Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

دہشت گردوں کی کتنی صورتیں ہم نے دیکھیں

$
0
0

دہشت گردی کا ایک ہی چہرہ نہیں ہے۔ ایک وہ ہے جس سے جسم کے پرخچے اڑ جاتے ہیں اور ایک وہ ہے جو دل کو چیر کر رکھ دیتی ہے۔ اس کی ایک ہولناک شکل تو وہ ہے جس کے مکروہ سائے پچھلے کئی برسوں سے ہمارے ملک اور معاشرے پر پڑ رہے ہیں۔ پبلک مقامات، بازار اور مارکیٹیں، کھیل کے میدان، مساجد، مزارات اور غیر مسلموں کی عبادت گاہیں، تعلیمی ادارے اور ہمارے دفاعی مراکزاس کاہدف ہیں۔ قومی تنصیبات اور نمایاں سیاسی اور سماجی شخصیات اس کی ہِٹ لِسٹ پر ہیں۔

پولیس اور فوج کے سینکڑوں جوان اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ادھر ہمارا ازلی دشمن بھارت سرحدوں پر جارحانہ چھیڑ چھاڑ جاری رکھے ہوئے ہے اور ادھر ہماری بہادر افواج اس اندرونی دشمن یعنی دہشت گردی سے الجھی ہوئی ہیں۔ دہشت گردی کی اس سے بھی بڑی ایک شکل جذباتی گھاؤ لگانا ہے۔ مسلمانوں کے اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے بڑے مرکزِ عقیدت، یعنی نبی آخرالزّماں حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی شان میں زبان و قلم یا کسی بے ہودہ حرکت سے گستاخی اور ہماری متبرک و مقدس کتاب قُرآنِ کریم کی بے حرمتی کر نا اس دہشت گردی کی ایک اذیت ناک صورت ہے۔
اسی طرح ملک کے نظریاتی اور فکری وجود پر حملہ بھی دہشت گردی ہے۔ یہ دہشت گردی قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد تہذیبِ مغرب کے زیرِ اثرتجدد کی لہریں اٹھنے اور سیکولرزم اور لبرل ازم کی مسموم ہوائیں چلنے لگی تھیں۔ اگرچہ میری نظر میں سلمیٰ یاسمین نجمی کا ناول ’سانجھ بھئی چودیس ‘ اس دور کا شاہکار ہے لیکن گزشتہ ساٹھ پینسٹھ برسوں میں لکھے جانے والے جن دیگرتین چار اردو ناولوں کی قارئین اور نقادوں کے حلقوں میں خوب دھوم رہی ان میں قُرۃُ العین حیدرکا ناول ’آگ کا دریا‘ بھی ایک بڑا ناول ہے۔ اس پر ایک تو ویدانت فلسفے کی چھاپ گہری ہے دوسرے یہ اس ارسٹوکریٹ طبقے کی کہانی ہے جس سے خود مصنفہ کا تعلق تھا۔

اس کے 98 ویں باب میں پاکستان کی جو منفی تصویر کھینچی گئی ہے اس میں کچھ سچائی ہے اور کچھ مبالغہ ۔ لگن اور محنت سے وطن کی خدمت کے عزم، ایثار کیشی کی تابندہ مثالوں ،مثبت قدروں اور تعمیری جذبوں کو اس تصویر میں کوئی جگہ نہیں دی گئی۔ ان کی خود نوشت ’کارِ جہاں دراز ہے ‘ پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں اونچے منصبوں پرجو لوگ فائز ہوئے ان میں ایک بڑی تعداد ان کے قریب و دور کے رشتہ داروں اور ان کے خاندان سے قریبی تعلق والے سر ظفراللہ جیسے لوگوں اور اس ارسٹوکریٹ طبقے کی تھی۔ ملکی معیشت ابھی ٹھٹھری ہوئی تھی۔ ملک ابھی ٹھیک سے قدموں پر کھڑا بھی نہیں ہوا تھا۔ لاکھوں تباہ حال مہاجرین کو سر چھپانے کے لیے چھت بھی میسر نہیں آئی تھی۔ اپنے پیاروں سے بچھڑے ہوئے سینکڑوں لٹے پٹے مہاجرکیمپوں میں پڑے ہوئے تھے۔

لیکن ان لوگوں نے اپنے لیے شاندار کوٹھیاں اور بنگلے بنوانے شروع کر دیے۔ بے پناہ مراعات حاصل کر لی تھیں۔ بہانوں بہانوں سے بھاری ٹی اے ، ڈی اے کے ساتھ بیرونی ملکوں کے غیر ضروری دورے کر رہے تھے۔ اس طبقے میں مغربی تہذیب کے دلدادگان اور لبرل سوچ کا غلبہ تھا۔ بائیں بازوکے بارے میں مصنفہ بتاتی ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد اشتراکی انٹلکچوئل انقلاب سے نا امیدہو گیا تھا۔لیکن یہ پورا سچ نہیں ہے۔ اشتراکی دانش و فکر کے لشکروں نے ابھی میدان نہیں چھوڑا تھا۔ان دنوں اخبارات کی تعداد زیادہ نہیں تھی لیکن جتنے اخبار تھے ان کو لکھنے والوں کی ضرورت تھی۔ قلم کاروں کی دنیا میں اسلامی فکر اور صالح نظریات کا خاصا کال تھا۔

اخبارات اور ادبی اور سیاسی رسالے بائیں بازو کے اہلِ قلم کی مضبوط کمین گاہیں بن گئی تھیں جہاں سے وہ پاکستان کی فکری اور نظریاتی بنیادوں پر تابڑ توڑ حملے کر رہے تھے۔فکری دھول اڑائی جا تی تھی تاکہ ’پاکستان کا مطلب کیا، لَا اِلٰہ الَا اللہ ‘کا تصور آنکھوں سے اوجھل ہو جائے اور اس مملکتِ نو زائدہ کی نظریاتی شناخت کسی کو نظر نہ آئے۔ اسلام پسندی کے رجحانات پر بائیں بازو کا یہ طائفہ اور ساتھ مغرب نواز سیکولر لبرل طبقہ پے در پے حملے کر رہا تھا۔ یورپ کے اخبارات اور رسائل کی کارٹونوں کی صورت میں پیغمبرِ انسانیت ﷺ کی شان میں گستاخی تو ابھی کل کی بات ہے ۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ یہ کسی سوشلسٹ مزدور یونین کے زیرِ اہتمام چھپنے والا رسالہ تھا جس میں قیامِ پاکستان کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک کارٹون چھاپ کر رسولِ پاک ﷺ کی شان میں سخت گستاخی کی گئی تھی۔

اس دہشت گردی کا وار سیدھا مسلمانوں کے قلب و روح پر پڑتا تھا۔ ایسی حرکتوں کا مقصد یہ جانچنا ہوتا تھا کہ مسلمان معاشرے میں دین پسندی کے رجحانات تحریکِ پاکستان کے وقت کی سطح پر ہیں یا ٹھنڈے پڑ رہے ہیں۔ یوں گویا فکری و نظر ی دہشت گردی زوروں پر تھی۔ جہاں اسلام کے خلاف کھلی دریدہ دہنی ممکن نہ ہوتی تھی وہاں ان دینی قوتوں کو طنز اور تنقید کا نشانہ بنانا ترقی پسندی کا وتیرہ بن گیا تھا جو پاکستان میں اسلامی نظام کا مطالبہ  کرتی تھیں۔ جماعت اسلامی اور اس کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ ہمیشہ اس فکری دہشت گردی کا ہدف رہے ہیں۔

سرد جنگ کے عرصے میں اشتراکی فکر اور مغربی تہذیب اور سرمایہ دارانہ نظام کے حامی دانشوروں میں باہم خواہ کیسی ہی فکری مناقشت رہی ہو لیکن اسلام کے خلاف ان کی سوچ اور اظہارات یکساں تھے۔ اسلامی قوتوں میں مدرسہ و خانقاہ سے نہ ان کو کبھی خطرہ رہا اور نہ ان کے ساتھ کوئی آویزش۔ دینی جماعتوں میں جدید نظریاتی فتنوں کا ادراک بھی صرف جماعت اسلامی کو تھا اور ان فتنوں کا توڑ کرنے کی علمی و فکری استعداد بھی اسی کے پاس تھی ۔

منیر احمد خلیلی
بہ شکریہ روزنامہ  نئی بات 


منی کا حادثہ، مسئلہ جبر اور سیاست

$
0
0

کیا منیٰ کا سانحہ مسلمانوں کے باہمی اختلافات کی دھند میں کھو جائے گا؟ کیا یہ تقدیر کا لکھا تھا؟ کیا ہم اس واقعے کا ، بطور حادثہ تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟

یہ محض اتفاق ہے کہ جس دن یہ حادثہ ہوا، اسی روز انٹرنیشنل نیو یارک ٹائمز میں ایک مضمون شائع ہوا جو اسی سوال کو موضوع بناتا ہے۔ مسلمان ہر وقفے کو تقدیر کا لکھا قرار دیتے ہیں اور اس سے انکی مراد یہ ہوتی ہے کہ اسکا عالم اسباب سے کوئی تعلق نہیں۔ اس مضمون میں کرین حادثے کو بنیاد بناتے ہوئے یہ بتایا گیا کہ پہلی بات اس نوعیت کے واقعے کی تحقیقات ہوئیں تو معلوم ہوا کہ اسکی ذمہ دار تعمیراتی کمپنی ہے جس نے ان حفاظتی ہدایات کا خیال نہیں رکھا جنکا احترام اس پر لازم تھا۔ مضمون نگاریوں متوجہ کرتا ہے کہ عالم اسلام میں ہر معاملے کو قسمت اور تقدیر کا لکھا قرار دینے سے خود احتسابی کی روایت آگے نہیں بڑھی اور یوں ایسے حادثات کا اعادہ ہوتا رہتا ہے۔ اسکے برخلاف جدید دنیا میں عالم اسباب میں جھانکا جاتا ہے اور یوں آنے والے دنوں میں حادثات کی تکرار نہیں ہوتی۔ مضمون کا عنوان ہے: اسلام کا المناک فلسفہ جبر 
 
بدقسمتی سے منیٰ کے حادثے کے بعد بھی اسی فلسفہ جبر کی صدائے بارگشت سنی گئی۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ نے حج کمیٹی کے سربراہ شہزادہ محمد بن نائف سے کہا: ‘‘ جو امور انسانی بس میں نہیں ہیں، ان کیلئے آپ کو الزام نہیں دیا جا سکتا۔ قسمت اور تقدیر کے لکھے کو ٹالنا ناممکن ہے۔‘‘ سب مسلمانوں کا اس پر ایمان ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کس واقعے پر اسکا اطلاق ہوتا ہے اور کس پر نہیں؟ اگر اس کو بلاامتیاز مان لیا جائے تو پھر دنیا اور آخرت میں جواب دہی کا قانون بے معنی ہوجاتا ہے۔ تقدیر کے معاملات مالکِ تقدیر پر چھوڑتے ہوئے، ہمیں پانی ذمہ داری ادا کرنا پڑے گی۔ کرین کے حاثے کو بھی تقدیر پر چھوڑا جا سکتا تھا، مگر شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز السعود نے تحقیقات کا حکم دیا۔ تعمیراتی کمپنی کو بلیک لسٹ قرار دیا۔ تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یہ حادثہ انسانی غفلت کا نتیجہ تھا۔

جبر و قدر مذہب اور فلسفے کے معرکتہ ال آرا مضامین میں شامل ہے۔ ایک کالم میں اسکی گتھیاں سلجھائی نہیں جا سکتیں اور میں اس کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اس فلسفے کو ہم رویہ نہیں بنا سکتے۔ جبر کی سرحد وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں انسانی اختیار کی سرحد ختم ہوتی ہے۔ یہ ہم نہیں جانتے کہ اختیار اور کوشش کی یہ حد کہاں تک ہے۔ یوں ہم تا دم مرگ کوشش کے پابند ہیں۔ مریض کی سانس جب تک آ جا رہی ہے، ڈاکٹر کا اختیار ختم نہیں ہوتا۔ وہ کوشش کا پابند ہے۔ وہ موت کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ موت کا فیصلہ عالم کا پروردگار کرت اہے اور یہاں سے جبر کا آغاز ہو جاتا ہے۔ منیٰ میں حادثہ کیوں ہوا؟ نائجیریا کی حکومت اس بات کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں کہ اسکے حجاج اسکے ذمہ دار ہیں۔ اس لیے لازم ہے کہ اس کو تقدیر کا معاملہ قرار دینے سے پہلے عالم اسباب میں اسکی وجوہ تلاش کی جائیں۔

انتظامات حج کے باب مین سعودی حکومت کی کارکردگی غیر معمولی ہے۔ حجاج کو سہولتیں فراہم کرنے کا کام مسلسل جاری رہتا ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ حج آسان سے آسان تر ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود یہ ایک انسانی کاوش ہے جس میں اصلاح کا امکان ہر وقت باقی ہے۔ حجاج کی غلطیاں اپنی جگہ لیکن میرا خیال ہے کہ منیٰ جیسے حادثات متقاضی ہیں کہ انکی تحقیقات ہوں۔ ان میں علماء کے ساتھ گورننس کے ماہرین کو شامل کیا جائے اور اس بات کو ممکن حد تک یقینی بنایا جائے کہ مستقبل مین ہم ایسے حادثات سے محفوظ رہیں۔

 جیسے جمعرات کو ستون کے بجائے اب دیوار کی صورت دے دی گئی اور اس کی کئی منازل بھی بنا دی گئی ہیں۔ قربانی کی عملی مشکلات کو دیکھتے ہوئے، اس معاملے میں بھی اجتہاد کیا گیا ہے۔ انسانی جانوں کی حفاظت کیلئے اس عمل کو مزید آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اسکے ساتھ میرا خیال ہے کہ حجاج کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ بھی توجہ چاہتا ہے۔ چونکہ سعودی معیشت کو اس سے غیر معمولی فائدہ ہوتا ہے، اس لیے حجاج کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس پر بھی غور کیا جانا چاہیے کہ سعودی حکومت اتنے افراد ہی کو اجازت دے جسکا انتظام کرنا اس کے لیے ممکن ہے۔

اس حادثے پر سارا عالم اسلام افسردہ ہے، مگر ایرانی حکومت نے جس طرح اسے باہمی سیاست کی نذر کیا ، اسے افسوسناک ہی کہنا چاہیے۔ اس واقعے کو غیر ضروری طور پر اقوام متحدہ میں اٹھایا گیا۔ میرا خیال ہے کہ اس سے گریز کیا جاتا تو بہتر تھا۔ اس حادثے میں جیسے سیاست اور فرقہ واریت کو گھولا گیا، وہ میرے لیے تو تشویش کی بات ہے۔ تاہم اس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ فرقہ واریت اور سیاسی اختلافات کی جڑیں اس امت کی نفسیات میں کتنی گہری ہیں۔ انکے ہوتے ہوئ ےامت کو ایک سیاسی وحدت میں بدلنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ اس کے اسباب خارج میں تلاش کرتے ہیں انہیں سعودی عرب اور ایران کی اس چپقلش کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنا چاہیے۔

ایرانی حکومت نے اس حادثے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا دیرینہ مطالبہ دہرایا ہے کہ حج کے انتظامات عالم اسلام کی مشترکہ ذمہ داری قرار دی جائے۔ اس مطالبے کی تائید مشکل ہے۔ یہ معاملات کو مزید پیچہدہ بنانا ہے۔ سعودی عرب کی حکومت کی الجملہ ان معاملات کو خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہی ہے۔ کسی مسلمان ملک کو اگر کوئی شکایت ہے یا اس کے پاس انتظامات کی بہتری کی کوئی تجویز ہے تو اسے سعودی حکومت تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اسے او آئی سی کے فورم پر بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ اسے اقوام متحدہ کے فورم پر اٹھانا جگ ہنسائی کا باعث بنے گا۔ اگر مسلمان ممالک سیاست اور مذۃب کو الگ الگ رکھ سکیں تو اس میں ہی مسلمانوں کا بھلا ہے۔

سیاست اور مذۃب کے اس ملاپ سے مسلمانوں کو بہت نقصان ہوا ہے۔ جب ان میں علیحدگی کی بات کی جاتی ہے تو میرے نزدیک اسکا مفہوم یہ نہیں ہوتا کہ سیاست و ریاست میں اسلام کی تعلیمات سے رہنمائی نہیں لینی چاہیے یہ انہیں فیصؒہ کن حیثیت نہیں دی جانی چاہیے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ سیاسی اور دنیاوی معاملات کو دنیاوی طریقے سے حل کرنا چاہیے اور مذہب کو اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے بعض لوگ یہ کام ایک ریاست کے اندر گروہی طور پر کرتے ہیں اور بعض اسے ریاستی حکمت عملی کا حصہ بنا دیتے ہیں۔ جیسے اب حج کے نام پر سیاست ہونے لگی ہے۔ حرمین کی تولیت عثمانیوں کے ہاتھ میں ہو گی یا آل سعود کے، انہیں اسکا سیاسی فائدہ بھی ہوگا۔ انہیں اس سیاسی فائدے سے محروم کرنے کیلئے حج کو سیاست کو موضوع بنانا افسوسناک ہے۔

منیٰ کا حادثہ ہم سب کیلئے تکلیف دہ ہے۔ ہمارے سینکڑوں حاجی ابھی تک لاپتہ ہیں۔ ہم اسے تقدیر سمجھ کر کاموش ہو سکتے ہیں پھر ہر سال ہمیں ایسے حادثے کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ ہم اس سے سیاسی فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ اسکے بعد ہمیں تیار رہنا چاہیئے کہ مذہب کے مسلمات بھی اختلاف کا موضوع بن جائیں۔ ہم ان باہمی اختلافات کی موجودگی میں امت مسلمہ کو ایک روحانی کے بجائے سیاسی وحدت سمجھنے پر اصرار کرسکتے ہیں۔ اسکا نتیجہ خوابوں میں رہنا ہے۔ فیصلہ اب ہمارے ہاتھ میں ہے۔

