Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

دھونی میچ فکس کرنے میں 100 فیصد ملوث تھے

$
0
0

بھارت میں دیگر کھیلوں سمیت کرکٹ میں جوئے بازی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور اس پر بار بار شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے لیکن اب بھارتی کرکٹ ٹیم کے حکام بھی اپنے ملک میں کرکٹ میں ہونے والی کرپشن کا بھانڈا پھوڑ رہے ہیں۔

بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق منیجر سنیل دیو نے اپنے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ 2014 میں بھارت اور انگلینڈ کے درمیان مانچسٹر میں کھیلا گیا ٹیسٹ میچ فکس تھا۔ یاد رہے کہ سنیل دیو نے جس میچ کا ذکر کیا ہے وہ دونوں ٹیموں کے درمیان سیریز کا چوتھا میچ تھا، سنیل دیو اس وقت بھارتی ٹیم کے منیجر اور مہندرا سنگھ دھونی کپتان تھے۔
سنیل دیو کا کہنا تھا کہ موسم کی صورت صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہم نے ٹیم میٹنگ میں فیصلہ کیا تھا کہ پہلے بولنگ کریں گے لیکن مجھے اس وقت بہت حیرت ہوئی جب دھونی نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے نے مجھے ہی نہیں سابق برطانوی کرکٹر جیفری بائیکاٹ کو بھی شک میں مبتلا کردیا تھا۔ دھونی کے اس فیصلے سے مجھے یقین ہوگیا کہ دھونی میچ فکس کرنے میں 100 فیصد ملوث تھے۔


سپر لیگ کا کامیاب سفر اور ایک خواہش

$
0
0

خوشی ہے کہ پاکستان سپر لیگ کا سفر کامیابی سے جاری ہے ۔ خوشی کے ساتھ ساتھ تھوڑا سا دکھ بھی ہے کہ پاکستان کا یہ رنگا رنگ ٹورنامنٹ متحدہ عرب امارات میں ہو رہا ہے ۔

پی ایس ایل کے یہ میچ پاکستانی گراؤنڈز پر ہو رہے ہوتے توٹورنامنٹ کو چارچاند لگ جاتے۔ قذافی اسٹیڈیم کے قریب سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد سے ہمارے میدان ویران ہیں۔ صرف ایک بار زمبابوے کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا اور قذافی اسٹیڈیم میں ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کے چند میچ کھیلے۔

ان میچوں کے دوران سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کی وجہ سے شائقین کرکٹ کو طویل مسافت کے بعد اسٹیڈیم میں داخل ہونے کا موقع ملتا تھا، اس کے باوجود تمام میچوں کے دوران قذافی اسٹیڈیم شائقین سے بھرا رہا۔ پاکستانی کرکٹ کے لیے کریزی ہیں، پی ایس ایل کے دبئی میں ہونے والے میچوں میں دیکھنے والوں کی بہت بڑی تعداد نہیں آئی لیکن ہوم گراؤنڈزپر یہ میچ ہوتے تو پاکستان کے کسی اسٹیڈیم میں تل دھرنے کو جگہ نہ ملتی۔ کسی بھی پاکستانی کی طرح میر ی بھی یہ خواہش ہے کہ ہمارے سونے میدان پھر سے آباد ہو جائیں۔

یہاں انٹر نیشنل کرکٹ بحال ہو جائے تو پھر ہم دنیا کی کسی بھی ٹیم کو ٹکر دے سکتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی پرفارمنس کچھ عرصے سے خراب جا رہی ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو ہوم گراؤنڈ پر کھیلنے کا موقع نہیں ملتا۔ ٹیسٹ کرکٹ میں ہماری عالمی رینکنگ چوتھی، ون ڈے میں 8ویں اور ٹی ٹوئنٹی میں 7ویں ہے۔ ٹیسٹ میں نسبتاً بہتر رینکنگ کی وجہ کپتان مصبا ح الحق ہیں۔
ان کی قیادت میں ٹیم بہتر پرفارم کر رہی ہے۔ ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے میں تنزلی کی ایک وجہ ہوم گراؤنڈز پر انٹر نیشنل کرکت سے محرومی ہے اور دوسری اہم وجہ سلیکٹرز کی غیر متوازن پالیسیاں۔ ٹور سلیکشن کمیٹی نے بھی طے کیا ہو اہے کہ کسی کھلاڑی کو سیٹ نہیں ہونے دینا۔ ون ڈے میں کپتان کمزور اور کوچ انتہائی مضبوط ہے۔ ٹی ٹوئنٹی میں بھی مسلسل تجربات کی وجہ سے ہماری حالت خراب سے خراب ہوتی جا رہی ہے۔ بے کار تجربات کا یہ سلسلہ نہ رکا تو پھر وہ وقت دور نہیں جب زمبابوے اور کینیا جیسی ٹیمیں بھی ہمیں آسانی سے ہرا دیا کریں گی۔

سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ کی پالیسیاں کرکٹ کو تباہی کے راستے پر گامزن کر چکی ہیں، ایسے میں پی ایس ایل کا کامیاب انعقاد تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے۔ پی ایس ایل میں تین طرح کے پلیئرز کا کمبی نیشن ہے۔ نامور غیر ملکی کھلاڑی جن میں کرس گیل، شین واٹسن، شان ٹیٹ، لینڈل سمنز، شکیب الحسن، تمیم اقبال اور دیگر شامل ہیں ، ان کے علاوہ نامور پاکستانی کھلاڑی اور پھر نوجوان پاکستانی کرکٹر۔ یہ ایسا امتزاج ہے جو مستقبل میں بہت شاندار نتائج لا سکتا ہے۔ اگر کسی کو اس بات پر شبہ ہو تو وہ آئی پی ایل کے بعد سے انڈین کرکٹ ٹیم کی پرفارمنس دیکھ لے۔ ابھی انڈیا نے آسٹریلیا کو مسلسل تین ٹی ٹوئنٹی میچوں میں شکست دی ہے۔

انڈین پریمیئر لیگ میں چونکہ دنیا کے بہترین کھلاڑی حصہ لیتے ہیں اس لیے نوجوان انڈین کرکٹر ان کے ساتھ کھیل کر اتنا تجربہ حاصل کر لیتے ہیں کہ وہ دنیا کی کسی بھی ٹیم کے خلاف عمدہ کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ آئی پی ایل نے کئی نئے کرکٹر انٹر نیشنل لیول تک پہنچا دیے ہیں۔ سخت مقابلے کی فضا میں ہونے ولا کھیل ایک عام کرکٹر میں بھی اتنی صلاحیت پیدا کر دیتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر اپنے جوہر دکھانے کے قابل ہو جاتا ہے۔

پی ایس ایل کے پہلے ایڈیشن میں 5ٹیمیں شامل ہیں۔ پی سی بی کے چیئرمین نے کہا ہے کہ آیندہ ایڈیشن میں ٹیموں کی تعداد 6 کر دی جائے گی۔ آئی پی ایل میں بھی 6ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ انڈیا میں ٹیمیں جب مقابلے پر اترتی ہیں تو ہوم گراؤنڈ پر اور ہوم کراؤڈ کے سامنے۔ پی ایس ایل کے میچز دبئی اور شارجہ میں ہوتے ہیں، اب تک 8 میچ ہو چکے ہیں۔ ٹورنامنٹ سے پہلے قدرے کمزور سمجھی جانے والی ٹیمیں پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈیئیٹر اس وقت ٹاپ پر جا رہی ہیں۔ لاہور قلندر اور سب سے مہنگی ٹیم کراچی کنگز کی حالت پتلی ہے۔

اسلام آباد یونائٹڈ فیورٹ تھی ہی نہیں اس لیے اس کی پرفارمنس حیران کن نہیں ہے۔ ایمرجنگ کرکٹرز میں کوئٹہ کے محمد نواز اور پشاور زلمی کے محمد اصغر اپنی پرفارمنس سے ٹاپ کلاس پلیئر نظر آرہے ہیں۔ نواز ٹاپ وکٹ ٹیکر ہیں، نواز مستقبل میں کے بہترین آل راؤنڈر بن سکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ اس نوجوان کو سلیکشن کمیٹی کے تجربات کی نظر نہ ہونے دیاجائے۔

محمد اصغر بھی خود کو قومی ٹیم میں شمولیت کے اہل ثابت کر رہے ہیں۔ ابھی 16میچز باقی ہیں، کرکٹ میں ہیرو کو زیرو بننے میں اور زیرو کو ہیرو بننے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عموماً جو ٹیمیں کسی ٹورنامنٹ کا آغاز شاندار طریقے سے کرتی ہیں وہ آخر تک اپنی یہ فارم برقرار رکھتی ہیں۔ ورلڈ کپ 92 ء جیسے صورتحال کم ہی سامنے آتی ہے جب ٹورنانمنٹ سے تقریباً آؤٹ ہونے والی پاکستانی ٹیم جیت جاتی ہے۔

اچھی بری پرفارمنس چلتی رہتی ہے لیکن اب تک جس طرح لاہور قلندر کی ٹیم کھیلی ہے اس نے اپنے مداحین کو بہت مایوس کیا ہے۔ کسی ٹیم کی اچھی پرفارمنس کا دارو مدار اس کے کمبی نیشن پر ہوتا ہے۔ جس ٹیم کا کمبی نیشن اچھا بن جائے توہ پرفارم کرتی ہے ورنہ دنیا کے بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل کوئی ٹیم بھی بدترین پرفارمنس دے سکتی ہے۔

پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب بھی بڑی شاندار تھی، اس رنگین اور دلکش تقریب نے دنیا بھر میں یہ پیغام دیا کہ پاکستانی پر امن اور کھیلوں سے پیار کرنے والے لوگ ہیں، ان کا پیغامِ محبت ہے جہاں تک پہنچے۔ افتتاحی تقریب میں قابل ِذکر تو بہت کچھ تھا لیکن مجھے نجم سیٹھی کے چند الفاظ یاد آرہے ہیں۔انھوں نے چیئرمین پی سی بی کا نام کچھ یوں لیا’’میاں محمد شہریار خان‘‘۔ چلتے چلتے پھر کہا ’’ان تھُک‘‘ محنت کی وجہ سے آج ہم اس قابل ہوتے ہیں کہ پی ایس ایل کا انعقاد ہونا جاری ہے۔

 میچوں کے بعد پی ایس ایل کا ایک حصہ مکمل ہو گیا۔ 15میچ اور ہوں گے ، پھر فائنل۔ یہ فائنل کوئی ایک ٹیم نہیں پوری پاکستانی قوم جیتے گی۔ پی اایل کے کامیاب انعقاد پر پی سی بی کو خراج تحسین پیش نہ کرنا زیادتی ہے۔ ویل ڈن پی سی بی۔پاکستان سپر لیگ کا پہلا ایڈیشن 23 فروری کو مکمل ہو جائے گا۔

دوسرا ایڈیشن اگلے سال یعنی2017ء میں ہونا ہے۔ پہلے ایڈیشن میں جو خامیاں رہ جائیں گی وہ اگے ایڈیشن میں دور ہو جائیں گی۔ ٹیمیں بھی 5 کی جگہ 6  ہو جائیں گی۔ اس کے بعد صرف ایک ہی خواہش باقی رہ جاتی ہے۔ یہ چھوٹی سی معصوم خواہش یہ ہے کہ دوسرا پی ایس ایل ٹورنامنٹ پاکستان میں کھیلا جائے ، کیا یہ ممکن ہے؟

ایاز خان


وہ جو پی آئی اے تھی

$
0
0

مجھ میں کوئی ایسا ہنر نہیں تھا کہ میں پی آئی اے کے کسی بھی شعبے میں جگہ پا سکتا سوائے ایک ہنر کے کہ سرکاری ٹکٹ پر کبھی پی آئی اے سے سفر کر لیا اور بعد میں سفر کا کارڈ سامنے کی جیب میں رکھ لیا جسے دوست احباب دیکھتے رہے اور دل ہی دل میں رشک کرتے رہے جیسے کوئی کسی بڑے ہوٹل کے سامنے دانتوں میں خلال کرتا ہوا دکھائی دے کہ اس نے کھانا بھی اسی ہوٹل میں کھایا ہو گا۔

ہم ملازمت پیشہ لوگوں کے لیے پی آئی اے کا ٹکٹ دوسروں کے پاس دیکھنے کی چیز تھی لیکن اتفاق سے پیشہ ایسا اختیار کر لیا کہ دوسروں کے خرچ پر پی آئی اے کا ٹکٹ ملتا رہا اورہم ہوا میں اڑتے رہے۔ پی آئی اے بھی ایک نمونے کا پاکستانی ادارہ ہے جس کی اڑان تو بہت شاندار تھی لیکن پھر ہمارے دیکھتے دیکھتے پاکستانی اسٹائل میں اس کا زوال بھی شروع ہو گیا۔

ایک زمانہ تھا کہ پی آئی اے نے دنیا کی کوئی بیس کے قریب ہوائی کمپنیوں کی بنیاد رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور ان کو کامیابی کے ساتھ ہوا میں اڑنے کا موقع دیا۔ زمین اور آسمان کی وسعتوں میں ان کمپنیوں کو اڑنے میں سہارا دیا اور خود بھی ایک نمونہ بن کر ان کے سامنے اڑتی رہی لیکن ادارے خود بخود نہیں چلتے چلانے پڑتے ہیں اور لائق لوگ اداروں کو کاغذوں اور فائلوں سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں لے آتے ہیں۔
پی آئی اے کو چند لائق و فائق نگران مل گئے جنہوں نے اسے دنیا کے سامنے ایک مثال بنا دیا لیکن جب وہ لوگ اس ادارے سے چلے گئے تو آج ہم حیران ہیں کہ اس مثالی ادارے کو زندہ کیسے رکھیں۔ پی آئی اے میں ایک رومانس تھا، ایک دنیا اس کی اداؤں کی فریفتہ تھی اور دنیا کے خوبصورت نظارے اس کے سامنے کھلے ہوئے تھے، سفر کے دوران مہذب اور خوبصورت خواتین آپ کو چائے پلاتی اور کھانا کھلاتی تھیں اور یہ ایک ایسا واحد سفر تھا جو جی چاہتا کہ ختم نہ ہو، اس کی کوئی منزل نہ ہو اور یہ کسی منزل کی تلاش میں جاری رہے۔

میں یہ پی آئی اے کے اس زمانے کی بات کر رہا ہوں جس کی خبر بھی مجھے بعد میں ملتی رہی یعنی وہ زمانہ جس میں دنیا کے بہترین ہوا باز (ایئر مارشل) گولہ بارود والے جہازوں کی جگہ ان پرامن اور خوبصورت جہازوں کو اڑاتے تھے اور پی آئی اے کو اپنی عزت اور توقیر سمجھتے تھے۔

یہ فضائی کمپنی ایئر مارشل اصغر خان اور ایئر مارشل نور خان کی کمپنی تھی جن کی پاک ایئر فورس نے دشمن پر دھاک جما رکھی تھی۔ ایسا واقعہ شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ جنگ کے زمانے میں دشمن کی ایئر فورس ہوائی اڈوں پر ہی ختم کردی جائے اور ہواؤں میں پاک فورس کا مقابلہ کرنے کو کچھ باقی نہ رہے سوائے مایوسی اور احساس شکست کے۔

خبریں عام تھیں کہ بھارت پاکستان پر حملہ کرنے والا ہے لیکن ایئر فورس کو اس کی کوئی مصدقہ اطلاع نہیں تھی چنانچہ پاک ایئر فورس کے کمانڈر ایئر مارشل نور خان جی ایچ کیو گئے اور پوچھا کہ کیا یہ خبریں درست ہیں، انھیں بتایا گیا کہ بھارت حملہ کرنے پر تلا ہوا ہے، اس سے پہلے ایسی زبردست اطلاع نہ ملنے پر ایئر مارشل نور خان غصے میں پھنکارتے ہوئے واپس اپنے دفتر پہنچے۔

پائلٹوں کو جمع کیا، نقشہ سامنے رکھا اور ان سے کہا کہ ہمیں دشمن کی ایئر فورس کو اس کے ہوائی اڈوں پر ہی ختم کر دینا ہے اور پھر ایسا ہی ہوا، تھوڑی بہت بچ گئی کہ بڑے ملک میں ہوائی اڈے دور دور تھے لیکن ایئر مارشل نور خان نے اس کی جان نکال لی اور اس جنگ میں بھارت کی ایئر فورس کچھ کر نہ سکی یہانتک کہ وہ جیسے اندھی ہو گئی۔

ہمارے قریبی شہر مٹھا ٹوانہ کا ایک ہندو پائلٹ تھا اور ہمارے سکیسر جیسا ایئر فورس کا نشانہ تھا لیکن نہ ہندو پائلٹ جس کا پڑوسی سکیسر دیکھا بھالا تھا اپنے ساتھیوں سے بار بار پوچھتا رہا کہ بلڈی سکیسر کہاں ہے جب کہ یہ اس کے اوپر اور قریب کی فضاؤں میں اڑ رہا تھا، وہ سکیسر کی تلاش میں ناکام لوٹ گیا۔
میں یہ کہہ رہا تھا کہ ادارے افراد بناتے ہیں اور پی آئی اے کو بھی پاک ایئر 
فورس کے ہیرو ہوا بازوں نے بنایا تھا۔ پہلے ایئر مارشل اصغر خان جنہوں نے دنیا کی بہترین ایئر فورس بنائی تھی پھر اسی ایئر فورس میں ایئر مارشل نور خان آ گئے اور پاک ایئر فورس ایک فضائی قلعہ بن گئی۔ پاک و ہند کی فضائیں ’تہہ بال و پر است‘ بن گئیں، فضاؤں پر ہماری حکومت بن گئی اور ہمارے ہوا بازوں نے اپنے شعبوں میں ریکارڈ بنا دیے۔

پاکستان ایئر فورس کے کمالات پر اب کتابیں بھی چھپ چکی ہیں اور لاتعداد مضامین بھی۔ ایک حقیقت جو دستاویز میں آ گئی۔ بات تھی ان افراد کی جو اداروں کی جان ہوتے ہیں۔ پی آئی اے میں نور خان آئے۔ یہ اس کمپنی کے سربراہ نہیں تھے اس کے ’مالک‘ تھے اور اس میں ان کی جان تھی۔ ایک بار پھر ایک واقعہ سن لیجیے جو میں پہلے بھی سنا چکا ہوں۔

کراچی میں پی آئی اے کا جہاز اغوا ہو گیا۔ ایئر مارشل نور خان کو اطلاع ملی تو انھوں نے ضروری ہدایات جاری کیں اور مطمئن ہو کر دفتر سے گھر روانہ ہو گئے لیکن راستے میں ان کو خیال آیا کہ یہ تو میرا جہاز ہے جو کسی نے اغوا کر لیا ہے اور میں ایسے حالات میں گھر جا رہا ہوں یہ بے حسی کی انتہا ہے۔

انھوں نے ڈرائیور کو گاڑی واپس لے جانے کے لیے کہا اور کراچی ایئر پورٹ پر اپنے مغوی جہاز کے پاس پہنچ گئے اور اس میں گھس کر اغوا کرنے والوں سے بھڑ گئے۔ اس لڑائی میں وہ زخمی بھی ہو گئے لیکن انھوں نے جہاز آزاد کرا لیا کیونکہ یہ جہاز کسی کمپنی کا نہیں ان کا اپنا تھا۔ ان کی عزت تھی جو انھوں نے دشمنوں سے بچا لی اور مطمئن ہو گئے تو یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پی آئی اے کی بنیاد رکھی تھی اور اسے اپنا خون دے کر زندہ رکھا تھا یا یوں کہیں کہ اس کی بنیادوں کو اپنا خون پلایا تھا۔

