Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

عالمی سازشوں کا شکار پاکستان

$
0
0

امریکا میں رواں برس کے دوران مختلف مقامات پر ساڑھے تین سو کے قریب فائرنگ کے واقعات پیش آئے۔ ان سارے واقعات میں اسلحے کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔تشدد کے ان واقعات میں کئی سو افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان میں بھی زیادہ تر ہلاکتیں صرف تین درجن واقعات میں ہوئیں۔
  
جون کو بلیک چرچ حملے میں 9 افراد مارے گئے۔16 جولائی کو ملٹری ریکروٹمنٹ پر حملہ ہوا اس میں5 افراد قتل ہوئے۔ یکم اکتوبر کو ایک کمیونٹی کالج کو فائرنگ میں نشانہ بنایاگیا۔ اس حملے میں 9 افراد قتل ہوئے۔ لاراڈواسپرنگ پر حملے میں6 افراد قتل کردیے گئے۔ 15اکتوبر کو ایک سکول میں فائرنگ کی گئی جس میں کم سن بچوں کے ساتھ ان کے اساتذہ کو نشانہ بنایا گیا۔ریاست شمالی کیرولینا میں تین مسلمان طلبہ نشانہ بنے۔

اس طرح کے واقعات امریکا میں روز کا معمول ہیں۔ امریکا کی ریاست کیلی فورنیا میں گذشتہ ہفتے پیش آنے والے واقعے نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ڈرامائی انداز میں پاکستان کو اس میں براہ راست ملوث کیے جانے کی سازش کی جارہی ہے جس کے باعث پاکستانیوں کے لیے حالات کی سنگینی بڑھ گئی ہے۔ فائرنگ کے اس واقعے میں چودہ امریکی مارے گئے تھے۔

اس واقعے میں دو میاں بیوی رضوان فاروق اور تاشفین ملک پر ملوّث ہونے کا الزام عاید کیا جارہا ہے۔ رضوان پیدائشی امریکی ہیں جبکہ تاشفین پاکستانی نژاد امریکی شہری ہیں۔ اس برس پیش آنے والے ایک دو واقعات کو چھوڑ کر یہ سارا فساد انہی گورے اور کالے امریکیوں کا برپا کیا ہوا تھا جن کا تعلق نہ تو اسلام سے تھا اور نہ ہی وہ مسلمان تھے۔ الٹاان واقعات میں مسلمان بڑی تعداد میں متاثر ہوئے۔

ان میں چند ماہ قبل شمالی ریاست کیرولینا میں پیش آنے والے واقعے کا دنیا بھر میں بہت چرچا رہا۔ ریاست کیرولینا کے تین مسلمان طلبہ کو سر میں گولیاں مار کر قتل کردیاگیا۔مقتولین میں 23 سالہ ضیاءبرکات، ان کی 21 سالہ بیوی یسر اور 19 سالہ بہن رزان شامل تھیں۔ان کا چھیالیس سالہ کریگ ہکس نامی قاتل اسلام اور مسلمانوں سے شدید نفرت کرتا تھا۔ وہ کس قسم کا آدمی ہے، اس کے فیس بک پیج پر اس کے خیالات اور سرگرمیوں سے بخوبی پتا چل جاتاہے۔ مقتولین ایک ڈاکٹرفیملی سے تعلق رکھتے تھے۔

 ضیاءکے والد نفسیات کے ڈاکٹر ہیں جبکہ اس کی بڑی بہن سوزین برکات بھی ڈاکٹر ہے۔انہیں"مذہبی منافرت"کی بنیاد پر قتل کیا گیا تھا۔ ضیاءاور یسر کو ان کے پڑوسی کی جانب سے اس سانحے سے قبل دھمکیاں مل چکی تھیں لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ حالات یہاں تک بھی جا سکتے ہیں۔
مقتولین کے والد کا کہنا تھا کہ” مجھے یقین ہے کہ میری دو بیٹیوں اور داماد کو اسلام سے نفرت کی وجہ سے قتل کیا گیا''۔ جبکہ امریکی میڈیا نے شہریوں پر بار بار اسلامی دہشت گردی کے لفظ کی یلغار کرکے انھیں مسلمانوں سے خوف زدہ کردیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ شدت پسند ہمیں نشانہ بنارہے ہیں۔“مذکورہ سانحے میں جس انداز میں امریکی میڈیا نے اس واقعے کو رپورٹ کیا اس سے ایسا ظاہر کیا گیا کہ جیسے ایک معزز شہری کو غلطی سے ان تینوں کی اموات کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہو۔

امریکی اور مغربی میڈیا کی بے حسی اور جان بوجھ کر نظر انداز کرنے کی پالیسی پر دنیا بھر میں شدید تنقید کی گئی۔ اس کہانی کا شرمناک اور افسوسناک پہلویہ ہے کہ امریکی اور پورے مغربی میڈیا نے اپنے روایتی تعصب کے باعث اس ہولناک واقعے کو چھپانا چاہا۔ جب یہ سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں پھیل گیا،تب بھی میڈیا اس واقعے کے اصل محرکات کو مٹانے کے چکروں میں رہا۔

مغربی میڈیا کی افسانہ طرازی

اس طرح کے تشدد کے کسی بھی واقعے کے بعد بین الاقوامی میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔مغربی ذرائع ابلاغ جو دکھانا چاہیں اور جس انداز میں کسی واقعے کو پیش کرنا چاہیں یہ ان کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے۔ سب سے پہلے یہ تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ واقعے میں کوئی مسلمان ملوّث ہے کہ نہیں۔ پھر اس کے تانے بانے دہشت گردی سے جوڑے جاتے ہیں۔ ایسے واقعات کو میڈیا میں نمایاں انداز میں پیش کیا جاتا ہے جن میں کسی بھی طرح مسلمانوں کے ملوّث ہونے کے امکانات ہوں۔ دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات تلاش کیے جاتے ہیں ۔ تراش خراش کے بعد ایک مکمل افسانہ ترتیب دیا جاتا ہے جو اپنے نتائج کے اعتبار سے بھرپور اثرات رکھتا ہے۔

حالیہ واقعہ بھی اس کی واضح مثال ہے۔ آغاز میں اس واقعے کو اسلام اور دہشت گردی سے منسوب کر کے ایجنڈا سیٹ کیا گیا۔اس کے بعد میڈیا کو اس کھوج میں لگا دیا گیا کہ وہ مخصوص دائرہ کار کے اندر رہ کرحقائق تلاش کریں۔ وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کی پریس کانفرنس اور حقائق کی وضاحت کے باوجود پاکستانی میڈیا بھی اسی کھوج میں لگا رہا کہ کوئی ایسی خبر تلاش کی جائے جس میں دہشت گردی کے تانے بانے پاکستان سے جوڑے جا سکیں۔ رفتہ رفتہ اس کے بارے میں سازشی تھیوریز کو مہمیز دی گئی۔

بین الاقوامی نشریاتی اداروں نے اس واقعے کو جس انداز میں رپورٹ کیا وہ بھی دل چسپی سے خالی نہیں۔ ان کا سب سے بڑا قابل اعتماد ذریعہ ذرائع ابلاغ ہیں۔ وہ جہاں بھی کوئی ایسی بات کہنا چاہتے ہیں جس کے ذریعے میڈیا کا ایجنڈا سیٹ کیا جا سکتا ہو اس کے لیے وہ ایک جملہ استعمال کرتے آ رہے ہیں کہ''ذرائع کا کہنا ہے''۔اس ابلاغی ذریعے میں کس قدر صداقت ہے،اس کی تحقیق نہیں کی جاتی۔
سب سے پہلے کہا گیا کہ امریکی فورسز کی مبینہ جوابی کارروائی میں ماری گئی خاتون بہت زیادہ مذہبی رجحان رکھتی تھی۔

اس کے ثبوت کے طور پر جو تصاویر میڈیا پر بار بار دکھائی گئی ہیں،ان میں اس کا چہرہ حجاب میں دکھایا گیا ہے حقیقت یہ ہے سعودی عرب کے ماحول میں پرورش پانے کے باوجود وہ مغربی تہذیب و ثقافت میں رچ بس گئی تھی۔اس کی ماڈرن اور لبرل تصاویر میڈیا نے نہیں دکھائی ہیں۔ حجاب اسلامی استعارے کے طور پراستعمال ہوتا ہے اس لیے اس کا مذاق اڑایا گیا۔پہلے کہا گیا کہ خاتون تاشفین ملک نے فیس بک کے ایک دوسرے اکاؤنٹ کے ذریعے عراق اور شام میں برسرپیکار شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ (داعش) کے رہنما کی بیعت کے بارے میں پوسٹ کی تھی۔ اس اکاﺅنٹ کی تاحال تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

ایک صحافی بھائی دور کی کوڑی لایا کہ شادی کے بعد تاشفین نے کہا تھا کہ ’انھیں امریکا جا کر کوئی اہم کام کرنا ہے۔ پھر کہا گیا کہ تاشفین اور اس کے شوہر رضوان فاروق نے حملہ کرنے سے قبل ''بھرپور منصوبہ بندی''کی تھی۔ چند گھنٹوں کے بعد ایک اور بیان سامنے آیا کہ حملہ آور جوڑے نے حملے سے قبل نشانہ بازی کی مشق کی تھی۔

تاشفین ملک کا تعلق لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز سے بھی جوڑنے کی کوشش کی گئی کہ مولانا عبدالعزیز کے ساتھ اس کی تصویر ملی ہے۔ مولانا عبدالعزیز نے کسی بھی ایسی خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے کبھی اپنی اہلیہ یا بیٹی کے ساتھ کوئی تصویر نہیں بنوائی۔

وزیرداخلہ چودھری نثارعلی خان نے پریس کانفرنس میں تاشفین ملک کے حوالے سے بتایا کہ اس کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے تھا۔تاہم وہ کئی برس پہلے اپنے والدین کے ساتھ سعودی عرب چلی گئی تھیں۔ تاشفین کی شادی بھی سعودی عرب میں ہوئی اور وہیں سے وہ امریکا گئیں۔ دوسری جانب خود امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کہتا ہے کہ ایسے شواہد نہیں ملے ہیں کہ ان دونوں حملہ آوروں نے شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے کہنے پر حملہ کیا ہو۔امریکا کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) نے کہا کہ فائرنگ کے ملزم رضوان فاروق اور ان کی اہلیہ تاشفین ملک کے خلاف اس سے قبل کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی ان کا نام شدت پسندی کے حامل افراد کی فہرست میں تھا۔

نقال پاکستانی میڈیا

بین الاقوامی نشریاتی اداروں کی تقلید اور نقالی کے باعث پاکستان میں تحقیقاتی اور پیشہ ورانہ صحافت تو جیسے دم ہی توڑ گئی ہے۔ حالانکہ بین الاقوامی اداروں کے اپنے مفادات ہیں۔ان کی تکمیل کے لیے ان کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے اور پروپیگنڈے کے وسیع جال کے ذریعے وہ اس پر کام کر رہے ہیں۔ وہ پاکستان کا خوبصورت تصور آخر کیوں اجاگر کریں گے۔ بلا تحقیق ان اداروں کی خبروں پر یقین کر لینے کا واضح مطلب ان کے مفادات کی تکمیل کے لیے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کرنا ہے۔

بریکنگ نیوز کے چکر میں صحافتی اقدار کا مذاق معمول بن چکا ہے۔ پاکستانی میڈیا اس دوڑ میں صحافتی اخلاقیات کو فراموش کر دیتا ہے۔ ہمیں اس رویّے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی میڈیا اب کسی طرح یہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہے کہ ان دونوں افراد کا تعلق کسی بھی حوالے سے داعش یا القاعدہ سے رہا ہے۔ اس واقعے کے ذریعے پاکستان میں داعش کے نیٹ ورک کا سراغ لگانے اور پاکستان کو دوبارہ کسی عالمی سازش میں پھنسا کر تعمیر و ترقی کے سفر کو روک دینا اس سارے منصوبے کا بنیادی مقصد نظر آتا ہے۔

دہشت گردی کے واقعات تو دنیا بھر میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں پیش آتے ہیں لیکن دنیا بھر میں کوئی میڈیا ایسا نہیں ہو گا جو بلا تحقیق ملکی وقار کو داﺅ پر لگا کر دنیا کو تباہی کے دہانے پر لے جانے والی طاقتوں کو ایسا موقع فراہم کرے کہ وہ ملک کی بربادی اور تاراج کرنے کے عمل میں اپنا کردار ادا کریں۔

میڈیا رائے سازی میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا میں بھی شدت پسند رہ نما ابھر رہے ہیں لیکن ان شدت پسند رہ نماﺅں کا تو میڈیا میں کوئی تذکرہ نہیں ہوتا۔ ہر جگہ بلا سوچے سمجھے شدت پسندی کے سابقے اور لاحقے مسلمانوں پر چسپاں کر دیے جاتے ہیں۔ امریکا میں ری پبلکن پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار بننے کے خواہش مند بین کارسن نے کہا ہے کہ امریکا کا صدر کسی مسلمان کو نہیں ہونا چاہیے۔اسی پارٹی کے ایک دوسرے مضبوط صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا کہناہے کہ امریکا میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی عاید ہونی چاہیے۔

قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس قدر متعصب اور شدت پسند رہ نما نہ صرف مقبول ہیں بلکہ امریکی ان خرافات پر یقین بھی رکھتے ہیں۔ جب اس طرح کے بیانات آئیں گے اور اسلحہ کنٹرول کا کوئی واضح قانون بھی نہیں لایا جاسکے گا تو دہشت گردی کے اس طرح کے واقعات بھی ہوتے رہیں گے۔ ایسی صورت حال میں صرف مسلمانوں ہی کو موردِ الزام ٹھہرانا کہاں کا انصاف ہے؟

سیّد عابد علی بخاری


برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر

ترکمانستان ، افغانستان، پاکستان ،بھارت گیس پائپ لائن

تحریر اسکوائر

$
0
0

ٹیکسی والا گھما پھرا کر ایک بڑے، مگر عام سے چوک سے گزرا تو میرے گائیڈ نے بتایا کہ یہ یہاں کا شہداء چوک ہے ،جو دوسری عرب اسرائیل جنگ ،جو 6 اکتوبر 1973ء کو شروع ہوئی تھی، کے شہیدوں کے نام سے منسوب تھا۔حیرت انگیز طور پر مصری اس جنگ کو لے کر بہت حساس ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ انہوں نے ایک بہت ہی کامیاب منصوبہ بندی کے ساتھ نہر سوئز کو راتوں رات عبور کیا اور بہادری سے لڑتے ہوئے دوسرے کنارے پر مورچہ بند اسرائیلیوں پر جھپٹ پڑے۔

