Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

A Pakistani offers afternoon prayers at the bank of a river

$
0
0
A Pakistani offers afternoon prayers at the bank of a river on the outskirts of Islamabad, Pakistan.

پاک بھارت آبی جنگ

$
0
0

گزشتہ دنوں کراچی میں ملک کے ایک بڑے تھنک ٹینک پاکستان ہاؤس کی جانب سے پانی و بجلی کے بحران پر ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس میں انرجی کے ماہرین، ممتاز صنعتکاروں اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر کیپٹن (ر) ہاشم رضا زیدی نے اس اہم موضوع پر تقاریر کیں۔ پاکستان ہاؤس تھنک ٹینک کے چیپٹرز پاکستان کے علاوہ کوپن ہیگن اور برلن میں بھی قائم ہیں جو گزشتہ کئی سالوں سے اہم ملکی عالمی مسائل پر کانفرنسوں کا انعقاد کر کے حکومت کو سفارشات بھیجتے ہیں۔ تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر جنرل رانا اطہر جاوید جو ہماری نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے المنای بھی ہیں، نے مجھے اس کانفرنس میں خصوصی طور پر خطاب کیلئے مدعو کیا تھا،۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، نیشنل سکیورٹی اور اہم قومی پالیسیاں بنانے میں حکومت کو اعلی سطح پر اہم سفارشات پیش کرتی ہے اور پالیسی میکرز ان سفارشات کو نہایت اہمیت دیتے ہیں۔

میں نے بھی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے المنائی کا ممبر ہوں جس نے گزشتہ دنوں کراچی میں امن اور سکیورٹی پر کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس سے کور کمانڈر کراچی لیفٹنٹ جنرل نوید مختار نے اہم خطاب کیا تھا۔ پاکستان ہاؤس کی پانی و بجلی کے بحران پر منعقدہ کانفرنس میں میں نے اپنے خطاب میں شرکاء کو بتایا کہ 1992ء میں اسٹاک ہوم میں ہونے والی انٹرنیشنل واٹر کانفرنس میں معروف مغربی دانشور لیسٹر آر براؤن نے کہا تھا کہ مشرق وسطی میں آئندہ جنگین تیل کے بجائے پانی پر ہوں گی لیکن بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اب قیاس اارائیاں ہو رہی ہیں کہ برصغیر میں آبی جارحیت اور ہمسایہ ممالک سے آبی تنازعات پاکستان اور بھارت کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر لا سکتے ہیں.

 پاکستان اور بھارت کے مابین 1960ء میں سندھ طاس معاہدہ ہوا تھا جسکے تحت بھارت نے تین دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر پاکستان کا تصرف تسلیم کیا تھا۔ پانی کی تقسیم کے حوالے سے سندھ طاس معاہدے کو کامیاب معاہدہ قرار دیا جا سکتا ہے جو دو جنگوں اور 2002ء کے کشیدہ حالات کے باوجود بھی قائم رہا تاہم بھارت کا پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے سب سے بڑا ہدف سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے دریاؤں پر قبضہ کرنا ہے جسکے لیے وہ امریکہ و نیٹو ممالک کی اشیرباد سے مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو پانی روک لیتا ہے لیکن بارشوں کے موسم میں بھارت اسی پانی کو چھوڑ کر پاکستان میں سیلاب کی صورتحال پیدا کر دیتا ہے۔
بھارت یہ عمل گزشتہ کئی سالوں سے کر رہا ہے مگر سرکاری سطح پر اس بات سے انحراف کرتا رہا ہے کہ اسکے چھوڑے گئے اضافی پانی سے پاکستان میں سیلاب آتے ہیںَ اسی سلسلے میں پاکستان بگیہار کی تعمیر کو معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے لیکن بھارت کا یہ کہنا ہے کہ وہ معاہدے کے تحت دریاؤں کے پانی کو کچھ عرصے کیلئے اپنے استعمال میں لا سکتا ہے لہذا بگیہار ڈیم کی تعمیر معاہدے کی خاف ورزی نہیں۔

بھارت کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان اپنے ملک میں میٹھے پانی کے ڈیموں کے ذریعے ذخیرہ کرنے کی بجائے اسے سمندر میں بہا دیتا ہے لہذا بھارت کا یہ حق ہے کہ وہ ضائع ہونے والے پانی کیلئے ڈیم بنا کر اسے اپنے استعمال میں لا سکے اور ضرورت پڑنے پر پاکستان کو بھی فراہم کر سکے۔ اس سنگین تنازعات کی بنیاد پر مختلف تھنک ٹینکس جو ایٹمی سیاسی یا ممکنہ ایٹمی جنگوں کے امکانات پر ریسرچ کر رہے ہیں، بھی پاک بھارت آبی تنازعات کو ممکنہ ایٹمی جنگ کے خدشات بتا رہے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کو اللہ تعالیٰ نے کئی بڑے دریاؤں سے نوازا ہے جسکے باعث جنوبی ایشیاء میں وسیع پیمانے پر اناج پیدا ہوتا ہے اور اس خطے کا زرعات کا دارومدار پانی پر پے۔ پاکستان کے پاس ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف 11.55 ملین ایکڑ فٹ ہے، اس طرح ہم صرف ملین ایکڑ فٹ ہے، اس طرح ہم صرف 30 دن کا پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں، بھارت 120دن تک جبکہ امریکہ 900 دن تک پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

 اس طرح پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی فی کس مقدار 150 کیوبک میٹر ، چین میں 2200 کیوبک میٹر، آسٹریلیا اور امریکہ میں 5000 کیوبک میٹر ہے۔ اس طرح پاکستان اپنے دستیاب آبی وسائل کا صرف 7% پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ عالمی سطح پر یہ تناسب 40% ہے جسکی وجہ سے پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی پوری دنیا میں سب سے کم یعنی کیوبک میٹر ہے جبکہ امریکہ میں فی کس پانی کی دستیابی 6150 کیوبک میٹر ہے ۔

یوں پاکستان اپنے دستیاب پانی کو ذخیرہ نہ کر کے سالانہ 30 سے 35 ارب ڈالر کا نقصان اٹھا رہا ہے جبکہ کالا باغ، بھاشا اور اکھوڑی ڈیم کی تعمیری لاگت صرف 25 ارب ڈالر ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے آج پاکستان بجلے کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے اور ہم سستی ترین بجلی پیدا کرنے کے بجائے مہنگے ذرائع سے بجلی پیدا کر رہے ہیں جس سے ہمارا ملک کا انرجی مکس خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں نہایت مہنگا ہے ۔