خورشید ندیم

بہ شکریہ روزنامہ دنیا

حیران کن منصوبے اور پسماندہ پیرس

$
0
0

چہرہ ہو، شخصیت ہو، شہر ہو یا قصبہ۔ اگر خوبصورتی باطن میں ہو گی تو ظاہر میں بھی اسکی جھلک ہوگی۔ ہمارا چہرہ ہمارے دل کا عکاس ہوتا ہے۔ جیسے اعمال ہوں وہ شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ بچے اسلئے خوبصورت ہوتے ہیں کہ وہ معصوم، سچے اور بے ضرر ہوتے ہیں مگر عمر اور تجربے کے ساتھ منافقت یا باطن کی خباثت چہرے اور شخصیت کو کھردرا، بد نما اور کرخت بنا دیتی ہے۔ ہمارے اکثر حکمرانوں، سیاستدانوں کے چہرے اور شخصیت میں آپ کو یہ سقم بدرجہ اتم نظر آئےگا۔

 جب تک اقتدار کے جھولے جھولتے ہیں۔ تھری پیس سوٹ، ٹائیاں، چمچماتے جوتے، لیموزین، بی ایم ڈبلیو، مرسڈیز اور طیاروں، ہیلی کاپٹروں سے خوشبوﺅں میں نہا کر باہر نکلتے ہیں تو بشاشت دکھائی دیتی ہے مگر جونہی شکست و ریخت سے دو چار ہوتے ہیں۔ بیمار پڑتے ہیں یا جیل کی ہوا کھاتے ہیں تو عوام کو انکے اصلی چہرے دکھائی دیتے ہیں۔

انسان جتنا بھی بے ضمیر ہو جائے۔ اس کا لاشعور اسے کچوکے مارتا رہتا ہے بلکہ اندر ہی اندر نوچتا رہتا ہے۔ باطن اسے مضطرب رکھتا ہے۔ اکثر لوگوں کو اپنے شر، زیادتی اور حق تلفیوں یا کرپشن کا احساس اس قدر تاخیر سے ہوتا ہے کہ مداوے کی صورت نہیں بچتی، آج کل پاکستان میں پیسے کی دوڑ نے حکمرانوں، سیاستدانوں سمیت زندگی کے ہر طبقہ کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے۔ ہر آدمی پیسے کی خاطر جھوٹ، بے ایمانی، رشوت، خوشامد، حرام اور کرپشن پر اترا ہوا ہے اونچا طبقہ جتنا کرپٹ ہے نچلا طبقہ اس سے کئی گنا زیادہ کرپٹ اور مکر باز ہے۔ 

پاکستان میں روزانہ سینکڑوں اور عبرتناک، غیر طبعی، حادثاتی اموات کی وجہ یہی پیسے کی دوڑ ہے۔ ہر چیز میں ملاوٹ، دھوکہ، بددیانتی اور جعلسازی ہے، ہماری معاشرتی اقدار کی اموات کا سب سے بڑا سبب پیسہ ہے اور پیسے کی دوڑ نے پاکستان سے انسانیت کو ختم کردیا ہے۔ نچلے طبقے کی کرپشن کی ایسی ہولناک کہانیاں ہیں کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے مگر حکمرانوں اور ان نام نہاد قومی لیڈروں کو اس لئے فوکس کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ عوام کے خون پسینے کی کمائیاں لوٹ کر کھاتے ہیں اور ڈھٹائی سے جھوٹ، فریب، حیلہ، بددیانتی کرتے ہیں۔

عوام کے پیٹ پر لات مارتے ہیں۔ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور بے شرمی سے کہتے ہیں کہ ہم عوام کی خدمت کررہے ہیں۔ ہم عوام کیلئے اپنی جان لڑا دینگے۔ ہم انصاف کیلئے عوام سے رجوع کرینگے۔ غضب خدا کا کہ جس عوام کی بوٹیاں بھی نوچ نوچ کر کھا چکے اور ہڈیاں بھی چیچوڑ چکے۔ اب کیا عوام کی ہڈیوں کا سرمہ بنا کر بیچیں گے۔ کتنے افسوس اور شرم کی بات ہے کہ اسحاق ڈار کہتے ہیں ہم نے عوام کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ صاف کیوں نہیں کہتے کہ عوام کی ہڈیوں کا بھی دلیہ بنا لیا اور وہ بھی ڈھٹائی سے کھا لیا۔ شوکت عزیز کے بعد وہ پاکستان کے دوسرے بڑے معتوب وزیر خزانہ ہیں جنہوں نے پاکستانی عوام کی رگوں سے خون ہی نہیں نچوڑا، پانی بھی چوس لیا ہے۔ دوسری طرف انکے سمدھی وزیراعظم ہیں جو ہر وقت شہنشاہ معظم بنے رہتے ہیں۔

باراک اوباما یا ڈیوڈ کیمرون نے تو تین سالوں میں ایک بار بھی پاکستان آکر جھانکا تک نہیں مگر وزیراعظم ہر دو تین ماہ بعد امریکہ، انگلینڈ پہنچ جاتے ہیں، ستر اسی افراد کا قافلہ لےکر چل پڑتے ہیں اور سارا خرچہ قومی خزانے سے ادا ہوتا ہے۔ خاص طور پر وزیراعظم کو پاکستان میں عید منانا تو بالکل پسند نہیں یا کسی سنیاسی بابے، عامل جوتشی نے کہہ دیا ہے کہ وہ ہر عید پر ملک سے چلے جایا کریں، عیدالفطر پر تو سعودیہ چلے جاتے ہیں کہ جی عمرہ کرنا ہے حالانکہ عیدالاضحی پر بھی سعودی جا سکتے ہیں مگر ظاہر ہے کہ حج کون کرے۔ اس میں اتنے دن لگتے ہیں اور اتنی ہی محنت و مشقت بھی۔ 

اس لئے ہمارے اکثر قومی رہنما عمرہ پیکج پر تو بھاگ کر پہنچ جاتے ہیں مگر حج کرنے نہیں جاتے۔ وزیراعلیٰ پنجاب ایک کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں۔ چینی وزیر نے اپنی زبان میں کہاکہ وزیراعلیٰ ایک انتہائی محنتی، ذہین اور قابل فخر وزیراعلیٰ ہیں۔ اطالوی ایلچی نے کہاکہ شہباز شریف جیسا ایک وزیراعلیٰ اگر اٹلی میں پیدا ہوتا تو آج اٹلی کی شکل بدل چکی ہوتی۔ ترکی کا صدر کہتا ہے کہ کاش ہمارا وزیراعظم شہباز شریف ہوتا۔

مذاق کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور وزیراعلیٰ اللہ کے فضل سے اس قسم کے مذاق میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ لاہور کو ہر وقت پیرس بنانے کی باتیں کرنے والے عظیم وزیراعلیٰ نے چند سڑکیں اور میٹرو بنا کر سمجھ لیا ہے کہ انہوں نے لاہور کو پیرس، فیصل آباد کو مانچسٹر، نندی پور کو لندن، ملتان کو ہانگ کانگ، بہاولپور کو بیجنگ، ساہیوال کو شنگھائی، اوکاڑہ کو ٹوکیو بنا دیا ہے، لاہور میں صرف اپنی گزر گاہوں کو ضرور خوبصورت سڑکوں اور گرین بیلٹ کا روپ دیا ہے کیونکہ یہاں سے شاہی سواری نے گزرنا ہوتا ہے ورنہ اندرون شہر تو یہ حال ہے کہ نہ پتہ یہ سڑک ہے یا فٹ پاتھ، گلی ہے یا کوئی کھڈا۔ پنجاب کے تمام اضلاع اور قصبات نوحہ کناں ہیں۔ 

خاص طور پر تونسہ شریف جو ڈیرہ غازی خان کی تحصیل ہے جہاں سے کھوسہ، لغاری ہمیشہ اقتدار میں رہے۔ فاروق لغاری صدر رہے۔ سابق گورنر پنجاب ذوالفقار کھوسہ، دوست محمد کھوسہ وزیراعلیٰ رہے۔

یہ جنوبی پنجاب کا پسماندہ ترین علاقہ ہے یہاں انسان اور جانوروں میں کوئی امتیاز نہیں۔ تونسہ شریف میں انسان اور جانور ایک جگہ پانی پیتے ہیں۔ اس طرف ہماری توجہ عرفان اعظم خان صاحب نے کرائی اور اس علاقے کی ایسی تصاویر بھیجی ہیں کہ دل پھٹتا ہے۔ اکیسویں صدی میں ایسے دلخراش، غیر انسانی مناظر کہ خدا یاد آجائے۔ وزیراعلیٰ کس پیرس کی باتیں کرتے ہیں۔ تونسہ شریف تو بہت دور ہے، بہت پسماندہ ہے۔ آپ تو لاہوریوں کو صاف پانی فراہم نہیں کر سکے۔ آپ کے پسماندہ پیرس میں انسانیت روتی ہے۔ آپ تقریروں، بیانات اور فوٹو سیشن سے باہر آئیں اور اس تلخ دنیا کا ادراک کریں اور سوچیں کہ یہی آپ کی وزارت اعلیٰ کا چمتکار ہے؟
 
ڈاکٹر عارفہ صبح خان
بہ شکریہ روزنامہ  نوائے وقت 

ترکی میں ایک بار پھر انتخابی مہم کا آغاز

پاکستان جدید ڈرون بنانے والے ممالک میں شامل

$
0
0

گزشتہ دنوں پاکستان میں تیار کئے گئے ڈرون طیارے ’’براق‘‘ کے شمالی وزیرستان کے علاقے شوال میں پہلے کامیاب حملے میں 3 انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی ہلاکت کی خبریں منظر عام پر آنے اور پاکستان کا شمار لیزرگائیڈڈ میزائل سے لیس ڈرون طیارے بنانے والے ممالک میں ہونے کے بعد بھارت نے اسرائیل سے 400 ملین ڈالر کے ’’ہیرون ٹی پی ڈرون‘‘ خریدنے کا معاہدہ کیا۔ اس سے قبل بھارتی ڈرون طیارے صرف سرویلنس کی حد تک محدود تھے جنہیں بھارت نے جدید اسلحہ سے لیس کرنے کی کافی کوششیں کیں لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہا مگر پاکستان کے ڈرون طیارے کی حالیہ کامیابی کو دیکھتے ہوئے بھارت نے اسرائیل سے جدید ڈرون خریدنے کا فیصلہ کیا۔

براق، برق کی جمع ہے جس کے معنی بجلی ہے۔براق کے بارے میں قرآن پاک میں ذکر ہے کہ نبی کریمﷺ نے معراج پر تشریف لے جانے کیلئے جس سواری پر سفر کیا، وہ جنت سے بھیجا گیا جانور تھا جسے براق کہا گیا، اس لئے پاکستانی ڈرون طیارے کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے یہ نام صادق آتا ہے۔ پاکستانی ڈرون 20 سے 22 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے زمین پر موجود اپنے ہدف کو 100 فیصد نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک کے پاس نگراں ڈرون طیارے ہیں مگر اسلحہ سے لیس ڈرون ٹیکنالوجی کے حامل صرف چند ممالک ہیں جن میں امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ قابل ذکر ہیں جنہوں نے تنازعات کے دوران اسلحہ سے لیس ڈرون طیارے استعمال کئے لیکن اب اِن عالمی طاقتوں کی صف میں پاکستان بھی شامل ہوچکا ہے۔

ماضی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پاکستانی سرحدی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں عام شہریوں کی ہلاکت کے بعد پاکستانی حکومت عوام کے دبائو پر امریکہ سے یہ مطالبہ کرتی رہی کہ امریکہ، پاکستان کو ڈرون طیارے فراہم کرے تاکہ پاکستان خود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرسکے مگر امریکہ ہر بار پاکستان کی درخواست مسترد کرتا رہا جس کی ایک وجہ امریکہ پر بھارتی دبائو تھا جو پاکستان کو ڈرون طیارے دیئے جانے کا حامی نہیں تھا۔

ایسی اطلاعات ہیں کہ امریکہ کے انکار کے بعد چین نے پاکستان کو ڈرون طیارے فراہم کرنے کی پیشکش کی مگر چینی ساختہ ڈرون طیارے پاکستان کے شمالی علاقوں میں مطلوبہ ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ بعد ازاں حکومت نے امریکی رویئے سے دلبرداشتہ ہوکر نیشنل انجینئرنگ اینڈ سائنٹفک کمیشن کو ذمہ داری سونپی کہ وہ پاکستان ایئر فورس کی مدد سے ڈرون طیارے کی تیاری پر کام شروع کرے۔ اس طرح   اور پاکستان ایئر فورس نے 2009ء میں مقامی سطح پر ڈرون طیارے تیار کئے جنہیں ابتداء میں جاسوسی اور دہشت گردوں کی نگرانی کیلئے استعمال کیا گیا، بعد ازاں انہیں جدید لیزر گائیڈڈ میزائل سے لیس کردیا گیا۔

ڈرون طیاروں کو مسلح افواج کے حوالے کردیا گیا جس کا پہلا تجربہ انتہائی کامیاب رہا اور لیزر گائیڈڈ میزائلوں سے لیس ان ڈرون طیاروں نے کامیابی سے اپنے ہدف کو نشانہ بنایا۔ ڈرون طیاروں کے کامیاب تجربے کے موقع پر پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی موجود تھے جنہوں نے انجینئروں، سائنسدانوں اور منصوبے سے منسلک افراد کی کاوشوں کو سراہا۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ براق ڈرون کی پاک فوج میں شمولیت سے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا بلکہ پاکستان دفاعی طاقت رکھنے والا اہم ملک بن کر ابھرے گا۔ 7 ستمبر 2015ء کو ایسا ہی ہوا جب براق ڈرون طیارے نے شمالی وزیرستان میں موجود دہشت گردوں کو ہزاروں فٹ بلندی سے کامیابی سے نشانہ بناکر اُنہیں کیفر کردار تک پہنچایا۔

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر 2004ء سے ڈرون حملے شروع کئے۔ ان حملوں کی ابتداء جارج بش حکومت میں ہوئی جو موجودہ امریکی صدر باراک اوباما کے دوسری بار صدر بننے تک جاری رہے۔ صدر آصف زرداری کے دور حکومت میں امریکی ڈرون حملوں میں شدت آئی جن میں طالبان کے کئی سرکردہ لیڈر مارے گئے مگر دوسری جانب ان حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں بے گناہ عام شہری بھی جاں بحق ہوئے جس کے بعد امریکی ڈرون حملوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

 اس دوران ایسی خبریں بھی سامنے آتی رہیں کہ امریکی ڈرون حملے حکومت پاکستان کی ایماء پر کئے جارہے ہیں اور پاکستان ایئرفورس، امریکی ڈرون طیارے گرانے کی صلاحیت نہیں رکھتی مگر یہ مفروضہ اُس وقت غلط ثابت ہوا جب گزشتہ دنوں پاکستان ایئر فورس نے آزاد کشمیر میں بھمبیر کے مقام پر بھارتی جاسوس ڈرون مار گرایا اور بھارت کو یہ سخت پیغام دیا کہ دشمن ملک کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔

آج پاکستان کی سرزمین پر امریکی ڈرون حملے تقریباً ختم ہوچکے ہیں لیکن افغانستان کے سرحدی علاقوں میں یہ حملے اب بھی جاری ہیں۔ پاکستان میں امریکی ڈرون حملے ختم ہونے کے بعد دہشت گرد شاید اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ ان کے سر سے بڑا خطرہ ٹل چکا ہے مگر ان کی یہ خوش فہمی زیادہ عرصے نہ رہی اور اب پاکستانی ڈرون طیاروں نے امریکی ڈرون کی جگہ لے لی ہے۔

 سرحد پار موجود ان دہشت گردوں نے افغانستان کے سرحدی علاقوں سے پاکستان میں اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں جس کی حالیہ مثال پشاور ایئر بیس پر ہونے والا حملہ اور گزشتہ سال آرمی پبلک اسکول پشاور کا سانحہ تھا جسے افغانستان سے دہشت گردوں نے براہ راست کنٹرول کیا لیکن سرحد پار دہشت گردوں کو یہ اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ پاکستانی ڈرون طیارے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں موجود ان کی کمین گاہوں تک پہنچنے اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

ایسی اطلاعات ہیں کہ بھارتی حکومت نے امریکہ سے 22 اپاچی اور 15 چنوک ہیلی کاپٹرز خریدنے کا فیصلہ کیا ہے جس کیلئے بھارتی کابینہ کی سلامتی کمیٹی نے ڈھائی ارب ڈالر کے فنڈز جاری کرنے کی منظوری دے دی ہے جس کا اعلان نریندر مودی کے دورہ امریکہ کے دوران کیا جائے گا۔ دفاعی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ایسے وقت میں جب پاک بھارت تعلقات تنائو کا شکار ہیں، بھارت کی امریکہ سے بڑے پیمانے پر دفاعی ساز و سامان کی خریداری اور اسرائیل سے اسلحہ سے لیس ڈرون طیاروں کا حصول دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا کرسکتا ہے۔ 

ان حالات میں پاکستان یہ سوچنے میں حق بجانب ہوگا کہ بھارت، اسرائیل سے خریدے گئے ڈرون طیاروں کو پاکستان کی حدود میں استعمال کرسکتا ہے۔ ایٹمی صلاحیت اور میزائل ٹیکنالوجی کے حصول کے بعد ڈرون ٹیکنالوجی کی صلاحیت حاصل کرنا دفاعی سطح پر پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے جس پر ہمارے سائنسدان و انجینئرز خراج تحسین کے مستحق ہیں اور قوم کیلئے ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں جن کی کاوشوں سے پاکستان اسلحہ سے لیس ڈرون بنانے والے ممالک کے کلب میں شامل ہوا۔

اشتیاق بیگ

بہ شکریہ روزنامہ  جنگ 

تخت بھائی کے آثارِ قدیمہ

$
0
0

تخت بھائی کے لغوی معنی پہاڑی پر کسی قدرتی چشمے کے ہیں۔ بدھ دور کی ایک تاریخی عبادت گاہ کے دامن میں ایک قدرتی چشمہ، اب بھی موجود ہے جو سارے علاقے کو پانی فراہم کرتا ہے یہ آثار سطح زمین سے 150 میٹر کی بلندی پر واقع ہیں۔ بدھ مذہب کی چھوٹی بڑی عبادت گاہیں، خانقاہوں اور تہہ خانوں پر مشتمل ہیں۔ یہ آثار پہلی صدی عیسوی سے پانچویں صدی عیسوی تک محیط ہیں۔ تخت بھائی، صدیوں تک مٹی کے تودوں کے نیچے دبا رہا یہاں کا علاقہ چاروں طرف پہاڑیوں سے محیط ہے۔

