Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

یہ جنگ پاکستان کو اکیلے ہی لڑنا ہوگی؟....

$
0
0


عجیب منظر، عجیب ماحول اور مستقبل کے بارے میں بھی عجیب آثار نظر آتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنی قومی زندگی کے ایک مشکل اور چیلنجوں سے بھرپور دور میں داخل ہورہے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف پاکستانی قوم کو خود اپنے ہی وسائل سے اکیلے ہی یہ جنگ لڑنا ہوگی۔ قومی یکجہتی کے ساتھ پرعزم ہو کر حالات کا بہادری سے مقابلہ کرنے اور مخالف قوتوں سے نمٹنے کا فیصلہ درست اور سر آنکھوں پر لیکن پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی تاریخ گواہ ہے کہ زمینی حقائق خواہ کتنے ہی تلخ ہوں ان کو پیش نظر رکھ کر فیصلے اور حکمت عملی سے کرنا ہی دانشمندانہ طریقہ قیادت اورکامیابی کی علامت کہلاتا ہے۔ کسی بھی عسکری آپریشن کی حکمت عملی طے کرتے وقت ناموافق زمینی حقائق کو موافق زمینی حقائق سے پہلے اور زیادہ تفصیل سے پیش نظر رکھا جاتاہے پھر موافق زمینی حقائق اور ایکشن کے مطلوبہ مقاصد کا فیصلہ ہوتا ہے اور قومی اتحاد و عزم کے ساتھ ایکشن کا آغاز ہونا زیادہ عملی اور بہتر طریقہ ہے۔خدا کرے دہشت گردی کے خلاف پاکستانی قیادت اور قوم مکمل کامیابی سے ہمکنار ہو۔ اردگرد کے عجیب منظراور ماحول میں ناموافق تبدیلیوں، دشمن کے وسائل اور پراکسی(PROXY) جنگ میں مخالفین کے سرپرستوں اور معاونین کو بھی پیش نظر رکھنا انتہائی لازمی ہے۔

عجیب منظر ہے کہ پشاور سے کئی ہزار کلومیٹر دور امریکہ اور کینیڈا میں آباد ہر پاکستانی خاندان اور ہر فرد سوگوار ہے۔ نہ صرف نیویارک میں ہی ٹائمز کے اسکوائر، بروکلین، لانگ آئی لینڈ، جیکسن ہائٹس اور مین ہٹن میں پشاور میں شہید ہونے والے معصوم طلبہ کی مغفرت ، تعزیت ،یکجہتی اور احتجاج کا اظہار کیا گیا بلکہ نیو یارک کے چرچوں میں بھی پاکستانی نژاد مسیحی برادری نے تعزیت اور دعا کے ساتھ ساتھ معصوم جانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے پر احتجاج بھی کیا ۔ متعدد پاکستانی مسلمان بھی چرچوں کے ان اجتماعات میں شریک ہوئے۔ امریکہ و کینیڈا کے اسکول سسٹم میں زیرتعلیم کئی لاکھ پاکستانی نژاد بچے ایک ٹروما کا شکار ہیں کہ جب ان کے غیر پاکستانی ساتھی طلبہ پشاور کے واقعہ کا ذکر کر کے ان سے کوئی سوال کرتے ہیں اور پاکستانیوں کے بارے میں اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ تو پاکستانی والدین کے یہ بچے عجیب صورتحال سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ کیا وہ خود کو پاکستان، اپنی پاکستانیت اور والدین کے پاکستانی ہونے سے قطع تعلق کر کے یہ کہہ دیں کہ ہم تو امریکی اور کینیڈین ہیں یا پھر وہ اسکول جانا بند کر کے اپنے گھر بیٹھ جائیں۔
دوسرے غیر پاکستانی بچے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ یہ مسلمان ناموں والے مسلح افراد مسلمان ناموں کے حامل ان بے گناہ اور معصوم طلبہ کو کیوں گولیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں؟ یہ تمام دہشت گرد مسلمان نام والے ہی کیوں ہیں؟ کیا تم پاکستان جائو گے؟ کیا تمہارے والدین کے آبائی علاقوں میں بھی ان کے ہمسایوں میں کوئی دہشت گرد بھی رہتا ہے؟ پشاور کے اسکول کے طلبہ نے کیا قصور کیا تھا؟ ان سوالات نے پاکستانی بچوں اور والدین کیلئے ایک ٹروما کی صورتحال پیدا کر رکھی ہے اگرچہ ان سب کے دل آبائی وطن پاکستان کیلئے دھڑکتے ہیں مگر ان سوالات کا کوئی مربوط جواب موثر موقف نہیں ملتا۔ 

وہ پشاور سے اتنی دور امریکہ و کینیڈا میں کہیں زیادہ پرامن اور محفوظ رہ کر بھی پشاور کے سانحہ کے شہیدوں اور متاثرین کے ساتھ تعزیت ہمدردی اور یک جہتی کا اظہار کررہے ہیں۔

عجیب تبدیل ہوتا ہوا ماحول ہے اور اس کا ایک واضح ثبوت 16؍دسمبر کو امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان ایئر ایڈمرل کربی کی وہ بریفنگ ہے جو انہوں نے پشاور کے اسکول میں انسانیت سوز دہشت گردی کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے دی ہے۔ ان کی طویل پریس بریفنگ کا لب لباب یہ ہے کہ امریکہ اب طالبان سے صرف اس لئے نہیں لڑے گا اور نہ ہی اس لئے انہیں مارے گا کہ وہ طالبان ہیں۔

اگر طالبان براہ راست امریکہ پر حملہ نہیں کریں گے تو امریکہ ان سے نہیں لڑے گا۔ البتہ امریکی شہریوں، امریکی تنصیبات ، فوجیوں پر حملہ یا تصادم کو براہ راست امریکہ سے تصادم تصور کیا جائے گا۔ پاکستان کے عوام ایک عرصہ سے دہشت گردی کے واقعات کا سامنا کررہے ہیں۔ ہم پاکستان کے ساتھ یکجہتی اور حمایت کا اظہار کرتے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے اس سلسلے میں کسی مدد یا تعاون کی درخواست امریکہ کو موصول نہیں ہوئی۔ افغان نیشنل سیکورٹی فورسز اب خاصے وسائل، تربیت اور طالبان سے لڑنے اور نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ پاکستان سے تعلقات کی اونچ نیچ کے باوجود امریکہ نے پاکستان سے تعلقات اور ڈائیلاگ مسلسل رکھا ہے۔ میری نظر میں امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان ایئرایڈمرل کربی کی اس بریفنگ کا واضح پیغام ہے کہ افغانستان کے ساتھ ہمارا دوطرفہ افغان۔

امریکہ سیکورٹی معاہدہ ہے لہٰذا امریکہ افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ بھی لڑے گا۔ افغان سیکورٹی فورسز کی مدد بھی کرے گا اور اگر طالبان نے امریکی فوجیوں ، مشیروں اور تنصیبات پر کوئی حملہ کیا تو یہ حملہ امریکہ کے خلاف جنگ تصور ہوگا ۔ پاکستان میں دہشت گردوں کے حملوں پر ہمیں افسوس ہے ہم مذمت کرتے ہیں کہ یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں لیکن دہشت گردی کے خلاف پاکستان کو یہ جنگ اکیلے ہی اور خود اپنے وسائل سے لڑنا ہوگی۔ سانحہ پشاور کے بعد پاکستان کی جانب سے امریکہ کو تعاون یا مدد کی کوئی درخواست بھی موصول نہیں ہوئی۔ امریکہ ماضی کی اس پالیسی کو تبدیل کررہا ہے کہ جب صرف طالبان ہونا جرم تھا۔ اب اچھےاور برے طالبان کا فرق اپنایا جائے گا۔ جو طالبان براہ راست امریکہ پر حملہ نہیں کریں گے۔ انہیں امریکہ کچھ نہیں کہے گا۔ صرف ان برے طالبان کو امریکی حملوں کا نشانہ بنایا جائے گا جو امریکی شہری فوجی اور تنصیبات و مفادات پر حملہ کرنے یا نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔

اب ذرا زمینی حقائق پر نظر ڈال لیں کہ افغانستان میں اشرف غنی حکومت کی آمد کے بعد پاک۔ افغان تعلقات میں ناگواری کی جگہ بہتری نے لی مگر افغانستان اپنے تمام سیکورٹی فیصلوں میں امریکی معاہدے کا پابند ہے۔ دس سال تک دہشت گردی کے خلاف امریکہ کے اتحادی اور فرنٹ لائن کے ملک کے طور پر اس جنگ میں مکمل شرکت اور اپنی سرزمین تک رسائی دینے کے باوجود اب پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ اکیلے طور پر لڑنا ہے جبکہ بھارت جیسا ہمسایہ ملک اپنا خاموش اور اعلانیہ رول بھی ادا کررہا ہے۔ دہشت گردوں کو امریکہ کی نئی پالیسی کے تحت صرف پاکستان کے خلاف اپنی تمام تر دہشت گردی کا نشانہ بنانے کا موقع مل گیا ہے جہاں وہ اپنی سابقہ ناکامیوں اورتلخیوں کا انتقام لینے کی کوشش کریں گے۔ امریکی خواہش ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان امریکہ سے مدد اور تعاون کی درخواست کرے مگر اس بات کا پورا پورا امکان ہے کہ ایسی مدد اور تعاون کی صورت میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے معاملات بھی متاثر ہو جائیں وجہ صاف ظاہر ہے اور موقف یہ کہ انہیں دہشت گردوں کی پہنچ سے بچانا ہے۔

پاکستان کی معیشت کرپشن،دھرنا اور سیاسی خلفشار کے اثرات کا شکار ہے اور ابھی مزید مشکل حالات اور چیلنجوں کا خطرہ موجود ہے۔پاکستانی فوج تو گزشتہ 10سال سے زیادہ عرصے سے جنگ میں مصروف ہے۔ پیرا ملٹری فورسز۔ رینجرز اور پولیس بھی داخلی سطح پر جس صورتحال سے دوچار ہے وہ بھی کوئی اچھی صورت نہیں۔گویا قومی اور عالمی سطح پر پاکستان کیلئے صورتحال ٹھیک نہیں اور دہشت گردی پاکستان میں شدت پکڑ رہی ہے۔ جیلوں میں سزا یافتہ دہشت گردوں کی سزائے موت پر عمل کرنے کا کام بھی جاری ہے۔ حکومت کی رٹ بھی کمزور نظر آرہی ہے اور چیلنج ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنا اور ایٹمی اثاثوں کو محفوظ رکھتے ہوئے خطے میں پاکستان کا وجود قائم رکھنا ہے۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ انتہائی ناموافق صورتحال میں جنگ عظیم کے دوران لندن ہٹلر کی بمباری کا شکار ہوا مگر عوام کے عزم اور دانشمندانہ سیاسی قائدین کی بدولت لندن آج بھی آباد اور دنیا کا ایک اہم مرکز ہے۔ پاکستان کے عوام میں تو عزم بھی ہے اور مشکل ترین حالات میں زندہ رہنے، صبر کے ساتھ امید سے وابستہ رہنے کا حوصلہ بھی ہے۔ صرف دانشمندانہ محب وطن فوجی اور سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو قومی مفاد کو سامنے رکھ کر اپنے ہی محدود وسائل میں رہ کر ملک کو بچا کر تعمیر کرنے کیلئے فیصلے کر سکیں۔

ورنہ 16 دسمبر 1971ء کے سانحہ بنگلہ دیش کی طرح لاعلمی اور جذباتی انداز کے فیصلوں اور عمل کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ خوش خیالی کے خوابوں سے جاگ کر ناموافق حالات کا تجزیہ کرکے تحفظ کی ضرورت ہے۔

عظیم ایم میاں
"بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ


فیصلہ کرو یا بھٹکتے رہو...وسعت اللہ خان

The story of Jinnah - A Set of Rare Pictures of The Quaid-e-Azam

$
0
0



The story of Jinnah - A Set of Rare Pictures of The Quaid-e-Azam





بانیٔ پا کستا ن اور ہم....

