Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

موم بتی مارکہ کی بہتان تراشی....

$
0
0


کئی برس سے پاکستان میں ان این جی اوز کی چاندی ہے جو معاشرے میں شعور اجاگر کرنے کے لئےکوشاں ہیں۔غیر ملکی سفارتخانے مختلف النوع آگہی مہمات (Awareness compaigns) کے لئےنہایت فراخدلی سے فنڈز مہیا کرتے ہیں ۔شعور و آگہی کے عنوان سے سرگرم ان این جی اوز کو سبق دیا جاتا ہے کہ غربت کے ماروں کو دو وقت کی روٹی مہیا کرنے کے بجائے تواتر کے ساتھ یہ احساس دلایا جائے کہ تمہارا استحصال ہو رہا ہے۔علاج سے محروم افراد کی مدد کرنے کے بجائے انہیں یہ باور کرایا جائے کہ ان کے حقوق غصب کئے جا رہے ہیں۔جو طبقات ترقی کی منازل طے کرنے سے قاصر ہیں ،انہیں اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کی ترغیب دی جائے۔

برسہا برس کی اس مہم جوئی کے نتیجے میں ہمارے ہاں بھی موم بتی مارکہ سول سوسائٹی نے جنم لیا ہے جسے پاکستان میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی ۔پاکستان میں کتنے ہی بے گناہ افراد جیلوں میں سڑ رہے ہیں مگر ان کی محبت ایک سزا یافتہ قیدی شفقت کے لئےاُمڈ پڑتی ہے اور اسے کم سن قرار دلوانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔اس موم بتی مارکہ سول سوسائٹی کو محض وہی ایشوز دکھائی دیتے ہیں ،جس سے پاکستان کی سبکی اور بدنامی کا سامان ہو سکے۔انہیں اندرون سندھ کی لاعلمی اور جہالت سے کوئی غرض و غایت نہیں مگر بلوچستان کے عوام کی محرومی و پسماندگی ہمیشہ سے ان کا محبوب و مرغوب موضوع رہا ہے کیونکہ اس پر انہیں فنڈز دینے والے غیر ملکی آقائوں سے شاباش موصول ہوتی ہے۔انہیں اس خبرمیں کوئی کشش نظر نہیں آتی کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران 10000 بلوچ نوجوانوں نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔

چند روز قبل بلوچستان میں 20 بے گناہ مزدور مارے گئے تو ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی کیونکہ مارے جانے والے پنجابی تھے اور ان کے قتل کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے وصول کی۔ان کے ہاں صف ماتم تو تب بچھتی ہے جب کوئی بلوچ قتل ہو جائے۔ ایسا نہیں کہ انہیں بلوچوں سے انس ہے اور پنجابیوں سے ویر،معاملہ صرف اور صرف دھندے کا ہے ۔اب بھلا بلوچ لبریشن آرمی کی مذمت کر کے اور غریب مزدوروں کے لئے موم بتیاں جلا کر انہیں کیا ملے گا؟ یہ تو تب خوشی سے پھولے نہیں سماتے جب انہیں ریاست اور ریاستی اداروں کو رگیدنے کا کوئی سنہری موقع میسر آئے۔ انہیں جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ ،محمود خان اچکزئی،افتخار چوہدری ،جمال شاہ،حصام قاضی، عابد علی، ایوب کھوسو اور ماہ نور بلوچ جیسے محب وطن ایک نہیں بھاتے کیونکہ حربیار اور براہمداغ ان کی آنکھ کا تارا ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ بلوچستان میں ریاست کو کس قدر گمبھیر ،گنجلک اور چومکھی لڑائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، انہیں تو بس کوئی جواز ،کوئی موقع چاہئے فوج اور آئی ایس آئی کو مورد الزام ٹھہرانے اور مطعون کرنے کا ۔

یقینا بلوچستان میں لاپتہ افراد کا معاملہ بہت تشویشناک ہے اور میں خود کئی بار اس معاملے کی سنگینی کا تذکرہ کر چکا ہوں لیکن ہمارے ہاں ہر معاملے پر فوج اور آئی ایس آئی کو چارج شیٹ کرنا فیشن بن چکا ہے۔ بلوچستان کوماضی میں نظر انداز کیا گیا اور بلوچ سرداروں نے بھی دانستہ طور پر وہاں ترقی نہیں ہونے دی مگر اس اس بات کا پوری قوم کو ادراک ہے اور اس کا ازالہ کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ مگر اس موم بتی مارکہ نام نہاد سول سوسائٹی کا المیہ یہ ہے کہ انہیں جہاں کہیں کوئی من پسند لاش دکھائی دیتی ہے یہ اس کا خون چوسنے اور ہڈیاں نوچنے پہنچ جاتے ہیں۔ چند روز قبل کراچی میں انسانی حقوق کی ایک سرگرم کارکن سبین محمود قتل ہوئیں تو بلا تحقیق و تفتیش اس موم بتی مارکہ نے خفیہ اداروں کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیا۔ابتدائی طور پر سوشل میڈیا پر اس زہریلے پروپیگنڈے کا آغاز ہوا مگر جلد ہی تمام چینلز نے بھی وہی لائن اختیار کر لی۔

سبین محمود نامی خاتون نے چند برس قبل کراچی میں میں گوشہ ء امن کے نام سے این جی او بنائی اور ایک فکری نشست کا اہتمام کیا۔ یہ ادبی بیٹھک طرز کا ایک ادارہ تھا جس میں مختلف موضوعات پر دانشورحضرات جمع ہوتے اور اس گوشہء عافیت میں اپنی بے لاگ آراء کا اظہار کرتے۔ جس دن یہاں اپنی آخری نشست سے فراغت پانے کے بعد سبین محمود اپنی والدہ کے ہمراہ گھر جاتے ہوئے قتل ہوئیں، اس دن ’’سیکنڈ فلور‘‘ میں ’’ان سائلنسنگ بلوچستان ٹیک ٹو‘‘ کے نام سے ایک نشست ہوئی جس میں وائس آف مسنگ پرسنز کے سربراہ ماما قدیر سمیت انسانی حقوق کے دیگر کارکنوں اور غیر ملکی نشریاتی ادارے کے صحافی نے شرکت کی۔

اس کا پس منظر یہ ہے کہ چند روز قبل لمز میں اسی عنوان سے ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں کم وبیش انہیں شخصیات نے شرکت کرنا تھی مگر عین وقت پر سکیورٹی خدشات کی بنیاد پر یہ پروگرام کینسل کر دیا گیا۔ اس وقت بھی ایک صحافی نے بلوچستان کے حوالے سے تمسخرانہ انداز میں ایک کالم لکھا اور جب سبین محمود قتل ہوئیں تو سب سے پہلے یہ تھیوری ان کی جانب سے پیش کی گئی کہ چونکہ اس نڈر خاتون نے لمز میں نہ ہوسکنے والی نشست کا اپنے ہاں اہتمام کرنے کی گستاخی کی اس لئےاسے قتل کر دیا گیا۔ لکھا گیا ’’سبین قتل ہوئی اس لئےکہ جب رفتہ رفتہ سب لائن پر آ رہے ہیں تو تو افلاطون کی بچی لائن سے باہر کیسے نکل رہی ہے؟لے اب گولی کھا۔‘‘ گویا اس تاویل کا مطلب یہ ہے کہ اس بند کمرے میں ہونے والی گفتگو اس قدر خوفناک تھی یا ماما قدیر کو مدعو کرنے کا جرم اس قدر سنگین نوعیت کا تھا کہ اسے قتل کر دیا گیا۔

تکلف برطرف ،کتنے ہی اینکرز ماما قدیر کو اپنے پروگرام میں بلاتے ہیں ،کیا وہ سب قتل کردیئے جاتے ہیں؟اگر ٹی وی چینلز پر زہر اگلنے والے ناپسندیدہ افراد کو کچھ نہیں کہا جا تا تو ایک بند کمرے میں ہونے والی گفتگو پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟کیا کوئی خاتون عاصمہ جہانگیر سے بڑھ کر نڈر اور بے باک ہو سکتی ہیں؟اگر آج تک انہیں کسی نے انتقامی کارروائی کا نشانہ نہیں بنایا تو سبین محمود کو ٹارگٹ کرنے کی کیا منطق ہو سکتی ہے؟ فرزانہ باری،طاہرہ عبداللہ اور ان جیسی کتنی ہی خواتین انسانی حقوق کیے نام پر دل کی بھڑاس نکالتی رہتی ہیں مگر آج تک کسی نے انہیں کوئی ضرر نہیں پہنچایا تو سبین محمود کو نشانہ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ اور مضحکہ خیز بات تو یہ ہے خفیہ اداروں نے ایک بے ضرر خاتون کو تو مار ڈالا کیونکہ اس نے ریاست کے ناپسندیدہ فرد ماما قدیر کو مدعو کیا مگر خود ماما قدیر آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں…؟؟

یعنی الزام لگانے والوں کے خیال میں یہ ادارے اس قدر احمق ہیں کہ بانس توڑنے کے بجائے بانسری بجائے جانے کا تدارک کر رہے ہیں۔اور آخری بات یہ کہ اگر ریاستی اداروں نے اپنے خلاف بولنے والوں کو ہمیشہ کے لئےخاموش ہی کرانا ہوتا تو پھر غیر ملکی نشریاتی ادارے کے ان چند لکھاریوں کو کھلی چھٹی کیوں دی جاتی جو پاکستان کے خلاف زہر اُگلنے کے لئےاُدھار کھائے بیٹھے ہیں؟ویسے پاکستانی صحافیوں پر قدغنوں اور غیر ملکی نشریاتی ادارے سے وابستہ افراد کوشتر بے مہار آزادی سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں سگ آزاد ہیں اور سنگ مقید۔

محمد بلال غوری
"بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ


امریکی عدالت ۔ منفرد مقدمہ۔ منصفانہ فیصلہ....

$
0
0

ملاحظہ کیجئے۔ 21اپریل 2015ء ہے اور واشنگٹن کے نواحی علاقے الیگزینڈریا ورجینیا کی امریکی وفاقی عدالت کا کمرہ قربان، عامر اور الیاس چوہدری نامی پاکستانیوں سمیت گورے کالے امریکیوں ، عیسائی پادری اور یہودی ربی اورہر عقیدہ و نسل کے لوگوں سے بھرا ہوا ہے بلکہ لوگ باہر بھی کھڑے ہیں۔ یہ ایک پاکستانی نژاد ڈاکٹر کے خلاف امریکی حکومت کا دائر کردہ مقدمہ ہے۔ الزامات بڑے سنگین ہیں، جن میں امریکہ کے خلاف سازش، ٹیکس فراڈ حکومت کو کئی ملین ڈالرز کا نقصان پہنچانے اور اسلام آباد کے مشہورکے اسٹاک کی غیرقانونی خریداری شامل ہے۔
مگر یہاں تو عدالت کا منظر ہی الٹا ہے۔ یہ سب لوگ اس پاکستانی نژاد ڈاکٹر سعید باوجوہ کی حمایت میں دور دراز کا سفر کرکے مختلف ریاستوں سے کمرئہ عدالت تک آئے ہیں۔ اس کے علاوہ 150 افراد ،جن میں ڈاکٹر سعید باجوہ کے بہت سے مریض ، ساتھی ڈاکٹرز، اسپتال کا عملہ، یہودی اور عیسائی مذاہب کے رہنما شامل ہیں جنہوں نے فرداً فرداً عدالت کے جج لیام اوگرڈی کے نام نیوروسرجن سعید باجوہ کے بارے میں اپنے ذاتی تجربات ، مشاہدات ، دیانت و شرافت اور سرجری کی مہارت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر باجوہ کی انسان دوستی خدمت اور زندگی بچانے کی انتھک جدوجہد کے بارے میں خطوط لکھے ہیں کہ جب وہ سرجری کی فیس برداشت نہیں کرسکتے تھے اور انشورنس کمپنی بھی ادا کرنے سے انکاری تھی تو سعید باجوہ نے کس طرح اپنی سرجری کی فیس لئے بغیر نہ صرف سرجری کی بلکہ اس کے بعد بھی بحالی تک علاج کیا۔

امریکی خاتون کمبری کوہ نے جج کے نام لکھا کہ میں برین ٹیومر کے ہاتھوں زندگی کی امید ہار چکی تھی،مگر ڈاکٹر سعید باجوہ سے ملی تو سرجری سے قبل انہوں نے کہا کہ میں سرجری کرنے والی ٹیم کا انچارج اور اس جہاز کا کپتان ہوں۔ میں اسے ڈوبنے نہیں دوں گا۔ بس دعائوں کی ضرورت ہے۔ آج میں زندہ ہو اور یہ خط لکھ رہی ہوں۔ سوزن میگاھن نے لکھا کہ سرجن باجوہ نے فیس کی پرواہ کئے بغیر سرجری کی اور اسپتال کے اخراجات میں بھی کمی کروائی ۔ لاہور کے ایک معمولی بزنس مین چوہدری ریاض الدین اپنے برین ٹیومر کے سلسلے میں ڈاکٹر باجوہ سے پاکستان میں ملے اور پھر سرجری کیلئے امریکہ آئے تو انہیں سعید باجوہ نے ایک فرنشڈ اپارٹمنٹ میں قیام کروایا۔ سرجری اور علاج کے ڈیڑھ ماہ بعد جب وہ بل کی ادائیگی کیلئے اسپتال گئے تو معلوم ہوا کہ صرف اسپتال کا بل ہے اور سعید باجوہ نے سرجری کرنے کا بل ہی نہیں بھیجا۔