حال ہی میں میرے ایک دیرینہ دوست اور نیپرا کے چیئرمین بریگیڈیئر طارق سدوزئی سرکاری دورے پر کراچی تشریف لائے۔ دوران ملاقات انہوں نے وفاقی حکومت اور نیپرا کی بجلی کی ترجیحات کے حوالے سے مجھے بتایا کہ حکومت کی پہلی ترجیح پانی سے زیادہ سے زیادہ ہائیڈرو بجلی پیدا کرنا ہے جس کے خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر میں وسیع ذرائع موجود ہیں جبکہ حکومت کی دوسری ترجیح کوئلے سے بجلی کے منصوبے ہیں جس میں ابتداء میں امپورٹ کیا گیا کوئلہ استعمال کیا جائے گا لیکن ان پلانٹس کی ٹیکنالوجی ایسی ہوگی کہ بعد میں تھر کا مقامی کوئلہ بھی استعمال کیا جا سکے گا۔ بجلی پیدا کرنے کیلئے حکومت کی تیسری ترجیح ایل این جی سے چلنے والے بجلے گھر ہیں جبکہ چوتھے نمبر پر متبادل ذرائع یعنی ہوا اور شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے ہیں جنکی پالیسیاں اور ٹیرف کیلئے نیپرا میں پروفیشنل چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور ایم بی اے پوری دنیا کا ڈیٹا سامنے رکھ کر ملکی مفاد میں پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔

 حکومت کی ترجیح مختصر المیعاد منصوبے ہیں تاکہ موجودہ دور حکومت مین بجلی کے بحران پر قابو پایا جا سکے۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان نے کراچی میں فیڈریشن آف پاکساتن چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے ایکسپورٹ ٹرافی اوارڈ میں بھی اس بات کا اعادہ کیا کہ 2018ء تک ملک سے بجلی کا بحران اسپیشل میرٹ ٹرافی ایوارڈ FPCCI ختم کر دیا جائے گا۔ مجھے خوشی ہے کہ اس سال بھی ہماری کمپنی نے مسلسل 16ویں بار وزیر اعظم سے وصول کیا لیکن موجودہ حالات میں ملک میں پانی اور بجلی کی کمی سے صنعتکاری کا عمل بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔

نئی صنعتیں نہیں لگ رہیں جسکی وجہ سے ہماری ایکسپورٹ جمود کا شکار ہے اور ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقو پیدا نہیں ہو رہے جو ملک میں امن و امان کی ناقص صورتحال کا سبب بن رہے ہیں۔ کراچی میں پانی کی قلت ملک کے دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہے اور کراچی کے صنعتکار اور ایکسپورٹرز اپنی صنعتوں کیلئے ٹٰنکر مافیا سے کروڑوں روپے سالانہ کا پانی خریدنے پر مجبور ہیں جس سے بنائے گئے فیبرک کی کوالٹی بھی غیر معیاری ہوتی ہے۔ کراچی واٹر بورڈ کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ 2 کروڑ کی آبادی کے شہر کراچی کیلئے 1100 ملین گیلن یومیہ پانی کی ضرورت ہے لیکن واٹر بورڈ شہر کو نصف 550 ملین گیلن یومیہ فراہم کر رہا ہے جسکی وجہ سے عوام اور صنعتکار اپنی ہی پانی ٹینکر مافیا سے مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہیں۔ 

کراچی میں ڈی سلینیشن پلانٹس کے ذریعے سمندری پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ خلیجی ممالک میں کیا جا رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ڈیمز بنانے کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے اور ایک وقت میں سینکڑوں ڈیم تعمیر ہوتے ہیں تاکہ آبادی بڑھنے کی صورت میں اضافہ پانی اور بجلی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے لیکن پاکستان میں کئی دہائیوں سے کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں ہوا لہذا حکومت کو ملک میں بجلی اور پانی کی کمی دور کرنے کیلئے ترجیحی بنیاد پر پانی کا ذخیرہ کرنے کیلئے کئی ڈیم بنانے ہوں گے جن سے نہ صرف عوام اور زراعت کیلئے پانی دستیاب ہو سکے گا بلکہ انکے ذریعے سستی بجلے پیدا کر کے بجلی کے بحران پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔

ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بہ شکریہ روزنامہ  جنگ

کراچی : میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

$
0
0

کراچی میں شدید گرمی سے 400 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد بلآخر وزیراعلیٰ سندھ بھی منظر عام پر آگئے جنہوں نے ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ کہیں نہ کہیں غفلت برتی گئی ہے۔

یاد رہے کہ وزیراعلیٰ سندھ دو دن تک بینظیر بھٹو کی سالگرہ کی تقریبات کے سلسلے میں لاڑکانہ میں موجود تھے اور گزشتہ شب کراچی پہنچنے کے بعد آج پانچویں روز ان کا کوئی بیان سامنے آیا ہے۔
 سندھ اسمبلی میں اظہارِخیال کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے شدید گرمی اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے زیادہ اموات کا ملبہ بھی وفاقی حکومت پر ڈال دیا۔
تقریر کے دوران وزیراعلیٰ سندھ کی صورتحال اور امدادی کاموں سے لاعلمی بھی مکمل طور پر عیاں تھی اور بیشتر مقامات پر انہوں نے 'یقیناً کیا ہوگا،کر رہے ہوں گے، میں پوچھوں گا'جیسے الفاظ کا استعمال کیا۔

انہوں نے ایوان کو بتایا کہ سندھ میں ڈیزاسٹرمینجمنٹ کا ادارہ موجود ہے جو کہ نہ صرف بارشوں اور طوفان میں کام کرتا ہے بلکہ ایسی صورتحال سے نمٹنا بھی
اس کی ذمہ داری ہے۔

ان کا کہنا تھا 'ڈیزاسٹر مینجمنٹ ہے اور اس کا نمبر بھی ہے جو کہ پہلے بھی
اخباروں میں آ چکا ہے اور اگر ممبران کو پتا نہیں ہے تو آج پھر یہ نمبر دیں گے تاکہ لوگ ان تک جا سکیں۔'

وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق یقیناً ڈیزاسٹرمینجمنٹ نے اپنا کام کیا ہو گا مگر وہ دو دن سے شہر میں نہیں تھے اس لیے اب (پی ڈی ایم اے) سے اس حوالے سے پوچھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ صوبے میں موجود این جی اوز نے بھی یقیناً اپنا کام کیا ہو گا۔


نسلی امتیاز کی امریکی ’’فالٹ لائن‘‘ اور ہم پاکستانی؟

$
0
0

امریکی ریاست سائوتھ کیرولینا میں نسلی برتری یعنی ’’وہائٹ سپرمسٹ‘‘ کے حامی ایک 21سالہ گورے نوجوان نے اپنے والد سے سالگرہ کے تحفہ میں ملنے والی گن کا استعمال کرتے ہوئے ایک سیاہ فام امریکیوں کے تاریخی چرچ میں داخل ہو کر وہاں بائبل اسٹڈی میں مصروف پادری اور 8 سیاہ فام شرکاء کو قتل کردیا۔ اس المناک واقعہ نے نہ صرف امریکی معاشرے کی نسلی تاریخ اور نسلی تعلقات کے تلخ حقائق یعنی ’’فالٹ لائن‘‘ کو ایک بار پھر سامنے لا رکھا ہے بلکہ آج کے ترقی یافتہ جمہوری امریکہ کی انتخابی سیاست کے بڑے بڑے برج الٹائے جانے کا ماحول پیدا کردیا ہے۔