ایسے لوگوں کی غیر معمولی مہارت میں پی آئی اے ایک بڑا ادارہ بن گیا، بہت بڑا جو دنیا کی چار پانچ بڑی ہوائی کمپنیوں میں شمار ہوتا تھا لیکن جب اصغر خان اور نور خان جیسے لوگ چلے گئے، اپنی دیانت امانت ساتھ لے کر تو یہ بڑا بہت بڑا پاکستانی ادارہ صرف کاروباری اور نفع خور ہاتھوں میں آ گیا اور آج اس کے اپنے کارکن اسے معطل کر کے بیٹھے ہیں۔

یہ مسئلہ حل تو ہو ہی جائے گا لیکن پی آئی اے سے جان نکال لے گا، یہ فضائی کمپنی تو ہماری عزت تھی اور پوری قوم کو اس پر فخر تھا۔ بیرون ملک پاکستانی دنیا کی مشہور کمپنیوں پر سفر نہیں کرتے تھے بلکہ کہتے تھے کہ جب پی آئی اے کے جہاز میں داخل ہوتے ہیں تو لگتا ہے پاکستان پہنچ گئے ہیں یوں پی آئی اے پاکستان تھی یہ دیسی پاکستانیوں کے لیے۔ اس مثالی ادارے کی بحالی اور واپسی ہمارا قومی فرض ہے ورنہ دنیا ہمیں کیا کہے گی۔

عبدالقادر حسن


فاطمہ ثریا بجیا مقبول ترین ڈرامہ رائٹر

$
0
0

انہوں نے ٹیلی وڑن کے علاوہ ریڈیو اور اسٹیج پر بھی کام کیا جبکہ سماجی اور فلاحی حوالے سے بھی ان کے کام قابل قدر ہیں، ان کا خاندان بھی ادبی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔

یکم ستمبر 1930 کو ضلع کرناٹک میں پیدا ہونے والی فاطمہ ثریا بجیا مقبول ترین ڈرامہ رائٹر تھیں، ان کے لکھے گھریلو ڈرامے ہر دور میں سب کی پسند رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ان کی ٹیلی وژن کی دنیا میں آمد محض اتفاقا ہوئی تھی جب1966 میں کراچی جانے کے لیے ان کی فلائٹ تعطل کا شکار ہوئی تو وہ اسلام آباد پی ٹی وی سینٹر کسی کام سے گئیں وہاں اسٹیشن ڈائریکٹر آغا ناصر نے ان سے اداکاری کے ذریعے پہلا کام کروایا اس کے بعد انہوں نے ڈرامہ نگاری کے ذریعے اس ادارے سے اپنا تعلق مضبوط کیا۔
ان کے بیشتر ڈرامے جیسے شمع، افشاں، عروسہ اور انا بہت بڑی کاسٹ اور بڑے خاندانوں کے مسائل کی بہترین عکاسی کرتے رہے ہیں جبکہ انارکلی، زینت، آگہی، بابر اور سسی پنوں ان کے مقبول ترین ڈراموں میں سے چند نام ہیں۔
1997 میں ان کو حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا اس کے علاوہ انہیں کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں جاپان کا اعلی سول ایوارڈ بھی شامل ہے۔

 میں ان کو صدر پاکستان کی طرف سے ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔
انہوں نے سندھ حکومت کی مشیر برائے تعلیم کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیں جبکہ ان کے خاندان میں اور بھی مشہور شخصیات ادبی دنیا میں مصروف عمل ہیں جیسے کہ بھائیوں میں احمد مقصود اور انور مقصود بہنوں میں سارہ نقوی، زہرہ نگاہ اور زبیدہ طارق۔

گندھارا ایک لازوال آرٹ

$
0
0

گندھارا ایک لازوال آرٹ کی وجہ سے اہم تہذیب کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی علاقے کو گندھارا کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ گندھارا آرٹ کو عموماً چار ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے: -1 مورین-2 کشن عہد-3 گیتا عہد-4 پوسٹ گیتا عہد پہلا دور یعنی مورین دور تقریباً300 ق م سے لے کر 100 صدی تک کا تھا ۔ یہ قدیم ترین دور تھا۔ اس دور میں اشوکا کی حکمرانی تھی۔

 اس دور میں آرٹ کے کام میں بدھ کو علامت کے طور پر بنایا گیا۔ اس دور میں مصوری میں جو علامتیں استعمال ہوئی تھیں، ان میں سفید ہاتھی کنول کا پھول، پیپل کا درخت اور اسٹوپا وغیرہ شامل ہیں۔ دوسرا دور کشن دور کہلاتا ہے۔ اس دور میں بھی کھلم کھلا بدھ مت کا پرچار کیا گیا۔ آرٹ میں بھی مذہب کے پرچار کو اہمیت حاصل رہی، اس کے بعد گیتا عہد آتا ہے۔ 


اس دور میں غاروں کی دیواروں پر مصوری کی گئی۔ آخری دور کا آغاز ہونے سے پہلے ہندوئوں کی سازشیں اپنے عروج کو پہنچ گئی تھیں، اس لیے اس دور میں بدھ آرٹ تقریباً ختم ہوگیا اور ہندو آرٹ کی چھاپ لگ گئی۔ گندھارا آرٹ میں فن و تعمیر اور مصوری کو زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے۔ گندھارا آرٹ کی ایک اور انفرادیت اس میں آئیکانو گرامی ہے۔

 آئیکانو گرامی سے مراد حالات زندگی کو پتھروں میں ڈھالنا، یعنی تراش کے ذریعے سے ظاہر کرنا۔ آئیکانو گرامی میں بدھ کی دو طرح کی زندگی پیش کی گئی: -1 شہزادے کی حیثیت سے -2 گوتم بدھ کی حیثیت سے بدھا کو عموماً ایک خاص شکل اور انداز سے بنایا گیا ہے۔ روایتی صورت میں اچھا بھرا چہرہ، ستوان ناک آدھی کھلی آنکھیں جیسے مراقبے کی حالت میں ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ باریک تراشیدہ ہونٹ ،چوڑا ماتھا اور ماتھے پر بھنووں کے درمیان بندیا جس کو  کہا جاتا ہے۔ گندھارا آرٹ میں مجسمہ سازی کے دو طریقے نظر آتے ہیں: ٭ بدھا کی فاقہ کشی ٭ بدھا حالت مراقبہ میں بدھا کا سر ان تمام میں بدھا کو مختلف انداز میں دیکھایا گیا ہے۔ 

اس دور میں جتنا بھی کام ہوا اس میں بدھا کو مرکزی حیثیت حاصل رہی۔ بدھ مت کے پیروکاروں نے اپنے مذہب کے پرچار کا ذریعہ آرٹ کو بنایا۔ تعمیرات میں بھی بدھ مت کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔ غرض یہ کہ یہ لازوال آرٹ کئی ہزار سال گزرنے کے باوجود اپنی پہچان برقرار رکھے ہوئے ہے۔ آج کے دور میں بھی یہ ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے ۔ زوال تو آیا ،مگر عروج وہ نشانیاں چھوڑ گیا تھا کہ زوال آنے کے باوجود گندھارا آرٹ اب تک موجود ہے اور اپنے دور کی شان و شوکت کا واضح مظہر بھی  

(شیخ نوید اسلم کی کتاب ’’ پاکستان کے آثارِ قدیمہ‘‘ سے مقتبس)  

بدعنوانی، پی آئی اے کی نج کاری اور معیشت : ڈاکٹر شاھد حسن

ورلڈ ٹی 20، پاکستان کے میچ کہاں ہوں گے؟

$
0
0

آئی سی سی ورلڈ ٹی20 کے شیڈیول کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ 19 مارچ کو کھیلا جائے گا
آئی سی سی ورلڈ ٹی20 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی شرکت کا فیصلہ ابھی نہیں ہو سکا لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ اگر سکیورٹی خدشات کے سبب پاکستانی ٹیم بھارت نہ جا سکی تو ممکن ہے کہ اس کے میچز کسی تیسرے ملک میں ہوں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو پاکستان کرکٹ بورڈ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ بھارت میں پاکستانیوں کے بارے میں پائے جانے والے سخت جذبات کے پیش نظر پاکستان کرکٹ بورڈ نے آئی سی سی ورلڈ ٹی20 میں پاکستانی ٹیم کی شرکت کو حکومت پاکستان کی اجازت سے مشروط کر رکھا ہے۔
شہریارخان کا کہنا ہے کہ آئی سی سی کے حالیہ اجلاس میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اگر پاکستانی ٹیم سکیورٹی خدشات کے سبب بھارت نہیں جاتی تو پھر یہ تجویز پیش کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کے میچ کسی نیوٹرل مقام پر کرائے جا سکتے ہیں۔ یہ مقام متحدہ عرب امارات یا سری لنکا ہو سکتا ہے۔

