Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

A Pakistani monkey handler plays flute to attract passers by

$
0
0
A Pakistani monkey handler Naseer Khan plays flute to attract passers by for a monkey show to earn his living in Islamabad, Pakistan.

جنگ ستمبر کے جذبے سے کالا باغ ڈیم بن سکتا ہے

$
0
0

     پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کے معاہدوں پر دستخط ہوئے، جس کی رو سے راوی، ستلج اور بیاس کے حقوق بھارت کو دے دیے گئے جبکہ جہلم، چناب اور دریائے سندھ پاکستان کے حصے میں آگئے۔اس معاہدہ کی رو سے بھارت دریائے راوی، ستلج اور بیاس کے پانی کو استعمال کرنے کا حق رکھتا تھا جبکہ پاکستان کو جہلم، چناب اور سندھ کا پانی اپنی مرضی سے استعمال کرنے کا حق حاصل ہوا ۔

سندھ طاس معاہدہ میں بھارت کو دیے جانے والے دو دریاؤں ستلج اور بیاس سے پنجاب میں زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور پنجاب کو فراہم کیا جانے والا پانی صرف تین دریاؤں تک محدود ہو گیا، لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ بھارت نے حیلے بہانے سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیاں شروع کردیں اور پنجاب سے گزرنے والے پاکستان کے حصے کے تین دریاؤں پر بھی نظریں گاڑ دیں۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 1999ء میںدریائے چناب پر900 میگا واٹ کا ’’بگلی ہارہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹ‘‘ تعمیر کرنا شروع کردیا جو 2004ء میں مکمل ہوگیا اور پھر 2007ء میں بھارت نے دریائے جہلم پر 330 میگاواٹ کا کشن گنگا ڈیم بنانا شروع کردیا جو اب تکمیل کے مراحل میں ہے۔ ستلج اور بیاس کی بھارت کو حوالگی سے پنجاب کو جو نقصان پہنچا سو پہنچا لیکن پاکستان کے حصے کے دریاؤں پر ’’بھارتی تعمیرات‘‘ نے پانچ دریاؤں کی دھرتی ’’پنجاب‘‘ کو سرزمین ِ بے آب میں بدلنے کی بنیاد رکھ دی۔

بھارت کی اِن آبی سازشوں سے نمٹنے کیلئے پاکستانی ماہرین نے رائے دی کہ دریائے سندھ پر کالا باغ کے مقام پر بند بناکر دریائے ستلج اور بیاس کی بھارت کو حوالگی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا مداوا کیا جاسکتا ہے۔ کالا باغ کے مقام پر دریائے سندھ پر ڈیم بنانا ایک نہایت اچھی اور سود مند تجویز تھی، اس منصوبہ کی اہمیت دراصل اس حقیقت سے بھی جڑی ہوئی ہے کہ کالا باغ بند سے تقریباً 3600 میگاواٹ بجلی حاصل ہو سکتی ہے جو پاکستان کی توانائی کے مسائل ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔
 ماہرین نے اس منصوبہ کو نا صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں ترقی کے نئے دور کا پیش خیمہ قرار دیا کیونکہ پانی سے پیدا ہونے والی بجلی دوسرے ذرائع سے حاصل ہونے والی توانائی کی نسبت انتہائی سستی ہوتی ہے۔لیکن پاکستان اور بالخصوص پنجاب کو مکمل طور پر بنجر دیکھنے کے آرزومند بھارت سے بھلا پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا یہ منصوبہ کیسے ہضم ہوسکتا تھا!پاکستان کا یہ منصوبہ سامنے آتے ہی بھارت نے سندھ ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کالا باغ ڈیم کی مخالفت شروع کرادی ، جس کے بعد کالا باغ ڈیم کے خلاف اس قدر منفی پراپیگنڈا کیا گیا کہ پنجاب کے علاوہ باقی تین صوبوں کیلئے کالا باغ ڈیم کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنادیا گیا۔

کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ پیش ہوتے ہی پاکستان کے چاروں صوبوں خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کو باہمی تلخی کا سامنا کرنا پڑا۔ پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں نے اس منصوبہ کی تعمیر کیخلاف صوبائی اسمبلیوں میں متفقہ قراردادیں بھی منظور کیں اور سخت تحفظات کا اظہار کیا۔ تب سے یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ حالانکہ پنجاب نے اس منصوبہ پر اپنے موقف میں لچکداری کا مظاہرہ کیا اور کالا باغ منصوبہ سے حاصل ہونیوالی وفاقی سطح کی آمدنی سے اپنا حصہ وصول نہ کرنے کا اعلان بھی کیا ۔ بدقسمتی سے پورے پاکستان میں ایک خالص تکنیکی مسئلے کو سیاسی رنگ دے دیا گیا، جسکے بعد بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے پہلے دو ادوار میں یہ منصوبہ سیاسی رنگ میں رنگے جانے کے باعث مسلسل کھٹائی میں پڑا رہا۔

 دسمبر 2005ء میں اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی اعلان تو کیا کہ ’’وہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کالاباغ ڈیم تعمیر کر کے رہیں گے‘‘لیکن اس منصوبے کی پہلی اینٹ رکھنے کی جانب کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ اکتوبر 2013ء میں پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں کالا باغ ڈیم کی مخالفت کیلئے اِسی بھارتی فنڈنگ کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینیٹر جعفر اقبال نے الزام لگایا کہ ’’بھارت کالا باغ ڈیم کی مخالفت پر سالانہ 12 ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے؟اگر ہم نے کوئی اور ڈیم تعمیر نہ کیا تو آئندہ دس برسوں میں پاکستان کو انتہائی بدترین اور ناقابل تلافی خشک سالی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے‘‘۔ سینیٹر جعفر اقبال کے اس بیان پر پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے ارکان نے سینیٹ میں شوروغوغہ کرنا اور واویلہ مچانا شروع کردیا۔

قارئین کرام!! کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے کے پی کے میں نوشہرہ کے ڈوبنے اور سندھ میں زرعی زمینوں کے بنجر ہونے کا بہت پراپیگنڈا کیا جاچکا ہے، یہ ایسا منفی اور زہریلا پراپیگنڈا ہے کہ بعض اوقات اچھے بھلے پڑھے لوگ بھی اس پراپیگنڈا کی زد میں آخر بولنا شروع کردیتے ہیں کہ ’’چھوڑیں جی! یہ منصوبہ سیاست کی نذر ہوچکا ہے، ملک توڑنے سے بہتر ہے کہ یہ منصوبہ ترک کرکے دوسرے منصوبوں پر کام کیا جائے‘‘ لیکن یہ پڑھے لکھے عقل کے اندھے یہ نہیں بتاتے کالا باغ ڈیم نہیں تو پھر کون سا منصوبہ شروع کیا جائے جس سے پاکستان کی پانی اور بجلی کی ضروریات پورسی ہوسکیں!بھارت کی ’’ٹیرر فنانسنگ‘‘ پر پلنے والے عقل سے پیدل نام نہاد دانشور اور سیاستدانوں کے بھیس میں چھپے ’’مالی دہشتگرد‘‘ یہ نہیں بتاتے کہ آخر کالا باغ ڈیم کیوں نہیں بن سکتا!قوم میں 1965ء والا جذبہ ایک بار پھر پیدا ہوچکا ہے۔ 1965 کی جنگ ستمبر کے جذبے سے کالا باغ ڈیم بھی بن سکتا ہے۔

پس کالم: خبر یہ ہے کہ بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ سے بھاری فنڈز لے کر کالا باغ ڈیم کی مخالفت اور منفی پراپیگنڈا کرنیوالے ’’سیاستدانوں‘‘ اور ’’دانشوروں‘‘ کیخلاف قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے ٹھوس ثبوت اکٹھے کرلیے ہیں۔ جن لوگوں کے خلاف یہ ثبوت ملے ہیں، آنے والے دنوں میں اُنہیں بھی ’’ٹیرر فنانسنگ‘‘ کے تحت پکڑلیا جائے گا اور یہ ثبوت بھی ’’را‘‘ کی پاکستان میں مداخلت کے دیگر ثبوتوں کے ساتھ اقوام متحدہ سمیت عالمی فورموں پر پیش کیے جائیں گے۔

نازیہ مصطفیٰ

بہ شکریہ روزنامہ نوائے وقت

براق - پاکستان کا اپنا ڈرون

شعبہ بینکاری ۔حقائق اور تجزیہ...ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی

$
0
0

پاکستان میں کام کرنے والے تمام بینکوں نے 2014ء میں مجموعی طور پر
247 ارب روپے کا ٹیکس سے قبل منافع دکھایا ہے۔ 2013ء میں ان بینکوں کا مجموعی منافع 162 ارب روپے تھا ۔ یعنی 12 ماہ میں بینکوں کے مجموعی منافع میں 85 ارب روپے کا زبردست اضافہ ہوا۔ یہ بات یقیناً حیران کن ہے کیونکہ بینکوں نے 1947ء سے 2001ء کے 55 برسوں میں مجموعی طور پر جو منافع کمایا تھا اس سے کہیں زیادہ منافع کے حجم میں اضافہ صرف 2014ء میں 2013ء کے مقابلے میں ہوا ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ پاکستان میں سودی بینکوں میں بھی تمام بچت اور میعادی کھاتے نفع نقصان میں شراکت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسٹیٹ بینک کی معاونت سے بینک معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی کرنسی کے کھاتے داروں کو حقیقی معنوں میں اپنے منافع میں شریک نہیں کرتے رہے ہیں۔ ملک کے دو بڑے بینک حبیب اور یو نائیٹڈ بینک 2002ء اور 2004ء میں نج کاری کے نام پر غیر ملکیوں کے حوالے کر دیئے گئے تھے۔ اس کے بعد سے بینکوں نے اجارہ داری قائم کر کے کھاتے داروں کو دی جانے والی حقیقی شرح منافع کم کر کے اپنا منافع بڑھانا شروع کر دیا۔
گزشتہ کئی برسوں سے مختلف حکومتیں، اسٹیٹ بینک، وزارت خزانہ، منصوبہ بندی کمیشن، نج کاری کمیشن، اور بہت سے ماہرین اس امر پر متفق رہے ہیں کہ پاکستان میں بینکوں کی نج کاری کا تجربہ انتہائی کامیاب رہا ہے۔ یہ سوچ وڈیرہ شاہی کلچر پر مبنی ہے اور حقیقت سے بہت دور ہے۔ چند حقائق نذر قارئین ہیں۔
 2002 بینکنگ سیکٹر کا ٹیکس سے قبل مجموعی منافع صرف 19 ارب روپے تھا جو 2014ء میں بڑھ کر 247 ارب روپے ہو گیا۔ اسی مدت میں بینکوں کے مجموعی ڈپازٹس میں 450 فیصد، قرضوں میں 383 فیصد ، سرمایہ کاری میں 657 فیصد اور اثاثوں میں 445 فیصد اضافہ ہوا لیکن حیران کن طور پر ٹیکسوں سے قبل منافع میں 5521 فیصد اضافہ ہوا۔ حالیہ تاریخ میں کسی بھی ملک میں ڈپازٹس، قرضوں اور اثاثوں وغیرہ کے مقابلے میں منافع میں اتنے زبردست اضافے کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔

 اس سے قبل جب بینکوں کا ٹیکس سے قبل منافع 1.1ارب روپے تھا بینکوں نے اپنے بچت کھاتے داروں کو 6.6 فیصد سالانہ کی شرح سے منافع دیا تھا۔ 2014ء میں منافع تو بڑھ کر 247 ارب روپے ہو گیا لیکن نفع و نقصان کی شراکت کے کھاتوں پر بینک اب صرف 4.5 فیصد سالانہ منافع دے رہے ہیں۔ اندازہ ہے کہ بینکوں نے اس مدت میں اپنے کھاتے داروں کو تقریباً 1450 ارب روپے اس رقم سے کم دیئے جو 2000ء میں دی گئی حقیقی شرح منافع کے مطابق ان کا حق تھا۔ 2014ء میں بینکوں نے اپنے حصص یافتگان کو 24.3 فیصد منافع دیا۔
یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ پچھلے 6 برسوں سے بینک صنعت، تجارت، زراعت، برآمدات اور مائیکرو فنانس وغیرہ کے لئے نجی شعبے کو قرضے فراہم کرنے کے اپنے بنیادی فرض سے بڑی حد تک دستبردار ہو گئے ہیں۔ اس کے بجائے بینک ٹیکسوں کی چوری اور کر پشن وغیرہ کی وجہ سے پیدا ہونے والے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے حکومت کے تمسکات میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ یہ بلا شبہ تباہی کا نسخہ ہے۔ 2008ء میں بینکوں نے مجموعی طور پر 3173 ارب روپے کے قرضے دیئے ہوئے تھے۔ دسمبر 2014ء میں ان قرضوں کا حجم بڑھ کر 4447 ارب روپے ہوگیا۔ اسی مدت میں بینکوں کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری کا حجم 1087 ارب روپے سے بڑھ کر 5310 ارب روپے ہو گیا ۔یعنی گزشتہ 6 برسوں میں بینکوں کے قرضوں میں 1274 ارب روپے اور سرمایہ کاری میں 4223 ارب روپے کا اضافہ ہوا ۔ یہ بات تکلیف دہ ہے کہ 2014ء میں بینکوں کی سرمایہ کاری کا حجم بینکوں کے قرضوں کے حجم سے 863 ارب روپے زیادہ ہو گیا ہے جبکہ 2008ء میں بینکوں کے قرضوں کا حجم سرمایہ کاری کے حجم سے تقریباً 3 گنا تھا۔
نجی شعبے کے بینکوں کی اس تباہ کن پالیسی میں اب نیشنل بینک بھی شامل ہو گیا ہے۔ یہ سب کچھ اسٹیٹ بینک کے عملی تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا کیونکہ اسٹیٹ بینک اسی سرمایہ کاری کے لئے بینکوں کو بڑے پیمانے پر رقوم فراہم کر رہا ہے۔ اگر اسٹیٹ بینک یہ تعاون نہ کرتا تو حکومت پر ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور سے ٹیکس عائد کرنے کے لئے دبائو بڑھتا جس کے بغیر معیشت کی بحالی ممکن ہی نہیں ہے۔ بینکوں کی جانب سے نجی شعبے کو قرضے فراہم کرنے کے اپنے اصل کام سے عملاً دستبرداری کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال موجود نہیں ہے۔

بینکوں کی اس پالیسی اور اسٹیٹ بینک کی پرجوش معاونت کی وجہ سے معیشت کی شرح نمو سست ہو رہی ہے۔ روزگار کے مواقع کم میسر آ رہے ہیں۔ صنعتی و تجارتی سرگرمیاں اور برآمدات متاثر ہو رہی ہیں۔ ٹیکسوں کی چوری اور کرپشن کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے اور معیشت پر بحیثیت مجموعی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی بینکاری کی ایک جائزہ رپورٹ میں یہ اعتراف موجود ہے کہ پاکستان کے بجٹ خسارے کا بڑھتا ہوا حجم (جسے ہم ام الخبائث کہتے رہے ہیں) بینکوں کے لئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا ہے۔

 بینکوں کی جانب سے کھاتے داروں کو مناسب شرح سے منافع نہ دینے کی وجہ سے وطن عزیز میں بچتوں کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے قرضوں پر انحصار بڑھ رہا ہے۔ 2002-03ء میں مجموعی ملکی پیداوار کے تناسب سے قومی بچتوں کی شرح 20.3 فیصد تھی جو گر کر اب صرف تقریباً 14 فیصد رہ گئی ہے۔ یہ امر تشویشنا ک ہے کہ پاکستان میں بچتوں کی شرح بنگلہ دیش ،سری لنکا ،بھارت اور انڈونیشیا وغیرہ کی شرح سے نصف ہے۔ منصوبہ بندی کے وفاقی سیکرٹری نے تسلیم کیا ہے کہ انسانی وسائل کی ترقی کے اہداف حاصل نہ کرنے کی ایک وجہ قومی بچتوں کا کم سطح پر ہونا ہے۔ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے لئے تعلیم ،صحت اور انسانی فلاح وبہبود کے منصوبوں پر زیادو رقوم مختص کرنا اب انتہائی ضروری ہے۔ اس کے لئے بینکوں کی اصلاح، ٹیکسوں کے نظام کو منصفانہ بنانا اور کرپشن پر قابو پانا نیشنل ایکشن پلان کا لازمی حصہ ہونا چاہئے وگرنہ آپریشن ضرب عضب کے اہداف حاصل نہیں ہو سکیں گے۔

 سندھ اور پنجاب میں بینکوں کی تمام شاخوں کا 2014ء میں بینکوں کے مجموعی ڈپازٹس میں حصہ 76 فیصد اور قرضوں میں حصہ 91 فیصد تھا اس کے مقابلے میں بلوچستان میں بینکوں کی برانچوں کا ڈپازٹس میں حصہ ۔ 0.62 فیصد اور قرضوں میں حصہ 0.067 تھا یعنی نہ ہونے کے برابر۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کی کامیابی کے لئے اسٹیٹ بینک کو بلوچستان میں بڑے پیمانے پر مائیکرو فنانس کے لئے فوری طور پر بینکوں کو اہداف دینا ہوں گے۔
مزید گزارشات انشاءاللہ آئندہ

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی 

بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ

یورپ پناہ گزینوں کی توجہ کا مرکزکیوں؟

$
0
0

شام کے مقتل میں ساڑھے چار برسوں کے دوران خون کی ندیاں بہ چکیں، چارلاکھ لوگ لقمہ اجل بن گئے اور ملک کی نصف سے زائد آبادی گھربار چھوڑ چکی توانسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے کسی نئے انسانی المیے کی بار بارنشاندہی بھی مگرعالمی جرگے داروں کی توجہ صرف دولت اسلامی "داعش"نامی ایک پراسرار جن کو بوتل میں بند کرنے پرمرکوز رہی۔ بہت کم کسی کی توجہ ان ایک کروڑوں شامی شہریوں کی طرف گئی جو خانہ جنگی اور اقتدار کی رسہ کشی کی چکیوں میں پستے ہوئے گھربار چھوڑکرملک سے نکلنے کے بعد سمندروں، جزیروں اور دوسرے ملکوں کی سرحدوں پربے یارو مددگارکھڑے ہاتف غیبی کوپکار رہے تھے۔

تُرکی کے ساحل پرنقل مکانی کے دوران حادثے میں جاں بحق ہونے والے شامی بچےایلان کردی کی تصویرنے وہ کام کر دکھایا جو انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے بار بار کے واویلے سے بھی نہیں ہو پایا تھا۔ یورپ کی سرحدوں، جزیروں اور سمندورں میں پھنسے ہزاروں شامی اور فلسطینی پناہ گزینوں کی محفوظ مقامات پر منتقلی کی راہ ہموار ہوئی مگر کیا اس سے لاکھوں پناہ گزینوں کے مسئلے کا حل نکل آئے گا؟۔

شام اور یورپ کے درمیان ہزاروں میل کی مسافت ہے، مگر شام کے لٹے پٹے مہاجرین اپنی جانوں پر کھیل کرپوری ملکوں کی طرف نقل مکانی کیوں کررہے ہیں؟ اس کے کئی اسباب بیان کیے جاتے ہیں۔ ایک اہم سبب خلیجی اور دوسرے عرب ملکوں کی طرف سے شامی پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے بند کرنا ہے۔ خلیجی ملک شامی مہاجرین کو اپنے ہاں آنے سے کیوں روک رہے ہیں، اس کے بعض ٹھوس اسباب ہیں، ناقدین کی ان اسباب کی طرف نظر کم ہی جاتی ہے۔

سعودی عرب میں اس وقت کئی ملکوں کے لاکھوں شہری تارکین وطن کے طورپر رہ رہے ہیں۔ان میں شام تیسرا بڑا ملک ہے جس کے پانچ لاکھ باشندے سعودیہ میں پناہ گزین ہیں۔ یمن میں جنگ چھڑنے کے بعد 10 لاکھ یمنی متاثرین سعودی عرب داخل ہوئے تو سعودی حکومت نے انہیں ویزوں اور سفری دستاویزات کے بغیراپنے ہاں قیام و طعام کی سہولت مہیا کی۔ خلیجی ریاستوں میں سلطنت آف اومان میں بھی شامی اور یمنی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ بحرین داخلی شورش کی بناء پرغیرملکیوں کو اپنے ہاں آنے کی خاص حوصلہ افزائی نہیں کرپایا۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے حسب ضرورت شامی پناہ گزینوں کی مدد کی جا رہی ہے۔ شام میں خانہ جنگی کے بعد سیکڑوں پناہ گزین'یو اے ای'جا چکے ہیں۔ اس کے بعد خلیجی ممالک پر شامی پناہ گزینوں کے لیے دروازے بند کرنے کا اعتراض بلا جواز معلوم ہو تا ہے۔

مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ خلیجی ملکوں اور شام کے درمیان ماضی کی تلخ یادیں بھی شامی باشندوں کو ان عرب ملکوں سے دور کرنے کا موجب ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ شامی پناہ گزینوں کے خلیجی ملکوں میں اندھا دھند داخل ہونے سے وہاں پر سیکیورٹی کے سنگین مسائل بھی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، لیکن اس سب کے باوجود خلیجی حکومتوں نے شامی پناہ گزینوں کے مسئلے کے حل کے لیے عالمی اداروں سے تعاون میں کوئی کسرنہیں اٹھا رکھی۔

شام سے یورپ کی طرف نقل مکانی کی ایک وجہ ترکی ہے۔ اقوام متحدہ کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ شامی پناہ گزینوں کا سب سے بڑا بوجھ اس وقت ترکی نے اٹھا رکھا ہے۔ ترکی میں شامی پناہ گزینوں کی تعداد 16 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ سنہ 2014ء کے آخرمیں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے بحالی پناہ گزین"یو این ایچ سی آر"نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ دنیا بھر میں جاری خانہ جنگیوں کے پچھلے ایک سال کے دوران یومیہ 42 ہزار 500 افراد بے گھر ہوتے رہے ہیں۔ نقل مکانی کرنے والوں کی 86 فی صد تعداد ترقی یافتہ ملکوں کے بجائے ترقی پذیر ممالک پر بوجھ بنتی رہی۔ سنہ 2014.2015ء کے دوران ترکی 15 لاکھ 90 ہزار شامی پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والا سب سے بڑا ملک قرار پایا تھا۔
عالمی ادارے کے جاری کردہ اعداد و شمار اس اعتبار سے اور بھی لرزہ خیز ہیں کہ پچھلے سال شام سے نقل مکانی کرنے والے کل افراد میں 51 فی صد 18 سال سے کم عمرکےلوگوں پر مشتمل ہے اور بین الاقوامی قوانین کی رو سے یہ تمام افراد بچوں میں شمار ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے چار سال کےدوران ایک کروڑ 39 لاکھ لوگ جنگوں کے نتیجے میں اپنے گھر بار، شہر یا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے جب کہ پچھلے ایک عشرے میں مجموعی طورپر 51 ملین انسان بے گھر ہوچکے ہیں۔ شورش کا شکار ملکوں میں 38 ملین افراد "آئی ڈی پیز"کی شکل میں اپنے ہی ملکوں میں در بہ درکی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔

شام میں آئی ڈی پیز کی تعداد 70 لاکھ 60 ہزار، جمہوریہ کانگو میں 28 لاکھ، وسطی افریقا میں چار لاکھ 38 ہزار، جنوبی سوڈان میں 15 ملین،افغانستان میں 8 لاکھ ، مالی میں ایک لاکھ 55 ہزار، یمن میں پانچ لاکھ اور پاکستان میں آئی ڈی پیز کی تعداد آٹھ سے دس لاکھ کے درمیان بتائی جاتی ہے۔

ابتدائی سطور میں شامی پناہ گزینوں کی یورپ منتقلی کا تذکرہ ہوا۔ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر سمندر جیسے نہایت پرخطر راستوں سے یورپی ملکوں کو سفر شامی پناہ گزینوں کا خواب کیون بنتا جا رہا ہے۔ ماہرین اس کے بھی کچھ اسباب بتاتےہیں۔ لٹے پٹے شامیوں کا واسطہ ترکی اور پڑوسی ملکوں میں ان ہزاروں انسانی اسمگلروں سے پڑتا رہا ہے جوانہیں روشن مستقبل کا خواب دکھا دکھا کر یورپ لے جانے کی راہ ہموار کرتے رہے ہیں۔ جرمنی، اٹلی، یونان اور دوسرے ملکوں میں لاکھوں پناہ گزینوں کو سمویا جاسکتا ہے مگر کیا ان ملکوں کے پاس لاکھوں پناہ گزینوں کا بوجھ سہارنے کی گنجائش ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ جواب طلب ہے کیونکہ یونان حال ہی میں ایک خطرناک معاشی حادثے کے بعد یورپی ملکوں کی بیساکھیوں پر کھڑا ہونے کی دوبارہ کوشش کررہا ہے۔ جرمنی بھی معاشی بحران سے گذر رہا ہے۔

یعض یورپی تجزیہ نگار نوجوان پناہ گزینوں کی آمد کوان ملکوں کی معیشت کے لیے خوش کن خیال کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پناہ گزینوں کی شکل میں انہیں سستی لیبر حاصل ہوگی اور ابتری کا شکار صنعت کو بار دگرسہارا دینے کا موقع ملے گا۔ یہ تاثر کافی حد تک درست بھی ہے کیونکہ کئی یورپی ملکوں نے اب شامی پناہ گزینوں کو اپنے ہاں پناہ دینے کا فیصلہ بھی کرلیا ہے۔ اس فیصلے کی بنیاد انسانی ہمدردی کم اپنے معاشی فوائد زیادہ ہیں۔ یورپی مبصرین اپنے حکومتوں کو یہ تجاویز دے چکےہیں کہ وہ دوسرے ملکوں کے نوجوانوں، لیبر اور ہنرمندوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو اپنے ہاں کام کا موقع دے ورنہ معاشی دیوالیہ پن صرف یونان یا جرمنی تک محدود نہیں رہے گا۔

مگر تمام یورپی ملکوں کا شامی پناہ گزینوں کےحوالے سے نقطہ نظریکساں نہیں۔ ہنگری، فرانس اور اٹلی جیسے ملکوں کا خیال ہے کہ شام سے آنےوالے پناہ گزین چونکہ مسلمان ہیں، اس لیے یورپی ملکوں میں عیسائی آبادی کا توازن بگڑ سکتا ہے۔ ہنگری کی شدت پسند حکومت نے تودوسرے ملکوں سے متصل اپنی سرحد پر خار دار باڑ لگانا شروع کر رکھی تاکہ شامی پناہ گزین ہنگری میں داخل نہ ہو سکیں۔

اسرائیل بھی خوش

یورپ کی طرف نقل مکانی کرنے والے لاکھوں پناہ گزینوں میں ایک بڑی تعداد شام میں مقیم ان فلسطینی مہاجرین کی بھی شامل ہے جو پچھلے کئی عشروں سے پناہ گزین کے طورپر وہاں رہ رہے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کی یورپ کی طرف نقل مکانی پر اسرائیل بھی خوش ہے کیونکہ شام سے ھجرت کرنے والوں میں ہزاروں فلسطینی پناہ گزین بھی شامل ہیں۔ اگر یہ فلسطینی یورپی ملکوں میں اقامت اختیار کرتے ہیں۔ انہیں وہاں نسبتا اچھا معیار زندگی ملتا ہے تو ان کے دیکھا دیکھی اردن اور لبنان میں مقیم فلسطینی پناہ گزین بھی یورپ کا رخ کریں گے۔ اس طرح مسئلہ فلسطین کے ساتھ ساتھ لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کی وطن واپسی اور دوبارہ فلسطینی علاقوں میں آباد کاری کا مطالبہ ساقط ہوجائے گا۔ اگر یہ تاثر درست ہےتو اس کے مسئلہ فلسطین پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں

عبدالقیوم فہمید

شکریہ جسٹس خواجہ

$
0
0

سپریم کورٹ کے حالیہ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے جاتے جاتے تاریخ رقم کر دی۔ تقریباًدس سال سے سپریم کورٹ میں زیر التواء ایک پٹیشن پر اردو زبان کو سرکاری اداروں میں نافذ کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔سپریم کورٹ میں اس طرح کی عوامی فلاح سے متعلق بہت سی درخواستیں سال ہا سال زیرِ التوا رہتی ہیں۔ وجہ تسمیہ اسکی یہ ہوتی ہے کہ ایسی درخواستیں میرٹ پر تو درست ہوتی ہیں لیکن کسی نہ کسی طرح ان پر فیصلہ سنانا عملی طور پر مشکل ہوتا ہے، سو ایسی درخواستوں کیلئے سال ہا سال اور بعض اوقات غیر معینہ مدت کیلئے زیرِ التواء رہنا ہی مناسب خیال کیا جاتا ہے۔ اگر قریب دس سال پرانی ایسی درخواست پر فیصلہ سنایا گیا ہے تو اس کا کریڈٹ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی، جسٹس دوست محمد پر مشتمل بنچ کو جاتا ہے۔

درخواست گزار کوکب اقبال ایڈووکیٹ کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا جانا چاہئے کہ انہوں نے سپریم کورٹ میںاردو زبان کے نفاذ کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل کی خلاف ورزی کے خلاف سپریم کورٹ میں یہ درخواست دی۔ حسنِ اتفاق ہے کہ میں نے وکالت کے آغاز میںلاہور کی مشہور لاء فرم میں پارٹ ٹائم انٹرن شپ کی جس میں جسٹس جواد ایس خواجہ کبھی پارٹنر ہوا کرتے تھے۔انہی دنوں میں سول سروس اکیڈمی میں زیر تربیت تھا لیکن کچھ وکالت کا جنون تھا اور کچھ افتادِ طبع کا کمال کہ طبعیت سول سروس کے’’ تقاضوں ‘‘کیلئے موزوں نہیںتھی، سو سول سروس کی تربیت کے دوران ہی حامد خان صاحب جواس لاء فرم کے سینئر پارٹنر تھے ، سے انٹرن شپ کی درخواست کی۔ حامد خان صاحب سے انہی دنوں سے احترام کا رشتہ قائم ہوا، جو آج دن تک قائم ہے۔
فرم میں مجھے اعجاز الحسن صاحب کے ساتھ انٹرن شپ کا موقع ملا جو آجکل لاہور ہائی کورٹ کے قابل جج صاحبان میں شمار ہوتے ہیں۔ سی ایل ایم میں جسٹس جواد ایس خواجہ کا ذکر ِ خیر ہوتا رہتا تھا، وہ روایتی طور پر وکالت کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے وکیل تھے ۔ وکالت کی اشرافیہ سے میری مراد یہ ہے کہ کھاتے پیتے گھرانوں کے نوجوان امریکہ یا برطانیہ سے ڈگری لیکر آتے ہیں ، اچھی لاء فرم میں کام کرتے ہیں ، پھر اعلیٰ عدلیہ کا حصہ بن جاتے ہیں یا پھر اپنی بڑی بڑی فرمز بنا لیتے ہیں جو کروڑوں روپے کماتی ہیں۔ اس وکیل اشرافیہ کی چند ایک خصوصیات ہیں جن سے اختلاف یا احتراز ناقابلِ قبول تصور کیا جاتا ہے۔ ان خصوصیات میں مغربی لباس یعنی پینٹ کوٹ، مغربی طور طریقے اور کلچر، اور انگریزی زبان شامل ہیں ۔ وکالت کی اشرافیہ میں ان خصوصیات کو اپنانا مذہبی فریضے کے برابر تصور کیا جاتا ہے ۔اسی طرح جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، بلوچستان کے چیف جسٹس بننے سے پہلے پاکستان کی ایک بڑی کامیاب لاء فرم کے پارٹنر تھے۔

اتفاق کی بات ہے کہ جب وہ جج بنے میں انکی فرم کے اسلام آباد آفس سے وکالت کا باقاعدہ آغاز کر چکا تھا۔ وہاں بھی وکیل اشرافیہ کی ان خصوصیات پر سختی سے عمل ہوتا تھا۔۔کہتے ہیںدنیا گول ہے! اپنے کوکب اقبال ایڈووکیٹ صاحب سے تو اسلام آبادبار کے حوالے سے ایک تعلق خاطر ہے ، جب سے معلوم ہوا کہ اردو کو نافذ کرنے کی درخواست انہوں نے دائر کر رکھی ہے تو ان سے کئی ملاقاتیں کیںاور انکا شکریہ ادا کیا۔

 چند روز پہلے جب سپریم کورٹ نے اردو زبان کو نافذ کرنے کا تاریخی فیصلہ دیا تو میں حیرت کا بُت بنا رہا کہ کوکب اقبال کی عوامی بہبود کی ایک گم گشتہ درخواست پر جسٹس خواجہ اور جسٹس عیسیٰ جیسے انگریزی دان جج صاحبان نے تاریخی فیصلہ رقم کر دیا۔ اس کیس کی پچھلی تاریخ کے موقع پر میں عدالت میں موجود تھا ، تو جسٹس جواد خود اس بات کا اظہار کر رہے تھے کہ وہ تو انگریزی زبان میں پلے بڑھے، لیکن اردو زبان کا نفاذ کسی کی ذاتی پسندیا نا پسند کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ آئین کا حکم ہے۔

اردو زبان کے نفاذ کی کوششوں میں کچھ تھوڑا بہت حصہ بندہ ناچیز کا بھی ہے اسی طرح اس کوشش میں ایک بڑا حصہ روزنامہ جنگ کا بھی ہے جس نے اردو زبان کے نفاذ کے لئے بہت سے کالموں کیلئے اپنا فورم مہیا کیا۔ انہی کالموں کی بدولت قومی زبان تحریک سے تعارف ہوا جسکی بہت فعال رکن فاطمہ قمرمسلسل رابطے میں رہتی ہیں ۔ قومی زبان تحریک نے پاکستان میں قومی زبان کے نفاذ کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے ۔ اس تحریک کی اردو کے نفاذ کیلئے کوششوں کو سراہنا بھی از حد ضروری ہے۔خیر سپریم کورٹ نے تو اپنا فرض ادا کر دیا اب اردو کے نفاذ کو ایک اور دریا عبور کرنا ہے وہ اس حکم پر عمل درآمد کا ہے۔ جیسا کہ قرائین بتاتے ہیں اس فیصلے پر عمل درآمد آسان نہیں ہوگا۔

میری دانست میں اس فیصلے پر عمل درآمد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سول اور ملٹری بیوروکریسی کی جانب سے آئے گی۔ یہ دونوں ادارے پاکستان کے سب سے مضبوط اور منظم ادارے ہیں لیکن یہ آزادی کے اڑسٹھ سال گزرنے کے باوجود برٹش راج کی روایات سے بہت مضبوطی سے جُڑے ہوئے ہیں۔ انگریزی زبان کے ساتھ انکی محبت بلکہ عادت بہت پکی ہے۔ انگریزی زبان بولنے کا جو لطف ہمارے سول و ملٹری بیوروکریسی سے تعلق رکھنے والے حضرات لیتے ہیں ، خودانگریز کبھی خواب میں بھی نہیں لے سکتے۔انکے لئے انگریزی زبان ایک روایت ہے ، ایک جنون ہے ، ایک باعث تفاخر چیز ہے ، جو انہیں باقی پاکستانیوں سے برتر بناتی ہے۔

انکے لئے انگریزی زبان کو ترک کردینا ایسے ہی ہے جیسے کسی جادوگر سے اسکا گُر چھین لیا جائے۔ پھر اردو کے نفاذ کے خلاف مزاحمت وکالت کی اشرافیہ اور اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے بھی آئے گی۔ کیونکہ یہاں بھی انگریزی زبان کا درجہ بیوروکریسی سے مختلف نہیں ، بلکہ یہاں تو انگریزی زبان سخت مسابقت کے ماحول میں پیشہ ورانہ برتری کا ذریعہ بھی ہے۔لیکن اسکے باوجود ہمارے ہاں انگریزی زبان پر مہارت کا جوحال ہے ، وہ قابلِ رحم ہے۔ اپنے تئیں انگریز ی زبان کے زعم میں مبتلا یہی اشرافیہ کے لوگ جس طرح انگریزی زبان کی ٹانگ توڑنے میں مصروف ہوتے ہیں اس پر گریہ کی ایک الگ داستان ہے ۔ جسٹس خواجہ نے بھی اس کیس کی سماعت کے دوران یہ آبزرویشن دی،کہ وہ توکرسی عدالت پر بیٹھے ہوئے بڑوں بڑوں کی ’’انگریزی دانی‘‘ کا مظاہرہ دیکھتے رہتے ہیں۔

قومی ترقی اور عوام کی زندگی میں بہتری اور آسانی کے حوالے سے البتہ اس فیصلے کو سنہری فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں انگریزی زبان کے نفاذ نے قومی ترقی کو جیسے جکڑ کر رکھا ہوا ہے کیونکہ نوے پچانوے فیصد آبادی کو روزمرہ سرکاری اور عدالتی امور کیلئے ایک ایسی بدیسی زبان سے واسطہ ہے جسے وہ نہ پڑھ سکتے ہیں، نہ لکھ سکتے ہیں ، نہ سمجھ سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اگر یہ کہا جائے کہ انگریزی زبان کو مسلط کئے رکھنے کی ضد نے نوے پچانوے فیصد پاکستانیوں کی روز مرہ زندگی کو اجیرن کر رکھا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اگر سارے قوانین معیاری اور آسان فہم اردو میں ترجمہ کردئیے جائیں، انگریزی زبان میں درج قوانین کو ختم کر دیا جائے اور ساری دفتری اور عدالتی کارروائی اردو زبان میں لازم کر دی جائے تو عوامی ترقی کا انقلاب برپا ہو سکتا ہے ۔

اردو وہ واحد زبان ہے جو پاکستان کے کونے کونے میں پڑھی ، لکھی اور سمجھی جاتی ہے۔ حتی کہ ان پڑھ شخص بھی اردو زبان سمجھ اور بول سکتاہے۔ آپ خیبر سے لیکر کراچی تک اور گلگت بلتستان سے لیکر گوادر تک کہیں بھی چلے جائیں قومی زبان کو ہر جگہ باہمی رابطے کی زبان  کا درجہ حاصل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں جسٹس خواجہ سابق چیف جسٹس بن چکے ہوں لیکن قومی احیاء کی بنیاد رکھنے والے اس فیصلے کی وجہ سے اپنی قوم سے محبت کرنے والوں کو ان کی خدمات ہمیشہ یاد رہیں گی۔

عدنان رندھاوا 

بہ شکریہ روزنامہ جنگ 

نیوز ویک کی تشویش

$
0
0

امریکی جریدے نیوز ویک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے بارے میں خدشہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے یہ دونوں ملک جوہری جنگ کے دہانے پر پہنچ سکتے ہیں اور اس ممکنہ منظرنامے کے بعد امریکا کی زمینی فوج کا اس صورت حال سے الگ تھلگ رہنا تقریباً ناممکن ہو گا۔

نیوز ویک نے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک ایٹمی تصادم جنوبی ایشیا کے لیے بربادی، عالمی معیشت کے لیے تباہ کن اور کرہ ارض کے لیے انتہائی خطرناک ہو گا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا حقیقی امکان آج بھی موجود ہے۔ پاکستان کی 5 لاکھ 50 ہزار فوج عددی حجم کے حوالے سے اس وقت دنیا میں چوتھے نمبر پر اور بھارت کی 11 لاکھ 50 ہزار فوج دوسرے نمبر پر ہے۔
نیوز ویک کا شمار امریکا کے انتہائی اہم اور بااثر جریدوں میں ہوتا ہے اس پس منظر میں نیوز ویک کے خدشات کو بے بنیاد نہیں کہا جا سکتا۔ 

بدقسمتی یہ ہے کہ امریکا سمیت مغربی ملکوں کا میڈیا دنیا کو لاحق اس خطرے کی نشان دہی تو کرتا ہے لیکن اس حوالے سے یہ رائے دینے سے گریزاں رہتا ہے کہ دنیا کو ایٹمی جنگ سے دوچار کرنے والا ملک بھارت ہے یا پاکستان؟ نیوز ویک سمیت پورا مغربی میڈیا اچھی طرح جانتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ہی دونوں ملکوں کے درمیان ایک ایسا مسئلہ ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ کا باعث بن سکتا ہے اور مغربی میڈیا اور مغربی ملک کشمیر کی تاریخ ہی نہیں بلکہ کشمیر کی موجودہ صورت حال سے بھی بخوبی واقف ہیں۔

مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے جانے والا ملک بھارت ہی ہے اور اقوام متحدہ نے اس مسئلے کا حل یہ بتایا کہ کشمیر میں رائے شماری کروائی جائے۔ پاکستان اور کشمیری عوام اقوام متحدہ کی اس قرارداد کو ماننے کے لیے روز اول سے تیار ہیں لیکن خود بھارت اس قرارداد کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ آج مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے جھنڈے لہرا رہے ہیں اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں کیا نیوز ویک مغربی میڈیا اور مغربی ممالک ان حقائق سے ناواقف ہیں؟
اس کرہ ارض کی بدقسمتی یہ ہے کہ بڑے ملک حق اور سچ کا ساتھ دینے کے بجائے اپنے قومی مفادات کے نام پر زبان بند کیے بیٹھے رہتے ہیں۔ نیوز ویک میں ایٹمی جنگ سے جنوبی ایشیا اور کرہ ارض کی تباہی کی پیش گوئی تو کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر ایسی صورت حال پیدا ہوئی تو امریکا خاموش نہیں بیٹھ سکتا، لیکن اس خطرناک صورتحال کے پیدا کرنے والے ملک کو یہ مشورہ نہیں دیتے کہ اس خطرناک صورتحال کے پیدا کرنے والے مسئلے، مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔ نیوز ویک یہ بھی کہتا ہے کہ ایسی صورت حال پیدا ہو جائے تو امریکا کی زمینی فوج کا اس صورت حال سے الگ تھلگ رہنا ممکن نہیں۔ یعنی امریکا کی زمینی فوج کو برصغیر میں مداخلت کرنا پڑے گی۔

چین پاکستان کا حقیقی دوست ہے، دوسری بات یہ ہے کہ چین کسی صورت میں امریکا کی زمینی فوج کو اپنی سرحدوں پر برداشت نہیں کرے گا۔ کیا نیوز ویک کے قابل صحافیوں کو اس حقیقت کا علم نہیں؟ بدقسمتی یہ ہے کہ بڑی طاقتوں کے مفادات نے ان کے حکمرانوں کے منہ پر مصلحتوں کے ٹپ لگا دیے ہیں۔
وہ ایٹمی جنگ کے خطرات کو تو محسوس کر رہے ہیں لیکن اس ہیبت ناک جنگ کے حقیقی اسباب کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں۔

 ماضی میں بھی برصغیر کے یہ دونوں متحارب ملک ایٹمی جنگ کے قریب پہنچ چکے تھے اور آج یہ علاقہ جس صورت حال سے دو چار ہے اس کے پیش نظر نیوز ویک کے خطرات کو فرض یا اندیشہ ہائے دور دراز نہیں کہا جا سکتا۔ پاکستانی فوج مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ماضی کے مقابلے میں زیادہ حساس ہے لائن آف کنٹرول پر روز روز کی مداخلت، جانی اور مالی نقصان اس سلگتی آگ پر تیل کا کام کر رہا ہے۔

جنگیں اچانک نہیں پھوٹ پڑتیں اس کے لیے معقول اسباب پیدا ہوتے ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر آئے دن کی مداخلت جانی اور مالی نقصانات کیا دونوں ملکوں کو امن کی طرف لے جا رہے ہیں یا جنگ کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ کیا دونوں ملکوں کی قیادت اس سے ناواقف ہے؟

جنگ کے حقیقی خطرات میں اضافہ اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ آج کل بھارت میں ایک ایسی مذہبی انتہاپسند جماعت برسر اقتدار ہے جس کا منشور ہی مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینا ہے۔ مودی حکومت بھارت کی پہلی حکومت ہے جو بھارتی دستور سے اس شق ہی کو نکالنے کے لیے پر تول رہی ہے جو کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتی ہے۔ اگر مودی حکومت اس سمت میں کوئی پیش رفت کرتی ہے تو پھر کشمیر میں ایک ایسی آگ لگ جائے گی جو دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ کے حقیقی خطرات پیدا کر دے گی۔

پاکستان کے فہمیدہ حلقے کشمیر کے مسئلے کو مذہبی حوالے سے نہیں دیکھتے بلکہ کشمیری عوام کے حق خود ارادی اور خطے میں پائیدار امن کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان کے اہل فکر اور اہل دانش اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ان دونوں پسماندہ ملکوں میں 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور اس کا ایک اہم سبب مسئلہ کشمیر ہے، دونوں ملک اسی مسئلے کی وجہ سے اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاع پر خرچ کر رہے ہیں۔ اگر دفاع پر خرچ ہونے والے اس بھاری سرمائے کو بچا لیا جائے تو برصغیر سے غربت بڑی حد تک کم ہو سکتی ہے۔

اس حوالے سے سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ بھارت کے اہل علم، اہل دانش، اہل قلم مسئلہ کشمیر کے حوالے سے نریندر مودی بنے ہوئے ہیں۔ بھارت کے کسی گوشے سے یہ آواز اٹھتی ہوئی نظر نہیں آتی کہ برصغیر جنوبی ایشیا کی پسماندگی اور دنیا کے امن کے حوالے سے مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل کیا جائے۔ کشمیر کوئی ترقی یافتہ صنعتی علاقہ نہیں ہے یہ ایک انتہائی پسماندہ علاقہ ہے جس پر بھارت کو ایک بھاری امداد خرچ کرنی پڑ رہی ہے۔

اس کے علاوہ کشمیر میں رکھی ہوئی 7 لاکھ بھارتی فوج کا بے تحاشا خرچ بھی بھارت کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ کیا بھارت کے مفکر، اہل دانش، اہل قلم اس حوالے سے خود بھارت کے نفع نقصان پر غور کرنے کی زحمت کرتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب بھارتی مفکرین اہل دانش اہل قلم کو دینا ہو گا۔

ظہیر اختر بیدری

بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس 

جمہوریت کو بدنام کون کررہا ہے؟

$
0
0

جمہوریت کو بدنام کون کررہا ہے…خاکی یا سویلین؟ پاکستانی سیاست اور سیکورٹی کی صورت ِحال نے ملک میں سویلین حکومت کے حامی افراد کو سول ملٹری توازن کی الجھن میں ڈال دیا ہے۔ کیا یہ طاقتور بیان یہ کہ سیاست دان کم ظرف، لالچی اور نااہل ہونے کی وجہ سے ملک کو مشکلات کے گرداب سے نکالنے کے اہل نہیں، آگے بڑھانے پر وردی پوشوں پر تنقید کی جائے یا پھر سیاست دانوں کو مورد ِ الزام ٹھہرایا جائے کہ وہ خود تو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں مگن ہیں جبکہ اُنھوں نے زمام ِ اختیار دفاعی اداروں کے ہاتھ میں دے رکھی ہے، اس لئے اس بیانیے کو تقویت ملی ہے؟

 جب میڈیا دکھاتا ہے کہ دفاعی اداروں کے جوان سیلاب میں گھرے ہوئے افراد کو بچا رہے ہیں جبکہ ملک کے حکمران غیرملکی دوروں پرہوتے ہیں تو کیا ہماری پیشانی شکن آلود ہونی چاہئے؟ کیا ہمیں خاکی وردی والوں پر آگ بگولہ ہوجانا چاہئے کہ دہشت گردی یا قدرتی آفات کے موقع پر اُن کی فعالیت عوامی جذبات کی عکاسی کرتی ہے جبکہ سیاست دان چارو ناچار اُن کے پیچھے چلتے دکھائی ہیں؟

ایک ایسے ملک، جس میں آرمی چیف ہی حتمی جج، جیوری اور سزادینے والے ہوں اوروہ اُن افراد کی سزائے موت کی توثیق کررہے ہوں جنہیں اُن کے جوانوں نے گرفتار کیا تھا اور فوجی عدالت نے سزاسنائی ہو، میں انسانی حقوق اورامن وامان کی صورت ِحال پر کیا کہا جائے؟ لیکن یہ طاقت حاصل کرنے پر برافروختہ کیوں ہوا جائے؟ کیا سیاست دانوں نے متفقہ طور پر منظور کی جانے والی آئینی ترامیم کے ذریعے فوج کو یہ اختیارات نہیں دئیے؟ کیا جج حضرات پر غصے کا اظہار کیا جائے کہ عدلیہ کی آزادی کی بات کرتے کرتے ہوئے اُنھوں نے فوجی ججوں کو سویلینز کے مقدمات کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا؟

ہم نے موت کی کوٹھری سے صولت مرزا کی خونی کہانی سنی تھی جس کے مطابق ایم کیو ایم کی قیادت تشدد اور جرائم میں ملوث ہے۔ ہم نے جے آئی ٹیز میں بہت سے ٹارگٹ کلرز کے اعترافات سنے جنہیں سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔ کراچی خوفناک اور ہلاکت خیز سیاسی اور جرائم پیشہ مافیاز کے پنجوں میں لہولہان دکھائی دیتا ہے۔ بلدیہ ٹائون فیکٹری آتش زدگی میں سینکڑوں ملازمین جھلس کراس لئے ہلاک ہوئے کہ فیکٹری کے مالک طلب کیے گئے بھتے کی رقم میں قدرے تخفیف چاہتے تھے۔

 ایک اسپتال کے بارے میں بتایا گیا جہاں سیاسی مخالفین کو مہلک انجکشن لگا کر موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا۔ کیا یہ تمام مواد خود ساختہ ہے؟ ہم نے لوٹ مار اور بدعنوانی کی کہانیاں سنیں۔ ہمیں پتہ چلا کہ سرکاری عہدے فروخت ہوتے ہیں، تھانوں کی نیلامی کی کہانیاں دیومالائی افسانے نہیں، یہ زیادہ بولی دینے والے ایس ایچ او کو دیدئیے جاتے ہیں جو اُنہیں ایک نفع بخش کمپنی کی طرح چلاتا ہے۔ حال ہی میں ہیلری کلنٹن کی ای میلز سے انکشاف ہوا کہ ایک امریکی سفارت کار صدر زرداری کو قائل کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ وہ سیلاب سے متاثر ہونیوالے پاکستانیوں پر زیادہ توجہ دیں۔ کیا یہ ای میلز کسی کی خودساختہ ہیں؟

تاہم پی پی پی اور ایم کیو ایم چاہتے ہیں کہ ہم یقین کرلیں کہ اُن کے رہنمائوں کی گرفتاری انتقامی کارروائی ہے۔ کیا ان دونوں جماعتوں کے گھنائونے افعال پر چلنے والی احتساب کی تلوار کو اس لئے میان میں ڈال دیا جائے کہ اس سے جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی؟ کراچی آپریشن کے حوالے سے سویلین کی بدعنوانی کا احتساب کرنے کے عمل میں یہ کہہ کر رکاوٹ ڈالی جاتی ہے کہ نیب اور ایف آئی اے کی سندھ حکومت کی اجازت کے بغیر صوبے میں کارروائیاں آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔ 
اٹھارویں ترمیم کے بعد دہرائی جانے والی بہت سی چیزیں حذف کردینے کے باوجود کریمنل لا اور کریمنل پروسیجر کا اسٹیٹس وہی ہے جو آئین کے آرٹیکل 142 میں درج ہے۔ اس کے مطابق اگر کسی جگہ پر صوبائی اور وفاقی قانون میں کشمکش دکھائی دے تو وفاقی قانون کو فوقیت دی جائے گی۔ وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹی پارلیمنٹ جو قانون سازی کا اختیار رکھتی ہے، کی وجہ سے بہت بااختیار ہے۔ ایف آئی اے اور نیب وفاقی قوانین کے تحت کام کرتے ہیں۔

 اُنہیں تحقیقات کرنے کیلئے کسی وزیر اعلیٰ سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں (اور نہ ہی وزیر ِاعظم سے)۔ ا س حوالے سے دلیل یہ دی جاتی ہے کہ سیاست دانوں کا سیاسی احتساب ہونا چاہئے، قانونی نہیں۔ یہ دلیل درست نہیں اور نہ ہی دنیا کا کوئی جمہوری نظام اسے قبول کرے گا۔ اگرایسا ہوتا تو دنیا بھر کے منتخب شدہ نمائندے قانونی احتساب سے مستثنیٰ ہوتے۔ صرف پاکستان ہی نہیں، دنیا میں ہر جگہ سیاست ایک گندا کھیل ہے۔ دوسری طرف افواج کا دامن صاف رہتا ہے تاوقت یکہ وہ کسی ملک پر آمریت مسلط کرتے ہوئے سیاستدانوں کے اکھاڑے میں قدم رکھ دیں۔

ایسا کرتے ہوئے اُنہیں سیاسی دائو پیچ آزمانے پڑتے ہیں۔ فوجی ملک کیلئے لڑتے ہیں یا قدرتی آفات میں عوام کی مدد کرتے ہیں، چنانچہ اُن سے ہر ملک میں محبت کی جاتی ہے۔ دوسری طرف سیاست دانوں نے قانون سازی، محصولات جمع کرنے اور عوامی وسائل کو استعمال کرنے کے منصوبے بنانے ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان کا عوامی غصے کا نشانہ بننا فطری امر ہے۔ پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ یہاں سیاست دانوں اور فوجیوں کا موازنہ کرتے ہوئے اُنہیں ایک دوسرے کا متبادل فرض کیا جاتا ہے۔ عوام کے نزدیک آرمی چیف ملک کے وزیر اعظم کا متبادل ہوتا ہے۔ دوسری طرف فوج بھی اپنی ذمہ داری کی انجام دہی میں اپنے بارے میں قائم عوامی رائے کو ملحوظ ِخاطر رکھتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سول ملٹری (عدم) توازن کا مسئلہ سر اٹھاتا ہے۔

 کراچی آپریشن میں فوج کے پاس تنظیمی ڈھانچہ اور خود مختاری ہونے کی وجہ سےوہ اپنی مرضی سے جہاںچا ہے دہشت گردی اور جرائم پر ہاتھ ڈال سکتی ہے۔ یہ صورت ِحال ایسی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جنھوں نے دہشت گردی اور تشدد کو فروغ دیا۔ اب صرف فوج ہی اس جن کو واپس بوتل میں ڈال سکتی ہے۔ تاہم ایک ایسے ملک میں جہاں یادداشت کی وسعت محدود، بلکہ من پسند ہو اورفوج عوامی بیانیے اور واقعات کے تاریخی پس ِ منظر پر اتھارٹی رکھتی ہو، اس کیلئے خود کو قوم کے نجات دہندے کے طور پر پیش کرنا زیادہ مشکل نہیں۔ جب بھی سیاست دانوں میں کسی پر رینجرز انسداد دہشت گردی قانون کے تحت ہاتھ ڈالتی ہے تو قنوطی سوچ رکھنے والوں کو امڈتے ہوئے خدشات کا دریا دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس تمام ماحول میں ایک بات فراموش کردی جاتی ہے کہ فوجی کی فعالیت اس کے نظم، تنظیم اور کام کی نوعیت کی وجہ سے ہے۔

 آپ جنرل شریف صاحب کو وزیر ِ اعظم بنادیں تو اُن کی مقبولیت کا گراف گرنے لگے گا۔ جب تک فوج دہشت گردی اور دہشت گردی میں استعمال ہونے والے کالے دھن کا تعاقب کرتی ہے، یہ کامیاب ہے، لیکن جس گھڑی یہ سیاسی گند کو صاف کرنے کا بیڑا اٹھائے گی، یہ خود کو مشکلات کے گرداب میں پائے گی۔ اس وقت فوج کی وجہ سے پاکستان انتہا پسندی اور تشدد کی کھائی میں گرنے سے بچ گیا، تاہم یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ۔ کراچی میں منظم جرائم کے خاتمے کی کوشش جاری تو پنجاب میں فرقہ واریت کی بنیاد پر ہونے والی دہشت گردی پر ہاتھ ڈالا جارہا ہے۔ اس دوران عوام میں احتساب کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ فوج نے بھی اپنے کچھ اعلیٰ افسران کو سزادی ہے۔ 

 اس وقت نیب اور ایف آئی اے بھی گہرے خواب سے جاگتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ اس وقت پاکستان ایک ایسی صورت حال کو دیکھنے جارہا ہے جس میں یہ اتفاق ِرائے پایا جاتا ہے کہ اشرافیہ چاہے کتنی ہی طاقتور ہو، ان کی غلط کاری کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ یہ وہ بہترین چیز ہے جس کا پاکستان کو انتظار تھا۔ جو سیاسی جماعتیں جمہوریت کے نام پر اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کریں، وہ کسی ہمدردی کی محتاج نہیں۔ تاہم ابھرنے والی اس تبدیلی کی لہر میں ایک چیز ہی پریشان کن ہے ، وہ یہ کہ فوج ایک غالب قوت کے طور پر فعالیت دکھارہی ہے۔اس وقت وہ ایک قدم پیچھے رہ کر پردے کی اوٹ سے اپنی طاقت کا اظہار کررہی ہے۔ یہ پردہ ختم کردیں تو وہ عوام کی نظروں کے سامنے سیاسی اکھاڑے میں ہوگی اور اس کا زوال شروع ہوجائے گا۔

بابر ستار

بہ شکریہ روزنامہ  جنگ


تعلیم کی تجارت ،سنگین دہشت گردی

$
0
0

مذہبی مدارس اور حکومت کے مابین مذاکرات کے پس منظر میں میں اپنی معروضات پیش کر رہا ہوں۔

سب سے پہلے دینی مدارس کے مثبت کردار کی پہچان ا ور ستائش ضروری ہے۔ بغداد،قرطبہ اور بخارا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بر صغیر میں دویو بند، جامعہ اسلامیہ حقانیہ، جامعہ اشرفیہ، جامع المنتظر،جامعہ سلفیہ نے تعلیم و تحقیق کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔ ابن خلدون ، اب الہیثم، ابن سینا، رازی ، طبری ، بخاری اور سینکڑوں علما ، فقہا، محدثین، مفکرین، مصلحین انہی اداروں کے فارغ التحصیل تھے، مجدد الف ثانی نے بھی کسی ایسے ہی ادارے میں زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا۔ امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل، امام شافعی اور دیگر ائمہ کرام و عظام نے جو تحقیقی کام کر دکھایا، اس کی نظیر کوئی اور پیش نہیں کر سکا۔

موجودہ ور کے دینی ادارے صدقات، خیرات، زکوات کی بنیاد پر سرگرم عمل ہیں۔ یہ قومی خزانے پر بوجھ نہیں ہیں،نہ لوگوں کی جیب پر ڈاکہ مارتے ہیں، یہ طالب علموں کا تمام خرچہ برداشت کرتے ہیں، تعلیم کا بھی، کتابوں کا بھی، کھانے  پینے ،پہننے کا بھی ا ور رہائش کا بھی۔

اگر ان کے بعض طالب علم دہشت گردی میں ملوث ہوئے ہیں اور ان کا ثبوت اور ڈیٹا حکومت کے پاس موجود ہے تو اس رجحان کا ضرور تدارک ہونا چاہئے مگر غیر ملکی دباﺅ پر تمام دینی مدارس کے پیچھے اندھا دھند لٹھ لے کر چل پڑنا شاید سود مند ثابت نہیں ہو گا۔

دینی مدرسوں پر بڑا الزام یا شک یہ ہے کہ یہ غیر ملکی امداد لیتے ہیں۔ اور انہی طاقتوں کے ایجنڈے کی پیروی کرتے ہیں۔
حکومت اس وقت انہی خطوط پر دینی مدارس سے ہم کلام ہے، اس مکالمے کے نتائج ضرور برا ٓمد ہونے چاہئیں۔

مگر دینی مدارس کے مقابلے میں ہمارے سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے سرطان سے زیادہ مہلک ہیں۔ سرکاری اداروں میں اسٹاف ہی نہیں ، اسٹاف ہے تو طالب علم نہیں اور دونوںہیں تو تعلیم نہیں۔ ابھی تک ہم گھوسٹ اسکولوں کا مسئلہ حل نہیں کرسکے، فرضی اسکولوں کے نام پر سرکاری افسران قومی خزانہ ڈکار رہے ہیں۔
نجی تعلیمی ادارے تو زیادہ تر تعلیم کے نام پر کلینک کا ٹیکہ ہیں ، یہ فیسیں بٹورنے کے کارخانے ہیں۔ نام بڑے بڑے اور فیسیں بھی بڑی بڑی۔ کچی جماعت کی فیس اٹھارہ سے بیس ہزار روپے سے شروع ہوتی ہے۔ کس کی سکت ہے کہ یہ فیس ادا کرے اور درجہ بدرجہ یہ فیس لاکھوں کے ہندسے تک پہنچ جاتی ہے۔ کوئی خاندان ایسے بھی ہوں گے جو حق حلا ل کی کمائی سے یہ سرمایہ کاری کر لیتے ہوں گے مگر زیادہ تر ماں باپ ان اخراجات کے لئے ناجائز ہتھکنڈوں کے لئے مجبور ہیں،۔ پھر بھی آپ کیلکولیٹر پکڑیں اور حساب لگائیں کہ اس سیکٹر میں جس قدر سرمایہ انڈیلا جا رہا ہے ، کیا اس کا اجر بھی معاشرے کو اسی شرح سے ملتا ہے۔