 اس ریاست میں ری پبلکن پارٹی کا زور ہے گوروں کی آبادی اس وقت 66 فی صد اور سیاہ فاموں کی 27 فی صد بتائی جاتی ہے ۔کالوں پر ظلم و زیادتی ، سول وار ، نسلی امتیاز کا ایک طویل ریکارڈ سائوتھ کیرولینا کی تاریخ اور تحریک کا حصہ ہے یہ ان ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں آج بھی امریکہ کے قومی پرچم اور ریاستی پرچم کے ساتھ ساتھ ’’کنفیڈریٹ فلیگ‘‘ بھی لہرایا جاتا ہے جسے سیاہ فام امریکی نسلی امتیاز یا سیاہ فاموں پر ظلم کی یادگار سمجھ کر اس پرچم کو ہٹانے کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ متعدد ری پبلکن پارٹی کے سیاستدان اور امیدوار اس پرچم کو تاریخی ورثہ قرار دے کر اسے لہرانے کے حمایتی رہے ہیں۔

امریکی سیاستدان چاہے وہ شہری حکومت کی کسی نشست کا امیدوار ہو یا امریکی صدارت ہو جس نے اس ’’کنفیڈریٹ فلیگ‘‘ کو نسلی امتیاز اور ناانصافی کی علامت قرار دیکر اسے ہٹانے کا مطالبہ کیا اسے سائوتھ کیرولینا اور اس پرچم کو استعمال کرنے والی امریکی ریاستوں میں سیاسی، انتخابی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ آج بھی بہت سے ری پبلکن پارٹی کے ممتاز سیاستدان قتل کے اس واقعہ اور ’’کنفیڈریٹ فلیگ‘‘ کے معاملے سے دوری رکھ رہے ہیں۔
موجودہ گورنر سائوتھ کیرولینانکی سیلی ایک بھارتی امیگرنٹ سکھ خاندان کی بیٹی ہے مگر ری پبلکن سیاست کے تقاضے ہیں کہ وہ نسلی امتیاز کی علامت جھنڈے کو ’’تاریخی ورثہ‘‘ قرار دے کر ’’کنفیڈریٹ فلیگ ‘‘ کو نسلی نفرت کی بنیاد پر سوچے سمجھے 9 سیاہ فام شہریوں کے قتل کے بعد بھی وہ اس متنازع پرچم کو لہرانے پر مصر ہیں کہ ریاستی اسمبلی اس کا فیصلہ کرے۔ اسی ریاست سے صدارتی امیدوار لنڈسی گراہم سینیٹر ہیں اور وہ بھی خاتون گورنر کی طرح شدید دبائو میں ہیں۔ ریاست لوزیانا کے گورنر بھارتی نژاد بوبی جندل بھی ری پبلکن ہیں وہ بھی یہی موقف اپنا کر سیاست میں اپنی ترقی اور بقا کیلئے کوشاں ہیں۔

ان تمام اصحاب سے تین سال قبل فلوریڈا میں ری پبلکن پارٹی کے کنونشن میں ملاقاتوں تبادلہ خیال اور انٹرویوز کا موقع بھی ملا۔ آج یہ سب اپنی سیاسی بقاء کی جنگ میں مصروف نظر آتے ہیں جبکہ ڈیموکریٹ امیدوار ہیلری کلنٹن اور صدر اوباما کے اس واقعہ کے بارے میں بیانات زمینی حقائق کی عکاسی کررہے ہیں کیونکہ سائوتھ کیرولینا اور دیگر ’’کنفیڈریٹ فلیگ‘‘ والی ریاستوں میں ان کے ووٹوں پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ اقلیتی ووٹرز اور سیاہ فام امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے واضح اکثریت میں حامی ہیں اور وہ زیادہ منظم ہوکر اس کے امیدوار کو ہی ووٹ ڈالیں گے۔

 ہر رنگ و نسل کے انسانوں کیلئے یکساں احترام و حقوق کی تبلیغ و حمایت کے باوجود امریکہ کی داخلی سیاست اور معاشرے کی ایک تلخ حقیقت کالے اور گوری نسل کے مابین تعلقات ہیں جن کو نوجوان گورے ڈیلان روف کی بندوق سے 9 سیاہ فام انسانوں کے قتل کے واقعہ نے ایک بار پھر دنیا کے سامنے امریکی معاشرے کی ’’فالٹ لائن‘‘ کے طور پر واضح کردیا ہے۔

جب مفرور قاتل کو گرفتار کرکے واپس سائوتھ کیرولینا کے ایک گورے مجسٹریٹ کی عدالت کے سامنے لایا گیا تو معمول کی کارروائی کے اختیارات رکھنے والے مجسٹریٹ نے واضح طور پر اپنی جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاہ فام مقتولین کے نام لینے اور ان کے لواحقین کے غم کو نظرانداز کرکے یہ کہا کہ ان 9 مقتولین کے علاوہ اس نوجوان (قاتل) کے لواحقین بھی مظلوم ہیں جو اس صورتحال سے دوچار ہیں۔ اب تو انٹرنیٹ کے ریکارڈ نے قاتل کی نسل پرستی اور ’’وہائٹ سپرمیسی‘‘ کی تحریک سے والہانہ وابستگی اور ویب سائٹ کا وجود بھی ثابت کردیا۔

مگر جج نے ماضی میں بھی اعلیٰ عدالت کی جانب سے ایسے ہی ریمارکس پر سرزنش کے ریکارڈ کے باوجود اپنے یہ ریمارکس واپس نہیں لئے چونکہ نسلی امتیاز اور منافرت کے خلاف اس ریاست میں کوئی قانون ہی نہیں لہٰذا قاتل پر9 انسانوں کے قتل کے الزامات ہیں جسے بعض لیڈر اور قاتل کے حامی مذہبی عبادت گاہ میں طیش میں آئے ہوئے نوجوان کا فعل قرار دے کر معاف کردینے کے عیسائی اخلاقی اصول کی تلقین کررہے ہیں بلکہ گوری نسل کے ایک ممتاز رہنما چارلس کاٹن کا تو موقف یہ ہے کہ 9افراد کے قتل کا ذمہ دار وہ سیاہ فام پادری خود ہے جس نے نہ تو خود اور نہ ہی اپنے سیاہ فام پیروکاروں کو اسلحہ رکھنے کیلئے کہا لہٰذا وہ ایک مسلح گورے نوجوان کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔ ان صاحب کا تعلق گن کنٹرول کے خلاف متحرک تنظیم نیشنل رائفل ایسوسی ایشن سے ہے اور یہ نسل امتیاز کے حامی بھی ہیں۔ امریکی ایف بی آئی کے سابق اہلکار جو ناتھن گیلیام کے مطابق امریکہ میں 780 نسل پرست گروپ سرگرم ہیں۔