قائد اعظم ہاؤس میوزیم...

$
0
0

بانی ٔ پاکستان کی زندگی کی یادوں سے جڑا کراچی کے ضلع جنوبی میں شاہراہ فیصل پر ہوٹل مہران اور فاطمہ جناح روڈ کے درمیان ایک پرشکوہ عمارت ایستادہ ہے، جسے قائد اعظم میوزیم ہاؤس کا نام دیا گیا ہے۔ اس سے قبل اس کا نام فلیگ سٹاف ہاؤس تھا ۔یہ قائد اعظم محمد علی جناح اور محترمہ فاطمہ جناح کے حوالے سے ایک تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ گھر قائداعظم نے 115,000کا خریدا تھا ۔اس کا سیل ایگریمنٹ 14اگست 1943ء کو سہراب کائوس جی کڑاک سے طے پایا تھاجو کراچی کے مئیر بھی رہے ۔ 

یہ تو پتہ نہیں چل سکا کہ یہ عمارت کب قائم ہوئی، تاہم دستیاب شدہ ریکارڈ کے مطابق 1922ء میں اس کے مالک رام چند ہنسوج لومانا تھے۔ بعد ازاں یہ گھر برٹش انڈین آرمی کے لیے کرائے پر حاصل کر لیا گیا۔ اس عمارت میں برٹش انڈین آرمی اور رائل پاکستان آرمی کے کمانڈر انچیف یا دیگر افسران کرائے پر رہتے رہے۔ ستمبر 1947ء میں قائد اعظم محمد علی اپنی دہلی کی رہائش گاہ 10اورنگ زیب روڈ سے فلیگ سٹاف ہاؤس منتقل ہوگئے ،مگر زندگی نے قائد اعظم کو اس گھر میں زیادہ عرصہ رہنے کی مہلت نہ دی ۔اس بات کا مصدقہ ریکارڈ تو نہیں ملتا کہ قائد نے کبھی یہاں مستقل یا باضابطہ رہائش اختیار کی ہو، تاہم بعض دستیاب شدہ روائتی گھریلو اشیاء یہ ظاہر کرتی ہیںکہ قائد اعظم نے کئی بار اس گھر کا دورہ کیا اور آرام کیا۔
 قائد اعظم کے انتقال کے بعد ان کی بہن اور سیاسی مشیر محترمہ فاطمہ جناح جو قائد کے ساتھ ہی گورنر جنرل ہاؤس میں مقیم تھیں، 13ستمبر 1948ء کو فلیگ سٹاف ہاؤس میں منتقل ہوگئیں۔ یہاں ان کا قیام 1964ء تک رہا، جس کے بعد وہ اپنے ذاتی گھر موہاٹا پیلس ( قصر فاطمہ) میں منتقل ہوگئی تھیں۔ 9جولائی 1967ء کو متحرمہ فاطمہ جناح کے انتقال کے بعد ایک صدراتی حکم نامے کے تحت ایک کمیشن تشکیل دیا گیا ،جس کی یہ ذمہ داری ٹھہرائی گئی کہ وہ قائد سے متعلق اہم تاریخی اشیاء کو اکٹھا کرکے جدید سائنسی طریقے سے اسے محفوظ کر کے عوامی نمائش کے لیے رکھے جائیں۔ قائد اعظم کے انتقال کے بعد ان کی بہن شیریں بائی ہاشم رضا ( سابق میئر کراچی) محمد لیاقت مرچنٹ (قائد کے بھانجے) کے اشتراک سے قائد اعظم ٹرسٹ قائم ہوا۔ ان ٹرسٹی سے فروری 1985ء کو 5,10,7000روپے کے عوض یہ گھر حکومت پاکستان نے خرید لیا۔ باضابطہ طور پر حکومت کو 1985ء میں منتقلی سے قبل ہی 14جون 1984ء کو فلیگ سٹاف ہاؤس کو محکمہ ٔ آثار قدیمہ نے اپنی تحویل میں لے کر تزئین و آرائش و مرمت کا کام شروع کر دیا تھا اور 2کروڑ روپے اس مد میں خرچ کئے گئے۔ 

از سرنو اس بلڈنگ کی تزئین کی گئی ۔ 80فی صد میٹریل اصلی استعمال کیا گیا۔ باغات کو بسایا گیا۔ قائدا عظم و محترمہ فاطمہ جناح سے متعلق اشیاء کو محفوظ کیا گیا ۔مثلاً قائد اعظم کے کمرے کی سیٹنگ ان کے دہلی والے گھر کی طرح سے رکھی گئی ہے، وہی فرنیچر کا رپٹ، قائد کی قانونی کتابیں بمعہ ان کے دستخط ، چھڑیاں، ماربل کا عمدہ سیٹ، ماربل ہی کا ٹیلی فون سیٹ جواب بھی درست حالت میں ہے ۔قائد کے استعمال میں آنے والے جوتے، قائد اعظم کے بیڈ روم میں کافور کی لکڑی سے بنا خوبصورت بکس جو اس وقت بھی کافور کی مکمل مہک دے رہا ہے۔ سگار بکس ، ایزی چیئر و آرام دہ کرسی میسور بھارت کا بنا ہوا اگر بتی کیس ، جس کی نمایاں خوبی اس پر یا محمدؐ اور درود شریف لکھا ہوا ہے۔

 قائد کے زیر استعمال قرآن مجید، ان کی ایک آنکھ کا چشمہ اور فاطمہ جناح کے ڈریسنگ روم میں ان کے پلنگ کی وہی سیٹنگ جو ان کی زندگی میں تھی، ان کے پاؤں کی کھڑاواں نما چپل، لکھنے کی میز ، الماری، شو پیس لکڑی سے بنی ہوئی خوبصورت الماری وغیرہ اور پرانا فرنیچر یہ سب اتنی عمدہ کو الٹی کی ہے کہ دیکھنے کے قابل ہے ۔متحرمہ شریں جناح کے استعمال میں آنے والی اخروٹ کی لکڑی کا فرنیچر جس پر ان کا نشان SJبنا ہوا ہے ۔ 1993ء میں فلیگ سٹاف ہاؤس کا نام تبدیل کرکے قائد اعظم ہاؤس میوزیم رکھا گیا اور 25نومبر 1993ء کو سندھ کے سابق گورنر مرحوم حکیم محمد سعید نے اس میوزیم کا افتتاح کیا۔ 

فلیگ سٹاف ہاؤس کا طرز تعمیر کا نونیل آرکیٹکچر سے ملتا جلتا ہے۔ اس کا ڈیزائن انجینئر مونکروف نے بنایا تھا ۔10,241 مربع گز پر پھیلی ہوئی، اس عمارت میں وسیع باغ کے ساتھ تین کمرے گراؤنڈ فلور پر جبکہ تین کمرے پہلی منزل پرواقع ہیں ۔دو بیرونی کمرے 16فٹ 10انچ کشادہ ہیں۔ پہلی منزل پر واقع کمرے بھی اتنے ہی کشادہ ہیں۔ ہر ایک کمرہ برآمدے میں کھلتا ہے ۔انہی کمروں سے منسلک گراؤنڈ فلور پر ایک انیکسی بھی واقع ہے، جسے اب آڈٹیوریم میں تبدیل کر دیا ہے۔ جہاں تقریری مقابلے ، تعلیمی مقالے ، آڈیو ویژیل شوز ، نمائش وغیرہ ( قائد اعظم سے متعلق) ہوتی ہے۔ اس عمارت میں 18سرونٹ کوارٹرز، 4گیراج 3گارڈ روم اور ایک کچن بھی موجود ہے ۔کچن کو اب ایڈمنسٹریٹو آفس میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔کراچی کے معروف معمار یاسمین لاری کو اس منصوبے پر مقرر کیا گیا اور ان کے ہی مشوروں سے قائد اعظم میوزیم کا پورا کام کیا گیا۔ 

میوزیم کے مرکزی گھر کو مکمل طور سے درست کر کے اس کی اصل حالت کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اس کی بگڑی ہوئی اور خستہ حالت کو تزئین و آرائش کرکے دوبارہ نکھارا گیا۔ صرف گراؤنڈ فلور کی چھت کو کنکریٹ سیمنٹ تبدیل کرنے کے بعد اس پر لکڑی کے ٹکڑوں سے چھت بنانے سے اس کی اصلی حالت نظر آتی ہے ۔ قائد اعظم میوزیم میں واقع باغ کو بھی از سر نو ڈیزائن کیا گیا ہے اس میں پانی کی سپلائی کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ روشنی کا موثر انتظام ( برائے سیکورٹی اور خصوصی تقاریب منعقد کرانے کے حوالے سے) کیا گیا ہے اس کا ڈیزائن مونکروف نے بنایا ہے مگر معروف آرکیٹیکٹ یاسمین لاری نے اس خیال کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ اس عمارت کو سومک نے تعمیر کیا ہے سومک کی یہ عادت تھی کہ وہ اپنی تیار کردہ عمارتوں پر کسی کونے میں اپنا نام نقش کر دیتا تھا اور اس عمارت کی ڈیوڑھی میں نقش و نگار میں اس کا نام دیکھا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ تھوڑی سی ہمت کی جائے ۔فلیگ سٹاف ہاؤس ، سومک کی پہچان بن جانے والی پہلی عمارت تھی جس میں اس کی تخلیقی و ذہنی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار ملتا ہے یہ بات تعجب انگیز ہو سکتی ہے کہ جب اس معمار سومک کو یہ عمارت بنانے کا کہا گیا تھا تو اسے بہت کم لوگ جانتے تھے ،مگر ان دونوں معروف معمار اسٹربچن اس قدر دوسرے کاموں میں مصروف تھا کہ اس کے پاس اس عمارت کی تعمیر کے لیے وقت نکالنا مشکل تھا چنانچہ یہ کام سومک کے سپرد ہوا۔

