Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

اسلام اور ریاست پر ایک معروضی نظر....پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد

0
0


اسلام وہ واحد دین ہے جو اپنے ماننے والوں سے ہر قدم پر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خالق کائنات کی نازل کردہ ہدایات و احکام کو غور، فکر اور تحقیق کرنے کے بعد اختیار کریں۔ اسی بنا پر قرآن و حدیث اسلام کو مذہب نہیں بلکہ دین قرار دیتے ہیں۔’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے‘‘ (آل عمران۱۹) ین قرآن کریم کی ایک جامع اصطلاح ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کی بندگی اور اللہ کی حاکمیت قائم کرنے سے عبارت ہے۔یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ قرآن کریم میں خلافت کی اصطلاح اپنی مختلف شکلوں میں ۱۴ مقامات پر استعمال ہوئی ہے۔ سورۃ النور،سورۃ الاعراف اور سورۃ الانعام میں استخلاف کی اصطلاح کی وضاحت قرآن کریم خود کر رہا ہے کہ اللہ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ایک قوم کو خلافت یا حکمرانی کا دیا جانا۔

دیگر مقامات پر اور خود تخلیق آدم کے واقعہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ملائکہ سے انسان کا تعارف خلیفہ کی اصطلاح سے کرایا ۔ ظاہر ہے کہ قرآن کریم ایک نہیں ۱۴ مقامات پر اس اصطلاح کو اس کی مختلف شکلوں میں استعمال کر رہا ہے تو اسے اسلامی اصطلاح ہی ہونا چاہئے۔یہ سوال اٹھانا بھی ہر غیرمسلم اور مسلمان کے لیے ممنوع نہیں کہ ’’کیا اسلام میں ریاست کا کوئی مذہب ہے؟‘‘ یا دوسرے الفاظ میں کیا اسلامی ریاست ایک سیکولر ریاست ہے؟ یا ایک وقت میں یورپ میں پائی جانے والی کلیسائی ریاست (Theocracy) کے مماثل ہے؟گو یہ سوال نہ تو نیا ہے اور نہ اس بات کا مستحق ہے کہ اسے ایک نئی بحث یا ردِّبیانیہ یا صرف بیانیہ کا عنوان دے کر ندرت خیال تصور کر لیا جائے۔ 

یہ بات سینکڑوں مرتبہ مستشرقین اور مغربی جامعات سے اسلامیات میں ڈاکٹریٹ کرکے آنے والے دانشور دہراتے رہے ہیں۔ غیرمحسوس طور پر وہ تجربی طریق تحقیق پر ایمان باالغیب لانے کے بعد اسی عینک سے اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو انہیں یا اسلام سیکولر نظر آتاہے یا تھیوکریٹک۔ اس لیے ہم نے یہ گزارش کی کہ اسلام اور ریاست کے موضوع پر ایک معروضی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔

یہ مفروضہ کہ ’’اسلام کی دعوت اصلاً فرد کے لیے ہے‘‘ ایک بنیادی مغالطہ ہے۔ کم از کم قرآن کریم اور سنت مطہرہ اس تصور کو پیش نہیں کرتے۔ اسلام کا تصور عبادت دیگر مذاہب سے جوہری طور پر مختلف اس بنا پر ہے کہ یہاں مسئلہ محض ذاتی نجات کا نہیں ہے بلکہ اپنے ارد گرد کے افراد کی اصلاح اور اخروی کامیابی کی فکر کا ہے۔ اسلام کے تصور عبادت کی روح اجتماعیت میں ہے اور توحید کا مطالبہ ہے کہ کاروبار حیات کے تمام شعبوں میں اللہ کی حاکمیت اور حتمی اقتدار کو نافذ کیا جائے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اسلام فرد کا تو دین ہو لیکن جس نظام سیاسی میں وہ رہے وہ مشرکانہ، جاہلانہ یا مادہ پرست ہو۔ اگر ہم قرآن کریم سے اس کا جواب پوچھیں تو صاف طور پر یہ بات کہی گئی ہے مقتدرِ اعلیٰ صرف خدا کی ذات ہے۔

 حاکمیت کا دائرہ اثر صرف ذاتی معاملات میں نہیں بلکہ یکساں طور پر سیاسی، معاشی، معاشرتی، ثقافتی، قانونی اور بین الاقوامی معاملات میں بھی ہے۔
یہ نہیں ہو سکتا کہ مسجد میں تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اعظم، اعلیٰ اور اکبر ہو لیکن پارلیمنٹ میں پارلیمان اعلیٰ، اکبر اور اعظم بن جائے اور پارلیمان طے کرے کہ اسلام کےکس حکم کو ماننا اور نافذ کرنا ہے اور کس کو نظر انداز کر دینا ہے۔ نہ یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سبحانہ و تعالیٰ مسجد میں تو سجدہ کا مستحق ہو لیکن تھوک بازار میں کھوٹے سکے سجدے کے مستحق بن جائیں یا نام نہاد ثقافتی دنیا تہذیب کا معیار بن جائے۔

اگر پھر بھی اصرار کیا جائے تو معروضی طور پر اس دور کے معروف مفسر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کی تالیف ’’اسلامی ریاست‘‘ کا مطالعہ کر لیا جائے۔ کم از کم وہ حضرات جو مجازی طور پر انہیں کسی وقت اپنا استاد مانتے رہے ہوں اس کتاب کا مطالعہ ان کے تصور خلافت کے خطوط پر چھائی ہوئی دھند کو بآسانی دور کر دے گا۔یہ کہنا بھی کہ’’اسلام میں قومیت کی بنیاد اسلام نہیں ہے جس طرح کے عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ 

تحریک پاکستان کے مخالفین کا استدلال یہی تو تھا کہ مسلمان کوئی الگ قوم نہیں ہیں چنانچہ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم، مولانا حسین احمد مدنی مرحوم اور جمعیت علماء ہند کے دیگر زعماء نے اس تعبیر پر ایمان رکھتے ہوئے انڈین نیشنل کانگریس کا ساتھ دیا جبکہ علامہ اقبال، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا عبد الحامد بدایونی اور مولانا مودودی نے مسلمانوں کے ایک الگ قوم ہونے کے تصور کی نہ صرف حمایت کی بلکہ مولانا مودودی نے اپنی کتاب ’’مسئلہ قومیت‘‘ میں جمعیت علماء ہند کے تصور قومیت کو قرآن و سنت کی روشنی میں رد کیا اور مسلم لیگ نے اس کتاب کو بڑے پیمانے پر ملک میں تقسیم کیا۔

مسلمانوں کے ایک قوم ہونے کے حوالہ سے قائد اعظم محمدعلی جناح کی ایسوسی ایٹڈ پریس امریکہ کے نمائندہ سے گفتگو تصور کی وضاحت کرتی ہے۔
The difference between the Hindus and Muslims is deep-rooted and ineradicable, we are a nation with our own distinctive culture and civilization, language and literature, art and architecture, names and nomenclature, sense of value and proportion, legal laws and moral codes, customs and calendar, history and traditions, aptitude and ambitions, in short we have our own distinctive outlook on life and of life. By any canons of international law we are a nation. [Interview to Preston Crom of Associated Press of America, Bombay, July 1, 1942, K.A.K Yusufi, edit, "Speeches, Statements and Messages of the Quaid-e-Azam", Lahore, Bazm-e-Iqbal, 1996, Vol III, P. 1578.
قرآن کریم اہل ایمان کو ایک دوسرے کا بھائی اور ایک سیسہ پلائی دیوار اور ــ’’خیر امت‘‘ یا ’’امت وسط‘‘ کے نام سے پکارتا ہے۔ اس امت کی بنیاد نہ رنگ ہے، نہ نسل، نہ زبان، نہ جغرافیائی سرحدیں۔ 

علامہ اقبال کی مولانا حسین احمد مدنی مرحوم پر شدید تنقید اور یہ سوال کہ ہند میں مسلمان سید بھی ہیں مرزا بھی ہیں افغان بھی ہیں لیکن یہ بھولے ہوئے ہیں کہ وہ مسلمان بھی ہیں، نسل اور ذات پر مبنی قومیت کے علمبرداروں کے موقف کو مسترد کرتا ہے۔قرآن کریم نے مختلف مقامات پر اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں کا تذکرہ کرکے اس غلط فہمی کی اصلاح کر دی ہے کہ ’’ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا‘‘ چنانچہ فرمایا گیا:’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ (نظام) نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔‘‘ الحج ۲۲:۴۱

ان چار اہم کاموں کو کون کرے گا؟ کون زکوٰۃ وصول کرکے تقسیم کرے گا؟ محصلین زکوٰۃ کا تقرر کون کرے گا؟ امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انفرادی ہے تو پھر یہ کیوں کہا کہ جب انہیں اقتدار بخشیں گے تو وہ یہ کام کریں گے؟ تحقیق کی دیانت کا تقاضا ہے کہ خلط مبحث نہ کیا جائے اور قرآن کریم اور سنت مطہرہ کے واضح احکام کو بلا کسی دلیل کے مختلف فیہ نہ بنا یا جائے۔ اس طرزِ فکر کو نہ تو جدت سے اور نہ اجتہاد سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اختلاف رائے بلا شبہ امت کے لیے رحمت ہے لیکن جب تک وہ ادب اختلاف کے دائرہ میں ہو۔

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد
"بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ


یورپین پارلیمنٹ اور پاکستان...

0
0


پنٹاگون کے بعد برسلز میں واقع یورپین پارلیمنٹ کو دنیا کی بااثر ترین عمارت سمجھا جاتا ہے۔ 200 میٹر کے احاطے میں یورپین پارلیمنٹ،یورپین کمیشن اور یورپین کونسل کے دفاتر ایک ہی عمارت میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یورپی یونین کے قیام کے بعد فرانس، اٹلی، اسپین اور جرمنی سمیت متعدد ممالک اتفاق رائے سے اس عمارت کا قیام عمل میں لائے تھے جس نے یورپ کے 28 ممالک کو آج تک مضبوطی سے تھاما ہوا ہے۔ یورپین کمیشن انہی 28 ممالک کے بیوروکریٹس پر مشتمل ایک کمیشن ہے جس کی سربراہی ایک کمشنر کرتا ہے۔

جبکہ یورپین کونسل میں یورپ کے 28 ممالک کے سربراہ مملکت شریک ہوتے ہیں اور اس کا حصہ ہوتے ہیں۔ یورپین پارلیمنٹ جس میں پورے یورپ سے مختلف نمائندے عوام کے براہ راست ووٹ سے منتخب ہو کر آتے ہیں۔ یورپین پارلیمنٹ کے تین ہفتے تک اجلاس برسلز جبکہ ایک ہفتہ اسٹاس برگ (فرانس) میں ہوتے ہیں۔مشہور جی ایس پی پلس کی ووٹنگ بھی اسٹاس برگ میں اجلاس کے دوران ہوئی تھی۔

اس وقت یورپین پارلیمنٹ کے ممبران کی تعداد 751 تک پہنچ چکی ہے۔ سب سے زیادہ برطانیہ کے نمائندے اس میں شریک ہوتے ہیں۔ اس اسمبلی کی خوبصورتی یہ ہے کہ ہر 6 ماہ بعد اس کا صدر تبدیل ہوجاتا ہے اور صدارت کسی دوسرے نمائندہ ملک کو چلی جاتی ہے۔ یورپین پارلیمنٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی واحد عوامی نمائندہ اسمبلی ہے جس میں دنیا کے ہر مذہب کے افراد موجود ہیں۔ عظیم نیلسن منڈیلا نے اسی عمارت کے بارے میں کہا تھا کہ یہ دنیا میں جمہوریت کی علامت ہی نہیں بلکہ امن کی بھی ضامن بنتی جا رہی ہے۔ جس نے ان ممالک کو بھی جوڑا ہوا ہے جو دہائیوں تک ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہے ہیں۔

گزشتہ روز یورپی یونین کے دعوت نامے پر اس تاریخی عمارت میں جانے کا اتفاق ہوا۔کانچ کی بنی ہوئی گول عمارت میں داخل ہوا تو 28 ممالک کے جھنڈوں کے بیچ میں یورپی یونین کا نیلا جھنڈا آنے والے مہمانوں کا استقبال کر رہا تھا۔ استقبالیہ دروازے پر برطانیہ سے منتخب ہونے والے یورپی پارلیمنٹ کے ممبر سجاد کریم سے ملاقات ہو گئی۔ سجاد کریم یورپین پارلیمنٹ کے صدر کے ہمراہ کسی پریس بریفنگ میں شرکت کے لئے جا رہے تھے۔ یورپین پارلیمنٹ میں دنیا کے جدید ترین اسٹوڈیوز، لائیو نشر کرنے کا نظام اور صحافیوں کے لئے تین شاہکار پریس روم بنائے ہوئے تھے۔

 جہاں پر دنیا کے مشہور نشریاتی اداروں کے معروف صحافی پیشہ وارانہ خدمات میں مگن تھے۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ایک درجن سے زائد اسٹوڈیووں میں دنیا بھر سے آنے والا کوئی بھی صحافی پروگرام ریکارڈ کر سکتا ہے۔ پارلیمنٹ کی بلڈنگ میں براہ راست نشریات کےلئے اس قدر جدید آلات نصب تھے کہ پاکستان کے تمام نشریاتی ادارے مل کر بھی ایسا خودکار نظام نہیں بنا سکتے۔ پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینلز سے لے کر تمام پرائیویٹ نشریاتی اداروں کے نیوز روم اور ماسٹر کنڑول روم سمیت پی سی آر کا دورہ کیا ہے، یورپین پارلیمنٹ میں موجود میڈیا کوریج کے حوالے سے جدید نظام دیکھ کر آنکھیں دنگ رہ گئیں۔

ایک رکن پارلیمنٹ سے دریافت کیا کہ 12 اسٹوڈیوز سمیت متعدد جدید آلات کی ایک پارلیمنٹ میں موجودگی کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی ۔جس پر رکن پارلیمنٹ مسکرائے اور کہنے لگے کہ یہاں پر کوریج کرنے کے لئے آنے والے صحافیوں کو یہ تمام سہولتیں دینے کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے دور افتادہ علاقوں سے آنے والے صحافیوں کو نشریاتی آلات،کیمرے وغیر ہ ساتھ نہ لانے پڑیں بلکہ یہ تمام سہولتیں بالکل مفت انہیں اس عمارت میں میسر ہیں۔ اگر کسی ادارے کا کوئی اینکر یورپین پارلیمنٹ کے اسٹودیو سے لائیو پروگرام نشر کرنا چاہے تو اس کے لئے بھی سہولت موجود ہے کہ اپ لنکنگ کےلئے فریکونسی نمبر اپنے نیوز چینل کو فراہم کردیں اور وہ سیٹلائٹ سے ہی نشر ہونے والے پروگرام کو کیچ کر لیں گے۔ 

یہ وہ سہولتیں ہیں جو ترقی یافتہ قومیں اپنی پارلیمنٹ کو فراہم کرتی ہیں۔ ایسے حالات کو دیکھ کر دل میں ہوک سے اٹھتی ہے کہ ایک ہماری پارلیمنٹ ہے جس میں شہر اقتدار کو چھوڑ کر ملک کے دور افتادہ علاقے سے آنے والے صحافی کی انٹری بھی مشکل سے کی جاتی ہے۔ جدید سہولتیں دینا تو بہت دور کی بات ہے۔پاکستان کے پارلیمنٹ کی پریس گیلری ہمارے حکمرانوں اور نظام پر ایک طمانچہ ہے۔

ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ سجاد کریم کی پولیٹیکل سیکریٹری تشریف لے آئیں۔ سیکریٹری صاحبہ کے ساتھ سجاد کریم کے دفتر کی جانب روانہ ہو گیا۔ 2 کرسیوں اور ایک میز پر مشتمل سادےدفتر میں دنیا کی مضبوط ترین پارلیمنٹ کا ممبر اپنے کام میں مگن تھا۔ سجاد کریم جو یورپی پارلیمنٹ میں فرینڈز آف پاکستان کے صدر بھی ہیں جبکہ یورپین پارلیمنٹ کے لیگل ایڈوائزر اور ترجمان بھی ہیں۔ سجاد کریم سے گفتگو شروع ہوئی۔وقت کی اہمیت کا مجھے احساس تھا کہ یہ پاکستان کی طرح نہیں ہے کام کے وقت یہاں کے ارکان پارلیمنٹ صرف کام کرتے ہیں۔پاکستان کو جی ایس پی پلس دلوانے میں سجاد کریم کا کلیدی کردار تھا۔اس لئے جی ایس پی پلس پر گفتگو کی کہ کیا سزائے موت کے دوبارہ آغاز سے پاکستان کو جی ایس پی کا درجہ ختم کردیا جائے گا۔جس پر سجاد کریم مسکرائے اور کہنے لگے کہ نہ ہی ایسا ہوگا اور نہ ہی ہم ایسا ہونے دینگے۔

اگر اس پارلیمنٹ نے ایسے کسی بھی اقدام کی طرف پیش قدمی کی تو وہ اور ان کے ساتھی چٹان کی طرح کھڑے ہو جائیں گے۔ لیکن پاکستان کو بھی کچھ توجہ دینا ہوگی۔ موقع کی نزاکت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے پوچھ ہی لیا کہ اگر اللہ نہ کرے مارشل لاء نافذ کر دیا جائے تو پھر آپ کا کیا جواب ہوگا۔ سجاد کریم جذباتی انداز میں کہنے لگے کہ کاش ایسا نہ ہو اگر ایسا ہوا تو جی ایس پی پلس تو دور کی بات ہے پوری دنیا پاکستان کے کردار پر شک کرنے لگے گی۔ 

سجاد کریم نے جس انداز میں گفتگو کی مجھے سمجھ آگئی کہ پاکستان میں غیر آئینی اقدام کو آج بھی دنیا نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی خواہش ہے کہ پاکستان میں بھی بھارت کی طرز کی جمہوریت، قانون کی بالادستی اور سب سے بڑھ کر سویلین اداروں کا احترام پیدا ہو۔ جو شاید آج کے پاکستان میں نہیں ہے۔

یورپین پارلیمنٹ سے تو باہر آچکا تھا مگر اب تک سجاد کریم کی گفتگو پر غور کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ پوری دنیا میں جہاں بھی غیر آئینی و غیر قانونی اقدام کی بات کی جاتی ہے۔ پاکستان سرفہرست ہوتا ہے۔ یورپین پارلیمنٹ بھی یہ کہتی ہے کہ سزائے موت پر جی ایس پی پلس کا درجہ ختم نہیں ہوگا البتہ مارشل لا پاکستان کے لئے تمام دروازے بند کر دے گا۔ اس دعا سے اس کالم کا اختتام کہ کاش پاکستان میں بھی جمہوریت کے علمبردار جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ مگر پھر خیال آتاہے کہ پہلے ہمیں فوجی عدالتوں، 21 آئینی ترمیم اور پروٹیکشن آف پاکستان آرڈیننس سے تو فرصت مل جائے۔

حذیفہ رحمان
"بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ

امریکی فوجی غرور کا خاتمہ.....