ہمارے ہاں اور مسلم دنیا میں بھی مذہبی و نسلی منافرت و امتیاز کی ایسی ہی ’’فالٹ لائنیں‘‘ تعمیر کرنے کا کام جاری ہے اور ہم مستقبل اور حقائق سے بے نیاز ہوکر ایسی ’’فالٹ لائنوں‘‘ کی تعمیر و استحکام میں لگے ہوئے ہیں۔ نوجوان گورے قاتلکی امریکی جھنڈے کو آگ لگانے ، کنفیڈریٹ فلیگ کو بلند کرنے رہوڈیشیا اور جنوبی افریقہ کے نسلی امتیاز والے پرچموں والی جیکٹ پہنے متعدد تصاویر سامنے آگئی ہیں مگر سائوتھ کیرولینا میں بہت سے بااثر لوگ اس کی مذمت کی بجائے ان ڈائریکٹ طور پر حمایت کررہے ہیں ۔ مذکورہ افسوسناک صورتحال اور نسلی منافرت کی امریکی تاریخ کے باوجود اس کا روشن پہلو یہ ہے کہ آج کے اس امریکی معاشرہ میں سچ بولنے اور سننے والے امریکی بھی موجود ہیں جو اصول و حقائق کو کسی خوف وخطر کے بغیر بیان کردیتے ہیں اور آگے بڑھ کر عملی قدم بھی اٹھاتے ہیں۔ صدر اوباما اور ہلیری کلنٹن کا موقف تو دنیا کے سامنے آچکا۔ نیویارک سٹی کےمیئر دی بلازیو نے اسے ’’داخلی دہشت گردی کا فعل‘‘ قرار دیا ہے۔

پاکستان کی طرح سخت گرمی کے باعث قتل کی ٹریجڈی کے موقع واردات یعنی سیاہ فاموں کے تاریخی چرچ میں کاغذ کے پنکھے ہاتھوں میں ہلاتے سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ گوری نسل کے باشعور جوڑوں کو بھی ہاتھ پکڑ کر بیٹھے دعا کرتے ہوئے دنیا نے ٹی وی پر دیکھا ہے۔ آج جہاں امریکہ میں اس قاتل کے حمایتی بھی ہیں تو امریکہ کی مضبوط جمہوری قوتیں اس کی مذمت بھی کررہی ہیں ۔ اس مسئلہ کو بڑھانے کی بجائے روک تھام اور حل کرنا چاہتی ہیں۔ ہلیری کلنٹن کے بیان کا مختصر ذکر ضروری ہے کہ اس سے امریکی معاشرے کے تلخ حقائق کی تصدیق بھی ہوتی ہے اور ہمیں امریکی معاشرے کی مضبوطی کا پہلو دیکھنے میں مدد ملتی ہے۔ ہلیری کا بیان یوں ہے ’’ ہم ایک بار پھر سیاہ فام امریکیوں کے چرچ سے لاشیں اٹھا رہے ہیں… ایک بار پھر نسلی امتیاز کے حامیوں نے اسے نسلی تشدد میں تبدیل کردیا ہے۔

یہ ہماری وہ تاریخ ہے جو ہم پیچھے چھوڑ کر آگے جانا چاہتے تھے مگر ہم امریکہ میں انقلاب اور نسل کے بارےمیں حقائق کو نہیں چھپاسکتے ہمیں اس کی ذمہ داری لیکر اسے تبدیل کرنا ہوگا۔ آج بھی کالے امریکیوں کے مقابلے میں گورے امریکیوں کو مکانات کیلئے قرضے تین گنا زیادہ ملتے ہیں۔ آج بھی ہمارے اسکول 1960ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ نسلی امتیاز کا شکار ہیں اور آج بھی ایک گورے بچے کے مقابلے میں 500 سیاہ فام بچوں کی سانس کی بیماری سے موت کی تلخ حقیقت موجود ہے۔ بطور قوم ہمیں اس حقیقت پر نظر ڈالنا چاہئے۔‘‘ ہلیری کلنٹن ، باراک اوباما اس انداز فکر میں اکیلے نہیں بلکہ ان امریکی ریاستوں میں مضبوط اور حکمراں ری پبلکن پارٹی کے سابق صدارتی امیدوار مٹ رومنی ، ریاست اوہائیو کے گورنر جان رسک سمیت کئی درجن نمایاں لیڈر بھی نسلی امتیاز کی علامت ’’کنفیڈریٹ فلیگ‘‘ کو ہٹانے اور نسلی مساوات کیلئے آواز اٹھا کر نقصان اٹھا چکے ہیں مگر اپنا موقف رکھتے ہیں۔

عوامی اور معاشرتی دبائو کے ہاتھوں مجبور ہوکر سائوتھ کیرولینا کے سینیٹر اور صدارتی امیدوار لنڈسی گراہم اور گورنر خاتون نکی سیلی بھی اپنا سخت موقف تبدیل کرنے پر تیار نظر آتے ہیں وہ بھی ’’کنفیڈریٹ فلیگ‘‘ ہٹانے پر مائل ہیں۔ دیکھیں عوام اور ان کے دانشور ، سیاستدان اور مفکرین نے مل کر آواز اٹھائی ہے تو نسلی امتیاز کی امریکی ’’فالٹ لائن‘‘ کو پر کرنے کی سمت میں پیش رفت نظر آنے لگی ہے۔ کیا ہم اپنے معاشرے میں نفرت اور تقسیم کی ’’فالٹ لائنز‘‘ کو اپنے چھوٹے مقاصد کی خاطر مزید تعمیر و توسیع کے کام میں مددگار بنے رہیں گے یا ہم نے موجودہ ’’فالٹ لائنز‘‘ کو پر کرنے اور ہم آہنگی پیدا کرنے میں اپنا رول ادا کرنا ہے

عظیم ایم میاں
بہ شکریہ روزنامہ جنگ


ٹھٹھہ : عروج و زوال کی کہانی

$
0
0


امیر خسرو نے اپنی ایک غزل میں اپنے محبوب کو ٹھٹھہ کے پھولوں سے تشبیہ دی ہے۔حیدرآباد دکن کے ایک دانشورکا کہنا ہے :’’ننگر ٹھٹھہ ہیرے جیسا خوبصورت شہر ہے۔ اس میں دھان کی سبز فصلیں ہیں۔ اس میں کشادہ باغ، ہرن، اور خوبصورت جنگل ہیں‘‘۔ٹھٹھہ کے باغات مشہور تھے، جن میں طرح طرح کے پھل ہوتے تھے، خاص طور پر کھجور اور انار اپنے رنگ اور شیرینی کی وجہ مشہور تھے۔ ’’تاریخِ طاہری‘‘ کے مصنف میر طاہر محمد تحریر کرتے ہیں ’’ٹھٹھہ کی بنیاد کسی اچھی ساعت میں پڑی تھی۔

