Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

کیا نوازحکومت واقعی بچ گئی؟.....

0
0


حملہ معمولی نہیں، بہت بڑا تھا۔ پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں کی منصوبہ بندی اور ان سے جڑے اقدامات کی منصوبہ بندی کافی عرصہ سے ہورہی تھی۔ مغربی منصوبہ سازوں نے بنیادی منصوبہ بندی اپنے مقاصد کے لئے کی تھی اور بعض داخلی طاقتور حلقے میاں نواز شریف کی دشمنی میں نادانستہ طور پر ہمسفر بن گئے تھے۔ نشانہ پہلی فرصت میں نواز شریف حکومت تو تھی ہی، عدلیہ، میڈیا اور پوری سیاسی قیادت کو رسوا کرنا اور ان سے فوج کو لڑانا مقصود تھا۔ آخری نتیجے کے طور پر اسلام اور پاکستان سے متعلق مغربی ایجنڈے پر عمل درآمد کی راہ ہموار کرنا تھا۔ سازش اس قدر گہری اور ہمہ پہلو تھی کہ اس میں استعمال ہونے والے بعض کرداروں کو بھی سمجھ نہیں آ سکی ۔ کردار بھی اتنے زیادہ تھے کہ ان کے رول کا تجزیہ کرنا اور دوسرے کرداروں سے اس کے رول کو ملانا بھی مشکل ہوگیا تھا۔

 شیخ رشید احمد، چوہدری شجاعت حسین، جہانگیر ترین، شیریں مزاری، اسد عمر اور اسی نوع کے لوگوں کی ڈوریں اندرونی منصوبہ ساز ہلا رہے تھے ۔ قادری صاحب، عمران خان صاحب، شاہ محمود قریشی صاحب جیسے لوگوں کے لئے بنیادی اسکرپٹ باہر سے لکھا گیا تھا لیکن ساتھ ساتھ انہوں نے اندرونی منصوبہ سازوں کی ہدایات پر بھی عمل کرنا تھا۔ فتنہ پرداز گوہر شاہی کے جانشین صاحبزادے اور یہود وہنود کے مہرے یونس گوہر جیسے لوگوں کو بیرونی کرداروں نے عمران خان کا ہمنوا بنا دیا تھا جبکہ کانوں میں سرگوشی کے ذریعے ہدایات دینے والے روزانہ کی بنیادوں پر اندرونی کرداروں سے بھی ہدایات خان صاحب اور قادری صاحب کو پہنچاتے رہے۔

برطانیہ کے لارڈ نذیر احمد کا اپنا رول تھا جسے ادا کرنے کے لئے وہ کئی روز سے اسلام آباد میں مقیم تھے (حالانکہ ان کے دوست یہ کہتے ہیں کہ لارڈ نذیرہر چند ماہ بعد پاکستان اور آزاد کشمیر کی محبت میں ملک کا بار بار دورہ کرتے ہیں اور اس سازشی تھیو ری میں کوئی حقیقت نہیں)۔ جبکہ ایک اور سابق برطانوی رکن پارلیمنٹ چوہدری محمد سرور کو میاں نوازشریف کے کیمپ میں گھسا کر کردار سونپ دیا گیا تھا (یاد رہے کہ گورنر سرور خود اس کی پرزور تردید کر چکے ہیں کہ اس سازشی کہانی میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے)۔ مشرقی پاکستان کے حوالے سے شرمناک کردار ادا کرنے والے جنرل عمر کے صاحبزادوں کو منصوبہ سازوں نے اسی طرح تقسیم کیا ہے جس طرح ان کے والد نے مشرقی پاکستان کو تقسیم کیا۔ ایک بھائی میاں نواز شریف کے وزیر بنا دئیے گئے ہیں اور دوسرے بھائی یعنی اسد عمر کو عمران خان کے مشیر خاص کے طور پر ان کے ساتھ لگا دیا گیا ہے حالانکہ جس طرح دونوں ایک باپ کے بیٹے ہیں، اسی طرح مشن بھی دونوں کا ایک ہے۔ پیسے کی کوئی کمی نہ تھی۔ اربوں ڈالر باہر سے بھی آئے اور اندر سے بھی ہزاروں کی تعداد میں فنانسروں کی طرف سے کھربوں ملے ۔
یوں اس ہمہ پہلو اور بھرپور حملے سے میاں نواز شریف کی حکومت جیسی کمزور، نااہل اور کنفیوزڈ حکومت کا بچنا ناممکن نظر آ رہا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر وہ بچ گئی۔ وقتی طور پر بچ تو گئی لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اپنے آپ کو بچانے میں خود اس حکومت کا ذرہ بھر کردار نہیں بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ بدانتظامیوں اور حماقتوں کی وجہ سے اس حکومت نے خود اپنے گرانے کے کام کو مزید آسان کر دیا۔ بچ گئی ہے تو یہ حکومت معجزانہ طور پر بچ گئی ہے۔ اسے خود عمران خان صاحب اور قادری صاحب یا پھر ان کے ہدایت کاروں کی حماقتوں نے بچا دیایا پھر اسے فوج اور جنرل راحیل شریف نے بچا لیا۔ خود قادری صاحب اور عمران خان صاحب نے ایسی زبان استعمال کی کہ مجبوراً تمام سیاسی قیادت میاں نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہو گئی، ورنہ تو وزیراعظم بننے کے بعد میاں صاحب نے اپنے بادشاہانہ روئیے سے صرف اپوزیشن کو نہیں بلکہ خود اپنی جماعت کے لوگوں کو بھی مخالف کیمپ میں دھکیلنے کی پوری کوشش کی تھی ۔ 

آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو بھی یہ حکومت ایک نہیں‘ دو نہیں بلکہ متعدد مرتبہ اپنے ادارے کے سامنے شرمندہ کرچکی تھی لیکن پھر بھی انہوں نے جمہوریت کو ختم کرانے کی بجائے، بچانے میں کردار ادا کیا۔ دھرنے جو کہ اب جلسے بن چکے ہیں، کے غباروں سے ہوا نکل چکی ہے اور دھرنا دینے والے دونوں قائدین کے اس قدر بےتحاشہ تضادات سامنے آ گئے ہیںکہ اب وہ حکومت سے زیادہ اپنی اپنی جماعتوں کے لئے خطرہ بن گئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نوازشریف حکومت ہمیشہ کے لئے مضبوط ہو گئی۔

میرے نزدیک اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران جو کچھ ہوا، اس نے حکومت کی بجائے ریاست کو بے انتہا کمزور کر دیا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو کمزور ریاست کو چلانے والی حکومت کبھی مضبوط نہیں ہوسکتی ۔ اگر تو حکومت اور سیاسی قیادت نے فوری اور ہنگامی طور پر کچھ اقدامات نہ اٹھائے تو نہ صرف حکومت کو خطرہ برقرار رہے گا اور کچھ ہی عرصہ بعد کسی اور شکل میں اس حکومت سے نجات کی کوششیں شروع ہو جائیں گی بلکہ حکومت کے ساتھ ساتھ ریاست کے وجود کو بھی سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ۔ اگرچہ اس حکومت کو مشورہ دینا اپنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے لیکن چونکہ اپنا تو کام ہی یہی ہے، اس لئے اتمام حجت کے طور پر چند تجاویز رقم کر رہا ہوں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔

٭ریاستی اداروں اور بالخصوص پولیس کا امیج جس قدر خراب ہو رہا ہے یا پھر ان کا مورال جس قدر گر گیا ہے، اس کی بحالی کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں ۔
٭وزیراعظم فوری طور پر اپنی پوری کابینہ کو ختم کرکےمیرٹ اور صلاحیت کی بنیاد پر نئی کابینہ تشکیل دے دیں اور چند چمچوں اور اہل خانہ پر انحصار کرنے کی بجائے فیصلہ سازی اور مشاورت کا دائرہ بڑھائے ۔
٭انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لئے کمیشن دھرنا دینے والوں سے مفاہمت کا انتظار کئے بغیر فوراً قائم کیا جائے اور اسے دو ماہ کے اندر اندر تحقیقات مکمل کرنے کا پابند بنایا جائے ۔
٭الیکشن کمیشن کی تشکیل نو اور انتخابی اصلاحات کے لئے پارلیمانی کمیٹی کو ہنگامی بنیادوں پر فعال کیا جائے ۔ اس کی سربراہی اپوزیشن کو دی جائے اور اسے جلد ازجلد سفارشات اور قانون سازی کو حتمی شکل دینے کا پابند بنایا جائے ۔
٭ایک خاص سروس گروپ سے تعلق رکھنے والے چند من پسند سرکاری افسران پر تکیہ کرنے کی بجائے تمام اہم مناصب پر فوری طور پر میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر افسران مقرر کئے جائیں ۔
٭احتساب کو سیاست کے لئے استعمال کرنے کی بجائے حقیقی احتساب کا ایسا نظام بنایا جائے جو سب کے لئے یکساں قابل قبول ہو۔
٭ریاستی اداروں بالخصوص فوج کے ساتھ سیاسی حربوں سے کام لینے کی بجائے حقیقی مشاورت سے کام کیا جائے اور ہر معاملے میں صاف گوئی اور شفافیت سے کام لیا جائے ۔
٭ بجلی کے ماہ گزشتہ کے بل منسوخ کردئیےجائیں اور چند خاندانوں یا سرمایہ داروں کو نوازنے کی بجائے عام پاکستانی اور غریبوں کو ریلیف دینے کی کوئی صورت نکالی جائے۔
٭وزیراعظم صرف وسطی پنجاب کا وزیراعظم دکھنے کی بجائے پورے پاکستان کے وزیراعظم بن جائیں۔ سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا، فاٹا اور گلگت بلتستان کو بھی خصوصی توجہ دیں اور پنجاب کے اندر بھی ترقیاتی کاموں کا رخ وسطی کی بجائے جنوبی پنجاب کی طرف موڑ دیں۔
٭معطل شدہ مسلم لیگ (ن) کو بحیثیت جماعت فعال کر دیا جائے۔ ایک خاندان کی پارٹی بنانے کی بجائے اسے جمہوری پارٹی بنایا جائے۔ پارلیمنٹ کو حقیقی معنوں میں پارلیمنٹ سمجھ کر اسے وقعت دی جائے۔ اپوزیشن کو وقتی سیاسی ضرورتوں کے تحت ساتھ ملانے کی بجائے دائمی طور پر ساتھ چلانے کی کوشش کی جائے۔
٭ضلعی حکومتوں کے قیام کے لئے فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں اور ترقیاتی کاموں سے اراکین پارلیمنٹ کو بے دخل کرنے کی راہ ہموار کی جائے ۔
٭ پاکستان کے اصل اور دائمی مسائل (نئے صوبوں کی تشکیل، سول ملٹری تعلقات وغیرہ) کے حل کے لئے آئینی تبدیلیاں تجویز کرنے کی غرض سے حقیقی مشاورت کا آغاز کیا جائے ۔ ہر شعبے کے لئے الگ الگ کمیشن بنائے جائیں ۔ تمام کمیشنوں میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے ۔ یہ کمیشن اٹھارویں آئینی ترمیم کے لئے بننے والی پارلیمانی کمیٹی کے طرز پر میڈیا کی بجائے خفیہ مشاورت کرے اور جو حتمی تجاویز سامنے آجائیں، انہیں پارلیمنٹ کے سامنے رکھا جائے۔

مکرر عرض ہے کہ قادری صاحب اور عمران خان خان کا کھیل تو نہیں چل سکا لیکن اگر یہ حالت رہی تو یہ حکومت بھی نہیں چل سکتی اور اس کے چلنے کے لئے ضروری ہے کہ حکمران اپنے چلن کو مذکورہ اور ان جیسے دیگر خطوط پر بدلیں۔

سلیم صافی

بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ 
  


Pakistani people board on train to go home to celebrate the Muslim Festival of "Eid al-Adha"

0
0
Pakistani people board on train to go home to celebrate the Muslim Festival of "Eid al-Adha" with their loved ones in Lahore, Pakistan, October 5, 2014. Muslims around the world are preparing to celebrate the Eid al-Adha, a festival to sacrifice cattle, goats and sheep in commemoration of the Prophet Abraham's (R) readiness to sacrifice his son to show obedience to God, the festival marking the end of Hajj when millions of Muslims perform the annual pilgrimage to Mecca.