0
0

امریکی صدر براک اوباما یوکرائن کو ہتھیار بھجوانے کی تجویز پر غور کرتے ہیں۔کیا اس سے امریکی صدر کی توہین کا ایک پہلو نہیں نکلتا دکھائی دیتا؟ اگر حالیہ دنوں امریکا کی طرف سے کی جانے والے مداخلت کا حشر دیکھیں تو سپرپاور کی مزید جگ ہنسائی کے سوا اور کچھ نہیں۔ افغانستان میں تیرہ سال تک وحشیانہ جنگ لڑنے کے بعد امریکی افواج طالبان کے ہاتھ میدان چھوڑ کر رخصت ہورہی ہیں۔ ہزاروں جانیں اور اربوں ڈالر کے ضیاع کے باوجود واشنگٹن بہت کم جنگی اہداف حاصل کر پایا ہے۔

 عراق میں آج امن کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ مبہم ہیں۔ صدام حسین کا تختہ الٹنا اور ان کی فوج کو شکست دینا بہت آسان تھا، لیکن اس کے بعد خونریز خانہ جنگی نے ملک کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا جبکہ نسلی اور مسلکی کشمکش انسانی جانوں کا خراج لے رہی ہے۔ عراق کے زیادہ تر علاقے داعش کے قبضے میں ہیں اورشیعہ سنی گروہوں کے درمیان خونی جنگ جاری ہے۔

صدر قذافی کو اقتدار سے ہٹانے کی امریکی کوشش کی وجہ سے لیبیا بھی مکمل طور پر عدم استحکام سے دوچار ہوچکا ہے۔ اگرچہ قذافی ایک ظالم آمر تھے لیکن اُنھوں نے ملک کو یکجا کیا ہوا تھا۔ اب جنگجومسلح گروہ ہر طرف راج کررہے ہیں جبکہ ملک میں حکومت نامی کوئی چیز موجود نہیں۔وہاں جاری خانہ جنگی کاکوئی اختتام دکھائی نہیں دیتا ہے۔ آج یمن بھی افراتفری کی سرزمین ہے ۔ دارلحکومت پر حوثی قبائل کا قبضہ ہے جبکہ ایک مرتبہ پھر ملک کے دولخت ہونے کا خدشہ لاحق ہے۔ 

ان قبائل نے پنٹاگان کی طرف سے فراہم کیے ہوئے چارسو ملین ڈالر مالیت کے اُن ہتھیاروں پر قبضہ کرلیا ہے جو القاعدہ کا مقابلہ کرنے کے لیے بھجوائے گئے تھے۔ اس کے علاوہ قذافی کے اسلحہ خانہ سے مالی سے لے کر سنائی تک ہتھیاروں کی فروخت بھی جاری ہے۔ ان ہتھیاروں سے اُن علاقوں میں بھی خونریزی ہو رہی ہے۔ داعش کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ ہے کہ ان کے ہاتھ عراق کو فراہم کردہ امریکی ہتھیار آسانی سے لگ گئے تھے۔ اس سے بھی پیچھے تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ویت نام میں امریکی مداخلت کی وجہ سے وہاں داخلی خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ اس میں لاکھوں افراد بلا وجہ ہلاک ہو گئے۔ 

مجھے ابھی تک وہ منظر یاد ہے جس میں ایک امریکی ہیلی کاپٹر سیگون (Saigon) پر چکر لگارہا ہے جبکہ بہت سے شہری اس کے نیچے لٹکے ہوئے رسوں سے چمٹے ہوئے ہیں کیونکہ ویت کانگ کے گوریلے ویت نام کے دارلحکومت کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں۔

تاریخ کا یہ مختصر سا جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکی مداخلت کو تباہی سے تعبیر کرنامبالغہ نہ ہوگا۔ اگرچہ زیادہ تر امریکی اس بات کو تسلیم کرنے میں تامل سے کام لیتے ہیں کہ ا فغانستان میں ان کی فوج کو شکست ہوچکی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہوچکا ہے اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا ۔ بارہار امریکی افواج لاشیں چھوڑ کر میدان سے بھاگی ہیں لبنان اور صومالیہ جیسے ممالک سے بھی امریکی افواج بہت سے فوجیوں کی ہلاکت کے بعد فرار ہوگئیں۔

 اس کے باوجود بہت سے امریکی جنگی جنون میں مبتلا ہیں۔ وہ ابھی بھی دنیا کے مختلف علاقوں میں فوجی کارروائی کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔ گزشتہ سال صدر اوباما پر کتنا دباؤ تھا کہ وہ شام میں فوجی کارروئی کریں تاکہ بشار الااسد حکومت کا خاتمہ کیا جاسکے۔ واشنگٹن اور تل ابیب میں جنگی جنون رکھنے والے بہت سے افراد صدر اوباما پر تنقید کرتے رہتے ہیں کہ وہ ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے فضائی بمباری نہیں کرتے۔

شاید کلنٹ ایسٹ ووڈ (Clint Eastwood) کی فلم ’’امریکن سنائپر‘‘ کی باکس آفس پر بھاری کامیابی کی وجہ امریکیوں کا جنگ کے لیے نہ ختم ہونے والا جنون ہے۔ یہ فلم ایک امریکی فوجی، کرس کیل کی کتاب پر مبنی ہے۔ اس میں ایک سنائپر کی بہادری کی سچی کہانی بیان کی گئی ہے کہ وہ کس طرح طویل فاصلے سے کئی ایک عراقیوں کو نشانہ بناتا ہے۔ یقیناًہر ہلاکت پر امریکی سینما گھر تحسین کے نعروں سے گھونج اٹھتے ہوں گے۔ فلم کے ڈائریکٹر اور مصنف نے ہلاکت خیز انسانی مشین پر سے تمام شکوک و شہبات اور احساسِ جرم کے جذبات ختم کردیے ہیں ۔ 

ان کے نزدیک تمام عراقی وحشی اور ظالم ہیں، اس لیے ان کے ناظرین ان کی ہلاکت پر خوشی محسوس کرتے ہیں… ایک بہادر سنائپر طویل فاصلے سے ان کے جسموں میں گولیاں اتار رہا ہے اور وہ خوشی سے پاگل ہو رہے ہیں!
اب واپس یوکرائن کی بات کرلیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سرد جنگ کے زمانے میں کوئی امریکی لیڈر سوویت یونین کی سرحدوں کے نزدیک کسی کشمکش کا حصہ بننے کا حوصلہ نہ رکھتا تھا۔ اگرچہ 1956ء میں ہنگری میں ہونے والی شورش میں ہنگری عوام کے ساتھ امریکی ہمدردی موجود تھی، لیکن واشنگٹن نے بہت خاموشی سے سرخ فوج کو قتلِ عام کرتے دیکھا اور آواز تو کجا، بلند سانس تک نہ لیا۔ پرانے قارئین کو یاد ہو گا کہ جب ماسکو نے کیوبا میں میزائل نصب کرنے کی کوشش کی تو جان ایف کینڈی نے کیا ردِ عمل دکھایا۔ سنہ 1962ء کے ان دنوں دنیا ایٹمی تصادم کے خوف کے سائے منڈلاتے ہوئے محسوس کر رہی تھی۔

 چنانچہ یہ تصور کرنا کہ واشنگٹن کی حمایت سے سے ماسکو کے حمایت یافتہ رہنما کو منصب سے ہٹا کر مغربی ممالک یوکرائن میں اپنے حامی رہنما کو ہتھیارفراہم کرکے تقویت دیں گے اور ماسکو منہ دیکھتا رہے گا، روس کی تاریخ کو نظر انداز کرنے کی حماقت کے مترادف ہے۔ ایسا کوئی بھی اقدام یقیناً پیوٹن کو تصادم کی راہ دکھائے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس خطے میں کسی قابلِ ذکر امریکی مفاد کو خطرہ نہیں ہے۔ یوکرائن کے ووٹرز امریکی ووٹ بنک نہیں ہیں، یہاں نہ تو تیل ہے اور نہ ہی کوئی تجارتی بندرگاہ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہاں نہ تو امریکی بنک ہیں اور نہ ہی دیگر کارپوریشنز، چنانچہ کسی مالی مفاد کو خطرہ نہیں ہے۔ تو کیا امریکا صرف جنگی جنون کو تسکین دینے کے لیے پیوٹن کو تاؤ دلانے کا متحمل ہو سکتا ہے؟وہ اس راستے پر کیوں چل رہے ہیں؟ شاید وہ پیوٹن کو کمزور کرنا چاہتے ہیں؟ 

اس سے پہلے روس نے اسد کے خلاف یواین سکیورٹی کونسل کی قرارداد کو مستر د کرتے ہوئے امریکا کو تاؤ دلا دیا تھا۔ بہرحال ایسی کوئی بھی کوشش کرنے سے پہلے امریکا کو یاد رکھنا چاہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس نے بہت سے جنگوں میں حصہ لیا اور بہت سے خطوں پر فضائی بمباری کی لیکن ان سب کارروائیوں کا انجام بہت برا ہوا۔ کیا وقت نہیں آ گیا جب مزید کوئی کارروائی کرنے سے پہلے صدر اوباما اپنی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے کی زحمت کرلیں؟

عرفان حسین
"بشکریہ روزنامہ ’’دنیا

دینی مدارس:مسائل،اسباب اوراصلاحات...

0
0


مدارس میں اصلاحات کے حوالے سے ماضی میں متعدد کوششیں کی گئیں لیکن وہ کام یابی سے ہم کنار نہ ہو سکیں۔ حکومت مدارس کی اصلاحات کی طرف ایک بار پھر متوجہ ہوئی ہے۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ قاری حنیف جالندھری کہتے ہیں، ’’قومی ایکشن پلان پرہمیں سب سے پہلا اعتراض یہ ہے کہ اس میں تعلیمی ادارے کے بہ جائے مدارس کا لفظ شامل کر کے حکومت نے دینی مدارس کو مشکوک بنا دیا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت سے تین غلطیاں ہوئیں۔ 

مدارس کی رجسٹریشن کی بات کر کے حکومت نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ مدارس رجسٹر ڈنہیں ہیں۔ حالاں کہ 2005 کے معاہدے کے تحت ہمارے مدارس رجسٹرڈہیں۔ہم مدارس کی نگرانی کے پرانے قوانین مانتے ہیں اس لیے نیا قانون لانے کی ضرورت نہیں تھی۔ مدارس کی فنڈنگ کے حوالے سے 2005 میں ہمارا حکومت سے جو معاہدہ ہوا تھا اس میں یہ بات پہلے سے طے کر دی گئی ہے کہ مدارس اپنا آڈٹ کروا کر اس کی ایک کاپی ضلع کچہری میں جمع کروا ئیں گے۔ اس پر تمام مدارس عمل پیرا ہیں۔‘‘ مولانا حنیف جالندھری مدارس کی تعلیم سے مطمئن نظر آتے ہیں۔

 وہ کہتے ہیں ، ’’اگر ہم پاکستان کے آئین کے مطابق معاشرہ بنا لیں تو مدارس کا فارغ التحصیل ہمارے نظام کا بہترین پرزہ بن سکتا ہے۔ ‘‘ مذہبی امور کے وفاقی وزیر سردار محمد یوسف کہتے ہیں کہ مدارس کے منتظمین کی مشاورت سے سروے پر کام تیزی سے جاری ہے اور بہت جلدمدارس کے حوالے سے ایسا نظام تشکیل پا جائے گا، جس پر مدارس اور حکومت دونوں متفق ہوں گے۔ غیر رجسٹراور خفیہ طور پر چلائے جانے والے مدارس نے خود کو رجسٹر نہ کرایا تو ان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے۔ 

دینی مدارس اور طالب علموں کی تعداد دینی مدارس مسلکی بنیادوں پر 5 مدارس بورڈ سے وابستہ ہیں۔ ان میں وفاق المدارس العربیہ (دیوبندی) ، تنظیم المدارس (بریلوی) ، وفاق المدارس السلفیہ (اہل حدیث) رابطہ المدارس الاسلامی (جماعت اسلامی) اور وفاق المدارس الشیعہ (اہل تشیع) شامل ہیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2006 میں 13 ہزار مدرسے تھے ، جن کی تعداد اب دگنی ہوچکی ہے۔ ملکی اور غیر ملکی تحقیقاتی اداروں، این جی اوز اور اخبار و رسائل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میںرجسٹر مدارس کی تعداد قریباً 30 ہزار ہے۔ جب کہ غیر رجسٹرر مدارس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پاکستان میں گزشتہ چند برسوں سے دینی مدارس میں داخلہ لینے والے طلبہ و طالبات کی تعداد میں اوسطاً 20 فی صد سے زائد اضافہ ہُواہے۔

 وفاق المدارس العربیہ پاکستان، رابطہ المدارس الاسلامیہ پاکستان ’تنظیم المدارس پاکستان ‘ وفاق المدارس السلفیہ پاکستان کے تحت ملک بھر میں 20 ہزار سے زائد مدارس میں دینی تعلیم دی جاتی ہے ،جب کہ پانچ ہزار سے زائد ایسے مدارس ہیں جو کسی بھی وفاقی بورڈ سے تعلق نہیں رکھتے بل کہ آزاد حیثیت سے کام کرتے ہیں، غیر رجسٹر مدارس اس کے علاوہ ہیں۔ مدارس کی طرح یہاں زیر تعلیم طالب علموں کی تعداد سے متعلق درست اعدادوشمار بھی دست یاب نہیں ہیں۔ مدارس میں اصلاحات کی کوششیں نوازشریف کے دورِ حکومت( 1998) میں ایک تعلیمی پالیسی متعارف کروائی گئی، جس میں مدارس کی اصلاحات بھی شامل تھیں ۔ 

پالیسی کا مقصد دینی مدارس اور روایتی تعلیمی اداروں کے درمیان موجود خلیج کو کم کرنا تھا ۔ 12 اکتوبر 1999 کو منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے کے باعث اس پالیسی پر عمل نہ ہوسکا۔ 2001 میں ایک آرڈیننس کے ذریعے’’ پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ‘‘بنایا گیا لیکن حقیقی طور پر یہ بورڈ کبھی سامنے نہ آسکا۔ دوسری طرف وفاق المدارس العربیہ،تنظیم المدارس اور رابطہ المدارس نے حکومت کے تشکیل کردہ بورڈ میںیہ کہتے ہوئے شمولیت سے انکار کردیاکہ بورڈ میں مختلف مسالک کی نمایندگی موجود نہیں ہے۔ اگست 2009 میںپیپلز پارٹی کی حکومت نے اسلام آباد اور اس کے نزدیکی شہروں میں قائم مدارس کے لیے ایک سروے فارم کا اجراء کیا ۔ فارم کا مقصد مدارس سے متعلق مکمل کوائف جمع کرنا تھا۔

 لیکن دینی مدارس نے فارم کے کوائف غیر متعلقہ اور غیر ضروری قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔ 2010 کے اختتام پر وزارتِ داخلہ نے مْلک کے پانچ بڑے مدارس کے بورڈز پر مْشتمل’’ اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان‘‘ (آئی ٹی ایم پی) کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ، جس کے تحت مدارس کو مذہبی تعلیم کا نصاب ترتیب دینے میں خود مختاری دی گئی لیکن انہیں حکومت کے تجویز کردہ نصاب کے مطابق ریاضی، سائنس اور معاشرتی علوم کے مضامین کی تعلیم شروع کرنے کا بھی پابند بنایا گیا ۔اس معاہدے میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ مدارس کے مذہبی نصاب میں کیا کیا چیزیں شامل ہوں گی۔

شفیع موسیٰ منصوری

کتابوں کا سال

شہرہ آفاق مصور،شاعر، خطاط اور نقاش صادقین.....