شہریار خان نے کہا کہ وہ اس قسم کی ہر تجویز کا خیرمقدم کریں گے کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ آئی سی سی کے ایونٹ میں حصہ لینا چاہتا ہے، تاہم ٹیم کی شرکت کا انحصار حکومت کی اجازت پر ہو گا اور حکومت ہی آئی سی سی کو بتائے گی کہ خدشات کیا ہیں۔
 چیئرمین پی سی بی نے واضح کر دیا ہے کہ بھارت میں پاکستان کے سکیورٹی خدشات عمومی نہیں ہیں بلکہ اس کا براہ راست ہدف پاکستان ہے اور انھوں نے تمام خدشات سے آئی سی سی کے اجلاس کے شرکا کو مطلع کر دیا ہے۔
شہریارخان نے کہا کہ ساؤتھ ایشین گیمز میں پاکستانی کھلاڑیوں کی شرکت کرکٹ سے مختلف ہے کیونکہ کرکٹ دوسرے کھیلوں سے بہت بڑا کھیل ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان نے آئی سی سی ورلڈ ٹی20 کے لیے پاکستانی سکواڈ کے اعلان میں تاخیر کو غیرضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا اعلان کر دینا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ شاید سلیکٹر پی ایس ایل کے مزید ایک دو میچوں میں کھلاڑیوں کی کارکردگی دیکھنا چاہتے ہیں جس کے لیے انھوں نے آئی سی سی سے مہلت مانگی ہے، لیکن اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، صرف ایک دو میچوں کی وجہ سے سکواڈ میں ردوبدل نہیں کرنا چاہیے اور سکواڈ کی حتمی فہرست ان تک پہنچ چکی ہے جس کا فوراً اعلان کر دینا چاہیے۔

عبدالرشید شکور
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

اپنے عہد کا باغی سائنسدان … کوپر نیکس

$
0
0

صدیوں تک انسان یہی سمجھتا چلا آیا تھا کہ زمین ہی کائنات کا مرکز ہے اور سورج چاند ستارے سبھی زمین کے گرد گھومتے ہیں۔ سب سے پہلے کوپرنیکس نے اس خیال کو باطل قرار دیتے ہوئے کہا کہ زمین کائنات کا مرکز نہیں بلکہ سورج کے گرد گھومتی ہے جبکہ دوسرے سیارے بھی زمین کی طرح سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ نکولس کوپرنیکس 1473ء میں پولینڈ میں پیدا ہوئے۔

 ان کے والدین تاجر تھے جن کا مذہب سے گہرا تعلق تھا۔ اس زمانے میں سائنس پر کلیسا کا اثر تھا اور کائناتی مظاہر کی سائنسی توجیہہ کو مذہبی تصورات سے روگردانی سمجھا جاتا تھا۔ ان حالات میں آزادانہ ذہن کے ساتھ سائنسی مسائل پر سوچنا آسان نہیں تھا مگر کوپرنیکس اسی سمت میں روانہ ہو گئے۔ انہیں سورج، زمین اور چاند ستاروں کی حقیقت جاننے کا شوق تھا۔

اس زمانے میں دوربین نہیں تھی، اس لیے کوپرنیکس نے ریاضیاتی قوانین کے سہارے تحقیق شروع کر دی۔ اس زمانے میں مشہور مصری ماہرفلکیات و ریاضی بطلیموس کے تیار کردہ نظام فلکیات پر یقین کیا جاتا تھا۔ کوپرنیکس کو بطلیموس کے نظریات میں بہت سی خامیاں دکھائی دیں۔ انہوں نے قرار دیا کہ ستاروں کے مقامات کی تبدیلی، رات، دن اور موسموں کی وضاحت زمین کی گردش سے ہی ہوتی ہے۔ کوپرنیکس نے تحقیق کے بعد انکشاف کیا کہ زمین سیاروں کے گروہ میں ایک سیارہ ہے۔ 

ان سیاروں کا مرکز سورج ہے اور سبھی سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ زمین اپنے محور پر ایک دن میں ایک چکر لگاتی ہے اور سورج کے گرد اس کا ایک چکر بارہ ماہ میں مکمل ہوتا ہے۔ کوپرنیکس نے اپنی تمام زندگی اسی تحقیق میں صرف کر دی۔ وہ اپنے خیالات تحریری صورت میں جمع کرتے رہے جنہیں وہ اپنے قریبی اور سمجھ دار دوستوں پر ہی ظاہر کرتے تھے۔عمر کے آخری حصے میں کوپرنیکس اپنے نظریات کی صداقت کے حوالے سے تذبذب کا شکار تھے۔ 

بااعتماد دوستوں کے اصرار پر انہوں نے اپنے خیالات کتابی صورت میں شائع کروا دیے۔جب کتاب شائع ہوئی تو کوپرنیکس بستر مرگ پر تھے۔ یہ اس دور میں دھماکا خیز کتاب ثابت ہوئی جس کے مندرجات اس قدر حیران کن تھے کہ بہت سے لوگوں نے کوپرنیکس کو پاگل قرار دے دیا۔ 1543ء میں کوپرنیکس انتقال کر گئے۔ ان کی تحقیق نے سائنس دانوں کو غوروفکر پر مجبور کیا اور بہت جلد انسان نے بطلیموس کے مقابلے میں کوپرنیکس کی صداقت تسلیم کر لی۔ 

 


یہ ویلنٹائن ڈے اور ہماری تہذیب

$
0
0

ہمارے جو پیارے اور دوست بیرونی ممالک میں رہائش پذیر ہیں، وہ بہت غصے میں ہیں اور فیس بُک پر اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں، ہمارے بہت ہی اچھے دوست ہمراز احسن تو برہم ہیں کہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ منانے پر پابندی لگا دی گئی ہے، ان کی اطلاع تو یہ ہے کہ ایسا لاہور میں بھی ہوا ہے، حالانکہ اسلام آباد کے سوا کسی اور شہر کے حوالے سے ایسی کوئی خبر تاحال نہیں۔

 احسن کا خیال ہے کہ یہ ایک سماجی رسم ہے اور اگر سال میں ایک دن ایسا ہو کہ عزیز و اقارب اور دوست ایک دوسرے کو پیار اور محبت سے تحفہ دے دیں تو اس سے معاشرے میں اخلاق اور محبت ہی تو بڑھے گی اور تعلقات بھی خوشگوار ہوں گے۔ اس کا مذہب سے بھی کوئی تعلق نہیں، دوسری طرف ہمارے دین دار بھائی ہیں جو اسے سرا سر خلاف دین اور اخلاق سے دور جانتے اور ناراض ہو رہے ہیں، ان کے مطابق یہ ایک یہودی کو غلط حرکت پر خراج تحسین پیش کرنے کا دن اور اس کے علاوہ نوجوان بگاڑ کی طرف جاتے ہیں۔

اگر دونوں موقف ہی سنے جائیں ، پڑھے جائیں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایک دوسرے کے سامنے انتہاپر ہیں، ہمیں اس سے غرض نہیں، اور نہ ہی ہم اتنے بڑے فاضل اور عالم ہیں کہ اس سب کا تاریخی پس منظر تلاش کرتے پھریں اور نہ ہی ہم فتویٰ گر ہیں کہ ایک دم سے کفر تک چلے جائیں تاہم سماج اور معاشرے کے حوالے سے تو بات کی جا سکتی ہے۔
 ہمارے’’مغربی پاکستانی‘‘ دوست جہاں رہتے ہیں، وہاں کی تہذیب اور ہماری مشرقی تہذیب اور رہن سہن میں فرق واضح ہے جو ان کو بھی معلوم ہے، ہم اس جھگڑے میں بھی نہیں پڑتے ہم تو سیدھا سادا سوال خود سے کر لیتے ہیں کہ کیا یہ دن یہاں منایا جاتا تھا، اور ہم لاہوریوں کے لئے ایسے ہی تہوار رہ گئے ہیں، ہمارے اپنے تہوار کیا ہوئے؟ لاہور کے بارے میں کہا جاتا تھا ’’سات دن اورآٹھ میلے‘‘۔

اب اس پر مزید بات کرنے سے پہلے بعض جدید سہولتوں کی قباحتوں(اچھائیاں اپنی جگہ) کا ذکر ہو جائے، آئی ٹی کے مفید استعمال کا مسئلہ اپنی جگہ ہے، لیکن ہمارے یہاں اسے جس برے انداز سے استعمال کیا جا رہا ہے وہ والدین اور شہریوں کے لئے وبالِ جان بنا ہوا ہے، پہلی بات تو یہ کہ نوجوان نسل اسے معلومات کی بجائے اچھی اور بری تفریح کے لئے استعمال کر رہی ہے، پھر یہ سماجی برائی بھی بن چکا۔

 اب فیس بٍک وغیرہ ہی دیکھ لیں تو غیر شائستہ، غیر مہذب اور غلیظ نوعیت کی گفتگو سے توہین تک جاری ہے، شرمناک ویڈیو لوڈ کر دی جاتی ہیں، پھر یہ ذریعہ بلیک میلنگ کے لئے استعمال ہو رہا ہے، جبکہ دہشت گردی اور جرائم پیشہ لوگ فراڈ اور جرم کے لئے سہارا لیتے ہیں۔

اب ذرا اصل مسئلے کی بات کر لیں، کل (اتوار) 14فروری اور یہ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ ہے جسے یہاں خلوص، محبت اور پیار کا اظہار قرار دے کر شروع کر دیا گیا۔ یہ معلوم نہیں کہ یہاں شروع کرنے والا کون تھا اور کب، کس طریقے سے آغاز ہوا۔ بہرحال اسے خلوص کا ذریعہ بنا کر پیش کیا گیا، جیسے مدر ڈے اور فادر ڈے بھی مغرب کی درآمد ہیں،یہاں بھی رواج پا گئے کہ ان میں کوئی برائی نہیں پائی جاتی۔ 

تاہم یہ جو اظہار خلوص کا دن کہا جا رہا ہے یہ تو اظہارِ محبت، بلکہ اظہارِ عشق کا ذریعہ بن گیا، ہمارے مشرقی ادب میں پھول پیش کرنے کا جو مطلب ہے وہ ہمارے، ’’مغربی پاکستانی دوست‘‘ خوب جانتے ہیں کہ وہ خود بھی ادیب ہیں، اور اگر یہ دو محبت والے دِلوں کے لئے تبادلہ اظہار ہی کا ذریعہ ہے تو پھر یہ کس سماج کا ہے، تاہم یہاں تو اب  بنا لیا گیا اور گلاب کے پھول اور گلاب کی کلیاں یہاں نوجوان نسل کی طرف سے بچیوں کو پریشان کرنے کا ذریعہ ہیں۔

