Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

پی آئی اے، شاندار ماضی کا بُرا حال

$
0
0

  اسحاق ڈار صاحب نے گزشتہ دنوں فرمایا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز (پی آئی اے) جیسے ادارے کو اپنے پیروں پر کھڑا دیکھنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد قومی ائیر لائن کے حالات میں بہتری آئی ہے۔ سبحان اللہ! صدقے جاؤں میں اس ’’معصومیت‘‘ پر، کیونکہ اسحاق ڈار صاحب شاید بھول رہے ہیں کہ ان کے اس بیان سے پہلے نہیں بلکہ بعد میں قومی ائیرلائن کے حالات میں بہتری آئی ہے۔ ورنہ پی آئی اے ملازمین کا ملک گیر احتجاج اور کراچی ہیڈ آفس کے سامنے دھرنا پورے پاکستان نے دیکھا تھا۔

ذیل میں دی گئی تصویر بھی کچھ پرانی یادیں تازہ کر رہی ہے، ڈار صاحب کو چاہیئے کہ اس تصویر کو روزانہ صبح نہار منہ دیکھا کریں اور دوپہر اور رات کے کھانے کی جگہ بھی یہی تصویر دیکھیں تو بُرے بُرے خیالات آنے بند ہوجائیں گے اور واقعی پی آئی اے کے حالات میں بہتری آئے گی۔ ’’تصویر بولتی ہے‘‘ کہ مصداق، میں اس کی تشریح نہیں کروں گا قارئین خود سمجھدار ہیں۔
 
قارئین کو بتاتا چلوں کہ پی آئی اے کی نجکاری بالکل اس طرح ہے جیسے ہم اپنا ورثہ اپنی تاریخ بیچ دیں۔ پی آئی اے قائدِ اعظم محمد علی جناح کے حکم پر تشکیل پائی جو پہلے ’اوریینٹ ائیرویز‘ کے نام سے شروع ہوئی۔ قائد نے اس کی تشکیل کا آغاز پاکستان بننے سے پہلے 1946ء میں ہی کروا دیا تھا کہ نئے بننے والے ملک کو ائیر لائن کی ضرورت ہوگی۔
پی آئی اے کیوں ہمارے لیے دل و جان سے بھی زیادہ اہم ہے اور اِس نے ماضی میں کون کون سے کارنامے سرانجام دیے ہیں، آئیے ایک نظر دالتے ہیں۔
1962 میں پی آئی اے نے پائلٹ کیپٹن عبداللہ بیگ کی رہنمائی میں عالمی ریکارڈ قائم کیا اور لندن سے کراچی کی لگاتار فلائٹ 6 گھنٹوں، 43 منٹ اور 51 سیکنڈز میں مکمل کی۔ پی آئی اے نے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں سپلائی اور ٹرانسپورٹ کیلئے پاک فوج کے شانہ بشانہ کام کیا۔ پی آئی اے دنیا کی وہ پہلی ائیر لائن ہے جس نے پاکستان سے بنگلہ دیش ہیلی کاپٹر سروس کی ابتداء کی۔ یہ ایشیاء کی پہلی ائیر لائن ہے جس کو امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن اور برطانوی سول ایسوسی ایشن اتھارٹی نے مینٹیننس کااختیار دیا۔

پی آئی اے دنیا کی وہ پہلی واحد غیر کیمونسٹ فلائٹ تھی جو چین جاتی تھی اور ایشیاء اور یورپ براستہ ماسکو بھی جاتی رہی۔ پی آئی اے دنیا کی پہلی ائیرلائن ہے جس نے جہاز میں سب سے پہلے فلمیں دکھانے کا آغاز کیا۔ پی آئی اے جنوبی ایشیاء کی پہلی ائیرلائن ہے جس نے آٹو ٹکٹنگ کا نظام متعارف کروایا۔ پی آئی اے دنیا کی پہلی ائیرلائن ہے جو تاشقند گئی۔

پی آئی اے نے اپنے جہاز ادھار دے کر متحدہ عرب امارات کی موجودہ نمبر ون ائیرلائنز اتحاد اور ایمیرٹس کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں مدد دی اور کیبن کریو اور دیگر اسٹاف کی تربیت بھی کی اور غیر تصدیق شدہ معلومات کے مطابق اسحاق ڈار صاحب اتحاد ائیر لائن کو ہی پی آئی اے بیچ دینا چاہتے ہیں۔

ڈار صاحب کے اِس بیان کہ پی آئی اے کی نجکاری نہیں بلکہ اسٹریٹیجک شراکت داری چاہتے ہیں نے کچھ معاملات بہتر کئے ہیں ورنہ آپ جو ’’بہتری‘‘ پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق صدارتی آرڈیننس کے ذریعے لائے ہیں وہ سب کے سامنے ہے اور آپ مہربانی فرما کر یہاں بھی اپنی جمہوریت والا فارمولا لاگو کریں اور اس ادارے کو جیسا تیسا بھی ہے اپنے پیروں پر کھڑا رہنے دیں اس کی ٹانگیں نہ کھینچیں، وقت کے ساتھ ساتھ آپ کی جمہوریت جیسی مضبوطی اس ادارے میں بھی آجائے گی۔

اگر مسئلہ یہی ہے کہ ادارہ صحیح کام نہیں کر رہا اور اس مسئلے کا حل آپ کی نظر میں یہی ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کردی جائے تو پھر یہی فارمولا پارلیمنٹ پر بھی لاگو کریں اور قومی اسمبلی کی بھی نجکاری کردیں تاکہ وہ بھی صحیح کام کرنے لگے۔ کیا خیال ہے؟

محمد حسان



مودی کا پراسرار دورہ لا ہور اور کشمیر

دو چیفس کا معاملہ

ذاتی دوستی یا ملک کا مفاد؟

جاتی امرا، امرتسر سے جاتی امرا رائے ونڈ تک

$
0
0

’’کالعدم تنظیم‘‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جو اب عالمی سطح پر قبولیت کا درجہ رکھتی ہے۔ ہر ملک‘ خطے یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی کالعدم تنظیموںکی اپنی اپنی فہرستیں ہیں۔ امریکا کی جاری کردہ فہرست خاصی طویل ہے اور اس فہرست کو بنانے کے لیے اس نے صرف اور صرف اپنے مفادات کا دھیان رکھا ہے۔ اسے اس بات سے قطعاً کوئی سروکار نہیں کہ یہ تنظیم ہتھیار اٹھانے پر یقین رکھتی ہے یا نہیں‘ لیکن اگر صرف اس کے نظریات ہی اسقدر خطرناک ہیں کہ اس موجودہ کارپوریٹ سسٹم سے پیدا شدہ سیکولر جمہوری نظام کو نقصان پہنچ سکتا ہے تو ایسی تنظیم پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ بلکہ بعض دفعہ تو ایسی تنظیموں پر اپنے ملک میں پابندی نہیں لگائی جاتی تا کہ خود کو انسانی حقوق کا علمبردار ثابت کیا جا سکے‘ لیکن اپنے زیر اثر اور کاسہ لیس ممالک سے کہا جاتا ہے کہ ان پر پابندی عائد کر دی جائے۔

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی ایسی تنظیم کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے جو ہتھیار اٹھانے پر یقین نہیں رکھتی‘ امریکا‘ برطانیہ اور یورپی ممالک اپنے ہاں پابندی نہیں لگاتے‘ لیکن وہ تمام مسلم ممالک اس پر پابندی لگاتے ہیں جو خلافت اسلامیہ کا مرکزی حصہ رہے ہیں۔ یہ مثال اس لیے دی کہ کوئی ایسی تنظیم جو خواہ کسی دوسرے ملک میں کام کر رہی ہو لیکن اس کا نظریہ امریکی اور مغربی مفادات کے لیے خطرہ سمجھا جائے تو اس پر پابندی لگوا دی جاتی ہے۔ ہر کسی کو اپنی مفادات کے مطابق اپنے دشمنوں کو واضح کرنا اور ان سے علیحدہ ہو کر قطع تعلق کرنا اور ان کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کا حق حاصل ہے اور ہر ملک ایسا کرتا ہے۔
ایک تنظیم ایسی ہے جو برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں سے نفرت کی بنا پر 27 ستمبر1925ء بھارت کے شہر ناگ پور میں قائم کی گئی۔
 اس تنظیم پر سب سے پہلی پابندی 24 جنوری 1947ء کو متحدہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ ملک خضر حیات ٹوانہ نے لگائی۔ یہ پابندی صرف چار دن کے لیے رہی کیونکہ انگریز سرکار نے خضر حیات ٹوانہ کو ان کی ’’جمہوری اوقات‘‘ یاد دلا دی کہ وہ خود کو ہرگز منتخب وزیر اعلیٰ نہ سمجھیں‘ آپ اس گدی پر انگریز کی مہربانی سے تشریف فرما ہیں۔ دوسری دفعہ اس تنظیم کو 4فروری 1948ء کو بھارتی حکومت نے کالعدم قرار دیا کیونکہ اس کے ایک رکن تنھورام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس کالعدم تنظیم کو گاندھی کے قتل سے بری الذمہ قرار دے دیا لیکن آج تک یہ تنظیم گوڈسے کو ہیرو مانتی ہے اور اس کا یوم مناتی ہے۔

بھارت کی حکومت نے گیارہ جولائی 1949ء کو اس پر سے پابندی اٹھا دی۔ تیسری دفعہ جب اندرا گاندھی نے1975ء میں ملک میں ایمرجنسی لگائی تو اس کے خلاف ہنگامے کھڑے کرنے پر اس تنظیم کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ یہ ایک زیر زمین سرگرمیوں میں ملوث گروہ بن گئی لیکن 1977ء میں جیسے ہی ایمر جنسی ختم ہوئی تنظیم بھی کالعدم نہ رہی۔ یہ ہے راشٹریہ سیوک سنگھ جسے تین بار کالعدم ہونے کا اعزاز حاصل رہا اور جسے برصغیر کی سب سے بڑی شدت پسند مذہبی متعصب تنظیم کہا جاتا ہے اور مغرب کے ماہرین اسے دنیا کی سب سے بڑی این جی او گردانتے ہیں۔ اس تنظیم کے افکار و نظریات سے متفق تقریباً 21 تنظیموں کو اس کا دست و بازو جنھیں انگریزی میں  کہتے ہیں کا اعزاز حاصل ہے ان میں سب سے بڑی تنظیم ایک سیاسی پارٹی‘ بھارتیہ جنتا پارٹی ہے۔

یہ راشٹریہ سیوک سنگھ کے افکار و نظریات کا سیاسی چہرہ ہے۔ اسی لیے اس سیاسی پارٹی سے آج تک کسی ایسے شخص کو لیڈر‘ رہنما‘ وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم نامزد ہی نہیں کیاگیا جس کی جوانی یا ایک طویل عمر راشٹریہ سیوک سنگھ کے رضا کار کے طور پر نہ گزری ہو۔ اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی دونوں راشٹریہ سیوک سنگھ کے کئی دہائیوں تک رضاکار رہے ہیں اور ان کا اوڑھنا بچھونا اس کے نظریات ہیں۔ راشٹریہ سیوک سنگھ کے نظریات کیا ہیں۔ یہ ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ آپ ان کی ویب سائٹ پر جا کر انھیں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ تنظیم پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ نیپال اور سری لنکا کو ایک ہندو بھارت کا حصہ سمجھتی ہے جسے وہ اکھنڈ بھارت کہتے ہیںاور ان تمام کو دوبارہ ایک کرنے کی کوشش کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتی ہے۔

یہ تنظیم بھارت کے ترنگے پرچم کو نہیں مانتی کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ اس میں صرف ایک زرد رنگ ہونا چاہیے جو ہندو مذہب کی علامت ہے۔ یوں تو اس تنظیم کو کیشو بلی رام ہیگڑے نے قائم کیا لیکن اس کے خدوخال اور ہندو تعصب سے بھرپور ملٹری ونگ کی نشوونما مد سریش گول والکر نے کی جو اس وقت سربراہ تھا جب مہاتما گاندھی کو قتل کیا گیا۔ اس نے 1937ء سے 1939ء تک ہندو نوجوانوں کے ٹرینگ کیمپ قائم کیے اور انھیں ملٹری ٹرینگ دی۔ 1938ء میں اس کی مشہور کتاب راشٹرا ممنسا کا ہندی اور انگریزی میں ترجمہ شایع ہوا جس میں اس نے ’’ہم اور ہماری قومیت‘‘ کی تعریف کی تھی۔

یہ نظریات ہندو توا یعنی ہندو بھارت کے نظریات تھے۔ اس وقت اس تنظیم کے ایک لاکھ رضا کار تھے لیکن اس وقت اس نظریے پر جان دینے اور اس کے لیے بندوق اٹھانے والوں کی تعداد بیس لاکھ کے قریب ہے۔ گول والکر کے نظریات ہی اس وقت راشٹریہ سیوک سنگھ کے مینی فیسٹو کا حصہ ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی بنیادی اساس ہیں اس کے نظریات کی بنیاد یہ نعرے ہیں جو راشٹریہ سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی  کی بنیادی اساس ہیں اس کے نظریات کی بنیاد یہ نعرے ہیں جو راشٹریہ سیوک سنگھ اور بھارتی جنتا پارٹی  کے لیے اساس رکھتے ہیں اور دونوں تنظیمیں انھیں اپنا نصب العین سمجھتی ہیں۔ میں گول والکر کے انگریزی ترجمہ کو یہاں درج کر رہا ہوں کیونکہ اصل کتاب مراٹھی اور مینی فیسٹو  مراٹھی میں ہے۔ یہ ترجمہ بھی آر ایس ایس کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔

The Non- Hindu People of Hindustan must either adopt Hindu Culture and Language,must  respect and hold in reverence the Hindu religion, must entertain no idea but  those of glorification of Hindu race and culture. They may stay in this contry, wholly subordinated to Hindu Nation,claiming nothing, deserving no privileges,not even Citizen Rights.