 یہ صحرائے سینا کا وہ علاقہ تھا، جو پہلی عرب اسرائیلی جنگ 1967ء میں مصر کے ہاتھ سے نکل کر اسرائیلی قبضے میں چلا گیا تھا تب سے یہ نہر آمدورفت کے لئے بند ہوگئی تھی۔ نہر کے کنارے، ایک طرف مصری اور دوسری طرف اسرائیلی مورچہ بند بیٹھے تھے۔ مصری بڑی جرأت اور بہادری سے لڑے اور نہر کے پار پہنچ کر آس پاس کا سارا علاقہ یہودیوں سے خالی کرا لیا۔ ہرچند کہ بعد میں اسی لڑائی میں ان کا بہت نقصان ہوا تھا اور انہوں نے ایک بار پھر اپنا بہت سارا علاقہ بھی گنوا دیا تھا جس پر اسرائیل نے اس جنگ کے دوران قبضہ کر لیا تھا۔ 
جیساکہ سب کو علم ہے یہ کوئی اتنی لمبی چوڑی جنگ تو نہیں تھی، کچھ روز ہی جاری رہی اور بہت جلد ہی بڑی عالمی طاقتوں نے بیچ میں پڑ کر دونوں ملکوں میں جنگ بندی کروا دی ، تاہم یہ مصر اور اسرائیل ،دونوں کے لئے ہی بہت تلخ یادیں بھی چھوڑ گئی تھی۔ اسرائیل نے جہاں ایک بار پھر مصر کے بہت سارے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا، تو دوسری طرف یہ جنگ اس کے منہ پر ایک شدید طمانچہ بھی ثابت ہوئی کہ وہ اپنے قیام کے بعد پہلی دفعہ کسی ہزیمت سے دوچار ہوا تھااور اس کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم چور چور ہوگیا تھا، تاہم اس کا فائدہ مصر کو یہ ہوا کہ سوئز نہر سات سال کی بندش کے بعد ایک دفعہ پھر کھل گئی تھی اور قومی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ اُن کو واپس مل گیا تھا۔

 مصری اسے اپنی ایک بہت بڑی کامیابی تصور کرتے تھے۔ نہر کی صفائی کے بعد اب ایک بار پھر بڑے بڑے جہاز اور تیل کے ٹینکر اس میں سے گزرنے لگے تھے، ہفتوں کا سفر دنوں میں طے ہونے لگا اور یوںد نیا نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ مصری اپنی اس ادھوری فتح کو لے کر بھی بڑے سر شار تھے اور یہی وجہ تھی کہ نہ صرف قاہرہ بلکہ سارے مصر میں جگہ جگہ ریسٹورنٹ اور دُکانوں کے نام اس یوم فتح یعنی 6 اکتوبرکے حوالے سے رکھے ہوئے ہیں، مثلاً 6 اکتوبر ریسٹورنٹ، 6 اکتوبر سکول وغیرہ۔جیساکہ پہلے لکھا کہ شہدا چوک اُس وقت تک کوئی ایسی قابل دید جگہ نہ تھی، تاہم شہر کے کاروباری مرکز، بڑے ہوٹلوں اور دریائے نیل کے قریب ہونے کی وجہ سے یہ کافی جانا پہچانا اور اہم چوک تھا۔ 

یہ شارع تحریر پر واقع تھا۔ اسی مناسبت سے اس کا نام آہستہ آہستہ بدل کر تحریر سکوائر ہوگیا ،جس نے بعدازاں حالیہ سالوں میں صدر حسنی مبارک کے خلاف اٹھنے والے ایک شاندار انقلاب کے حوالے سے بہت مقبولیت حاصل کی۔ یہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے آکر کئی روز تک دھرنا دیا اور مظاہرین کی پولیس اور فوج کے ساتھ کئی جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں کئی لوگ جان بحق اور زخمی ہوئے اور پھر یہ صحیح معنوں میں شہداء چوک بن گیا ،جہاں حقیقتاً بہت ساری شہادتیں ہوئیں۔ عشاء سے ذرا پہلے ہم ہوٹل واپس پہنچ گئے۔ گائیڈکے ساتھ میرا آج آخری دن تھا۔ کچھ ہی دیر میں اس کا ساتھ چھوٹ جانے والا تھا کیونکہ مجھے بھی اعلیٰ صبح الأقصر کیلئے پرواز بھرنا تھی۔

 میں نے اسے اپنے ساتھ ہی کھانے پر مدعو کیا، اس کا شکریہ ادا کیا، اس کی طے شدہ فیس ادا کی اور ایک اچھا وقت گزارنے میںمدد دینے پر اس کو معقول بخشش دے کر رخصت کیا۔ وہ بہت احسان مند نظر آ رہا تھا اور بار بار مجھے کہہ رہا تھا کہ اگلی بار جب میں قاہرہ آئوں تو اسے ضرور اطلاع دوں وہ آ جائے گا۔ ہم دونوں ہی اس وقت اداس ہوگئے تھے میں اس کو دروازے تک چھوڑ کر اپنے کمرے میں چلا آیا اور کوئی دو گھنٹے تک یونہی ساکت پڑا چھت کو گھورتا رہا، پھر میں نے اپنا مختصر سا سامان سمیٹا اور بیگ میں رکھ لیا۔

محمد سعید جاوید

 

سولہ دسمبر 1971...داستان خونچکاں…...

$
0
0

مشرقی پاکستان میں 1970 کے انتخابات میں بنگالی نیشنل ازم کو فتح ہوئی۔ مولانا عبدالحمید خان بھاشانی نے جنوری 1971 میں خودمختار مشرقی پاکستان کا مطالبہ کیا اور مغربی پاکستان کو ’’خداحافظ‘‘ کیا۔ صدر جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے یکم مارچ 1971 کو ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے ہونے والے 3 مارچ1971 کے اجلاس کو غیر معینہ مدت کے لیے منسوخ کردیا۔ اس سے پہلے ہی مغربی پاکستان میں اکثریتی پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے ہونے والے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کردیا۔

 قومی اسمبلی کے اجلاس کے التوا کے اعلان سے پورے مشرقی پاکستان میں ’’زندہ آتش فشاں‘‘ پھٹ پڑا۔ شدید خونریز ہنگامے شروع ہوگئے۔ ڈھاکہ اسٹیڈیم میں مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے کرکٹ میچ کے کھلاڑیوں پر حملہ کردیا گیا۔ پورے مشرقی پاکستان کا مکمل کنٹرول شیخ مجیب الرحمن نے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور صوبہ کو مکمل طور پر مفلوج کردیا اور سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیا۔ محب وطن غیر بنگالیوں اور پاکستانی افواج پر حملہ کرنا شروع کردیا گیا۔
مارچ 1971 کو شیخ مجیب الرحمن نے اعلان کیا کہ ہماری یہ تحریک آزادی اور بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک ہے۔ آزادی اور بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک ہے۔ آزادی کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں پاکستانیوں  اور غیر بنگالیوں کو ختم کردو۔ مشرقی پاکستان مکمل طور پر آگ اور خون کے دریا میں نہا گیا۔ غذا، پانی اور بجلی کی ترسیل مکمل طور پر بند کردی گئی۔ گھروں کو لوٹ کر آگ لگانے اور قتل کرنے کا عمل شروع کردیا گیا۔

 گورنر ایڈمرل احسن نے استعفیٰ دے دیا۔ جنرل ٹکا خان آگئے۔ ہر شعبہ زندگی میں مکمل اسٹرائیک اور بلیک آؤٹ تھا اور شاہراہیں، پلوں کو تباہ کردیا گیا۔ ٹیلی فون اور دیگر کو ختم کردیا گیا تھا۔ ہر علاقہ ایک دوسرے سے کٹ گیا تھا۔ بغاوت بلند کردی گئی۔ پاکستانی پرچم کو جلا کر اس کی جگہ بنگلہ دیش کا پرچم بلند کردیا گیا۔ صرف غیر بنگالی محب وطن پاکستانیوں کے علاقوں میں اور کنٹونمنٹ ایریاز میں پاکستانی پرچم آویزاں رہا۔ مکتی باہنی، لال باہنی اور باغیوں نے غیر بنگالیوں اورعسکری اداروں پر پورے مشرقی پاکستان میں حملے کرکے شہید کرنا شروع کردیا جس کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
شمالی مشرقی پاکستان کا شہر سانتا ہار، جیسور، لال منیر پاٹ، دیناج پور، کھلنا نے شہری علاقے جمال پور، کشتیا، راج شاہی کے نواحی علاقے سراج گنج گھاٹ، ناٹور، بوگرہ گائے بندھا، مغربی شہر میحن سنگھ، ڈھاکہ کے نواحی علاقے، پہاڑتلی، چٹاگانگ کے علاوہ چھاؤتلہ، سردار بہادر اسکول کے نزدیکی علاقوں، وائرلیس کالونی، حالی شیر، کرنافلی، کپتائی پورٹ کالونی، فوجدار ہاٹ، ڈھاکہ کے واری نرائن گنج، سید پور وغیرہ کو نیست و نابود کردیا گیا۔ انھیں پاکستان کا ساتھ دینے کی سزا دی جا رہی ہے۔  پنجابیوں کو ’’حلال‘‘ کیا جا رہا تھا۔

 انھیں مغربی پاکستان کا ایجنٹ پکارا جا رہا تھا۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے غیر بنگالی عرف عام بہاریوں کا صبح کا ناشتہ اور شام کا کھانا کھایا جائے۔ حالات سنگین ہوتے جا رہے تھے۔ صدر پاکستان جنرل یحییٰ خان 15 مارچ1971 کو شیخ مجیب الرحمن سے سمجھوتہ  کرنے کے لیے ڈھاکہ آئے اور بعد میں بھٹو اور دیگر سیاسی رہنما اور قائدین بھی پہنچ گئے۔ شیخ مجیب نے چھ نکات کے علاوہ کسی اور طرح سے معاملات طے کرنے کی مخالفت کی۔ سمجھوتہ ناکام ہوا۔ صدر یحییٰ خان 25 مارچ کی رات واپس مغربی پاکستان کے لیے روانہ ہوگئے۔ اس حکم کے ساتھ کہ 26 مارچ کی صبح ایک بجے  ایکشن کردیا جائے۔پاکستانی افواج نے انسانی جانوں اور ملک بچانے کے لیے اقدامات شروع کردیے۔

پورے مشرقی پاکستان کے چپے چپے پر پاکستانی افواج نے جان کا نذرانہ دے کر اور غیر بنگالیوں محب وطن پاکستانیوں کے ساتھ مل کر کنٹرول سنبھالا۔ دوبارہ پاکستان کی حاکمیت قائم کی۔ 5 اپریل کو گورنر امیر عبداللہ خان نیازی ڈھاکہ آئے اور جنرل ٹکا خان واپس مغربی پاکستان چلے گئے۔ بڑی تعداد میں عوامی لیگی، اسٹوڈنٹس لیگ اور دیگر باغی ہندوستان فرار ہوگئے۔

 جہاں انھیں ہندوستان نے اچھی طرح سے پناہ گزین کیمپ میں رکھا اور عوامی لیگ ورکروں، جوانوں کو کلکتہ و دیگر علاقوں میں عسکری تربیت گاہوں میں بھیج دیا۔ جہاں انھیں گوریلا اور مکمل جنگی تربیت دی گئی۔عام معافی کا اعلان کیا گیا۔ ان شرپسند باغیوں کو جنھوں نے پاکستانی فوج اور غیر بنگالیوں پر حملے کیے  تھے وہ ہندوستان اور دیگر جگہوں سے آکر شہروں کے مرکزی علاقوں میں براجمان ہوگئے۔ داڑھی، ٹوپی رکھ لی، تکنیکی طور پر انھیں ہر قسم کا ہتھیار چلانے کی تربیت حاصل تھی اور دفاعی نقطہ نگاہ سے اپنی پوزیشن کو محفوظ بنانا شروع کردیا تاکہ آیندہ آنے والے حالات اور دنوں میں بھرپور کردار ادا کرکے پاکستانیاداروں کو تباہ و برباد کیا جاسکے۔

ذرایع نقل و حمل کو مزید تباہ کیا جاسکے۔ہندوستان نے حملہ کردیا۔ مشرقی پاکستان کے تمام علاقوں میں پاکستانی فوج بے جگری سے لڑتی رہی اور شہید ہوتی رہی۔ ان کے شانہ بشانہ غیر بنگالی بھی محاذ پر جانوں کا نذرانہ دیتے رہے۔ عوامی لیگ کے ورکروں نے ہندوستانی فوج سے تربیت لی تھی۔ اب اندرون شہر ریل گاڑی، پل، راستے، بجلی، پانی اور نقل و حمل کے سارے راستے ختم کردیے۔ جس کی وجہ سے ہر علاقہ ایک دوسرے سے کٹ گیا تھا اور غیر بنگالی پاکستانیوں کے رہائشی علاقوں کو گھیر لیا گیا۔

 درخت، خاردار تار اور دیگر چیزوں سے ان کے گرد گھیرا تنگ کردیا گیا تھا۔ حالات نازک سے نازک ہوتے جا رہے تھے۔ غیر بنگالی نوجوان پاکستانی افواج کے ساتھ سرحدوں اور دیگر تنصیبات کی حفاظت کے لیے گھر میں موجود نہیں تھے۔ جس کی وجہ سے ان کے علاقوں میں قیامت برپا تھی۔ ان کی عورتوں، لڑکیوں کی آبرو ریزی، بوڑھے مردوں اور بچوں کا قتل عام کیا جا رہا تھا۔ پولیس و دیگر بنگالی عسکری ادارے ان کے ساتھ تھے۔ ہندوستانی فوجوں کو اندر گھسنے کا موقع نہ مل سکا۔ ڈھاکہ کے گرد و نواح میں پیراشوٹ کے ذریعے اتر کر ڈھاکہ پر قبضہ کرلیا جب کہ سرحدوں پر جنگ جاری رہی۔