RAWALPINDI EXPRESS ON SAUDI TRACKS

0
0
RAWALPINDI EXPRESS ON SAUDI TRACKS: Former Pakistani paceman Shoaib Akhtar on pilgrimage in this cool pic. Celebrities are always a big hit in the Kingdom. AN team feels honored in presenting them to the readers and fans.

ملالہ کو نوبل انعام ..... Malala Yousafzai and Noble Prize

0
0

Malala Yousaf Zai Noble Prize

ایبولا وائرس کیا ہے؟....

0
0


آج کل دنیا میں ایبولا وائرس نامی وبا نے خوف پھیلا رکھا ہے جس نے ایک اندازے کے مطابق اب تک سات ہزار سے زائد افراد کو اپنا شکار بنایا ہے جس میں سے 34 سو سے زائد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں بڑی اکثریت مغربی افریقہ کے باسیوں کی ہے، تاہم امریکا میں بھی ایک موت رپورٹ ہوئی ہے۔
درحقیقت مغربی افریقہ سے باہر اس کے واقعات بہت کم سامنے آئے ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ خشک آب و ہوا والے علاقوں میں چند گھنٹوں سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا اس لیے جنوبی ایشیا میں اس کے پھیلنے کا امکان بہت کم ہے تاہم سیال جیسے خون میں یہ کئی روز تک زندہ رہ سکتا ہے اور مریض کے بہت زیادہ قریب رہنے والے افراد میں منتقل ہوکر آبادیوں میں پھیل سکتا ہے۔
تاہم سوال یہ ہے کہ یہ وائرس ہے کیا؟

ایبولا انسانوں اور جانوروں میں پایا جانے والا ایک ایسا مرض ہے جس کے شکار افراد میں دو سے تین ہفتے تک بخار، گلے میں درد، پٹھوں میں درد اور سردرد جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور وہ قے، ڈائریا اور خارش وغیرہ کا شکار ہوجاتے ہیں، جبکہ جگر اور گردوں کی کارکردگی بھی گھٹ جاتی ہے۔
مرض میں شدت آنے کے بعد جسم کے کسی ایک یا مختلف حصوں سے خون بہنے لگتا ہے اور اس وقت اس کا ایک سے دوسرے فرد یا جانور میں منتقل ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، درحقیقت اسے دوران خون کا بخار بھی کہا جاتا ہے اور جب خون بہنے کی علامت ظاہر ہوجائے تو مریض کا بچنا لگ بھگ ناممکن سمجھا جاتا ہے۔
مگر صرف خون نہیں بلکہ پسینے، تھوک اور پیشاب سمیت جسمانی تعلقات وغیرہ سے بھی یہ ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوجاتا ہے، بلکہ ایسا مرد جو اس مرض سے بچنے میں کامیاب ہوجائے اپنے مادہ تولید سے یہ مرض دو سے تین ماہ تک اپنی بیوی میں منتقل کرسکتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ چمگاڈروں کے ذریعے یہ افریقہ میں پہلے جانوروں اور ان سے لوگوں میں پھیلنا شروع ہوا اور ایبولا کے شکار افراد کی بڑی تعداد ایک ہفتے میں ہی دنیا سے چل بستے ہیں۔
اگرچہ ابھی تک اس کا کوئی موثر علاج دستیاب نہیں تاہم بیمار افراد کو ہلکا میٹھا یا کھارا پانی پلاکر یا ایسے ہی سیال مشروبات کے ذریعے کسی حد تک بہتری کی جانب لے جایا جاسکتا ہے۔

یہ مرض 1976 میں سب سے پہلے سوڈان میں ظاہر ہوا تھا اور 2013 تک اس کے صرف 1716 واقعات سامنے آئے تاہم رواں برس یہ مغربی افریقہ میں ایک وبا کی شکل میں سامنے آیا اور گیانا، سیریا لیون، لائبریا اور نائیجریا اس سے سب سے متاثر ہوئے ہیں اور اس کی ویکسین کی تیاری کے لیے کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔
اب تک یورپ کے ملک اسپین اور امریکا میں بھی اس کے ایک ، ایک کیسز سامنے آئے جس کے بعد سے دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی خوف کی لہر پھیل گئی ہے۔
ایبولا پھیلتا کس طرح ہے

ایبولا چار طریقوں سے ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوسکتا ہے، پہلا مریض سے قریبی تعلق اس میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔

دوسرا تھوک، خون، ماں کے دودھ، پیشاب، پسینے ، فضلے اور مادہ تولید سے یہ ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتا ہے۔

مریض کے زیراستعمال سرنج کا صحت مند شخص پر استعمال اسے بھی ایبولا کا شکار بناسکتا ہے۔