0
0


محمد کاظم

پاکستان کے شہرہ آفاق مصور،شاعر، خطاط اور نقاش صادقین کا پورا نام سید صادقین حسین نقوی تھا۔ مصوری کے علاوہ انھوں نے غالبؔ اور اقبالؔ کے کلام اور آیات ِ قرآنی کو بھی خطاطی کے قالب میں ڈھالا۔ اُن کا فن، ماورائے عصر تھا اور ہمیشہ رہے گا۔صادقین کے ذہن میں تخلیق کا آبشار بہتا تھا۔ ان کی خطاطی و مصوری کے نمونے فیصل مسجد اسلام آباد، فریئر ہال کراچی، نیشنل میوزیم، صادقین آرٹ گیلری اور دنیا کے ممتاز عجائب گھروں میں موجود ہیں۔

 صادقین نے مصوری کے منفرد نمونے پیش کر کے جہاں انھیں تخلیقی شاہکار بنا دیا ،وہیں رباعیات کہنے میں بھی ان کو کمال حاصل تھا اور دوسرے شعرا کی طرح انھوں نے صرف منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ہی رباعیات نہیں کہیں بلکہ اسے فن کے طور پر لیا، یہی وجہ ہے کہ ان کی رباعیات میں بے ساختہ پن ہے: ایک بار میں ساحری بھی کر کے دیکھوں کیا فرق ہے شاعری بھی کر کے دیکھوں تصویروں میں اشعار کہے ہیں میں نے شعروں میں مصوری بھی کر کے دیکھوں پاکستان میں صادقین کی پہلی تصویری نمائش 1954ء میں منعقد ہوئی۔

 بعد ازاں یورپ بالخصوص فرانس میں ان کے فن پاروں کو زبردست پذیرائی ملی۔ مارچ 1970ء میں انھیں تمغۂ امتیاز اور1985ء میں ستارہ ٔامتیاز سے نوازا گیا۔صادقین کی پیدائش امروہہ میں 1930ء میں ہوئی تھی۔ چونکہ ان کے والد خطاط تھے، اس لیے انھوں نے بھی اسی فن کو اپنایا حالانکہ اس وقت ہی ان کو شعر و شاعری کا عارضہ بھی لاحق ہو گیا تھا، جس کا اظہار وہ ایک رباعی میں خود ہی کرتے ہیں: شب میری تھی، رات میری، دن تھا میرا آیا ہوا خود مجھ پہ ہی جن تھا میرا کتنی ہی رباعیاں تھیں لکھ کر پھاڑیں اٹھارہ برس کا جب کہ سن تھا میرا صادقین کو اس بات پر بھی فخر تھا کہ دنیا میں ان کا کوئی ہم نام نہیں : گر اپنی ثنا عام نہیں دنیا میں پھر تو مجھے کچھ کام نہیں دنیا میں یکتائی کا دعویٰ فقط اس بات پہ ہے کوئی میرا ہم نام نہیں دنیا میں صادقین کی رباعیوں میں رومان کی ایک لہر بھی کروٹ لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے،

 لیکن ان کی تصاویر اور ان کے تصورِ فن کی طرح اُن کا یہ رومان بھی دوسروں سے جداگانہ ہے : کھلتی ہوئی کلیاں ہیں، چمن کی تیرے رنگیں سی روشنی ہے، تن کی تیرے خلوت کی ہر اک شے پہ ہے ہلکی ہلکی چھٹکی ہوئی چاندنی، بدن کی تیرے الغرض دنیا بھر میں صادقین کے فن کی دھوم مچی، پاکستان میں بھی تو مختلف مقامات پر اُن کے خطاطی کے نمونے نظر آتے ہی ہیں۔ ہندوستان میں بھی دہلی کے اسلامک انسٹی ٹیوٹ کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس، حیدرآباد اور کئی شہروں میں صادقین کی مصوری کے نمونے لوگوں کی نظروں کو اپنی جانب بے محابہ کھینچ لیتے ہیں۔

 پاکستان میں جہاں انہیں اعزازات سے نوازا گیا ، وہیں ہندوستان میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور بنارس میں ہندو یونیورسٹی نے بھی انہیں اعزاز بخشا تھا، لیکن صادقین کی طبیعت قلندرانہ تھی اس لیے وہ کسی منزل پر رکتے نہیں تھے۔ حالانکہ ان کی خطاطی پر جو تنقید ہوئی، اس سے بھی وہ کسی قدر بدحظ نظر آتے ہیں، جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں: جو نقش تھے پامال بنائے میں نے پھر الجھے ہوئے بال بنائے میں نے تخلیق کے کرب کی جو کھینچی تصویر پھر اپنے خد و خال بنائے میں نے صادقین اپنے آرٹ میں سرتاپا ڈوبے رہے اور10 فروری 1987ء کو کراچی میں ان کا انتقال ہو گیا۔

نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا....وسعت اللہ خان

0
0

دو روز پہلے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے اسلام آباد میں دو مارکیٹوں کا اچانک دورہ کرکے پھلوں اور سبزیوں کے ریٹ معلوم کیے اور انھیں یہ جان کے مسرت ہوئی کہ پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے نتیجے میں آلو ، پیاز، گاجر اور کیلے وغیرہ کی قیمت میں خاصی کمی ہوگئی ہے۔

یہ دورہ اتنا اچانک تھا کہ اس سے پہلے علاقے کی سڑک ازخود صاف ہوگئی اور پہلے سے موجود باوردی پولیسں ، سادہ محافظوں ، چند صحافیوں اور میڈیائی فوٹو گرافروں کے سوا کسی کو اس کی خبر نہ تھی۔دکان دار اور گاہک خوش گوار حیرت سے دوچار ہوئے اور وزیرِ اعظم جس بھی پھل اور سبزی فروش کے پاس گئے اس نے یہی بتایا کہ سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں نیچے آنے کا سبب پٹرول کی قیمت میں کمی ہے۔حالانکہ سبزیاں اور پھل پٹرول کے بجائے پانی سے اگائے جاتے ہیں، پھر بھی ان کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے لیکن ٹرانسپورٹ جو پانی کے بجائے پٹرول سے چلتی ہے اس کے کرایوں میں کمی ہونا ابھی باقی ہے۔ یا بوالعجبی تیرا ہی آسرا۔۔۔

بچپن میں ہم سب سنا کرتے تھے کہ پرانے زمانے میں بادشاہ اور گورنر لوگ رعایا کا حال معلوم کرنے کے لیے فقیروں کا بھیس بدل کر تماشائے اہلِ کرم دیکھتے تھے۔کسی سرائے یا چائے خانے میں بیٹھ کے لوگوں کی باتیں سنا کرتے۔ یا گھوڑے پر بیٹھ کے کہیں نکل جاتے۔کہیں سے کوئی چھوٹی موٹی شے خرید لیتے اور یہ یوں اصلی باتصویر آگہی حاصل کرتے۔

جہاں جہاں یہ بادشاہ اور گورنر لوگ خود نہیں پہنچ سکتے تھے وہاں وہاں ان کے خصوصی خفیہ وثیقہ نویس مقامی انتظام اور روزمرہ زندگی کی رپورٹیں بنا کر براہِ راست بادشاہ یا گورنر کو بھیجتے۔اس لیے سب انتظام الف کی طرح سیدھا رہتا تھا۔مگر یہ تب کی بات ہے جب اخبار ، کیمرہ اور صحافی ایجاد نہیں ہوا تھا اور مورخ بادشاہ کا وظیفہ خوار تھا اور انصاف ایسا خوار نہ تھا۔ایک معمولی دراروغہ بھی بادشاہ کا نمایندہ سمجھا جاتا تھا اور قانون توڑنا بادشاہ سے بغاوت کے برابر تھا اور بغاوت کی سزا بادشاہ کی صوابدید پر تھی۔

اب حالات وہ نہیں رہے۔بادشاہ کو عوام کے حالات معلوم کرنے کی خاطر ان کے درمیان گھومنے کے لیے اس لیے بھیس بدلنے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ آج بادشاہ کے بجائے نظام بھیس بدلتا ہے۔کبھی آمریت کی چادر تو کبھی فسطائیت کی ٹوپی تو کبھی نظریاتی فرغل تو کبھی نیم جمہوری شیروانی تو کبھی بور ژوا جمہوریت کا مکھوٹا تو کبھی عوامی راج کا جبہ۔مارکیٹ میں ایک ہی نظام کے اس قدر ایک اور دو نمبر سستے ، مہنگے بھیس دستیاب ہیں کہ اصل درمیان میں کہیں کھو گیا ہے اور عام لوگ ان حالات میں اس قدر بھیرا گئے ہیں کہ بھیس اور بھینس میں فرق سے بھی گئے۔

ویسے بھی ٹوٹ پھوٹ اور ابتری کے دور میں بادشاہ یا نظام بھیس بدلے بھی تو کیا نہ بھی بدلے تو کیا۔نظام جو بھی تھا جب تک سلامت تھا تب تک ٹرین وقت پر چلوانا زیادہ سے زیادہ ڈویژنل سپریٹنڈنٹ ریلوے کے دفتر کی ذمے داری تھی۔اب وزیرِ ریلوے کو کریڈٹ لینا پڑتا ہے کہ میں نے ٹرین وقت پر چلوا دی۔ایف آئی آر کٹوانے کے لیے محرر تک رسائی کافی تھی، اب اس کے لیے بھی کم ازکم وزیرِ اعلی درکار ہے۔کسی گھر یا اراضی کا قبضہ چھڑوانے کے لیے علاقے کے تحصیلدار یا اسسٹنٹ کمشنر لینڈز کے دفتر کے ایک دو چکر لگانا بہت تھا۔اب تو گورنر محمد سرور بھی لینڈ مافیا کے سامنے بے بس ہو کر استعفیٰ دے دیتا ہے۔
پہلے تفتیش کا کام پولیس کے سپرد تھا اور کانسٹیبل کی رپورٹ کا سپریم کورٹ تک حوالہ جاتا تھا۔اب تفتیشی کام دیگر ادارے کرتے ہیں اور پولیس زیادہ تر ان اداروں کے ڈاک خانے کا کام کرتی ہے۔ اسپتال میں داخلے کے لیے میڈیکل سپریٹنڈنٹ کے دفتر سے ملنے والی سلپ کام کروا دیتی تھی، اب سیکریٹری ہیلتھ کو فون کرکے ایم ایس سے کہنا پڑتا ہے ’’ یار مہربانی کرو، اس بندے کو وارڈ میں داخل کرلو’’۔ پہلے کسی کو داخلہ دینا نہ دینا ہیڈ ماسٹر یا ہیڈ مسٹریس کا اختیار تھا۔

اب کسی اچھے اسکول میں داخلے کے لیے وزیرِ تعلیم کو سائل کے ہمراہ بندہ بھیجنا پڑتا ہے۔روزمرہ اشیا ء کے نرخ اوقات میں رکھنے کے لیے بلدیہ کے پرائس کنٹرول انسپکٹر کا بازار سے گذر جانا بہت ہوتا تھا۔اب دودھ فروش اور قصابوں کی ایسوسی ایشن حکومت سے برابری کی بنیاد پر مشروط مذاکرات کرتی ہے اور وزیرِ اعظم کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم کرنے کے لیے بازار کا اچانک دورہ کرنا پڑتا ہے۔

جب اس قدر ادھم ہو کہ یہی سجھائی نہ دے کہ کس اہلکار کے پاس کیا اختیار اور کتنی بے اختیاری ہے۔کون سے ادارے کی سرحد کہاں سے شروع ہو کے کہاں ختم ہوتی ہے۔جہاں ٹیلی فونی زبانی احکامات تحریری احکامات سے زیادہ اہم قرار پائیں۔جہاں کوئی اہل کار اوپر سے پوچھے بغیر تبادلے اور سرزنش کے ڈر سے سیدھا سیدھا ، اصولی ، قانونی اور درست معمولی سا فیصلہ کرنے پر بھی تیار نہ ہو۔جہاں ایک عام سے وکیل کی اوپر تک رسائی سے کسی عام عدالت کا جج پریشان ہوجائے اور ایک معمولی سب انسپکٹر کی غیر معمولی پہنچ سے آئی جی بھی گھبرائے۔تو پھر کونسا حسنِ انتظام ، کیسی جواب دہی ، کس کا احتساب ، کون سے قانون کی عمل داری ، کہاں کا میرٹ اور کس قدر عوام دوستی ؟ یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں جو لوگوں نے پھیلائی ہیں۔تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں۔

مگر ایسا نہیں کہ جو ریاستی مشینری کے کرنے کے اہم اور بنیادی اور بڑے کام ہیں وہ نہیں ہورہے۔کوئی تو کررہا ہے۔ تب ہی تو ریاست رواں ہے۔مگرہاں ! محتسب کا ادارہ بھی قائم ہے لیکن اس کا کام احکامات جاری کرنا ہے، عمل کروانا نہیں۔ محکمہ خارجہ کا وجود ہے لیکن ضروری تو نہیں کہ خارجہ پالیسی بھی وہی بنائے۔ایک وزارتِ داخلہ بھی ہے مگر یہ تو کہیں نہیں لکھا کہ اس وزارت کے ٹھپے کے ساتھ ہونے والے سب احکامات و اقدامات کا ذمے دار وزیرِ داخلہ ہی ہے۔

ہاں ایک سرکاری خزانہ بھی ہے مگر اس خزانے کی چابی وزیرِ خزانہ کی ہی جیب میں رہے، یہ ضروری تو نہیں۔ہاں ایک عدد اسٹیٹ بینک اور اس کا ایک گورنر بھی ہونا چاہیے مگر یہ کہاں درج ہے کہ ریاستی مالیات کو ٹریک پے رکھنے اور اوور ڈرافٹ کے نلکے کی نگرانی کے لیے گورنر اسٹیٹ بینک ایک آمر کی طرح با اختیار ہو اور سرکار کو کھلائے سونے کا نوالہ مگر دیکھے شیر کی نگاہ۔قانون سازی کے لیے ایک عدد پارلیمنٹ بھی ہے لیکن یہ کہاں لکھا ہے کہ وہ آرڈر پر مال تیار نہیں کرسکتی۔ہاں ایک عدد وزیرِ دفاع بھی لازمی ہے۔مگر یہ کس جگہ درج ہے کہ وہ ہر اجلاس اور فیصلے میں شریک ہوتا پھرے۔کیا اسے اور کوئی کام نہیں۔

ہاں ریاستی اتحاد کی علامت کے طور پے ایک عدد صدرِ مملکت بھی لازمی ہے۔تو کیا اب وہ اپنی مرضی سے یہ بھی نہ سوچے کہ میں اس عظیم الشان چار دیواری میں آخر کر کیا رہا ہوں ؟ ہاں ایک با اختیار وزیرِ اعظم بھی حکومتی ریل کھینچنے کے لیے ازبس ضروری ہے۔تو کیا وہ ہروقت بڑے بڑے مسائل اور دورس فیصلوں کے گرداب میں ہی اتنا الجھا رہے کہ اسے گاجر مٹر کے بھاؤ معلوم کرنے کا بھی خیال نہ آئے۔نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا مگر جیسا ہو رہا ہے ویسا بھی نہیں ہوسکتا۔۔۔۔

قوم ملک سلطنت پایندہ تابندہ باد ، شاد باد منزلِ مراد۔

وسعت اللہ خان

کشمیر کے ساتھ غیر متزلزل یکجہتی


کیا عمران خان اس محاز آرائی سے کوئی سبق سیکھیں گے ؟....