 سوات کی طرف جانے والی سڑک کے دور دور تک پہاڑی پتھریلی راہوں اور غیر ہموار پگڈنڈیوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو صدیوں سے قائم ہے چونکہ ایک اونچی پہاڑی کو تلاش کریہ عبادت گاہ بنائی گئی اس لیے ابھی بھی اس کے ہر طرف پہاڑوں کا ایک سلسلہ موجود ہے بیچ میں گہری کھائیاں ہیںجو قدیم دور میں اور بھی گہری ہوں گی شاید کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ اس خاص جگہ بدھ مت کی اتنی شاندار یاد گار موجود ہے۔

 صدیاں گزر گئیں حکومتیں آتی اور جاتی رہیں حملہ اور آتے رہے۔ ان ہی راہوں سے لوگ گزرتے رہے لیکن سنگلاخ پہاڑیوں میں واقع یہ وسیع عبادت گاہ عہد رفتہ کی تمام یادیں سمیٹے مٹی کے نیچے مدفن رہی۔ تاریخ کے طالب علم جانتے تھے کہ اس زمین میں پرانی تہذیبوں نے جنم لیا اور شاندار حکومتیں قائم رہیں لیکن یہ شاید کسی کے بس کا روگ نہیں تھا کہ ان پہاڑوں کو کاٹ کر نیچے کچھ تلاش کیا جائے یہ تو بڑا اچھا ہوا کہ چند مزدوروں نے جب مٹی کھود کر اس جگہ گھر بنائے تو انہیں کچھ پرانے سکے پرانی اینٹیں نظر آئیں پھر علاقے میں چھوٹے نالوں میں محکمہ آبپاشی والوں کو بدھا کی مورتیاں کچھ ٹوٹے ہوئے اعضاء اور پرانے دور کی چند اشیاء دستیاب ہوئیں چنانچہ حکومت نے ریسرچ پارٹیاں بنائیں کچھ جگہوں کو کھودا گیا اور چند ہفتوں کے بعد پتہ چلا کہ یہاں دور گم گشتہ کا ایک عظیم عہد مدفن ہے۔

 اس مہم کا سہرا برطانوی دور کے ایک قابل ماہر آثار قدیمہ سرجان مارشل کے سر ہے جس نے اس سلسلے میں ٹیکسلا اور موہنجوداڑو میں بہت سی معلومات فراہم کیں اور اپنی پارٹی کے افراد کے ساتھ کام کیا۔1927ء میں یہاں زیادہ کھدائیاں ہوئیں کہ ایک دور تاریخ کے دبیز مراحل میں گم ہوگیا تھا۔ دنیا کے سامنے پہلے پہل یہاں پہنچنے کے لیے پہاڑی راستوں اور پتھروں سے گزر کر جانا پڑتا تھا۔ اب حکومت نے عبادت گاہ کے ایک طرف ایک باقاعدہ راستہ بنا دیا ہے جس کے ساتھ لوہے کا مضبوط جنگلا موجود ہے نیچے سے کھڑے ہو کر عبادت گاہ کے کھنڈرات کسی افسانوی داستان کے کردار معلوم ہوتے ہیں۔

 چڑھائی پر آہستہ آہستہ جانا پڑتا ہے۔ کھنڈرات کے قریب سیڑھیاں بنا دی گئیں ہیں جو ایک سو کے لگ بھگ ہیں۔ اوپر پہنچ کر سارے علاقے کا نظارہ بڑا محسور کن لگتا ہے۔ آکاش کی وسعتوں کو چھوتے ہوئے یہ تاریخی کھنڈرات الف لیلیٰ کی داستان معلوم ہوتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے گویا صدیاں پلک جھپکتے گزر گئی ہوں۔ اس میلوں میں پھیلی ہوئی عبادت گاہ جو یونیورسٹی بھی تھی اب ایک اجڑا ہوا مقام، کھنڈروں اور بوسیدہ عمارتوں کا مسکن ہے جہاں مذہبی کانفرنسیں منعقد ہوتی تھیں زائرین آتے تھے شمالی ہندوستان کے دور دراز کے علاقوں سے طلباء تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ 

راجہ کنشک اور کشن خاندان کی بے شماریادگاریں ان پتھر کے ٹیلوں اور تودوں میں موجود ہیں۔ چینی سیاح400 ق م میں بدھ مت کی مقدس زیارتوں کے لیے برصغیر آیا تو اس نے اپنی تحریروں میں شمال مغربی سرحدی صوبہ اور ٹیکسلا کا بھی ذکر کیا ہے وہ کہتا ہے اس سرزمین میں بدھ مت کی نایاب چیزیں ہیں مقدس عبادت گاہیں ہیں۔ تخت بھائی کی یونیورسٹی جہاں طلباء کی ایک کثیر تعداد بدھ مت کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آیا کرتی تھی کا بھی ذکر کرتا ہے ۔ 

(شیخ نوید اسلم کی کتاب ’’پاکستان کے آثارِ قدیمہ ‘‘ سے ماخوذ)  

نواز شریف کی مشکلات

$
0
0

طالبان کی طرف سے قندوز پر قبضے کے بعد سے عالمی میڈیا میں ایک طوفان برپا ہے۔ طالبان نے یہ کام ایک ایسے وقت میں دکھایا جب دنیا بھر کے سربراہان مملکت، وزرائے اعظم اوروزرائے خارجہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے نیویارک میں جمع تھے۔ پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف کی جنرل اسمبلی میں تقریر سے دو دن قبل شمالی افغانستان کے اہم ترین شہر پر طالبان کے قبضے کے بعد افغان حکومت کے نمائندے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو نیویارک میں پاکستان کیخلاف الزام تراشیوں کا جواز مل گیا اور انہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کی۔ اس سے قبل طالبان موسیٰ قلعہ پر بھی قبضہ کرچکے ہیں لیکن انہوں نے زیادہ دن یہ قبضہ برقرار نہیں رکھا۔
ہوسکتا ہے وہ چند دن میں قندوز سے بھی نکل جائیں کیونکہ اتنے بڑے شہر پر قبضہ برقرار رکھنا آسان نہیں لیکن سقوط قندوز کی ٹائمنگ نے وزیراعظم نواز شریف کیلئے بہت سے مسائل کھڑے کر دیئے۔ 

ایک طرف امریکی و برطانوی اخبارات میں یہ دعوے کئے جارہے ہیں کہ پاکستان میں طاقت کا اصل مرکز سیاسی حکومت نہیں بلکہ فوج ہے۔ دوسری طرف عمران خان نے نواز شریف حکومت کے خلاف اوپر تلے جلسوں کا اعلان کردیا اور تیسری طرف طالبان نے قندوز پر قبضہ کرکے افغان حکومت کیساتھ ساتھ تاجکستان اور ازبکستان کو بھی پاکستان کے بارے میں شکوے شکایتوں کے انبار لگانے کا موقع دے دیا۔ وزیراعظم نوازشریف نیویارک کے سالانہ سفارتی اجتماع میں مسئلہ کشمیر پر عالمی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں پاکستان کا موقف بھرپور انداز میں پیش بھی کردیا لیکن قندوز پر طالبان کے قبضے نے کئی عالمی رہنمائوں کے لب و لہجے کو تبدیل کردیا۔ نوازشریف سے تشویشناک لہجوں میں سوال پوچھے جانے لگے۔

ان سوالات کے جواب میں نواز شریف یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ جائو اور یہ سوال اسی سے پوچھو جس کو تم مجھ سے زیادہ طاقتور قرار دیتے ہو کیونکہ جواب تو منتخب وزیراعظم کو ہی دینا ہے۔ نوازشریف نے افغانستان کے بارے میں کئی عالمی رہنمائوں کے تحفظات دور کرنے کی اپنے تئیں کوشش ضرور کی لیکن جب امریکی وزیر خارجہ اور بھارتی وزیرخارجہ ایک ہی زبان بولنے لگیں اور پاکستان میں کچھ کالعدم تنظیموں کے نام لے کر کہنے لگیں کہ ان تنظیموں کو نئے ناموں سے کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے اور جب قندوز پر طالبان کے قبضے کے بعد ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ یہ شور مچانے لگے کہ قندوز پرحملہ کرنے والوں میں کئی غیرملکی بھی شامل ہیں، تو پھر عالمی رہنما آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کے جائز دعوئوں کو بھی شک و شبے کی نظر سے دیکھیں گے۔

صورتحال یہ ہے کہ خارجی و داخلی محاذ پر ریاست یا حکومت کی کسی کامیابی کا کریڈٹ سیاسی حکومت کو نہیں ملتا جبکہ ہر ناکامی کا بوجھ سیاسی حکومت کے کندھے پر ڈال دیا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں سیاسی حکومت صرف کمزوری نہیں بلکہ نااہلی کا مظاہرہ بھی کر رہی ہے۔

سیاسی حکومت کی سب سے بڑی نااہلی یہ ہے کہ وہ قومی معاملات پر اتفاق رائے کو برقرار نہیں رکھ سکی۔ 2014ء میں وزیراعظم نوازشریف کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنا ہوا۔ا س مشکل وقت میں جو جماعتیں نوازشریف کے ساتھ کھڑی تھیں اب انہیں کرپشن اور دہشت گردی کےالزامات کا سامنا ہے۔ بی بی سی کے اوون بینٹ جونز نے تو یہ تک کہہ دیا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کے الزام میں جو مقدمہ شروع کیا گیا تھا اس کی کارروائی ’’بلاک‘‘ کردی گئی ہے۔ نوازشریف اس مقدمے کو انجام تک پہنچانے کی ہمت نہیں رکھتے تھے تو انہوں نے یہ مقدمہ کیوں شروع کیا؟ مقدمے کی کارروائی ’’بلاک‘‘ ہونے کے بعد بھی انہوں نے یہ تاثر دیا کہ وہ ایک بااختیار حکمران ہیں لیکن زمینی حقائق تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ نندی پور پاور پروجیکٹ کے افتتاح کے موقع پر شہباز شریف کی طرف سے کامیابی کے دھواں دھار دعوے نواز شریف کیلئے ندامت میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون لاہور میں 14 افراد کے پولیس کے ہاتھوں قتل کی انکوائری ابھی مکمل نہیں ہوئی اور نندی پور پاور پروجیکٹ کی انکوائری بھی شروع ہوگئی۔

اس قسم کی ہر انکوائری شہباز شریف خود شروع کراتے ہیں لیکن انکوائری یا تو کہیں پھنس جاتی ہے یا اس کی رپورٹ غائب ہو جاتی ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ ایک شریف معاملات سنبھالنے کی کوشش کرتا ہے لیکن دوسرا شریف معاملات بگاڑ دیتا ہے۔ پھربات میں سےبات نکلتی ہے۔ایک شریف طاقتور اور دوسرا شریف کمزور قرار دیاجاتا ہے۔ حالات کی نزاکت کا تقاضا کچھ اور ہے۔ آج ہمیں افراد کو نہیں اداروں کومضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو نہیں بلکہ ریاست کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ ریاست اس وقت مضبوط ہوگی جب آئین و قانون کی بالادستی قائم ہوگی۔ آئین و قانون سب کیلئے برابرہونا چاہئے۔ ریاستی اداروں کی کامیابیوں کا کریڈٹ افراد کو نہیں اداروںکو ملنا چاہئے۔ ناکامیوں کا بوجھ صرف ایک ادارے کو نہیں بلکہ سب اداروں کو اٹھانا چاہئے۔ ہم سب کو اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہئے۔

غیرضروری بحثوںاور غیرضروری تنازعات سے بچنا چاہئے۔ ان بحثوں اور تنازعات کا آخری نتیجہ شاید کسی فرد کو وقتی طور پر بہت عظیم بنا دے لیکن ’’ربط ِ ملت‘‘ کہیں کھو جائے گا۔ اپنے آپ کو تبدیلی کی موج سمجھنے والے یاد رکھیں کہ موج دریا میں رہےگی تو اس کا دبدبہ قائم رہے گا۔ دریا کے کناروں سے ٹکرا کر باہر نکلے گی تو شاید سیلاب بن کر کچھ تباہی پھیلا دے لیکن بیرون دنیا اس موج کا پانی بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے۔ اس ناچیز نے پچھلے کالم میں بھی گزارش کی تھی کہ سیاسی حکومتوں کی کمزوریاں مارشل لا کا راستہ ہموار کیا کرتی ہیں لیکن فوج کو سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہئے۔ کچھ مہربان یہ سمجھتے ہیں کہ فوج کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دینا فوج سے دشمنی ہے۔ یہ خاکسار تو قائداعظمؒ کا پیروکار ہے اور قائداعظمؒ کی تعلیمات میں فوج کو سیاست کی اجازت نہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ کسی حکمران کو بھی فوج کے ساتھ سیاست نہیں کرنی چاہئے۔

کچھ قارئین نے پچھلے کالم کے حوالے سے پوچھا ہے کہ جنرل ایوب خان نے 13 بریگیڈئیروں کو نظرانداز کر کے یحییٰ خان کو میجر جنرل کیسے بنا دیا تھا؟ کیا فوج میں پروموشن میرٹ پر نہیں ہوتی؟ جواب یہ ہے کہ جناب منیراحمد منیرکی کتاب ’’المیہ پاکستان کے پانچ کردار‘‘ پڑھ لیں۔ کتاب میں جنرل یحییٰ خان کا انٹرویو شامل ہے جس میں انہوں نے خود یہ بتایا کہ جنرل ایوب خان نے انہیں وقت سے پہلے پروموٹ کردیا۔ جب پروموشن کی فائل وزیراعظم حسین شہید سہروردی کے پاس گئی تو انہوں نے ایوب خان سے پوچھا کہ آپ نے یحییٰ خان کو 13 بریگیڈیئروں پر کیوں ترجیح دی؟ تو ایوب خان نے جواب میں کہا کہ وہ 13 بھی اچھے ہیں اور یحییٰ خان بھی اچھا ہے اور سہروردی نے دستخط کردیئے۔
اسی طرح پرویز مشرف نے بھی اپنی کتاب ’’اِن دی لائن آف فائر‘‘ میں یہ الزام لگایا ہے کہ جب انہیں آرمی چیف بنایا گیا تو وہ سینیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر تھے۔

 پہلے نمبر پر جنرل علی قلی خان تھے لیکن علی قلی خان کو یہ سینیارٹی جنرل عبدالوحید کاکڑ نے غلط طریقے سے دی۔ مشرف صاحب لکھتے ہیں کہ جنرل جہانگیر کرامت نے بھی میرےبجائے علی قلی خان کو ’’چیف آف جنرل اسٹاف ‘‘مقرر کردیا تاکہ ان کے بعد علی قلی خان آرمی چیف بن جائیں حالانکہ یہ میرا حق تھا تاہم نواز شریف نے علی قلی خان کی بجائے مجھے آرمی چیف بنادیا۔ میں نے یہ دونوں حوالے فوج کے دو سابق سربراہوں کے دیئے ہیں۔ صوابدیدی اختیار وزیراعظم کا ہو یا آرمی چیف کا، یہ اختیار صرف میرٹ کو سامنے رکھ کر استعما ل کیاجائے تو نتائج اچھے نکل سکتے ہیں۔اس وقت میرٹ پر عملدرآمد کی زیادہ ضرورت وزیراعظم نوازشریف کو ہے۔ انہیں اپنی کابینہ اور اہم اداروں میں میرٹ اور قانون پر سختی سے عملدرآمد کرنا ہوگا بصورت دیگر ان کی مشکلات بڑھتی جائیں گی اورکفارہ ہمیں ادا کرنا پڑے گا.