ایبولا کے شکار جانوروں کا گوشت کھانے یا ان کے بہت زیادہ رہنا۔

وہ چیزیں جو ایبولا کا سبب نہیں بنتیں
ہوا
پانی
خوراک
مچھر یا دیگر کیڑے
ایبولا سے بچ جانے والے افراد(ماسوائے ایسی خواتین جن کے شوہر اس کا شکار ہوئے انہیں کچھ عرصے تک جسمانی تعلق سے گریز کرنا چاہئے)۔
ان سب سے ہٹ کر یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ مریض کی چھوئی ہوئی اشیاء سے یہ مرض کسی اور میں منتقل ہوسکتا ہے اور نہ ہی متاثرہ ممالک سے آنے والے طیاروں کے ذریعے یہ کسی اور ملک میں پہنچ سکتا ہے۔

یہ فلو، خسرے یاایسے ہی عام امراض کی طرح نہیں، بلکہ اس کا بہت کم امکان ہوتا ہے کہ یہ کسی وبا کی طرح ایک سے دوسرے براعظم تک پھیل جائے۔
تاہم متاثرہ علاقوں سے آنے والے افراد اگر اس کا شکار ہوں تو وہ ضرور کسی ملک میں اس کے پھیلاﺅ کا سبب بن سکتے ہیں۔

What is Ebola Virus?

ڈپریشن کے اسباب.......

0
0



کیا آپ کبھی مایوسی یا ڈپریشن کا شکار ہوئے ہیں؟ دنیا میں کونسا انسان ہے جو دکھ، مالیاتی مشکلات اور بے روزگاری سمیت دیگر مسائل کی بناءپر اس ذہنی کیفیت کا شکار نہیں ہوتا اور یہی عام طور پر اس کی معروف وجوہات بھی سمجھی جاتی ہیں
مگر ایسا نہ ہونے کے باوجود آپ ڈپریشن کا شکار ہیں اور اس کی کوئی خاص وجہ سمجھ نہیں آرہی تو درحقیقت ایسی متعدد حیرت انگیز چیزیں جو آپ کو مایوس بنارہی ہوتی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بیشتر افراد ان سے واقف بھی نہیں ہوتے جن کو جان کر آپ حیران رہ جائیں گے۔
 
گرم موسم

موسموں کے مزاج پر اثرانداز ہونے کا تعلق عام طور پر سردیوں سے جورا جاتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ گرم موسم بھی ڈپریشن کا سبب بن سکتا ہے، ایسا اس وقت ہوتا ہے جب موسم گرما معمول سے زیادہ لمبا ہوجائے یا جسم کو گرمی سے مطابقت پیدا کرنے میں مشکل پیش آرہی ہو۔
اوریگن ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی کے مطابق گرم موسم میں جسم کو مطابقت پیدا کرنے میں مشکل ہو تو اس سے دماغی کیمیسٹری اور ہارمونز کے نظام میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے جو ڈپریشن کا سبب بن جاتا ہے۔

تمباکو نوشی

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ مایوسی کے شکار افراد تمباکو نوشی کی عادت کا شکار ہوجاتے ہیں مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ سگریٹ میں شامل نکوٹین دماغی ٹرانسمیٹر کی سرگرمیوں پر اثر انداز ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ہارمونز بڑی مقدار میں خارج ہوتے ہیں جو مزاج کو بدلنے کا سبب بن جاتے ہیں یا یوں کہہ لیں ڈپریشن بڑھا دیتے ہیں۔

گلے کے امراض

تھائی رائیڈ گردن میں تتلی کی شکل کے غدود مناسب مقدار میں تھائی رائیڈ ہارمون پیدا نہ کررہا ہو تو انسانی جسم میں ڈپریشن بڑھنے لگتا ہے، درحقیقت اس ہارمون کا کام دماغی سرگرمیوں اور اس کے ہارمونز کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے، اگر آپ کو ڈپریشن کے دوران جسم سرد ہوتا یا خوف محسوس ہو تو اس چیز کو چیک کرالینا زیادہ بہتر ہوگا۔

نیند کی خراب عادت

یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں کہ نیند کی کمی چڑچڑے پن کا سبب بنتی ہے مگر یہ ڈپریشن کا خطرہ بھی بڑھا دیتا ہے، ایک طبی تحقیق کے مطابق نیند کی کمی کے نتیجے میں لوگوں کے دماغی خلیات دوبارہ مرمت نہیں ہوپاتے جس کے نتیجے میں ان میں مایوسی جنم لینے لگتی ہے۔

فیس بک کا بہت زیادہ استعمال

کیا آپ سوشل میڈیا سائٹس پر بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں؟ اگر ہاں تو مختلف تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ یہ عادت ڈپریشن کی جانب لے جاسکتی ہے خاص طور پر نوجوان اور جوان اس سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں، درحقیقت انٹرنیٹ کی عادت سے لوگوں کے اندر حقیقی زندگی میں اپنے ساتھیوں سے بات چیت میں جدوجہد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کسی ساتھی کی کمی سے ڈپریشن جنم لینا لگتا ہے۔

ٹی وی شو یا فلم کا اختتام

جب کوئی ضروری چیز جیسے ٹی وی شو، فلم یا گھر کی تزئین نو کا اختتام ہوتا ہے تو اس سے کچھ افراد کے اندر ڈپریشن پیدا ہوتا ہے، ایک تحقیق کے مطابق ایسا اس وقت سامنے آیا تھا جب ہیری پوٹر سیریز کی آخری فلم سامنے آئی تھی جبکہ وہ اس کو دیکھنے اور اس میں اپنی حقیقی زندگیوں کے مسائل بھلا دینے کے عادی ہوچکے تھے، جس پر انہیں شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

رہائش کا مقام

آپ اس پر جتنا بحث کرلیں کہ شہر یا گاﺅں میں سے کس کی زندگی بہتر ہے مگر سائنس کا تو ماننا ہے کہ شہری علاقوں میں رہنے والے افراد کے مزاج میں اتار چڑھاﺅ کا خطرہ دیہاتی لوگوں کے مقابلے میں 39 فیصد زائد ہوتا ہے، شہرون میں لوگ زیادہ سرگرم رہتے ہیں جس سے ان کے دماغ کو تناﺅ کو ریگولیٹ کرنے میں مشکل پیش آتی ہے اور یہی چیز آگے بڑھ کر ڈپریشن کا سبب بن جاتی ہے۔

