Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live

پاکستان دہشتگردی کا شکار دنیا کا تیسرا بڑا ملک قرار....

$
0
0


دنیا بھر میں ہونے والی دہشتگردی کے حوالے سے شائع ہونے والی عالمی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2013 کے دوران پاکستان دنیا میں دہشتگردی کا تیسرا سب سے بڑا شکار ملک رہا۔
گلوبل ٹیرارزم انڈیکس (جی ٹی آئی) 2014 کے مطابق 2013 میں دنیا بھر کے 162 ملکوں میں 10 ہزار شدت پسند حملے ہوئے جبکہ 60 ممالک میں دہشت گردی کی وجہ سے انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ 2012 کے مقابلے میں 2013 کے دوران دہشتگردی کے واقعات میں 44 فیصد جبکہ ہلاکتوں میں 61 فیصد اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کی شدت میں ناصرف اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اس کے علاقے میں بھی توسیع ہو رہی ہے۔ انڈیکس میں مختلف نسلی، مذہبی اور لسانی گروپ کے درمیان خونی چپکلش اور حکومتوں کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی کو دہشتگردی میں اضافے کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔
جی ٹی آئی کے مطابق 2013 کے دوران دنیا بھر میں کم و بیش 18 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے 80 فیصد ہلاکتیں عراق، شام، افغانستان، پاکستان، اور نائیجریا میں ہوئیں جن میں مجموعی تعداد 14 ہزار 722 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ان حملوں میں سے 66 فیصد واقعات میں طالبان، دولتِ اسلامیہ، بوکو حرام اور القاعدہ ملوث تھیں۔ 2013 میں شدت پسندی کے سب سے زیادہ واقعات عراق میں ہوئے جہاں شدت پسندوں کے ہاتھوں 6 ہزار 362 افراد مارے گئے، دوسرے نمبر پر افغانستان رہا جبکہ پاکستان تیسرے نمبر پر ہے جہاں 2013 کے دوران ایک ہزار 933 پرتشدد واقعات ہوئے جن میں 2 ہزار 345 افراد ہلاک جبکہ 5ہزار 35 افراد زخمی ہوئے۔

Terrorism in Pakistan


ڈاکٹر محمود غزنوی.....

$
0
0

ڈاکٹر محمود غزنوی طلبہ یونین جامعہ کراچی کے آخری صدر رہے ہیں۔ آپ کی شہرت ایک شعلہ نوا مقرر، شاعر، براڈ کاسٹر اور ابلاغیات کے استاد کی ہے۔ آپ کی زندگی جدوجہد سے بھرپور ہے جس کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ ’’ میں بچپن سے براہِ راست بڑھاپے میں داخل ہوا، مجھ پر جوانی نہیں آئی‘‘۔ آپ کی خطابت کی شہرت زبانی تو سن رکھی تھی لیکن 2000ء یا 2001ء کی بات ہے آپ ہفتہ طلبہ کے سلسلے میں ایک پروگرام کی میزبانی کررہے تھے۔ ویسے تو میزبان ایسے موقعوں پر زیادہ نہیں بولتا لیکن وہاں پروگرام میں خاصی تاخیر اور مہمانِ خصوصی کی دیر سے آمد کی وجہ سے ہفتہ طلبہ کی انتظامیہ کو فکر لاحق تھی کہ پوائنٹس کے جانے کا وقت ہوگیا اور مہمان کی آمد تک طلبہ اٹھ جائیں گے۔ ایسے میں آپ نے اچانک قیام پاکستان کے موضوع پر بولنا شروع کیا تو ایسا لگتا تھا کہ ایک بار پھر آپ طلبہ یونین کے زمانے کے محمود غزنوی بن گئے ہیں اور پنڈال پن ڈراپ سائیلنٹ کے ساتھ آپ کے جوہرِ خطابت کا اسیر ہوگیا ہے۔ پھر جب طلبہ آپ کی خطابت کے سحر سے باہر نکلے تو پوائنٹس جا چکے تھے اور مہمان آچکے تھے۔ یہ تھے محمود غزنوی… جب بولتے تھے تو خوب بولتے تھے۔ فرائیڈے اسپیشل نے طلبہ یونین، طلبہ یونین کی سیاست و اہمیت سمیت آپ کی جدوجہد اور مشاہدات سے بھری زندگی سے متعلق کئی سوالات کیے، جن کے جواب یقینا قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوں گے۔
……٭……
فرائیڈے اسپیشل: اگر میں آپ سے پوچھوں کہ محمود غزنوی کون ہیں تو آپ اس سوال کے جواب کے ساتھ اپنی جدوجہد اور سفر کے بارے میں کیا بتائیں گے؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: میرا پیدائشی شہر حیدرآباد سندھ ہے۔ پیدائش کے دو تین سال بعد کراچی آگیا۔ یہیں پلا بڑھا اور تعلیم حاصل کی۔ میرا شمار معاشرے کے ان طبقات میں ہوتا ہے جو غربت کی سطح سے بھی نیچے کے لوگ تھے۔ اسکول سے کالج تک کی تعلیم کے دوران کبھی نئی کتابیں نہیں خریدیں۔ ہمیشہ سیکنڈ ہینڈ کتابیں لے کر تعلیم حاصل کی۔ بے پناہ محنت کی۔ اسکول میں تھا تو مختلف قسم کے کام کرتا تھا۔ ایک کلینک میں کمپائونڈر بھی رہا۔ پلاسٹر آف پیرس کے مجسمے بھی بنائے۔ شوکیس جس کو آپ اٹیچی کیس کہتے ہیں، اس کا مکمل کاریگر ہوں۔ فاقہ کشی کا زمانہ تھا، ہم سات بہن بھائی تھے، والد صاحب تھے نہیں… ایسی غربت تھی کہ ہمارے ہاں ہفتہ میں صرف دو دن کھانا پکتا تھا۔ ہمارے ہاں روزانہ کھانے کا تصور نہیں تھا۔ میری والدہ بڑی ہمت اور حوصلے والی خاتون تھیں۔ سلائی کرتی تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنوں۔ وہ سب کو پڑھانا چاہتی تھیں۔ الحمدللہ میرے سارے بہن بھائی ماسٹر ہیں۔ اہلِ خاندان کہتے تھے: بھئی اتنی غربت ہے، اتنے بچے ہیں، انہیں کام پر بٹھائو، مزدوری کرکے لائیں گے تو گھر چلے گا۔ کچا مکان تھا ہمارا… یوں سمجھیے بس 10×10 کا کمرہ اور 10×10 کا صحن۔ اور یہ وہ گھر تھا جس پر مجھے کبھی شرمندگی نہیں ہوئی، فخر رہا۔ میں کراچی یونیورسٹی کا صدر تھا، میرے گھر میں بٹھانے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ مہمان آتے تو ہم باہر کھڑے ہوکر بات کرتے تھے۔ بارش کے دنوں میں آدھے بہن بھائی سوتے اور آدھے جاگتے تھے، کیونکہ جگہ کم تھی۔ آدھی رات گزر جاتی تو باقی آدھوں کو سلادیا جاتا تھا۔ یہی وہ گھر ہے جہاں کراچی کے میئر اور بڑے بڑے وزرا تک آئے ہیں۔ کالج کے زمانے میں مجھے اکیڈمک کونسلر کا الیکشن لڑایا گیا۔ بہت بھاری اکثریت سے جیتا تھا۔ تقاریر کے حوالے سے پورے ملک میں میرا ایک مقام بن گیا تھا۔ ’’نخلستان‘‘ کے نام سے کالج کا سالانہ میگزین نکلتا تھا، مضمون نویسی کے مقابلے میں ایڈیٹر کے طور پر منتخب ہوا تھا۔ میں نے بی۔ ایس۔ سی پارٹ ون کرلیا تھا، پارٹ ٹو کی فیس جمع کرانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ دلچسپ صورت حال یہ کہ میں ضرورت مند طالب علموں کی فیس معاف کرنے والی کمیٹی میں مشیر امور طلبہ اور اکیڈمک کونسل کا ممبر تھا۔ درجنوں لوگوں کی فیس معاف کروائی لیکن اپنی فیس کے لیے منہ نہیں کھلا کہ ہم بھی ضرورت مند ہیں، اور کسی کو پتا بھی نہیں تھا۔ میں خاموشی سے کالج چھوڑ کر چلا آیا، بہت دن تک نہیں گیا۔ ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ بعد میرے گھر پر لوگ آئے اور پوچھا: کیا ہوا، کالج کیوں نہیں آرہے ہیں؟ تو میں نے کہا: کالج چھوڑ دیا ہے اور نوکری کرلی ہے۔ میں نے زری کا کام شروع کردیا تھا۔ لوگوں نے بہت کہا کہ کالج آجائیں۔ بہت بعد میں لوگوں کو بتایاکہ چونکہ میرے پاس فیس کے پیسے نہیں تھے اس لیے کالج چھوڑا۔ ہوا یہ تھاکہ میں اس میٹنگ سے اٹھ کر آیا جس میں فیس معاف ہورہی تھی، اور ایک درخواست پرنسپل کے نام لکھ کر رکھ آیا تھا کہ میری فیس کی قسطیں کردیں، میں تین مہینے کے اندر فیس جمع کرادوں گا کیونکہ اُس زمانے میں میرے پاس کام نہیں تھا، انہوں نے وہ درخواست مسترد کردی، ان کا خیال تھا کہ شاید یہ فائدہ اٹھارہے ہیں۔ اسی زمانے میں شفیع نقی جامعہ کراچی سے پاس آئوٹ ہوچکے تھے، اب کراچی یونیورسٹی میں مقرر کوئی نہیں تھا۔ میں اور حسین حقانی ایک سطح پر پہنچ چکے تھے۔ میرے پاس جمعیت کے کچھ لوگ آئے، انہوں نے کہا کہ جامعہ کراچی میں داخلہ لے لیں۔ میں نے کہا کہ ملازمت کررہا ہوں۔ انہوں نے زبردستی میرا فارم بھروا کر جمع کرادیا اور کہا کہ آپ آجائیں۔ کالج میں بھی جمعیت کا کارکن تھا لیکن کسی کو بتایا نہیں کہ میں نے چھوڑ اکیوں ہے اور داخلہ کیوں نہیں لینا چاہتا۔داخلہ فہرست میںنام آگیا۔ میرے پاس پیسے ہوتے تو میں بی ایس سی پورا نہ کرلیتا! فیس جمع کرانے کے پیسے نہیں تھے۔ 55 روپے فیس تھی۔ والد صاحب نے میٹرک کے آخری دنوں میں مجھے گھڑی خرید کردی تھی نیلام گھر سے، اس گھڑی کی قیمت 35 روپے تھی، جب میں یونیورسٹی آیا تو وہ گھڑی 35 روپے میں فروخت کردی اور 15 یا 20 روپے میری والدہ نے دیے تھے۔ اس طرح میں نے فیس جمع کرائی اور یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ میرے سب بہن بھائیوں نے مجھے فالو کیا۔ میرا چھوٹا بھائی میرے ساتھ ڈبل روٹی بیچتا تھا، سخت سردی میں اخبار ڈالتا تھا۔ ہم نے فاقے کیے، سب کچھ کیا لیکن اپنی تعلیم جاری رکھی، کیونکہ ماں کا مشن تھا کہ میرے بچے صرف غربت کی وجہ سے جاہل نہ رہ جائیں۔

فرائیڈے اسپیشل:آپ نے شاعری بھی کی ، کالم نویسی بھی کرتے رہے، تدریس کے پیشے سے منسلک ہیں، کیا اس کے علاوہ بھی کچھ کرتے ہیں؟
محمودغزنوی: شاعری کا مجھے شوق تھا۔ زمانہ طالب علمی میں ماہنامہ ’’وقت‘‘ میں کالم لکھتا رہا، روزنامہ ’’اعلان‘‘ میں سب ایڈیٹر رہا، ریڈیو پاکستان میں ’’بزم طلبہ‘‘ کا اسسٹنٹ پروڈیوسر رہا۔ 1984ء میں میرا پہلا مجموعہ ’’خوابوں کی دہلیز‘‘ شائع ہوا جو بہت مشہور ہوا۔ اس کے تین ایڈیشن آئے۔ میرا دوسرا مجموعہ ’’حریم خواب‘‘ آیا۔ میں نے خود چھاپا۔ دو بڑے نامور پبلشروں نے وہ مجھ سے 50 فیصد پر معاہدہ کرکے اپنی دکانوں پر رکھ کر بیچ دیا، تقسیم نہیں کیا۔ تیسری کتاب ’’فنِ خطابت‘‘ تیار رکھی ہے۔ پبلشر دستیاب نہیں ہے۔ کتاب چھاپنا آج کے دور میں مہنگا سودا ہے، کیونکہ مارکیٹ ہی نہیں کی جاتی۔ ایک لابی ہے جس کی چیزیں چھپتی ہیں۔ لکھنے والوںنے گروہ بندی کر رکھی ہے۔ جن کی پی آر اچھی اور لابی مضبوط ہے، پبلشر سرمایہ بھی ان ہی پر لگاتے ہیں۔ پھر میں نے روزنامہ ایکسپریس میں کالم شروع کیا۔ 2003ء سے 2007ء تک میں نے کالم نگاری کی۔ ریڈیو پاکستان میں 8 سال اسسٹنٹ پروڈیوسر رہا۔ اے کٹیگری کا انائونسر رہا۔ ابھی بھی حیٔ علی الفلاح میں روشنی کا پروگرام کرتا ہوں۔ 2003ء میں کیو ٹی وی سے منسلک ہو گیا، اینکر کے طور پر وہاں لائیو پروگرام کرتا ہوں۔ زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کی کوشش کی۔ کیونکہ مجھے احساس تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو کوئی نہ کوئی صلاحیت دے کر پیدا کیا ہے میں نے اپنے اندر کی صلاحیتیں تلاش کیں۔ میں نے اپنے اندر کا شاعر، مقرر، نعت خواں، اینکر، پروڈیوسر،کاپی رائٹر تلاش کیا جس میں الحمدللہ میں کامیاب رہا۔ تدریس میرا خاندانیپیشہہے۔ میرے تایا ہیڈ ماسٹر تھے، والد استاد تھے، بیوی اور بہن بھی تدریس سے وابستہ ہیں۔ کئی ملازمتیں ملنے کے باوجود میں نے تدریس کو بطور پیشہ اختیار نہیں کیا۔ اسٹیٹ لائف میں اسسٹنٹ منیجر پبلک ریلیشنز کے طور پر تقرر ہوا۔ ٹی وی پر اسسٹنٹ پروڈیوسر مقرر ہوا۔ مقتدرہ قومی زبان میں اسسٹنٹ پبلک ریلیشنز آفیسر مقرر ہوا۔ کے ڈی اے کے انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ میں پبلک ریلیشنز آفیسر کے طور پر تقرر ہوا… یہ سب گریڈ17 کی ملازمتیں تھیں۔ مجھے ڈاکٹر افضل صاحب نے (وہ اس وقت وفاقی وزیر تعلیم اور یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کے چیئرمین تھے) یونیورسٹی گرانٹس کمیشن میں جاب آفر کی تھی، میں نے معذرت کرلی۔ افضل صاحب نے اسکالرشپ پر باہر بھیجنے کی آفر کی کہ جس ملک میں چاہو پڑھ کے آجائو۔ میں اپنی فیملی کا بڑا تھا، مشترکہ خاندانی نظام تھا، میں چھوڑ کر نہیں جاسکتا تھا، میرے حالات اس طرح کے نہیں تھے۔ میرے بہن بھائیوں نے میری تعلیم کے لیے بڑی قربانیاںدی تھیں، میں اپنے مستقبل کی خاطر انہیں مشکل حالات میں چھوڑ کر نہیں جاسکتا تھا۔ یہ خودغرضی ہوتی۔ کہا کہ اردو کالج میں جرنلزم ڈپارٹمنٹ میں کام کرو۔ میں وہاں اکیلا استاد تھا۔ میرے بعد حسن عسکری فاطمی آئے تھے۔ ڈاکٹر افضل نے پروفیسر خلیل اللہ کو ہدایت کی کہ شعبہ ابلاغ عامہ کھولنا ہے، وہ میرے گھر پر اپائنٹمنٹ لیٹر لے کر آئے۔ میں نے وہاں جاکر شعبہ صحافت قائم کیا۔ میںاُس زمانے میں اورینٹ میں کاپی رائٹر تھا۔ تین مہینہ میں نے اردو کالج کے نومولود شعبے میں تدریس کی، اس کے بعد میراجامعہ کراچی میں تقرر ہوگیا۔ وہاں سے چھوڑ کر آنا چاہتا تھا، لیکن خلیل اللہ صاحب نے چھوڑنے سے انکار کردیا کہ شعبہ صحافت تم نے شروع کیا ہے تم ہی اسے چلائو گے۔ پرنسپل صاحب مجھے اس لیے بھی رکھنا چاہتے تھے کہ میرے وفاقی وزیرِ تعلیم سے گہرے مراسم تھے جو اردو کالج کے بورڈ آف گورنر کے چیئرمین بھی تھے۔ انہی کے کہنے پر میں نے تدریس شروع کی تھی۔ پھر مشروط اجازت انہوں نے دی کہ آپ ہمارے ہاں کوآپریٹو ٹیچنگ کرتے رہیں۔ جامعہ کراچی میں بطور لیکچرار آیا تھا، اب الحمدللہ پروفیسر ہوں۔

فرائیڈے اسپیشل: آپ کا زمانہ طالب علمی طلبہ یونینوں کا آخری زمانہ تھا۔آپ انجمن طلبہ جامعہ کراچی کے صدر رہے۔ اب عرصہ ہوا طلبہ یونینوں پر پابندی ہے۔آپ ہمیں یہ بتائیے کہ طلبہ یونین کی موجودگی کا کیا فائدہ تھا اور ان کے نہ ہونے کا کیا نقصان ہے۔؟

