Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

کیا یہ جھوٹ نہیں کہ پاکستان میں کرپشن کم ہوگئی؟

$
0
0

مبارک ہو اہل پاکستان، یہ ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اہلِ وطن کو اپنی رپورٹ کی صورت ایسی خبر سنائی کہ جس پر اب تک یقین نہیں ہورہا۔ تو جناب خبر یہ ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ برس یعنی 2015ء میں کرپشن کی شرح کم ہوئی ہے۔ 2015 میں 9 درجے بہتر کارکردگی کے بعد عالمی رینکنگ میں پاکستان کا نمبر کرپشن زدہ ملکوں کی فہرست میں 126 سے 117 نمبر پر آگیا ہے۔

بظاہر یہ بڑی اچھی رپورٹ ہے۔ ہر گزشتہ حکومت کی طرح موجودہ حکومت بھی اپنی شاندار کارکردگی دکھا رہی ہے۔ الفاظوں کا ہیر پھیر، بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان، عوام کو ہر بجٹ کے بعد خوشحالی کی نوید، یہ ہر حسبِ سابق موجودہ حکومت بھی اسی ڈگر پر ہے۔

لیکن ایک مسئلہ ہے۔ پاکستان کے کروڑوں افراد جو کچھ کما رہے ہیں اور کمائی کا ایک بڑا حصہ ٹیکسوں کی مد میں حکومتی خزانے میں جمع کروا رہے ہیں۔ اس کا مصرف کیا ہے؟ کیوںکہ اس وقت عوامی استعمال میں آنے والی ماچس جیسی حقیر چیز پر بھی ٹیکس ادا کیا جاتا ہے۔ اس سے کسی کو استثناء حاصل نہیں۔
ممکن ہے ماہانہ کروڑوں کمانے والے کو ٹیکس کی مد میں کوئی چھوٹ مل جائے، مگر ماہانہ 5 ، 7 یا 15 ہزار کمانے والا، ماچس، گھی، صابن، پٹرول ہر چیزکی خریداری میں بالواسطہ ٹیکس دے رہا ہے۔

ٹیکسوں کے بوجھ نے معاشرے میں یہ صورتحال پیدا کردی ہے کہ پہلے گھر کا ایک فرد کماتا تھا اور پورا کنبہ کھاتا تھا۔ مگر آج حالات اِس نہج تک آپہنچے ہیں کہ پورا خاندان حصولِ معاش کے لیے دن رات مصروف ہے، مگر خرچے ہیں کہ پورے ہی نہیں ہورہے۔ جبکہ دوسری طرف امن، تعلیم، افلاس، صحت، انصاف یہ چیزیں ملک سے ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔
بہت سے لوگوں کے ذہن میں خیال آیا ہوگا کہ عوامی ٹیکسوں سے حکومت پورا ملک چلا رہی ہے، کارخانے لگ رہے ہیں، ڈیم بن رہے ہیں، سڑکیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ اتنا کچھ تو ہو رہا ہے۔ اب عوام اگر یہ سوچتے ہیں کہ مہینے میں وہ چند ہزار ٹیکس دے کراس کے علاوہ بھی کچھ سہولیات حاصل کرلیں تو ایسا ممکن نہیں۔
لیکن جناب افسوس اسی بات پر ہے کہ ڈیم، سڑکیں اور جتنے بھی ترقیاتی منصوبے ہیں وہ ملکی خزانے سے نہیں بن رہے۔ ملکی خزانہ تو صرف سیاست دانوں اور حکمرانوں کے پیٹ بھرنے کے لئے ہے۔ بلکہ پیٹ بھرنے کے لیے ناکافی ہے۔ جتنے بھی بڑے منصوبے ہیں وہ سب عالمی قرضوں سے شروع کیے گئے ہیں اور مکمل کیے جائیں گے۔

میں نے گزشتہ تحریر میں چند مخصوص شہروں اور من پسند جگہوں کو چھوڑ کر باقی پاکستان کو لاوارث چھوڑ دینے کی بات کی تھی ۔ مگر کہنے والوں نے کہا کہ یہ عصبیت کی بات ہے۔ تم سندھ والے جلتے کیوں ہو۔ تم بھی یہ سب کچھ کرلو اپنے صوبے میں۔ مگر جب تھر میں لوگ مریں گے، بلوچستان والے محروم رہیں گے، سندھ 2016 میں بھی پتھر کے دور کا کوئی دیس لگے گا، خیبرپختون خواہ والا اب بھی روزگار کے ذرائع کے لیے دوسرے صوبوں کا محتاج رہے گا تو اس میں قصور عوام کا ہے یا حکومتِ وقت کا۔ اگر صوبوں کو حصہ نہیں مل رہا تو کون دلوائے گا؟ مل رہا ہے اور عوام پر خرچ نہیں ہو رہا تو اس بات کی باز پرس کس نے کرنی ہے؟ درحقیقت یہ کام تو حکومت کا ہے مگر وہ حکومت ہی کیا جو اپنے کام مکمل ذمہ داری سے سرانجام دے دے۔
ایک منصوبہ جو 4 سال میں مکمل ہوسکتا ہے، مگر نااہلی یہ کہ اُس کے لئے 7 سال وقت رکھا جاتا ہے۔

 اُس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چار سال میں بننے کے سبب جو کا ایک ارب روپے میں ہوسکتا تھا اب وہ 5 ارب میں ہوگا۔ لیکن کمال تو یہ بھی ہے کہ  جو کام چار سال میں کرنے کے بجائے 7 سال میں کرنے کا عہد کیا تھا وہ 7 سال میں بھی نہیں ہوتا، جس کے سبب فنڈ ختم ہوجاتے ہیں اور معلوم یہ ہوتا ہے کہ جو کام صرف 4 سال کے عرصے میں ایک ارب میں ہونا تھا اب وہ 15 سالوں میں 20 ارب میں تکمیل کو پہنچتا ہے۔

یہ ساری کارکردگی قرضے کے بل بوتے پر دکھائی جاتی ہے۔ قرضہ واپس کون کرے گا؟ ملک کیسے یہ رقم ادا کرے گا؟ مزید ٹیکس لگا کر اور ٹیکسوں کی شرح بڑھنے سے ہونے والی مہنگائی سے متاثر ہوں گے اور ہو رہے ہیں عوام۔
نہ تو عوام کو اس بات کی فکر ہے اور نہ کسی نے عوام کو اس قابل چھوڑا ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی، بچوں کی شادی اور اپنے گھر کی فکر کی حدود سے باہر نکل کر کچھ سوچ سکیں۔ آج تک ملکی تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ کوئی کرپٹ پکڑا گیا ہو اور اس سے لوٹی ہوئی رقم واپس لے کر ملکی خزانے میں جمع کروائی گئی ہو۔ کیوںکہ ملکی دولت اور سرکاری خزانہ صرف لوٹنے کے لیے بنایا گیا ہے۔

یہ تو تھی بات حکومتی منصوبوں اور بیرونی قرضوں کی! اب ایک اور پہلو سے جائزہ لیں۔ وی آئی پی کلچر اور عوامی بدحالی کا۔ حملے اسکولوں پر ہو رہے ہیں، مساجد و مذہبی مقامات پر ہو رہے ہیں، مگر ان کے تحفظ کے لئے سیکورٹی اداروں کے پاس افرادی قوت نہیں، وسائل نہیں۔ اسکولز پرائیوٹ سیکورٹی گارڈ رکھیں۔ بازار یا سڑک پر موجود ہزاروں افراد کی حفاظت کے لئے حکومت زنگ لگی بندوق والا ایک سپاہی ہی دے پاتی ہے۔ 

باقی سیکورٹی اداروں کی جتنی نفری، وسائل اور قوت ہے وہ چند سو لوگوں کی حفاظت کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ یہ تحریر کسی سازش کا حصہ ہے تو حکومت کے لیے پُرخلوص مشورہ ہے کہ وہ ذرا ایک سروے کروالے کہ ملک کے کتنے فیصد عوام حکمرانوں کو اچھا سمجھتے ہیں۔

جب تک یہ تقسیم ختم نہیں ہوگی یا عوام کے لئے سنجیدگی سے سوچا اور عملی اقدامات نہیں کئے جاتے۔ حکمرانوں سے گذارش ہے کہ امن، ترقی، خوشحالی کی بات بھی نہ کیا کریں۔ کیوںکہ اب ایسی باتیں اور نعرے نمک پاشی کا کام کرنے لگی ہیں۔

محمد نعیم



تعلیم - دھشت گردوں کے نشانے پر

’ضرورت پڑے تو تارکین وطن کو گولی مار دیں‘

$
0
0

جرمنی میں دائیں بازو کی ایک پارٹی کی رہنما نے کہا ہے کہ اگر پناہ گزین ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو ’ضرورت پڑنے پر‘ پولیس انھیں گولی مار دے۔

يورپی یونین کی مخالف پارٹی آلٹرنیٹیو فيور ڈایچلینڈ (اے ایف ڈي) پارٹی کی سربراہ فروکے پیٹری نے ایک مقامی اخبار سے کہا: ’میں بھی ایسا نہیں چاہتی مگر آخری حربے کے طور پر مسلح افواج ہی ہیں۔ 
ان کے اس بیان کی بائیں بازو کی جماعتوں اور جرمن پولیس یونین نے مذمت کی ہے۔
گذشتہ سال جرمنی میں 11 لاکھ سے زیادہ تارکین وطن آئے تھے۔
سنیچر کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا تھا کہ شام اور عراق سے آنے والے زیادہ تر پناہ گزین ان کے ملک میں جاری جنگ ختم ہونے کے بعد واپس چلے جائیں گے۔

انھوں نے اپنی سي ڈي يو پارٹی کے ایک اجلاس میں کہا کہ گذشتہ ہفتے اپنائے جانے والے سخت اقدام کی وجہ سے تارکین وطن کی آمد میں کمی ہوگی مگر پھر بھی اس کے لیے ایک یورپی حل کی ضرورت ہے۔
جرمنی میں تارکین وطن کے ٹھکانوں پر حملوں کی تعداد گذشتہ سال 2014 کے مقابلے بڑھ کر پانچ گنا یعنی 1005 تک ہو گئی تھی
پیٹری نے جرمن زبان کے ’مینہیمر مورگن‘ اخبار سے کہا تھا، پولیس کو غیر قانونی طور پر آسٹریا سے آ نے والے تارکین وطن کو جرمنی میں گھسنے سے روکنا چاہیے اور ’ضرورت پڑے‘ تو بندوق کا استعمال کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا، ’اور یہی قانون بھی کہتا ہے۔ 

سوشل ڈیموکریٹس پارٹی کے ایک اہم رکن تھامس اوپرمن کے مطابق: ’آخری بار جرمن لیڈر، جن کے زمانے میں تارکین وطن پر گولی چلائی گئی، وہ ایرک ہونیکر تھے‘، جو کمیونسٹ مشرقی جرمنی کے رہنما تھے۔

جرمنی کی پولیس یونین گویکشیفٹ ڈر پولیزیئی نے کہا کہ حکام تارکین وطن پر کبھی بھی گولی نہیں چلائیں گے۔ یونین نے کہا کہ پیٹری کا بیان قدامت پسند اور غیر انسانی ذہنیت کا مظہر ہے۔
جرمنی میں تارکین وطن کے ٹھکانوں پر حملوں کی تعداد گذشتہ سال 2014 کے مقابلے بڑھ کر پانچ گنا یعنی 1005 تک ہو گئی تھی۔

ڈیلیٹ کیے گئے ایس ایم ایس واپس لائیں

$
0
0

کتنی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آپ کے موبائل کا ان باکس بھر گیا اور آپ نے اس کو خالی کرنے کے لیے ڈیلیٹ آل کا بٹن دبا دیا۔ جب تمام پیغامات ڈیلیٹ ہوگئے ،تو آپ کو اچانک یاد آیا کہ اس میں کچھ اہم پیغامات بھی تھے، جن کی آپ کو ضرورت تھی، لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چک گئیں کھیت۔ جی نہیں، اگر آپ اینڈروئیڈ سمارٹ فون استعمال کرتے ہیں ،تو اب پچھتانے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اگر آپ نے غلطی سے کسی ایسے ایس ایم ایس کو ڈیلیٹ کر دیا ہے، جس میں کوئی ضروری معلومات تھیں، تو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

