Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

تھرکوئلہ کے بجلی کے منصوبے۔ محفوظ پاکستان کے ضامن....

$
0
0


یہ درست ہے کہ سندھ حکومت کی انتظامی نا اہلی کی داستانیں زبان زد عام ہیں۔ حال ہی میں ذوالفقار مرز اکے الزامات کی بوچھاڑ نے سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی ساکھ کو کافی نقصان پہنچا یا ہے۔ ذوالفقار مرزا پہلے آدمی نہیں ہیں جنہوں نے سندھ حکومت کی کرپشن اور نا اہلی پر سوالات اٹھائے ہیں۔ سندھ حکومت کو کون کون سے بڑے سرمایہ کار و کاروباری حضرات اپنی جیب میں لیکر گھومتے ہیں ۔یہ داستانیں بھی زبان زد عام ہیں۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی حال ہی میں ہونے والی اعلیٰ سطحی میٹنگز میں سندھ حکومت کی انتظامی نا اہلی پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
 
وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اسی حوالے سے میڈیاء میں شدید تنقید کا نشانہ رہتے ہیں۔ تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو کے اختلافات بھی سندھ حکومت کی کارکردگی کے حوالہ سے ہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بلاول کہہ رہے ہیں کہ تجارت بند کر کے عوامی سیاست کی جائے۔ سندھ حکومت کی کارکردگی بہتر کی جائے۔ لیکن فی الحال ان کی بات سنی نہیں جا رہی ۔ اسی لئے وہ خود ساختہ جلاء وطنی گزار رہے ہیں۔ اور وطن واپس نہیں آرہے۔ تھر کے حوالہ سے روزانہ میڈیاء میں آنے والی خبریں بھی پیپلز پارٹی سندھ کے انداز حکومت کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں۔

لیکن اس سب کے باوجود تھر حکومت سندھ کے چہرہ کا بیک وقت بد نماء داغ بھی ہے اور ماتھے کا جھومر بھی ہے۔ قحط۔ پانی کی کمی۔ تھر کی پہچان ہے۔ روزانہ تھر میں نوزائیدہ بچوں کی خواراک کی کمی کی وجہ سے موت کی خبریں۔ ہمیں یہ باور کرواتی ہیں کہ تھر میں موت کا ننگا ناچ جاری ہے اور سندھ حکومت کی بے حسی بھی عروج پر ہے۔ صحت کی سہولیات کی کمی۔ بنیادی ضروریات زندگی تھر میں نا یاب ہیں۔ گو کہ تھر میں پانی کی کمی کو دور کرنے کے لئے بڑے پراجیکٹس بنائے جا رہے ہیں ۔ لیکن اس ضمن میں جس قدر تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے وہ نہیں کیا جا رہا ہے۔ 

اور بچوں کی موت کی خبروں پر بے پرواہی سندھ میں پیپلز پارٹی کے انداز حکومت کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود اگر یہ کہا جائے کہ تھر ہی پاکستان کی امید ۔ پاکستان کی خوشحالی کا ضامن ہے تو لگتا ہے کہ جھوٹ ہے۔ لیکن ایسا ہی ہے۔ تھر میں موجود کوئلہ کے ذخائر پاکستان کی قسمت بدلنے کی بنیاد بن رہے ہیں۔ تھر میں موجودہ کوئلہ کے ذخائر سے بجلی کے دو بڑے منصوبے بھی بنیادی مراحل سے عملی مراحل میں داخل ہونے جا رہے ہیں۔ جو پاکستان میں نہ صرف توانائی بحران کو ختم کرنے میں مدد دیں گے بلکہ سستی توانائی کے حصول میں بھی اہم پیش رفت ہونگے۔ مقامی کوئلہ سے بجلی بنانے سے نہ صرف زر مبادلہ کی بچت ہو گی بلکہ اس سے ملک میں انرجی سیکیورٹی میں بھی اضافہ ہو گا۔

یہ کریڈت سندھ حکومت کو ضرور دیا جا سکتا ہے کہ اس نے تھر کوئلہ سے بجلی بنانے کے منصوبوں کو سیاست کی نذر نہیں ہو نے دیا۔ بلکہ سندھ حکومت اور مرکزی حکومت نے اس ضمن میں بے مثال ہم آہنگی کا ثبوت دیا ہے۔ سابق صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم میاں نوازشریف نے مشترکہ طور پر تھر میں کوئلہ نکالنے کے منصوبوں کا افتتاح کیا۔ جس کے بعد چین نے بھی تھر کوئلہ کے انرجی منصوبوں کو ترجیحی منصوبوں کی فہرست میں شامل کر لیا۔ پہلے مرحلہ میں تھر میں بجلی بنانے کے دو پلانٹ لگانے کے لئے چین سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس حوالہ سے کچھ حلقے یہ سازش کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ دو کی بجائے ایک پلانٹ لگا یا جائے ۔ 

لیکن بات سمجھنے کی ہے کہ دو پلانٹ ہی تھر کوئلہ سے بجلی بنانے کی کامیابی کی ضمانت ہیں۔ ایک پلانٹ بیرونی قوتوں کی سازش کا نشانہ بھی بن سکتا ہے۔ حال ہی میں جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہوئیں تو بریف کیس پکڑے سرمایہ کار اقتدار کے ایوانوں کے چکر لگاتے نظر آئے کہ تھر کے مقامی کوئلہ کے ایک منصوبہ کو ختم کر کے امپورٹڈ کوئلہ کا ایک منصوبہ لگا لیا جائے۔ انہوں نے یہ دلیل دینی شروع کر دی کہ عالمی منڈی میں قیمتیں کم ہونے سے امپورٹڈ کوئلہ کی قیمت بھی کم ہوگئی ہے ۔ 

لیکن کوئی ان سے یہ پوچھنے کے لئے تیار نہیں تھا کہ جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں دوبارہ بڑھ جائیں گی تو امپورٹڈ کوئلہ سے بجلی بھی مہنگی ہو جائے گی۔ جبکہ مقامی کوئلہ پاکستان میں انرجی سیکیورٹی کی بنیاد ہو گا۔ تا ہم یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت کہ چین پاکستان کا مخلص دوست ہے اور اس نے بھی پاکستان میں انرجی بحران اور اس کے حل کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں تھر کوئلہ سے بجلی منصوبوں کو پاکستان کے محفوظ مستقبل کے لئے نہایت اہم قرار دیا ہے۔

تھر کوئلہ سے بجلی منصوبوں کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ جیسے کہ اس سے قبل کا لا باغ ڈیم سمیت دیگر بڑے منصوبوں پر ہوئی ہیں۔ منصوبہ کو متنازعہ بنانے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔ دو میں سے ایک منصوبہ کو ڈراپ کر کے امپورٹڈ کو ئلہ سے ایک منصوبہ لگانے کی سازش بھی ہو رہی ہے۔ لیکن تھر میں بجلی کے دو منصوبے ہی پاکستان میں انرجی سیکیورٹی کے ضامن ہیں۔

 اس ضمن میں ابھی تک سندھ اور مرکزی قدم ہم آہنگ ہیں جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ لیکن اس پر ثابت قدم رہنے کی کوشش ہے۔ ہمارے اپنے کوئلہ سے بننے والی بجلی پاکستان کو آئندہ کئی سال تک انرجی سیکیورٹی فراہم کرے گی۔ ان منصوبوں کے خلاف سازش کو پاکستان کے خلاف ساز ش سمجھا جائے۔ ہمیں یہ باور کروانا ہو گا کہ تھر کے ان بجلی منصوبوں کے مخالف پاکستان کے دوست نہیں ہیں۔

مزمل سہر وردی


سرفراز اور وقار یونس کا معاملہ.....

$
0
0


کوئی کھیل کرہیرو نہیں ہو تا۔ لیکن سرفراز تواس بات پر ہیرو ہو گیا ہے۔ کہ اسے نہیں کھلایا گیا۔ اسے کہتے ہیں جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ ستارے اور نصیب سرفراز کے ساتھ تھے۔ یا بات اس طرح بھی لکھی جا سکتی ہے کہ عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت۔ جہاں سرفراز ہیرو ہو گیا ہے۔ وہاں وقار یونس زیرو ہو گئے۔ سرفراز نے جو نہیں بھی کیا ۔ اسے اس کا بھی کریڈت مل رہا ہے جبکہ وقار یونس کی ٹیم جیت رہی ہے، انہیں اس کا بھی کریڈٹ نہیں مل رہا۔

سرفراز نے تردید کی ہے کہ ان کا وقار یونس سے کوئی جھگڑا نہیں ہوا ۔ لیکن شائد سرفراز کی اس تردید کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔ جس طرح ایک ملزم کے پولیس حراست میں دئے گئے بیان کی قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہو تی۔ اور مقدمے کا فیصلہ اس کے اقبال جرم کے بیان کی بجائے شواہد اور ٹھوس ثبوتوں کی روشنی میں کیا جا تا ہے۔ اسی طرح سرفراز اور وقار یونس کے مقدمہ کا فیصلہ بھی سرفراز کے بیان پر نہیں بلکہ شواہد اور ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔ حدیث مبارک ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اگر آپ کی نیت نیک ہے تو آپ کے اعمال خود بخود نیک ہو جائیں گے۔