ڈاکٹر محمود غزنوی: فائدہ تو نہیں ہوا، نقصان زیادہ ہوا ہے۔ 1983-84ء میں یہ پابندی لگی ہے۔ اُس وقت سے اب 31 برس گزر چکے ہیں، ایک نسل پیدا ہو کے گریجویشن کرکے چلی گئی ہے۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ طلبہ یونین کیا ہوتی ہے۔ طلبہ یونین کا ایک جمہوری سیٹ اپ تھا۔ ہم جمہوریت پر بہت بات کرتے ہیں، ہم نے جمہوریت کو مقدس گائے بنایا ہوا ہے، لیکن ہمارا رویہ ہمیشہ غیر جمہوری ہوتا ہے۔ طلبہ یونین کا سیٹ اپ ایک بلدیاتی نظام سے لے کر وفاقی نظام تک کی ٹریننگ تھا۔ پہلے مرکزی الیکشن ہوتے تھے۔ صدر، نائب صدر، جنرل سیکرٹری، جوائنٹ سیکرٹری۔ پوری جامعہ کراچی کی ایک مرکزی یونین تھی۔ اس کے بعد فیکلٹی کے نمائندوں کے الیکشن ہوتے تھے۔ یہ صوبائی حکومت تھی۔ ہر فیکلٹی کا ایک نمائندہ یونین میں جاتا تھا جسے آپ اسمبلی کہہ لیں۔ اس کے بعد اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا الیکشن ہوتا تھا۔ سینیٹ بنتی تھی، باقاعدہ سینیٹ کا الیکشن ہوتا تھا… ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا جیسے قومی اسمبلی اور سینیٹ۔ سینیٹ کا اسپیکر ہوتا تھا۔ اس کے بعد ڈپارٹمنٹل الیکشن ہوتے تھے۔ یہ سارا بلدیاتی نظام تھا۔ ہر ڈپارٹمنٹ کی یونین ہوتی تھی۔ صدر، نائب صدر، جنرل سیکرٹری، جوائنٹ سیکرٹری۔ جیسے مرکزی یونین ہوتی تھی ویسے ہی ڈپارٹمنٹ کی ہوتی تھی۔ ڈپارٹمنٹل معاملات نبٹتے تھے۔ پھر فیکلٹی کی سطح پر جاتے، وہاں سے مرکز کی سطح پر آتے۔ سینیٹ کا اسی طرح اجلاس ہوتا تھا۔ بجٹ پیش ہوتا، وہ سینیٹ میں آتا۔ جب تک سینیٹ منظور نہ کرے بجٹ منظور نہیں ہوتا تھا، اور یونین فنڈز استعمال نہیں کرسکتی تھی۔ بحث مباحثہ اسی طرح ہوتا جس طرح سینیٹ میں ہوتا ہے۔ یونین بجٹ بنا کر پیش کرتی تھی، اگر بجٹ منظور نہ ہوگا تو یونین کام نہیں کرے گی، منظور ہوگیا تو کام کرے گی۔ پورا ایک جمہوری نظام تھا اور تربیت تھی۔ اس کے علاوہ یونین کی بہت صحت مند سرگرمیاں ہوتی تھی۔ یونین کے کام اب تک لوگوں کو پتا ہی نہیں ہیں۔ مثلاً یونین کے بڑے پروجیکٹ ہوتے تھے، ان میں ایک بڑا پروجیکٹ سالانہ میگزین نکالنا ہوتا تھا۔ میں نے دو میگزین نکالے ہیں۔ ایک میگزین تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے کا نکلا تھا۔ اُس زمانے میں ڈیڑھ لاکھ روپے کی اہمیت ہوتی تھی۔ وہ میگزین تاریخی میگزین تھے۔ میگزین 1980ء سے 1982ء دو سال نکالے تھے۔ ہفتہ طلبہ ہوتا تھا، یہ کوئی معمولی ویک نہیں ہوتا تھا۔ کانوکیشن گرائونڈ پورا بھرا ہوتا تھا۔ جامعہ کراچی سے 56 کالج ملحق تھے۔ ان کالجوں سے طلبہ اسی ڈبیٹ کو دیکھنے اور سننے آتے تھے۔ پورا شہر امڈ پڑتا تھا۔ ہفتہ طلبہ میں تقاریر ہوتی تھیں، مشاعرہ ہوتا تھا، روبرو ہوتا تھا۔ ٹاپ لیول کے جتنے لوگ ہوتے تھے وہ اس میں آتے تھے۔ ادبی عدالت کا تو تصور ہی ختم ہوگیا ہے۔ اب تو سمجھتے بھی نہیں کہ ادبی عدالت کیا ہوتی ہے۔ بڑی بڑی ادبی عدالتیں ہوئیں۔ سردار شیرباز مزاری پر، مصطفی کھر پر، ابن صفی، حبیب جالب وغیرہ پر… بڑے بڑے لوگوں پر عدالت لگی ہے۔ یہاں دنیا اسے دیکھنے آتی تھی۔ تربیت تھی وہ۔ اس کے بعد مضمون نویسی کے مقابلے ہوتے تھے۔ ٹرانسپورٹ کمیٹی تھی۔ طالب علم ٹرانسپورٹ کا نظام چلاتے تھے۔ کینٹین کمیٹی تھی۔ کینٹین کا سارا نظام وہ کمیٹی چلاتی تھی۔ یہ جب نکل کر باہر جاتے تھے فیلڈ میں تو انتظامی امور کا تجربہ لے کر جاتے تھے۔ اب آپ دیکھیں اس وقت جو بڑے کامیاب لوگ ہیں مثلاً جاوید ہاشمی پنجاب یونیورسٹی کے صدر تھے، احسن اقبال انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے صدر تھے، ظہور الحسن بھوپالی سندھ اسمبلی کے رکن تھے، دوست محمد فیضی سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے۔ نامور مقرر تھے۔ ضیاء الاسلام زبیری جو اس وقت پبلک ریلیشنز کے بہت بڑے آدمی ہیں، شفیع نقی جامعی جو اس وقت براڈ کاسٹر ہیں، حسین حقانی جو امریکہ میں سفیر رہے ہیں یہ سب کراچی یونیورسٹی کے بڑے بڑے نام تھے۔ یہ سارے کے سارے طلبہ یونین کی پیداوار ہیں۔ طلبہ یونین میں تربیت کی جاتی تھی اور صلاحیتوں کو نکھارا جاتا تھا۔ کراچی یونیورسٹی سے پروین شاکر، ایوب خاور، تاجدار عادل جیسے بڑے بڑے شاعر نکلے، ادیب نکلے، سیاست دان نکلے۔ اب کیا نکلتا ہے! ان 25 سالوں میں اگر چند بڑے نام نکلے ہیں تو وہ اپنی ذاتی کوششوں سے نکلے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:طلبہ یونین کی سیاست کے شہر کے مزاج اور سماج پر کیا اثرات پڑتے تھے؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: جامعہ کراچیکی یونین کا صدر شہر کے معززین میں شمار ہوتا تھا۔ شہر میں بڑے ممالک کے جتنے سفارت خانے تھے وہاں تقریبات میں معززینِ شہر کو بلایا جاتا تھا اُن میں جامعہ کراچی کا صدر بھی شامل ہوتاتھا۔ بڑی چیزوں کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ یہتربیت کا بہت اچھا ذریعہ تھا۔ پھر جب طلبہ سیاست میں تشدد کا عنصر بڑھا تو پابندی لگ گئی۔ طلبہ یونین پر پابندی کا اصل ذمہ دار سیاست دانوں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ تھا۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا، کیا تشدد ختم ہوگیا؟ اب اس سے بڑے پیمانے پر ہوتا ہے۔ کیا تنظیمیں ختم ہوگئیں؟ تنظیمیں آج بھی موجود ہیں۔ البتہ وہ صحت مند سرگرمیاں ختم ہوگئیں۔ کم از کم یونین کا ایک فائدہ یہ تھا کہ ہر پارٹی کی کوشش ہوتی تھی کہ جو آدمی بھی یونین میں آئے وہ یونیورسٹی کاباصلاحیت فرد ہو، اچھا مقرر ہو، اچھا لکھاری ہو، اچھا شاعر ہو، اچھا طالب علم ہو، مؤدب ہو، یونیورسٹی میں اس کی اپنی عزت اور وقار ہونا چاہیے۔ اس زمانے میں جھگڑے نہیں ہوتے تھے۔ عالم یہ ہوتا تھا کہ اسٹیج پر ایک دوسرے کے خلاف تقریریں کررہے ہوتے تھے۔ الیکشن کے زمانے میں یہ لگتا تھا کہ اسٹیج سے نیچے اتریں گے تو جھگڑا ہوجائے گا۔ لیکن جب نیچے اترتے تھے تو اسی کیفے ٹیریا میں تمام لیڈر ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ کارکنان بھی دیکھتے تو خوش ہوتے کہ اختلافات اسٹیج تک ہوتے ہیں یا صرف الیکشن تک ہیں۔ جب سے ہم نے سیاسی اختلاف کو ذاتی اختلاف بنایا، حالات بگڑتے چلے گئے۔جامعہ کراچی کا ایک تقدس تھا۔ کوئی باوردی پولیس والا داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ اگر ہوجائے تو اسے جامعہ کا تقدس پامال ہونا سمجھا جاتا تھا۔
فرائیڈے اسپیشل: اس دوران کئی حکومتیں آئیں، انہوں نے اعلان کیا کہ طلبہ یونین بحال کریں گے۔ لیکن کوئی بھی حکومت طلبہ یونین کو بحال نہیں کرسکی۔ اس کا کیا سبب ہے؟

ڈاکٹر محمود غزنوی: طلبہ یونین کو بحال کرنا اب ممکن نہیں رہا، کیوں کہ ہمارا سیاسی عنصر تعلیمی اداروں میں بہت زیادہ ملوث ہوگیا ہے۔ جس زمانے میں طلبہ یونین پر نئی نئی پابندی لگی تھی اس وقت ڈاکٹر افضل صاحب تعلیم کے وزیر تھے۔ میںنے ایک سرکاری ملاقات میں ان سے کہا کہ اگر انتظامی طور پر آپ سمجھتے ہیں کہ یونین پر پابندی لگانی ہے تو لگائیں، لیکن اسٹوڈنٹس کونسل کا کوئی منصوبہ ہونا چاہیے، طلبہ سرگرمیوں کا کوئی تصور ہونا چاہیے، انہیں اسٹیج اور پلیٹ فارم دیجیے، کوئی طریقہ ایسا رکھیں کہ ان کا ٹیلنٹ تو سامنے آتا رہے۔ دیکھیں، پابندی کا نتیجہ یہ نکلا کہ تشدد کا عنصر زیادہ آیا۔ بہتے پانی کا راستہ اگر آپ روکیں گے اور جب وہ اوور فلو کرے گا تو گائوں دیہات میں سیلاب لے کر آئے گا، تباہی مچائے گا۔ لیکن اگر دونوں طرف رکاوٹ لگا کر راستہ دے دیں تو وہ اسی راستے پر چلتا رہے گا۔ طالب علموں کا ٹیلنٹ بالکل اس بہتے ہوئے پانی کی طرح ہے۔ راستہ دے دیں تو یہ پانی گزر جائے گا اور سیراب کرتا ہوا گزرے گا، لیکن اگر پابندیاں لگائیں گے تو یہ بند توڑے گا اور سیلاب لائے گا۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ اپنے زمانے کے مشہور مقررین میں سے ایک تھے۔ بتائیے کے ایک اچھے خطیب کے اندر کیا خصوصیات ہونی چاہیں؟

ڈاکٹر محمود غزنوی: مقرر میں دو چیزیں ہوتی ہیں، ایک تو پیدائشی مقرر ہوتا ہے۔ خدا نے اس کو خطابت ودیعت کی ہوتی ہے۔ ویسے تو انسان کی فطرت میں بولنا شامل ہے لیکن بڑے مجمع میں جاکر بولنا، دوسروں کو متفق کرنا، اپنا نقطہ نظر بیان کرنا، لوگوںکو قائل کرنا اور اپنے خیالات سے گھائل کرنا… یہ اصل میں ایک فن ہے۔ اس کے لیے ریاضت کرنی پڑتی ہے۔ میں عنایت اللہ اسمٰعیل گجراتی کو لاہور سننے گیا، میرے پاس پیسے نہیں تھے، تین دن بھوکا رہا۔ نواب بہادر یار جنگ کی دعا اکیڈمی میں صرف دس منٹ کی ٹیپ سننے کے لیے ساری رات سردی میں ٹھٹھرتا رہا۔ محنت، مشقت اور لگن اولین شرط ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ نے کہا طلبہ یونین کے زمانے میں ہم نصابی سرگرمیاں ہوتی تھیں تو مقرر، لکھاری، شاعر پیدا ہوا کرتے تھے۔ تقریریں آج بھی ہوتی ہیں، یہ الگ بات کہ معیار نہیں رہا۔ کیا ہم وہ سنہرا دور واپس لا سکتے ہیں؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: ہاں بالکل، وہ دور آسکتا ہے۔ 