چوہدری ریا ض الدین نے جج کے نام لکھا ہے کہ جب میں نے ڈاکٹر باجوہ کو فیس دینے پر اصرار کیا تو انہوں نے کہا کہ میری فیس کی رقم آپ ضرورت مند انسانوں میں تقسیم و خیرات کردیں۔ ڈاکٹر لوئس پیکورا عیسائی پادری کوری وان کورن، مریضہ للیان پربا، ڈاکٹر مائیکل وولف، یہودی ربی، اسپتال کے سربراہ میتھیوسلنگر اور مختلف نسل اور عقیدہ کے لوگوں نے ڈاکٹر سعید باجوہ کی حمایت میں جو کچھ لکھا ہے صرف اسی کو پڑھنے سے مجھ سمیت ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند ہوگیا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ امریکی وفاقی عدالت کے جج لیام اوگرڈی نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے 17 صفحات پر مشتمل رولنگ میں ’’ملزم‘‘ ڈاکٹرسعید باجوہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں خدا کا شکر گزار ہوں کہ اس نے آپ جیسے انسان دنیا میں پیدا کئے۔ آپ ایک نعمت (TREASUR) ہیں‘‘۔ جج ملزموں کو باعزت بری تو کرتے ہیں لیکن کسی ملزم کو وہ نعمت کہہ کر خدا کا شکر ادا نہیں کرتے۔

میرا مشاہدہ تو یہی ہے۔ پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر 11ستمبر 2001ء کے بعد امریکہ میں جو تبدیلی آئی ہے اور مسلمانوں کیلئے شکوک و شبہات ، مشکلات اور مقدمات و تحقیقات کی جو صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ لیکن رحیم یار خاں کے ایک دیہاتی متوسط مگر روشن دماغ اور سوچ رکھنے والے خاندان کا سعید باجوہ نشتر میڈیکل کالج سے ڈاکٹر بن کر نکلا تو والد کا اصرار تھا کہ پاکستان کے ضرورت مند انسانوں کی خدمت کرویہ مٹی کا قرض ہے۔ بڑی مشکل اور اصرار کے بعد دانشور والد نے اس شرط کے ساتھ امریکہ آنے کی اجازت دی کہ پاکستان اور پاکستانیوں کی خدمت فرائض میں شامل رکھنا۔ دولت کے پیچھے بھاگنے کی بجائے انسانوں کے پیچھے جاکر ان کی خدمت کرنا دولت تمہارے پیچھے آئے تو اس میں سے ضرورت مندوں کا حق پہلے علیحدہ کرکے پہنچانا۔

ڈاکٹروں باجوہ کی والدہ کو سر کا ’’مائیگرین درد تھا لہٰذا کثر سر کو دیہاتی انداز کی پٹی باندھ کر کہا کرتیں کہ میرا بیٹا ڈاکٹر بن کر اس درد کا علاج ڈھونڈے گا۔ غالباً یہی بات ڈاکٹر سعید باجوہ کے نیوروسرجن بننے کا محرک ثابت ہوئیس۔ نیویارک میں ریزیڈنسی کے سال مختلف اسپتالوں میں گزار کر سعید باجوہ نیوروسرجری کے شعبے میں مصروف اور پھر 1995ء میں اسپتال کے شعبہ نیوروسرجری کے ڈائریکٹر ہوگئے۔ مریضوں اور دولت کی ریل پیل ہوئی تو والد سے کئے گئے وعدوں کے مطابق رحیم یار خاں میں تعلیم کے فروغ اور مستحقین کی امداد کیلئے فلاحی کام کیلئے عطیات اور کام کی ابتداء کی والد صاحب تو 1987ء میں بھی تعمیر ملت فائونڈیشن کے شریک بانی ہو کر رحیم یار خاں میں تعمیر ملت اسکول کا آغاز کرچکے تھے۔ اب اس فائونڈیشن کے 430 اسکول پاکستان میں قائم ہیں۔

 پھر جب اسلام آباد میں عالمی شہرت کا حامل اسپتال شفا انٹرنیشنل کی بنیاد ڈالی گئی تو ڈاکٹر باجوہ اس کے بھی بانی انویسٹر تھے۔ آزاد کشمیر میں تاریخی زلزلہ آیا تو سعید باجوہ نے اسلام آباد پہنچ کر مسلسل کئی روز تک متاثرین زلزلہ کی نیوروسرجری اور علاج کیا۔کی امریکہ میں بھی بلا لحاظ نسل، عقیدہ یا رنگ ڈاکٹر باجوہ نے عطیات بھی دیئے اور ضرورت مند انسانوں کی بے لوث خدمت کرکے اپنے علاقے میں بھی بڑی شہرت اور احترام حاصل کیا۔

ستمبر سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بعدامریکہ کے مسلمانوں کیلئے امریکہ تبدیل اور مشکلات کا دور شروع ہوا۔ تحقیقات ، نگرانی دیگر مسائل اور دہشت گردی کے طوفان نے جو ماحول پیدا کیا اسی میں کچھ عرصہ بعد کشمیر کاز کیلئے سرگرم ڈاکٹر غلام نبی فائی اور ان کی کشمیر۔ امریکن کونسل ایف بی آئی کی تحقیقات کی زد میں آگئی جس میں ایک پاکستانی ادارے کی فنڈنگ اور شفا انٹرنیشنل اسپتال کے بانی ظہیر احمد کے نام اور حوالے سامنے آئے۔ اور پھر جولائی 2011ء میں ڈاکٹر سعید باجوہ بھی ایف بی آئی کی تحقیقات کی زد میں آگئے الزامات لگا کر مقدمہ قائم کیا گیا کہ ایک مسلسل سازش کے ذریعہ امریکہ اور اس کے ٹیکس نظام کے ساتھ فراڈ کیا گیا۔ غلط بیانی کی گئی اور امریکہ کو کئی ملین ڈالرز کا نقصان پہنچایا گیا۔ شفا انٹرنیشنل شیئرز غیرقانونی طور پر باجوہ صاحب نے حاصل کئے۔ امریکی محکمہ انکم ٹیکس کے مطابق ڈاکٹر سعید باجوہ نے 2002 ء تا 2010ء کے آٹھ سال عرصہ میں 13,90,272 یعنی تقریباً چودہ لاکھ ڈالرز کے عطیات دیئے۔

ان میں سے انہوں نے ساڑھے پندرہ ہزار ڈالرز رحیم یار خان میں اپنے چچا محمد امین باجوہ کے زیر انتظام ’’اقرا کالج برائے خواتین کو دیئے اور قانون کے مطابق یہ نہیں بتایا کہ یہ ادارہ ان کے رشتہ دار کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔ لہٰذا یہ دھوکہ اور غلط بیانی ہے جبکہ ایف بی آئی کی تحقیقات کے دوران سعید باجوہ نے سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ انہوں نے شفاء انٹرنیشنل اسپتال کے بورڈ کی میٹنگ میں 2010ء میں شرکت کی تھی جبکہ وہ اسپتال کے بانی انویسٹر اور 2006ء سے وابستہ ہیں لہٰذا یہ بھی غلط بیانی ہے۔

 بہرحال سنگین الزامات کے تحت ڈاکٹر باجوہ اس مقدمے اور تحقیقات کے شدید دبائو میں رہے مگر بڑی جرات اور صاف ضمیر کے ساتھ حالات کا سامنا کرتے رہے۔ ان کے وکیلوں نے عدالت میں انکم ٹیکس کے محکمہ کے حکام کے ساتھ بیٹھ کر ایک ایک رسید اور دستاویزات سے ثابت کیا کہ شفاء انٹرنیشنل کے ہر ہر شیئر کو جائز طور پررقم ادا کرکے قانون کے مطابق خریدا گیا ہے۔ اسی طرح تمام عطیات کا حساب بھی ثابت کیا گیا۔ اور پھر خود امریکی حکومت کی جانب سے لگائے گئے الزامات واپس لئے جانے لگے۔ عدالت نے بھی بعض امور پر امریکی حکومت کے موقف کو دلائل اور شواہد کی بناء پر مسترد کر دیا لہٰذا نیا سال شروع ہونے پر مقدمہ کے تمام الزامات سکڑ کر صرف چند الزامات زیر بحث رہ گئے کہ ’’اقراء‘‘ کالج برائے خواتین کو عطیات تو درست دیئے مگر بے ضابطگی یہ ہوئی کہ انکم ٹیکس حکام کو یہ نہیں بتایا کہ یہ ادارہ ان کے رشتہ دار چلاتے ہیں۔

دوسرے یہ کہ شفاء انٹرنیشنل سے اپنی وابستگی 2006ء سے بتانے کی بجائے 2010ء بتائی گئی اور اس طرح غلط بیانی اور ٹیکس کے نظام کو نقصان پہچانے کا ارتکاب کیا گیا۔ ڈاکٹر باجوہ نے اپنی ان دونوں غلطیوں کا اعتراف بھی کرلیا اور جج نے بھی کہا کہ غلطی تو ہوئی مگر باجوہ کی نیت خراب نہیں تھی۔ سعید باجوہ بھی ہماری طرح انسان ہیں۔ عدالت کے جج نے اپنے سترہ صفحات پر مشتمل فیصلے میں ریمارکس دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ڈاکٹر سعید باجوہ ہمارے لئے ایک نعمت (TREASUR) ہیں۔ انہیں کمیونٹی سے دور کرنا کمیونٹی کیلئے نقصان ہوگا وہ ایک سرجن کے طور پر انسانوں کی خدمت کررہے ہیں لہٰذا ان کی دو غلطیوں کیلئے انہیں دوسال کی ’’پروبیشن‘‘ اور 25 ہزار ڈالرز جرمانہ ادا کرنا ہوں گے۔

ایک اچھے پاکستانی، امریکن رول ماڈل کے طور پر پاکستانیوں کا سرفخر سے ڈاکٹر سعید باجوہ نے بلند کیا جبکہ امریکی نظام انصاف نے بھی قانون کی بالا دستی کے ساتھ ساتھ سعید باجوہ کی انسانی غلطیوں کو بھی ان کی اعلیٰ انسانی اقدار اور خدمت انسانیت کے تناظر میں جانچ کر انصاف کیا۔

ڈاکٹر فرقان حمید
"بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ


مال کمانے کے لیے عورت کو مت بیچو

کرپشن کی برکتیں...

بھارت میں کسانوں کی خودکشیاں.....

$
0
0

یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ بی جے پی این جی اوز کو ڈرا دھمکا رہی ہے۔ پارٹی لیڈروں کو احساس ہی نہیں کہ اس کے بیشتر اراکین کبھی خود این جی اوز میں شامل تھے۔ جب جن سنگھ مسز اندرا گاندھی کی مطلق العنان حکمرانی کے خلاف جنتا پارٹی کی شکل میں ابھری تو وہ لوگ اس جدوجہد کا حصہ تھے جو انسانی حقوق کی بحالی کے لیے چلائی گئی تھی اورجسے حکمران کانگریس پارٹی بیدردی سے کچلنے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہی لوگ اب این جی اوز کے مخالف کیونکر ہو گئے ہیں!

رضا کار تنظیموں کے اکاؤنٹس کی وزارت خزانہ مستقل بنیادوں پر جانچ پڑتال کرتی ہے۔ تمام غیر ملکی فنڈز حکومتی چینلز کے ذریعے موصول ہوتے ہیں جن میں کسی بھی ہیرا پھیری کا کوئی امکان نہیں۔ اب حکومت کی طرف سے طریقہ کار کی جس تبدیلی کا اعلان کیا گیا ہے اس کا مقصد ڈرانے دھمکانے کے سوا اور کچھ نہیں۔

حکومت کا یہ کہنا کہ فنڈز کے حصول کے لیے پہلے سے اجازت لی جائے جو ممکن ہی نہیں۔ سرگرم کارکنوں کو فوری طور پر جس فنڈ کی ضرورت ہوتی ہے اگر پیشگی اجازت کا طریق کار اپنایا جائے تو پھر انھیں فنڈز کے لیے غیر معینہ مدت تک انتظار کرنا ہو گا۔ مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ بی جے پی نے گاندھی امن فاؤنڈیشن کے خلاف تحقیقات کو، جو کوئلے کے ذخائر کی غیر قانونی تقسیم کے بارے میں تھی، کس طرح فراموش کر دیا۔ یہ اسکینڈل مسز گاندھی کے 1980ء میں برسراقتدار آنے کے بعد منظرعام پر آیا تھا۔
اس وقت جن سنگھ کے کارکنوں کی غیر ضروری طور پر سرزنش کی گئی تھی۔ بی جے پی اسی جَن سَنگھ کا نیا جنم ہے جنھوں نے عوام کے حق آزادی اور اظہار رائے کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اس تحریک میں تیستا سیٹل واڈ اور جاوید آنند پیش پیش تھے۔ میں ان دونوں کو جانتا تھا۔ ان دونوں کی شہرت بہت اچھی تھی۔