 آپ اینڈروئیڈ سمارٹ فونز کے ذریعے آپ اپنے ڈیلیٹ کیے ہوئے پیغامات بھی واپس حاصل کرسکتے ہیں،جس طرح کمپیوٹرپر آپ کی ڈیلیٹ کی ہوئی فائل ٹریش بن میں چلی جاتی ہے ، ٹھیک اسی طرح اینڈروئیڈ سمارٹ فون پر بھی ہوتا ہے۔ ان فونز پر تمام ڈیلیٹ کیے گئے پیغامات مختصر وقت کے لیے فون میں ہی محفوظ رہتے ہیں اور آپ ان تمام پیغامات کو ڈیٹا ریکوری سافٹ وئیر استعمال کرتے ہوئے دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں۔ ڈیٹا ریکوری سافٹ وئیرز آپ کے فون کی سکینگ کر کے ڈیلیٹ کیا گیا ،مواد ڈھونڈ لیتے ہیں۔ 
اس کے لیے آپ ایس ایم ایس بیک ، اینڈروئیڈ ریکوری یا ڈیٹا ریکوری جیسی ایپس استعمال کرسکتے ہیں۔ اگر چہ ڈیلیٹ کیے گئے پیغامات بہت مختصر وقت کے لیے فون میں محفوظ رہتے ہیں ، اس لیے اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ آپ کی جانب سے ’’دھتکارا گیا‘‘ پیغام تمام رنجشیں بھلا کر دوبارہ آپ کے پاس آہی جائے ،لیکن کوشش تو کی جاسکتی ہے ناں۔

ویسے آپ کو بتاتے چلیں کہ پیغامات کو محفوظ کرنا تمام فون کمپنیوں کے لیے قانوناً لازمی ہے، لہٰذا اگر ایسا کوئی بھی میسج ہے، جس کی آپ کو قانوناً ضرورت ہے، تو موبائل فون کمپنی وہ پیغام ایس ایم ایس آپ کو دینے کی پابند ہے ،لیکن اس کے لیے آپ کو دستاویزی طور پر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ آپ اس پیغام کو عدالت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔

سلیم اللہ

آئی ایم ایف نے 50 کروڑ ڈالرکی11ویں قسط مشروط کردی

$
0
0

عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے 50 کروڑ ڈالر کی 11 ویں قسط گیس کی قیمت میں 38 فیصد اضافہ، توانائی شعبے میں اصلاحات اور نجکاری کا عمل تیز کرنے سے مشروط کر دی جبکہ حکومت نے آئی ایم ایف کو گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کی یقین دہائی کروا دی ہے۔
حکومت اورآئی ایم ایف کے مابین 50 کروڑ ڈالر کی 11 ویں قسط کیلیے دبئی میں مذاکرات جاری ہیں، پاکستانی وفد کی قیادت وزیر خزانہ اسحاق ڈار کررہے ہیں، ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل مل کی نجکاری نہ کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت حکومت کو اس سال کے جون تک پی آئی اے کی نجکاری کرنا ہے جبکہ پاکستان اسٹیل مل کی نجکاری بھی سست روی کا شکار ہے، ذرائع کے مطابق مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں پاکستان کیلیے 50کروڑڈالر کی 11 ویں قسط رواں ماہ کے آخر تک ملنے کا امکان ہے۔

’’واٹس ایپ‘‘ کے صارفین کی تعداد ایک ارب تک پہنچ گئی

$
0
0

 موبائل فون پر میسیجنگ کا ٹرینڈ جیسے جیسے بڑھتا جا رہا ہے لوگوں کو اپنے پیاروں کو میسج کرنا ہو، آڈیو یا ویڈیو پیغام دینا ہو تو وہ واٹس ایپ کا سہارا لیتے ہیں اسی لیے واٹس ایپ کا استعمال کرنے والوں کے ماہانہ صارفین کی تعداد ایک ارب ہوگئی ہے جس سے واٹس ایپ کی پسندیدگی کا گراف مزید بڑھ گیا ہے۔

واٹس ایپ کی تعداد کا ایک ارب تک پہنچنا ایک اہم سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے تاہم یہ تعداد فیس بک کے اپنی میسینجر موبائل ایپلی کیشن کے صارفین سے زائد ہے جس کے ماہانہ 80 کروڑ صارفین ہیں جب کہ فیس بک کا کہنا ہے کہ واٹس ایپ پرروزانہ 42 ارب پیغامات اور 25 کروڑ ویڈیوز شیئر کی جاتی ہیں تاہم ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ ابھی بھی واٹس ایپ کئی اہم منڈیوں میں پیچھے ہے اور اسے مزید جدید فیچر متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔
آئی ایچ ایس کے موبائل تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ ایسی کئی بڑی منڈیاں ہیں جہاں واٹس ایپ بڑا کھلاڑی نہیں ہے جب کہ چین میں وی چیٹ کے 50 کروڑ صارفین ہیں۔ جاپان میں لائن پسند کیا جاتا ہے اور کاکاؤ ٹاک جنوبی کوریا میں فیورٹ میسجنگ سروس ہے لیکن یہ سب مخصوص علاقوں اور خطوں تک محدود ہیں جب کہ بین الاقوامی طور پر سب سے زیادہ کامیاب واٹس ایپ ہے۔

فیس بک نے 2014 میں یہ موبائل میسیجنگ ایپلی کیشن 19 ارب ڈالر میں خریدی تھی اوردلچسپ بات یہ ہےکہ جب فیس بک نے واٹس ایپ خریدا تھا اس وقت وہ لوگوں کو اپنے علیحدہ میسینجر کی طرف راغب کرنا شروع کر رہا تھا لیکن اس وقت یہ خطرہ بھی تھا کہ یہ کوئی اور حریف حاصل کرسکتا ہے اور فیس بک کو اپنے حریف کے سامنے کروڑوں کی تعداد میں موبائل صارفین سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا تھا۔

کیا فیس بک کے دوست آپ کے اصل دوست ہیں؟

$
0
0

سماجی روابط کی ویب سائٹس مثلاً ٹوئٹر اور فیس بک نے ہمیں ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کر دیا ہے، جہاں ہم کمپیوٹر کے سامنے سے اٹھے بغیر ناصرف اپنے دوستوں سے رابطے میں رہ سکتے ہیں بلکہ نئے دوست بھی بنا سکتے ہیں،لیکن نئی تحقیق میں ماہرین یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کیا دوستی کے تعلقات براہ راست کے رابطے کے بغیر بھی پنپ سکتے ہیں۔

 یہ تازہ تحقیق آکسفرڈ یونیورسٹی کے تحقیق کاروں کی طرف سے منعقد کی گئی ، جس میں ایک مطالعے کے سربراہ ڈاکٹر رابن ڈنبر کو معلوم ہوا کہ ہماری نفسیاتی رکاوٹیں جو ہمیں اصل زندگی میں زیادہ قریبی دوست بنانے سے روکتی ہیں، وہی رکاوٹیں آن لائن قریبی دوستوں کی تعداد کو بھی محدود کرتی ہیں۔
یہ تحقیق ’’رائل سوسائٹی اوپن سائنس‘‘ کی جنوری کی اشاعت کا حصہ ہے، جس میں ڈاکٹر رابن ڈنبر نے کہا کہ یقینی طور پر فیس بک کی وجہ سے کبھی کبھار ملنے جلنے والے دوستوں کے ساتھ بھی تعلقات کو کسی نا کسی حد تک برقرار رکھا جا سکتا ہے، لیکن ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر آپ اپنے دوستوں سے وقتاً فوقتاً ملاقاتیں نہیں کرتے ہیں، تو صرف سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارنے سے آپ اپنے دوستوں کو واقف کار بننے سے نہیں روک سکتے ہیں‘‘۔

انھوں نے کہا کہ چہرے سے چہرے کے رابطے میں کوئی ایسی خاص بات ہے، جو دوستی کے رشتے کو برقرار رکھنے میں اہم ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وقتاً فوقتاً دوستوں کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بات چیت کرنا دوستی کو مضبوط رکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ پروفیسر ڈنبر اور ان کے ساتھیوں نے دو مطالعاتی جائزے شروع کیے، جس میں انہوں نے سماجی دماغ کے نظریہ کی جانچ پڑتال کی یہ ایک سوچ ہے، جو بتاتی ہے کہ ہمارا دماغ تعلقات نبھانے کے لیے صرف 100 سے 200 افراد کے سائز کا گروپ تشکیل دینے کے قابل ہے۔

یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال سے زیادہ حقیقی دوست بن سکتے ہیں؟ محققین نے اپنے دو جائزوں کے لیے 3,300 شرکاء کو شامل کیا۔ ایک عام سوشل میڈیا کے صارف نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر اس کے دوستوں کی اوسط 155 ہے۔ اسی طرح دوسرے جائزے کے شرکاء کے مطابق ان کے آن لائن دوستوں کی اوسط 183 تھی،تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے فیس بک کے دوستوں سے کتنا قریب ہیں؟ 

تو شرکاء سماجی دماغ کے نظریہ ’’سوشل برین ہائپوتھیسس‘‘ سے متفق نظر آئے، جس کے مطابق انسان نفسیاتی طور پر زیادہ دوستیاں نبھانے کے قابل نہیں ۔ فیس بک پر 155 دوست رکھنے والے صارفین نے بتایا کہ وہ دوستوں کے گروپ میں سے صرف 28 دوستوں کو اپنا حقیقی دوست سمجھتے ہیں۔مزید برآں انہوں نے وضاحت کی کہ فیس بک پر وہ صرف 4 ایسے دوست رکھتے ہیں،جنھیں وہ مصیبت کے وقت میں پکار سکتے ہیں جبکہ 14 وہ دوست ہیں، جن سے انھیں مشکل وقت میں ہمدردی مل سکتی ہے حتیٰ کہ فیس بک کے ایسے صارفین جن کے دوستوں کی اوسط زیادہ تھی۔

انہوں نے بھی مشکل حالات میں مدد اور ہمدردی کے لیے صرف چند دوستوں کے نام لیے۔شریک محقق فج ایس نے مطالعے سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے، جہاں نئے اور پرانے دوستوں کے ساتھ دوستی کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ فیس بک کے پوسٹ، لائیکس اور سیلفیاں اس خوشی کا متبادل نہیں بن سکتی ہیں، جو خوشی آپ کو دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے سے حاصل ہوتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ سچ ہے کہ فیس بک، جہاں آپ کو نئے دوست بنانے کے قابل بناتا ہے، وہیں آپ کے واقف کاروں کو دوست بنانے کی اجازت دیتا ہے جبکہ حقیقی دنیا میں ہم واضح طور پر اپنے قریبی اور دور کے رشتوں میں فرق کر سکتے ہیں۔

نصرت شبنم

دولت عثمانیہ :جو کبھی کتب خانوں کا مرکزتھا

$
0
0

ترکی، دولت عثمانیہ کے زیر نگین عرصہ دراز تک دنیا کی مسلم ریاستوں کا مرکز رہا ہے۔ خلافت اسلامیہ کے پایۂ تخت کی حیثیت سے برصغیر کے سربراہانِ خلافت ترکی سے سند حکمرانی حاصل کرتے رہے۔ ترکی پہلی جنگ عظیم اور دوسری عالمی جنگ میں مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتا رہا۔