ہندوستان کے غیر ہندو افراد ہندو ثقافت اور زبان کو اختیار کریں۔ ہندو مذہب کی عزت و تکریم کرنا سیکھیں‘ اپنے ذہن میں ہندو ثقافت اور ہندو نسل کی ستائش کے علاوہ کوئی خیال نہ لائیں۔ وہ یہاں رہ سکتے ہیں لیکن مکمل طور پر ماتحت اور کم درجہ میں‘ ہندو قوم کے محکوم‘ کوئی حقوق نہیں مانگ سکتے‘ یہاں تک کہ شہری ’’حقوق بھی‘‘ نہیں۔ یہاں گزشتہ پچاس سالوں میں راشٹریہ سیوک سنگھ‘ سنگھ پریوار اور بجرنگ دل کے مظالم بیان نہیں کرنا چاہتا۔ بابری مسجد کے واقعے سے لے کر گجرات میں قتل عام تک کچھ بیان نہیں کرنا چاہتا۔ صرف دو چھوٹی سی عرضداشتیں رکھنا چاہتا ہوں۔

مسلمانوں کو دنیا میں تعصب کے حوالے سے بدنام کیا جاتا ہے لیکن کیا کسی بھی مسلمان ملک میں ایسی متعصب‘ ظالم‘ دہشت گرد تنظیم جس پر بار بار پابندی بھی لگی ہو‘ صرف اپنے متعصب نظریات کی بنیاد پر الیکشن جیت کر حکومت بنا سکتی ہے لیکن بھارت کی سیکولر جمہوریت  میں ہندو متعصب  جتتا بھی ہے اور قتل عام بھی کرتا ہے۔ دوسرا سوال نریندر مودی کے پاکستان آمد پر خوبصورت تبصرے کرنے والوں سے ہے۔ ایک جاتی امرا امرتسر میں بھی ہے جس کی نقل پر جاتی امرا یہاں بنایا گیا ہے۔ جاتی امرا رائے ونڈ کے مکین اگر آج امرتسر والے جاتی امرا میں ہوتے شاید نریندر مودی ان کے ساتھ سالگرہ کا کیک نہ کاٹتا‘  اس سرزمین پر جس نے آپ کو اللہ کے مقدس نام پر امن عطا کیا‘ عزت دی‘ سکون دیا۔ اسی سرزمین پر آپ ایک ایسے شخص کی آمد پر خوش ہیں جس کی ساری زندگی آپ کو برباد کرنے کی جدوجہد میں صرف ہوئی۔ اللہ کے نام پر حاصل کیے اس ملک کا اس طرح تمسخر اڑائیں گے تو اللہ کے غضب کو ہی آواز دیں گے پھر سوال نہ کریں کہ زلزلے کیوں آتے ہیں۔

اوریا مقبول جان

زرداری صاحب ! آپ ٹھیک کہتے تھے

$
0
0

آصف علی زرداری میں بہت سی خامیاں ہیں۔ ہر انسان کی طرح زرداری صاحب نے بھی زندگی میں بہت غلطیاں کی ہیں اور ان کا خمیازہ بھی بھگتا۔ وہ اپنے کچھ دوستوں کو بڑا وفادار اور بہادر سمجھتے تھے لیکن ان دوستوں نے انکی کمر میں خنجر گھونپے اور جن کی وفاداری پر وہ شک کرتے تھے مشکل وقت میں ان میں سے اکثر لوگ زرداری صاحب کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن آج میں زرداری صاحب کی ایک ایسی پیش گوئی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو درست ثابت ہوئی۔

 یہ 2008ء کی بات ہے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت اسلام آباد میں سر جوڑ کر بیٹھی تھی کہ مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم، اے این پی اور کچھ دیگر چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائے یا مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر حکومت بنائے۔ اس وقت کے صدر پرویز مشرف کا زرداری صاحب کے ساتھ رابطہ تھا ۔ مشرف پی پی پی اور مسلم لیگ (ق) کی مخلوط حکومت بنا کر اپنی صدارت قائم رکھنا چاہتے تھے لیکن وہ مخدوم امین فہیم کو وزیر اعظم بنوانا چاہتے تھے۔

زرداری صاحب کو مشرف کے عزائم کا علم تھا اس لئے وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ حکومت بنانے میں زیادہ سنجیدہ تھے ۔مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی سے یہ تحریری وعدہ لینا چاہتی تھی کہ وہ حکومت بننے کے فوراً بعد معزول ججوں کو رہا کرنے کے علاوہ فوری طور پر بحال بھی کرے گی۔آصف علی زرداری تحریری وعدہ کرنے سے گریز کر رہے تھے ۔

یہ خاکسار ان ٹی وی اینکرز میں شامل تھا جن پر مشرف حکومت نے نومبر 2007ء میں پابندی لگا دی تھی کیونکہ ہم نے وکلاء تحریک کو بہت اجاگر کیا تھا ۔میری یہ رائے تھی کہ آصف علی زرداری کو نواز شریف کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ کرکے مخلوط حکومت بنا لینی چاہئے۔ ایک دن آصف علی زرداری نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے نواز شریف اور عمران خان کی طرح جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کو اپنی زندگی اور موت کا مسئلہ کیوں بنا رکھا ہے ؟
میں نے وضاحت کی کہ میرے سمیت اکثر صحافیوں کو افتخار محمد چوہدری کی ذات سے کوئی غرض نہیں ہم تو صرف آئین کی بالادستی چاہتے ہیں اور آئین کے مطابق چیف جسٹس کی برطرفی غلط ہے ۔زرداری صاحب نے کہا کہ میری بات لکھ کر جیب میں ڈال لو۔افتخار محمد چوہدری کا ایجنڈا آئینی نہیں بلکہ سیاسی ہے اور ایک دن وہ اپنی سیاسی جماعت بنائے گا جس کا نام جسٹس پارٹی ہو گا۔ میں نے زرداری صاحب کے اس دعوے کو مسترد کر دیا تو انہوں نے کہا کہ اس شخص نے 1999ء میں مشرف کی بغاوت کو جائز قرار دیا آج یہی شخص تمہارا ہیرو کیسے بن گیا ؟ میں نے زرداری صاحب کو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی تقریر کے وہ الفاظ یاد دلائے جن میں انہوں نے سابق چیف جسٹس کی رہائش گاہ کے باہر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ وہ اس گھر پر پاکستان کا پرچم دوبارہ لہرائیں گی۔ 

آصف علی زرداری نے یہ کہہ کر بحث ختم کر دی کہ میں زیادہ دلائل نہیں دوں گا لیکن یاد رکھنا افتخار محمد چوہدری کا مقصد آئین کی بالادستی نہیں بلکہ سیاست ہے۔ کچھ دنوں بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ایک تحریری معاہدہ کر لیا ۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف کی ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں مجھ سمیت دیگر اینکرز پر پابندی کے خاتمے کا اعلان ہو گیا اور ہم نے ٹی وی اسکرین پر جلوہ افروز ہوتے ہی معزول ججوں کی بحالی کے مطالبے کو دہرانا شروع کر دیا۔

آصف علی زرداری نے مخدوم امین فہیم کی بجائے مخدوم یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم بنوایا۔ نواز شریف کے ساتھ مل کر پرویز مشرف کو ایوان صدر سے نکالا اور خود صدر پاکستان بن گئے۔ وقت گزرتا گیا اور معزول ججوں کی بحالی کا معاہدہ لٹکتا گیا۔ میرے کالم اور تبصرے تیر و تلوار بن کر زرداری صاحب پر برس رہے تھے۔

ایک دن انہوں نے مجھے ایوان صدر بلایا اور کہا کہ مشرف کے ساتھیوں نے جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے ذریعے مجھے صدارتی الیکشن کیلئے نااہل قرار دلوانے کو کوشش کی لیکن ڈوگر صاحب نے انکار کر دیا جب تک ڈوگر صاحب کا وقت پورا نہیں ہوتا افتخار محمد چوہدری بحال نہیں ہو سکتے، آپ نے میرے بارے میں جو لکھنا اور بولنا ہے بولتے رہو لیکن مت بھولنا ایک دن یہی شخص سیاسی پارٹی بنا کر تم سب کو غلط ثابت کر دے گا ۔پھر یہ ہوا کہ معزول ججوں کی بحالی کا وعدہ پورا نہ ہونے پر مسلم لیگ (ن) حکومت سے نکل گئی، پنجاب میں گورنر راج نافذ ہو گیا۔ نواز شریف اور عمران خان سڑکوں پر آگئے اور آخر کار افتخار محمد چوہدری بحال ہو گئے۔ ہم نے اس بحالی کو آئین کی فتح قرار دیا۔

ایک قصہ اور سن لیجئے۔ جب پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتیں مل کر اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صدر کو حاصل اختیارات وزیر اعظم کو منتقل کرنے کی تیاریوں میں تھیں تو ایک دن میں نے زرداری صاحب سے پوچھا کہ آپ نے افتخار محمد چوہدری کو بحال کرنے میں بہت دیر لگائی لیکن صدر کے اختیارات ختم کرنے پر اتنی جلدی کیسے راضی ہو گئے؟زرداری صاحب نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ میں چاہوں تو نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم نہیں بن سکتے لیکن میں اس ترمیم کے ذریعے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے پر پابندی ختم کروں گا 

کیونکہ یہ پابندی ایک فوجی صدر نے لگائی، پھر وہ مسکرائے اور کہا کہ میں چاہتا ہوں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنیں اور انہیں پتہ چلے کہ میں افتخار محمد چوہدری کے بارے میں جو کہتا تھا وہ سچ تھا۔ کچھ دن پہلے افتخار محمد چوہدری صاحب نے اپنی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا تو مجھے آصف علی زرداری بہت یاد آئے ۔وہ صحیح اور میں غلط ثابت ہوا۔سیاسی جماعت بنانا کوئی بری بات نہیں۔

افتخار محمد چوہدری سمیت ہر پاکستانی شہری کو نئی سیاسی جماعت بنانے کا حق حاصل ہے لیکن حیرانگی اس بات پر ہوئی کہ سابق چیف جسٹس نے پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لانے کیلئے جدوجہد کا اعلان کر دیا ۔وہ یہ کیسے بھول گئے کہ 1962ء میں جنرل ایوب خان نے نئے آئین کے ذریعے صدارتی نظام نافذ کیا تھا۔یہ آئین چیف جسٹس شہاب الدین نے بنا کر دیا تھا ۔ اسی آئین کے تحت 1965ء میں صدارتی انتخاب ہوا جس میں محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان کا مقابلہ کیا۔