انھوں نے فرقہ واریت کی قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا جو ہماری سیکولر ازم کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ اب بی جے پی کا ہندوتوا کی طرف جھکاؤ افسوسناک ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو لوگ ہمارے آئین کی سیکولر روح کو اجاگر کرنے کی خاطر تعصب اور تنگ نظری کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں ان پر ناجائز طور پر الزام تراشی کی جائے۔

حصول آزادی کے بعد آئین ساز اسمبلی نے حکمرانی کی بہت ساری اقسام پر بحث کی تھی لیکن بالآخر وہ اتفاق رائے اس نتیجے پر پہنچے کہ سکیولر سیاست سب سے بہتر ہے۔ اگر اب ہم اس کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کرتے ہیں تو یہ عوام کی قربانیوں کا مذاق اڑانے والی بات ہو گی۔ نریندر مودی اب معاشرے کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کے خلاف ہو چکے ہیں۔

یہ ایک صحتمند تبدیلی ہے۔ مودی کہ ان کی حکومت سب کی حکومت ہے اور یہ کہ سب کو ترقی کرنے کا حق حاصل ہے اس کے لیے جو نعرہ اختیار کیا گیا ہے وہ ہے ’’سب کی سرکار‘ سب کا ویکاس‘‘۔بی جے پی کے بعض اراکین جو آر ایس ایس کے زیر اثر ہیں وہ بغیر سوچے سمجھے اقلیتوں کے ارکان کو اغواکرتے ہیں، گرجا گھروں کو نذر آتش کرتے ہیں اور ’’گھر واپسی‘‘ کے نام پر اقلیتوں کو زبردستی ہندو بنا رہے ہیں۔ مودی کو چاہیے کہ وہ انھیں روکیں کیونکہ بھارت بدنام ہو رہا ہے۔

مجھے یاد ہے جب میں لندن میں بھارت کا ہائی کمشنر تھا تو یہودیوں کا ایک وفد مجھے ملنے آیا۔ وہ بھارت میں یہودیوں کے ساتھ حسن سلوک پر بھارت سے اظہار تشکر کرنا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت دنیا بھر میں واحدملک تھا جہاں یہودیوں کے ساتھ کبھی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ نئی دہلی حکومت نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا۔

لیکن حوصلہ شکن بات یہ ہے کہ سیکولرازم کی جڑیں بتدریج بہت مضبوط ہو جانی چاہئیں تھیں مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ بھارت نے آزادی کے بعد سے 68 سال میں معاشی اعتبار سے خاصی ترقی کی ہے لیکن دیہی علاقوں کی پسماندگی سے ہماری ناکامی عیاں ہے۔ کسان سب سے زیادہ مصائب میں مبتلا ہیں۔کسان جس بڑی تعداد میں خودکشیاں کر رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی پیداوار کے فوائد ان تک نہیں پہنچ پاتے۔

مہاراشٹر ایک ترقی یافتہ ریاست ہے لیکن وہاں پر بھی ایک اور کسان نے خود کشی کر لی ہے۔ یہ مارچ کے مہینے سے نویں خود کشی ہے۔ دیگر ریاستوں سے ملنے والی خبریں اور بھی زیادہ پریشان کن ہیں۔ پیداواری اخراجات میں جس قدر اضافہ ہو گیا ہے وہ کسانوں کی برداشت سے باہر ہے۔ نئی دہلی میں ایک جلسہ عام میں راجستھان کے ایک کسان نے ہزاروں افراد کی موجودگی میں خود کشی کر لی۔ میرا خیال تھا کہ اس کی موت سے قوم سنجیدگی سے کسانوں کی حالت زار بہتر بنانے پر غور کرے گی مگر مجھے اعتراف ہے کہ میرا خیال غلط تھا۔ پارلیمنٹ میں تھوڑا سا شور اٹھا تھا۔ وزیراعظم مودی نے بھی دکھ کا اظہار کیا۔

لیکن جلد ہی معمول کی کارروائی شروع ہو گئی ۔ مجھے یہ بھی اعتراف ہے کہ میں کسانوں کی حالت بہتر بنانے کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کر سکا۔ دراصل پارلیمنٹ میں کسانوں کی اراضی حاصل کرنے کے لیے جو مسودہ قانون پیش کیا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر اپنی من مانی کرنا چاہتا ہے۔

اس مسودہ قانون کے لیے کسانوں کی تشویش دور کرنے کے بنیادی نکتے کو ختم کر دیا گیا ہے ۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کی زیرقیادت اپوزیشن نے جو احتجاجی مارچ کیا تھا وہ بھی اب ماضی بن چکا ہے۔ مجھے یہ یاد دہانی کرانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ ملک کی 67 فیصد آبادی کا انحصار کھیتوں پر ہے مگر اب وہ کھیت روٹی فراہم کرنے کی بجائے موت بانٹنے لگے ہیں۔

جہاں تک کارپوریٹ شعبے کی اہمیت کا تعلق ہے تو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہی شعبہ وسیع پیمانے پر روز گار مہیا کرتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسانوں کے مفادات کو اس شعبے پر قربان کر دیا جائے۔ مہاتما گاندھی کی پوری توجہ دیہی علاقوں کے عوام پر مرکوز تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک بہت پررونق شہر سے ایک چھوٹے سے علاقے وردھا میں منتقل ہو گئے ۔
این جی اوز مہاتما گاندھی کے کام کو ہی بڑھاوا دے رہی ہیں لیکن حکومت نے تقریباً 9 سو این جی اوز کے اجازت نامے واپس لے لیے ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے حسابات درست طریقے سے نہیں رکھے تھے۔ ان کے حسابات کی جانچ پڑتال کا اصل مقصد یہ دیکھنا ہے کہ کہیں وہ اپنے فنڈز میں ہیرا پھیری تو نہیں کر رہے۔
ان سے اپنے حسابات کو مرتب رکھنے کی توقع غلط نہیں لیکن ان سے پائی پائی کا حساب طلب کرنا زیادتی ہے جو کام تیستا اور آنند نے شروع کیا وہ ممکن ہے حکمران جماعت کی پسند کا نہ ہو کیونکہ ان دونوں کے نظریات میں بہت زیادہ دوری ہے۔ ان دونوں سے ایک جیسے طرز عمل کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ملک کی آزادی ایک سیکولر جمہوری معاشرے کی خاطر حاصل کی گئی تھی لہذا ہمیں اس مقصد کو ہرصورت میں مقدم رکھنا چاہیے۔

کلدیپ نائر
"بہ شکریہ روزنامہ "ایکسپریس

نئے صوبے کیوں بنائے جائیں ؟...

خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری.....

پاکستان شدید گرمی کی لپیٹ میں


پاک چین اکنامکس کا ریڈور یا دوسرا کالا باغ ڈیم ؟

$
0
0

گزشتہ روز بھی اندیشوں کی بات کی گئی تھی۔ آج ایک اور اندیشہ ابھرتا دکھائی دیتا ہے اور یہ اندیشہ پاکستان اور چین کے درمیان ’’اکنامکس کاریڈور‘‘ جیسی خوش آئند تجویز یا پروگرام، پلان یا منصوبے کو غیر ذمہ دارانہ سیاسی بیانات کے ذریعے ’’دوسرا کالا باغ ڈیم‘‘ بنا دینے کی کوشش کا اندیشہ ہے۔
اندیشوں کی ایک خاص بات ہوتی ہے کہ یہ آئندہ یعنی آنے والے حالات سے تعلق رکھتے ہیں یعنی ان میں منفی نوعیت کی پیش گوئیاں ہوتی ہیں جن کے صحیح ثابت ہونے کا پورا یقین نہیں ہوتا اور مذکورہ بالا اندیشے کے صحیح ثابت ہونے کا بھی کوئی یقین نہیں ہے مگر شاعر نے کہا ہے کہ

پیش از وقت کے اندیشوں سے جاں جاتی ہے
کیا گزری ہو گی کہ جب ہم نے بھی آنکھیں کھولیں

بعض سیاسی بیانات میں یہ شوشہ چھوڑا گیا ہے کہ پاکستان چین کے درمیان اکنامکس کاریڈور کا راستہ نقشہ تبدیل کیا گیا ہے مگر اس کی تردید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ اکنامکس کا ریڈور کسی ایک سڑک یا راستے کا نام نہیں ہے یہ بہت سی سڑکوں، راستوں اور سفر کے ذرائع کے مجموعے یا اجتماعی صورت میں ہو گا جس کا کسی ایک صوبے یا علاقے سے نہیں ملک کی اجتماعی اقتصادیات سے منعقد ہو گا اور ملکی اجتماعی اقتصادیات تمام صوبوں کے ذرائع اور وسائل کو جمع کرنے سے وجود میں آتی ہے۔ یہ سوچ غلط اور گمراہ کن ہو گی کہ اکنامکس کاریڈور ’’موٹر وے‘‘ جیسی کوئی شاہراہ ہو گی جو دولت اور سرمایہ بانٹتی اور بکھیرتی چلی جائے گی۔ یہ کاریڈور کسی ایک ملک یا علاقے کی بجائے اس سارے علاقے اور تمام متعلقہ ملکوں کے اجتماعی فائدے اور مفاد میں ہو گی۔

کچھ ایسی ہی باتیں ’’کالا باغ ڈیم‘‘ کے بارے میں بھی کہی جاتی تھیں مگر بھانت بھانت کے بیانات نے تاثر یہ دیا کہ اس ڈیم سے پنجاب کو فائدہ پہنچے گا مگر سندھ اور صوبہ سرحد سیلاب کی زد میں آ جائیں گے یا پانی کی کمی کی زد میں آ جائیں گے۔ شور شرابہ ہمیشہ اور ہر حالت میں دلیل اور وجوہات کے بیان سے زیادہ بلند آواز میں ہوتے ہیں اور غالباً کالا باغ ڈیم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی حادثہ پیش آیا ہے۔

پاکستان چین اکنامکس کاریڈور کو پاکستان، چین اور وسط ایشیا کی ریاستوں سے بھی آگے تک پھیلے ہوئے تمام علاقے اور تمام ملکوں اور قوموں کی اجتماعی اور برابر کی اقتصادی اور معاشی ترقی کا ’’گیم چینجر‘‘ (حالات کو تبدیل کر دینے والا) منصوبہ قرار دیتے ہوئے اور ایک نعمت سمجھا جانا چاہئے مگر چاہئے تو اور بھی بہت کچھ مگر ضروری ہے کہ لوہے کو سونے میں تبدیل کرنے والا سفوف چھڑکتے وقت ہمارے ذہنوں میں بندروں کا خیال نہ آئے لیکن بندروں کی ایک خرابی ہے کہ ان کا خیال ذہن میں چلا آئے تو پھر آتا ہی چلا جاتا ہے اور لوہا سونے میں تبدیل نہیں ہو سکتا۔

چین پاکستان اکنامکس کاریڈور کا سوچنے والوں کا کہنا ہے کہ اس کاریڈور پر علاقے کے تمام ملکوں کے تمام اہم علاقے اور شہر موجود ہوں گے اور اس کے فوائد بھی تمام ملکوں تک پہنچیں گے یہاں تک کہ گلگت بلتستان کے علاقے کو بھی اس کاریڈور کا فائدہ ہو گا۔ پلاننگ کمیشن کے مطابق گوادر اس کاریڈور کے اجتماعی مرکز کا کردار ادا کرے گا جس سے تمام علاقے کی شاہراہوں کا براہ راست تعلق ہو گا اور یہ تعلق گوادر سے خنجراب تک بلکہ عوامی چین تک چلا جائے گا۔ اس میں پشاور، اسلام آباد، لاہور، سکھر، کراچی اور کوئٹہ بھی برابر کے حصہ دار ہوں گے ملک بلکہ ملکوں کی تمام اہم شاہراہوں کا اس کاریڈور سے تعلق اور رابطہ اور واسطہ ہو گا۔

اس اکنامکس کاریڈورر کی تکمیل سال 2020ء تک ہو گی جبکہ سال 2025ء سے اس پر پاکستان اپنی دوگنی طاقت سے عملدرآمد شروع کر دے گا۔ اس کاریڈور میں ایک سڑک نہیں کئی سڑکیں، ریلویز اور راستے عملی طور پر حصہ لیں گے۔ تمام علاقے میں روزگار، اجرت اور تنخواہوں کے وسائل پیدا ہوں گے اور انشاء اللہ پاکستان چین اکنامکس کاریڈور کو دوسرا کالا باغ ڈیم بننے نہیں دیا جائیگا۔

منو بھائی
"بشکریہ روزنامہ "جنگ

برصغیر کے مسلمانوں میں سیکولرازم اور مادہ پرستی کی ابتداء.....