0
0

پاکستانی سیاست میں غیر اخلاقی زبان کا استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ روش کافی پرانی ہے۔ صرف فرق اتنا ہے کہ اب الیکٹرانک میڈیانے اس کو براہ راست عوام کے سامنے پیش کر دیا۔ اس لئے شور زیادہ ہے۔ گو کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنی باتوں پر قسط وار معذرت کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ پہلے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے معذرت کی گئی۔ پھر دھرنے کی شریف خواتین سے معذرت کی گئی۔

 محترمہ شیریں مزاری صاحبہ سے بھی معذرت کر لی گئی ہے۔ لیکن ابھی بھی معذرت باقی ہے۔ وہ عمران خان سے معذرت کے لئے تیار نہیں ۔ بلکہ ابھی تک تا دم تحریر ان کا یہ موقف ہے کہ ابھی تو انہوں نے عمران خان کے بارے میں کچھ کہا ہی نہیں ۔ اور اتناشور مچ گیا۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ حال ہی میں دھرنا سیاست کے دوران سب کو عمران خان پر اعتراض تھا کہ وہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر غیر مہذب زبان استعمال کرتے ہیں۔ کسی کی عزت نہیں کرتے۔ انہوں نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر سب سے پہلے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو وزیر اعظم میاں نواز شریف کا چپڑاسی کہا۔

 یہ وہ وقت تھا جب خورشید شاہ حکومت اور دھرنے والوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کے لئے کوشاں تھے۔ عمران خان نے محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمٰن سمیت دیگر قومی قیادت کے خلاف بھی بہت غیر مہذب زبان استعمال کی۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف،ان کے اہل خانہ ، وزراء اور دیگر ٹیم کے خلاف سخت یا غیر مہذب زبان کا تو ریکارڈ قائم کیا گیا۔ عمران خان کی اس غیر مہذب زبان کے خلاف مسلم لیگ(ن) تمام دھرنے کے دوران کا فی حد تک خاموش رہی۔محترم پرویز رشید جواب پر جواب دے رہے ہیں ۔ تب خاموش رہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کسی بھی سخت بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ دیگر قومی قیادت نے کسی حد تک جواب دیا ۔ لیکن اتنی شدت سے نہیں کہ ماحول گرم ہو سکے۔ اس لئے عمران خان کا پلڑا بھاری رہا۔ 

مسلم لیگ (ن) نے نہایت مہذب زبان میں بار بار یہ احتجاج ضرور کیا،کہ دھرنے میں غیر مہذب زبان استعمال ہو رہی ہے۔ دھرنوں کے دوران ناچ گانے کے کلچر پر بھی احتجاج ہوا۔ بالخصوص مولانا فضل الرحمٰن نے اس پر بہت تنقید کی۔ لیکن یہ تنقید بھی حدود اور اخلاق کے دائرے میں ہی تھی۔ اس طرح عمران خان گزشتہ چھ ماہ سے ایک ایسی سیاست کر رہے تھے ۔ جس میں سب عمومی طور پر ان کے سامنے خاموش تھے۔ اور وہ اکیلے ہی دھاڑ رہے تھے۔ لیکن اب صورتحال کافی مختلف ہو گئی ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے تحریک انصاف کے بارے میں غیر مہذب زبان استعمال کی۔ 

اس پر اتنا شور نہیں مچنا تھا۔ لیکن جب عمران خان نے الطاف حسین کو جواب دیااور اسی لہجہ میں جواب دیاتو شور زیادہ مچ گیا۔ جواب میں ایم کیو ایم کی ساری قیادت نے پریس کانفرنس پر پریس کانفرنس کر کے ماحول کو گرما دیا۔ پھر ریلی بھی نکالی گئی۔ اس طرح ماحول اب گرم ہے۔ لیکن ایم کیوایم نے عمران خان کے ساتھ محاز کھولنے سے پہلے پیپلز پارٹی سے صلح کر لی۔ سندھ حکومت میں دوبارہ شمولیت کا اعلان کر دیا۔ اس وقت ایک عمومی رائے یہی ہے کہ الطاٖ ف حسین صاحب کی زیادتی ہے۔ انہوں نے زیادہ غیر مہذب زبان استعمال کی۔ انہوں نے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تو معافی مانگ لی ہے ۔

 شیریں مزاری سمیت تما م شریف خواتین سے معافی مانگ لی۔ لیکن وہ ا بھی بھی تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان سے معافی مانگنے کے لئے تیار نہیں۔سوال یہی ہے کہ اب کیا ہو گا۔ ایک تاثر یہ ہے کہ ایم کیو ایم کی سیاست دھوپ چھاؤں کی طرح آج گرم تو کل نرم۔ وہ کل تک پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے خلاف تھے ۔ آج دوبارہ شامل ہو رہے ہیں۔ وہ دھرنوں کے دوران وزیر اعظم میاں نواز شریف سے استعفیٰ کا بھی مطالبہ کرتے رہے اور پھر ان کا گورنر وزیر اعظم میاں نواز شریف کا استقبال بھی کرتا ہے۔ اسی طرح عمران خان نے پہلے بھی کئی دفعہ ایم کیو ایم کے خلاف محاز کھولا ہے وہ لندن تک گئے ۔

 لیکن پھر خاموش ہو گئے۔ انہوں نے اپنی خاموشی کی کئی تو جیہات پیش کی ہیں۔ لیکن شائد وہ جاندار نہیں ہیں۔ کسی بھی لیڈر کو اصولی موقف پر مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہو نا چاہئے۔ لیکن عمران خان کی سیاست بھی دھوپ چھاؤں اور آج نرم تو کل گرم کی طرح ہے۔ اس لئے یہ دو ایک جیسے لوگوں کے درمیان مقابلہ ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ عمرا ن خان بھی گفتگو کے دوران اخلاق کی حد کو عبور کرتے ہیں۔ لیکن ان کی پارٹی کی باقی قیادت ایسا نہیں کرتی۔

 شاہ محمود قریشی سمیت دیگر گفتگو کے دوران اخلاقی حدود کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ لیکن ایم کیو ایم اس میدان میں اپنی شہرت رکھتی ہے۔ وہاں جب لیڈر نے غیر مہذب زبان استعما ل کی تو سب یک زبان لبیک کہتے ہیں۔ تا ہم یہ امید تو نہیں کہ ایم کیو ایم اس سے کوئی سبق سیکھے گی ۔ تا ہم یہ امید کی جا سکتی ہے کہ عمران خان کو یہ احساس ہو جائے گاکہ انہیں گفتگو کے دوران اخلاقی حدود کو ملحوظ خاطر رکھناچاہئے ۔ یہی پاکستانی سیاست کے لئے بہتر ہے۔

مزمل سہر وردی

اسپین اور مسلمان

سانحہ بلدیہ ٹاؤن کا ذمہ دار کون....

0
0


تحریک انصاف او ر ایم کیو ایم کے درمیان اگرچہ لفظوں کی جنگ الطاف حسین کی جانب سے معذرت کے بعد کچھ ٹھنڈی ہوگئی ہے لیکن دونوں اطراف سے جس تلخ لہجے میں ایک دوسرے کیخلاف اور بالخصوص عورتوں کے بارے میں جو زبان استعمال کی گئی اس کی کسی بھی طور پر حمایت نہیں کی جاسکتی ۔بنیادی مسئلہ جے آئی ٹی کی رپورٹ بنی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا کہ بلدیہ ٹائون میں ہونے والے واقعہ میں ایم کیو ایم کے لوگ براہ راست ملوث ہیں ۔ 

یہ وفاقی ایجنسیوں کے تحقیقاتی اداروں کی رپورٹس ہیں جس کو آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایم کیو ایم اس رپورٹ کیخلاف خود عدالت میں جاتی اور ثابت کرتی کہ یہ رپورٹ ان کے خلاف ہے اور اس واقعہ میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں ۔ اس سے خود ایم کیو ایم کا فائدہ ہوتا او ران کو اپنے اوپر لگائے جانے والے الزام سے باہر نکلنے میں مدد ملتی ۔ لیکن جس انداز سے اس رپورٹ پر تحریک انصاف نے ردعمل دیا اور ایم کیو ایم کو آڑے ہاتھوں لے کر مطالبہ کیا اس واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف نہ صرف سخت کارروائی کی جائے بلکہ اس مقدمہ کو فوجی عدالتوں میں بھیجا جائے۔ 

اس پر ایم کیو ایم کا ردعمل اور بالخصوص دھرنا سیاست میں ان کی عورتوں کے حوالے سے گفتگو نے عمران خان کو بھی غصے میں مبتلاکردیا ۔ ایم کیو ایم کراچی اور حیدر آباد کی سیاست میں جماعت اسلامی کو اپنے خلاف ایک بڑی طاقت سمجھتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ وہاں جماعت اسلامی کو سیاسی راستہ دینے کیخلاف طاقت کا استعمال کرتی رہی ہے۔ایم کیو ایم کیخلاف ایک نئی طاقت کی آواز عمران خان اور تحریک انصاف کی صورت میں سامنے آئی تھی لیکن عمران خان تسلسل کے ساتھ ایم کیو ایم کیخلاف اپنی مزاحمت برقرار نہیں رکھ سکے ۔ ایم کیو ایم اور عمران خان کے درمیان نئی سیاسی سرد جنگ کا اہم نقطہ جے آئی ٹی کی رپورٹ بنی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بلدیہ ٹائون میں آتشزدگی ایک خاص منصوبہ کے تحت ہوئی او راس میں 250سے زیادہ افراد کو اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔

 لیکن جے آئی ٹی کی رپورٹ میں یہ سنسنی خیز انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ آگ فیکٹری مالک کی جانب سے سیاسی جماعت کو بھتہ نہ دینے کی صورت میں لگائی گئی اس رپورٹ کے آنے کے بعد ایم کیو ایم جو پہلے ہی کافی سیاسی عتاب کا شکار تھی ، اس کی سیاست مزید دبائوکا شکار ہوگئی ہے ۔ ایم کیو ایم او ر پیپلز پارٹی کے درمیان بھی کچھ عرصہ قبل ایک سیاسی جنگ الطاف حسین اور بلاول بھٹو کے درمیان شروع ہوئی تھی لیکن آصف علی زرداری کی مفاہمت کی سیاست کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کو ایم کیو ایم کے خلاف سیز فائر کرنا پڑ ا ۔

 اس سیز فائر کا نتیجہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کی ناراضگی کی صورت میں سامنے آیا ۔ اس سے قبل ہم ایم کیو ایم کے داخلی مسائل بھی دیکھ چکے ہیں جہاں وقفے وقفے سے الطاف حسین اپنی جماعت کے لوگوں پر برس پڑتے ہیں او رکئی بار انہوں نے جماعت کی قیادت سے دست برداری کا اعلان کیا لیکن ہر بار ان کے بقول وہ کارکنوں کی مزاحمت او ر محبت کے باعث قیادت سے دست برداری کا فیصلہ واپس لے رہے ہیں۔ الطاف حسین کئی بار فوج اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے خلاف بولتے رہے ہیں ۔ سندھ کی سیاست میں ایک دفعہ پھر مفاہمت کی سیاست کا غلبہ ہے ۔ 

ایک طرف آصف علی زرداری ہر صورت میں ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں تودوسری طرف سندھ میں پیپلزپارٹی کے خلاف ایک نئی صف بندی کی جارہی ہے ۔ اس لیے آصف علی زرداری نے ایک طرف ایم کیو ایم کو ساتھ ملایا ہے تو دوسری طرف وہ نواز شریف کے ساتھ بھی مفاہمت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں ۔دراصل ایم کیو ایم کے خلاف جو نیا محاذ کھلا ہے اس کو ایم کیو ایم کی داخلی سیاست کے مسائل کے ساتھ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اصولی طور پر ایم کیو ایم سمیت سب اس بات پر متفق ہیں کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کا فیصلہ سامنے آنا چاہیے کہ یہ کس حد تک درست یا غلط ہے ۔

کیونکہ 250انسانی جانوں کے ضیاع کا فیصلہ ہونا چاہیے کہ اس میں کون قصور وار ہے کیونکہ اگر ہم نے ان مجرموں کیخلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا تو مستقبل میں اس طرح کے واقعات کو روکنا ممکن نہیں ہوگا ۔ اس لیے اس واقعہ پر ایم کیو ایم کو بھی ٹھنڈے دل سے غور کرنا ہوگا کہ اس رپورٹ کی آزادانہ تحقیقات سب کیلئے ضروری ہیں ۔ اس کا فیصلہ سڑکوں پر نہیں بلکہ عدالتوں میں ہی ہونا چاہیے اور دونوں جماعتوں کو ایک دوسرے پر الزامات کی سیاست سے باہر نکل کر مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے ۔ 

یہ ذمہ داری ایجنسیوں کی بھی ہے کہ وہ ثابت کریں جس کا اظہاررپورٹس کی صورت میں سامنے آیاہے ، تاکہ خود اداروں کی اپنی ساکھ کو بھی نقصان نہ پہنچے اور یہ تاثر عام نہ ہو کہ اس رپورٹ میں کسی کے خلاف تعصب کا مظاہرہ کیا گیا ہے ۔ پنجاب کے سابق گورنر چودھری سرور جنہوںنے مسلم لیگ )ن(کی قیادت سے ناراضگی کے بعد گورنر شپ سے استعفیٰ دے دیا تھا ، اب وہ عملی طور پر سیاسی میدان میں کود پڑے ہیں ۔ ان کی نئی منزل تحریک انصاف ہے ۔ ان کی باقاعدہ شمولیت سے قبل ہی یہ اندازہ لگایا جارہا تھا کہ وہ اگر کسی سیاسی جماعت کو جوائن کریں گے تو وہ تحریک انصاف ہی ہوگی ۔

 چودھری سرور پاکستان کی سیاست میں ایک بڑا کردار ادا کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں ، اسی خواہش کے ساتھ وہ تحریک انصاف کا حصہ بنے ہیں ۔ ان کی تحریک انصاف میں شمولیت سے خود تحریک انصاف کو خوب فائدہ ہوگا ۔ کیونکہ چودھری سرور پنجاب کی سیاست میں جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور دیگر جماعتوں کے ساتھ ان کے تعلقات بھی کافی بہترہیں ۔ تحریک انصاف کو بھی پنجاب کی سیاست میں ایک بڑا نام درکار تھا اور چودھری سرور نے شامل ہوکر اس مسئلے کا حل نکال دیا ہے ۔ 

اب دیکھنا یہ ہوگا کہ چودھری سرور کس حد تک باقی لوگوں کو اپنے ساتھ اور تحریک انصاف کے ساتھ ملانے میں کامیاب ہونگے ۔ کیونکہ اگر وہ ایک خاص تعداد کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئے تو اس کا فائدہ تحریک انصاف کو ضرور ہوگا ۔ حکمران جماعت مسلم لیگ کو یقینا چودھری سرور کے ایجنڈے سے خبردار رہنا ہوگا اور وہ یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ پنجاب کی سیاست کے ماحول کو تبدیل کرسکیں ۔ جب انہوں نے پنجاب کی گورنر شپ سے استعفیٰ دیا تو اس وقت ہی ان کے سیاسی عزائم ظاہر ہوگئے تھے او رپریس کانفرنس میں انہوں نے عملی طور پر حکومت کے خلاف چارج شیٹ پیش کردی تھی ۔

اب دیکھنا ہوگا کہ خود تحریک انصا ف میں چودھری سرور کو کیا پذیرائی ملتی ہے ، کیونکہ سب سے بڑا چیلنج چودھری سرور کو پارٹی کے اندر کے بحران کی صورت میں ملے گا اور دیکھنا ہوگا کہ وہ اس بحران سے کس طرح سے نمٹیں گے اور پارٹی کیلئے کوئی بڑا کردار ادا کرسکیں گے ۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے سخت فیصلے کیے ہیں اور ان کے بقول اب وقت ہے کہ ہمیں کسی مصلحت کی بجائے بڑے فیصلے کرکے آگے بڑھنا ہوگا ۔

 وہ اس وقت پنجاب کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر خود سارے معاملات کی براہ راست نگرانی کررہے ہیں ۔ایک طرف وہ دہشتگردی کے خاتمے میں مگن ہیں تو دوسری طرف ا ن کے بقول چنیوٹ میں دریافت ذخائر کے نمونوں میں 65فیصد اعلیٰ کوالٹی لوہے کی تصدیق ہوگئی ہے ۔ ان کے بقول اس منصوبے کی تکمیل سے معاشی ترقی کو فائدہ ہوگا اور صوبہ مزید ترقی کے عمل میں شامل ہوجائے گا۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے دعویٰ کیا ہے کہ چینی کمپنی پنجا ب میں ایل این جی پاور پراجیکٹ لگانے میں دلچسپی رکھتی ہے ۔

سلمان غنی

سماجی رویوں پرسوشل میڈیا کے اثرات.....