جنرل صاحب نے قائد اعظم ؒ کی بہن کو انڈین ایجنٹ قرار دیا اور دھاندلی سے الیکشن جیت لیا۔اسی صدارتی نظام میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے راستے جدا ہوئے۔ 1973ء میں پارلیمانی نظام لایا گیا لیکن جنرل ضیاءالحق نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے اس نظام کو دوبارہ صدارتی بنا دیا۔ جنرل مشرف نے بھی سترہویں ترمیم کے ذریعے صدارتی نظام کو بحال کیا۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ صدارتی نظام ایک دفعہ نہیں تین دفعہ آزمایا جا چکا ہے۔

ایوب خان کے وزیر قانون ایس ایم ظفر کہتے ہیں کہ صدارتی نظام اچھی چیز ہے لیکن پاکستان کیلئے مناسب نہیں ہے ۔کچھ لوگ صدارتی نظام کے حق میں قائد اعظم ؒکا نام استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قائداعظم ؒ صدارتی نظام کے حامی تھے۔ قائد اعظم ؒنے مہاتما گاندھی اور امبیدکر کی طرح صدارتی نظام پر غور تو کیا لیکن اس کے حق میں کوئی فیصلہ نہ دیا۔ انہوں نے 25 مارچ 1948ء کو چٹاگانگ میں سرکاری افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ عوام کی حکومت ہے اور جمہوری اصولوں کے مطابق اور پارلیمانی روایات کے مطابق عوام کو جواب دہ ہے۔

 قائد اعظمؒ نے پارلیمانی روایات کے مطابق گورنر جنرل بننے کے بعد مسلم لیگ کی صدارت چھوڑ دی تھی۔ قائد اعظم ؒکے ساتھیوں نے 1956ء میں جو آئین بنایا وہ پارلیمانی تھا صدارتی نہیں تھا۔ افتخار محمد چوہدری صاحب کو اپنی رائے کے اظہار کا پورا حق ہے اسی طرح ہم بھی اپنے حق کو استعمال کرتے ہوئے انہیں یاد دلائیں گے کہ 12دسمبر 2013ء کو انہوں نے سپریم کورٹ میں اپنے الوداعی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جس آئین کی بالادستی کیلئے عدلیہ کی قربانیوں کا ذکر کیا وہ پارلیمانی ہے صدارتی نہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ آپ نے زرداری صاحب کو صحیح اور مجھے غلط ثابت کر دیا ہے

حامد میر
 بشکریہ روزنامہ "جنگ"


تصورِ آخرت سے عاری معاشرے

$
0
0

جرم و سزا کی دنیا وقت کے ساتھ پیچیدہ اور گھنجلک ہوتی چلی جا رہی ہے۔ جہاں انسان نے جرم کا سراغ لگانے کے لیے نت نئی ایجادات کیں، بیشمار طریقے اختیار کیے ، وہیں مجرموں نے جرائم کرنے اور انھیں چھپانے کے سو طریقے ڈھونڈ نکالے۔ شہر بڑے ہوئے تو جرم بھی تکنیکی اعتبار سے مضبوط ہوتا چلا گیا اور انسانی معاشرہ سے جرائم کے خاتمے کے لیے بھی اداروں کا جال بچھتا چلا گیا۔لیکن جرم و سزا کی اس داستان کا مرکزی خیال وہی ہے کہ قانون جس کام کوجرم قرار دے دے ،وہی جرم ہے، وہی قابلِ تعزیر ہے، قابلِ دست اندازئی پولیس ہے اور اسی کا مجرم سزا کا مستحق ہے۔

خاوند یا بیوی کو دھوکا دینا چونکہ اسقدر بڑا جرم نہیں کہ اس کے مجرم کو سزا دی جائے تو ایسا کرنے والے کے خلاف دوسرا فریق صرف طلاق کا مقدمہ درج کر کے علیحدگی اختیار کر سکتا ہے۔ لیکن اس علیحدگی کے نتیجے میں جو اولاد پر بیتتی ہے، جو ان کی نفسیاتی نشونما اور اخلاقی تربیت متاثر ہوتی ہے۔

وہ عمر بھر کے لیے نفسیاتی الجھنوں کو ساتھ لیے پھرتے ہیں لیکن اس جرم کا مقدمہ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک بھی دائر نہیں ہو سکتا۔ لاکھوں کے حساب سے جنس کا کاروبار کرنے والی خواتین جنھیں آج کے انسانی حقوق کی دنیا میں سیکس ورکر کے ’’باعزت لقب ‘‘سے یاد کیا جاتا ہے ، اگر وہ اپنے اس پیشہ یا پروفیشن  کے مخصوص حالات کی وجہ سے بد ترین بیماریوں کا شکار ہو کر بسترِمرگ سے لگ جاتی ہیں تو کیا آج کے  دور کاکوئی مہذب معاشرہ دنیا میں وجود رکھتا ہے کہ ان لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر کے جن کی ہوس نے ان عورتوں کو موت کے دروازے پر جا پہنچایا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ایسی خواتین کی مدد کے لیے عالمی سطح پر این جی اوز متحرک ہو جاتی ہیں لیکن چونکہ قانون ایسا کرنے والوں کو مجرم نہیں گردانتا ، حکومت انھیں صرف بد احتیاط کہہ کر چپ ہو جاتی ہے ، اس لیے چاہے ہزاروں عورتیں جان سے چلی جائیں ان مجرموں پر مقدمہ نہیں چل سکتا۔ایسے ہزاروں معاملات ہیں جہاں انسانوں نے اپنے مفادات کے تابع قانون سازی کی اور آج اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔ آپ ہر ایسے قانون کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں جہاں انسان کے وضع کردہ ضابطئہ اخلاق کے تحت بہت سے جرائم کو قانون کی فہرست سے خارج کر دیا گیا تو وہاں آپ کو اس کے پسِ پردہ اربوں ڈالر کا مفاد نظر ضرورآئے گا ۔

شراب پینا جرم نہیں ہے ، لیکن شراب پی کر گاڑی چلانا، جہاز اُڑانا جرم ہے۔ اس لیے کہ اس کے پیچھے اربوں ڈالر کا شراب کا کاروبار ہے۔ میڈیسن کے علم کے مطابق شراب کے استعمال سے جو بیماریاں پیدا ہوتی ہیں انھیں  سے جڑی  بیماریوں اور پاگل پن کا کہا جاتاہے۔ اسی طرح عورتوں کے کاروبار کو دنیا کے کسی ’’مہذب‘‘ ملک میں بذات خود منع نہیں کیا گیا ہے۔ یعنی اگر ایک عورت خود اپنا جسم بیچتی ہے تو وہ جرم نہیں ہے، البتہ اس عورت کو ایسا کرنے پر مجبور کرنے یا پھر اس کے ایسا کرنے کی دلالی یا موجودہ دورمیں مارکیٹنگ جرم ہے ۔ 

فحش فلموں کا کاروبار بذاتِ خود جرم نہیں ہے، البتہ ان فلموں میں کام کرنے والوں کے لیے بالغ یعنی 18سال کا ہونا ضروری ہے۔اس لیے کہ اس کے پیچھے اربوں ڈالر کی انڈسٹری ہے۔ عورت کو کاروبار کے لیے استعمال کرنا جرم ہے لیکن کاروبار کی مارکیٹنگ کے لیے اسے نیم برہنہ تک کر کے اور پھر ہر چوک و چوراہے پر اس کی تصاویر لگانا کوئی جرم نہیں ہے۔ انسان نے جب بھی قانون سازی کی اسے اپنے ذاتی سیاسی اور کاروباری مفاد کے تا بع رکھ کر کیا۔

 بے راہ روی کو رواج دینے کے لیے شادی کی ایک حد مقرر کر دی گئی اور اس کے لیے سو طرح کی دلیلیں گھڑی گئیں ، پوری دنیا میں ممالک سے قانون مرتب کروائے گئے ۔ اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادی پر پابندی لگا دی گئی ، نتیجہ یہ نکلا کہ صرف امریکا میں ہر سال دس لاکھ اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکیاں مائیں بنتی ہیں۔ یعنی قانون کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادی جرم ہے اور قابلِ دست اندازی پولیس ہے۔لیکن اٹھارہ سال سے کم عمر ماں بننا جرم نہیں بلکہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے اوراس کے لیے این جی اوز کو آگے آنا چاہیے اور ان لڑکیوں کی مدد کرنا چاہیے۔

انسانوں نے اپنے لیے قانون بنائے ،معاشرے تخلیق کیے ،لیکن یہ تمام قوانین موجودہ سیکولر نظام ِ زندگی کا تحفہ ہیں ۔سیکولر نظامِ زندگی کی کوکھ سے سرمایہ دارانہ جمہوریت نے جنم لیا جس نے انسانوں کو یہ پٹی پڑھائی کہ مذہبی اخلاقیات اور قوانین کا تعلق نہ حکومت سے ہے اور نہ ہی اجتماعی زندگی سے ۔انسانوں کی اکثریت جیسا قانون چاہے بنا سکتی ہے اور اسے نافذ کر سکتی ہے اور یہی بہترین طرزِ زندگی اور انصاف کا موجودہ خوبصورت تصور ہے ۔

یعنی سب جرم ،سزا،عدل و انصاف اسی دنیا میں ہی ہو گا چونکہ اس کائنات کا کوئی خالق نہیں ہے جو قانون عطا کرنے کا اختیار رکھتا ہو،اس لیے کہ آخرت بھی وجود نہیں رکھتی ۔ہمیں اسمبلیوں کے ذریعے ہی انصاف کو قوانین کے ذریعے نافذ کرنا ہے۔آپ دنیا کے دو سو کے قریب ممالک کے قوانین کامطالعہ کر لیں، آپ سوچتے سوچتے بے بس ہو جائیں گے، لیکن آپ حتمی اور آخری انصاف کی ایک جھلک بھی وہاںنظر نہیں آئے گی۔ یہ سب کے سب قوانین انسانوں کو مکمل انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہیں ۔ وہ قانون جس سے بچ نکلنے کے ہزار راستے موجود ہوں ،وہاں مکمل انصاف کا تصور ہی نہیں ہو سکتا۔جہاں شہادت تلف کر کے گواہ خاموش کروا کر انصاف کو روکا جا سکے وہاں کیسے مکمل انصاف کیا جا سکتا ہے ۔

اﷲ اورآخرت کے تصور کے بغیر نہ معاشرے تخلیق پا سکتے ہیں اور نہ ہی مکمل انصاف کا تصور وجود میں آتا ہے۔تصور کیجیے دنیا کے مہذب ترین ممالک کا اور پھر سوچیئے کہ ایک شخص اپنے وسیع و عریض گھر میں رات کو انواع و اقسام کے کھانے کھا رہا ہے اور اس کا پڑوسی بھوک کی شدت سے مر جاتا ہے۔کیا دنیا کا کوئی قانون اس امیر شخص پر فردِ جرم عائد کر سکتا ہے۔ کسی تیز رفتار گاڑی کو حادثہ پیش آتا ہے۔ سنسان سڑک پر ایک شخص زخمی کو چھوڑ کر گزر جاتا ہے، زخمی مر جاتا ہے، کیا کوئی قانون اس شخص کو حراست میں لے سکتا ہے۔

آپ دولت جمع کریں، ڈھیر لگا دیں ،ذاتی عیاشیوں پر خرچ کریں ۔اس دنیا میں کوئی قانون آپ کو گرفت میں نہیں لے سکتا۔یہی نا مکمل نظام انصاف ہے کہ اس وقت دنیا میں 430کے قریب ایسے افراد ہیں جن کی دولت اگر دنیا میں تقسیم کر دی جائے تو کوئی بھوکا ،ننگا،بے روز گار نہ رہے۔50 لوگوں کے پاس دنیا کی 65%دولت ہے۔ لیکن کوئی قانون انھیں اس دولت کو غریبوں پر تقسیم کرنے کے لیے جزا اور تقسیم نہ کرنے پر سزا نہیں دیتا۔

