Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

ایم کیو ایم کے گھر میں تحریکِ انصاف اور جماعت اسلامی کامیاب ہونگی ؟.....

0
0


پاکستان کے شہر کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 246 میں ضمنی انتخاب قریب ہیں اور یہی وجہ ہے کہ شہر کا سیاسی پارہ چڑھا ہوا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ ہو یا تحریکِ انصاف یا پھر جماعت اسلامی، سب پرامید ہیں کہ اِس حلقے کے ووٹر انھی کے حق میں فیصلہ دیں گے۔

کراچی کا یہ حلقہ روایتی طور پر متحدہ قومی موومنٹ کا سیاسی گڑھ ہے اور سنہ 1988 سے اب تک اس حلقے سے ایم کیو ایم کو کامیابی مل رہی ہے۔
عام انتخابات 2013 میں اس نشست سے کامیاب ہونے والے ایم کیو ایم کے سابق رکن نبیل گبول نے ایک لاکھ 37 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کو 31 ہزار ووٹ ملے تھے۔۔ جماعت اسلامی کو الیکشن کے بائیکاٹ کے باوجود دس ہزار ووٹ مل گئے تھے۔

اس مرتبہ ضمنی انتخاب میں معاملہ اتنا سیدھا نہیں اور ایم کیو ایم کو گذشتہ چند ماہ کے دوران درپیش مشکلات نے دیگر جماعتوں خصوصاً جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کو یہ احساس دلایا ہے کہ وہ یہاں مقابلہ کر سکتے ہیں۔
تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی نے انتخابی مہم کے دوران حلقے میں قابلِ ذکر جلسے کیے ہیں
 
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار ادریس بختیار کا خیال ہے کہ 11 مارچ کو رینجرز کے نائن زیرو پر چھاپے سےشروع ہونے والے واقعات کے بعد جو صورت حال بنی ہے اس میں یہ امکان بہت کم ہے کہ ووٹر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے لیے نکلیں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’2013 کے انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کو اضافی ووٹ اس لیے پڑے کہ آخری وقت میں جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔
مبصرین کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات کہتے ہیں کہ یہ حلقہ ایک ایسی جماعت کے قبضے میں رہا ہے جسے ہمیشہ خوف کی بنیاد پر ووٹ ڈالے گئے یا اُس نے جعلی ٹھپے لگائے ۔اس کے باجود پاکستان تحریک انصاف نے پچھلے انتخابات میں وہاں سے بھاری تعداد میں ووٹ لیے تھے ۔
انھوں نے کہا کہ ’بائیکاٹ کے باجود جماعت اسلامی کے امیدوار کو ووٹ ملے تھے اور اب وہاں پی ٹی آئی کو پذیرائی مل رہی ہے اور یہ واضح ہے کہ تحریک انصاف نے اِس حلقے میں ایم کیو ایم کے خوف کا بُت توڑ دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ حالیہ جوڈیشل کمیشن میں پاکستان کی 21 سیاسی جماعتوں نے کہا ہے کہ اس الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی اور حالیہ حقائق کے بعد ایم کیو ایم کےاصل عزائم اور ان کی سرگرمیوں سے واضح طور پر یہ چیز ثابت ہوتی ہے کہ 2013 کے الیکشن میں جعل سازی کے ذریعے ووٹ ڈالے گئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حلقہ این اے 246 سے جیت ایم کیو ایم کے لیے اس کی بقا کا مسئلہ ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے بڑا چیلنج ہے۔
تحریک انصاف کو اپنے آپ کو منوانے کے لیے اس حلقے سے اتنی بڑی تعداد میں ووٹ لینے ہوں گے کہ وہ ایک متبادل جماعت کے طور پر ابھر سکے۔

بی بی سی اردو ڈاٹ کام


مجرم ختم تو جرم بھی ختم....وسعت اللہ خان

0
0


پاکستانی عدلیہ اتفاق کرے نہ کرے لیکن پارلیمنٹ ، حکومت ، پولیس ، نیم فوجی دستے ، فوج اور انٹیلی جینس ایجنسیاں اس نکتے پر متحد و متفق ہیں کہ ہم تو ٹھیک ہیں مگر سویلین عدالتی ڈھانچہ ناقابلِ اصلاح حد تک فرسودہ ہوچکا ہے لہذا محض سویلین عدالتوں سے سزائے موت یافتہ آٹھ ہزار قیدیوں کو لٹکانے سے کام نہیں چلے گا۔

اس لیے فرسودہ روایتی آئینی عدالتی نظام کی مدد کے لیے ’نہ رہے بانس نہ بجے بانسری‘ کے اصول پر ماورائے آئین اقدامات ضروری ہیں یعنی مجرم ختم کردو تو جرم بھی ختم ہوجائے گا۔

چنانچہ ملزموں کو عدالتی تکلفات میں پھنسانے کے بجائے پولیس مقابلوں ، جبری گمشدگی اور ٹارگٹڈ کلنگ کے ذریعےگھٹ کرنے کی روایت مستحکم ہونے کے بعد عوام کی منتخب آئینی پارلیمنٹ نے بذریعہ اکیسویں ترمیم فوجی عدالتیں بھی متعارف کروا دیں۔

جب ان سلیمانی فوجی عدالتوں نے انصاف کی پہلی قسط چھ نامعلوم ملزموں کو سزائے موت کی شکل میں تھما دی تو بہت سے وکلا نے سپریم کورٹ کے سامنے ایسے سوالات اٹھا دیے جن کا مقصد اس انصاف کو بریک لگانا ہے جو تیز رفتاری میں خود سے بھی آگے نکل گیا۔

اس قدر تیز کہ عدالتی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ فیصلہ جج کی زبان سے آنے کے بجائے فوج کے محکمہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ کے ٹوئٹر کے منہ سے جاری ہوا۔

چنانچہ بعضے بعضے ٹیڑھے وکلا کے خیال میں ان سوالوں کا اعلی عدلیہ سے ہی جواب ملنا چاہیے کہ کیا آئین کے بنیادی ڈھانچے میں کسی متوازی نظام ِ انصاف کی گنجائش ہے؟ کیا کوئی بھی پارلیمنٹ بنیادی آزادیوں کے ضامن آئینی ڈھانچے میں تبدیلی کر سکتی ہے ؟ فوجی عدالتیں ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی نگرانی سے آزاد کیوں ہیں؟ جب ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو پھر فوجی عدالتیں خفیہ سماعت کیوں کر رہی ہیں؟ ان عدالتوں کے ججوں کا اپنا قانونی تجربہ کیا ہے ؟

اور جن ٹھوس ثبوتوں پر کوئی فوجی عدالت سزائے موت سنا سکتی ہے انھی ثبوتوں کی بنیاد پر کوئی عام یا خصوصی سویلین عدالت کیوں سزائے موت نہیں دے سکتی؟ فوجی عدالتوں کا سماعتی طریقہ منصفانہ مقدمے کے بنیادی آئینی حق کی ضمانت دینے والے آرٹیکلز دس تا چودہ کی روح سے متصادم تو نہیں؟ جسے انتہائی سزا سنائی گئی کیا اسے فردِ جرم کی نقل بھی فراہم کی گئی یا اپنی پسند کا وکیل کرنے کی اجازت مل ؟

اور یہ کہ جس فوجی عدالت نے سزا سنائی وہی عدالت ملزم کی جانب سے نظرِ ثانی کی اپیل غیر جانبداری سے کیسے سنے گی؟

اگرچہ سپریم کورٹ نے ان سوالوں کا فیصلہ ہونے تک فوجی عدالتوں کی سزاؤں پر عمل روک دیا ہے تاہم فوجی عدالتوں کے حمایتیوں کی اس دلیل کا کیا کریں کہ یہ کڑوی گولی غیر معمولی حالات میں عارضی طور پر نگلنا پڑ رہی ہے۔
گویا حمایتیوں کو بھی پورا یقین نہیں کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے منصفانہ ہوں گے حالانکہ آفاقی نظامِ انصاف کھڑا ہی اس بنیاد پر ہے کہ کسی ملزم کو مجرم قرار دینے میں ایک فیصد بھی شبہ ہو جائے تو سزا نہیں دی جا سکتی۔سرسری انصاف کی میڈ ان پارلیمنٹ چھری سے تجھے مجھے تو ڈرایا جا سکتا ہے لیکن انہیں کون ڈرائے گا جو سزائے موت کو بھی جنت میں فاسٹ ٹریک داخلے کا پاس سمجھتے ہیں

ویسے پاکستان میں ایسی کونسی کڑوی گولیاں ہیں جو عارضی کہہ کر نہیں بیچی گئیں۔ نظریۂ ضرورت کی گولی 1954 میں یہی بتا کے نگلوائی گئی تھی مگر ایک چیف جسٹس کے چیمبر سے نکلی اس گولی کو قانون کی کھوپڑی سے نکالنے میں دوسرے چیف جسٹس کو 53 برس لگے۔

  جنگ میں نافذ ہونے والی عارضی ایوب خانی ایمرجنسی وہ مرض ہو گئی جس سے پنڈ چھڑانے میں 20 برس لگے۔ ہر مارشل لا خود کو عارضی بتا کے ہی آتا ہے مگر یہ عارضہ پاکستان کے 68 برس میں سے 33 برس تو سامنے سامنے ہی نگل گیا۔

چند برس پہلے تک ایسے عارضی نما مستقل کاموں کے لیے سیاسی طبقے کو پھوٹ ڈال کے توڑنا پڑتا تھا مگر نئی ٹیکنالوجی نے سارا عمل بہت آسان کر دیا ہے۔

اب پارلیمنٹ پر کالے جادو کا سپرے کیا جاتا ہے جس کے بعد وہ طوطا بن جاتی ہے اور اپنی خود مختاری ، وقار اور قانون سازی کی صلاحیت ایک چھری کے ساتھ پلیٹ میں رکھ کے ’جو حکم ہو میرے آقا‘ کہتے ہوئے گردن جھکا دیتی ہے۔
ایسی میسمرائزڈ پارلیمنٹ کو کون عامل قتل کرنا چاہے گا؟

مگر نئے سائبر کرمنل لا کی رسی سے باندھ کر سرسری انصاف کی میڈ ان پارلیمنٹ چھری سے تجھے مجھے تو ڈرایا جا سکتا ہے لیکن انہیں کون ڈرائے گا جو سزائے موت کو بھی جنت میں فاسٹ ٹریک داخلے کا پاس سمجھتے ہیں۔
وہی نہ ڈریں جنہیں ڈرانا مقصود ہے تو پھر اس ماورائے آئین بکھیڑے کا فائدہ؟
اور جاتے جاتے ایک فضول سا سوال۔

متنازع کشمیر میں برسوں سے جاری شورش کے خاتمے کے لیے کسی بھی بھارتی حکومت کو تیر بہدف فوجی عدالتوں کی اب تک کیوں نہیں سوجھی؟

وسعت اللہ خان

شی چن پنگ - چین کے بااثر ترین سربراہ

پاک چین دوستی زندہ باد لیکن .........

ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے....

0
0


ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
ساقی نامہ اقبال نے جب کہا

تو یار لوگوں نے اسے شاعرانہ تخیل قرار دیا۔ اس وقت چیئرمین مائوزے تنگ کا تاریخی مارچ کامیابی سے ہمکنار ہوا تھا، نہ پورا چین آزاد و متحد تھا۔ مگر شاعر مشرق نے چینے عوام کے جذبے اور قیادت کی راست فکری و استقامت کو دیکھ کر ہمالہ کے چشمے ابلنے کی پیش گوئی کر ڈالی۔ آج تاریخ کے سامنے چینی قیادت سن یات سین، مائوزے تنگ، چو این لائی، ڈینگ سیائو پنگ کی طرح اقبال بھی سرخرو ہیں۔

پاکستان اور چین کی دوستی بلاشبہ ہمالیہ سے بلند، سمندروں سے گہری شہد سے میٹھی اور فولاد سے مضبوط ہے۔ 1949ء سے اب تک آزمائش کی ہر کسوٹی پر دونوں ممالک پورے اترے۔ زمانہ جنگ اور امن میں ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا اور کبھی کسی ایک نے پیٹھ نہیں دکھائی مگر ترقی کی دوڑ میں ہم چین کا ساتھ نہ دے سکے۔ شاید مزاج کا فرق ہے یا پے درپے قیاد وہ ملی جس نے تاریخ سے خوچ کچھ سیکھا نہ عوام کو سیکھنے پر آمادہ کیا۔ تاریخ اور جغرافیہ دونوں کو سبق سکھانے پر مصر رہی۔

 ء 1971ء میں چین کی قیادت نے ہمیں کیا مشورہ دیا اور ہم نے ان مشوروں کو کس حد تک درخور اعتنا سمجھا اب یہ سب کچھ سرکاری دستاویزات ، تاریخی کتب اور اہم شخصیات کی شائع شدہ یادداشتوں کے ذریعے منظر عام پر آگیا ہے۔ 71ء میں چینی رہنما یحیی خان کو سمجھاتے رہے کہ بھارتی جارحیت کا انتظار کرنے کے بجائے کلکتہ میں موجود عوامی لیگی قیادت سے سلسہ جنبانی کرو، گرفتار شیخ مجیب کا پتہ استعمال کرو، ہم اپنا اثرورسوخ استعمال کر سکتے ہیں مگر کسی نے ایک نہ سنی، اعلی سطحی وفد بیجینگ سے واپس آیا تو عوام کو دمادم مست قلندر کی نوید سنائی گئی حالانکہ ہوش مند اور امن پسند چینیوں نے ایسی کوئی بات نہ کہی۔

چین کی تہذیب، ثقافت اور تاریخ طلسم ہوشربا ہے، ہزاروں برس کے تجربات اور ہر تجربے میں دانش وبصیرت کی آمیزش۔ مثلا دیا کے کسی ملک میں دیہی آبادی کی شہروں کی طرف منتقلی کا راستہ روکنے کیلئے شہر و دیہات کے الگ الگ قومی شناختی کارڈ راءج نہیں۔ اگر آپ دیہات کے باسی ہیں تو آپکو دیگر سہولتوں کے علاوہ دو بچے پیدا کرنے کی اجازت ہے جبکہ شہری شناختی کارڈ ہولڈر کو یہ سہولت حاصل نہیں۔ تعلیم، علاج معالجے ، روزگار اور رہائش کے حوالے سے بھی شہری اور دیہی باشندوں کو ایسی سہولتیں اور مراعات حاصل ہیں کہ کسی دیہاتی کا اپنا کمیون چھوڑ کر شہر جانے کو جی کرتا ہے نہ شہری کا دیہات کی طرف مراجعت کو۔ دونوں ایک دوسرے پر رشک کرتے ہیں دل میں شناختای کارڈ بدلنے کے منصوبے بھی بناتے ہیں مگر پھر حاصل مراعات اور مفادات کو کافی جان کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ کہیں موجودہ سواد سے بھی محروم نہ ہوجائیں۔

چینیوں کے بارے میں یہ مثل تو چار دانگ عالم میں مشہور ہے کہ یہ ہرا ڑنے 
، رینگنے اور پانی میں تیرنی والی چیز کو شوق سے کھاتے ہیں، صرف ہوائی جہاز، ٹرین اور آبدوز کھانا پسند نہیں نکرتے تاکہ دانتوں اور آنتوں کو نقصان نہ پہنچے۔ لیکن اس بات کا علم چین جا کر ہوتا ہے کہ من پسند اشیاء کو زندہ سلامت کھانے سے بھی چینی پرہیز نہ کرتے۔ زندہ بندر کا مغز جس انداز میں نکالا، ابالا اور کھایا جاتا ہے وہ دل گردے کا کام ہے۔ فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال نے ایک موقع پر بتایا کہ 1962ء میں سرکاری دورے پر گئے تو وزیر اعظم چو این لائی کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے انکے سامنے زندہ جھینگے لا کر رکھ دیئے گئے اور میزبان ان پر نمک مرچ ڈال کر لذت کام و دہن میں مصروف ہو گئے۔ کوئی انکے تڑپنے پھڑکنے سے متاثر نہ ہوا۔ شائد روزانہ کی سیر، ورزش اور پیدل چلنے کی عادت نے چینیوں کے معدے مضبوط اور ذائقے منفرد کر دیئے ہیں۔ چینی صرف کھانے پینے میں منفرد نہیں انکا عزم و استقلال بھی بے مثل ہے۔

امریکہ و یورپ سے تو چین روز اول سے کٹا تھا۔ 1954ء میں چن اور سوویت یونین کے مابین تنازع بڑھا تو امریکہ اور یورپ نے ہر ممکن کوشش کی کہ دونوں کمیونسٹ ممالک میں صلح نہ ہونے پائے۔ ایک سوویت یونین نے چین میں کام کرنے والے تمام فنی و تکنیکی ماہرین، انجینئروں، ڈاکٹروں ، سائنس دانوں کو واپس بلا لیا اور وہ اپنے ہر منصوبے اور پروگرام کے بلیو پرنٹ بغل میں دبا کر چل پڑے۔ چیئرمین مائوزے تنگ نے گھبرانے کے بجائے اعلان کیا کہ ہم اگلے دس سال میں ایٹمی پروگرام مکمل کریں گے اور 1964ء میں ایٹمی تجربہ ہوگا۔ ٹھیک دس سال بعد چین پابندیوں اور نامساعد حالات کے باوجود ایٹمی قوت بن گیا۔
ہم خود تراشتے ہیں منازل کے سنگ میل
ہم وہ نہیں ہیں جن کو زمانہ بنا گیا

 انقلاب اکتوبر کی دسویں سالگرہ تھی۔ دسمبر 1958ء میں چیئرمین مائو نے کہا کہ ہم دسویں قومی سالگرہ کی نسبت سے دس عظیم عمارتیں تعمیر کریں گے اور سالگرہ کی تقریبات ان نوتعمیر عمارتوں میں ہوں گی۔ تیانمن سکوائر پر واقع گریٹ پیپلز ہال انہی دس عمارتوں میں سے ایک ہے۔ عمارت کا حجم ، مضبوطی اور حسن دیکھ کر انقلابی قیادت کی اولولعزمی اور رفعت خیال پر رشک آتا ہے، عوامی ہال کی تعمیر قومی جذبے سے ہوئی۔ چھٹی کے دن بیجنگ کا ہر شہرے جائے تعمیر پر آتا، اینٹ، پتھر ، سیمنٹ اٹھانے میں مزدوروں کا ہاتھ بٹاتا اور انکے حوصلے بڑھاتا۔آنے والوں میں وزیر اعظم چو این لائی بھی شامل تھے۔ بیجنگ کے اکثر شری دعوی کرتے ہیں کہ گریٹ ہال کی تعمیر میرے ہاتھوں سے ہوئی اور یہ کچھ غلط نہیں۔

ماضی میں چینی عوام کو اپنی چارایجادات قطن نما، چھاپے خانے ، بارود اور کاغذ پر فخر تھا، اب وہ اپنی تیز رفتار ترقی اور امریکہ و یورپ کے مساوی خوشھالی اور آسودگی کا ذکر احساس تفاخر سے کرتے ہیں۔ پاکستان چین سے دو سال قبل آزاد ہوا، عرصہ دراد تک چین کا انحصار پاکستان پر تھا کہ یہی ایک کھلی کھڑکی تھی۔ مگر ہم ترقی معکوس میں مگن رہے۔ کاش ہم نے چینیوں کے محنت، نظم و ضبط ، خود اعتمادی، قومی حمیت، مستقبل بینی ، دوراندیشی استقامت اور مستقل مزاجی کے اوصاف سے بھی استفادہ کیا ہوتا۔