بالآخر 16 دسمبر 1971 کو خون آشام شام آگئی اور ڈھاکہ ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ پاکستانی فوج اور ان کے ساتھی ہندوستان منتقل کردیے گئے۔ غیر بنگالی پاکستانی شہید ہونے کے لیے محصور اور قید و بند ہوگئے۔ قیامت سے پہلے قیامت آگئی تھی۔ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش میں معاہدہ ہوا۔ جس کے تحت ہندوستان کی جیل میں اسیران فوجی اور ان کے ساتھی پاکستان آگئے۔ بنگلہ دیش سے بھی محدود تعداد میں غیر بنگالی محب وطن پاکستان آئے۔ لیکن ڈھائی لاکھ کے قریب غیر بنگالی پاکستانیوں کو کربلا کا مسافر بنادیا گیا۔

 ان کا جرم صرف وطن سے محبت کرنا ہے۔ جنرل ضیا الحق مرحوم کے زمانے میں ’’رابطہ ٹرسٹ‘‘ بنا تھا جس کی ذمے داری تھی کہ وہ محصورین بنگلہ دیش کو لانے کا انتظام کرے۔ اس میں سعودی عرب نے کثیر رقم دی تھی جوکہ اب بھی جمع ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ٹرسٹ کو فوری طور پر بحال کیا جائے۔ ملک میں اس بات کی اشد ضرورت ہے حب الوطنی کے جذبے کو فروغ دیا جائے۔ اس کی ابتدا 1971 میں مشرقی پاکستان میں دفاع پاکستان میں جان و مال کا نذرانہ پیش کرنے والے محب وطن محصور پاکستانیوں کو بنگلہ دیش سے پاکستان منتقلی کے آغاز سے کیا جائے۔

حسن امام صدیقی

آئے بھی وہ گئے بھی وہ ختم فسانہ ہوگیا

$
0
0

بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اسلام آباد میں منعقد ہونے والے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان تشریف لائیں ہم اور ہمارا میڈیا ان کی آمد ہی پر اس قدر خوش ہیں کہ ان کی آمد کو دونوں ملکوں کے درمیان موجود بدترین تعلقات کے حوالے سے ایک بہت بڑا نیک شگون قرار دے رہے ہیں۔

محترمہ نے پاکستانیوں کو آتے ہی یہ خوش خبری سنائی ہے کہ ’’میں پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا پیغام لائی ہوں‘‘۔ ہم اس بات پر فخر سے پھولے نہیں سما رہے ہیں کہ عنقریب دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہونے والا ہے اور یہ مذاکرات کوئی عام قسم کے نہیں بلکہ ’’جامع مذاکرات‘‘ ہوں گے۔ جامع مذاکرات پر ہماری خوشی کی وجہ یہ ہے کہ ان مذاکرات میں کشمیر بھی شامل ہوگا۔ پچھلے جامع مذاکرات میں بھی بھارت مسئلہ کشمیر پر بات کرتا رہا ہے اور وہ بات صرف اتنی ہوتی ہے کہ بھارت کہتا ہے ’’کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے۔ 

کشمیر کا مسئلہ 68 سال پرانا ہے، اس مسئلے کی بے شمار تاویلیں کی جاتی ہیں لیکن اگر اس مسئلے کی مختصر لیکن جامع تشریح کی جائے تو وہ یہی ہوسکتی ہے کہ یہ مسئلہ ’’طاقت اور کمزوری‘‘ کا مسئلہ ہے اگر پاکستان طاقت کے حوالے سے بھارت کے ہم پلہ ہوتا تو نہ یہ مسئلہ پیدا ہوتا نہ 68 سال تک بے مقصد بے معنی مذاکرات کا موضوع بنتا۔

ہماری شاطرانہ سیاست میں مذاکرات کی اہمیت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، امریکا بہادر تو مذاکرات کو اس قدر سر پر بٹھا لیتا ہے کہ اسے ہر مرض کی واحد دوا قرار دیتا ہے، مسئلہ کشمیر کے حوالے سے امریکا ہمیشہ دونوں ملکوں کو مذاکرات کا ہی درس دیتا ہے، اب سشما سوراج کے دورہ پاکستان کے موقعے پر بھی اس کا یہی کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے اختلافات دور کرنے کا واحد حل مذاکرات ہیں، ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ 68 سال سے مذاکرات کی جو جھک ماری ہو رہی ہے اس کا نتیجہ کیا نکلا ہے؟
بلاشبہ اختلافات کا حل جنگوں سے نہیں مذاکرات ہی سے ہونا چاہیے لیکن مذاکرات اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں جب فریقین’ کچھ لو کچھ دو ‘ کے اصول کو اپناتے ہیں جب سوئی اٹوٹ انگ پر ہی اٹک جائے تو مذاکرات سوائے دھوکے اور بکواس کے کچھ نہیں رہ جاتے۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں دنیا کے پسماندہ ترین ملک ہیں ۔

جہاں 53 فیصد عوام غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ایسے ملکوں میں اگر عوام کی زندگی کو بہتر بنانے انھیں بھوک و افلاس بے کاری بیماری سے نجات دلانے کے لیے دفاع کے نام پر خرچ کیے جانے والے اربوں کھربوں روپے اگر عوام کو بھوک بے روزگاری بیماری سے بچانے کے لیے خرچ کیے جائیں تو اس سے بڑھ کرکوئی نیک کام نہیں ہوسکتا لیکن اس کے بجائے کشیدگی کو برقرار رکھ کر مسئلے کو پینڈنگ میں ڈال کر ہتھیاروں کی دوڑ کو ترجیح دی جائے تو ایسی قیادت اپنے ملک کے عوام علاقے کے عوام اور دنیا کے عوام کے لیے بھی ایک لعنت سے کم نہیں اور انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ بھارتی قیادت نہرو سے لے کر نریندر مودی تک اپنے عوام خطے کے عوام دنیا کے عوام کے لیے ایک لعنت بنی ہوئی ہے۔

پاکستان دہشت گردی کی مصیبت میں عشروں سے گرفتار ہے اور اب تک 50 لاکھ سے زیادہ پاکستانی دہشت گردی کے شکار ہوچکے ہیں۔ان حقائق کو سمجھنے کے بجائے پاکستان پر یہ الزام لگانا کہ وہ دہشت گردی کا اڈہ اور دہشت گردوں کا سرپرست ہے سوائے عقلی دیوالیہ پن کے کیا ہوسکتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بھی دہشت گردی کی چھوٹی موٹی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں اور عین ممکن ہے کہ ان وارداتوں میں پاکستان کی مذہبی انتہا پسند طاقتیں ملوث ہوں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کشمیری عوام کو طاقت کے ذریعے قابو میں رکھنے کے لیے بھارتی حکمرانوں نے جو 7 لاکھ فوجی کشمیریوں پر مسلط کر رکھے ہیں کیا وہ دہشت گردوں سے کم ہیں کیا اب تک 70 ہزار کشمیری پاکستانی دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں یا بھارتی دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں؟

اقوام متحدہ نے کشمیر کے مسئلے کا حل کشمیر میں رائے شماری تجویزکیا ہے۔ بھارت اقوام متحدہ کی اس قرارداد کو قصہ پارینہ کہتا ہے اور جواز یہ پیش کرتا ہے کہ کشمیر میں کئی انتخابات ہوچکے ہیں جن میں کشمیری عوام نے حصہ لیا ہے لہٰذا اب کشمیر میں رائے شماری کی ضرورت نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کشمیری عوام بھارت کے ساتھ رہنے کو پسند کرتے ہیں تو پھر بھارت کو رائے شماری کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کشمیری عوام بھارت کی غلامی کو پسند نہیں کرتے جس کا وہ وقتاً فوقتاً اظہار کرتے رہتے ہیں۔

بھارت اور پاکستان ہی نہیں بلکہ خطے کے عوام کے بہتر مستقبل کے لیے کشمیر کے مسئلے کو کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل ہونا چاہیے ہم کشمیر کے مسئلے کو نہ مذہب کے حوالے سے دیکھتے ہیں نہ ہمارا یہ موقف ہے کہ کشمیر کو پاکستان میں شامل ہونا چاہیے  بلکہ ہمارا موقف یہ ہے کہ یہ مسئلہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل ہونا چاہیے جب کہ پاکستان اس حد تک جانے کے لیے تیار ہے کہ اس مسئلے کے حل میں کشمیری عوام کی مرضی کے علاوہ ہندوستان اور پاکستان کے مفادات کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے۔

ہمارا خیال ہے کہ 68 سال کا عرصہ اور ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ عوام کے بہتر مستقبل کا تقاضا ہے کہ اب بھارتی قیادت کو اٹوٹ انگ کے سحر سے نکلنا چاہیے اور محض جامع مذاکرات کے ڈھکوسلے میں پناہ لینے کے بجائے جامع مذاکرات کا اصل ایجنڈا مسئلہ کشمیر کو تسلیم کرنا چاہیے کہ اسی طریقے سے دونوں ملک نفرتوں، جنگوں کے حصار سے باہر نکل سکتے ہیں اور اسی طرح عوام کے بہتر مستقبل کی امید پیدا ہوسکتی ہے کیا سشما سوراج یہ پیغام لے جاسکتی ہیں؟

ظہیر اختر بیدری

شام کے پھولو! ہم شرمندہ ہیں

$
0
0

کل رات جب میں اپنے بچوں کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا تو کسی نے مجھے شام کے ایک خاندان کی ویڈیو واٹس ایپ کی۔ دورانِ کھانا اسی وقت میں نے دیکھنا شروع کر دی۔ بس نہ پوچھیے کہ یہ ویڈیو دیکھ کر مجھ پراور میرے بچوں پر کیا گزری؟ اس ویڈیو میں ایک پاکستانی نژاد شامی خاندان کا المیہ تھا۔ دو معصوم بچے اور بچوں کا والد کھلے آسمان تلے ایک ساتھ سہمے ہوئے بیٹھے تھے۔ باپ کے ہاتھ میں صرف ایک خشک روٹی تھی اور اس کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو گر رہے تھے۔

 دونوں معصوم بچے اپنے بابا کے ہاتھ تھامے انہیں تسلی دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ بابا جانی نہ روئیں۔‘‘ یہ حقیقت ہے جس نے بھی شام کے ان پھول سے بچوں اور بچیوں کی دل دہلا دینے والی تصویریں دیکھیں وہ بے بسی پر آنسو بہائے بغیر نہ رہ سکا۔

اس وقت میرے سامنے شام کے 96 زخمی بچوں کی تصاویر رکھی ہیں۔ یہ تصویر ایک معصوم سی بچی کی ہے جس کی عمر بمشکل دس یا بارہ برس ہوگی۔ اس بچی کے سر، ناک اور منہ سے خون بہہ رہا ہے۔ اس کی دونوں ٹانگیں شدید زخمی ہیں اور یہ ایک تباہ حال گھر کے سامنے اینٹوں، بجری اور ریت کے ڈھیر پر پڑی ہے۔ بچی کی دونوں آنکھیں کھلی ہیں اور اس کا لباس تار تار ہے۔ بچی کی یہ تصویر زبانِ حال سے دنیا کے حکمرانوں کو بہت کچھ کہہ رہی ہے۔ ایک تصویر میں دو سال کے گلاب سے بچے کی گردن سے خون بہہ رہا ہے۔

 اس کے والدین اسپتال لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ان پر میزائل داغا گیا جس میں زخمی بچہ، ماں باپ سمیت شہید ہو جاتا ہے۔ یہ لاش عالمی ضمیروں سے سوال کناں ہے: ’’میرا جرم کیا ہے؟‘‘ ایک اور تصویر میں اسکول پر فضائی بمباری سے شہید ہونے والے 3 بچوں کی سفید کپڑوں میں لپٹی لاشیں رکھی ہیں۔ کفن سے بچوں کا منہ کھلا رکھا ہوا ہے۔ ان کے چہرے اتنے خوبصورت ہیں کہ پیار کرنے کو جی چاہتا ہے۔
ان شامی بچوں کی لاشیں دنیا کے 245 آزاد ممالک سے انسانیت کے ناتے پوچھ رہی ہیں ہمیں کیوں مارا گیا؟ ایک کتے اور بلے کے مارے جانے پر احتجاج کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیمیں کیوں لب بہ مہر ہیں؟
ایک تصویر میں دس سالہ بچے کی میت کو دفنانے کے لیے لے جایا جا رہا ہے۔ 

اس کے دوستوں نے میت کاندھوں پر اُٹھا رکھی ہے۔ اس کے کلاس فیلو احتجاج کر رہے ہیں۔ ایک پلے کارڈ پر درج ہے: ’’اقوامِ متحدہ نے دونوں آنکھیں کیوں بند کی ہوئی ہیں؟‘‘ ایک تصویر میں ایک بوڑھی خاتون، اپنی گود میں دو زخمی بچیوں کو لئے پریشان وحیران کھڑی ہیں۔ پس منظر میں بمباری سے وسیع علاقے میں آگ لگی ہوئی ہے۔ اس کے گھر سے شعلے بلند ہو رہے ہیں۔ بوڑھی خاتون بڑی حسرت سے اپنے گھر کو دیکھ رہی ہے جو جل رہا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے اس کا سارا خاندان شہید ہو چکا ہے۔ صرف یہ دو نواسیاں یا پوتیاں باقی رہ گئی ہیں۔ وہ بوڑھی خاتون زبانِ حال سے کہہ رہی ہے: ’’منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے؟‘‘ ایک تصویر ہسپتال کی ہے، لیکن بمباری سے یہ اسپتال بھی تباہ ہو گیا اور نتیجے میں بیمار بچے بھی شہید ہوگئے۔

انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والو! بتائو تو سہی کہیں ایسا بھی ہوا ہے کہ بیمار اور معذوروں پر بمباری کر کے انہیں شہید کیا گیا ہے؟ کس کس تصویر کا رونا روئیں؟ سیکڑوں ہزاروں شامی بچے موت کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ اس کا اعتراف خود اقوام متحدہ نے بھی کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال ’’یونیسیف‘‘ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں یہ ہولناک انکشاف کیا ہے کہ شام میں جاری تنازع کی وجہ سے وہاں کے 80 لاکھ بچوں کو بلاواسطہ یا بالواسطہ خطرات لاحق ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2011ء سے اب تک صدر بشارالاسد کی حکومت کے بیرل بم حملوں اور گولہ باری سے 11 ہزار سے زائد بچے شہید ہو چکے ہیں۔
شامی بچوں کو تشدد، قید و بند، اغوا اور جنگ میں جبری طور پر استعمال کئے جانے سمیت پونے 3 ہزار قسم کے مظالم کا سامنا ہے۔ 20 لاکھ بچے ایسے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں، جہاں لڑائی کی وجہ سے امداد کی فراہمی بہت مشکل ہے۔ پورے ملک میں بچوں کے لیے کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ لاکھوں بچے جانی خطرات سے دوچار ہیں تو ان کی تعلیم اور صحت وغیرہ کے معاملات کا کیا ذکر کرنا؟ اگر بچوں کی شہادتوں کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو ان کی تعداد اب لاکھوں تک پہنچ جانے کا قوی اندیشہ ہے۔ 

ایک طرف تو یہ صورت حال ہے، جبکہ دوسری طرف ملک کے تاریخی اور مقدس مقامات کو بے دردی سے شہید کیا جا رہا ہے۔ یاد رکھیں! شام دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ شام کا دارالحکومت دمشق دنیا کا واحد قدیم ترین شہر ہے جو مسلسل آباد چلا آ رہا ہے۔ صدیوں تک ملک شام آسیری، بابلی، مصری اور ایرانی حملہ آوروں کی آماجگاہ رہا ہے۔ 333ق م میں اسکندر اعظم کے زیر تسلط آ گیا تھا۔ 62ق م میں دمشق رومی سلطنت کا صوبائی دارالحکومت بھی رہا۔

بعدازاں رومی سلطنت دو ٹکڑے ہوئی تو یہ بازنطینی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ دمشق میں حضرت ایوبؑ، حضرت یحییٰؑ ، حضرت ذوالکفلؑ جیسے جلیل القدر انبیائے کرام کی قبریں بھی موجود ہیں۔ یہاں اسلام کی آمد 6 ہجری میں ہوئی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ روم ’’ہرقل‘‘ کے نام دعوتِ اسلام کا نامہ مبارک بھیجا۔ حضورؐ کے وصال کے بعد خلافت صدیقی کے دوران مجاہدین اسلام نے رومیوں کو شکست دینے کے بعد ’’یرموک‘‘ میں انہیں محصور کر لیا۔ محاصرہ جاری تھا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انتقال ہو گیا۔ 

حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں معرکہ یرموک نے رومیوں کی کمر توڑدی۔ ’’ہرقل‘‘ بھاگ کر روم چلا گیا۔ شام حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں سلطنت اسلامیہ کے 11 صوبوں میں سے ایک صوبہ تھا۔ اموی خلفا کے زمانے میں دمشق دارالخلافہ بنا دیا گیا۔ 1616ء سے 1918ء تک شام خلافت عثمانیہ کا حصہ رہا۔ 1920ء میں معاہدۂ سان ریمو کے تحت یہ فرانس کے زیر کنٹرول آ گیا۔ 1941ء میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران فرانسیسی اور برطانوی افواج نے اس پر قبضہ کر لیا۔ لبنان جوکہ اس کا ایک حصہ تھا الگ ملک بنا دیا گیا۔ 1944ء میں مصر اور شام کو ملاکر ’’متحدہ عرب جمہوریہ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا اور جمال عبدالناصر اس کے صدر منتخب ہوئے۔ 1961ء میں فوج نے بغاوت کر دی۔

   فوجی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں شام کے جنوب میں گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل نے قبضہ کرلیا۔ 1974ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی شام نے بھرپور حصہ لیا۔ 1976ء میں شامی افواج لبنان میں عیسائیوں اور مسلمانوں کی خانہ جنگی کے بہانے داخل ہوگئیں۔ 1980ء میں روس اور شام کے مابین تعاون اور دوستی کا 20 سالہ معاہدہ ہوا۔ 1987ء میں عیسائی ملیشیا اور شامی فوجی دستوں میں شدید جھڑپیں ہوئیں۔ 6 جون 1982ء کو اسرائیل نے لبنان میں وادی بقاع پر حملہ کرکے 5 دن تک شامی فوج کو شدید نقصان پہنچایا۔ 11 جون 1982ء کو اسرائیل کے ساتھ بیٹھنے پر مجبور ہوگیا۔ 
   کویت پر عراقی حملے کی شام نے مذمت کی اور اتحادیوں کے ساتھ اپنی افواج بھی خلیج بھیجیں۔ 

عرب اسرائیل امن کانفرنس کے انعقاد کے لیے شام نے 1991ء کی امریکی تجاویز قبول کر لیں۔ 1992ء میں شام نے یہودی آبادی پر سفری پابندیاں ختم کردیں۔ 16 جنوری 1994ء میں شام نے جولان کی پہاڑیوں کے حوالے سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات شروع کئے جو بے نتیجہ رہے۔

سعد حریری کے والد، لبنان کے مرحوم وزیراعظم اور بیروت کی تعمیر نو کرنے والے رفیق حریری کو 2005ء میں قتل کر دیا گیا۔ حالات جیسے تیسے چلتے رہے، تاآنکہ 2011ء سے شروع ہو چکنے والی تحریک ’’عرب بہار‘‘ سے پورے مشرقِ وسطیٰ میں خزاں چھاچکی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں ایک ملک کے بعد دوسرے میں خانہ جنگی شروع ہو جاتی ہے۔ ایسے میں ان ملکوں میں مقیم پرامن عوام خصوصاً خواتین اور بچوں کا انتہائی برا حال ہے۔ اس وقت شام کے پھول بے دردی سے مسلے جارہے ہیں۔ شام کے پھولو! ہم شرمندہ ہیں ہمیں معاف کردینا، ہم تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتے 

 بشکریہ روزنامہ "جنگ"

 انور غازی

قرضوں، نج کاری اور ترسیلا ت کی معیشت - ڈاکٹر شاھد حسن


امریکی مسلمان ۔ پرامن باصلاحیت مگر ؟

$
0
0

جی ہاں ! یہ منظر آپ کی توجہ اور فکر و تدبر کا طالب ہے۔ امریکی افق پر یہ منظر مسلم اکثریتی آبادی والے ممالک کے عوام ، علماء کرام اور خوف سے سہمے ہوئے اقتدار سے چمٹے مسلم دنیا کے حکمرانوں کی خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ منظر یوں ہے کہ ارب پتی امریکی ڈونلڈ ٹرمپ اپنے انتخابی و سیاسی مفاد کیلئے مسلمانوں کی امریکہ آنے پر پابندیاں لگانے کا مطالبہ کر کے تعصب کو ہوا دے رہا ہے۔ اور امریکہ کے مسلمان ایک بار پھر پریشان ہیں۔

سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر 2001 کے بعد 14سال تک ہر طرح کی آزمائش، مشکلات،خفیہ نگرانی اور دیگر چیلنجوں کا سامنا کرنے کے بعد امریکہ کے مسلمان اور ان کی نئی نسل خود کو تبدیل شدہ امریکہ میں ’’ایڈجسٹ‘‘ بھی کر نہ پائے تھے کہ سانحہ پیرس کے ساتھ ہی امریکی ریاست کیلفورنیا میں 14 بے گناہ انسانوں کے قتل اور 21 کے زخمی ہونے والا دہشت گردی کا سانحہ ہو گیا۔ اس سانحہ کی ذمہ داری پاکستانی نژاد امریکی نوجوان سید رضوان فاروق اور اس کی پاکستانی اہلیہ تاشفین ملک پر عائد کی گئی ہے۔ اس واقعہ کے بعد امریکہ اور ہمسایہ ملک کینیڈا کے مسلمان اور ان کی نئی نسل شدید دبائو میں آگئے۔

 شک و شبے اور تعصب کی نظر سے دیکھنے والوں نے مسلمانوں کے خلاف مختلف آوازیں اٹھانا شروع کر دیں۔ امیگرنٹ آبادی والے بڑے امریکی شہروں نیویارک ، شکاگو اور لاس اینجلس وغیرہ میں بھی صورتحال ٹھیک نہیں۔ ایسی ریاستوں اور علاقوں میں جہاں کم علمی اور جذبات کے باعث 2001ء میں بھی بعض سکھوں کو مسلمان سمجھ کر تشدد بھی کیا گیا اور گور دوارے میں بے گناہ افراد کو قتل کیا گیا۔ وہاں مسلمان ایک بار پھر خوف اور تشویش کا شکار ہیں۔ یہ منظر حقیقی ہے امریکہ کے مسلمان اسی صورتحال کا شکار ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ایک اور حقیقی و عملی منظر بھی جڑا ہوا ہے۔
نیویارک کے ڈاکٹر طارق ابراہیم ، سہیل چیمہ ، اقبال پرویز اور ان کے دیگر ساتھی عالمی شہرت یافتہ ٹائمنر اسکوائر پر جمع ہو کر مسلم ریلی کا پرمٹ حاصل کر کے تحریک چلاتے ہیں تو ریلی میں سب سے آگے امریکہ میں پلنے والی نسل کے وہ نوجوان ہیں جو اردو کو صرف بولنے کی حد تک جزوی طور پر جانتے ہیں ۔ امریکی انگریزی ان کا اوڑھنا بچھونا خود کو قابل فخر امریکن مسلمان کہتے ہیں یہ امریکہ میں پیدا ہونے اور پلنے والی وہ نسل ہے جسے ان کے آبائی وطن کے بعض روایتی حلقے امریکن زدہ آزاد خیال نسل سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ 

یہی نوجوان ڈونلڈ ٹرمپ کو جرات کے ساتھ امریکہ میں ہی کھڑے ہو کر اسی کی زبان ، منطق اور امریکی مزاج کی مناسبت سے موثر جواب دے رہے ہیں کہ ہم کو اپنے دین اسلام پر فخر ہے جو ایک انسان کا قتل بھی پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ، دہشت گردی کو ممنوع اور امن کی تلقین کرتا ہے۔ جب امریکی معاشرے میں قتل ، ڈکیتی اور دیگر جرائم کرنے والوں کو ان کے نام سے شناخت کیا جاتا ہے۔ امریکی قانون اور نظام ملزم اور مجرم کو اس کے عقیدے سے نہیں بلکہ نام سے شناخت کرتا ہے۔ غیر مسلمان شہریوں کی کیتھولک یا پروٹسٹنٹ عیسائی ، ہندو، یہودی بدھسٹ یا دہریت کے حوالے سے شناخت نہیں کی جاتی تو پھر کسی 
مسلمان نام اور عقیدے والے ملزم یا مجرم کی شناخت امتیازی انداز میں کیوں؟ جس طرح کسی بھی جرم کا تعلق کسی مذہب سے نہیں اس طرح دہشت گردی ، بے گناہ کا قتل اور ایسے جرائم کا اسلام سے قطعاً تعلق نہیں۔

یہ نوجوان امریکہ میں رہ کر امریکی نظام کے تقاضوں اور حدود کو سمجھ کر اپنے غیرمسلم امریکی معاشرے کے سامنے جرات اور فخر کے ساتھ خود کو مسلمان قرار دیتے ہوئے دہشت گردی کی مذمت کرتے اور اسے غیر اسلامی فعل قرار دیتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب اور امتیازی سلوک کی مذمت کرنے کا ایسا جرات مندانہ کام کر رہے ہیں جس کی ہمت مسلم دنیا کے دولت مند اور بااختیار حکمرانوں میں بھی نہیں پائی جاتی۔

 نیویارک کے ٹائمنر اسکوائر ، نیوجرسی اور پنسلوانیا کے مسلمانوں کی فلاڈیلفیا   شکاگو اور دیگر شہروں میں امن کے فروغ ، مسلم فارپیس ، دہشت گردی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلم دشمنی کے بیانات کی مذمت کیلئے اجتماعات اور ریلیاں منعقد کرنے والے قابل تحسین ہیں کہ وہ پرامن رہتے ہوئے قانون کے دائرے میں اپنے تشخص کا اظہار اور اسلام کے درست امیج کا بطور امریکی شہری اظہار کر رہے ہیں۔ ایسی پرامن ریلی اور اجتماعات کے منتظمین اور شرکاء قابل مبارکباد ہیں۔

امریکہ کے مسلمان ڈاکٹرز ، پروفیشنلز ، تعلیم یافتہ نوجوان، عام ورکرز، ٹیکسی ڈرائیورز سب یکساں طور پر موجودہ ناخوشگوار صورتحال کا سامنا کررہے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اب انہیں اور ان کی اولاد کو اسی امریکی معاشرے میں ایک اقلیت کے طور پر زندگی گزارنا ہے انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ماضی میں امریکہ میں آباد ہونے والی اقلیتوں کو بھی مشکل مراحل سے گزرنا پڑا ہے لیکن وہ امریکی آئین و قوانین کے تحت حاصل شدہ آزادیوں اور حقوق کے استعمال کے ذریعے اپنی شناخت، عقیدہ اور اظہار کی آزادی کا تحفظ چاہتے ہیں۔

 مسلم اکثریتی آبادی والے ممالک کی اپنی صورتحال پریشان کن ہے۔ بدامنی ، انتشار ، انتہا پسندی تو موجود ہے مگر شخصی آزادی کا دائرہ محدود ہے۔ شخصی سیکورٹی، حقوق اور اظہار خیال کے بارے میں سوچنے سے قبل انتہا پسند حلقوں کے ردعمل کے بارے میں سوچنا ضروری ہے ۔ میں 40سال سے زیادہ شمالی امریکہ میں قیام ، اپنی کمیونٹی کے شب و روز مسائل و سوچ سے قربت اور خود اپنی اولاد کی اولاد کے تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر اپنی اس رائے کا اظہار کر رہا ہوںکہ مسلمانوں کو بطور ایک اقلیت ، تاریخی تناظر اور مستقبل کے تقاضوں کے مطابق غیرمسلم امریکی معاشرے میں پرامن، تعلیم یافتہ اور قانون کی پابند ممتاز کمیونٹی کے طور پر اپنا مقام حاصل کرنا ہے۔ جرات ، شناخت اور علم کے ساتھ دیگر مذاہب کے رہنمائوں سے برداشت اور بقائے باہمی کیلئے انٹرفیتھ   ڈائیلاگ کرنے اور انتہا پسندی و تنگ نظری کی مذمت کرنے میں ہی بھلا ہے۔