 وہ خلافت، جس نے تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک سیاسی اور فکری پلیٹ فارم فراہم کیاہوا تھا، پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر جب اس پر سامراجی قوتوں نے قبضہ کیا تو ترکی اتاترک کی قیادت میں اپنی بقا کی جنگ لڑا اور بالآخر وہ ترکی سے یورپی تسلط کو ختم کرانے میں کامیاب ہوا مگر تاترک نے عنانِ حکومت سنبھالتے ہی خلافت کو ختم کر دیا۔ اس طرح ترکی ،جو صدیوں تک مسلمانانِ عالم کی نگاہوں کا مرکز رہا تھا، 20ویں صدی کے نصف اول میں خلافت کے منصب سے محروم ہو گیا۔ تا ہم ترکی نے عثمانیہ دور میں جو علم و ادب کی خدمات انجام دیں، تاریخ ان کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔
 دولت عثمانیہ کے سلیمان اعظم کے ذاتی کتب خانے میں ہزاروں کتابیں موجود تھیں۔ سلطان محمود اول نے کتابوں کی فراہمی اور کتب خانوں کے قیام کی جانب بہت توجہ دی۔ چنانچہ پایہ تخت قسطنطنیہ علم و ادب کا مرکز بن گیا تھا۔ مختلف ممالک کے دانشور یہاں کے کتب خانوں، عجائب گھروں اور درس گاہوں میں مطالعہ کے لیے چلے آتے تھے۔ سلطان سلیم ثالث (1807۔ 1779ء) کے عہد میں ایک فوجی کتب خانہ قائم کیا گیا۔

 اس میں فنونِ حرب و ضرب، علم ریاضی اور سائنس کی بے شمار کتابیں محفوظ کی گئی تھیں۔ علامہ شبلی نعمانی نے بہت سے کتب خانوں کے ناموں کا ذکر کیا ہے۔ مثلاً کتب خانہ جامع ابا صوفیہ، کتب خانہ جامع بایزید، کتب خانہ حمیدیہ، کتب خانہ جامع محمد فاتح وغیرہ۔

 راغب پاشا نے اپنی جیب خاص سے ایک کتب خانہ قائم کیا تھا، جو کتب خانہ راغب پاشا کے نام سے مشہور ہے۔ ترکی آج بھی اپنی اسلامی تہذیب وورثہ کے محافظ کی حیثیت سے دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ استنبول میں توپ کاپی عجائب گھر اسلامی عہد کے ایسے ہزاروں شاہ پاروں سے آراستہ تھا جو دنیا کے قدیم کتب خانوں کو اپنی علمی اور فنی خوبیوں سے جگمگاتے رہے تھے۔

اشرف علی



یونانی اور رومی کتابیں

$
0
0

ابتداء میں یونانی لوگوں نے بھی مصریوں کے طرز پر مواد کے لیے پیپائرس کو ہی استعمال کیا جس کو بعد میں رومیوں نے اختیار کیا۔ اگرچہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دونوں قوموں نے ایک وقت مومی تختیوں کو بھی تحریر کے لیے استعمال کیا۔ چنانچہ مصریوں کی طرح کتاب کے لیے استعمال کیا جانے والا لفظ پیپائرس کی جگہ یونانی لفظ ببیولیون  بولا جاتا ہے جب کہ لاطینی میں وولومن یعنی بک  مستعمل ہے۔

 مورخ ڈیوڈ ڈرنگر کا خیال ہے کہ یونانیوں نے پیپائرس کا استعمال چھٹی ق م سے لے کر 900ق م تک کیا۔ تاہم افلاطون اور دوسرے نامور یونانی مؤرخین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ پانچویں صدی ق م میں کتابوں کے لیے پیپرس پر تحریر شدہ برآمد ہوا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ اور کتابیات نے اس کو چار صدی ق م قرار دیا ہے۔ اس طرح کے ہزاروں رول برآمد ہوئے ہیں۔ ان میں بیشتر کتابی رول نویا دس انچ اور ایک یا ڈیڑھ انچ موٹے کھڑے رکھے جاتے تھے۔ 

کھولنے پر بعض پیپرس رول منقش اور اخباری کالموں کی طرح یونانی زبان میں تحریر تھے۔ ہر کالم تین انچ کا اور ایک رول پر تین کالم حروفِ ابجد کے اعتبار سے ہوتے تھے۔ یہ رول مصریوں کی طرح سو سو فٹ لمبے نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کی لمبائی زیادہ سے زیادہ 35فٹ ہوتی تھی تا کہ سہولت سے پڑھے جا سکیں۔ شاعر ہو مر کی جو کتابیں دستیاب ہوئی تھیں، ان کی لمبائی 35فٹ سے تجاوز نہ کر سکی۔

 پانچویں صدی قبل مسیح کو ایتھنزکے تہذیب و تمدن کے اعتبار سے شان دار قرار دیا جاتا ہے۔ اس دور میں بھی کتابوں پر زیادہ زور نہ تھا بلکہ علوم و فنون کو زبانی یا مشاہداتی طور پر زیادہ پسند کیا جاتا تھا۔ لیکچر اور مکالمے زبانی ادا کیے جاتے تھے۔ اس فن کو ایتھنز کا ہر شہری اختیار نہیں کر پاتا تھا۔ یہ کام مشکل تھا۔ چند افراد ایسے تھے جن کو علم و ادب اور تقریر و تحریر کا فن سکھایا جاتا تھا۔ سکندر اعظم کی آمد کے ساتھ یونانیوں کے فکر و نظر میں وسعت پیدا ہوئی۔ ان کے ادب اور ثقافت کو ترقی ملی۔ 

سکندر اعظم جب مشرق میں وارد ہوا تو آس پاس کے تہذیب و تمدن سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ چنانچہ اسکندر یہ اور پرگامم جیسے شہروں میں علم و ادب کے مراکز تیزی سے قائم ہونے لگے۔ کتب خانوں کے قیام نے ان مراکز میں بڑی اہمیت اختیار کی۔ اسکندر یہ کے عجائب گھروں اور مطالعاتی مراکز میں لاکھوں کی تعداد میں کتابی رول پائے جاتے تھے۔ 

بطلیموسی فرماں روائوں کے دور میں علم و ادب کو بڑی ترقی حاصل ہوئی۔ دور دراز کے ماہرین علوم و فنون وہاں کھنچے چلے آتے تھے، جو رات دن تحقیق، علم اور کتابوں کی ترویج و ترقی پر مقرر تھے۔ اس طرح ادب و علم کی ترقی کے ساتھ ساتھ زبانی حصول علم کی جگہ کتابی علم پروان چڑھتا گیا۔ یہ کتابوں کی اشاعت کی جانب ایک ابتدائی قدم تھا۔ یونانی عالم اپنی تخلیقات کی خرید و فروخت کے لیے اب بازاروں کا رخ کرنے لگے تھے۔ 

اس بات کا اندازہ ان پیپائرس رولوں سے ہوتا ہے جن میں پیشہ ورانہ کتابی کاروبار کی جانب اشارہ ملتا ہے۔ اگرچہ بیشتر ذخیرہ تلف ہو چکا ہے۔ تا ہم جو کچھ باقیات ہیں ان سے کتابوں کی وسیع پیمانے پر تجارت کے شواہد ملتے ہیں، خاص طور پر قدیم مؤرخوں اور دانشوروں کی کتابوں سے جن میں ایچیلس  ، سوفوکلس    ایرپیڈیس   ، ایروسٹوفینس  جیسے ڈرامہ نگاروں کی تخلیقات سے اس کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ 

( ’’کتب اور کتب خانوں کی تاریخ‘‘ سے انتخاب)   

آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ

$
0
0

جنرل راحیل شریف نے روایات سے ہٹ کر عمل کرنے کی اپنی عادت کو برقرار رکھا ہے۔ چاہے دراندازی ہو، عسکریت پسندی، یا پھر سیاسی محاذ، ان کے دور میں جو بھی پیشرفت ہوئی ہیں، وہ سابق آرمی چیف کے دور سے مکمل طور پر الٹ ہیں۔

اس لیے یہ بات حیرانی کا باعث نہیں کہ اس سے پہلے کہ چہ مگوئیاں باقاعدہ بحث کا روپ اختیار کرتیں، جنرل راحیل شریف نے عوامی طور پر فیصلہ کن انداز میں اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع کے بارے میں ہونے والی چہ مگوئیوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ جنرل راحیل شریف نہ ہی مدتِ ملازمت میں توسیع کی درخواست کریں گے، اور نہ ہی وہ توسیع کو قبول کریں گے۔
اس سال نومبر میں پاک فوج کا ایک نیا سربراہ منتخب ہوگا، جس سے وہ ادارتی روایت دوبارہ بحال ہوگی جو پرویز مشرف اور اشفاق پرویز کیانی کے ادوار کے دوران مجموعی طور پر 15 سال کے لیے معطل رہی ہے۔

اس واحد وجہ کی بنا پر جنرل راحیل شریف کے فیصلے کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ اگر ایک کے بعد ایک فوجی سربراہان قوانین اور روایات کی عدم پاسداری کرتے ہوئے خود یہ فیصلہ کریں کہ انہیں دفتر میں رہنا ہے یا نہیں، تو اس سے ایک ناگوار مثال قائم ہوتی ہے۔

مگر آرمی چیف کا فیصلہ کتنا ہی خوش آئند کیوں نہ ہو، اپنی رائے کا اتنے واضح انداز میں آئی ایس پی آر کے ذریعے اظہار کر کے انہوں نے نادانستہ طور پر ملک میں موجود سول ملٹری تعلقات میں عدم توازن کو آشکار کر دیا ہے۔

ایک سویلین افسر کا مدتِ ملازمت میں توسیع چاہنے کا ریکارڈ ملاحظہ کریں۔ آئینی ذمہ داری رکھنے والے وہ آخری شخص جن کے بارے میں توسیع کی خبریں گردش میں تھیں، وہ سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری تھے۔
اور جب 2013 میں ان کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آیا، تو یہ واضح تھا کہ اس حوالے سے کوئی آپشنز موجود نہیں ہیں۔ افتخار محمد چوہدری نے وہی کیا جو آئین کا تقاضہ تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاستدان، جو زیادہ تر تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں، انہوں نے بسا اوقات آئینی طریقہ کار کی پاسداری کی ہے۔ جب پیپلز پارٹی کی گذشتہ حکومت کی مدت تمام ہوئی، تو انتخابات فوراً منعقد کروا دیے گئے۔ جب سابق صدر آصف علی زرداری کا دورِ اقتدار ختم ہوا، تو انہوں نے اقتدار بغیر کسی مزاحمت کے اگلے صدر کو سونپ دیا۔

اس دفعہ وزیرِ اعظم نواز شریف نے مستقل اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ان کی حکومت کی قسمت کا فیصلہ صرف عوام ووٹ کے ذریعے کریں گے جب ان کی پارلیمانی مدت تمام ہوجائے گی۔
اس حوالے سے کم ہی شکوک موجود ہیں کہ 2018 میں عوام کا فیصلہ جو بھی ہوگا، مسلم لیگ ن اسے قبول کرے گی۔

لیکن اسی وقت جنرل راحیل شریف کا فیصلہ بھلے ہی اصولوں پر مبنی ہو، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ان کی شرائط پر کیا گیا ہے اور اس کا اعلان بھی اسی ادارے نے کیا ہے جس کے وہ سربراہ ہیں۔

سول سربراہی میں کام کرنے والی وزارتِ دفاع، جو عام طور پر عسکری فیصلوں میں فعال کردار ادا نہیں کرتی، اس کا کردار تقریباً نہ ہونے کے برابر ہی ہے۔
جنرل راحیل شریف کے دور میں آئی ایس پی آر کا ٹوئٹر اکاؤنٹ ہی تمام فوجی معاملات کا اعلان کرتا ہے، اور وزیرِ اعظم ہاؤس اور وفاقی کابینہ سے بالاتر معلوم ہوتا ہے۔