اسی طرح یہ بھی کہا جا تا ہے کہ آواز خلق نقارہ خدا کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر کرکٹ ریکارڈز کو سامنے رکھا جائے تو وسیم اکرم کے کرکٹ ریکارڈز عمران خان سے بہت بہتر ہیں۔ لیکن قدرت نے جو عزت اور مقام کرکٹ سے عمران خان کو دیا وہ وسیم اکرم کو نہیں دیا۔ اس لئے سب جانتے ہیں کہ بطور کرکٹر عمران خان کی نیت ٹھیک تھی۔ البتہ ان کی سیاسی نیت کی بات الگ ہے۔ جبکہ وسیم اکرم کی کرکٹ میں نیت ٹھیک نہیں تھی۔ ان پر جوئے کے الزامات کا کس کو علم نہیں۔ اس لئے جس ورلڈ کپ میں وسیم اکرم کرکٹ ٹیم کی کپتانی کر رہے تھے۔
 وہ ٹیم آج بھی عمران خان کی نسبت بہت زیادہ مضبو ط قرار دی جا سکتی ہے۔ وسیم اکرم کی ٹیم کی فارم بھی عمران خان کی ٹیم کی فارم سے زیادہ بہتر تھی۔ لیکن قدرت نے عزت فتح اور مقام عمران خان کو دیا کیونکہ اس کی بہر حال نیت وسیم اکرم سے بہتر تھی۔ بات سرفراز اور وقار یونس کی ہو رہی ہے۔ وقار یونس کوسمجھناچاہئے کہ غلطی کو غلطی مان لینے میں ہی بڑا پن ہے۔ وقار یونس کو سمجھنا ہو گا کہ سرفراز کے وضاحتی بیان ان کے لئے کوئی بہتری پیدا نہیں کر سکیں گے۔ قوم جہاں سرفراز کو عزت سے نواز رہی ہے وہاں وہ اس کے 
وضاحتی بیان کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔
 
سرفراز معاملہ کی جس قدر وضاحت کر کے وقار یونس کو کلئیر کرنے کی کوشش کرے گا۔ وقار یونس پر شک کا گھیرا اس قدر تنگ ہو تا جا ئے گا۔ دراصل سرفراز کے ہر وضاحتی بیان کو وقار یونس کے خلاف فرد جرم کی حیثیت حاصل ہو گی۔ اسی طرح معین خان کا معاملہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ان کے معاملہ پر بھی ایک تبصرہ یہ ہے کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہو تی ہے۔ انہوں نے جو اندھیر نگری مچا رکھی تھی۔ اس کا اس کے علاوہ کوئی حل نہیں تھا۔ شائد کسی نے وقار یونس کو یہ نہیں بتا یا کہ کہ قدرت کا قانون ہے کہ جھکے ہوئے درخت کو پھل لگتا ہے۔ اگر وہ جھکیں گے نہیں تو انہیں عزت نہیں ملے گی۔

وقار یونس کا رعونت بھرارویہ انہیں عزت نہیں دلوائے گا۔ جب پی سی بی کے چیئرمین نے بھی سرفرازکو ٹیم میں شامل کرنے کا بیان دے دیا تھا ۔ تو وقار یونس کو اپنی ضد چھوڑ دینی چاہئے تھی۔ لیکن انہوں نے ایک عجیب موقف اپنا لیا کہ سرفراز اوپنر نہیں ہیں۔ لیکن دیکھ لیں وقار یونس کے اس بیان نے انہیں مزید پھنسا دیا اور سرفرا کو مزید ہیرو بنا دیا۔ سرفراز کی عزت اور مقام میں اضافہ ہوا ہے۔ اور وقار یونس مزید متنازعہ ہو گئے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے جب کوئی عام شہری جس کے ساتھ روائتی تھانیدار نے بہت زیادتی کی ہو ۔ عدالت میں یہ بیان دے کہ تھانیدار نے اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی۔ کوئی رشوت نہیں لی۔ نہ ہی تذلیل کی۔تو سب کو معلوم ہو تا ہے کہ وہ خوف کا مارا جھوٹ بو ل رہا ہے۔

اسی طرح پوری قوم کو پتہ ہے کہ سرفراز خوف کا مارا جھوٹ بول رہا ہے۔ جس طرح اس عام شہری کو اپنی زندگی کا خوف ہو تا ہے۔ اسی طرح سرفراز کو بھی اپنے کرکٹ کیریئر کا خوف ہے۔ اسی طرح مصباح الحق کا معاملہ بھی دلچسپ ہے وہ پرفارم کر رہے ہیں۔ لیکن انہیں عزت نہیں مل رہی۔ وہ سکور پر سکور کر رہے ہیں ۔ لیکن پذیرائی نہیں مل رہی۔ وہ بھی وقار یونس کی طرح سخت تنقید کے گھیرے میں ہیں۔ ان پر بھی الزام یہی ہے کہ وہ بطورکپتان ٹیم کے لئے نہیں بلکہ صرف اپنے لئے کھیل رہے ہیں۔

وہ صرف اپنی پوزیشن مستحکم کر رہے ہیں۔ ان کا کھیل ٹیم کے لئے فائدہ مند نہیں ہے۔ حالانکہ پاکستانی ٹیم میں سے صر ف وہی ایک بیٹسمین ہیں جو سکور کر ہے ہیں۔ لیکن پذیرائی نہیں مل رہی۔ معاملہ یہاں بھی نیت کا ہی لگ رہا ہے۔ ان کی تمام توجہ اپنے کھیل پر ہے ۔ انہیں سمجھنا ہو گا ۔ پاکستان کا بچہ بچہ کرکٹ کو سمجھتا ہے۔ وہ سمجھیں کہ وہ میچ نہیں بناتے۔ ان کے کھیل میں ایک جرات مند کپتان کی جھلک نہیں ۔ انہوں نے ریٹائرمنٹ کا علان کر دیا ہو اہے۔ انہیں تو اب جرات سے کھیلنا چاہئے۔ لیکن وہ بھی ایک ڈرپوک کھلاڑی کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں سکو رکرکے بھی تنقید کا سامنا ہے۔ اس لئے اگر ورلڈ کپ میں آگے بڑھنا ہے تو نیتوں کو ٹھیک کرنا ہو گا۔ بری نیتوں کے ساتھ اچھے نتائج کا حصول ممکن نہیں۔

مزمل سہر وردی

نائن زیرو پر چھاپہ۔۔۔ معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا..؟

$
0
0

مجھے آج کراچی جانا ہے۔ وہاں سے تھر جا نا ہے۔سارا دن یہی سوچتا رہا کہ نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپہ کے بعد جاؤں یا نہ جاؤں ۔ لیکن پھر جانے کا فیصلہ کیا ۔ سارا دن نا ئن زیرو پر چھاپے پر بات ہوتی رہی۔ ایک دوست نے کراچی کی حالت پر کہا کہ ایم کیوء ایم نے نائن زیرو پرچھاپہ کے بعد کراچی میں ہڑتال کی کال دی۔ لیکن جب لندن میں قائد ایم کیوایم الطاف حسین کے گھر پر سکاٹ لینڈ یارڈ نے چھاپہ مارا ۔ دو دن تک مکمل تلاشی لی گئی۔

لیکن اس پر لندن میں احتجاج نہیں کیا گیا۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا گیا۔ بلکہ سارے عمل میں مکمل تعاون کیا گیا۔ نائن زیرو پر چھاپہ کے دوران جو اسلحہ برآمد ہوا ہے اس پر رینجرز کا موقف ہے کہ یہ نیٹو کا چوری ہونے والا اسلحہ ہے۔جس کی پاکستان میں درآمد ممنوع ہے۔ لیکن ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا موقف ہے کہ رینجرز یہ اسلحہ کمبل میں چھپا کر لائے۔ سوال وہی ہے کہ جب لندن میں الطاف حسین کے گھر سے ہزاروں پاؤنڈز اور دووسری چیزیں برآمد ہوئیں ۔

تب الطاف حسین نے یہ نہیں کہا کہ سکاٹ لینڈ یارڈ کے لوگ یہ کمبل میں ڈال کر لائے اور ان کے گھر سے برآمد کر لیں۔ شائد وہاں ایسے کہنے کا زیادہ نقصان ہو سکتا تھا۔ اسی لئے الطاف حسین تفتیشی عمل کا حصہ بنے۔ میں نے کہا کہ وہ لندن ہے۔ وہاں ایسا کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ اور یہ پاکستان ہے۔ یہاں ایسا کئے بغیر گزارا نہیں۔ یہی فرق ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کی پہلی سیاسی جماعت ہے۔ جس نے طالبان کے خلاف اپریشن کے لئے آواز بلند کی۔ ایم کیو ایم نے بلا شبہ پاکستان میں طا لبانائزیشن کے خلاف عوامی رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج طالبان کے خلاف ضرب عضب جاری ہے۔ شمالی وزیر ستان کو کلیئر کروا لیا گیا ہے۔ کہا جا رہا ہے 
کہ دہشت گرد بھاگ رہے ہیں۔ ضرب عضب کامیاب ہو رہی ہے۔ 