$
0
0


اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں جہاں نور ایمان اور ہدایت کا ذکر فرمایا ہے تو اسے اپنا خاص فضل کہا ہے۔ ہدایت کسی شخص کی کوششوں اور کاوشوں کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ اللہ ہدایت کسی کے مالی حالات اور دنیاوی جاہ و جلال کو دیکھ کر عطا نہیں کرتا۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس کے لیے لڑنے والے، آواز بلند کرنے والے، اس کے نام کا غلغلہ چار دانگ عالم میں پھیلانے والے فاقہ مست، بے سروسامان ہیں یا ان کے پاس وسائل دنیا کی بھرمار ہے۔

اس کا دعویٰ ہے کہ وہ بہت سوں کو ہدایت بخشتا ہے اور بہت سوں کو گمراہی کے اتھاہ سمندر میں پھینک دیتا ہے۔ لیکن اس کے لیے اس کا ایک قاعدہ ہے اللہ فرماتا ہے ’’اللہ کو اس بات سے عار نہیں کہ وہ مچھر یا اس سے بھی کمتر کسی چیز کی مثال بیان فرمائے۔ جو مومن ہیں وہ یقین کرتے ہیں کہ وہ ان کے پروردگار کی طرف سے سچ ہے اور جو کافر ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس مثال سے اللہ کی مراد ہی کیا ہے۔ اس سے اللہ بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو ہدایت بخشتا ہے اور گمراہ بھی کرتا ہے تو صرف نافرمانوں کو (البقرہ 26) اسی آیت کے ساتھ ہی اللہ نے نافرمانوں کی تعریف کی ہے اور بتایا کہ ان کی نشانیاں کیا ہیں۔

اللہ فرماتا ہے ’’جو اللہ سے اقرار کو مضبوط کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس رشتہ قرابت کے جوڑے رکھنے کا اللہ حکم دیتا ہے اور اس کو قطع کر دیتے ہیں اور زمین میں خرابی کرتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں (البقرہ 27) اسی لیے اللہ نے نور ہدایت کو اسباب دنیا سے علیحدہ کر دیا اور کامیابی کو بھی اس دنیا کے جاہ و جلال اور کروفر سے مختلف چیز قرار دیا بلکہ ہر اس شخص کو اپنے غضب کا نشانہ بنایا جسے اپنے وسائل، طاقت اور قوت پر اسقدر بھروسہ تھا کہ اس پر گمان ہونے لگا کہ اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ 

فرعون کے غرقابِ نیل ہونے کا قصہ اللہ کی ان نشانیوں میں سے ایک ہے جس میں وہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے بنی اسرائیل کو فرعون کے بدترین مظالم سے نجات دلائی۔ اس فرعون سے جو تمہارے بیٹوں کو قتل کر دیتا اور بیٹیوں کو زندہ رکھتا۔ اللہ نے انسانی تاریخ میں بار بار یہ ثابت کیا کہ وہ کیسے بے سروسامان لوگوں کو ہدایت دیتا ہے اور کیسے وسائل سے مالا مال افراد کو گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں چھوڑ دیتا ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں نے کئی سو سال حکومت کی۔ اللہ نے انھیں فتح و نصرت سے بھی سرفراز کیا اور پورے علاقے میں ان کی دھاک کو بھی قائم رکھا۔ مغلیہ سلطنت مسلمانوں کے عروج کا زمانہ تھا سرمایہ، دولت، علم، اسباب سب ان کے پاس جمع تھے۔ مغلیہ دور کا سب سے مستحکم اور شاندار زمانہ جلال الدین اکبر کا طویل دور اقتدار سمجھا جاتا ہے۔ 13 سال کی عمر میں برسراقتدار آنے والا اکبر ایک سیدھا سادا خوش عقیدہ مسلمان تھا۔ نماز باجماعت کی پابندی تو ایک طرف وہ خود اذان دیتا، امامت کراتا اور مسجد میں اپنے ہاتھ سے جھاڑو دیتا۔ صدر الصدور شیخ عبدالغنی کے علم کا وہ معتقد تھا اور اکثر حدیث سننے ان کے گھر جاتا، اپنے بیٹے شہزادہ سلیم کو ان کی شاگردی میں داخل کیا تاکہ عبدالرحمن جامی کی ’’چہل حدیث‘‘ ان سے پڑھے سلطان الہند خواجہ اجمیری چشتی سے ایسی روحانی عقیدت اس میں پیدا ہوئی کہ کئی دفعہ فتح پور سیکری اور آگرے سے پیدل اجمیر گیا۔

شیخ سلیم چشتی کی قربت کی خاطر تمام تخت و تاج فتح پور سیکری منتقل کیا اور وہاں ایک پرانے سے حجرے میں اکثر اوقات مراقبوں، دعاؤں اور عبادتوں میں گزارتا۔ یہیں اس نے ایک نئی عمارت تعمیر کی جس کا نام عبادت خانہ رکھا اور ہر جمعے کی نماز کے بعد وہ یہاں آ کر بیٹھتا اور وقت کے مشائخ، علماء، فضلا اور مقربین مذہبی مسائل پر آزادانہ بحث کرتے۔ اس بحث کا دائرہ بہت وسیع ہوتا تھا۔ اس میں دنیا بھر کے مذاہب اور ادیان پر گفتگو ہوتی۔ انھی دنوں یورپ میں تحریک احیائے علوم چلی تھی جس نے وہاں کے رہنے والوں میں ترقی اور علم کی تلاش کی ایک نئی روح پھونک دی تھی۔

اسپین سے مسلمانوں کے علمی ورثے سے فیض یاب ہونے کے بعد یورپ نے اپنے اندر جو تبدیلی پیدا کی وہ انھیں مذہب سے آہستہ آہستہ دور لے گئی اور پھر انھوں نے اس بات پر کامل یقین کرلیا کہ دنیا کی تمام تر ترقی صرف اور صرف اسباب کی محتاج ہے اور یہ اسباب بھی انسان خود پیدا کرتا ہے۔ اس کے لیے کسی غیر مرئی یا بلند و بالا طاقت کی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ نظریات اکبر کے دربار کی گفتگو میں بھی عام ہونے لگے، ابو الفضل اور فیضی جیسے نورتن جو اپنی آزاد خیالی کی وجہ سے مشہور تھے اس کے قریب آتے گئے۔ سر تھامس رو نے 1613ء میں جو سفرنامہ مرتب کیا ہے اس میں دربار اکبری کی ان تمام بحثوں کا تذکرہ ملتا ہے۔

ان تمام بحثوں کے نتیجے میں اکبر کے دل میں یہ خیال مضبوط ہو گیا کہ سچائی کسی ایک مذہب کا اجارہ نہیں بلکہ ہر مذہب میں اچھی اچھی باتیں موجود ہیں، اس لیے اسلام کو دیگر مذاہب پر کوئی برتری نہیں دی جا سکتی۔ بادشاہ کے دل میں اس تصور کے آتے ہی ہندو پنڈتوں اور عیسائی پادریوں نے اسلام اور شعائر اسلام پر آزادانہ گفتگو شروع کر دی۔ حیرت کی بات ہے کہ اس سب کا آغاز بے لاگ تحقیق اور آزادی اظہار کے نام پر ہوا۔ بادشاہ اور اس کے مشیر ہر مذہب کو اپنے علم اور اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھتے اور جو چیز ان کی عقل میں نہ آتی اسے فوراً رد کر دیتے۔ عقل کی اس کسوٹی پر رد ہونے والی چیزوں میں روزِ آخرت، حساب کتاب، وحی، رسالت اور سب سے بڑھ کر اللہ کی حاکمیت جیسے عقائد شامل تھے۔

یہ وہ صورت حال تھی جس سے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں سیکولرازم اور مادہ پرستی کی بنیاد پڑی۔ سیکولرازم کا کمال یہ ہے کہ یہ دنیا کے ہر مذہب کو اپنے نظریات کے لیے اسقدر خطرہ تصور نہیں کرتا جس قدر اسلام کو تصور کرتا ہے۔ کیونکہ باقی تمام مذاہب ہیں جب کہ اسلام ایک مکمل نظام زندگی اور طرز معاشرت، سیاست اور معاشیات کا درس دیتا ہے۔ اس کے بتائے ہوئے نظام زندگی پر حملہ تو اتنا آسان نہیں کہ کوئی اور بہتر متبادل میسر نہیں۔ اسی لیے اس کے بنیادی عقائد اور شخصیات کو نشانہ بنا کر سیکولرازم اور مادہ پرستی کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ اس دربار کا نقشہ ایک مورخ اور بہت بڑے عالم دین نے یوں کھینچا ہے۔ ’’اکبر کے دربار میں یہ رائے عام تھی کہ ملت اسلام جاہل بدووں میں پیدا ہوئی تھی، یہ کسی مہذب و شائستہ قوم کے لیے موزوں نہیں۔

نبوت، وحی، حشر و نشر، دوزخ جنت، ہر چیز کا مذاق اڑایا جانے لگا، قرآن کا کلام الٰہی ہونا مشتبہ، وحی کا نزول عقلاً مستعبد، مرنے کے بعد ثواب و عذاب غیر یقینی، البتہ تناسخ پر یقین ممکن، معراج کو علانیہ محال قرار دیا جاتا، ذات نبویؐ پر اعتراضات کیے جاتے۔ خصوصاً غزوات پر کھلم کھلا حرف گیریاں کی جاتیں۔ دنیا پرست علماء نے اپنی کتابوں کے نسخوں میں نعت لکھنی چھوڑ دی تھی۔ دیوان خانہ شاہی میں کسی کی مجال نہ تھی کہ نماز پڑھ سکے‘‘۔ یہی حالات تھے جب اکبر نے یہ حکم دے دیا تھا کہ نئی مسجدیں تعمیر نہ ہوں، پرانی مسجدوں کی مرمت نہ ہو، یہاں تک کہ اس کے آخری ایام حکومت میں لاہور شہر میں کوئی مسجد نہ رہی تھی اور مسجدوں کو اصطبل بنا دیا گیا تھا۔ یہ وہ تمام حالات اور ایسے سوالات ہیں جو آج بھی کسی مادہ پرست سیکولر محفلوں کے بحث مباحثے میں آپ کو نظر آئیں گے۔

کسی سیکولر دانشور کے مضمون کو اٹھائیے، کسی ویب سائٹ پر چلے جائیے۔ آپ کو اگر کسی مذہب پر اعتراض نظر آئیں گے تو صرف اور صرف اسلام پر۔ اکبر کے اسی سیکولر ماحول سے دین الٰہی نے جنم لیا۔ جس کے نظریات کو بیان کرنے کے لیے ایک الگ مضمون چاہیے لیکن اللہ اپنے بندوں کو ہدایت مہیا کرنے کا بندوبست ضرور کرتا ہے۔ اللہ نے اس طوفانی یلغار کے مقابلے میں ایک عظیم شخصیت کو کھڑے ہونے کی توفیق عطا فرمائی جن کا نام مجدد الف ثانی تھا۔ 

پورے برصغیر میں پیران طریقت بھی موجود تھے اور علمائے عظام بھی، لیکن یہ سب کے سب وقت کی مصلحت میں خاموش تھے۔ یہ سب بھی دنیا کے اسباب کو ترقی کی معراج سمجھنے لگ گئے تھے۔ صرف دو لوگوں کا ذکر ملتا ہے جو اس گمراہی کے خلاف سینہ سپر ہوئے۔ ایک مخدوم موسیٰ پاک شہید کے بھائی شیخ عبدالقادر گیلانی اور دوسرے اجمیر شریف کے متولی شیخ حسین اجمیری۔ دونوں کے نصیب میں قید کی صعوبتیں آئیں۔

مجدد الف ثانی کو اپنے زمانے میں علماء، شیوخ اور دانشوروں نے معاملہ شناسی سے عاری، دنیا کے حالات سے بے خبر، مصلحت کے مخالف اور عقل و ہوش سے بے بہرہ قرار دیا۔ ان کا تمسخر اڑایا گیا۔ انھیں وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونے کا طعنہ دیا گیا۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اللہ نے نصرت مجدد الف ثانی کے دست حق پرست پر رکھ دی تھی اور اکبر کا دین الٰہی اپنے تمام تر اسبابِ دنیا کے باوجود اس کی موت کے ساتھ اپنی موت مر گیا۔ اللہ کے بندوں کی ایک اور پہچان ہے جو مجدد الف ثانی کے کردار میں نظر آتی ہے۔ اللہ فرماتے ہیں ’’اللہ کے راستے میں جو ملامت تمہیں ملتی ہے یہ تو اللہ کا فضل ہے‘‘۔ اسی لیے وہ اس ملامت پر اور اپنا تمسخر اڑانے پر، اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور اپنے راستے پر مستقل گامزن رہتے ہیں کہ انھیں اس بات پر یقین ہوتا ہے کہ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور کامیابی بھی اسی کی عطا ہے۔

اوریا مقبول جان

ایم کیو ایم کا المیہ

پاک چین تعلقات اور اسلامی دنیا

امریکہ کا نظامِ عدل

$
0
0


امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو جو 1916ء کے صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک پارکی کی نامزدگی کیلئے کوشاں ہیں امریکی شہر بالٹی مور میں سفید فام پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام شہریوں کے قتل پر پھر سے پھوٹ پڑنے والے پرتشدد ہنگاموں پر یہ کہنا پڑا کہ ہمیں یہ تلخ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ سیاہ فام امریکیوں کے لئے امریکہ کا نظام عدل انتہائی ناقص ہے۔ افریقی نژاد امریکیوں کی ایک تہائی آبادی کو اپنی زندگی میں جیل جانا پڑتا ہے۔ گو اس وقت ایک سیاہ فام امریکہ کا صدر ہے اس کے باوجود سفید فام شہریوں کے مقابلے میں راہ چلتے افریقی نژاد امریکیوں کو پولیس روک کر تلاشی لیتی ہے، ان پر فردِ جرم عائد کرتی ہے اور عدالت انہیں لمبی سزا سناتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اپنے تعزیری نظامِ عدل کو بے لگام چھوڑ دیا ہے جس سے وہ اپنا توازن کھو بیٹھا ہے لیکن ہمیں حالیہ المناک واقعات پر متحرک اور فعال ہو کر اپنے نظامِ عدل میں تو ازن پیدا کرنا چاہئے۔ ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں باراک اوباما کا لہجہ محتاط اور مبہم تھا۔ انہوں نے اشارتاً و کنایتاً تو سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ نازیبا سلوک اور ناروا امتیاز کا ذکر کیا لیکن سفید فام پولیس، ججوں اور ارکان جیوری کے متعصبانہ رویے کا کھل کر ذکر کرنے سے اجتناب کیا اور کسی پادری کی طرح   کی ناصحانہ تلقین کی ۔
 