اس مشکل وقت میں بھی امریکہ میں دیگر مذاہب کے رہنمائوں ، لبرل امریکی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اور باشعور امریکی مسلمانوں کو ٹارگٹ کر نے والے ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے حامیوں کی مذمت بڑی جرات کے ساتھ کر چکے ہیں۔ خود صدر اوباما کے بیانات کو دیکھ لیں۔ کیتھ ایلیسن امریکی تاریخ کے پہلے مسلمان کانگریس مین435 اراکین کے ایوان میں وہ واحد رکن کانگریس ہیں جنہوں نے قرآن پر اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اب دوسرے مسلمان رکن کانگریس اندرے کارسن بھی ہیں۔

 ان دونوں کانگریس مینوں نے بھی مسلمانوں کے خلاف تعصب کی فضا پیدا کرنے والوں کی کھلی اور مسلسل مذمت کر کے جرات اور آزادی کا مظاہرہ کیا ہے۔ لہٰذا مسلم دنیا امریکہ کے مسلمانوں کی فکر نہ کرے وہ ایک مہذب معاشرے میں اپنے حقوق کی جدوجہد کرنا جانتے ہیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت کا گراف 41 فی صد جا پہنچا ہے۔ ہمیں اس کے مقابلے میں اپنے موقف کو پیش کرنے کیلئے دانشوروں اور ورکروں کا گروپ بنا کر امریکہ میں کام کرنے کی ضرورت ہے جرات اور صلاحیت کی کمی نہیں۔

عظیم ایم میاں
 بشکریہ روزنامہ "جنگ"

مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے

مجبوراً نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ

$
0
0

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ رواں سال دنیا بھر میں اپنے آبائی ممالک سے زبردستی نقل مکانے کرنے پر مجبور لوگوں کی تعداد چھ کروڑ سے ’کہیں زیادہ‘ بڑھ جائے گی۔
  
پناہ گزین کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی یو این ایچ سی آر کی ایک رپورٹ کے مطابق ’ہر 122 افراد میں سے ایک کو اپنے ملک سے زبر دستی منتقل ہونا پڑ رہا ہے۔ 

یو این ایچ سی آر نے مزید کہا ہے کہ ان پناہ گزینوں کی تعداد دو کروڑ 20 لاکھ ہے جو کہ سنہ 1992 کے بعد سب سے زیادہ بتائی جا رہی ہے۔
رپورٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافے کی وجوہات شام اور یوکرائن میں جنگ اور دیگر تنازعات ہیں۔
یہ اعداد و شمار 2015 کے ابتدائی چھ مہینوں میں لیے گئے ہیں۔
نقل مکانی کرنے والے پناہ گزین زیادہ تر اپنے ہمسایہ ممالک کی جانب سفر کر کے وہاں پر رہتے ہیں

افغانستان، صومالیہ اور جنوبی سوڈان میں بھی پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد نے نقل مکانی کی ہے۔
اس کے علاوہ برنڈی، جمہوریہ وسطیٰ افریقہ، کونگو اور عراق میں بھی شدید تنازعات پیش آنے کی وجہ سے کئی افراد کو نقل مکانی کرنی پڑی۔
سنہ 2014 میں پناہ گزینوں کی جانب سے دیگر ممالک میں پناہ لینے کی درخواستوں میں 78 فیصد اضافہ ہوا جبکہ آئی ڈی پیز کی تعداد تین کروڑ 40 لاکھ تک پہنچ گئی۔

پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے سربراہ آنٹونیو گٹریز نے ایک بیان میں کہا:  زبردستی کروائی جانے والی نقل مکانی ہماری دنیا کو بہت متاثر کر رہی ہے۔ اپنا سب کچھ کھو دینے والے لوگوں کو اس سے پہلے رواداری، ہمدردی اور یکجہتی کی اتنی ضرورت نہیں تھی جتنی کہ اب ہے۔ 
رپورٹ کا مزید کہنا ہے کہ جنگ زدہ علاقوں سے متصل ترقی پذیر ممالک کو پناہ گزینوں کا بوجھ زیادہ اٹھانا پڑتا ہے۔
رواں سال یورپ میں سب سے زیادہ پناہ لینے کی درخواستیں جرمنی میں دی گئیں جو کہ اب تک ایک لاکھ 59 ہزار تک پہنچ چکی ہیں۔

دہشتگردی کا سدباب

$
0
0

بہت سی  وجوہات کی بنا پر ایک یوم سوگ ہے۔ 43 سال تک ہم 1971ء میں مشرقی پاکستان کی فوجی شکست کو یاد کر کے غمگین رہے جب کہ 16 دسمبر 2014ء کو اس قدر ہولناک سانحہ ہوا جس کو  الفاظ میں بیان ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اے پی ایس پشاور کے سانحہ نے پاکستانی عوام پر دہشتگردی کے وحشیانہ مائنڈ سیٹ کو مکمل تفصیلات کے ساتھ عیاں کر دیا اور اس سانحے نے پورے ملک کے لوگوں کو دہشتگردی کے عفریت کے مقابلے کے لیے متحد کر دیا۔

سندھ میں موجودہ تنازعہ اختیارات کی کشمکش کا نتیجہ ہے کیونکہ کرپشن کے ڈانڈے دہشتگردی سے مل جاتے ہیں، بسا اوقات منظم جرائم کی وجہ سے اور بسا اوقات براہ راست وہی نتیجہ نکلتا ہے۔ دہشت گرد گروپوں کو اسلحہ اور روپے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے جس کو مہمیز دینے کی خاطر گاہے بگاہے کسی نظریہ کو استعمال کیا جاتا ہے جب کہ جرائم پیشہ لوگوں کو مال و دولت کی ہوس کی وجہ سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔ 

ان کے رابطے کالے دھن کو سفید کرنے والوں یعنی منی لانڈرنگ والوں سے‘ جعلی پاسپورٹ اور شناختی دستاویزات تیار کرنے والوں سے محفوظ رہائش گاہیں فراہم کرنے والوں سے، دھماکا خیز مواد فراہم کرنے والوں وغیرہ سے ہوتے ہیں۔ وہ بڑی کامیابی کے ساتھ حکومت کے اعلیٰ حلقوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور قوانین اور قواعد و ضوابط کا غلط استعمال کرتے ہیں اور یہی غلط استعمال بعض مواقع پر اصل قانون کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔

سندھ حکومت نے رینجرز کو کراچی میں کارروائی کا اختیار دینے میں جان بوجھ کر جو رکاوٹ پیدا کی اس سے سارا معاملہ واضح طور پر کھل کر سامنے آ گیا۔ دہشت گردی کی ترویج کے لیے لاجسٹکس کی فراہمی کی خاطر بھاری رقوم 3 مدوں میں لگائی گئی ہیں -1 دھماکا خیز ساز و سامان-2خفیہ پناہ گاہیں اور نقل و حرکت کی سہولتیں شامل ہیں نیز آسان اہداف کی تلاش کا کام بھی کیا جاتا ہے۔ یہ رقوم حاصل کرنے کے لیے قتل و غارت سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔

 دہشت گرد مختلف دائروں کی شکل میں رہتے ہیں۔ سب سے اندرونی دائرے کے باہر دوسرا نسبتاً وسیع تر دائرہ ہوتا ہے جس میں براہ راست مدد کرنے والے‘ منصوبہ بندی کرنے والے‘ کمانڈرز‘ مذہبی شخصیات وغیرہ شامل ہوتے ہیں جو انفراسٹرکچر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ تیسرا دائرہ مذہبی‘ تعلیمی اور فلاحی تنظیموں پر مشتمل ہوتا ہے جس میں سے بعض اپنے طور پر کام کرتے ہیں جب کہ بعض کو دباؤ کے ذریعے مجبور کیا جاتا ہے۔ 
چوتھا دائرہ وہ ہے جس میں منتخب نمائندے اور بیوروکریٹ شامل ہوتے ہیں جو درحقیقت سب سے زیادہ خطرناک لوگ ہوتے ہیں۔ ان لوگوں پر جمہوریت نافذ  کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

جج حضرات جن پر عدل و انصاف کرنے کی ذمے داری عائد ہوتی ہے وہاں سے اگر مجرموں کو کوئی رعایت یا ریلیف مل جائے تو اس سے جرم ختم ہونے کے  بجائے الٹا  پرورش پانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ مجرم قانون کے نام پر کس طرح مجرمانہ کام کرتے ہیں اس کے لیے ہمیں ان معروف سیاسی شخصیات اور بیوروکریٹس کی طرف دیکھنا ہو گا جن کے خلاف بہت سے مقدمات کی تحقیقات جاری ہیں۔

 اہل دانش اور عام لوگ اس متوازی معاشرے کی سرگرمیوں سے یا تو لاعلم ہیں یا ان سے لاتعلق ہیں اور یہ متوازی سوسائٹی حکومت کے اندر اور حکومت کے باہر ہر دو طرف موجود ہے جس کا غیر قانونی انڈر ورلڈ سے اور غیر قانونی اقتصادی منڈیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے۔ میڈیا کی توجہ کھینچنے کے لیے دولت بھی استعمال کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کے مقدمے نے یہ سارے راز ہائے دروں خانہ کھول کر بیان کر دیے ہیں۔

دہشت گردی منظم جرائم کے بغیر کام نہیں کر سکتی اور منظم جرائم کے ذریعے اسمگل شدہ منشیات‘ اسلحہ اور انسانی اسمگلنگ مختلف ممالک اور خطوں میں کروائی جاتی ہے جو کرپشن کے بغیر ممکن نہیں نیز اس مقصد کے لیے منشیات کی نقل و حمل سے مدد لی جاتی ہے۔ عسکریت پسندوں کے مراکز کے ذریعے منشیات کی غیر قانونی تجارت اور دیگر جرائم کیے جاتے ہیں۔ ان سب چیزوں پر قابو پانے کے لیے پولیس کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا لازمی ہے تا کہ وہ مجرمانہ نیٹ ورک کا سراغ لگا کر انھیں ناکارہ بنا سکیں۔

 لیکن اگر پولیس خود ہی کرپشن اور منظم جرائم میں ملوث ہو جائے تب اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ڈاکٹر عاصم حسین قصوروار ہیں یا نہیں تاہم  ان سے  اعترافی بیان لکھوا لیا گیا جب کہ اس کے ساتھ ہی تمام شواہد ضایع کر دیے۔ اب ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک فوجی عدالت اس پولیس آفیسر پر مقدمہ چلا سکتی ہے جس  نے ٹھوس ثبوت ضایع کر دیے ہیں۔ 

اس کا جواب یہ ہے کہ مکمل طور پر غیر قانونی ماحول میں قانون کا نفاذ ممکن ہی نہیں ہے۔ ہم نے مذہب اور قومیت کے مابین فرق کو خلط ملط کر دیا ہے جو لوگ نسلی یا فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دیتے ہیں ان ہی کو سب سے زیادہ سزا ملنی چاہیے۔ وہ لوگ جو منصوبہ سازوں کے ساتھ براہ راست ملوث ہوتے ہیں اور وہ لوگ جو انھیں بالواسطہ مدد دیتے ہیں ان کو لازمی طور پر ہدف بنایا جانا چاہیے۔ ان لوگوں کو خیرات کے نام پر بھی فنڈ موصول ہوتے ہیں۔

دہشت گردوں کی مالی ضروریات کرپشن کے ذریعے یا غیر ملکی ذرائع سے پوری کی جاتی ہیں۔ اس کو روکنے کا طریقہ یہی ہے کہ تمام رقوم کا بینکوں کے ذریعے لین دین کیا جائے جس سے پیسے دینے والے اور وصول کرنے والے دونوں کا پتہ چل سکتا ہے اور یہی طریقہ ہے جس سے رقوم کی غیر قانونی منتقلی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ مہذب دنیا ابھی اس فریب میں مبتلا ہے کہ مکمل طور پر لاقانونیت کے ماحول میں بھی قانون کا عمل دخل نافذ کیا جا سکتا ہے۔ 

کسی ملک میں آدم خوروں کے خلاف کوئی قانون نہیں ہے کیونکہ قانون سازوں کے نزدیک اس قسم کا تصور بھی ممکن نہیں۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا ایسی چیزوں کے بارے میں بھی قانون سازی کرے جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے بہت سے دفاعی حصار قائم کرنا پڑیں گے مثلاً -1 جو لوگ دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث ہیں ان کا کھوج لگا کر ان کی شناخت واضح کی جائے اور ان کی نقل و حرکت پر کڑی نگاہ رکھی جائے اور جو ان معاملات میں ملوث پایا جائے اس کے خلاف فوری اور موثر قدم اٹھایا جائے۔

اکرام سہگل

کچھ کمال احمد رضوی کے بارے میں

$
0
0

کمال احمد رضوی نے کتنے زمانے کے بعد لاہور میں پھر اپنی صورت دکھائی تھی۔ اس شہر میں کتنے شب و روز گزارنے کے بعد اور کتنے کشٹ کھینچنے اور اپنا ہنر دکھانے کے بعد کراچی کی راہ پکڑی تھی۔ اب جو لاہور آرٹ کونسل میں ادبی میلہ نے اپنی بہار دکھائی تو اس بہانے میلہ میں کمال احمد رضوی بھی نمودار ہوئے۔ مگر یہ وہ پہلے والا کمال احمد رضوی نہیں تھا یعنی وہ ہنستا بولتا کمال احمد رضوی، طنز اور تمسخر والی بولی میں یکتا۔

 اب یہ عزیز چپ چپ تھا۔ سننا اور چپ رہنا، مشکل سے کوئی بات کہنی اور پھر چپ۔ یہ گمان نہ تھا کہ یہ چپ لمبی چپ کا پیش خیمہ ہے اور یہ لاہور کا پھیرا اس شہر کو جہاں اس نے اتنا لمبا وقت گزارا تھا اور کمال حاصل کیا تھا اس کا اس شہر کو آخری سلام ہے۔ ادھر وہ اس شہر سے رخصت ہوا اور ادھر جلد ہی خبر آ گئی کہ کمال احمد گزر گئے۔