 یہ عمارت غالباً 1890ء کے لگ بھگ تعمیر ہوئی اور کے ڈی اے کے ریکارڈ میں جو 1865ء درج ہے، غلط ہے ۔یہ واضح ہوتا ہے کہ ان نقشوں سے جو کہ 1874ء اور 1869-70ء میں شائع ہوئے ان نقشوں کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عمارت ان نقشوں کی اشاعت کے بعد مکمل ہوئی سومک کا فلیگ سٹاف پر کیا گیا کام ڈبل سٹوری عمارت تک محدود ہے جبکہ انیکسی والا حصہ اس کے بعد تیار کیا گیا ممکنہ طور پر محدود بجٹ میں رہتے ہوئے مرکزی حصے کو با سلیقہ طریقے سے تعمیر کیا گیا ہے ۔ محترمہ فاطمہ جناح جن دونوں اس عمارت میں رہیں ان کی سیاسی جدوجہد کے دونوں میں یہ عمارت کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز (C.O.P) کا ہیڈ کوارٹر بھی رہی مادر ملت سے نامور شخصیات مثلاً خواجہ ناظم الدین ، مولانا مودودی ، جسٹس زید ایچ لاری، چین کی عظیم خاتون مادام سن یات سن ، چو این لائی ، سوئیکارنو، شہنشاہ ایران، الجزائر کے فرحت عباس، مسز اندرا گاندھی ، پنڈت جواہر لال نہرو، مسز روز ویلٹ ، مادام ڈیگال، مسز سروجنی نائیڈو ، مسز نکلسن نے اسی فلیگ سٹاف ہاؤس میں ملاقاتیں کیں۔ اس عمارت کی شاندار اہمیت اور محل وقوع کی وجہ سے بہت سی پارٹیاں اسے خریدنا چاہتی تھیں ،اس لیے نہیں کہ اس عمارت کو بچایا جائے بلکہ اس لیے کہ اسے توڑ پھوڑ کر از سر نو کوئی نئی عمارت ایستادہ کی جائے ۔ 

پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے ایڈمرل یو اے سعید کے علاوہ 1973ء میں نیشنل بنک کے جمیل نشتر نے 300روپے فی مربع گز کے حساب سے پیش کش کی ان کا ارادہ بنک کے لیے ملٹی سٹوری بلڈنگ بنام جناح مرکز بنانا مقصود تھا۔ قائد اعظم سے متعلق جائیدا کے ٹرسٹی معروف سیاسی لیڈر ایم اے اصفہانی نے اس شرط پر بولی کی منظوری دینے کا کہا کہ نئی عمارت کی ایک منزل قائد اعظم لائبریری اور ان کی یادگار اشیاء کے لیے مختص کر دی جائے، مگر یہ مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے۔ اگلی بولی 1975ء میں 675 روپے مربع گز کے حساب سے وصول ہوئی خوش قسمتی سے نیشنل بنک یا دیگر ادارے اونچی بولی دینے سے قاصر رہے اور یوں یہ عمارت ملٹی سٹوری پلازہ کی شکل اختیار نہ کر سکی ۔ 

اس بنگلے کو 1985ء تک نظر انداز کر دیا گیا اس کے بعد محکمہ آثار قدیمہ کے کہنے پر حکومت نے اس بنگلے کو خرید کر اسے قومی یادگار قرار دے دیا واضح رہے کہ اس عمارت کی نیلامی کا اشتہار اکتوبر 1980ء میں شائع ہوا تھا، جس کے بعد قائد اعظم کے سیکرٹری رضوان احمد نے اخبارات کے ذریعے اس طرف توجہ دلائی کہ اسے نیلا م نہ کیا جائے اور قومی یادگار قرار دیا جائے ۔ممتاز قانون دان شریف الدین پیرزادہ نے اس بلڈنگ کی فروخت کے بعد سٹے(Stay) آرڈر بھی لیا تھا۔ قائد اعظم میوزیم میں داخلہ مفت ہے ۔صبح نو بجے سے شام چار بجے تک ماسوائے بدھ کے یہ میوزیم کھلا رہتا ہے۔ میوزیم کے باغ کے صحن میں فوارہ بھی اس کے حسن کو بڑھاتا دکھائی دیتا ہے۔یہ میوزیم واحد میوزیم ہے، جہاں آنے والے مہمانوں کو سٹاف خود بہ نفس نفیس میوزیم دکھاتا اور تاریخ سے آگاہ کرتا ہے۔

شیخ نوید اسلم

Quaid-e-Azam House Museum

یہ دہشت گردی کی جنگ....

مِنی مارشل لاء؟....

$
0
0

مارشل لاء جب بھی آیا کُھل کر اور گج وج کے آیا اور جب تک جی چاہا قیام کیا ڈٹا رہا جب دل بھر گیا تو واپس اپنی ان پرانی مانوس بیرکوں میں چلا گیا جہاں سے وہ آیا تھا۔ مگر اس بار نہ جانے کیوں وہ آیا بھی تو ایسا کہ نہ آنے کے برابر۔ چھپ چھپا کر عدلیہ کے پردے کے پیچھے چھپا ہوا وہی بات کہ

صاف چُھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں

یہ چلمن وہ عدلیہ سمجھیں جو فوج کی براہ راست نگرانی میں دو سال (؟) کے لیے قائم ہو گی اور دہشت گردوں کا حساب کتاب کرے گی۔ ہمارے سپہ سالار جنرل راحیل شریف مارشل لاء کے قائل نہیں ہیں اگرچہ عوام نے گھبرا کر کئی بار یہ خواہش کی کہ مارشل لاء ایک بار پھر آ جائے۔ ایک پھیرا پھر لگا لے لیکن جنرل صاحب قائل نہ ہو سکے اور ملک کو سیاستدانوں کے حوالے کیے رکھا حالانکہ پہلے بھی جب کوئی مارشل لاء آیا تو اس وقت بھی کسی سیاستدان کی ہی حکومت ہوتی تھی۔

ایوب خان سے جنرل مشرف کے مارشل لاء تک سیاستدانوں کو اقتدار سے برطرف کر کے فوجی حکومت قائم کی گئی لیکن ایک بڑے جرنیل کے مطابق ہر مارشل لاء نے اگر کئی مسائل حل کیے مگر کئی نئے مسائل پیدا بھی کر دیے لیکن عوام کہتے ہیں کہ کبھی مریض کو آپریشن کی ضرورت بھی پڑتی ہے اور کوئی آپریشن مزید بیماریوں کا باعث بھی بن جاتا ہے لیکن فوری طور پر علاج یہی آپریشن ہی ہوتا ہے اب بھی حالات کی خرابی سے تنگ آ کر جنرل صاحب نے محدود ’مارشل لاء‘ لگا دیا ہے۔ سیاستدان بھی برطرف نہیں ہوں گے اور سیاسی عہدوں پر کام کرتے رہیں گے لیکن اندر خانے پوچھ کر۔

جنرل راحیل کو فوری طور پر پشاور کے سانحے نے مجبور کر دیا ہے۔ ہم عوام تو اس سانحہ پر روتے پیٹتے رہے لیکن با اختیار لوگ صرف سوگ نہیں منا سکتے انھیں بہت کچھ کرنا بھی پڑتا ہے اگر وہ بھی صرف بین ہی کرتے رہتے ہیں تو قوم موت کی طرف چلی جاتی ہے پشاور کے حادثے نے قوم کو نیم مردہ تو کر ہی دیا ہے اگر اس حالت میں کوئی سنبھالنے اور دلاسا دینے والا نہ ہو تو ایسے میں پھر جو ہوتا ہے وہ کون نہیں جانتا بہر کیف فوج اور سول نے مل کر مشورہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ فی الوقت ایسی عدالتیں قائم ہوں جو جلد از جلد فیصلے کریں اور دہشت گردوں کو ضمانتوں پر رہا نہ کریں انھیں ان کے جرم کی سزا دیں۔ ہماری فوج نے جو قدم اٹھایا ہے وہ بڑی ہمت کی بات ہے ایک طرف وہ ایک حقیقی خطرناک جنگ میں مصروف ہے۔

یہ جنگ محاذ پر بھی لڑی جا رہی ہے اور اس کا نتیجہ پشاور جیسے سانحوں کا سبب بھی بن رہا ہے جب کہ بھارت پاکستان کے خلاف کسی بھی واردات کا سرپرست کہا جا سکتا ہے لیکن فوج نے ملک بھی بچانا ہے اور اس کی سرحدوں کی حفاظت بھی کرنی ہے۔

ہماری فوج کو اس وقت دوگونہ عذاب درپیش ہے۔ ملک کے اندر موجود دشمن کا قلع قمع کرنا اور بیرون ملک کے خطروں سے بھی نپٹنا ہے مگر ہماری بہادر فوج جو ایمان محکم کی نعمت سے سرفراز ہے ہر محاذ پر ڈٹی ہوئی ہے ہمارے سیاستدانوں کو شرم آنی چاہیے کہ ان کی عدلیہ بھی قوم کے مفادات پر پوری نہیں اتری اور فوج کو ایک عدالت لگانی پڑ گئی ہے ہم دیکھیں گے کہ رفتہ رفتہ ہماری غیر فوجی سیاسی حکومت بھی فوج میں بھرتی ہونی شروع ہو جائے گی۔ کسی بلوچ یا پنجاب رجمنٹ کی طرح ایک سیاستدان رجمنٹ بھی بنانی پڑے گی۔

سوال یہ ہے کہ ایک فوجی عدالت کیا کر لے گی جو سول عدالت نہیں کر سکتی تھی۔ عدالت فوج کی ہو گی باوردی لیکن اس کے احکامات پر عملدرآمد سول ادارے ہی کریں گے۔ پولیس اور جیل کے حکام ہوں گے دہشت گردوں کو پولیس پکڑے گی عدالت میں پیش کرے گی اور عدالت ان کا کیس سن کر سزا دے گی اس سزا پر عمل بھی سول ادارے کریں گے۔ اس سارے عمل میں صرف فیصلہ کسی فوجی عدالت نے کرنا ہے باقی سارا کام سول اداروں نے کرنا ہے تو کیا یہ کام فوجی عدالت کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔

آج ہمارے حکمران فوج کی اس پیش قدمی سے خوش ہو کر بڑھکیں لگا رہے ہیں اور قوم کو راتوں کو جگا کر تقریریں کر رہے ہیں۔ یہ سب ہمارے سیاستدانوں کی کھلی نالائقی اور غفلت ہے۔ ملک بھر کے سیاستدان جمع ہوئے طویل ترین ملاقات کی گیارہ گھنٹوں سے بھی زیادہ وقت کی اور دراصل اپنی ناکامی، نالائقی اور حکمرانی میں نااہلی پر اتفاق کیا اور سارا بوجھ فوج پر ڈال کر ایک پر تکلف کھانا کھایا اور رخصت ہو گئے۔ طویل اجلاس کی تھکان دور کرنے کے لیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لیڈروں کو صحیح و سلامت رکھے اور ہر مشقت سے محفوظ۔
دنیا جمہوریت کی ہے اور ہر معقول قوم نے اپنے معاملات حل کرنے کے لیے سویلین حکومتیں بنا رکھی ہیں۔ ان ملکوں میں مارشل لاء کا کوئی تصور نہیں ہے۔ 

اگر کسی سے پوچھیں کہ مارشل لاء حکومت کیا ہوتی ہے تو وہ آپ کا منہ تکنے لگ جائے گا۔ جن ملکوں میں بادشاہتیں ہیں ان کو وہ اپنے خاص سیاسی مقاصد کے تحت برداشت کرتے ہیں۔ ایسی حکومتیں بھی مسلمان ملکوں میں ہی ہیں۔
مغربی ملکوں میں اگر بادشاہتیں ہیں تو برائے نام اور ملکی اتحاد کے لیے جیسے مشرق میں جاپان کی بادشاہت لیکن ہمارے ملکوں میں بادشاہ حکمرانی کرتا ہے فرد واحد کی حکمرانی لیکن چھوڑئیے یہ ایک الگ موضوع ہے اصل بات یہ ہے کہ مارشل لاء نام کی کوئی حکومت نہیں ہوتی اور سیاسی سائنس میں ایسی کسی حکومت کا ذکر نہیں ملتا خدا نہ کرے کہ ہم اس بلا میں پھنس جائیں ویسے چند لفظوں میں عرض ہے کہ جب ایوب خان نے مارشل لاء لگایا پہلا مارشل لاء تو اس وقت قائداعظم کی مرکزی مجلس عاملہ کے جتنے ارکان زندہ تھے وہ سب ایوب خان کی کنونشن لیگ میں شامل ہو گئے تھے۔

قائد مرحوم و مغفور نے انھی کے بارے میں کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ بدنصیبی سے ہم آج بھی کھوٹے سکوں سے بازار میں سودا خریدنے کی کوشش پر مجبور ہیں۔ اللہ ہم پر رحم کرے اور ہمارے اندر اپنی عزت کا احساس پیدا کر دے۔

عبدالقادر حسن
"بہ شکریہ روزنامہ ’’ایکسپریس

قومی انتخابات کا احتساب


کیا یہ قائداعظم کا پاکستان ہے؟....

$
0
0

قائداعظم نے ہمیں جو پاکستان دیا تھا کیا کسی صورت میں بھی وہ وہی ہے جو آج کا پاکستان ہے۔ اس کا جواب تو نقشہ دیکھتے ہی مل جاتا ہے۔ اس کا ایک بازو کٹا ہوا ہے۔ جسے لسانی، نسلی بنیادوں اور بھارت کی جارحیت نے کاٹا۔ بنگال میں جو لسانی شورش برپا ہوتی تھی کیا وہ مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی؟ کیا کسی مذہبی جماعت یا تحریک کی جانب سے لسانی، نسلی علیحدگی پسندی پر کوئی فتویٰ دیا گیا تھا؟ کیا مکتی باہنی مذہبی یا فرقہ وارانہ تنظیم تھی جس نے مشرقی بنگال میں آباد پنجابی، سندھی، بلوچی اور اردو بولنے والی آبادی کی تطہیر کی تھی؟ کیا یہ مذہبی جنونی تھے جنہوں نے مذہبی و اقلیت کو قتل کیا، ان کے اعضاء کی قطع برید کی، سرنج کے ذریعے ان کے بدن سے خون کا آخری قطرہ کشید کر کے بڑے بڑے پیپے بھر کر خون کا بینک Blood Bank بنایا؟ میں مانتا ہوں کہ یہ کسی ایک فریق نے ایسا نہیں کیا بلکہ یہ انسانیت سوز فعل دونوں حریفوں سے سرزد ہوا۔ جسے انتقام کا بہانا بنایا گیا۔

اس نسلی و لسانی خونریزی اور تخریب کاری کے آثار آج بھی میر پور اور محمد پور میں رہائش پذیر خستہ ہال بستی میں نظر آتے ہیں جہاں 82288 مربعہ فٹ کھولیوں میں کثیر العیال کنبے مقیم ہیں۔ انہیں نہ بنگلہ دیش اپنا شہری سمجھتا ہیں  نہ حکومت پاکستان۔ ادھر بنگلہ دیش میں نسلی تعصب میں لت پت عدلیہ نے کھیپ کی کھیپ ضعیف العمر افراد کے قتل عام کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ بنگلہ دیش کے بھارت نواز حکمرانوں کی نو آتش انتقام اور نہ ہی خون کی پیاس بجھتی ہے۔ کیا حسینہ واجد، کیا وزیر قانون اور کیا اس کی عدلیہ کا سربراہ سب کے سب لسانی نسلی تعصب میں اندھے ہو کر آدم خور بن گئے ہیں۔ صدر مشرف نے فراخدلی اور خیر سگالی کے جذبے کے تحت بنگلہ دیش کی قوم سے ان زیادتیوں کی غیر مشروط معافی تک مانگ لی پھر بھی بنگلہ دیش کے نسل پرست حکمران ٹولے کا جنون تھمنے کا نام نہیں لیتا۔

ان نسل پرستوں نے اگر تلہ میں اندرا گاندھی سے ساز باز کر کے بغاوت برپا کر دی تا کہ بھارت فوجی مداخلت کر کے پاکستان کا بازو کاٹ دے۔ ادھر عالمی تنظیم اور سلامتی کونسل نے بھارت کی ننگی جارحیت کے خلاف اقوام متحدہ کے منشور کے باب 17 کی 39 تا 48 شقوں کے تحت کارروائی نہیں کی جبکہ اس وقت کی اقوا م متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنی قرار داد میں متحاربین کو جنگ بندی کی ہدایت کی تھی۔ مشرقی پاکستان کا سقوط داخلی عاقبت نااندیشی اور بیرونی جارحیت کے نتیجے میں عمل میں آیا۔ اس میں سوویت یونین اور بھارت کا کردار مجرمانہ تھا جبکہ امریکہ پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے سوویت یونین سے جنگ نہیں کر سکتا تھا کیونکہ یہ جوہری جنگ میں تبدیل ہو جاتی۔

ابھی تو میں نے مشرقی پاکستان کی نسل پرست تحریک پر پاکستان توڑنے کا الزام لگایا ہے لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ مغربی پاکستان کے حکمران لسانی و نسلی تعصبات سے بالاتر تھے بلکہ سچ تو یہ ہے انہوں نے مشرقی پاکستان کے خلاف مغربی پاکستان کے صوبوں کو ضم کر کے ون یونٹ کے نام سے ایک مصنوعی صوبہ قائم کر دیا۔ اس طرح ایک طرف تو مشرقی پاکستان کے خلاف مغربی پاکستان کو صف آراء کر دیا جس سے جغرافیائی بعد کے ساتھ ساتھ نسلی لسانی خلیج بھی حائل ہو گئی اور اس (مشرق پاکستان) کی اکثریت کو ختم کر کے اس کی مغربی پاکستان کے برابر نمائندگی متعین کر دی۔ نیز یہ پارلیمانی جمہوریت کے اصول کی نفی تھی جسے قائد اعظم نے اپنی 11 اگست 1947ء اور فروری 48ء میں امریکی عوام کے نام خطاب میں تکرار کے ساتھ واضح کر دیا کہ:
’’ پاکستان کی ریاست اپنے عوام کے نمائندوں پر مشتمل ایک جمہوریت ہو گی۔‘‘ پھر مشرقی پاکستان کی 55 فیصد آبادی کی نمائندگی کم کر کے پچاس فیصد کیوں کر دی گئی۔

یہی ناں کہ مشرقی پاکستان کو شراکت اقتدار سے خارج کرایا جائے۔ پھر تو لسانی و نسلی اختلافات نے علاقائی علیحدگی پسندی کی شکل اختیار کرنا ہی تھا۔ یہ مشرقی پاکستان کا نہیں بلکہ مغربی پاکستان کی نسل پرست قیادت کا تصور تھا۔ جب یحییٰ خان نے مارشل لاء کے ذریعے مشرقی پاکستان کو تناسب آبادی کے اعتبار سے نمائندگی دے دی اور مغربی پاکستان کی مصنوعی اکائی توڑ کر صوبوں کو از سر نو بحال کر دیا تو یہ ایک مستحسن اقدام تھا کیونکہ صوبوں کے انضمام سے سندھ، شمالی مغربی سرحدی صوبے اور بلوچستان میں لسانی و نسلی جذبات نے علاقائی علیحدگی پسندی کو ہوا دی۔ چنانچہ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں فوجی طاقت استعمال کرنا پڑا جبکہ سندھ میں جیے سندھ کی تحریک نے سر اٹھایا اور اب تو بلوچستان کی طرز پر سندھ میں بھی آزاد سندھ فوج قائم ہو گئی۔

لسانی، نسلی تعصب اندرون سندھ مہاجر سندھی فسادات کا موجب بنا اور شورش زدہ علاقوں سے پنجابی اور مہاجر آباد کار نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔ ان عوامل نے کراچی میں مخلوط النسل آبادی میں فسادات کی آگ بھڑکا دی اور بیروت کی طرح یہ شہر مہاجر، سندھی، بلوچ، پنجابی اور پختون محلوں میں بٹ گیا۔ کیا قصبہ کالونی ، علی گڑھ کالونی، بنارس کالونی اور حیدر آباد میں پرانا قلع اقلیتی نسل کا مقتل نہیں بن گئے۔ کیا مہاجر صوبے اور کراچی کی علیحدگی کے نعرے اب بھی نہیں گونج رہے ہیں۔ یہ کیا بلوچستان میں اغوا، نسلی تطہیر اور ماو رائے عدالت قتل کی وارداتیں تھم گئی ہیں۔ اس پر مستزاد فرقہ وارانہ تنظیموں نے اپنی اپنی قاتل ملیشیائیں بنا لی ہیں اور اب کوئٹہ اور کراچی میں اس طرح فرقہ وارا نہ تنظیمیں تشکیل پا رہی ہیں جس طرح لسانی و نسلی بنیادوں پر بن گئی ہیں۔