بلوچستان میں بھی اپریشن جاری ہے۔ یہ درست ہے کہ وہاں مسنگ لوگوں کا مسئلہ کم ہوا ہے۔ لیکن اپریشن جاری ہے۔ جب کراچی میں ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو پر ریڈ ہو رہا تھا۔ تب ہی ڈیرہ بگٹی میں بھی کارروائی جاری تھی۔ وہاں بھی سات دہشت گرد مارے گئے۔ اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ پورے پاکستان میں تو امن قائم کرنے کے لئے کارروائی کی جائے لیکن کراچی پر خاموشی رکھی جائے۔

ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ نائن زیرو سے جو مجرم پکڑے گئے ہیں ۔ انہیں نائن زیرو پر نہیں رہنا چاہئے تھا۔ بلکہ کسی دوسری جگہ منتقل ہو جا نا چاہئے تھا۔ انہیں اکثریت کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جانے انجانے جن سے غلطی ہو گئی ہوئی ہے۔ وہ ادھر ادھر ہو جاتے۔ نائن زیرو پر نہ ٹھہرتے۔ یہ موقف نا قابل فہم ہے بھی اور نہیں بھی۔ الطاف حسین کی بات چیت میں ایک پیغام ہے۔ کہ ان کی پارٹی کے جو لوگ قانون کو مطلوب ہیں وہ اب اپنی حفاظت کا خود انتظام کریں۔ جب وہ کہہ رہے ہیں کہ میں بھی تو بیس سال سے لندن میں رہ رہا ہوں۔ دراصل وہ پیغام دے رہے تھے۔ کہ قانون کو مطلوب لوگ پاکستان چھوڑ کر باہر چلے جائیں۔ اب پاکستان میں رہنا محفوظ نہیں ہے۔

نائن زیرو پر چھاپہ والے دن وزیر اعظم میاں نواز شریف کراچی حیدر آباد موٹر وے کے افتتاح کے لئے کراچی میں تھے۔ صبح صبح تو یہ خبریں گرم تھیں کہ وزیر اعظم کا دورہ منسوخ ہو جائیگا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ ایم کیو ایم کے گورنر سندھ عشرت العباد نے نہ صرف ان کا استقبال کیا۔ بلکہ وہ سارا دن ان کے ساتھ بھی رہے۔ اگر ایم کیو ایم نا ئن زیرو پر چھاپہ کے معاملہ کو انتہاء تک لیجانا چاہتی۔ تو عشرت العباد وزیر اعظم کا استقبال نہیں کرتے بلکہ دبئی چلے جاتے۔ جیسا کہ وہ اس سے پہلے ایسا ہی کرتے تھے۔ سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی جانب سے مذمتی بیانات بھی ان کی ضرورت ہیں۔
 
انہیں بھی سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں۔ ایم کیو ایم کو بھی پتہ ہے کہ یہ ہومیو پیتھک بیانات ہیں۔ ان کا نہ تو کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی کوئی نقصان ہے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی دونوں سندھ کے معاملات کو اس حد تک خراب کرنے کی خواہاں نہیں ہیں کہ سندھ میں گورنر راج کی باتیں سچ ہو جائیں۔ اس لئے دونوں سنبھل کر کھیلیں گی۔ ایم کیو ایم کو علم ہے کہ گورنر راج میں بقاء اور بھی مشکل ہو جائے گی۔ اس لئے ایم کیو ایم حالات کو اس قدر خراب نہیں کرے گی کہ معاملہ گورنر راج تک چلا جائے۔ اسی لئے معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا ۔

مزمل سہر وردی

کیا جمہوریت مضبوط ہوگئی؟؟؟

$
0
0


پی پی پی کے اہم رہنما اور قابل احترام سینیٹر رضا ربانی کو وہ عہدہ (تقریباً) مل گیا جو انہیں اپنی پارٹی کے اقتدار کے دوران اُس وقت کے صدر اور پارٹی کے چئیرپرسن آصف علی زرداری نے دینے سے انکار کر دیا تھا۔ سینیٹر ربانی کا شمار پاکستان کے بہترین سیاستدانوں میں ہوتا ہے مگر گزشتہ پی پی پی دور میں ان کی قدر نہ کی گئی۔ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کو وزیر اعظم کا عہدہ پیش کیا گیا۔ فاروق ایچ نائیک اور نئیر بخاری کو چئیرمین سینیٹ کے عہدے دیے گئے حتی کہ پارٹی میں عبدالرحمن ملک، بابر اعوان اور کئی افراد کی حیثیت اور شنوائی رضا ربانی سے بہت زیادہ تھی۔ مگر اللہ نے رضا ربانی کو صبر کا پھل دیا اور وہ آج ایک متفقہ امیدوار کے طور پر سامنے آگئے۔ پی پی پی کی اعلیٰ قیادت کو تو اس بات کا یقین ہی نہ تھا کہ ربانی کے لیے وزیر اعظم نواز شریف اس طرح سے مکمل حمایت کا یقین دلوا دیں گے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے اسفندیار ولی کا کہنا ہے کہ رضا ربانی کا نام تو انہوں نے تجویز کیا۔ اپنے اخباری بیان میں اسفندیار نے کہا آصف علی زرداری سے ملاقات کے دوران انہوں نے زرداری صاحب کو کہا کہ ماضی کے برعکس اب جو نام چئیرمین سینیٹ کے لیے وہ دیں گے پی پی پی کی طرف سے اُس کی حمایت کی جائے۔ زرداری صاحب کے مثبت جواب پر اسفندیار ولی نے رضا ربانی کا نام پیش کر دیا۔ اب خطرہ یہ تھا کہ ربانی کے مقابلہ میں حکومت اپنا امیدوار لائے گی مگر وزیر اعظم نواز شریف نے تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے رضا ربانی کی مکمل حمایت کا اعلان کر دیا جو یقینا ایک قابل تحسین قدم ہے اورجسے عمومی طور پر جمہوریت کی مضبوطی اور مثبت سیاسی و جمہوری رویہ قرار دیا جا رہا ہے۔ 

مجھے ذاتی طور پر بھی حکومت کے اس فیصلہ سے خوشی ہوئی کیوں کہ میری نظر میں رضا ربانی نہ صرف اس عہدے کے لیے ایک بہترین چوائس ہیں بلکہ ایسے صاف ستھرے سیاستدانوں کو اعلیٰ ترین حکومتی عہدے دیے جانے چاہییں تا کہ بہتر طرز حکمرانی کے خواب کو یہاں بھی شرمندہ تعبیر کیا جا سکے۔ اگر زرداری صاحب 2008 کے الیکشن کے بعد یوسف رضاگیلانی یا راجہ پرویز اشرف کی بجائے رضا ربانی کو ملک کا وزیر اعظم بنا دیتے تو مجھے یقین ہے کہ گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کا یہ حال نہ ہوتا۔اس نکتہ پر مزید بات کرنے کی بجائے میںوزیر اعظم نواز شریف کی سیاست پر بات کروں گا۔ کہا جا رہا کہ رضا ربانی کی حمایت کر کے میاں صاحب نے جمہوریت کو مضبوط کیا۔ اس پر زرداری صاحب بھی خوش اور دوسرے بھی خوش ہیں۔

وزیر اعظم نواز شریف نے اسی انداز میں بلوچستان اسمبلی میں ن لیگ کے سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر مالک بلوچ کو صوبہ کا وزیر اعلیٰ بنوا دیا اور جمہوریت کو مضبوط کیا۔ اسی طرح بلوچستان میں پختون خواہ عوامی ملی پارٹی کے محمد خان اچکزئی کو گورنر تعینات کر کے جمہوریت کو مضبوط کیا۔ خیبر پختون خواہ اسمبلی میں ن لیگ نے تحریک انصاف کو حکومت بنانے کی دعوت دی اور مولانا فضل الرحمن کے اصرار کے باوجود صوبے میں حکومت بنانے کی کوئی کوشش نہ کی۔ اس پر بھی کہا گیا کہ جموریت مضبوط ہوئی۔ 

صوبہ سندھ میں ایم کیو ایم کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کو بھی تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ کر کے وزیر اعظم نے جمہوریت کو مضبوط کیا۔ سیاسی طور پر تو میاں نواز شریف نے جمہوریت کی مضبوطی کے لیے بہت اچھے اقدامات کیے اور اپنے سیاسی مخالفین کو بار بار مشاورت اور فیصلہ سازی کے لیے بھی بلایا۔ کچھ اسی انداز میں اپوزیشن جماعتوں اور پارلیمنٹ نے حکومت کے ساتھ اُس وقت مکمل یکجہتی کا اظہار کیا جب عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کسی اشارے پر دھرنوں کے ذریعے حکومت کو ختم کرنے کے در پر تھے۔ اس طرح جمہوریت کو مزید مضبوط کیا گیا۔ یہ سب بہت اچھا ہوا۔ حکومت نے بھی اچھا کیا اور اپوزیشن نے بھی اچھا کیا۔