کوتاہ اندیش ہم اتنے ہیں کہ برس ہابرس سے پاکستان میں چینی زبان کی تدریس کا مطالبہ ہو رہا ہے تاکہ برادر ملک میں حصول تعلیم روزگار اور کاروبار کے جو وسیع مواقع پیدا ہوتے ہیں ان سے پاکستان افرادی قوت بالخصوص طالب علم فائدہ اٹھا سکیں مگر آض تک کسی حکومت نے پذیرائی نہیں کی۔ اب کہیں جا کر سندھ حکومت نے توجہ دی ہے پنجاب خیبر پی کی اور بلوچ حکومتوں کو پروا نہیں۔ اوباما بھارت آئے تو ہمیں پتہ چلا کہ دیرینہ طوطا چشم یار نے ہم سے پھر آنکھیں پھیر لی ہیں اور اوباما چند گھنٹے کیلئے اسلام آباد آنے پر آمادہ نہیں۔

آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے فورا رخت سفر باندھا اور بیجنگ جا کر چینی قیادت کو قائل کیا کہ ضرف عضب آپریشن کی بنا پر پاکستان ایک محفوظ ملک ہے اور امریکیوں کی طرح چینی بزدل بھی نہیں۔ صدر شی چن پنگ بے خوف و خطر اسلام آباد آئیں۔ کھلے دل اور بازوئوں سے استقبال ہوگا۔ کیچ میں سراب ندی پر کام کرنے والے سرائیکی وسیب اور سندھ کے غریب مزدوروں کو گولیوں سے اس بنا پر چھلنی کیا گیا کہ امن و امان کی خراب صورتحال کے بہانے ایک بار پھر چینی صدر کا دورہ ملتوی ہوجائے۔ مگر یہ سازش ناکام رہی۔ شی چن پنگ کا دورہ پاکستان کے مستقبل اقتصادی و معاشی استحکام اور امن و امان کی صورتحال پر اعتمان کا اظہار ہے۔

چینی قرض اور سرمایہ کاری سے قومی معیشت کے علاوہ نواز حکومت کو بھی طاقت اور توانائی کا ٹیکہ لگا، مگر یہ شمالی وزیرستان سے لے کر کراچی اور بلوچستان تک ہر طرح کی دہشتگردی بھتہ خوری اغوا کاری ٹارگٹ کنلگ اور بدنامی کے خاتمے سے مشروط ہے اور یہ محض ف کہ ذمہ داری نہیں۔ میاں نواز شریف سعودی عرب جا رہے ہیں۔ دو برادر ممالک میں بدمزگی کا موذی خاتمہ ضروری ہے اور ملک کے اندر بھی افراتفری ، دھینگا مشتی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے موجودہ کلچر کی حوصلہ شکنی ازبس لازم۔

سنگا پور، چین اور دیگر کئی ممالک نے جمہوریت سے متصادم نظام کے ذریعے ترقی کر لی، ہمارے حکمران اب تک یہی لکیر پیٹے جا رہے ہیں کہ آمریت نے ہماری منزل کھوٹی کی حالانکہ اہمیت نظام سے کہیں زیادہ قیادت کی بصیرت حسن تدبیر حب الوطنی، نیک نیتی، ثابت قدمی ، راست فکری ، عوام دوستی اور بے نفسی ہے۔ جبکہ عوام کو ریاضت، فرض شناسی ، برداشت اور ایثار و قربانی کے اوصاف اپنے اندر پیدا کرنا ہوں گے۔ کیا ہمارے قائدین اور عوام اپنے موجودہ انداز فکر ، طرز عمل اور طریقہ کار کے مطابق چین کے کاندھے سے کاندھا، اور قدم سے قدم ملا کر چلنے انکے قابل ہیں۔؟

زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے ساز بدلے گئے

ارشاد احمد عارف

 
 

کئ مما لک دنیا کے نقشے سے غائب ہو جائیں گے ؟

پاکستان چین اکنامک کاریڈور ....اکیسویں صدی کی نہر سویز...

0
0


کاشغر سے لے کر گوادر تک اقتصادی راہداری تعمیر کرنے اور سلک روٹ کو نیا اور متحرک روپ دینے کی خاطر پاکستان اور چین کے درمیان معاہدہ اگر کامیابی کے ساتھ پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا تو یہ بلاشبہ 21 ویں صدی کی نہر سویز ہو گی۔ مرکز اس کا پاکستان کی سر زمین ہو گی۔ ہمارے ملک کا بہترین محل وقوع پہلی مرتبہ ہمارے کام آئے گا۔ ورنہ ہمیشہ اسے اپنے مفادات کی خاطر استعمال کیا ہے اور ہم چند ڈالروں کی وقتی امداد اور فوجی آمریتوں کے تحفظ کی خاطر اس کے آلہ کار بنتے رہے ہیں۔ چین اور پاکستان کے تعاون سے بننے والی راہداری نہ صرف پورے پاکستان اور چین کے مغربی حصے کو آپس میں ملا دے گی بلکہ اس کے وجود میں آ جانے کے بعد جہاں چین کے لیے بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک رسائی کے دروازے کھل جائیں گے اور اس کے لیے آبنائے ہر مز کے راستوں سے آنے والے تیل کا حصول بآسانی ممکن ہو جائے گا نیز اپنے مال کو کم خرچ اور کم وقت پر یورپ تک برآمد کرنا آسان ہو جائے گا، وہیں پاکستان کے لیے افغان، وسط ایشیا اور خطے کے دیگر ممالک تک تجارتی رسائی اور آمد و رفت کے تعلقات کو تیزی سے فروغ دینا ممکن ہو جائے گا۔ ہمارا ملک بہت بڑا تجارتی مرکز بن جائے گا۔ اس سے پاکستان کی اقتصادی ترقی اور معاشی خود کفالت کے نئے اور روشن امکانات پیدا ہوں گے۔ یہ نہر سویز پورے خطے کا اقتصادی نقشہ بدل کر رکھ دے گی۔

چین راہداری اور توانائی کے منصوبوں کے لیے 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور قرضے فراہم کر رہا ہے۔ پاکستان کیا پورے جنوبی ایشیا اور گردو پیش کے دوسرے ممالک میں اتنی بڑی اور بیک وقت سرمایہ کاری کبھی نہیں ہوئی۔ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے مخدوش حالات اور اس کے ساتھ عالمی سطح پر ہمارے خلاف منفی پروپیگنڈے کی جو فضا قائم کی گئی اس کی بنا پر ایک مدت سے یہاں سرمایہ کاری کرنے کوئی نہیں آ رہا۔ مشرف کی فوجی آمریت کے آٹھ سالوں میں ہزار کوشش کے باوجود کسی بڑی ملٹی نیشنل کمپنی نے ہمیں درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ حالانکہ ہم امریکہ کی جنگ لڑ رہے تھے۔ لیکن کوئی امریکی سرمایہ کار نہ آیا۔ سٹاک ایکسچینج میں Portfolia Investment ہوتی رہی مگر جو کام صنعتی ترقی کے لیے مہمیز ثابت ہو سکتا تھا اور معیشت کو مضبوط بنیاد فراہم کر سکتا تھا نہ ہوا۔ اس عہد میں بجلی کی پیداوار میں ایک میگاواٹ کا اضافہ نہ کیا گیا جس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اس کے بعد زرداری صاحب کے دور (2008ء تا 2011ء) میں تو لوڈشیڈنگ کی ناقابل بیان حالت نے کئی ایک ملکی صنعتکاروں کو اپنا سرمایہ بنگلہ دیش اور ملائیشیا منتقل کر دینے پر مجبور کر دیا۔ موجودہ حکومت اس نعرے کے ساتھ بر سراقتدار آئی کہ وہ توانائی کے بحران کو جلد از جلد حل کر کے ملک کو اندھیروں سے نکال دے گی۔ پونے دو برس ہونے کو آئے ہیں تمام تر سعی و جہد کے باوجود کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

اب جو پاکستان کے دیرینہ دوست اور ہمسایہ ملک عوامی جمہوری چین نے اپنے اور پاکستان دونوں کے مفادات سامنے رکھتے ہوئے پیش قدمی کی ہے اور نواز شریف حکومت کو اپنا دیرینہ خواب اور عوام کے ساتھ کیا گیا انتخابی وعدہ پورا کرنے کا موقع ملا ہے تو جان لینا چاہیے کہ اس کے ساتھ ایک بڑا چیلنج بھی ہمارے حکمرانوں اور حکومتی و ریاستی نظام کو در پیش ہے۔ جتنا بڑا موقع ہے اتنی بڑی آزمائش بھی ہے۔ اپنی سر زمین پر نئے دور کی نہر سویز کی تعمیر آسان کام نہ ہو گا۔ 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے جن بڑے منصوبوں پر کام شروع ہو گا اور توانائی کی پیدوار کے ساتھ ملک کی اقتصادی تاریخ بدل کر رکھ دینے والی راہداری کے قیام کا بیڑا اٹھایا جائے گا تو اس راہ میں غیر معمولی مشکلات پیش آئیں گی۔ تمام منصوبوں میں شفافیت کو ہر لحاظ سے یقینی بنانا جان جوکھوں کا کام ہو گا۔

کرپشن ہمارے فرسودہ نظام کی رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے۔ اس سے راہداری اور توانائی کے منصوبوں کو پوری طرح محفوظ رکھنا اور کسی بڑی مالی یا دیگر نوعیت کی بدعنوانی کو در نہ آنے دینا ہمالیہ کی چوٹی سر کرنے کے مترادف ہو گا۔ لہٰذا نواز حکومت جہاں چین کے صدر کے تاریخی دورے کی کامیابی پر فرحت اور شادمانی کا اظہار کر رہی ہے وہیں اسے پوری ذمہ داری کے ساتھ غیر معمولی چیلنج سے عہدہ برا ہونے کے لیے بھی تیار ہو جانا چاہیے۔ ورنہ ساری ساکھ زمین پر آن گرے گی اتنا عظیم الشان منصوبہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے گا۔ حکومت کو ہر ہر منصوبے کی بروقت اور اعلیٰ درجے کی تکنیکی و انتظامی مہارت کے ساتھ تکمیل عزم کے ساتھ ہر نوعیت کی مالی بدعنوانی سے محفوظ رہنے کے لیے بھی لنگر لنگوٹ کس لینا چاہیے۔ 