 آج کل کی نوجوان نسل کیا خوب ہے کہ اپنے گھر میں بھی گلاب لاتے، والد، والدہ اور بہنوں کو خلوص کا تحفہ دیتے ہیں تو پھر کسی ’’اور‘‘ کو چھیڑنے کا ذریعہ بھی بنا لیتے ہیں۔ یوں یہاں جو تم پیزار بھی ہو جاتی ہے اور اس طرح ایک نئی تہذیب بھی بننے لگی ہے، اس لئے ٹھنڈے دل سے غور کر کے بتا دیجئے کہ اس کی کیا ضرورت ہے۔

جہاں تک اسلام آباد میں پابندی کا سوال ہے تو اس کا مذہب سے نہیں،تہذیب اور امن و امان سے تعلق ہے کہ اسلام آباد وفاقی دارالحکومت ہے، وہاں غیر ملکیوں کی معتدبہ تعداد ہے، ان میں سے اکثریت یہ دن مناتی ہے، لیکن یہ سب وہ اپنے دائرہ کار کے اندر کرتے ہیں، عام پبلک مقامات پر نہیں، لیکن ہمارے’’دیسی صاحب‘‘ اور ان کی نسل کوچہ و بازار کو بازیچہ اطفال بنا لیتے ہیں، اس سے تنازعات ہوتے اور جھگڑے بھی ہو جاتے ہیں، جو یقیناًحالات حاضرہ میں امن و امان کے حوالے سے کوئی اچھی بات نہیں، غیر ملکی اپنے رواج کے طور پر اپنے دفاتر یا رہائش گاہوں پر یہ سب کریں گے، سڑکوں پر ہلا گلا نہیں ہو گا توکوئی خطرناک صورت بھی پیدا نہیں ہو گی۔

ہم نے اس کے سماجی اور اخلاقی پہلو پر بات کی، اب ذرا ان حضرات سے بھی ایک سوال ہے جو ایسی رسوم کو قبیح جان کر دینی حوالے سے کفر بنا لیتے ہیں اور آج اقتدار کے سنگھاسن پر بھی براجمان ہیں، کیا یہ حضرات بتا سکیں گے کہ ہمارے مُلک میں ہماری اپنی تہذیب، روایت اور معاشرت کے مطابق ہماری نوجوان نسل کو جو تفریح حاصل تھی وہ اب کہاں ہے؟ وہ میلے ٹھیلے کیا ہوئے، جہاں بندر کا تماشہ اور مداری کھیل دکھاتے، کھانے پینے کے سٹال اور کھلونوں کی دکانیں ہوتیں، یہاں مختلف کھیل (کبڈی اور کُشتی) کھیلے جاتے۔ 

یوں نوجوانوں کو تفریح کے مواقع ملتے تھے، پھر باغات اور کھیل کے میدان بھی بہت تھے، جو اب قبضہ گروپوں کی مہربانی سے نا پیدا ہو گئے، سب سے بڑا قبضہ گروپ تو خود حکومت ہے، جو ترقیاتی کاموں کے نام پر عوامی مقامات کو شامل منصوبہ کر لیتے ہیں، لیکن متبادل انتظام نہیں کیا جاتا، نئی نئی ہاؤسنگ کالونیاں بنیں، تفریح اور کھیل کی گنجائش نہیں رکھی گئی، حتیٰ کہ قبرستان تک کی جگہ مختص نہیں کی جاتی، بلکہ ایسے بھی ماہرین ہیں جو رہائشی کالونیوں میں کھیل کے میدان اور پارکوں کی جگہ مختص کرتے ہیں اور جب یہ رہائشی سکیم چل نکلتی ہے تو یہ پلاٹ بنا کر بیچ کھاتے ہیں، تمام پہلوؤں پر غور لازم ہے، ایسی جدید ’’نام نہاد تفریحات‘‘ کو روکنا ہے تو اپنے سماجی پہلوؤں کے حوالے سے نوجوانوں کو مکمل تفریح عنایت فرما دیں، اللہ بھلا کرے گا، اپنے ’’مغربی پاکستانی‘‘دوستوں سے بہت معذرت کہ کسی کا دِل نہ دکھے۔

چوہدری خادم  حسین

کوہاٹ کے بعد پشاور میں بھی ویلنٹائن ڈے کی مخالفت

$
0
0

پشاور میں ضلعی حکومت نے ویلنٹائن ڈے پر پابندی کے لیے قرارداد منظور کر لی ہے جبکہ ضلع کوہاٹ کے ناظم پہلے ہی شہر میں ویلنٹائن ڈے کی تقریبات پر پابندی عائد کر چکے ہیں۔

ضلع کونسل ہال میں منعقد ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے اجلاس میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی رکن خالد وقاص چمکنی کی جانب سے قرارداد پیش کی گئی۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ’ایک مخصوص طبقہ ویلنٹائن ڈے کے نام پر یہاں تہذیب اور اقدار کو پامال کر کے بے حیائی اور بے شرمی پھیلانا چاہتا ہے،‘ اس لیے ویلنٹائن ڈے منانے پر پابندی لگائی جائے۔
یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر دی گئی ہے اور ایسی اطلاعات ہیں کہ انتظامیہ سے کہا گیا ہے کہ اس قرار داد پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔

عزیز اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور  

ہر 4 سال بعد فروری میں اضافی دن کیوں ہوتا ہے؟

$
0
0

جیسا آپ سب کو ہی معلوم ہوگا کہ اس سال فروری کا مہینہ 29 دنوں کا ہے اور ایسا 4 برس بعد ہورہا ہے، تاہم ایسا کیوں ہوتا ہے اور کب سے ہورہا ہے؟
ہوسکتا ہے بیشتر افراد کو اس کی وجہ معلوم ہو مگر جو نہیں جانتے وہ جان لیں کہ ہر 4 سال بعد فروری کے مہینے میں ایک اضافی دن یا لیپ کا دن کی وجہ کیا ہے۔

درحقیقت زمین کا سورج کے گرد گردش کا دورانیہ 365 دنوں کا نہیں بلکہ چوتھائی دن زیادہ ہے، یعنی کہ 365 دن، پانچ گھنٹے، 49 منٹ اور 12 سیکنڈ۔
اور چونکہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے اس لیے موسموں کی تبدیلی کا انحصار بھی زمین اور سورج کے اس گردش کے رشتے پر ہوتا ہے، اس لیے اگر ہر سال 365 دن رکھیں تو ہر سال چوتھائی دن کا فرق پڑنے لگتا ہے اور کیلنڈر موسموں سے دور ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

اب چونکہ دنیا بھر میں ایسا گریگوری کیلنڈر کو استعمال کیا جاتا ہے جس میں 365 دن ہے تو اس فرق کو دور کرنے کے لیے لیپ سیکنڈز اور لیپ سال کے ذریعے گھڑیوں اور کیلنڈر میں زمین اور موسموں سے مطابقت پیدا کی جاتی ہے۔
تقریباً 45 قبل مسیح میں روم کے بادشاہ جولیس سیزر نے کلینڈروں کی اصلاحات کے لیے ایک کمیشن قائم کیا جس نے فیصلہ کیا کہ ہر چار سال میں سے ایک سال 366 دنوں کا کیا جائے۔
جولیس سیزر کی موت کے بعد ہر چار سال کے بعد ایک دن کا اضافہ کرنے کی بجائے یہ اضافہ ہر تین سال کے بعد کیا جانے لگا اس طرح ایک مرتبہ پھر رومن کیلنڈر موسموں سے آگے بھاگنے لگا۔
یہ مسئلہ جولیس سیزر کے بعد آنے والے اصلاح پسند بادشاہ آگسٹس سیزر نے 8 قبلِ مسیح میں حل کرنے کی کوشش کی اور اس طرح یہ سلسلہ 16 ویں صدی تک چلتا رہا۔
   
 پاپ گریگوری نے کلینڈر میں تبدیلی کر کے یہ مسئلہ بھی حل کرنے کی کوشش کی اور ایک کمیشن قائم کیا جس میں یہ طے پایا کہ ہر 400 سال میں 100 لیپ ائیر ہونے کی بجائے 97 لیپ ائیر ہوں گے۔

لیپ سیکنڈ
چند سالوں بعد سورج اور چاند کی کشش کی وجہ سے زمین کی گردش میں ایک سیکنڈ کا فرق پڑ جاتا ہے، اس فرق کو پورا کرنے کے لیے ماہرین مخصوص اوقات میں گھڑی میں ایک لیپ سیکنڈ کا اضافہ کرتے ہیں۔
یہ اضافہ عموماً 30 جون یا 31 دسمبر کو 11 بج کر 59 منٹ اور 60 سکینڈ یو ٹی سی پر کیا جاتاہے۔
    اب تک 26 لیپ سیکنڈ بڑھائے جا چکے ہیں اور 30 جون 2015 کو 26 واں لیپ سیکنڈ بڑھایا گیا تھا۔

اگر آپ کی پیدائش 29 فروری کی ہو؟
جو لوگ 29 فروری کو ہوتے ہیں انہیں اپنی سالگرہ منانے کے لیے 28 فروری یا یکم مارچ کا انتخاب کرنا پڑتا ہے جبکہ کچھ 29 فروری پر ہی برقرار رہتے ہیں۔
کچھ حلقوں کے خیال میں 28 اور 29 فروری کی درمیانی شب کے بعد پیدا ہونے والوں کو اپنی سالگرہ 28 فروری کو منانی چاہئے جبکہ جو لوگ 29 فروری اور یکم مارچ کی درمیانی شب سے کچھ پہلے پیدا ہو وہ یکم مارچ کو ہی اپنا یوم پیدائش مان لیں۔