 اس شہر میں چار ہزار سے زائد خاندان کپڑے بننے والے ’کوریوں‘ کے تھے‘‘۔ تھیوناٹ یہاں 1667ء میں آیا تھا۔ وہ لکھتا ہے ’’یہ صوبے کا مشہور شہر ہے، سارے ہندوستان کے اکثر بیوپاری، یہاں بننے والی مختلف اشیاء خریدتے ہیں۔ یہ ملک کی مارکیٹ ہے، یہ شہر تین میل لمبائی اور ڈیڑھ میل چوڑائی میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ شہر مذہبیات، علم لغت اور علم سیاست کے لیے مشہور ہے۔ شہر میں چار سو سے بھی زائد مدرسے ہیں اور یہ ایک عظیم شہر ہے‘‘۔ ’’آئینِ اکبری‘‘ کے مطابق ’’ٹھٹھہ ایک آباد بندرگاہ ہے، جہاں چھوٹی بڑی ہزاروں کشتیاں کھڑی رہتی ہیں‘‘۔

اگر ذرا غور سے دیکھا جائے تو ٹھٹھہ کی تاریخ بھول بھلیوں کی طرح ہے، ایسی بھول بھلیاں جہاں ہر موڑ پر ایک حیرت کھڑی ہے۔ کبھی مسکراتی تو کبھی رلاتی، لیکن پھر بھی یہاں دیکھنے، سننے اور سوچنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ سیاست کی خونی چالبازیاں، حاکموں کا ہر وقت جنگی جنون میں رہنا، انا کی تسکین کے لیے ہوتی ہوئی جنگیں اور ان کے بدلے میں ہزاروں بے گور و کفن انسانوں کی لاشیں،مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ سارا کچھ یہ ہی تھا، نہیں! یہاں کالج تھے، مصنف تھے، شاعر تھے، موسیقار اور سنگ تراش تھے، جن کے علم و تخلیقات، لفظوں کی رنگینی اور شیرینی، تراش و خراش اور مثبت کارناموں نے ٹھٹھہ کو ’ننگر‘ (بڑا، وسیع، شاہوکار، تونگر) کا اعزاز دے کر ’’ننگر ٹھٹھہ‘‘ بنا دیا۔ 

خوبصورت اور لازوال، صدیوں کے سینوں پر حکومت کرنے کے لیے ایک ایسا شہر جہاں عالم، اکابراور علم کے پیاسے کھینچے چلے آتے۔ اب حقیقت یہ ہے کہ ٹھٹھہ کی یہ ساری خوبصورتیاں اور عظمتیں اب فقط تاریخ کے صفحات پر حروفوں کی شکل میں رہ گئی ہیں۔ اب تیز دھوپ میں باغات کی ٹھنڈی چھاؤں کے سائے، چشموں کے ٹھنڈے پانی کی شیرینی، پھلوں کے ذائقے، پھولوں کے رنگ، مدارس میں معلموں کے لیکچر، کپڑے بننے والی کھڈیوں کا ردھم اب فقط تاریخ کی تحریروں میں ہی پڑھا جا سکتا ہے، اور اگر چاہیں تو، ماضی بنے ہوئے ان پلوں کو اپنے ذہن و دل کے آسمان پر، تخلیق کے برش سے تصویروں میں ڈھال کر کچھ پلوں کے لیے خوش ہو لیں۔

موجودہ ٹھٹھہ گذرے ہوئے زمانے کے بالکل برعکس ہے۔ ٹوٹے راستے، ذہن کا سکون چھیننے والا گاڑیوں کا شور اور دھواں، گنجان، دماغ چکرا دینے والی گلیاں اور بازار، مدارس ہیں کہ کب کے ویرانی اور بے قدری کی دھوپ سہہ سہہ کر گر چکے ہیں۔ لمبی جستجو کے بعد بھی آپ کو، کپڑے بننے کی کھڈی کے آثار مشکل سے ہی ملیں گے۔ٹھٹھہ کے اس کمال اور زوال کے بیچ والے عرصے کی کہانی سننے اور پڑھنے تعلق رکھتی ہے، تفصیل سے نہ سہی مختصر ہی سہی، لیکن اس میں سوچنے اور سمجھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ 600 سال تک اپنے اوج کو برقرار رکھنے والے ٹھٹھہ کی پرتگالیوں سے پہلی اور خونی ملاقات 1555ء میں ہوئی۔

 پرتگالیوں سے کیا گیا وعدہ مرزا عیسیٰ نے پورا نہیں کیا، بدلے میں سات سو سپاہیوں کے غصہ کا نشانہ بنا ٹھٹھہ۔ 8000 ہزار شہریوں کو قتل کردیا گیا، شہر کو آگ لگا دی گئی اور کروڑوں کی لوٹ مار کی گئی۔ یہ ساری کارروائی انہوں نے بڑے سکون سے کی اور ملکیت سے اپنے جہاز بھر کر ’’گوا‘‘ (ہندوستان) روانہ ہوگئے اور وقت کے حاکم ’’طغرل آباد‘‘ کے قلعے کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ کر جلتے ہوئے شہر کے دھوئیں کو دیکھ رہے تھے۔1696ء میں ملک میں طاعون کی وباء پھیلی۔ فقط ٹھٹھہ اور اس کے قرب و جوار میں ہزاروں لوگ مرے۔ 1739 ء میں ’’نادرشاہ‘‘ جس کی فوج کی تعداد لاکھوں میں تھی، اس نے پندرہ دن تک ٹھٹھہ میں میاں نور محمد کی دعوت کھائی۔

 اس وقت کے درباری مؤرخوں نے لکھا ’’پھر بھی اناج کی کمی نہیں ہوئی‘‘۔ وہ تاریخ جو محلوں کی چھاؤں میں بادشاہوں کو خوش کرنے اور درباروں کو قائم رکھنے کے لیے تحریر کی جاتی ہے، اس کے اپنے معیار ہوتے ہیں، ایسی تحریروں کا قلم، سیاہی، اور کاغذ غریبوں کی ہڈیوں، خون، اور چمڑی سے بنا ہوا ہوتا ہے۔ ٹھٹھہ کے وہ محلے اور گلیاں، وہ مساجد وہ مدارس جہاں مذہب اور فلسفوں پر بحث و مباحثے ہوتے تھے، جہاں شریعت و طریقت پر سینکڑوں کتابیں تحریر ہوئیں، وہاں اب ویرانی اور خاموشی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ادب، تخلیق، اور زندگی کی مسکراہٹوں کے دیپ کب کے بجھ چکے۔ حال کی بے قدری پر ماتم کرتی ہوئی شہر کے بیچوں بیچ ایک مسجد، مسجد امیر خانی بھی ہے۔ ویران، خاموش، اور خستہ حال، یہ مسجد 1039ء میں میر ابوالبقاء نے تعمیر کروائی تھی۔ 

ان گلیوں سے گزر کر آپ تھوڑا آگے جنوب کی طرف جائیں گے تو جامع مسجد شاہجہانی ہے۔ ایرانی فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ، اینٹوں اور رنگوں کے ملاپ کا ایک سحر انگیز مظہر، میناکاری کا ایسا ہنر جسے دیکھ کر روح کو تسکین سی آجائے، گنبدوں پر پچکاری اور رنگوں کی ایسی خوبصورتی جو صدیوں تک زندہ و جاوید رہے۔ ٹھٹھہ شہر کے ماضی کے متعلق اور بھی بہت ساری باتیں اور دکھ ہیں، جن پر کئی صفحات تحریر کیے جا سکتے ہیں، لیکن اس شہر ننگر ٹھٹھہ کا ایک اور اہم حصہ مکلی ہے، جس کے ذکر کے سوا ٹھٹھہ کا ذکر شاید مکمل نہ ہو۔ تو یہ مکلی ہے، ویران، خاموش اور پرسکون، لیکن اس خاموشی کے سینے میں نہ جانے کتنی داستانیں ہیں، جو دردوں کے دیپکوں کی طرح جلتی بجھتی رہتی ہیں۔