لاہور میں اغوا برائے تاوان کی پہلی واردات ہوئی۔ اس میں ایک ٹیکسٹائل ٹائیکون کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس واردات میں کون ملوث تھا۔ کیا دینی مدرسوں کا کوئی طالب علم یا جدید روشنی سے بہرہ مندنجی اداروں اورپبلک اسکولوں کے ہونہار؟
ہر سرکاری دفتر میں چھوٹے اہل کار سے لے کر بڑے سے بڑے افسر تک کرپشن کا بازار گرم ہے، یہ لوگ کن تعلیمی اداروں کے چشم و چراغ ہیں، کیا جامعہ حقانیہ  جامعہ اشرفیہ یا جامعہ سلفیہ یا جامعہ المنتظر کا کوئی طالب علم کلرک بھرتی ہو سکتا ہے یا سی ایس پی اور پی سی ا یس کا امتحان پاس کر سکتا ہے۔ 

اگر جواب ناں میں ہے تو پھر دینی مدارس نشانے پر کیوں ہیں۔نیب کے مقدمے کس کے خلاف ہیں، رینجرز کن عناصر کے تعاقب میں ہے۔ بھتے خوری، ٹارگٹ کلنگ اور قبضہ مافیا میں پیش پیش کون ہے۔را کا پیسہ کن کو ملتا ہے۔ ان عناصر کے پاس دینی مدرسوں کی سندیں ہیں یا سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے سرٹی فیکیٹ۔
نیت کیا ہے، محدود مقصد کی تکمیل ، یعنی امن کا قیام یا مستقل منصوبے بندی کاارادہ ہے۔جو کہ ہونا چاہئے۔

ایک طرف ایچی سن اسکول، نتھیا گلی اسکول، بہاولپور اسکول، دوسری طرف کیڈٹ اسکول، تیسری طرف انگلش میڈیم اسکول اور یہ بھی طرح طرح کے نام سے، ان میں سے کسی کی ایک برانچ کھولنے کے لئے لاکھوں کا بھتہ دینا پڑتا ہے۔ تیسری طرف غیر ملکی کالجوں اور یونیورسٹیوں کی اصلی یا جعلی شاخیں۔
ان تمام اداروں میں نہ نصاب یکساں ہے، نہ فیس یکساں ہے ، نہ ان کے فارغ التحصیل ہونے والوں کا مستقبل یکساں ہے، ان میں سے کتنے لوگ ڈاکو بنتے ہیں، کتنے ٹاﺅٹ بن کر پیٹ پالنے پر مجبو ہیں، کتنے ماڈل ایان علی کی طرح پھیرے باز بنتے ہیں یا بنتی ہیں۔ کتنے اچھی تنخواہ نہ ملنے کیو جہ سے غیر ممالک میں ہجرت پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

تعلیم کے نام پر ا س ملک میں وسیع پیمانے پرتجارت ہو رہی ہے، صرف دینی مدرسے ہی غیر ملکی امداد نہیںکھا تے، اعلی تریں تعلیمی ادارے بھی یونیسیف سے لے کر گورڈن براﺅن فنڈ تک کو چاٹ رہے ہیں۔لاکھوں ڈونرز ادارے دنیا میں موجود ہیں جو اپنے تئیں تعلیم کے فروغ کے لئے پیسہ دیتے ہیں مگر یہ پیسہ تعلیمی سیٹھ ہڑپ کر جاتے ہیں، معاشرے میں تعلیم کی شرح میں ایک فی صد اضافہ نہیں ہوا۔ بے روز گاری بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ ہے تعلیم کے شعبے کی زبوں حالی اور ہم دینی مدارس کو ملنے والی امداد کو رو رہے ہیں۔ یہ رونا ضرور ہونا چاہئے، رونے دھونے کے سوا ہمارا کام اور کیا ہے۔

مگر دینی اداروں کی امداد کو بیورو کریسی کے تصرف میں دے دیا گیا تو اسکا حشر بھی وہی ہو گا جو اکثر غیر ملکی گرانٹوں کا ہوتا ہے کہ یہ پڑے پڑے گل سڑ جاتی ہیں، ان کی کسی کو بھنک تک نہیں لگنے دی جاتی۔ بالا کوٹ کا شہر2005کے زلزلے میں تباہ ہوا، اسی وقت سعودی عرب نے پیش کش کی کہ اسے متبادل زمین فراہم کر دی جائے ،وہ ا پنی نگرانی میں نیا شہر بسا کر دے گا، گیارہ برس گزر گئے ، صوبہ خیبر پختون خوا ہ کی سرکاری مشینری اس زمین کی نشاندہی تک نہیں کر سکی۔ یہ ہوتا ہے حشر سرکاری کنٹرول کا۔ سویت روس کیوں برباد ہوا، پاکستان میں بھٹو نے نجکاری کی، مگر سب کچھ ملبہ بن گیا، اتفاق فونڈری کو سرکار نے قبضے میں لیا مگر یہ اسکریپ میں تبدیل ہو گئی۔
اگر دینی مدارس کے بچے کھچے کردار کو بھی اسکریپ میں تبدیل کرنا ہے تو اسے افسر شاہی کے شکنجے میں کس دیا جائے۔

کوئی سرکاری یا نجی یونیورسٹی پورا قرآن ناظرہ سولہ برس میں بھی نہیں پڑھاتی مگر اسکول جانے سے پہلے محلے کی مسجد کا مولوی پورا قرآن پڑھادیتا ہے۔ کیا یہ قصور ہے دینی مدرسے کا۔

میں نے پہلی میں داخلے سے پہلے مسجد میں پورا قرآن پڑھا۔ اللہ مولی عبداللہ صاحب کو جنت عطا فرمائے۔ انہوں نے ایک سو تک گنتی یاد کروائی ،سولہ تک پہاڑے بھی یاد کروائے۔ پھر میں مہالم کلاں کے اسکول میں داخلے کے لئے ماسٹر معروف کے سامنے پیش ہوا، انہوں نے پوچھا کچھ پڑھ سکتے ہو، میں نے کہا تھا کوئی بھی کتاب۔ یہ قرآن کی تعلیم کا اعجاز ہے۔ نوائے وقت اسلام ا ٓباد کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر جاوید صدیق گواہ ہیں۔ میں نے سن دو ہزار میں پینٹگان کے جرنیلوں سے کہا تھا کہ ہم سے قرآن نہ چھینو اور وہ یہی کچھ کر رہے ہیں بلکہ ہم سے کروا رہے ہیں۔

   اسد اللہ غالب

اہل شام کی ہجرت

$
0
0

آج اہل شام ہجرت پر مجبور ہیں۔ کل افغان بھی اسی طرح مجبور تھے۔ لوگ آخر ہجرت کیوں کرتے ہیں؟ ہجرت تاریخ کے بڑے المیوں کا ایک عنوان کیوں ہے؟
تاریخ کے اوراق پر ثبت ہونے والا ہر واقعہ سلسلہ واقعات کی ایک کڑی ہے۔ ان واقعات کے مابین ایک ربط ہوتا ہے۔ اگر کوئی یہ ربط دریافت کرسکے تو ایک تصور تاریخ وجود میں آتا ہے۔

 ممکن ہے یہ تصور غلط ہو لیکن اس میں کہ یہ کام بڑے لوگ کرتے ہیں۔ بصورت دیگر تبصرہ کرنے والے ہر واقعے کو منفرد جانتے اور تاریخی شعور سے دور رہتے ہیں۔ کارل مارکس ایک بڑا آدمی تھا۔ ہم اس کے تصور تاریخ سے، ادب کے ساتھ اختلاف کرتے ہیں لیکن اس کی بڑائی میں شبہ نہیں کرتے۔ اقبال بھی اس کے تصور تاریخ کو نہیں مانتے مگر مارکس کو مانتے ہیں۔ اس نے اپنے عہد کے واقعات کو ایک تسلسل میں دیکھا۔ ان کو ایک تعبیر کے تابع کیا۔ تاریخ کی اس تعبیر نے ریاست اور سماج کے مروجہ تصورات بدل ڈالے۔ آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں، جو اس تعبیر کو متعبر مانتے ہیں۔
بقا کی خواہش انسانی جبلت ہے۔ اس معاملے میں وہ دوسرے حیوانوں سے ممتاز نہیں۔ یہ خواہش اسے ہجرت پر مجبور کرتی ہے۔ اس کے ساتھ آزادی بھی اس کا جبلی مطالبہ ہے۔ زنجیر، جسم کو پہنائی جائے یا ذہن کو، انسان کبھی گوارا نہیں کرتا۔انسانی تاریخ میں ہجرتیں انہی دو مطالبات کے تحت ہوئی ہیں۔ مادی بقا یا آزادی۔ دریائوں کے کنارے انسانی آبادیوں کا وجود اسی لئے دکھائی دیتا ہے کہ پانی ہمیشہ زندگی کی علامت رہا ہے۔ لوگ زندگی کی تلاش میں دریائوں کے قریب آبسے۔ یوں انسانی تہذیب دریائوں کے کنارے آگے بڑھتی رہی، یہاں تک کہ انسانی ذہن نے دوسرے مقامات پر اپنی بقاء کا سامان تلاش کرلیا۔ دریائے سندھ کا بل کھاتا کنارہ بھی اسی تہذیب کی کہانی سناتا ہے۔

فکری اور ذہنی آزادی کے لئے مسلمانوں نے اپنے دور اول میں دو ہجرتیں کیں۔ ایک حبشہ کی جانب اور دوسری مدینہ کی طرف۔ مکہ میں جب اب کی فکری آزادی سلب کر لی گئی تو انہیں بادل نخواستہ اس شہر کو چھوڑنا پڑا۔ اللہ کے آخری رسول نے ہجرت کے وقت جو الفاظ ارشاد فرمائے، وہ ان کے داخلی کرب کا غیر معمولی اظہار تھا۔ ہجرت کے بعد جب مدینہ میں مسلمانوں کی ریاست وجود میں آگئی تو پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں جہاد کی اجازت دی۔ اس کی وجہ بھی بتائی کہ انہیں ناحق گھروں سے نکالا گیا، صرف اس جرم پر کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب کہتے تھے [الحج 22:39،40] اسلام نے ہر طرح کی آزادی کو انسان کا بنیادی حق قرار دیا۔ اس کے قانون آزمائش کی بنیاد ہی انسان کا یہ حق ہے۔ آخرت میں وہ سزا وجزا کا مستحق ہی اس آزادی کے باعث ہوگا۔اسلام اس معاملے میں اتنا حساس ہے کہ اس کے قانون جرم وسزا میں بھی لونڈیوں کے لئے آدھی سزا ہے کہ وہ اس حصار سے محروم ہوتی ہیں جو آزاد عورتوں کو میسر ہوتا ہے۔
امن ایک ایسی قدر ہے جو بقا کی ضمانت ہے۔ امن ہی سے روزگار کے مواقع میسر آتے ہیں۔ امن جبر سے نہیں آتا۔ امن خاموشی کا نام نہیں ہوتا۔ خاموشی تو قبرستان میں سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ امن موت اور بھوک کے خوف سے آزادی کا نام ہے۔ امن انسان کے حق آزادی کو تسلیم کرنا ہے۔ یہ آزادی جسمانی بھی ہے اور ذہنی بھی۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب میں اپنے ارد گرد لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ کشمیر اور افغانستان کے لوگون کو جبر سے آزادی دلانا چاہتے ہیں لیکن یہاں کسی کو فکری اور عملی آزادی کا حق دینے کے لئے تیار نہیں۔ اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ آزادی کے مفہوم سے واقف نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک کسی دوسرے کو تو جبر کا حق نہیں لیکن اگر انہیں اختیار مل جائے تو وہ جبر کا پورا حق رکھتے ہیں۔

شام کے لوگ یورپ کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ چالیس لاکھ دربدر ہوچکے ہیں۔ پانچ لاکھ کے قریب یورپ کی سرحدوں پر کھڑے ہیں۔ یورپی یونین نے رکن ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار پناہ گزینوں کو کوٹے کے تحت اپنے ہاں جگہ دے۔ ہنگری، سلواکیہ اور بعض دوسرے ممالک کے ساتھ، برطانیہ کو بھی اس سے اتفاق نہیں ہے۔ جرمنی البتہ ایک سال میں آٹھ لاکھ افراد کو پناہ دے رہا ہے۔ اس کے متنوع اسباب ہیں جو اس وقت میرا موضوع نہیں۔ ہنگری کا وزیر اعظم اس لئے اپنے ملک کے دروازے بند رکھنا چاہتا ہے کہ اس کے نزدیک، آنے والے مسلمانوں سے ہنگری کی مسیحی شناخت کو خطرہ ہے۔ 

اس کے برخلاف پوپ فرانسس نے یورپ کے کیتھولک اہل کلیسا سے کہا ہے کہ وہ مسیحی عبادت گاہوں کے دروازے مسلمان پناہ گزینوں کے لئے کھول دیں۔ عالمی سطح پر مذہب کا سیاسی کردار بھی آج میرا موضوع نہیں۔ اس لئے میں اس اس بات کو امر واقعہ کے طور پر بیان کرتے ہوئے، بنیادی سوال کی طرف لوٹتا ہوں کہ اہل شام کیوں گھروں سے نکل رہے ہیں؟ لوگ ہجرت کیوں کررہے ہیں؟ آج دنیا کے ہر آدمی کی یہ خواہش کیوںہے کہ وہ مغرب کے کسی ترقی یافتہ ملک کا شہری بن جائے؟ ہجرت کا رخ مغرب کی طرف کیوں ہے؟

میرا خیال ہے کہ مغرب نے بڑی حد تک وہ سماج قائم کردیا ہے جہاں امن کو بنیادی قدر کی حیثیت حاصل ہے۔ جہاں انسان کی جسمانی اور ذہنی آزادی کو بطور قدر مستحکم کردیا گیا ہے۔ وہاں انسان کو موت اور بھوک کے خوف سے ممکن حد تک آزاد کر دیا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہر آدمی کی ہجرت کا رخ آج مغرب کی طرف ہے۔ جب ہم مغربی معاشرے کی بات کرتے ہیں تو اس سے مغرب کے استعماری کردار کی نفی مقصود نہیں۔ یہ ایک بدیہی بات ہے۔

 اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج اگر شام اور کل افغانستان کے لوگ ہجرت پر مجبور ہوئے تو اس کی ذمہ داری امریکا اور مغرب پر ہے۔ مشرق وسطیٰ مین اگر کسی نے فساد کی بنیاد رکھی تو وہ برطانیہ اور امریکا ہیں۔ آج سوال اٹھتاہے کہ صدام حسین کا عراق زیادہ پرامن تھا یا آج کا عراق؟ قذافی کا لیبیا زیادہ پر امن تھا یا آج کا لیبیا؟ ان دونوں نے بھی انسانی آزادی کو سلب کیا۔ مغرب نے لیکن جو اس کا متبادل دیا وہ اس سے بھی بدتر ثابت ہوا۔

اس ہجرت کا ایک پہلو یہ ہے کہ مسلمان معاشرے اپنے شہریوں کو امن دے سکے نہ آزادی۔ انہیں موت کے خوف سے آزاد کر سکے نہ بھوک کے اندیشے سے۔ کہیں بادشاہتیں ہیں اور کہیں آمریتیں۔ جہاں ریاست جبر نہیں کرتی وہاں غیر ریاستی عناصر جبر کررہے ہیں۔ کوئی جان کے خوف سے ہجرت کررہا ہے اور کوئی بھوک کے خوف سے۔ بدامنی ہے اور فتنہ۔ فتنہ بمعنی مذہبی جبر جسے قرآن مجید نے قتل سے شدید تک قرار دیا ہے۔ شام میں مارچ 2011ء کے بعد سے اب تک، تین لاکھ بیس ہزار افراد مار ڈالے گئے۔

 ایک شخص اقتدار چھوڑنے کے لئے تیار نہیں اور دوسرے فساد کے ذریعے اسے ہٹانا چاہتے ہین۔ افسوس یہ ہے کہ ایک کا پشتی بان ایک مسلمان ملک ہے اور دوسرے کا حامی وناصر ایک دوسرا مسلمان ملک۔ مرنے بھی مسلمان ہیں۔ یمن اور لبنان میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ اس کےبعد اگر عام مسلمان اپنے آبائی ملکوں کو چھوڑ کر یورپ اور امریکا کے دروازے پر دستک دے رہا ہے تو اس کا سبب اس کی جبلت ہے۔

یہ واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ تاریخ میں ہجرت کیوں ہوتی ہے۔ یہ بات تب سمجھ میں آئے گی جب ہم یہ جانیں گے کہ تاریخ کے صفحات پر ثبت ہونے والا ہر واقعہ ایک سلسلہ واقعات کی کڑی ہے۔ اس سے آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ ہمارے ہاں ہر کوئی امریکا کو گالی دینے کے باجود امریکا ہی میں کیوں رہنا چاہتا ہے؟

خورشید ندیم

قابلِ معافی حرم زدگیاں....وسعت اللہ خان

$
0
0

اتنے ممالک میں اتنے لوگوں کو سزائے موت دینے کے باوجود یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ جن ممالک میں سزائے موت کا قانون موجود نہیں وہاں سنگین جرائم کا تناسب ان ممالک سے زیادہ ہے جہاں سزائے موت کا قانون موجود ہے۔ بہرحال مجھ جیسے لوگوں کی تقابلی پسند ناپسند کی ریاستی فہم و فراست کے آگے کیا اوقات۔

اگر سزائے موت اتنی ہی اچھی ہے تو پھر غدار ، قاتل ، ریپسٹ ، دہشت گرد اور منشیات کا اسمگلر ہی کیوں۔ان سے بھی زیادہ خوفناک مگر مچھ صرف اس لیے کیوں زندہ پھر رہے ہیں کیونکہ ان کے سنگین جرائم سزائے موت کی مروجہ قانونی فہرست و تشریح کے روایتی دائرے میں شامل نہیں۔ حالانکہ انھی سنگین جرائم کے مرتکبین کو دراصل ایک عادل معاشرے میں سب سے کڑی سزا کے دائرے میں ہونا چاہیے۔

مثلاً وہ فرد یا گروہ جو جعلی ادویات بناتا اور بیچتا اور کھلاتا ہے کسی منشیاتی اسمگلر سے کتنا مختلف ہے ؟ وہ شخص جو کوالیفائیڈ طبیب نہ ہونے کے باوجود بے شمار زندگیوں سے کھیلتا ہے جنہوں نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا۔ ایسا مجرم کسی بھی سیریل قاتل سے کس قدر مختلف ہے۔

اس ریسٹورنٹ کا مالک جو اپنی نہ ختم ہونے والی لالچ کا بلیک ہول بھرنے کے لیے مشکوک ، مضرِ صحت یا مردار گوشت مضرِ صحت مصالحوں اور تیل میں پکوا کر بے خبر گاہکوں کو معیاری اور صحت مند کھانے کا دھوکا دے کر من مانے پیسے وصول کرتا ہے اس میں اور کسی خاموش قاتل میں کیا فرق ہے۔

مسافروں سے بھری بس پر بم مارنے والے ایک دھشت گرد اور اس گوالے میں کیا فرق ہے جو خالص دودھ کے فریب میں گاہکوں کو وہ کیمیکل زدہ آمیزہ پلاتا ہے جو رفتہ رفتہ ان گنت شیر خواروں اور ان کے اہلِ خانہ کی زندگیاں سکیڑتا چلا جاتا ہے اور جو زندہ رہ جاتے ہیں، وہ طرح طرح کے سرطانوں یا جلدی و اندرونی امراض میں مبتلا زندہ لاش ہوجاتے ہیں  اور پھر ان ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جن میں سے بہت سے محض ایسی دوا ساز کمپنیوں کے دلال ہیں جن کا منشور ہی یہ ہے کہ جتنے امراض اور مریض بڑھیں گے، اتنی ہی چاندی ہو گی، اتنی ہی سی ٹی سکین مشینیں لگیں گی، اتنی ہی پیتھالوجیکل لیبارٹریز پھلیں پھولیں گی ، اتنے ہی جا بے جا آپریشن کرنے کو ملیں گے ، اتنے ہی پروموشنل ٹورز اور قیمتی تحائف کا ڈھیر لگے گا اور اتنا ہی دکھی انسانیت کا نام و کام روشن ہوتا چلا جائے گا۔

کسی کا گھر بارود سے اڑا دینے والے دشمن اور اس بلڈر میں کیا فرق ہے جو ’’ اپنا گھر پیارا گھر ’’کے نعرے پر ہر وہ خواب بیچتا ہے جس کی کوئی بھی بے گھر سفید پوش تمنا کر سکتا ہے اور پھر ایسا بلڈر اپنے شکار کو ریت اور مٹی کے وہ شاندار قید خانے منہ مانگی قیمت پر تھما دیتا ہے جو ایک اوسط درجے کے جھٹکے ، زلزلے یا طوفان کا تیسرا جھٹکا بھی برداشت نہیں کرپاتے اور خوابوں کے اس جعلی محل کے مکین اپنی ہی کمائی اور قرضوں سے خریدی گئی رہائشی قبر پر سر پکڑے بیٹھ جاتے ہیں۔