 صدر اوباما نے ذرا ہمت کر کے گزشتہ سال اگست میں ریاست مسوری کے قصبے فرگوسن میں سفید فام پولیس کے ہاتھوں 18 سالہ نوجوان مائیکل براؤن کو گولی مار کر ہلاک کرنے والے واقعہ کا ذکر کیا جس میں قرائن اور عینی شہادت کے باوجود سفید فام ارکانِ جیوری کی اکثریت نے قاتل کو باعزت بری کر دیا۔ ارکانِ جیوری نے اس قتل کو قاتل کا حقِ خوداختیاری قرار دے کر اسے آزاد کر دیا۔ سیاہ فام آبادی امریکہ کی مجموعی آبادی کا 18 فیصد ہے اور بعض جنوبی ریاستوں کے علاقوں میں اکثریت میں ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خود رچرڈ کلنٹن کی ریاست میں سیاہ فام کئی قیدیوں کو اس طرح ایک ہی زنجیر میں باندھ دیا جاتا ہے کہ وہ ایک ساتھ بندھے بندھے رہتے ہیں حتیٰ کہ بیک وقت رفع حاجت بھی کرتے ہیں۔

اس کی اطلاع 90ء کی دہائی کے اواخر میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے باتصویر شائع کی تھی۔ یہ ہیلری کلنٹن کی سسرال کی خبر ہے لیکن میاں بیوی دونوں میں کسی نے بھی اس توہین آمیز رویے کی مذمت نہیں کی۔ اب جبکہ موصوفہ صدارتی امیدواری کے لئے کوشاں ہیں تو انہیں سیاہ فام امریکیوں کے ووٹ کی ضرورت محسوس ہوئی تو ان کا دل مظلوم سیاہ فام امریکیوں کی حالتِ زار پر بھر آیا اور انہیں اچانک امریکہ کے نظامِ عدل کے نقائص نظر آنے لگے۔ میں ذرا ہیلری کلنٹن کو سات قبل کی تقریریاد دلانا چاہتا ہوں جب وہ اوباما کے مقابلے میں ڈیموکریٹک پارٹی سے صدارتی امیدوار کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے ایڑی چوٹی (ویسے محترمہ چوٹی تو باندھتی ہی نہیں) کا زور لگا رہی تھیں۔ جب انہوں نے دیکھا کہ مختلف ریاستوں میں اوباما ان سے سبقت لے جا رہے ہیں تو انہوں نے کسی ہارے جواری کی طرح اپنا آخری پتا پھینک دیا۔ انہوں نے یہ کہا تھا کہ امریکہ کی سفید فام اکثریت سیاہ فام کے صدر منتخب ہونے کے حق میں نہیں ہے۔

امریکہ میں سیاہ فام آبادی مساویانہ حقوق کے لئے آج سے نہیں بلکہ امریکہ پر گوروں کی نوآبادی کے قیام سے ہی جدوجہد کرتی آئی ہے جو اب شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ فرگوسن کی واردات سے کہیں قبل سے وہ گوری پولیس کے ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کرتی رہی ہے لیکن چونکہ امریکی عدلیہ اور پولیس کا باہم گٹھ جوڑ رہا ہے اس لئے انہیں کبھی انصاف نہیں ملا چنانچہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اب اس نے پولیس کے تشدد کا جواب تشدد سے دینا شروع کر دیا۔ اب تو نیویارک، شکاگو، مسوری، کیلیفورنیا، فلاڈلفیا غرضیکہ امریکہ کے طول و عرض میں توڑپھوڑ، لوٹ مار ، گھیراؤ جلاؤ، پولیس اہلکاروں پر ہدفی حملے روز مرہ کا معمول بن گئے ہیں جن کے باعث حکمران طبقے کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں جبھی تو امریکی عوام کی توجہ اندرونی مسائل سے ہٹانے کے لئے انہوں نے اسلامی انتہاپسندی اور جہادیوں کا ہوّا کھڑا کیا ہے۔

توہینِ رسالت، قرآنِ کریم کے نسخوں کی سرِعام آتشزنی با عصمت مسلم خواتین کے آنچل اور نقاب کو نوچنا، مساجد پر پٹرول بم سے حملے کرنا، اسلامی مراکز کو تباہ کرنا اس سفید فام مافیا کا طریقۂ واردات بن گیا ہے۔ سفید فام مافیا امریکہ میں مقیم مسلمانوں کی جاسوسی کرتی ہے جبکہ سی آئی اے پاکستان افغانستان اور یمن پر ڈرون حملے کرتی ہے۔ مسلم ممالک کے قدرتی وسائل مثلاً تیل، گیس، یورینیم، سونے ، چاندی، تانبے کے ذخائر پر غاصبانہ قبضہ کر نے کے لئے وہاں اپنے ففتھ کالم کے ذریعے تخریب کاری اور دہشت گردی کراتی ہے تاکہ ان ممالک میں اسے مداخلت کا جواز حاصل ہو۔

جب تک امریکہ کی سیاہ فام آبادی مسلم مالک میں امریکی حکمرانوں کی مداخلت کے خلاف نہیں اٹھ کھڑی ہوتی اس وقت تک وہ سفید فام مافیا کی غلامی سے ہرگز نجات نہیں حاصل کر سکتی۔ انہیں اور مسلمانوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ان دونوں (سیاہ فام اور مسلمان) کا دشمن ایک ہے لہٰذا انہیں متحد ہو کر سفید فام مافیا کے خلاف جدوجہد کرنا چاہئے۔ امریکہ اور دنیائے اسلام میں آباد مسلم امہ کے افراد کو امریکہ کے سیاہ فام عوام کی جدوجہد کی بھرپور حمایت کرنی چاہئے اسی طرح سیاہ فام آبادی کو مسلم ممالک پر امریکی حملوں اور ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی مزاحمت کرنی چاہئے۔ یاد رہے اگر سیاہ فام امریکی اور مسلمان سفید فام مافیا کے خلاف متحد نہیں ہوئے تو وہ ان کے ظلم و ستم اور ناانصافیوں سے کبھی نجات حاصل نہیں کر سکیں گے۔ امریکہ میں آباد مسلمانوں کو سفید فام پولیس کے خلاف سیاہ فام آبادی کی مزاحمت کا ساتھ دینا چاہئے جبکہ سیاہ فام عوام کو امریکی عدالت کی جانب سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو دی گئی 87 سالہ قید سے رہائی کیلئے جدوجہد کرنا چاہئے

پروفیسر شمیم اختر
"بشکریہ روزنامہ "نئی بات

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے....

$
0
0

اس حقیقت سے انکار قدرے دشوار ہے کہ دنیا میں اقوام کی معاشی اور سماجی خوشحالی تعلیم اور تحقیق میں ترقی سے ہی مشروط ہوتی ہے۔ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی خوشحالی اور ترقی کا راز کچھ اور نہیں، بلکہ یہی تعلیم و تحقیق ہے، اور اس بات کا اندازہ مغربی ممالک کے تعلیم و تحقیق پر بے تحاشہ دولت خرچ کرنے سے لگایا جا سکتا ہے۔

لیکن اس حقیقت کے ادراک کے باوجود پاکستان میں سماجی صورتحال اتنی مخدوش ہے کہ یہاں ایک عام آدمی کو تو کیا، اساتذہ، دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، ڈاکٹروں، انجینئروں، وکلاء، اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے معتبر افراد کو بھی دن کی روشنی میں سرِ عام بے دردی سے قتل کردیا جاتا ہے۔ مگر افسوس، حکومت کی جانب سے سوائے رسمی بیانات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے بے اثر روایتی کارروائیوں سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔

پاکستانی معاشرے کی تنزلی کا ماتم کرنے کے لیے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ گذشتہ 5 سالوں میں ملک، خاص طور پر کراچی اور سندھ بھر میں 130 سے زیادہ ڈاکٹر فرقہ واریت، اغواء برائے تاوان، اور بھتہ وصولی کے نام پر قتل ہوچکے ہیں، جبکہ ان وارداتوں کا کم و بیش جاری رہنا اس بات کا غمّاز ہے کہ مختلف جمہوری حکومتیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت حساس ادارے بھی ان سنگین جرائم کی روک تھام میں ناکام نظر آتے ہیں۔

یوں تو اس شہرِ ستم زدہ میں دانشوروں، صحافیوں، اساتذہ، وکلاء، ڈاکٹروں، شاعروں، ادیبوں اور بے قصور قتل ہونے والے عام شہریوں کی ایک طویل فہرست ہے، لیکن گذشتہ ماہ اپریل میں معروف سماجی کارکن سبین محمود، اور ان کے بعد اس ہی مہینے جامعہ کراچی کے شعبۂ ابلاغ عامہ کے ہردلعزیز استاد اور معروف صحافی ڈاکٹر سید وحیدالرحمن المعروف یاسر رضوی کے سرِعام قتل نے ایک بار پھر کراچی کے شہریوں اور بالخصوص صحافتی، علمی و ادبی حلقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے زخم ہرے کردیے ہیں۔

کراچی میں جاری رینجرز کے آپریشن سے کسی حد تک جرائم، بالخصوص ٹارگٹ کلنگ میں کمی واقع ہوئی تھی، لیکن ان دو افراد کے قتل کے بعد تو علمی حلقوں میں ایک سوگ کا سا سماں ہے جبکہ انسانی سرفرازی اور سر بلندی کے لیے کوشاں خردمند افراد میں ایک مایوسی پھیل گئی ہے۔ ان افراد کے قتل کا ذمہ دار کوئی بھی ہو، ہے بہت ہی ظالم، جو معاشرے سے اس کے دانشور چھین لینا چاہتا ہے۔

آج ہمارا معاشرہ ستمگروں اور قاتلوں کے لیے نہ جانے کیوں محفوظ مقام بلکہ محفوظ جنت جیسا بن چکا ہے۔ ماضی میں یہی معاشرہ پرسکون اور علم دوست تھا۔ علمی اور ادبی محافل کا تسلسل سے انعقاد اس معاشرے کا تہذیبی خاصہ تھا، جبکہ اس وقت جمہوری اقدار بھی اتنی زیادہ عام نہ تھیں جتنی کہ آج ہیں۔
ذرائع ابلاغ بھی آزاد نہ تھے، نہ ہی معاشرے میں اتنے تعلیمی ادارے تھے۔ اتنی مساجد اور مدرسے نہ تھے، لیکن پھر بھی معاشرے میں انسانی اقدار زندہ تھیں۔ شہریوں کی پسندیدہ شخصیات علمی و ادبی اور صاحبانِ کمال ہوا کرتی تھیں، خواتین کا احترام تھا، رسوم و رواج اور تہذیبی اقدار اپنے مشرقی رنگ سے باہر نہ تھیں، مگر دورِ حاضر میں سماجی ڈھانچہ انتہائی مخدوش ہو چکا ہے۔

انتہائی افسوس کے ساتھ یہ حقیقت سپردِ قرطاس کررہا ہوں کہ 18 سے 20 کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں چند سال پہلے تک کسی معروف شاعر یا ادیب کی ایک ہزار سے زیادہ کتب کی اشاعت نہیں ہوتی تھیں، اور اب یہ تعداد 1000 سے گر کر 500 اور اس سے بھی کم تعداد پر آگئی ہے۔ اس بات سے ہمارے معاشرے کی علم دوستی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ایسے علم و ادب سے بے بہرہ معاشروں میں جہاں لوگ افکار پر بات کرنے یا سننے سے متلی محسوس کرتے ہوں تو وہاں انتہا پسند اور غیر عقلی و غیر فطری افکار ہی جنم لیتے ہیں۔ ایسے ہی معاشروں میں اساتذہ اور صاحبانِ کمال کو بے قصور اور بے دردی سے سرِ عام قتل کر دیا جاتا ہے۔

یعنی جو لوگ خود کو آزاد اور دوسروں سے برتر سمجھتے ہیں، درحقیقت وہ بھی اتنے ہی، یا اس سے زیادہ غلام ہوتے ہیں۔

روسو کا یہ جملہ شہرہ آفاق ہے، جس کی انقلاب آفرینی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اگر روسو کا تعلق عہدِ جدید سے ہوتا، تو یقیناً یہ کہا جاسکتا تھا کہ روسو نے یہ جملہ شاید پاکستانی معاشرے اور اس زندان میں قید افراد کو دیکھ کر کہا ہوگا کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہم سب ہی خود کو آزاد سمجھتے ہیں، جبکہ ہیں نہیں۔

ہمارے معاشرے میں انسان کو جکڑنے کے لیے کوئی ایک نہیں بلکہ تعصبات، ناخواندگی، لسانیت، فرقہ واریت، غیر معقول رسوم و رواج، اوہام پرستی، مذہبی امتیازات، غیر منطقی عقائد، جاگیرداری، اور سرمایہ داری جیسی سینکڑوں زنجیریں ہیں، جو ویسے تو غیر مرئی ہیں، لیکن ہماری قدموں کو آگے بڑھنے سے روکے ہوئے ہیں۔

ان تمام مشکلات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے میں ایک طالب علم کی حیثیت سے اکثر سوچتا ہوں کہ وہ کیا وجوہات ہیں جس کی بناء پر ہمارے لائق شعراء، ادباء، قلمکار، حقیقی علما اور صاحبِ بصیرت سیاستدانوں نے پاکستان کی مظلوم قوم کو جاہل مفاد پرست جاگیردار و سرمایہ دار سیاست دانوں اور نام نہاد مولویوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو معاشرے کو اندھیرے سے نکالنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن یا تو گوشہ نشینی اختیار کیے ہوئے ہیں، یا خوف کی بناء پر زبانیں بند رکھنے پر مجبور ہیں۔

آج معاشرے کو انہی اکابر کی شدید ضرورت ہے، جو اپنے گھروں میں قید ہیں۔ ان کے تحرک سے ہی جاہل، ناخواندہ سیاستدانوں سے، جن میں سے بعض کے اجداد انگریزوں کے نمک خوار بھی تھے، معاشرے کو نجات ملے گی، اور یقیناً شہریوں کو ایک ایسا معاشرہ میّسر آئے گا، جہاں وہ علم و ادب کی چھاؤں میں اپنی آنے والی نسلوں کی پرورش کرسکیں گے۔

جنہیں محفلوں سے غرض نہ تھی، وہ جو قید اپنے گھروں میں تھے
وہی اعتبارِ زمانہ تھے، وہی لوگ دیدہ وروں میں تھے

(فراست رضوی)

بشکریہ ڈان اردو

دو آنسو وحید الرحمن کے لیے...