مگر میں ایک بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی کا تعلق سیاسی پارٹیوں کے درمیان عہدوںاور حکومتوں کی بندر بانٹ سے ہی کیوں ہے؟؟؟ اصل جمہوریت کا مطلب تو یہ کہ وہ تمام اقدامات کیے جائیں جس سے جمہور یعنی عوام خوش ہوں اور ان کی زندگی میں بہتری آئے۔ میرا یہاں وزیر اعظم نواز شریف اور اپوزیشن رہنمائوں بشمول آصف علی زرداری، اسفندیار ولی، مولانا فضل الرحمن حتیّٰ کہ عمران خان وغیرہ سے سوال ہے کہ انہوں نے عوام کی بہتری کے لیے مل کر کون سے اقدامات کیے اور کن اصلاحات کا نفاذ کیا۔ اقتدار کی بندر بانٹ کے لیے تو آپ سب مل جاتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ راضی ہو جاتے ہیں مگر میرٹ اور قانون کی حکمرانی کے لیے آپ کیوںآپس میں مل نہیں بیٹھتے؟؟؟

کرپشن کے خاتمہ پر آپ سب کے درمیاں ایکا نظر کیوں نہیں آتا؟؟؟ معیشت کی بہتری اور مہنگائی میں کمی کے لیے سب رہمنا آپس میں مل بیٹھ کر کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کیوں نہیں کرتے؟؟؟ عوام کو جلد انصاف کی فراہمی، پولیس اور سول سروس میں اصلاحات لانے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف نے زرداری صاحب اور دوسرے رہمناوں کے ساتھ کتنی میٹنگز کیں تا کہ ملک کے حالات بہتر ہوں اور عوام کی زندگیوں میں خوشگوار تبدیلی آئے؟؟؟

 تعلیم اور صحت کے دگرگوں حالات کی بہتری کے لیے ہمارے رہمنا کیوںسر جوڑ کر بیٹھنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں؟؟؟ جمہوریت کی مضبوطی کا تعلق عوام کی خوشحالی سے ہے یا خواص کی؟؟ اگر ہمارے سیاستدان مل بیٹھ کر متفقہ طور پر یہ فیصلے کر سکتے ہیں کہ کون سی حکومت کس پارٹی اور کون سا عہدہ کس شخص کو دیا جائے تو یہ طرز عمل عوامی مسائل کے حل، کرپشن کے خاتمہ، اعلیٰ حکمرانی کے حصول، ٹیکس ، پولیس اور سول سروس اصلاحات وغیرہ کے لیے ہمیں کیوں نظر نہیں آتا۔اس سب کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ جمہوریت مضبوط ہو گئی جو ایک دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں۔

انصار عباسی
بہ شکریہ روزنامہ جنگ

یہ شہر لاہور؟

$
0
0

کامران لاشاری خود لاہوری ہیں، اچھے بیورو کریٹ ہیں اور اب انہوں نے اس شہر لاہور کے ماضی کو تابندہ بنانے کا ذمہ لے رکھا ہے وہ والڈ سٹی اتھارٹی کے چیئرمین ہیں، جس کے ذمہ پرانے اور اصلی شہر کی خوبصورتی کو بحال کرنا ہے۔یہ اتھارٹی شہر میں کام کررہی ہے جو دہلی دروازہ سے شروع کیا گیا تھا کہ یہاں شروع ہی میں شاہی حمام آ جاتا ہے جس کی حالت پہلے ہی سدھار لی گئی تھی، بہرحال اتھارٹی نے جامع مسجد وزیر خان کے باہر والے حصے کو تو خالی کروا ہی لیا ہے ار اب سارا زور وہ شاہی راستہ بحال کرنے پر ہے جو شاہی قلعہ سے دہلی دروازہ تک آتا ہے کہ اسی راستے سے دلی سے آنے والے آیا کرتے تھے۔

اس سلسلے میں دلچسپ امر تو یہ ہے کہ اتھارٹی کا کام پرانے شہر کی بحالی ہے۔ خود اس کا دفتر لارنس روڈ کی ایک کوٹھی میں قائم کیا گیا ہے۔ شاید شہر میں کوئی جگہ نہیں ملی یا پھر وہاں بیٹھنے سے چھینکیں آتی ہیں کہ سرخ مرچوں اور دوسرے مصالحوں کا کاروبار بھی تو ہوتا ہے۔آج کل والڈ سٹی اتھارٹی کا محکمہ آثار قدیمہ سے پھڈا چل رہا ہے۔ اتھارٹی نے بادشاہی اور جامع مسجد وزیر خان جیسی تاریخی عمارتوں کے ساتھ ساتھ شاہی قلعہ پر بھی دعویٰ کر دیا اور اب دونوں کے درمیان اس تاریخی قلعہ کی تحویل کا تنازعہ چل رہا ہے۔

والڈ سٹی اتھارٹی کے بقول شاہی قلعہ بھی شہر کا حصہ ہے۔ قلعہ سے دہلی دروازہ تک قدیم شاہی راستہ بحال کرنا ہے تو قلعہ بھی اتھارٹی ہی کے پاس ہونا چاہیے کہ سیاحت کے لئے نظام ایک ہی جگہ مرتکز ہو۔ آثار قدیمہ والے قلعہ کو قدیم دور کی یادگار قرار دیتے اور اسے آثار قدیمہ میں ہی شامل کرتے اور رکھنا چاہتے ہیں کہ دیکھ بھال بھی انہی کے ذمہ ہے۔ لیکن کامران لاشاری تو آمدنی کی فکر میں بھی ہیں آخر کب تک ایشیائی ترقیاتی بنک اور عالمی اداروں کی گرانٹ سے کام چلے گا؟ یوں بھی لاشاری صاحب ماہر ہیں، کسی کو شک ہے تو لاہور کی پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی ہی کو ملاحظہ فرما لیں۔ اس کا قیام بھی تو محترم کامران لاشاری ہی کے ہاتھوں ہوا۔ 

ابتداء رضا کارانہ طور پر چوک سجانے سے ہوئی اور اب یہ اتھارٹی بھی منافع بخش ادارہ ہے جس سے بہت سے ’’غربا‘‘ بھی مستفید ہو رہے ہیں، چنانچہ والڈ سٹی اتھارٹی کے لئے بھی اسی فارمولے پر کام جاری ہے، اگرچہ ابھی وہ راستے نہیں بنے جو آمدنی کاذریعہ بنیں اور اس کی ابتداء شاہی قلعہ لاہور سے ہو سکتی ہے کہ اس کو بہتر بنا کر سیاحوں کو زیادہ متوجہ کیا جا سکتا ہے۔ آثار قدیمہ والے اس آمدنی سے محروم نہیں ہونا چاہتے۔

اب ذرا اس اتھارٹی کے کام کا بھی معمولی سا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ شاہی حمام پر دوبارہ اخراجات کے بعد زیادہ مرکزی کام جامع مسجد وزیر خان کے چوک کو خالی کرانے والا ہوا ہے۔ ورنہ باقی معاملہ تو جوں کا توں ہی محسوس ہوتا ہے کہ دہلی دروازہ سے حد نظر تک دکانیں ہی دکانیں ہیں اور پھر عارضی تجاوزات کی بھی بھرمار ہے۔ کئی بازار وجود میں آ چکے اور متعدد تھوک مارکیٹیں بن چکیں ان میں اعظم کلاتھ مارکیٹ ایک بڑا نام ہے۔ اس کے علاوہ کئی پلازہ بنے ہوئے ہیں اور کئی زیر تعمیر بھی ہیں۔اتھارٹی کے چیئرمین کو لاہور کے سرکلرباغات کا بھی اچھی طرح علم ہے۔ 

کبھی یہ باغات آکسیجن کا ذریعہ اور ثقافتی مرکز کی حیثیت سے کام کرتے تھے، اب یہ قابضین کے پاس ہیں۔ مارکیٹیں تعمیر ہو چکیں حد یہ ہے کہ باغ کا معتدبہ حصہ باقاعدہ ملکیت قرار دے کر اس پر کارخانے بنائے جا چکے ہوئے ہیں۔ اتھارٹی بھی شہر کے ایک حصے ہی سے فارغ نہیں ہو رہی وہ آگے کیسے بڑھے گی اور پھر اس اتھارٹی کو عمر خضر تو نہیں ملی کہ غیر معینہ مدت تک سلسلہ جاری رہے گا۔ مسئلہ ایک سے ایک ہے۔

اس شہر کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کی متروکہ عمارتیں کلیموں کے عوض الاٹ ہونے کے بعد کئی ہاتھوں میں بک چکیں اور اب یہاں تھوک مارکیٹیں ہیں، شوز سے لے کر کلاتھ مارکیٹوں کے علاوہ اجناس کی سب سے بڑی منڈی بھی شہر کی متروک دیوار کے اندر ہے اور ان کو منتقل کرنا سر درد ہے کہ کئی کوششیں ہو چکیں، اب والڈ سٹی اتھارٹی نے تو شہر کی عمارتوں کی تعمیر کے نقشوں کی منظوری تک کے اختیارت حاصل کر رکھے ہیں انہی مسائل کی وجہ سے تو یہ کام بڑا مشکل نظر آتا ہے کہ اعظم کلاتھ مارکیٹ، پاکستان کلاتھ مارکیٹ اور اکبری منڈی کہاں جائیں گی؟

ہمارے خیال میں اس اتھارٹی کے قیام کا جو مقصد ہے، بات اس سے آگے بڑھا لی گئی ہے، ورنہ شاہی راستے کی بحالی تک رہا جاتا، بڑی بڑی تاریخی مساجد اور عمارتوں کو محفوظ کرنے کا ذمہ لیا جاتا تو شاید کچھ کام بھی بن جاتا، اب ذرا مشکل اور امتحانی صورت ہے۔ہماری تو خواہش اور درخواست ہے کہ کسی طرح شہر کے اردگرد (چاروں طرف) والے سرکلر باغات معہ اس نہر کے جو درمیان میں بہتی تھی، بحال ہو جائیں شائد اس طرح پھر سے 8دن اور 9میلے ہو جائیں۔

چوہدری خادم حسین

پاکستان کا حکمران طبقہ.....