اگر کوئی عمارت گر جائے اور ہم یہ طے کرلیں کہ عمارت دوبارہ بنانی ہے تو اس سے عالیشان عمارت بن سکتی ہے۔ پاکستان میں بہت ٹیلنٹ ہے۔ آج کا طالب علم ہمارے زمانے سے زیادہ ذہین ہے۔ بس درست طریقے سے تربیتاور رہنمائی کی ضرورت ہے جو ہمارے تعلیمی اداروں میں کہیں نہیں ہورہی۔ آپ بتائیں ملک میں کہیں کوئی ایسی ڈبیٹ ہوتی ہے جس میں پورے پاکستان کو مدعو کیا جائے! حال یہ ہے کہ جامعہ کراچی میں مقررین کا انتخاب کرنے کے لیے ایسے افراد مقرر ہیں جن کا تقریر کی دنیا میں کوئی بڑا تجربہ نہیں۔ خدا کے لیے ڈبیٹنگ سوسائٹی بنائیں، یہ آپ کا ثقافتی ورثہ ہے، مسلمانوں کی شناخت ہے۔ دنیا میں اسلام سے قبل بھی مقرر کو معاشرے میں اہم مقام حاصل تھا۔ جنگوں میں مقرر کی اہمیت تھی۔ جو قاصد بھیجے جاتے وہ خطیب ہوتے تھے۔ آج بھی وہی لوگ کامیاب ہیں جو اسمبلیوں میں بولتے ہوئے آئے ہیں۔ جو بولتے ہوئے نہیں آئے وہ اسمبلیوں میں سوتے ہیں اور اپنی رسوائی کراتے ہیں۔ صرف وہی لوگ کامیاب ہیں جن کو بولنا آتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کچھ عرصہ ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ اشتہار سازی کے بارے میں کہا یہ جاتا ہے کہ یہ صارفین کو دھوکا دینے کا ایک فن ہے۔ آپ اس تجزیے سے کتنا اتفاق کرتے ہیں؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: نہیں یہ دھوکا دینے کا فن نہیں ہے۔ ایڈورٹائزنگ واحد کھیل ہے جس میں دونوں پارٹیاں جیتتی ہیں۔ مارکیٹ بہت حساس چیز ہوتی ہے۔ سرمایہ بہت حساس ہوتا ہے۔ اگر آپ کو یقین ہوجائے کہ میں نے آپ کو دھوکا دیا تو دوسری مرتبہ آپ دھوکا نہیں کھاتے۔ البتہ اس فیلڈ میں تھوڑا بہت مبالغہ کیا جاسکتا ہے صرف زیب داستاں کے لیے۔ مارکیٹ میں قیام کے لیے آپ کو گڈ ول بنانی پڑتی ہے اور گڈول ہمیشہ اعتماد سے بنتی ہے۔ قابل اعتماد اور ذمہ دار ہونا بہت ضروری ہے۔ فرائیڈے اسپیشل:۔ آپ کے خیال میں آج کا صارف چیزوں کے معیار کی بنیاد پر خریداری کرتا ہے یا اشتہارات کے دبائو میں آکر؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: ایڈورٹائزنگ کی میرٹ اور ڈی میرٹ ہوتی ہیں۔ اشتہاریات ارشمیدس کا لیور ہے جس نے ساری کاروباری دنیا کو اٹھا رکھا ہے۔ اس کے بغیر مارکیٹ اور صارف کا تعلق قائم نہیں ہوسکتا۔ اشتہاریات مختلف علوم کا مجموعہ ہے۔ شاعری، آرٹ، مصوری، علم بشریات، علم نفسیات، علم سماجیات، ادب، لوگوں کی نفسیات کو سمجھنا، بشری ضرورتوں کا ادراک کرنا۔ سماجیات کے مسائل کو سمجھ کر ہم مارکیٹ میں آتے ہیں، بات کرتے ہیں۔ بہت سے علوم کا مجموعہ ہے اور ان کے علوم کے ذریعہ ہم جو کام کرتے ہیں وہ کاپی رائٹنگ ہے اصل میں اچھا کاپی رائٹر۔ ضرورتوں کا ادراک کراتا ہے،ان کا حل تجویز کرتا ہے۔صارف اور پروڈیوسر کے درمیان پل بنتا ہے۔اشتہاریات ایک سماجی ادارہ بن کر کام کرتی ہے۔ مارکیٹ میں آپ کو جتنی رونق نظر آرہی ہے وہ اشتہارات کی وجہ سے ہے۔ جتنا کاروبار بڑھ رہا ہے اشتہارات کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ہر معاشرے کی کچھ بنیادی اخلاقیات ہوتی ہیں، لیکن ہمارے یہاں اشتہار میں جدت کے نام پر جو تماشا برپا ہے کیاوہ ہمارے سماج کا عکاس ہے؟
ڈاکٹر محمود غزنوی:۔ جدت طرازی میں ہم وہاں وہاں چلے گئے ہیں جہاں سے اخلاقیات مجروح ہوتی ہیں۔ جدت کا مطلب اپنی روایات سے ہٹ جانا نہیں بلکہ ایک مختلف راستہ اختیار کرنا ہے۔ جہاں تک فحاشی کا تعلق ہے ہوا یہ کہ ہمارے ہاں فرائیڈ کی تھیوری کا اطلاق بہت زیادہ کیا گیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ صنفِ مخالف میں بہت زیادہ کشش ہوتی ہے اور اشتہار کا مقصد صارف کی توجہ حاصل کرنا ہے۔ چنانچہ اشتہاروں میں بھی کثرت سے خواتین کا استعمال شروع کیا گیا یہ دیکھے بغیر کہ اس سے خواتین کا تعلق بنتا ہے یا نہیں۔ مثلاً شیونگ ریزر سے خاتون کا کوئی تعلق نہیں۔ موٹر سائیکل سے خاتون کا کوئی تعلق نہیں۔ لیکن جب تک موٹر سائیکل میں پیچھے خاتون نہ بیٹھی ہو اشتہار مکمل نہیں ہوتا۔ اس کا تعلق ایڈورٹائزنگ سے نہیں ہے۔ میں جب اورینٹ میں ہوتا تھا ہم نے ایک تجربہ کیا تھا۔ ہاشمی صاحب مرحوم بھی کہتے تھے کہ عورتوں کا استعمال کم ہونا چاہیے۔ چنانچہ ہم نے جنگل بنایا تھا’’ بھول نہ جانا پھر پپا، نورس لے کر گھر آنا‘‘ اس میں ایک بچی کو ماڈل بنایا۔ وہ اورینٹ کا پہلا جنگل تھا جو مارکیٹ میںسپرہٹ ہوا۔ ایوارڈ ملا تھا اسے۔ حالانکہ اس پر ہمیں بہت مخالفت جھیلنی پڑی تھی کہ نہیں صاحب یہ فلاپ ہوجائے گا، اس میں کشش نہیں ہے۔ وہ چلا تو خوب بزنس کیا۔ اس کے بعد سب نے بچوں کو استعمال کیا۔ بیوی دیکھ رہی ہو یا شوہر دیکھ رہا ہو، دونوں ایک دوسرے کو بلا کر دکھا رہے ہوتے ہیں۔ توجہ ملتی ہے۔ اس کے بعد سے آج تک بچے اشتہار کا حصہ ہیں۔ انڈیا سے ایک اشتہار آیا تھا، انہوں نے انڈین کلچر دکھایا کہ ایک صاحب مٹکا بجا رہے ہیں، ایک بچہ دانت بجاتا ہوا آیا، ان صاحب نے اور زور سے مٹکا بجایا، بچے نے ان سے زیادہ زور سے دانت بجائے۔ مٹکا ٹوٹ جاتا ہے۔ بچہ کہتا ہے مٹکا ٹوٹ جاتا ہے دانت نہیں ٹوٹ سکتا، میں پیپسوڈین استعمال کرتا ہوں۔ اس میں بچہ استعمال ہوا ناں… نہ کوئی عورت نہ کچھ اور۔
فرائیڈے اسپیشل:آپ تین دہائیوں سے پڑھا رہے ہیں۔ آپ کی نظر میں ایک اچھا استاد اور ایک اچھا طالب علم کیسا ہونا چاہیے؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: اچھا استاد ہونے کے لیے دو چیزوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ استاد کو اپنے مضمون پر دسترس ہونی چاہیے۔ دوسرے یہ کہ اسے ایک بہت اچھا دوست ہونا چاہیے۔ طالب علم کا ڈر نکلے گا تو وہ آپ سے سیکھے گا۔ جب تک آپ کلاس میں غیر رسمی ماحول پیدا نہیں کریں گے ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ طالب علم میں جھجک ہوتی ہے۔ وہ سیکھنا چاہتا ہے لیکن ڈر کی وجہ سے نہیں بولتا۔ طالب علم کو آزادی دیجیے کہ اخلاق کے دائر ے میں رہتے ہوئے وہ جو پوچھنا چاہے آپ سے پوچھ سکے۔ ہمارے ہاں استاد سوال سے ڈرتے ہیں۔ سوال کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ بعض استاد کہہ دیتے ہیں کہ جو سوال کرنا ہو میرے کمرے میں آکر کرنا یا کلاس کے باہر کرنا۔ وہ سوچتے ہیں معلوم نہیں طالب علم کیا پوچھ بیٹھے، میں جواب نہیں دے سکا تو بے عزتی ہوجائے گی۔ طالب علموں کو سوال کرنے کی اجازت دیں تو اس سے ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ استاد بھرپور تیاری کرکے جاتا ہے۔ پھر یہ کہ اپنا مضمون مستقل پڑھتے رہنا چاہیے۔ جس عمر میں ہم طالب علم کو پڑھا رہے ہیں اس عمر میں پڑھایا نہیں جاتا، پڑھنے کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔ 45-40 منٹ میںکوئی استاد کچھ نہیں پڑھا سکتا۔ مضمون سے دل چسپی پیدا کردیں کتابوں سے دل چسپی پیدا کر دیں وہ خود پڑھنے لگے گا ۔ اصل میں طالب علم اس لیے اچھے نہیں آتے کہ اب نہ تو ماںباپ اچھے رہے ہیں،معذرت کے ساتھ کہ میں بھی ماں باپ میں شامل ہوں، نہ استاد اچھے رہے ہیں۔ جب ہم اسکول جاتے تھے تو یہ ہوتا تھا کہ صبح اسمبلی میں ہمارے استاد ہم پر کڑی نظر رکھتے تھے، سر کے تیل سے لے کر جوتوں کی پالش تک پوری شخصیت کاجائزہ لیتے تھے، کوئی کمی ہو تو ہمیں کچھ نہیں کہتے تھے، بس یہ کہتے تھے کل اپنے ابا کو بلا کر لانا۔ ہمارے استاد صرف ہمارے استاد نہیں تھے، ہمارے والدین کے بھی استاد تھے۔ آپ کو حیرت ہوگی ہمارے اسکول کے اسٹاف روم میں 10 استاد بیٹھتے تھے، ہم نے ان استادز کو کبھی اسکول آتے ہوئے نہیں دیکھا اور کبھی اسکول سے جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ہمارا تصور یہ تھا کہ یہ استادز یہیں رہتے ہیں۔ صبح اٹھ کر آجاتے ہیں، ہم پڑھ کر چلے جاتے ہیں تو یہ یہیں سوجاتے ہیں۔ کلچر یہ تھا کہ 7:30 پر اسکول لگتا تھا۔ 7:00 بجے تمام استاد پہنچ جاتے تھے طالب علموں سے پہلے۔ جب سارے بچے اسکول سے نکل جاتے تو چوکیدار سے رائونڈ لگوایا جاتا تھا یہ دیکھنے کے لیے کہ اسکول کی کلاس میں کوئی بچہ رہ تو نہیں گیا۔ جب پتا چلتا کہ آخری بچہ بھی چلا گیا ہے تو استاد ٹولیوں کی شکل میں نکلتے۔ ہم نے اپنے استادز کو کھاتے پیتے نہیں دیکھا، سگریٹ تو دور کی بات ہے۔ ہم یہ سمجھتے تھے کہ یہ انسان نہیں ہیں۔ یہ کھاتے پیتے نہیں ہیں۔ آج طالب علم سے سگریٹ منگوا کر پیتے ہیں۔ شخصیت سازی میں استاد کا جو رول ہوتا ہے وہ اسکول کے زمانے سے ختم ہوگیا ہے۔ پھر ماں باپ کا رویہ بہت خراب ہوگیا ہے۔ اس میں مَیں بھی شامل ہوں۔ ہمارے زمانے میں استاد اگر کبھی سزا دے دیتا تھا اور ہم آکر والدین سے کہتے تو وہ کہتے تم نے کچھ کیا ہوگا، ایسے تو نہیں مارسکتے۔ آج اگر طالب علم کو استاد مارے تو کہتے ہیں: اس کی یہ مجال! ہم تنخواہ دیتے ہیں، اسے ہم فیس دیتے ہیں۔ مارا کیسے؟بچے کے سامنے استاد سے بدتمیزی کرکے استاد کا امیج آپ خراب کرتے ہیں۔ جب استاد کی شخصیتماں باپ خراب کردیتے ہیں تو پھر طالب علم بھی عزت نہیں کرتا، وہ سمجھتا ہے کہ یہ ہمارے تنخواہ دار ملازم ہیں۔ وہ کلچر لے کر جب طالب علم یہاں آتا ہے تو پکا ہوچکا ہوتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:آپ کے اساتذہ کس طرح کے تھے؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: بہت اچھے۔ میں طالب علموں سے کہتا ہوں کہ استاد کی شخصیت کا اثر ہوتا ہے۔ ہم انسان ضرور ہوتے ہیں لیکن ہماری ذمے داری دوسروں سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ طالب علم ہم سے صرف پڑھ نہیں رہا ہوتا، ہماری شخصیت کا مشاہدہ بھی کررہا ہوتا ہے۔ ہمارا پہننا اوڑھنا بھی دیکھتا ہے۔ ہماری ذہنی سطح اور علمیت بھی چیک کرتا ہے۔ اور ہر اس استاد کی بہت عزت ہوتی ہے جسے اپنے مضمون پر گرفت ہو۔ طالب علم اگر بدمعاش یا غیر سنجیدہ ہے وہ بھی اس استاد کی بہت عزت کرتا ہے جو اس کو پڑھاتا ہے، اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ ان کے پاس علم ہے۔ علم ہمیشہ اپنی قدر کراتا ہے۔ میرے کالج کے ہیڈ ماسٹر علی گڑھ کے تھے۔ بڑی سفید داڑھی، کالے رنگ کی شیروانی، چوڑی دار پاجامہ، ٹوپی… بالکل ایسے لگتے تھے جیسے فرشتہ۔ روزانہ ان کی 5 منٹ کی تقریر ہوتی تھی۔ ایک بچے سے نعت پڑھواتے تھے، ایک بچے سے 5 منٹ کی تقریر کرواتے تھے۔ اس تقریر میں یہ ہوتا کہ نماز کیسے پڑھنا ہے، روز کی عبادت کیسے کی جائے، نماز کا مکمل طریقہ کہ ہاتھ کیسے باندھنا ہے، نیت کیسے کرنی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ میں آج بھی جب نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہوں تو ان کی شکل میرے سامنے آجاتی ہے۔ اسی طرح ہمارے ایک استاد تھے، صاف ستھرا لباس پہنتے، اُس زمانے میں فائونٹین پین سے لکھنے کا رواج تھا لیکن ان کے ہاتھوں پر کبھی انک لگی نہیں دیکھی، وہ کلاس میں آکر کرسی پر ہاتھ رکھتے۔ ہم ان کے ناخن دیکھتے، ان کے کپڑے دیکھتے جن کی استری خراب نہیں ہوتی تھی۔ وہ گہرے گہرے ناخن کاٹتے تھے۔ میں آج تک گہرے گہرے ناخن کاٹتا ہوں۔ یہ ساری چیزیں طالب علم پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ گفتگو سلیقے سے کرتے تھے۔ ہمارے اسکول میں مضمون نویسی کا مقابلہ ہوتا تھا جس میں انعام کورس کی کتابیں ہوتی تھیں۔ میںہمیشہ اول آتا تھا۔ مجھے معلوم ہے اس زمانے میں مجھے لکھنا نہیں آتا تھا، مجھے سال بھر کا کورس مل جاتا تھا۔ وہ کورس اسکول نہیں دیتا تھا بلکہ کلاس استاد اپنی جیب سے دیتا تھا۔ تین چار بچوں کا کورس ہر سال ایک استاد اپنے پاس سے دیتا تھا۔ مقابلہ تو بہانہ ہوتا تھا کیونکہ جیتتے وہی تھے جو غریب ہوتے تھے۔ یہ استاد کا رول ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:ڈاکٹر معین الدین عقیل نے فرائیڈے اسپیشل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ معاشرے کی خرابی کا ذمہ دار استاد ہے۔ کیا آپ اس تجزیے سے اتفاق کرتے ہیں؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: بالکل صحیح ہے۔ اس لیے کہ ماں باپ اپنی اولاد کو استاد کے حوالے اس اعتماد سے کرتے ہیں کہ وہ اسے انسان کا بچہ بناکر معاشرے میں بھیجیں گے۔ ہم نہیں بنا رہے۔ ہم کیا کرتے ہیں! میں ابلاغ عامہ پڑھائوں گا، ریاضی، طبیعات، کیمیا اردو، سب پڑھا کر نکال دوں گا۔ اسلام کا کلچرکیا ہے، رسولوں کا وظیفہ کیا ہے ’’کہ پڑھاتے بھی ہیں، وہ آیتیں بھی سناتے ہیں اور تزکیہ بھی کرتے ہیں‘‘۔ تزکیہ کیا ہے… تربیت ہے۔ ہمارا کام صرف پڑھانا نہیں ہے۔ ہمارا کام انسان بنانا ہے، شخصیت سازی کرنا ہے۔ ہم ان کی تربیت کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ مثلاً کوئی طالب علم الٹے ہاتھ سے پانی پی رہا ہو تو میں ٹوک دیتا ہوں۔ اذان ہوتی ہے تو میں طالبات سے کہتا ہوں کہ سر پر دوپٹہ اوڑھو۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں، یہ ہم کرتے تھے۔ میں کلاس میں کبھی طلبہ و طالبات کو ساتھ بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔ جامعہ ملیہ کالج کے بانی محمود حسین صاحب نے عجیب طریقہ اختیار کیا۔ ایک طالب علم جہانگیر خان کہیں سے آیا تھا، اس کے گریبان کے بٹن کھلے تھے اور سر میں کنگھی بھی نہیں ہوئی تھی۔ محمود حسین صاحب آئے اور انہوں نے اس کے کندھے پر ایک ہاتھ رکھا اور باتیں کرتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے گریبان کے بٹن بند کردیے۔ اس کے ہاتھ پکڑے اور اس کی آستینوںکے کفوں کے بٹن لگا دیے۔ پھر یہ کہتے ہوئے سر پر ہاتھ پھیرتے رہے: ماشاء اللہ کتنے اچھے بال ہیں۔ میں جب تک اس کالج میں رہا اُس لڑکے نے کبھی گریبان کے بٹن نہیں کھولے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس کے بال بکھرے ہوئے ہوں۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ میرا یہ حلیہ انہیں پسند نہیں آیا۔ انہوں نے ایک جملہ نہیںکہا کہ تم نے بٹن کیوںکھولے ہوئے ہیں، کنگھی کیوں نہیں کی۔ میں کہاں کرتا ہوں یہ کام؟ میں شخصیت کہاں بناتا ہوں؟ میں ذاتی طور پر یہ کرتا ہوں کہ 50 منٹ کی کلاس میں گفتگو کرتے کرتے درمیان میں اخلاقیات کے حوالے سے بات کر جاتا ہوں، اس لیے کہ ہمارا بنیادی کام شخصیت سازی ہے، انسان بنانا ہے، مسلمان بنانا ہے۔ ہم اپنا نظریہ تو دیں۔
فرائیڈے اسپیشل: نوجوان نسل کے بارے میں ایک عام خیال یہ ہے کہ یہ پڑھتے نہیں ہیں؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ اصل میں ہمارے طالب علم ہی نہیں بلکہ ہمارے اساتذہ بھی نہیں پڑھتے۔