اس میں شک نہیں کہ موجودہ دور میں حکومت کا کوئی بڑا سکینڈل منظر عام پر نہیں آیا۔ پنجاب اور اسلام آباد میں میٹرو بس کے منصوبے بھی شفافیت کے ساتھ پایۂ تکمیل کو پہنچے ہیں لیکن خنجراب سے لے کر گوادر تک اقتصادی شاہراہ کی تعمیر کا کام اپنے جلو میں ایک نہیں کئی ایک منصوبوں کو لے کر آئے گا۔ شاہراہیں تعمیر ہوں گی، توانائی کی پیداوار کے بڑے بڑے یونٹ لگیں گے، ریلوے لائنوں کو بدل کر رکھ دیا جائے گا، بندرگاہیں بنیں گی اور سمندری راستوں کا احیاء ہو گا۔ ان میں سے ہر ایک کی علیحدہ علیحدہ اور مکمل نگرانی کرنا ضروری ہو گا۔
اگرچہ انجینئرنگ اور دوسرے اعلیٰ پیمانے کے منصوبوں کو چینی کمپنیاں اپنے ہاتھ میں لیں گی لیکن مقامی طور پر بھی بیورو کریسی اور چھوٹے بڑے ٹھیکیداروں کی فوج ظفر موج کو حرکت میں لانا پڑے گا۔ ہمارے ملک کے اندر بیورو کریٹوں اور ٹھیکیدار کمپنیوں کی ملی بھگت جو رنگ جماتی ہے اس سے کون واقف نہیں۔ لہٰذا وزیراعظم کو ابھی سے اس جانب متوجہ ہونا چاہیے۔

 اپنی نگرانی میں ایک ٹاسک فورس صرف اس مقصد کے لیے قائم کر دینی چاہیے جو ابھی سے ہر ہر منصوبے کی براہ راست نگرانی اور شفافیت کو یقینی بنانے کا فول پروف نظام وضع کرے اور کاموں کے آغاز کے ساتھ ہی پوری اہلیت کے ساتھ ان پر اپنی آنکھیں گاڑ لے۔ چین کے صدر نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران وزیراعظم اور ہماری قوم کو راہداری کے قیام کے نتیجے میں پاکستان کے ایشین ٹائیگر بن جانے کی نوید سنائی۔ اس کا مژدہ نواز شریف نے اہل وطن کو اس وقت سنایا تھا جب وہ 1990ء میں پہلی بار وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔ تب ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک موٹر وے کی تعمیر کے منصوبے کا اعلان کیا گیا اور افغانستان اور وسطی ایشیا کی نو آزاد ریاستوں کو اس کے منسلک کر دینے کا خیال بھی پیش کیا گیا۔ لیکن ہماری مقتدر قوتوں کو غیر آئینی طریقوں سے حکومتوں کی اتھل پتھل کا جو شوق رہا ہے اس نے کسی بڑے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچنے نہ دیا نہ اعلیٰ درجے کے خیال کو عمل میں آنے دیا۔

میں جون 1991ء میں عام انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے بھارت گیا تو نو منتخب وزیراعظم نرسیما راؤ سے انٹرویو کا موقع ملا۔ آف دی ریکارڈ گفتگو میں انہوں نے پوچھا یہ جو آپ کے وزیراعظم نواز شریف نے پرائیویٹائزیشن اور دوسری بنیادی معاشی اصلاحات کا منصوبہ شروع کیا ہے، کیا اس کی تکمیل کر لیں گے؟ میں نے جواب دیا ہمارے یہاں سیاست پر جاگیرداروں کا تسلط ہے جو کسی بڑی تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں اس کے ساتھ بیورو کریسی کے سرخ فیتے کا بھی راج ہے جو آزاد معیشت کو شاید چلنے نہ دے۔ اس پر نرسیما راؤ نے کہا بھارت میں جاگیردار تو نہیں البتہ بیورو کریسی ہے لیکن میں اس سے نمٹ لوں گا۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ریزرو بینک آف انڈیا کے ڈاکٹر من موہن سنگھ کو وزیر خزانہ مقرر کروں اور اسی نوعیت کی اقتصادی اصلاحات کا نفاذ کیا جائے گا جن کا پاکستان میں آغاز ہو رہا ہے۔ اس کے بعد کیا ہوا۔ پاکستان میں جلد نواز شریف کی حکومت ختم کر دی گئی۔ ہمارے یہاں سیاسی عدم استحکام نے اپنے سائے گہرے کر لیے لیکن بھارت میں آئینی و جمہوری تسلسل برقرار رہا۔
اس دوران کانگریس کو انتخابی شکست بھی ہوئی ۔ بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی۔ 2004ء میں کانگریس نے پھر کامیابی حاصل کی۔ من موہن سنگھ 8 سال تک وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے۔ 2014ء کے چناؤ میں بی جے پی کے نریندر مودی وزیراعظم بنے۔ یہ سب کچھ ایک آئینی اور انتخابی نظام کے تحت ہوا۔

 لہٰذا وہاں جن اقتصادی پالیسیوں کی 1991ء میں داغ بیل ڈالی گئی وہ نشوو نما پاتی رہی اور اب بھارت اقتصادی ترقی کے ایک مقام پر کھڑا ہے پاکستان میں اس کے برعکس اندھے کی لاٹھی چلتی رہی۔ آمریت باردگر غالب آ گئی۔ ہم اقتصادی جمود سے نہ نکل سکے۔ اب جو چین کے ساتھ تازہ اور تاریخی معاہدوں پر صحیح معنوں میں عمل درآمد کی صورت ہمارے وطن میں نئے معاشی دور کی آمد آمد ہے تو نواز شریف کو پہلے سے بھی زیادہ ان قوتوں سے چوکنا رہنا ہو گا۔ جن کا مفاد ملک عزیز کو امریکہ کا مسلسل محتاج بنائے رکھنے میں مضمر ہے۔ مقام شکر ہے کہ آج کی سول حکومت اور فوجی قیادت چین کے ساتھ معاہدوں کے حوالے سے یکسو ہیں۔ لیکن جو بیرونی اور داخلی قوتیں ہمارے ملک کے حالات پر ظاہری اور در پردہ رسوخ رکھتی ہیں ان کی سازشوں سے مسلسل باخبر اور ہوشیار رہنا ہو گا۔ پاکستان کے لیے اتنا بڑا اور اقتصادی لحاظ سے انقلاب آفرین منصوبہ انہیں آسانی سے ہضم نہ ہو گا

عطاء الرحمٰن
"بشکریہ روزنامہ "نئی بات

حلقہ 246....ضمنی انتخابات سے انقلاب نہیں آجائے گا.......

0
0


کراچی میں نبیل گبول کے استعفے سے خالی ہونے والی نشست پر آج 23 اپریل کو انتخابات ہو رہے ہیں۔اس نشست کے انتخابات کو ہماری سیاسی جماعتوں نے ایک ایسا ہوّا بنادیا ہے اور انتخابی لڑائی اس طرح لڑ رہے ہیں کہ یہ پانی پت کی جنگ بن گئی ہے اور تاثر کچھ ایسا بن گیا ہے کہ جو اس نشست کو جیت لے گا وہ اس ملک میں انقلاب لے آئے گا۔

ہمارے ملک میں 1970 سے اب تک جو انتخابات ہوتے رہے ہیں، ان کی حیثیت ایک لاحاصل مشق کے علاوہ کچھ نہیں رہی، ہر انتخاب کے بعد عوام کے مسائل میں اضافہ ہی ہوتا رہا کمی کبھی نہیں آئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نشست کوئی بھی سیاسی پارٹی جیت لے عوام کو اس کا کیا فائدہ ملے گا؟ عوام جن مسائل میں 68 سال سے گرفتار ہیں ان میں کمی آنے کا تو کوئی سوال نہیں ،البتہ اضافہ ہونے کا پورا پورا امکان ہے عزیز آباد اور ملحقہ علاقوں پر مشتمل یہ نشست متحدہ کے پاس رہی ہے کیونکہ یہ حلقہ 90 سے ملحق ہے اس لیے عام تاثر یہی ہے کہ اس نشست پر متحدہ ہی کامیاب ہوگی۔ لیکن صورتحال کچھ ایسی بنا دی گئی ہے کہ اس علاقے کا ووٹر سخت کنفیوژن کا شکار ہوکر رہ گیا ہے۔

اس سیٹ کے لیے جو پارٹیاں مدمقابل ہیں ان میں متحدہ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی شامل ہیں۔ جب سے متحدہ کے خلاف آپریشن شروع ہوا ہے اور اس کے متعدد کارکن سنگین الزامات میں گرفتار ہیں، سیاسی اور مذہبی جماعتیں متحدہ کے خلاف سخت مہم چلانے میں مصروف ہیں بورژوا جمہوریت میں انتخابی مہمیں عموماً خوش کن وعدوں پر چلائی جاتی ہیں۔

ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں خواہ عام انتخابات ہوں یا ضمنی انتخابات ہر جماعت عوام کے سامنے اپنا منشور پیش کرتی ہے اور عوام جس جماعت کے منشورکو بہتر سمجھتے ہیں اسے ووٹ دے کر کامیاب کرتے ہیں اور کامیاب ہونے والی جماعت پابند ہوتی ہے کہ وہ اپنی انتخابی مہم میں کیے ہوئے وعدے پورے کرے چونکہ انتخابات میں حصہ لینے والے اور انتخابات جیتنے والوں کو عوام میں رہنا ہوتا ہے اور عوام کو جوابدہ ہونا پڑتا ہے اس لیے انتخاب جیتنے والی جماعت کی کوشش ہی نہیں بلکہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ عوام سے کیے ہوئے وعدے پورے کرے۔