مکلی فقط مزاروں، مقبروں، مسجدوں، اور قبروں کا نام نہیں ۔ ان مزاروں کی بنیادوں اور سنگتراشی سے بنے ہوئے نقش و نگاروں میں ماضی کی تلخ و شیریں حقیقتیں پنہاں ہیں۔ ان تراشے ہوئے کنول کے پھولوں میں، مکلی کی ویران شاموں میں، ٹوٹے ہوئے مندروں کی آہوں میں اور ٹوٹے ہوئے مقبروں کے گنبدوں میں، ٹھٹھہ کے ان دنوں کا حسن چھپا ہوا ہے جب ٹھٹھہ خوبصورتی کا دوسرا نام تھا۔ مکلی کے آثاروں کے سینے میں سولہویں صدی کے آخری برسوں کی وہ صبح و شامیں ضرور نقش ہوں گی، جب ٹھٹھہ کی قسمت کے ستارے بدلنے لگے تھے۔ یہ اس کے زوال کے ابتدائی دن تھے۔ ٹھٹھہ عرش سے آکر فرش پر گرااور اس زوال کی کہانی کو مکمل ہونے میں ڈیڑھ سو برس کا عرصہ لگا۔ انیسویں صدی کے آخری نصف میں جب پاٹنجر یہاں آیا تھا تو ٹھٹھہ کے اچھے دن لد چکے تھے، وہ لکھتے ہیں ’’سارا شہر اُداس تھا، آبادی دو ہزار سے بھی کم رہ گئی تھی‘‘۔ ٭

ابوبکر شیخ

Afghan refugees work at a carpet loom in Peshawar

$
0
0
Afghan refugees work at a carpet loom at a camp in Peshawar, Pakistan. Under a UNHCR voluntary repatriation program which began March 2002, millions of Afghans have returned to the wartorn country, though more than 1.5 million remain in Pakistan, a majority of whom have lived there for decades.

مشرقی روایات کا جنازہ

کراچی میں زندگی سسکیاں لے رہی ہے


Pakistani truck drivers wait to break their fast during Ramadan

$
0
0
Pakistani truck drivers wait to break their fast during Ramadan in Lahore, Pakistan.

Beauty of Kashmir - it rains in Srinagar

$
0
0
A Kashmiri woman walks on a footbridge as it rains in Srinagar. This year's monsoon rains in India are officially forecast to be only 88 percent of the long-term average.

Karachi heatwave: Deaths and hopes for showers

$
0
0
 Karachi heatwave: Deaths and hopes for showers

Edhi morgue has received 800 bodies during heatwave

$
0
0
Edhi morgue has received 800 bodies during heatwave.




Ramadan in Turkey - آج میں آپکے گھر افطاری کروں گا ، ترکی صدر طیب اردگان

$
0
0

آج میں آپکے گھر افطاری کروں گا ، یہ ہیں ترکی صدر طیب اردگان جو عام متوسط طبقے کے گھروں کا دروزاہ کھٹکھٹاتے ہیں اور بغیر کسی تکلف کے ان کے ساتھ بیٹھ کر افطاری کرتے ہیں اور ان کے مسائل سنتے ہیں ، کیا خلفاء راشدین کی یاد نہیں تازہ ہو گئی ؟



Ramadan in Turkey

Volunteers bury bodies of people who died due to heat wave in Karachi

$
0
0
Volunteers bury bodies of people who died due to an intense heat wave, during a mass burial at Edhi Foundation graveyard in Karachi.

بی بی سی کی رپورٹ : ریاست بے بس کیوں ہے

$
0
0

ایم کیو ایم کے بھارتی کنکشن کے بارے میں بی بی سی کی رپورٹ نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ رپورٹ میں سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔ بی بی سی نے اس رپورٹ کیلئے برطانوی سورس (ذرائع) کی بجائے پاکستانی سورس کا سہارا لیا ہے جو معتبر اور مستند ہے۔ رپورٹ کے مطابق برطانوی اہلکاروں کی جانب سے عمران فاروق قتل اور منی لانڈرنگ مقدمات کی تفتیش کے دوران ایم کیو ایم کے دو سینئر رہنماﺅں نے ویڈیو بیان میں بھارت سے مالی مدد لینے کا اعتراف کیا۔ ایم کیو ایم کے کارکن بھارت میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کرتے رہے ہیں۔ 
رپورٹ کیمطابق لندن میں مقیم ایم کیو ایم کے لیڈروں کے گھروں پر چھاپے کے دوران پانچ لاکھ پاﺅنڈ کی کرنسی اور ایسی لسٹیں برآمد ہوئیں جن میں بھارت سے حاصل کیے گئے اسلحے اور گولہ بارود کی تفصیل موجود تھی جسے کراچی میں دہشتگردی کیلئے استعمال کیا جانا تھا۔ بی بی سی نے اپنی رپورٹ کو مستند بنانے کیلئے برطانیہ کے دو ججوں کی آبزرویشن شامل کی ہیں جنہوں نے سیاسی پناہ کے مقدمات کے فیصلوں میں درج کیا کہ ایم کیو ایم کے دہشتگردوں نے ان دو سو پولیس افسروں کو قتل کردیا جنہوں نے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے فعال کردار ادا کیا تھا۔ 

ریکارڈ اور شہادتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم طویل عرصے سے دہشتگردی میں ملوث ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے برطانوی ججوں کے ان عدالتی ریمارکس کیخلاف کوئی اپیل نہ کی۔ ایم کیو ایم کی قیادت بی بی سی کی رپورٹ کیخلاف عدالتی چارہ جوئی کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتی حالانکہ برطانوی قوانین بڑے سخت اور عدالتی نظام شفاف اور منصفانہ ہے۔ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے بی بی سی کی رپورٹ کو بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی قراردیتے ہوئے کہا ہے ایم کیو ایم پاکستان کی سلامتی اور استحکام میں یقین رکھتی ہے اس کےخلاف بی بی سی کی رپورٹ میں لگائے جانیوالے الزامات کی نوعیت جناح پور اور نیٹو اسلحہ کے الزامات سے ملتی جلتی ہے جو ثابت نہ کیے جاسکے اور جن کی امریکہ اور سابق جرنیلوں نے تردید کردی۔ پاکستان کی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ سیاستدانوں اور جرنیلوں کا میڈیا ٹرائیل ہی ہوتا رہا ہے جبکہ عدالتی ٹرائیل سے گریز کیا جاتا رہا ہے۔
ایم کیو ایم بدقسمت سیاسی جماعت ہے جو جمہوری طاقت رکھنے کے باوجود فاشسٹ نوعیت کے الزامات سے نجات حاصل نہ کرپائی۔ ایم کیو ایم کے کروڑوں حامی محب الوطن ہیں البتہ ایم کیو ایم کی قیادت سیاسی بصیرت اور وژن کا مظاہرہ نہ کرسکی۔ الطاف بھائی اپنے پرجوش خطاب میں توازن برقرار نہیں رکھ سکتے انہوں نے بھارت جاکر اپنے خطاب میں قیام پاکستان کو ہی ”بلنڈر“ قراردے دیا۔ بی بی سی کی رپورٹ میں لگائے گئے الزامات نئے نہیں ہیں۔ کراچی کے کھوجی پولیس افسر راﺅ انوار نے ایم کیو ایم پر اسی نوعیت کے الزامات لگائے تھے۔ انکی تحسین کی بجائے انکا تبادلہ کردیا گیا۔