Edhi Moach Goth graveyard - Where the dead have no name

$
0
0
Edhi Moach Goth graveyard -  Where the dead have no name

پاکستان سول سوسائٹی - خوف، نفرت، تعصب، ہیجان اور افراتفری....

$
0
0


میرے سامنے ایک غیرملکی سفارت خانے اور اس کے ایک ملکی امدادی ادارے کے وہ تازہ ترین اشتہارات ہیں جن میں پاکستان بھر میں کام کرنے والی این جی اوز سے درخواستیں طلب کی گئیں ہیں تا کہ ان کو مختلف پروجیکٹ کے لیے فنڈز فراہم کِئے جائیں۔ ہر شعبہ کے حوالے سے درخواست دینے کی علیحدہ آخری تاریخ ہے۔ سفارت خانے کا پبلک افیئرز آفس تعلیمی شعبے میں درخواستیں مانگ رہا ہے تواس کا امدادی ادارہ کاروباری مہارتیں پیدا کرنے اور خواتین کو معاشی طور پر خود مختار کرنے کے لیے فنڈز مہیا کرنے پر تیار ہے۔

یہ صرف ایک سفارت خانے کی بات نہیں، پاکستان میں موجود ہر مغربی ملک کے سفارت خانے نے اعلانیہ یا خاموشی سے پاکستان میں اپنے مقصد کی این جی اوز کو رقم فراہم کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ آپ درخواست جمع کرائیں۔ آپ کی این جی او کے مقاصد اگر ان سفارت خانوں کے مقاصد کو پورا کرتے ہوں تو آپ پر ڈالروں، پاؤنڈوں اور یوروز کی بارش شروع ہو جائے گی۔ سفارت خانوں کے علاوہ پوری دنیا میں ڈونرز کا ایک جال بچھا ہوا ہے، کئی سو فاؤنڈیشن ہیں جو پاکستان میں لوگوں کو اپنے ایجنڈے کے مطابق سرمایہ فراہم کرتی ہیں۔

پاکستان میں یہ تمام ڈونرز علی الاعلان اخبارات میں بھی اور انٹرنیٹ پر بھی درخواستیں طلب کرتے ہیں، اس کے بعد ملک بھر سے سرمائے کی طلب میں حواس باختہ لوگ اپنی این جی اوز رجسٹرڈ کرواتے ہیں۔ پھر ان تمام ڈونرز کے مطابق پراجیکٹ ترتیب دیتے ہیں، اس کے بعد اپنی درخواستیں جمع کرواتے ہیں اور انھیں کروڑوں کے حساب سے سرمایہ فراہم ہو رہا ہے۔ مثلاً یورپی کمیشن نے پراجیکٹ کے لیے امداد کی زیادہ سے زیادہ شرح سات لاکھ پچاس ہزار یورو رکھی ہے جب کہ کسی بھی این جی او کو کم سے کم ملنے والی امداد پانچ لاکھ یورو ہے۔ یہ تمام امداد کس قسم کی این جی اوز کو دی جاتی ہے۔

یہ ہے اصل سوال اور اس سوال کے جواب میں ہی وہ راز پنہاں ہے جس نے پاکستان کے معاشرے کو خوف، نفرت، تعصب اور افراتفری کا شکار کر رکھا ہے۔ سب سے زیادہ امداد Advocacy یعنی وکالت، حمایت اور (Awareness) یعنی آگاہی اور شعور کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کو دی جاتی ہے۔ یہ شعور اور وکالت بھی جن شعبوں میں دی جاتی ہے، ان میں سب سے پہلے نمبر پر حقوق نِسواں اور پھر اقلیتوں کے حقوق والی تنظیمیں آتی ہیں۔ آگاہی اور شعور کی بہترین مثال یہ ہے کہ آپ بھوکے کو بار بار اس بات کا احساس دلائیں کہ تمہیں بھوک لگتی ہے، تم کھاؤ گے نہیں تو تمہاری صحت خراب ہو جائے گی اور تم مر جاؤ گے، لیکن اسے کبھی روٹی فراہم نہ کرو۔ کیونکہ روٹی فراہم کرنا ان تمام این جی اوز کے نزدیک محتاجی کو عام کرنا ہے، جسے وہ اپنے زبان میں (Dependence) کہتی ہیں۔

اس لیے وہ کہتی ہیں کہ اگر لوگوں کو اپنے حقوق اور محرومی کا شعور دے دیا جائے تو وہ خود آگے بڑھ کر اسے حاصل کر لیتے ہیں۔ گزشتہ تیس سال سے یہ سفارت خانے اور ڈونرز اس ملک میں اربوں روپے کا سرمایہ ان این جی اوز کو فراہم کر چکے ہیں اور اس تمام سرمایہ کاری پر حکومتِ پاکستان کو کسی بھی قسم کا کوئی اختیار حاصل نہیں اور نہ ہی وہ ایسی کسی قسم کی فنڈنگ کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان گزشتہ تیس سالوں سے اس وافر سرمائے کی فراہمی نے ان تمام این جی اوز کے کرتا دھرتا افراد کو ملا کر ایک سول سوسائٹی تخلیق کر دی ہے جو ایسے وقت میں سڑکوں پر نکلتی ہے جب ان تمام ڈونرز کا ایجنڈ انھیں نکلنے پر مجبور کرتا ہے۔

یہ ان تمام افراد اور اداروں کے خلاف آواز بلند کرتی ہے جو اس ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہ پاکستان کے ہر اہم ادارے سے اتنی دیر تک محبت کرتی ہے جب تک وہ ان کے ایجنڈے کے مطابق کام کرتا ہے لیکن جیسے ہی ان اداروں کا کوئی بھی عمل ان کے ایجنڈے سے مختلف ہو جائے تو یہ این جی اوز پاکستان کی سلامتی تک داؤ پر لگاتے ہوئے پاکستان کے ہر ادارے کی تضحیک کرتی ہے اور انھیں پاکستان کی تباہی اور بربادی کا ذمے دار قرار دیتی ہے۔

یہ سول سوسائٹی شعور اور وکالت کے نام پر لوگوں میں خوف، نفرت، تعصب اور ہیجان کیسے پیدا کرتی ہے۔ اس کا اندازہ اس کے کام کرنے کے طریق ِکار سے ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں روزانہ ہزاروں ایف آئی آر درج ہوتی ہیں جن میں ہزاروں بے گناہ مجرم جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے جاتے ہیں۔ ان میں کئی بے گناہ افراد جھوٹے گواہوں اور انصاف کی عدم فراہمی کی وجہ سے پھانسی کے گھاٹ تک بھی جا پہنچتے ہیں، لیکن یہ سول سوسائٹی صرف توہین رسالت کے ایسے مجرم کے لیے سڑکوں اور چوراہوں پر آئے گی جو کسی اقلیتی فرقے سے تعلق رکھتا ہو۔

توہین رسالت کے زیادہ تر مقدمے مسلمانوں کے خلاف درج ہوتے ہیں لیکن عیسائیوں یا ہندووں کے مسئلے کو خصوصاً اچھالنا دراصل اس پوری کمیونٹی کے اندر خوف، نفرت، تعصب اور ہیجان پیدا کرنا ہوتا ہے۔ تا کہ ان کا بچہ اس بات پر یقین کر لے کہ یہ زیادتی صرف ان کے ساتھ ہو رہی ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے تمام رفاہی تعلیمی ادارے قومی ملکیت میں لے لیے تھے۔ اس سے پہلے مسلمان رفاہی ادارے بھی ملک بھر میں تعلیمی ادارے چلاتے تھے اور عیسائی مشنری بھی، لیکن پاکستان کی تاریخ میں یہ واحد استثناء ہے کہ کسی مسلمان رفاہی ادارے کو اس کے تعلیمی ادارے واپس نہیں کیے گئے لیکن تمام عیسائی مشنری تنظیموں کو ان کے تعلیمی ادارے واپس کر دیے گئے اور آج یہ ادارے اس ملک میں اپنی مرضی کی تعلیمی پالیسی اور مخصوص نصابِ تعلیم کے تحت چل رہے ہیں۔