فرائیڈے اسپیشل: سبب کیا ہے؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: مطالعے کا شوق نہیں اور طالب علم کو تو بالکل بھی نہیں ہے۔ استاد کی تو مجبوری ہے، اسے تو پڑھنا ہے… نہیں پڑھے گا تو پڑھائے گا کیسے! اس لیے وہ کچھ نہ کچھ پڑھ لیتا ہے۔ طالب علم نہیں پڑھتا۔ آپ ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں، اسے پڑھنے کی طرف راغب کریں، وہ نہیں پڑھتا۔ پڑھنے کا کلچر ختم ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوسائٹی نے اپنا رویہ بدل لیا ہے۔ ہمارے زمانے میں گلی گلی آنہ لائبریری ہوتی تھی۔ ایک آنہ روز پر کتاب ملتی تھی۔ اگلی شام کو واپس نہ کی تو دو آنے دینے پڑتے تھے۔ اس لیے کوشش ہوتی کہ اگلی شام آنے نہ پائے، اس سے پہلے ہی کتاب پڑھ لیں۔ لائبریری کلچر ختم ہوگیا ہے۔ اب ایک بات یہ بھی ہوگئی ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں کو معاشرے میں پذیرائی نہیں ملتی۔ اس معاشرے میں اس کی عزت ہے جس کے پاس پیسہ ہے۔ ہمارے بچپن میں جس آدمی کا اسٹیٹس اس کی آمدنی سے زیادہ ہوتا تھا اُس کے بارے میں تصور ہوتا تھا کہ وہ رشوت وغیرہ لیتا ہے۔ لوگ ڈرتے تھے رشوت لینے سے۔ آج کیا ہوتا ہے! کھل کر پوچھا جاتا ہے: اوپر کی آمدنی کتنی ہے؟ رشتہ لینے جائیں تو پوچھتے ہیں کہ بچے کی اوپر کی آمدنی کتنی ہے؟ حلال اور حرام کے پیمانے ختم ہوجائیں تو پھر پیسے کی قدر ہوتی ہے، تعلیم کی نہیں۔ آپ سوسائٹی میں دیکھیں، کن لوگوں کو وی آئی پی نشستوں پر بٹھاتے ہیں۔ کسی پڑھے لکھے بڑے آدمی کو آپ پروٹوکول دیتے ہیں؟ قدر کس کی ہوتی ہے؟ پیسے والی کی۔ اس نے پیسہ کیسے کمایا، یہ کوئی نہیں پوچھتا۔ پھر آپ بتائیں کون پڑھے گا!
فرائیڈے اسپیشل: سوسائٹی استاد کی عزت اور وقار میں کمی کا باعث بنی ہے یا استاد خود اس کا ذمہ دار ہے؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: دونوں ہی ہیں۔ استاد نے وہ نسل تیار نہیں کی جو ان کو عزت دیتی۔ ہمارے ہاں تعلیم میں جو دوہرا نظام چل رہا ہے وہ ہمارے لیے عبرت ہے۔ آج تک کسی دارالعلوم کے بچے نے داخل ہونے سے لے کر فارغ التحصیل ہونے تک کبھی اپنے استاد کے ساتھ گستاخی نہیں کی۔ میں ان دارالعلوم میں جاتا ہوں، اپنی عزت بھی دیکھتا ہوں۔ ہمارے طالب علم ہمارے سامنے سگریٹ پی رہے ہوتے ہیں، ٹانگیں پھیلاکر بیٹھے ہوتے ہیں۔ وجہ کیا ہے؟ وہ تعلیم دیتے ہیں، علم دیتے ہیں اور علم کی توقیر سکھاتے ہیں۔ وہ استاد اور والدین کا مقام و مرتبہ سکھاتے ہیں۔ ہم کیا کرتے ہیں؟ ہم مارکیٹ کی پروڈکٹ تیار کرتے ہیں۔ ہم کتاب اور قلم کی عزت نہیں کرتے جب کہ قرآن نے قلم کی قسم کھائی ہے۔ جب تک علم اور اس کے ذرائع کی قدر نہیں کریں گے… کاغذ، قلم اور کتاب کی قدر نہیں کریں گے علم آپ کو کبھی فائدہ نہیں دے گا۔ میں اس کا ذمہ دار استاد کو قرار دیتا ہوں کہ استاد نے یہ بات سکھائی نہیں۔ وہ صرف فزکس، کیمسٹری پڑھاتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ نہ وہ علم کی قدر سکھاتا ہے، نہ یہ بتاتا ہے کہ یہ زبان جو تم چلا رہے ہو اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے کہ ’’ہم نے تمہیں بولنا سکھایا‘‘۔ کمیونی کیشن تو ہے ہی اللہ تعالیٰ کا علم۔ ’’ہم نے تمہیں لکھنا سکھایا۔ ہم نے تمہیں بولنا سکھایا‘‘۔ اچھے سے اچھا بولو… یہ براڈ کاسٹنگ ہے۔ ریڈیو، ٹی وی براڈ کاسٹنگ ہے۔ ریڈیو پاکستان نے اپنا مونوگرام بنایا، اس پر لکھا ’’قولو للناس حسنا‘‘، اچھے سے اچھا بولو۔ اس کے نیچے کیا بول رہے ہوتے ہیں!
فرائیڈے اسپیشل: زمانہ طالب علمی میں آپ بہت متحرک رہے، طالب علم رہنما رہے، طلبہ سیاست میں آپ شامل رہے، لیکن عملی زندگی میں آج آپ اساتذہ کی سیاست میں نظر نہیں آتے، اس کی آخر کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: میں استادز سوسائٹی میں تقریباً دس بارہ سال متحرک رہا۔ تین مرتبہ سینڈیکیٹ کا رکن رہا۔ دو بار سینیٹ میں منتخب ہوکر گیا۔ اکیڈمک کونسل میں منتخب ہوکر گیا۔ بورڈ آف ڈائریکٹر اور بورڈ آف گورنرز میں رہا۔ جب میں نے دیکھا کہ گروہی سیاست شروع ہوگئی ہے تو کنارہ کش ہوگیا۔ سیاست مجھے راس نہیں آئی۔ مجھے ضیاء الحق صاحب نے پیغام بھجوایا: جنٹل مین تمہارا میں نے نام بہت سنا ہے، مجھے تمہاری ضرورت ہے، کچھ دن کے بعد تم سے رابطہ کریںگے۔ اس کے بعد جب جونیجو والا سیٹ اپ آرہا تھا، نوازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بنائے گئے تھے، انہوں نے گھیرنا شروع کیا۔ حسین حقانی کو لے کر گئے، ان کو نوازشریف کا سیکریٹری بنایا، احسن اقبال کو لے کر گئے۔ مجھے پیغام آیا، صلاح الدین صاحب کے ذریعے انہوں نے مجھ سے ملنا چاہا۔ ترکی کے سفارت خانے میں میری ان سے ملاقات ہو ئی۔ یہ ترکی کا قومی دن تھا۔ ڈاکٹر افضل نے مجھے ملوایا۔ اس کے بعد انہوں نے صلاح الدین صاحب سے کہا: طے ہوا کہ تاج محل ہوٹل میں سردار علی صابری کی برسی ہوگی، صدر صاحب اس کی صدارت کریں گے، آپ اسے کنڈکٹ کریں گے کیونکہ صدر صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ طے ہوگیا۔ میں گیا، میں نے سردار علی صابری کی برسی کنڈکٹ کی۔ صدر صاحب بیٹھے ہوئے تھے، صلاح الدین صاحب بیٹھے تھے۔ جب عصر کی نماز کے لیے اٹھ کر گئے۔ صلاح الدین صاحب اور ضیاء الحق ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ ایک طرف سے صلاح الدین صاحب نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ چائے پر لے کر گئے تو صدر صاحب نے مجھ سے کہا کہ حسین حقانی کو میں نے قائل کرلیا ہے، آپ کے دوست ہیں، احسن اقبال بھی آگئے ہیں، آپ ہمیںجوائن کریں سندھ میں، میں یوتھ کو لانا چاہتا ہوں، میں اس کلچر کو تبدیل کرنا چاہتا ہوں۔میں نے سوچ کر جواب دینے کا وعدہ کرلیا۔ ایک ہفتے کے بعد صلاح الدین صاحب کا پیغام آیا، انہوں نے کہا کہ ضیاء الحق کے اے ڈی سی کا فون آیا تھا، آپ نے کہا تھا سوچ کے بتائوں گا، کیا جواب ہے، وہ مجھے فون کررہے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں سیاست میں نہیں جائوں گا۔ انہوں نے مجھے بلا کر کہا کہ دیکھو زندگی میں ایک چانس سب کو ملتا ہے، تمہیں قدرت چانس دے رہی ہے، تم نکل جائو۔ میں نے کہا میرا مزاج سیاست کا نہیں، میں سیاست نہیں کر سکتا، اس سے پہلے مجھے فنکشنل لیگ جوائن کرنے کی پیشکش تھی، میں نے معذرت کرلی تھی، پیپلزپارٹی نے پیشکش کی تھی، جماعت اسلامی کے سوا کئی پارٹیوں نے مجھے پیشکش کی، لیکن میں نہیں گیا ۔ صلاح الدین صاحب نے مجھے بہت ڈانٹا۔ کئی مہینے وہ مجھ سے ناراض رہے۔ دراصل سیاست میں جس قسم کے لوگ چاہیے تھے، میرا مزاج ویسا نہیں تھا۔ میں خودغرض نہیں ہوسکتا، میں مال نہیں بنا سکتا۔ اخلاص میرا عذاب ہے جس کی وجہ سے اکثر مشکلات بھگتتا ہوں۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کے دو شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں، لیکن آپ کو شہرت ایک مقرر کی حیثیت سے حاصل ہوئی، وہ شہرت شاعری کے میدان میں حاصل نہیں ہوئی، اس کا کیا سبب ہے؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: میری زندگی میں بڑے رنگ ہیں۔ میں نے طالب علمی کے دور میں نعت خواں کی حیثیت سے اپنے سفر کاآغاز کیا تھا۔ اس کے بعد میں نے شعروں میں تک بندی شروع کی۔ میری اصل شناخت تقریر تھی۔ اسکول کے زمانے سے میں تقریر میں پہلا انعام لیتا تھا اور ڈبیٹر آف دی ایئر قرار پاتا۔ شاعری شروع کی۔ مجموعے شائع ہوئے۔ ریڈیو کے مشاعرے میں شرکت کی۔ ٹاپ کے شعرا کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا۔ ریڈیو مرکز تھا۔ اس طرح میری صلاحیتیں نکھرتی چلی گئیں۔ لیکن مشاعروں کا کلچر مجھے پسند نہیں آیا۔ میں بہت کم مشاعروں میں شریک ہوتا ہوں کیونکہ میں کہتا ہوں کہ میں شاعر نہیں مقرر ہوں۔ اللہ کا شکر ہے میرا شمار شعرا میں بھی ہوتا ہے۔ ہماری ہاں گروہ بندی بہت ہے۔ میں نے کئی سال ریڈیو پر مشاعرہ کیا، میں اسسٹنٹ پروڈیوسر تھا اور مشاعرے کروانا میری ذمہ داری تھی اور میں جس چیز سے بددل ہوا وہ یہ تھی کہ وہ فون کرتے اور پوچھتے کہ اور کو ن کون آرہا ہے؟ فلاں آئے گا تو میں نہیں آئوں گا، یا فلاں کو بھی بلائو ۔ پی ٹی وی پر ایک خاص قسم کی لسٹ بنی ہوئی ہے، ہرسال وہی لوگ مشاعروں میں جاتے ہیں۔ پی ٹی وی کبھی بھی نئے لوگوں کو نہیں بلاتا۔ یہ عام مشاعروں میں بھی ہے کہ یہ فلاں کا گروپ ہے، یہ فلاں کا گروپ ہے۔ لابنگ بہت ہے۔ میں اگر لابنگ کرتا تو کہیںسے کہیں پہنچا ہوا ہوتا۔ مجھے پی ٹی وی میں کبھی گھسنے نہیں دیا گیا کہ یہ جماعتی ہے۔ جمعیت کا ہونے کا نقصان اٹھایا میں نے، اور جمعیت والوں نے مجھے پوچھا نہیں۔ میرے ساتھ یہ ہوا کہ
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے کہ مسلماں ہوں میں
فرائیڈے اسپیشل: شاعری تخلیقی کام ہے۔ مشاعرے میں شریک ہونا یا نہ ہونا شہرت کی دلیل تو نہیں ہے۔ بہت سے شعرا ہیں جو مشاعرے میں شریک نہیں ہوتے لیکن بڑے شاعر ہیں، اور بعض کی شہرت ہی صرف مشاعروں کے شاعر کی ہوتی ہے؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: اصل میں مشاعرے کے شاعر الگ ہوتے ہیں۔ آپ نے خود ہی کہہ دیا کہ بہت سے شعراہیں جو مشاعرے میں شریک نہیں ہو تے۔ میں بھی بہت کم شریک ہوتا ہوں۔ گروہ بندی سے نالاں ہوں۔ عورت کی سب سے بڑی دشمن عورت ہوتی ہے، یہی حال شاعروں کا بھی ہے۔ ویسے بھی شاعری میرا مشغلہ ہے، مسئلہ نہیں۔ شاعری تو وارداتِ قلبی ہے جب دل پہ چوٹ لگے۔ چوٹ کے لیے عشق کا ہونا ضروری نہیں۔ عموماً لوگ بے وقوفی والی بات کرتے ہیں کہ شاعری کے لیے عشق ہونا ضروری ہے۔ عشق ہونا ضروری نہیں، جب بھی دل پہ چوٹ لگے شعر ہوتا ہے۔ میں تو اپنے ڈپریشن کو شاعری کے لیے استعمال کرتا ہوں۔ بہت شدید ڈپریشن میں ہوتا ہوں تو شعر کہتا ہوں، آج صبح ہی ایک شعر ہوا ؎
کسی کی تلاش میں ہیں ہوائوںکے قافلے
میں نے تو اپنے گھر کا دیا ہی بجھا دیا
اس طرح ٹکڑوں میں شاعری ہوتی ہے، کبھی باقاعدہ نہیں ہوتی۔ کاغذ کے ٹکڑوں پہ کہیں چلتے چلتے اچانک کہہ دیتے ہیں، ایک شعر ہوا پھر دوسرا، اورپھر غزل ہوگئی:
تیری طلب ہی نہیں ہے تو پھر بتا تو سہی
تیرے بنا مجھے آرام کیوں نہیں آتا
میں اپنے غم کا فسانہ سنانا چاہتا ہوں
میرے لبوں پہ تیرا نام کیوں نہیں آتا
اب اسے وسیع تناظر میں دیکھ لیں، میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں:
ہر ایک سمت سے آتے ہیں سینکڑوں نامے
تمہاری سمت سے پیغام کیوں نہیں آتا
ہر اعتبار سے مدہوشیاں شناس ہوں میں
تو میرے حصے میں پھر جام کیوں نہیں آتا
ستم گزیدہ پر طعنہ زنوں کی یلغار میں
ستم شعار پہ الزام کیوں نہیں آتا
طلب میں جس کی سرِ دار آگئے محمودؔ
وہ ایک شخص لبِ بام کیوں نہیں آتا
فرائیڈے اسپیشل: آپ ایک ٹی وی چینل سے بھی پروگرام کررہے ہیں۔ ہمارے ہاں جب سے نجی ٹی وی شروع ہوا ہے کہا یہ جارہا ہے کہ بہت آزاد ہوگیا ہے، لیکن یہ شکایت بھی موجود ہے کہ صحافت کا کوئی معیار موجود نہیں ہے۔ ٹاک شوز میں مرغوں کو لڑانے اور سنسنی پھیلانے والی صحافت ہے۔ آپ اس تجزیے سے کس حد تک اتفاق کرتے ہیں؟اور اگر ایسا ہے تو اس کا سبب کیا ہے؟
ڈاکٹر محمود غزنوی:ہمارے ہاں ایک بہت بری چیز جو آگئی ہے وہ ہے سو کالڈ ریٹنگ سسٹم۔ بھائی یہ ریٹنگ کا پیمانہ کیا ہے! 18کروڑ کی آبادی میں سے کل سات سو گھرانے ہیں، جن سے آپ ریٹنگ نکال لیتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ پڑھے لکھے ہی ہوں گے، لیکن اکثریت ان کی ہے جو پڑھے لکھے نہیں ہیں، ٹی وی تو وہ بھی دیکھتے ہیں۔ دوسرے یہ ہوا ہے کہ چینلز میں بھانت بھانت کے لوگ آگئے، مثلاً ایک صاحب فزیشن تھے وہ اینکر بن گئے، دوسری خاتون ڈاکٹر تھیں وہ اینکر بن گئیں۔ جن کی یہ فیلڈ نہیں ہے، جنہوں نے یہ پڑھا ہی نہیں ہے نہ ان کی زبان درست ہے نہ انہیں بولنا صحیح آتا ہے۔
ہمارے جتنے میزبان ہیں ان کی اکثریت وہ ہے جنہیں پروگرام موڈریٹ کرنا نہیں آتا۔ ٹاک شوز میں گفتگو کراکے کوئی نتیجہ سننے والوں کو نکال کر نہیں دیتے۔ جس موضوع پر ماہرین کو بلایا جاتا ہے اس پر موڈریٹر ان کی علمی صلاحیت کے مطابق خود تیاری کرتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ اِس کا سوال اُدھر پھینک دیا، اُس کا سوال اِدھر پھینک دیا۔ ہم اسے موڈریٹ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں، جب ایک آدمی اپنی حدود سے باہر نکل رہا ہے اس کو موضوع سے باہر نہیں جانے دیتے۔ لڑنے لڑانے کا تو غیر مہذب طریقہ ہے۔ پھر یہ کہ نوٹس لیتے ہیں اور ایک نتیجہ نکال کر دیتے ہیں۔ یہ موڈریٹر کی ذمہ داری ہوتی ہے، اس لیے کہ لوگ اتنے پڑھے لکھے اور صاحب الرائے نہیں ہوتے کہ بحث کے نتیجے میں اپنی رائے بنالیں۔ ان پروگراموں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک رائے بناکر لوگوں کو دی جائے۔ ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے! نتیجہ نہیں نکالتے، کنفیوژن میں چھوڑ دیتے ہیں۔ ٹاک شو کے ذریعے بدتمیزی کرنا… کسی نے گلاس اٹھا کر ماردیا، کوئی مائیک لے کر کھڑا ہوگیا۔ ٹاک شو کا مطلب ہے دلائل سے بات کرنا، نرمی سے بات کرنا، ایک دوسرے سے مہذب طریقہ سے اختلاف کرنا۔ یہی کام ہم مباحثوں میں سکھاتے تھے کہ آپ مقرر کے خیالات سے اختلاف کررہے ہیں مقرر سے نہیں کررہے۔ اس کے خیالات کو دلیل سے رد کیجیے، گالی دے کر کیوں شرمندہ کرتے ہیں۔ ہمارے ٹاک شوز میں جو زیادہ شور شرابہ کرے، جو زیادہ بدتمیزی کرے وہ زیادہ کامیاب اینکر ہوتا ہے۔ ریٹنگ بڑھانے کے لیے ہم کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: شعبہ ابلاغ عامہ کس حد تک اپنی ذمہ داری پوری کررہا ہے؟ کیا وہ تربیت دے کر ایسے افراد بھیج رہا ہے جو میڈیا کے کلچر کو تبدیل کریں؟
ڈاکٹر محمود غزنوی: ابلاغ عامہ کا جو نصاب ہے اس میں تھیوری ہے۔ مثلاً رپورٹنگ کیسے ہونی چاہیے، اس کی اخلاقیات کیا ہیں، کوڈ آف کنڈکٹ کیا ہوتے ہیں، زبان کا کیا معیار ہے… یہ ساری چیزیں ہم پڑھاتے تو ہیں، سکھاتے بھی ہیں، تربیت بھی کرتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک بہت بڑی مشینری میں بہت بڑا جنریٹر ہے، اس کے اندر اگر ہم ایک بیرنگ اپنا لگادیں تو اس بیرنگ کی گولیاں کٹ جاتی ہیں، وہ وائبریٹ کرنے لگتا ہے، اس میں چال آجاتی ہے۔ ہم اصل میں نیلی چڑیا تیار کررہے ہیں۔ ہم اسکول کے زمانے میں چڑیا پکڑتے اور اس کے پر نیلی انک سے رنگ کر چھوڑ دیتے تھے۔ دوسری چڑیاں اسے مارنا شروع کردیتیں، اس لیے کہ اس کا رنگ بدل گیا تھا۔ وہ سمجھتی تھیں کہ یہ ہماری نسل کی ہے ہی نہیں۔ اپنی ہی نسل کو انہوں نے تباہ کردیا۔ اس سے ہمیں مائیں بھی منع کرتی تھیں اور استاد بھی، کہ چڑیوں کو رنگنا نہیں، تمہیں پتا ہے اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے! چڑیا کا یہ بچہ بھوکا رہ جائے گا، یہ اپنے خاندان سے کٹ جائے گا، اس کی سماجی زندگی ختم ہوجائے گی، یہ اپنے قبیلے سے کٹ جائے گا۔ہم جن طالب علموں کو پڑھاتے ہیں ان کو اخلاقی اقدار نہیں سکھاتے۔ نیلی چڑیا بنا کر معاشرے میں بھیج دیتے ہیں۔ وہاں وہ جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے: پڑھ وڑھ کر کیا آئے ہو، یہ سب نہیں چلتا۔ انٹرو کیا ہوتا ہے! خبر بنائو سیدھی سیدھی، تھیوری چھوڑو، یہ کرو۔ آپ بتائیں میڈیا میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو ماس کمیونی کیشن پڑھ کر آئے ہیں، جنہوں نے صحافت پڑھی ہے؟ مالکان کہتے ہیں: کچھ بھی کرو‘ اخلاقیات تباہ کرو، سب کچھ تباہ کرو بس پیسہ کما کر لائو۔ اخبارات چینلز کے پمفلٹ بن گئے ہیں، کئی کئی صفحے اپنے چینل کی پبلسٹی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ خبر ہی نہیں دیتے۔ اخبار تو نہیں رہے، چینل کا پروجیکشن ہوگئے ہیں۔
اے۔اے۔ سید