اپنی جنم بھومی گیا کو، جسے مہاتما بدھ سے نسبت ہے، کب تقسیم کے بعد سلام کیا اور پاکستان کے لیے رخت سفر باندھا۔ کب لاہور آمد ہوئی۔ ہم تو سمجھ لیجیے کہ پانچویں دہائی کے بیچ سے اس عزیز کو اس شہر میں چلتے پھرتے دیکھتے آئے تھے۔ مشغلہ قلم چلانا، کتابوں کے ترجمے کیے، رسالوں اخباروں میں لکھا۔ ایک مرتب کردہ مجموعہ خصوصیت کے ساتھ یاد ہے۔ اردو ڈراموں کا مجموعہ یعنی ڈرامے سے ان کی دلچسپی کا مظہر۔ مگر اس زمانے میں ڈرامہ اس شہر میں بڑی حد تک ریڈیو ڈرامے سے عبارت تھا۔
ہرچند کہ آرٹ کونسل وجود میں آ چکی تھی اور امتیاز علی تاج ڈرامے کے سرتاج سمجھے جاتے تھے۔ اسٹیج ڈرامے کے لیے یار لوگ ہاتھ پیر تو مار رہے تھے لیکن دال کچھ گلتی نظر نہیں آ رہی تھی۔

اصل میں جو پڑھے لکھے نوجوان اسٹیج ڈرامے میں دلچسپی لے رہے تھے ان کا گزارا ہر پھر کر بواسطہ انگریزی زبان مغربی ڈرامے پر تھا۔ مگر مستعار مال پر کب تک اور کتنا گزارا ہو سکتا تھا۔ اردو میں بیشک پارسی تھیٹر پورے ہندوستان میں دھوم مچا کر اپنی زندگی پوری کر چکا تھا مگر ان انگریزی پڑھے لکھے نوجوانوں کو بہت دقیانوسی دکھائی دیتا تھا۔ اس سے فیض حاصل کرنے میں انھیں اپنی ہیٹی نظر آتی تھی۔

لیجیے یہاں اپنا ذاتی واقعہ یاد آ گیا۔ ایک روز اچانک کمال احمد ہمارے دفتر آن دھمکے۔ ’’تم نے اسٹیج کے لیے کوئی کھیل لکھا تھا جو نہیں ہو سکا۔ وہ اسکرپٹ کہاں ہے۔ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ 
’’گھر پہ پڑا ہے۔ جب جی چاہے لے جاؤ۔ 

وہ اسکرپٹ لے جانے کے بعد پندرہ بیس دن کے بعد آئے۔ غصے میں بھرے ہوئے۔ ’’آرٹ کونسل کی کمیٹی کہتی ہے اس محاورے روزمرہ کو لاہوریے کیا سمجھیں گے۔ ڈرامہ فلاپ ہو جائے گا۔ بکواس۔‘‘ رکے۔ بولے ’’اس کھیل کو میں اپنے گروپ کی طرف سے کر کے دکھاؤں گا۔ اجازت ہے۔ 
’’برادر میں نے یہ اسکرپٹ تمہیں دیا تھا۔ آرٹ کونسل کو تو پیش نہیں کیا تھا۔ پھر اب اجازت کیوں لے رہے ہو۔ 

اس دوران ریہرسل میں میرا ادھر آنا جانا ہوتا رہا۔ کمال احمد رضوی کو ڈائریکٹ کرتے بھی دیکھا۔ پھر اس کی اداکاری بھی دیکھی۔ دل میں کہا کہ یہ شخص تو خود محاورے روز مرہ کا ماہر نظر آتا ہے۔ ہم نے ویسے ہی آرٹ کونسل کے ماہرین کے فیصلہ پر اعتبار کرلیا۔ کمال کے کمال پر اعتبار ہی نہیں آ رہا تھا۔‘‘
دوسروں نے جہاں اسے داد دی ہم نے بھی داد دی کہ سنکی باپ کے کردار کو تم نے کس کمال سے نبھایا ہے۔
کہا کہ ’’میرا دادا بھی ایسا ہی خر دماغ اور سنکی تھا۔ میں بس یہ رول کرتے ہوئے اپنا دادا بن گیا۔ 

اچھا ان دنوں آرٹ کونسل میں کوششیں ہو رہی تھیں کہ کسی طرح اوریجنل ڈرامے لکھوائے جائیں اور کیے جائیں۔ کچھ اور ڈرامے بھی ہوئے۔ اب ذرا اسٹیج ڈرامے کی گاڑی چلتی نظر آ رہی تھی۔ مگر 
پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے

انھیں دنوں پاکستان ٹی وی کی نمود ہوئی تھی۔ انھوں نے کمال کو فوراً ہی لپک لیا بلکہ یوں ہوا کہ جلدی جلدی آرٹ کونسل کا سارا پانی پی ٹی وی کی طرف بہہ گیا۔ پھر یوں ہوا کہ
جویاں نہ کھنچ سکے وہ وہاں جا کے دم ہوئے

آرٹ کونسل کا اسٹیج پھر سونا ہو گیا۔ ادھر کے مال کی ٹی وی میں بہت اچھی قیمت لگی۔ ان کا ہنر بھی وہاں جا کر چمکا۔ وہ نیا میڈیم، اس کا اپنا گلیمر تھا۔ کتنی جلدی ٹی وی کے اسکرین ڈرامے کو پر لگ گئے۔ اور وہ جو کمال کے پاس ہنر تھا طنز و تعریض کا، تمسخر کا اور پھر قلم بھی رواں اور زبان رواں۔ پھر جوڑی دار بھی غضب کا ملا۔ یہ الف بالکل سینک سلائی، وہ نون گول مٹول 
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانہ دو

کمال کو کتنی جلدی درجۂ کمال حاصل ہو گیا اور کتنی جلدی قبول عام کی سند مل گئی یہ کھیل تھا ’’خوابوں کے مسافر۔ 

کمال احمد کی جیت یہ تھی کہ جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ خالی اداکاری کا ہنر تو ان کے پاس نہیں تھا، ان کا قلم بھی خوب چلتا تھا یعنی اسکرپٹ کے لیے وہ کسی دوسرے کے قلم کے محتاج نہیں تھے۔ طنز، مزاح، تمسخر کا گرم مسالا بھی خوب ہی تیار کیا اور اس گرم مسالے کو معاشرتی معاملات و مسائل کے ساتھ دال دلیا کر دیا اور ہنڈیا کو چولہے پر چڑھا دیا۔ لیجیے دم کے دم میں ہنڈیا دم میں آ گئی۔ ٹی وی کے سامعین کی عید ہو گئی اور کمال کی واہ واہ ہو گئی۔ چپڑی اور دو دو۔ قدرداں بھی۔

انتظار حسین

آپ سیلفی ضرور لیں

$
0
0

ٹونی روبنز امریکا کا مشہور ’’موٹی ویشنل اسپیکر‘‘ اداکار، سیلف ہیلپ رائٹر اور کوچ ہے، فوربس میگزین نے 2007ء میں ٹونی روبنز کو دنیا کی سو مشہور ترین شخصیات میں شامل کیا تھا، اس کی ایک کتاب ’’ان لمیٹڈ پاور‘‘ نے دنیا میں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے، یہ کیلیفورنیا کا رہنے والا تھا، تین بہن بھائیوں میں بڑا تھا، سات سال کی عمر میں والدین میں طلاق ہو گئی، ماں نے اس کے بعد بے شمار شادیاں کیں مگر ہر شادی کا انجام طلاق نکلا، ٹونی تعلیم مکمل نہ کر سکا، ماں نشے کی لت میں مبتلا تھی، چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمے داری اس کے کندھوں پر تھی، یہ جیسے تیسے یہ ذمے داریاں پوری کرتا رہا، یہ 17 سال کا تھا، ماں چھری لے کر اس کے پیچھے بھاگی، یہ گھر سے نکلا اور پھر واپس نہیں گیا، یہ جم رون کا اسسٹنٹ بنا، پھر اپنا کام شروع کیا اور دنیا کو حیران کر دیا، اس کے لفظوں میں طاقت ہے، یہ چند الفاظ بولتا ہے اور لوگوں کی کیفیت بدل جاتی ہے، امریکا کے بڑے بڑے کارپوریٹ گرو، سیاستدان، کھلاڑی اور اداکار اس کے کلائنٹ ہیں، صدر بل کلنٹن اور صدر جارج بش بھی اپنی نفسیاتی الجھنوں میں ٹونی روبنز کی مدد لیتے تھے، انسانوں کو دکھوں سے نکالنا ٹونی روبنز کی خصوصیت ہے، لوگ اس کے پاس آتے ہیں، یہ ان سے گفتگو کرتا ہے اور لوگ اپنی الجھنوں، اپنے دکھوں سے نکل جاتے ہیں، اس نے زندگی میں ہزاروں لوگوں کا علاج کیا، یہ تمام لوگ ٹونی کی کامیابی کی داستان ہیں۔
مجھے ایک بار ٹونی روبنز کا ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا، انٹرویو لینے والے نے پوچھا ’’دنیا کا کون سا دکھ، کون سا نقصان ہے جس کا علاج ٹونی روبنز کے پاس نہیں‘‘ ٹونی روبنز نے ہنس کر جواب دیا ’’اولاد کا دکھ‘‘ انٹرویو لینے والا خاموشی سے دیکھتا رہا، ٹونی نے لمبی سانس لی اور بولا ’’ میں لوگوں کو ہر قسم کے دکھ سے نکال لیتا ہوں لیکن میں آج تک ان والدین کا علاج نہیں کر سکا جنہوں نے کسی حادثے، کسی ان ہونی یا کسی بیماری میں اپنا بچہ کھو دیا ہو‘‘ ٹونی کا کہنا تھا ’’اولاد بالخصوص جوان اولاد کا نقصان ناقابل تلافی ہوتا ہے، دنیا کے کسی شخص کے پاس اس نقصان کا کوئی علاج موجود نہیں‘‘  ٹونی روبنز کے الفاظ نے مجھے حیران کر دیا، کیوں؟ کیونکہ یہ کسی عام انسان کا اعتراف نہیں تھا، یہ دنیا کے ایک بڑے موٹی ویشنل اسپیکر کا اعتراف تھا چنانچہ میں اسے مسترد نہیں کر سکتا تھا، ٹونی کی بات غلط نہیں تھی، اولاد انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے، ہم اپنی زیادہ تر کمزوریوں پر قابو پا لیتے ہیں لیکن ہم سرتوڑ کوشش کے باوجود اولاد کی کمزوری سے باہر نہیں نکل پاتے، آپ اگر والد یا والدہ ہیں تو آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں، بچے یا بچی کی موت انسان کو کہاں کہاں سے زخمی کرتی ہے اور انسان پھر ان زخموں کے ساتھ کیسے زندگی گزارتا ہے؟

زندگی کا ایک عمل ہے، انسان پیدا ہوتا ہے، پڑھتا ہے، بڑا ہوتا ہے، کیریئر بناتا ہے، شادی کرتا ہے، بچے پیدا کرتا ہے، ان کی پرورش کرتا ہے، ان کی شادیاں کرتا ہے اور پھر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے، یہ عمل اگر اسی طرح چلتا رہے تو کوئی ایشو، کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن اگر کسی والد یا والدہ کو ادھیڑ عمری یا بڑھاپے میں اپنے کسی بچے کی لاش اٹھانی پڑ جائے، اس کا جنازہ پڑھنا پڑ جائے یا اس کی تدفین کرنی پڑ جائے تو آپ خود اندازہ کیجیے، ان بے چاروں پر کیا گزرے گی، اولاد کا غم بہت خوفناک ہوتا ہے، یہ چند گھنٹوں میں انسان کی ہڈیاں سُکیڑ دیتا ہے، والد 36 انچ کی پتلون پہن کر قبرستان جاتا ہے اور جب بچے کی تدفین کے بعد گھر لوٹتا ہے تو اس کی کمر 34 انچ ہو چکی ہوتی ہے، آپ اپنے اردگرد دیکھیں، آپ کو ایسے درجنوں لوگ ملیں گے جن کے سر پر بچے کی موت کا تودا گرا اور اس کے بعد ان لوگوں نے باقی عمر زندگی کا ماتم کرتے کرتے گزاری، وہ زندگی کا مرثیہ بن کر رہ گئے، موت برحق ہے، یہ آ کر رہتی ہے، دنیا میں جو بھی وجود ایک بار سانس لیتا ہے، اس کو موت کا ذائقہ ضرور چکھنا پڑتا ہے، خواہ وہ دیوتا ہو یا نبی، ولی ہو یا بادشاہ، ہم نے بھی مر جانا ہے اور ہماری آل اولاد نے بھی، یہ حقیقت ہے لیکن یہ حقیقت اگر اس حد تک رہے تو کوئی مضائقہ نہیں، مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اولاد موت کو خود دعوت دیتی ہے، یہ جان بوجھ کر ایسی ’’ون ویلنگ‘‘ کرتی ہے جس کے آخر میں موت کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور یہ وہ موت ہے جو والدین کو عمر بھر زندہ نہیں رہنے دیتی۔
آپ راولپنڈی کی مثال لے لیجیے، ہمارے شہر میں چند دن قبل جمشید پرویز نام کا ایک 22 سالہ نوجوان چلتی ٹرین کے سامنے سیلفی بناتے ہوئے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا، یہ نوجوان ڈھوک رتہ کا رہنے والا تھا، طالب علم تھا، عمر 22سال تھی، نوجوان کا والد ریلوے میں درجہ چہارم کا ملازم ہے، جمشید تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک جنرل اسٹور پر 150 روپے دیہاڑی پر کام بھی کرتا ہے، جمشید کے دو بھائی اور تین بہنیں ہیں، یہ 15 دسمبر کو اپنے کلاس فیلو وسیم کے ساتھ کالج سے واپس آ رہا تھا، یہ دونوں مریڑھ چوک میں پہنچے تو ان کے دماغ میں ایک عجیب شیطانی خیال آیا، یہ پل پر چڑھے اور ریل کی پٹڑی پر چلنے لگے، سامنے سے ٹرین آرہی تھی، جمشید نے چلتی ٹرین کے ساتھ سیلفی بنانے کا فیصلہ کیا، دوست وسیم اس کو سمجھاتا رہ گیا لیکن جمشید نے موبائل نکالا، وسیم کو ساتھ کھڑا کیا اور سیلفی بنانے میں مصروف ہو گیا، ٹرین کی رفتار تیز تھی، وہ سیلفی سے پہلے ان تک پہنچ گئی، وسیم نے چھلانگ لگا دی لیکن جمشید ٹرین کی زد میں آ گیا، انجن نے اس کے جسم کے ٹکڑے کر دیے، جمشید کی موت نے نہ صرف اس کے والدین اور بہن بھائیوں کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ اس کا پورا محلہ اس وقت نفسیاتی مریض بن چکا ہے، یہ نوجوان چلا گیا، یہ دفن ہوگیا، اس کی قبر کی مٹی بھی عنقریب سخت ہو جائے گی لیکن اس کے والدین، اس کے بہن بھائی اور اس کے دوست کبھی اس کا غم نہیں بھلا پائیں گے۔