خوشی کی بات

پی آئی اے کو منافع بخش کیسے بنایا جائے؟

$
0
0

پاکستان میں بہت سی غلط فہمیاں لوگوں میں ہر وقت موجود رہتی ہیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کی غالب اکثریت کسی بھی ایشو پر تحقیق کرنے کی بجائے سنی سنائی باتوں اور مفروضوں پر یقین کر تی ہے۔ پی آئی اے کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہے، جب بھی پی آئی اے کی نجکاری کی بات ہوتی ہے، یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ قومی پرچم بردار ائر لائین   کو پرائیویٹائز کیا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ بات ہرگز درست نہیں ہے کیونکہ پچھلے بیس پچیس سالوں میں بہت سے ملکوں کی قومی ائرلائینوں کی نجکاری ہو چکی ہے اور آہستہ آہستہ ان میں اضافہ ہورہا ہے۔

 ہمارے ملک میں لوگ چونکہ سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کے عادی ہیں اس لئے سادہ لوحی میں سمجھتے ہیں کہ قومی ائرلائین کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ سرکاری تحویل میں رہے۔ آج سے بیس تیس یا چالیس سال پہلے سرکاری شعبہ میں ائرلائین چلانا آج کے مقابلہ میں انتہائی آسان تھا کیونکہ پرائیویٹ ائرلائینز بہت کم ملکوں میں تھیں ، اس وجہ سے سرکاری ائرلائینیں چلانے میں کسی مسابقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا لیکن آج کی کارپوریٹ دنیا بہت مختلف ہے۔
یہ مارکیٹ کی حرکیات کی بنیاد پر چلتی ہے جس میں سب سے اہم وہ سینکڑوں ائرلائینیں ہیں جو پچھلے پندرہ بیس سالوں میں معرضِ وجود میں آ چکی ہیں اور مارکیٹ شیئر کا بڑا حصہ حاصل کر چکی ہیں۔ ان میں سروس کا اعلیٰ ترین معیار، وقت کی پابندی، پروفیشنل عملہ، نئے جہازوں کا فلیٹ اور مناسب کرائے وغیرہ شامل ہیں جن میں سے کسی بھی ایک عنصر کے بغیر مسابقت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

جس زمانے کی لوگ مثالیں دیتے ہیں اس زمانے میں امارات، قطر اور ٹرکش ائرویز یا اتحاد ائرلائینز وغیرہ نہیں ہوتی تھیں، اب تقریباً ہر ملک میں سرکاری ائرلائینوں کا پرائیویٹ ائر لائینوں سے انتہائی سخت مقابلہ ہوتا ہے جس میں زیادہ پریشر سرکاری ائرلائین پر ہی ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک ایک کرکے بہت سارے ممالک کی حکومتوں نے ائرلائین بزنس سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ جن ممالک میں سرکاری ائرلائینز ہیں وہ بھی انہیں کارپوریٹ سٹائل میں چلا رہی ہیں اور سرکاری طور طریقوں سے گریز کر رہی ہیں۔

 ایک اور مفروضہ کہ ہر ملک کی قومی پرچم بردار ائرلائین ضروری ہوتی ہے، اگر ایسا ہے تو جن صاحب کو بھی دنیا کی واحد سپر پاورامریکہ کی قومی پرچم بردار ائرلائن کا پتہ ہو وہ ہمیں بھی اس سے ضرورمطلع کرے اور دعائیں لے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مفروضوں سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں بسیرا کیا جائے۔

پاکستان بننے کے بعد ملک کی پہلی قومی ائر لائین اورینٹ ائرویز تھی جسے آٹھ سال بعد 10 جنوری 1955ء کوپاکستان انٹرنیشنل ائرلائین کارپوریشن میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ قومی ائرلائین پی آئی اے کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے اور شروع سے ہی سرکاری ائرلائین کا درجہ رکھتی ہے۔دو ماہ قبل 4دسمبر 2015ء کو اسے لمیٹڈ کمپنی کا درجہ دے دیا گیا لیکن ساتھ ہی اس کی ممکنہ نجکاری کی چہ میگویاں بھی شروع ہو گئیں جس کی وجہ سے پی آئی اے ملازمین میں بے چینی پھیلنا قدرتی امر تھا۔ 1955ء میں بھی اس وقت کے وزیر اعظم محمد علی بوگرا کی حکومت نے قومی ائرلائین اورینٹ ائرویز کو ختم کرکے پی آئی اے شروع کی تھی۔ 

اگر محمد علی بوگرا کوئی کام کر سکتے ہیں تو وہی کام میاں نواز شریف کیوں نہیں کر سکتے؟برطانیہ میں برٹش ائرویز شروع کی گئی۔ پانچ سال قبل 2011ء میں بھارت میں انڈین ایرلائینز کو ختم کرکے ائر انڈیا میں ضم کردیا گیا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ فہرست بہت طویل ہے، میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں ٹھپ ہوئی ائرلائین کو پرائیویٹائز یا ختم کرکے نئی ائرلائین شروع کرنے کی درجنوں مثالیں موجود ہیں جو معمولی سی تحقیق سے کوئی بھی شخص دیکھ سکتا ہے۔

جہاں تک نجکاری کا تعلق ہے تو 1987ء میں جب برطانیہ نے برٹش ائرویز کی نجکاری کی تو اس کے بعد سے درجنوں ممالک اب اپنی اپنی ائرلائین کی نجکاری انتہائی کامیابی سے کرنے کے بعداس لئے چین کی بانسری بجا رہے ہیں کہ یہ کاروبار اب حکومتوں کی بجائے کارپوریٹ سیکٹر کے کرنے کا ہے۔ برطانیہ کے صرف ایک ماہ بعد اسی سال جاپان نے بھی اپنی ائرلائین پرائیویٹائز کر دی تھی۔ 

یہاں تفصیل میں جائے بغیر مختصراً صرف اتنا عرض ہے کہ کینیڈا اور چلی نے 1989ء میں، جرمنی نے 1994ء ، اسرائیل اور سوشلزم کے ایک بڑے سابق سرخیل عوامی جمہوریہ چین نے 2004ء ، آئرلینڈ نے 2006 ء، میکسیکو نے 2007ء ، اٹلی نے 2008ء میں اپنی اپنی ائرلائینز کی پرائیویٹائزیشن کر دی تھیں۔ البتہ ایک واحد استثنا نیوزی لینڈ کی رہی جب اس نے 1989ء میں اپنی ائرلائین کی نجکاری کی لیکن بعد میں 2001 ئمیں اسے دوبارہ قومی تحویل میں لے لیا۔

 بات صرف یہیں پر نہیں ختم ہوتی کیونکہ بہت سے ایسے ممالک میں جہاں ائرلائینز کی نجکاری ابھی تک نہیں کی گئی ہے ان کی ری سٹرکچرنگ اس طرح سے کردی گئی ہے کہ ایک پروفیشنل مینجمنٹ کو کارپوریٹ سیکٹر سے لیا گیا ہے یا اس کی مینجمنٹ کی نجکاری کر دی گئی ہے۔ میرے خیال میں حکومتِ پاکستان کے پاس تینوں آپشن کھلے ہیں، وہ پی آئی اے کی نجکاری بھی کر سکتی ہے یا اس کی مینجمنٹ اور آپریشنز کو کارپوریٹ سیکٹر کے حوالے کر سکتی ہے یا پھر پی آئی اے ختم کرکے نئے کارپوریٹ انداز میں ایک نئی ائرلائین بھی شروع کر سکتی ہے۔ ان تینوں میں سے جو بھی فیصلہ کیا جائے وہ ملک و قوم کے بہترین مفاد میں بہتر ثابت ہو گا۔

اب جہاں تک پی آئی اے میں احتجاج یا ہڑتال کا تعلق ہے ، آٹھ دن کی اعصاب شکن ہڑتال کے بعد بالآخر پی آئی اے ایکشن کمیٹی نے اپنا احتجاج کوئی بھی مطالبہ منوائے بغیرختم کردیا اور قومی ائرلائین دوبارہ سے محو پرواز ہو گئی ہے۔ میں ابھی تک یہ نہیں سمجھ پایا ہوں کہ ہڑتال کا فیصلہ کیوں کیا گیا کیونکہ پی آئی اے کوئی ایسا مسئلہ تو تھا نہیں کہ پبلک سڑکوں پر آتی۔ 

کچھ نا دیدہ عناصر نے انسانی جانیں لے کر کوشش بھی کہ اسے قومی بحران بنا دیا جائے لیکن ظاہر ہے عوامی مسئلہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا،اس ناکام کوشش کے بعد بھی جب ہڑتال کامیاب ہوتی نظر نہ آئی تو اسے ختم کر دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ انسانی جانوں اور قومی خزانے کو پہنچنے والے اربوں روپے کے نقصان کا حساب بہر حال ان عناصر کو دینا پڑے گا جنہوں نے ملازمین کو اکسا کر پی آئی اے کے آپریشن بند کروائے جس کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کو روزانہ انتہائی تکلیف اور کاروباری نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ 

اگر عالمی یا علاقائی سطح پر دیکھا جائے تو پی آئی اے کا شمار درمیانے سے بھی کچھ چھوٹی ائر لائینوں میں کیا جا سکتا ہے کیونکہ چھوٹے بڑے تمام جہاز ملا کر اس کے فلیٹ میں محض 38 جہاز ہیں۔ پی آئی اے کو اگر عالمی یا علاقائی تناظر میں دیکھا جائے تو اس بات کی تصدیق کی جا سکتی ہے یہ درمیانی بھی نہیں بلکہ واقعی ایک چھوٹی ائرلائین ہے۔ پی آئی اے کے 38 جہازوں کے لئے 19 ہزار ملازم ہیں جبکہ ٹرکش ائرلائین کے 300سے زائد جہازوں کے لئے 18 ہزار۔ عوام خود فیصلہ کرے کہ پی آئی اے منافع میں جائے تو کیسے جائے؟