حامد میر
بہ شکریہ روزنامہ   جنگ 

امریکہ سے ہی ڈر بھیا

$
0
0

وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر اٹھایا اور شکوہ کیا کہ اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے جو قراردادیں پاس کی تھیں ان پر عمل نہیں ہوا جو اقوام متحدہ کی بڑی ناکامی ہے۔
  
چینلز اور اخبارات پر انکی تعریفیں چل رہی ہیں کہ انہوں نے کشمیر کا مسئلہ اٹھایا اور اقوام متحدہ کو بھی لتاڑا، لیکن سوال یہ ہے کہ اس تقریر کا فائدہ؟ اقوام متحدہ کو لتاڑنے کا کچھ مقصد سمجھ میں نہیں آیا تاکہ یہ ادارہ ازخود کچھ نہیں کر سکتا۔ یہ صرف وہی کچھ کرتا ہے جہاں کچھ کرنے کا اسے امریکہ حکم دے۔ مشرقی تیمور مین چند ہی برس تحریک چلی، امریکا نے حکم دیا اور اقوام متحدہ نے اسے آزادی دلوا دی۔ سوڈان کی خانہ جنگی میں اسے حکم ہوا تو جھٹ پٹ جنوبی سوڈان کو الگ کرا دیا۔ بہتر تو یہ ہے کہ وزیر اعظم یہ مطالبہ امریکہ سے کرتے۔

امریکہ سے صاف کہہ دیں کہ ہم سے ڈو مور کرانا ہے تو مسئلہ کشمیر حل کراؤ ورنہ یہ پڑا ہے تمہارا ڈو مور۔ کیا ہم ایسا کرنے کی جرائت رکھتے ہیں! اس سے زیادہ بڑا سوال یہ ہے کہ ہمین ایسا کرنے کا اختیار ہے؟

برسبیل تذکرہ آصف علی زرداری نے مہینہ بھر پہلے مطالبہ کیا تھا کہ مشرف کے خلاف اس لازام کی تحقیقات کرائی جائیں کہ انہوں نے مذکورہ قراردادون سے دستبردار ہونے کی بات کی تھی۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا نواز شریف کو ایسی تحقیقات کرنے کا اختیار ہے؟

کوئی اختیار نہیں تو بابا پھر ساری تقریریں بس کہانیاں ہیں۔ کہانیوں سے کچھ ہوتا تو کشمیر کب کا آزاد ہو چکا ہوتا۔ وزیرستان کے قبائلیوں نے 1948ء میں کشمیر آزاد کرا کے پاکستان کے حوالے کیا تھا، کشمیر لینا ہے تو پھر وزیرستانیوں جیسی جرائت پیدا کرو اور جب تک یہ جرائت نہیں آجاتی، اقوام متحدہ کے اجلاس میں خود مت جاؤ کسی جونئیر وزیر یا دفتر خارجہ کے افسر کو بھیج دیا کرو۔
وفاقی وزیر احسن اقبال نے سخت زیادتی کی جو عمران خان کو بوڑھا کہہ دیا۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ بڑھاپے کی وجہ سے عمران خان کو وزیر اعظم بننے کی جلدی ہے۔

عمران کہاں بوڑھے ہوئے۔ ابھی تو انکے گرو جی بوڑھے نہیں ہوئے ۔ گرو بوڑھا نہیں ہوا تو چیلا کیسے بوڑھا ہو سکتا ہے؟ چیلوں کی ایک محفل میں انہوں نے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرا اور کہا کہ قدرتی کالے ہیں، بس کنپٹیوں کی طرف سے سفید رہ گئے ۔ قدرتی کالے کی بات پر ایک چیلا مسکرایا تو گرو جی ناراض ہو گئے کہا تمہیں ثبوت دکھاتا ہوں، کمانڈو ایکشن کی طرز پر پھرتی سے اٹھے اور ہیئر کلر کی وہ شیشی لے آئے جو آپ کے زیر استعمال رہتی ہے۔

اس کی ڈبیہ دکھائی جس پر موٹے الفاظ میں لکھا تھا، بال قدتری کالے یہ ثبوت دیکھ کر چیلے نے معافی مانگی۔ اچھا کیا ورنہ گروجی پا پارہ اتنا چڑھا چکا تھا کہ چیلے کا وہ حشر کر دیے کہ اسے پتا بھی نہ چلتا کہ کون سے شے اسے کہاں سے آ کر ہٹ کر گئی۔ موڈ ٹھیک ہوا تو گرو جی نے کارگل کا ذکر چھیڑا اور کہا کہ میں نے بھارت کو اسکی گردن سے پکڑ لیا تھا۔ چیلے کا جی پھر مسکرانے کو چاہا لیکن گروجی کے غصے کا خیال آیا تو ہونٹ بھینچ لئے۔ چیلے خاں جوان ہیں البتہ پہلے جیسی نہیں رہی۔ یعنی ان دنوں جیسی نہیں جس دنوں وہ میاں صلی کی حویلی جایا کرتے تھے اور انقلابی نغمے سنا کرتے تھے۔ مثلا
میں مست کڑی تو بھی مست مست منڈا ہے
میں بھی حسین تو بھی زبردست منڈا ہے

کڑی سے مراد تحریک اور منڈے سے مطلب انقلاب ہے۔ یعنی تحریک بھی مست اور انقلاب مست بھی اور زبردست بھی۔ حویلی کوئی بھی ہو، چاہے ٹیکسالی گیٹ کی چاہے راجہ بازار کی، اسکا انقلاب سے گہرا تعلق ہے۔ تو جوان خاں شروع سے انقلابی تھے لیکن انقلاب کی وہ رت نکل گئی جسکا تعلق ٹکسالی حویلی سے تھا، اب راجہ بازار کی حویلی اور اسکے لالے پر گزارا ہے۔
پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد نے کہا ہے کہ افغانستان میں کسی گروپ کا قبضہ قبول نہیں۔ آپ قندوز پر طالبان کے قبضے کی مذمت کر رہے تھے جو اگلے روز امریکا نے چھڑا لیا۔ درست فرمایا۔ افغانستان پر قبضے کا حق صرف امریکہ کو ہے۔ افغان عوام کی ہیں۔ بس ایک گروپ۔

امریکا امریکا کر بھیا
امریکہ سے ہی ڈر بھیا

محترمہ ؑاصمہ جہانگیر الطاف حسین کی وکیل کیا بنیں ایک طوفان آگیا۔ وکلا برادری نے انکے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ وکیلوں کا کہنا ہے کہ متحدہ والوں نے وکیلوں کو زندہ جلایا تھا۔ ملزم کوئی بھی ہو اور اس پر الزام کیسا ہی سنگین کیوں نہ ہوا، اسے وکیل کرنے کا حق ہے۔ عاصمہ جہانگیر کا عمل قانونی ہے اور انکے بائیکاٹ کا عمل غیر قانونی ۔ لیکن کیا کیجئے ، قانون مکافات بھی تو اپنی ایک متوازی رٹ رکھتا ہے۔

جب بھائی کے لوگوں نے کراچی میں وکیلوں کو زندہ جلایا تھا تو انہیں شاید اس رٹ کا پتا نہیں تھا یہ پتا تھا تو اسکی پروا نہیں کی۔ بہر حال زندہ جلائے جانے کے اس عمل کا گاڈ فادر تو مشرف تھا۔ اس نے ایک نہیں کئی کئی وکیل رکھے ہوئے تھے۔ وکلا برادری انکا بائیکاٹ کیوں نہیں کرتی؟
وفاقی وزیر خزانہ نے تصدیق کی ہے کہ سانحہ منی ایرانی حاجیوں کی طرف سے غلط طور پر واپس جانے کی کوشش کا نتیجہ تھا۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں اگرچہ ایران کا نام نہیں لیا لیکن ایک ملک کے حاجیوں کی الٹے پاؤں واپسی کا ذکر کر کے واضح اشارہ دے دیا۔

ظاہر ہے یہ حاجیوں کی غلطی تھی، کوئی شرارت نہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ اگر کوئی سازش ہوئی تھی تو اس قسم کی کہ کسی ایرانی عہدیدار نے انہیں فورا واپسی کا پیغام دیا۔ فوری واپسی کا مقصد کیا ؟ کیا محض بھگدڑ مچانا یا بلا کر کوئی اور ایسی ہدایت دینا جیسی خمینی صاحب کے دور میں مظاہرے کرنے کی صورت میں دی گئ تھی۔ یہ واضح نہیں لیکن سازشی تھیوری کی تصدیق اس المناک حقیقت سے شاید ممکن ہے کہ سانحے میں سب سے زیادہ ایرانی حاجی کام آئے جنکی گنتی ساڑھے چارسو سے زیادہ ملتی ہے۔ اس سانحے کے بعد ایرانی خفیہ اداروں کے پانچ چوٹی کے افسر لاپتا ہیں۔

یہ کیوں وہاں موجود تھے؟ بظاہر تو لگے گا کہ حج کرنے آئے تھے لیکن بات اس وقت اسرار کے پردوں میں چھپ جاتی ہے جب یہ پتا چلتا ہے کہ یہ لوگ اپنے نام اور شناخت بدل کر آئے تھے۔ جو بھی سازش تھی، اسکا مقصد حاجیوں کی ہلاکتیں نہیں ہوسکتا تھا۔ کوئی مظاہرہ یا ہنگامہ مسلط ہو سکتا تھا تاکہ سعودی حکومت کو ہراساں کیا جا سکے لیکن وہ بات نہ ہو سکی اور اتنا بڑا المیہ ہوگیا۔ صرف یہ عہدیدار نہیں۔ ایران کے ایک سفارتکار غضنفر رکن آبادی جو لبنان میں سفیر رہے ہیں بھی شناخت بدل کر سعودی عرب آئے اور منیٰ کے سانحے میں لاپتا ہو گئے۔ ایران کے سفیر انقلاب مولانا خامنہ ای تو مسلسل سعودی عرب کی حکومت کو اس سانحے کا ذإے دار قرار دیتے ہیں لیکن انکے مقابلے مٰں انہی کے وزیر صحت حسن ہاشمی نے واضھ بیان دیا ہے کہ یہ محض ایک حادثہ تھا اور سعودی حکومت کا اس میں کوئی قصور نہیں۔

ایک کالم نویس نے حکومت کی کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے دلچسپ جملہ لکھا ہے ۔ کہا ہے ایک بھائی معاملات بگااڑنے پر لگا ہے ، دوسرا سنبھالنے میں مصروف ہے۔
تو عدم کارکردگی کا ایک نکتہ یہ بھی ہے۔ بڑا بھائی کچھ نہ کچھ کرنے کی شہرت رکھتا ہے لیکن اس بار کچھ نہیں کر رہا تو اسکی وجہ یہی لگتی ہے کہ چھوٹے بھائی کے بگاڑ کو سنبھالنے سے فرصت ملے تو کچھ کرے۔

خزانہ اجاڑ قسم کے باکار منصوبوں کا نقصان صرف یہی نہیں ہوتا کہ رقم ضائع ہوتی رہے بلکہ ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور دیگر سہولتوں اور ترقی کے نشانوں کی بربادی بھی ہوتی ہے۔ دیکھئے آج سرکاری سکول کھنڈر بن گئے ہیں، اب وہاں استادوں کی استادی رہی نہ شاگردوں کی شاگردی۔ ویرانوں میں بربادی کے بھوت چیختے پھرتے ہیں۔
گیلپ قسم کے ادارے بہت سروے کراتے ہیں۔ ایک سروے ہسپتالوں کا بھی کریں جہاں سہولتیں اور دوائیں نہ ہونے سے مرنے والے مریضوں کی تعداد ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ ساتھ ہی وہ لوگوں کی دعائیں سیمپل بھی لے لیں، انہیں جاری نہ کریں، بس آرکائیو میں رکھ دیں۔

عبداللہ طارق سہیل
بہ شکریہ روزنامہ  جہانِ پاکستان


انصاف میں تاخیر

جعلی فیس بک اور ٹوئٹر کا گھناونا کھیل

Over 250,000 children work in brick kilns in Pakistan

$
0
0
  Laborers move baked bricks from an oven at a kiln on outskirts of Peshawar, Pakistan.

Somewhere between two-fifths to two-thirds of all the working children in Pakistan toil in brick kilns. According to UNICEF estimates, it comes to around 250,000 children. But these are not just cases of child labour. Entire families work in brick kilns, striving to pay off their debts that are so much beyond their means that they will remain unpaid even after decades of continuous work.

The Bonded Labour System (Abolition) Act of 1992 defines this as bonded labour, where the workers enter a contract to pay off a debt and work for nominal or no wages. Even though the act banned such labour 18 years ago, practically not much has been done to eradicate this modern form of slavery. Pakistan Institute of Labour Education and Research estimates that there are 11,000 brick kilns in Pakistan. Of these, 5,000 brick kilns are in Punjab alone, mostly (about 90 per cent of them) in rural areas.

An NGO Ercelawn estimates that there are anywhere between 750,000 and 900,000 people from 200,000 families languishing in these brick kilns, most of them as bonded labourers. Ishtiaq Ahmad, a social activist who works for EAST, another NGO, said that women and children are at an elevated risk of suffering at the hands of the brick kiln owners. “Women are prepared to work at very low wages in rural areas,” he said, “The environment is very bad for these women, especially their children.”

However, bonded labour is not inextinguishable. Citing examples of some 95 families who were recently freed from bonded labour in a village near Peshawar, Ahmad said that public mobilisation was the only viable way to eradicate this evil. Four years ago a three-member bench led by the Chief Justice, Iftikhar Muhammad Chaudhry, directed all four Chief Secretaries to get all brick kilns in the country registered.

وزیراعظم کا دورہ ٔاقوام متحدہ ۔ مثبت اور منفی پہلو؟

$
0
0

وزیراعظم نواز شریف کے دورہ اقوام متحدہ کی کامیابی و ناکامی کے بارے میں کوئی بھی رائے قائم کرنے سے قبل شخصی پسندو ناپسند سے بالاتر ہو کر چند حقائق کو پیش کرنا لازمی ہے ۔

(1) صرف آٹھ منٹ کی امریکی فون کال سے خوف کھا کر کسی شرط و مذاکرات
کے بغیر ہی اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے افغانستان کے خلاف جس جنگ میں امریکی اتحادی بن کر شریک ہونے کا فیصلہ کیا اور قوم کو یہ خوشخبری دی تھی کہ اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان ایک مضبوط، خوشحالی اور ترقی یافتہ ملک بن کر ابھرے گا۔ آج 14 سال سے ہم یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ اپنا سب کچھ دائو پر لگا چکے ہیں اور پھر بھی بھارت سے دہشت گردی کے الزامات اور امریکہ سے ’’ڈومور‘‘ کے مطالبات کا سامنا بطور ملزم کر رہے ہیں۔

(2) دہشت گردی کی جنگ میں ایک بھی گولی چلائے بغیر بھارت نے نہ صرف اس جنگ کے تمام فوائد سمیٹ لئے ہیں بلکہ وہ آج بھی خود کو دہشت گردی کے شکار ملک کے طورپر پیش کر کے مظلوم بنا ہوا ہے۔ امریکہ بھارت اتحاد کی شکل میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری، امریکی مکمل حمایت ، جدید ہتھیار سازی اور صنعت کے قیام کے ساتھ بھارت ایشیا کی بڑی طاقت کا روپ دھار رہا ہے۔ لہٰذا وہ دور چلاگیا جب دنیا کے دیگر ممالک بھارت اور پاکستان کو ایٹمی دوڑ میں ملوث دو ہم پلہ ملک سمجھ کر تنازعات حل کرنے پر زور دیتے تھے۔

اس تناظر میں وزیراعظم نواز شریف کے دورہ اقوام متحدہ سے بھارت کے نریندر
 مودی کے دورہ امریکہ کا تقابل کرنے کی سوچ غیر حقیقی اور غیرعملی ہوگی۔ گزشتہ 14 سال میں جنرل (ر) پرویز مشرف کی مہلک غلطیاں اور نیو یارک میں سابق صدر آصف زرداری کی بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے ’’جھپیاں‘‘ اور ’’احسان مندی‘‘ کے باعث ہم دہشت گردی اور داخلی حالات کی جس نہج کوپہنچے ہیں اس نے پاکستان کی افادیت ، عالمی حیثیت اور جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔ آج ہماری فوج اور رینجرز انہی غلط فیصلوں کے منفی نتائج سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے دن رات مصروف ہے۔

میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نواز شریف حکومت غلطیوں سے پاک ہے بلکہ یہ عرض ہے کہ نواز شریف حکومت کو اس کی غلطیوں کا ذمہ دار ضرور ٹھہرائیں لیکن مشرف اور زرداری دور کے فیصلوں اور عمل کے تباہ کن نتائج کے اثرات کا بھی ذمہ دار نواز شریف کو ٹھہرانا درست نہیں ہوگا۔ داخلی عدم استحکام اور دہشت گردی کے خلاف جنگ نواز شریف حکومت کو ورثہ میں ملی ہے۔ اس تناظر میں میرا مشاہدہ اور رائے ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کا دورہ اقوام متحدہ متوازن ، موثر اور ویسا ہی رہا جیسا کہ پاکستان جیسی صورتحال والے ملک کے نمائندہ کا ہونا چاہئے تھا۔ کسی بھی ملک کا نمائندہ اپنے وطن کے حالات ، مضبوطی ، معیشت ، سماجیات اور جغرافیائی اہمیت کے تناسب سے عالمی برادری میں اہمیت پاتا اور سنا جاتا ہے۔

اب آئیے وزیراعظم کے دورہ اقوام متحدہ کی مصروفیات ، معاملات اور ماحاصل کی جانب اور ساتھ ہی ساتھ ان پہلوئوں کی جانب جو مزید بہتر ہوسکتے تھے مگر کمی رہی ان کا ذکر کریں۔

(1) وزیراعظم کی تقریر سے قبل سرگوشیوں اور ا فواہوں کی صورتوں میں متعدد قیاس آرائیاں جاری تھیں جن کے بارے میں سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری اور سفیر ملیحہ لودھی ایک ہی جملہ کہتے سنے گئے کہ وزیراعظم کی تقریر خود ہی آپ پر واضح کردے گی اور پھر (30) ستمبر کی دوپہر وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے جو خطاب کیا وہ مندرجہ بالاتناظر میں بڑا جرات مندانہ ، باوقار اور موثر یوں تھا کہ ایک طویل عرصہ سے اقوام سے خطاب کرنے والے پاکستانی حکمراں تنازع کشمیر کے بارے میں معذرت یا مکمل خاموشی پر مبنی رویہ اختیار کرتے تھے۔ اس بار وزیراعظم نواز شریف نے سیکرٹری جنرل بانکی مون سے ملاقات اور پھر اپنے خطاب میں تنازع کشمیر کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے حوالے ’’انٹرنیشنلائز‘‘ کرنے کی بھرپور کوشش کی ۔

ایسے وقت میں کہ جب بھارت سلامتی کونسل کی قراردادوں کی تعمیل کا وعدہ کرنے کے باوجود مسلسل کئی عشروں سے ان قراردادوں پر عمل سے انکاری بھی ہے لیکن اس کے باوجود بھارت کو اسی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کی مہم جاری ہے تو وزیراعظم کی کشمیر کے بارے میں جراتمندانہ نشاندہی نہ صرف عالمی حلقوں میں سلامتی کونسل کی توسیع کے مخالفین نے سنی ہے بلکہ بھارتی قیادت نے بھی توجہ سے سنی ہے۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کا نافرمان بھارت سلامتی کونسل کا رکن بن کر دوسرے ملکوں پر فیصلے نافذ کرنے کی پوزیشن کا اخلاقی اور قانونی طور پر حامل کیسے ہوسکتا ہے؟

(2) مسائل و مشکلات سے دوچار پاکستان کے وزیراعظم نے بھارت کو عالمی فورم پر کہا ہے کہ وہ پاکستان میں داخلی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششوں سے باز رہے اس واضح بیان کے ساتھ اگر وزیراعظم بھارتی مداخلت کے ثبوت بھی عالمی سطح پر فراہم کرتے تو یہ زیادہ بہتر ہوتا۔ فی الحال کراچی ، فاٹا اور بلوچستان کے حوالے سے بھارتی مداخلت کے ثبوتوں پر مبنی جو تین ’’ڈوزیے‘‘ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو پیش کئے گئے ہیں میرے نزدیک ان کی نہ کوئی سمت ہے اور نہ ہی کوئی منزل ہے کیونکہ وہ صرف بانکی مون کے علم میں ہیں۔ عالمی رائے عامہ اور دیگر ممالک کو کچھ علم نہیں ہے۔