$
0
0


مغرب کا وقت ہوچکا۔ فیڈرل بی ایریا کے یاسین آباد قبرستان میں ڈاکٹر وحید الرحمن کی تدفین ہوچکی۔ خرم کی آواز گونج رہی ہے، سب اپنے گھروں کو چلے جائیں گے، وحید کی بیوہ اور دو بچیوں کو کون یاد رکھے گا؟ ثناء اپنے باپ کی قمیض گلے لگائے ہر ایک سے ڈر کر کہہ رہی تھی کہ اس کو بھی بابا کے ساتھ چلنا ہے۔ وہ اپنے باپ کی موت کی خبرکو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ وحیدکی بیوہ ہاتھ جوڑکر استدعا کررہی ہے کہ سر یاسر کو بلا لیجیے۔کراچی میں قتل ہونے والے اساتذہ کی تعداد 10 کے قریب پہنچ گئی۔ ڈاکٹر وحید الرحمن کے قتل کی صدر، وزیر اعظم، گورنر، وزیر اعلیٰ،آصف علی زرداری اور الطاف حسین سمیت سب نے مذمت کی۔

پولیس والے اس کیس میں خاصے سرگرم ہیں۔ سادہ لباس میں ملبوس پولیس اہلکار جن میں خواتین بھی شامل ہیں، وحید الرحمن کے گھر کا چکر لگا رہے ہیں۔ ایک مرد اورخاتون تو دو دن سے صبح سے شام تک گھر میں موجود ہیں۔ پولیس کی ایک ٹیم نے ایک افسرکی قیادت میں کراچی یونیورسٹی کا دورہ کیا ہے۔ وائس چانسلر، افسران اور اساتذہ کے انٹرویوکیے ہیں۔ وحید کے گھر پر موجود اہلکار سے ہر تعزیت کے لیے آنے والا شخص سے پوچھ رہے ہیں کہ قاتل کون ہے تو پولیس افسران کہہ رہے ہیں کہ وہ جلد قاتلوں تک پہنچ جائیں گے مگر ایک اہلکار نے یہ سب کے سامنے کہا کہ نیا نیا معاملہ ہے کل کو کوئی دوسرا کیس ہوگا تو وحید الرحمن کے قتل کا معاملہ فائلوں میں دب جائے گا۔

ڈاکٹر وحید الرحمن ایک محنتی اور ایماندار شخص تھے، ان کے والد کا کم عمری میں انتقال ہوگیا۔ وحید الرحمن نے انتہائی محنت سے کام کر کے تعلیم حاصل کی۔ اردوکالج سے ابلاغِ عامہ میں ایم اے کیا اور سندھی زبان کی پہلی خبررساں ایجنسی میں رپورٹر کی حیثیت سے صحافت کی دنیا میں قدم رکھا۔ چند مہینوں میں راولپنڈی سے شایع ہونے والے اخبار کے رپورٹر ہوگئے۔کراچی کے ایک روزنامے میں ملازمت کرلی۔ مختصر مدت میں اپنے ساتھی رپورٹروں میں مقبول ہوگئے اور ایک ایسے رپورٹر کی حیثیت سے مشہور ہوگئے جس کے پاس خبرکے بہت سے مستند ذرایع تھے۔

اردو یونیورسٹی میں تدریس کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دن رات رپورٹنگ کی مصروفیات کے ساتھ تحقیق شروع کی اور معروف اسکالر ڈاکٹر شکیل اوج کی زیرِ نگرانی پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کیا۔ اردو یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہوگئے۔ کراچی یونیورسٹی نے بلالیا۔ ڈاکٹر وحید الرحمن نے اردو یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغِ عامہ کی ترقی میں بنیادی کردار یوں ادا کیا کہ تعلیمی منصوبے پر بین الاقومی کانفرنس کو کامیاب کرنے کے لیے ان تھک محنت کی۔ اپنی رپورٹنگ کے دور کے تعلقات کو استعمال کیا مگر کبھی سامنے نہیں آئے۔

شعبہ میں ہونے والی پانچ بین الاقوامی کانفرنسوں میں سب سے اہم کردار ڈاکٹر وحید الرحمن کا تھا مگر ہر کانفرنس کے آخری سیشن میں لاپتہ ہوجاتے۔ ڈاکٹر وحید طالب علموں کی ہر دلعزیز شخصیت تھے مگر کبھی کسی تنازعہ میں نہیں پڑے۔ کبھی کسی اسکینڈل کا شکار نہیں ہوئے۔ انھوں نے ہر ایک کی مدد کی کوشش کی مگر پھر وہ ٹارگٹ کلر کی فہرست میں آگئے۔ ڈاکٹر وحید الرحمن سے پہلے ڈاکٹر شکیل اوج گزشتہ سال کراچی کی معروف شاہراہ یونیورسٹی روڈ پر نامعلوم قاتلوں کی ایک گولیوں کا نشانہ بنے۔

گزشتہ سال مقامی کالج کے پروفیسر سبطِ جعفر کو بھی لیاقت آباد میں دوپہر کے وقت گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ڈاکٹر حیدر رضا کو اپنے میڈیکل کالج کے قریب نشانہ لگا کر قتل کردیے گئے۔ کراچی یونیورسٹی میڈیسن کے ڈین کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے قریب ٹارگٹ کلر کا ہدف بنے۔ پروفیسر تقی ہادی بھی اسی طرح قتل ہوئے۔ اس سے پہلے گجرات یونیورسٹی کے پروفیسر شیر شاہ کو نامعلوم افراد نے اسی طرح قتل کیا تھا۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی تاریخ پرانی ہے۔
گزشتہ صدی کے آخری عشرے کے آخری برسوں میں پہلے ڈاکٹروں اور پھر وکلاء اور پولیس افسروں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔

 پہلے صرف ایک مخصوص فرقے سے تعلق رکھنے والے پروفیشنل قتل ہوتے تھے مگر اب اس سلسلے کا دائرہ پھیل گیا۔ بغیر امتیاز کے ڈاکٹرز، انجینئرز، خواتین، وکلاء اور پولیس افسران قتل ہونے لگے۔ اب اساتذہ کا نمبر آگیا۔ اساتذہ کو نشانہ بنانے کے بارے میں بہت سے مفروضات بیان کیے جارہے ہیں۔ ایک مفروضہ تو یہ بھی ہے کہ جن اداروں سے ان کا تعلق ہے وہاں کے معاملات وجہ بنتے ہیں، دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ فرقے اور خیالات کی بناء پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

مزید ایک اور مفروضہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے قریبی تعلق رکھنے والے صحافی بیان کرتے ہیں کہ غیر ملکی طاقتیں کراچی میں افرا تفری پھیلانے کے لیے اپنی ایجنسیوں کے ذریعے اساتذہ اور پروفیشنلز کو قتل کر رہی ہیں۔ راؤ انوار بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ان معاملات میں ملوث ہونے کا الزام عائد کررہے ہیں مگر ان تمام مفروضات میں سے کسی ایک کی بھی تصدیق تو نہیں ہوئی مگر ایک بات ثابت ہوگئی کہ کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دعوے محض دعوے ہی رہے۔

ایک دفعہ پھر ثابت ہوتا ہے کہ پولیس کا نظام منظم نہیں ہوسکا۔ پولیس افسران اور عملہ پرانی ڈگر پر ہی کام کررہا ہے۔ پولیس کی مدد کرنے والا انٹیلی جنس نیٹ ورک ناکارہ ہوچکا ہے۔ پولیس کی تنظیم دہشت گردی کی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ یہی صورتحال رینجرز اور اس کے انٹیلی جنس نیٹ ورک کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ شہری ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی پولیس سیاسی بھرتیوں ، سفارش کی بناء پر تقرریوں اور تبادلوں اور نااہل افراد کو اہم ذمے داری دینے کی بناء پر عرصہ دراز سے غیر مؤثر ہے۔

اسی طرح رینجرز اور ان کا نیٹ ورک کراچی کے کلچر اور سیاسی رویوں سے آگاہی نہ ہونے کی بناء پر بہت زیادہ مؤثر کردار ادا نہیں کرپا رہا۔ پھر سیاسی قیادت کی ترجیحات میں فرق کراچی میں کامیاب آپریشن میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ شہری امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ شہر میں امن و امان کو یقینی بنانے میں پولیس ہی بنیادی کردار ادا کرسکتی ہے۔ وفاقی ایجنسیاں پولیس کی مدد کرنے اور انٹیلی جنس انفارمیشن کے تبادلوں کے ذریعے دہشت گردوں کا قلع قمع کرسکتی ہیں مگر نیشنل ایکشن پلان کے اعلان کے ساتھ ہی جن ترجیحات کا اعلان کیا گیا تھا ان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ عملدرآمد نہ ہونے میں وفاق اور حکومتِ سندھ برابر کی شریک ہیں۔ پھر ملک بھر میں اسلحے پر پابندی، اسلحے کی ترسیل اور اسلحے کے اسمگلروں کی گرفتاریوں کا معاملہ کاغذوں تک ہی محددو رہا۔

وزیر اعظم محض یہ دعویٰ کر کے کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں کمی ہوئی ہے حقائق کو فراموش کرنے کے مترادف ہے۔ استاد کا قتل ایک فرد کا نہیں بلکہ کئی نسلوں کا قتل ہے۔ استاد طویل محنت کے بعد تیار ہوتا ہے۔ چند لمحوں میں اس کی موت علم کے پھیلاؤ کو روک دیتی ہے۔ ڈاکٹر وحید کا قتل کئی نسلوں کا قتل ہے مگر کیا خرم کی بات درست ہے کہ سب لوگ گھروں کو چلے    جائیں گے اور

ڈاکٹر توصیف احمد خان
 


پاکستان کے اندرونی معاملات میں سلامتی کونسل کی مداخلت نامنظور

$
0
0

پاکستان کے اندرونی معاملات میں بھارت کی شہ پر سلامتی کونسل کی پابندیوں سے متعلق کمیٹی کی مداخلت اقوام متحدہ کے منشور کی شق 2 کی مکمل خلاف ورزی ہے جس میں عالمی ادارے کو کسی رکن ریاست کے خالصتاً اندرونی معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں ہے۔ تعجب ہے کہ اس واضح ممانعت کے باوجود مذکورہ کمیٹی کے سربراہ جم میلکے نے بھارت کے مندوب اشوک مکرجی کے کہنے پر پاکستان کی عدالت عالیہ کی جانب سے ذکی الرحمن لکھوی کی ضمانت پر رہائی کا معاملہ کمیٹی میں اٹھانے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔

اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ پاکستان کی عدالت اپنی صوابدید پر کسی ملزم کو ضمانت پر بھی رہا نہیں کر سکتی کیونکہ اس کا فیصلہ سلامتی کونسل کی ذیلی کمیٹی کی سفارش پر سلامتی کونسل کرے گی۔ یہ تو قانون کی الف ب جاننے والا بھی جانتا ہے کہ ضمانت پر رہائی ملزم کی بریت نہیں ہے کیونکہ اس کا فیصلہ تو عدالت کرے گی اور اگر مستغیث عدالیہ عالیہ کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہے تو اس کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کر سکتا ہے۔ یہ مہذب دنیا کا مروجہ قانون ہے لیکن یہاں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک جانب عالمی تنظیم جو 67 سال سے ریاست جموں کشمیر، جونا گڑھ اور حیدرآباد پر بھارت کی ننگی جارحیت اور انضمام پر اپنی قرارداد نافذ کرنے کی بجائے اس پر چشم پوشی کر کے اس کے غاصبانہ قبضے کو دوام بخش رہی ہے اور مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ مغربی کنارے بشمول القدس جولان کی پہاڑیوں اور لبنان کے شیبا فارم پر اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کو فریقین کی مرضی پر چھوڑ دیتی ہے کہ وہ آپس میں مک مکا کر لیں جبکہ اس کے برعکس ایک آزاد ریاست کی عدلیہ کی کارروائی میں دخل در معقولات کر رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی تو یہ اوقات ہے کہ اس کی قراردادوں کو اسرائیل جیسی جعلی نسل پرست ریاست کا مندوب اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا ہے جبکہ امریکہ، روس اور چین اس پر من مانی ویٹو لگا دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالتِ انصاف کا یہ حال ہے کہ اسے کسی بین الاقوامی تنازعے کے فیصلے کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے۔ الٹا اسے فریقین کے مقدمات کے فیصلے کرنے کے لئے ان کی اجازت لینی پڑتی ہے۔ ایک طرف تو عالمی ادارے کی ناطاقتی، بے بسی اور بے کسی کا یہ عالم ہے کہ اسرائیل جیسی جعلی ریاست اس کے کسی فیصلے کو نہیں مانتی تو دوسری طرف وہ اپنی خفت مٹانے کے لئے ان ریاستوں پر دھونس جماتی ہے جو قانون اور منشور کا احترام کرتی ہیں۔

اگر سلامتی کونسل کی ذیلی کمیٹی اتنی بااختیار ہو گئی ہے کہ فوجداری مقدمات کی کارروائی میں رکاوٹ پیدا کرنے لگے تو یہ کونسل کا قصور نہیں ہے بلکہ اس ریاست کا قصور ہے جو اپنے اقتدار اعلیٰ پر ایسی کاری ضرب برداشت کرتی ہے۔ پاکستان کے دفترخارجہ نے تو ذیلی کمیٹی کے اقدام کو قانونی جواب دیا ہے یعنی یہ کہ القاعدہ کے خلاف کونسل کی عائد کردہ پابندیوں کے زمرے میں ان کے ارکان کے اثاثے ضبط اور ان کے بیرون ملک سفر پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں لیکن انہیں حراست میں رکھنے کی کوئی ہدایت نہیں کی گئی (اسلام پیر 4 مئی 2015ء) اگر ذکی الرحمن لکھوی کو مبینہ دہشت گردی کی پاداش میں زیرحراست رکھنا لازمی ہے تو نریندر مودی کو گجرات میں دو ہزار بے گناہ مسلمانوں کو ایک منصوبے کے تحت قتل عام کی پاداش میں امریکی عدالت نے کیوں استثنیٰ دیا؟ امریکی عدالت نے اس کا مقدمہ کیوں خارج کر دیا؟

امریکی عدالت کا فیصلہ تھا کہ چونکہ نریندر مودی سربراہ ریاست ہے اس لئے اسے قتل کے مقدمے سے مستثنیٰ کیا جاتا ہے۔ نریندر مودی ریاست کا سربراہ نہیں ہے بلکہ وہ حکومت کا سربراہ ہے جو استثنیٰ کا مستحق نہیں ہوتا۔یہی سردار منموہن سنگھ کے ساتھ ہوا۔ ان پر 1984ء میں اندراگاندھی کے قتل کے بعد دلی میں وسیع پیمانے پر سکھوں کے قتل عام کی سازش اور اعانت کا الزام تھا اور امریکہ کی عدالت نے ان پر فردِ جرم عائد کر دی تھی اور ان کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کر دیا تھا اور وہ عدالت کو مطلوب تھے لیکن جب وہ امریکہ کے دورے پر گئے تو امریکی انتظامیہ اور عدلیہ نے وہی منافقت وہی دوغلا پن دکھایا اور اسے بھی سزا سے استثنیٰ حاصل ہو گیا۔

سب سے بڑھ کر تو یہ کہ ریاست جموں اور کشمیر پر بھارت نے اپنے 68 سالہ غاصبانہ قبضے کے دوران اب تک 80 ہزار سے زائد کشمیریوں کو ہلاک اور 15 ہزار عورتوں کی عصمت دری اور ہزاروں افراد کو لاپتہ یا ہلاک کر دیا۔ یہ جرائم تو نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں اس پر ذیلی کمیٹی کیوں حرکت میں نہیں آئی؟ کیا اس لئے کہ پاکستان کے مندوب نے اسے خط نہیں لکھا؟ اگر ایسا ہے تو ہم اپنی حکومت سے پوچھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اس کے مندوب نے ذیلی کمیٹی کو اس بارے میں کوئی مراسلہ کیوں نہیں بھیجا؟۔

ذکی الرحمن لکھوی کا معاملہ اوباما اور مودی کی سازش کے نتیجے میں اٹھایا جا رہا ہے۔ کیونکہ اپنی بھارت یاترا میں اوباما نے مودی کے ساتھ مشترکہ بیان میں بھارت کو ممبئی واردات میں مطلوب افراد بالخصوص ذکی الرحمن لکھوی اور حافظ سعید کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ ایسا موقع ہے کہ حکومت پاکستان ہمت کر کے اس توہین آمیز مطالبے کو مسترد کر دے اور جوابی کارروائی کے طور پر پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملوں کے خلاف سلامتی کونسل میں امریکہ کے خلاف شکایت کرے یا بین الاقوامی تعزیراتی عدالت میں اوباما اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے خلاف استغاثہ دائر کرے۔ 

اگر یہ مان لیا جائے کہ ممبئی واردات ذکی الرحمن لکھوی کی ایما پر ہوئی اور اس میں امریکی سمیت 166 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ امریکی ڈرون حملوں میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2200 افراد جاں بحق ہوئے جن میں چار سو شہری تھے۔ (اسلام اتوار 28 اکتوبر 2013ء) اس کے بعد تو ضرب عضب کے دوران امریکہ نے وزیرستان پر تابڑ توڑ ڈرون حملے کئے۔

ان حملوں کے بعد دفتر خارجہ نے ایک رسمی احتجاجی بیان کے ذریعے اپنے تئیں اپنے فرض کا بوجھ اتار پھینکا کہ موجودہ پارلیمان صرف قرارداد منظور کر کے خاموشی اختیار کر لیتی ہے۔ جب ملک کے حکمران پاکستان کے اقتدار اعلیٰ پر پے در پے حملے برداشت کرتے رہے ہیں تو عوام بھی حوصلہ ہار کر بیٹھ گئے۔ ابھی کیا ہے۔ کونسل کی ذیلی کمیٹی کا اقدام ابتدا ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ بے شک حکمران ذکی الرحمن لکھوی کو قصائیوں کے حوالے کر دیں لیکن سلامتی کونسل اس پر اکتفا نہیں کرے گی بلکہ اس واردات میں حکمرانوں کو ملوث کرے گی تاکہ پاکستان کو دہشت گرد ریاست کی حیثیت سے بدنام کر دے۔ اس وقت بہت دیر ہو چکی ہے لہٰذا اس فتنے کو ابھرنے سے پہلے ہی دبا دینا چاہئے۔ اس کے لئے امریکہ یا بھارت سے سفارتی تعلقات توڑنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان دونوں کو انسانیت کے خلاف جرائم کی پاداش میں عالمی برادری کے سامنے کھڑا کیا جانا چاہئے تاکہ دنیا ان مجرموں کے اصل چہرے دیکھے۔

پروفیسر شمیم اختر
"بہ شکریہ روزنامہ ’’ئئی بات

الطاف حسین کا معاملہ

تھر: نہ قدرت مہربان، نہ ریاست

$
0
0

پچھلے تین سال سے اچھڑو تھر میں قحط کا دور دورہ ہے، جس کی وجہ سے ہمارے 75 فیصد مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اور اگر بارش نہ ہوئی، تو باقی بچے جانور بھی مر جائیں گے۔"ربالو گاؤں کے پریم سنگھ نے سانگھڑ ضلع کے دورے پر آئے ہوئے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے جب یہ الفاظ کہے، تو ہم سب کے پاس کچھ مزید کہنے کے لیے الفاظ جیسے ختم سے ہوگئے۔ یہ دورہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر) کی جانب سے کروایا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ "یہاں کے لوگ مویشیوں، مکئی، اور دیگر فصلوں پر انحصار کرتے ہیں، لیکن ان کے اگنے کے لیے بارش کی ضرورت ہوتی ہے۔
ربالو گاؤں ضلع سانگھڑ کے شہر کھپرو سے تین گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ یہاں پر ٹھاکر یا سودا برادری کے تقریباً سو سے زائد گھر ہیں، جہاں وہ 1947 میں اقلیت بن جانے سے پہلے سے رہ رہے ہیں۔
سانگھڑ سندھ کے وسط میں واقع ہے، اور اس کے مشرق میں ہندوستان ہے۔

اچھڑو تھر ایک ریگستانی علاقہ ہے، جہاں زندگی مکمل طور پر بارش پر منحصر ہے۔ بارشوں کا پانی تالابوں اور جھیلوں میں جمع کر کے رکھا جاتا ہے، اور کنویں بھی بھر جاتے ہیں، جس سے یہ اگلے ایک سال یا اگلی بارش تک لوگوں اور مویشیوں کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔
لیکن گذشتہ تین سالوں سے بارش نہ ہونے کی وجہ سے علاقے میں تباہ کن قحط نے جنم لیا ہے۔ پانی کی کمی اتنی شدید ہے کہ پورے پورے درخت اور جھاڑیاں، جنہیں چارے اور سبزیوں کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا، غائب ہو چکے ہیں۔
'کھِپ ایک چھوٹا درخت ہوتا ہے، جس سے تھر کے روایتی گول چھت والے جھونپڑوں 'چوئنروں'کی چھت بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس سے گرم ہوا ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔ لیکن قحط کی وجہ سے زیادہ درخت غائب ہو چکے ہیں، اور جو باقی بچے ہیں، انہیں دھیان سے استعمال کرنا پڑتا ہے۔
ربالو سے دو کلومیٹر دور واقع گاؤں اسودر کے رہائشی امیر بخش ہنگورجو کا کہنا ہے کہ ان کے پاس 20 بکریاں اور 5 اونٹ ہوا کرتے تھے۔ اس میں سے 16 بکریاں اور 3 اونٹ کم خوراک کی وجہ سے ہلاک ہوگئے، جبکہ باقی اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ اگر انہیں بہت جلد بہت کم قیمت پر نہ بیچا گیا، تو وہ بھی جلد ہی ہلاک ہوجائیں گے۔

ربالو سے تین کلومیٹر دور واقع راناہو گاؤں کے رہائشی پدم سنگھ کا کہنا ہے کہ پانی کی شدید کمی نے خوراک کی کمی کو جنم دیا ہے، جبکہ مقامی لوگوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔
لیکن اگر یہ سب نامہربانیاں قدرت کی ہیں، تو اس میں ریاست کا قصور بھی کم نہیں ہے۔
مقامی لوگوں کے علاج کے لیے نہ کوئی ہسپتال ہیں، اور نہ ہی ڈسپنسریاں۔ کئی لوگ ہیپاٹائٹس بی، سی، اور ملیریا سے متاثر ہیں۔

مرد و خواتین اپنے دن کا زیادہ تر حصہ اپنے لیے اور اپنے مویشیوں کے لیے پانی کی تلاش میں گزارتے ہیں، لیکن پانی بہت ہی کم ہے، اور جو ہے وہ بھی آرسینک اور فلورائیڈ سے آلودہ ہے، جس کی وجہ سے لوگوں میں پانی کے استعمال سے بھی بیماریاں پھیلتی ہیں۔

مقامی لوگ حکومت کی امداد مانگتے مانگتے اب بیماریوں اور موت کی وجہ سے خاموش ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق کسی رکنِ پارلیمنٹ یا کسی وزیر نے ان کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔
پریتم میگھر کا کہنا ہے کہ "ہم بے یار و مددگار ہیں، اور کوئی بھی ہماری مدد کے لیے نہیں آیا ہے۔

ایک اور مقامی فرد میر خان نے شکوہ کرتے ہوئے کہا "ہمارے بچے کبھی اسکول نہیں گئے، کیونکہ کوئی اسکول ہیں ہی نہیں۔ صرف ایک پرائمری اسکول ہے، جس میں ایک ٹیچر تعینات ہے۔ وہ بھی کبھی آتا ہے، اور کبھی نہیں۔ نہ ہی کوئی اسکول کی مناسب عمارت ہے، اور نہ ہی کوئی فرنیچر۔
لیکن جب ان سے پوچھا کہ اس سب کے باوجود وہ ہجرت کیوں نہیں کرجاتے، تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں نہ دوسرے علاقوں کے بارے میں معلومات ہیں، اور نہ ہی کوئی ایسا ہنر ہے، جس سے وہ دیگر علاقوں میں کام کر کے روزی روٹی کا بندوبست کر سکیں۔

بھوک، بدحالی، اور موت، یہی اچھڑو تھر میں سب سے زیادہ ملنے والی چیز ہے۔ لیکن حکومت کو شاید اس کی کوئی فکر نہیں۔

لیکن اس علاقے میں جہاں نہ پانی ہے نہ سڑک، نہ بجلی ہے نہ خوراک، ایک موبائل فون کمپنی نے اپنا بوسٹر لگا رکھا ہے، اور صحرا میں شمسی توانائی سے چلنے والا ایک ایزی لوڈ پوائنٹ بھی جہاں پر لوگ شمسی توانائی سے اپنے فون چارج کرتے ہیں۔
اگر ٹیکنولاجی یہاں تک اپنا راستہ بنا سکتی ہے، تو مجھے یقین ہے کہ کھانا، پانی، اور صحت بھی، صرف اگر حکام چاہیں تو۔

صاحب خان

بشکریہ ڈان اردو

Pakistan rallies firmly behind Saudi Arabia

$
0
0
Supporters of religious parties rally to support the Saudi Arabian government in Karachi, Pakistan. Pakistani parliamentarians agreed to support Saudi Arabia in case of any threat to its territorial integrity. However, the legislators were not in favor of sending troops to Yemen to fight the Shiite rebels, known as Houthis. 