ناصر چوھدری

نئے لکھنے والوں کیلئے

$
0
0

اپنے احساسات اور جذبات کو قلم بند کرنا، قابلِ دید عمل ہے۔ کالم نگاری اخبار میں ہو یا انٹرنیٹ پر، دونوں میں مکمل عبور ہونا ضروری ہے کیونکہ کسی اخبار یا ویب سائٹ کی شہرت اور مقبولیت کا انحصار آپ کے طرزِ بیان پر منحصر ہوتا ہے۔ تحریریں صدیوں تک اپنا اثر چھوڑتی ہیں ،اس لیے کالم کہانی یا کوئی کتاب لکھنے کیلئے کچھ باتیں ذہن نشینی رکھنا ضروری ہیں۔

 نئے لکھنے والوں کیلئے کچھ ہدایات تجاویز کروں گی، جن پر عمل کر کے وہ اپنی تحریر کو مؤثر اور منفرد بنا سکتے ہیں: 1۔ کسی بھی موضوع پر لکھنے کیلئے اس موضوع کے بارے میں مکمل علم ہونا ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اگر آپ منتخب شدہ موضوع کے بارے میں مکمل معلومات سے نا آشنا ہیں تو کئی ابہام باقی رہ جاتے ہیں، تا ہم ایسے موضوع پر تحریر کیا جائے، جس پر آپ کو مکمل دسترس حاصل ہو۔ 2۔ آرٹیکل کے عنوان کے انتخاب کے بعد موضوع کے متعلقہ تمام معلومات کو فرضی طور پر یکجا کر لیا جائے، پھر اس کے بعد ان نقاط کو تفصیل سے تحریر میں لائیں۔ 3۔ تعارفی پیراگراف آرٹیکل میں پہلا تاثر ہوتا ہے۔ 
اگر تعارفی پیراگراف بہتر اور منفرد ہو تو پڑھنے والا آپ کی تحریر کو توجہ سے پڑھنے پر مجبور ہو جائے گا، لہٰذا تعارفی پیراگراف پر اثر انداز میں لکھیں۔ 5۔ اگر کوئی تنقیدی آرٹیکل ہو تو تمام قسم کے ریڈرز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تحریری انداز اپنائیں تا کہ پڑھنے والے اکتاہٹ اور بیزاری محسوس نہ کریں۔ 6۔ اپنے خیالات کا اظہار نہایت واضح الفاظ میں کریں۔

 زبان نہایت سادہ ہونی چاہیے تا کہ ہر حلقہ کے لوگ آپ کی تحریر سمجھ سکیں۔ 7۔ لمبے اور مشکل پیراگراف کی بجائے مختصر اور آسان فہم پیراگرافوں پر توجہ دیں کیونکہ اس سے پڑھنے والے پر اچھا تاثر پڑتا ہے۔ 8۔ اپنی رائے کے اظہار و خیالات کے ساتھ مناسب مثال ضرور دیں تا کہ پڑھنے والا آپ کے خیالات کو مکمل طور پر سمجھ سکے۔ 9۔ آرٹیکل میں معلومات درست دیں کیونکہ آپ کی دی گئی معلومات پڑھنے والوں پر اثر چھوڑتی ہے۔ 10۔ آرٹیکل پر مکمل بحث کے بعد اس کو بہتر انداز میں کسی نتیجے پر پہنچائیں۔

 مختصراً یہ کہ آرٹیکل، کالم یا کتاب تحریر کرنے کیلئے بہت محنت درکار ہوتی ہے کیونکہ لاکھوں لوگ مختلف تحریریں پڑھ چکے ہوتے ہیں اس لیے آپ کو نیا اور منفرد انداز اپنانا چاہیے، لہٰذا ہمیشہ اپنی تحریری مہارتوں کو مثبت انداز میں استعمال کرتے ہیں تا کہ لوگ آپ کی تحریریں سے مستفید ہو سکیں۔

سنیا گیلانی



نئی دہلی میں پاکستان زندہ باد کے نعرے


وزیراعظم کے غیر ملکی دوروں پر 68 کروڑ 82 لاکھ سے زائد رقم خرچ

$
0
0

 وزیراعظم نواز شریف نے دور اقتدار میں اب تک 65 غیر ملکی دورے کئے جس میں 68 کروڑ 82 لاکھ روپے سے زائد رقم خرچ ہوئی۔

قومی اسمبلی اجلاس کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے وزیراعظم کے غیر ملکی دوروں سے متعلق تفصیلی رپورٹ جمع کرائی گئی جس میں بتایا گیا کہ مئی 2013 میں ہونے والے انتخابات کے بعد سے اب تک وزیراعظم 65 غیر ملکی دورے کر چکے ہیں جس پر 68 کروڑ 82 لاکھ اور 76 ہزار روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ وزیراعظم نے سب سے زیادہ لندن کے 15 رورے کئے جب کہ سعودی عرب کے 5 اور امریکا کے 3 دورے کئے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے جمع کرائے گئے تحریری جواب میں بتایا گیا کہ وزیراعظم کے ہمراہ 631 افراد نے غیر ملکی دورے کئے اور کسی بھی دورے میں 18 سے زیادہ افراد وزیراعظم کے ہمراہ نہیں گئے جب کہ برطانیہ کے زیادہ تر دورے ٹرانزٹ تھے۔ اقوام متحدہ اجلاس میں شرکت پر 7 کروڑ 99 لاکھ اور 54 ہزار روپے خرچ ہوئے جب کہ سوئٹزرلینڈ کا دورہ 5 کروڑ، 42 لاکھ اور 80 ہزار روپے میں پڑا۔ امریکا کے ایک دورے پر 3 کروڑ 15 لاکھ اور 63 ہزار روپے جب کہ دوسرے دورے میں 3 کروڑ 83 لاکھ اور 25یزار روپے خرچ ہوئے، فرانس کے ایک دورے پر 3 کروڑ 22 لاکھ، 49 ہزار روپے خرچ  کئے گئے۔ 

امری نل تہذیب

$
0
0

محققین کا خیال ہے کہ امرنل تہذیب پانچ ہزار برس پرانی ہے۔ تہذیب کے آثار وسطی بلوچستان جنوبی بلوچستان کے اکثر علاقوں اور بالائی سندھ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ امری صوبہ سندھ میں ضلع دادو کا ایک گائوں ہے، جو دریائے سندھ کے دوسرے کنارے پر قریباً ایک میل دور واقع ہے۔ امری دو ٹیلوں پر مشتمل ہے، ایک ٹیلہ چالیس فٹ اور دوسرا ٹیلہ تیرہ فٹ بلند ہے۔ 

ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ٹیلہ پانچ مرتبہ آباد رہا۔ یہاں پر سب سے قدیم آبادی ڈاکٹر محمد رفیق مغل کی تحقیق کے مطابق 3540 ق م سے لے کر 3440 ق م کے دوران آباد رہی۔ نل صوبہ بلوچستان میں خضدار شہر سے قریباً4 کلو میٹر کے فاصلہ پر جنوب مغرب کی جانب واقع ہے۔ امری اور نل کی درمیانی فضائی مسافت قریباً ڈھائی سو کلو میٹر ہے۔ دونوں مقامات کی کھدائی سے جو تہذیبی آثار و باقیات دریافت ہوئے ہیں انہیں ’’امری نل تہذیب‘‘ کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ 

اس تہذیب کادائرہ وسعت کوئٹہ تہذیب کے مقابلہ میں زیادہ وسیع ہے۔ ان کے برتنوں کا رنگ بادامی ہے اور ان پر آرائشی تصاویر جانوروں کی بنائی گئی ہیں۔ مثلاً :شیر، مچھلی، بیل اور دیگر پرندوں کے علاوہ پیپل کے پتے کی تصویر بھی موجود ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برتنوں پر یہی آرائشی نقوش یا تصاویر بعد کے دور میں ہڑپہ تہذیب نے ظروف پر ترقی یافتہ شکل میں نمودار ہوئے۔ اس دور میں تدفین کے دو طریقے رائج تھے۔ پہلا طریقہ تو یہ تھا کہ وہ لوگ مردوں کو دفن کرتے تھے اور دوسرا طریقہ یہ تھا کہ وہ مردوں کو کھلی جگہ پر رکھ دیتے تھے جب ان کا گوشت پرندے وغیرہ نوچ لیتے، تو باقی ہڈیاں دفن کر دی جاتیں۔

 لاشوں کے ساتھ مٹی کے ظروف اور دیگر سامان ِحیات رکھ دیا جاتا تھا۔ مثلاً  مردوں کے ساتھ مالائیں ،چوڑیاں اور کڑے وغیرہ بھی برآمد ہوئے ہیں۔ مردوں کے ساتھ منقش برتنوں کے علاوہ تانبے کے اوزار بھی رکھ دیئے جاتے تھے ۔ بعد میں یہ طریقہ تدفین ہڑپہ تہذیب میں بھی تبدیل ہوا۔ یہاں سے تانبے کے کلہاڑے ،آرے اور چوڑیاں بھی دریافت ہوئی ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ لوگ تانبے کے استعمال سے بھی آشنا تھے۔

 (پاکستان کے آثارِ قدیمہ )

شیخ نوید اسلم

انقلاب +خدمت = ڈاکٹر ادیب رضوی

$
0
0

ان کی کہانی 48 ء یا 50ء کے درمیان اپنے آبائی قصبوں اور شہروں سے اکھڑ کر کراچی آنے والے کسی دوسرے نوجوان سے مختلف نہ تھی۔ گھر والے اور خاندان کہیں پیچھے رہ گیا تھا اور وہ ایک پھیلتے ہوئے شہر میں تن تنہا تھے۔ ہندوستان میں تھے تو سرخوں کے درمیان رہے جس کی وجہ سے ڈاکٹر بننا چاہتے تھے۔
خدمتِ خلق کا یہی ایک ذریعہ سمجھ میں آتا تھا۔ پڑھائی اتنے خلوص دل سے کی کہ ڈاؤ میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ وہاں سے پڑھ کر نکلے تو انھوں نے شہر کے اسپتالوں کا حال دیکھا اور شہر کے فٹ پاتھوں پر رہنے والے غریبوں کی سیہ بختی دیکھی ۔ 50ء کی دہائی میں ہر طرف افراتفری تھی۔

