان کے پاس تقریباً 1800ایمبولینسیں ہیں جن میں ہیلی کاپٹر ایمبولینس بھی شامل ہے۔ ایدھی ایمبولینس سروس، اس وقت دنیا میں کسی بھی این جی او کے تحت چلنے والی سب سے بڑی ایمبولینس سروس ہے۔

ایدھی فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے مفت شفا خانے (کلینکس)، زچہ خانے (میٹرنٹی ہومز)، پاگل خانے، معذوروں کے لئے رہائش اور علاج کے خصوصی مراکز، بلڈ بینک، یتیم خانے، اپنا گھر (لاوارث بچوں کےلئے مراکز)، مُردہ خانے، دارالامان، اسکول اور ایسے درجنوں ادارے اور منصوبے کام کررہے ہیں جن کا مقصد رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہوکر انسانیت کی خدمت کرنا ہے۔ انسانیت کی بے لوث خدمت میں عالمی شہرت حاصل کرنے کے باوجود، مولانا عبدالستار ایدھی انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ وہ انتہائی معمولی قمیض شلوار پہنتے تھے جبکہ جوتوں کا ایک ہی جوڑا گزشتہ 20 سال سے ان کے استعمال میں تھا۔ 
حالیہ دنوں میں جب مولانا عبدالستار ایدھی شدید بیمار ہوئے تو انہیں مختلف مالدار شخصیات اور سیاستدانوں کی جانب سے بیرونِ ملک علاج کی پیشکش کی گئی تھی جسے انہوں نے قبول کرنے سے معذرت کی اور اشارے سے کہا کہ وہ پاکستان میں ہی رہیں گے جس کے بعد ان کا علاج ایس آئی یو ٹی میں کیا جارہا تھا جہاں وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ عبدالستار ایدھی کو متعدد قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا جن میں اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی شامل ہے۔ عبدالستار ایدھی کی بیوہ بلقیس ایدھی اور صاحبزادے فیصل ایدھی گزشتہ چند سال سے ایدھی فاؤنڈیشن کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔

بنگلہ دیش میں ذاکر نائیک کے ٹی وی چینل پر پابندی

$
0
0

بھارت کے اسلامی مبلغ ذاکر نائیک کے ٹی وی چینل ’پیس ٹی وی‘ پر بنگلہ دیش کی حکومت نے پابندی لگا دی ہے۔ بھارت کی سرکاری خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق بنگلہ دیش کے وزیر صنعت امير حسین امو کی صدارت میں اتوار کو ہونے والے ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا۔ عامر حسین امو نے بتایا کہ بنگلہ دیش میں نمازِ جمعہ کے دوران دیے جانے والے خطبوں کی بھی نگرانی کی جائے گی تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ اشتعال انگیز خطبے تو نہیں دیے جا رہے۔
 
پیس ٹی وی پر پابندی کا فیصلہ ان خبروں کے سامنے آنے کے بعد کیا گیا ہے جن کے مطابق ڈھاکہ میں گذشتہ دنوں ایک کیفے پر حملہ کرنے والے ذاکر نائیک سے متاثر تھے۔ خیال رہے کہ ڈھاکہ میں کیفے پر شدت پسندوں کے حملے میں غیر ملکیوں سمیت 28 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ دوسری جانب بھارتی حکومت نے سنیچر کو جاری کیے گئے بیان میں تمام ریاستوں کو یہ ہدایت جاری کی ہیں کہ جن جن ٹی وی چینلز کو بھارت میں نشریات کی اجازت نہیں ہے ان کو کیبل آپریٹر نہ دکھائیں۔

بھارتی وزارتِ اطلاعات و نشریات کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ٹی وی پر ایسا مواد نشر کرنے کی اطلاعات ہیں جن سے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور شدت پسندی بڑھنے کا خطرہ ہے۔ بھارت کی مرکزی حکومت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کا ’ کئی نجی سیٹلائٹ ٹی وی چینلز جیسا کہ ’پیس ٹی وی‘ پر اس طرح کا مواد نشر کیے جانے کی اطلاعات ہیں جسے نشر کرنے کی اجازت نہیں ہے، ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ کیبل آپریٹرز کو ایسے چینل دکھانے سے روکیں۔‘خیال رہے کہ اس سے قبل بھارت کی حکومت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ملک کے معروف اسلامی سکالر اور مبلغ ذاکر نائیک کی مبینہ قابل اعتراض تقاریر کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور اگر ضرورت ہوئی تو کارروائی کی جائےگي۔