وہ عدالتی نظام جو جیل میں بند کسی بھی منتظرِ انصاف کو پندرہ ، بیس اور پچیس برس سلاخوں کے پیچھے رکھنے کے بعد ایک دن اچانک بے گناہی اور بریت کا مژدہ سنائے اور اس خرکار میں کیا فرق ہے جو بغرضِ تاوان و جبری مشقت سادہ لوح بے گناہوں کا خون چوسے اور آخر میں گنے کے پھوک جیسا ایک زندہ پنجر راستے پے پھینک دے۔

عام ٹارگٹ کلر تو اپنے بہیمانہ جرم کی سزائے موت پائے مگر پولیس مقابلوں کے نام پر ٹارگٹ کلنگ کرنے والا ریاستی شاباشی ، انعام و اکرام اور ترقی کا مستحق ٹھہرے۔گھر کے تمام بچوں اور خواتین کو رسوں سے باندھ کر پورا گھر صاف کرنے والا ، یا کنپٹی پر پستول رکھ کے کار چھیننے والا تو ڈاکو کہلائے مگر مالیاتی اداروں کو کروڑوں اربوں سے محروم کرنے اور پھر یہ کروڑوں اربوں رائٹ آف کروانے والے محسنینِ قوم ہونے کی داد سمیٹیں اور دو ارب کی شفاف ڈکیتی میں سے ایک ارب واپس کر کے اور معزز ہو جائیں۔

ناانصافی، استحصال اور ظالمانہ نظام کے خلاف ہتھیار اٹھانے والا تو غیر ملکی ایجنٹ ، وطن دشمن ، غدار اور دہشت گرد کہلائے اور سولی کا حقدار ہوجائے۔مگر ملکی اقتدارِ اعلی سینہ ٹھونک کر رہن رکھوانے والا ، آیندہ نسلوں کو گروی کروا کے خون چوس ساہوکاروں سے لیے گئے قرضوں کو آمدنی سمجھتے ہوئے حسب ِخواہش و منشا اڑانے والا یا قومی زیور کہلانے والے اداروں کو دادا جی کا مال سمجھ کر اونے پونے اپنے من پسند غیر ملکیوں یا ملکیوں کو بیچنے والا نجات دھندہ کا تمغہ پائے۔
دورِ انگریزی میں رواج تھا کہ جو جو برادریاں ، طبقات اور قبائل قابو میں نہ آتے یا انگریز بہادر کے خیال میں ان کا کردار مشکوک ہوتا ۔ ان سب کو اجتماعی بلیک لسٹ کر کے حقہ پانی بند کردیا جاتا۔ تاکہ وہ راہ راست پر آنے کی انگریزی تعریف پر پورے اترنے پر آمادہ ہوجائیں۔ مثلاً سندھ میں پوری حر جماعت دہشت گرد قرار پائی ، بلوچستان کا مری قبیلہ سالم باغی گردانا گیا۔ فاٹا کے کئی قبائل پر سیاہ نشان لگا دیا گیا ۔ میواتیوں کے بارے میں مشہور کیا گیا کہ میواتی ہو اور ڈاکو نہ ہو تو کیسا میواتی۔ روہیلے ناقابلِ اعتبار ٹھہرے۔ وسطی پنجاب میں ماجھے کے کئی قبائل کو رسہ گیری کا تمغہ پہنایا گیا ۔

دور بدلا تو کردار و انداز بھی بدل گئے۔ وہ دن گئے جب سیاست میں ایک گندی مچھلی کو باقی مچھلیوں سے الگ کرکے دیکھنے کا رواج تھا ۔ اب سیاست دان من حیث الطبقہ گھٹیا ، غبی، مشکوک اور بد دیانت بتائے جاتے ہیں ۔ مشکوک قبائل کی فہرست وقت کے ساتھ ساتھ گھٹنے کے بجائے اور لمبی ہو گئی۔ غیر ملکی ایجنٹوں کی تعداد راتوں رات دوگنی تگنی ہوگئی۔

مگر جن شخصیات و طبقات و تنظیموں اور اداروں نے ’’ سرِ تسلیم ِ خم کیا ہے، جو مزاجِ یار میں آئے ’’ کو اپنا منشورِ نجات بنا لیا ان کو سات خون ، سات غداریاں ، سات عوام دشمنیاں، سات جعلسازیاں، سات دو نمبریاں، سات مالی و اخلاقی بے اعتدالیاں اور سات بہت کچھ معاف ۔ ان کا ہر جرم خطا ، دوسروں کی ہر 

 خطا جرم۔۔۔

تین بار امریکی صدارت پے فائز رہنے والے فرینکلن ڈی روز ویلٹ سے جب یہ شکوہ کیا گیا کہ ویسے تو آپ کے دل میں سارے جہاں کا درد ہے لیکن نکاراگوا پر حکمران سموزا خاندان کی زیادتیاں اور سیاسی ، معاشی و انتظامی حرم زدگیاں آپ کو کیوں نظر نہیں آتیں۔روز ویلٹ نے بہت ایمانداری سے جواب دیا کہ یہ درست ہے کہ سموزا خاندان باسٹرڈ ہے مگر وہ ہمارا باسٹرڈ ہے۔

مشتاق یوسفی کے بقول حرام زدگی پیدائشی ہوتی ہے مگر حرم زدگی زورِ بازو سے کمائی جاتی ہے۔

آج کے لیے بس اتنا ہی۔ مجھے احساس ہے کہ میں کہیں سے کہیں نکل گیا لیکن میں اکیلا تو نہیں جو کہیں سے کہیں نکل گیا؟
 

موجودہ حکومت اور سائنسی ترقی

مسکراتے راحیل شریف کا خوف....وسعت اللہ خان

$
0
0

مصر کے جنرل عبدالفتح السیسی کو بطور چیف آف سٹاف کیا مقبولیت ملی ہوگی جو ان دنوں پاکستان میں جنرل راحیل شریف کو حاصل ہے۔
کراچی اور دیگر بڑے شہروں کے کچھ علاقوں کے ہر چوتھے کھمبے پر ہلتے پوسٹروں میں کہیں مکہ تان کے اور کہیں تانے بغیر جنرل صاحب ہر آنے جانے والے کی محبت کا مسکراتے ہوئے خیرمقدم کر رہے ہیں۔
کسی پوسٹر پر لکھا ہے ’تھینک یو راحیل شریف‘ تو کسی پر اہلیانِ شہر ان کے احسان مند ہیں۔

پاکستان میں روایت یہ رہی ہے کہ عموماً ایسے شکرانہ پوسٹروں پر ’منجانب فلاں فلاں‘ لکھا جاتا ہے اور پوسٹر میں ہیرو کے دائیں بائیں ’منجانب ‘ کی چھوٹی سی تصویر بھی کہیں نہ کہیں سے جھانک رہی ہوتی ہے۔
مگر راحیلی پوسٹروں میں نہ کسی ’منجانب‘ کا نام ہے نہ نشان۔ لگتا ہے نامعلوم محبِ وطن شہریوں نے خود کو بس ’اہلیان‘ لکھ کر صرف ایک مردِ آہن کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا ثواب کمانے کی نیت کی ہے۔

مگر خراِج تحسین و عقیدت کی دوڑ میں اہلیان ِ کراچی و دیگران اب بھی اہلِ سوات سے کوسوں پیچھے ہیں۔ جب 2009 میں بذریعہ آپریشن راہِ نجات سوات سے طالبان کا صفایا کر دیا گیا تو مینگورہ اور سیدو شریف کے ہر دروازے، ستون، پٹرول پمپ، گاڑی، ٹرک، سائیکل، بجلی کے کھمبے، دیوار حتیٰ کہ چپلی کباب تلنے والے کڑاہوں اور مرغیوں کے آہنی پنجروں کو بھی سبز و سفید کر دیا گیا۔
اس جوش و خروش میں جہاں جہاں سبز رنگ کم پڑ گیا وہاں جامنی رنگ سے پاکستان کا عبوری جھنڈا بنا دیا گیا۔

میں اس حب الوطنی اور شکر گزاری کے مناظر نمناک آنکھوں سے دیکھتا جا رہا تھا کہ ایک جگہ کسی کریانہ فروش سے پوچھ لیا کہ سوات کے عوام نے از خود زندہ پرچم بنایا ہے یا کسی نے کان میں مشورہ پھونکا تھا؟ مجھے دیکھے بغیر کہنے لگا: ’بس یہی سمجھ لو ہم نے خود کیا ہے۔ ابھی اور بھی کچھ پوچھےگا یا پھر ہم تسلی سے اپنا سودا بیچ لیوے۔ 
پاکستان میں ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف کے بطور صدر اور 65 اور 71 کی جنگوں کے شہدا کے پوسٹر تو بہت شائع ہوئے لیکن حاضر سروس جنرلوں کے پوسٹر شائع ہونا تازہ رجحان ہے۔

اس کی ابتدا غالباً دو برس پہلے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر السلام کے پوسٹروں سے ہوئی جب حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد جنرل صاحب کے خلاف جیو نیوز نیٹ ورک نے شدید ردِعمل دکھایا اور پھر اچانک جنرل ظہیر السلام سے اظہارِ یکجہتی کے بینر اور پوسٹرز کچھ مذہبی سیاسی جماعتوں کے جلوسوں میں اور پنڈی اسلام آباد کے کھمبوں پر پھڑپھڑانے لگے۔اب جنرل راحیل شریف کے پوسٹر جگہ جگہ نظر آ رہے ہیں۔

’بے ساختہ والہانہ محبت‘ کے ان تصویری مظاہروں سے اور تو کچھ نہیں ہو رہا، بس یہ ہو رہا ہے کہ اہلِ سیاست میں عدم تحفظ پہلے سے زیادہ ہوگیا ہے اور تاثر یہ پیدا ہو رہا ہے گویا ملک دو حصوں میں بٹ گیا ہے۔ ایک وہ جو کرپٹ ہیں اور دوسرے وہ جو کرپٹ نہیں۔

گذشتہ دو ہفتے میں ایسےسوالات بھی ڈرائنگ روم سے باہر نکل پڑے ہیں کہ سب خیریت تو ہے؟ سب اچھا تو ہے؟

یہ خیال بھی جڑ پکڑ رہا ہے کہ حالات کے جبر کے سبب سیاسی حکومت کی رٹ فوجی قیادت کی جانب کھسک چکی ہے اور مرکزی حکومت عملاً ’ہر میجسٹی دا کوین‘ ہوتی جارہی ہے۔گو حکمران جماعت اب بھی بضد ہے کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں مگر تصویر کچھ یوں ٹپائی دے رہی ہے کہ یہ ’ون پیج‘ جنرل صاحب کے ہاتھ میں ہے اور نواز شریف اس پیج پر انگلی رکھ کے کچھ پڑھنے کی اداکاری کر رہے ہیں۔
اس فضا میں وفاقی وزرا بھی خاصے ٹچی (اضافی حساس) ہو رہے ہیں۔ مثلاً جب عمران خان نے دو تین روز پہلے مطالبہ کیا کہ کراچی کی طرز پر پنجاب میں بھی رینجرز آپریشن کیا جائے تو وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی نے ترنت جواب دیا کہ رینجرز کو کراچی میں احتساب کے اختیارات نہیں دیے گئے اور ذاتی سیاست چمکانے کے لیے عمران خان کی طرف سے فوج اور رینجرز کو سیاسی معاملات میں مداخلت کی دعوت دینا جمہوری ڈھانچے کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔

اگر کسی سیاست دان نے پنجاب میں رینجرز کی مداخلت کا مطالبہ کیا بھی ہے تو اس مطالبے کا جواب وزیرِ اعلیٰ پنجاب یا ان کے معاونِ اعلیٰ رانا ثنا اللہ کو دینا چاہیے کہ وفاقِ پاکستان کے نمائندہ وزیرِ داخلہ کو؟
سوال یہ ہے کہ کیاسندھ اور اس کا دارالحکومت ترکی میں ہیں جہاں نیشنل ایکشن پلان کے تحت رینجرز کو احتساب کی غیر اعلانیہ اجازت ہے مگر پاکستان کے کسی اور صوبے میں نہیں؟

اور اگر کسی سیاست دان نے پنجاب میں رینجرز کی مداخلت کا مطالبہ کیا بھی ہے تو اس مطالبے کا جواب وزیرِ اعلیٰ پنجاب یا ان کے معاونِ اعلیٰ رانا ثنا اللہ کو دینا چاہیے کہ وفاقِ پاکستان کے نمائندہ وزیرِ داخلہ کو؟

پچھلے چند ماہ کے دوران فوج کے بڑھتے انتظامی و سیاسی اثر و رسوخ سے سول ملٹری تعلقات میں تناؤ کس قدر بڑھا، اس کا ایک ثبوت سیینٹ کے اندر ہونے والی بحث ہے جس کا اختتام کرتے ہوئے چیئرمین رضا ربانی نے کھل کر کہا کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر نہیں اور آئین کے اندر حکومت کی ماورائے قانون تبدیلی کی روک کےلیے آرٹیکل چھ سمیت جو رکاوٹیں شامل کی گئی تھیں وہ کمزور پڑتی جا رہی ہیں۔

موجودہ فوجی قیادت نے ماورائے آئین اقدامات کا کوئی عندیہ نہیں دیا، مگر جنھوں نے پہلے ٹیک اوور کیا انھوں نے کون سا پیشگی عندیہ دیا تھا؟
دودھ کے جلے اس تاریخی پس منظر والے ملک میں اگر فوج کے حاضر سروس سربراہ کی تصاویر بکثرت نمودار ہو جائیں اور الیکٹرونک اور سوشل میڈیا بھی تھینک یو راحیل شریف کے کورس میں شامل ہو جائے تو وہاں وہاں تھرتھلی تو بہرحال مچتی ہے جہاں جہاں مچنے کا حق ہے۔

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام

بڈھ بیرکا سبق

$
0
0

عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے محا ذ پر گزشتہ چند سال میں کچھ بنیادی تبدیلیاں آئیں جن کی وجہ سے حکومت کامیابی کے زعم میں مبتلا ہوگئی اور عوام نے سکھ کا سانس لیا۔ پہلی بڑی تبدیلی کا عامل ایبٹ آباد آپریشن بنا۔ چونکہ اسامہ بن لادن القاعدہ کے بانی سربراہ تھے اور چونکہ اس خطے میں جہادی فکر اور عسکریت پسندی کے حوالے سے ڈرائیونگ سیٹ پر القاعدہ بیٹھی تھی اور چونکہ پاکستانی عسکریت پسندوں کو روحانی، نظریاتی اور حکمت عملی کی غذ ا القاعدہ سے مل رہی تھی ، اسلئے جب اسامہ بن لادن کے مارے جانے کے بعد القاعدہ پاکستان و افغانستان سے عرب دنیا منتقل ہونے لگی تو اس کا اثر پاکستانی عسکریت پسندوں کے مورال اور سرگرمیوں پر بھی پڑا۔

 دوسری طرف خود عرب دنیا کے جہادی بھی القاعدہ اور داعش میں بٹ گئے۔ ماضی میں کبھی پاکستانی عسکریت پسندوں کی صفوں میں اختلافات ہوتے تو القاعدہ کے رہنما ، ان کو ختم کرتے۔ وہ مختلف قسم کے عناصر کے درمیان رابطہ کار کا کام بھی سرانجام دے رہے تھے۔ یوں اب جب پاکستانی عسکریت پسندوں میں آپس کے اختلافات نے جنم لیا تو یہ اختلافات ختم ہونے کی بجائے بڑھنے لگے کیونکہ ان کو ختم کرانے کے لئے افغان طالبان ماضی کی طرح فعال رہے اور نہ القاعدہ کے رہنما میدان میں آئے ۔
بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود کے ادوار میں تحریک طالبان پاکستان کی مرکزیت قائم تھی اور کراچی سے لے کر گلگت بلتستان تک کے طالبان کو ایک نظم میں لایا گیا تھا۔ ملا فضل اللہ چونکہ تحریک طالبان کے پہلے غیرقبائلی امیر تھے اور وہ وزیرستان کو مرکز بنا کر پورے ملک کی سطح پر اپنے کنٹرول کو یقینی نہ بناسکے ۔ وزیرستان میں ولی الرحمان گروپ ، حکیم اللہ محسود کی زندگی میں علیحدہ ہوگیا تھا۔ ملا فضل اللہ کے امیر بن جانے کے بعد وہ گروپنگ مزید بڑھ گئی ۔ اسی طرح مہمند ایجنسی کے طالبان نے عبدالولی عرف عمر خالد خراسانی کی قیادت میں تحریک طالبان (جماعت الاحرار) کے نام سے الگ نظام بنا دیا اور ملک کے کئی حصوں سے کئی دیگر طالبان بھی ان کے ساتھ وابستہ ہوگئے ۔

 اورکزئی ایجنسی کے حافظ سعید اور شاہد اللہ شاہد داعش میں چلے گئے ۔ پنجاب طالبان کے امیر عصمت اللہ معاویہ جو پڑھے لکھے جہادی اور پنجاب یا شمالی علاقہ جات میں گہرے اثرورسوخ کے حامل تھے ، کی حکومت کے ساتھ مفاہمت ہوگئی ۔ اس وجہ سے بھی سیکورٹی فورسز کا کام نسبتاً آسان ہوگیا اور طالبان کا مشکل ہوگیا۔

ریاست کے خلاف لڑنے والے عناصر جو مذہبی بنیادوں ، لسانی بنیادوں اور سیاسی بنیادوں پر ہتھیار اٹھا لیںا پھر غیرملکی قوتوں کے اشارے سے تزویراتی بنیادوں پر، کہیں نہ کہیں ایک دوسرے کے معاون بن ہی جاتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک چونکہ ریاست اور ریاستی اداروں سے لڑ رہا ہوتا ہے اور ریاست کی کمزوری سب کا ہدف ہوا کرتا ہے ، اسلئے حتمی مقصد سب کا ایک ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ا نکے مقاصد الگ الگ ہوں تو بھی ریاستی اداروں کیلئے سب ایک جیسی پریشانی کا باعث بنتے ہیں لیکن پاکستان میں تو باقاعدہ طور پر قبائلی علاقوں، بلوچستان اور کراچی کے عسکریت پسندوں کے درمیان تعاون کا سلسلہ جاری رہا ۔

گزشتہ کچھ عرصے سے چونکہ پاکستان میں کارروائیاں کرنے والے عسکریت پسندوں اور قانون شکنوں کیخلاف کراچی سے لیکر خیبرایجنسی تک اور بلوچستان سے لے کر وزیرستان تک بیک وقت آپریشن ہورہے ہیں ، اس لئے عسکریت پسندوں کیلئے ایک جگہ سے فرار ہوکر دوسری جگہ جانے یا پھر ایک گروپ سے نکل کر دوسرے میں پناہ لینے کا موقع نہیں رہا۔ اسی طرح چونکہ پہلی مرتبہ شہروں میں بھی انٹیلی جنس کی بنیاد پر پکڑ دھکڑ ہوئی تو نتیجتاً ماضی کے مقابلے میں یہ عناصر زیادہ کمزور ہوئے ۔ 

ایک اور وجہ عسکریت پسندوں کی غیرملکی سپورٹ میں کمی ہے ۔ کراچی کے عسکریت پسندوںکو ہندوستان اور مغربی ممالک سے شہہ مل رہی ہے۔ اسی طرح بلوچ اور تحریک طالبان کے بعض عناصرنے افغانستان میں پناہ لی تھی ۔ گزشتہ سال کے دوران چونکہ افغانستان سے بھی تعلقات بہتر ہوگئے تھے اور مغربی ممالک کے ساتھ بھی ان معاملات کو پوری قوت کے ساتھ اٹھایا گیا۔ اس لئے بھی ان لوگوں کا مورال گرنے لگا اور جہاں ایک طرف بلوچ عسکریت پسندوں نے مفاہمت کے اشارے دئیے ، وہاں کراچی کے عسکریت پسند بھی مدافعانہ پوزیشن لینے پر مجبور ہوگئے ۔ ایک اور بڑا عامل یہ بنا کہ سال گزشتہ کے دوران چونکہ افغانستان میں پورا سیاسی نقشہ بدل رہا تھا اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد تما م اہم کردار اپنی اپنی پوزیشن بدل رہے تھے ، اس لئے مختلف قوتیں اور ان کے پراکسیز بھی نئے رول کی تلاش میں انتظار کررہے تھے یا پھر نیا لائحہ عمل بنارہے تھے ۔