دنیا کا کوئی قانون اس دنیا میں ہونے والے جرائم پر مکمل انصاف فراہم کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ہزاروں لوگوں کے قتل کے بدلے صرف ایک انسان کی موت اور وہ بھی اب کئی ممالک میں ختم ہو چکی۔یہ نا مکمل نظامِ انصاف کیوں ہے۔اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس دنیا کو انصاف و عدل کے لیے نہیں امتحان کے لیے تخلیق کیا۔البتہ اس دنیا کو امن و آشتی اور سکون و اطمینان کا گہوارہ بنانے کے لیے اس نے کچھ قوانین بتا دیے تاکہ انسانی زندگی اچھی طرح رواں دواں ہو سکے۔

جیسے کہا گیا کہ قصاص میں تمھارے لیے زندگی رکھ دی گئی ۔چوری اور زنا کو سخت ترین سزاؤں سے روکا گیاتاکہ معاشرہ صالح ہو مکمل انصاف کے لیے اﷲ نے یوم آخرت مقرر کر رکھا ہے۔ اسی لیے اﷲ نے ایمان والوں سے تقاضا کیا ہے کہ وہ اﷲ ،اُس کے رسول،فرشتوں اور کتابوں پر ایمان لائیں لیکن آخرت کے دن پر یقین پیدا کریں ۔آخرت کا دن دنیا میں دو طرح کے تصور کو جنم دیتا ہے، ایک مکمل انصاف اور دوسرا مکمل جزا اوراجر،روز حشر ۔انصاف کے مکمل ہونے کے لیے اﷲ نے تمام لوازمات بنائے ہیں گواہی کے لیے ہاتھ اور پاؤں کو خود بولنے کی اجازت دی جائے گی۔آخرت کا یہی خوف کسی بھی معاشرے کو پُر امن رکھتا ہے ۔دوسرا اجر کا تصورہے۔ یہ لوگوں میں نیکی اور انسانوں سے ہمدردی کو جنم دیتا ہے۔

آج دنیا کے مخیر حضرات کی فہرست اُٹھا لیں اور ان کی زندگیوں کے حالات پڑھیں ۔مسلمان،ہندو،سکھ،عیسائی ،یہیودی سب کے سب آپ کو انسانوں کی مدد کرتے اس لیے نظر آئیں گے کہ انھیں آخرت میں مکمل اجر کی اُمید اور توقع ہوتی ہے۔گذشتہ صدی میں آدھی دنیا پر ایک نظام رائج رہا جسے کیمونزم کہتے ہیں ۔اس نظام میں اﷲ کے تصور کو انسانی زندگی سے خارج کر دیا گیا۔پورے کے پورے معاشرے دہریے ہو گئے اور آج جب کہ وہاں سرمایہ داری کا نظام لوٹ آیا ہے ،معاشرے میں سرمایہ دار بھی آ گئے ہیں لیکن روس ،چین اور شمالی کوریا وغیرہ میں آپ کو انسانوں پر خرچ کرنے والے مخیر حضرات کا نشان نہیں ملے گا۔اس لیے کہ خیرات اور انسانی بھلائی کے پیچھے سب سے بڑا جذبہ آخرت میں اﷲ کی خوشنودی ہے۔ کیا یہ دنیا ،حکومتیں ،انسان اور معاشرے مذہب کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیںہر گز نہیں ۔

یہ تمام معاشرے جو آج زندہ ہیں انھوں نے تمام قوانین مذہب سے ادھار لیے ہیں ،سچ بولنا،غیبت نہ کرنا،جھوٹی گواہی نہ دینا،دھوکا اور فریب سے اجتناب وغیرہ یہ سب اصول مذہب نے متعین کیے اور دنیا میں کسی جمہوریت میںیہ دم نہیںکہ انھیں تبدیل کر سکے۔

کیا کوئی پارلمینٹ 100%ووٹ سے جھوٹ بولنا، دھوکا دینا یا چوری کرنا جائز قرار دے سکتی ہے۔ مذہب تمام عالمی اخلاقیات کا باپ ہے۔ سیکولر طرزِ زندگی کا کمال یہ ہے کہ، اپنی زندگی میں باپ کے تمام اصولوں کو نافذ کر تاہے لیکن باپ کی اولاد ہونے سے انکار کر دیتا ہے۔ سیکولر ازم الحاد اور دہریت کی پہلی سیڑھی ہے ۔اﷲ اور آخرت کا تصور انسانی معاشرے سے خارج کر کے دیکھو ،دنیا کی ہر حکومت ایسے ہو گی جیسے وہ ایک منہ زور گھوڑے کو قابو کر رہی ہے اور گھوڑا اُسے گرا کر دور نکل جاتا ہے

اور یہ گھوڑاحرص ،ہوس،خود غرضی ،لالچ ،جنس اور خواہشات کا گھوڑا ہے جسے صرف قوانین ِ الٰہی قابو کر سکتے ہیں۔ورنہ سب خسارہ ،جنگیں ،کروڑوں کی موت،بے سکون،بے مہر اور بے اطمینان معاشرے۔

اوریا مقبول جان

کسی اچھے حکمران کی تلاش

$
0
0

انسانوں کے خالق اللہ تبارک تعالیٰ نے انسان کو دو بازو دیے اور ان کے سر پر ہاتھوں کی صورت میں تاج سجائے چنانچہ یہی تاج والے بازو ہیں جن کے سہارے انسان زندگی بسر کرتا ہے یہی روٹی روزی کا ذریعہ بنتے ہیں اور انھی ہاتھوں سے میں یہ سطریں بھی لکھ رہا ہوں وہ انسان ایک نا مکمل انسان ہے جس کے بازو نہ ہوں یا جو ہاتھوں سے محروم ہو جن کی انگلیوں اور ہتھیلیوں نے کبھی دلآویز لمس محسوس نہ کیا ہو لیکن تقدیر اگر کسی انسان کو ہاتھوں سے محروم کر دے اور وہ ٹنڈ منڈ بازوؤں کے سہارے زندگی گزارنے کی کوشش کرے تو شاید سانس تو لیتا رہے مگر ایک بے جان مشین کی طرح ایک ایسی ہی بے جان مشین ان دنوں ضلع حافظ آباد کے ایک گاؤں میں کسی کی سنگ دلی کا تماشا بنی ہوئی ہے۔

جوریاں گاؤں کا نوجوان ابوبکر عرف اکرم سے اس کا زمیندار اس کے کام نہ کرنے سے اس قدر برہم ہوا کہ اس نوجوان کے دونوں ہاتھ چارہ کاٹنے والی مشین میں دے دیے جو کٹ گئے۔ جب یہ خبر وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کو ملی تو وہ گاؤں میں اس مضروب کے پاس پہنچے اس سے تفصیلات معلوم کیں اور اسے تسلی دی کہ اس کے زخم کا ہر ممکن ازالہ کیا جائے گا۔ دس لاکھ روپے دیے اور سرکاری خرچ پر مصنوعی ہاتھ لگانے کے بعد اسے سرکاری ملازمت بھی دی جائے گی۔
مگر یہ ہاتھ کٹا ابوبکر عرف اکرم اپنی باقی زندگی کس طرح گزارے گا یہ میاں صاحب کو معلوم ہو گا یا اس زمیندار کو جس کے اس جرم کے بارے میں میاں صاحب مکمل غیر جانبدار انکوائری کرا رہے ہیں۔ اس کے ہاتھ تو کٹ چکے اب انکوائری کس بات کی۔ اس کا ازالہ تو صرف ایک ہی صورت میں ہو سکتا ہے جو سراسر اسلامی ہے وہ یہ کہ مجرم کے ہاتھ بھی کاٹ دیے جائیں اس چارہ کاٹنے والی مشین سے جس نے اکرم کی زندگی تباہ کر دی ہے۔

یہ دس لاکھ روپے اور سرکاری نوکری اگر کسی نوجوان کے دونوں ہاتھوں کا معاوضہ ہو سکتا ہے تو دس دس لاکھ روپوں کی گڈیاں بنا کر اس بہادر زمیندار کے عزیز نوجوانوں کو پیش کر دی جائیں ان کے ہاتھوں کے عوض۔ آنکھ کے بدلے آنکھ تو اس کو ہی کہتے ہیں اور دنیا کا کوئی قانون اسے بے انصافی نہیں کہہ سکتا بلکہ بے انصافی تو یہ ہے کہ مجرم کو اس کے جرم کی سزا نہ دی جائے اور دی بھی جائے تو کوئی ایسی سزا دی جائے جو اس کے جرم کے برابر نہ ہو۔ اس کے ہاتھ تو سلامت رہیں مگر اس کے کسی کمزور کے ہاتھ کاٹ کر زمیندار کے کسی کتے کو ڈال دیے جائیں۔

حضور پاکؐ  نے فرمایا تھا کہ وہ قومیں تباہ ہوئیں جن کے بڑوں کے لیے الگ قانون ہوتے تھے اور کمزوروں کے لیے الگ۔ حضور پاکؐ کی کچہری میں جب رئیس خاندان کی کسی مسماۃ فاطمہ کے خلاف چوری کا مقدمہ پیش ہوا تو اہل مکہ نے سفارش کی کہ یہ بڑے باپ اور بااثر قبیلے کی بیٹی ہے اسے معاف کر دیں تو حضور پاک نے فرمایا کہ اس کی جگہ اگر ہماری بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو میں اسے بھی معاف نہ کرتا۔ ہمارے صوبے کے حاکم میاں شہباز شریف کے آئیڈیل حکمران حضرت عمر بن عبدالعزیز ہیں۔ میں نے ان سے رابطہ نہیں کیا لیکن انھیں مجھ سے زیادہ معلوم ہو گا کہ اصل صورت حال کیا ہے اور انصاف کیسے کیا جا سکتا ہے۔

حضرت ابو بکر صدیقؓ  نے فرمایا تھا کہ جسے مسلمانوں کا سربراہ بنایا گیا گویا اسے کند چھری سے ذبح کر دیا گیا۔ ہم لوگ جو باہر بیٹھے ہیں اور کسی ایسی ذمے داری سے آزاد ہیں ان کی سوچ کچھ بھی ہو سکتی ہے لیکن میاں صاحب کے دل میں اگر خدا نے انصاف کی شمع روشن کر دی ہے تو وہ اس کی روشنی اپنے پورے صوبے میں پھیلا دیں۔ وہ صرف صوبے کے چیف منسٹر ہی نہیں ہیں وہ وزیر اعظم کے حقیقی بھائی بھی ہیں اور دونوں کی سیاسی زندگی ساجھی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم کو تو ان کے بقول ایک مدت سے پتہ ہی نہیں چلا کہ حکومت کیا ہوتی ہے۔ گویا ہم پاکستانی اپنے حکمران کی بے خبری میں ہی مرتے رہے۔

انھوں نے کہا ہے کہ اب تھوڑا تھوڑا پتہ چل رہا ہے چنانچہ اب ہم بحوالہ کسی حد تک ایک باخبر حکمران کی حکومت میں زندہ رہیں گے میاں شہباز شروع دن سے ہی ماشاء اللہ باخبر ہیں کیونکہ ان کی مشہور عالم سرگرمی کو ایک دنیا تسلیم کرتی ہے اور بعض حکمران تو ان کی نقل کی کوشش بھی کرتے ہیں پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی مثال ہے کہ کسی نے ہمارے کسی حکمران کی تعریف کی ہے ورنہ حالت تو یہ رہی ہے کہ پاکستان کو امداد دینے والے اداروں کا ایک اجلاس ہوا ۔

جس میں بعض امدادیوں نے کھل کر کہا کہ ان کو کیا امداد دیں یہ تو سب کھا پی جاتے ہیں اور یہ انھوں نے سچ کہا ہے کہ سب کچھ ہمارے سامنے ہے اب پہلی بار کسی حکمران کی تعریف کی جا رہی ہے بلکہ خود پاکستان کے اندر ایک صوبے کے سربراہ نے کہا ہے کہ ہمیں بھی شہباز شریف مل جائے تو غنیمت ہے لیکن ایک سوال یہ ہے کہ ہمارے اس صوبے کے حکمران کو کس نے روکا ہے کہ وہ شہباز نہ بنیں۔ نیت نیک اور ارادہ پختہ ہو تو ہر صوبے کا حکمران شہباز شریف ہے۔