قائد اعظم نے صوبائی خود مختاری پر ہمیشہ بہت زور دیا۔ مطالبہ پاکستان سے کئی عشرے قبل انہوں نے سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کی پر زور تحریک چلائی اور اس کی صوبائی حیثیت کو بحال کر کے ہی دم لیا۔ کیا سندھ کا ون یونٹ (ایک کافی) یعنی مغربی پاکستان میں انضمام قائداعظم کے تصور کے منافی نہیں تھا؟ اسی طرح قائد نے اپنے 14 نکات میں شمالی مغربی سرحدی صوبے سندھ کو برصغیر کے دوسرے صوبوں کے مساوی حیثیت دینے کا مطالبہ نہیں کیا تھا؟ پھر ان صوبوں کو ون یونٹ میں کر دینا قائد کے چودہ نکات کی سنگین خلاف ورزی نہ تھی؟ اگر 1955ء کا پاکستان کے نقشے کا قائداعظم کے پاکستان کے نقشے سے موازنہ کیا جائے تو دونوں میں کتنا واضح فرق نظر آتا ہے۔

قائد اعظم کے پاکستان میں سندھ، بلوچستان، پنجاب اور شمالی مغربی سرحدی صوبے اپنی جغرافیائی حدود، ثقافت ، زبان اور تاریخ اپنے اپنے تشخص برقرار رکھے ہوئے تھے۔ اگر حیات نے وفا کی ہوتی تو قائد اعظم علاقائی خود مختاری پر مبنی ایک جمہوری وفاق پر مبنی آئین تشکیل کر دیتے لیکن وہ قوم پر اپنی مرضی نہیں تھوپنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے یہ اختیار قوم کے نمائندوں کو دے دیا تھا کہ وہ پارلیمانی جمہوری خطوط پر مبنی آئین وضع کریں۔ چونکہ وفاق مختلف النسل اور مختلف اللسان قومیتوں پر مشتمل تھا اس لیے انہیں مربوط کرنے کے لیے اسلام ناگزیر ہو گیا۔

قائد اعظم فرقہ وارانہ اور مسلکی تنازعات کے سخت مخالف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ تحریک پاکستان میں کیا شیعہ ، کیا سنی، کیا دیو بندی تو کیا بریلوی سبھی شامل تھے۔ پھر کوئی وجہ نہیں تھی کہ پاکستان بننے کے بعد وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو جائیں۔ یہ فرقہ واریت تحریک پاکستان کی روح کے خلاف تھی۔ چنانچہ قائداعظم کی رحلت کے بعد جمہور علماء نے 1951ء میں اسلامی دستور سازی کے لیے 21 نکاتی فارمولا وضع کیا جس پر تمام مسالک کے طلباء کا مکمل اتفاق تھا۔ اور قوم کسی نہ کسی طرح 1972ء میں ایسا آئین وضع کرنے میں کامیاب ہو گئی۔

اب اگر آج کوئی اپنا مسلک اور اپنی فقہ ساری قوم پر تھوپنے کی کوشش کرتا ہے یا پاکستان کی وحدت کو لسانی اور نسلی بنیادوں پر نوازنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ ساری قوم کے خلاف برسر پیکار تصور کیا جائے گا۔ ابھی تک فرقہ وارانہ تنظیموں نے ملک توڑنے کی بات تو نہیں کی لیکن ملک میں خانہ جنگی برپا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی لیکن لسانی اورنسلی علیحدگی پسندی کو اندرون ملک آزاد خیال (لبرلزم) طبقے اور چند غیر ملکی رقوم پر پلنے والی غیر سرکاری ایجنسیوں نے جس طرح ہوا دی ہے وہ قائداعظم کے تصور پاکستان کی صریحاً نفی ہے یہ طبقہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جامعات کا پلیٹ فارم تک استعمال کرتا ہے اور بعض غیر ملکی انجمنیں فائیو سٹار ہوٹلوں میں بین الاقوامی سیمینار کرا کر اپنے ایجنڈے کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور ملک میں سیکولرزم اور بنیاد پرستی کے تصادم کو ختم کرنے کی بجائے اسے ہوا دیتی ہیں۔ روس کے صدر پیوٹن نے ان غیر ملکی انجمنوں پر پابندی عائد کر دی ہے لہٰذا قائد اعظم کا پاکستان بچانے کے لیے حکومت کوبھی ملک دشمن عناصر پر پابندی عائد کرنی چاہیے اور غیر ملکی سیمیناروں میں شرکت پر نظر رکھنی چاہیے ۔ میری مراد مخالفت نہیں ہے، ملی سیمینار کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

پروفیسر شمیم اختر

"بہ شکریہ روزنامہ ’’نئی بات

فوجی عدالتیں قانونی ماہرین کی نظرمیں.....

$
0
0

انسداد دہشت گردی کے لیے ’قومی ایکشن پلان‘ کے جس نکتے کی گونج سب سے زیادہ سنائی دی وہ انسداد دہشت گردی کےلیے فوجی افسران کی نگرانی میں خصوصی عدالتوں کے قیام کی تجویز تھی لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کے آئین اور قانون میں فوجی عدالتوں کے قیام کی کتنی گنجائش ہے۔

پاکستان کے سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کا کہنا ہے کہ موجودہ وزیر اعظم کے دوسرے دور حکومت میں بھی فوجی عدالتیں قائم کرنے کی کوشش کی گئی تھی تاہم سپریم کورٹ نے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ آئین کے منافی متوازی نظام عدل قائم نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس سیعد الزمان صدیقی نے جو فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ سنانے والے بینچ کا حصہ تھے، کہا کہ :’محرم علی کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ یہ عدالتیں آئین کے مطابق نہیں۔ عدالت نے شق وار بتایا تھا کہ فلاں فلاں شق آئین کے متصادم ہے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ اس عدالتی فیصلے میں دی گائیڈلائنز کو ذہن میں رکھے وگرنہ’سپریم کورٹ اسے دوبارہ کالعدم قرار دے دے گی۔‘
پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس وجہیہ الدین کے مطابق موجودہ صورتحال میں پورے ملک میں فوجی عدالتوں کا قیام ناممکن دکھائی دیتا ہے تاہم حکومت آرٹیکل 245 کا سہارا لے سکتی ہے۔

جسٹس وجہیہ الدین کا کہنا ہے کہ ’فاٹا اور سرحدی علاقوں میں جہاں فوج ہے وہاں تو فوجی ٹرابیونلز قائم ہوسکتے ہیں لیکن قدرے پرامن علاقوں میں ایسا ممکن نہیں۔ وفاق اور پنجاب میں آرٹیکل 245 کے تحت فوج موجود ہے اس لیے حکومت اب سندھ سمیت دیگر صوبوں سے ایسی ہی درخواست کر رہی ہے، جس کے بعد فوجی ٹرائبیونلز کو قانونی جواز فراہم کیا جاسکےگا۔‘

جسٹس سعید الزمان صدیقی کہتے ہیں پاکستان کے حالات کے پیش نظر اگر فوجی عدالتیں بنتی ہیں لیکن انہیں آئین سے متصادم نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس وجہیہ الدین کا خیال ہے کہ اے پی سی میں حمایت کے باوجود ہوسکتا ہے کہ پارلیمنٹ میں حکومت کو ان جماعتوں کی جانب سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان جماعتوں کو اپنے حلقوں کی جانب سے کیا ردعمل سامنے آتا ہے۔ جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا ہے:’مجھے یقین ہے کہ اگر فوج کے ٹرائبیونل بنا بھی لیےگئے تو ان پر عمل نہیں ہوگا۔‘

پاکستانی فوج اپنے انتظامی امور کےعلاقوں میں فوجی عدالتیں قائم کرتی ہے۔ تاہم پورے ملک یا پھر چند مخصوص علاقوں کےلیے یہ کیسے ممکن ہوگا؟
متحدہ قومی مومنٹ سے تعلق رکھنے والے ماہر قانون دان سینیٹر فروغ نسیم سمجھتے ہیں کہ فوجی عدالتوں کا قیام غیر آئینی ہے۔’ہاں اگر سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کے قیام پر متفق ہوتی ہیں تو انہیں پھر آئین میں ترمیم کرنی ہوگی۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ ماضی میں فوجی عدالتوں کو کراچی میں قائم کیا تھا اور سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ’فوجی عدالتوں کا قیام اور ان میں فوجی افسران کی تعیناتیاں آئین کے آرٹیکل 173 کی خلاف ورزی ہے۔‘

لیکن فوجی عدالتوں کی حمایت کرنے والے دنیا کے دیگر ممالک کا حوالہ دیتے ہیں اور یہ جواز بھی کہ پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے اور جنگ زدہ علاقوں میں بین الاقوامی قانون بھی خصوصی اقدامات کی اجازت دیتا ہے۔
قانونی ماہرین اور تجزیہ کار فوج کے ماتحت عدالتوں کو موجودہ عدالتی نظام کے متوازی کوشش قرار دیتے ہیں۔ وہ اس بات سے تو اتفاق کرتے ہیں کہ حالت جنگ میں غیر معمولی اقدامات ناگزیر ہے لیکن یہ خدشہ اب بھی قائم ہے کہ دو سال کے عرصے کے لیے بنائی جانے والی فوجی عدالتیں کیا انصاف کی فراہمی میں آئین اور قانون کے تقاضے پورے کریں گی یا ان پر آنے والے عرصے میں سوالات اٹھائے جائیں گے۔

حمیرا کنول
 

کیا تھر میں بھی دہشت گرد گُھس گئے ہیں؟....