ان سب عوامل ، آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے بعض جزیات پر عمل کی وجہ سے پاکستان میں حالات نسبتاً بہتر ہوئے اور نہ صرف حکومتی ترجمان مونچھوں کو تائو دے کر بلند بانگ دعوے کرنے لگے بلکہ کریڈٹ لینے کا جھگڑا بھی شروع ہوا۔ دفاعی ادارے سیاست کی اصلاح کی فکر کرنے لگ گئے جبکہ میڈیا نے حسب عادت ریٹنگ کی ڈرامہ بازی شروع کردی لیکن اب بڈھ بیر حملے سے یقینا سب کو پتہ چل گیا ہوگا کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا دعویٰ محض دعویٰ ہے ۔ جڑوں سے تب اکھاڑ پھینکا جاسکے گا کہ جب دہشت گردی کی جڑوں اور روٹ کازز کی طرف توجہ دی جائے گی۔

روٹ کازز میں سیاسی اور تزویراتی مقاصد کے لئے مذہب کا استعمال ، تضادات پر مبنی خارجہ پالیسی ، سول ملٹری ہم آہنگی کا فقدان ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ اداروں کے درمیان کوآرڈنیشن کا فقدان ، سیاست، خارجہ پالیسی اور مذہبی حوالوں سے جوابی بیانیہ کی عدم موجودگی جیسی چیزیں شامل ہیں اور جب تک ان روٹ کازز کا حل قومی سطح پر مکمل قومی ہم آہنگی اور یکسوئی کے ساتھ نکالا نہیں جاتا ، تب تک صرف ملٹری آپریشنوں یا فوجی عدالتوں کے ذریعے پاکستان کو پرامن بنانے کا تصور کرنا حماقت ہے ۔

 ملک میں جنگی فضا کے ہوتے ہوئے ایک اور طرح کے جہادیوں اور جنگجوئوں کا خاتمہ مکمل طور پر کیسے ممکن ہے ؟۔ ایک طرف پاکستان میں طالبان کی طرح جہاد و قتال اور ریاست کے تصور پر یقین رکھنے والے عناصر ہمارے ہاں حسب سابق پیدا ہورہے ہیں اور اس طرح کے عناصر کے تخلیق کار ہمارے ہاں ریاستی سطح پر عزت و توقیر کے مستحق سمجھے جاتے ہیں تو دوسری طرف ہم یہ کوشش کررہے ہیں کہ تخلیق کا یکسر خاتمہ کرلیں۔

وہ لوگ جنہیں ہماری ریاست نے اس راستے پر لگایا اور جو اس وقت ہماری ریاست کو چیلنج کررہے ہیں کو مین ا سٹریم میں لانے کے لئے کوئی منصوبہ بھی نہیں بنایا جارہا اور ہم جیسا کوئی عاجز جب اس کی تجویز دے تو اسے القابات سے نوازا جاتا ہے لیکن دوسری طرف ان کی تخلیق بھی بند نہیں کررہے ہیں اور توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ ان لوگوں کو ہم مکمل طور پر محض آپریشنوں کے ذریعے ختم کردینگے ۔ ہم افغانستان کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھارہے ہیں ۔ اس وقت بھی روزانہ تیس سے پچاس ہزار لوگ بغیر ویزے اور پاسپورٹ کے پاک افغان سرحد کراس کررہے ہیں اور توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ افغانستان کے انتشار سے ہم محفوظ رہ سکیں گے ؟

نہ جانے یہ بات ہمیں کب سمجھ آئے گی کہ افغانستان میں امن اس وقت افغانستان سے زیادہ پاکستان کی ضرورت ہے ۔ افغانستان ایک تباہ حال ملک بن چکا ہے ۔ وہ عالمی اور علاقائی قوتوں کی چرا گاہ بن چکا ہے ۔ اس کی سیاست ابھی بچپنے کے دور سے گزررہی ہے اور اس کے ادارے ابھی مستحکم نہیں ہیں ۔ اسلئے یہ توقع لگانا کہ پہلے افغان حکومت یہ یہ کرے گی تو پھر ہم اس کیلئے وہ وہ کریں گے ، مدبرانہ اپروچ ہر گز نہیں ۔ افغان حکومت غلطیاں کرتی رہے لیکن ہمیں بہر صورت وہاں امن لانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ کیونکہ جب تک وہاں استحکام نہیں آتا، پاکستان میں استحکام نہیں آسکتا اور جب تک وہاں پر عسکریت پسندی اور خانہ جنگی کا دور دورہ ہوگا، پاکستان میں بھی ایسا ہوتا رہے گا۔

سلیم صافی

بہ شکریہ روزنامہ  جنگ

تعلیم تماشا جاری ہے....وسعت اللہ خان

$
0
0

پاکستان کے آئین میں ہر بچے کو میٹرک تک لازمی اور مفت تعلیم کی ضمانت دی گئی ہے۔ مگر آئین کا کیا۔ اس میں تو اقلیتوں کو بھی مذہبی آزادی اور تبلیغ کی اجازت دی گئی ہے اور ماورائے قانون حکومت کی تبدیلی کی سزا بھی دی گئی ہے۔ تو پھر کیوں نہ آئین کو طاق میں رکھ کے زمینی حقائق پر بات ہو جائے۔
جب تک ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے انیس سو بہتر میں نجی تعلیمی اداروں کو قومیانے کا فیصلہ نہیں کیا تب تک پاکستان میں تعلیم اور زر کا اٹوٹ انگ قائم نہیں ہوا تھا۔ ملک کی زیادہ تر آبادی سرکاری اسکولوں کے پھیلے ہوئے مربوط جال سے واقف تھی جہاں والدین بچے کو لے جا کے داخل کروا دیتے اور بے فکر ہو جاتے۔

اساتذہ بھی قلیل مشاہرے کے باوجود اتنے باشعور نہیں ہوئے تھے کہ کلاسیں لینے کے بجائے انکریمنٹس، تبادلوں اور تنخواہوں میں اضافے کے تصور میں غلطاں رہیں اور اس کے لیے جلوس نکالیں، دھرنے اور الٹی میٹم دیں۔ تب تک بچوں کی تعلیم اور اخلاقیات پر توجہ کے سوا باقی ذاتی مسائل ثانوی تھے۔ تب تک کسی ایسے اسکول کا بھی تصور نہیں تھا جس میں کھیلنے کودنے کے لیے کم از کم ایک گراؤنڈ نہ ہو۔ تب تک سرکاری اسکولوں کے علاوہ اگر چرچا تھا تو کرسچین مشنری اسکولوں، مخئیر صنعت کاروں کے قائم کردہ فلاحی اسکولوں، مذہبی مدارس اور چند این جی اوز کے اسکولوں کا۔

پھر ہوا یوں کہ جیسے جیسے سرکاری ارسطو تعلیم جیسے بورنگ شعبے سے اکتاتے چلے گئے توں توں خلا پر کرنے کے لیے نجی شعبہ آگے آتا گیا۔ بھٹو صاحب کے دور میں ہی نجی شعبے نے اس یقین دہانی کے بعد کچھ سرمایہ کاری کی جرات کی کہ جو اسکول قومیایا لیے گئے ان کے بعد اب کوئی نیا اسکول نہیں قومیا جائے گا۔
چنانچہ انیس سو پچھتر میں بیکن ہاؤس اسکول سسٹم قائم ہوا۔ جب ضیا حکومت نے بھٹو صاحب کے ڈی نیشنلائزیشن کے عمل کو منسوخ کرنا شروع کیا اور کئی تعلیمی ادارے پرانے مالکان کو واپس کیے گئے تو نجی شعبے کو مزید ڈھارس ہوئی اور انیس سو اٹہتر میں سٹی اسکول سسٹم، انیس سو بیاسی میں فوجی ایجوکیشن سسٹم، انیس سو پچاسی میں لاہور اسکول آف مینجمنٹ سائنسز اور پنجاب گروپ آف کالجز، انیس سو اٹھاسی میں روٹس اسکول سسٹم اور پھر دارِ ارقم، الائیڈ اسکولز، آرمی پبلک اسکولز اور چل سو چل۔۔۔

پچھلے پندرہ برس میں عالم یہ ہوا کہ کمرشل پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی تعداد میں ستر فیصد اور سرکاری و فلاحی تعلیمی اداروں کی تعداد میں محض تیس فیصد اضافہ ہوا۔ سن دو ہزار تک تعلیمی سیکٹر میں پرائیویٹ اسکولوں کا تناسب انیس فیصد تھا آج چالیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔ ہر تین میں سے پہلا بچہ کسی سرکاری اسکول میں دوسرا بچہ کسی پرائیویٹ اسکول میں اور تیسرا بچہ کہیں نہیں پڑھ رہا۔ جتنے بھی اساتذہ تعلیمی نظام سے منسلک ہیں ان میں سے پینتالیس فیصد پرائیویٹ سیکٹر میں ملازم ہیں۔

تعلیم کے سرکاری شعبے میں سالانہ سرکاری سرمایہ کاری کل قومی آمدنی کے ڈیڑھ سے دو فیصد کے لگ بھگ ہے۔ اس میں سے بھی اسی فیصد پیسہ تنخواہوں، مراعات، انفراسٹرکچر اور کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں ننگی کیا نہائے کیا نچوڑے۔۔۔
دوسری جانب نجی تعلیمی شعبے میں پچھلے بیس برس کے دوران کم از کم پچاس ارب روپے کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ تمام انتظامی اخراجات منہا کرنے کے بعد بھی نجی تعلیمی شعبے کے منافع کی کم از کم شرح اوسطاً پچیس تا تیس فیصد ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کی اٹھاون فیصد آمدنی فیسوں سے اور باقی دیگر مدوں سے آتی ہے۔ سرکاری اور مشنری اسکولوں کے برعکس کمرشل نجی اسکولوں کی فیسوں میں سالانہ دس فیصد اضافہ معمول کی بات ہے۔

اس سال متوسط طبقے کے والدین یوں چیخ پڑے ہیں کہ اکثر نجی اسکولوں نے فیسوں میں یکدم پندرہ سے بیس فیصد اضافہ کر دیا۔ ویسے ہی سرکاری اسکولوں کے مقابلے میں پرائیویٹ اسکول کم از کم پانچ گنا مہنگے ہیں۔ اس پر اگر ایک خاندان کے چار بچوں کی فیس میں پندرہ سے بیس فیصد کا ماہانہ اضافہ ہو جائے تو سوچئے والدین کا مزید کیا مالی حشر ہو گا۔

معاملہ صرف فیسوں میں اضافے تک محدود رہے تو بھی قابلِ برداشت ہے۔ لیکن جتنی فیس جاتی ہے اتنے ہی ماہانہ اخراجات مزید برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ مثلاً ایک اوسط معیار کے پرائیویٹ اسکول میں داخلے سے پہلے ہی ایپلی کیشن اور رجسٹریشن فیس کے نام پر پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپیہ اسکول کی تعلیمی قربان گاہ کے چرنوں میں دان کرنا پڑتا ہے۔ اس پر مستزاد سیکیورٹی ڈپازٹ بھی دینا پڑتا ہے۔ حالانکہ یہ ڈپازٹ قابلِ واپسی بتایا جاتا ہے مگر اسے کئی برس بعد تک یاد رکھنا اور پھر واپس لینا بھی جوئے شیر لانا ہے۔

فیس واؤچر میں عموماً دو ماہ کی ایڈوانس فیس درج ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر چارجز ( بھلے کمپیوٹر ہو نہ ہو)، جنریٹر چارجز، پلاٹ چارجز ( بھلے کرائے کی بلڈنگ ہو)، سیکیورٹی ارینجمنٹ چارجز (بھلے آٹھ آٹھ ہزار کے دو گارڈز ہی کیوں نہ ہوں)، سالانہ چارجز (جانے کس بات کے؟)، لائبریری چارجز (اللہ جانے ساڑھے تین برس کا بچہ کونسی لائبریری استعمال کرتا ہے) وغیرہ وغیرہ کہیں شامل ہے کہیں نہیں۔

آج فینسی ڈریس شو ہے لہٰذا آپ کے بچے کو بھالو بن کے آنا ہے (بھالو کا لباس آٹھ سو روپے میں فلاں فلاں دوکان سے دستیاب ہے)۔۔ آج سینڈوچ میکنگ ڈے ہے لہٰذا بچے کو ایک پلاسٹک مگ، پلیٹ، جوس کے ڈبے، بریڈ اور پنیر کے ساتھ بھیجیں۔ آج یہ ہے، کل وہ ہے، پرسوں فلاں ہے، ترسوں چناں ہے۔ لو جی والدین کا ہو گیا کلیان۔۔۔

اکثر پرائیویٹ اسکول اب کورس کی کتابیں، کاپیاں اور اسٹیشنری تک بہ اصرارِ خود فراہم کرتے ہیں۔ پہلی کلاس کے بچے کے والدین کو ان اشیا سے بھرے بیگ کے صرف چھ سے دس ہزار روپے ہی تو دینے ہیں۔ اس سے نہ صرف والدین کا قیمتی وقت بچتا ہے بلکہ اسکول کو بطور سپلائیر ’’معمولی‘‘ کمیشن بھی حاصل ہوتا ہے۔

یونیفارم صرف فلاں فلاں دکان پر ہی دستیاب ہے۔ سردیوں کا الگ، گرمیوں کا الگ۔ مگر اس سال یونیفارم کا رنگ لائٹ گرے سے ڈارک گرے کر دیا گیا ہے اور بچے کی قمیض پر کڑھا ہوا اسکولی مونو گرام بھی نیلے سے لال ہو گیا ہے۔ یہ نیا یونیفارم تو خریدنا ہی پڑے گا۔ نہیں خریدا تو ڈسپلن توڑنے کا سوال اٹھ سکتا ہے۔ ہاں ٹھیک ہے کہ آپ دس یا بیس یا تیس یا چالیس ہزار روپے ماہانہ فیس دے رہے ہیں لیکن بچے کے شناختی کارڈ کے تیس روپے اور چھ تصویریں بھی تو آپ ہی دیں گے۔

یقیناً کئی پرائیویٹ اسکولوں کا معیارِ تعلیم سرکاری اسکولوں سے خاصا بہتر ہے اور تعلیمی نتائج بھی حوصلہ افزا ہیں۔ لیکن آمدنی میں سے انفراسٹرکچر پر کتنا خرچ ہو رہا ہے؟ نہ کوئی جاننا چاہتا ہے نہ بتانا۔ کم آمدنی والے علاقوں اور چھوٹے قصبات میں چار سو گز کی کرائے کی رہائشی عمارت کے مرغی خانوں میں انگلش میڈیم تعلیم کی گاجر لٹکا کے جو برائلر نسل تیار ہو رہی ہے وہ کس گراؤنڈ میں جا کے اپنے ہاتھ پاؤں سیدھے کرے، اپنے وزن کے برابر بستہ کس لیے اٹھائے اٹھائے پھرے، والدین اور اسکولوں کے درمیان فیس واؤچر کے رشتے کے علاوہ بنیادی انسانی رشتہ کیسے بنے؟ اس بارے میں کوئی بھی نہیں بتاتا کہ کس کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔

جب سے اٹھارویں آئینی ترمیم نافذ ہوئی یہی نہیں معلوم پڑ رہا کہ تعلیم وفاق کی ذمے داری ہے کہ صوبے کی۔ اس کنفیوژن میں نجی شعبہ پھاگ کھیل رہا ہے۔ خود وزیرِ اعظم نواز شریف کو پچھلے ہفتے ہی دو برس کے اقتدار کے بعد پتہ چلا کہ پرائیویٹ اسکولز ریگولیٹری اتھارٹی کا کاغذی وجود تو ہے مگر اس میں زندگی کا کوئی وجود نہیں۔ حتٰی کہ اس کا چیئرمین تک نہیں۔ چنانچہ وزیرِ اعظم نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ اتھارٹی کو دوبارہ زندہ کرنے کا حکم دیا ہے اور رواج کے مطابق رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی کمیٹی بھی نجی تعلیم کے انڈوں پر بٹھا دی جائے۔

ویسے جو قوانین زندہ ہیں بھی وہ بھی کس کام کے؟ مثلاً پنجاب میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے کنٹرول اور سرگرمیوں کو باقاعدہ بنانے کا قانون انیس سو چوراسی سے، سندھ میں دو ہزار ایک سے اور خیبر پختون خوا میں دو ہزار دو سے نافذ ہے۔ لیکن آج تک کیا ریگولیٹ ڈی ریگولیٹ ہو سکا بس یہ نہ پوچھیے گا۔ کہنے کو پرائیویٹ اسکولوں کی کارٹیلائزیشن کا معاملہ مسابقتی کمیشن اور مفادِ عامہ کے تحت وفاقی و صوبائی محتسبِ اعلی کے دائرے میں بھی آتا ہے۔ مگر یہ دائرہ کس کے دائرے میں آتا ہے؟ بوجھو تو جانیں۔۔۔۔۔

جب پچاس فٹ چوڑی گلی میں پانچ مرلے کے پلاٹ کی تین منزلوں میں بنے دس بائی آٹھ کے نو کمروں میں ایک سو سے زائد نونہالوں کو بارہ ہزار روپے ماہانہ پر کام کرنے والی کوئی بچاری مس فرخندہ تعلیم پلا رہی ہو اور اس مکان کے باہر بڑے سے بورڈ پر ہائیڈل برگ پبلک اسکول (آکسفورڈ ایجوکیشن سسٹم سے تسلیم شدہ) لکھا ہو تو کس سے پوچھیں کہ آکسفورڈ ایجوکیشن سسٹم کب ایجاد ہوا تھا؟
شکر کیجیے کہ آپ کا بچہ ان پینسٹھ لاکھ نونہالوں میں شامل نہیں جو روزانہ اسکول کو باہر سے دیکھتے گزرتے ہیں اور پھر گزر ہی جاتے ہیں۔۔۔۔

اب سنورتے رہو بلا سے میری
دل نے سرکار خودکشی کر لی
 
پاکستان کے آئین میں ہر بچے کو میٹرک تک لازمی اور مفت تعلیم کی ضمانت دی گئی ہے۔ مگر آئین کا کیا۔ اس میں تو اقلیتوں کو بھی مذہبی آزادی اور تبلیغ کی اجازت دی گئی ہے اور ماورائے قانون حکومت کی تبدیلی کی سزا بھی دی گئی ہے۔ تو پھر کیوں نہ آئین کو طاق میں رکھ کے زمینی حقائق پر بات ہو جائے۔
جب تک ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے انیس سو بہتر میں نجی تعلیمی اداروں کو قومیانے کا فیصلہ نہیں کیا تب تک پاکستان میں تعلیم اور زر کا اٹوٹ انگ قائم نہیں ہوا تھا۔ ملک کی زیادہ تر آبادی سرکاری اسکولوں کے پھیلے ہوئے مربوط جال سے واقف تھی جہاں والدین بچے کو لے جا کے داخل کروا دیتے اور بے فکر ہو جاتے۔

اساتذہ بھی قلیل مشاہرے کے باوجود اتنے باشعور نہیں ہوئے تھے کہ کلاسیں لینے کے بجائے انکریمنٹس، تبادلوں اور تنخواہوں میں اضافے کے تصور میں غلطاں رہیں اور اس کے لیے جلوس نکالیں، دھرنے اور الٹی میٹم دیں۔ تب تک بچوں کی تعلیم اور اخلاقیات پر توجہ کے سوا باقی ذاتی مسائل ثانوی تھے۔ تب تک کسی ایسے اسکول کا بھی تصور نہیں تھا جس میں کھیلنے کودنے کے لیے کم از کم ایک گراؤنڈ نہ ہو۔ تب تک سرکاری اسکولوں کے علاوہ اگر چرچا تھا تو کرسچین مشنری اسکولوں، مخئیر صنعت کاروں کے قائم کردہ فلاحی اسکولوں، مذہبی مدارس اور چند این جی اوز کے اسکولوں کا۔

پھر ہوا یوں کہ جیسے جیسے سرکاری ارسطو تعلیم جیسے بورنگ شعبے سے اکتاتے چلے گئے توں توں خلا پر کرنے کے لیے نجی شعبہ آگے آتا گیا۔ بھٹو صاحب کے دور میں ہی نجی شعبے نے اس یقین دہانی کے بعد کچھ سرمایہ کاری کی جرات کی کہ جو اسکول قومیایا لیے گئے ان کے بعد اب کوئی نیا اسکول نہیں قومیا جائے گا۔