 یہ ’’ڈوزیے‘‘ پہلے واشنگٹن میں امریکی حکومت کے حوالے کرنے کے بعد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ہماری سفیر ملیحہ لودھی پیش کردیتیں اور اس کےساتھ ہی عالمی رائے عامہ کو بھی آگاہی کی مہم چلائی جاسکتی تھی۔ اقوام میں بھارتی اثرورسوخ سے کون واقف نہیں؟ پاکستانی عوام اور عالمی برادری تو ان تین یادداشتوں کے مندرجات سے لاعلم ہیں لیکن بھارتی اثرورسوخ نے کام کر دکھایا ہے۔ وزیراعظم کی بانکی مون کی جانب سے سربراہان حکومت و مملکت کے اعزاز میں استقبالیہ اور صدر اوباما کے استقبالیہ میں عدم شرکت بھی ایک موضوع بحث ہے جس کا سفیر ملیحہ لودھی سمیت وزیراعظم کے ترجمانوں نے کوئی معقول جواز نہیں بتایا۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے وزیراعظم نواز شریف کی دونوں طرف سے مشیران کے ساتھ ملاقات اور پھر دونوں طرف کے کلیدی معاونین کے ساتھ ملاقات و گفتگو کے بھاری ماحول اور ’’ڈومور‘‘ کے مزید مطالبے کے بعد اوباما کے استقبالیہ میں وزیراعظم کی شرکت کی گنجائش کم تھی۔ وزیراعظم نے سلامتی کونسل کی توسیع کے معاملہ کو بھی اٹھایا ہے کہ جمہوری ، قابل احتساب اور ذمہ دارانہ انداز میں توسیع کی جائے۔ جمہوری بھارت سلامتی کونسل میں غیر جمہوری طریقے سے غیر مساویانہ حیثیت کی مستقل نشست چاہتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اٹلی کے وزیراعظم سے ملاقات میں ’’اتفاق رائے سے سلامتی کونسل کی توسیع‘‘ پر اتفاق رائے کرکے بھارت کا راستہ روکنے کا اقدام کیا ہے۔ اٹلی اور پاکستان دونوں ملکر اس فرنٹ پر عرصہ سے کام کررہے ہیں۔

 وزیراعظم نواز شریف نے جرمنی کی خاتون آہن چانسلر اینجلامر کل سے بھی ملاقات کی ، جرمنی خود بھی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے حصول کا امیدوار ہے۔

میرا اندازہ ہے کہ اینجلا مرکل کی دلچسپی اس بات میں زیادہ تھی کہ پاکستان میں جرمن سرمایہ کاری کے مواقع کیا ہیں اور پاکستان سلامتی کونسل کی توسیع میں کتنی مستعدی کے ساتھ بھارت کا راستہ روکنے کی پالیسی رکھتا ہے؟ کیونکہ یہ جرمنی کی نشست کیلئے بھی رکاوٹ ہے جبکہ نواز شریف جرمنی سے تجارت اور بزنس کے خواہشمند ہیں۔ وہ اپنے ساتھ اپنے ماہر معاشیات و تجارت کو بھی لائی تھیں اور صورتحال سے خود بھی واقف ہیں۔ سینگال ، ترکی ، سری لنکا، سویڈن ، جنوبی کوریا ، صدر ورلڈ بینک اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے دوطرفہ ملاقاتوں کے علاوہ ’’امن دستوں‘‘ کیلئے صدر اوباما کی بلائی گئی سمٹ میں شریک میزبان کے طور پر شرکت کے دوران بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور نواز شریف کے درمیان ہاتھ ہلانے کا متنازع واقعہ پیش آیا ہے جسے گزشتہ کالم کی نذر کردیا گیا۔

یہ کوئی اہم اور بڑا تنازع نہیں۔ سابق صدر (ر) جنرل مشرف نے تو نیپال میں سارک کانفرنس کے دوران خود بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی نشست پر جاکر ہاتھ ملایا اور بھارتیوں کو حیرت زدہ اور دنیا سے تعریف حاصل کی۔ جی ہاں! وزیراعظم نواز شریف کے دورہ اقوام متحدہ میں متعدد لحاظ سے کمی بھی رہی۔ لیکن مجموعی طور پر مشکل علاقائی صورتحال اور چیلنجوں سے دوچار پاکستان کی نمائندگی کرنے والے نواز شریف کا دورہ اپنے قومی ، علاقائی اور عالمی حالات کے تناظر میں متوازن ، مناسب ، موثر اور بھارت سے تنازعات کے حوالے سے جرات مندانہ کہا جاسکتا ہے۔ -

عظیم ایم میاں
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ‘‘

ایک بار پھر امریکی ایجنڈے پر

$
0
0

وزیر اعظم نواز شریف جو 22 اکتوبر کو واشنگٹن پہنچیں گے، وائٹ ہاؤس انکے ساتھ مری مذاکرات کی بحالی کے علاوہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں پر پابندیوں کے بارے میں گفتگو کا ارادہ ظاہر کر رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان اپنے ایٹمی اسلحے پر نئی حدود قبول کر لے تو امریکہ کے نزدیک یہ ایک سفارتی کارنامہ ہوگا۔ ایسا کوئی معاہدہ شاید آخر کار ویسے سودے کا راہ نکالے جو 2005ء میں بھارت کے ساتھ ایک سویلین نوکلیئر ڈیل کا باعث بنا تھا۔

 نواز شریف اور صدر اوباما کے مابین یہ نیوکلیائی مکالمہ بطور خاص اہم ہے کیونکہ اس سے امریکی حکام کو دنیا کے انتہائی خطرناک خطوں میں سے ایک کے حفاظتی مسائل سے عہدہ برآ ہونے کا موقع ملے گا۔ ایک ذریعے نے بتایا کہ پاکستان کو اپنے جوہری ہتھیار اور انکے ڈیلیوری سسٹم اس حد تک رکھنے کے لئے کہا گیا جتنا کہ بھارت کی جانب سے ایٹمی خطرے سے نمٹنے کے لئے ضروری ہوں۔ ایسے سمجھوتے کے عوض امریکہ ہو سکتا ہے کہ بالآخر اس استثنیٰ کی حمایت کرے جو جوہری سازوسامان بیچنے والے 48 ملکوں کا گروپ پاکستان کو دے گا۔

امریکہ اس گروپ کا ایک بااثر رکن ہے اور اسی کے کہنے پر اس گروپ نے بھارت کو اپنے قوائد و ضوابط سے مستثنیٰ کیا تھا جو ایٹمی اسلحے کے پھیلاؤ کی روک تھام کے عالمی معاہدے NPT سے بچ کر اپنا کام کرنے والے ملکوں پر پابندی لگاتے ہیں۔ اس معاہدے کی رو سے بھارت کو جزوی طور پا نام نہاد نیوکلیئر کلب میں داخل ہونے کا اذن ملا اور اس نے اپنے سویلین ایٹمی منصوبے کے لئے اٹمک انرجی ایجنسی کے تحفظات حاصل کرنے کی درخواست کی۔
پاکستان ایسے تحفظات حاصل کرنے میں امریکہ کی امداد کا طلب گار رہا ہے مگر
 یہ امکان نہیں کہ وہ اپنے فوجی ایٹمی پروگرام پر کوئی قدغن قبول کرے گا۔ مثال کے طور پر شاید وہ اپنے میزائل نصب کرنے میں وہ حدود منظور نہ کرے جو طے کی جائیں۔ وہ اپنے جوہری منصوبے کو اللہ کا انعام سمجھتا ہے اور اسے بھارتی عزائم کا توڑ خیال کرتا ہے۔ اس لئے امریکی ذرائع کے مطابق یہ مذاکرات سست اور مشکل ہوں گے اور ابھی یہ واضح نہیں کہ اسلام آباد یہ پابندیاں جو مطلوب ہیں قبول کرے گا، مگر سوال خاموشی سے زیر بحث ہے۔ کوئی رکاوٹ روڑ کامیابی اس جمود کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہے جو پاکستان کے جوہری منصوبے پر 1980ء کے وسط سے چلا آ رہاہے جب امریکہ نے پہلی بار اس پروگرام کی بھنک پائی تھی، بالخصوص 1998ء کے بعد جب پاکستان نے چاغی میں اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا۔ یہ دھماکہ بلکہ دھماکے میاں نواز شریف کی رضا مندی سے کئے گئے تھے جو اس وقت بھی ملک کے وزیر اعظم تھے۔

پچھلے ہفتے جب پاک فوج کے ترجمان افغان حکومت کے اس الزام کی تردید کر رہے تھے کہ قندوز کے ہسپتال پر امریکی بمباری مٰں پاکستان کا ہاتھ تھا تو امریکی جنرل جان کیمپبل جو افغانستان مٰن فوجی کارروائیوں کے انچارج ہیں، کانگرس کے سامنے پیش ہوئے اور انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ امریکی فوج کی غلطی تھی۔ ہم کبھی جان بوجھ کر ایک محفوظ طبی ادارے کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔ ہسپتال پر مسلح ہیلی کاپٹر کے اس حملے مٰں بائیس مریض اور عملے کے ارکان ہلاک ہوگئے تھے۔ Doctors without Borders نے جو یہ ہسپتال چلاتی تھی اور جس کے بارہ رضاکار ڈاکٹر مارے گئے، اسے جنگی جرائم کا ارتکاب قرار دیا ہے اور امریکہ کے خلاف اقوام متحدہ میں مقدمہ چلانے کی دھمکی دی ہے۔
اس سے پہلے محکمہ دفاع نے اس غلطی کو تسلیم کیا تھا۔ جنرل کیمپبل نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکی فوج نے افغان فوج کی ایک درخواست کا جواب دیا جسے طالبان کے حملے کا سامنا تھا۔ ذمہ داری بہر حال امریکہ کی ہے۔ یہ حالیہ تاریخ میں ایک سویلین نشانے پر انتہائی تباہ کن کارروائی ہے۔ جنرل نے کہا: 

اس واقعہ میں ملوث تمام افراد کا محاسبہ ہوگا۔ امریکی افواج تو شہر کو واپس لینے میں افغان فوج کی امداد کر رہی تھیں۔ انہوں نے محاسبے کا اوقات نامہ دینے سے انکار کیا مگر ہفتے کو ہسپتال کے ہنگامی اور نازک اہمیت کے وارڈوں پر AC-130 گن شپ کی بار بار بمباری کے بارے میں کئی سوال جواب طلب ہیں۔ مثلا امریکی ہواباز ایک اور عمارت کو نشانہ بنانا چاہتے تھے مگر غلطی سے ہسپتال پر ٹوٹ پڑ، یہ جانے بغیر کہ علاج معالجے کی ایک جگہ انکے نشانے پر ہے۔
فرانس کی موقر تنظیم نے اپنے ہسپتال پر حملے کو ارادے کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ ڈاکٹروں کی بین الاقوامی تنظیم کے صدر نے کہا : اس حملے کو جنگ کا اجتماعی شاخسانہ یا محض ایک غلطی کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

 امریکہ اور افغانستان کو ہسپتال کے کوائف سے مسلسل آگاہ کیا جاتا رہا ہے۔ امریکی جنرل نے کہا کہ حملے کا اختیار دیا گیا تھا، یہ پنٹاگان کے ابتدائی بیانات سے مختلف ہے جو کہتے تھے کہ امریکی فوجوں نے جنہیں طالبان کا زمینی حملہ درپیش تھا، اپنے دفاع میں یہ کارروائی کی۔ صدر اوباما نے واقعہ کے پانچ دن بعد جنیوا مین تنظیم کی صدر جواین لیو کو فون کیا اور ان سے معافی مانگی ، یہ کہہ کر کہ ہسپتال پر حملہ ایک حادثہ تھا، ڈی ڈبلیو بی کے عہدیدار مسٹر اوباما کی معافی کو رد کر رہے ہیں اور مصر ہیں کہ ایک غیر جانبدار بین الاقوامی ٹیم اس واقعہ کی تفتیش کرے جس کے لئے واشنگٹن تیار نہیں۔ اسی روز مسٹر اوباما نے افغان صدر مشتاق غنی کو بھی فون کیا اور جانی نقصان پر ان سے تعزیت کی۔ انہی کی حکومت نے پاکستان کو اس واقعہ کا ذمہ دار گردانا تھا۔

افغانستان میں بین الاقوامی ہسپتال پر بمباری ایک ایسے وقت ہوئی جب امریکہ ہمسایہ نیوکلیائی پاکستان کو دبانا چاہتا ہے۔ اسکی تازہ مثال وہ پریس کانفرنس ہے جو امریکہ کے جان کیری اور بھارت کی سشما سوراج نے مشترکہ طور پر نیو یارک میں کی۔ امریکہ، پاکستان کو افغان حکومت اور اسکے باغی طالبان کے مابین ایک رابطہ سمجھتا ہے۔ اسلام آباد میں امریکی محکمہ خارجہ کے اہلکار گزشتہ چار سال سے خفیہ امن مذاکرات کر رہے ہیں۔ چین جسے پاکستان میں اقتصادی راہداری کی تکمیل کے لئے ایک پرامن جنوبی ایشیا درکار ہے ان مذاکرات کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ اوباما انتظامیہ کے ایک رکن نے کہا:

بیجنگ کی شمولیت ایک نیا ڈائنیمک ہے۔ اور ایک نظیر ہے کہ امریکی مفادات کہاں کہاں چین سے ملتے ہیں۔ افغان حکومت اور طالبان میں پہلا مذاکرہ چین میں ہی ہوا تھا جہاں پاکستان اور امریکہ مبصر تھے۔ دوسرا مری میں ہوا جس میں نیو یارک ٹائمز کے بقول طرفین نے اتفاق کیا کہ وہ باقاعدہ میٹنگوں میں شریک ہو کر جھگڑے کا پرامن خاتمہ چاہیں گے۔ تیسری میٹنگ پھر مری مین ہونا تھی مگر افغانستان کی جانب سے طالبان کے لیڈر ملا محمد عمر کی وفات کی دو سال پرانی خبر لیک ہونے کی وجہ سے تار پیڈ و ہوگئی۔ امریکہ کے نزدیک اختر محمد منصور اب طالبان کا لیڈر ہے اور اسی کی ہدایت پر یہ حملہ کیا گیا ہے جو اس دھڑے پر اپنے کنٹرول کو مستحکم کرنے کا یقین رکھتا ہے۔

امریکہ نے چار سال قبل یہ فیصلہ کیا تھا کہ افغانستان سے نکلنے کا واحد راستہ جنگ کا ایک سفارتی تصفیہ ہے جس میں طالبان اور بعض اوقات انکے مربی پاکستانی شامل ہوں۔ محکمہ خارجہ ایک عرصے سے اس مقصد کے تحت امن مذاکرات میں مصروف ہے اور طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان کے پہلے بڑے شہر اور اقتصادیات کے مرکز پر انکے یلغار سے ثابت ہوتا ہے کہ امن مذاکرات بے نتیجہ ہیں۔

اکمل علیمی
بہ شکریہ روزنامہ ’’دنیا‘‘

اللہ تو سب سے پوچھے گا

یہ ہے نیا روشن پاکستان

$
0
0

ہلاکو کی 50 ہزار فوج 1258 کی سردیوں میں بغداد کے دروازے پر تھی اور عباسی خلیفہ مستعصم کے درباری منطق بازوں میں گھمسان کی بحث چھڑی ہوئی تھی کہ سوئی کے ناکے میں سے بیک وقت کتنے اونٹ گذر سکتے ہیں۔
پاکستان کے اطراف و اکناف میں سیاسی و عسکری نقشہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ مشرقی ہمسائے بھارت سے لفظی جنگ زوروں پر ہے، مغربی ہمسائے افغانستان میں طالبان آخری لڑائی کا عزم لیے ایک انگڑائی کے ساتھ اٹھ کھڑے ہیں۔ داعشی عفریت کے پیٹ کے نیچے شام اور عراق ہیں تو دم یمن تک تھپیڑے مار رہی ہے۔ ایک پنجہ ترکی پر گڑنے کو بیتاب ہے تو دوسرا پاکستان میں جمنے کے لیے جگہ تلاش کر رہا ہے۔

 اور پاک سرزمین کا عالم یہ ہے کہ اگر فوج ایک ہاتھ سے خارجہ اور دوسرے ہاتھ سے داخلہ پالیسی سنبھالے ہوئے ہے تو ویہلے سیاستدانوں نے بھی مستعصم باللہ کا دربار سجا رکھا ہے اور بحث یہ ہو رہی ہے کہ لاہور کے حلقہ این اے 122 کے ناکے سے کونسا اونٹ گذر سکتا ہے۔

کون یہودی ایجنٹ ہے، کون کرپٹ ترین ہے، کس نے سب سے زیادہ بیرونی فنڈنگ حاصل کی، کون اسامہ بن لادن کے بھی پیسے کھا گیا، کس کا سورج راوی کی خشک لہروں میں ڈوبنے والا ہے اور کس کا سورج گڑھی شاہو سے چڑھنے والا ہے۔ مجھ پر ایک پیسے کی کرپشن بھی ثابت ہوجائے تو سیاست چھوڑ دوں گا، اس پہ ثابت ہوجائے تو سڑکوں پر گھسیٹوں گا۔

اس وقت قانون کی بالادستی کے نوحہ خوانوں نے اپنے ہی ہاتھوں الیکشن کمیشن کے ضابطہِ اخلاق کو جس طرح ٹشو پیپر بنا دیا اس کے بعد سے الیکشن کمیشن وہ شریف آدمی ہوگیا ہے جس کے لیے اس وقت سب سے بڑا امتحان انتخابی خرکاروں سے جانگیہ بچانا ہے۔

آج ہی ضمنی انتخاب اوکاڑہ کے قومی اسمبلی حلقہ 144اور پنجاب اسمبلی کے حلقہ 147 میں بھی ہوا۔ مگر مجال ہے لاہور سے صرف 70 کلو میٹر پرے کے ان حلقوں کا حال کسی نے پوچھا ہو۔
 
اس وقت مچھلی بازار میں واقع جمہوری چنڈو خانے کو کسی ماورائے آئین خدشے سے زیادہ منہ کی بواسیر سے خطرہ ہے
ساری میڈیا ریٹنگ، سب ٹی وی کیمرے، رنگ برنگی گالم گلوچ، نجی و سرکاری پیسہ اور وسائل حلقہ 122 کے ہوئے۔