جس کو جہاں جگہ ملی وہیں بیٹھ گیا۔ طالب علمی کے زمانے میں اپنا زیادہ وقت سڑکوں، گلیوں یا سول اسپتال میں گزارتے جہاں غریب ٹوٹے پڑے تھے اور ان کی سنوائی نہ تھی۔ وہ درد اور آزار میں  مبتلا لوگوں کو جھڑکیاں کھاتے دیکھتے اور تلملا کر رہ جاتے۔ سوشلسٹ نظریات انھیں محبوب تھے۔

وہ سمجھتے تھے کہ سرکاری اسپتالوں میں غریبوں کا علاج مفت ہونے کے ساتھ ہی، ان کی عزت نفس کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے۔ انھوں نے سول اور جناح اسپتالوں کے فٹ پاتھ پر بستر لگانے والے بیماروں اور ان کے تیمارداروں کو دیکھا جن کی وحشت زدہ آنکھیں دل کو برماتی تھیں اور جنھیں ہر طرف سے دھتکارا جاتا تھا۔

وہ ڈاؤ میڈیکل کالج سے پڑھ کر نکلے تو سرجری کے لیے ملنے والی ایک فیلوشپ پر انگلستان چلے گئے جہاں انھیں برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) نے بے حد متاثر کیا۔
وہاں کے بیمار اسپتالوں کے دروازوں پر ایڑیاں رگڑ کر نہیں مرتے تھے اور انھیں کراچی شہر کی وہ بڑھیا یاد آتی تھی جو اپنے کانوں کی بالیاں ہتھیلی پر رکھے فریاد کررہی تھی کہ اس کے عوض کوئی اسے دوا فراہم کردے۔ این ایچ ایس کی کارگزاری دیکھ کر انھیں یقین ہوگیا کہ غریبوں کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے انھیں مفت طبی سہولتیں فراہم کی جاسکتی ہیں۔

وہ اپنے ساتھیوں سے کہتے کہ وہ پاکستان جانا چاہتے ہیں تاکہ غریب بیماروں کا مفت علاج کرسکیں۔ ان کے دوست ان باتوں پر ہنستے اور اسے شیخ چلی کا خواب کہتے تھے لیکن وہ شیخ چلی نہیں سید ادیب الحسن رضوی تھے۔ انھوں نے جو خواب دیکھا تھا ، اسے پورا کر دکھا یا اور آج ان کا قائم کیا ہوا ادارہ  دنیا میں پاکستان کی پہچان بن چکا ہے۔

سول اسپتال میں گردوں کی بیماریوں کے علاج کا وہ یونٹ جس کا چارج انھیں دیا گیا تو وہ 8 بستروں پر مشتمل تھا، آج 800 بستروں پر مشتمل ہے، سول اسپتال کے بیچوں بیچ دو شاندار عمارتیں سر اٹھائے کھڑی ہیں جن میں کراچی شہر ، اندرون سندھ اور سارے ملک سے آنے والے غریبوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔

روزانہ سیکڑوں مریضوں کا ڈائی لیسس ہوتا ہے، گردے ٹرانسپلانٹ کیے جاتے ہیں اور گردوں میں ہونے والی پتھریوں کا علاج ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے یہاں جگر کا بھی ٹرانسپلانٹ ہوا۔ ادیب صاحب یہ کام بھی کر گزرے۔ وہ  انسانوں کو نئی زندگی بانٹتے ہیں۔ ادیب رضوی کے ساتھ گارڈ نہیں چلتے، وہ بلٹ پروف گاڑی میں سفر نہیں کرتے ۔ ادب اور ادبی سرگرمیوں سے انھیں گہرا شغف ہے، اسی لیے وہ ادبی تقریبات میں بھی نظر آتے ہیں۔ کراچی لٹریچر فیسٹول ہوا تو کئی سیشن ایسے تھے جن میں وہ پچھلی نشستوں پر بیٹھے رہے۔ انھوں نے  میں ایک ہال ادبی سرگرمیوں اور مختلف سماجی مسائل پر کانفرنسوں کے لیے مخصوص کر رکھا ہے جو پاکستان کے مشہور اور مرحوم بینکار آغا حسن عابدی کے نام سے منسوب ہے۔

کراچی لٹریچر فیسٹول میں ترقی پسند تحریک کے بنیاد گزار سجاد ظہیر اور رضیہ سجاد ظہیر کی سب سے چھوٹی بیٹی نور ظہیر ہندوستان سے شرکت کے لیے آئی تھیں۔ فیسٹول میں اس کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی جو عصمت چغتائی کی خود نوشت ’’کاغذی ہے پیرہن‘‘ کا انگریزی ترجمہ ہے۔

یہ ترجمہ نور نے کیا ہے اور بہت خوب کیا ہے۔ ادیب رضوی اس سیشن میں موجود تھے اور نور کی کراچی میں موجودگی سے فائدہ اٹھا کر انھوں نے  میں ایک محفل رکھی جس میں ڈاکٹر نور ظہیر نے جو ادیب ہونے کے ساتھ ہی سماجی علوم کے ماہر ہیں ’’ہمارے خطے میں محروم طبقات کی صحت اور تعلیم کی تباہ حالی‘‘ کے موضوع پر ایک لیکچر دیا۔ ان دنوں ہر طرف گلوبلائزیشن کا چرچا ہے۔ اس حوالے سے نور کا کہنا تھا کہ یہ کوئی نیا مظہر نہیں۔ اگر یہ نیا ہوتا تو ہمیں مصر میں آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران موئن جوڈروکی مہریں نہ ملتیں۔

اس روز محفل کی صدارت ہماری معروف شاعرہ زہرہ نگاہ کررہی تھیں اور تقریب کی نظامت میرے حصے میں آئی تھی، نورظہیرکا تعارف کراتے ہوئے میں نے کہا کہ ’’ہمارے لیے یہ خوشی کی بات ہے کہ ہندوستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین اور ترقی پسند تحریک کے بنیاد گزار اور ان کی ادیب اور ایکٹی وسٹ بیگم محترمہ رضیہ سجاد ظہیر کی بیٹی نور ظہیر ہمارے درمیان موجود ہیں۔

اس جوڑے نے ادبی اور عملی سطح پر پچھڑے ہوئے انسانوں کی خدمت میں زندگی بسر کی۔ سجاد ظہیر پاکستان آئے اور پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے قیام کے لیے ہر مشقت اٹھائی۔ آخرکار وہ ہندوستان واپس گئے اور وہاں پارٹی کے کاموں میں آخری سانس تک مصروف رہے۔

نور ان کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں جو اپنے چہیتے باپ کے آدرشوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ انھوں نے اپنے والدین کے ساتھ جو زندگی گزاری اسے ’میرے حصے کی روشنائی‘ کے عنوان سے تحریرکیا۔ یہ کتاب اردو، انگریزی اور ہندی تینوں زبانوں میں شایع ہوچکی ہے اور ہمیں کمیونسٹ پارٹی کے دوستوں کی زندگی کے بارے میں جاننے کا مو قع دیتی ہے۔

نور ظہیر کی شخصیت کو اگر ہشت پہلو کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ وہ تین زبانوں کی ادیب ہیں۔ فنون لطیفہ سے ان کی گہری وابستگی انھیں اسٹیج پر لے گئی جہاں انھوں نے بچھڑے ہوئے لوگوں کی زندگی کی جھلکیاں ہمیں دکھائیں اور ان کی راحت کے لیے کام کیا۔ 

انھوں نے ہماچل پردیش کی بدھسٹ خانقاہوں میں شکستہ اور خستہ حال دیواری تصویروں کو سنورانے اور اجالنے کا کام کیا۔ انھیں ٹائم فیلوشپ اس مقصد کے لیے ملا کہ وہ ’شمالی ہند میں تھیٹر کے بدلتے ہوئے انداز‘ پر تحقیق کریں۔ وہ پاکستان آئیں اور  یہاں سے واپس گئیں تو یہاں کی یادوں کو ’سرخ کارواں کے ہم سفر‘ کا عنوان دیا۔

ڈاکٹر ادیب رضوی اور ان کا بنایا ہوا ادارہ ان لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرتے ہیں جو استحصالی نظام کی چکی میں پستے ہیں، یہ سب قصہ کہانیوں کی سی باتیں محسوس ہوتی ہیں لیکن  اور اس سے وابستہ بے شمار لوگ انسانوں کی خدمت پر مامور ہیں۔ میری آرزو ہے کہ ڈاکٹر ادیب رضوی کی یہ روایت چلتی رہے اور یہ ادارہ اسی طرح لوگوں کی زخموں پر مرہم رکھتا رہے۔

اس کے ساتھ ہی ادبی محفلیں آراستہ کرکے ہم جیسے لوگوں کے علمی وادبی ذوق کی تسکین کا سبب بنے۔ اپنی بات ختم کرتے ہوئے میں نے ڈاکٹر صاحب کو مبارکباد دی گی کہ انھوں نے اس محفل کو آراستہ کر کے نہ صرف نور ظہیر کے کام کو سراہا بلکہ ان کے والدین سجاد ظہیر اور رضیہ سجاد ظہیر کی انقلابی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا۔

واقعی انقلاب اورخدمت کی یکجائی کا نام ڈاکٹر ادیب رضوی ہے۔

زاہدہ حنا 

ترکی اور خلیجی ملکوں کی شام میں زمینی کارروائی کی تیاریاں

Quetta : A health worker administers polio drops to a child

$
0
0
Quetta, Pakistan
A health worker administers polio drops to a child during a vaccination campaign. Efforts to stamp out the disease have been thwarted by opposition from militants and attacks on immunisation teams.
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live