شاید اپنے دور کے اختتامی مہینوں میں جنرل راحیل شریف فوج کے اس انتہائی اثر و رسوخ کے حوالے سے بھی کچھ اقدامات کریں۔
ایک آئینی اور جمہوری پاکستان وہ ہوگا جہاں پر افراد ہمیشہ اداروں کے ماتحت ہوں، اور تمام ادارے ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت کے ماتحت ہوں۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 26 جنوری 2016 کو شائع ہوا۔

Lucky crew cleaning at Masjid Al-Haram

$
0
0
 Lucky crew cleaning at Masjid Al-Haram






رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں

$
0
0

جس واقعہ نے گزشتہ پندرہ سال سے اس دنیا کو ایک جہنم میں بدل کر رکھ دیا ہے وہ نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر چار امریکی طیاروں کو اغوا کر کے حملہ کرنا ہے۔ ان میں دو تو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر نشانہ بناتے ہوئے  پوری دنیا کی ٹیلی ویژن اسکرینوں پر نظر آئے جب کہ ایک پینٹاگون کی عمارت اور دوسرا پنسلونیا کے آس پاس کہیں گرا۔ گزشتہ پندرہ سال سے اس واقعے کو نائن الیون یعنی گیارہ ستمبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اس سے پہلے کی دنیا اور اس کے بعد کی دنیا میں اس قدر فرق آیا ہے کہ دنیا بھر میں جرم کے معیارات اور مجرم کی شناخت کے پیمانے تک بدل گئے ہیں۔ دنیا بھر میں مشتبہ لوگوں کا حلیہ ہی بدل گیا ہے۔ دہشت گردی کی اصطلاح عام ہوئی تو دنیا کے کارپوریٹ سرمائے سے چلنے والے میڈیا نے دہشت گردوں کی نرسریوں سے لے کر ان کے اعتقادات‘ خیالات‘ علم حاصل کرنے کے مقامات اور آخر کار ان کے حلیوں تک کو ایسے پیش کیا جیسے ہر وہ شخص جو اسلام میں بظاہر دلچسپی لیتا ہو‘ داڑھی بڑھا لے‘ ٹخنوں سے اونچی شلوار کر لے‘ پانچ وقت نماز کے لیے قریبی مسجد کا رخ کرے‘ سر پر پگڑی‘ ٹوپی یا صافہ رکھ لے‘ تو ایسا شخص عین ممکن ہے دہشت گرد ہو یا پھر ایسے حلیے والے بہت سے لوگوں کے درمیان دہشت گرد چھپ سکتا ہے۔
گزشتہ پندرہ سال کی اس میڈیا جنگ نے آج پوری دنیا میں ظالم‘ دہشت گرد اور تخریب کار ایک ایسا چہرہ تسلیم کروا لیا ہے جو کبھی ایک تہجد گزار‘ اللہ کے دین پر عمل پیرا‘ دنیا کے طعنوں سے بے نیاز ایک ایسا لباس زیب تن کرنے والا تھا جو قرون وسطیٰ کے مسلمان پہنا کرتے تھے۔ اس لیے مجھے بالکل حیرت اور تعجب نہیں ہوا جب حکومت پنجاب نے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں تبلیغی جماعت کے داخلے پر پابندی عائد کر دی۔ ایسے حلیے کے لوگ اس مغرب زدہ مخلوط تعلیمی اداروں میں کتنے برے لگتے ہیں۔ وہ سارے کا سارا تصور ہی پاش پاش ہو جاتا ہے جو ہم نے ’’سافٹ‘‘ پاکستان کا بنا رکھا ہے۔

تبلیغ  پر تو ویسے بھی پابندی لگانی ہی چاہیے تھی۔ اس لیے کہ جس طرح ہم اسلام کو خوفناک بنا کر پیش کرتے ہیں‘ یہ لوگ تو بالکل اس کے الٹ ہیں۔ مسجد کے ایک کونے میں پڑے رہتے ہیں۔ عصر کے بعد لوگوں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں۔

ایک ان میں نظریں نیچی کیے میرے بھائی کے لفظ سے آغاز کرتا ہے۔ اور پھر کہتا ہے کہ میری اور آپ کی بھلائی پورے دین میں ہے۔ اور بات کا اختتام اس جملے پر ہوتا ہے کہ مغرب کے بعد مسجد میں اس سلسلے میں بیان ہو گا‘ آپ تشریف لائیے گا۔ گزشتہ پچاس سال سے میں ان کا یہ رویہ دیکھ رہا ہوں اور اس معاشرے کا رویہ بھی جو ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ کون ہے جو ان پر اپنے دروازے بند نہیں کرتا۔ انھیں تمسخر کا نشانہ نہیں بناتا۔ ان پر مغلظات نہیں بکتا۔ لیکن یہ بھی نجانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہوتے ہیں کہ ایک دروازے سے گالیاں سن کر اگلے دروازے پر دستک ضرور دیتے ہیں۔

برصغیر پاک و ہند میں دو گروہ ایسے ہیں جنھوں نے مسلمانوں میں انا‘ غرور اور نفس کو کچلنے کی اس طرح ترغیب دی ہو۔ ایک اہل تصوف اور دوسرے تبلیغی جماعت کے لوگ۔ اہل تصوف تو کسی میں ذرا سا بھی غرور یا تکبر دیکھتے تو کشکول ہاتھ میں پکڑا دیتے کہ جاؤ بھیک مانگ کر لاؤ یا پھر جھاڑو پکڑا دیتے کہ تم خانقاہ کی صفائی پر مامور کر دیے گئے ہو۔ تبلیغی جماعت والوں نے بھی ضبط نفس کی جو تربیت پائی ہے اس پر حیرت ہوتی ہے۔

گریڈ بائیس کے بیوروکریٹ سے لے کر کروڑوں کمانے والے تاجر تک اور جسمانی طور پر دس لوگوں پر بھاری انسان تک سب کے سب اس طرح سر جھکائے لوگوں کو اللہ کی طرف بلا رہے ہوتے ہیں جیسے یہ اس شخص کے مجرم ہوں جسے دعوت دے رہے ہیں۔ کوئی ان کی ہنسی اڑائے‘ ان کی بات سننے سے انکار کرے‘ انھیں بے نقط سنائے‘ یہ خاموشی سے چپ چاپ اپنی راہ لیتے ہیں۔ ایسا رویہ اگر اسی طرح کے گریڈ بائیس کے افسر‘ کروڑ پتی تاجر یا جسمانی طور پر مضبوط شخص کے ساتھ عام زندگی میں کیا جائے تو اس کا نتیجہ انتہائی خوفناک نکلتا ہے۔

گیارہ ستمبر سے پہلے ان لوگوں کو بے ضرر سمجھا جاتا تھا۔ دفتر میں ان کو چار ماہ کے چِِلّے کے لیے چھٹی مانگنے پر دے دی جاتی تھی۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں خواہ وہ اسکینڈے نیویا کے ممالک کی طرح سیکس فری ملک کیوں نہ ہو‘ تبلیغی جماعت کے لوگوں کو کبھی ویزا کی مشکلات نہ ہوئیں۔ آسٹریلیا سے لے کر امریکا کے ساحلوں تک یہ لوگ آزادانہ تبلیغی کام کرتے تھے لیکن گیارہ ستمبر کے بعد صرف ان کے حلیے نے انھیں مشکوک کر دیا۔

یہ میڈیا کس قدر طاقتور چیز ہے۔ یہ پروپیگنڈہ کی مشنری کس قدر خوفناک ہے کہ جرم کوئی بھی کرے آپ مجرم جس کو چاہے ثابت کر دیں۔ گیارہ ستمبر کا واقعہ جن چودہ افراد نے کیا ان میں چار لیڈران جنھوں نے جہاز اغوا کیے ان کے حلیے اور حالات زندگی پر نظر ڈالتے ہیں۔ محمد الامیر السید عطا جس نے امریکن ایئر لائن کی فلائٹ نمبر11 کو اغوا کیا۔ ایک کلین شیو نوجوان جس نے قاہرہ یونیورسٹی سے آرکیٹیکٹ کی ڈگری حاصل کی اور پھر 1990ء میں جرمنی کی ٹیکنیکل یونیورسٹی ہیمبرگ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخل ہوا۔

مروان یوسف محمد رشید لکراب شیحی۔ متحدہ عرب امارات سے انگلش میڈیم اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد فوج میں بھرتی ہوا۔ فوج سے وظیفہ لے کر اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی روانہ ہوا اور پہلے یونیورسٹی آف بون اور پھر ٹیکنیکل یونیورسٹی ہیمبرگ میں پڑھتا رہا۔ اس نے یونائیٹڈ ایئر لائن کی پرواز اغوا کی۔ ہانی صالح حسن حنجور‘ ایریزونا یونیورسٹی امریکا میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس نے سیرا اکیڈیمی میں کورس مکمل کیا۔ اس نے یونائٹیڈ ائر لائن کی پرواز 175 کو اغوا کیا۔ زیاد  سمیر جراح لبنان کے شہر بیروت سے 1996ء میں جرمنی کی یونیورسٹی  میں جرمنی زبان سیکھنے کے لیے داخل ہوا اور پھر ہمبرگ کی یونیورسٹی فار اپلائڈ سائنسز میں تعلیم حاصل کرتا رہا۔ یہ وہ چار لوگ تھے جنھوں نے باقی دس لوگوں کے ساتھ مل کر جہاز اغوا کیے اور گیارہ ستمبر کا معرکہ برپا کیا۔

ان میں سے کوئی ایک بھی کسی مدرسے کا پڑھا لکھا نہیں تھا جنھیں آج کا میڈیا جہاد کی نرسریاں بتایا جاتا ہے۔ سب کے سب سیکولر مغربی تعلیمی اداروں میں پڑھ کر نکلے تھے۔ ان میں کسی کا حلیہ بھی ویسا نہ تھا جیسا آج دہشت گردوں کا بنا کرپیش کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ القاعدہ کی پوری کی پوری قیادت کو اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو کوئی بھی کسی مدرسہ کا فارغ التحصیل نہیں ملے گا۔ خود اسامہ بن لادن مغربی طرز پر قائم یونیورسٹی میں پہلے انجینئرنگ اور پھر اسلامیات کی ڈگری حاصل کرنے والا‘ ایمن الظواہری میڈیکل کالج سے میڈیسن کی ڈگری لیے ہوئے‘ خالد شیخ محمد جسے انتہائی خطرناک بنا پر پیش کیا جاتا ہے‘ پہلے یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا میں پڑھتا رہا اور پھر اس نے پنجاب یونیورسٹی سے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی۔

رمزی یوسف کویت سے پڑھائی کے لیے نکلااور مشہور عام  سوانسا انسٹیٹیوٹ سے الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کر کے لوٹا۔ یہ تو وہ لوگ تھے جنھوں نے گیارہ ستمبر برپا کیا یا القاعدہ قائم کی۔ آج اس وقت وہ لوگ جو ہزاروں کی تعداد میں یورپ کے ممالک سے شام میں جا کر لڑ رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس نے کسی مدرسے سے تعلیم حاصل کی ہو۔

 پورا یورپ حیران ہے کہ یہ ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ سائنس اور فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنے والے‘ جدید سیکولر نظام تعلیم میں پلے بڑھے‘ انھیں کس بات نے مجبور کیا کہ یہ شام میں لڑنے والے گروہوں کے ساتھ شامل ہو گئے۔ لیکن کمال ہے اس میڈیا کا جس کی طنابیں اس کارپوریٹ انڈسٹری کے ہاتھ میں ہیں جو اس دنیا کو پرامن دیکھنا نہیں چاہتی۔ اس دنیا میں جتنے میدان جنگ ہوں گے ان کا اسلحہ اتنا ہی بکے گا۔ لوگ جس قدر خوفزدہ ہوں گے ان کے سامان کی اتنی ہی کھپت ہو گی۔