$
0
0


تھر میں بچوں کی ہلاکتوں اور خشک سالی کی وجہ سے مقامی آبادی کو درپیش مسائل کے حل کے لیے پاکسان کے انسانی حقوق کے ادارے نے فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک ٹیم تھر کے دورے کے بعد جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’کمیشن کو اس بات کا مکمل احساس ہے کہ اتنے مختصر دورے میں تھر کو درپیش پیچیدہ صورتحال کا کوئی حتمی تجزیہ نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم کمیشن تھر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین، مروں اور سماجی کارکنوں کا مشکور ہے کہ انھوں نے ہمیں اپنے تجربات سے مستفید ہونے کا موقع دیا۔

اس کے علاوہ کمیشن ذائع ابلاغ کا بھی معترف ہے کہ انھوں نے تھر میں بچوں کی ہلاکتوں کے مسئلے کو اجاگر کیا۔اس سے نہ صرف تھر میں خشک سالی بلکہ اس علاقوں کو درپیش دیگر مسائل بھی منظر عام پر آئے ہیں۔

بیان کے مطابق ’تھر کے لوگوں کے مسائل بہت پیچیدہ ہیں اور مکانوں اور ہسپتالوں میں بچوں کی اموات ان مسائل کا صرف ایک پہلو ہیں۔ بچوں کی زیادہ شرح اموات دراصل ایک دیرینہ مسئلہ ہے اور اس کی وجہ خوراک کی کمی نہیں بلکہ ایسے مسائل ہیں جن پر ایک مدت سے توجہ نہیں دی گئی۔

ان عوامل میں خوراک کی مسلسل فراہمی کا نہ ہونا، صاف پینے کے پانی کی کمی صفائی ستھرائی کا فقدان، خواتین کی ناخواندگی اور انھیں خاندانی منصوبہ بندی کا شعور نہ ہونا شامل ہیں۔ ان عوامل نے غربت، چھوٹی عمر کی شادیاں، زچہ و بچہ کی صحت کے مراکز کا دور ہونا، بنیادی صحت کے مراکز کے غیر موثر ہونے اور ہر آفت کو قسمت سمجھ کر بھول جانے جیسے مسائل کی وجہ سے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔

ایچ آر سی پی کے مطابق اس کے علاوہ تھر میں متوسط طبقے کی کمی کی وجہ سے ان کے مسائل کو اجاگر کرنے والے افراد کی بھی کمی رہی ہے جس کی وجہ سے تھر کے لوگوں کو اپنے بنیادی مسائل کی جانب توجہ دلانے کے لیے بھی غیر مقامی لوگوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ خشک سالی ایک قدرتی مسئلہ ہے جس کا تھر کو بار بار سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہتر اور پیشگی منصوبہ بندی سے اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں کے لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت نے خشک سالی سے نمٹنے میں ان کی خاطر خواہ اور بروقت مدد نہیں کی اور جن لوگوں کو یہاں امدادی سامان پہنچانے کی ذمہ داری دی گئی تھی انھوں نے اپنے منافعے کو اس ذمہ داری پر ترجیح دی۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تھر کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کی معیشت اور وسائل اب بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے ناکافی ہو چکے ہیں۔
’اگرچہ یہاں خوراک کی طلب میں خاصا اضافہ ہو چکا ہے لیکن رسد میں یا تو کوئی اضافہ نہیں ہوا اور یا اس میں کمی آ گئی ہے۔ آبادی میں اضافے کی وجہ سے اب زراعت اور مال مویشیوں رکھنا معاشی طور پر مشکل ہو گئے ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق ان مسائل کے علاوہ تھر کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے جس سے پاکستان کے دیگر علاقوں کے لوگ پریشان ہیں۔
’یہاں کی پولیس بھی بدعنوان ہے، انتظامیہ کی کارکردگی خراب ہے اور سیاسی جماعتیں لوگوں کے مسائل پر توجہ نہیں دیتیں۔ تھر کے لوگ بھی مقامی ساہوکاروں سے لیے ہوئے قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور موبائل فون اور موٹر سائیکل جیسی جدید چیزوں کی مانگ میں اضافے کی وجہ سے ان پر قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ چکا ہے۔

بیان میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا کہنا تھا کہ تھر میں پانی، سڑکوں، صحت اور بچیوں کی تعلیم کے مسائل حل کرنے کے لیے طویل مدتی اور ہمہ جہت حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

مسجد ضرار کی حقیقت....انصار عباسی

مدارس میں کیا پڑھایا جاتا ہے؟ مدارس کے نصاب کا ایک جائزہ !

نیوز چینل کوریج کرنا کب سیکھیں گے؟....

$
0
0

پشاور کے اس بھیانک سانحے کو اب 10 روز گزر چکے ہیں۔ لیکن ابھی بھی جب ٹی وی پر اس حوالے سے خبریں آتی ہیں، تو ہم پر خوف اور غصے کی ایک لہر چھا جاتی ہے۔ پر اب وقت ہے کہ اس بارے میں کھل کر بات کی جائے کہ الیکٹرانک میڈیا کس طرح قومی سانحات کو تماشا بنا کر پیش کرتا ہے۔

جب بھی اس طرح کی بری خبر پر تازہ ترین معلومات حاصل کرنے کے لیے آپ ٹی وی کھولیں گے، تو آپ کچھ چیزوں کے لیے تو تیار ہوں گے، جن میں خون آلود فرش اور گولیوں سے چھلنی دیواریں وغیرہ شامل ہیں۔ ایسی کسی بھی قتل و غارت کی فوٹیج میں پریشان کن تصاویر اور ویڈیوز کا ہونا لازمی امر ہے۔
لیکن کسی بھی طرح اس سے ٹی وی چینلز کو نیوز کو قابلِ نفرت ڈرامے میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں مل سکتی، جو کہ ویسے بھی ہمارے نیوز چینلز کی پہچان بن چکا ہے۔

لیکن پھر بھی ہم اسے اپنے ٹی وی پر بار بار دیکھتے ہیں۔ غیر ضروری ڈرامائی کیمرا اینگلز، بیک گراؤنڈ میں ایک اداس میوزک کے ساتھ ہر قتل کی انتہائی بھیانک تفصیلات، غیر متعلقہ شاعری، جذباتی وائس اوورز، ہر دیکھنے والے کو بار بار خوف میں مبتلا کرتے جاتے ہیں۔

اور بسا اوقات ایک انتہائی خوفناک فوٹیج کے دوران کسی موبائل فون کے نئے ماڈل، کسی کولڈ ڈرنک، یا کسی پان مصالحے کا اشتہار چلنا شروع ہوجاتا ہے۔
اس اشتہار کا اصل پیغام یہ ہوتا ہے: سانحہ ہوگیا، اب اسے بھول جاؤ اور ہماری پراڈکٹ خریدو۔


کمپنیوں کو اپنی پراڈکٹس پر زیادہ سے زیادہ نظریں چاہیے ہوتی ہیں، اور انہوں نے اپنا فائدہ ملک کی حالیہ تاریخ کے خوفناک ترین سانحے کے دوران بھی حاصل کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح کے لوگ ٹی وی بزنس چلاتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب قوم شدید صدمے سے گزر رہی تھی، تب بھی یہ لوگ زیادہ منافع کی فکر کیے بغیر نہیں رہ سکے۔ بزنس بھلے ہی خود کو مشین کی طرح سمجھیں، لیکن پھر بھی مشین کو انسان ہی چلاتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی نے تو ایسے وقت میں افسردگی اور ہمدردی کے بجائے منافع کمانے کو ترجیح دی۔

ایک صحافی کا کام کسی سانحے کی خبریں عوام تک لانا ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ صرف خبر پیش کریں، اور پھر دیکھنے والے پر چھوڑ دیں کہ وہ اس پر غم و غصے کا اظہار کرتا ہے یا نظرانداز کردیتا ہے۔ لیکن جب سے نیوز میڈیا پرائیویٹائز ہوا ہے، یہ دیکھنے والوں کے جذبات پر اثرانداز ہورہا ہے، جبکہ بامقصدیت کو کیش پر قربان کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے سنسنی اور خبر کے درمیان فرق ختم ہوتا جارہا ہے۔

اب ہم آتے ہیں 16 دسمبر 2014 کی ٹرانسمیشن پر۔ لوگ واقعات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتے تھے، لیکن خبریں پیش کرنے کے طریقہ کار نے نئی پستیاں دیکھیں۔ ٹرانسمیشن شروع افسوس بھرے جذبات کے ساتھ ہوئی، لیکن بعد میں یہ لوگوں کے جذبات سے کھیلنے پر تمام ہوئی۔

متاثر ہونے والے بچوں کے خاندانوں کے لیے کتنا تکلیف دہ ہو گا کہ جس چیز سے انہیں صدمہ پہنچ رہا ہے اسے بار بار پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ ٹی وی چینلز کسی ایک اپروچ سے مطمئن نظر آنے کے بجائے بار بار بیک گراؤنڈ میوزک اور وائس اوور میں تبدیلی کرتے رہے، تاکہ شاک کو برقرار رکھا جاسکے۔
کئی لوگوں نے اس بات کی شکایت کی کہ ٹی وی اینکر لوگوں کے جذبات کی پرواہ کیے بغیر سانحے کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ یا تو ان کو کیمرا کے دوسری طرف سے، یا ایئر فون کے ذریعے پروڈیوسر کی جانب سے بتایا جارہا ہوتا ہے کہ کیا کرنا اور کہنا ہے۔ یہ پروڈیوسر ہی ہیں جو 16 دسمبر جیسے واقعات کو بھیانک ترین روپ میں پیش کرنے کے 'زبردست آئیڈیاز'لے کر آتے ہیں۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ٹی وی اینکرز مکمل طور پر بے قصور ہیں۔ جس وقت ان کا لہجہ دھیما ہونا چاہیے، اس وقت یہ بالکل ہی بے حس ہوتا ہے۔ 'جی ہاں، یہ افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔'… 'افسوس'بولنے کا یہ طریقہ نہیں ہے۔
اس کے علاوہ اس ظالمانہ حملے کے فوٹیج چلاتے ہوئے نیوز چینلز نے کونے میں PG-18 کا لوگو پیسٹ کر کے دیکھنے والوں کو سانحے کی اور اس کے بعد کی صورتحال کی مکمل فوٹیج دکھائی۔

کسی بھی فوٹیج پر PG-18 لکھنے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ 18 سال سے کم عمر بچے اسے دیکھنے سے پہلے اپنے والدین سے اجازت لیں۔ لیکن یہ گائیڈ لائنز کبھی بھی لوگوں کو فراہم نہیں کی جاتیں۔ جس مقصد کے لیے یہ بنائی گئی ہیں، وہ مقصد کس حد تک پورا ہوا؟