0
0


جدید ٹیکنالوجی کی بدولت دورحاضر انسانی زندگی کا ترقی یافتہ دور ہے۔ ماضی میں جن حیران کن ایجادات کو چشم تصور میں لانا بھی ناممکن تھا، آج وہ حقیقت کا روپ دھار کرہماری سماجی زندگی کا اہم ترین حصہ بن چکی ہیں۔ جدید اختراعات سے انسانی زندگی کوآسودگی، آرام اور بے پناہ فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ دنوں اور مہینوں کے کام منٹوں اورگھنٹوں میں پایہ تکمیل تک پہنچنے لگے اور مشکل ترین کام بھی سہل ترین لگنے لگے ہیں۔

جدید ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانی تعلقات کی نت نئی شکلیں پیدا کرکے ان کے دائرے کو وسیع ترکر دیا ہے۔ ان ہی ترقیاتی شکلوں میں آن لائن سوشل نیٹ ورکنگ بھی ہے۔ سماجی ذرایع ابلاغ نے انسانی زندگی کو بالکل اک نئی سمت دی ہے۔ آج سوشل میڈیا آپسی رابطے کا مؤثرترین ذریعہ بن گیا ہے اور جملہ ذرایع ابلاغ میں سوشل میڈیا کا استعمال بہت زیادہ ہو رہا ہے۔

ایک بچے سے لے کر بوڑھے تک خاصی تعداد میں لوگ سوشل میڈیا سے منسلک ہیں۔ سماجی ذرایع ابلاغ کے استعمال نے ذاتی زندگی،معاشرتی روابط اورسیاسی ومعاشرتی معاملات پر کافی زیادہ اثرات چھوڑے ہیں۔ جب کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر چیز کے مثبت اور منفی دونوں قسم کے اثرات ہوتے ہیں۔ یہی حال کچھ سوشل میڈیا کا بھی ہے،جہاں سوشل میڈیا انفرادی اور گروہی سطح پر باہمی رابطوں کا ذریعہ، اطلاعات اور خبروں کی آزادانہ ترسیل کا موثر ترین وسیلہ بن کر سامنے آیا ہے، وہیں اس کی وجہ سے معاشرے میں بہت سی خرابیوں نے بھی فروغ پایا ہے۔

پاکستان ایک ایسا سماج ہے، جہاں جدید ٹیکنالوجی کے منفی اثرات اس کے مثبت اثرات کے مقابلے میں اپنے نقوش زیادہ چھوڑتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یوزرز کی ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا کو لوگوں کو بدنام کرنے، بے بنیاد اور من گھڑت خبریں پھیلانے، حریفوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے اور بے ہودہ و نامناسب تصاویر وویڈیوز کی تشہیر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں جو معاشرے کے مختلف طبقات اور مکاتب فکر میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کو پروان چڑھانے اور باہمی انتشار اور خلفشار کا سبب بنتی ہیں۔

سماجی میڈیا اور جدید مواصلاتی ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا گلوبل ولیج سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ اس کا مثبت استعمال کامیاب سماجی انقلاب برپا کر سکتا ہے، لیکن لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کا منفی استعمال شروع کردیا ہے، جو جنسی تشدد، لڑائی جھگڑے اور اخلاقی و ثقافتی زوال کا سبب بن رہاہے، جس سے بے بہا مسائل سے دوچار معاشرے میں مزید مسائل جنم لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا بذات خود اچھا یا برا نہیں ہے، اس کا اچھا یا برا ہونا اس کے استعمال کرنے والے پر منحصر ہے۔ جس طرح استعمال کنندہ کی اخلاقی اور فکری کیفیت ہوگی، اْسی طرح وہ استعمال کرے گا اور ایسے ہی نتائج برآمد ہوں گے۔

سوشل میڈیا نے معاشرے میں مذہبی رویوں کی تشکیل کے عمدہ مواقعے فراہم کیے ہیں اور مختلف مذہبی نظریات اور مکاتب فکر کے لوگوں کاباہمی رابطہ اور انٹرایکشن ممکن بنا دیا ہے۔ مخالف سوچ و نظریات کے لوگوں کی باتوں کو پڑھنا گناہ کبیرہ سے کم نہیں سمجھا جاتا تھا، لیکن سوشل میڈیا کی بدولت علمی اختلاف کرنے والوں کی اس قسم کی باتوں کو بھی پڑھنے کا موقع ملا ہے، جس کی بدولت مخالف نقطۂ نظر کے لوگوں کی کتابوں کو شجر ممنوعہ قرار دیے جانے کی سوچ خود بخود مسترد ہوگئی اور کسی بھی مسئلے کو مختلف جہتوں سے سوچنے کا موقع ملا، جس سے کسی ایک مسئلے پر مختلف نظریات اور آراء کر پڑھ کر علوم میں اضافہ ہوا اور آپسی مذہبی و مسلکی اختلافات کم ہونے کی امید بھی پیدا ہوئی ہے۔

سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف الخیال لوگوں کو ایک دوسرے سے براہ راست مکالمے کا موقع ملا ہے، جس سے بہت سے مذہبی مسائل میں تصویر کا دوسرا رخ دیکھ کر اس پر مختلف آراء کی جانکاری سے اپنی ایک نئی رائے قائم کرنا آسان ہوا ہے اورمختلف مذہبی نظریات کے حاملین کے درمیان پیدا شدہ دوریاں کم ہوکر نزدیکیوں میں بدلنا شروع ہو گئی ہیں۔ دوسری جانب سوشل میڈیا نے مذہبی رویوں کی تخریب میں بھی کافی نمایاں کردار ادا کیا ہے، کیونکہ سوشل میڈیا پرکسی قسم کی کوئی روک تھام کا نظام موجود نہیں ہے، ہر شخص سوشل میڈیا کے بازار میں اپنا منجن بیچنے میں آزاد ہے۔

اختلاف رائے کا حق استعمال کرتے ہوئے کسی نظریے، رائے اور شخصیت پر تنقید کرنا غلط نہیں ہے، تاہم یہ سب تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے ہونا چاہیے، لیکن سوشل میڈیا پر بہت سے بظاہر بڑے معقول اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی اختلاف کا اظہارکرتے ہوئے آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور کسی بحث کے دوران مقابل پر ذاتی حملے کرتے ہوئے اس کی کردار کشی پر اتر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کوئی شخص بلاروک ٹوک کسی بھی مذہبی شخصیت اور مذہبی نظریات کو مطعون کرسکتا ہے اور مخالف مذہبی سوچ کی محترم شخصیات پرکیچڑ اچھال سکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر مخالفین کے خلاف پروپیگنڈے کی مکمل آزادی کی وجہ سے معاشرے میں انتہا پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ بعض اوقات ایک دوسرے کے خلاف بے جا الزامات یا غیر مستند فتاویٰ جات کا پرچار کر کے انتشار اور خلفشار بھی پھیلایا جاتا ہے۔ دین ہمیں کسی پر تہمت لگانے سے سختی سے منع کرتا ہے، لیکن سوشل میڈیا پر بعض عناصر کی جانب سے بے بنیاد الزامات کو پھیلا کر کئی گناہوں کے مرتکب ہونے کے ساتھ معاشرے میں بے چینی و بدامنی کی کیفیت پیدا کی جارہی ہے۔ لہٰذا بے شمار مسائل سے دوچار معاشرے کو مشکلات سے چھٹکارا دلانے کے لیے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال ہمیشہ مثبت ہی کیا جائے۔

عابد محمود عزام

بھارت امریکہ گٹھ جوڑکے محرکات....جنرل مرزا اسلم بیگ

0
0

 
بھارت، امریکہ سٹریٹیجک پارٹنرشپ کا مقصد افغانستان سے بنگلہ دیش تک کے علاقے میں بھارت کی بالادستی قائم کرناتھا۔افغانستان کو جنوبی ایشیا کا حصہ قرار دینے کے پیچھے بھی یہی حکمت کارفرما تھی ۔ 

بھارت نے اس سوچ سے فائدہ اٹھایا اوراتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان کی سرزمین سے تمام ہمسایہ ممالک، خصوصأ پاکستان کے خلاف جاسوسی کے مراکز تعمیر کئے اور دہشت گردی کی لعنت تھوپ دی۔ 2005 ء میں ہی سول نیوکلیر (Civil nuclear) معاہدے پر مفاہمت ہوئی جس کے حصول کے لئے بھارت نے ایران کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت میں ووٹ دیاتھا اور امریکہ اور اس کے اتحادیو ں کے ساتھ مل کر خطے میں بڑھتے ہوئے اسلامی انتہا پسندی کے خطرات کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کاحوصلہ پیدا کیا،لیکن افسوس کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اس مقصد میں بری طرح ناکام و نامرادہوئے۔

حالیہ دنوں میں مودی نے امریکہ کے ساتھ تذویراتی طور پر ہم رکاب ہوکر خطے کے جغرافیائی و سیاسی حالات کو نئی جہت دی ہے ۔’’غیر جانبدار ملک کی حیثیت سے بھارت اپنے نظریے سے منحرف ہوکرایک جانبدارانہ تشخص اختیار کرچکا ہے اور خلیج عدن سے لے کرآبنائے ملاکا تک پھیلے ہوئے طویل المدتی عسکری تعلقات میں بندھ چکا ہے۔ یہ معاہدہ دس سالوں تک قابل عمل ہوگا۔اس کے علاوہ دفاعی و تکنیکی و تجارتی معاہدے  پر بھی دستخط ہوئے ہیں جس کی رو سے بھارت ہوائی جہاز بردار بحری جہاز بنانے کے قابل ہو سکے گا۔،، بھارت، امریکہ اور جاپان کی سرکردگی میں تشکیل پانے والے ایشیاء پیسیفک اکنامک کوآپریشن فورم میں بھی شامل ہو چکاہے ، جس سے وہ چین کے نیو سلک روڈ پارٹنرشپ منصوبے کا توڑ کرنے کاعملی طور پر پابندہے۔

اس کے علاوہ بھارت، چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کو کم کرنے کا پابند ہے ۔اس لئے کہ چین نے اپنے بنائے ہوئے یورو ایشین زمینی رابطے  اور مختلف ممالک کی بندرگاہوں کی سہولت حاصل کرلینے کے بعد بہت ہی اہم مفادات حاصل کر لئے ہیں جو مشرق وسطی سے چین تک پھیلے ہوئے ہیں۔چین کا یہ بڑھتا ہوا اثرورسوخ امریکہ،بھارت اور ان کے اتحادیوں کو قطعأ ناقابل قبول ہے۔

مودی کا اہم ہدف ’’اقتصادی ترقی کے ثمرات جلد از جلدغریب عوام تک پہنچاناہے، مروجہ عالمی اقتصادی نظام کی طرح اوپر سے نیچے کی طرف  ترقی کے ثمرات کو لوگوں تک پہنچانا مودی کا مقصد نہیں ہے ،بلکہ نیچے سے اوپر کی طرف ترقی کے ثمرات کو غریب طبقے تک پہنچانا مقصودہے جس کے لئے ملک کے اندر تیار کی ہوئی مصنوعات پر انحصار ضروری ہوگا۔اوبامہ کا مقصد بھی بھارت کو ترقی دے کر ایشیا میں اہم طاقت بنانا ہے، کیونکہ بھارت کی طاقت کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے امریکہ اہم سمجھتا ہے‘‘۔ 

اس مقصد کے حصول کے لئے امریکی ٹیکنالوجی کی فراہمی بہت مفید ثابت ہوگی اور یہ بات مودی بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔لہذابھارت اور امریکہ نے باہمی تجارت کو ایک سو(100)ملین امریکی ڈالر سے بڑھا کر پانچ سو(500) ملین امریکی ڈالرسالانہ تک کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے جو کہ چین کے ساتھ تجارت کے برابر ہے ۔اس کے علاوہ اوبامہ کی بھارت یاترا کا ایک اوراہم مقصد وہ فارمولا تلاش کرنا تھا جس کے ذریعے بھارت کے ایٹمی قوانین میں 2005 ء سے موجود خامیاں نظر انداز کی جا سکیں اور بھارت کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کی جا سکے۔ یہ معاہدہ بھی ہو چکا ہے۔

تذویراتی لحاظ سے امریکہ کے ہم رکاب ہونے کے باوجود’’بھارت کی جانبدارانہ پالیسی اس کے حق میں مفید اورقابل عمل ہوگی، اوربھارت ، چین اورروس کے ساتھ بھی اقتصادی تعلقات قائم کر سکے گا جس کے سبب واشنگٹن کی اختیار کردہ حکمت عملی متاثر ہوگی اور امریکہ پر دباؤ بڑھے گا کہ وہ کثیر المرکزی عالمی نظام کو قبول کر لے کہ جس کے تحت امریکہ نے بھارت کی جغرافیائی و سیاسی حقیقت کو سمجھتے ہوئے اوراس کی ترقی کی رفتاردیکھتے ہوئے ،اسے مستقبل کے عالمی نظام کے لئے انتہائی اہم سمجھا ہے‘‘۔

اس کے برعکس 1950ء کی دہائی میں ، جوسردجنگ کا دورتھا ، پاکستان، امریکی اتحادی بننے پر مجبور ہوا ،لیکن اپنی کمزور پالیسیوں کے سبب اسے بہت تلخ تجربات سے گزرنا پڑا کہ کس طرح اس کے طاقتور شراکت دار نے اپنی ضرورت کے وقت پاکستان کواستعمال کیا اور جب ضرورت نہ رہی توآنکھیں پھیر لیں۔اس کی بدترین مثال 2001 ء میں قائم کی گئی جب پاکستان سے کہا گیا کہ ’’یا تو تم ہمارے ساتھ ہو یا پھر ہمارے خلاف‘‘ جس سے گھبرا کر پاکستان نے برادر اسلامی ملک افغانستان کے خلاف امریکہ کی جنگ میں شامل ہونے کا غیر اخلاقی و غیر منطقی فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑاہے اور ابھی تک اٹھائے جا رہا ہے۔

حالیہ دور میں ابھرنے والے حالات پاکستان کے لئے خاصے پریشان کن ہیں خصوصاً ،جبکہ اندرون ملک دہشت گردی اورسیاسی انتشار پھیلا ہوا ہے اور ہماری شمال مغربی سرحدوں پر جنگ کی کیفیت ہے ،لیکن اس الجھے ہوئے منظر نامے میں بھی امید افزا اشارے ہیں جن کا تقاضا ہے کہ ہم نہایت تدبر اور فہم و فراست سے فیصلے کریں اوران مواقع سے بھرپور طور پر مستفید ہوں۔ ’’منطقی طور پر یہ بات درست ہے کہ بھارت اور امریکہ کی سٹریٹیجک پارٹنر شپ کا واضح ہدف چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو محدود کرنا ہے۔

یہ بات چین کے لئے پریشان کن ضرور ہے، لیکن اس کے رد عمل میں چین، پاکستان اور روس کے مابین عسکری و اقتصادی تعلقات میں مفاہمت کی فضا ہموا ر ہو رہی ہے جس سے پاکستان کی سلامتی کی نئی راہیں کھلیں گی‘‘۔ افغان صدر اشرف غنی نے بیجنگ میں منعقد ہونے والی  کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ منفرد انداز سے کیا جائے گا جس کے لئے انہوں نے اپنے چھ قریبی ہمسایہ ممالک ، پاکستان، ایران، چین، روس اور وسطی ایشیائی ممالک سے بہت ہی قریبی روابط قائم کئے ہیں اوربھارت اور امریکہ کو الگ رکھا ہے جن کی سازشوں کے سبب1990 ء کے بعدافغانستان میں خانہ جنگی کی صورت پیدا ہوئی تھی، لہذا افغان قوم اب تہیہ کرچکی ہے کہ وہ کسی دھوکے میں نہیں آئیں گے اورپرامن انتقال اقتدار کے تمام معاملات کافیصلہ خود کریں گے۔

پاکستان کے لئے اب باہمی احترام اور مفادات پر مبنی پاک امریکہ تعلقات کی نئی بنیادیں استوار کرنے کایہ نادر موقع ہے، لہٰذا’’یہ امر ذہن میں رکھنا لازم ہے کہ امریکہ صرف ایک عام ملک نہیں، بلکہ وہ ایک سپر پاور ہے ،جس نے دنیا کو ایک خطرناک سرزمین بنا دیا ہے۔حالیہ عرصے میں جہاں کہیں بھی امریکہ نے مداخلت کی ، وہاں بربادی ہی چھوڑی ہے، اور وہ بھی ایسی کہ کسی آمر نے بھی نہ کی ہو، افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں‘‘۔۔۔ لہٰذا یہ بات سمجھنا ہمارے لئے اہم ہے کہ ا ب ہم کتنی جلدی امریکہ کی مضبوط گرفت  سے نکل کر دوستانہ اور پراعتماد تعلقات قائم کرسکیں، تاکہ آزادفضا میں آزادی سے سانس لینا ممکن ہو۔ 

جنرل مرزا اسلم بیگ

دنیا میں اسلام کا احیاء....