نانی قتل ہو گئی...وسعت اللہ خان

$
0
0


بچپن میں جو باتیں مسلسل کان میں پڑتی تھیں ان میں یہ بھی تھی کہ بیٹا اگر کسی انسان کا کردار پرکھنا ہو تو اسے کھانا کھاتے دیکھ لو یا لین دین کر لو یا پھر اس کے ساتھ ایک آدھ سفر کر لو۔ شخصیت کا سارا کھرا کھوٹا بے لوثی و خود غرضی سمیت آئینے جیسا نظر آ جائے گا۔ اور اگر یہ پرکھنا ہو کہ کوئی قوم کس کیفیت سے گزر رہی ہے تو پھر اس کے بچوں کے ساتھ کچھ وقت گزار لو۔ سب اجتماعی کچا چٹھا کُھل جائے گا۔

دو روز پہلے آئی اے رحمان صاحب کی ایک تحریر نگاہ سے گزری۔ مضمون کے آخر میں انھوں نے یہ واقعہ بیان کیا کہ ’’حال ہی میں ڈیفنس کراچی میں جس خاندان کے پاس میں رکا۔ اس خاندان کے ایک چار سالہ بچے نے اپنی نانی کی وفات کی خبر سناتے ہوئے کہا ’’نانی قتل ہو گئی‘‘ ۔ گویا اب ہمارے بچوں کے لیے کسی کی موت کا مطلب قتل ہونا ہی ہے۔ یہ ہے وہ ماحول جس میں پاکستان کی نئی نسل پرورش پا رہی ہے

پچھلے دو برس سے ایک مشغلہ میں نے یہ بھی پال لیا ہے کہ جب بھی کچھ فرصت پاتا ہوں محلے میں پانچ تا دس برس کے بچوں کے درمیان بیٹھ کر ان سے گپ کرتا ہوں اور یوں ان نئی کونپلوں کے دل و دماغ میں جھانکنے کی اپنی سی کوشش کرتا ہوں۔ مجھے اس عمر کے بچوں سے ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔
 ابے ٹھیک طرح سے گیند کروا ورنہ چھید دوں گا سالے‘‘(گلی میں بیٹنگ کرنے والے اس بچے کی عمر بمشکل پانچ برس ہو گی۔ جب کہ باؤلر بھی اتنی ہی عمر کا تھا)۔

 انکل کل یہاں مارکیٹ میں دو لڑکے آئے تھے ڈکیتی کرنے۔ بڑی ڈینجر شکلیں تھیں ان کی۔ ہم سب نے مل کر ایک حرامی کی خوب پھینٹی لگائی۔ ایک رینجر والی وین بھی آئی اور انھوں نے اس لونڈے کو پکڑ کے وین میں ڈال لیا۔۔ دوسرا سالا بھاگ گیا۔۔ سعید انکل نے کہا اگر اس وقت میرے پاس ٹی ٹی ہوتی تو دوسرے کو گرانا (یعنی ہلاک کرنا) کوئی بات ہی نہیں تھی۔۔ سعید انکل بالکل دبنگ اسٹائل ہیں۔۔ میں بھی بڑا ہو کر سعید انکل کی طرح ٹی ٹی رکھوں گا ۔۔۔۔ انکل آج کل بھرم بازی نہ کراؤ نا تو دوسرے محلے کے لونڈے بھی شیر ہو جاتے ہیں۔۔ (مجھے یہ کہانی سنانے والا بچہ بمشکل آٹھ برس کا ہے)۔

نکڑ پر ایک چھوٹی سی مارکیٹ ہے جس میں ایک کھلونے والے کی بھی دکان ہے۔ تمام کھلونے میڈ ان چائنا ہیں۔ غبارے، چھوٹی کاریں، بھالو، پزلز، نشانہ لگانے کے لیے بُلز آئی، کھلونا موبائل فون۔ مگر پانچ سے دس برس کے بچوں کی زیادہ تر دلچسپی ریوالور، بندوق، کلاشنکوف وغیرہ کے پلاسٹک ماڈلز میں ہوتی ہے۔ دکاندار سے پوچھیں کہ بھائی تو ایسے خطرناک کھلونے کیوں بیچتا ہے تو اس کا متوقع جواب یہی ہوتا ہے کہ سر جی آج کل یہ ہاٹ آئٹم ہے۔ بچے اور کچھ خریدتے ہی نہیں۔ کئی دفعہ سوچا بھی کہ یہ آئٹم دکان پر نہ رکھوں۔ پھر سوچتا ہوں کہ میں نہیں رکھوں گا تو بچے منظر مارکیٹ میں جا کر خرید لیں گے (منظر مارکیٹ میرے گھر سے تقریباً ایک کلو میٹر پرے ہے)۔

میرے محلے میں زیادہ تر لوگ یا تو درمیانے درجے کے سرکاری و کارپوریٹ ملازم ہیں یا پھر چھوٹے کاروباری۔ گویا متوسط طبقے کا علاقہ سمجھ لیجیے۔۔ ایک اکاؤنٹنٹ صاحب نے اپنے سات سالہ بچے کو کھلونوں کی دکان سے کلاشنکوف دلاتے ہوئے کہا مجھے ایسے کھلونے پسند نہیں۔ مگر نہیں دلواؤں گا تو اماں سے ضد کر کے پیسے لے لیں گے اور پھر خود خریدیں گے۔ اس بچے کی اماں ایک نجی اسکول میں ٹیچر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حالانکہ کلاس میں بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ خطرناک نظر آنے والے کھلونے نہ خریدا کریں لیکن چونکہ ہر بچہ اسی طرح کے کھلونے خرید رہا ہے اس لیے اگر میں اپنے بچوں کو منع کروں تو انھیں بہت عجیب سا لگے گا۔

اب آئیے میں آپ کی اپنے بچوں سے ملاقات کرواؤں۔

یہ ہیں رافع صاحب جو ایک متوسط پرائیویٹ اسکول کی پہلی کلاس میں پڑھتے ہیں۔ ان کی عمر ہے پونے سات سال۔ پڑھائی میں تیز ہیں۔ دماغ بہت چلتا ہے اسی لیے خاصے جھکی بھی ہیں اور سوالات کی بوچھاڑ کر کے مدِ مقابل کو ٹی بی کروانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ تمام لڑکوں کی طرح ان کا جھکاؤ بھی اپنی والدہ کی طرف ہے۔ رافع صاحب مجھ سے سوائے تعلیمی فرمائشوں کے کوئی فرمائش نہیں کرتے کیونکہ انھیں انکار بھی سننا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے دیگر فرمائشیں وہ اپنی والدہ سے کرتے ہیں۔ رافع کے ہیرو سلمان خان ہیں۔ رافع صاحب کے پاس بہت سے کھلونے ہیں اور ان میں سے تیس فیصد کھلونے بندوقوں اور پستولوں پر مشتمل ہیں۔ دو سال پہلے تک وہ جب بھی ویک اینڈ پر فیملی آؤٹنگ کے لیے باہر جاتے تھے تو اپنا کوئی نہ کوئی پستول یا گن ضرور ساتھ رکھ لیتے تھے۔ تاکہ اگر کوئی موٹرسائیکل سوار لوٹنے کے لیے گاڑی کے قریب آئے تو اسے گولی مار سکیں۔

لیکن پچھلے ایک سال سے رافع میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ کھلونا اسلحہ سے ان کی رغبت قدرے کم ہو گئی ہے اور مصوری اور اسکیچنگ میں بڑھ گئی ہے۔ جب سے رافع میاں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں بچوں کے قتلِ عام کی خبریں دیکھی اور سنی ہیں تب سے ان کی مصوری میں سے سپر مین اور اسپائیڈر مین نکل گئے ہیں اور اب وہ اپنی کاپی پر اکثر ایسے مسلح افراد کے خاکے بناتے ہیں جو بچوں کو مار رہے ہیں۔

کئی بار میں نے سوچا بھی کہ رافع کو ایسی تصویریں بنانے سے روکوں پھر یہ سوچ کے خاموش رہا کہ شائد یہ تصویریں ہی وہ روشندان ہیں جن سے وہ اپنا ذہنی غبار بغیر جانے باہر نکال رہا ہے۔

البتہ کبھی کبھی میں رافع سے کہتا ہوں کہ یار کسی وقت درخت، پھول اور پرندوں کی بھی تصویر اور اسکیچز بناؤ۔ وہ میرا کہنا مان کر ایسی تصویر بنا تو دیتا ہے مگر درخت، جھاڑی یا پھولوں کے پیچھے ایک چھپا ہوا کردار ضرور دکھاتا ہے جس کے پاس کوئی نہ کوئی اسلحہ ہوتا ہے۔ اور مجھے مطمئن کرنے کے لیے خود ہی وضاحت بھی کرتا ہے کہ بابا اس آدمی کے پاس گن اس لیے ہے تا کہ گندے بچے کوئی شرارت نہ کریں۔ ( یعنی اس کے ذہن میں ڈنڈے کا تصور بھی گن ہی ہے)۔

ایک اور بات میں نے نوٹ کی کہ رافع اپنی کاپی پر جب بھی پھول بناتا ہے ان کا رنگ سرخ ہی ہوتا ہے۔ مگر وہ یہ نہیں بتا پاتا کہ وہ ہمیشہ سرخ پھول ہی کیوں بناتا ہے۔ زیادہ حجت کی جائے تو کہتا ہے پتہ نہیں بابا ۔۔۔۔

اور یہ ہیں رافع کے چھوٹے بھائی واسع۔ ان کی عمر اس وقت سوا دو برس ہے۔ ابھی بولنا نہیں آتا۔ چار پانچ الفاظ ہی دہراتے رہتے ہیں۔ مگر انھیں ٹی وی پر وہ مناظر زیادہ اچھے لگتے ہیں جن میں فائٹ ہو۔ واسع جب بھی میرے کمرے میں آ کر میرے اوپر چڑھ کے پیروں سے ککیں لگاتا ہے اور منہ سے اوئے اور آ کی آوازیں نکالتا ہے تو مجھے فوراً اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس نے ابھی ابھی ٹی وی پر کیا دیکھا ہے۔ آج کل وہ ایک اور حرکت کرنے لگا ہے۔ اپنے بڑے بھائی کے کھلونوں میں سے ایک پستول اسے جانے کیوں پسند آ گیا ہے۔ صبح صبح وہی پستول ہاتھ میں پکڑ کے آتا ہے اور میری کنپٹی یا منہ پر رکھ کے ٹھش ٹھش کی آوازیں نکال کر مجھے جگاتا ہے۔

واسع تو خیر ابھی بہت ہی چھوٹا ہے مگر پونے سات سال کا رافع ہو یا محلے کے دیگر بچے۔ یہ نا تو اخبار پڑھ سکتے ہیں اور نا ہی ٹی وی پر خبریں دیکھ کر پوری طرح سمجھ سکتے ہیں۔ ان میں سے کسی نے خوش قسمتی سے اب تک اپنی آنکھوں سے کوئی قتل بھی ہوتے نہیں دیکھا۔ مگر ان سب پر اردگرد کی فضا لاشعوری طور پر پوری طرح اثر انداز ہے۔

اگر ان بچوں کا یہ حال ہے تو سوچئے ان بچوں کا کیا نفسیاتی حال اور مستقبل ہو گا جنہوں نے دو برس سے دس برس کی عمر کے درمیان تشدد، ریپ، قتل، قتلِ عام، گھروں کا نذرِ آتش ہونا، جبری نقل مکانی و گمشدگی، بمباری، پولیس تشدد، اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور اندر سمو لیا۔ یہ بچے لاکھوں نہیں کروڑوں میں ہیں۔ ( دو سے دس برس کی عمر یوں کہہ رہا ہوں کہ اسی عمر میں بچوں کی شخصی عمارت کا بنیادی ڈھانچہ بن جاتا ہے۔ باقی زندگی تو محض پلستر اتارنے چڑھانے اور رنگ بدلنے میں گزرتی ہے) میں اعتراف کرتا ہوں کہ رافع اور واسع کو ایک محفوظ ماحول تو کجا ویسا ماحول بھی نہیں فراہم کر سکتا جس کی چھایا تلے میں خود دو سے دس برس کا ہوا۔ مگر میرا اعتراف بھی ان بچوں کے کس کام کا؟

وسعت اللہ خان
بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live