بیرون ممالک سے ڈی پورٹ ہونے والے پاکستانی....

$
0
0


دنیا کے 47ممالک سے چار سال میں ایک لاکھ 66 ہزار 420پاکستانی شہریوں کو غیرقانونی طور پر مقیم یا سفری دستاویزات نہ ہونے پر نکالا گیا۔ زیادہ پاکستانی عرب ریاستوں سے واپس بھیجے گئے۔ سعودی عرب سب سے پہلے نمبر پر ہے جہاں سے 83606، دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات سے 29960 جب کہ تیسرے نمبر پر عمان سے 22772پاکستانیوں کو سفری دستاویزات نہ ہو نے یا غیرقانونی قرار دیکر واپس بھجوایا گیا۔

وزارت خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوری 2010ء سے ابتک 47ممالک سے ایک لاکھ 66 ہزار 420افراد کو غیرقانونی طور پر مقیم ہونے یا سفری دستاویزات نہ ہونے پر نکالا گیا۔ اتنی بڑی تعداد میں غیر ممالک سے پاکستانیوں کو نکالا جانا‘ ارباب اختیار کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ اس سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں ایسے گروہ کام کر رہے ہیں جو لوگوں کو غیر قانونی طور پر بیرون ملک بھجوا رہے ہیں‘ یہ لوگ جب دوسرے ملکوں میں پہنچتے ہیں تو ان کے پاس قانونی سفری دستاویزات نہیں ہوتیں یا وہ جعلی ہوتی ہیں۔ ایسے لوگ گرفتار ہو جاتے ہیں اور متعلقہ حکام انھیں ڈی پورٹ کر دیتے ہیں۔
کچھ لوگ ویزہ مدت ختم ہونے پر بھی بیرون ملک مقیم رہتے ہیں‘ یہ لوگ بھی ڈی پورٹ ہو جاتے ہیں‘ اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں غربت وافلاس بڑھ رہی ہے‘ لاقانونیت اور دہشت گردی نے معیشت تباہ کر دی ہے‘ حالات سے تنگ آئے ہوئے افراد بیرون ملک بھاگ رہے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں پاکستانیوں کو بیرونی ممالک سے نکالا جانا‘ باعث و شرمندگی اور ندامت ہے۔ اب دنیا میں پاکستان ایسے ملک کے طور پر جانا جاتا ہے‘ جہاں کے باشندے غربت اور بدامنی سے تنگ آ کر غیر قانونی ذرایع سے بیرون ملک جا رہے ہیں۔

زندگی کو بہتر اور خوشگوار بنائیں.....

$
0
0


زندگی کو بہتر بنانے کی خواہش کس فرد کو نہیں ہوتی تاہم اکثر یہ ایسا خواب ثابت ہوتی ہے جس کی تعبیر انہیں اپنے بس سے بات لگتی ہے تاہم ایسی کئی چیزیں ہیں جن کو اپنے روزمرہ کا حصہ بناکر ہم زیادہ خوش باش اور اچھی زندگی گزار سکتے ہیں اور سائنس بھی ان کی حمایت کرتی ہے۔

قدرتی مناظر میں نکلنا

ہوسکتا ہے کہ آپ اس کی اہمیت سمجھ نہ سکے مگر ایک تحقیق کے مطابق فطرت کے مناظر ہمارے اندر موجود تناﺅ کو کم کرکے ہمیں زیادہ تخلیقی سوچ کا حامل فرد بنادیتے ہیں، ان کو دیکھ کر ہماری یاداشت بہتر ہوتی ہے بلکہ وہ ہمیں ایک بہتر فرد بننے میں بھی مدد دیتے ہیں۔

ورزش

ہم سب اس کی اہمیت سے واقف ہیں مگر بہت کم افراد ہی اس کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں، طبی فوائد سے ہٹ کر بھی یہ ہماری زندگیوں کے لیے بہت فائدہ مند سرگرمی ہے، مثال کے طور پر ورزش ہمیں اسمارٹ، خوش باش بنانے کے ساتھ نیند کو بہتر کرتے ہے اور ہاورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق ورزش کے عادی افراد اپنے جسموں سے بہتر آگاہی رکھنے کے باعث اچھی زندگی گزارنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔

دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ وقت گزارنا

ہاورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق دوستوں اور خاندان کے ساتھ وقت گزارنا زندگی میں خوشی کے سب سے بڑے ذرائع میں سے ایک ہے، رشتوں کی اہمیت ہمارے تصور سے بھی زیادہ ہوتی ہے سماج سے کٹا ہونے کا احساس آپ کو احمق بنانے کے ساتھ ہلاک بھی کرسکتا ہے، کیونکہ تہنائی امراض قلب، فالج اور ذیابیطس جیسے جان لیوا امراض کا سبب بن سکتی ہے، دوست ہماری زندگی کو بہتر بنانے کی کنجی ہوتے ہیں، ان کے ساتھ اچھی خبروں کا تبادلہ اور جوش تعلقات کو بہتر بناتا ہے۔

شکرگزاری کا احساس

شکرگزاری ایسی عادت ہے جو آپ کو خوش باش تو بناتی ہی ہے پیاروں کے ساتھ تعلقات بہتر بناتی ہے، آپ کی شخصیت کو بہتر کرتی ہے اور آپ کے ارگرد ہر شخص کی زندگی میں بہتری لاتی ہے۔

مراقبہ

مراقبہ زندگی میں خوشی، مقصد، سماجی معاونت اور توجہ کی صلاحیت کو بڑھا دیتی ہے، جبکہ اس سے ہمارے اندر سے غصہ، خوف، مایوسی اور ایسے ہی ذہنی مسائل کم ہوتے ہیں۔

مناسب نیند

آپ نیند کے معاملے پر اپنے ساتھ دھوکا نہیں کرسکتے کیونکہ تھکاوٹ کا احساس خوش رہنے کو مشکل بنادیتا ہے، آسان الفاظ میں نیند کی کمی کا نتیجہ چڑچڑے پن اور زندگی میں مشکلات کی شکل میں نکلے گا، بہتر نیند سے فیصلہ سازی کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے جبکہ اس کی کمی آپ کو غیراخلاقی رویے اپنانے پر مجبرو کرسکتی ہے۔

خود کو چیلنج کرنا

کسی دوسری زبان کو سیکھنا آپ کے ذہن کو تیز رکھتا ہے، موسیقی کے اسباق ذہانت بڑھاتے ہیں، اپنے عقائد کے بارے میں چھان بین ذہن کو مضبوط کرتی ہے، غرض خود کو کسی مشکل میں ڈالنے سے آپ کی قوت ارادی میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ عادت ذہانت کے مقابلے میں آپ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

ہنسنا

جو لوگ مزاح استعمال کرتے ہیں ان کے اندر بیماروں کے خلاف قوت مدافعت بھی مضبوط ہوتی ہے جس سے ان میں دل کے دورے اور فالج کا خطرہ کم ہوجاتا ہے، ہنسی ایک وٹامن کی طرح ہے جو آپ کے رشتوں کو بھی مضبوط بناتی ہے۔

پرامید رہنا

امید آپ کو صحت، خوشی اور زندگی کی مدت جیسی نعمتیں عطا کرسکتی ہے، مشکلات کے دور میں مثبت سوچ کو اپنائے رکھنا کامیابی کا باعث بنتا ہے حد تو یہ کہ یہ عادت حد سے خوداعتماد افراد کی کارکردگی کو بھی بڑھا دیتی ہے۔

تھر کی جھونپڑی میں جو منظر میں نے دیکھا .....

$
0
0

'شیر محمد بستی''میں واقع جھونپڑے میں ایک ایسا منظر دیکھا جس نے ہمیں نم دیدہ کردیا۔ ''اللہ ڈنو''کے 7 بچے تھے۔ یہ صحرا میں بکریاں چراتا تھا۔ ایک رات کو زہریلے سانپ نے کاٹا۔ فرسٹ ایڈ اور زہر کا تریاق نہ ملنے کی وجہ سے 4 گھنٹے بعد ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر اپنی جھگی میں مرگیا۔ اس کا ایک ہی بھائی تھا، وہ بھی ایک پاؤں سے معذور۔ اب 5 معصوم بچیوں اور 2 بچوں کی ذمہ داری اس معذور شخص کے ناتواں کاندھوں پر آگئی ہے۔ 

یہ معزور شخص صحراء میں بکریاں چراکر گذر بسر کررہا تھا کہ بارش کی وجہ سے گھاس پھوس بھی ختم ہونے لگا۔ کنوؤں سے پانی کم ہونے لگا۔ یہ معذور شخص صبح سویرے بکریاں لے کر نکلتا۔ چارے کی تلاش میں دور تک چلا جاتا۔ ڈھلتے سورج لوٹتا، بڑی مشکل سے کنویں سے پانی نکال کر بکریوں کو پلاتا۔ اس نے بکریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ 60 بکریوں میں سے 11 بکریاں رہ گئیں۔ باقی قحط کی وجہ سے اللہ کو پیاری ہوگئی ہیں۔ کانٹوں کے احاطے میں ایک ہی جھگی تھی۔ اس میں 7 معصوم بچے دوپہر کا کھانا کھارہے تھے۔ کھانے میں صرف باجرے کی روٹی تھی جو بکری کے پانی ملے دودھ کے ساتھ کھارہے تھے۔ تین بچے شلوار سے محروم تھے جبکہ کسی کے بھی پاؤں میں چپل نہ تھی۔ ٹھنڈی ریت پر یونہی بیٹھے تھے۔ سردی کی وجہ سے بچوں کی ناک بہہ رہی تھی۔ ہم سے جو کچھ ہوسکا فوری مدد کی۔ مزید کا وعدہ کرکے آگے بڑھ گئے۔


Anwar Ghazi

قانون کا احترام......

انتخابی دھاندلیاں اور جوڈیشل کمیشن

پولیو ویکسین کا مسئلہ....


بھارت دنیا بھر میں انسانی غلامی میں پہلے نمبر پر.....

$
0
0


دنیا بھر میں اس وقت قریباً تین کروڑ ساٹھ لاکھ افراد غلامی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔اس جدید دور میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں سب سے زیادہ انسانی غلام پائے جاتے ہیں۔

آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی عالمی تنظیم واک فری فاؤنڈیشن نے سوموار کو ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا ہے کہ موریتانیہ ،ازبکستان ،ہیٹی اور قطر ایسے ممالک ہیں جہاں انسانی غلامی کا گہراتصور موجود ہے اور انسانوں کو غلام بنا کر ان سے جبری مشقت لی جاتی ہے۔
اس فاؤنڈیشن نے گذشتہ سال جاری کردہ اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ دنیا بھر میں غلاموں کی تعداد دو کروڑ اٹھانوے لاکھ ہے۔ان افراد سے غلاموں ایسا سلوک کیا جاتا ہے،جنسی تسکین کے لیے اسمگل کیا گیا ہے یا وہ قرضوں میں جھکڑے ہوئے ہیں اور ان سے قرضہ چکانے کے لیے جبری مشقت لی جارہی ہے۔
واک فری فاؤنڈیشن نے اپنے جاری کردہ دوسرے سالانہ انڈیکس میں غلاموں کی تعداد بڑھا کر تین کروڑ اٹھاون لاکھ نفوس کردی ہے اور بتایا ہے کہ غلاموں کی تعداد سے متعلق اس مرتبہ بہتر انداز میں اعدادوشمار اکٹھے کیے گئے ہیں اور جن علاقوں تک اس کی پہلے رسائی نہیں ہوسکی تھی،اب وہاں بھی غلاموں کی موجودگی کا پتا چلا ہے۔

دنیا کے 167 ممالک کے اس اشاریے (انڈیکس) کے مطابق بھارت میں دنیا بھر میں غلاموں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور اس کی سوا ارب آبادی میں سے ایک کروڑ تینتالیس لاکھ نفوس غلامی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔وہ جبری مشقت پر مجبور ہیں اور بدترین حالات میں جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
آبادی کی شرح تناسب کے اعتبار سے مغربی افریقہ کا ملک موریتانیہ غلاموں کی تعداد میں دوسرے نمبر پر ہے۔گیس کی دولت سے مالامال خلیجی ریاست قطر آبادی کے شرح تناسب کے مطابق غلاموں کی تعداد میں چوتھے نمبر پر ہے۔قطر2022ء میں منعقد ہونے والے عالمی کپ فٹ بال ٹورنا منٹ کی میزبانی کرے گا۔قطر پراس ٹورنا منٹ کے لیے اسٹیڈیمز کی تعمیر کے کام میں غیرملکی تارکین وطن سے جبری مشقت لینے کے الزامات عاید کیے جاتے رہے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جدید دور کی غلامی کی کئی شکلیں ہیں:''بچوں کو تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے اور انھیں جبری کام یا اوائل عمری میں ایسے مردوں سے شادی پر مجبور کیا جاتا ہے جن کے قرض کے بوجھ تلے ان کے والدین دبے ہوتے ہیں۔خواتین اور لڑکیوں کا استحصال کیا جاتا ہے اور انھیں ان کے کام کا معاوضہ نہیں دیا جاتا ہے۔گھریلو ملازمین سے ناروا سلوک کیا جاتا ہے''۔

اس اشاریے میں غلامی کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ لوگوں کو اس انداز میں اپنے قبضے میں رکھنا کہ اس طرح سے انھیں آزادی سے محروم کردیا جائے اور جبر وتشدد یا دھوکا دہی کے ذریعے ان سے جنسی یا مالی فائدہ حاصل کیا جائے۔اس تعریف کے تحت وراثتی غلام ،جبری شادیاں اور جنگ میں شرکت کے لیے بچوں کا اغوا بھی غلامی کے زمرے میں آتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افریقی مسلم ملک موریتانیہ میں لوگ نسل در نسل غلام چلے آرہے ہیں اور کل آبادی انتالیس لاکھ میں سے چار فی صد لوگ غلامی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔
موریتانیہ کے بعد وسط ایشیائی مسلم ریاست ازبکستان میں بھی غربت کی وجہ سے غلامی پائی جاتی ہے حکومت کی جانب سے تمام شہریوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ہرسال کپاس کی ایک مخصوص مقدار چُنیں۔ہیٹی میں غریب بچوں کو امیر خاندانوں کے پاس بھیج دیا جاتا ہے جہاں ان کا خوب استحصال ہوتا ہے۔
بھارت کے بعد پاکستان ،عوامی جمہوریہ کانگو ،سوڈان ،شام اور جمہوریہ وسطی افریقہ ایسے ممالک ہیں جہاں ابھی تک لوگوں کے ساتھ غلاموں ایسا معاملہ کیا جاتا ہے۔فاؤنڈیشن کے اشاریے کے مطابق صرف دس ممالک میں دنیا بھر کے اکہتر فی صد غلام لوگ رہ رہے ہیں۔

بھارت کے بعد چین میں غلاموں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور یہ تعداد بتیس لاکھ ہے۔پاکستان میں اکیس لاکھ ،ازبکستان میں بارہ لاکھ ،روس میں دس لاکھ پچاس ہزار ،نائیجیریا میں 834200 ، عوامی جمہوریہ کانگو میں 762900 ،انڈونیشیا میں 714100 بنگلہ دیش میں 680900 اور تھائی لینڈ میں غلاموں کی تعداد 475300 ہے۔

Slavery in India

جماعت اسلامی۔ ایک قومی ضرورت.....