بہت زیادہ انتخاب

اگر بہت زیادہ آپشنز دستیاب ہو مثال کے طور پر ناشتے کے لیے کوئی چیز لینے جائیں اور بہت کچھ مل رہا ہو تو لوگوں کو سمجھ نہیں آتا کہ کیا انتخاب کریں، جس کے نتیجے میں وہ بہتر سے بہترین کی تلاش میں لگ جاتے ہیں اور یہ رجحان ان میں ڈپریشن کا سبب بنتا ہے۔

خوراک میں مچھلی سے دوری

مچھلی میں پائے جانے والے اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کا کم استعمال بھی ڈپریشن کا خطرہ بہت زیادہ بڑحا دیتا ہے، ایک تحقیق کے مطابق یہ فیٹی ایسڈز نیوروٹرانسمیٹرز کو ریگولیٹ کرتے ہیں جو ڈپریشن سے بھی بچانے کا کام کرتے ہیں۔

بہن بھائیوں سے خراب تعلقات

اگرچہ کسی سے بھی خراب تعلق ڈپریشن کا سبب بن سکتا ہے مگر ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جن افراد کا اپنے بہن بھائیوں سے تعلق بہتر نہیں ہوتا ان میں نوجانی کے عرصے میں ڈپریشن کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، اگرچہ اس کی وجہ واضح نہیں تاہم محققین کے خیال میں بہن بھائیوں سے انسان سماج میں تعلقات بڑھانا سیکھتا ہے، تاہم لڑائی جھگڑے ان کی یہ صلاحیت متاثر کرتے ہیں جو بعد کی زندگی میں ڈپریشن کا سبب بن جاتا ہے۔

خواب آور ادویات

کئی ادویات کے استعمال کے نتیجے میں بھی ڈپریشن لاحق ہوسکتا ہے خاص طور پر نیند کی گولیوں کا استعمال متعدد افراد میں اس کا سبب بن سکتا ہے بلکہ ان میں خودکشی تک کے رجحانات پیدا ہوجاتے ہیں۔

Causes of depression

کیا یہ واقعی سنگین مسئلہ ہے ؟....

0
0
Girls education in pakistan

نوابزادہ خان لیاقت علی خان......

0
0

کرنال( مشرقی پنجاب )کے ایک متمول زمیندار گھرانے میں آنکھ کھولنے والے لیاقت علی نے علی گڑھ سے 1919 ء میں گریجویشن کے بعد 1921ء میں انگلستان میں آکسفرڈ سے اصول قانون میں ڈگری حاصل کی اور بعد ازاں1922ء میں بیرسٹری کا امتحان بھی پاس کیا، لیکن وکالت سے تعلق بس اتنا سا رہا کہ ہائیکورٹ کے وکلا کی فہرست میں نام درج کروا لیا،بطورِ پیشہ اسے کبھی اختیار نہیں کیا۔ نوابزادہ لیاقت علی خان 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلم رہنماؤں کی اس پود کی نمائندہ شخصیات میں سے ایک ہیں ،جو برطانوی راج سے آزادی حاصل کر کے الگ وطن کے حصول کے لیے یکسو ہوئے اور جن کی سرکردگی میں مسلمانانِ ہند نے اپنی آزادی کا مقدمہ لڑا اور اپنے لیے ایک آزاد ریاست کا خواب پورا کیا۔ لیاقت علی خان کی سیاسی زندگی کا آغاز انگلستان سے آنے کے بعد ہی ہو گیا تھا اور ابتدا ہی سے وہ مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کی طرف مائل تھے۔ انگلستان سے آتے ہی یوپی کے کانگریسی راہ نماؤں نے ان سے کانگریس میں شمولیت کی درخواست کی ،لیکن انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ وہ ان کی جماعت کے نظریات سے اتفاق نہیں رکھتے۔

 بعد ازاں 1923ء میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی 1926ء سے 1940 ء تک،وہ یوپی کی مجلس قانون ساز اور بعد ازاں مرکزی مجلس قانون ساز کے رکن رہے۔ مسلم لیگ میں وہ سیکرٹری جنرل اور بعد ازاں ڈپٹی پارلیمانی لیڈر جیسی اہم ذمے داریوں پر فائز رہے۔ نظریات کے حوالے سے لیاقت علی خان اسی فکر کے سانچے میں ڈھلے نظر آتے ہیں ،جسے ہم آل انڈیا مسلم لیگ کا بنیادی منہج فکر کہہ سکتے ہیں۔ 1930 ء میں لیاقت علی خان یوپی کی واحد مسلم درسگاہ ’’مدرسہ‘‘ کے صدر منتظم منتخب ہوئے ، مسلمانوں کی تعلیم ہمیشہ سے ان کی ترجیحات میں شامل رہی۔

 مسلم لیگ سے نظریاتی وابستگی کا اندازہ محض اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے ، جب مسلم لیگ نے 1932ء میں ایک سمجھوتے کی بنا پراسد علی اور مولانا حسین احمد مدنی جیسے کانگریسی فکر کے حامل راہ نماؤں کو جماعت میں شامل کیا ،تو لیاقت علی خان 1936ء سے اوائل 38ء تک مسلم لیگ سے مستعفی ہو کر انگلستان چلے گئے تھے حالاں کہ وہ اس وقت پہلی مرتبہ مسلم لیگ کے اعزازی سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ لیاقت علی خان کا خیال تھا اس سمجھوتے سے مسلم لیگ کا تشخص دھندلا گیا تھا۔ ایک درد مند قومی راہ نما کی حیثیت سے تعلیم ان کی پہلی ترجیح رہی۔ 1932ء میں مسلم تعلیمی کانفرنس کے 40 مطالبات انہی کی کوششوں سے منظور کیے گئے ، اسی طرح 1944ء میں اینگلو عریبک کالج دہلی کے صدر کے طور پر منتخب کیے گئے اور دسمبر 1945ء میں کل ہند مسلم تعلیمی کانفرنس کی صدار ت فرمائی۔