ہر ادارے کو اپنے اپنے دائرے میں کام کرنے کی تلقین کرنے والے سب کے سب خود آپے کے دائرے سے باہر ہیں۔ جیت کے بعد عام آدمی کی جھولی چاند ستاروں سے بھرنے والے بڑک بازوں کی اپنی انتظامی اوقات اور قوتِ برداشت بس اتنی ہے کہ صرف ایک حلقے کا ضمنی انتخاب بھی فوج کی مدد طلب کیے بغیر منعقد کرانے سے معذور ہیں اور اس پر فخر بھی کر رہے ہیں۔

میں سوچ رہا ہوں کہ جب جلسوں میں ایک دوسرے کی ماں بہن ایک کرنے والے زہر فشاں مقررین رات گئے اپنے گھروں کو لوٹتے ہوں گے تو اپنی ماؤں بہنوں اور بزرگوں کا سامنا بھی کیا اسی منہ سے کرتے ہوں گے اور اپنے چھوٹے بچے کا ہوم ورک چیک کرتے ہوئے یہ سبق کیسے یاد کراتے ہوں گے کہ ہمیشہ سچ بولو، دوسروں کی عزت کرو، ہر ایک سے نرمی اور شائستگی سے پیش آؤ اور اجنبیوں سے حسنِ سلوک کرو۔

آج ہی دفتر آتے ہوئے ایک رکشے کے پیچھے لکھا دیکھا ’زندگی مال سے نہیں اعمال سے ہے۔‘
جو بات رکشے والا جانتا ہے وہ اس رکشے والے کی قسمت بدل دینے کے دعویٰ دار مداریوں کو چھو کے بھی نہیں گذری۔
اگر یہ ہے نیا یا روشن پاکستان تو پرانے اور تاریک پاکستان میں کیا خرابی ہے ؟

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام


عمران خان صاحب سے ایک التجا

$
0
0

عمران خان صاحب دنیا کے خوش قسمت ترین انسانوں میں سے ایک ہیں۔ کرکٹ بہت سارے لوگوں نے کھیلی اور کئی کپتان اپنے اپنے ملک کو ورلڈ کپ جتواچکے لیکن عالمی سطح پر جو شہرت اور ملکی سطح پر جو محبت انہیں ملی ٗ کسی اور کرکٹر کو نہیں ملی۔ وہ ذہین اور ہوشیار بھی بلا کے واقع ہوئے اور کمال مہارت سے اس عزتٗ شہرت اور محبت کو شوکت خانم اسپتال کے لئے استعمال کیااور پھر ان تینوں چیزوں اور اثرورسوخ کو بڑی مہارت کے ساتھ سیاست کے لئے استعمال کر کے تحریک انصاف بنائی۔

 دولت کی کمی نہیں تھی کیونکہ ایک طرف ملک کے اندر لوگ ان پر نوٹ نچھاور کررہے تھے تو دوسری طرف دنیا کے امیر ترین خاندانوں میں سے ایک یعنی گولڈا سمتھ خاندان کی دولت بھی ان کی دسترس میں آئی۔ گولڈ اسمتھ کا داماد ہونے کے ناطے مغربی قوتوں نے ان سے اپنی توقعات وابستہ کیں تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے نالاں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے انہیں متبادل سیاسی قوت بنانے کے لئے ان کا انتخاب کیا۔

ہم جیسے چند طالب علم ان کی سیاست کے حق میں نہیں تھے لیکن ہمارے تجزیوں کو مسترد کرکے نظام سے نالاں ایک بڑے پاکستانی طبقے نے انہیں اپنی امیدوں کا مرکز بنالیا۔ ان پر قدرت کی خاص مہربانی ملاحظہ کیجئے کہ مغرب کے منظور نظر ہوکربھیٗ پاکستان میں مغرب مخالف دائیں بازو کے لوگوں نے مغرب کا مخالف نمبرون سمجھ کر انہیں اپنا لیڈر مان لیا۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کا محبوب ہونے کے باوجود جاوید ہاشمی جیسے اس کے نمبرون مخالفین بھی ان کے گرد جمع ہونے پر مجبور ہوئے۔
ان کی خوش قسمتی اور پاکستان کی بدقسمتی تھی کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی قیادتوں نے پرویز مشرف کےمارشل لاء میں اٹھانے والی ہزیمتوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور پہلے سے زیادہ آمرانہ سوچ کا مظاہرہ کرتے رہے۔ اسی طرح وہ کھربوں کے مالک ہوکر بھی دولت کے شوق پر قابو نہ پاسکے۔ یوں وہاں سے مایوس ہونے والے سیاسی کارکنوں کا آخری ٹھکانہ عمران کی جماعت قرار پائی۔

باقی سیاسی رہنما صرف سیاسی لیڈر ہیں لیکن عمران خان کو جو لوگ سیاسی لیڈر نہیں مانتے وہ بھی بطور کرکٹر ان کے قدردان ہیں۔ ہم جیسے ان کے نقاد بھی بطور سوشل ورکر ان کی کاوشوں کے مدح خواں ہیں۔ یوں وہ لیڈر سے زیادہ ایک سیلبریٹی ہیں۔ پہلے جمائما خان اور پھر ریحام خان کے ساتھ شادی نے ان کی سیلبریٹی کی حیثیت کو اور بھی چمکا دیا۔ ان حیثیتوں کی وجہ سے وہ میڈیا میں سب سے زیادہ ریٹنگ دینے والے لیڈر اور یوں میڈیا کے چہیتے قرار پائے۔

میڈیا اس تناظر میں ان پر مہربان تو تھا ہی اسے اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی نے ان پر اور بھی مہربان کردیا۔ مذکورہ تمام عوامل نے مل کر عمران خان کو ووٹوں کے لحاظ سے پاکستان کی تیسری بڑی جماعت کا قائد اور ذاتی مقبولیت کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے مقبول لیڈر بنا دیا۔ وہ چاہتے تو پاکستان کی تقدیر بدل سکتے تھے لیکن افسوس کہ ان سے چند ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں کہ جن سے پاکستان کے فلاحی ریاست بننے کی منزل تو کوسوں دورہوئی ہی ٗ ان کے وزارت عظمیٰ کی منزل بھی سالوں دور ہوگئی اور اگر وہ اسی ڈگر پر گامزن رہے تو وہ منزل کبھی نہیں پاسکیں گے۔

کسی سیاسی لیڈر کے لئے وزارت عظمیٰ کے حصول کی کوشش بری نہیں بلکہ فطری امر ہے لیکن خان صاحب اس معاملے میںضرورت سے زیادہ جذباتی اور عجلت پسند واقع ہوئے۔ وہ سہاروں کی تلاش میں شارٹ کٹ کا انتخاب کرنے لگے۔ وہ اسٹیٹس کو توڑنے کا نعرہ لگا کر سیاست کے میدان میں اترے تھے لیکن اسٹیٹس کو کی علمبردار سب سے بڑی قوت کا مہرہ بننے لگے۔ اسی روش میں پہلے انہوں نے پرویز مشرف کی حمایت کی ۔ پھر ان کے جانشینوں کے کہنے پر پرویز مشرف کے مخالف نمبرون بنے ۔ انہی کے اشارے پر طالبان اور ڈرون کے معاملے پر انہی قوتوں کی پالیسی کے سب سے بڑے وکیل بنے رہے۔
انہی قوتوں کے لائے ہوئے روایتی مہروں کو پارٹی کا والی وارث بنایا اور گزشتہ انتخابات کے بعد تو ان قوتوں کے ایماء اور پارٹی کے اندر موجود ان کے مہروں کے اشارے پر دھرنے کے ذریعے پارلیمنٹ پر حملے اور سول نافرمانی جیسے غیرجمہوری اقدامات تک پر تیار ہوئے۔ گزشتہ دو ڈھائی سالوں کے دوران پی ٹی آئی نے جو سیاست کی اس کے نتیجے میں میاں نوازشریف تو اسٹیبلشمنٹ کے قدموں میں بیٹھنے پر مجبور ضرور ہوئے لیکن تحریک انصاف کے حصے میں بھی رسوائی کے سوا کچھ نہیں آیا۔ عمران خان کی ذات جو پہلے تبدیلی کی علامت تھی ٗ یوٹرن کی علامت بن گئی۔

پی ٹی آئی ٗ جو مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی جیسی جماعتوں کے متبادل کے طور پر میدان میں آگئی ٗ ایک اور مسلم لیگ(ق) بن گئی اور تحریک انصاف سیاست میں شائستگی کی علامت بن کر میدان میں اتری تھیٗ لیکن بدزبانی کی علامت بننے لگی۔ وغیرہ وغیرہ جبکہ اب رہی سہی کسر لاہور کے ضمنی انتخابات نے پوری کردی۔ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے سے عدالتی محاذ پر پی ٹی آئی کو شکست ہوئی اور اب ضمنی انتخابات کے نتیجے نے عوامی سطح پر اس کی سیاست کو مسترد کردیا۔ لیکن افسوس کہ اردگرد جمع ہونے والے مشیروں نے اسپورٹس مین عمران خان کو ایسی راہ پر لگا دیا ہے کہ کسی صورت اپنی شکست اور اپنی غلطی نہیں ماننی ہے۔

 یہ روش جاری رہی تو پی ٹی آئی کے مستقبل کو تاریکی اور رسوائی سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔ حالانکہ اس جماعت کو زندہ رہنا چاہئے۔ یہ جماعت سرمایہ داروںٗ روایتی سیاستدانوں یا پھر عالمی اور مقامی خفیہ طاقتوں کے کارندوں کے چنگل میں پھنس ضرور گئی ہے لیکن اس کے کارکن آج بھی پاکستان کا بڑا سرمایہ ہیں۔ اس کے کارکنوں کی اکثریت آج بھی ان لوگوں پر مشتمل ہے جو حقیقی تبدیلی کے آرزو مند ہیں۔

یہ جماعت ایسی جماعت بن گئی ہے کہ جس کے چاہنے والے گلگت سے کراچی تک موجود ہیں اور اسی نوع کی قومی جماعتیں جیسی بھی ہوں پاکستان کی ضرورت ہیں۔ پاکستان اس وقتی لفٹ اور رائٹ یا پھر مذہبی اور لبرل کی ایک بھیانک تقسیم کی طرف جارہا تھا اور پی ٹی آئی واحد ایسی جماعت ہے کہ جس نے اپنی آغوش میں ان دونوں کو ایک ساتھ لے لیا ہے۔ مجھے یہ بھی احساس ہے کہ عمران خان کے بارے میں میری طرح سخت اور منفی رائے بہت کم لوگ رکھتے ہیں اور آج بھی پی ٹی آئی کے کارکنان کی اکثریت ان کو مسیحا اور غلطیوں سے مبرا ہستی سمجھتے ہیں۔ گویا معاملہ بے انتہا خراب ہوکر بھی ان کے ہاتھ میں ہے۔ آج بھی عمران خا ن صاحب حوصلہ کریں اور تحریک انصاف کو اس کی اصل کی طرف لوٹانے کے لئے چند انقلابی فیصلے کریں تو نہ صرف ہم جیسے ناقدین کے منہ بند کرسکتے ہیں بلکہ تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ ملک کو بھی بچاسکتے ہیں ۔ وہ چند انقلابی اقدامات یہ ہوسکتے ہیں۔

دھرنوںٗ اسمبلی کی توہین ٗ سول نافرمانی اور مخالفین کو گالم گلوچ پر قوم سے معافی تو شاید نہ مانگ سکیں لیکن کم ازکم اسے غلطی تسلیم کرلیں۔
2012 کے بعد شامل ہونے والوں کی بجائے اس سے قبل پارٹی سے وابستہ مخلص لوگوں کو اہمیت دینے کا اعلان کریں۔ پارٹی کے اندر نمائشی نہیں بلکہ حقیقی جمہوریت لائیں۔ خوشامدیوں اور چاپلوسوں کی بجائے سچی اور کھری بات کرنے والوں کو قریب کریں۔

وہ لوگ جوچوہدری سرور کی طرح کسی اور ملک کے شہری ہیں اور کسی خاص مشن پر یہاں تشر یف لائے ہیں، وہ لوگ جو شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید کی طرح ہر طرح کی اسٹیٹس کو کی علامتیں ہیں ٗ وہ لوگ جو اسد عمر اور شیریں مزاری کی طرح مخصوص طاقتوں کے نمائندے ہیں اور وہ لوگ جن کی طاقت اور پہچان عبدالعلیم خان اور اعظم سواتی کی طرح صرف اور صرف پیسہ ہے ٗ کی چنگل سے اپنے آپ اور پارٹی کو آزاد کریں۔

بدتمیزی کرنے اور ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولنے والے ترجمانوں کی بجائے تہذیب کے دائرے میں بات کرنے والے سلیقہ مند لوگوں کو میڈیا میں اپنا ترجمان بنائیں۔ اسمبلی کے اندر مغربی ممالک کی طرز پر بھرپور تیاری اور ہوم ورک کے ساتھ بھرپور اپوزیشن کا کردار اپنالیں۔ حقیقی تھنک ٹینک بنا کر ہر شعبے میں آئینی اصلاحات کے لئے سنجیدہ کوششوں کا آغاز کریں۔ خیبرپختونخوا کی حکومت کی میرٹ پر تشکیل نو کریں اور ایڈہاک ازم کی بجائے ٗ بھرپور مشاورت کے نتیجے میں قابل عمل اور زمینی حقائق سے مطابقت رکھنے والی پالیسیاں بناکر قوم کے سامنے رکھ دیں۔
 
سلیم صافی
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ‘‘

سعودی عرب، تہران تصادم سے بچیں

$
0
0

ستائیس برس قبل لڑی گئی عراق اور ایران جنگ سے شروع ہونے والی سعودی عرب ایران کشیدگی انتہاوں کو چھو رہی ہے۔ واقف حال جانتے ہیں کہ ایران سے متعلق سعودی تحفظات کی وجوہات کیا ہیں۔ ایران اس حد تک پھیل چکا ہے کہ سعودی عرب کے گردو نواح میں وہ عسکری لحاظ سے فعال اور موجود ہے۔ سعودی عرب کے شمال میں عراق اور جنوب میں یمن میں عسکری موجودگی کے علاوہ مشرق میں بحرین کے اپوزیشن گروپوں کی شکل میں ایران موجود ہے۔ ایران، شام میں بھی ہے جہاں براہ وہ جنگ میں ملوث ہے۔ مالی وسائل اور افرادی قوت کی شکل میں ایران ایک ایسے منصوبے میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے جس کا بظاہر مقصد خلیجی ریاستوں کا گھیراو کرنا ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی نہ ہوتی تو اعلی سیاسی قیادت جس میں ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای اور صدر ڈاکٹر حسن روحانی شامل ہیں، سانحہ منی کو سیاسی رنگ کبھی نہ دیتے، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ حج کے موقع کے دوران 25 لاکھ سے زائد عازمین کی موجودگی کے باعث ایسے حادثات کا ہمیشہ دھڑکا لگا رہتا ہے۔ یہ افسوسناک سانحہ جو سیکڑوں عازمین حج کی رحلت کا باعث بنا، کو سیاسی رنگ دینے کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہ تھا کہ ایرانی شہریوں کو سعودی عرب کے خلاف بھڑکایا جائے اور اینی بیرونی مہمات کو جائز بنایا جائے۔
سعودی عرب کے خلاف ایران کا دوسرا احتجاج یمن میں جاری عسکری کارروائی پر ہے۔
یمن میں سعودی اتحاد کی فوجی مداخلت پر ایران کے سخت تحفظات ہیں حالانکہ سیکیورٹی کونسل کے ارکان نے مداخلت کے بعد سب سے پہلے حوثی باغیوں ایرانی ہتھیاروں کی فراہمی کے راستے بند ہوئے جس میں سمندری اور فضائی راستے دونوں شامل ہیں، پھر امریکی نیوی کی مدد سے ایرانی جہازوں کی تلاشی شروع کر دی گئی۔ دونوں کے درمیان بالواسطہ شام میں محاذ رائی ہو چکی ہے جب بشار الاسد حکومت کی جانب سے لڑنے والے ایرانی پاسداران انقلاب اور اس کی اتحادی لبنانی، عراقی۔ افغانی ملیشاون کے ساتھ سعودی حمایت یافتہ اپوزیشن کا تصادم ہوا، شام کی لڑائی خطے کی بدترین انسانی المیے کا پیش خیمہ بنی کہ اس میں ڈھائی لاکھ سے زائد شامیوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے جبکہ ایک کروڑ سے زائد بے گھر ہوئے۔

عراق میں تیسری حد بندی ہونے والی ہے جو کہ انتہائی خطرناک ہے۔ بغداد حکومت پر ایران کا غلبہ اور اس کے مختلف صوبوں میں ایرانی فوج کا براہ راست ملوث ہونا دنیا سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ مشرق وسطی میں ایران کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں امریکی انتظامیہ کے بیانات کی نفی کرتی ہیں کہ نیوکلیئر ڈیل کے بعد ایران کی توجہ داخلی امور پر مرکوز ہو جائے گی، تمام بیرونی مہمات سے دستبردار ہو کر اقتصادی بہتری کے لئے ہمسایہ ملکوں کا تعاون حاصل کرنے گا اور اپنے شہریوں کا معیار زندگی بلند کرنے پر توجہ مرکوز کر دے گا۔ مگر خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے، امریکی بیانات کے برعکس ہے۔

سعودی عرب اور ایران کے مابین بڑھتی کشیدگی ایک وارننگ ہے کہ اگر دونوں ملکوں نے معمول کے سفارتی تعلقات استوار نہ کئے اور سفارتی آداب ملحوظ نہ رکھے تو صورتحال قابو سے باہر ہو جائے گی۔ ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل سے عرب ملکوں کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے، کہ اس کی وجہ سے تہران پر عائد معاشی اور عسکری پابندیا ختم ہو گئی ہیں جس کے بعد ایران کے ساتھ سعودی عرب خصوصی طور پر عرب دنیا کے تنازعات بڑھ گئے ہیں، میڈیا اور سفارتی حلقوں میں نوک جھوک بھی بڑھ گئی ہے۔
یہ بڑھتی ہوئی کشیدگی تقاضہ کرتی ہے کہ رابطوں میں اضافہ کیا جائے، کشیدگی کے محرکات اور وجوہات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یمن، بحرین، عراق، شام اور دیگر ملکوں میں خانہ جنگی چلتی رہے گی؛ اس کے ساتھ مسلم دنیا میں فرقہ وارانہ کشیدگی بھی بڑھے گی۔ جب تک سیاسی تنازعات ختم نہیں ہوتے، اس وقت تک مذہبی جھگڑے ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ سیاسی تنازعات کے خاتمے تک دونوں ملکوں کو کوشش کرنا ہو گی کہ ان کے مابین دوطرفہ کشیدگی قابو سے باہر نہ نکلے۔