چنانچہ انیس سو پچھتر میں بیکن ہاؤس اسکول سسٹم قائم ہوا۔ جب ضیا حکومت نے بھٹو صاحب کے ڈی نیشنلائزیشن کے عمل کو منسوخ کرنا شروع کیا اور کئی تعلیمی ادارے پرانے مالکان کو واپس کیے گئے تو نجی شعبے کو مزید ڈھارس ہوئی اور انیس سو اٹہتر میں سٹی اسکول سسٹم، انیس سو بیاسی میں فوجی ایجوکیشن سسٹم، انیس سو پچاسی میں لاہور اسکول آف مینجمنٹ سائنسز اور پنجاب گروپ آف کالجز، انیس سو اٹھاسی میں روٹس اسکول سسٹم اور پھر دارِ ارقم، الائیڈ اسکولز، آرمی پبلک اسکولز اور چل سو چل۔۔۔

پچھلے پندرہ برس میں عالم یہ ہوا کہ کمرشل پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی تعداد میں ستر فیصد اور سرکاری و فلاحی تعلیمی اداروں کی تعداد میں محض تیس فیصد اضافہ ہوا۔ سن دو ہزار تک تعلیمی سیکٹر میں پرائیویٹ اسکولوں کا تناسب انیس فیصد تھا آج چالیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔ ہر تین میں سے پہلا بچہ کسی سرکاری اسکول میں دوسرا بچہ کسی پرائیویٹ اسکول میں اور تیسرا بچہ کہیں نہیں پڑھ رہا۔ جتنے بھی اساتذہ تعلیمی نظام سے منسلک ہیں ان میں سے پینتالیس فیصد پرائیویٹ سیکٹر میں ملازم ہیں۔

تعلیم کے سرکاری شعبے میں سالانہ سرکاری سرمایہ کاری کل قومی آمدنی کے ڈیڑھ سے دو فیصد کے لگ بھگ ہے۔ اس میں سے بھی اسی فیصد پیسہ تنخواہوں، مراعات، انفراسٹرکچر اور کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں ننگی کیا نہائے کیا نچوڑے۔۔۔

دوسری جانب نجی تعلیمی شعبے میں پچھلے بیس برس کے دوران کم از کم پچاس ارب روپے کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ تمام انتظامی اخراجات منہا کرنے کے بعد بھی نجی تعلیمی شعبے کے منافع کی کم از کم شرح اوسطاً پچیس تا تیس فیصد ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کی اٹھاون فیصد آمدنی فیسوں سے اور باقی دیگر مدوں سے آتی ہے۔ سرکاری اور مشنری اسکولوں کے برعکس کمرشل نجی اسکولوں کی فیسوں میں سالانہ دس فیصد اضافہ معمول کی بات ہے۔

اس سال متوسط طبقے کے والدین یوں چیخ پڑے ہیں کہ اکثر نجی اسکولوں نے فیسوں میں یکدم پندرہ سے بیس فیصد اضافہ کر دیا۔ ویسے ہی سرکاری اسکولوں کے مقابلے میں پرائیویٹ اسکول کم از کم پانچ گنا مہنگے ہیں۔ اس پر اگر ایک خاندان کے چار بچوں کی فیس میں پندرہ سے بیس فیصد کا ماہانہ اضافہ ہو جائے تو سوچئے والدین کا مزید کیا مالی حشر ہو گا۔

معاملہ صرف فیسوں میں اضافے تک محدود رہے تو بھی قابلِ برداشت ہے۔ لیکن جتنی فیس جاتی ہے اتنے ہی ماہانہ اخراجات مزید برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ مثلاً ایک اوسط معیار کے پرائیویٹ اسکول میں داخلے سے پہلے ہی ایپلی کیشن اور رجسٹریشن فیس کے نام پر پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپیہ اسکول کی تعلیمی قربان گاہ کے چرنوں میں دان کرنا پڑتا ہے۔ اس پر مستزاد سیکیورٹی ڈپازٹ بھی دینا پڑتا ہے۔ حالانکہ یہ ڈپازٹ قابلِ واپسی بتایا جاتا ہے مگر اسے کئی برس بعد تک یاد رکھنا اور پھر واپس لینا بھی جوئے شیر لانا ہے۔

فیس واؤچر میں عموماً دو ماہ کی ایڈوانس فیس درج ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر چارجز ( بھلے کمپیوٹر ہو نہ ہو)، جنریٹر چارجز، پلاٹ چارجز ( بھلے کرائے کی بلڈنگ ہو)، سیکیورٹی ارینجمنٹ چارجز (بھلے آٹھ آٹھ ہزار کے دو گارڈز ہی کیوں نہ ہوں)، سالانہ چارجز (جانے کس بات کے؟)، لائبریری چارجز (اللہ جانے ساڑھے تین برس کا بچہ کونسی لائبریری استعمال کرتا ہے) وغیرہ وغیرہ کہیں شامل ہے کہیں نہیں۔

آج فینسی ڈریس شو ہے لہٰذا آپ کے بچے کو بھالو بن کے آنا ہے (بھالو کا لباس آٹھ سو روپے میں فلاں فلاں دوکان سے دستیاب ہے)۔۔ آج سینڈوچ میکنگ ڈے ہے لہٰذا بچے کو ایک پلاسٹک مگ، پلیٹ، جوس کے ڈبے، بریڈ اور پنیر کے ساتھ بھیجیں۔ آج یہ ہے، کل وہ ہے، پرسوں فلاں ہے، ترسوں چناں ہے۔ لو جی والدین کا ہو گیا کلیان۔۔۔

اکثر پرائیویٹ اسکول اب کورس کی کتابیں، کاپیاں اور اسٹیشنری تک بہ اصرارِ خود فراہم کرتے ہیں۔ پہلی کلاس کے بچے کے والدین کو ان اشیا سے بھرے بیگ کے صرف چھ سے دس ہزار روپے ہی تو دینے ہیں۔ اس سے نہ صرف والدین کا قیمتی وقت بچتا ہے بلکہ اسکول کو بطور سپلائیر ’’معمولی‘‘ کمیشن بھی حاصل ہوتا ہے۔

یونیفارم صرف فلاں فلاں دکان پر ہی دستیاب ہے۔ سردیوں کا الگ، گرمیوں کا الگ۔ مگر اس سال یونیفارم کا رنگ لائٹ گرے سے ڈارک گرے کر دیا گیا ہے اور بچے کی قمیض پر کڑھا ہوا اسکولی مونو گرام بھی نیلے سے لال ہو گیا ہے۔ یہ نیا یونیفارم تو خریدنا ہی پڑے گا۔ نہیں خریدا تو ڈسپلن توڑنے کا سوال اٹھ سکتا ہے۔ ہاں ٹھیک ہے کہ آپ دس یا بیس یا تیس یا چالیس ہزار روپے ماہانہ فیس دے رہے ہیں لیکن بچے کے شناختی کارڈ کے تیس روپے اور چھ تصویریں بھی تو آپ ہی دیں گے۔

یقیناً کئی پرائیویٹ اسکولوں کا معیارِ تعلیم سرکاری اسکولوں سے خاصا بہتر ہے اور تعلیمی نتائج بھی حوصلہ افزا ہیں۔ لیکن آمدنی میں سے انفراسٹرکچر پر کتنا خرچ ہو رہا ہے؟ نہ کوئی جاننا چاہتا ہے نہ بتانا۔ کم آمدنی والے علاقوں اور چھوٹے قصبات میں چار سو گز کی کرائے کی رہائشی عمارت کے مرغی خانوں میں انگلش میڈیم تعلیم کی گاجر لٹکا کے جو برائلر نسل تیار ہو رہی ہے وہ کس گراؤنڈ میں جا کے اپنے ہاتھ پاؤں سیدھے کرے، اپنے وزن کے برابر بستہ کس لیے اٹھائے اٹھائے پھرے، والدین اور اسکولوں کے درمیان فیس واؤچر کے رشتے کے علاوہ بنیادی انسانی رشتہ کیسے بنے؟ اس بارے میں کوئی بھی نہیں بتاتا کہ کس کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔

جب سے اٹھارویں آئینی ترمیم نافذ ہوئی یہی نہیں معلوم پڑ رہا کہ تعلیم وفاق کی ذمے داری ہے کہ صوبے کی۔ اس کنفیوژن میں نجی شعبہ پھاگ کھیل رہا ہے۔ خود وزیرِ اعظم نواز شریف کو پچھلے ہفتے ہی دو برس کے اقتدار کے بعد پتہ چلا کہ پرائیویٹ اسکولز ریگولیٹری اتھارٹی کا کاغذی وجود تو ہے مگر اس میں زندگی کا کوئی وجود نہیں۔ حتٰی کہ اس کاچیئرمین تک نہیں۔ چنانچہ وزیرِ اعظم نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ اتھارٹی کو دوبارہ زندہ کرنے کا حکم دیا ہے اور رواج کے مطابق رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی کمیٹی بھی نجی تعلیم کے انڈوں پر بٹھا دی جائے۔

ویسے جو قوانین زندہ ہیں بھی وہ بھی کس کام کے؟ مثلاً پنجاب میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے کنٹرول اور سرگرمیوں کو باقاعدہ بنانے کا قانون انیس سو چوراسی سے، سندھ میں دو ہزار ایک سے اور خیبر پختون خوا میں دو ہزار دو سے نافذ ہے۔ لیکن آج تک کیا ریگولیٹ ڈی ریگولیٹ ہو سکا بس یہ نہ پوچھیے گا۔ کہنے کو پرائیویٹ اسکولوں کی کارٹیلائزیشن کا معاملہ مسابقتی کمیشن اور مفادِ عامہ کے تحت وفاقی و صوبائی محتسبِ اعلی کے دائرے میں بھی آتا ہے۔ مگر یہ دائرہ کس کے دائرے میں آتا ہے؟ بوجھو تو جانیں۔۔۔۔۔

جب پچاس فٹ چوڑی گلی میں پانچ مرلے کے پلاٹ کی تین منزلوں میں بنے دس بائی آٹھ کے نو کمروں میں ایک سو سے زائد نونہالوں کو بارہ ہزار روپے ماہانہ پر کام کرنے والی کوئی بچاری مس فرخندہ تعلیم پلا رہی ہو اور اس مکان کے باہر بڑے سے بورڈ پر ہائیڈل برگ پبلک اسکول (آکسفورڈ ایجوکیشن سسٹم سے تسلیم شدہ) لکھا ہو تو کس سے پوچھیں کہ آکسفورڈ ایجوکیشن سسٹم کب ایجاد ہوا تھا؟
شکر کیجیے کہ آپ کا بچہ ان پینسٹھ لاکھ نونہالوں میں شامل نہیں جو روزانہ اسکول کو باہر سے دیکھتے گزرتے ہیں اور پھر گزر ہی جاتے ہیں۔۔۔۔

اب سنورتے رہو بلا سے میری
دل نے سرکار خودکشی کر لی

وسعت اللہ خان
بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس


بھارت کا المیہ

$
0
0

یہ بات نہ کوئی سیکریٹ ہے نہ ڈھکی چھپی کہ بی جے پی ہندوستان کو ایک کٹر مذہبی ریاست بنانا چاہتی ہے۔ اس بڑے کام کے لیے جہلا کی ایک ٹیم اور اس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے ایک منظم پارٹی کی ضرورت ہے یہ دونوں عناصر موجود ہیں۔ اس پر سہاگہ یہ ہے کہ اس نیک کام کے لیے جس اختیار کی ضرورت ہے وہ اقتدار کی شکل میں بی جے پی کو حاصل ہے اور اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ بھارتی عوام نے بی جے پی کے منشور کو جانتے ہوئے الیکشن میں اسے مینڈیٹ دیا۔ ہو سکتا ہے بھارتی عوام اپنے مسائل کے حل سے مایوس ہو کر مجبوراً بی جے پی کو آزمانے کا فیصلہ کیا ہو لیکن وجہ کچھ بھی ہو بی جے پی یہ حق جتانے میں حق بجانب ہے کہ عوام نے اسے پانچ سال بھارت پر حکمرانی کا حق دیا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی اس حق کو کس طرح استعمال کرتی ہے؟ پچھلے کچھ عرصے سے کنٹرول لائن پر فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے دونوں حکومتیں ایک دوسرے پر الزام لگا رہی ہیں کہ ایل او سی کی خلاف ورزی ہم نہیں تم کر رہے ہو۔ پاکستان بھارتی سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں کی لاشیں اور مالی نقصانات کی تفصیل میڈیا میں پیش کر رہا ہے جواباً بھارت بھی پاکستان پر ایل او سی کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگا رہا ہے سرحدی خلاف ورزیوں کو مانیٹر کرنے کے لیے سرحدوں پر اقوام متحدہ کے آبزرور موجود ہیں لیکن ان کا ہونا نہ ہونا اس لیے بے معنی ہے کہ ان کی رپورٹوں پر دونوں متحارب ملک غور کرنے کے لیے تیار نہیں۔
ایل او سی پر ہونے والی مسلسل فائرنگ کو روکنے کے لیے پاکستان رینجرز کا ایک وفد بھارت کے دورے پر گیا تھا۔ اپنے ہم منصبوں سے ملاقاتوں کے علاوہ اس وفد نے بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سے بھی ملاقات کی۔ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ نے پاکستانی وفد کو یقین دلایا کہ ایل او سی کی خلاف ورزیوں میں بھارت پہل نہیں کرے گا۔ لیکن موصوف کے بیان کی سیاہی بھی خشک نہیں ہونے پائی تھی کہ بھارتی سیکیورٹی فورسز کی طرف سے فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس میں جانی نقصان بھی ہوا جس کے خلاف پاکستان نے بھارت سے سرکاری سطح پر باضابطہ احتجاج بھی ریکارڈ کرا دیا۔ اگرچہ متحارب ملکوں کی سرحدوں پر اس قسم کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں لیکن بروقت ان کی سختی سے روک تھام نہ کی گئی تو یہ واقعات بعض وقت جنگوں کا سبب بن جاتے ہیں۔ ہم نے اپنے ایک پچھلے کالم میں اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے اس حقیقت کی نشان دہی کی تھی کہ سرحدی کشیدگی کو اگر سختی سے روکا نہ جائے تو یہ چھوٹی چھوٹی وارداتیں بعض وقت بڑی بڑی جنگوں کا سبب بن جاتی ہیں اور جب دو متحارب ملک ایٹمی طاقت بھی ہوں تو پھر جنگوں کی ممکنہ ہولناکی کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہوتا۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ عام سرحدی خلاف ورزیاں ہیں یا اس کے پیچھے کوئی نظریاتی طاقت کام کر رہی ہے؟ بھارتی جنتا پارٹی کے منشور میں بھارت کو ایک مذہبی ریاست بنانا ہے۔ ہو سکتا ہے جس وقت بی جے پی وجود میں آئی اس وقت کی قیادت کو یہ احساس نہ ہو کہ جدید گلوبل ویلج دنیا میں مذہبی شدت پسندی اور مذہبی ریاستوں کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی لیکن بی جے پی کی قیادت خواہ وہ اپنے نظریات میں کتنی ہی شدت پسند کیوں نہ ہو اس بات کا ادراک ضرور رکھتی ہوگی کہ اکیسویں صدی اور اس کے بعد کی صدیوں میں ایک ایسا سیکولر کلچر متعارف اور مستحکم ہونے والا ہے جس میں انسانوں کے درمیان سب سے بڑا رشتہ انسانیت ہو گا۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ آنے والی دنیا کی مجبوری ہے۔

جنگوں، نفرتوں، رنگ و نسل، زبان، فرقوں، قومیتوں میں بٹی ہوئی اس دنیا نے اس کرہ ارض کے انسانوں کو جو زخم لگائے ہیں اور ان کی زندگی کو جن عذابوں سے دوچار کر دیا ہے، اس کا فطری تقاضا یہی ہے کہ انسانوں کے درمیان جنگوں، نفرتوں کا سبب بننے والے ہر عنصر کو امن کے راستے سے ہٹا دیا جائے اسے ہم دنیا کے انسانوں کی بدقسمتی کے علاوہ اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں ہونے والے خون خرابے کا ایک بڑا سبب مذہب بھی رہا ہے، صلیبی جنگوں سے لے کر فلسطین اور کشمیر تک جو لہو بہہ رہا ہے اس کا اصل سبب مذہبی منافرت ہے۔ اس کلچر کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کے المیوں کو سمجھنے والے دانشوروں، اہل فکر، فلسفیوں اور قلم کاروں کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز بنی رہی۔

اس المناک کلچر کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ انسانوں کے روپ میں موجود بھیڑیوں نے ہتھیاروں کی صنعت میں کھربوں ڈالر لگا کر اسے اس قدر پھیلا دیا ہے اور اس صنعت کو اس قدر منافع بخش بنا دیا ہے کہ اس صنعت کو پسند نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس صنعت کے نظریاتی محافظوں نے دنیا کو اور دنیا میں بسنے والے انسانوں کو مختلف حوالوں سے تقسیم کر کے اور سرمایہ دارانہ نظام کی پیدا کردہ قومی ریاستوں کے تصور کو مضبوط کر کے اور علاقائی تنازعات پیدا کر کے جنگوں اور ہتھیاروں کو ملکوں اور ریاستوں کے لیے اس قدر ناگزیر بنا دیا ہے کہ آج کی مہذب اور ترقی یافتہ دنیا جنگوں اور ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت سے نجات نہیں پا سکتی۔

 یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں، کوریا اور ویت نام کی جنگوں میں ہونے والے ناقابل یقین جانی اور مالی نقصانات نے بھی کرہ ارض کے انسانوں کو اس قابل نہیں بنایا کہ وہ جنگوں اور ہتھیاروں سے نجات حاصل کرنے کو دنیا کا مرکزی مسئلہ بنائیں۔ اس کے برخلاف ہمارا حکمران طبقہ جدید سے جدید ہتھیاروں کی تیاری اور خریداری میں مصروف ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہتھیاروں کی صنعت کے مالکان اس قدر مضبوط اور اپنی صنعت کے تحفظ کے لیے اس قدر فعال ہیں کہ وہ دنیا کو ہتھیاروں کی ضرورت سے آزادی نہیں دلانا چاہتے۔

بھارت میں ایک چائے فروش کو بھارت کا وزیر اعظم بنتا دیکھ کر جمہوریت کا گن گانے والوں کو کیا یہ احساس ہے کہ اس جمہوریت نے ایک ایسا سنپولیا بھی پیدا کر دیا ہے جو اس خطے کے امن اور جنوبی ایشیا کے عوام کی آسودہ زندگی کے راستے میں آہنی دیوار بن گیا ہے۔ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ سیکولر بھارت کے دو ارب کے لگ بھگ عوام نے بھارت کی حکمرانی کے لیے ایک ایسے شخص ایک ایسی جماعت کو منتخب کیا ہے جو اپنی مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے نہ صرف اس خطے کو جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے بلکہ ساری دنیا کے عوام کے مستقبل سیکولرزم کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے ہمیں حیرت ہے کہ دو ارب کے لگ بھگ آبادی والے اس ملک میں کیا ایسے اہل علم، اہل دانش، اہل قلم نہیں کہ نریندر مودی کو تباہی کے راستے پر جانے سے روکیں؟

ظہیر اختر بیدری

پاکستان میں تعلیمی بحران

$
0
0

گزشتہ پانچ سال کے دوران ہم کس طرح اس حال کو پہنچے کہ ایک طرف تو اٹھارویں ترمیم میں متعارف کرایا جانے والا آرٹیکل 25A کہتا ہے۔ ’’ریاست 5 سے 16 سال تک کے تمام بچوں کولازمی تعلیم کی مفت فراہمی یقینی بنائے گی۔‘‘ مگرآج ریاست پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے کہہ رہی ہے کہ وہ اپنا منافع کم رکھتے ہوئے ، ارزاں نرخوں پر،شہریوں کو تعلیمی سہولتیں فراہم کریں۔پرائیویٹ اسکولوں کی فیس پر ہونیوالی گرما گرم بحث دوبنیادی سوال اٹھاتی ہے۔ 
ریاست اور طاقتور اشرافیہ کی ترجیحات میں تعلیم کیا درجہ رکھتی ہے؟ معاشی سرگرمیوں کو ریگولیٹ کرنے کیلئے حکمراں جماعت، پی ایم ایل (ن) کا کیا تصور ہے؟