پوری دنیا نے 16 دسمبر کے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا۔ ترکی نے اسے یومِ سوگ قرار دیا۔ ہندوستان نے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی، اور ہمارے اپنے سیاستدانوں نے اختلافات ایک طرف رکھ دیے۔ بہت سے لوگوں نے سانحے کی وجہ سے پوائنٹ اسکورنگ کرنے سے پرہیش کیا۔ لیکن جیسے ہی ملک کی مسیحی برادری نے کرسمس کی تقریبات منسوخ کیں، تو ہمارے نیوز اینکرز نے فوراً ہی اس بات کی نشاندہی کر ڈالی کہ مسیحی اقلیت پر حملے کی صورت میں کبھی کوئی تہوار منسوخ نہیں کیا جاتا۔

شاید ان کے ذہن میں وہ اقلیتوں پر بڑی مہربانی کر رہے تھے۔ لیکن شاید انہیں اپنے ایجنڈوں کو ترجیحات دینے کی ضرورت ہے۔

کسی کے لیے یہ شکایات بہت ہی معمولی ہوں گی، لیکن یہ سب مل کر ٹرانسمیشن کو ایسا بنا دیتی ہیں، جو دیکھنے والوں کو ناامیدی میں دھکیل دیتی ہے۔ نیوز اور خوف اب ہم معنی ہوچکے ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ منہ دوسری طرف موڑ لیں اور یہ ظاہر کریں کہ سب ٹھیک ہے، لیکن خبر اور صدمے میں ڈال دینے والی فوٹیجز کے درمیان فاصلہ ہونا ضروری ہے۔

صحافت مکمل طور پر واقعات کی اہمیت اور حساسیت کو سمجھنے اور ان میں توازن برقرار رکھنے کا نام ہے۔ یہ توازن کہاں ہے؟

عدی عبدالرب

Dense fog in Lahore

$
0
0
Pakistani children play in the suburbs of Lahore amid cold and foggy. Several cities of Pakistan have been engulfed by a thick fog for many days, causing flight and train cancellations as well as the closure of the motorways. (AP Photo/K.M. Chaudary)

کیا ہم تیل کے جاری بحران سے نکل پائیں گے؟...

$
0
0

دوسرے تیل برآمد کرنے والے ممالک کی طرح سعودی عرب بھی یومیہ بنیادوں پر اپنی آمدنی کے پچاس فی صد کے نقصان سے دوچار ہو رہا ہے۔ خسارے کا یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمت فی بیرل کے حساب سے ساٹھ ڈالر نیچے آ گئی ہے۔ یہ دھچکا وقتی ہے۔ سعودی حکومت اتنی دولت مند ہے کہ اس کمی کا آسانی سے مداوا اور بعض اخراجات کم کرتے ہوئے سٹاک مارکیٹ کو کم سے کم متاثر ہونے دے اور بالآخر جاری بحران سے نکل جائے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ ختم نہیں ہو گیا، بلکہ اس مسئلے کو ابھی شروع ہونا ہے۔ یہ مسئلہ جس کا ان دنوں شور ہے ایک دن از سر نو ابھر کر آٗئے گا۔ اسے آپ پیش گوئی نہیں سمجھیں بلکہ یہ ایک درپیش صورتحل کا حقیقی کا مطالعہ ہے۔ منطقی طور پر سوچیں ہم اس پوزیشن میں ہوں گے اگر تیل کی قیمتیں تیس ڈالر نیچے تک گر جائیں تو ہم مقابلہ کر سکیں۔۔ یہ صورت حال ایک عشرہ یا اس سے زیادہ دیر تک جاری رہی تواسے برداشت کیا جانا ہوگا۔

اس تناظر میں حکومت کی آمدنی ریاستی ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے کافی نہ ہوگی۔ ایسی صورت میں عوام کو چاولوں، روٹی ، پانی، بجلی، جامعات کے لیے فنڈز کی فراہمی جاری رکھنا، ہسپتالوں کے لیے وسائل کی فراہمی اور ٹرانسپورٹ کے لیے وسائل دستیاب کرنا مشکل ہو جائے گا۔ تب حکومت کو اپنی معاشی جمع پونجی بروئے کار لاتے ہوئے اپنے مقامی قرضوں کو بڑھانا ہو گا۔ اس صورت حال کے پیش نظر بھاری بنک کھاتوں سے اپنی رقومات غیر ملکی بنکوں میں منتقل کرنا ہوں گی۔

خطرے کی گہری کھائی

لہذا ہمیں سوچنا یہ ہے کہ ہمیں اس وقت کا انتظار کرنا ہے کہ ہم خطرناک کھائی کے کنارے تک پہنچ جائیں یا اصلاحات کا اہتمام کریں۔ کیا اصلاحات کاری کے لیے یہ بہترین وقت نہیں ہےکہ موجودہ صورت حال میں ایک مستحکم سیاسی ما حول حکومت کو اپنے ارگرد میسرہے، جبکہ حکومت کے پاس کھربوں ڈالر کی بچت بھی موجود ہے۔

حالیہ ہفتوں میں تیل کی قیمتیں مارکیٹ میں کم ہونے سے پیدا شدہ بحران سے نمٹنے کے لیے کیے گئے اقدامات قابل قبول حکمت عملی کہے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ یہ اقدامات وقت گذاری یا یوں کہہ لیجیے کہ اچھے وقت کے انتظار میں کیے گئے اقدامات ہیں۔ یہ اس لیے کیے گئے اقامات بہرحال نہیں ہیں کہ تیل کی منڈی میں بہتری آئے اور منڈی میں تیل کی قیمت پھر سے ایک سو ڈالر تک واپس آ جائے۔ یہ امکان نہیں ہے کہ تیل کے حوالے سے موجودہ فیصلہ دوسرے کئی محرکات کی وجہ سے کئی سال تک برقرار رہ سکے۔ اس ماحول میں سعودی عرب جو سالانہ دو سو تیس بلین ڈالر سالانہ کا بجٹ رکھتا ہے کا بجٹ مستقبل میں ایک سو ارب ڈالر یا اس سے بھی کم حجم کے برابر آ سکتا ہے۔

میری دانست کے مطابق اس کمتر رقم کے ساتھ ریاست کو چلانے کے لیے انتہائی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کرنا ضروری ہوں گی۔ اس تناظر میں بہترین خبر جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی میں کمی ہے۔ میں یہ طنزیہ طو­­ر پر نہیں کہہ رہا یہ صورت حال ہمیں تباہی کے خطرے کو سمجھنے میں مدد دے گی کہ ایسا سوچنے میں تاخیر نہ کی جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ تیل کے وسیع ذخائر نے ہماری ہماری آج اور آنے والے کل کے بارے میں منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت کو کمزور کر دیا ہے کہ ہم تیل سے ہٹ کر اپنے مستقبل کو کیوں کر تشکیل دے سکتے ہیں۔ تیل سے حاصل ہونے والی یہ آسان امدنی ہمارے لوگوں کے بہترین اطیمنان کا ذریعہ بن کر گئی ہے

دولت کی اہمیت اس کے علاوہ کیا ہو سکتی ہے کہ اگر اسے معاشرے کی تعمیر پر خرچ کیا جائے اور تیل کی آمدنی یا تیل سے کم آمدنی کے بغیر بھی اپنے پاوں پر کھڑا کیا جا سکے۔ کیا ہم میں سے کوئی ایسا ہے جو تجویز کر سکے کہ روزمرہ کی خدمات کے لیے کیسے خرچ کیا جائے جب معاشی ذخائر ختم ہو جائیں اور تیل کی قیمتیں کم ہی ہوتی جار رہی ہوں۔ کون ہو سکتا ہے جو ہمیں اس امر پر قائل کرے کہ ہم اس تناظر میں سیدھے راستے پر ہیں کہ ہمارا مستقبل کیا ہو گا۔ انتظامی اسلوب یہ ہونا چاہیے کہ ہمارے حکام کو زیادہ ذمہ دار ہونا چاہیے اور اگر کوئی ناکام ہو تو اسے سختی کے ساتھ جوابدہ بنایا جائے۔

بہت سے کامیاب اور دولتمند ممالک تیل کی بنیاد پر امیر نہیں ہیں۔ ان میں جنوبی کوریا، سنگا پور، ملائیشیا اور فن لینڈ اہم ہیں۔ اس ناطے بہت سارے عرب ملک اہلیت کے معیار پر نہیں ہیں کہ انہوں نے خود کو تیل ایسے آسان ذرائع کا عادی بنا رکھا ہے۔ فرق کو دیکھا جائے تو یہ ہر فرد کے حوالے سے ہے۔ مثال کے طور پر شہزادی نورا بنت کی تعمیرات ہیں۔ یہ سستی اور مفت کی دولت کا حوالہ ہیں۔ 

سعودی دارالحکومت ریاض میں عبدالرحمان یونیورسٹی برطانوی کیمبرج یونیورسٹی سے زیادہ پر آسائش ہے، لیکن پہلے والی جامعہ کے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ عام طور پر محض استاد بنتے ہیں۔ ان فارغ التحصیل ہونے والوں کی اکثریت گھروں میں جا کر بے روزگاروں کی صورت میں بیٹھ جاتی ہے۔
اس لیے آمدنیوں کے نیچے آنے کا تقاضا ہے کہ بہت ساری چیزوں کو نئے سرے سے دیکھا جائے۔

 تیل کے ذخائر کے بندش یا تیل کی قیمتوں میں کمی کے موجودہ رجحان کے ایک عشرے سے طویل ہو جانے کی صورت میں ریاست اپنے زیادہ تر لوگوں کی ضرویات پورا نہ کر سکے گی۔ اگرچہ تب تک ملک کی آبادی، روزگار کے چاہنے والوں اور صحت کی سہولیات چاہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہو گا۔ اس لیے یہ لازمی طور پر ریاستی اہلیت کا امتحان ہے کہ ملکی نظام کو ایک سو ارب ڈالر سے کم کے بجٹ کے ساتھ چلانے کی پوزیشن میں ہو۔

عبدالرحمان الراشد

برطانیہ کے عظیم رہنما ’’ونسٹن چرچل‘‘ اسلام قبول کرنے والے تھے

$
0
0

برطانیہ کو نازیوں اور روس کے پنجوں سے نجات د لانے والے عظیم برطانوی رہنما ونسٹن چرچل کے خاندان نے انکشاف کیا ہے کہ ونسٹن نہ صرف اسلام سے متاثر تھے بلکہ وہ اسلام بھی قبول کرنے والے تھے۔