$
0
0

لاہور کے مینار پاکستان نے ان دنوں جی بھر کر سیاسی تماشے اور جلسے دیکھے اور ابھی دیکھتا جا رہا ہے لیکن ان پرہجوم جلسوں میں ایک جلسہ ایسا بھی تھا جو پرہجوم بھی تھا اور اعلیٰ مقصد کا علمبردار بھی۔ یہ وہ جلسہ تھا جسے دیکھ کر مینار پاکستان حیرت زدہ رہ گیا کہ یہ کون لوگ ہیں کہ جب نعرہ لگاتے ہیں تو فضا تھرا جاتی ہے اور جب قدم اٹھاتے ہیں تو زمین کانپ جاتی ہے۔ ان کے سہ روزہ جلسے کے دوران نماز جمعہ کا موقعہ آیا تو وہ اپنے قریب ہی شاہ عالمگیر کی مسجد میں جمع ہو گئے۔

اس مسجد کا وسیع و عریض صحن جو دنیا کی دو تین دوسری مسجدوں کے برابر ہے حیرت انگیز طور پر بھر گیا۔ اس صحن مسجد کے قریب ہی آرام کرتے ہوئے علامہ اقبال کی آنکھیں جو ایسے کسی منظر کی آرزو میں عمر بھر ترستی رہیں یہ سب دیکھ کر امنڈ آئیں، شاہی مسجد کے مینار اور ان کے قرب میں ان کا نیا ساتھی مینار پاکستان منہ میں انگلیاں دبا کر خدا کے حضور میں سجدہ ریز اس گروہ عظیم کودیکھتے رہے ایسا منظر مسجد کے میناروں نے بہت ہی کم اور مینار پاکستان نے تو پہلی بار دیکھا تھا۔ لاکھوں نمازیوں کو مسجد کے دالانوں، محرابوں اور صحن میں سجدہ ریز دیکھ کر شدت نظارہ سے کانپنے لگے۔

یہ جماعت اسلامی پاکستان کے سہ روزہ اجتماع کے شرکاء تھے جو مسلمان بادشاہوں کی یاد گاروں کے سائے میں پاکستان کے لیے نئی منزلوں کی نشاندہی کر رہے تھے۔ یہ لوگ اپنی چودہ سو سال کی میراث کی یاد تازہ کر رہے تھے اور یہ اعلان کہ ہم اس میراث کے وارث ہیں اور یہی میراث ہماری رہنما اور نجات ہے۔ ہم اس کی حفاظت کے لیے زندہ ہیں۔

جماعت اسلامی اپنے اس اجتماع سے اب پاکستان کی تازہ سیاسی دنیا کے میدان میں اتر آئی ہے۔ اس نے یہ غیرمعمولی تاخیر کیوں کی ہے اسے کوئی تھکان تو نہیں تھی جو وہ اتارتی رہی ہے سستی تھی یا اپنے عظیم مقصد سے لگن میں کچھ کوتاہی تھی جو دوسری سیاسی جماعتیں پہل کر گئیں اور جماعت نے طویل خاموشی کے بعد قوم کو اپنی یاد دلائی ہے۔ قوم کو اس کی یاد تو وہ شہید بھی دلاتے رہے جو پاکستان کی محبت میں بنگلہ دیش میں نئی ابدی زندگی پا گئے۔
پاکستان کے لیے غیر فوجی شہداء میں صرف جماعت کا نام درج کیا گیا ہے جو پاکستان کو توڑنے والوں کے خلاف جان سے گزر گئے۔ یہ ایک دوسری بات ہے کہ منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے لیکن اس منزل کا تعین اگر دنیا داری کے پیمانوں سے کیا جائے تو بات درست ہے لیکن نظریات کے لیے جان دینا شاذونادر لوگوں کے حصے میں آتا ہے اور ایسے لوگ اعلیٰ نظریے کی تخلیق ہوا کرتے ہیں، بہر کیف جماعت اسلامی جو پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ کی علمبردار ہے۔

ہماری قومی سیاست کا کوئی فصلی بٹیرا نہیں ہے یہ اس ملک کی ہمیشہ سے زندہ و پایندہ رہنے والی جماعت ہے اور اس جماعت کو اگر اس کے مطابق اعلیٰ درجہ کی قیادت نصیب رہتی تو کتنے ہی فصلی بٹیرے اس کے پاؤں تلے کچلے جاتے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ میں اسے قوم کی بدقسمتی سمجھتا ہوں اور ان جعلی قومی رہنماؤں کا ذکر نہیں کرتا جن کے لیے جماعت اسلامی ان کے راستے سے ہٹ کر انھیں آگے بڑھنے دیتی۔

یہ لوگ جنھیں ہم اشرافیہ کہتے ہیں انھوں نے سب سے پہلے تو پاکستان کے مقاصد سے بے وفائی کی۔ برصغیر کے مسلمانوں نے جس پاکستان کے لیے اپنی ہمت سے بڑھ کر قربانیاں دیں اور جن نظریات کی کامیابی کے لیے اپنے دلوں میں امید کے چراغ روشن کیے ہمارے پاکستان کے لیڈروں نے ان سے مکمل بے وفائی یا غداری کی کیونکہ ان نظریات پر مبنی ریاست ان کے کسی کام کی نہیں تھی۔

اس کی سزا ہمیں اب تک مل رہی ہے اور ہماری ہرحکومت پہلے سے بدتر ہوتی ہے۔ سقوط ڈھاکا کے بعد ہماری اشرافیہ تو یہاں حکومت پر حکومت بناتی آ رہی ہے لیکن کسی کو پاکستان کے ٹوٹنے کا کوئی دکھ نہیں یہ جماعت اسلامی ہے جو اس دکھ میں اور متحدہ پاکستان کی محبت میں زندگیاں قربان کر رہی ہے مگر فقیرانہ زندگی بسر کرنا کوئی کمال نہیں ہے اور کتابوں پر کتابیں لکھتے جانا کوئی خدمت نہیں ہے کسی سیاسی جماعت کا اصل مقصد اقتدار قائم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے نظریات کو نافذ کرسکے اور عام آدمی کو اس کا پھل مل سکے۔ میں نے اجتماع میں کی گئی تقریریں بھی پڑھی ہیں خود نقل و حرکت میں مشکل کیوجہ سے حاضر نہ ہو سکا ورنہ پہلے کبھی دریاں بچھاتا تھا تو اب کرسیاں رکھتا اور اس تحریک میں اپنا حقیر حصہ ادا کرتا جو اس کے گئے گزرے زمانے میں بھی میری جماعت ہے اور دوسری جماعتوں میں سب سے بہتر ہے۔

جماعت کو زمانہ سازی سے بھی کام لینا چاہیے‘ اس کی اجتماعی طاقت جس کا ایک مظاہرہ قوم نے مینار پاکستان کے اس جلسے میں دیکھا اس کا مقابلہ ممکن نہیں لیکن ضروری ہے کہ کوئی صفیں تو آراستہ کرے اور تلواروں کی چمک تو دکھائے۔ معافی چاہتا ہوں اگر اکثر سیاستدانوں کو چور اچکا کہوں، اب تو لطیفہ یہ ہے کہ وہ خود ایک دوسرے پر جو الزامات لگاتے ہیں وہ سب سچ ہیں۔ ہم ان لوگوں کی قیادت یا حکمرانی میں زندگی بسر کر رہے ہیں جو خود اپنی زبان میں ہر بدی کے عادی ہیں اور ہر دوسرے کو برے سے برا الزام دیتے ہیں۔

ہماری اس قومی محرومی کی ذمے دار جماعت اسلامی ہے جس کو قدرت نے ایک بڑی سیاسی طاقت دی ہے قربانی کا فراواں جذبہ عطا کیا ہے لیکن وہ عوام کے پاس نہیں جاتی شاید اس لیے کہ وہ اپنے آپ کو عوام سے برتر سمجھتی ہے اور باوضو رہتی ہے۔ جماعت کا مینار پاکستان پر ہونے والا اجتماع ان دنوں ہر جگہ ہونے والے کسی بھی سیاسی اجتماع سے زیادہ کامیاب تھا تعداد کے لحاظ سے اور نظم و ضبط تو خیر اس جماعت کا ایک روشن پہلو ہے ہی۔

اس اجتماع سے جو ایسے دوسرے کئی سیاسی تماشوں کے درمیان میں ہوا جو مسلسل جاری ہیں کچھ دنوں بعد بھلا دیا جائے گا جو جماعت والے صرف اس پر فخر کرکے آرام کریں گے اور اس کی یاد میں مست رہیں گے۔ اس جماعت کو ایک ایسا لیڈر ملا ہے جو عوام کے جذبات کو بیان کرتا ہے۔ سراج الحق صاحب عام لوگوں کے قریب ہیں ممکن ہے وہ جماعت کے خاموش ارکان اور ساتھیوں کو دوبارہ زندہ کر دیں بہر کیف جماعت ہماری ضرورت ہے ایک قومی اور ملی ضرورت۔ وہ اپنے فرض کو قضا نہ کریں۔

عبدالقادر حسن

"مرد مومن مرد حق ...سراج الحق "....

محروم پاکستان، حکمران اور میڈیا.....

$
0
0


سب سے پہلے گلگت بلتستان سے ایک قاری کے تفصیلی خط کے چند اقتباسات ملاحظہ کیجئے ۔ لکھتے ہیں :
محترمِ ! پاکستان کے صف اول کے تمام لکھاریوں کا یہ المیہ ہے کہ انہوں نے دانستہ اور غیر دانستہ طور پر میرے پیارے علاقہ( گلگت بلتستان) کو نظرانداز کیا ہوا ہے۔ پہلے یہ شکایت ہمیں صرف حکومت پاکستان سے ہوا کرتی تھی مگر اب یہ شکایت سب سے زیادہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے ہے۔ یہ حقیقت جان کر آپ کو حیرت ہوگی کہ سینکڑوں ٹی وی چینلوں میں سے کسی ایک نے بھی گلگت بلتستان میں اپنا دفتر نہیں کھولا اور نہ ہی کوئی نمائندہ رکھاہے۔ اگر کسی ایک یادو چینل نے نمائندہ رکھا بھی ہے تو ان کی رپورٹنگ اور کوریج نہ ہونے کے برابرہے۔ یہی حشر تمام صف اول کے اخباروں کا ہے۔ صرف رپورٹر کی حد تک دو چار لوگ ہیں جن کی بھی دو چار مہینوں میں ایک دو کالمی خبر لگتی ہے اور بس۔صرف ایک اخبارگزشتہ دو سال سے یہاں سے شائع ہوتا ہے۔ آپ کا اخبار یعنی روزنامہ جنگ بھی گزشتہ ستر سال سے اس علاقے کو نظرانداز کرتا آرہا ہے۔ قومی اخبارات میں پورے صوبہ گلگت بلتستان سے ایک بھی نمائندہ لکھاری ہے اور نہ ہی کسی ٹی وی چینل میں اٹھائیس ہزار مربع میل پر پھیلے ہوئے علاقے کا کوئی میزبان /اینکر پرسن ہے۔ جب بھی کوئی صف اول کا کالم نگار پاکستان کے حدود اربعہ کی مثالیں دے کر لوگوں کو سمجھاتا ہے تو وہ گلگت بلتستان نظر انداز کر دیتا ہے۔ آخر کیوں؟

محترم صافی صاحب: گلگت بلتستان کی محرومیوں کے حوالے سے میرے پاس بہت کچھ کہنے کو ہے مگر المیہ یہ ہے کہ آپ جیسے ابلاغی بادشاہوں اور ارباب بست و کشاد اور صاحبان فکر و نظر کے پاس ہمارے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ ہم ہزار قسم کی محرومیوں کا شکار ہیں۔ مذہبی کشیدگی روزکا معمول ہے۔ کرپشن اور اقرباء پروری یہاں کار ثواب سمجھ کر کی جاتی ہے۔ ان تمام مسائل دکھوں اور محرومیوں سے صَرف نظر کرتے ہوئے گلگت بلتستان کی آئینی صورت حال کے حوالے سے چند بے ربط باتیں آپ سے کرنا چاہتا ہوں اور امید ضرور کرتا ہوں مگر یقین نہیں‘ کہ ایک گلگتی کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ آپ کے کالم میں جگہ پالیں گے۔

گلگت بلتستان جو نصف صدی سے زیادہ عرصے میں شمالی علاقہ جات کے نا م سے معروف تھا‘ ایک حساس علاقہ ہے۔یہ خطہ جغرافیائی اور دفاعی و سیاحتی حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اور آج کل مذہبی کشیدگی اور قتل وغارت کے اعتبارسے بھی دنیا بھر میں اپنا ’’ منفرد‘‘ مقام رکھتا ہے۔تقسیم ہند کے دوران ریڈکلف اوروائسرے ہندکی بددیانتی کی وجہ سے آزاد کشمیر ‘جموں کشمیرکے ساتھ یہ علاقہ بھی ہنوزمختلف النوع مسائل کا شکار ہے۔ 16مارچ 1946 ء میں جب معاہدہ امرتسرہوا اور برٹش انڈیا(برطانوی ہند)نے ریاست جموں و کشمیر کو مہاراجہ گلاب سنگھ کو75 لاکھشاہی نانک (روپے) کے عوض فروخت کیا تو ریاست جموں و کشمیر میں شمالی علاقہ جات (یعنی گلگت بلتستان ) بھی شامل تھے ۔پاکستان کے زیرانتظام علاقوں میں شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر ہیں۔
انتظامی دشواریوں کی وجہ سے آزادکشمیر کی قیادت نے معاہدہ کراچی (28 اپریل 1949) کے ذریعے گلگت بلتستان کو وفاق کے حوالہ کیا۔ آزاد کشمیر کو 74ء کے ایکٹ کے ذریعے کچھ آئینی صورت دی گئی، اس وقت کی حکومت پاکستان نے مسئلہ کشمیرکی عالمی پوزیشن کو مدنظر رکھتے ہوئے کشمیریوں کو یہ حقوق دیے تھے ‘ اس دور میں وہ اس سے خوش تھے جبکہ آج کشمیری قیادت بھی اس میں اصلاحات چاہتی ہے۔ جبکہ گلگت بلتستان کو مختلف ادوار میں مختلف اصلاحاتی پیکج دیے گئے ۔ جن میں سیلف امپاورمنٹ اینڈ گورننس آرڈر 2009ء کافی مشہور اور آج کل نافذالعمل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں ہر اعتبارسے یہ تمام پیکج ناکام ہوچکے ہیں۔ ہمیں ایک ایسےپیکج کی ضرورت ہے جو ہماری محرومیوں کا ازالہ کرسکے اور مجھے میری شناخت دے سکے۔آج تک گلگت بلتستان کے لوگ یہ فیصلہ کرنے سے عاری اور نابلد ہیں کہ آخر وہ کون ہیں؟ ان کی شناخت کیا ہے؟ کیاوہ صرف شناختی کارڈ کی حد تک پاکستانی ہیں یا پھر واقعی پاکستانی؟ اگر واقعی پاکستانی شہری ہیں تو پھر دوسرے پاکستانی شہریوں کی طرح ہمارے ہاں بھی الیکشن کیوں نہیں ہوتے؟

بہر صورت یہ نکتہ سب سے اہم ہے کہ ماضی میں جتنے بھی اصلاحاتی پیکیج دیے گئے ہیں وہ سب چند مخصوص افراد کو نوازنے کے لیے ترتیب دئیے گئے تھے۔ گلگت بلتستان کے غریب عوام کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر یہ پیکج نہیں دیے گئے تھے جس کی وجہ سے یہ تمام پیکج بری طرح ناکام و نامراد ہوئے ہیں۔ ہمیں ایک ایساپیکج چاہیے کہ جو گلگت بلتستان کے تمام عوام، سیاسی و مذہبی پارٹیوں اور تمام مسالک کے لوگوں کے لیے قابل قبول بھی ہو اور اس کا نفاذ بھی عملی طور پر ممکن ہو تاکہ ہم بھی دوسرے پاکستانیوں کی طرح سر اٹھا کر جی سکیں اور ببانگ دہل یہ کہہ سکیں کہ ہم بھی پہچان اور شناخت رکھتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ ہماری ان محرومیوں میں پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ پاکستان کا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا بھی برابر کا شریک ہے۔ وہ اگر ہمیں ہمارا حق نہیں دیتے تو آپ حضرات ہماری بات ، آہیں، آرزوئیں، محرومیوں اور دیگر مسائل کو اصحاب اقتدار کی راہ داریوں تک نہیں پہنچاتے۔ یہ اعتراف بھی ضروری ہے کہ ہم لوگ بھی برابر کے قصور وار ہیں۔ ہمارے گلگتی حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں میں غرق ہے اور ہم عوام مذہبی لڑائیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ تو پھر ہم کسی اور کو کیا گلہ کر سکتے ہیں۔
والسلام مع الاکرام: امیرجان حقانی ؔ
لیکچرر: ایف جی ڈگری کالج گلگت ، گلگت بلتستان

یہ صرف ایک جھلک ہے ان محرومیوں کی جن کے اس وقت چند شہری علاقوں کو چھوڑ کر باقی پاکستانی شکار ہیں ۔ حکمران طبقات انصاف سے کام لیتے تو یہ محرومیاں جنم نہ لیتیں لیکن بدقسمتی سے وہ میڈیا جس کا کام محروم علاقوں کی محرومیوں سے حکمرانوں اور خوشحال طبقات یا علاقوں کو آگاہ کرنا تھا‘ بھی اس مرض کا شکار ہوگیا ہے۔گلگت بلتستان والوں کی طرح یہی شکایت میڈیا سے بلوچستان کے لوگوں کو بھی ہے‘ اندرون سندھ کے مظلوموں کو بھی‘ جنوبی پنجاب کے محروموں کو بھی ‘ فاٹا اور خیبرپختونخوا کے پختونوں کو بھی اور غیور کشمیریوں کو بھی ۔ پاکستانی میڈیا عملاً تین بڑے شہروں کا نمائندہ میڈیا بن گیا ۔ مذکورہ محروم علاقوں میں سوانسانوں کی ہلاکتوں کو وہ کوریج نہیں ملتی جو تین بڑے شہروں میں تین انسانوں کے قتل کو ملتی ہے ۔ 

ان تین شہروں میں ڈبل سواری پر پابندی تو بریکنگ نیوز بن جاتی ہے لیکن محروم پاکستان میں مہینوں مہینوں کے کرفیو کی خبر کو ٹی وی میں جگہ ملتی ہے اور نہ اخبار میں ۔

ان تین شہروں میں پولیس کے ہاتھوں کاروں کا چالان تو خبر بن جاتاہے لیکن محروم پاکستان میں جیٹ طیاروں سے بمباری خبر نہیں بنتی ۔ سب سے زیادہ ظلم یہ ہے کہ ان علاقوں کے بڑے بڑے دانشوروں کو میڈیا کی عدم توجہی کی وجہ سے ان کے علاقوں سے باہر کوئی جانتا تک نہیں لیکن ان تین شہروں میں مقیم سلیم صافی جیسے ادنیٰ طالب علموں کو بھی پاکستان کی نمائندگی کے لئے عالمی فورمز پر بلایا جاتا ہے ۔ اور تو اور اب تو محروم پاکستان میں مقیم سینئر ‘ تجربہ کار اور قربانیاں دینے والے صحافیوں کی صحیح خبروں اور تجزیوں کو تو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی لیکن ان تین شہروں کا کم وبیش ہر رپورٹر ‘ ہر موضوع پر بولنے والا سینئر تجزیہ کار بن گیا ہے ۔ان تین شہروں میں کام کرنے والے اینکرز اور کالم نگار لاکھوں میں تنخواہیں لے رہے ہیں جبکہ محروم پاکستان کے ٹی وی رپورٹرز کو اپنے ادارے کی طرف سے تنخواہ تو کیا کیمرہ تک مہیا نہیں کیا جاتا ۔ جس طرح اس ملک کی سیاست کا سرپیر معلوم نہیں‘ اسی طرح اب صحافت بھی بے سمت بن گئی ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ یہ محروم پاکستان کب تک انتظار کرتا اور تماشہ دیکھتا رہے گا۔ کیا حکمران طبقات کی طرح میڈیا کو بھی اس وقت کا انتظار ہے کہ ان محروم علاقوں کے محب وطن اور پرامن عوام بندوق برداروں کی طرح بندوق کے زور سے اپنی طرف متوجہ کریں۔

سلیم صافی
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ

تھر پار کر میں کیا قیامت بپا ہے ؟.....