پاکستان کے عوام کو اسی شہباز کی تلاش ہے جو ان کی صفوں میں موجود ہے مگر حالات نے اسے دبا  رکھا ہے۔ خود یہ اصلی شہباز بھی کسی ادارے کے تربیت یافتہ نہیں ہیں ان کو موقع ملا اور ان کا ضمیر جاگ اٹھا بس اتنی سی بات ہے جو ہر پاکستانی کو میسر آ سکتی ہے خواہ وہ کسی صوبے اور کسی قبیلے کا بھی ہو لیکن کسی شہباز کی تلاش جاری رہے کہ اس تلاش میں بھی برکت پیدا ہو سکتی ہے اور بے انصافی کے شکار پاکستانی انصاف اور عدل کی دنیا میں سانس لے سکتے ہیں۔

عبدالقادر حسن


امریکی کانگریس کے نمایندوں کی دھمکی؟

$
0
0

امریکا کی دونوں سیاسی جماعتوں کے اعلیٰ قانون سازوں نے پاکستان کی امداد بند کرنے کی دھمکی دے دی ہے اور اس کا جواز یہ بتایا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور تیسری بڑی ایٹمی قوت بننے کی ڈگر پر جا رہا ہے۔

اراکین کانگریس نے کہا  ہے کہ پاکستان کے چھوٹے جوہری ہتھیار دنیا کے لیے زیادہ تشویش کا باعث ہیں، ایوان نمایندگان کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین ایڈروٹس کا کہنا ہے کہ پاکستان سب سے زیادہ جوہری ہتھیار رکھنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک بننے کی راہ پر چل رہا ہے۔

اس کے چھوٹے جوہری ہتھیار اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل دنیا کے لیے زیادہ تشویش کا باعث ہیں۔ پاکستان اپنے ملک کے بجٹ کا بڑا حصہ فوج کے لیے مختص کرتا ہے جب کہ تعلیم کا بجٹ ڈھائی فیصد سے بھی کم ہے۔ کمیٹی کے ڈیموکریٹک اور ری پبلکن ارکان نے امریکا کی طرف سے ستمبر 2001ء کے بعد سے پاکستان کو دی گئی 30 ارب ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد کی حکومت اب بھی دہشت گردوں کے نیٹ ورک کی حمایت کر رہی ہے۔

ڈیموکریٹک نمایندے بریڈ شرین نے افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکا کے نمایندہ خصوصی رچرڈ اولسن سے کہا ہے کہ وہ پاکستانی حکام کو یہ پیغام پہنچا دیں کہ پاکستان کو ایک سچے شراکت دار کے طور پر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر کانگریس کے بعض اراکین پاکستان کے لیے تمام امریکی امداد بند کرنے پر زور دے سکتے ہیں۔ امریکا کی خارجہ پالیسی ہمیشہ اصولوں سے زیادہ اپنے قومی مفادات کے گرد گھومتی ہے اور بدقسمتی سے اس میں امتیازات کا پہلو نمایاں رہتا ہے۔
امریکا کے سیاسی مشیر اس قدر نالائق ثابت ہوتے رہے ہیں کہ ان کی نالائقی سے امریکا کو جہاں کھربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے، وہیں امریکی صدر کو برملا اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں کی ناکامی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جو فوجی مداخلت کی گئی اس کے غلط ہونے کا اعتراف امریکی صدر اوباما کو کرنا پڑا اسی طرح عراق میں صدام حسین کے خلاف جن الزامات کے تحت فوجی مداخلت کی گئی ان الزامات کو خود امریکا کے نامور خفیہ اداروں نے غلط قرار دے کر بالواسطہ طور پر عراق میں فوجی مداخلت کی مذمت کی۔

امریکی کانگریس کے نمایندوں نے پاکستان کی فوجی اور اقتصادی امداد بند کرنے کی جو دھمکی دی ہے، یہ دھمکی دو الزامات کے حوالے سے دی گئی ہے اول یہ کہ پاکستان اب بھی دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے دوسرا الزام یہ ہے کہ پاکستان دنیا کی تیسری بڑی ایٹمی قوت بننے کی راہ پر چل رہا ہے پاکستان کے چھوٹے جوہری ہتھیار دنیا کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان دہشت گردوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بنا رہا ہے، جس کا اندازہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی طویل عرصے تک موجودگی سے کیا جا سکتا ہے لیکن اہل دانش بجا طور پر یہ سوال کرتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کس کی تخلیق تھا اور اسامہ اور اس کی تنظیم القاعدہ کو کون اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتا رہا۔

افغانستان میں روس کی آمد سے پہلے پاکستان دہشت گردی سے پاک ایک پرامن ملک تھا افغانستان سے روس کو نکالنا امریکا کی سیاسی ضرورت تھی اور اس سیاسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے امریکا نے ضیا الحق کی مدد سے مسلم ملکوں کے مذہبی انتہا پسندوں کو افغانستان میں بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور کامیاب بھی رہا لیکن روس کو افغانستان سے نکالنے کے بعد امریکا  مذہبی انتہا پسندوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر دوسرے مسائل میں مصروف رہا۔ یہی بے یار و مددگار مذہبی انتہا پسند امریکا کی اس بے اعتنائی سے مایوس ہو کر اس راہ پر چل نکلے جو 9/11 کے سانحے کا محرک بنی اور پھر مذہبی انتہا پسندی خودکش حملوں اور بارودی گاڑیوں سے لیس ہو کر اس طرح پھلتی پھولتی رہی کہ آج دنیا کا کوئی ملک اس سے محفوظ نہیں۔

پاکستان بلاشبہ دہشت گردوں کی آماجگاہ بن گیا لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان یعنی 50 ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کی ہلاکت پاکستان ہی کو برداشت کرنا پڑا۔ پاکستان میں دہشت گرد طالبان سمیت کئی دھڑوں میں موجود ہیں، لیکن ان کی تخلیق اور پرورش کی ذمے داری امریکا ہی پر عائد ہوتی ہے دہشت گردوں کی اہم قیادت آج بھی افغانستان میں موجود ہے اور پاکستان کے خلاف وہیں سے کارروائیاں بھی کر رہی ہے کیا امریکا ان سے لاعلم ہے؟

دہشت گردوں کے ہاتھوں جب بے گناہ 50 ہزار پاکستانی مارے جا رہے تھے تو نہ امریکا کو دہشت گردوں سے ایسی تشویش لاحق تھی جو آج دیکھنے میں آ رہی ہے نہ اس وقت امریکا کو یہ شکایت تھی کہ پاکستان دہشت گردوں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔ پاکستان میں فقہی انتہا پسندوں کو امریکا خود براہ راست مدد دیتا رہا اور اپنے پٹھوؤں کے ذریعے بھی ان کی بے تحاشا مدد کرتا رہا۔ آج جس دہشت گردی کا مسلم ملک سامنا کر رہے ہیں اس میں فقہی عنصر بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ امریکا کو آج دہشت گردی کی سنگینی کا اس قدر شدید احساس اس لیے ہو رہا ہے کہ اب امریکا سمیت کئی مغربی ملک براہ راست دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں اور اس کے چند لوگ دہشت گردی کا شکار ہو گئے ہیں۔

امریکا کی دوسری شکایت پاکستان کی بڑھتی ہوئی ایٹمی طاقت سے ہے خاص طور پر چھوٹے پاکستانی جوہری ہتھیاروں کو امریکا کے نمایندے دنیا کے لیے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ ایٹمی ہتھیار خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے خواہ وہ کسی ملک کے پاس ہوں دنیا کے لیے ایک سنگین خطرہ ہی ہیں، لیکن شرم کی بات یہ ہے کہ امریکی نمایندوں کو پاکستان کے ایٹمی ہتھیار تو نظر آتے ہیں لیکن اسے اسرائیل کے ایٹمی ہتھیار نظر آتے ہیں نہ اسے بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں سے اتنی تشویش لاحق ہوتی ہے کہ وہ بھارت کو فوجی اور اقتصادی امداد بند کرنے کی دھمکی دے۔ امریکا کیا اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے پیچھے بھارت کی فوجی طاقت اور ایٹمی ہتھیاروں کا خوف ہے۔

کیا امریکا اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ مسئلہ کشمیر ہی دونوں پسماندہ ترین ملکوں میں ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں کی خطرناک دوڑ کا باعث بنا ہوا ہے؟ کیا امریکا مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنی اور اپنے مغربی اتحادیوں کی طرف سے بھارت پر دباؤ نہیں ڈال سکتا؟ یہ ایسے سوال ہیں جنھیں سامنے رکھ کر امریکا کو پاکستان کے خلاف الزام تراشی کرنا چاہیے۔ بہ ایں ہمہ  ایٹمی ہتھیار اور دہشت گردی ساری دنیا کے سر پر تلوار کی طرح لٹک رہے ہیں اور ان کا خاتمہ ضروری ہے لیکن یہ کام بلاامتیاز ہی کیا جا سکتا ہے۔ امتیازات کے ساتھ ایٹمی ہتھیار اور دہشت گردی کا خاتمہ کسی صورت ممکن نہیں۔

ظہیر اختر بیدری


ریلوے، مزید توجہ کی ضرورت

$
0
0


جدید دنیا میں اچھی حکمرانی کے چھ کلیدی اوصاف بیان کیے جاتے ہیں۔ اول، منصوبہ بندی کی ہر سطح پرعوام کی بالواسطہ یا بلاواسطہ شرکت پر یقین۔ دوئم، تزویراتی بصیرت ۔ سوئم، تمام اقدامات اور فیصلوں میں شفافیت۔ چہارم، فیصلوں اور اقدامات میں فعالیت اور موثریت۔ جوابدہی کے لیے ہر لمحہ تیار رہنا۔ پنجم، احساس ذمے داری اور ردعمل کی صلاحیت  ۔ ششم، جوابدہی  کے لیے ہر لمحہ تیار رہنا۔

اچھی حکمرانی لازمی طور پر جمہوری نظم حکمرانی سے مشروط ہوتی ہے۔ ایک اچھی جمہوری حکومت اپنے فیصلوں اور اقدامات سے عوام کو آگاہ رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً پارلیمان اور ذرایع ابلاغ میں اپنی کارکردگی پیش کرکے عوام کو باخبر رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت کے بارے میں کسی طور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اچھی حکمرانی کی نظیر پیش کررہی ہے۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نہ تو وزیراعظم اور ان کے بیشتر وزرا قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں شرکت کی زحمت گوارا کرتے ہیں اور نہ ہی اچھی حکمرانی کے نکات پر کوئی واضح عملدرآمد نظر آرہا ہے۔ البتہ چند وزارتیں اپنی کارکردگی کو پارلیمان کے علاوہ سیمیناروں اور ذرایع ابلاغ کے ساتھ مشاورتی نشستوں کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش ضرور کرتی رہتی ہیں۔ ساتھ ہی ہر تلخ وشیریں سوال کا تحمل کے ساتھ جواب دینے کے کلچر کو فروغ دینے کی بھی کوشش کی جارہی ہے، جو جمہوریت اور جمہوری کلچر کے پھیلاؤ میں معاون ثابت ہوگا۔

گزشتہ بدھ اسلام آباد میں وزارت اطلاعات نے چار وزارتوں کا   پیش کیا۔ ہر وفاقی سیکریٹری نے اپنے متعلقہ محکمہ کی کارکردگی اور مستقبل کا منصوبہ پیش کیا، جن میں توانائی کے شعبے میں پانی اور بجلی، پٹرولیم اور قدرتی وسائل، مواصلات، ریلوے اور نجکاری کی وزارتیں شامل تھیں۔ ان میں سے کئی وزارتوں کی کارکردگی پر چونکہ عوامی تحفظات ہیں اور خود ذرایع ابلاغ بھی مطمئن نہیں، اس لیے ان پر تفصیلی بحث کو اگلے کسی اظہاریے تک موخر کرتے ہوئے صرف ریلوے پر گفتگو کرنا چاہیں گے۔
جس کی کارگردگی میں ان ڈھائی برسوں کے دوران خاصی حد تک بہتری آئی ہے۔ ہم نے گزشتہ کئی برسوں سے ریلوے کا سفر خراب سروس کی وجہ سے ترک کردیا تھا۔ مگر ایک ہفتہ قبل جب لاہور کے لیے سفر کیا تو یہ دیکھ کرحیرت کی انتہا نہیں رہی کہ ٹرین نے بروقت پلیٹ فارم چھوڑا، جب کہ لاہور پہنچنے میں صرف نصف گھنٹے کی تاخیر ہوئی، جو مسافروں کے لیے قابل برداشت ہے۔
ریلوے دنیا کا وہ واحد ذریعہ نقل وحمل ہے، جو سستا اور آرام دہ ہونے کے علاوہ ماحول دوست بھی ہے۔ صرف ایک انجن دھواں چھوڑتا ہے اور 20 کے قریب مسافر اور 80 کے قریب مال گاڑی کے ڈبے کھینچتا ہے۔