 اس حوالے سے علی گڑھ میں ان کے خطاب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان نزدیک تعلیم نہ صرف آزادی کی جدوجہد میں کام یابی کی ضامن تھی بلکہ یہ اسے برقرار رکھنے کا بھی واحد ذریعہ تھی: ’’ہم آزادی کے لیے جدوجہد اس لیے نہیں کرر ہے کہ ہم انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو کر ہنددؤں کی غلامی میں چلے جائیں بلکہ ہمارا مقصد ایک آزاد اور خود مختار مملکت کی تشکیل ہے تاکہ ہم اس نصب العین تک پہنچ سکیں ،جس سے ہمیں تیرہ سو سال پہلے حضرت محمد ﷺ نے روشناس کروایا تھا۔قرآن مجید کی رو سے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ صرف خدا کے لیے زندہ رہے اور خدا کے لیے جان دے کیوںکہ خدا ہی حقیقی حکمران ہے اور ساری حاکمیت اسی کی ذات میں مرتکز ہے۔‘‘ اسلامی معاشرے کے متعلق ان کا نظریہ قرارداد مقاصد کی منظور ی کے تناظر میں بھی سامنے آتا ہے اور مسلم ممالک کے ساتھ پر جوش تعلقات کی وہ تمام کوششیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں، جو انہوں نے اپنے دور حکومت میں کیں۔ اس حوالے سے ان کے خطاب کا یہ اقتباس روشنی ڈالتا ہے: ’’ہمیں اس خواب کو پورا کرنا ہے ،جس کے مطابق پاکستان میں ہم سچے مسلمانوں کی طرح اسلامی اصولوں پر عمل کر کے دنیا کو یہ دکھا سکیں کہ سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظاموں کے علاوہ بھی ایک نظام ہے جس کے اصول اسلام ہمیں مہیا کرتا ہے۔


(خیرپور 21 نومبر 1950ء ) ایک زمیندار خاندان کے چشم و چراغ ہونے کے باوجود فکری ارتقاء کے باعث ان کے دل ودماغ کا رشتہ استحصالی ذہنیت سے کٹ کر اسلام کے سماجی اصولوں سے جُڑ چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پنجاب میں زرعی اصلاحات کا بل اسمبلی میں پیش کیا تو اشرافیہ کی بے چینی دیدنی تھی کیونکہ یہ بل سراسر ان کے مفادات پر ضرب تھا۔ استحصالی نظام کے خلاف ان کا موقف بہت واضح تھا، جس کا اظہار انہوں نے ایک جگہ ان الفاظ میں کیا: ’’اگر پاکستان کو سرمایہ داروں کے استحصال کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا، تو اس ملک کا مستقبل تاریک ہو جائے گا،پاکستان یقینا نہ تو سرمایہ داروں کا ملک ہو گا اور نہ اشتراکیوں کا،یہاں صرف اسلامی اصولوں پر عمل ہو گا‘‘۔ (17 نومبر 1948ء جلسہ مسلم لیگ) یوں تو یو پی کی سیاست میں لیاقت علی خان شروع ہی سے منتخب نمائندے کی حیثیت سے مسلم مفادات کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں، لیکن مرکزی مجلس قانون ساز کے رکن وہ 1940ء میں منتخب ہوئے۔

 اس دور میں پہلی دفعہ مسلم لیگ ایوان میں بطور الگ پارٹی کے سامنے آئی اور اس کا لیڈر قائد اعظم اور ڈپٹی لیڈر نوابزادہ کو بنایا گیا۔ تحریک پاکستان کے اگلے سالوں میں قائد اعظم ایک جاں گسل عوامی جدوجہد میں مصروف ہونے کی بنا پر اسمبلی کے اندر دستوری اور پارلیمانی معاملات میں مسلم مفادات کے لیے بہت کم وقت نکال پاتے ، یہاں تقریبا سار ی ہی ذمہ داری لیاقت علی خان نے ادا کی۔ قیام پاکستان کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان نے قائد اعظم کے شانہ بشانہ مہاجرین کی بحالی، افواج کی تنظیم ، معیشت کی بحالی غرضیکہ ہر طرف حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے ان تھک جدوجہد کی۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد یہ تأثر پھیلنے لگا کہ اب پاکستان میں لیڈرشپ کا خلا پیدا ہوگیا ہے، تو اس مشکل گھڑی میں لیاقت علی خان نے غمزدہ قوم کو پھر سے نئی امید دی ،بیرونی دنیا میں پاکستان کو ایک پراعتماد ملک کی حیثیت سے پیش کیا اور بالخصوص بھارت کے ان مکروہ عزائم پر پانی پھیر دیا ،جو وہ قائد اعظم کی وفات کے بعد پاکستان کے حوالے سے رکھتا تھا۔انہوں نے مختلف اوقات میں بھارتی جارحیت سے اپنے ملک کو تدبر اور حکمت سے محفوظ بنایا ،مثلا 1950ء میں کلکتہ کے فسادات کے بعد بھارت نے افواج مشر قی پاکستان کی سرحدوں پر جمع کرنی شروع کر دیں، فوری طور پر لیاقت علی خان نے ڈھاکاجا کر مسلمانوں کو رد عمل سے روکاجو فطری طور پر مغربی بنگال سے آنے والے لوگوں کی حالت زار دیکھ کر ان میں پیدا ہورہا تھا۔