ترقی یافتہ ملکوں میں انتخابات لڑنے والے اپنی جماعت کے منشور پر زیادہ زور دیتے ہیں اور مخالف جماعتوں کے امیدواروں اور ان کی پارٹیوں کی بے جواز مخالفت سے گریز کرتے ہیں۔ اسے ہم ترقی یافتہ ملکوں کی انتخابی اخلاقیات کہہ سکتے ہیں اس کلچر سے ووٹر کی توجہ جماعتوں کے منشور پر ہوتی ہے وہ جماعتوں کے اختلافات میں نہیں الجھتا انتخابی مہم بدمزگیوں سے پاک ہوتی ہے۔
پچھلے کچھ عرصے سے آپریشن کا سلسلہ جاری ہے متحدہ کے نچلی سطح کے کارکنوں سے لے کر اعلیٰ سطح کی قیادت تک سب سنگین الزامات کی زد میں ہیں۔ کراچی کے شہری عشروں سے ایک غیر محفوظ اور دہشت زدہ زندگی گزار رہے ہیں۔

دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، جبری چندہ، بھتہ، اغوا برائے تاوان، عام ڈکیتیاں، بینک ڈکیتیاں، اسٹریٹ کرائمز نے کراچی کے عوام کی زندگی کو عذاب بنا رکھا ہے۔ عوام ہر قیمت پر ان عذابوں سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں اور جو جو جماعتیں ان جرائم میں ملوث ہیں ان کا بلاامتیاز غیرجانبدارانہ احتساب بلکہ کڑا احتساب ہونا چاہیے۔ عوام میں اگر یہ تاثر پیدا ہوا کہ احتساب امتیازی یا جانبدارانہ ہے تو ایسے احتساب کی اہمیت بھی ختم ہوجاتی ہے اور اس کے نتائج بھی مایوس کن ہی ہوتے ہیں، لہٰذا اس بات کی کوشش ہونی چاہیے کہ احتساب ہر قیمت پر غیرجانبدارانہ اور بلاامتیاز ہو۔

ہماری جمہوریت اور انتخابی نظام پرگفتگوکرنا اس لیے وقت کا زیاں ہے کہ ہماری جمہوریت ایلیٹ یا اشرافیہ کی یرغمالی ہے۔ 68 سالوں سے ہماری زمینی اور صنعتی اشرافیہ اور اس کے اتحادی اس نام نہاد جمہوریت پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اس جمہوریت میں دھاندلی اس کا لازمی حصہ ہے ۔

بھٹو مرحوم کے 1977 میں کرائے ہوئے انتخابات پر بھی دھاندلی کے الزامات لگائے گئے اور ان الزامات کے حوالے سے 9 ستاروں نے جو تحریک چلائی اس کی سنگینی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان الزامات کے نتیجے میں نہ صرف بھٹو سے اقتدار چھین لیا گیا بلکہ انھیں پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا گیا۔

یہ احتساب نہیں بلکہ ایک بدترین اور اقتدار کے بھوکے آمر کا اپنے محسن کے خلاف بے جواز انتقام تھا۔ اگر یہ انتخابی دھاندلی کی تحقیق تک محدود ہوتا تو کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا تھا لیکن شرم کی بات یہ ہے کہ چند سیٹوں پر ہونے والی مبینہ دھاندلی کو اتنی دور تک لے جایا گیا کہ بھٹو کی گردن پھانسی کے پھندے میں آگئی۔

اس حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ وہ نو ستارے جو امریکی اسپانسر تحریک کی قیادت کر رہے تھے وہ رغبت کے ساتھ ضیا الحق کی کابینہ میں شریک ہوگئے ۔ 1977 کے مرد مومن مرد حق نے طاقت کے بل پر بھٹو کی جان تو لے لی لیکن پاکستان کے عوام اور ساری دنیا آج تک ضیا الحق پر اس قتل پر برا بھلا کہتی ہے۔
2013کے الیکشن میں مبینہ طور پر ہونے والی دھاندلی کے خلاف تحقیق کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن قائم کردیا گیا ہے۔ ہم اس کی تفصیل میں جائے بغیر اپنی توجہ اس حقیقت پر مرکوز رکھتے ہیں کہ اس جوڈیشل کمیشن کی تحقیق کے دو ہی ممکنہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اول یہ کہ دھاندلی کے الزامات غلط ہیں دوئم یہ کہ دھاندلی ثابت ہوگئی ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں ہوگا کیا؟

اگر دھاندلی کے الزامات گواہوں ثبوتوں کے غیر موثر ہونے کی وجہ سے غلط ثابت ہوجائیں تو دھاندلی کا کلچر اور مضبوط ہوجائے گا اور اگر دھاندلی ثابت ہوجاتی ہے تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ مڈٹرم الیکشن ہوجائیں گے۔

اگر مڈٹرم الیکشن ہوجائیں تو ان میں فرشتے منتخب ہوکر نہیں آئیں گئے بلکہ وہی کرپٹ مافیا منتخب ہوکر پانچ سال کے لیے عوام کے سر پر مسلط ہوجائے گی۔ 1977 کی تحریک کا روح رواں امریکا تھا لیکن اس کا علم عوام کو نہیں تھا بلکہ فہمیدہ حلقوں ہی کو پتہ تھا کہ امریکا ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے سے انکار پر بھٹو سے ناراض بلکہ اس حد تک مشتعل تھا کہ اس کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو عبرت ناک انجام کی دھمکی دی تھی جس پر عملدرآمد ضیا الحق نے کیا۔

ہم نے کالم کا آغاز کراچی کی بدترین صورتحال سے کیا تھا اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ کراچی کا ہر شہری کراچی کے بدترین حالات، خوف و دہشت کی فضا سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس حوالے سے ایک آپریشن بھی جاری ہے۔
کراچی کے بہتر مستقبل کے لیے اس آپریشن کو کامیاب ہونا چاہیے لیکن اس کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ہر اس مجرم تک پہنچا جائے جو کراچی کی بدامنی اور شہرمیں ہونے والے سنگین جرائم میں ملوث ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی سیاسی اور مذہبی جماعت یا گروہ سے ہو، اگر ایسا نہ ہوا اور آپریشن کا دائرہ محدود رہا تو پھر کراچی کو ان عذابوں سے بچانا مشکل ہے جو 68 سال سے کراچی کا مقدر بنے ہوئے ہیں۔

حلقہ 246کے ضمنی انتخابات کی ذرہ برابر اہمیت اس لیے نہیں کہ یہ سیٹ کوئی بھی جیت لے کراچی میں کوئی انقلاب نہیں آئے گا بلکہ وہی کچھ ہوتا رہے گا جو ہماری سیاست ہماری جمہوریت میں اب تک ہوتا رہا ہے اس ضمنی انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ الزامات کی مہم چلانے کے بجائے کراچی میں یہ سیٹ جیت کر کیا تبدیلیاں لائیں گے کیا کارنامے انجام دیں گے اس پر زور دیں۔

ظہیر اختر بیدری


یہ فیصلہ اب کر ہی ڈالیں ....ڈاکٹر شاہد حسن صد یقی

...پچاس لاکھ سے زائد پاکستانی بچے سکول نہیں جاتے....

0
0


ثقافت اور تعلیم سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کے اعداد و شمار کے مطابق 54 لاکھ پاکستانی بچے سکول نہیں جاتے جو جنوبی ایشیا کے ممالک میں سب سے بڑی تعداد ہے۔

پاکستان میں تعلیم کے بارے میں بدھ کو منظرِ عام پر آنے والی یونیسکو کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رواں سال کے آخر تک پاکستان میں لڑکیوں اور لڑکوں کے پرائمری سکولوں میں بھرتیوں کا نتاسب بہتر ہونے کا امکان ہے۔
یونیسکو کی یہ رپورٹ ’سب کے لیے تعلیم‘ کے موضوع پر گذشتہ 15 سالوں سے شائع ہو رہی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں بھارت، ایران اور نیپال نے اس سلسلے میں خاص پیش رفت دکھائی ہے تاہم بچوں کی بڑی تعداد سکول چھوڑ دیتی ہے اور تعلیم کا معیار بہت خراب ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان سنہ 2015 تک کے زیادہ تر تعلیمی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔

جنوبی ایشیا میں بچوں کے سکول چھوڑنے کی شرح جہاں بہت کم ہوئی ہے وہیں پاکستان میں یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔
جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں 54 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے اور جو جاتے ہیں ان کی بہت کم تعداد دسویں جماعت تک پہنچ پاتی ہے۔رپورٹ کے مطابق سنہ 2014 میں بلوچستان کے پانچویں جماعت کے 33 فیصد بچے اردو اور مقامی زبانوں میں کہانی پڑھ سکتے تھے جبکہ صوبہ پنجاب میں یہی تعداد 63 فیصد تھی

یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق غریب بچیاں سب سے زیادہ ناخواندگی کی شکار رہتی ہیں تاہم اس کے باوجود سکول میں داخل ہونے والے لڑکے اور لڑکیوں کا تناسب بہت بہتر ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق نصابی کتابوں میں بھی جنسی تعصب واضح ہے جس کی کئی وجوہات ہیں: ’نصاب کی اصلاح اور کتابیں شائع کرنے والے ادارے اس تعصب کو ختم کرنے کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں جبکہ اصلاحات کو سیاسی ترجیح نہیں دی جاتی اور نہ ہی انھیں عوامی تعاون حاصل ہے۔‘

رپورٹ نے سرکاری اعداد و شمار کی مدد سے معیارِ تعلیم اور مختلف علاقوں کے درمیان تفریق پر بھی سوال اٹھایا ہے۔

یونیسکو نے سنہ 2000 میں دنیا میں تعلیم کے حوالے سے سنہ 2015 تک پانچ اہداف کی نشاندہی کی تھی جن میں بچوں کا سکول میں داخلہ، بالغ افراد کی ناخواندگی کی شرح کو نصف کرنا اور ثانوی تعلیمی سطح تک لڑکے اور لڑکیوں کا برابر کا تناسب شامل ہیں۔

یونیسکو کا کہنا ہے کہ پاکستان ان تمام اہداف میں بہت پیچھے ہے تاہم پاکستان میں پرائمری سکول سے قبل 80 فیصد داخلوں تک کی شرح اچھی ہے اور پاکستان پرائمری سکول میں لڑکے اور لڑکیوں کے برابر داخلے کے ہدف تک تقریباً پہنچ چکا ہے۔

یونیسکو کے مطابق پاکستان میں معیارِ تعلیم کی بہتری، جنسی تعصب کا خاتمہ، تعلیمی اداروں تک رسائی اور سکولوں میں اچھے ماحول کے لیے زیادہ رقم مختص کرنے کے علاوہ پختہ سیاسی عزم سے ہی ایسا ممکن ہو سکتا ہے۔


بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

لاہور میں ہزاروں فرزندان توحید نے امام کعبہ کی امامت میں نماز جمعہ ادا کی....