اس سول سوسائٹی نے کبھی عیسائی اقلیت کے ساتھ اس بہترین سلوک کا ذکر تک نہیں کیا، اس لیے کہ کہیں اس اقلیت میں یہ احساس پیدا نہ ہو جائے کہ تمہیں مسلمانوں سے بھی بہتر سلوک سے نوازا گیا۔ اس لیے بھی کہ ایسا کرنے سے ’’آگاہی اور وکالت‘‘ کے اس ایجنڈے کی تکمیل نہیں ہوتی۔ ملک میں بھٹہ کے مزدور ہر رنگ نسل اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور بدترین غلامی کا شکار ہیں۔ اکثر ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جب انھیں مالکان اپنے تشدد کی انتہا پر پہنچتے ہوئے زندہ جلا دیتے ہیں۔ خوفزدہ یہ لوگ کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ لیکن مسئلہ اچھالنا ہو تو کسی بھی اقلیت کو سامنے رکھ کر اچھالا جاتا ہے۔

توہین قرآن پر گوجرانوالہ میں ایک شخص کو ڈنڈے مار کر مار دیا گیا لیکن کوئی سول سوسائٹی حرکت میں نہ آئی، کیونکہ اس کے منہ پر داڑھی تھی اور وہ مسلمان تھا۔ اس شخص کے کیس کو اچھالنے سے ان کا ’’آگاہی اور وکالت‘‘ کا ایجنڈا پورا نہیں ہوتا تھا۔ پاکستان کی عدالتوں میں روز خواتین بھاک کر شادی کرتی ہیں۔ میری عدالت میں چار جوڑوں نے پسند کی شادی کی۔ چاروں عورتوں کو ان کے آشناؤں نے بیچ دیا اور وہ بچیاں بدترین زندگی گزار رہی ہیں۔ ان چار مردوں کے خلاف کوئی سول سوسائٹی کبھی نہیں اٹھے گی کہ اس سے عورتوں کے حقوق کی وکالت کا ایجنڈا پورا نہیں ہوتا۔ ایجنڈا تو اس وقت پورا ہوتا ہے اگر لڑکی والدین سے نفرت کر کے بھاگے۔

پاکستان سارے کا سارا غربت و افلاس کی تصویر ہے، کچی آبادیوں کی ایک قطار ہے جس میں ہر رنگ نسل، زبان اور مذہب کے لوگ آباد ہیں لیکن سول سو سائٹی کو یہ سب بلا رنگ نسل و مذہب نظر نہیں آتا۔ کسی مخصوص مذہب کے حوالے سے ہیجان پھیلانا ان کا خاصہ ہے۔ گوجرہ میں گھر جلائے جائیں تو سول سوسائٹی کا احتجاج سالوں پر محیط ہوتا ہے، لیکن بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں250 انسان جل جائیں تو ایک پلے کارڈ بھی مجرموں کے خلاف نظر نہیں آتا۔ اس لیے کہ اس سے ایجنڈے کی تکمیل نہیں ہوتی۔

گزشتہ تیس سالوں سے اس سول سوسائٹی نے اقلیت کے ذہنوں میں ہتھوڑے مارنے کی طرح بار بار یہ بات ذہن نشین کروائی ہے کہ ظلم صرف تم پر ہوتا ہے۔ اٹھارہ کروڑ لوگ تمہارے خون کے پیاسے ہیں۔ تمہیں اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہو گی اور دیکھو پوری دنیا کی عالمی طاقتیں تمہارے ساتھ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہزارہ قبیلے کے مسلمان سو کے قریب لاشیں ساتھ رکھ کر احتجاج کرتے ہیں اور صبر کا دامن نہیں چھوڑتے، لیکن یوحنا آباد کے لوگ جنھیں سول سوسائٹی نے اپنے پراپیگنڈے سے خوف، نفرت، تعصب اور ہیجان کا شکار کیا ہے وہ دو انسانوں کو زندہ جلا دیتے ہیں۔ مقدمہ کس کے خلاف درج ہونا چاہیے؟۔

اوریا مقبول جان


ہماری یرغمالی کرکٹ۔ .

شیطا نی اشتھارات...

پھرمدینہ کی یادآئی...

مصباح اور آفریدی، ایک عہد کا خاتمہ

$
0
0


فلم سازی کی تاریخ کے ایک عظیم شاہکار ’’لارنس آف عریبیہ‘‘ میں شہزادہ فیصل کا کردار ادا کرنے والے ایلک گنیز کا ایک مکالمہ ہے، ’’یہاں اس شخص کی عزت سب سے زیادہ کی جاتی ہے، جو جنگ جتواتا ہے۔‘‘

پہلی جنگ عظیم کے قبائل میں بٹے عرب کے لیے ادا کیا گیا یہ جملہ آج پاکستان میں کھیل کی دن پر صادق آتا ہے، خاص طور پر کرکٹ پر کیونکہ پاکستانیوں کے لیے کرکٹ کسی جنگ سے کم نہیں اور اس میں ملک کی نمایندگی کرنے والے ہر کھلاڑی کو ایک سپاہی سمجھا جاتا ہے۔

ویسے ضروری نہیں کہ یہ جملہ ایک مثالی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہو لیکن ہمارے لیے ایک بہت بڑے مخمصہ کو ضرور حل کرتا ہے کہ آخر شاہد آفریدی کیوں ہر دل عزیز ہیں اور مصباح الحق کو پسند کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے؟شاہد آفریدی نے جتنی دھماکے دار انداز میں بین الاقوامی کرکٹ میں آمد کا اعلان کیا، اس طرح شاید ہی کسی کے کیریئر کا آغاز ہوا۔

پہلی ایک روزہ اننگز اور صرف 37 گیندوں پر تیز ترین سنچری کا عالمی ریکارڈ، وہ بھی 1996ء میں کہ جب ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ پھر روایتی حریف بھارت کے خلاف ایک روزہ اور ٹیسٹ کرکٹ میں یادگار ترین فتوحات میں نمایاں کردار، یہاں تک کہ 2009ء میں پاکستان ٹی ٹوئنٹی کا عالمی چیمپئن بنانے والے ’’لالا‘‘ ایسی قوم کے لیے بہترین انتخاب تھے جس کو ہیروز کی تلاش ہو۔
جو وسیم اکرم اور وقار یونس کے بعد نئے ہیروز کو ڈھونڈ رہی ہو۔ آخر کیوں نہ یہ قوم شاہد آفریدی سے محبت کرے، بھارت کے خلاف جدید تاریخ میں پاکستان کی جتنی بھی فتوحات ہیں ان میں سے بیشتر میں شاہد آفریدی سب سے نمایاں ہیں۔ جنوری 1999ء میں چنئی ٹیسٹ ہو، 6 سال بعد بنگلور میں بھارت ہی کے خلاف یادگار فتح میں کردار، پھر کانپور میں 46 گیندوں پر 102 رنز کی اننگز، 2006ء کے اوائل میں ہوم گراؤنڈ پر بھارت کے خلاف دو زبردست سنچریاں، جن میں 128 گیندوں پر 156 رنز، پھر ماضی قریب میں ایشیاء کپ 2014ء میں دو شاندار چھکے۔

اس کے علاوہ جب ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا ظہور ہوا تو 2007ء میں پہلے ہی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں شاہد آفریدی ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔ یہاں تک 2007ء میں ادھورے رہ جانے والے کام کو 2009ء میں اپنے ہاتھوں سے پورا بھی کیا اور پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی کا عالمی چیمپئن بنا دیا۔2011ء کے عالمی کپ میں پاکستان کی قیادت کی اور توقعات سے کہیں بڑھ کر کارکردگی دکھاتے ہوئے پاکستان کو سیمی فائنل تک پہنچایا اور چار سال بعد 2015ء میں مایوس کن کارکردگی کے ساتھ پاکستان کوارٹر فائنل میں ہی باہر ہوگیا اور ’’لالا‘‘ کا عہد اختتام کو پہنچا۔

ان کی آخری کارکردگی کو ہرگز ان کے پورے عہد کا خلاصہ مت سمجھیے گا کہ جب تک پاکستان کرکٹ زندہ رہے گی، شاہد آفریدی کا نام موجود رہے گا۔ شاہد 398 مقابلوں میں 8 ہزار سے زیادہ رنز، 6 سنچریوں، 39 نصف سنچریوں، 395 وکٹوں اور 127 کیچز کے ساتھ رخصت ہوئے۔ ’’لالا‘‘ نے کْل 38 ایک روزہ مقابلوں میں پاکستان کی قیادت کی، 19 جیتے اور 18 ہارے، جن میں عالمی کپ 2011ء کا سیمی فائنل بھی شامل تھا۔