 پاکستان کے عسکری دانشور سابق صوبائی وزیر بریگیڈئیر (ر) حامد سعید اختر سندھ میں (1990-91) ایم آئی کے صوبائی چیف تھے۔ انہوں نے ایم کیو ایم کی دہشت گردی، مجرمانہ سرگرمیوں اور بھارتی اعانت کے بارے میں رپورٹیں جی ایچ کیو کو ارسال کیں مگر اس وقت کے آرمی چیف نے انکی رپورٹوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور نہ کیا۔ عام تاثر یہ ہے کہ آرمی چیف اپنی عوامی مقبولیت کے سلسلے میں خوش فہمی میں مبتلا تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ایم کیو ایم کے تعاون سے سینیٹر اور صدر پاکستان بننے کے سیاسی خواب دیکھ رہے تھے۔ آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی جنرل(ر) حمید گل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایم کیو ایم کیخلاف بی بی سی کی رپورٹ میں لگائے جانےوالے الزامات نئے نہیں ہے بلکہ ریاستی اداروں کے ریکارڈ میں پہلے ہی موجود ہیں۔

 پاکستان سے محبت کرنیوالے 82سالہ باباجی میجر (ر) شبیر احمد جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا۔ دو بڑی جنگوں میں اگلے مورچوں میں پاکستان کا دفاع کیا۔ چار سال بھارت کی قید میں رہے۔ آئی بی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے منصب پر فائز رہے۔ پانچ سال بلوچستان میں فرائض انجام دیتے رہے اور 1994میں کراچی آپریشن کے دوران جنرل(ر) نصیراللہ بابر کے ساتھ سرگرم کردار ادا کیا۔ اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں موجودہ حالات پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔ اس نے پاکستان کو توڑنے کیلئے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ وہ آئندہ بھی اپنی مذموم کوششیں جاری رکھے گا۔ 

سوال یہ ہے کہ پاکستان کی ریاست کو منظم، مستحکم اور متحد رکھنے کیلئے کیا منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ اگر ہم اپنی اصلاح کرلیں تو کوئی دشمن پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ بابا جی کہتے ہیں کہ 1994ءکے کراچی آپریشن میں ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے دہشتگردوں کی کمر توڑ کررکھ دی گئی تھی مگر بے نظیر بھٹو کے بعد آنیوالی حکومت نے سیاسی مصلحتوں کے تحت ایم کیو ایم کے مسلح ونگ کو دوبارہ زندہ کردیا اور بے نظیر بھٹو کو جلاوطن ہونا پڑا۔ باباجی کی نظر میں پاک چین اقتصادی معاہدے نے عالمی اور علاقائی تناظر کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ تاریخ کے اس بڑے قومی منصوبے کی تکمیل کیلئے لازم ہے کہ حکومت ان ملک دشمن عناصر کو عوامی، صحافتی اور عدالتی سطح پر بے نقاب کرے جو بیرونی طاقتوں کے آلہ¿ کار بن رہے ہیں۔

 سیاست کو بلا تفریق مجرموں سے پاک کیا جائے۔ بلوچستان میں سرداری نظام کو بحال کرکے بلوچ سرداروں کو امن و امان کے قیام کی ذمے داری سونپی جائے۔ سیاسی مسئلے کا فوجی حل جس کو گزشتہ دس سالوں سے آزمایا جارہا ہے کبھی کامیاب نہیں ہوگا کیونکہ نظریے کو گولی سے ختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ نظریے کے مقابلے میں بہتر نظریہ دینا پڑتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد بلوچ سردارپاکستان کے آئین کو تسلیم کرنے پر تیار ہوں گے بشرطیکہ ان کو مراعات دینے کا فیصلہ کرلیا جائے۔ ان مراعات پر خرچ ہونیوالی رقم ان اخراجات سے کم ہوگی جو بلوچستان میں فوجی آپریشن کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔

پاکستان کے باشعور محب الوطن عوام یہ سوچ رہے ہیں کہ پاکستان کی ریاست اس قدر بے بس کیوں ہے۔ رب کائنات نے پاکستان کو ہر نعمت سے نوازرکھا ہے۔ پاکستان کا دفاع بڑا مضبوط ہے مگر جمہوری اور عسکری حکمران ریاست کو آئین اور قانون کے مطابق چلانے اور پاکستان کے عوام کو گڈ گورننس دینے میں کیوں ناکام رہے ہیں۔ حکمرانوں کی حرص و ہوس نے ریاست کو اس حد تک بے بس کردیا ہے کہ ملک دشمن اور عوام دشمن عناصر کھلم کھلا پاکستان کی سلامتی کے منافی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ لٹیرے بڑی دلیری اور بے باکی سے قومی دولت لوٹ رہے ہیں۔ جب انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوشش کی جائے تو وہ سلامتی کے اداروں کو للکارنے لگتے ہیں اور پھر اس للکار کے بعد میدان میں ٹھہرنے اور اپنے اعمال کا حساب دینے کی بجائے اچانک دوبئی روانہ ہوجاتے ہیں۔ 

اگر بی بی سی پر پاکستان کی بھارت میں مداخلت کی رپورٹ جاری ہوتی تو بھارت آسمان پر سر اُٹھا لیتا اور پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھتا مگر پاکستان کی حکومت نے مصلحت پر مبنی چپ سادھ رکھی ہے۔ 1977ءمیں پی این اے کی تحریک جب عروج پر تھی۔ بھٹو شہید نے آرمی چیف جنرل ضیاءالحق سے کہا تھا کہ جنرل فوجی طاقت تمہارے ہاتھ میں ہے اور سیاسی طاقت میرے ہاتھ میں ہے آﺅ دونوں مل کر پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کردیں مگر جنرل ضیاءالحق ذاتی اقتدار کے امکانات دیکھ رہے تھے اس لیے انہوں نے بھٹو کی تجویز کو سنجیدگی سے نہ لیا۔

 جنرل راحیل شریف پاکستان کے دفاع پر دہشتگردی کیخلاف جنگ پر پوری توجہ دے رہے ہیں جبکہ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف معاشی دھماکے کے دعوے کررہے ہیں کیا شریفین ریاست کو بے بسی کی حالت سے نکال پائیں گے۔ اس سوال کا جواب 2016ءتک مل جائیگا۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے اعلان کیا ہے کہ حکومت بی بی سی کی رپورٹ میں لگائے گئے سنگین الزامات کی تحقیق کے سلسلے میں آخری حد تک جائیگی۔ آئین اور قانون کی مکمل اور یکساں عملداری سے ہی ریاست منظم اور متحد رہتے ہوئے اپنے مسائل پر قابو پاسکتی ہے۔ایم کیو ایم پر پابندی کی بجائے اس کے مسلح ونگ کو ختم کرنا چاہیئے۔

قیوم نظامی


Islamabad becomes more beautiful after rain

$
0
0

Islamabad becomes more beautiful after rain.