وہ نوجوان وسیم جس نے اپنے سامنے اس کے جسم کے پرزے اڑتے دیکھے، یہ اب باقی زندگی کیسے نارمل گزارے گا، آپ خود فیصلہ کیجیے، اسی قسم کا ایک واقعہ 21 نومبر کو فیصل آباد میں بھی پیش آیا، فیصل آباد کے چند نوجوانوں نے شرط لگائی، ہم میں سے کون زیادہ دیر تک ریل کی پٹڑی پرلیٹتا ہے، شرط لگ گئی، سوشل میڈیا پر اعلان کر دیا گیا اور وقت طے ہو گیا، نوجوان وقت مقررہ پر آئے اور ریل کی پٹڑی پر لیٹ گئے، ٹرین آئی اور تیزی سے ان کی طرف بڑھنے لگی، یہ ٹرین جب تھوڑی دور رہ گئی تو تمام دوست اٹھ کر بھاگ گئے لیکن 19 سال کا ظہیر لیٹا رہا، اس کے دوست اس کو پکارتے رہے لیکن اس کا کہنا تھا، ٹرین ابھی بہت دور ہے، یہ بحث جاری تھی کہ ٹرین آئی اور ظہیر کے اوپر سے گزر گئی اور وہ جیتے جاگتے نوجوان سے قیمے کی ڈھیری بن گیا، یہ بچہ انجینئرنگ کا طالب علم تھا، اسی طرح چند ماہ قبل گجرات کے چند نوجوانوں نے نمک کھانے کی شرط لگائی، ایک نوجوان پاؤ بھر نمک کھا گیا، یہ اب اسپتال میں آخری سانسیں گن رہا ہے اور اس کی بیوہ ماں پاگل ہو کر اسپتال کی سیڑھیوں پر بیٹھی ہے، میں شوگر کا مریض ہوں، میں عموماً شوگر کے مریضوں سے ملتا رہتا ہوں، مجھے چند سال قبل شوگر کے دو انوکھے مریض ملے، ایک نوجوان پانچ سو روپے کی شرط جیتنے کے لیے روح افزاء کی پوری بوتل پی گیا تھا، یہ اس کے بعد سال بھر اسپتالوں میں رہا، اس کی زندگی بچ گئی لیکن یہ شوگر کا خوفناک مریض بن گیا۔

یہ اب سسک سسک کر جی رہا ہے، اسی طرح ایک نوجوان شرط جیتنے کے لیے ایک کلو برفی کھا گیا، اس نے برفی کی شرط جیت لی لیکن شوگر کی شرط نہ جیت سکا، یہ اب تک شوگر کی وجہ سے اپنے پاؤں اور دونوں گردوں سے محروم ہو چکا ہے، یہ اب مظلومیت اور اذیت کی خوفناک مثال ہے، لاہور میں میرے ایک جاننے والے کا بیٹا انرجی ڈرنک کی شرط جیت گیا، وہ بارہ ریڈبُل چڑھا گیا، دوستوں نے اس جیت پر تالیاں بجائیں، وہ داد سمیٹنے کے لیے کھڑا ہوا، اسے ہارٹ اٹیک ہوا، وہ گرا، تڑپا اور اس نے دوستوں کے سامنے جان دے دی، اسی طرح پچھلے دنوں چین میں بھی کسی نوجوان نے دس انرجی ڈرنک پی لیے تھے، اس کی طبیعت خراب ہو گئی، اسپتال قریب تھا، ڈاکٹروں نے معائنہ کیا، پتہ چلا اس کے دل کا سائز بڑا ہو رہا ہے، دل آدھ گھنٹے میں اتنا بڑا ہو گیا کہ ڈاکٹر دل کو گنجائش دینے کے لیے اس کی پسلیاں کاٹنے پر مجبور ہوگئے، یہ نوجوان آج بھی اسپتال میں پڑا ہے، اس کا دل ننگا ہے اور دیکھنے والے کھلی آنکھوں سے اس کے دل کو پھولتا اور سکڑتا دیکھتے ہیں اور عبرت پکڑتے ہیں۔

آپ اگر اخبارات کو غور سے پڑھیں تو آپ کو ان میں روزانہ ایسی خبریں ملیں گی جن میں نوجوانوں نے شرط لگائی اور وہ عمارت کی منڈیر پر چلتے ہوئے گر کر مر گئے، ریل کی پٹڑی پر لیٹ کر جان سے گزر گئے، برسات میں چڑھے ہوئے دریا کو تیر کر پار کرنے کی کوشش کی اور پانی میں بہہ کر زندگی کی سرحد سے باہر نکل گئے، ون ویلنگ شروع کی، کسی انڈر پاس کے ستون سے ٹکرائے اور دماغ کنکریٹ سے چپک گیا، یا پھر چائے پینے، مٹھائی کھانے یا جیکٹ کو آگ لگا کر پانی میں کودنے کا مقابلہ ہوا اور ندگی دکھوں کی خوفناک داستان بن کر رہ گئی یا پھر رات کے وقت ریس لگائی، گاڑی بے قابو ہوئی، اپنی زندگی ختم ہوئی اور یہ والدین کو پوری زندگی رونے دھونے کے لیے پیچھے چھوڑ گئے، یہ بچے، یہ شرطیں لگانے والے بچے بہت ظالم ہیں، یہ نہ جانے اپنے والدین، اپنے بہن بھائیوں اور اپنے عزیز رشتے داروں سے کس جرم کا بدلہ لیتے ہیں، یہ ان کو کس گناہ کی سزا دیتے ہیں، کاش اس ملک میں کوئی ادارہ، کوئی عدالت شرط لگانے پر پابندی لگا دے۔

کوئی ادارہ جمشید پرویز اور ظہیر جیسے نوجوانوں کی کہانیوں کو سلیبس کاحصہ بنا دے، کاش تعلیمی اداروں کی انتظامیہ ہی عبرت کا نشان بننے والے ان نوجوانوں کی تصویریں لیں، ان کی کہانیاں لکھیں اور کالج اور اسکول کی دیواروں پر لگا دے تا کہ دوسرے طالب علموں کو عبرت ہو اور یہ اس قسم کی غلطی نہ کریں، میری جمشید اور ظہیر جیسے نوجوانوں کے والدین سے بھی درخواست ہے، آپ بھی مختلف تعلیمی اداروں میں جائیں، طالب علموں کو اپنے بیٹے کی کہانی سنائیں اور ان کو مشورہ دیں ’’بیٹا آپ اپنی زندگی کی حفاظت کریں کیونکہ آپ تو چلے جائیں گے لیکن آپ کے بعد آپ کے والدین، آپ کے بہن بھائیوں کی زندگی قبرستان بن جائے گی، یہ لوگ باقی زندگی آپ کا تابوت اٹھا کر گزاریں گے، آپ ٹرین کی پٹڑی پر لیٹیں یا پھر چلتی ٹرین کے ساتھ سیلفی بنائیں مگر یہ یاد رکھیں، آپ کی اس حماقت، آپ کی اس غلطی کا تاوان آپ کی ماں پوری زندگی آہوں اور سسکیوں میں ادا کرے گی‘‘ شاید آپ کے یہ لفظ سیکڑوں ہزاروں والدین کو اس غم سے بچا لیں جس کا علاج ٹونی روبنز جیسے لوگوں کے پاس بھی نہیں، شاید، شاید، آپ کی ایک وزٹ آپ کے مرحوم بچے کے کلاس فیلوز کو بچا لے۔

جاوید چوہدری

میٹرو بس نہیں بنیادی سہولتیں : وزیر اعظم کا اعتراف حقیقت


کیا عالمی جنگ ناگزیر ہے؟

$
0
0

آج دنیا بھرمیں تہذیبی تصادم کا فلسفہ روبہ عمل ہے، عظیم تر مشرق وسطیٰ کا نظریہ بھی لاگو ہے، جس میں فرقہ واریت کو ہوا دے کر ریاستوں کے درمیان تصادم کراکے مسلمانوں کو کمزور کرنا مقصود ہے، جس کے بعد عراق، شام، ایران، ترکی، پاکستان کی سرحدوں میں ردوبدل کا معاملہ ہے، عراق تقسیم ہوچکا ہے، شام میں خون بہہ رہا ہے، ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں، 40 لاکھ کے قریب نقل مکانی کرچکے ہیں، ترکی، روس، امریکہ اور مغربی ممالک یہاں صف آرا ہیں، ایک ایسی تنظیم کے خلاف جو امریکہ اور مغرب کی پیداوار ہے اورجو کہ مذہب کے نام پر مسلمانوں کا خون بہا رہی ہے، اُس کا بہانہ بنا کر اِس خطے کو میدانِ جنگ میں تبدیل کیا جارہا ہے مغربی ممالک میں مسلمان دشمنی اس طرح بڑھائی جارہی ہے تاکہ ساری غیر مسلم دُنیا مسلمانوں کے خلاف جنگ کیلئے تیار ہوجائے، اسی طرح سعودی عرب سُنّی ممالک کا اتحاد بنانے کا اعلان کرچکا ہے کہ 34 اسلامی ممالک داعش جو مغرب کی پیداوار ہے، کے خلاف لڑیں گے، اِس میں ایران، عراق اور شام کو شامل نہیں کیا گیا ۔ یہ اتحاد بن گیا تو ایسے حالات پیدا کئے جائیں گے کہ مسلمان ممالک کے درمیان تصادم ہوجائے۔

دوسری طرف امریکہ روس اور چین کو اطاعت پر آمادہ کرنے کیلئے اُن پر دبائو بڑھا رہا ہے اور یورپ کو اپنے ساتھ رکھنے کیلئے روس کا خوف اُن پر طاری کررہا ہے ۔ امریکہ کی پالیسی ہے کہ دہشتگردی میں اضافہ ہو، ہر وقت خون بہتا رہے اور حالت جنگ میں رکھ کر دُنیا پر بالادستی قائم رکھی جائے اور کسی طاقت یا طاقتوں کے گروپ کو جو امریکہ کو چیلنج کرسکے یکجا نہ ہونے دینا ہے۔ اس وقت روس اور چین نے امریکہ کی بالادستی کو چیلنج کیا ہوا ہے اس لئے وہ چین اور روس کو بھی پھنسانا چاہتا ہے۔

 داعش امریکہ کا مہلک ترین ہتھیار ہے، ان کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں، یہ امریکہ کا اثاثہ ہے اور اس کے مقاصد میں شام کی حکومت کو ختم کرکے شام کوتقسیم کرانا، روس کو شام سے نکالنا اور ایران کا لبنان میں حزب اللہ سے رابطے کو توڑنا بھی شامل ہے، شام میں روس کا ایک بحری اڈہ بحراوقیانوس کی بندرگاہ طارطوس میں ہے اور فضائی اڈہ لطاکیہ میں ہے، اُن کو ختم کرنا بھی مقصود ہے، اِس صورتِ حال کے پیش نظر روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے اقوام متحدہ کی سترویں سالگرہ کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ عالمی صورتِ حال روس کیلئے ناقابل برداشت ہوگئی ہے، چنانچہ دو روز بعد اس نے داعش کے خلاف جنگ شروع کردی اور اس پر کروز میزائل کی بارش کردی، جس سے داعش کا اسلحہ خانہ اور تیل کے ڈپو تباہ ہوگئے، بشار الاسد کو اس طرح مدد دی کہ اُس کی پیچھے ہٹتی ہوئی افواج پیش قدمی کرکے داعش کو دھکیلنے لگیں۔ 
امریکہ نے اِس صورتِ حال میں ترکی کے ذریعے اس کا طیارہ گرا کر تنبیہ کرنے کی کوشش کی۔ روس نے اس پر سخت ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا، صرف ترکی کو وارننگ دی، جس پر امریکہ نے اُس کو ’’کاغذی شیر‘‘ کہہ کر یورپ، یوکرائن، جارجیا اور مونٹی نیگرو کے ممالک کو تسلی دی کہ روس میں دم خم نہیں ہے اس لئے وہ ڈٹے رہیں۔ تاہم روس نے اپنا بحری بیڑہ بحراوقیانوس میں بھیج دیا، جو ایٹمی اسلحہ سے لیس ہے ۔

امریکہ نے ایک طرف ترکی کو روس کے خلاف اکسا کر جہاز کو گروایا اور اب اُس کو تنہا کررہا ہے اور یہ خبریں پھیلا رہا ہے کہ وہ سلطنت عثمانیہ کا احیاء اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان ترکی کے سلطان بننا چاہتے ہیں۔ تمام مغربی ممالک کے اخبارات اِس قسم کے پروپیگنڈے کو روز بہ روز بڑھاتے جارہے ہیں۔ ایک تیر سے دو شکار۔ ترکی یا کوئی مسلمان ملک یہ نہیں سمجھتا کہ امریکہ دہشتگردی کو ختم نہیں کرتا بلکہ وہ پروان چڑھتا ہے اور مسلمانوں اور یورپ کے خلاف استعمال کرتا ہے۔
 ترکی روس کا جہاز نہ گراتا تو اچھا تھا کہ اس طرح وہ تنہائی کی طرف نہ بڑھتا، ضرورت اِس امر کی ہے کہ ایران، ترکی سے اختلافات کے باوجود ترکی اور روس کے تعلقات مزید خراب ہونے سے رکوا دے کیونکہ یہ مسلمانوں کیلئے بہتر ہے۔ مسلمان جنگ کا ایندھن بن رہا ہے۔ پاکستان کو یہ خیال رکھنا ہے کہ اس نے یمن میں اپنی فوج نہ بھجوا کر یمن کے دلدل میں پھنسنے سے اپنے آپ کو بچا لیا، اس دفعہ ریاض کی طرف سے سُنّی ممالک پر مشتمل اتحاد یہ مسلمانوں کیلئے اور بھی خطرناک ہے کہ وہ فرقہ واریت پر منتج ہوگا۔