0
0


اس وقت دنیا کی آبادی 7 ارب کے قریب پہنچ چکی ہے ،جس میں سے ایک ارب 60 کروڑ سے زائد آبادی مسلمانوں کی ہے ۔ عالمی سطح پر اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے جب کہ دنیا کا ہر چوتھا فرد مسلمان ہے ۔ دنیا کی آبادی کا25 فیصدحصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے جس میں آئندہ 20 برس میں 35 فیصد اضافہ ہو جائیگا اور 2030 تک مسلمانوں کی آبادی 2 ارب 20 کروڑ سے تجاوز کر جائیگی۔اس وقت دنیا کے 200 سے زائد ممالک میں سے 55 کے لگ بھگ ممالک مسلمان ہیں جب کہ دنیا کے 55 سے زائد ممالک میں اکثر مسلمان اقلیت کے طور پر رہتے ہیں ۔ دنیا کے باقی ممالک میں مسلمانوں کو کم اقلیت میں شمار کیا جا تا ہے ،تاہم مختلف عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہور ہا ہے۔

آئندہ 20 سال میں اسلام یورپ کا سب سے بڑا مذہب ہوگا اور مساجد کی تعداد گرجا گھروں سے تجاوز کرجائے گی۔ بین الاقوامی سروے کے مطابق یورپ میں 52 ملین مسلمان آباد ہیں جن کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور یہ تعداد 104 ملین تک پہنچنے کا امکان ہے۔ 2030تک مسلمانوں کی تعداد 2 ارب 20 کروڑ تک جا پہنچے گی اور 2020ء تک برطانیہ کا نمایاں مذہب اسلام ہوگا۔ جرمنی کی حکومت نے پہلی بار اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ جرمنی میں مقامی آبادی کی گرتی ہوئی شرح پیدائش اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی شرح پیدائش کو روکنا ممکن نہیں اور اگر صورتحال یہی رہی تو 2050ء تک جرمنی مسلم اکثریت کا ملک بن جائے گا ۔

یورپ میں مقامی آبادی کا تناسب کم ہونے کی ایک وجہ وہاں کے لوگوں کا شادی نہ کرنا اور بچوں کی ذمہ داری نہ لینا ہے ،جبکہ یورپ میں مقیم مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 2050ء تک یورپ کے کئی ممالک میں 60 سال سے زائد عمر کے مقامی افراد مجموعی آبادی کا 75 فیصد تک ہو جائیں گے اور اس طرح بچوں اور نوجوان نسل کا تناسب کم رہ جائے گا ،جبکہ مسلمانوں کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہوگی۔ اسلام تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2001ء سے 2006ء تک کینیڈا کی آبادی میں 6.1 ملین افراد کا اضافہ ہوچکا ہے ،جن میں سے 2.1 ملین مسلمان ہیں۔

 امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے اور آئندہ 30 برسوں میں 5 کروڑ مسلمان امریکی ہوں گے۔ پی ای ڈبلیو کے مطابق دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے مقابلے میں مسلمانوں کی آبادی میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان انڈونیشیا میں آباد ہیں ،مگر 20 سال میں یہ اعزاز پاکستان کو حاصل ہوجائے گا، جبکہ بھارت مسلم آبادی کے اعتبار سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن جائے گا۔

مسلمانوں کی سب سے زیادہ 52.41 فیصد آبادی آفریقہ، 32 فیصد کے قریب ایشیا ، 7.6 فیصد کے قریب یورپ 2 فیصد سے زائد شمالی امریکا اور 0.43 فیصد آبادی جنوبی امریکا میں آباد ہے ۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا میں سب سے بڑا مسلم ملک انڈو نیشیا ہے جہاں 95 فیصد مسلمان ہیں جب کہ آبادی کے لحاظ سے دوسرے بڑے مسلم ملک پاکستان میں 90 فیصد مسلمان رہتے ہیں۔

سال 2010 تک یورپ میں مسلمانوں کی آبادی 5 کروڑ کے قریب تھی جو 
2030 تک بڑھ کر 6 کروڑ کے قریب پہنچ جائیگی۔ فرانس میں اس وقت بھی مساجد کی تعداد کیتھولک چرچ سے زائد ہے۔ بھارت میں اس وقت 22 کروڑ تک مسلمان رہتے ہیں جو آئندہ 20 بیس برسوں میں بڑھ کر 30 کروڑ تک پہنچ جائینگے اور بھارت کی کل آبادی کا 16 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہوگا۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے اسلامی ملک پاکستان میں 2030 تک انڈو نیشیا سے بھی زائد مسلم ہونگے جو دنیا کے لئے حیران کن ثابت ہونگے۔

عالمی تجزیہ کاروں اور عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اورلوگ اپنے آباو اجداد کا مذہب ترک کرکے دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں اور اب تک دنیا بھر میں سینکڑوں عالمی شہرت رکھنے والے غیرمسلم افراد مسلمان ہوچکے ہیں۔

کرکٹ اتنی بائی چانس بھی نہیں....


’’عاپ‘‘ بمقابلہ’’ انصاف‘‘....

0
0


دنیا میں کوئی ایک کامیاب انسان بھی ایسا نہیں جس نے ناکامی کا مزہ نہ چکھا ہو۔ زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر کوئی بے رحم شکست ہر شخص کی منتظر ہوتی ہے۔عام طور پر معلم پہلے بتاتا اور سکھاتا ہے اور پھر امتحان لینے کے بعد غلطی پر سزا دیتا ہے مگر یہ وہ مکتب ہے جہاں سزا کاٹنے کے بعد سبق ملتا ہے۔زندگی کے کسی بھی میدان میں نا تو جیت حتمی ہوتی نا ہار دائمی ہوتی ہے۔ امریکی صدر نکسن نے کہا تھا، شکست انسان کا کچھ نہیں بگاڑتی۔ ناکامی پر زندگی ختم نہیں ہوتی بلکہ انسان ہارتا تب ہے جب وہ ہمت ہار جاتا ہے اور تگ و دو ترک کر دیتا ہے۔ سیاست کا شعبہ تو جنگ کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک ہے جہاں آپ کو قدم بقدم سیاسی موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی بار یوں محسوس ہوتا ہے کہ بس اب فلاں شخصیت یا فلاں جماعت کا مستقبل معدوم ہوگیا مگر جدوجہد کا سلسلہ جاری رہے تو حالات موافق ہوتے ہی دم توڑتے سیاستدانوں کو ایک نئی زندگی ودیعت ہو جاتی ہے۔

اس کی تازہ ترین مثال بھارتی سیاستدان اریند کیجری وال ہیں جنہوں نے عام آدمی پارٹی بنا کر سیاست کی پرخار وادی میں قدم رکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے مقبولیت کی منزلیں طے کرتے چلے گئے۔ انہوں نے پہلی مرتبہ دہلی کے ریاستی انتخابات میں حصہ لیا اور 70 کے ایوان میں 28 نشستیں جیت کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔چونکہ انہیں اسمبلی میں اکثریت حاصل نہ تھی اور سیاسی دائو پیچ سے بھی نابلد تھے ،اس لئے بار بار پیش آنے والی رکاوٹوں کے باعث برسر اقتدار ہونے کے باجود دھرنا دینے پر مجبور ہوئے۔ ان کی یہ روش لوگوں کو ایک آنکھ نہ بھائی اور ان کا خیال تھا کہ حکومتیں احتجاج نہیں کرتیں بلکہ نامساعد حالات اور مشکلات کے باوجود راستہ تلاش کرتی ہیں اور عوام کے مسائل حل کرتی ہیں۔

بالخصوص جب 49 دن بعد ہی اریند کیجری وال نے استعفیٰ دے دیا تو ان کو ووٹ دینے والوں کو ازحد مایوسی ہوئی۔ان کی رائے یہ تھی کہ کرسی چھوڑ کر گویا کیجری وال نے اپنی ناکامی اور نااہلی کا اعتراف کرلیا اور مخالفین کی یہ بات درست ثابت ہوئی کہ اناڑی اور نووارد سیاستدان انتظامی اہلیت نہ ہونے کے باعث عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتے۔لہٰذا چند ماہ بعد جب ملکی سطح پر لوک سبھا کے انتخابات ہوئے تو عوام نے عام آدمی پارٹی کو مسترد کردیا۔ ’’عاپ‘‘ نے الیکشن میں پورے ملک سے 400 امیدوار کھڑے کئے تھے جن میں سے بمشکل 4 خوش نصیب ہی جیتنے میں کامیاب ہوئے جبکہ 90 امیدواروں کی تو ضمانتیں ہی ضبط ہو گئیں۔خود اریند کیجری وال مودی کے مقابلے میں لاکھوں ووٹوں سے ہار گئے۔ان انتخابی نتائج کے بعد بعض افراد کا خیال تھا کہ عام آدمی پارٹی اپنی موت آپ مر گئی اور اب دوبارہ کھڑی نہیں ہو سکے گی۔لیکن کیجری وال نے ہمت نہیں ہاری اور اس ناکامی کو کامیابی کا زینہ سمجھ کر لگاتار جدوجہد کا سلسلہ جاری رکھا۔

 فروری کو دہلی میں ایک بار پھر ریاستی انتخابات ہوئے تو عام آدمی پارٹی نے جھاڑو پھیر دی۔ 70 رکنی ایوان میں اسے 67 نشستوں پر کامیابی ملی اور حکمران بی جے پی صرف 3 نشستیں جیت سکی۔ عام آدمی پارٹی کی اس کامیابی میں نمایاں کردار نریندر مودی کا ہے جن سے لوگ ابھی سے مایوس ہونا شروع ہو گئے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ جو وعدے ان سے کئے گئے تھے، ان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ بالخصوص مودی نے اوباما کی بھارت آمد کے موقع پر اپنا نام کنندہ کرا کے جو مہنگا ترین دھاری دار سوٹ پہنا، اس پر عوامی حلقوں میں سخت تنقید کی گئی۔ مودی نے نخوت و تکبر کا سہارا لیا اور کیجری وال نے عاجزی و انکساری کو اپنا انتخابی استعارہ بنایا۔ نتیجہ آپ سب کے سامنے ہے۔

اب کیجری وال کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ مرکز میں متحارب حکومت کے باوجود اپنے منشور اور وعدوں پر عملدر آمد کر دکھائیں ۔انتخابات سے قبل عوام میں دوبارہ پذیرائی حاصل کرنے کیلئے اریند کجروال نے سخت محنت کی ہے اورایک ایسا مقبول ترین منشور پیش کیا جو عوام کے لئے باعث کشش ثابت ہوا۔مثلاً برسراقتدار آنے کی صورت میں دہلی پولیس کا انتظام وفاق سے واپس لینے کا وعدہ کیا گیا ۔

بتایا گیا ہے کہ ان کی حکومت گرد و نواح میں موجود 200 ایکڑ اراضی پر بے گھر افراد کیلئے فلیٹ تعمیر کرے گی اور ہر بے گھر شخص کو چھت فراہم کی جائیگی۔حکومت بنتے ہی سابقہ اقدامات کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے بجلی کا بل آدھا کر دیا جائے گا اور شہر کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے پاور پلانٹ لگایا جائیگا۔تمام گھروں کو یومیہ 700 لیٹر پانی مفت فراہم کیا جائیگا۔ چونکہ شہر میں رفع حاجت کے مسائل شدید تر ہیں اسلئے چند ماہ میں ہی دو لاکھ ٹوائلٹ تعمیر کئے جائیں گے۔ تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنے کیلئے 500 نئے اسکول اور 20 نئے کالجز تعمیر کئے جائیں گے۔

 سرکاری اسپتالوں میں علاج معالجہ کی بہتر سہولتیں فراہم کرنے کیلئے 4000 ڈاکٹر اور 15000پیرا میڈیکل اسٹاف بھرتی کیا جائیگا۔ کنٹریکٹ لیبر پرپابندی عائد کردی جائیگی۔ معمولی نوعیت کے مسائل مقامی سطح پر حل کرنے اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کیلئے شہر میں 3000 سے 3500 محلہ سبھا (یونین کونسلیں یا محلہ کونسلیں) قائم کی جائینگی۔

اس انقلابی ایجنڈے کیساتھ ساتھ یہ وعدہ بھی کیا گیا ہے کہ اس بار استعفیٰ دیکر گھر جانے یا دھرنے دیکر بیٹھ جانے کی پالیسی نہیں اپنائی جائیگی بلکہ جیسے تیسے عوام مسائل حل کئے جائینگے۔بھارت میں عام آدمی پارٹی کی مقبولیت کے بعد بھیڑ چال کے پیش نظر پاکستان میں بھی آدھا درجن عام آدمی پارٹیوں کی بنیاد رکھی گئی مگر اس پیمانے پر جدوجہد نہ کئے جانے کے باعث یہ پارٹیاں مقبولیت اور توجہ حاصل نہ کر سکیں۔اگر یہ افراد بھی جاںگسل جدوجہد اور بے تکان تگ و تاز کو حرزجاں بنا لیں تو کچھ بعید نہیں کہ یہاں بھی عام آدمی پارٹی کے چرچے ہوں۔ جب اریند کیجروال نے دھرنا دینے کی غلطی کی تو ہمارے ہاں بہت سے افراد نے عام آدمی پارٹی کا موازنہ تحریک انصاف سے کیا جس نے خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کے باجود احتجاج کی روش اختیار کی۔

اس طرح کے خدشات بھی ظاہر کئے گئے کہ تحریک انصاف کا دی اینڈ ہو جائے گا مگر جلد یا بدیر عمران خان نے اس باغیانہ سیاست سے رجوع کیا اور یہ وعدہ کیا کہ اب ان کی توجہ خیبر پختونخوا کی تعمیر و ترقی پر ہو گی۔اگرچہ معاملات میں کسی حد تک بہتری کے آثار نظر آتے ہیں مگر ابھی تک نیا خیبر پختونخوا بنتا دکھائی نہیں دیتا۔میں کئی بار اس رجائیت پسندی کا اظہار کر چکا ہوں کہ عمران خان میں پوٹینشل ہے،اگر وہ چاہیں تو اس صوبے کی تقدیر بدل سکتے ہیں مگر ابھی تک یہ صوبہ ان کی ترجیح نمبر ون نہیں۔ 

جس دن خیبر پختونخوا عمران خان کی اولین ترجیح بن گیا ،اس دن انکے اپنے مقدر کا ستارہ بھی چمکے گا اور صوبہ بھی رول ماڈل بن جائیگا۔حلف اٹھانے سے قبل کیجری وال نے بہت دانشمندانہ بات کی ہے اگر دنیا بھر کے سیاست دان اسکو حرز جاں بنالیں تو کبھی ناکام نہ ہوں۔کیجری وال نے کہا ہے بی جے پی کا یہ حال غرور کی وجہ سے ہوا ہے،اگر ہم نے بھی یہی روش اختیار کی تو پانچ سال بعد ہمارا بھی یہی حشر ہو گا۔مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اے این پی کے انجام کو مد نظر رکھے تو بہتر ہو گا۔

محمد بلال غوری

"بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ

کیا کشکولِ گدائی ٹوٹ جائے گا؟....