عبدالرحمان الراشد

دورہ واشنگٹن ۔ وزیر اعظم کے لئے ایک اور چیلنج

$
0
0

یہ ایک مثبت بات ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے واشنگٹن روانگی سے قبل ہی قومی اسمبلی حلقہ 122 کے ضمنی انتخاب کا معرکہ سرکرلیا ہے اور وہ عمران خان کے ہاتھوں اپنی حکومت اور پارٹی کو درپیش سیاسی، معاشی، انتخابی اور نفسیاتی دبائو سے نکل کر امریکی صدر اوباما سے ملاقات اور پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں پاکستان کے نمائندے کے طور پر مذاکرات کے لئے آرہے ہیں۔ گو کہ امریکی صدر اوباما اب صرف 15ماہ کی مدت کے لئے وہائٹ ہائوس کے ایسے مکین ہیں جنہیں امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اپنی سیاسی مخالف ری پبلکن پارٹی کی اکثریت کے ہاتھوں زبردست سیاسی، اختیاراتی، انتخابی اور نفسیاتی دبائو کا سامنا بھی ہے اور پھر وہ جلد ہی ’’لنگڑی بطخ‘‘ یعنی غیرموثر یا نیم موثر صدر کا روایتی رول اور حیثیت بھی اختیار کرنے والے ہیں لیکن یہ تمام صورتحال عالمی سپر پاور امریکہ کے صدر کیلئے پاک امریکہ تعلقات کے امور سے ڈیل کرنے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کررہی ہے۔

البتہ اگر انہوں نے کوئی اہم سمجھوتہ، معاہدہ یا ڈیل پاکستان کے ساتھ طے کی تو موجودہ صورتحال میں امریکی کانگریس سے منظوری یا 2016ء کے ساتھ ہی اوباما صدارت ختم ہونے کے بعد اسکی عملی افادیت کو نئی امریکی انتظامیہ اور کانگریس ہی طے کرے گی۔ ہاں! خطے میں امریکہ کی ترجیحات اور مفادات کی تبدیلی، بھارت کے لئے ترجیحی سلوک اور ہر طرح کے معاشی، صنعتی، فوجی اور ٹیکنالوجی کے امریکی تعاون نے پاکستان کے لئے جو ناگوار صورتحال پیدا کردی ہے اس کے تناظر میں وزیراعظم نواز شریف کا اگلے ہفتے دورہ واشنگٹن صرف اہم نہیں بلکہ بہت بڑا چیلنج ہوگا سیاسی مخالفین لاکھ اختلاف کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف بطور وزیراعظم پاکستان کے نمائندہ کے طور پر ملاقات اور مذاکرات کریں گے جن کے نتائج و اثرات کا پاکستانی عوام اور مستقبل کے پاکستانی حکمرانوں کو سامنا کرنا ہوگا۔
کیا ہی اچھا ہو کہ عمران خان سمیت پاکستانی سیاستدان بھی امریکی فیشن کی طرح امریکی سیاست کی یہ روایت اپنالیں۔ امریکی سیاسی نظام میں ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹیاں ایک دوسرے کی سیاسی مخالف اور مختلف نظریات کی حامل ہیں اور ہر جگہ ایک دوسرے کی مخالفت کرتی ہیں لیکن جب کبھی امریکی سیکورٹی کو یا پھر امریکی عالمی برتری قائم رکھنے میں کوئی مشکل یا چیلنج پیش آئے تو تمام اراکین کانگریس سیاسی و نظریاتی اختلافات بالائے طاق رکھ کر صرف ’’وفادار محب وطن امریکی‘‘ بن کر فیصلے اور عمل کرتے ہیں اسی طرح ری پبلکن جارج بش جونیئر اور ڈیموکریٹ الگور کے درمیان امریکی صدر کے لئے انتخابات میں جب ریاست فلوریڈا میں ووٹ پر سوراخ کرنے والی مشین سے سوراخ مکمل نہ ہوئے تو ایسے ووٹوں کی تعداد اتنی اہم تھی کہ اگر شمار کرلئے جاتے تو تاریخ میں جارج بش کی بجائے الگور صدر منتخب ہوسکتے تھے مگر ریاست کے قانون کا نفاذ کرنے والے ریپبلکن سیکرٹری آف اسٹیٹ نے ان ووٹوں کو مسترد کردیا بعد ازاں صورتحال پیچیدہ ہوئی الگور اگر ڈٹ جاتے تو ایک سیاسی بحران کھڑا ہوجاتا مگر ملک اور سیاسی نظام کے مستقبل اور وقار کی خاطر ڈیموکریٹ الگور نے ری پبلکن جارج بش کو منتخب صدر تسلیم کرلیا۔

اگر مشکلات، بحران اور اپنی بقا کو لاحق خطرات سے دوچار پاکستان کے قائدین ایسی روایات کو امریکی سیاست کا ’’فیشن‘‘ سمجھ کر ہی اپنالیں تو تصادم کی سیاست سے نجات مل جائے گی اگر ’’مفاد کے تضاد‘‘ کا امریکی قانون بھی اپنالیں تو کرپشن کی روک تھام بھی ہوسکتی ہے۔ 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز کے 25ویں فلور پر وزیراعظم نواز شریف اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے درمیان جو تفصیلی ملاقات ہوئی تھی اس کے خد و خال اور ذرائع بتاتے ہیں کہ ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ جاری ہے اور امریکی مزید اصرار کے ساتھ ’’ڈومور‘‘ کی فہرست میں اضافی مطالبات کریں گے۔

وزیراعظم نواز شریف کے دورہ ٔ واشنگٹن کے دوران پاکستانی ترجمانوں کے لئے بھی ایک مشکل نظر آرہی ہے۔ ’’ملاقات بہت مفید یا خوشگوار رہی۔ مذاکرات میں باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو رہی۔ دورہ بڑا کامیاب رہا ’’جیسے روایتی جملوں کی گنجائش کم نظر آتی ہے کیونکہ امریکہ کی جانب سے دو ٹوک انداز اور افغانستان اور دہشت گردی کے حوالے سے ’’ڈومور‘‘ پر اصرار، پاک بھارت کشیدگی پر دو طرفہ ڈائیلاگ اور بھارت کی شرائط پر خطے میں امن کی ترغیب 14 سال تک افغانستان اور دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کے غیرمشروط اتحادی پاکستان کو سنائے جانے کا امکان ہے۔ خطے میں امریکہ نے اپنی ترجیحات تبدیل کرکے اپنی تمام نوازشات، تعاون، سرمایہ کاری، جنگی سازو سامان کی تیاری سے لے کر صنعتی تعاون تک بھارت کے پلڑے میں ڈال دی ہیں۔ کوئی 25 سال قبل جنوبی ایشیا کے ممالک کو نئی دہلی کے ذریعے اور منظوری سے واشنگٹن سے ڈیل کرنے کا جو تصور پیش کیا گیا تھا آج اس کا عملی خاکہ مرتب کرنے کا رجحان نظر آرہا ہے ۔

مختصراً تبدیل شدہ ترجیحات پاکستان کے لئے مشکل صورتحال لئے ہوئے ہے۔ ہم نے چین کے ساتھ تعلقات کو استوار کرتو لیا ہے لیکن امریکہ کو بھی ناراض نہیں کرسکتے۔ انگیج کرنا ہماری لازمی ضرورت ہے۔ چین سے ہمارے تعاون اور تعلقات کی نئی شکل نئی دہلی اور واشنگٹن کو یکساں پسند نہیں کیونکہ ہمارا یہ اقدام ’’چین کے گھیرائو‘‘ کی راہ میں اہم رکاوٹ ہے لہٰذا نتیجہ رویوں کی تبدیلی ہے۔ ہماری افواج کا انحصار بیشتر امریکی سازو سامان پر رہا ہے اب متبادل ذرائع سے اپنی ضروریات پوری کرنے کا آپشن اختیار کرلیا گیا ہے۔ بدلتے حالات میں پاکستان کے یہ چند اہم فیصلے بھی بھارتی پریشانی کا سبب ہیں جس کی جھلک واشنگٹن کے مذاکراتی لہجے اور رویئے میں نظر آنے کی توقع ہے افغانستان میں امریکہ اور نیٹوفورسز کو دشواریوں اور ناکامیوں کا سامنا رہا ہے مگر ہم سے نہ صرف ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ ہے بلکہ طالبان حقانی نیٹ ورک اور دیگر حوالوں سے الزامات کا سامنا ہے۔

پاکستان کے آپریشنز کی زبانی تعریف ضرور مگر عملی تحسین ندارد ہے۔ اس مشکل تناظر اور تبدیل شدہ صورتحال میں وزیراعظم نواز شریف کا دورہ واشنگٹن ایک بڑا چیلنج ہے جس کے لئے ہر مکتبہ فکر اور سیاسی منشور رکھنے والے پاکستانی کی حمایت سے آنا ضروریہے کیونکہ اس دورے میں اعتماد کے ساتھ پاکستانی موقف بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ روایتی نہیں تخلیقی ڈپلومیسی کی ضرورت ہے کہ پاکستانی مذاکراتی ٹیم کوقوم کی دعائوں اور حمایت سے مذاکرات کرنے اور حالات کا سامنا کرنے کی جرأت ہو۔ نواز شریف کے لئے یہ حلقہ 122 کے انتخابی چیلنج سے کہیں زیادہ بڑا چیلنج ہے۔ 20 اکتوبر کو واشنگٹن پہنچ کر 22 اکتوبر کو صدر اوباما سے ملاقات، چند دیگر ملاقاتیں اور مذاکرات اور پھر 23 اکتوبر کو پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کے بعد پاکستان واپسی تک کے عرصےمیں کیا ہو تا ہے؟ یہ آپ کے سامنے آنے کو ہے شکاگو کا دو روزہ دورہ اور اہم مصروفیات کی منسوخی کی وجوہات جاننے کے لئے شکاگو کی مایوس پاکستانی کمیونٹی خواہشمند ہے۔

لاہور کے انتخابی معرکے میں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو سیاسی تقویت ملی ہے۔ مگر پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں مذاکرات کے لئے پاکستانی قوم کے نمائندے کو قومی حمایت اور اعتماد سے تیاری کرکے واشنگٹن آنے کی ضرورت ہے۔

 عظیم ایم میاں
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ‘‘

زوال کی دیمک

$
0
0

سردار ایاز صادق صاحب آپ جیت چکے ہیں‘ آپ کو این اے 122 سے چوتھی مرتبہ ایم این اے بننا مبارک ہو‘ آپ پچھلے تین دن سے کامیابی کے ڈھول پیٹ رہے ہیں‘ یہ بھی آپ کا حق ہے‘ آپ اب اگر اپنے اس حق کی دھم دھم سے مطمئن ہو گئے ہوں تو میں آپ کی شان میں ایک گستاخی کر لوں؟ میں آپ سے چند سوالوں کی جسارت کر لوں؟ آپ کی بہت مہربانی‘ آپ نے مجھے اجازت دے دی۔

سردار صاحب آپ نے ابھی تازہ تازہ اپنے حلقے کا دورہ کیا‘ آپ ابھی تازہ تازہ اپنی اس محبوب عوام کے گھروں سے واپس آئے ہیں جس نے چوتھی بار آپ کو عزت دی‘ جنھوں نے پاکستان مسلم لیگ ن کی تاریخ کے حساس ترین موڑ پر آپ‘ آپ کے قائد اور آپ کی جماعت کی عزت رکھ لی‘یہ لوگ اگر 11 اکتوبر کو آپ پر مہربانی نہ کرتے‘ یہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ نہ کرتے تو آپ لوگ اس وقت لاہور شہر میں نکلنے کے قابل نہ ہوتے‘ یہ این اے 122 کے لوگوں کی مہربانی اور کھلا دل ہے جس کے صدقے آپ آج کامیابی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔

جن کی مہربانی سے آپ دوبارہ قومی اسمبلی کے اسپیکر بن رہے ہیں اور آپ کے ساتھی وزراء منہ پر بند مٹھی رکھ کر اورُرُڑ کی آوازیں نکال رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے جناب اسپیکر! آپ کے حلقے کے ان لوگوں کو اس محبت‘ اس فراخ دلی اور اس اعلیٰ ظرفی کا کیا انعام ملا؟ ان لوگوں کو آپ کے چار مرتبہ ایم این اے بننے اور دوبار اسپیکر منتخب ہونے کا کیا فائدہ ہوا؟

آپ ووٹ مانگنے کے لیے گھر گھر‘ گلی گلی گئے‘ آپ نے اپنے حلقے کے لوگوں کی صورتحال دیکھی چنانچہ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے‘ کیا آپ کے حلقے کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی مل رہا ہے‘ کیا حلقے میں سیوریج کا سسٹم ٹھیک ہے‘ کیا علاقے کی گلیاں صاف ہیں‘ کیا نالیاں پکی ہیں‘ کیا پانی بدبودار اور بیماریوں سے پاک ہے‘ کیا آپ اپنے گھر کی ٹونٹی کا پانی پی سکتے ہیں‘ کیا آپ کے حلقے کے تمام اسکولوں اور کالجوں کی عمارتیں مکمل ہیں۔
کیا استاد پورے ہیں‘ کیا آپ کے حلقے کے لوگوں کو ڈاکٹرز‘ نرسز اور ادویات کی سہولت دستیاب ہے‘ کیا پورے حلقے میں سینیٹری ورکرز موجود ہیں‘ کیا تھانے ٹھیک ہیں‘ کیا آپ کے تھانے میں آپ کی سفارش اور ٹیلی فون کے بغیر ایف آئی آر درج ہو جاتی ہے‘ کیا آپ کے حلقے میں جرائم نہیں ہوتے‘ کیا آپ کے حلقے میں لوگوں کو باعزت روزگار مل رہا ہے اور کیا آپ کے حلقے میں میرٹ‘ انصاف اور قانون کی پابندی ہوتی ہے؟ اگر ہاں تو پھر آپ بے شک اگلے دو تین برس تک خوشیوں کے شادیانے بجاتے رہیے لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ جشن کس بات کا؟ آپ یہ مٹھائیاں کیوں تقسیم کر رہے ہیں؟ جناب اسپیکر! کہیں آپ عوام کو چوتھی مرتبہ بے وقوف بنانے پر تو خوش نہیں ہیں؟ کہیں آپ چوتھی بار اپنا اُلو سیدھا ہونے پر تو شاداں نہیں ہیں؟

جناب ایاز صادق صاحب آپ جس دن ان سوالوں کا جواب تلاش کر لیں گے‘ آپ کو اس دن اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا ’’میری چار کامیابیوں کا میرے لوگوں‘ میرے عوام کو کیا فائدہ ہوا‘‘ آپ یقین کیجیے جناب ایاز صادق صاحب! آپ کے حلقے سے لوگ 1890ء سے حکمران بنتے اور تاریخ کے قبرستان میں دفن ہوتے آ رہے ہیں اور آپ بھی بہت جلد ان لوگوں کا حصہ بننے والے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ آپ بھی ماضی کے چالاک حکمرانوں کی طرح عوام کی خواہشوں‘ عوام کی ضرورتوں کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں چنانچہ آپ میں اور ماضی کے سیاسی مزاروں میں کوئی فرق نہیں‘ عوام آپ سے پہلے بھی محروم تھے اور عوام آج بھی محروم ہیں۔

لوگ پہلے بھی محرومیوں کی درخواستیں جیب میں ڈال کر عوام کے نمائندوں کے پیچھے دوڑتے تھے اور عوام آج بھی پاؤں میں ضرورتوں کے تنور باندھ کر آپ جیسے لوگوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں‘ ان بے چارے بے بس لوگوں کو کل کوئی مسیحا ملا اور نہ ہی آج کسی نے ان کے دکھ‘ ان کے درد پر ہاتھ رکھا‘ یہ بے بس لوگ آپ جیسے لوگوں کے اقتدار کی بھٹی کے ایندھن کے سوا کچھ نہیں ہیں‘ آپ آج انھیں بھٹی میں ڈال کر اسپیکر کا کیک بنا لیجیے اور کل آپ جیسا کوئی دوسرا آپ جیسے نعرے‘ لارے اور لپے لگا کر ان کی خواہشوں‘ ان کی ضرورتوں سے اپنی بھٹی گرم کر لے گا اور بس۔

بات رہی پی پی 147 سے پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار محسن لطیف کی ناکامی کی تو پاکستان مسلم لیگ ن کی یہ سیٹ خاندانی سیاست کی نذر ہو گئی‘ محسن لطیف کی ناکامی نے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے خاندانوں کے اختلافات کھول کر سامنے رکھ دیے‘ یہ اختلافات کیا ہیں؟ آپ یہ جاننے کے لیے محسن لطیف کا بیک گراؤنڈ جان لیجیے‘ محسن لطیف میاں نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کے بھائی میاں لطیف کے صاحبزادے ہیں۔

میاں لطیف کی بیگم اور محسن لطیف کی والدہ میاں برادران کے تایا میاں عبدالعزیز کی صاحبزادی ہیں‘ میاں عبدالعزیز میاں نواز شریف کے والد میاں شریف کے بھائی اور اتفاق گروپ کے پارٹنر تھے‘ 12 اکتوبر 1999ء کے بعد جب میاں برادران گرفتار ہوئے اور بیگم کلثوم نواز نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف تحریک شروع کی تو پورے خاندان میں محسن لطیف اور پوری مسلم لیگ ن میں جاوید ہاشمی دو واحد لوگ تھے جنھوں نے کھل کر ان کا ساتھ دیا‘ محسن لطیف اس پورے دور میں اپنی پھوپھی کے ساتھ رہے‘ میاں نواز شریف اور کلثوم نواز کو آج بھی محسن لطیف کی قربانی اور ساتھ کا احساس ہے‘ یہ آج بھی دونوں کے قریب ہیں‘ محسن لطیف پی پی 147 سے دو بار ایم پی اے منتخب ہوئے‘ یہ 2008ء میں ایم پی اے بنے‘ دوسری بار 2013ء میں جیتے لیکن یہ 11 اکتوبر کو ضمنی الیکشن میں ہار گئے‘ کیوں؟ اور کیسے؟