امریکہ میں پولیس مخالف مظاہروں میں شدت، متعدد گرفتار

$
0
0

امریکی ریاستوں مینیسوٹا اور لوزیانا میں پولیس کے ہاتھوں دو سیاہ فام باشندوں کی ہلاکتوں کے خلاف جاری احتجاج ملک کے دیگر علاقوں تک پھیلتا جا رہا ہے۔
مینیسوٹا میں مظاہرین نے سڑکیں بلاک کرنے ساتھ پولیس پر پتھراؤ بھی کیا ہے جبکہ دوسری جانب ریاست لوزیانا کے دارالحکومت بیٹن روگ میں سیاہ فام شہریوں کی بلیک پینتھر نامی پارٹی کے مسلح افراد اور پولیس کا آمنا سامنا ہوا ہے۔ ملک میں جاری ان احتجاجی مظاہروں کے دوران پولیس نے سینکڑوں افراد کو حراست میں بھی لیا ہے تاہم احکام کا کہنا ہے کہ بیشتر مظاہرے پرامن رہے ہیں۔ مینیسوٹا کے علاقے سینٹ پال میں رات بھر مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں جس کے باعث شہر کی مرکزی شاہراہ پر ٹریفک کی آمدورفت بری طرح متاثر ہوئی۔

سینٹ پال میں مظاہرین کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کے علاوہ آتش گیر مواد اور بوتلیں بھی پھینکی گئیں۔ لوزیانا کے دارالحکومت بیٹن روگ میں گذشتہ پانچ روز سے جاری احتجاج میں شدت آتی جا رہی ہے اور احتاج کے دوران مظاہرین نے کئی موقعوں پر پولیس ہیڈکوارٹر کے قریب واقع مرکزی شاہراہ بلاک کر کے ٹریفک کی آمدورفت کو بھی متاثر کیا۔ ادھر امریکی ریاست ٹیکسس کے شہر ڈیلس میں مظاہرے کے دوران ایک سیاہ فام شہری کی فائرنگ سے پانچ پولیس افسران کی ہلاکت کے بعد سے شہر میں صورتحال اب بھی کشیدہ ہے۔ 
ڈیلس پولیس نے ایک نامعلوم دھمکی آمیز کال موصول ہونے کے بعد اپنے ہیڈکوارٹر کی سکیورٹی کو مزید سخت کر دیا ہے۔ خیال رہے کہ حکام کے مطابق پولیس کے ہاتھوں دو سیاہ فام افراد کی ہلاکت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کے دوران ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں پانچ پولیس اہلکار ہلاک اور چھ اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔ پولیس اہلکاروں پر حملے میں ملوث تین مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جبکہ پولیس اہلکاروں کو قتل کرنے والے مبینہ حملہ آور جانسن کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

سنیچر کو اپنے بیان میں پولیس کی جانب سے بتایا گیا کہ محکمۂ پولیس کو ایک نامعلوم کال موصول ہوئی جس میں پورے شہر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کے خلاف کارروائی کی دھمکی دی گئی تھی۔ جس کے بعد سکیورٹی بڑھائی گئی ہے۔ یاد رہے کہ بدھ کے روز امریکی ریاست مینیسوٹا میں سیاہ فام شخص فیلینڈو کاسٹل کو اُس وقت گولی مار کر ہلاک کیا گیا جب وہ گاڑی سے اپنا ڈرائیونگ لائسنس نکال رہے تھے جبکہ اس واقعے سے ایک روز قبل ایلٹن سٹرلنگ نامی ایک اور سیاہ فام شخص کو ریاست لوزيانا میں پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

Viewing all 4315 articles
Browse latest View live