0
0

مجھے امید ہے میرے جیسے رومانوی دل و دماغ رکھنے والے پاکستانی اور بھی لاکھوں کروڑوں ہوں گے۔ آج بھی کئی بار تخیل کی پریاں آنکھوں کے دریچوں کی راہ دل میں اُتر کر تادیر قبضہ جمائے رکھتی ہیں۔سوچتا ہوں شائد ایسا کوئی لمحہ پاکستان کی تاریخ میں بھی آ جائے کہ جیسا 1930ء کے عشرے میں سعودی عرب میں تیل اور گیس کی دریافت کے دوران آیا تھا اور اس سے بھی پہلے ایران میں یہی کچھ ہو چکا تھا۔ سعودی عرب، ایران، بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات اور لیبیا سب اسلامی ممالک ہیں اور تیل کی دولت سے مالامال ہیں۔

 تصور ہی تصور میں، میں پاکستان کو بھی اس فہرست میں ڈال دیتا ہوں۔ خیال کرتا ہوں کہ ایک سہانی صبح یہ نوید آئے گی کہ پاکستان کے فلاں علاقے میں تیل کے ذخائر دریافت ہو گئے ہیں جن میں اربوں بیرل تیل موجود ہے۔ لیکن افسوس کہ اتنا سوچنے کے بعد خواب ٹوٹ جاتا ہے اور اداسی چھانے لگتی ہے۔

پاکستان میں گوادر سے لے کر کراچی تک کانٹینینٹل شیلف (Continental Shelf) کا سینکڑوں میل کا علاقہ ہے۔ اس شیلف سے آگے پاکستان کا خصوصی اقتصادی زون (EEZ) ، 200سمندری میل تک بحیرۂ عرب میں پھیلا ہوا ہے۔ کیا یہاں سے تیل نہیں نکل سکتا؟ اس طرح سے بلوچستان کی وسیع و عریض سرزمین ہے، گلگت بلتستان کے کوہستانی علاقے ہیں اور سندھ کا صحرائی خطہ ہے۔ ان سب میں کوئلہ ، تیل ، گیس ، سونا، چاندی، ہیلیم، ٹنگسٹن، یورینیم، پلوٹونیم اور خام لوہے وغیرہ کے ذخائر یقیناًپوشیدہ پڑے ہیں۔کاش پاکستان جیالوجیکل سروے کا کوئی سائنس دان یا انجینئر ان دفینوں کا کھوج لگا کر پاکستان کی بگڑی تقدیر بنا سکے!۔۔۔ یا کاش پاکستان کے کسی اور علاقے سے اس نوع کی کوئی معدنی دولت ایسی نکل آئے کہ جو پاکستان کو درویشی سے فغفوری عطا کر دے!!

پچھلے دنوں یوں لگا کہ جیسے میرا عشروں کا یہ خواب تکمیل پا گیا ہے اور مجھے اندازہ ہونے لگا کہ میں آنکھیں موندنے سے پہلے پہلے اپنے سینے میں دبی تمناؤں کو آسودۂ منزل دیکھ سکوں گا۔ وزیراعظم نے چنیوٹ کے ایک علاقے رجوعہ میں خام لوہے کے وسیع ذخائر کا مژدہ سنایا۔ ان کے دائیں طرف شہبازشریف اور بائیں جانب ڈاکٹر ثمرمبارک مند کھڑے دیکھ کر جب میں نے وزیراعظم کی زبان سے کشکولِ گدائی توڑنے کی خوشخبری سنی تو یقین جانئے کہ سینہ ء ویراں میں گویا بقول شاعر پھر شباب آ گیا۔

ابرِ نیساں پھر سے کشتِ جاں پہ منڈلانے لگا
سینہء ویراں میں گویا پھر شباب آنے لگا

میں کہ پہلے بھی کئی بار اس موضوع پر غوروخوض کر چکا تھا، وزیراعظم کی شکستگیء کشکول کا مژدہ سن کر ایک بار پھر انٹرنیٹ کی براؤزنگ کرنے لگا۔۔۔ معلوم ہوا کہ سب سے پہلے 1960ء کے عشرے میں ایک چھوٹا سا ہوائی جہاز وسطی اور شمالی پنجاب کے علاقوں پر پرواز کرتا ہوا دیکھا گیا تھا۔
یادش بخیر میں ان دنوں ایک دوست کے ہاں جوہرآباد گیا ہوا تھا۔ ہم تھل ڈویلپ منٹ اتھارٹی (TDA) کے دفتر کے لان میں کھڑے تھے۔ دوپہر کا وقت تھا کہ اچانک ایک چھوٹا جہاز ہماری آنکھوں کے سامنے گراؤنڈ میں لینڈ کر گیا۔ میں نے آگے جا کر پائلٹ سے مصافحہ کیا۔ اس کے ساتھ ایک دو صاحب اور بھی تھے۔ 

بتایا گیا کہ یہ محکمہ زراعت والوں کا جہاز ہے جو فصلوں پر کیڑے مار دوائیاں چھڑکنے کے ٹاسک پر مامور ہے۔ بظاہر مجھے پائلٹ کی بات پر یقین نہ آیا اور میں نے سوال کیا کہ : ’’اس ’’چھڑکاؤ‘‘ کا کوئی اور ارزاں طریقہ نہیں؟ اس چھوٹے سے جہاز میں ’’چھڑکاؤ‘‘ کی ادویات اور سازوسامان کہاں ہے؟ اور یہاں جوہرآباد میں ایسی کون سی لہلہاتی فصلیں کھڑی ہیں کہ جن میں کیڑے ’’پڑے‘‘ ہوئے ہیں؟‘‘

پائلٹ میرے سوالوں کو سن کر مسکرایا اور کہا: ’’دراصل اس ہوائی سروے کا اصل کام علاقے کا مقناطیسی (Aeromagnetic) سروے کرنا ہے۔ یہ جہاز آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن (OGDC) کا جہاز ہے اور ہم ابھی ابھی خوشاب اور چنیوٹ کے علاقوں پر سے پرواز کرتے ہوئے آئے ہیں۔ جہاز کے اندر لگے مقناطیسی آلات اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ ان علاقوں میں خام لوہے کے ذخائر موجود ہیں‘‘۔

اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ واقعہ آج بھی میرے ذہن پر نقش ہے۔ اس کی توثیق چند روز پہلے معظم حسین صاحب کے ایک آرٹیکل سے بھی ہوئی۔ وہ پنجاب بورڈ آف انویسٹ منٹ کے ڈائریکٹر جنرل رہ چکے ہیں اور ارضِ پنجاب میں خام لوہے کی دریافت کی پوری تاریخ ان کو ازبر ہے۔

انہوں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ 1989ء میں جیالوجیکل سروے آف پاکستان والوں نے ایک مطالعاتی پروگرام (Study) لانچ کیا تھا جس سے پتہ چلا کہ بالخصوص چنیوٹ کے علاقے میں سطح زمین سے بہت نیچے خام لوہے کے ذخائر تو ضرور موجود ہیں لیکن ان کو نکالنا (Mining) کمرشل اعتبار سے نفع بخش سودا نہیں۔

یہ سٹڈی سرکاری الماریوں میں پڑی رہی اور اس طرح 20برس گزر گئے۔ پھر2009ء میں خام لوہے کے ان ذخائر کو نکالنے کے لئے ایک بار پھر کوششیں تیز کر دی گئیں۔ اس باب میں جو رکاوٹیں حائل نظر آئیں اور جو سوالات پیدا ہوئے وہ اس طرح کے تھے

 جیالوجیکل سروے کی رپورٹ کے مطابق رجوعہ کے آس پاس کے علاقوں میں جن ذخائر کی نشاندہی کی جا چکی ہے ان کی تفصیلات کیا ہیں؟
۔ان کو کمرشل اعتبار سے نفع بخش بنانے کے لئے کیا کیا کوششیں درکار ہوں گی؟
۔ان منصوبوں پر سرمایہ کاری کرنے کے لئے کون لوگ ہوں گے جو آگے آئیں گے؟

۔ جن قطعاتِ زمین کے نیچے یہ ذخائر موجود ہیں آج ان پر فصلیں کھڑی ہیں اور گنجان آبادیاں بھی موجود ہیں۔ ان کو کس طرح خالی کروایا جائے گا اور یہ آبادیاں کہاں ٹرانسفر کی جائیں گی ؟۔۔۔اور ان کا معاوضہ کون دے گا؟

۔خام لوہے کو کس طرح استعمال میں لایا جائے گا؟ کیا اس سے اعلیٰ کوالٹی کا فولاد (سٹیل) بنایا جا سکے گا؟ اس کے لئے انرجی (بجلی / گیس/ کوئلہ وغیرہ) کہاں سے آئے گی؟ ملک میں بجلی اور گیس کی کمی کا عفریت تو پہلے ہی منہ کھولے کھڑا ہے۔

یہ سوالات بجائے خود بڑے چیلنج تھے۔۔۔ ان کا حل تلاش کرنے اور جواب لانے میں پنجاب کی بیورو کریسی نے 5برس لگا دیئے اور آخر 2014ء میں کہیں جا کر یہ طے ہوا کہ ایک چینی کمپنی کو یہ ٹاسک دے دیا جائے۔ اس کمپنی نے بالآخر یہ رپورٹ تیار کی کہ خام لوہے کے یہ ذخائر 500ملین ٹن کے قریب ہیں اور ان کی کوالٹی بھی ملک میں نکالنے جانے والے خام لوہے سے کسی طور کم نہیں۔
ان کے علاوہ اور بھی کئی چیلنج ہیں مثلاً پاکستان میں جہاں جہاں سے خام لوہا نکالا جاتا ہے وہ مقامات سطحِ زمین سے زیادہ گہرائی میں نہیں لیکن چنیوٹ کے یہ ذخائر زمین میں 150میٹر کی گہرائی تک ہیں اور چونکہ یہ علاقہ دریائے چناب کا طاس بھی ہے اس لئے اس کے نیچے مختلف گہرائیوں میں پانی کے چینل بہہ رہے ہیں۔

 جب زمین کھودنے والی مشینیں اس پانی تک پہنچتی ہیں تو اس کی نکاسی ایک بڑا چیلنج بن جاتی ہے۔ اور پھر یہ چینل صرف ایک چینل نہیں، ایک آبی چینل کے بعد خشک اور سخت زمین آتی ہے اور کچھ مزید کھدائی کے بعد دوسرا چینل آ جاتا ہے۔ اس طرح وقفے وقفے سے کئی آبی چینل ہیں جن سے گزر کر خام لوہے (اور دوسری معدنیات چاندی، سونا، تانبہ وغیرہ) تک پہنچنا پڑتا ہے۔۔۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کام کتنا مشکل ہوگا۔

دوسرا چیلنج یہ ہے کہ چنیوٹ کے آس پاس ہی کہیں ایک سٹیل مل قائم کرنی پڑے گی۔ وجہ یہ ہے کہ خام لوہے کو پختہ لوہے میں تبدیل کرنے اور پھر اس پختہ لوہے کو سٹیل میں ڈھالنے کے لئے اس کو ایک سٹیل مل کی ضرورت ہے۔ اگر یہ سٹیل مل، چنیوٹ سے زیادہ دوری پر واقع ہو تو خام لوہے کے ڈلے (Billets) ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچانے کے لئے ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے کراچی ہی میں اپنی پہلی سٹیل مل لگائی کہ بحری جہاز سے خام لوہا اتار کر اس کو مل میں پہنچانے میں زیادہ وقت اور محنت درکار نہ ہو۔

ایک تیسرا چیلنج اور طرح کا یہ بھی ہے کہ عالمی مارکیٹ میں خام لوہے کی مانگ کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس لئے اس کے نرخ بھی کم ہو رہے ہیں۔ جو گلوبل مائننگ کمپنیاں چنیوٹ کی کانوں سے خام لوہے وغیرہ کو نکالیں گی، ان کو یہ پہلو بھی مدنظر رکھنا ہوگا اور خام لوہا نکالنے کی فی ٹن لاگت کا مقابلہ عالمی لاگت سے کرنا ہوگا۔

یہ اور اس قسم کے دوسرے چیلنج ضرور موجود ہیں لیکن موجودہ پنجاب حکومت اور موجودہ مرکزی حکومت میں وہ لوگ برسراقتدار ہیں جن کو اس موضوع سے غائت دلچسپی ہے۔ جتنا ٹیکنیکل Knowhowاس ذیل میں شہباز حکومت کو ہے ، وہ پاکستان کی کسی بھی دوسری سیاسی حکومت کو نہیں ہو سکتا۔ اس لئے امید کی جانی چاہیے کہ پنجاب حکومت ان ذخائر سے خاطر خواہ فائدہ حاصل کرنے اور جلد سے جلد حاصل کرنے کی طرف اپنی ساری توجہ مبذول کرے گی۔

پاکستان کے اربابِ اختیار پہلے ہی سیندک، ریکوڈک اور تھرکول کے منصوبوں کے سبزباغ دکھا دکھا کر مجھ جیسے کروڑوں پاکستانیوں کو رومانیت کے تصوراتی بامِ بلند سے یاسیت کے پاتالوں تک دھکیل چکے ہیں۔ امید کرتا ہوں کہ اس بار تخیل کی وہ پریاں کہ جن کا ذکر میں نے کالم کے شروع میں کیا تھا، اپنی ایک جھلک دکھا کر واپس کسی کوہ قاف میں نہیں چلی جائیں گی۔۔۔ پاکستانیوں نے آخر ایسا کیا گناہ کیا ہے کہ عقوبت کے واسطے ان کی سزاؤں کی کوئی حد ہی نظر نہ آئے۔

لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان

داعش کی سفاکیت

’’ظالم‘‘ میڈیا سے وزیراعظم کے شکوے.....

0
0


سوال جواب کے سلسلے سمیت وزیراعظم نواز شریف کے سی پی این ای میٹنگ میں خطاب کے جلوے اسی میڈیا کے ذریعے پوری قوم نے براہ راست دیکھے جس میڈیا کے ساتھ وہ عدم تعاون کا شکوہ کر رہے تھے۔ یہ میڈیا بھی کتنا ظالم ہے کہ جس کی لاٹھی، گولی، گیس کھاتا ہے اس کی دشنام طرازیوں سمیت ایک ایک لفظ عوام کے کانوں تک پہنچا دیتا ہے، جس کے انقلابی اور تحریکی جلوسوں میں دھکے کھاتا بے عزت ہوتا ہے اس کی ہر بات بھی عوام تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتا ہے اور جس کی گھنٹوں پر محیط دھاڑوں سے خود کو بھی غیر محفوظ سمجھتا ہے اس کی ترنگ والی ہر ’’ادا‘‘ کی قوم کو جھلک دکھانا بھی اپنے فرائض منصبی کی مجبوری بنا لیتا ہے۔ جس میڈیا پر ان کا قہر ٹوٹتا ہے وہی میڈیا سیاسی بازار میں ان کے گھٹیا، خام اور غیر معیاری مال کے بھی بڑے دام لگانے اور وصول کرنے میں معاون بنتا ہے۔

جناب! آپ کو میڈیا سے تعاون حاصل کرنے کی بھلا ضرورت ہی کہاں پڑتی ہے کہ رطب اللسانوں کے غول کے غول آپ کے قدم ناپتے آپ کی کوتاہیوں کو بھی اچھا بنا کر پیش کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ جب آپ کی اس ’’ذرہ بکتر‘‘ میں آپ کی ناکردنیوں کے جواز میں بھی بھونڈی دلیلوں کے ہتھیار استعمال کر کے قوم کو سب اچھا پر قائل کرنے کا جبر کیا جا رہا ہو تو آپ کی ناک کا بال بنا میڈیا ہی آپ کو لبھا سکتا ہے۔ مگر کیمرے کی آنکھ بڑی ظالم ہے جو اس سب اچھا میں موجود کیڑے نکال نکال کر قوم کو اسی طرح ان کی جھلک دکھاتی رہتی ہے جیسے رجوعہ کی زمین کے اندر سے اُگلنے والے لوہے اور تانبے کی شکل میں قدرتی خزانے کا کریڈٹ لینے کا آپ کو موقع مل رہا ہوتا ہے۔ 

اگر فی الواقع گورننس مثالی ہو جس میں بلا امتیاز ہر شہری کی داد فریاد اور رسائی کے لئے دروازے کھلے ہوں، روزگار سمیت لوگوں کا ہر کام بغیر قائداعظم کے پہیے لگائے خالص میرٹ پر ازخود ہو رہا ہو اور امن و خوشحالی کا راج ہو تو نہ عوام پاگل ہیں کہ وہ اپنے مخلص حکمرانوں کا خواہ مخواہ سیاپا کرنے سڑکوں پر نکل آئیں اور نہ میڈیا کو کسی کتے نے کاٹا ہے کہ وہ قصرِ سلطانی (سلطانیٔ جمہور) کے بے کار لتے لینا اپنے فرائض منصبی کا حصہ بنا لے۔ اگر جمہوری سلطانوں نے سلطانیٔ جمہور کو اپنے لئے ثواب اور جمہور کے لئے عذاب بنا دیا ہو تو دل کے پھپھولے پھولنے کے لئے میڈیا کے سوا جمہور کے پاس اور کون سا سہارا رہ جاتا ہے۔

ریاست یقیناً زمین کے ایک ٹکڑے پر قائم ہوتی ہے مگر زمین کے اس ٹکڑے پر آئین اور قانون کے تابع گورننس قائم کر کے اور اسے مستحکم بنا کر ہی اس ریاست کو مملکت بنایا جا سکتا ہے۔ ہماری ارضِ وطن تو مملکت خداداد ہے جسے بانیان پاکستان قائد و اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کو انگریز اور ہندو کے استحصالی نظام سے نجات دلانے کے لئے ہی تشکیل دیا تھا جس کا بنیادی مقصد جدید فلاحی اسلامی معاشرے کی فراہمی تھی جس میں ریاست (مملکت) اپنے شہریوں کو بلاامتیاز ضروریات زندگی کی ہر چیز فراہم کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ 