انھوں نے خوبصورت زندگی کا ایک تصور میڈیا پر پیش کیا ہے‘ مخلوط ماحول‘ ساحل سمندر پر نیم برہنہ زندگی‘ نائٹ کلب‘ بڑی بڑی عمارتیں‘ تیز رفتار ٹریفک‘ محبت کی کہانیاں‘ فیشن شوز‘ فلم کی دنیا اور اعلیٰ تعلیمی درس گاہیں۔ وہ اس خوبصورت زندگی کو جسے وہ لائف اسٹائل کہتے ہیں زندہ رکھنا چاہتے ہیں تا کہ ان کا مال بکتا رہے میک اپ سے لے کر برگر تک اور اس کے برعکس ایسا لائف اسٹائل جس میںکچا کمرہ‘ سوکھی روٹی‘ پیوند لگے کپڑے اور قناعت کا سامان ہو، وہ انھیں زہر لگتا ہے۔

اس لیے خواہ سارے کے سارے دہشت گرد اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے ہوں‘ گالی مدرسے کو پڑے گی‘ دہشت گرد داڑھی اور پگڑی والا ہی ہو گا اور پابندی تبلیغ کرنیوالوں پر ہی لگے گی ،خواہ ان جیسا مرنجا ن مرنج اور ضبط نفس والا کوئی اور ذی نفس دنیا میں نہ ہو۔ جس بازار میں جھوٹ اور منافقت کی چکا چوند ہو وہاں پنجاب حکومت کی آنکھیں چندھیا جائیں تو کچھ عجب نہیں۔ اکبر اللہ آبادی یاد آتے ہیں۔

رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

اوریا مقبول جان

اہل خانہ آپ کے اپنے ہیں، اُنہیں اہمیت دیجیے

$
0
0

ایک تو ہم خود کو بہت باخبر تصور کرتے ہیں، دوسرا یہ کہ ہم خوشی کو اپنے ہی وجود میں تلاش کرتے رہتے ہیں جبکہ حقیقی خوشی تو بذات خود ایک ردِعمل کا حاصل ہے۔ ہماری خوشی ہمارے سامنے والے انسان میں پوشیدہ ہوتی ہے، بس ضرورت اس عمل کی ہے جس کے ردعمل میں خوشی ملتی ہے۔ جیسے ہمارے ایک چھوٹے سے عمل سے کسی کی چھوٹی سی ادھوری خواہش پوری ہوجائے اور اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل جائے اور ردِعمل میں ہمارے اندر خانے جو کیفیت جنم لے اس کا نام ہی تو خوشی ہے۔

جب وہ یہ سب کہہ رہا تھا تو مجھے اس وقت عامر ندیم ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کم اور ایک سائنسدان زیادہ محسوس ہو رہا تھا، جو تمام سائنسی آلات سے مزین ایک جدید ترین لیبارٹری میں ایک مدت سے تجربات کرکے آج ہی اس فارمولے کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا، جس کی کھوج میں انسان برسوں سے کبھی جنگل میں سنیاس لینے پر مجبور ہوا۔ کبھی مذہب کی چادر لپیٹ کر پنجوں کے بل کھڑا ہوکر چاروں سمت تو کبھی آسمان کی طرف ٹٹولنا شروع کردے۔ 
اس نے انسان کی حیقیقت کا راز پا لیا تھا اور ان سائنسی نظریات کی بھی نفی کردی تھی جو انسان کا مطالعہ بطور ایک مشین کرتے ہیں۔ جبکہ یہ صرف کیلشیم، پوٹاشیم یا بہت سے عناصر اور دھاتوں کا مجموعہ نہیں ہے۔ ڈی این اے اس کی وضاحت تو کردیتا ہے کہ اس کا قد، آنکھوں کی رنگت اور خدوخال کیسے ہوسکتے ہیں، مگر اس کی آنکھوں میں بننے والےعکس نے اس کے دماغ میں کیا ایسا عمل شروع کر ڈالا کہ وہ بے ضرر انسان سے ایک دہشت گرد بن بیٹھا۔

اس کی وضاحت کرنے سے سائنس قاصر ہے۔ سائنس قیافے تو لگا سکتی ہے وہ بھی کسی حادثہ کے بعد مگر قبل از وقت وہ انسان کے کسی بھی قسم کے ردعمل کی وضاحت کرنے سے قاصر ہے۔ اس بات کو ایک محقق کے نظریہ کے مطابق یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ سائنس ان انفرادی اجزاء کو تو بیان کرسکتی ہے مگر مجموعی شکل میں جو انسان ہوتا ہے اسکی وضاحت نہیں کرتی۔ 

جس طرح دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اب یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ جب وہ ریاست میں ایک ایسا نظام بنا کر اپنے شہریوں کو دے چکے ہیں جو ان کی زندگی کی بنیادی ضروریات کو نہ صرف پورا کرتا ہے بلکہ معاشی ترقی میں انہیں مدغم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے باوجود بھی انسان ایک دم سے اسلحہ تھام کر معصوم لوگوں پر گولیاں کیوں برسانے لگتا ہے؟ ترقی پذیر ممالک میں غربت، معاشرتی ناہمواریاں، بیماریاں، کرپشن، ناانصافیاں، ناقص پالیسیاں اور بہت سے مسائل جبڑا کھولے لوگوں کو نگل رہے ہیں، وہاں ردِعمل کے طور پر دہشت گردی تو سمجھ میں آتی ہے مگر ان کے ترقی یافتہ اور مہذب معاشروں کو کیا ہوگیا ہے؟

وہ سائنسی بنیادوں پر نت نئے تجربات کرکے خلاؤں کو مسخر کرچکے ہیں مگر جس زمین پر وہ اپنا وجود اور اپنی شناخت رکھتے ہیں وہاں ایک ہی گھر میں رہنے والے خاندان کو اپنے ہی اہل خانہ کے بارے میں علم نہیں، اس کے ساتھ والے گھر میں کون کون رہ رہا ہے اور وہ فائدہ مند، مستحکم یا مثبت انداز سے زندگی گزار رہا ہے یہ کسی قسم کی منفی سرگرمیوں میں ملوث ہے، یہ جاننے سے قاصر ہے۔ ایک دم سے کوئی سانحہ ہوتا ہے، جانی و مالی نقصان ہوتا ہے، مختلف ادارے بھاگے آتے ہیں تب پتہ چلتا ہے یہ کیسی جدید زندگی ہے جو ساری دنیا کے حالات و واقعات کو تو آپ کے اینڈرائڈ فون پر آنکھ جھپکتے پیش کردیتی ہے مگر، ایک بھائی، باپ اور شوہر کو اس وقت کسی تحقیقاتی ادارے سے یا میڈیا کی بریکنگ نیوز سے علم ہوتا ہے کہ اس کے اہل خانہ تو شام، عراق پہنچ چکے ہیں اور کسی دہشت گرد تنظیم کا آلہِ کار بن کر اسی ملک کی سلامتی پر سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔

جس نے انہیں ایک اچھی زندگی دی، ایک باعزت مقام دیا، انہیں بھوک سے نکال کر نہ صرف رزق حلال دیا بلکہ اپنے بدیسی معاشرے میں مدغم کرکے اپنا ہی ایک حصہ بنالیا۔ آج کا انسان سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ایک محرومی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوچکا ہے۔ آخر کیوں؟ تو اس کا آسان سا فارمولا ہے جس پر عمل کرکے ہم اپنے معاشرے سے نا اُمیدی اور مایوسی کے رنگوں کو ختم کرسکتے ہیں اور وہ اس طرح کی خوشیوں کو اپنے وجود میں نہیں بلکہ دوسرے افراد میں تلاش کریں۔ جب تک ہم خوش رہنا نہیں سیکھ لیتے اور جن خوبصورت رشتوں سے ہم جڑے ہوئے ہیں انہیں مناسب وقت نہیں دیتے اس وقت تک کسی نہ کسی دہشت گردی یا حادثات کا شکار بنتے رہیں گے۔

شہباز علی خان


ٹھٹھہ تاریخ کا ایک ورق

$
0
0

تاریخی عمارت بے جان نہیں ہوتیں، ان میں ایک تاثر ہوتا ہے یا تو اُس شخصیت کا جس سے عمارت منسوب ہے یا اس ماحول کا جو اس عمارت پر مسلط رہا۔ نظام الدین نے 900 ھ 1494 میں اس شہر کی بنیاد مکلی کی پہاڑی سے نیچے رکھی اس شہر کا نام پہاڑ کے نیچے آباد ہونے کی وجہ سے ’’تہہ تہہ‘‘ مشہور ہو گیا پھر آہستہ آہستہ لوگ اس شہر کو ٹھٹھہ کہنے لگے، ٹھٹھہ سندھ کا بہت ہی قدیم شہر ہے سندھ کی قدیم تا ریخ کی بہت سی علامات اور نشانیاں اس شہر میں ملتی ہیں اس شہر میں سندھ کے بڑے بڑے عالم، شاعر، درویش اور بادشاہ مدفون ہیں۔ 

اگرچہ سندھ کے بعض مورخین نے یہ بات لکھی ہے کہ ٹھٹھہ کی بنیاد جام نظام الدین نندا نے رکھی، لیکن ٹھٹھہ بہت پہلے سے آباد تھا۔ ہمیں ٹھٹھہ کا نام جام نظام الدین نندا سے پہلے پہلے محمد شاہ تغلق کے زمانے 751ھ 1350 میں بھی ملتا ہے اس سے قیاس ہوتا ہے کہ ٹھٹھہ آباد تو پہلے ہو چکا تھاغالباً جام نظام الدین نندا نے اپنی حکومت کے زمانے میں اسی شہر کی توسیع اور جدید تعمیر کی ہو گی جن کے باعث مشہور ہو گیا کہ جام نظام الدین نندا نے ٹھٹھہ کی بنیاد رکھی۔

ٹھٹھہ 651ھ ، 1253 (امیر خسرو کی پیدائش) سے بھی پہلے آباد تھا ورنہ نا ممکن ہے کہ یہ شہر اپنے آباد ہونے کے بعد 16 یا 19 سال کے نوجوان امیر خسرو کو اس قدر متاثر کرتا کہ وہ اپنے شعر میں اس شہر سے تشبیہ کا کام لے سرو چوتو، در اُچو و درتتہ بنا شد گل مثل رُخ خوب تو البتہ بنا شد ترجمہ: ترے مثل سرو اُچ اور ٹھٹھہ میں نہیں ہوگا۔ پھول تیرے حسین چہرے کے مثل ہر گز نہیں ہو سکتا۔ 

ٹھٹھہ کا ذکر کینجھر جھیل اور شاہ جہاں مسجد کے بغیر ادھورا ہے کینجھرجھیل کراچی سے 122 کلو میٹر اور ٹھٹھہ سے 18 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے یہ میٹھے پانی کی پاکستان میں دوسری بڑی جھیل ہے جس سے کراچی اور ٹھٹھہ کو پینے کا پانی فراہم کیا جاتا ہے۔   
جہاں سردیوں کے موسم میں دنیا بھر سے پرندے آتے ہیں اور افزائش نسل کرتے ہیں کینجھرجھیل ایک اہم تفریحی مقام بھی ہے جہاں کراچی، حیدرآباد، ٹھٹھہ و دیگر مقامات سے لوگ جوق در جوق اپنے اہل خانہ کے ساتھ آتے ہیں۔ کینجھرجھیل کی لمبائی 24 کلو میٹر اور چوڑائی 6 کلو میٹر ہے۔

 شاہ جہانی مسجد ٹھٹھہ شہرہ آفاق مسجد ہے جو شاہ جہاں کے حکم پر ٹھٹھہ کے صوبے دار میر ابوالبقاء نے اس زمانے میں بنوائی جب وہ دوسری مرتبہ ٹھٹھہ کا گورنر ہو کر آیا اس مسجد کی تعمیر 1054ھ 1644 میں شروع ہوئی اور 1057ھ 1647میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی اس کی تعمیر میں نو لاکھ صرف ہوئے، مسجد کی چھت پر 92 گنبد واقع ہیں ان میں تین بڑے اور مرکزی ہیں آثار قدیمہ کے ماہرین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اس قسم کی خوبصورت ٹائلس اور اینٹوں کے حسین و خوبصورت امتزاج کا دنیا میں یہ ہی واحد نمونہ ہے، مسجد کا رقبہ 170/305 فٹ ہے۔ 