 ویسے امریکہ اور روس و چین جنگ کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں، ایک سے ایک جدید ہتھیار سامنے آرہے ہیں، اسی طرح جیسے دو پہلوان اکھاڑے میں کودنے سے پہلے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور پھر اکھاڑے میں آکر پنجہ آزمائی کرکے اُس کی طاقت کا اندازہ لگاتے ہیں، اس وقت یہی ہورہا ہے۔

 روس جنگ کو روکنے کیلئے یورپ کو اپنے ساتھ ملانے میں ناکام ہوگیا ہے مگر اُسے ایک اور کوشش ضرور کرنا چاہئے تاکہ یورپ امریکہ کا ساتھ چھوڑ دے یا نیوٹرل ہوجائے تو دُنیا پر جنگ کے بادل چھٹ سکتے ہیں اور دُنیا کے کروڑوں افراد کی جانیں بچ سکتی ہیں۔ پال کریگ روبرٹس نے جو امریکہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری مالیات رہے ہیں نے اپنے ایک مضمون میں روس کو مشورہ دیا ہے کہ وہ یورپ کو تیل بیچنا بند کردے، اس سے اس کو معاشی نقصان تو ہوگا مگر وہ یورپ کو جگانے میں کامیاب ہوجائے گا اور جنگ کے نقصانات سے بچ سکتا ہے۔

دوسرے وہ یوکرائن کے روسی اثر والے صوبے اپنے ملک میں شامل کرلے تو یوکرائن جنگ کرے گا تو وہ جارح مانا جائے گا۔ زیادہ تر امکان یہ ہے کہ وہ روس پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ وہ لکھتے ہیں کہ روس یورپ کو جگانے میں ناکام ہوا تو جنگ ناگزیر ہوجائے گی۔

روسی یہ ضرور کررہے ہیں کہ امریکہ کے مہلک ترین ہتھیار داعش کو کمزور کررہے ہیں جس کو روکنے کیلئے امریکہ کو خاص بندوبست کرنا پڑے گا۔ برطانیہ، فرانس، امریکہ اور نیٹو ممالک کے جیٹ طیارے شام کے اطراف روس کو ڈرانے کے لئے موجود ہیں۔ مگر یہ روس کی بقا کا معاملہ ہے اس لئے وہ بے دریغ جدید اسلحہ استعمال کرکے فی الحال داعش کو پسپائی پر مجبور کررہا ہے۔ امریکہ کے قدامت پسند دانشور، اسلحہ انڈسٹری کے مالکان، جو امریکی پالیسی کو کنٹرول کرتے ہیںوہ روس کو مجبور کررہے ہیں کہ روس کے پاس اب جنگ کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچا ہے۔

 اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ کے امکانات بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ جنگ کی تیاری شروع ہوجائے تو جنگ ہو کر رہتی ہے کیونکہ پھر وہ خود راستہ بناتی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ جنگ کب اور کہاں سے شروع ہوتی ہے اور یہ کتنی بڑی تباہی لے کر آئے گی؟ 

نصرت مرزا
بشکریہ روزنامہ 'جنگ'

متاع عزیزاور قاتل پروٹوکول

شاہی پروٹوکول بچی کی جان لے گیا

ترک صدر نے ایک شخص کی جان بچالی

$
0
0

 ترک صدر رجب طیب اردوغان نے جمعے کے روز استنبول میں ایک شخص کو خودکشی کرنے سے روک لیا۔
یہ واقعہ استنبول کے بوسپھورس پل پر پیش آیا جو ایشیا کو یورپ سے منسلک کرتا ہے۔ جب یہ شخص خودکشی کرنے کے لیے پل پر چڑھا اسی موقع پر اردوغان کا قافلہ وہاں سے گزر رہا تھا ۔

ٹیلی ویژن فوٹیج میں دکھایا گیا کہ ترک صدر کے محافظ روتے ہوئے شخص کو ان کے پاس لے کر آئے جنہوں نے گاڑی کی کھڑکی سے اس سے بات کی۔
بعد میں اس شخص کو اردوغان کے ہاتھ چومتے دکھایا گیا۔
دوغان نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ شخص کو باحفاظت وہاں سے لے جایا گیا۔
کہا جارہا ہے کہ پولیس تقریباً دو گھنٹوں سے اس شخص کو خودکشی نہ کرنے پر قائل کررہی تھی جس نے پل پر ہی اپنی گاڑی چھوڑ دی اور پل پر چڑھ گیا تھا۔
دوغان کی رپورٹ کے مطابق یہ شخص اہلخانہ کے مسائل کے باعث کافی عرصے سے ڈپریشن کا شکار تھا۔

سڑکیں بنانے سے کوئی شیر شاہ سوری نہیں بنتا

$
0
0

شیر شاہ سوری پرجب نزع کا عالم تھا تو اس نے کئی بار حسرت بھرے کلمات کہے، قریب موجود معتمد خاص غازی محلی اور دیگر مقربین نے کہا، بادشاہ سلامت! آپ نے پانچ سال کی مختصر مدت میں اس قدر کارنامے سرانجام دیئے، ریاست کے نظم ونسق کے حوالے سے انقلابی اقدامات کئے، رعایا کی فلاح وبہبود کے لئے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تو دنیا سے رخصت ہوتے وقت دل چھوٹا کیوں کرتے ہیں؟ شیر شاہ سوری نے کہا، تم ٹھیک کہتے ہو مگر میں چار حسرتیں سینے میں لئے جا رہا ہوں۔

 میری پہلی آرزو تو یہ تھی کہ ولایت روہ کو وہاں سے ویران کرکے دریا ئے اٹک سے لاہور تک اور پھر کوہ نندنہ سے کوہ شوالک تک آباد کر دوں تاکہ جب بھی کوئی مغل حملہ آور آئے تو فوراً خبر ہو جائے اور کابل سے کسی حملہ آور کو ہندوستان میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔

میری دوسری آرزو یہ تھی کہ لاہور شہر کو ویران کر دوں کیونکہ یہ عظیم شہر غنیم کے لئے باعث کشش اور پناہ گاہ بنتا ہے۔ ایسی صورت میں کوئی حملہ آور لاہور شہر فتح کر کے پورے علاقے پر قابض نہیں ہوسکے گا۔ میری تیسری خواہش یہ تھی کہ مکہ معظمہ جانے والوں کے لئے سمندری راستوں میں مختلف مقامات پر پچاس پچاس جہازوں کے بیڑے کی سرائے بنائوں اور یہ بیڑے اس قدر مضبوط ہوں کہ طوفان باد و باراں کا اثر نہ ہو۔ تاکہ حجاج کرام بے خطر سفر کر سکیں۔ میری آخری خواہش یہ تھی کہ پانی پت میں سلطان ابراہیم لودھی کی قبر پر شاندار مقبرہ بنائوں اور اس کے سامنے ان بادشاہوں کے بھی مقبرے بنائوں جنہیں میں نے خود قتل کیا۔ افسوس ان میں سے کوئی بھی آرزو پوری نہ ہو سکی اور میں یہ حسرتیں دل میں لئے جا رہا ہوں ۔
شیر شاہ سوری نے پانچ سال تک ہندوستان پر بادشاہت کی، اس کی سلطنت دہلی سے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی۔ وہ مسلسل حالت جنگ میں رہا مگر اس کے باوجود اس نے ایسے ناقابل یقین کارنامے سرانجام دیئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ تو جی ٹی روڈ کی تعمیر ہے مگر ریاست کا ڈھانچہ تشکیل دینے میں شیر شاہ سوری کا کلیدی کردار ہے۔ 

ہمارے معاشرے میں آج یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ مساجد ریاست کے زیر انتظام ہونی چاہئیں مگر اس کے دور میں ہر مسجد کے لئے باقاعدہ امام، موذن اور خادم مقرر کیا جاتا اور اسے سرکاری خزانے سے تنخواہ دی جاتی۔ تاریخ خان جہانی و مخزن افغانی کا مصنف بیان کرتا ہے کہ اس کے دور میں چوری ڈاکے اور دیگر جرائم ختم ہو گئے۔ کسی مسافر کے پاس جتنا چاہے مال واسباب ہوتا۔

وہ ویرانے میں پہرہ دار کے بغیر سو جاتا کیونکہ اگر اسے لوٹ لیا جاتا تو حکومت اس کا نقصان پورا کرتی۔ ڈاک کا نظام اس قدر برق رفتار اور مربوط تھا کہ ایک دن میں چٹھی ریاست کے آخری کونے تک پہنچ جاتی۔ یہ ہندوستان کا پہلا حکمراں تھا جس نے سویلین حکمرانی کی داغ بیل ڈالی۔ مغل بادشاہوں کے ہاں فوج کا سربراہ ہی وزیر دفاع ہوا کرتا تھا مگر اس نے سویلین وزیر دفاع کے ذریعے انٹیلی جنس سیکرٹریٹ اور فوج کو چلایا۔
 شیر شاہ سوری نے باغات اور عالیشان عمارتیں کھڑی کرنے کے بجائے اسپتال اور لنگر خانے تعمیر کروائے، مسافروں کے قیام وطعام کے لئے سرائے بنائی گئیں۔ اس نے ہندوستان میں مالیہ کا نظام متعارف کروایا، اس کے دور میں پہلی مرتبہ زمینوں کی پیمائش کے لئے بیگھے کی اکائی متعارف کروائی گئی، خسرہ نمبر الاٹ ہوئے تاکہ کوئی کسی کی زمین پر قابض نہ ہو سکے۔ یہ سب خدمات اور فتوحات صرف پانچ سال پر محیط ہیں۔

ہمارے ہاں بھی ہر آنے والی حکومت کا دور اقتدار پانچ سال پر مشتمل ہوتا ہے مگر جب مدت اقتدار ختم ہوتی ہے تو یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ اس قدر قلیل وقت میں کیا ہو سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نہ جانے شیر شاہ سوری سے متاثر ہیں یا ان کی طبیعت ایسی ہے کہ وہ ہر کام برق رفتاری سے کرنا چاہتے ہیں۔ تمام تر اختلافات کے باوجود ایک بات بہر حال تسلیم کرنا پڑے گی کہ انہوں نے سرکاری منصوبے کئی سال تک فائلوں کی زینت بنائے رکھنے کی روایت ختم کر کے انہیں ہفتوں اور مہینوں میں مکمل کرنے کا کلچر متعارف کروایا ہے۔ لیکن انہیں شاید یہ غلط فہمی ہے کہ شیر شاہ سوری کو تاریخ میں جو مقام حاصل ہوا، وہ جی ٹی روڈ کے مرہون منت ہے یا پھر یہ کہ شیر شاہ سوری نے ماسوائے سڑکیں بنوانے کے اور کوئی کام نہیں کیا۔

لہٰذا وہ بھی دل و جان سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ شیر شاہ سوری کی طرح وہ بھی شہر کو برباد کر کے آباد کرنے کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ ان کے گزشتہ دور حکومت کی بجٹ دستاویزات اٹھا کر دیکھ لیں یا پھر موجودہ دور کے تینوں بجٹ ملاحظہ کریں، صحت و تعلیم جیسے شعبہ جات سے کئی گنا زیادہ بجٹ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے لئے مختص کیا گیا۔ 2014-2015ء میں شعبہ صحت کے لئے 121 ارب روپے مختص کئے گئے جس میں سے 90 فیصد رقم آپریشنل اخراجات کے لئے تھی اور محض 10 فیصد رقم نئے منصوبوں کے لئے رکھی گئی۔

جبکہ اسی بجٹ میں سڑکیں بنانے اور میٹرو چلانے کے لئے 137 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی۔ 2015-2016ء کے بجٹ میں صحت کے لئے مختص رقم میں معمولی سا اضافہ کیا گیا اور 166 ارب روپے رکھے گئے مگر اس میں بھی نئے منصوبوں کے لئے صرف 30 ارب روپے مختص کئے گئے جبکہ اس کے مقابلے میں شاہرائوں کی تعمیر اور ماس ٹرانسپورٹ سیکٹر کے لئے 161.5 ارب روپے رکھے گئے۔

اگر آپ میاں شہباز شریف کے دور حکومت میں بننے والی سڑکوں، فلائی اوورز، انڈر پاسز، ماس ٹرانسپورٹ کے منصوبوں کا شمار کرنے بیٹھیں تو ایک طویل فہرست ہے لیکن اس کے برعکس ان کے 8 سالہ دور اقتدار میں بننے والے اسپتالوں کا حساب کتاب لگانے بیٹھیں تو انگلیوں پر گن سکتے ہیں۔ راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی، شاہدرہ کا اسپتال، بہاولپور اسپتال کے علاوہ کوئی اور نمایاں اور قابل ذکر منصوبہ دکھائی نہیں دیتا۔ مظفر گڑھ میں ترکی کے تعاون سے طیب اردوان اسپتال بنایا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر آبادی میں اضافہ ہو جانے کے باعث سڑکیں کم پڑ رہی ہیں، ٹریفک بڑھ رہی ہے تو کیا ان بڑھتے ہوئے انسانوں کو بنیادی طبی سہولتوں اور علاج معالجے کی ضرورت نہیں؟

آپ کے پاس لیپ ٹاپ اسکیم کے لئے اربوں روپے ہیں، میٹرو چلانے کے لئے وسائل کی کمی نہیں مگر زندگیاں بچانے کے لئے بجٹ نہیں؟ چمچماتی سڑکیں اور ان پر دوڑتی گاڑیاں بھلے خوشحالی کی علامت ہوں مگر جب تک سفر کرنے والوں کو تحفظ حاصل نہیں ہو گا، سزا اور جزا کا نظام متحرک نہیں ہو گا، لوگوں کو بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہوں گی، یہ خوشحالی دیر پا نہیں ہو گی۔ آپ کے پاس انتہائی قابل مشیروں کی کوئی کمی نہیں، ان میں سے کسی سے استفادہ کر لیں یا پھر شیر شاہ سوری کے دور اقتدار سے متعلق کسی مستند کتاب کا مطالعہ فرمائیں تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ محض سڑکیں بنانے سے کوئی شیر شاہ سوری نہیں بن جاتا۔

محمد بلال غوری
 بشکریہ روزنامہ 'جنگ'

Viewing all 4315 articles
Browse latest View live