 اس کے بعد طے پانے والالیاقت نہرو معاہدہ آج بھی دونوں ملکوں میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے بنیادی حیثیت کا حامل ہے ، جو بھارت کے اس دعوے کے رد کے لیے کافی ہے کہ بھارتی مسلمانوں سے سلوک اس کا داخلی معاملہ ہے اور پاکستان اس بارے میں کوئی بات نہیں کر سکتا۔ صوبائیت اور لسانیت نوزائدہ مملکت کے وجود کے لیے ویسا ہی خطرہ تھی، جیسے آج ہے۔ اس معاملے پر خان لیاقت علی آج بھی ہمارے سیاسی راہ نماؤں کے لیے مشعل راہ ہے: ’’میں سمجھتا ہوں کہ صرف ایک چیز یقینا پاکستان کو تباہ کر سکتی ہے اور وہ صوبہ پرستی کا جذبہ ہے۔کسی شخص کو بھی یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ پنجابی، پٹھان، سندھی یا بنگالی ہے۔اگر ہم پر صوبہ پرستی کا جذبہ غالب آجاتا ہے،اور ہم صوبائی نقطہ نظر سے سوچنا شروع کر دیتے ہیں ،تو پاکستان کمزور ہو جائے گا۔‘‘ (15اپریل 1958ء،پاک بحریہ سے خطاب) خارجہ پالیسی کے محاذپر، مسلم ممالک سے پرجوش تعلق ہمیشہ لیاقت علی خان کے پیش نظر رہا۔

 ایک موقع پر جب مشترکہ دفاع کی تجویز کا شوراٹھا، تو جولائی 1950ء میں عید کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا : ’’اگر مغربی جمہوریتیں اپنے طریق زندگی کے تحفظ کے لیے معاہدے کر سکتی ہیں اور اگر اشتراکی ممالک اپنی نظریاتی اساس کے دفاع کے لیے ایک بلاک بنا سکتے ہیں، تو مسلم اقوام متحد ہو کر کیوں اپنا تحفظ نہیں کر سکتیں اور دنیا کو یہ نہیں دکھا سکتیں کہ ا ن کا بھی ایک علیحدہ نظریہ اور طریق زندگی ہے۔‘‘ لیاقت علی خان کی شخصیت میں سیاسی تدبرو بصیر ت اور موقف پر پختگی کی دو نمایاں خصوصیات نظر آتی ہیں۔ تقسیم ہند کے موقع پر افواج کی تقسیم کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا تھا، لیاقت علی نے بطور وزیر خزانہ وائسرائے کو دو دفعہ باقاعدہ اس طرف متوجہ کیا اور پھر ڈیفنس کمیٹی کے اجلاس ہوئے جن میں اسلحے اور افواج کی تقسیم کا فارمولا طے کیا گیا، انہیں تقسیم کے دوران افواج کی اہمیت کا ادراک ہو گیا تھا۔ وقت نے اس اہمیت کو ثابت کیا۔ سیاسی تنازعات میںمفاہمانہ ذہن اور ہٹ دھرمی سے پاک، لیکن اصولوں پر سودے بازی نہ کرنے کی روش، جو آج مفقود ہے۔اس کی ایک جھلک ان کے دور حکومت میں پنجاب کے ممدوٹ اور دولتانہ وغیرہ اور پیر آف مانکی شریف اور عبدالقیوم خان کی سرحد میں چپقلش میں نظر آتی ہے، جن کا لیاقت علی خان نے صرف منوانے سے نہیں ، مان لینے سے بھی حل نکالا!! موقف پر پختگی کی بہترین مثال 1949 ء میں ہندوستان سے روپے کی قدرپرہونے والا قضیہ ہے، جس میں ہندوستان نے دوسرے ممالک کے ساتھ اپنی کرنسی کی قدر گھٹا دی تھی لیکن پاکستان نے ایساکرنے سے گریز کیا، اب پاکستان کا ایک روپیہ بھارت کے ڈیڑھ روپے کے برابر ہو گیا تھا۔اس پر بھارت نے پاکستان سے تمام تجارت معطل کر دیکرنسی کی قدر گھٹانے تک یہ سلسلہ معطل کردیا۔ لیاقت علی خان نے بھی ڈھاکا جا کر کہہ دیا کہ بھارت کو ایک گانٹھ پٹ سن بھی نہیں دی جائیگی اور جیسا یہ کریں گے ،جواباً ان کے ساتھ بھی ویساہی کیا جائے گا۔یہی صورتحال جاری رہی یہاں تک کہ چھے مہینے بعد بھارت اپنی ضد سے باز آگیا۔ 16 اکتوبر1951ء کو تحریک پاکستان کا یہ نظریاتی سپاہی اور سیاسی مدبر شہید کردیا گیا۔ وہ آج ایک دمکتے ستارے کی طرح ہماری قومی تاریخ کے افق پر جگمگا رہے ہیں۔ ان کی زندگی میں ایک بار بابائے قوم نے انھیں خراج ِتحسین پیش کیا تھا، جو نہ صرف ان کے خلوص اور جدوجہد کے لیے سند کا درجہ رکھتا ہے بلکہ ہمارے سیاسی راہ نماؤں کے لیے بھی اس میں واضح پیغام ہے،قائد اعظم نے فرمایا تھا: ’’لیاقت علی خان نے نہایت تن دہی کے ساتھ شب و روز کام کیا ہے اور عام آدمی کے لیے یہ سمجھنا بھی بہت مشکل ہے کہ انہوں نے اپنے کاندھوں پر کتنا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔وہ کہلاتے تو نوابزادہ ہیں، لیکن فکر و عمل کے لحاظ سے بالکل عوامی کردار رکھتے ہیں اور ملک کے دوسرے نوابوں اور نوابزادوں کو چاہیے کہ وہ ان کے نقش قدم پر چلیں۔‘‘ (6 دسمبر 1934ء، مسلم لیگ کا اجلاس ،منعقدہ کراچی

Liaquat Ali Khan


 


ملالہ: نوبل انعام......ملالہ کی متنازعہ شخصیت .....