اس کی وجہ خاندانی سیاست اور میاں برادران کے اندرونی سیاسی اختلافات ہیں‘ میاں یوسف عزیز محسن لطیف کے سگے ماموں ہیں‘ یہ محسن لطیف کے والد میاں لطیف کے سالے اور والدہ شہناز لطیف کے بھائی ہیں‘ میاں یوسف عزیز میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے بہنوئی بھی ہیں‘ محسن لطیف کی والدہ شہناز لطیف کا اپنے بھائی اور میاں برادران کے بہنوئی میاں یوسف عزیز کے ساتھ جائیداد کا جھگڑا چل رہا ہے‘ معاملہ عدالتوں تک جا پہنچا ہے۔

اس معاملے نے خاندان کو دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا‘ میاں نواز شریف اور کلثوم نواز کا جھکاؤ میاں لطیف‘ شہناز لطیف اور محسن لطیف کی طرف ہے جب کہ میاں شہباز شریف کے صاحبزادے میاں یوسف عزیز کے ساتھ ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ میاں شہباز شریف کے خاندان کا میاں یوسف عزیز کے ساتھ ایک دوسرا تعلق بھی ہے اور یہ تعلق پہلے تعلق کو مزید مضبوط بناتا ہے‘ حمزہ شہباز شریف پنجاب میں حلقوں کی سیاست کے انچارج ہیں‘ یہ خاندان میں محسن لطیف کے مخالف دھڑے کے ساتھ ہیں چنانچہ خاندان کی اس لڑائی کا نقصان محسن لطیف کے حلقے کے لوگوں کو پہنچنا شروع ہو گیا۔

اڑھائی برسوں میں پی پی 147 میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا‘ محسن لطیف کو اسٹریٹ لائیٹس کے خراب بلب تبدیل کرانے کے لیے بھی حمزہ شہباز سے رابطہ کرنا پڑتا تھا اور رابطے کے باوجود بلب تبدیل نہیں ہوتے تھے‘ یہ حلقے کے لیے جو بھی کام لے کر جاتے تھے وہ نہیں ہوتا تھا یہاں تک کہ محسن لطیف نے عوام سے چھپنا شروع کر دیا‘ الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن نے این اے 122 اور پی پی 147 میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو حمزہ شہباز محسن لطیف کے بجائے یہ ٹکٹ حافظ نعمان کو دینا چاہتے تھے‘ حافظ نعمان پی پی 148 میں پاکستان مسلم لیگ ن کے تگڑے امیدوار ہیں۔

2013ء میں ن لیگ نے ان کی جگہ اختر رسول کو ٹکٹ دے دیا تھا‘ حمزہ شہباز شریف اس بار انھیں پی پی 147 سے الیکشن لڑانا چاہتے تھے لیکن میاں نواز شریف نہیں مانے‘ ن لیگ کے لاہوری گروپ نے سردار ایاز صادق کو یہ حلقہ اپنے صاحبزادے کے حوالے کرنے کا مشورہ بھی دیا لیکن یہ بھی نہ مانے اور یوں یہ ٹکٹ مجبوری کے عالم میں محسن لطیف ہی کو مل گیا مگر محسن لطیف کا ہارنا طے ہو چکا تھا اور یہ ہارے اور یہ شاید اب سیاست میں واپس بھی نہ آ سکیں کیونکہ حمزہ شہباز 2018ء کے الیکشنوں تک مزید مضبوط ہو جائیں گے اور یہ پی پی 147 کا ٹکٹ سردار ایاز صادق کے صاحبزادے کو دے دیں گے لیکن اپنے خاندانی حریف پر مہربانی نہیں کریں گے چنانچہ آپ اگر سردار ایاز صادق کی این اے 122 میں پرفارمنس دیکھیں اور پی پی 147 میں خاندانی سیاست کا تجزیہ کریں تو آپ دونوں جگہوں پر کف افسوس ملنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

پاکستان کے سیاسی حکمران طبقے کا سب سے بڑا ایشو تاریخ ناشناسی ہے‘ یہ لوگ پڑھتے نہیں ہیں چنانچہ یہ اپنی ساٹھ ستر سال کی زندگی کو آفاقی سمجھ بیٹھتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں قدرت ان کی غلام ہے اور یہ کبھی ان کی چھت پر سورج غروب نہیں ہونے دے گی‘ کاش یہ لوگ کبھی لاہور کی تاریخ کی کتاب ہی پکڑ کر شاہی قلعے سے قطب الدین ایبک اور ایاز کے مزارات تک کا چکر لگا لیں‘ یہ راجہ رنجیت سنگھ کے دور ہی کا مطالعہ کر لیں تو یہ اپنی زندگی اور اقتدار دونوں کی اوقات سے آگاہ ہو جائیں گے۔

یہ جان لیں گے لاہور اگر اپنے بانی لاہو اور محمود غزنوی کے اس عظیم گورنر ایاز کا نہیں ہوا جس کی وفاداری پر علامہ اقبال جیسے شاعر بھی قلم اٹھانے پر مجبور ہو گئے تھے تو پھر یہ آپ کی جیب میں کتنی دیر رہے گا‘ آپ کتنی دیر اس پر اپنے اقتدار کے جھنڈے لہرا لیں گے؟ تاریخ کا سبق ہے‘ عوام سے جھوٹے وعدے کرنے والے سرداروں کی چالاکیاں اور شہزادوں کی خاندانی لڑائیاں بڑی بڑی سلطنتوں کو نگل جاتی ہیں اور میاں برادران کی سلطنت ان دونوں امراض کا شکار ہو چکی ہے‘ شہزادے بھی آپس میں لڑ رہے ہیں اور سردار بھی عوام سے جھوٹے وعدے کر رہے ہیں چنانچہ زوال کی دیمک کرسی کے پایوں میں جگہ بناتی جا رہی ہے‘ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے پارٹی اندر سے کمزور ہو رہی ہے اور یہ کمزوری کسی نہ کسی دن گلستان جوہر کی پہاڑی کی طرح نیچے آ گرے گی۔

جاوید چودھری
بہ شکریہ روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘

بے نظیر بھٹو قتل اور جنرل (ر) پرویز مشرف

$
0
0

جنرل (ر) پرویز مشرف کے سیاسی اور آئینی جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ آئین
کو پہلے توڑا۔ پھراس کا حلیہ بگاڑا اور عدلیہ کو ہاتھ کی چھڑی بنانے کی کوشش کی۔ اپنے اقتدار کو مقدم اور قومی مفاد کو موخر رکھا۔ وہ فوج جیسے قومی ادارے کو متنازع بنانے کا موجب بنے۔ احتساب کے نام پر سیاسی بلیک میلنگ کی۔ کراچی میں آج فوج کے جوان جن کانٹوں کو چن رہے ہیں ٗ ان کو اگایا جنرل ضیاء الحق نے تو بچھایا جنرل پرویز مشرف نے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وار آن ٹیرر کے حوالے سے ڈبل گیم سے کام لے کر پاکستان کو دہشتستان بنایا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود میرے ذہن نے کبھی اس دعوے کو قبول نہیں کیا کہ
بے نظیر بھٹو کو مارنے میں جنرل پرویز مشرف کا کوئی ہاتھ تھا۔

یہ افواہیں اور سازشی تھیوریاں بڑی حد تک دم توڑ گئی تھیں لیکن اب جبکہ ایک امریکی لابیسٹ مارک سیگل نے اس حوالے سے بیان دے دیا تو ایک بار پھر زور پکڑ گئیں۔ حالانکہ مارک سیگل جیسے لوگوں کی باتوں پر شاید ان کے ملک کے اندر بھی کوئی شخص یقین نہ کرے لیکن نہ جانے ہم امریکہ سے کیوں اس قدر مرعوب ہوگئے ہیں کہ ان کا کوئی سازشی ذہن جب بھی چاہے کوئی بیان دے دیتا ہے اور اس سے ہمارے ملک میں طوفان کھڑا ہوجاتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مارک سیگل ایک لابیسٹ اور بنیادی طور پر سازشی انسان ہے ۔ انہیں بے نظیر بھٹو سے اس وقت تک ہمدردی تھی جب تک وہ ان سے فیس بٹورتا رہا ۔ ان میں اگر اخلاقی جرات ہوتی تو وہ ان کے قتل کے فوراً بعد پاکستان آکر تحقیقات میں 
معاونت کرتے۔

دوسری بات یہ کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ جس وقت انہیں بے نظیر بھٹو کی کال آئی اس وقت آصف علی زرداری بھی موجود تھے ۔ اب بے نظیر بھٹو کے وارث، مارک سیگل نہیں بلکہ آصف علی زرداری ہیں لیکن انہوں نے کسی انکوائری کمیشن کے سامنے پیش ہونے کی ضرورت محسوس کی اور نہ کبھی اس دعوے کی تائید کی ۔ پھر سوال یہ ہے کہ کیا پرویز مشرف کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ غیرملکی ایجنسیاں ان کے اور بے نظیر بھٹو کے فون کو ٹیپ کررہی ہیں ؟
انہیں اگر بے نظیر بھٹو کو دھمکی دینی بھی تھی تو اس کیلئے موبائل فون کے علاوہ کوئی اور ذریعہ استعمال نہیں کرسکتے تھے ۔ بدقسمتی سے پیپلز پارٹی نے بھی بے نظیر بھٹو کے قتل کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا اورمحترمہ بھی جب تک زندہ تھیں وہ بھی اپنی زندگی کو لاحق خطرے کے معاملے کو سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرتی رہیں۔ انہوں نے ای میل میں جن چار لوگوں پر اپنے قتل کی سازش کا الزام لگایا ان میں جنرل پرویز مشرف ٗ جنرل (ر) حمید گل ٗ چوہدری پرویز الٰہی اور بریگیڈئر (ر) اعجاز شاہ شامل تھے۔ اب ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت جنرل پرویز مشرف اور جنرل حمید گل ایک دوسرے کا نام سننا گوارا نہیں کرتے تھے ۔ اب ان حالات میں جنرل حمیدگل ٗ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ مل کر کس طرح بے نظیر بھٹو کے قتل کا منصوبہ تیار کرسکتے تھے؟

چونکہ طالبان یا القاعدہ کا نام لینے سے پیپلز پارٹی کی قیادت کیلئے خطرات مزید بڑھ سکتے تھے اور اس کا کوئی سیاسی فائدہ بھی نہیں تھا ٗ اس لئے وہ ابتداء میں کبھی پرویز مشرف کی طرف اشارہ کرتے اور کبھی قاتل لیگ قاتل لیگ پکارتے لیکن اگر واقعی پیپلز پارٹی کی قیادت کی نظروں میں بے نظیر بھٹو کے قتل میں پرویز مشرف اور پرویز الٰہی کا کوئی ہاتھ تھا تو پھر پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر کیوں دیا گیا اور پرویز الٰہی کو زرداری صاحب نے اپنی حکومت میں نائب وزیراعظم کیوں بنایا ؟۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کیساتھ ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی اور ان کی سیاسی سرگرمیوں پرپرویز مشرف خوش نہیں تھے تو بھی اس سے یہ بات کہاں سے نکلتی ہے کہ وہ ان کے قتل کی سازش میں بھی شریک تھے ۔ ان کا ایسا ارادہ ہوتا تو ایک رات قبل ڈی جی آئی ایس آئی جاکر ان کو خطرے سے کیوں آگاہ کرتے ۔

یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) ندیم تاج سیاسی مزاج کے حامل متنازع ڈی جی آئی ایس آئی نہیں تھے بلکہ ایک خالص پروفیشنل تھے جو اپنی ڈیوٹی سرانجام دینے کے بعد خاموش زندگی گزاررہے ہیں۔ مستقبل کے لحاظ سے پرویز مشرف کو بے نظیر بھٹو سے نہیں بلکہ میاں نوازشریف سے زیادہ خطرہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ میاں نواز شریف منتقم مزاج انسان ہیں جبکہ اقتدار انہوں نے بے نظیر سے نہیں بلکہ میاں نوازشریف سے چھینا تھا۔ معاہدے کی خلاف ورزی بے نظیر بھٹو سے بڑھ کر میاں نوازشریف نے بھی کی تھی ۔ جنرل پرویز مشرف اگر قتل کی سازش تیار کرنے کے اتنے ماہر تھے تو پھر خاکم بدہن انہوں نے میاں صاحب کیخلاف کوئی سازش کیوں تیار نہیں کی؟

پاکستان سازشی نظریات سے مالامال ملک ہے ۔ یہاںآج بھی ان لوگوں کی کمی نہیں جو یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ایبٹ آباد آپریشن کے وقت اسامہ بن لادن وہاں موجود نہیں تھے اور ایک بڑا طبقہ آج بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ طالبان کی شکل میں جو لوگ پاکستانی فوج سے لڑرہے ہیں ٗ وہ مسلمان اور پاکستانی ہیں ۔ میں بھی چاہوں تو بے نظیر بھٹو کے قتل میں جنرل پرویز مشرف کے شریک ہونے پرسو دو سو صفحات کے سازشی نظریات اور ان کے دلائل تحریر کرسکتا ہوں جبکہ زرداری صاحب کو شریک جرم بنانے کے سازشی نظریے کے حق میں تو چار پانچ سو صفحات آسانی کے ساتھ لکھے جاسکتے ہیں لیکن اگر بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو ذہن میں رکھا جائے تو حقیقت تک رسائی میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ میں اپنی ذاتی تحقیق کے ذریعے خود بھی اس نتیجے تک پہنچا ہوں اور تمام قرائن اور شواہد بھی پتہ دیتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کو تحریک طالبان پاکستان نے القاعدہ کے ایما ء پر قتل کیا۔

اب تک اس حوالے سے میں نے جو کچھ سناٗ پڑھا اور دیکھا ہے ٗ ان کے تناظر میں ٗ میں اس بات پر مطمئن ہوں کہ بے نظیر بھٹو کو القاعدہ کی قیادت کے ایما پر بیت اللہ محسود کے حکم سے ان کے طالبان نے قتل کیا اور اس دعوے کی تائید بے نظیر بھٹو کے سیاسی جانشین یوسف رضاگیلانی اور سیاسی وارث آصف علی زرداری بھی کرچکے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے نظیر بھٹو سے القاعدہ اور طالبان کی دشمنی کیا تھی؟ تو اس کے جواب میں عرض ہے کہ القاعدہ کی قیادت شروع دن سے نظیر بھٹو کو اپنا مسلکی مخالف اور امریکہ کا آلہ کار سمجھ رہی تھی۔ یہ دشمنی اتنی پرانی تھی کہ اسامہ بن لادن نے ابتدائی دنوں میں میاں نوازشریف کی بھرپور مدد کی تھی۔

القاعدہ اور طالبان کی قیادت کا یہ خیال تھا کہ امریکہ نے بے نظیر بھٹو اور پرویز مشرف کی ڈیل اس بنیاد پر کی ہے کہ وہ دونوں مل کر خطے سے ان دونوں کا قلع قمع کریں۔ گویاپرویز مشرف کی موجودگی میں بے نظیر بھٹو کا وزیراعظم بننا وہ اپنے لئے بڑا خطرہ سمجھ رہے تھے ۔ اب جبکہ یہ بات طے ہے کہ قتل کا منصوبہ القاعدہ اور طالبان نے تیار کیا تو پھر ان کی قیادت کے ساتھ پرویز مشرف کے گٹھ جوڑ کی کوئی منطق مارک سیگل اور ان کے سازشی نظریے کے حامیوں کو دینی ہوگی۔

یہ اس طرح کا دعویٰ ہے کہ کوئی یہ کہہ کہ نریندرا مودی نے حافظ سعید کے ساتھ مل کر سونیا گاندھی کو قتل کرنے کی سازش تیار کی۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں تو ان دنوں اسامہ بن لادن یا بیت اللہ محسود کے ساتھ پرویز مشرف کے ساز باز اور وہ بھی بے نظیر بھٹو کو مارنے کیلئے ٗ کا کوئی امکان موجود نہیں تھا۔
القاعدہ کے خالد شیخ محمد جیسے اہم ترین لوگ پرویز مشرف کے دور میں پکڑ کر امریکہ کے حوالے کئے جاچکے تھے ۔ خود پرویز مشرف کو مارنے کیلئے القاعدہ اور تحریک طالبان نے دو حملے کئے تھے اور کئی مزید منصوبے ناکام بنائے جاچکے تھے۔

 اگر تو یہ کام افغان طالبان یا کسی پاکستانی جہادی گروہ نے کیا ہوتا پھر بھی گٹھ جوڑ کا کوئی امکان تلاش کیا جاسکتا تھا ۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اس عالم میں جبکہ پرویز مشرف کی حکومت ٗ القاعدہ اور پاکستانی طالبان کے ساتھ حالت جنگ میں تھی ٗ نے مل کر بے نظیربھٹو جیسی لیڈر کے قتل کی سازش تیار کی ہوگی۔ زیادہ سے زیادہ یہ الزام لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کماحقہ سیکورٹی فراہم نہ کرنے کی غفلت کی مرتکب ہوئی لیکن ایک رات قبل ڈی جی آئی ایس آئی کا خود بے نظیر بھٹو سے ملاقات اور انہیں خطرے سے آگاہ کرنا ٗ کیا غیرمعمولی حساسیت کا اظہار نہیں ۔

پھر اگر سیکورٹی نہ ہوتی تو جلسہ گاہ میں ان کو نشانہ بنایا جاتا ۔ اگر بے نظیر بھٹو اس وقت گاڑی سے سر باہر نہ نکالتیں تو پھر بھی تو انتظامات کافی تھے۔ مکرر عرض ہے کہ پرویز مشرف کے سیاسی جرائم کی فہرست بہت طویل ہے ۔ مجھے ان سے کوئی ہمدردی ہے نہ تو کوئی غرض لیکن کسی کی مخالفت میں حق کا دامن چھوڑنا اور ایک سابق وزیراعظم کے قتل کے معاملے کو مزید الجھنوں کا شکار بنانا اور اسے سازشی تھیوریز کی بھینٹ چڑھانا بھی درست نہیں ۔

سلیم صافی
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ‘‘

Viewing all 4315 articles
Browse latest View live