کامیابی کیسے ؟.....برین ایڈمز کی کتاب ’’کامیابی کیسے ؟‘‘ سے ماخوذ

$
0
0

آپ کی پیدائش آپ کی آزادی کا زندہ ثبوت ہے۔ ایک انسان آزادانہ رائے دہی کا مالک ہوتا ہے۔ آپ کے پاس اپنی ذات سے متعلق اہم فیصلے کرنے کا موقع ہے جس کی مدد سے آپ اپنی زندگی کا رخ بدل سکتے ہیں۔ آپ کا آخری فیصلہ آپ کے ذہن کے عروج کو ظاہر کرتا ہے۔ اب یہ وقت بتائے گا کہ آپ کامیاب ہوں گے یا ناکامی کا سامنا کریں گے۔ کوئی انسان آپ کے لیے کامیابی حاصل کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتا ہے یہ ایک سست عمل ہوتا ہے جو آپ کو خود کرنا ہے جب آپ دوسروں کی کوششوں اور نظریات کے سہارے کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس وقت آپ اپنی شخصی صلاحیتوں کی نفی کرتے ہیں اور آپ کا منزل کو پانے کا یہ انداز ایک سطحی کوشش ہے جس کی بنیادیں کھوکھلی ہوں گی۔

 یہ سچ ہے کہ ہر انسان دوسروں پر رعب جمانے کا خواہشمند ہوتا ہے ہر کوئی سب کا منظورِ نظر بننا چاہتا ہے۔ درحقیقت دوسروں میں نمایاں ہونے سے آپ بہت جلد سب کی نظروں میں اہم بن جاتے ہیں۔ شاید اسی طرح آپ اپنی شخصیت پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ سب کے سامنے اپنی شخصیت کا رعب و دبدبہ کسی طرح قائم کیا جائے اس سلسلے میں ضروری ہے کہ آپ اپنی ذات پر پورا یقین رکھیں اور اپنی قابلیت پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اپنی راہنمائی کریں ایک بات ذہن میں بٹھا لیجئے کہ صرف آپ کی قوتِ ارادی اور بلند حوصلہ آپ کے دماغ کے صحیح استعمال میں مددگار ثابت ہوں گے۔ 

جس کی بدولت آپ اپنی قسمت کو بدل سکتے ہیں۔ آپ کی کامیابی کی مثال اس کھیتی کی ہے جس کی سنہری فصل کو آپ اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور مداومت عمل سے کاٹ سکتے ہیں۔ آپ کو اپنے شعور اور لاشعور کی طاقت کو استعمال کرنا ہے۔ ہر انسان ایک صحتمند، خوشحال اور مستحکم زندگی کا خواہشمند ہوتا ہے جس کے لیے اسے صحیح انداز اپنانا ہوگا۔ یہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ اپنی غلط سوچ اور دماغی صلاحیتوں کے غلط استعمال کے ذریعے کامیاب ہو جاتے ہیں۔  

آپ کی پیدائش کا مقصد کامیابی کا حصول ہے۔ آپ کی کامیابی کا انحصار آپ کی تخلیقی صلاحیتوں پر ہے۔ کیونکہ آپ کے بولنے کی صلاحیتیں آپ کی خواہشات کی گہرائی اور اس کی بنیادوں کو مستحکم بنانے کے لیے کافی ہیں۔ 

آپ اس وقت کامیاب ہوتے ہیں جب آپ میں ایمان کی طاقت آ جاتی ہے۔ یہ کوئی ایک دن کی بات یا چند لمحوں کی بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی خوبی ہے جس کا آپ میں ہونا ضروری ہے اس لیے آپ کو ایک کامیاب زندگی کے حصول کے لیے ایمان کی دولت کو پانا ضروری ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بڑی بڑی جنگیں پختہ ایمان کی بدولت جیتی گئی ہیں۔ 

آپ صحت، خوشی اور کامیابی کا انتظار مت کیجئے۔ آپ ابھی اچھی صحت،خوشیوں اور خوشحالی کو پانے کی خواہش ظاہر کیجئے۔ ہر دن تازہ دم رہیے اور زندگی کو بھرپور انداز میں گزاریں اور ہمیشہ بلند عزائم کے ساتھ اچھے مستقبل کی آرزو کیجئے۔ -4قدرت نے انسانی نظامِ حیات کی تشکیل بہت سوچ سمجھ کر کی ہے۔ اسی لیے ایک کامیاب زندگی کا انحصار بہترین حکمتِ عملی پر منحصر ہے اسے قسمت کے سہارے چھوڑنا بے وقوفی ہو گی۔ اپنی زندگی کو بہتر منصوبہ بندی کی مدد سے منظم کیجئے اپنے عزائم کو موجودہ دور کی ضروریات کے مطابق بلند کیجئے۔

 آپ سب سے جدا ہیں۔ کوئی بھی شخص آپ کی طرح نہ تو سوچ سکتا ہے اور نہ آپ کی طرح کوئی کام کر سکتا ہے۔ ہر کام کی تخلیق میں حصہ لیجئے اور دوسروں کی نقل اتارنے کے بجائے ایک رہنماکی حیثیت سے آگے بڑھئے تاکہ سب آپ کی نقل اتاریں۔

 اپنی شخصیت میں چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کیجئے۔ اس کامیاب شخصیت کے بارے میں لکھیے جو آپ بننا چاہتے ہیں۔

  آپ اپنے گھر میں معیاری کتب کی ایک لائبریری بنایئے کتابیں علم کا ذریعہ ہیں اور آپ کو کامیابی کو پانے کے لیے علم حاصل کرنا ہے۔ آپ کو ہر قسم کی معلومات ہونی چاہیے۔ 

برین ایڈمز کی کتاب ’’کامیابی کیسے ؟‘‘ سے ماخوذ ٭

ایک حرف نہ لکھنے والا... سقراط......

$
0
0


اس یونانی فلسفی کی تعلیمات نے دنیا بھرکے معاشروں پرگہرے نقوش مرتب کیے ****** کہا جاتا ہے کہ یونان کے فلسفی سقراط ( 399ق م۔469 ق م)نے خودکبھی ایک حرف بھی نہیں لکھا ،لیکن اس کے کہے لفظوں اور تعلیمات نے معاشرہ پر اتنے گہرے نقوش مرتب کیے کہ وہ یونانی ادب کے اہم ترین مشاہیر کی صف میں جگہ پانے کا مستحق ٹھہرا۔ فلسفہ کی تاریخ میں تو ظاہر ہے اسے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سقراط کا باپ سنگ تراش اور ماں دایہ تھی۔ دونوں مِل کر جو کماتے تھے وہ ان کی گزربسر کے لیے کافی تھا۔ 

سقراط کو نوجوانی میں کبھی فکرِمعاش لاحق نہ ہوئی۔ اس نے متداول فلسفہ میں درک حاصل کیا۔ ابتدا میں اسے طبیعی فلسفہ سے لگائو تھا جو رفتہ رفتہ بالکل سرد پڑ گیا اور اس کے بجائے یہ معلوم کرنے کی چیٹک لگی کہ زندگی بسر کرنے کی وہ روش کون سی ہے جسے انسانوں کے لیے سب سے مستحسن قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کی آمدنی کا کوئی مستقل ذریعہ نہ تھا۔ وہ اپنے نوجوان شاگردوں سے، جن میں بہت سے ایتھنز کے امیرکبیر گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے، معاوضہ لینا تو درکنار ان کے پیش کیے ہوئے تحائف قبول کرنے سے بھی ہچکچاتا تھا۔ فوجی مہمات سے قطع نظر، سقراط نے کبھی اپنی مرضی سے ایتھنز سے باہر جانے کی زحمت گوارا نہیں کی بلکہ اسے یہ علم بھی نہ تھا کہ شہر کے آس پاس کون کون سے قابلِ دید مقامات ہیں۔ 

اس کے پاس جو تھوڑی بہت جائیداد تھی وہ اس کی بھی ٹھیک طرح سے دیکھ بھال نہ کر سکا۔ بس وہ ایتھنز میں اِدھر اْدھر گھوم پھر کر لوگوں سے، اعلیٰ ادنیٰ کی تخصیص کے بغیر، ان کے عقائد اور اخلاقی تصورات کے بارے میں سوال جواب کرتا رہتا۔ بحث میں اس کے سامنے کسی کی پیش نہ چلتی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے اپنی ماں کا پیشہ اپنا لیا ہے اور افکار جنانے کا کام انجام دیتا رہتا ہے۔سقراط کی زندگی کا ایک تابناک پہلو یہ ہے کہ ان صبرآزما دنوں میں جب پیلوپونے سوسی جنگ میں شکست کے بعد ایتھنز والوں پر جھنجھلاہٹ اور جنون طاری تھا اور انھوں نے اخلاقی اور سیاسی پستیوں کو چْھو لیا تھا اس نے ہر بار، جان ہتھیلی پر رکھ کر، حق و انصاف ہی کا ساتھ دیا۔سقراط پر بعض دفعہ جذب کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی اور وہ پہروں اس میں ڈوبا رہتا تھا۔430 ق م میں ایک فوجی مہم کے دوران وہ ایک صبح سے اگلی صبح تک ایک ہی جگہ، بے حس و حرکت، محویت کے عالم میں کھڑا رہا۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ کبھی کبھی ایک غیبی آواز اسے بعض کاموں سے باز رہنے کی تاکید کرتی ہے۔

 ڈیلفی کے مشہور ہاتف کدے (معبد) میں ایک بار کسی نے استفسار کیا کہ آیا کوئی آدمی سقراط سے زیادہ دانش مند ہے۔ جواب ملا: کوئی نہیں۔ اس جواب نے سقراط کو حیرت زدہ کردیا۔ اسے یہ تو یقین تھا کہ اپولودیوتا غلط بیانی سے کام نہیں لے سکتا، لیکن اسے یہ بھی معلوم تھا کہ وہ خود دانش کی الف ب سے بھی واقف نہیں۔اس چیستان کو سمجھنے کے لیے اس نے ان اشخاص سے رجوع کیا جو اہلِ دانش کہلاتے تھے اور معاشرہ کے سبھی طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے رہنمائی چاہی۔ پتا آخر کو یہ چلا کہ لوگوں کے ذہن پراگندہ خیالی سے اٹے پڑے ہیں۔ انجامِ کار سقراط اس نتیجے پر پہنچا کہ دیوتا اکیلا ہی دانا و بینا ہے اور اس نے سقراط کی فراست پر صاد کرکے صرف یہ جتایا ہے کہ جس دانائی پر انسانوں کو ناز ہے وہ محض ہیچ و پوچ ہے۔ ہاتف نے سقراط کا نام مثال کے طور پر لیا ہے۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ وہی شخص سب سے دانش مند ہے جو سقراط کی طرح اپنی نادانی اور کم علمی کا فہم رکھتا ہو۔399ق م میں سقراط پر فردِجرم عائد کی گئی کہ وہ نوجوانوں کا اخلاق بگاڑتا رہا ہے اور شہر کے دیوتائوں کے بجائے خود ساختہ خدائوں پر ایمان رکھتا ہے۔ 

استغاثہ نے مطالبہ کیا کہ اسے موت کی سزا دی جائے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایتھنز میں جمہوریت کی بحالی کے بعد عام معافی کا اعلان کیا جا چکا تھا۔ اس لیے مخالفین سقراط پر سیاسی نوعیت کے الزام عائد نہ کرسکے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سقراط پر جو الزامات لگائے گئے تھے وہ بالکل پادرہوا نہیں تھے۔ ارستوفانیس نے اپنے ڈراما ’’بدلیاں‘‘ میں سقراط کو ہوا کی پرستش کرتے دکھایا تھا۔ یہ تسلیم کہ ارستوفانیس نے مبالغہ سے کام لیا ہوگا لیکن کوئی بات ہو تبھی بتنگڑ بنتا ہے۔ لوگوں نے یہ فراموش نہیں کیا تھا کہ سقراط کو کسی زمانے میں طبیعی علوم سے شغف تھا اور طبیعی فلسفیوں کو بالعموم دہریہ سمجھا جاتا تھا۔ دو باتوں نے خاص طور پر اسے بہت نقصان پہنچایا۔ ایک تو اس کا سوال جواب کا طریقِ کار جس سے بڑے بڑوں کا پول کھل جاتا تھا۔ لوگوں کو یہ بات نہایت ناگوار گزرتی تھی کہ کوئی شخص کہے تو یہ کہ وہ کچھ بھی نہیں جانتا اور پھر باتوں باتوں میں اْلٹا انھیں کو کْودن ثابت کردے۔

دوسرے سقراط کے شاگردوں اور ہمدردوں کے بارے میں عام خیال یہ تھا کہ انھیں جمہوریت سے کد ہے۔ اس کے بیشتر شاگرد امیرگھرانوں کے چشم و چراغ ہونے کے ناتے اس تصور کو عزیز رکھتے تھے کہ حکومت کرنے کا حق فقط بالائی طبقہ کے چیدہ چیدہ افراد کو ہے۔ عوام کو صرف کان دبا کر کہنا ماننا چاہیے۔ بدقسمتی سے اس کے دو خاص شاگردوں نے بڑی اخلاقی گراوٹ کا ثبوت دیا۔ الکی جاولیس نے پیلوپونے سوسی جنگ کے دوران ایتھنز سے غداری کی۔ ایک اور شاگرد رشید کرائٹس، ان تیس قہرمانوں (Tyrants) میں شامل تھا جنھیں اہلِ سپارٹا نے فتح حاصل کرنے کے بعد ایتھنز پر مسلط کردیا تھا۔ ان قہرمانوں نے شہروالوں پر بڑے ظلم ڈھائے۔

یہ سمجھنے کی معقول وجوہ موجود ہیں کہ سقراط کو خود بھی جمہوریت سے کوئی لگائو نہ تھا اور اس کی تعلیمات نے نوجوانوں کا ایک ایسا گروہ پیدا کردیا تھا جو قانون اور آزادی کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ مزیدبرأں یہ کہ سقراط جرح و قدح کے زور سے بنیادی اصولوں کے پرخچے تو اڑادیتا لیکن ایسے کوئی اصول پیش نہ کرتا جو ان کی جگہ لے سکیں۔ یہ طریقِ کار عام لوگوں کو قطعی طور پر تخریبی معلوم ہوتا تھا۔ اپنی صفائی میں سقراط نے عدالت کے رْوبرْو جو کچھ کہا وہ سب سے مربوط شکل میں افلاطون کی زبانی ہم تک پہنچا ہے۔ اس ’’اعتذار‘‘ میں افلاطون نے اپنی طرف سے کچھ بڑھا یا گھٹا دیا ہو تو عجب نہیں۔ سقراط نے عائدکردہ الزامات کی پْرزور تردید کی اور کہا کہ اگر استغاثہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے نوجوانوں کے اخلاق کو بگاڑا ہے تو عدالت میں موجود اس کے سابق شاگردوں یا ان شاگردوں کے باپوں اور بھائیوں کو استغاثہ کی طرف سے گواہی دینے کے لیے طلب کیوں نہیں کیا گیا؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہ تھا۔