گرمی کی لہر کی وجہ جاننا ضروری ہے

$
0
0

پاکستانی اور بھارتی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں میں گرمی کی حالیہ شدید لہر میں بلند درجۂ حرارت صرف ایک عنصر ہے اور باقی عوامل کا تعین ہونا باقی ہے۔

اِن ماہرین کے مطابق ہوا کا کم دباؤ، بہت زیادہ نمی اور ہوا کا خلافِ معمول بند ہونا وہ اہم عوامل تھے جن کے یکجا ہوجانے کی وجہ سے گرمی ناقابل برداشت ہوگئی تھی لیکن ایک ساتھ یہ عوامل مئی اور جون میں کیسے یکجا ہوئے، یہ جاننا ابھی باقی ہے۔

پاکستانی ماہرینِ موسمیات کے مطابق کراچی میں گذشتہ ہفتے گرمی کی لہر کے عروج پر زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت کی پیش گوئی 43 ڈگری سینٹی گریڈ کی تھی جو درست ثابت ہوئی لیکن باقی دوسرے عوامل کے مل جانے سے گرمی ناقابل برداشت ہوگئی تھی۔

گذشتہ 30 برسوں کی گرمی کی اس شدید ترین لہر میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ جبکہ بھارت میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2000 لوگ ہلاک ہوئے ہیں لیکن گرمی سے مرنے والوں کی مجموعی تعداد 3000 سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔

پاکستان میں محکمۂ موسمیات یعنی نیشنل ویدر فورکاسٹنگ سینٹر کے ڈائریکٹر محمد حنیف کے مطابق اصل درجۂ حرارت اور اُس کی شدت کے فرق کو گرمی کا انڈیکس کہا جاتا ہے جس کی رو کراچی میں درجۂ حرارت انچاس ڈگری جیسا محسوس ہو رہا تھا۔

محمد حنیف کے بقول انڈیکس کے زیادہ ہونے کی وجہ ہوا کا کم دباؤ اور فضا میں بہت زیادہ نمی تھی۔ جون کے مہینے میں انتہائی خلاف معمول ہوا کے اِس بہت کم دباؤ نے سمندر کی طرف سے چلنے والی ہوا کو بالکل بند کردیا جس سے گرمی ناقابل برداشت ہوگئی تھی۔

بھارتی سائنسدان بھی خلاف معمول موسمیاتی حالات کا بغور مشاہدہ کررہے ہیں۔
انڈین محکمۂ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل ایل ایس راٹھور کا کہنا ہے کہ ساحلی علاقوں میں شام کے وقت سمندری ہوا چلنے سے انسانی جسم پر گرمی کے اثرات کم ہوجاتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اس سال ایسا نہیں ہوا بلکہ پورے خطے میں گرمی بڑھتی ہی رہی۔

ایک اور ادارے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹراپیکل میٹیورولوجی میں موسمیاتی تبدیلیوں کے شعبے کے سربراہ آر کرشنن کہتے ہیں کہ موسمی حالات کی محدود توجیہہ ہی کی جا سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ فضا میں ہوائی لہروں میں ہونے والی تبدیلیوں کے باعث گرمی کئی روز تک جاری رہی۔لیکن اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ موسمیاتی لہروں میں تبدیلی کی وجوہات معلوم نہیں ہیں جن کی وجہ سے گرمی برقرار ہے۔

کراچی میں گرمی کے تناظر میں محد حنیف کا کہنا تھا کہ بحیرۂ عرب میں بننے والا ہوا کا کم دباؤ جب نچلی فضا میں آیا تو اُس کے باعث 43 ڈگری سینٹی گریڈ کا درجہ حرارت49 تک محسوس کیا گیا جبکہ اس کے برعکس پاکستان کے بعض دوسرے علاقوں میں درجۂ حرارت 47 ڈگری تک ریکارڈ کیا گیا لیکن وہ 41 ڈگری تک محسوس ہو رہا تھا کیونکہ وہاں ہوا کا دباؤ زیادہ تھا اور نمی بھی کم تھی۔
محمد حنیف کے بقول اِس برس جو کراچی میں دیکھا گیا وہ اب جنوبی ایشیا کے کئی علاقوں میں کئی برسوں سے تواتر سے دیکھا جا رہا ہے لیکن اِس اچانک تبدیلی کی درست وجہ معلوم نہیں ہے نہ ہی علاقائی طور پر اِس حوالے سے کوئی مربوط کام شروع ہوا ہے۔

آر کرشنن بھی اِس بات سے متفق ہیں اور کہتے ہیں کہ اِس پورے موسمیاتی عمل کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسا خاص اِس وقت ہی کیوں ہوا ہے۔
سائنسدانوں کے بقول عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں نے یقیناً گرمی کی لہر کو بڑھایا ہے اور یہ اسی طرح ہو رہا ہے جیسے شدید موسم کے دوسرے مظاہر مثلاً سیلاب، خشک سالی، جنگلات میں لگنے والی آگ، شدید برفباری وغیرہ۔
موسمیاتی تبدیلیوں پر اقوام متحدہ کا بین الحکومتی پینل پہلے ہی یہ خبردار کرتا رہا ہے کہ اِن تبدیلیوں کے اثرات گرمی کی زیادہ شدت کی صورت میں جنوبی ایشیا میں زیادہ ہوں گے۔

اور اِس کی وجہ اقوام متحدہ کے موسمیاتی ادارے کے مشیر برائے ایشیا قمر زمان چودھری کے بقول یہ ہے کہ یہ موسمیاتی مظہر سمندری طوفانوں اور سیلاب وغیرہ کے بہ نسبت آہستہ آہستہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اُن کے بقول خطے میں گرمی کی لہر کا معاملہ بھی یہی رہاہے۔

بی بی سی نیوز، لندن

کیا یہ قانونی دہشت گرد‘ قابل معافی ہیں؟

الطاف حسین کے خلاف تحقیقات اور برطانیہ

The devastating heat wave in the southern port city of Karachi

$
0
0
Pakistani children who are suffering from dehydration due to extreme weather are attended to by their mothers as they wait for their turn at a local hospital in Karachi, Pakistan. A Pakistani official says the devastating week long heat wave in the southern port city of Karachi has killed over 1,200 people despite a respite in temperatures.





Viewing all 4315 articles
Browse latest View live