ہماری یہ غیر ملکی امدادیں....

0
0

 وزارت خزانہ کے متعلقہ سیکشن افسر (اس کلیدی عہدے کو غالباً اب کوئی اور نام دیا گیا ہے) کے دفتر میں اگر کوئی جگر سوزی اور مغز ماری سے کام لینے کا حوصلہ کرے تو شاید وہ پاکستان کو ملنے والی غیر ملکی امداد کی میزان کر سکے جو اربوں کھربوں میں ہو گی اور یہ پتہ لگانا تو شاید ممکن ہی نہ ہو کہ یہ امداد کہاں گئی یعنی کتنی پاکستان کی سرزمین پر موجود کسی منصوبے پر صرف کی گئی اور کتنی سرکاری جیبوں میں غائب ہو گئی۔یعنی یہ غیر ملکی امداد پاکستان اور پاکستانیوں کے درمیان کتنی کتنی تقسیم کی گئی۔ یہ بیرونی امداد تازہ ترین بیرونی امداد کے چینی اعلان سے یاد آئی ہے جو کھربوں روپوں کی بنتی ہے اور نہ جانے کتنی جیبوں کے منہ کشادہ کیے جا رہے ہیں۔

کچھ لوگوں کا بس یونہی سا ایک خیال ہے کہ یہ امداد ہم پاکستانیوں کو نقد نہ دی جائے یعنی ان کے ہاتھ میں نہ دے دی جائے بلکہ امداد دینے والے خود اسے خرچ بھی کریں اگرچہ ہمیں امداد دینے والے بھی کسی قدر مشتبہ لوگ ہیں۔ ہم نے حال ہی میں ان سے ریلوے کے کچھ انجن خریدے تھے جو ناقص نکلے اور ہماری ریلوں کو کھینچ نہ سکے لیکن ان کا مقامی احتساب کا نظام ذرا سخت ہے اس لیے ان کے اور ہمارے درمیان فرق واضح ہے اور اسی فرق کو ہم اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں جمہوریت ہے نہ کمیونزم ہے نہ اسلام ہے اس لیے جمہوریت کی برکات سے بچنے کے لیے ہم فی الحال بے خدا کمیونزم سے ہی مدد حاصل کرنی چاہتے ہیں۔ہمیں خبروں اور تبصروں میں بتایا جا رہا ہے کہ جیسے ہم اس چینی امداد کے صرف اعلان سے ہی ترقی یافتہ ہو گئے ہیں اور جب ہم اس امداد کو اپنے اوپر استعمال کریں گے تو نہ جانے ہم کیا سے کیا ہو جائیں گے۔ اصل مسئلہ اس امداد کے استعمال کا ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ ہم اس بیرونی امداد کو استعمال کرنے کے لیے کسی ملک سے انفرادی امداد حاصل کر لیں۔

ایسے کارکن اور ماہرین منگوا لیں جو ہماری اس بھاری بھر کم امداد کو مجوزہ منصوبوں پر اپنی نگرانی میں صرف کر دیں اور یہ نئے منصوبے لگا کر اپنی تنخواہ اور معاوضہ لے کر رخصت ہو جائیں۔ بات تو دل کو لگتی ہے یعنی پاکستانی دل کو لگتی ہے لیکن اس پر عمل ممکن نہیں کیونکہ ہمارے ہاں جمہوریت ہے اور جمہوریت میں کسی فرد واحد کی نہیں چلتی ایک ہجوم کی چلتی ہے اور ہجوم بھی وہ جو گنتی سے پورا ہوتا ہے وزن سے نہیں۔

اس بارے میں ہمارے شاعر یہ کہہ گئے ہیں کہ جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں بندوں کو تولا نہیں گنا کرتے ہیں۔ یعنی یہ دیکھے بغیر کہ ان کے دماغ میں کچھ ہے بھی یا نہیں بلکہ بذات خود دماغ بھی ہے یا نہیں۔ ہم ان دنوں گنے جانے والے ان دماغوں کے فیصلے دیکھ رہے ہیں اور ان کی جوابدہی کے لیے متعلقہ حکمرانوں کے ملکوں کے سفر کر رہے ہیں۔

حاضری دے رہے ہیں اور اپنے علاوہ دوسرے محکموں کے کلیدی لوگوں کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں لیکن گستاخی معاف ہم جن لوگوں کے ہاں جا کر اپنی صفائیاں دے رہے ہیں وہ بعض حوالوں اور واسطوں سے معزز ہیں لیکن ہم سے بڑے نہیں ہیں۔ ہم خود ہی ان سے چھوٹے بن گئے ہیں۔

میرے گھٹیا خیال میں کیونکہ یہ بات گھٹیا ہو گی کہ ہم مختلف اہم مقامات پر اپنے ایٹم بم کا نمونہ رکھ دیا کریں جسے ہمارے حکمران دیکھتے رہیں اور اپنے آپ کو چھوٹا محسوس نہ کریں حالانکہ ایسے اسلحے تب بڑے ہوتے ہیں جب ان کے مالک بھی بڑے ہوں۔ سوویت یونین والے نہ ہوں کہ ایک طرف بموں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں دوسری طرف درّے کی بنی ہوئی رائفل والے افغانی انھیں بھگا رہے ہوں اور اتنا بھگائیں کہ وہ روس سے ہی آگے کسی طرف نکل جائیں اور اپنا نام بھی بھول جائیں۔

سوویت یونین ماسکو کے کسی سرخ چوک میں اوندھے منہ پڑی ہو اور اس کو ماننے والے ہمارے پاکستانی قسم کے دانشور پہلے جہاز سے امریکا روانہ ہو گئے ہوں۔

بات یہ ہو رہی تھی کہ ہم اپنے غیر ملکی امداد والے منصوبوں کی تعمیر و تکمیل کے لیے بھی غیر ملکی ماہرین کو زحمت دیں کہ وہ کرایہ لے کر ہمارے ہاں تشریف لائیں اور ہمارا کام کر جائیں کیونکہ ہم ایک جمہوری ملک ہیں جو مل جل کر باہمی مشورے سے ہی کوئی کام کرتے ہیں کیونکہ ہمارا مشورہ عموماً پریشاں حال ہو جاتا ہے اس لیے ہم کسی کام کے لیے ماہرین بھی باہر سے بلوا لیں اور خود چارپائی پر رنگین کھیس بچھا کر اور تکیہ لگا کر حقے کے کش لیا کریں۔
ہم کئی دہائیوں سے اسی چارپائی پر اسی خسروانہ انداز میں دراز ہیں اور کشکول کو چمکا کر اپنے پاس رکھتے ہیں جو دے جائے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔ سعودی عرب ہمارا مہربان ملک ہے لیکن ہمارا مالک نہیں ہے دو مقامات مقدسہ کو چھوڑ کر جو ہر مسلمان کی ذمے داری ہیں سعودی عرب دوسروں کی طرح ایک عرب ملک ہے جس کے پاس تیل کے خزانے ہیں اور بس۔ حفاظت اتنی بھی نہیں کہ چند قبائلیوں کا قلع قمع کر سکیں ایک ہم ہیں کہ ان تمام حملوں کا نشانہ ہیں جو ایک باقاعدہ جنگ کے سوا ہو سکتے ہیں۔ اپنے باغی قبائلیوں کا اچھی طرح مکو ٹھپ رہے ہیں۔

دشمن کی تخریب کا مقابلہ کر رہے ہیں اور کسی بڑی جنگ کے لیے بھی تیار ہیں۔ یوں ہم عرب ملکوں میں سے کسی سے کم نہیں ہیں۔ ہم عزت دار عوام کا ملک ہیں اور اپنے حکمرانوں کو بھی عزت دار دیکھنا چاہتے ہیں۔ حرمین الشریفین کے لیے جو قربانی ہم دے سکتے ہیں وہ کوئی اور نہیں دے سکتا۔
اس کے لیے ہمیں نہ کسی کی اجازت کی ضرورت ہے نہ کسی مدد امداد کی۔ ہمارا تو ملک بنا ہی حرمین کے تقدس کے لیے ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اس سرزمین پر پاکستان اور پاکستانیوں کا وجود ہی حرمین الشریفین کے گستاخوں کے لیے بہت ہے۔ ہمیں جو امداد ملتی ہے وہ انعام نہیں ہوتی۔ ہر ایک کی غرض وابستہ ہوتی ہے اور دوسری تمام باتیں ہماری نالائقی کی ہیں۔ کیا ہم کسی غیر ملکی مدد کے حقدار ہیں یہ سوال آپ خود سے پوچھ لیں۔

عبدالقادر حسن
بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس

Imam of Holy Kaaba Khalid Bin Ali al-Ghamidi in Pakistan

0
0




Imam of Holy Kaaba Khalid Bin Ali al-Ghamidi in Pakistan

خوش رہنے میں پاکستان آگے.....