 سقراط نے یہ بھی کہا کہ ’’ایتھنز کے لوگو!، میں تمھارا احترام اور تم سے محبت کرتا ہوں لیکن فرماں برداری میں خدا ہی کی کروں گا، تمھاری نہیں۔‘‘خود سقراط نے تو کچھ نہیں لکھا چناں چہ اہم سوال یہ ہے کہ جن معاصرین نے اس کی شخصیت یا افکار کے حوالے سے اظہارِخیال کیا ہے ان پر کس حد تک تکیہ کرنا جائز ہے؟ اس ضمن میں پہلا نام افلاطون کا ہے جسے سقراط کا شاگرد ِرشید ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس کا خاصا امکان ہے کہ ابتدائی افلاطونی مکالمے اچھی بھلی تاریخی سچائی کے حامل ہیں۔بہرحال، یہ یاد رکھنا چاہیے کہ افلاطون نے بھی سقراط کی وفات کے کئی سال بعد لکھنا شروع کیا تھا۔ البتہ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ تلمذ کے دوران اہم نکات جستہ جستہ قلم بند کرتا رہا ہو۔ لیکن ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ’’مکالمات‘‘ میں سقراط کہاں پر ختم اور افلاطون کہاں سے شروع ہوتا ہے۔ دعویٰ تو کسینوفون کو بھی یہی ہے کہ وہ سقراط کے بہت قریب تھا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بعض اہم شواہد کی روشنی میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسینوفون کا ’’منادمہ‘‘ افلاطون کے ’’منادمہ‘‘ کے بعد قلم بند کیا گیا تھا اور افلاطونی تصنیف کا سطحی سا چربہ ہے۔کسینوفون نے اپنی تحریروں میں یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ سقراط روایتی مذہبی عقائد اور رسوم پر کاربند تھا، خود بھی روایتی انداز میں نیک آدمی تھا اور دوسروں کو بھی نیکی کی تلقین کرتا تھا۔ فضول دانشورانہ تجسس کے خلاف تھا۔ مختصر یہ کہ کسینوفون نے سقراط کو ایسا شریف اور معقول آدمی بنا کر پیش کیا ہے جس کے ہر قول و فعل سے بورڑوائی کورذوقی کی بْو آتی ہو۔ 

اگر سقراط ایسا ہوتا تو اس پر مقدمہ ہی کیوں چلایا جاتا! اس خیالی سقراط کی ذہنی سطح اور دل چسپیاں بعینہ وہی ہیں جو خود کسینوفون کی ہیں۔ارسطو نے بھی سقراط کا ذکر کیا ہے، لیکن وہ پیدا ہی سقراط کی وفات کے بعد ہوا تھا اور اسے وہی کچھ معلوم ہوگا جو اس کے استاد افلاطون نے بتایا یا اِدھر اْدھر سے سننے میں آیا۔ ارستوفانیس نے بھی اپنے ڈراما ’’بدلیاں‘‘ میں سقراط کا خاکہ اْڑایا تھا۔اس نے سقراط کو اس طرح پیش کیا تھا جیسے وہ خیالی دنیا میں رہنے والا، خطابت پردازی بگھارنے والا، اخلاق سے بیگانہ، ٹھیٹ سو فسطائی ہو۔ دراصل ارستو فانیس نے نئے انداز کی تعلیم کے خلاف محاذ قائم کر رکھا تھا اور سمجھتا تھا کہ سو فسطائی شرفا کی اولاد کو خراب کر رہے ہیں۔ یہ تاثر عوام الناس کے ذہن سے کبھی زائل نہ ہوسکا۔

 سقراط ہمیشہ یہ کہتا تھا کہ خود اسے کچھ بھی معلوم نہیں اور اگر وہ دوسروں سے زیادہ عقلمند ہے تو صرف اس اعتبار سے کہ اسے اپنے جہل کا شعور ہے اور دوسرے اپنی لاعلمی سے بے خبر ہیں۔ سقراطی طریقِ کار کا بنیادی نکتہ ہم کلام کو اس بات کا قائل کرنا تھا کہ درحقیقت اسے کچھ بھی معلوم نہیں۔جہل کا اعتراف علم کے حصول کی طرف ایک ناگزیر پہلا قدم تھا کیوں کہ وہ شخص علم حاصل کرنے پر آمادہ ہی کیوں ہوگا جو اس وہم میں مبتلا ہو کہ وہ بہت کچھ جانتا ہے۔ سقراط لوگوں سے بات چیت کرکے انھیں یہ سمجھانا چاہتا تھا کہ وہ محض جاہل بلکہ اجہل ہیں۔ اس لیے تعجب ہی کیا جو وہ نامقبول تھا۔ ایتھنز والے غلطی سے اسے سوفسطائیوں کی قبیل کا آدمی سمجھ بیٹھے،لیکن جب سقراط نے لوگوں سے پوچھ گچھ کی تو ان میں سے کوئی بھی ان صفات کی جامع تعریف نہ کرسکا۔ اب اگر کسی شخص کو عقل مندی یا انصاف یا نیکی کا مطلب ہی معلوم نہ ہو تو وہ کس منہ سے کہے گا کہ عقل مندی یا انصاف سے کام لینا چاہیے یا نیکی کرنی چاہیے۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ مختلف آدمی ایک ہی لفظ سے مختلف معنی مراد لیتے ہیں تو پھر وہ ایک دوسرے کا مفہوم خاک سمجھیں گے۔ اس طرح تو ذہنی اور اخلاقی افراتفری پھیل جائے گی۔ سقراط کے ذہن میں یہ مسئلہ بالکل صاف تھا۔ وہ کہتا تھا کہ ملکہ یا مہارت ہی اصل علم ہے یعنی جو کام کرنا ہو اس کی تمام اْونچ نیچ کا پہلے پتا ہونا چاہیے۔ 

سقراط کو پورا یقین تھا کہ اگر یہ نکتہ انسانوں کے پلّے پڑ جائے تو وہ خودبخود صحیح راستہ چْن لیں گے۔ بقول سقراط، خیر کو سمجھنا خیر کو اپنا لینے کے مترادف ہے۔علم ہی تقویٰ ہے بالکل جیسے اس کا الٹ یعنی بے علمی شر ہے۔ ہر انسان فطری طور پر اپنی بھلائی کا خواہاں ہوتا ہے۔ غلط کام اپنے پائوں پر آپ کلہاڑی مارنے کے مانند ہے۔ پس ثابت ہوا کہ انسان غلط کام صرف بے علمی کی وجہ سے کرتا ہے۔   ٭

ماہر القادری

 

Be Careful What You Post On Facebook...

$
0
0
Be Careful What You Post On Facebook...

سراج الحق کا پاکستان....

جارج بش، باراک اوباما اور پاکستان....

$
0
0


گیارہ ستمبر 2001ء یعنی سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بعد امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کی آٹھ منٹ کی فون کال کے دوران ہی جب پاکستان کے طاقتور آمر حکمراں جنرل پرویز مشرف نے کسی مشورہ یا منظوری کے بغیر ہی افغانستان کی نئی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا غیرمشروط اور یکطرفہ وعدہ کردیا تو چند روز بعد میں نے ’’جنگ‘‘ کے انہی کالموں میں لکھا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ پاکستان کے مفاد، مستقبل کی خوشحالی اور امن و استحکام کیلئے کیا ہے لیکن اگر جنرل مشرف اس جنگ کے خاتمے پر مجھے آج 2001ء کا یہی مشکلات مسائل کا شکار پاکستان ، اسی جغرافیہ کے ساتھ مجھے لوٹا دیں گے تو میں ان کے اس تاریخی فیصلے کو درست مان کر سلام کروں گا پھر جب جنرل پرویز مشرف سے نیو یارک میں آمنا سامنا ہوا تو اس حوالے بھی سے گفتگو بھی ہوئی اور میں نے اپنا موقف بھی بیان کیا کہ جب آپ جنگی یا دیگر تعاون بڑی طاقت کے ساتھ کرتے ہیں تو ’’فری لنچ‘‘ نہیں بلکہ اس تعاون کی قیمت، جزا اور مراعات لازماً وصول کی جاتی ہیں ہم پہلے بھی افغان جنگ میں پاکستان کو بھرپور انداز میں استعمال کروا کر انتہائی سستے داموں خود کو بڑا نقصان پہنچا چکے ہیں۔ اس سے سبق سیکھ کر ہمیں آئندہ کے لئے عملی سبق سیکھنا چاہئے جنگ کے نقصانات کا ازالہ اور جنگ کے بعد کے انعامات میں سے ہمیں اپنا حصہ لینا چاہئے۔ مگر جنرل مشرف اپنے موقف پر قائم رہے۔

اسی طرح جب پرویز مشرف کی موجودگی میں اس خاکسار نے امریکی صدر جارج بش کو ایک سوال کی شکل میں یاد دلایا کہ پچھلی افغان جنگ میں پاکستان کو استعمال کرنے کے بعد امریکہ نے کس طرح پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا بلکہ اقتصادی پابندیاں بھی عائد کیں تو امریکی صدر بش کا جواب تھا کہ اس مرتبہ امریکہ۔پاکستان تعلقات میں ’’شارٹ ڈانس‘‘ نہیں ہوگا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آئی ایس پی آر کے سربراہ راشد قریشی اور جنرل پرویز مشرف کے دیگر معاونین کس قدر خوش تھے بلکہ جنرل مشرف بھی خوب خوش نظر آئے تھے۔ جی ہاں! سابق ری پبلکن صدر جارج بش نے درست کہا تھا کہ اب ’’شارٹ ڈانس‘‘ نہیں ہوا۔ بلکہ جارج بش کی رخصتی اور ڈیموکریٹ صدر بارک اوباما کے چھ سالہ دور صدارت کے دوران بھی ’’پاک۔ امریکہ تعلقات‘‘ کا ’’ڈانس‘‘ جاری ہے اور پاکستان کی فوج، سیاست، معیشت، معاشرت اور پاکستانی سرزمین اپنےعوام سمیت پاک۔ امریکہ تعلقات کے اس ’’ڈانس‘‘ سے نہ صرف تھک چکی ہے بلکہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہو چکی ہے۔

پاکستان پاک۔امریکہ تعلقات کا ’’ڈانس‘‘ کرتے کرتے تھک گیا ہے۔ اسے کچھ بریک لے کر اپنی حالت درست کرنے، توانائی بحال کرنے اور اپنے وسائل منظم کرنے کی شدید ضرورت بھی ہے تو پچھلے کئی سال سے جاری ’’ڈانس‘‘ کی ستائش کی ضرورت ہے۔ تو ڈیموکریٹ امریکی صدر کو آخر خیال آیا کہ جنوبی ایشیا کے اسٹیج پر اب کئی سال پرانے پاک۔ امریکہ تعلقات کے ڈانس کو ختم کر کے نیا پارٹنر تلاش کرکے نئے انداز میں نئے رنگوں اور نئے سازوں کے ساتھ نیا ’’بھارت امریکہ ڈانس‘‘ شروع کیا جائے پاک۔ امریکہ تعلقات کے ڈانس میں رزمیہ موسیقی پر تیز رفتار اور تھکا دینے والے ڈانس میں دونوں پارٹنر زخمی بھی خوب ہوئے، اب بھارت کے ساتھ ڈانس کی اس امریکہ۔ بھارت اسٹرٹیجک پارٹنر شپ میں برابری، معاوضے اور مفادات کے اصول پہلے طے پائے ہیں۔ کسی رومانس یا فری لنچ کے وعدوں کی بجائے خالص سیاسی اور کاروباری انداز کے اس امریکہ۔ بھارت طویل ڈانس کا آغاز ہو چکا ہے اور پاک، امریکہ تعلقات کا ڈانس پارٹنر یعنی پاکستان امریکہ کے لئے اب اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ ویسے بھی پاکستانی قیادت کی صفوں میں کسی میں اتنی جرات ہی نہیں کہ وہ جرأت و سچائی کے ساتھ پاکستانی موقف ہی امریکیوں کے سامنے بیان کر سکے۔ مسلم دنیا کے دوسرے قائدین بھی اپنی حکمرانیاں بچانے کے لئے خوف زدہ حالت میں شب و روز بسر کر رہے ہیں۔

امریکی صدر اوباما نے جنرل راحیل کی امریکہ میں موجودگی کے دوران ہی نئے سال میں جنوری میں بھارتی یوم جمہوریہ کی تقریبات میں بھارت جا کر بطور مہمان خصوصی شرکت کی دعوت قبول کرکے یہ واضح کر دیا ہے کہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر بھارت کی شدید اشتعال انگیزیوں پر امریکی تشویش اور پاک بھارت امن کی خواہش محض ترجمانوں کے سرکاری بیانات کی حد تک محدود ہے۔ وہ بھارتی یوم جمہوریہ پر بھارتی فوج اور اسلحہ کی نمائش بھی دیکھیں گے۔ پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ جنرل راحیل شریف نے پاکستان کی مشرقی سرحدوں یعنی پاک بھارت سرحدوں اور کنٹرول لائن پر اشتعال انگیزیوں کا مسئلہ اپنی امریکیوں سے ملاقاتوں میں اٹھایا ہے اور امریکہ نے بڑی تشویش کے اظہار کے ساتھ نوٹس لیا ہے۔ مگر صدر اوباما کے بھارت کے دورے کے اعلان نے حقیقت واضح کر دی ہے۔

پاکستان نے تو امریکی دبائو اور یقین دہانیوں کے بعد ہی اپنی مشرقی سرحدوں سے اپنی فوج کو پاک۔ افغان علاقوں میں منتقل کرکے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ فوج متعین کی جبکہ مشرقی سرحدوں پر پاکستانی فوج کی زبردست کمی کا پورا پورا فائدہ اٹھا کر بھارت سرحد پار جاسوسی، اشتعال انگیزی اور بلوچستان میں تخریب کاری میں اضافہ کر رہا ہے۔ پاکستان کے سیاسی اور عسکری قائدین کو کسی خوش فہمی یا وعدوں پر انحصار کرنے کے شوق میں مبتلا رہنے کی ضرورت نہیں۔ مزید مشکل حالات سامنے آنے کو ہیں۔فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے 19 نومبر کو پاکستانی سفارتخانہ کے ڈنر میں اپنی چار منٹ کی مختصر تقریر میں دہشت گردی کے انسداد کیلئے پاک۔افغان تعاون کے نئے رشتوں اور اگلے چند ہفتوں اور مہینوں میں دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے اور تبدیلیوں کے جس ’’سمندر‘‘ کی جرأت مندانہ یقین دہانی کرائی ہے خدا انہیں اس مشن میں کامیاب کرے لیکن یہ مشن محض تعاون کے وعدوں کی خوشگوار امریکی گفتگو سے حاصل نہیں ہو سکتا۔

افغانستان اور پاکستان کو ایک ساتھ بریکٹ کرکے دہشت گردی کے خاتمہ کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ جو جنگ کسی اور کی تھی اب یہ ہماری اپنی بقاء کی لازمی جنگ بن چکی ہے۔ پہلے پاکستانی تعاون پر امریکہ ہمارا شکر گزار تھا ،آج ہماری قیادت ٹیکس ادا کرنے والے امریکی عوام اور امریکی حکومت کا تعاون اور مدد کرنے پر ہم شکریہ ادا کرکے رول بدلنے اور علاقہ میں مفادات اور ترجیحات کے تبدیل ہونے کی تصدیق تو کررہی ہےتو گویا ہم اپنا ثانوی رول اور اپنی اہمیت میں کمی کو تسلیم بھی کررہے ہیں لیکن اپنے پاکستانی عوام کو سچ اور حقائق بتانے سے آج بھی گریز کررہے ہیں۔ ماضی کے ہمارے سابق حکمراں بھی ابھی تک اپنے دور میں کئے گئے غلط فیصلوں اور ان کے نقصان دہ نتائج کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ ہم تو آج بھی یہ حقیقت ماننے سے انکاری ہیں کہ ہماری غلطیوں، کوتاہیوں اور غیر دانشمندی کے باعث ہمارا ہم پلہ پڑوسی بھارت ہم سے بہت آگے نکل گیا ہے ہم ابھی تک داخلی بحرانوں، آمرانہ روشوں، کرپشن لوٹ مار اور بدامنی کی لپیٹ میں زندگی گزار رہے ہیں۔

اپنی بقاء کے اس خطرناک مرحلے میں بھی ہم دھرنوں اور تشدد کی سیاست میں لگے ہوئے ہیں۔کینیڈین پاسپورٹ کی تجدید اور فنڈ ریزنگ کے بہانے دھرنا ختم کرکے کینیڈا اورامریکہ آنے والے علامہ طاہر القادری نئے مشورے، نئی ہدایات کے ساتھ تازہ دم ہوکر عمران خان سے راستے جدا کرکے پاکستان واپس پہنچ چکے ہیں۔ ان کے کینیڈین پاسپورٹ کی تجدید اسلام آباد میں کینیڈین سفارتخانہ بھی کر سکتا تھا اور امریکہ میں تین چھوٹے سائز کے جلسوں میں کتنی فنڈ ریزنگ ،کس قانون کے تحت سیاسی مہم کیلئے ہوئی؟ وزٹ کے اصل مقاصد ہی کچھ اور تھے۔ پاک، امریکہ تعلقات کے ’’شارٹ ڈانس‘‘ والے صدر جارج بش کے بعد اب صدر اوباما بھارت۔ امریکہ لانگ ڈانس میں شریک ہیں۔

عظیم ایم میاں
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ

George Bush, Barak Obama and Pakistan

تھر جو ہم نے دیکھا !.....اللہ ڈنو کی المناک کہانی

LEADERS MEET - Modi shakes hands with Nawaz Sharif at the SAARC Summit

$
0
0
LEADERS MEET: India Prime Minister Modi shakes hands with Pakistan Premier Nawaz Sharif at the 18th SAARC Summit in the Nepalese capital.   (AFP) —
Viewing all 4315 articles
Browse latest View live