برطانوی اخبار میں ونسٹن چرچل کی بھابی لیڈی گینڈولائن بیرٹائی کے شائع ہونے والے خط نے تہلکہ مچادیا ہے جس میں انہوں نے ونسٹن چرچل کے اسلام کے حامی ہونے اورمستقبل میں اسلام قبول کرنے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ اگست 1907 میں ونسٹن چرچل کو لکھے گئے خط میں انہوں نے ونسٹن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’پلیز آپ اسلام قبول مت کریں کیونکہ میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ آپ مسلمانوں بالخصوص ترک حکمرانوں سے بہت متاثر ہورہے ہیں اورآپ کے جذبات پر اسلام کا غلبہ دیکھ رہی ہوں اور اگر آپ نے اسلام قبول کرلیا تو یہ اس سارے عمل کر سبوتاژکردے گا جس کے خلاف آپ جنگ کرتے رہے ہیں‘‘۔
خط میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ونسٹن چرچل پر اسلام کے اثرات ان کے دوست اور شاعر ولفریڈ بلنٹ کی وجہ سے تھے جو مسلمانوں کے زبردست حامی تھے اور جب وہ عام محفل میں ہوتے تو عرب لباس زیب تن کرتے۔ خط میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ونسٹن نے چونکہ سوڈان اور بھارت میں جنگیں کی تھیں اس لیے انہیں مسلم علاقوں کا خاصا تجربہ تھا۔ خط میں اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ چرچل نہ صرف اسلام اور عیسائت کو برابر کا احترام دیتے تھے بلکہ وہ سلطنت عثمانیہ کی فوجی طاقت اور اس کے پھیلاؤ کو بھی زبردست خراج تحسین پیش کیا کرتے تھے۔ اکتوبر 1940 میں جب برطانیہ نازیوں کے خلاف برسر پیکار تھا اس وقت ونسٹن چرچل نے وسطی لندن میں مسجد کی تعمیر کے لیے ایک لاکھ پاؤنڈز مختص کئے تاکہ وہ ان مشکل حالات میں مسلمانوں کی حمایت حاصل کرسکیں۔

واضح رہے کہ اس خط کا انکشاف ایک برطانوی مصنف ڈاکٹر ڈوکٹر نے اپنی کتاب ’’ونسٹن چرچل اینڈ اسلامک ورلڈ‘‘ کی ریسرچ کے دوران کیا ہے جو جلد منظر عام پر آجائے گی

تعلیم یا بزنس....

$
0
0



ایک دور تھا کہ طالبعلم کا اچھے نمبروں سے پاس ہونا ایک اعزاز کی بات سمجھا جاتا تھا ، اسکے پاس ہونے پر اسکے گھر والے مٹھائیاں تقسیم کرتے اور خوشی کا جشن صرف گھر تک محدود نہیں ہوتا تھا بلکہ اسے پورے محلے تک بڑھایا جاتا تھا اور ہر چھوٹا بڑا اسی خوشی میں شامل ہو جاتا تھا جبکہ اسکے والدین فخر سے سر بلند کرکے اس بات کا علان بڑی بڑی محفلوں میں کیا کرتے تھے کہ اسکا بیٹا اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوا ہے۔ بالکل اسی طرح بیٹا بھی خوشی سے پھولے نہ سماتا کہ اسکی محنت رنگ لائی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم کا معیار گرتا چلا گیا اور ڈگریوں کا حصول بڑھتا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ امتحانی مراحل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے پر بھی خوشی کی کوئی جھلک بھی چہرے پر دکھائی نہیں دیتی۔ کالج سے لیکر یونیورسٹی کی سطح پر سالانہ لاکھوں نوجوان ڈگری بغیر کسی دقت کے حاصل کر لیتے ہیں اور اسی کی دیکھا دیکھی میں پرائیوٹ اداروں کا بھی بھرمار ہو گئی۔ گورنمنٹ اداروں کی خستہ حالی دیکھ کر لوگوں نے اپنے بچوں کو پرائیوٹ اداروں میں بیجھنا شروع کیا۔ 

جس نے نہ صرف گورنمنٹ اداروں سے اپنی کارکردگی کو بہتر انداز میں دکھانے کی کوشش کی بلکہ اسکے ساتھ ساتھ سالانہ اچھے نمبروں سے پاس ہونے والے طلباء کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا چلا گیا، یہاں جعلی ڈگریوں کا حصول بھی ممکن ہوگیا اور بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہونے کی وجہ سے لوگ جعلی ڈگریاں لیکر اور سفارش یا رشوت کے بل بوتے پر اچھے اچھے عہدوں پر فائز ہونے لگے۔

اس نئے ٹرینڈ نے محنتی نوجوانوں کے لئے نہ صرف اداروں تک رسائی مشکل کردی بلکہ اسکے ساتھ ساتھ معاشرے میں تعلیم ذریعہ روزگار کاحصول زیادہ اور علم کا حصول کم شمار ہونے لگا۔ پرائیوٹ ادارے بھی کاروبار کا مرکز بن گئے۔
اور صورتحال اِس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ اب نوجوانوں سے پوچھا جائے کہ آپکی تعلیم کتنی ہے؟ تو بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ۔۔۔ ایم اے کیا ہے ۔۔۔۔ ارے واہ، کس مضمون میں۔ یار مضمون کا تو پتہ نہیں بس دوست کو اپنی جگہ امتحان میں بٹھایا۔

 کمال کرتے ہو ڈگری لینا ہے کونسا شیخ سعدی بننا ہے۔ جناب کی بات میں وزن بہت ہے۔۔ اسکے علاوہ یونیورسٹی اور بورڈ نے ایسے بے شمار گمنام اداروں کو لائسنس جاری کر دیے جو یونیورسٹی یا بورڈ کو سالانہ بھاری بھرکم رقم فراہم کرتے ہیں اور ان اداروں میں ہزاروں کی تعداد میں تعلیم سے نا آشنا بی ایڈ، ایم ایڈ، اور ایجوکیشن کے دیگر اہم شعبوں کے امیدوار بغیر کلاس لئے پاس کئے جاتے ہیں۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ انہی اداروں کی چیک اینڈ بیلنس کے لئے یا تو کوئی واضح پالیسی بنائی نہیں گئی ہے یا تو ضرورت محسوس ہی نہیں کی گئی۔ اور مزید مزے کی بات یہ ہے کہ یہی ڈگری ہولڈر امیدوار کل ایجوکیشن کے کسی اعلیٰ پوزیشن یا ٹیچنگ پوزیشن پر تعینات ہو کر کیا آؤٹ پٹ دیں گے۔

اب اگر دیکھا جائے تو شاید یہ سب سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس شعبے کو زوال کی جانب لے جایا گیا ہے اور اسے ایک منافع بخش کاروبار کی شکل دے دی گئی ہے۔جب تعلیم کے شعبے پر تمام تجربے کئے گئے تو دیکھا کہ ایم اے کی ویلیو پہلے جیسی نہ رہی اور کیسے اس کو مزید منافع بخش بنایا جائے تو ایچ ای سی(ہائیر ایجوکیشن کمیشن) کی جانب سے NTS (نیشنل ٹیسٹنگ سروس) کی شکل میں ایک ادارہ تشکیل دے دیا گیا۔ جسکی زمہ داری اسکالر شپ، داخلہ پروگرام یا بیروزگاروں کا امتحان لینا شامل کیا گیا۔ شروع شروع میں یہ ادارہ کافی فعال کردار ادا کر تا رہا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ بھی اپنا وقار کھوتا گیا بلکہ اب یہ ادارہ کافی منافع بخش بن چکا ہے اور اسکی کمائی کا سب سے اہم ذریعہ وہ بے روزگار ہیں جو ماسٹرز یا گریجویشن کی ڈگریاں لئے اس ٹیسٹ کے لئے اپلائی کرتے ہیں۔ 

گو کہ بھاری بھرکم فیس بے روزگاری اور غربت کے اس دور میں اس امید پر جمع کرتے ہیں کہ کہیں قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہو لیکن این ٹی ایس کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اکثر و بیشتر نوجوان فیل ہوجاتے ہیں جسکی حالیہ مثال لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر واٹر اینڈ میرین سائنس کے ٹیسٹ تھے جس میں کمپیوٹر سیکشن کے امیدواروں کے لئے شماریات کے سوالات لائے گئے تھے جسکا نتیجہ اس ٹیسٹ میں شامل تمام امیدواروں کی فیل ہونے کی صورت میں سامنے آئی۔

دوسری غلط پالیسی انکی جانب سے یہ بنائی گئی ہے کہ ٹیسٹ کو انگریزی پیٹرن میں بنایا جاتا ہے جسکی وجہ سے انگریزی سے نابلد اکثر نوجوان ٹیسٹ پاس کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ جبکہ تیسری غلط پالیسی انکی جانب سے یہ بنائی گئی ہے کہ کسی بھی ٹیسٹ کو منعقد کرانے سے پہلے نہ امیدواروں کو کوئی نصاب فراہم کیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں کوئی پیٹرن پیپر دیا جاتا ہے جس سے نہ صرف اس شعبے کے لئے پیپر دینے والے اکثر نوجوان فیل ہو جاتے ہیں۔ اس صورتحال کے بعد اب ایک نیا ادارہ BTS (Balochistan Testing Service)کے نام سے وجود میں آیا ہے جو اس کاروبار کے شعبے کو مزید وسعت دینے کے لئے اپنا کردار ادا کرے گا۔

اداروں اور امتحانات کے موجودہ معیار کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ آنے والے وقتوں میں ایسے بے شمار ادارے معرض وجود میں آئیں گے جن کا کام تعلیم یا میرٹ فراہم کرنا نہیں ہوگا بلکہ بھرپور طریقے سے بزنس کرنا ہوگا۔ اس سے اچھا یہ نہیں ہوتا کہ تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لئے کالج یا یونیورسٹی کی سطح پر ماہر اساتذہ و پروفیسر تعینات کرکے ہونہار نوجوان پیدا کیے جاتے اور انکی صلاحیتوں سے استفادہ حاصل کیا جاتا۔ 

اس اقدام سے نہ صرف نقل کا رجحان ختم ہوتا بلکہ پڑھے لکھے نوجوان میدان میں آتے اور انہیں ضمانت دی جاتی کہ ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہیں کسی بھی ٹیسٹنگ سروس سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ انکے اس علم اور ہنر سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے انہیں اداروں میں کپھایا جائے گا جہاں وہ اپنے مستقبل کو بہتر طور پر محفوظ سمجھتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ اسی تعلیمی سیٹ اپ پر لگا لیتے نہ کہ صرف ڈگری پر ہی اکتفا کر لیتے۔

شبیر رخشانی

Promoting Primary Education for Girls in Pakistan

$
0
0
 Promoting Primary Education for Girls in Pakistan








Risking their lives to help stop the spread of polio in Pakistan

$
0
0

A polio vaccination worker administers polio vaccine to a child in a poor neighbourhood that hosts Afghan refugees and internally displaced tribal people on the outskirts of Islamabad


Viewing all 4314 articles
Browse latest View live