0
0

کہاجاتا ہے کہ پاکستانی، ہندوستان کی معاشی ترقی سے حسد کرتے ہیں اور دہشت گردی اور اقتصادی معاملات میں اپنی پوزیشن کو کوستے رہتے ہیں، تاہم سچ جو بھی ہو ایک بات تو طے کہ پاکستانی، ہندوستانیوں کے معاملے میں خوش زیادہ رہتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے گلوبل پروجیکٹ 'پائیدار ترقی کے حل کے نیٹ ورک' (ایس ڈی ایس این) کی جانب سے شائع کی گئی ایک رپورٹ میں پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ہندوستانی عوام اپنے حریفوں پاکستان اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں کم خوش رہتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سخاوت ایک ایسی چیز ہے جس میں پاکستانی اپنے پڑوسیوں سے کہیں آگے ہیں اور اس کا ثبوت پاکستانی دکاندار اُس وقت بخوبی دیتے ہیں جب ہندوستانی کسی کرکٹ میچ کو دیکھنے یا پھر کسی مقدس مقام کی زیارت کے لیے پاکستان آتے ہیں۔

ورلڈ ہیپینس رپورٹ (عالمی رپورٹ برائے خوشی) 2015 کے مطابق خوش رہنے میں 158 ممالک میں سے انڈیا کا نمبر 117 واں ہے۔
جبکہ اس فہرست میں پاکستان کا نمبر 81 واں اور بنگلہ دیش کا 109 نواں نمبر ہے۔

حتیٰ کہ یوکرین (111)، فلسطین (108) اور عراق (112) بھی خوش رہنے میں ہندوستان سے آگے ہیں۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق 2013 میں انڈیا اس فہرست میں 111ویں نمبر پر تھا، جو اب 6 درجے نیچے گر چکا ہے۔

جبکہ سوئٹرز لینڈ کو دنیا کا سب سے خوش باش ملک قرار دیا گیا ہے۔

نیپال، ہندوستان میں زلزلہ...


فیس بک سے فیس بک تک.....

0
0


پچھلے کئی سال سے ہم بجلی نہ ہونے کے بارے میں شکایت کرتے آئے ہیں، پاکستان بننے کے بعد آزادی کم اور لوڈشیڈنگ زیادہ ہے، بجلی کی رفتار سے آگے بڑھتی دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لیے کم سے کم جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے بجلی۔ آج بجلی نہیں تو ہم ہر ایک سے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔
گھر کے سارے اہم کام جیسے استری، فریج، اے سی، پنکھا، کمپیوٹر سب بجلی جانے سے رک جاتے ہیں، یہی بجلی جانے کے ساتھ فیس بک کو بھی آف لائن کرجاتی ہے، وہ فیس بک جو آج ہماری زندگیوں میں اے سی، فریج یا پھر کسی بھی دوسری بجلی سے چلنے والی چیز سے زیادہ اہم ہے۔
 ایک سروے کے مطابق ایک عام فیس بک یوزر روزانہ کم سے کم پندرہ منٹ فیس بک پر ضرور گزارتا ہے، اب آپ فیس بک پر پندرہ منٹ گزارتے ہوں یا پندرہ گھنٹے یقیناً اس سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ کے متعلق آپ کو کئی باتیں معلوم ہوں گی۔

چلیے ہم آپ کو فیس بک کے بارے میں وہ باتیں بتاتے ہیں جن کے متعلق بیشتر لوگوں کو نہیں پتہ، فیس بک نیلا اور سفید کسی خاص تکنیکی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اس لیے ہے کہ اسے بنانے والے مارک ذوکر برگ کلر بلائنڈ ہیں اور وہ لال اور ہرا بالکل نہیں دیکھ پاتے جو رنگ انھیں صاف نظر آتا ہے وہ نیلا ہے، اسی لیے بچپن سے ان کی والدہ نے ان کے کمرے کو نیلا اور سفید رکھا تھا، وہ کمرے کا رنگ جو ہمارے ہر کمرے میں کسی نہ کسی کمپیوٹر یا فون اسکرین کے ذریعے موجود ہے۔

اگر آپ فیس بک پر لاگ ان ہیں تو ان کی قواعد و ضوابط کے حساب سے آپ فیس بک کمپنی کو اپنے کمپیوٹر کی ہر ایکٹیوٹی ریکارڈ کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور فیس بک یہ ایکٹیوٹیز ریکارڈ کرتا بھی ہے، یعنی اگر آپ ایک ونڈو پر فیس بک کھولے ہوئے ہیں اور بغیر لاگ آؤٹ کیے گوگل پر کچھ سرچ کرتے ہیں تو اس کے بارے میں فیس بک کو پتہ ہوگا۔
 
 فیس بک پر آپ دنیا کی بیشتر زبانیں سلیکٹ کرسکتے ہیں جس سے فیس بک پر لکھی ہر چیز اس زبان میں آنے لگے گی لیکن شاید آپ کو یہ علم نہیں ہوگا کہ ان زبانوں میں ایک زبان ’’پائیریٹ‘‘ لینگویج بھی ہے، یعنی فیس بک پر ہر چیز ایسی زبان میں لکھی آنے لگے گی جیسے آپ پائیریٹ ہوں۔

فیس بک کا پہلا لوگو جو فیس بک پر لگایا گیا تھا اس میں امریکا کے مشہور اداکار ایل پیچینو کا چہرہ پس منظر میں دیکھا جاسکتا تھا، جسے بائنری نمبر یعنی ون اور زیرو سے ڈرا کیا گیا تھا، کچھ ہی دن میں اس اداکار کا چہرہ ہٹا دیا گیا اور سیدھا سیدھا فیس بک لکھ دیا گیا تاکہ ہر عمر اور طبقے کے لوگ اپنے آپ کو اس ’’لوگو‘‘ سے شناسا سمجھ سکیں۔

یاہو نے فیس بک کو تین ملین ڈالرز کی آفر دی خریدنے کے لیے، اس آفر کو سن کر فیس بک کے مالک مارک نے کہا تھا یہ بہت بڑی رقم ہے میں اتنے پیسوں کا کیا کروں گا، مجھے پتہ نہیں اسی لیے میں اس میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتا اور مجھے یہ بھی علم نہیں کہ اتنا اچھا آئیڈیا دوبارہ سوجھتا بھی یا نہیں، شاید میں پھر سے کوئی سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ بنالوں، اب اگر مجھے کوئی دوسری ہی ویب سائٹ بنانی ہے تو میں یہی اپنے پاس کیوں نہ رکھوں جو مجھے پسند بھی ہے، یہ کہہ کر انھوں نے آفر کو رد کردیا جس کے بعد مائیکرو سافٹ نے فیس بک کو دو سو چالیس ملین ڈالرز دیے تھے صرف 1.3 فیصد کمپنی خریدنے کے لیے۔

امریکا میں آج چالیس سے پچاس فیصد جوڑے طلاق لے لیتے ہیں، امریکا میں اس وقت ہر تین میں سے ایک طلاق جو فائل کی جاتی ہے اس کی پٹیشن میں لفظ فیس بک ضرور ہوتا ہے، اکثر فیس بک کو طلاق کے سلسلے میں اس لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ ثبوت پیش کیا جاسکے کہ فریقین میں سے کسی کا تعلق باہر کسی اور سے بھی تھا یا پھر اکثر لوگوں کے بچوں کے پروفائل کو یہ ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ یہ بچہ کتنا بگڑا ہوا ہے اور اس بگاڑ کے ذمے دار اس کے والدین ہیں۔

فیس بک کے سب سے اہم یوزرز وہ ہیں جو امریکا میں موجود ہیں، فیس بک پر اشتہارات آتے ہیں اور یوزرز جب ان پر کلک کرتے ہیں تو فیس بک کو ہر ایک کا کمیشن ملتا ہے، اس وقت فیس بک ہر امریکن یوزر سے دن کے اوسطاً چھ ڈالر کما رہا ہے۔
 
اکثر لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ فیس بک میں ایک سیٹنگ ہے جس میں کوئی بھی یہ سیٹ کرسکتا ہے کہ اگر اسے کچھ ہوجائے اور وہ اس دنیا میں نہ رہے تو اس کا اکاؤنٹ کون ٹیک اوور کرسکتا ہے یعنی یہ فیس بک کا ’’وصیت نامہ‘‘ ہے جو کسی کے مرجانے کے بعد کسی کو حق دیتا ہے اس کا اکاؤنٹ برتنے کا۔
اس وقت دنیا بھر سے فیس بک پر 1.8 ملین لائیک ہر منٹ آتے ہیں، اگر اس کا ایک پرسنٹ بھی لوگ سچ مچ ایک دوسرے کو لائیک یعنی پسند کرتے تو یہ دنیا بہت بہتر جگہ ہوتی۔

کئی سال کی ریسرچ کے بعد یہ نتیجہ نکلا ہے کہ فیس بک استعمال کرنے والے ہر تین میں سے ایک شخص ایسا ہوتا ہے جو فیس بک پر دوسروں کی تصویریں دیکھ کرامپریس اور ڈاؤن محسوس کرتا ہے، اسے لگتا ہے کہ دوسروں کی زندگی میں بہت کچھ ہورہا ہے اور اس کی زندگی بورنگ اور بے رنگ ہے، اگر آپ کو بھی فیس بک دیکھ کر کبھی ایسا محسوس ہوا ہے تو فکر نہ کریں، آپ اکیلے نہیں

وجاہت علی عباسی

امریکی ڈرون - نشانہ امریکی اور اٹلی شہری.....