جب شاہد آفریدی اپنے عروج پر تھے تو پاکستان کرکٹ میں ایک نئے کھلاڑی کی آمد ہوئی، مصباح الحق۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں اپنے بلند و بالا چھکوں کی وجہ سے معروف مصباح الحق، ایک خاموش طبع، نفیس اور پڑھا لکھا کھلاڑی، قومی کرکٹ کے مزاج کے بالکل برعکس۔ یہی وجہ ہے کہ مصباح اس وقت تک مستقل مقام حاصل نہ کرسکے جب تک کہ ان کے علاوہ پاکستان کے پاس کچھ نہ بچا۔ 2010ء میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے قومی کرکٹ کی بنیادیں ہلا دیں۔ اس بکھرے ہوئے شیرازے کو سمیٹنے کے لیے ایک بلند عزائم رکھنے والی شخصیت کی ضرورت تھی، جو مصباح کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔

انھوں نے 2011ء میں شاہد آفریدی اور کوچ وقار یونس کے درمیان تنازع پیدا ہونے کے بعد ٹیسٹ کے ساتھ ایک روزہ قیادت بھی سنبھالی اور 2015ء کے عالمی کپ کے ساتھ ہی محدود طرز کی کرکٹ کو خیرباد کہہ گئے۔

ایک طرف شاہد آفریدی کا کرشمہ تھا، ان کا شاندار ماضی اور روایتی حریف کے خلاف تاریخی کامیابیاں تو دوسری طرف مصباح کی بدقسمتی کہ وہ ہمیشہ ان مواقع پر ناکام ہوئے جب پاکستان بہت بڑے مقابلے میں بھارت ہی کے مدمقابل تھا۔ 2007ء کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی فائنل میں مصباح کی اننگز پاکستان کو فتح کے بہت قریب لے آئی لیکن ’’دو چار ہاتھ جب لب بام رہ گیا‘‘ تب مصباح کی ایک غلطی پاکستان کو عالمی اعزاز سے محروم کرگئی۔

یہی نہیں بلکہ چار سال بعد عالمی کپ 2011ء کے سیمی فائنل میں پاکستان کو بھارت کے ہاتھوں شکست ہوئی تو نزلہ ایک مرتبہ پھر مصباح الحق پر گرا، جن کی بیٹنگ کے انداز کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔پاکستان کے کرکٹ شائقین سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں، لیکن بھارت کے خلاف ’’جنگ عظیم‘‘ میں شکست کا سبب بننے والے کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ شاہد آفریدی اپنی تمام تر غیر مستقل مزاجی اور غیر منظم طبیعت کے باوجود مقبولِ عام رہے، کیونکہ وہ ’’اہم جنگوں کے فاتح‘‘ تھے جب کہ ان کے مقابلے میں مصباح مقبول عام نظریے کے مطابق ایک فتح گر نہیں تھے۔

اس لیے بہرحال، شاہد آفریدی کی عوامی مقبولیت اور مصباح الحق کے بارے میں عوام کے مختلف رویے کی وجوہات تو تھیں اور ان سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مصباح خوش نصیب ضرور تھے، کیونکہ جاتے جاتے وہ ایک، ایک کرکے کئی داغوں کو دھونے میں کامیاب ہوئے۔ انھوں نے ثابت کیا کہ اگر مستقل مزاجی کے ساتھ خود کو ثابت کرنے کی کوشش کی جائے تو ’’پتھر دل‘‘ بھی نرم کیے جاسکتے ہیں۔ مصباح الحق کے کیریئر کا اختتام ایک اور عالمی کپ میں شکست کے ساتھ ہوا۔

جس میں پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ رنز مصباح نے بنائے، سب سے زیادہ نصف سنچریاں انھی کی رہیں، سب سے زیادہ چوکے بھی اور سب سے زیادہ چھکے بھی۔ ہوسکتا ہے کہ عوام نے ان کے ’’گناہ‘‘ معاف کردیے ہوں، کم از کم عالمی کپ سے اخراج کے بعد پہلے عوامی ردعمل سے تو یہی ظاہر ہورہا ہے، شاید اس لیے بھی کہ ہمارے ہاں مرنے والا دنیا کا نیک ترین آدمی ہوتا ہے۔بہرحال، مصباح کا ایک روزہ کیریئر 162 مقابلوں، 5 ہزار سے زیادہ رنز اور 42 نصف سنچریوں کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔ 87 مقابلوں میں وہ کپتان رہے۔
، 45 جیتے اور 39 ہارے۔ ممکن ہے کہ یہ بہت زیادہ اچھے اعدادوشمار نہ ہوں لیکن جب پاکستان کے کھلاڑی اپنے ہی میدانوں پر کھیلنے سے محروم ہوں، اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے ٹیم کی ساکھ ختم کردی ہو، جب تمام اسٹار کھلاڑی کرکٹ چھوڑ چکے ہوں، اس وقت عالمی اکھاڑے میں ٹیم کو کھڑا رکھنا بھی بڑا کارنامہ تصور کیا جانا چاہیے۔

اس لیے شاہد آفریدی کی طرح مصباح بھی طویل عرصے تک یاد کیے جاتے رہیں گے اور ہوسکتا ہے کہ مستقبل کا مؤرخ انھیں قومی کرکٹ میں وہ مقام عطا کرے جو عبد الحفیظ کاردارکا تھا۔مصباح اب محض ٹیسٹ اور شاہد آفریدی صرف ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں کھیلتے نظر آئیں گے، ان دونوں طرز کی کرکٹ میں انھوں نے سب سے نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں۔ لیکن ایک روزہ دونوں کا مشترکہ میدان تھا، اسی ایک طرز میں دونوں ایک ساتھ کھیلتے نظر آتے تھے، آگ اور پانی ایک ساتھ۔ بس اب ہمیں یہ دیکھنے کو نہیں ملے گا، پاکستان کرکٹ ایک انوکھے نظارے سے ہمیشہ کے لیے محروم رہ گئی۔

فہد کیہر

Pakistan Day

$
0
0


Pakistan Day or 23 March, is a national celebration day that marks the successful adoption of constitutional draft that ultimately called for greater autonomy in British India. It was first inaugurated on 23 March 1956 following the promulgation offirst set of the Constitution of Pakistan. The March 23 is one of two significant date for Pakistan, other being the 14 August, the Independence Day.


The day is celebrated in the memory to commemorate the event when the Muslim League drafted the political resolution at theMinar-e-Pakistan (lit. Pakistan Tower) that called for establishing the independent federation of four provinces located in north-western region of British India on 23 March 1940.

Reaching the national concession on 23 March 1956 to promulgate the first set of the Constitution of Pakistan, it marked the successful constitutional transition of Pakistan from the dominion to Islamic Republic— the world's first Islamic republic. Since then, the day is celebrated annually at the national level as a public holiday and the joint inter-services commonly holds a military parade for the celebration of the event.






تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟....

دو جنرل دو کہانیاں


ایک موبائل میسج

تلاش گمشدہ

بابا شہید - احسان الہی ظہیر....

ایم کیو ایم کے آٹھ نئے مسائل....

$
0
0


الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کو پچھلے کئی ماہ سے نت نئے مسائل سے سابقہ پیش آرہا ہے۔ ایک دریا عبور کرتے ہیں تو دوسرا دریا بپھری موجود کے ساتھ سامنے آجاتا ہے۔ ایک کے بعد ایک نئی مشکل نے متحدہ کو مسلسل میڈیا کے رو برو رکھا ہوا ہے۔ منظم پارٹی اور ذہین لوگ ہونے کے باوجود پے در پے مشکلات نے قیادت کو جھنجھوڑ سا دیا ہے۔ ایسے انوکھے معاملات جو تیس برسوں میں کبھی پیش نہیں آئے تھے۔

پہلا مسئلہ الیکشن 2013 میں پیش آیا۔ کئی انتخابات میں کامیابی کے باوجود متحدہ کو ایسی مشکل کبھی پیش نہ آئی تھی۔ دونوں بڑی پارٹیوں نے ایم کیو ایم کے بغیر وفاق اور صوبے میں حکومتیں بنالیں، پچھلے پچیس برسوں میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ پیپلزپارٹی کو وفاق میں کم سیٹیں ہونے کے سبب نائن زیرو آنا پڑتا ۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اسلام آباد میں مسلم لیگ ن نے، تو سندھ میں پیپلزپارٹی نے ایم کیو ایم کے بغیر حکومتیں بنا لی ہیں۔ دونوں نے متحد ہوکر متحدہ کی اہمیت کو کم کردیا ہے۔ ہر انتخابات کے فوراً بعد اسلام آباد اور کراچی کی تقریبات حلف برداری میں شرکت کرنیوالے اب اقتدار کی غلام گردشوں سے دور ہیں۔دوسرا مسئلہ قائم علی شاہ کی سات برسوں سے قائم حکومت کا بلدیاتی انتخابات سے گریز ہے۔