 کہاوت ہے کہ انگریز نے ریل  ، میل   اور جیل   کی مدد سے اتنے بڑے ہندوستان پر سو سال حکومت کی۔ برٹش انڈیا میں پہلی مسافر ٹرین 1853 میں بمبئی سے تھانے (مہا راشٹر کا شہر) تک چلی۔ اس کے بعد پورے ہندوستان میں ریلوے ٹریک بچھانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1929 تک پورے ہندوستان میں تقریباً 68 ہزار کلومیٹر ریلوے ٹریک بچھایا جاچکا تھا۔

اس کے بعد ریلوے ٹریک میں مختلف وجوہات کی وجہ سے اضافہ نہیں کیا جاسکا۔ جس کے اسباب میں جنگ عظیم اول میں ہونے والے مالیاتی نقصانات بھی شامل ہیں۔ 1947 میں تقسیم ہند کے نتیجے میں کل ٹریک کا 40 فیصد حصہ پاکستان کے حصے میں آیا۔ جو ٹریک پاکستان کے حصے میں آیا، اس کا 45 فیصد مشرقی حصے میں جب کہ 55 فیصد مغربی حصہ میں تھا۔

بدقسمتی سے پاکستان میں قائم ہونے والی کسی بھی حکومت نے ریلوے کو ترقی دینے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ حکومتی عدم توجہی کے باعث ریلوے مختلف نوعیت کی بدعنوانیوں کا شکار ہوتی چلی گئی، جن میں مالیاتی کرپشن، سیاسی بنیادوں پر غیر پیشہ ور افراد کی ضرورت سے زیادہ تقرری وغیرہ شامل تھی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے جہاں باقی ماندہ پاکستان میں جمہوری کلچر کو شدید نقصان پہنچایا وہیں مختلف شعبہ جات کی ادارہ جاتی کارکردگی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔

گو بھٹو مرحوم کے دور میں ریلوے کی ترقی کے لیے کئی اقدامات کیے گئے، لیکن ان کے بعد زوال ریلوے کا مقدر بن گیا۔ حکمران اشرافیہ کی نااہلی اور عدم توجہی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ 68 برس گزر جانے کے باوجود لودھراں سے لاہور تک سنگل ٹریک کو ڈبل نہیں کیا جاسکا۔ 2004 میں اس سلسلے میں کسی حد تک کوششوں کا آغاز ہوا۔ مگر صرف لودھراں سے ملتان اور خانیوال تک پٹری کو ڈبل کیا جاسکا ہے، جب کہ خانیوال سے رائے ونڈ تک 246 کلومیٹر پر ابھی تک سنگل ٹریک پر میل ٹرینیں چلتی ہیں۔ جب کہ شاہدرہ باغ سے لالہ موسیٰ تک ٹریک کو ڈبل کیا جانا اگلی کئی دہائیوں تک ممکن نظر نہیں آرہا۔

    پانچ برس کا عرصہ ریلوے کی تاریخ کا بدترین دور ثابت ہوا۔ جس میں محسوس ہونے لگا تھا کہ شاید ریلوے ہمیشہ کے لیے بند ہوکر قصہ پارینہ بن جائے گی۔ اس دور میں مال گاڑیاں تقریباً بند ہوگئیں۔ کئی اہم مسافر ٹرینیں بھی بند کردی گئیں۔ ریلوے کا سالانہ مالیاتی خسارہ اس دوران اربوں تک جا پہنچا۔ مگر خسارے کے باوجود سیاسی بنیادوں پر تقرریوں اور مختلف نوعیت کی دیگر بدعنوانیاں کا سلسلہ بھی زور و شور سے جاری رہا۔

اسی زمانے میں ریلوے انتظامہ نے چین سے جو انجن خریدے تھے، ان میں سے 85 فیصد چند برسوں میں ناکارہ ہوکر کھڑے ہوگئے۔ نااہلی اور بدانتظامی کے باعث مسافر ٹرینیں کئی کئی گھنٹے تاخیر سے روانہ ہوتیں اور راستہ میں انجن فیل ہونے کے باعث مزید کئی گھنٹے تاخیر سے منزل مقصود تک پہنچتیں، جس کی وجہ سے مسافر دیگر ذرایع نقل وحمل استعمال کرنے پر مجبور ہونے لگے تھے۔ اسٹیشن سنسان ہونے لگے اور مسافروں کی تعداد میں کمی کے باعث ٹرینوں کے مالیاتی نقصان میں مزید اضافہ ہونے لگا تھا۔
لہٰذا متذکرہ بالا سیمینار میں جب ریلوے کی سیکریٹری نے اپنے محکمہ کے بارے میں   دی، تو ان کے بیان کردہ اعدادوشمار کو سبھی شرکا نے تسلیم کیا۔ ان کے مطابق ریلوے کا کل ٹریک 11 ہزار 8 سو 81 کلومیٹر طویل ہے۔ پورے پاکستان میں 527 اسٹیشن ہیں۔ 452 لوکو موٹیو انجن اور تقریباً 11 سو کے قریب مسافر بوگیوں کے ساتھ سروس فراہم کی جارہی ہے۔ جب کہ مال گاڑی کے ڈبے اس کے علاوہ ہیں۔ اس وقت 106 مسافر ٹرینیں مختلف سیکشنوں پر چل رہی ہیں۔

مال گاڑیاں، جو سابقہ دور حکومت میں تقریباً بند کردی گئی تھیں، وہ بھی آہستہ آہستہ بحال ہورہی ہیں۔ وفاقی سیکریٹری کی رپورٹ کے مطابق مسافر ٹرینوں سے مالی سال 2014-15 کے دوران 19.27 بلین روپے اور مال گاڑیوں سے 8.35 بلین روپے کی آمدنی ہوئی۔ متفرق مدوں میں 4.3 بلین کی آمدنی ہوئی۔ جو ماضی کے مقابلے میں قابل ذکر اضافہ ہے۔ اس سال ایندھن پر 19 فیصد، ملازمین کی تنخواہوں، الاؤنسز اور پنشن پر 66 فیصد، مرمت اور مینٹی ننس پر 7 فیصد جب کہ آپریشنل اخراجات 8 فیصد رہے۔ انھوں نے بتایا کہ ریلوے کی ، قانون اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے شعبہ جات کے قیام کے علاوہ اختیارات کی عدم مرکزیت قائم کرنے پر کام کیا جارہا ہے، جو اگلے چند برسوں کے دوران مکمل ہوجائے گا۔

آج ریلوے میں جو بہتری کی رمق نظر آرہی ہے، اس میں بلاشبہ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی انتھک اور شبانہ روز محنت کا بہت بڑا دخل ہے، جس کا کھلے دل سے اعتراف کیا جانا چاہیے۔ اگر یہ کہا جائے کہ میاں نواز شریف کی پوری کابینہ میں سب سے عمدہ اور نظر آنے والی کارکردگی کا مظاہر ان ڈھائی برسوں کے دوران خواجہ سعد رفیق نے کیا ہے، تو غلط نہ ہوگا۔ کیونکہ یہ ان کی اسی محنت اور پیشہ ورانہ مہارت کا نتیجہ ہے کہ ریلوے میں بہتری کے واضح آثار نمایاں ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اگر انھیں مزید وقت ملتا ہے اور وہ اسی دلجمعی سے کام کرتے رہے، تو کوئی شبہ نہیں کہ ریلوے جلد ہی نہ صرف اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلے اور اس کا شمار ایشیا کی چند بہترین ریلوے سروسز میں ہونے لگے۔

ہمارے منصوبہ سازوں کو اس پہلو پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ معاشی ترقی کے اہداف کے حصول میں ریلوے کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی سے گوادر اور گوادر کو کوئٹہ سے ریلوے ٹریک کے ذریعے ملانے کے کام کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے۔ یہ ذریعہ نقل وحمل پاک چین اقتصادی راہداری کے اہداف کے حصول میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔
اس منصوبے کی بروقت تکمیل اور ریلوے ٹریک کو جدید بنانے سے معاشی ترقی کی رفتار میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔ 

ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ انگریز نے اپنے تجارتی اور فوجی مفادات کے حصول کے لیے پورے ہندوستان میں ریلوے کا جو ٹریک بچھایا تھا، اس نے اس کے اقتدار کو مضبوط کرنے میں کس قدر نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اس لیے ہمیں اپنی معاشی اور سماجی ترقی کے لیے ریلوے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ لہٰذا قومی ترقی کے اہداف کے حصول میں ریلوے کو نظر انداز کرنا کسی طور دانش مندی نہیں ہے۔

مقتدا منصور


پاکستانی سمندری حدود - وسائل سے مالا مال

جو کرنا ہے کر لو

نوٹ کی حکومت ،نوٹ کے ذریعے، نوٹ کیلئے

$
0
0

مجیب الرحمان شامی نے جیم خانہ کلب میں محفل سجائی ہو، عبدالرئوف، ڈاکٹر خالد نواز، حفیظ اللہ نیازی،جاوید نواز اور رئوف طاہر جیسے اکابرین موجود ہوں اور لودھراں کے ضمنی انتخابات میں جہانگیر ترین کی غیر متوقع اور غیر معمولی جیت کا معاملہ زیر بحث نہ آئے، یہ کیسے ممکن ہے۔ کسی دوست نے نکتہ اٹھایا کہ عبدالعلیم خان کی طرح جہانگیر ترین نے بھی بے تحاشہ اور بیشمار دولت خرچ کر کے یہ نشست جیتی ہے۔ کچھ ہی دیر میں یہ اتفاق رائے ہوتا دکھائی دیا کہ ہمارے ہاں انتخابی سیاست اب دھن دولت کا کھیل بن کر رہ گئی ہے ۔

اس پر امریکہ سے آئے ہوئے دوست شاہد احمد خان نے وضاحت کی کہ پوری دنیا میں انتخابی سیاست پر دولت اثر انداز ہوتی ہے امریکہ کے صدارتی انتخاب میں تو باقاعدہ فنڈز جمع کرنے کا مقابلہ ہوتا ہے اور جو جتنا زیادہ ڈونیشن جمع کرتا ہے اس کے ٹکٹ حاصل کرنے کے امکانات اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں۔ اگر آپ امریکہ میں صدارتی امیدوار ہیں تو انتخابی مہم چلانے کے لئےکم از کم ایک ارب ڈالر درکار ہیں۔ لیکن وہاں ایک ایک ڈالر کا حساب ہوتا ہے کہ کہاں سے آیا، کس نے دیا ۔اگر یہاں بھی سیاستدانوں کو ڈونیشن دینے کا کوئی نظام مرتب کر دیا جائے تو معاملات بڑی حد تک درست ہو سکتے ہیں۔

ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو دیئے جانے والے فنڈز کا حساب کتاب اس لئےنہیں ہوتا کہ شناخت ظاہر ہونے کی صورت میں ذرائع آمدنی کی شفافیت کے بارے میں سوالات ہونگے۔ مثال کے طور پر گزشتہ برس رانا مشہود کی ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں وہ ایک کاروباری شخصیت سے رقم وصول کر رہے ہیں۔ ایک نجی محفل کے دوران ان سے پوچھا گیا کہ یہ کیا قصہ ہے؟ تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا ،اگر یہ رقم میں نے اپنے لئےوصول کی ہوتی تو اب تک مجھے ڈاکٹر عاصم کی طرح لٹکا نہ دیا گیا ہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ رقم سیاسی چندے کے طور پر وصول کی گئی اور انتخابی مہم کے لئے پارٹی حکام کے حوالے کی گئی۔ بہر حال اس فکری نشست کے بعد میرا دماغ مسلسل چند سوالات کی زد میں ہے۔ آج تک ہم اس امید پر زندہ ہیں کہ ہمارے یہاں جمہوریت ابھی خام ہے، ملک کا جمہوری نظام ارتقاء کے مراحل سے گزر رہا ہے مگر ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب عام آدمی بھی منتخب ہو کر ایوانوں میں جا سکے گالیکن اگر امریکہ، برطانیہ اور سویڈن کی شفاف ترین جمہوریت میں بھی انتخابی مہم پر کثیر سرمایہ خرچ کئے بغیر کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی تو پھر اس نظام انتخاب کو عوا م کی حکومت، عوام کے ذریعے،عوام کے لئےکیسے کہا جا سکتا ہے؟

چند برس قبل امریکہ کے مقبول ترین اخبارات واشنگٹن پوسٹ اور نیو یارک ٹائمز نے اپنے صفحہ اول پر ایک رپورٹ شائع کی تھی جس کا عنوان تھا ’’امراء کی حکومت ،امراء کے ذریعے ،امراء کے لئے کی مرتب کی گئی اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بد ترین معاشی بحران کے باوجود امریکہ کے نصف سے زائد منتخب نمائندوں کا شمار لکھ پتی افراد میں ہوتا ہے یعنی ان کے پاس دس لاکھ ڈالر سے زیادہ دولت موجود ہے ۔435 رُکنی ایوان نمائند گان میں 250 جبکہ 100ارکان پر مشتمل سینیٹ میں سے 67ارکان لکھ پتی ہیں ۔گزشتہ پچیس برس کے دوران ایک عام امریکی شہری کے اوسط اثاثہ جات میں مسلسل کمی ہوئی مگر ایوان نمائندگان کے ارکان کے اوسط اثاثہ جات میں بتدریج اضافہ ہوا۔ 1984ء میں اوسط اثاثہ جات 280000 ڈالر فی کس تھے جو اب بڑھ کر 725000 ڈالر فی کس ہو چکے ہیں ۔امریکی سینیٹ میں تو اکثریت ہی بزنس ٹائیکونز کی ہوتی ہے اس لئے اسے  کہا جاتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق سینیٹ کے تمام ارکان کے پاس اوسطاً فی کس 2.63 ملین ڈالر کے اثاثہ جات موجود ہیں ۔ اس رپورٹ کی تیاری کے دوران جب ان منتخب عوامی نمائندوں سے پوچھا گیا کہ اقتصادی کساد بازاری کے دوران ان کے دوستوں یا رشتہ داروں میں سے کوئی ایسا ہے جسے اپنا گھر بیچنا پڑا ہو یا اس کی نوکری چلی گئی ہو؟ تو ان 535 ارکان میں سے صرف 18ارکان نے ہاں میں جواب دیا۔ 12 ارکان نے کمال بے اعتنائی و بے نیازی سے کہا ،ہمارے جاننے والوں میں سے تو کوئی ایسا نہیں البتہ جاننے والوں کے جاننے والوں میں ایسے لوگ ضرور ہوں گے جو دیوالیہ ہو گئے ۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق 10ارکان کانگریس ایسے ہیں جن کے فی کس اثاثہ جات کی مالیت 100 ملین ڈالر سے زیادہ ہے۔ ان میں گاڑیوں کے لئے الارم بنانے والے بزنس ٹائیکون کا نام سرفہرست ہے جبکہ دو معروف ڈیموکریٹس سینیٹر جان کیری اور نینسی پلوسی بھی اس فہرست میں شامل ہیں ۔

ہمارے ہاں انتخابی مہم پر جتنا پیسہ خرچ کیا جا تا ہے وہ تو امریکی اخراجات کا عشر عشیر بھی نہیں ۔2010ء میں سینیٹ کی نشست جیتنے والے امریکی امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم پر اوسطاً 10ملین ڈالر فی کس خرچ کئے جبکہ ایوان نمائندگان کی رُکنیت حاصل کرنے والوں نے اپنی انتخابی مہم پر کم از کم 1.4ملین ڈالر خرچ کئے ۔ہمارا خیال ہے کہ امریکی طرز سیاست میں باراک حسین اوباما جیسا عام آدمی بھی امریکہ کا صدر بن سکتا ہے مگر سچ یہ ہے کہ اس نے 2008ء میں جان مکین کے مقابلے میں تین گنا زیادہ فنڈز حاصل کر کے نامزدگی حاصل کی تھی۔ وہ سرمایہ کار جو اوباما جیسے افراد پر پیسہ لگاتے ہیں ،اس کی انتخابی مہم کے اخراجات اٹھاتے ہیں ،وہ مستقبل میں اپنی مرضی کی قانون سازی کی صورت میں یہ رقم بمع سود وصول کرتے ہیں۔
   
صدارتی انتخابات میں مختلف امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم پر 2.6 بلین ڈالر خرچ کئے مگر 2016ء کے انتخابات میں یہ اخراجات دگنا زیادہ ہونے کا امکان ہے ۔امریکی اخبارات نے جو تخمینہ لگایا ہے اس کے مطابق رواں سال صدارتی انتخابی مہم کے اخراجات 5 ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔ ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ جو اپنے متنازع بیانات کی وجہ سے خبروں کا حصہ ہیں ،انہوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ اپنی تشہیری مہم پر ہر ہفتے 20 لاکھ ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ امریکہ کی طرح پوری دنیا کا جمہوری اور پارلیمانی طرز انتخاب سرمایہ داروں اور مفاداتی اداروں کے شکنجے میں ہے۔ انتخابی سیاست کے لئے ضروری ہے کہ آپ خود دولتمند ہوں یا پھر آپ پر سرمایہ لگانے والے فنانسرز دستیاب ہوں۔

ہر دونوں صورتوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ کون بیوقوف ہو گا جو اپنا سرمایہ اور تمام تر توانائیاں خرچ کر کے سیاسی عہدہ حاصل کرے اور پھر اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائے؟ جہانگیر ترین، عبدالعلیم خان اور اعظم سواتی تو محض استعارے ہیں ورنہ ہر سیاسی جماعت میں دھن دولت والوں کی اجارہ داری ہے کیونکہ نوٹ ہی ووٹ میں بدلتا ہے۔ جب تک نوٹ اور ووٹ کا رشتہ برقرار ہے، تب تک جمہوریت کی مروجہ تعریف بدل دی جائے تو بہتر ہو گا۔ نمونے کے طور پر ایک جملہ حاضر ہے ’’نوٹ کی حکومت، نوٹ کے ذریعے، نوٹ کے لئے ‘‘

 محمد بلال غوری 
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ‘‘

خٹک صاحب پاکستان پر رحم کریں

کرکٹ کے انفرادی اسکور کا نیا عالمی ریکارڈ


قاضی حسین احمد ایک اصول پسند سیاستدان

$
0
0

وہ1938 میں ضلع نوشہرہ کے گاؤں زیارت کاکا صاحب میں پیدا ہوئے، ان کے والد مولانا قاضی محمد عبدالرب ایک ممتاز عالم دین تھے، جو اپنے علمی رسوخ اور سیاسی بصیرت کے باعث جمعیت علمائے ہند صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کے صدر چُنے گئے تھے۔
 
قاضی حسین احمد 10 بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر عتیق الرحمٰن اور مرحوم قاضی عطاء الرحمٰن اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل تھے۔

قاضی حسین احمد بھی اپنے بھائیوں کے ہمراہ اسلامی جمعیت طلبہ کی سرگرمیوں میں شریک ہونے لگے، لٹریچر کا مطالعہ کیا اور یوں جمعیت سے وابستہ ہوئے۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر اپنے والد مولانا قاضی محمد عبدالرب سے حاصل کی، پھر پشاور کے اسلامیہ کالج سے گریجویشن کی اور پشاور یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، بعد از تعلیم وہ سیدو شریف میں جہانزیب کالج میں بحیثیت لیکچرار تعینات ہوئے اور وہاں 3 برس تک پڑھاتے رہے۔
جماعت اسلامی کی سرگرمیوں اور اپنے فطری رحجان کے باعث وہ ملازمت جاری نہ رکھ سکے اور پشاور میں اپنا کاروبار شروع کر دیا، جلد ہی وہ سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے نائب صدر منتخب ہوئے۔

دوران تعلیم اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان میں شامل رہنے کے بعد قاضی حسین 1970 میں جماعت اسلامی کے باقاعدہ رکن بنے۔
جماعت اسلامی پشاور (شہر) کے امیر رہنے کے بعد قاضی حسین احمد کو صوبہ سرحد کی امارت کی ذمہ داری سونپی گئی۔
وہ 1978 میں جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری جنرل بنے اور 1987 میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب کر لیے گئے، اس کے بعد وہ چار مرتبہ مزید (1999، 1994، 1992، 2004) امیر منتخب ہو ئے۔
قاضی حسین احمد 1985 میں 6 سال کے لیے سینیٹ کے ممبر منتخب ہوئے،1992 میں وہ دوبارہ سینیٹرمنتخب ہوئے، تاہم انہوں نے حکومتی پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے بعد ازاں سینیٹ سے استعفٰی دے دیا۔
    عام انتخابات میں امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین قومی اسمبلی کے 2 حلقوں سے رکن منتخب ہوئے۔

مولانا شاہ احمد نورانی کی وفات کے بعد تمام مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے صدر منتخب ہوئے۔
ایم ایم اے میں فضل الرحمٰن کے برعکس قاضی حسین کا نقطۂ نظر ہمیشہ سے سخت رہا۔
حقوق نسواں بل کی منظوری کے بعد اسمبلیوں سے استعفوں کی تجویز بھی ان کی طرف سے پیش ہوئی تھی، لیکن جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ فضل الرحمٰن کے نے ان کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔
جولائی 2007 میں لال مسجد واقعہ کے بعد قاضی حسین احمد نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا۔
قاضی حسین احمد کے 2 بیٹے اور 2 بیٹیاں ہیں جو والدہ سمیت جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں۔
وہ جس وقت جماعت اسلامی کے امیر تھے تو منصورہ میں 2 کمروں کے ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔
قاضی حسین احمد کو اپنی مادری زبان پشتو کے علاوہ اردو، انگریزی، عربی اور فارسی پر عبور حاصل تھا۔
 
وہ علامہ اقبال کے پرستار تھے، انہیں فارسی و اردو میں شاعر مشرق کا اکثر کلام زبانی یاد تھا اور اپنی تقاریر کے ساتھ ساتھ گفتگو میں بھی وہ اقبال کا کلام سنایا کرتے تھے۔
  جنوری 2013 کو دل کے عارضہ کے باعث قاضی حسین کا اسلام آباد میں انتقال ہوا، اُنھیں ان کے آبائی علاقے نوشہرہ میں دفن کیا گیا۔
 
انتقال سے 3 ماہ قبل نومبر 2012 میں قاضی حسین احمد پر خود کش حملہ بھی ہوا تھا، تاہم وہ حملے میں محفوظ رہے تھے۔
قاضی حسین احمد کے بعد 2009 میں جماعت اسلامی کے امیر منور حسین منتخب ہوئے تھے، تاہم وہ جماعت اسلامی کے واحد امیر ہیں جو صرف ایک مرتبہ ہی منتخب ہوئے، ان کے بعد مارچ 2014 میں سراج الحق جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے۔

Tongi ( Bangladesh ) Tableegi ijtema 2016

$
0
0
 Tongi ( Bangladesh ) Tableegi ijtema 2016





ایٹم بم بمقابلہ ہائیڈروجن بم

$
0
0

ایٹم بم ہو یا ہائیڈروجن دونوں ہی نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی دو شکلیں ہیں۔ یوں کہہ لیجئے ہائیڈروجن بم ایسا خطر ناک ہتھیار ہے جو ایٹم بم سے بھی ہزار گنا زیادہ تباہی پھیلا سکتا ہے۔ رواں ہفتے شمالی کو ریا نے ہائیڈروجن بم کے کامیاب تجربے کا اعلان کیا ہے۔البتہ عالمی برادری نے اس تجربے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس پر شکو ک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ وہ یہ بات ماننے میں تذبذب کا شکار ہیں کہ واقعی شمالی کوریا نے اس بم کو تیار کر لیا ہے۔ 