0
0

امریکی صدر کو دو لڑائیاں ورثے میں ملیں۔ ایک لڑائی عراق میں جاری تھی۔ جہاں سے امریکی اور اتحادی فوجوں کو واپس بلا لیا گیا تھا لیکن جنگ پھر بھی جاری رہی۔ دوسری لڑائی افغانستان میں جاری تھی جسے صدر اوباما مشکل سے ختم کرنے کے قریب لایا لیکن بسیار کوشش کے باوجود یہ لڑائی ختم نہ ہوسکی۔ ابھی یہی کشمکش جاری تھی کہ کون سی لڑائی جاری ہے اور کون سی ختم، کہاں سے فوجیں واپس آنی ہیں اور کتنی فوجیں باقی رکھنا ہیں کہ یمن میں لڑائی شروع ہوگئی جو اب تک جاری ہے۔ ان لڑائیوں میں امریکی فوج اور سی آئی اے کا سب سے مہلک ہتھیار ’’ڈرون‘‘ رہا۔ 
امریکیوں نے اس سے اتنے گناہگار نہیں مارے جتنے بے گناہ مارے گئے لیکن امریکیوں نے ہمیشہ اس پر فخر کیا کہ اس سے ہم نے وہ کامیابیاں حاصل کی ہیں جو ہمیں روایتی جنگوں اور حملوں سے بھی نہیں مل سکیں۔ اس میں جتنے بھی بے گناہ شہری عورتیں اور بچے ہلاک ہوئے ان کا نہ تو کبھی تذکرہ کیا گیا اور نہ ہی ان پر شرمندگی کا اظہار کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان حملوں میں ہلاک ہونے والے بے گناہ شہری امریکی نہیں تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ’’ڈرون جنگ‘‘ کو امریکہ میں بہت پسند کیا گیا اور ان کے حملوں کے بعد ہلاک ہونے والے دہشت گردوں جو کہ اکا دکا ہوتے تھے خوب تشہیر کی جاتی تھی لیکن ان کے ساتھ ہلاک ہونے والے شہریوں کے بارے میں خبروں کو ہوا بھی لگنے نہیں دی جاتی تھی۔

امریکی اور مغربی میڈیا اس جرم میں برابر کے شریک رہے ۔ مقامی میڈیا کو ان علاقوں اور خبروں تک بہت کم رسائی رہی اور ان کی اطلاعات صرف حملے کی حد تک رہیں اور ان کا انحصار صرف مغربی میڈیا تک ہی رہا۔ لیکن قانون قدرت نے ایک دن حرکت میں آنا ہوتا ہے اور پچھلے ہفتے وہ منظر عام پر آگیا جس کے بارے میں دنیا کو شکوک و شبہات تھے۔ پچھلے ہفتے کی اطلاعات کچھ اس طرح سے تھیں۔ 15 جنوری 2015ء کو امریکی ڈرون نے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں جو کہ ان کی اطلاع کے مطابق القاعدہ کا گڑھ تھا، حملہ کیا۔ اس جگہ پر کافی عرصے سے چار لوگوں کی آمدورفت جاری تھی جسے سیٹلائٹ، ڈرون اور دیگر ذرائع سے دیکھا گیا۔

 ان لوگوں کی گفتگو کو بھی موبائل فونز کی مدد سے سنا گیا۔ ان اطلاعات کی تصدیق کے بعد رپورٹ وائٹ ہاؤس روانہ کی گئی اور اس کے بعد وائٹ ہاؤس نے اس جگہ پر ڈرون حملے کی اجازت دیدی۔ چنانچہ حملہ کیا گیا اور حملے کے دوران اس مقام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ حملے کے بعد امریکی رپورٹوں کے مطابق ملبے سے چار کی بجائے چھ لاشیں برآمد ہوئیں جن کی تدفین کر دی گئی جس پر امریکی سخت پریشان رہے کہ ان کی اطلاعات کے مطابق تو اس جگہ پر چار دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا تھا جن کی کئی ذرائع سے تصدیق ہوئی تھی لیکن یہاں سے چھ لاشیں کیوں برآمد ہوئیں۔

 جنوری 2015ء سے 23 اپریل 2015ء تک امریکی حکومت کو یا تو یہ معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ دو لاشیں کن لوگوں کی تھیں یا پھر امریکی حکومت نے یہ اطلاع بوجوہ چھپائے رکھی۔ میڈیا کے بعض ذرائع کے مطابق امریکی حکومت کو اس کا علم ہی نہیں ہوا کیونکہ ان کی اطلاعات رسانی کا سلسلہ اتنا کمزور ہے کہ ان کے پاس صحیح اطلاعات ہوتی ہی نہیں ہیں اور وہ یہ حملے صرف واقعات کی کڑیاں جوڑ کر کرتے ہیں جن میں بے گناہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں لیکن میڈیا کے بعض ذرائع کہتے ہیں کہ امریکی حکومت کو اگرچہ اس سے قبل تو ان دو افراد کے ہلاک ہونے کا علم نہیں تھا لیکن ہلاک ہونے کے بعد شرمندگی کے سبب انہوں نے معاملہ دبائے رکھا۔

 ان دونوں صورتوں میں دوسری صورت زیادہ حقیقت کے قریب ہے کیونکہ چھ لوگوں کی ہلاکت کا علم تو بہت سے ذرائع کے پاس تھا البتہ ان دو لوگوں کی شناخت حملے کے چند روز میں ہو گئی تھی۔ 15 جنوری کے حملے میں ان چار لوگوں کے علاوہ دو لوگ تھے جو ہلاک ہوئے۔ یہ دو لوگ رپورٹ کے مطابق یرغمالی تھے۔ جو القاعدہ کے ارکان نے کئی برس سے اپنے پاس رکھے ہوئے تھے۔

ان میں ایک امریکی شہری اور ان وین سٹین تھا جنہیں 2011ء میں اغوا کیا گیا تھا۔ دوسرا مغوی گیوانی لوپورٹو تھا جو کہ اٹلی کا شہری تھا۔ انہیں 2012ء میں اغوا کیا گیا تھا۔ سی آئی اے کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ان مغویوں کے اس جگہ پر موجود ہونے کے شواہد نہیں تھے۔ ان کی ہلاکت کے بعد کافی عرصہ تک معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کون لوگ تھے۔ پچھلے ہفتے بدھ کے روز ان کی ہلاکت کی اطلاعات صدر اوباما کو دی گئیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شاید یہ اطلاعات پہلے سے موجود تھیں لیکن ان کو صیغہ راز میں رکھا گیا اور پچھلے جمعہ کو جب اٹلی کے وزیراعظم نے وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا تو اس وقت بھی انہیں ان کے شہری کے ڈرون حملے میں ہلاکت کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔

 اس کے بعد صدر اوباما نے ان دونوں کی ہلاکت کا اعلان کرتے ہوئے اس کی مکمل طور پر ذمہ داری قبول کی کہ ’’میں بحیثیت فوج کے کمانڈر انچیف کے اس ناکامی کا مکمل طور پر ذمہ دار ہوں اور اس کی مکمل ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔‘‘ انہوں نے ان کے لواحقین اور شہریوں سے معافی مانگی اور اسے امریکی انٹیلی جنس کی ناکامی قرار دیا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ امریکی صدر نے بذات خود میڈیا پر آکر ڈرون حملوں کی حقیقت بیان کی۔ جن اطلاعات کی بنیاد پر یہ حملے کئے جاتے رہے ہیں ان میں خرابیوں کا اعتراف کیا اور نہ صرف سی آئی اے بلکہ خود اپنی ناکامی کا بھی اعتراف کیا۔

ڈرون حملوں کے بارے میں پوری دنیا میں ایک عرصے سے یہ چیخ و پکار جاری رہی ہے کہ ان سے بے گناہ شہری جاں بحق ہوئے ہیں۔ امریکہ کے پاس ان حملوں کا کوئی قانونی اور بین الاقوامی جواز نہیں ہے۔ یہ حملے امریکی فوج نہیں بلکہ سی آئی اے کر رہی ہے جو کہ اقوام متحدہ کی طرف سے دہشت گردی کی جنگ کے خلاف طاقت استعمال کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اس قرارداد کے بھی خلاف ہے۔ لیکن امریکی صرف اس لئے اس کا جواز پیش کرتے ہیں کہ وہ محفوظ مقامات پر بیٹھ کر یہ حملے کرتے ہیں۔ ڈرون میں کوئی پائلٹ نہیں ہوتا۔ ان میں کسی امریکی شہری کو دوسرے ملک جانے اور لڑائی میں حصہ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی اور ان حملوں میں جتنے لوگ بھی مر جائیں ان کو دہشت گرد گردان کر ان پر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ان حملوں کے خلاف طویل عرصے سے آواز اٹھا رہی ہیں۔

صرف دنیا کے باقی حصوں سے ہی نہیں بلکہ امریکہ سے بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں ان حملوں کے خلاف آواز اٹھا تی رہی ہیں لیکن 2004ء سے شروع ہونے والے ان حملوں میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ان کا دائرہ عراق، افغانستان، پاکستان کے بعد یمن اور صومالیہ تک بھی پھیلا دیا گیا۔ امریکہ میں مقتدر شخصیات ان حملوں کا جواز اس طریقے سے پیش کر تی ہیں ’’ہمیں ان لوگوں کو مار دینا چاہیے جو ہمیں مارنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘ لیکن قانون قدرت دیکھیں کہ جن امریکی اور یورپی شہریوں کو مرنے سے بچانے کے لئے ان حملوں کا آغاز کیا گیا وہ امریکی اور یورپی شہری خود ان حملوں کی زد میں آکر ہلاک ہوئے۔

 ہمیں ان دونوں افراد کے مرنے کا بھی شدید دکھ ہے لیکن افسوس اس امر پر ہے کہ ان ڈرون حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں بے گناہ افراد ان میں عورتیں اور بچے شامل تھے لقمہ اجل بنے لیکن ان کی اموات پر کسی نے ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا۔ کسی نے افسوس تک کا اظہار نہیں کیا ۔ ان کی صحیح تعداد تک کسی کو معلوم نہیں لیکن ان دو امریکی اور یورپی شہریوں کی موت پر امریکی صدر نے خود میڈیا پر اظہار شرمندگی کیا جب قدرت انصاف کرتی ہے تو اس کی طاقت سب پر بھاری ہوتی ہے

حسن اقبال
"بہ شکریہ روزنامہ "نئی بات

چین کے ساتھ معاہدے ؟ جاگتے رہنا ھو گا

پشاور میں تباہی کا زمہ دار

Heavy rain and windstorms in Peshawar, Pakistan

0
0
8
People collect their belongings from a house damaged by heavy rain and windstorms in Peshawar, Pakistan.
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live