ٹھٹھہ کی تاریخی اور سیاسی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں مسجد کے اطراف شالامار گارڈن کی طرز پر ایک چھوڑا سا باغیچہ تعمیر کیا گیا ہے۔ جس سے مسجد کی رونق مزید دوبالا ہو گئی ہے۔ اسی طرح یہ شہر مکلی قبرستان کی وجہ سے اپنی شہرت رکھتا ہے۔ یہ تاریخی قبرستان ہے۔
مکلی تقریباً 50فٹ بلند ایک پہاڑی اور اس کے اطراف کے علاقے کے نام ہے جو ٹھٹھہ شہر سے مغربی طرف ہے۔ 12 میل لمبی اس پہاڑی پر دنیا کا سب سے بڑا قبرستان واقع ہے۔ ٹھٹھہ شہر سے کراچی جانے والی نیشنل ہائی وے اس پہاڑی کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے، جنوبی حصہ میں حضرت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی، مخدوم ابو القاسم نقشبندی، مخدوم آدم نقشبندی کے مزارات ہیں جبکہ شمالی حصہ میں شہنشاہ مکلی سید عبداللہ شاہ صحابی، حضرت شاہ مراد شیرازی، شیخ جیئہ چراغ مکلی اور شکر الٰہی سادات کے مزارات ہیں، اس پہاڑی کا نام مکلی کیسے پڑا اس کے متعلق مختلف روایات موجود ہیں،جن کی تفصیل پھر کبھی سہی

محمد سعید جاوید

قاتل تعلیم --- شاہنواز فاروقی

$
0
0

امتحانات اور ان کے نتائج کا زمانہ طلبہ کے لیے ہمیشہ سے امیداوراندیشے کا زمانہ رہاہے۔ لیکن ہمارے زمانے تک آتے آتے یہ زندگی اورموت کا مسئلہ بن گیاہے۔ امریکا اور یورپ ہی میں نہیں جاپان اور کوریا جیسے ملکوں میں بھی ہرسال سیکڑوں طلباءامتحان میں اچھے نمبرحاصل نہ کرنے کی وجہ سے خود کشی کرلیتے ہیں یہاں تک کہ امریکا یورپ اور جاپان میں تو اچھے اسکولوں اور اچھے کالجوں میں داخلہ اتنا بڑا نفسیاتی دباﺅ بن چکاہے کہ وہ کروڑوں طلبہ کو نفسیاتی مریض بنادیتاہے۔ جو طلبہ اچھے اسکولوں اورکالجوں میں داخل ہوجاتے ہیں وہ اور ان کے والدین محسوس کرتے ہیں کہ انہیں جنت مل گئی اور جو طلبا اچھے اسکولوں اورکالجوں میں داخل نہیں ہوپاتے وہ اور ان کے والدین خیال کرتے ہیں کہ انہیں جہنم میں پھینک دیاگیاہے۔
پاکستان میں تعلیم کے منظرنامے پر اس حوالے سے بظاہرخاموشی کا راج نظرآتاہے تاہم حالیہ دنوں میں ایسی کئی خبریں اخبارات میں شائع ہوئی ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ امتحانات اور ان کے نتائج کے دباﺅنے ہمارے معاشرے میں بھی تعلیم کو قاتل تعلیم بنانا شروع کردیاہے۔ ان خبروں کے مطابق ملک کے کئی علاقوں میں طلبہ نے امتحانات میں اچھے نمبرنہ آنے کی وجہ سے خودکشی کرلی۔

زندگی ایک مستقل امتحان ہے اور اس کا دباﺅ جان لیواہے چنانچہ بچوں کو ابتداءہی سے چھوٹے موٹے امتحانات سے گزرنے اور ان کے دباﺅکو برداشت کرنے کی عادت ہونی چاہیے۔ تعلیم کے دائرے میں امتحانات کا عمل بچوں کو زندگی کے اصل امتحان کے قابل بنانے میں اہم کرداراداکرتاہے چنانچہ امتحانات میں”معمول کا نفسیاتی دباﺅ“ہوناہی چاہیے اس کے بغیربچوں کوپڑھنے اوربہترنتائج پیداکرکے دکھانے پر مائل نہیں کیاجاسکتا۔

لیکن ہمارے زمانے میں کئی ایسے محرکات پیداہوگئے ہیں جنہوں نے امتحانات اور ان کے نتائج کو طلبہ کے لیے غیرمعمولی اوراعصاب شکن بنادیاہے۔
ہمارے زمانے میں ایسے والدین کی بڑی تعداد موجود ہے جو خود اپنے زمانے میں اچھے طالب علم نہ تھے چنانچہ ایسے والدین اپنے بچوں کی امتحانی کارکردگی کواپنی ”ناکامیوں“کا مداوا بنا لیتے ہیں اور وہ بچوں کو امتحانات اور ان کے نتائج کے حوالے سے حدسے زیادہ حساس بنادیتے ہیں۔ ہم نے زندگی میں ایسے والدین بھی دیکھے ہیں کہ ان کے بچے نے کلاس میں دوسری پوزیشن حاصل کی مگر انہوں نے بچے کو اس طرح ڈانٹ پلائی جیسے وہ فیل ہوگیاہو۔ ایسے والدین اصرارکرتے ہیں کہ بچے کو ہرصورت میں کلاس میں ”فرسٹ“ آنا چاہیے۔ اس طرح کے والدین بچے کے نفسیاتی دباﺅ میں اپنا نفسیاتی دباﺅبھی شامل کردیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے بالخصوص ہمارے تعلیمی نظام کی ناکامی یہ ہے کہ اس نے امتحانی نتائج کو”پوری ذہانت“ بنادیاہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امتحانی نتائج طلبہ کی مجموعی ذہانت کا محض ایک حصہ ہیں۔

ہمارے امتحانی نظام میں رٹنے اوررٹے ہوئے کو دہرانے کی استعداد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور رٹنے کا عمل ذہانت کا پست درجہ ہے۔ ذہانت کا اعلیٰ درجہ تخلیق کرنے کی اہلیت سے متعلق ہے۔ ہمارے امتحانی نظام میں طلبہ پورے نصاب کی تیاری نہیں کرتے بلکہ وہ نصاب کے مخصوص حصوں کی تیاری کرتے ہیں اب یہ مقدرکی بات ہوتی ہے کہ طلبہ نے جن سوالات کی تیاری کی ہے وہی سوالات امتحان میں آئے ہیں یا نہیں۔ اکثرایسا ہوتاہے کہ بعض طالب علم 60 فیصد نصاب سے امتحان کی تیاری کرتے ہیں اور سو فیصد پرچہ حل کرلیتے ہیں اس کے برعکس بعض طلبہ 80 فیصد نصاب سے تیاری کرتے ہیں اور وہ 70 فیصد پرچہ حل کرکے آتے ہیں۔ اس عمل میں اصل چیزذہانت نہیں اتفاق ہے۔ جن طلبہ نے زیادہ نصاب پڑھا سوالات کے سلسلے میں ان کا ”تکّا“ نہیں لگا لیکن جن طلبہ نے کم نصاب پڑھ کر امتحان کی تیاری کی سوالات کے سلسلے میں ان کا ”تکّا“ لگ گیا۔

تاریخ عالم پرنظرڈالی جائے تو بڑے لوگوں کی عظیم اکثریت غیرمعمولی امتحانی ذہانت کی حامل نظرنہیں آتی۔ والمیکی سنسکرت کے تین بڑے شاعروں میں سے ایک ہے اور والمیکی ڈاکو تھا۔ لیکن پھرایک واقعے نے اس کی قلب ماہیت کردی اور اس نے رام کی زندگی کو منظم کرنے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ آئن اسٹائن کو 20 ویں صدی کا عظم ترین سائنسدان قراردیاگیاہے اور اپنے اسکول کے زمانے میں آئن اسٹائن اوسط درجے کا طالب علم بھی نہ تھا۔ حکیم الامت اور شاعرمشرق کہلانے والے اقبال نے اسکول اور کالج میں کبھی ”ٹاپ“ نہیں کیا۔ سعادت حسن منٹو اردوکے دوبڑے افسانہ نگاروں میں سے ایک ہے اوروہ میٹرک میں اردوکے پرچے میں ایک سے زیادہ مرتبہ فیل ہوا۔

اس سلسلے میں ہمیں اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ انسانوں میں ذہانت اور صلاحیت کے اظہارکی کوئی خاص عمرنہیں ہوتی۔ بعض لوگوں کی ذہانت اور صلاحیت بچپن ہی میں ظاہرہوجاتی ہے لیکن بعض لوگ بیس‘تیس یا چالیس سال کے بعد اپنی ذہانت اور صلاحیت ظاہرکرتے ہیں۔ چنانچہ بچوں کے سلسلے میں بسا اوقات والدین کو انتظارکرناپڑتاہے۔

والدین اور بالخصوص طلبہ کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ امتحانی نتائج بہت اہم ہیں مگر امتحانی نتائج زندگی کا حصہ ہیں پوری زندگی نہیں اوربرے یا کم اچھے نتائج سے زندگی ختم نہیں ہوجاتی اور نہ ہی زندہ رہنے کا جواز فناہوتاہے۔ جن معاشروں میں مذہب ایک مرکزی حکومت کے طورپر موجود نہیں ان معاشروں میں کسی کو یہ بات سمجھانادشوارہے مگر ہمارے معاشرے میں مذہب ہماری زندگی کا مرکزی حوالہ ہے چنانچہ ہمارے یہاں اساتذہ ‘والدین اور ذرائع ابلاغ کو یہ شعور پیدا کرنے میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی۔

بعض لوگ تعلیم اور امتحانی عمل کو ”کھیل“ بنانے کے خواہش مند ہوتے ہیں لیکن زندگی کھیل نہیں ہے اس لیے اس کے کھیلوں میں ایک طرح کی سنجیدگی اورمعنویت پیداکرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن تعلیمی نتائج اتنی سنجیدہ بات بھی نہیں کہ ان کے لیے زندگی ختم کردی جائے۔ ضرورت دراصل ایک ایسے متوازن شعورکی ہے جس میں امتحان اور اس کے نتائج طلبہ کے لیے موت کے خوف کے بجائے ایک چیلنج بن جائیں۔ چیلنج کے اندربھی خوف کا عنصرموجود ہوتاہے مگر چیلنج میں موجود خوف انسان کو متحرک کرتاہے۔ امیددلاتاہے۔ زندہ رہنے اور جدوجہد کرتے رہنے پرمائل کرتاہے۔ ہمارے طلبہ کو اگرخون کی ضرورت ہے تو چیلنج میں موجود خوف کی۔ ویسے بھی علم زندگی دینے کے لیے ہے‘ زندگی لینے کے لیے نہیں۔

شاہنواز فاروقی 


کتب خانے اور ہم - شاہنواز فاروقی

$
0
0

مسلمانوں کی تہذیب ”الکتاب“ کی تہذیب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی تاریخ کے بہترین زمانوں میں نہ صرف یہ کہ لاکھوں کتب تخلیق کیں بلکہ انہوں نے اپنے گھروں اور بستیوں کو بھی کتب خانے سے آباد کیا۔