کراچی میں جماعت اسلامی کے ستار افغانی اور نعمت اﷲ خان کے علاوہ متحدہ کے فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال شہر قائد کی بلدیات کے قائد رہ چکے ہیں، ان انتخابات نے متحدہ کو عوام تک رسائی کا موقع دیا۔ نئی صدی کے دونوں ناظمین نے پہلے عشرے میں کراچی کو بنایا، سنوارا اور نکھارا، مصطفی کمال کو اپنی میعاد مکمل کیے چھ برس ہوچکے ہیں۔ دو مرتبہ انتخابات منعقد ہوجانے کے بجائے ابھی حلقہ بندیاں ہی ہورہی ہیں۔ مرکز اور صوبے کی حکومتوں میں عدم شمولیت کے علاوہ بلدیاتی انتخابات کا نہ ہونا الطاف حسین کے حامیوں کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ سندھ کے شہری حلقوں سے بڑا مینڈیٹ دینے والے متحدہ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے کام کیوں کر ہوں گے؟ لوکل باڈیز کے انتخابات کسی حد تک ایم کیو ایم کی شکایات کا ازالہ کردیتے۔ مسلسل ٹال مٹول متحدہ کے لیے نئی درد سر رہے۔

عمران خان کا انتخابات میں کراچی سے آٹھ لاکھ ووٹ لے جانا ایم کیو ایم کے لیے نئی تشویش ہے۔ نتیجتاً غیر معروف امیدواروں اور کمزور تنظیم کے باوجود شہر قائد کے لاکھوں ووٹرز نے بلے پر مہر لگاکر متحدہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اس سے پہلے جماعت اسلامی، ایم کیو ایم کا مقابلہ کرتی تھی، ملکی سطح پر مقبولیت نہ ہونے کے سبب جماعت سے نمٹنا آسان ہوتا تھا۔ بھٹو اور نواز شریف کے ماننے والوں کو اہل کراچی نے ووٹ نہیں دیے یا انھوں نے توجہ نہیں دی۔ بات کچھ بھی ہو، اب تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ملک گیر پارٹی کو شہر قائد نے ووٹ دیے ہیں۔ تحریک انصاف تو پہلی مرتبہ کراچی کی دوسری مقبول ترین پارٹی بننے کا موقع ملا ہے، اسی حوالے سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عمران نے ایم کیو ایم کے قائد پر لگاتار لفظی حملوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔

زرداری، نواز، فضل الرحمن اور اسفندیار کے بعد اب کپتان کے جملوں کا نشانہ متحدہ کے قائد ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی قومی سطح کے لیڈر نے ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت سے اس لہجے میں بات کی ہو۔ متحدہ کی میڈیا پر جواب دینے والی ٹیم کے لیے یہ ایک نئی آزمائش ہے۔ اس سے قبل ذوالفقار مرزا اور بلاول بھٹو نے الزامات کی جنگ شروع کی تھی۔ ایک کو مقامی لیڈر اور ایک کو بچہ سمجھ کر نظر انداز کردیاگیا۔ آصف زرداری نے مفاہمت کی بات کرکے دونوں کو چپ کروا دیا۔ اب تحریک انصاف کی کراچی میں مقبولیت اور عمران کی لفظی بوچھاڑ ایم کیو ایم کے لیے تیسرا بڑا مسئلہ ہے۔ ایسا مسئلہ جس سے ان کا پہلے کبھی سابقہ نہیں پڑا۔

ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کئی برسوں سے مسئلہ ہے لیکن اس میں شدت حالیہ دنوں میں آئی ہے، برطانیہ کی حکومت پاکستان سے دو قیدیوں تک رسائی چاہتی تھی۔ قتل کی واردات کے بعد لندن سے سری لنکا اور پھر پاکستان آنے والے دو ملزمان حکومت کی تحویل میں ہیں۔ پہلی مرتبہ چوہدری نثار نے برطانوی سفیر سے ملاقات کرکے ان کے انٹرویو پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ دو حکومتوں کا یکجا ہوجانا ایم کیو ایم کے لیے نیا مسئلہ ہے۔ ایسا مسئلہ جو اس سے قبل پیش نہیں آیا۔ لندن ہی میں منی لانڈرنگ کے الزامات پر اسکاٹ لینڈ یارڈ نے متحدہ کا جینا دوبھر کردیا ہے۔

مہاجروں اور اردو بولنے والوں کے نام سے سیاست کرنے والی ایم کیو ایم پانچویں مسئلے سے بھی دوچار ہے۔ یہ اچانک تو پیش نہیں آیا لیکن اس کا ذکر ان دنوں کچھ زیادہ ہی ہورہاہے۔ پچیس تیس سال قبل کراچی میں اردو بولنے والوں کی اکثریت تھی۔ وہ شہر قائد کی سب سے بڑی اکائی اور پچاس فیصد سے زیادہ تھے۔ اب ملک اور صوبے کے دوسرے شہروں سے آنے والوں نے آبادی کے تناسب کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ مہاجر سے متحدہ بننے والی اور پٹھانوں و پنجابیوں کے لیے اپنے در کھولنے والی دونوں صوبوں میں اپنا ووٹ بینک نہیں بناسکی ہے۔ کراچی و حیدرآباد پر انحصار کرنے والی ایم کیو ایم جانتی ہے کہ صورت حال 90 کے عشرے والی نہیں رہی، کراچی کی دیگر لسانی اکائیاں اپنا وزن ایک پلڑے میں ڈال کر متحدہ کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ پتنگ، تیر، ترازو اور شیر کو ووٹ دینے والے اردو بولنے والوں نے اپنا وزن بھی ایک جانب کرلیا تو مشکلات مزید بڑھ سکتی ہیں۔

صولت مرزا وہ چھٹا مسئلہ ہے جس سے متحدہ کو حالیہ دنوں میں سابقہ پیش آیا۔ سترہ سال تک جیل میں رہنا کسی بھی سیاسی کارکن کے لیے برصغیر میں سب سے بڑی مدت ہے۔ گاندھی جی، حسرت موہانی اور ابوالکلام آزاد صف اول کے قائدین تھے۔ پچیس سال کے ہیں۔ ہینڈسم نوجوان کے مقابل ایک بیالیس سال کے ادھیڑ عمر کی تصویر اصل فرق پیدا کررہی ہے۔ گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھانے کی کوشش کی تو متحدہ نے پوچھا کہ پھانسی سے چند گھنٹے قبل ویڈیو کیسے ریکارڈ کی گئی اور یہ کیونکر باہر آگئی۔

پے در پے سوالات اور مخالف سیاسی پارٹیوں کے اٹھائے گئے نکات کا جواب ایم کیو ایم بمشکل دے پا رہی تھی۔ ابھی یہ سلسلہ تھما ہی تھا کہ صولت مرزا کی اہلیہ کے بیانات نے نیا بھونچال پیدا کردیا۔ پارٹی کے مرکز چھاپے، ایف آئی آر کے اندراج، قیادت و کارکنوں کی گرفتاریوں، میڈیا ٹرائل کے الزامات اور آخر میں مسٹر و مسز صولت مرزا۔ ان پے در پے نصف درجن مسائل نے ایم کیو ایم کی قیادت کو ذہنی طور پر تھکا دیا ہے، تھوڑے غیر نمایاں و غیر فعال ہوکر سنبھلا جاسکتا تھا لیکن ایک اور مسئلے نے آرام کے ایک موقعے کو گنوا دیا۔ نبیل گبول کے عزیز آباد والی سیٹ سے استعفے نے ایک نئی انتخابی مہم میں جھونک دیا ہے۔

ایم کیو ایم کے قائدین کی بڑھتی عمریں ساتواں مسئلہ ہے۔ 80 کی دھائی میں پچیس تیس سال کی اوسط عمر والے قائدین اب مختلف صورتحال سے دوچار ہیں، تعلیم یافتہ نوجوانوں کی سیاسی میدان میں بھرپور کامیابی نے بوڑھوں کی پارٹیوں کو سندھ کے شہری علاقوں سے آؤٹ کردیا تھا، وہ نئی صدی کے دوسرے عشرے میں پچپن ساٹھ سال کی عمر کو چھو رہے ہیں، اب عمران جیسے اسپورٹس مین اور سراج الحق جیسے کم عمر سے سابقہ ہے، ممکن ہے کل بلاول اور حمزہ سے بھی معرکہ آرائی ہو، تعلیم اور مقبولیت کے ساتھ توانائی کی جو برتری متحدہ کو حاصل تھی وہ اب دوسری جانب بڑھ رہی ہے۔

الطاف حسین پارٹی پر اپنی کمزور گرفت کا اعتراف کرچکے ہیں، یہ آٹھواں مسئلہ ہے جو حالیہ دنوں میں سامنے آیا ہے۔ ربع صدی سے ہزاروں میل دور سے پارٹی کنٹرول کرنا قابل تعریف سمجھا جاتا ہے۔ پارٹیاں وراثت سے کنٹرول ہوتی ہیں یا انتخابات سے پاکستان میں دونوں سے دوری ایک بڑا مسئلہ ہے جس کا متحدہ کو سامنا ہے۔

دھیمے سروں اور ہلکی آنچ پر ہولے ہولے قدم بڑھائے تو قابو پاسکتی ہے، اپنی تمام مشکلات پر اور ذہانت سے حل کرسکتی ہے جو درپیش ہے، ایم کیو ایم کو آٹھ نئے مسائل۔


محمد ابراہیم عزمی ایڈووکیٹ

کرکٹ: پاکستان کے قومی مزاج کا عکاس....

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live