اس میں شہریوں کو روٹی روزگار اور جان و مال کے تحفظ کی ریاست کی جانب سے ضمانت فراہم کی جاتی ہے۔ ہمارے آئین میں شامل بنیادی حقوق کی شقیں اس کی ہی متقاضی ہیں مگر بدقسمتی سے یہاں کے حکمران اشرافیہ طبقات نے ریاست پاکستان کے شہریوں کو آج تک یہ ضمانت فراہم ہی نہیں ہونے دی جس کے باعث یہاں فلاحی ریاست کا تصور تو پنپ ہی نہیں پایا جبکہ مذہبی فرائض کی ادائیگی کی آزادی نے آج ہمیں وہ دن دکھا دیا ہے کہ ملک کے ہر شہری کو اپنی جان کے تحفظ کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔

 فرقہ بندیوں میں بٹی یہ مذہبی آزادی ہماری ریاست کو شرفِ انسانیت کے تقاضوں سے بھی کہیں دور بھٹکا لے گئی ہے۔ بہرحال مجھے وزیراعظم کے ارشادات کی روشنی میں آج صرف فلاحی ریاست کے تصور پر بات کرنی ہے کیونکہ ریاست (مملکت) نے اپنے شہریوں کو روزگار، علاج معالجہ کی سہولتوں، یکساں معیاری تعلیم، توانائی کے حصول اور اچھی آب و ہَوا والے ماحول سے مسلسل محروم رکھ کر اس معاشرے کو جتنا غیر متوازن بنایا ہے اس سے بطور ریاست اس معاشرے کی بقاء معجزات میں شمار ہو چکی ہے۔ اگر ریاست کے وسائل پر صرف حکمران طبقات قابض نہ ہوں اور تمام شہریوں کو بلاتفریق و امتیاز روٹی روزگار، علاج معالجہ اور تعلیم کی سہولتیں بغیر کسی ردوکد کے فراہم ہو رہی ہوں تو اس کے نتیجہ میں خوشی خوشحالی سے مزین ہونے والا معاشرہ ہی فلاحی ریاست بنتا ہے جو بانیان پاکستان قائد و اقبال کا خواب تھا۔

 اگر یہ خواب ریاست پاکستان کے شہریوں (پسے کچلے مقہور عوام الناس) کے لئے شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا جس کے نتیجہ میں قبیح اور گھنائونے جرائم سمیت بے شمار سماجی معاشرتی برائیوں اور بیماریوں نے جنم لیا ہے تو اس کے ذمہ دار وہی حکمران اشرافیہ طبقات ہیں جو اس مملکت کی گورننس کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں تھام کر اسے فلاحی ریاست کے تصور سے دور بھگا لے جاتے رہے ہیں۔

اگر ریاست خود اپنے شہریوں کی روزگار، تعلیم، صحت کی ضروریات قطعی میرٹ پر پوری کر رہی ہو تو پھر کسی شہری کو اپنی روزمرہ زندگی کی جملہ ضروریات پوری کرنے کے لئے کسی کا دستِ نگر کیوں ہونا پڑے۔ یہاں تو حصول تعلیم کے بعد حکمران طبقات نے اس ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونہار بچوں بچیوں کے لئے میرٹ پر روزگار کا حصول بھی ناممکنات میں شامل کر دیا ہے تو اس مملکت خداداد کے مقہور عوام الناس کیا اسی طرح ایڑیاں رگڑتے زندہ درگور ہوتے اپنے تنفس کا سلسلہ برقرار رکھنے کی خاطر نان جویں کے چند ٹکڑوں کے حصول کے جتن میں اپنی عزت آبرو اور شرافت کا سودا کرنے پر مجبور ہوتے رہیں۔

جناب! عوام کے لئے جہنم بنایا گیا ایسا معاشرہ اپنی بقا کا جواز کھو دیتا ہے۔ آپ میڈیا سے اپنے قومی ایکشن پلان کی کامیابی کے لئے دو سال تک حکومت کا رطب اللسان بننے کا تقاضہ کر رہے ہیں تو یہ تقاضہ درحقیقت مسائل کے دلدل میں دھنسے ایڑیاں رگڑتے عوام کی آہوں، کراہوں کی جانب کیمرے کی آنکھ بند رکھنے اور قلم کی کاٹ میں ڈنڈی مارنے کا ہے۔ آپ دو سال کے لئے نہ سہی، چلیں ایک ماہ کے لئے ہی سب اچھا سُنانے والے اپنے رطب اللسانوں سے بے نیاز ہو کر اپنے عوام کی صفوں میں جا کر اپنی آنکھوں سے ان کے معمولات زندگی کا مشاہدہ کر لیں اور اس ملک کی دھرتی پر موجود قدرت کے تمام وسائل اور قیمتی ذخائر ان راندۂ درگاہ عوام کی بہتر زندگی کے لئے وقف کر دیں،

 آپ کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے جتن کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی، یہی سارے عوام آپ کے رطب اللسان ہوں گے اور میڈیا بھی آپ کا دم بھرتا نظر آئے گا۔ آپ سلطانیٔ جمہور کے حقیقی قالب میں ڈھل جائیے، جمہور آپ کی سلطانی کو کبھی گزند تک نہیں پہنچنے دے گی ورنہ میڈیا تو وہ ظالم آئینہ ہے جو مجبور عوام کی بے بسی کی جھلک من و عن دکھاتا ہے تو حکمران طبقات کی عیاشیوں کے پھیلائے گئے گند کی سڑاند بھی اس آئینے میں تعفن چھوڑتی ہی نظر آئے گی۔ آپ اس آئینے کو لپیٹنے کی بجائے اپنا پھیلایا گند صاف کر لیں۔ سب اچھا خود بخود ہی ہو جائے گا۔

سعید آسی

پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی...

0
0



فروری کو رحیم یار خان پیپلزپارٹی کے رابطہ کار چودھری جاوید اقبال وڑائچ کے مکان پر اخبار نویسوں سے خطاب کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما خورشید احمد شاہ نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کے قومی مفاد کے حصول میں ناکام ہو گئی ہے لہٰذا اس میں تبدیلی لانے کے لیے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی کانفرنس منعقد کی جانی چاہیے۔ 16 فروری کے انگریزی روزنامہ ’’ڈان‘‘ کے صفحہ اول پر دو کالمی سرخی میں شاہ صاحب کا بیان بڑے نمایاں طور پر شائع کیا گیا تھا لہٰذا قارئین کو تجسس ہوا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کیونکر ناکام ہوئی لیکن خبر کا پورا متن پڑھنے کے بعد صرف اتنا معلوم ہو سکا کہ پی پی کے رہنما کا خاص ہدف بیچارے سرتاج عزیز اور طارق فاطمی تھے جن کی تقرری پر موصوف کو شدید اعتراض ہے ان کا کہنا ہے کہ آخر کل وقتی وزیر خارجہ کا تقرر کیوں نہیں کیاجاتا؟ 

شاہ صاحب حزب اختلاف کے رہنما ضرور ہیں اس لیے انہیں ہر ملکی اور غیر ملکی مسئلہ پر اظہار خیال کا حق پہنچتا ہے لیکن اتنے ذمہ دار شخص سے توقع کی جاتی ہے کہ ذاتیات اور پارٹی بندی سے بلند ہو کر داخلی و خارجہ عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی سازی کی جائے ، ان کے بیان سے کسی طرح یہ مترشح نہیں ہوتا کہ آخر خارجہ پالیسی میں کیا سقم ہے جس کا ازالہ ضروری ہے نیز یہ کہ نواز حکومت کی خارجہ پالیسی زرداری کی خارجہ پالیسی سے کتنی مختلف ہے، اس ضمن میں شاہ صاحب کا بیان مایوس کن ہے۔
یہ کہنا کہ موجودہ کابینہ میں کل وقتی وزیر خارجہ کا قیام لازمی ہے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کیا بھٹو حکومت میں کوئی کل وقتی وزیر خارجہ تھا؟ البتہ ایک متنازع سرکاری اہلکار عزیز احمد کو وزیر مملکت برائے امور خارجہ بنا دیا گیا تھا جبکہ خارجہ پالیسی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو وضع کرتے تھے اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ انہوں نے پاکستان کی جانبدارانہ پالیسی میں توازن پیدا کر کے اسے بین الاقوامی رجحانات سے ہم آہنگ کیا۔ یاد رہے کہ انہوں نے مشرقی یورپ کی اس وقت کی کمیونسٹ حکومتوں اور ویتنام سے پاکستان کے سیاسی و سفارتی تعلقات استوار کیے ساتھ ہی 1974ء میں اسلامی ممالک کی کانفرنس منعقد کر کے کشمیر اور فلسطین کے عوام کے حق خود اختیاری کی بحالی کو علاقائی اور عالمی استحکام کے لیے ناگزیر قرار دیا۔

اگر برصغیر کی سطح پر دیکھا جائے تو بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے اپنے دورِ اقتدار میں کوئی وزیر خارجہ نہیں مقرر کیا بلکہ یہ قلمدان خود اپنے پاس رکھا۔ ایسی کئی مثالیں دیگر ممالک میں موجود ہیں۔ شاہ صاحب کو سرتاج عزیز اور طارق فاطمی پر کیا اعتراض ہے؟

سرتاج عزیز انتہائی لائق اور منجھے ہوئے ٹیکنو کریٹ ہیں۔ اسی طرح طارق فاطمی صاحب پاکستان کی خارجہ ملازمت Foreign Service کے سند یافتہ اور تجربہ کار سفارت کار ہیں جن کی علاقائی اور عالمی امور پر گہری نظر ہے اور شاہ صاحب وزیراعظم نواز شریف کو کیا سمجھتے ہیں ان میں کس چیز کی کمی ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ سے لے کر تین بار وزارت عظمیٰ پر مامور رہ چکے ہیں اور اسلامی ممالک میں ان کی بڑی ساکھ ہے جبکہ وہ کاروباری دنیا میں بھی معزز مقام رکھتے ہیں۔ شاہ صاحب بتائیں کہ زرداری، گیلانی، اشرف ٹولے نے خارجہ پالیسی میں کیا تیر مارا تھا؟ 

ان کے امور خارجہ کے کارناموں میں سلالہ چوکی پر تعینات پاکستان کے فوجیوں پر امریکہ کا قاتلانہ حملہ، کارگل فوجی اکادمی کے نزدیک بلال ٹاؤن میں واقع اسامہ بن لادن کی مبینہ رہائش گاہ پر امریکی فضائی حملے اور زرداری کی امریکہ کو مبارکباد، افواج پاکستان کو ملک کی سیاست میں مداخلت سے باز رکھنے کے لیے امریکی فوج کی مبینہ کارروائی اور بیرون ملک بینکوں میں پاکستان کی لوٹی اور چرائی ہوئی دولت کے خفیہ کھاتوں کا تحفظ۔ آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے تابع کرنے جیسے اقدامات وغیرہ جیسے شرمناک سکینڈل شامل ہیں۔

شاہ صاحب کو امور خارجہ کا ذرا کم ہی ادراک معلوم ہوتا ہے جبھی تو بے تکی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ انہیں شاید معلوم نہیں کہ کسی ملک کی خارجہ پالیسی کا تعین جغرافیائی محل وقوع ، تاریخی پس منظر ، اقتصادی اور دفاعی ضروریات جیسے عوامل اور زمینی حقائق کرتے ہیں اور یہ روز روز نہیں بدلتے البتہ فروعی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اگر ملک کی داخلی پالیسی استحکام، امن و امان، اقتصادی خود کفالت پر مبنی ہو تو وہ خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوتی ہے۔

 ویسے اقتصادی خود کفالت کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ ترقی کے ثمرات ایک مخصوص طبقے تک محدود ہوں جبکہ عوام دانے دانے کو ترس رہے ہوں۔ اگر ملک کی 70 فیصد آبادی زراعت پیشہ ہے تو کسانوں میں زرعی اراضی کی منصفانہ تقسیم لازمی ہے ورنہ ملک میں غربت اور جرائم ڈیرے ڈال دیں گے۔ اسی طرح اگر بنیادی صنعت پر ایک مخصوص طبقے کی اجارہ داری ہے تو منافع خوری، زخیرہ اندوزی، اشیائے صرف کی مصنوعی قلت و گرانی جیسی سماجی برائیاں عام ہو جائیں گی۔ مثال کے طور پر ملک میں گنے کی وافر کاشت ہوتی ہے لیکن مل مالکان کاشتکار کو حکومت کی متعین کردہ گنے کی قیمت بھی ادا نہیں کرتے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ بیشتر چینی بنانے والے کارخانے سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کی ملکیت ہیں جو گھوم پھر کر برسراقتدار ہو جاتے ہیں جبکہ منافع خور چینی کی مصنوعی قلت پیدا کر کے کھلے عام منافع خوری کرتے ہیں جنہیں رشوت خور افسران کا تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے زرعی ملک میں خوراک کی قلت کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ویسے تو یہ ملک کا اندرونی مسئلہ ہے لیکن ملک کی آبادی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے خوراک درآمد کرنی پڑتی ہے۔ جس کے باعث ملک دوسرے ملک کا دستنگر ہو جاتا ہے۔

اسی طرح جب مالی میزان خسارے کا شکار ہو جاتا ہے تو اسے پورا کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی ادارے IMF سے قرض لینا پڑتا ہے اور بڑی طاقتیں مقروض ریاست پر کڑی شرائط عائد کرتی ہیں جس سے اس کا اقتدار اعلیٰ مجروح ہوتا ہے۔ پاکستان کا المیہ رہا ہے کہ ہر حکومت خود کفالت کی بجائے بیرونی قرضہ جات پر انحصار کرتی رہی ہے بالخصوص پی پی اور مسلم لیگ کی منتخب حکومتیں۔ کیا خورشید احمد شاہ یہ بتا سکتے ہیں کہ ان کی حکومت نے اپنے دوبارہ برسر اقتدار آنے پر ملک کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے میں کیا کردار ادا کیا تھا؟ جہاں تک نواز شریف کی حکومت کا تعلق ہے تو انہوں نے قرض اتارنے اور ملک کو سنوارنے کا نعرہ تو لگایا یہ دوسری بات ہے کہ وہ اپنے عزم پر ثابت قدم نہیں رہے۔

اگر نواز حکومت کی کوتاہیوں کے ساتھ ان کے مثبت اور تعمیری اقدام کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ نا انصافی ہو گی۔ نواز حکومت نے فوج کے سربراہ کے ساتھ مل کر اندرون ملک برپا دہشت گردی کے انسداد کے لیے لائحہ عمل نہ صرف تیار کیا بلکہ اس کو عملی جامہ پہنایا۔جس دن اوباما بھارت میں نریندر مودی کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رہے تھے اسی دن پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل راحیل شریف چین کی عسکری اور سیاسی قیادت سے تعلقات میں وسعت پیدا کر رہے تھے جس کا اظہار عوامی جمہوریہ چین کے وزیر خارجہ کی پاکستان آمد اور اس سے دفاعی، تزویراتی ، سیاسی اور اقتصادی روابط سے ہوتا ہے۔

 افغانستان میں بھارت اور امریکہ کے تسلط کے خلاف عوامی جمہوریہ چین نے افغانستان میں طالبان اور اشرف غنی جنتا میں مفاہمت کے لیے اپنی خدمات پیش کر دیں جبکہ اس عمل میں پاکستان کی شرکت کو ناگزیر قرار دیا۔ چین نے افغانستان میں تانبے کی نکاسی اور آب پاشی اور پن بجلی کے منصوبے میں امداد کی پیشکش کر کے بھارت کی اجارہ داری کو چیلنج کر دیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے اوباما کو صاف کہہ دیا کہ پاکستان کو سلامتی کونسل میں بھارت کی رکنیت ہرگز قابل قبول نہ ہو گی جس پر اوباما نے نواز شریف سے ملاقات کی درخواست کی۔ اب جلد ہی چین کی شراکت اور امداد سے کاشغر اور گوادر شاہراہ کے علاوہ ریلوے ٹریک بچھانے کا منصوبہ ہے۔

اس کے برعکس زرداری ٹولے نے پاکستان میں روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کی آمد کے موقع پر یادداشت اور مفاہمت کو معاہدوں کی شکل نہ دے کر روسی صدر کو اپنا دورہ مبینہ طور پر منسوخ کرنے پر مجبور کر دیا۔ اگر خورشید احمد شاہ نواز حکومت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو انہیں باقاعدہ اپنی تجاویز پیش کرنی چاہیے۔

پروفیسر شمیم اختر
"بہ شکریہ روزنامہ ’’نئی بات

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live