ایک وقت تھا کہ مسلمانوں کے گھر کا تصور کتب خانے کے بغیر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ہر گھر میں کم یا زیادہ‘ مگر کچھ نہ کچھ کتابیں ضرور ہوتی تھیں۔ مسلمانوں کے بڑے بڑے شہر مثلاً بغداد‘ غرناطہ‘ قرطبہ اور دہلی اور چیزوں کے ساتھ ساتھ کتب خانوں کے لیے بھی مشہور تھے۔ تاتاریوں نے جب بغداد کو تاراج کیا تو انہوں نے بغداد کے مرکزی کتب خانے کو تباہ کردیا اور اس کی ساری کتابیں دجلہ میں بہا دیں۔ مورخین نے لکھا ہے کہ بغداد کے کتب خانے میںکتابوں کا اتنا بڑا ذخیرہ تھا کہ دریا کا پانی کئی ہفتوں تک سیاسی مائل رہا۔

مگر اقبال کے زمانے تک آتے آتے یہ صورت حال ہوگئی تھی کہ اقبال نے شکایت کرتے ہوئے کہا 

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں

اقبال کی اس شکایت کا لب لباب یہ ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعی تخلیقی لہر کمزور پڑ گئی ہے اور وہ کتابیں تخلیق کرنے والوں کے بجائے صرف کتابیِں پڑھنے والے بن کر رہ گئے ہیں۔ لیکن ہمارے دور میں مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ مسلمان کتابیں تخلیق کرنے والے کیا کتابیں پڑھنے والے بھی نہیں رہ گئے ہیں۔ چنانچہ ان کے گھروں اور بستیوں سے کتب خانے اور ان کا حسن و جمال اور ان کی معنویت بھی رخصت ہوگئی ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہم دس لاکھ‘ بیس لاکھ‘ پچاس لاکھ‘ ایک کروڑ‘ دو کروڑ اور پانچ کروڑ کے گھر خریدتے ہیں‘ ان مین دنیا کی کئی کئی مہنگی گاڑیاں رکھتے ہیں‘ دنیا کے جدید ترین آلات ہمارے گھروں کی زینت ہوتے ہیں‘ ہمارے ڈرائنگ رومز پر لاکھوں اور بسا اوقات کروڑ روپے صرف کردیے جاتے ہیں مگر ہمارے گھروں میں ایک چھوٹے سے کتب خانہ کی لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے گھروں میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ہماری روح‘ ہمارے دل اور ہمارے دماغ میں موجود ہوتا ہے مگر کتب خانے کے لیے ہمارے وجود میں کوئی جگہ نہیں۔ وہ نہ ہماری روح میں ہوتا ہے نہ ہمارے دل میں اور نہ ہمارے ذہن میں۔ چنانچہ کتب خانہ ہمارے گھروں میں موجود نہیں ہوتا۔

پاکستان میں کتب خانوں کا معاملہ کتنا سنگین ہوچکا ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ کراچی پاکستان کا سب سے بِڑا‘ سب سے جدید اور سب سے امیر شہر ہے۔ اس کی آبادی ڈیڑھ پونے دو کروڑ بتائی جاتی ہے مگر اتنے بڑے شہر میں ایک بھی ایسا کتب خانہ نہیں جہاں سے کتاب گھر کے لیے جاری کرائی جاسکے۔

حکیم محمد سعید بڑے علم پرور تھے اور انہوں نے مدینة الحکمت کے نام سے ایک بڑا کتب خانہ بھی قائم کیا مگر مدینة الحکمت اصل کراچی سے اتنی دور واقع ہے کہ وہاں جانے کا خیال تک انسان کو تھکا دیتا ہے۔ شہر میں آٹھ دس یقینا بڑے کتب خانے موجود ہیں مگر ان سے استفادے کے لیے کتب خانہ جانا اور وہیں بیٹھ کر کتاب پڑھنا ضروری ہے اور یہ کام کوئی ریٹائرڈ شخص ہی کرسکتا ہے۔

عام آدمی کی ضرورت ایسے کتب خانے ہیں جہاں سے وہ پندرہ بیس دن یا ایک ڈیڑھ ماہ کے لیے کئی کتابیں جاری کراکے گھر لاسکے اور انہیں گھر پر اپنی سہولت کے مطابق پڑھ سکے۔ لیکن ڈیڑھ پونے دو کروڑ کی آبادی میں ایک کتاب خانہ بھی ایسا نہیں اور اگر کہیں کوئی ایسا کتاب خانہ موجود بھی ہوگا تو وہ کسی مخصوص علاقے میں ہوگا اور اس کی اطلاع کتابوں کے شوقین عام افراد کو نہیں ہے۔

کتب خانوں کے کلچر کے خاتمے نے معاشرے کے افراد کو کتاب اور کتب خانے سے کتنا دور کردیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ معاشرے کے جن طبقات کو کتاب اور کتاب خانے سے سب سے زیادہ قریب ہونا چاہیے وہ کتاب اور کتب خانہ سے اتنا ہی دور کھڑے ہیں۔

ہم جب جامعہ کراچی کے شعبہ ¿ ابلاغ عامہ کے طالب علم تھے تو ہمیں ایک بار جامعہ کراچی کی مرکزی لائبریری پر ایک رپورٹ کرنے کا ”اسائنمنٹ“ ملا۔ ہم لائبریرین کے پاس پہنچے اور پوچھا کہ جامعہ کراچی کے اساتذہ کا آپ کے کتب خانے سے کیا تعلق ہے۔ کہنے لگے کہ جامعہ کے پچاس‘ ساٹھ فیصد اساتذہ کبھی بھی لائبریری نہیں آتے‘ بیس سے پچیس فیصد اساتذہ لائبریری سے کتب جاری کراتے ہیں مگر انہیں کئی کئی سال تک واپس نہیں کرتے جس سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ کتابیں تو لے جاتے ہیں مگر ان سے استفادہ نہیں کرتے۔

 البتہ پانچ سے دس فیصد اساتذہ ایسے ہیں جو پابندی سے لائبریری آتے ہیں‘ کئی کئی کتابیں جاری کراتے ہیں‘ انہیں وقت مقررہ پر واپس کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پرانی کتب کی جگہ نئی کتب جاری کراکے لے جاتے ہیں۔ ہمیں ایک بار جامعہ کراچی کی مرکزی لائبریری کے تہہ خانہ یا  میں جانے کا اتفاق ہوا تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں ہزاروں کتب دھول میں اٹی پڑی ہیں اورانہیں گزشتہ پندرہ بیس سال میں کسی نے بھی مطالعے کے لیے طلب نہیں کیا۔

صحافیوں کو اطلاعات کے سمندر میں غوطہ زن گروہ خیال کیا جاتا ہے لیکن عامل صحافیوں کی اکثریت وہ اخبار بھی پورا نہیں پڑھتی جس میں وہ کام کرتی ہے۔ رپورٹر حضرات کا عام طور پریہ حال ہے کہ کرائم رپورٹرز اخبارات میں صرف کرائم کی خبریں پڑھتے ہیں۔ اسپورٹس رپورٹرز صرف کھیلوں کی خبروں کا ”مطالعہ“ فرماتے ہیں۔ تجارت و صنعت کے شعبوں میں کام کرنے والے صرف تجارت و صنعت سے متعلق اطلاعات سے غرض رکھتے ہیں اور سیاسی زندگی کو رپورٹ کرنے والے صرف سیاسی خبروں کے مطالعے کا ”ذوق و شوق“ رکھتے ہیں۔

ہمیں بارہا کراچی پریس کلب کی لائبریری جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ ہم نے اسے یا تو خالی پایا یا یہ دیکھا کہ دو چار صحافی بیٹھے اخبارات و رسائل کا مطالعہ کررہے ہیں۔ شاعروں کی عظیم اکثریت کے بارے میں ہمارا بیس پچیس سال کا مشاہدہ اور تجربہ یہ

بتاتا ہے کہ وہ صرف شاعری پڑھتے ہیں‘ ادب کی دیگر اصناف مثلاً افسانہ یا ناول اور تنقید یا دیگر فنون مثلاً فلسفے‘ نفسیات اور عمرانیات سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ وہ ان علوم کے مطالعے کو اپنی شاعری کے لیے ”خطرہ“ سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے سنجیدہ مطالعے کا رخ کیا تو وہ شعر کہنے کے قابل نہیں رہ جائیں گے۔ ان کا شعور اور لاشعورمطالعے کے ”بوجھ“ میں ”دب“ کر رہ جائے گا۔ شاعری کے میدان میں ایک عمر صرف کرنے کے باوجود انہیں یہ معلوم نہیں کہ بڑی شاعری ”بڑے تجربے“ اور ”بڑے علم“ کے بغیر ممکن ہی نہیں۔

ہم نے اپنے زمانہ ¿ طالب علمی میں بچوں کے رسالے ”آنکھ مچولی“ میں کام کیا ہے۔ وہاں اکثر بچوں کے ایسے خطوط آتے تھے جن میں بچے بتاتے تھے کہ ہمارے والد یا والدین ہم سے بے پناہ محبت کرتے ہیں‘ وہ ہمیں مہنگے اسکولوں میں پڑھا رہے ہیں‘ وہ ہمیں بہترین لباس اور بہترین غذا مہیا کررہے ہیں مگر وہ ہمیں پانچ یا دس روپے کا رسالہ خرید کر نہیں دیتے کیونکہ وہ اسے سرمائے کا ضیاع اور رسالے کے مطالعے کو فضول سرگرمی سمجھتے ہیں۔ وہ ہم سے کہتے تھے کہ آپ ہمارے والدین کو سمجھائےں‘ انہیں بتائیں کہ رسالہ پڑھنے سے ہمیں نقصان نہیں فائدہ ہوگا۔

زندگی کی ایک بنیادی حقیقت یہ ہے کہ جو پڑھتا ہے وہی سوچتا ہے‘ جو سوچتا ہے وہی تخلیق کرتا ہے اور جو تخلیق کرتا ہے وہی قیادت کرتا ہے۔ مسلم دنیا کو پورے عالم کی قیادت کرنی ہے تو اسے شہر اور ٹاﺅن نہیں یونین کونسل کی سطح پر کتب خانے قائم کرنے ہوں گے اور ہمیں گھروں میں دوسری چیزوں کی طرح ایک چھوٹے سے کتب خانے کے لیے بھی جگہ نکالنی ہوگی۔ الکتاب کی تہذیب کتاب اور کتب خانے کی ضرورت اور محبت سے بے نیاز نہیں ہوسکتی۔

شاہنواز فاروقی 

پاکستان سپر لیگ میں ’پاکستان‘ کہاں تھا ؟

$
0
0

جس کا بے چینی سے انتظار تھا، وہ وقت آگیا، پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا باقاعدہ آغاز ہوگیا، مگر بدقسمتی یہ کہ دہشتگردی کے سبب یہ آغاز پاکستان میں نہیں ہوسکا، بلکہ دبئی میں ہوا ہے یہ کیا؟ چلیں حالات کے سبب اگر ایسا ہوا ہے تو ہم معاملات کو سمجھ سکتے ہیں، اور ساتھ ساتھ یہ اُمید بھی کرتے ہیں کہ پی ایس ایل کا اگلا سیزن پاکستان میں ہی ہو تاکہ ویران میدانوں سے مایوس شائقین کرکٹ کو کچھ خوشی میسر آسکے۔

 لیکن جب میں کل پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب دیکھ رہا تھا تو ذہن میں خیال آیا کہ پاکستان میں صرف لیگ کے انعقاد کا مسئلہ تھا، ایسا کہاں لکھا تھا کہ دبئی میں پاکستان کی ثقافت کو روشناس نہیں کروایا جاسکتا؟ مجھے یقین ہے کہ گزشتہ روز جس تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا اُس کا مرکز پاکستانی عوام ہی ہونگے، لیکن جو کچھ دکھایا گیا، وہ کچھ ایسا تھا کہ کم از کم میں تو اپنے گھر والوں کے ساتھ نہیں دیکھ سکا، آخر اُس میں ایسا کیا تھا اُس کی جھلک آپ بھی دیکھیے۔