کیا اس پر کوئی جشن منایا جائے کہ آج پاکستان میں تعلیم کے مسلے پر بھی بحث کا آغاز ہوگیا ؟حکومت ِ پاکستان نے 2009ء میں ’’پاکستان ایجوکیشن ٹاسک فورس‘‘ قائم کی تھی ۔ اس نے ملک میں تعلیم کی حالت کے جو خوفناک اعدادوشمار بتائے، اُس نے ہمارے سر شرم سے جھکا دیئے۔ بتایا گیا کہ کم و بیش پچیس ملین بچے اسکول نہیں جاتے ۔ 2011ء کو ’’تعلیمی سال‘‘ قراردینے کے باوجود اسکولوں میں داخلے کی شرح میں ایک یا دوفیصد کا اضافہ ہوپایا۔ پاکستان’’ ملینیم ڈیویلپمنٹ گول 2015ء ‘‘، جس کے تحت تمام شہریوں کو یونیورسل بنیادی تعلیم دی جائے گی، کے حصول میں ناکام ہوچکا ۔
 نہایت متحرک شخصیت، مشرف زیدی صاحب کی تنظیم ’’الف اعلان‘‘اور اس طرح کی دیگر تنظیموں نے تعلیم کو قومی پالیسی میں اولین ترجیح کا درجہ دینے کیلئے بھرپور مہم چلائی ہے۔ اینول اسٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹس (ACER) ہمیں بتاتی ہیں کہ ایسے بچے جو خوش قسمتی سے اسکول جاتے ہیں، وہ بھی پڑھائی میں بہت کمزور ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دیہاتی علاقوں سے تعلق رکھنے والے گریڈ پانچ کے ایک تہائی طلبہ کی کتاب پڑھنے کی صلاحیت گریڈ دو کے طلبہ سے زیادہ نہیں۔ فیصل باری اور دیگر احباب سوچتے ہیں کہ اسکول جانیوالے ان ’’غیر تعلیم یافتہ‘‘نوجوانوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

چنانچہ اس دور میں ، جبکہ پاکستان میں تعلیم پر بہت شدومد سے بحث کا آغاز ہوچکا ہےاور وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ صورت ِحال کا بذات ِ خود جائزہ لے رہے ہیںتو اصل معاملہ ہے کیا ؟ یہ معاملہ اعلیٰ درجے کے پرائیویٹ اسکولوں کی طرف سے اپرمڈل کلاس طبقے سے بھاری بھرکم فیس وصول کرنے کا ہے۔ اس طبقے کا مطالبہ یہ نہیں کہ سرکاری تعلیمی شعبے کی حالت درست کی جائے کیونکہ نجی تعلیمی شعبہ ان کا اصل نہیں بلکہ بہ امرمجبوری انتخاب بنا تھا،بلکہ یہ طبقہ اسی نجی شعبے میں ہی اپنے بچوں کو بھیجے گا ، اس کی صرف اتنی خواہش ہے کہ ان پر فیسوں کا بوجھ قدرے کم ہوجائے۔ 
کیا یہ غیر معمولی بات نہیں کہ خوشحال طبقے کی سوچ کے مطابق اچھی تعلیم دینے کی ذمہ داری ریاست کی نہیں، نجی شعبے کی ہے؟ دوسری طرف تعلیم ، صحت اور دیگر شہری سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے کوئی بھی ٹیکس ادا کرنے کیلئے تیار نہیں، لیکن پھر یہ کس کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو قائل کرے کہ اُنہیں یہ سہولتیں فراہم کی جائیں گی بشرطیکہ وہ ٹیکس ادا کریں؟
  ریاست نے تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیکر تباہ کردیا تھا۔ 1980ء کی دہائی میں سرکاری تعلیمی شعبے میں آنے والے زوال کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہوا جس میں نجی تعلیمی شعبے کو قدم جمانے کا موقع مل گیا۔ 

اُس وقت سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے افراد، جن کا تعلق مڈل اور اپرمڈل کلاس سے ہے، کی عمر چالیس سے پچاس سال کے درمیان ہے۔ انکے بچے اب پرائیویٹ اسکولوں میں جاتے ہیں ۔ چنانچہ اگر سرکاری تعلیمی شعبہ ختم ہوچکا تو کیا کیا جائے؟ کیا اب ریاست رابن ہڈ ( افسانوی کردار جو امیروں کو لوٹ کر غریبوں کی مدد کرتا تھا) بن کر مہنگے پرائیویٹ اسکولوں کو مجبور کرے کہ وہ کم فیس لیکر تعلیم دیں؟کیا تمام اپرکلاس، پیشہ ورماہرین اور سرکاری ملازم ان پرائیویٹ اسکولوں میں بچوں کو تعلیم دلوانے کی اسطاعت رکھتے ہیں؟

یہ دولت کی تقسیم یا پرواگریسو ٹیکس کے نفاذ سے معاشی ہمواری لانے یا تمام شہریوں کو ارزاں نرخ پر تعلیم فراہم کرنے کی بحث نہیں ۔ یہ دراصل ایک ہی طبقے کے درمیان ہونے والی لڑائی ہے۔ اس میں فریقین میں سے کوئی بھی مظلوم نہیں ،دونوں ہی استحقاق یافتہ ہیں، لیکن پرائیویٹ تعلیم کے ہوشربا نرخوں نے ایک طبقے کو بے دم کردیا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پچاس فیصد پاکستانی اپنے بچوں کو نجی شعبے کے تحت چلنے والے اسکولوں میں داخل کراتے ہیں۔ تاہم تمام پرائیویٹ اسکول یکساں مہنگے نہیں۔ ان کی فیس چند سوروپے سے لیکر چند ہزارڈالروں تک ہوتی ہے۔ اس شعبے میں انتہائی شدید مسابقت پائی جاتی ہے، جبکہ مواقع کی بھی کمی نہیں۔ ریاست نے شہروں میں تعلیمی اداروں کیلئے کوئی جگہ مختص نہیں کی ہوتی۔ اربن پلاننگ کے فقدان کی وجہ سے کہیں بھی اسکول کھولے جاسکتے ہیں۔ ریاست پرائیویٹ تعلیمی شعبے کو کوئی سہولت نہیں دیتی۔ اس کے باوجود یہ شعبہ پھیلتا جارہا ہے۔ اس کی وجہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ اور سرکای شعبے کا زوال ہے۔

 اگراس وقت پچیس ملین بچے اسکول نہیں جارہے اور ملک کی آبادی کی اوسط عمر تیئس سال ہے اور اگلے تیس برسوں تک آبادی تین سوملین ہوجائے گی تو ان تمام بچوں کو تعلیم کون دے گا؟ تعلیمی شعبے میں کس قسم کی سرمایہ کاری درکار ہے تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی تعلیمی ضروریات پوری ہوسکیں؟سب سے اہم بات، اس وقت پی ایم ایل (ن) کا تعلیمی وژن کیا ہے؟

موجودہ حکومت کے پاس تعلیمی شعبے میں طلب اور رسد کے بڑھتے ہوئے فرق کو دور کرنے کے لئے کوئی پالیسی نہیں ، یہ صرف زبردستی نرخ طے کرکے اپنے شہری ووٹروں کو وقتی طور پر خوش کرنے کی کوشش میں ہے۔ بحث کا موضوع یہ نہیں کہ پرائیویٹ شعبہ جتنا چاہے منافع کمالے، بلکہ ہماری اشرافیہ کا تصورِحکمرانی، معیشت اورنجی شعبے میں ریاست کی مداخلت ہے۔کیا شہریوں کو بنیادی اشیااور سہولتوں کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے یا نجی شعبے کی؟ظاہر ہے کہ بنیادی ذمہ داری تو ریاست کی ہے۔ 

اس نے عوام کو بنیادی ضروریات اور جان ومال کا تحفظ فراہم کرنا ہوتاہے۔ آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملے کے بعدریاست نے طلبہ کو تحفظ دینے سے اپنی معذروی ظاہر کرتے ہوئے تعلیمی اداروں کو مجبور کیا کہ اپنی دیواریں بلندکریں، سیکورٹی کیمرے نصب کریں،خاردارتار اور لوہے کے جنگلے لگائیں اور مسلح گارڈ متعین کریں۔ ایسا کرتے ہوئے اداروں کو مجبور کیا گیا کہ وہ یہ تمام اخراجات طلبہ کو منتقل کرنے کی بجائے خود برداشت کریں۔
 
  موجودہ حکومت نے سیکورٹی سروسز پر پندرہ فیصد ٹیکس عائد کردیا۔ اس سے پرائیویٹ سیکورٹی کے اخراجات میں اضافہ ہوگیا۔مفت تعلیم ، صحت، انصاف اور سیکورٹی کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری تھی لیکن ریاست نے اپنے ہاتھ کھڑے کردیئے۔ پیدا ہونے والے خلاکی وجہ سے جب نجی شعبہ آگے آیا تو ریاست ان کی فیس طے کرنے کے لئے کھڑی ہوگئی۔ کیا یہ اب پرائیویٹ اسپتالوں ، وکلا اور سیکورٹی کی بھی فیس خود ہی طے کرے گی؟ تو پھر دیگر بزنس بھی اسی دائرے میں آتاہے، ریاست پھر شوگرملوں، اسٹیل ملوں، پولٹری، سیمنٹ وغیرہ کے منافع کا خود ہی تعین کیوں نہیں کرتی؟اگر ہم پر سوشلسٹ بننے کا بھوت سوار ہے تو پھر وزیر ِاعظم آگے بڑھ کر خود اپنے خاندان کے بزنس کے منافع میں کمی کا اعلان کیوں نہیں کرتے؟ایسا کرنے سے ایک اچھی مثال قائم ہوگی اور دوسرے بھی ایسا کریں گے۔

آئین کا آرٹیکل 18 فری مارکیٹ اکانومی کی بات کرتا ہے۔ا س سے پہلے ہم ادارے قومیانے کا خوفناک تجربہ کرچکے، تو کیا اب پھر ہم اُسی راستے پر چل رہے ہیں؟ موجودہ حکمرانوں سے بہتر کاروبار کو کون بہتر سمجھ سکتا ہے؟ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس پالیسی کے کیا مضمرات ہوںگے۔ اس وقت ملک کوتعلیمی بحران کا سامنا ہے۔ اگلے چند ایک عشروں میں اس میں بے پناہ سنگینی آئے گی۔ ہمیں اس کے کسی حقیقی حل کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تاہم ریاست کی مداخلت سے اسکولوں کی فیس کم کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں، اس سے صرف ایک غلط روایت قائم ہوجائے گی۔ 
 
بابر ستار

بہ شکریہ روزنامہ جنگ 

Sacrificial animals are on sale at a cattle market in Karachi

$
0
0
Sacrificial animals are on sale at a cattle market ahead of Eid al-Adha in Karachi, Pakistan. Muslims around the world are preparing to celebrate the Eid al-Adha feast by slaughtering cattle, goats and sheep in commemoration of the Prophet Abraham's readiness to sacrifice his son to show obedience to God. 

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

وزیراعظم کا کتنے کروڑ کا دورہ ؟

$
0
0

کچھ روز پہلے مقامی ذرائع ابلاغ میں خبریں آئیں کہ وزیراعظم نواز شریف جب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سترہویں سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک جائیں گے تو ان کے ہمراہ 73 افراد ہوں گے۔
وزیراعظم نواز شریف نیویارک روانہ ہوگئے اور 30 ستمبر کو جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔

موجودہ سالانہ اجلاس کی تاریخی اہمیت یوں ہے کہ اقوامِ متحدہ کے 193 رکن ممالک انسانی ترقی کا دوسرا 15 سالہ ایجنڈا اپنائیں گے۔
پہلا ایجنڈا 2000 میں اقوامِ متحدہ ملینیئم گول کے نام سے اپنایا گیا تھا جس کے تحت آٹھ بنیادی اہداف مقرر کیے گئے۔

یعنی 2015 تک رکن ممالک انتہائی غربت کا خاتمہ کر دیں گے، پرائمری تعلیم تک سو فیصد بچوں کی رسائی یقینی بنائی جائے گی، عورت اور مرد کے درمیان حائل سماجی و معاشی خلیج اور امتیازات کا خاتمہ کیا جائے گا، نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں کم ازکم 50 فیصد کمی لائی جائے گی، ماں کی صحت کی بہتری کی شرح بڑھائی جائے گی، ایڈز، ملیریا اور دیگر امراض کے تدارک کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے، ماحولیاتی آلودگی میں 20 فیصد تک کمی ہو جائے گی اور عالمی انسانی ترقیاتی منصوبوں کی شراکت داری میں بھرپور حصہ لیا جائے گا۔

ان آٹھ اہداف میں سال بہ سال پیش رفت ناپنے کے لیے 60 معیارات مقرر کیے گئے۔ پاکستان نے 41 معیارات کے اہداف حاصل کرنے کے عزم کا اظہار کیا مگر صرف آٹھ میں ہی کسی حد تک پیش رفت کر سکا۔
اور اب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی پچھلے 15 برس کی مجموعی پیش رفت کی روشنی میں آئندہ 15 برس کے اہداف کی منظوری دے گی۔
ملینیئم اہداف حاصل کرنے میں مجموعی ناکامی کے باوجود پاکستان نیا 15 سالہ ایجنڈا اپنانے کے لیے پرعزم ہے، اور اس عزم کے اظہار کے لیے وزیرِاعظم 73 عدد گواہ نیویارک لیے جا رہے ہیں۔ یہ طائفہ آٹھ سے دس روز تک مغربی تہذیبی زوال کا مشاہدہ بھی کرے گا اور واپسی میں اگلے 15 سال کے ترقیاتی اہداف کا پلندہ بھی لائے گا۔

خصوصی چارٹرڈ طیارہ بشمول لینڈنگ و پارکنگ چارجز، روزویلٹ اور اولڈروف استوریا میں قیام و طعام، طرح طرح کے اجلاس، بریفنگز، دعوتیں اور کھابے، سائیڈ لائن ملاقاتوں کی آنیاں جانیاں، ہلکی پھلکی شاپنگ و دل پشوری سب ملا کر 15 کروڑ روپے کا خرچہ تو کہیں بھی نہیں گیا۔

مگر خرچے سے زیادہ پریشان کن یہ پریشانی ہے کہ آخر 74 لوگ دس روز پاکستان کے قومی مفاد کے کیا کیا پاپڑ کیسے کیسے کہاں کہاں بیلیں گے؟
اتنے اہم دورے پر جانے سے قبل وزیرِ اعظم کو یقیناً کلیدی وزارتوں کے ارسطوؤں نے بریفنگز بھی دی ہوں گی اور بلٹ پوائنٹس بھی سمجھائے ہوں گے اور تقریر نویس کی سہولت کے لیے ان نکات کی تین تین کاپیاں بریف کیس میں بھی یاد سے رکھوائی ہوں گی۔

اقوامِ متحدہ کے پاکستانی مشن کا عملہ اور واشنگٹن میں ملیحہ لودھی کی قیادت میں پاکستانی سفارت خانے کا ماہر سفارتی سکواڈ بھی وزیرِ اعظم کے ایک اشارہِ ابرو کے فاصلے پر چاروں شانے مستعد ہو گا۔
تو پھر اضافی 73 لوگ دو سو سے زائد نشستوں والے اڑن کھٹولے پر بٹھال کر لے جانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟

آئیے اس 74 رکنی وفد کو توڑ کے دیکھیں۔ ہو سکتا ہے کچھ پلے پڑ جائے۔
وزیرِ اعظم ایک عدد، وزیرِ اعظم ہاؤس کا مددگار عملہ 29 عدد، وزارتِ خارجہ و دیگر وزارتوں کے اہلکار 28 عدد اور پیشہ ور صحافی 16 عدد۔

مگر خرچے سے زیادہ پریشان کن یہ پریشانی ہے کہ آخر 74 لوگ دس روز پاکستان کے قومی مفاد کے کیا کیا پاپڑ کیسے کیسے کہاں کہاں بیلیں گے؟
اگر میں وزیرِ اعظم ہاؤس کے ساتھ جانے والے 29 رکنی عملے کے بارے میں سوچوں تو یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ ایک پرسنل اسسٹنٹ ازبس ضروری ہے۔ ملٹری سیکریٹری بھی لازمی ہے۔ چار سادہ کمانڈو ٹائپ انگریزی کٹ محافظ بھی مناسب ہیں۔ ایک تقریر نویس کا ساتھ ساتھ چلنا بھی بنتا ہے۔ ایک من پسند باورچی بھی جزو لاینفک ہے۔ یہ تو ہوگئے وزیرِ اعظم سمیت نو۔ باقی 20 کیا کریں گے؟

سوائے اس کے کہ ایک دروازہ کھولے، ایک بند کرے، ایک وارڈروب کا نگراں ہو، ایک شیروانی کی استری نہ ٹوٹنے دے۔ ایک جوتا لشکائے رکھے، ایک واش روم میں ٹھنڈا گرم چیک کرتا رہے، ایک ناظم ِ تولیہ جات مقرر ہو، ایک کھانے میں نمک مرچ کا تناسب تکتا رہے، ایک موبائل فون اٹھائے اٹھائے پھرے اور دوسرا اس کا چارجر، ایک کمرے میں آنے والے مہمانوں سے چائے، کافی، شربت پوچھتا رہے، ایک وقت بے وقت ویٹر کو طلب کرنے پر مامور ہو، ایک کی ڈیوٹی ہو کہ ہوٹل کے صدر دروازے سے مہمانوں کو اوپر لانا ہے اور دوسری کی ڈیوٹی ہو کہ مہمانوں کو حسبِ مراتب لفٹ یا پھر کار تک چھوڑ کے آنا ہے یا سڑک پار پہنچانا ہے۔

یہ ہوگئے 29 میں سے 22۔ باقی آٹھ کو کہاں کھپاؤں؟ (کچھ آپ بھی تو مدد کریں)۔
اب آئیے وزیرِ اعظم کے ہمراہ جانے والی 28 رکنی بیورو کریٹک منڈلی کی جانب۔ وزارتِ خارجہ کا ایک اہلکار تو تقریر نویس کے مسودے کی پالیسی نوک پلک سنوارنے کے لیے ہونا ہی چاہیے۔ چلیے اقتصادیات اور انسانی وسائل سے متعلق چار پانچ وزارتوں کا ایک ایک قابل اہلکار بھی فائلوں سمیت ٹھیک ہے۔ جیسا کہ میں نے اوپر تذکرہ کیا، امریکہ میں سفارتی و غیر سفارتی عملے کی پہلے سے متعین چھوٹی سی فوج بھی پنجوں پہ کھڑی ہے۔
چنانچہ ساتھ جانے والے 28 میں سے 22 افسر کیا کریں گے جب کہ ان کی بیگمات و بچے بھی ساتھ نہ ہوں۔۔۔

رہے 16 عدد صحافی، تو ان کا کسی بھی غیرملکی دورے پر وزیرِ اعظم کے ہمراہ جانا خود وزیرِ اعظم کے دورے سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ دن بھر کی مصروفیاتی تھکاوٹ اتارنے کے لیے دربار داری، جگتوں، قصائد، غیبتوں، خوشامدوں اور ’سر جی تسی چھا گئے او‘ کے ورد کا بھاری پتھر ایک فن کار بھلا کہاں اٹھا سکتا ہے؟

اگر صحافی بھی اپنے ادارے کے خرچے پر جانے لگیں تو واپسی پر ’ایک انتہائی تاریخی، کامیاب، یادگار دورے‘ کی دل و جان سے شہدناک تشہیر کون کرے گا؟
اس لیے وزارتِ اطلاعات کے زندگی سے بیزار دو تین تھکے ہوئے افسروں کے مقابلے میں 16 شکرے صحافیوں کا ساتھ جانا کوئی بڑی بات نہیں، بلکہ 32 ہوں تو اور بھی اچھا ہے (ہو سکتا ہے بتیسویں ہمی ہوں)۔

حاصلِ کلام یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیرِ اعظم کی 30 منٹ کی کسی اور کی لکھی تقریر کی صرف پڑھت ہی کی قیمت کم سے کم 15 کروڑ روپے بن رہی ہے یعنی 50 لاکھ روپے فی صفحہ۔

میں اوباما اور ڈیوڈ کیمرون جیسے کنگلوں کی کیا اوقات جو پائی پائی پھونک پھونک کے خرچتے ہیں اور آٹھ دس سے زیادہ بندے لے جانے کی اوقات بھی نہیں رکھتے مبادا جیب سے چائے پلانی پڑ جائے، اور پھر توقع رکھتے ہیں کہ دنیا انھیں عظیم بھی سمجھے۔۔۔

مگر 15 کروڑ کا سودا مہنگا نہیں۔ یہاں تو صرف ایک واپڈا سال بھر میں 980 ارب روپے بغیر ڈکار لیے پی جاتا ہے۔ اس لحاظ سے دورۂ امریکہ پر پاکستانی خزانے کی چونی بھی نہیں لگی۔
نظر لگے نہ کہیں اس کے دست و بازو کو یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں

 منگل کی شام کو وزیراعظم کے دفتر سے وضاحت آئی کہ وزیراعظم کے ساتھ 73 نہیں 34 افراد گئے۔ 

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live