یہ بھی کہا گیا کہ اس تجربے کے بعد علاقے میں زلزلہ بھی آیا،جس کی شدت 5.1تھی۔ زلزلے کا مرکز 10کلو میٹر زیر زمین تھا۔ چین اور جنوبی کوریا کے حکام کی جانب سے کہا گیا کہ زلزلہ قدرتی نہیں تھا۔اس کے بعد دیگر ماہرین کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہائیڈروجن بم کا تجربہ تھا یا ایٹم بم کا؟ کیونکہ 2013ء میں جب جنوبی کوریا نے ایٹم بم کا تجربہ کیا تھا تب بھی اس کی شدت اتنی ہی تھی،حالانکہ ہائیڈروجن بم، ایٹم بم کی نسبت زیادہ شدت کا حامل ہو تا ہے۔
 ایٹم بم سے ہونے والے نقصان کی شدت کا اندازہ ہم دوسری جنگ عظیم میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر کئے جانے والے حملوں سے لگا سکتے ہیں لیکن اب سوال یہ ہے کہ ہائیڈروجن بم کیا ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں؟ہائیڈروجن بم یا تھرمو نیو کلیئر بم ،ایٹم بم کی نسبت زیادہ طاقت ور ہوتے ہیں۔شمالی کوریا کی جانب سے ہائیڈروجن بم کے کامیاب تجربے پر ماہرین اس لئے بھی کنفیوژن کا شکار ہیں کہ اگر یہ ہائیڈروجن بم تھا تو پھر اس کی شدت دس گنا زیادہ ہونی چاہئے تھی۔ 

ایٹم اور ہائیڈروجن بم میں بنیادی فرق ہی ایٹم کی سطح سے شرو ع ہو تا ہے۔ہیروشیما اور ناگاساکی پر کئے گئے ایٹمی حملوں میں 15سے 20کلوٹن ٹی این ٹی کا استعمال کیا گیا تھا جبکہ ایٹم بم کے مرکز کو تقسیم کرنے کے بعد نیوٹران حرکت میں آتے ہیں یوں ایک دھماکہ خیز ردعمل شروع ہو جا تا ہے جبکہ نومبر1952ء میں امریکہ میں پہلے ہائیڈروجن بم کا کامیاب تجربہ کیا گیا تھا تو اس میں 10,000کلوٹن این ٹی این کا استعمال کیا گیا تھا۔
اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ اس کی تباہی کی نوعیت کیا ہو گی؟ہائیڈروجن بم بھی ایٹم بم ہی کی طرح کام کرتا ہے لیکن ایٹم بم میں یورینیم یا پلوٹینئم کی بڑی مقدار استعمال نہیں ہو تی جبکہ ہائیڈروجن بم میں دھماکے کو مزید طاقت ور بنانے کیلئے یورینئم کو بھی نمایاں طور پر استعمال کیا جا تا ہے۔ یورینئم ہائیڈروجن گیس پر اپنا دبائو بڑھا تا ہے تو ہائیڈروجن بم پھٹتا ہے ،اس دھماکے سے نیوٹران کی تقسیم ہوتی ہے جس سے پلوٹینئم کا ردعمل شروع ہو تا ہے،اس کی ریڈیو ایکٹیو شعاعیں زیادہ مہلک ثابت ہوتی ہیں۔

ایٹم اور ہائیڈروجن دونوں بم ہی روائتی ہتھیاروں کے بر عکس ان شعاعوں کی بدولت انسانی ہلاکتوں کا باعث بنتے ہیں جو ان کے اندر سے نکلتی ہیں۔ ایٹم بم میں تو بم کے اندرونی حصے ری ایکشن نہیں کرتے لیکن ہائیڈروجن بم میں اندرونی حصے بھی متحر ک ہو جاتے ہیں۔ہائیڈروجن بم چھوٹے سائز میں بنانا آسان ہیں ،لہٰذا انہیں میزائلوں میں آسانی سے نصب کیا جا سکتا ہے۔ایٹم بم کو دوسری جنگ عظیم میں استعمال کیا جا چکا ہے لیکن ہائیڈروجن بم کو بفضل خدا آج تک استعمال نہیں کیا گیا۔

حنا انور

سیلفی لینے کے دوران جان سے جانے والوں کی تعداد

’عوام کو ریلیف کب ملے گا‘

$
0
0

عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں کم ہو کر 12 سال پرانی قیمت پر پہنچ گئی ہیں۔ اس وقت خام تیل کی قیمت 32.16 ڈالر فی بیرل ہے۔ اگر اِن قیمتوں کا موازنہ 11 سال پہلے یعنی 2004 سے کیا جائے تو یقینی قارئین کی حیرانی اور پریشانی دونوں میں ہی اضافہ ہوجائے گا۔ ہوسکتا ہے آپ کو یقین نہ آئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سال 2004 میں بھی عالمی منڈی میں خام تیل کی وہی قیمت تھی جو آج 2016ء کے اوائل میں ہے، لیکن اِس سے بھی مزے کی بات یہ ہے کہ سال 2004 جنوری میں پیٹرول کی قیمت 32.50 روپے تھی۔ جبکہ اس وقت پاکستان میں پیٹرول کی قیمت 76.26 روپے فی لیٹر ہے۔

اگر اس فرق کا حساب لگایا جائے تو معلوم ہوگا کہ حکومت عوام سے فی لیٹر پیٹرول پر 44 روپے زائد وصول کررہی ہے جبکہ خام تیل کی بین الاقوامی قیمت کے فرق سے اب پیٹرول کی قیمت 32.16 روپے ہونی چاہیے۔ کیونکہ یہ 12 سال پرانی قیمت ہے جس پر حکومت کو یقینا ٹیکس بھی ملتا تھا۔ ماہرین کے مطابق عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 30 ڈالر سے بھی نیچے آنے کا امکان ہے، لیکن اِس بات پر ہماری توجہ اُس وقت تک نہیں جائے گی جب تک عالمی منڈیوں میں گرتی قیمتوں کے مطابق پاکستان میں بھی پیٹرول کی قیمت گرنا نہ شروع ہوجائے۔

یہ تحریر لکھنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ اکثریت کی طرح ہم حکومت پر گولہ باری کا ارادہ رکھتے ہیں، بلکہ ہمارا تو مقصد یہ ہے کہ کسی کے ساتھ بھی ظلم نہ ہو۔ بس اِسی مقصد کے تحت آنکھیں مکمل کھول کر دیکھا جائے تو بظاہر ایک نکتہ ہے جو حکومت کی حمایت میں جاتا ہے اور وہ یہ کہ سال 2004 میں ایک ڈالر تقریباً 57 روپے کے برابر تھا اور اب فی ڈالر 106 روپے مالیت کے برابر ہے۔ 
لیکن اِس نقطہ پر حکومت کو ملنے والی حمایت کے باوجود ہم یہ کہیں گے کہ ڈالر کی ویلیو کو کنٹرول کرنے کا اختیار بھی تو حکومت کے پاس ہی تو ہوتا ہے، لیکن میرے خیال میں یا تو حکومت کو اپنے اِس فرائض کا علم نہیں ہے، یا بہت کوشش کرنے کے باوجود اُس سے یہ کام ہوا نہیں ہے یا پھر وہ کرنا ہی نہیں چاہتی۔ آپ مجھے لکھ کر لے لیں اِن تین آپشنز کے علاوہ کوئی اور وجہ ہو نہیں سکتی۔
چلیں بہت سارے کاموں کی طرح اگر حکومت اِس کام میں بھی ناکام ہوگئی ہے تو ہمیں تو کوئی اشنبے کی بات نہیں لگی کہ اب تو عادت سی ہوگئی ہے لیکن سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈالر کے فرق کے باوجود تیار پیٹرول کی لاگت فی لیٹر 32 روپے بنے گی تاہم فی لیٹر پر تمام موجودہ ٹیکسز لگائے جائیں تو اسکی فی لیٹر قیمت میں تقریبا 21 روپے کا اضافہ ہوجائے گا۔ یعنی تمام ٹیکسوں کے باوجود بھی عوام کو پیٹرول 53 روپے کا پڑے گا۔ لیکن حکومت فی لیٹر پر ساڑھے 21 روپے کے جائز منافع (ٹیکسز) کے باوجود عوام سے 23.26 روپے ناجائز اضافی ٹیکس وصول کررہی ہے۔

بہت سے لوگوں کو یاد دلاتا چلوں کہ جنرل مشرف کے دور میں پہلے آئل کمپنیز ایڈوائزری کمیٹی (او سی اے سی) قائم کی گئی۔ اور پھر اسے ایک آرڈیننس کے ذریعے آج کل کی اوگرا ریگولیٹری اتھارٹی میں تبدیل کردیا گیا۔ اس موقع پر بہت سے ماہرین معاشیات نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اِس فیصلے کے بعد اب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں سال میں ایک بار نہیں بلکہ 15 روزہ بنیادوں پر بڑھیں گی (جس کے شیڈول میں تبدیلی لا کر اب ماہانہ بنیادوں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے)۔ 

دوسری جانب جنرل مشرف کے حامیوں کا عوام کو لارا لپا دیتے ہوئے یہ کہنا تھا کہ جب بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کم ہوگی تو ملک میں بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوجائیں گی اور یوں عوام کو براہ راست ریلیف حاصل ہوگا جبکہ حکومت پر بھی سبسڈی کا بوجھ نہیں پڑے گا۔

اب حال یہ ہے کہ جب قیمتیں بڑھانی ہوں تو حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یک مشت 5 سے 10 روپے بڑھا دیتی ہے۔ جبکہ قیمت کم کرنی پڑجائے تو جان نکل رہی ہوتی ہے۔ کبھی ایک روپے کم کرنے کی خبر آتی ہے تو کبھی پچاس پیسے۔ آپ خود بتائیے کہ آپ نے کتنے بار سنا ہے کہ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں چار رپے، پانچ روپے یا اِس سے زائد کی کمی کی ہو؟ 

عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت سال 2015 میں 37 فیصد تک کم ہوئیں جبکہ حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں صرف 10 فیصد قیمتیں کم کیں۔
گزشتہ سال عمران خان نے اگرچہ انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج کا آغاز کیا تھا۔ جس کا توڑ کرنے کے لئے حکومت مستعدی سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت کم کرنے لگی اور یکم دسمبر 2014 کو وفاقی حکومت پیٹرول کی قیمت یکمشت 9.66 روپے تک کم کرنے پر مجبور ہوگئی تھی۔ یہ بھی یاد رہے کہ انتخابی مہم میاں نواز شریف کی جانب سے کئی بار یہ اعلان کیا گیا کہ قیمتوں میں کمی لا کر روز مرہ کی اشیاء 1999 والی سطح پر لائی جائیں گی۔ لیکن پھر دھرنا ختم تو قیمتوں کی گراوٹ کا سلسلہ بھی رک گیا۔ اور ویسے بھی وہ انتخابی مہم کا علان ہی کیا جس پر عمل ہوجائے۔

لیکن اگر سیاسی جماعتیں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی لانے کے لئے مشترکہ دھرنے دیں تو مجھے یقین ہے کہ حکومت 12 سال پرانی پیٹرول کی قیمت کم کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔ اس معاملے پر سول سوسائٹی بھی آواز اٹھائے۔ اسحاق ڈار صاحب سے گذارش ہے کہ بجٹ خسارے کو اپنی معاشی کارکردگی کے ذریعے ختم کریں۔ سارا معاشی خسارہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے پورا کرنے کی کوشش نہ کریں۔ عوام کو بھی ریلیف دیں۔ یقین مانیں اگر آپ نے پیٹرولیم قیمتوں مین کمی کا وعدہ پورا کرلیا تو اِس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ عوام اگلی بار آپ کو ہی ووٹ دیں گے۔

ناصر تیموری

Viewing all 4315 articles
Browse latest View live