حالانکہ پاکستان میں تو سندھ، خیبر پختونخواہ، کشمیر، گلگت بلتستان، پنجاب اور بلوچستان شامل ہیں، جہاں ایک مکمل مشترکہ خاندانی نظام رائج ہے، جس میں ماں باپ، بہن بھائی، سب باہمی رشتے سے جڑے ہوتے ہیں، اور جو کچھ پاکستان سپر لیگ کی افتتاحی تقریب میں میں ’پاکستان‘ کی ثقافت کے نام پر دکھایا گیا وہ کچھ عجیب ہی معلوم ہوا۔

اگر آپ لوگ ایسا سمجھ رہے ہیں کہ میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ تقریب میں داڑھیوں والے آکر نماز کا درس دیتے یا برقع پوش خواتین آکر پردے کے فیض و برکات بیان کرتیں تو آپ بالکل غلط سمجھ رہے ہیں کیونکہ ظاہر ہے وہ ایک انٹرٹینمنٹ کی تقریب تھی اور اس میں کچھ ہلہ گلہ کچھ کھیل تماشا ہونا چاہیے تھا، اگر نہیں ہوتا تو یہ عجب بات ہوتی، مگر یہ ضرور طے ہونا چاہیے تھا کہ وہ ہلہ گلہ کس قسم کا ہونا چاہیے تھا۔
 اگر بات اب بھی سمجھ نہیں آرہی تو میں تھوڑا سمجھانا چاہوں گا۔ دیکھیں یہ لیگ، یہ میچ، یہ کھیل جب ملکی سطح پر ہوتے ہیں تو ان کا مقصد صرف کھیل نہیں ہوتا یہ کسی قوم کے نظریات، ثقافت روایات اور تہذیب کا اظہار ہوتے ہیں۔ یہ دراصل باقی دنیا کو بتانے کا موقع ہے کہ ہم کیا ہیں؟ ہماری روایات کیا ہیں؟
نپولین نے کہا تھا، کسی ملک کی جنگیں اس کے کھیل کے میدانوں میں جیتی جاتی ہیں۔

 کیا ہی اچھا ہوتا یہ تقریب پاکستان میں ہی منعقد ہوتی۔ اب پہلا سوال اٹھے گا کہ سیکیورٹی کے مسائل کے سبب یہ ممکن نہیں تھا، تو اسکا جواب ہے کہ بے شک میچ پاکستان میں نہ رکھے جاتے کم ازکم افتتاحی تقریب تو پاکستان میں کی رکھی سکتی تھی۔ کیا ہماری پولیس ہماری ایلیٹ فورس یا باقی سیکیورٹی ادارے ایک تقریب کی حفاظت نہیں کرسکتے تھے؟ پاکستان میں تو اسکولوں، کالجوں کی بھی سیکیورٹی کا مسئلہ ہے، لیکن بند تو وہ بھی نہیں ناں؟ فیشن شوز ہوتے ہیں، ماڈلنگ شوز ہوتے ہیں، ریمپ پر واک ہوتی ہے مگر ایک پاکستان سپر لیگ کی سیکیورٹی نہیں ہوسکتی تھی؟

ذرا سوچیں یہ تقریب پاکستان میں ہوتی اس میں پاکستان کے تمام صوبوں کی ثقافت دکھائی جاتی، کشمیری رقص ہوتا، پنجابی لڈی ہوتی، خٹک ناچ ہوتا، بلوچستان کا روایتی وش ملے ہوتا، کیلاش اور چترال کی منفرد تہذیب کی جھلک ہوتی، گلگت بلتستان کا کلاسیکل ادب ہوتا، قصہ گوئی ہوتی تو کیا ہی عمدہ ہوتا۔ مطلب یہ ایک بہت بڑا موقع تھا کہ ایک طرف ہم دنیا میں پاکستان کی شناخت بہتر بناتے اور دوسری طرف ایک مثال قائم کرتے کہ ہماری تہذیب کتنی شاندار ہے

 اور پھر سوچیے جب اس انداز سے تقریب کا اہتمام ہوتا تو کیسے پوری پاکستانی قوم یک دل ہو کر ایک نظر نہ آتی۔ ہلہ گلہ ہوتا، ایک جوش و خروش ہوتا۔ سیکیورٹی کوئی اتنا بڑا مسئلہ تو نہیں، کیا ہوتا جو ایک روز ہماری صرف ایلیٹ فورس کی ڈیوٹی تمام سیاستدانوں کی حفاظت کے بجائےاس تقریب کی حفاظت پر لگادی جاتی۔
لہذا اگر واقعی پاکستان کا بھلا کرنا ہے تو آئندہ ایسی کوئی بھی تقریب کرنی ہو تو پاکستان میں کریں اور اس میں پاکستانی ثقافت کے رنگ دنیا کو دکھائیں۔ 

سیکیورٹی کا مسئلہ ہے تو پولیس کس لئے ہے؟ پولیس نہیں کرسکتی تو پھر فوج زندہ باد۔ یہی غلطی پاکستانی فلم انڈسٹری کے لوگوں نے کی کہ بھارتی ناچ گانے کا بھونڈا چربہ پاکستانی فلموں میں دکھانا شروع کردیا، اگرچہ پاکستان فلم انڈسٹری تو بتدریج کامیابی کی جانب جارہی ہے، لیکن اُس میں بھی دکھایا وہی جارہا ہے جو بھارتی فلموں میں دکھایا جاتا ہے، بس چہروں کا فرق ہے۔ اب ایسا ہی کچھ پاکستان سپر لیگ کے ساتھ ہونے جارہا ہے۔ تو براہ ِ کرم ایسا نہ کیجئے۔ کتے پر بکرا لکھنے سے وہ بکرا نہیں ہوجاتا۔

محمد عثمان فاروق


نجکاری کی جونک

بےگھر افراد کے لیے 'دیوار مہربانی'

$
0
0

 فروری دنیا میں کشمیریوں سے یکجہتی کے اظہار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پچھلے 68 سالوں کی طرح اب کی بار بھی اس دن کی مناسبت سے ٹی وی چینلز اور لاوڈ اسپیکرز پر بڑے زور وشور سے ظلم کی داستانیں بیان کی گئیں۔ اُس دن میں دوست کے ساتھ ایک ادبی میلے میں شرکت کیلئے گھر سے نکلا تو راستے میں جگہ جگہ بینرز آویزاں تھے۔

 دیواریں بھی رنگ رنگ کے نعروں سے بھری ہوئیں تھیں۔ کہیں مظلوم کشمیریوں کی ہمت کو سلام کہا گیا تھا تو کہیں ان کے ساتھ ہونے کا وعدہ کیا گیا تھا، اور میں نعروں کو پڑھ پڑھ کر سوچ رہا تھا کہ مظلوم کشمیریوں نے جن پاکستانیوں سے امیدیں وابسطہ کی ہوئی ہیں، وہ خود کتنے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔

دہشت گردی، بدامنی، باہمی اختلافات، غربت، کرپشن وغیرہ، میرے ذہن میں بار بار یہ سوال اٹھ رہا تھا کہ کیا مسلمان ان حالات سے نکل سکتے ہیں؟ ایسا کیا طریقہ ہے جو انہیں اپنانا چائیے؟ اور اسی سوچ میں آگے بڑھتے ہوئے ہمیں اس وقت رکنا پڑا جب ایک دیوار پر لکھا ہوا عجیب سا فقرہ نظر آیا، ’’دیوارِ مہربانی‘‘۔ ہم نے دیوارِ چین کا نام تو سنا تھا، دیوارِ برلن کا نام بھی سنا تھا لیکن دیوارِ مہربانی؟ 
یہ کون سی دیوار ہوسکتی ہے؟ مجھے سمجھ نہیں آیا تو دیوار کے پاس کھڑے دو، تین لڑکوں کے پاس جا کر پوچھا کہ یہ اس دیوار پر کیا لکھا ہے؟ بڑے ادب سے سلام کلام کے بعد انہوں نے تفصیل کچھ یوں بیان کی کہ بھائی آپ تو جانتے ہیں ہمارے ملک میں بہت زیادہ غربت ہے، بہت سارے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس پہننے کیلئے گرم کپڑے نہیں، جب کہ دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جن پر اللہ نے نعمتوں کی فراوانی عطا کی ہے۔ ان کے پاس ضرورت سے زیادہ کپڑے اور استعمال کی دیگر اشیا ہوتی ہیں۔

بے شک ان میں بہت سے افراد ہمدردی اور رحم کا جذبہ بھی رکھتے ہیں اس لئے وہ غریبوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں، اس طرح کے حالات ہمارے پڑوسی ملک ایران میں بھی ہیں۔ وہاں کے کچھ لوگوں نے ہمدردی کا جذبہ لیکر ایک دیوار پر ہینگرز لگا کر اپنی ضروریات سے زائد اضافی کپڑے اور اشیاء ان کے ساتھ لٹکا دیئے تاکہ جن غریب لوگوں کو ان ضرورت ہے وہ یہاں سے لے جاکر اپنے استمعال میں لاسکیں۔ اس دیوار کا نام انہوں نے دیوارِ مہربانی رکھ دیا۔ ہمدردی کا وہ جذبہ لوگوں کو اتنا پسند آیا کہ نہ صرف ایران کے تمام شہروں میں دیوارِ مہربانی قائم ہوگئی بلکہ پشاور میں بھی ایسی دیواریں بنا دی گئیں تو ہم نے بھی اسی جذبے کے تحت اس دیوار کو دیوارِ مہربانی قرار دے دیا ہے۔

پہلے مجھے یہ بات کچھ عجیب معلوم ہوئی، دیوار پر کپڑے لٹکانے سے کیا ہوسکتا ہے؟ کیا اس طرح غریبوں کی ساری ضروریات پوری ہوسکتی ہیں؟ کیا اتنا کرنے سے غریبوں کا حق ادا کیا جاسکتا ہے؟ اور اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کی حالت زار اور کچھ دیر پہلے ذہن میں اٹھنے والے سوالات یاد آگئے، مجھے وہ چھوٹے چھوٹے اقدامات  بہت بڑے لگنے لگے، کیوںکہ اس طرح دنیا کو بہت بڑا پیغام مل سکتا ہے۔ اس سے غربت تو ختم نہیں ہوگی لیکن ایک اچھی سوچ جنم لے سکتی ہے، سوچ کا بدل جانا حقیقی انقلاب ہے، جس کی ہمیں اشد ضرورت ہے۔ 

اس سے ہم دنیا کو یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ ہم انسان دوست اور امن پسند ہیں، یہ بہت اچھی شروعات ہیں۔ ان جوانوں کی سوچ کی پذیرائی لازمی ہے اور اگر ہم سب اس میں اپنا حصہ ڈالیں تو ہمدردی کی یہ دیواریں مل کر ایک بہت بڑی زنجیر کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔ ایران سے پشاور اور پشاور سے لاہور، یہ زنجیر پوری دنیا تک بھی پھیل سکتی ہے، بلکہ اِس کو ہر صورت پھیلانا چاہیئے۔

کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد ہم وہاں سے چل دئیے۔ مجھے سارے سوالوں کا جواب مل چکا تھا، مثبت سوچ اور عملی جدوجہد ہی مسلمانوں کو تمام مسائل سے نجات دلاسکتی ہے۔ انسانیت سے ہمدردی امن کا سب سے بڑا پیغام ہے۔ جس کے دل میں انسانوں کیلئے رحم کا جذبہ ہو وہ کبھی کرپشن کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ دہشت گردی کی اصل جڑ ہی بے رحمی اور انسانی ہمدردی کا فقدان ہے۔ ہمیں آنے والی نسلوں کیلئے رحمدلی اور باہمی ہمدردی کا کلچرعام کرنا چاہیئے اور ہر فرد اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ چھوٹے چھوٹے قدم تسلسل کے ساتھ ہو تو بڑے فاصلے طے ہوسکتے ہیں۔

شاہ خالد
 

The Rural Olympics, in Ludhiana, India

$
0
0
Indian villagers participate in a horse cart race during the 80th Kila Raipur Rural Sports Festival, also known as the Rural Olympics, in Ludhiana, India.
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live