0
0


بچیوںکی تعلیم کے لیے جدوجہد کرنے والی 17 سالہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی نے امن کا نوبل انعام جیت لیا۔ پاکستان کی تاریخ میں ملالہ نوبل انعام حاصل کرنے والی دوسری شخصیت جب کہ دنیا بھر میں سب سے کم عمر نوبل انعام حاصل کرنے والی شخصیت بن گئی۔

ملالہ کو یہ ایوارڈ بھارت سے تعلق رکھنے والے ’’کلاش ستیارتھی‘‘ کے ساتھ مشترکہ طور پر دیا گیا ہے۔ ملالہ کو ملنے والے اس ایوارڈ کی وجہ سے اسے دنیا بھر میں غیرمعمولی شہرت حاصل ہوئی، لیکن ملالہ کو اصل شہرت اس وقت ملی جب اس نے بی بی سی کے ایک پروگرام میں گل مکئی کے فرضی نام سے اپنی ڈائری تحریر کرنا شروع کی (جس میں اس کے سیکولر نظریات نمایاں تھے) یہ زمانہ تھا جب سوات میں طالبان سرگرمِ عمل تھے اس دوران ملالہ ایک حملے میں شدید زخمی ہوجاتی ہے۔ یہ واقعہ سوات میں فوجی آپریشن کے دوران پیش آیا تھا۔ اس واقعے کی وجہ سے ملالہکو دنیا بھر میں غیرمعمولی پذیرائی حاصل ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ملالہ کو نئی زندگی عطا فرماتے ہیں۔ اس دوران ملالہ اور اس کا خاندان مستقل طورپر برطانیہ منتقل ہو جاتا ہے۔ اپنے قیام کے دوران ملالہ یوسف “I Am Malal” کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کرتی ہے۔ اس کتاب میں موجود مواد نے ملالہ کی شخصیت کو مزید متنازعہ بنا دیا۔

ملالہ کو نوبل انعام ملنے کے بعد ایک طالبہ کی حیثیت سے مجھے بھی شوق ہوا کہ اس کتاب کا مطالعہ کروں اور اس پر تبصرہ کروں:
“I Am Malal” انگریزی زبان کی یہ کتاب برطانیہ سے شائع کی گئی ہے۔ یہ کتاب 276 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے پبلشر “Weidenfeld And Nicolson London” ہیں۔ اس کتاب کو تحریر کرنے میں برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب نے ملالہ کی مدد کی ہے۔ ملالہ کی اس کتاب پر مختلف تبصرے اور تجزیے مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔

اس کتاب اپنا تبصرہ پیش کرنے سے پہلے میں اپنا تعارف کروانا چاہوں گا۔ میرا نام عائشہ منصور خان ہے۔ میں ایک نجی اسکول میں آٹھویں جماعت کی طالبہ ہوں میری عمر چودہ سال ہے۔ انگلش فکشن کے ساتھ ساتھ دینی کتب اور اخبارات و رسائل کا مطالعہ کرنا میرا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اس کتاب کے چھ باب ہیں، اس کے سرورق پر ملالہ یوسف زئی کے ساتھ کرسٹینا لیمب کا نام بھی موجود ہے۔ کرسٹینالیمب برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز سے منسلک ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ ملالہ نے اپنے ترجمان کے طور پر ایک ایسی شخصیت کو ہی کیوں منتخب کیا جس کے پاکستان اور اسلام کے متعلق منفی نظریات کے بارے میں میڈیا سے باخبر رہنے والے ہر فرد کو علم ہے۔

اس کتاب کے پہلے باب میں سوات کے معاشرے اس کی تہذیب و ثقافت، رہن سہن اور وہاں کے خوبصورت مناظر کیبارے میں ملالہ نے اپنے خیالات کا اظہارجس انداز سے کیا ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سوات پھولوں، دریائوں اور پہاڑوں کی سرزمین ہے جہاں کے لوگ محنتی، جفاکش اور مہمان نواز ہیں۔ سوات پاکستان کا ایک خوبصورت شہر ہے جہاں نہ صرف ملک کے طول و عرض سے لوگ تفریح کرنے کے لیے آتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ غیرملکی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد بھی تفریح کی غرض سے سوات کا دورہ کرتی ہے۔ میں نے بھی کچھ عرصہ قبل اپنے خاندان کے ساتھ تفریح کے لیے سوات کا دورہ کیا تھا اور اب ملالہ کی اس کتاب کا مطالعہ کیا تو مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ ملالہ نے سوات کے حوالے سے ایک منفرد حقیقت کو بڑی خوبصورتی سے نظر انداز کیا ہے۔

اپنے سوات کے دورے کے دوران ایک طرف جہاں وہاں کی خوبصورتی نے مجھے بہت مسحور کیا وہیں اس بات نے بھی مجھے بہت زیادہ متاثر کیا کہ وہاں کے لوگ خوبصورت اور بااخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ دین کے بھی بہت زیادہ قریب ہیں۔ مردوں کی کثیر تعداد باجماعت نماز پڑھتی ہے، اکثر مرد حضرات کے چہرے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مزین اور باریش ہیں۔ سوات کی عورتیں اور بچیاں اپنے گھر سے باہر باپردہ نظر آتی ہیں۔ لیکن ملالہ کی کتاب میں سوات کے ماحول کے حوالے سے ہر جگہ مجھے پڑھ کر یہ محسوس ہوا کہ وہاں کا مذہبی ماحول ملالہ کو ناگوار گزرتا ہے۔ یا وہ بڑی اکتاہٹ کا اظہار کرتی نظر آتی ہے۔ لیکن جہاں تک میری رائے کا سوال ہے تو مجھے سوات کے لوگوں میں واضح طور پر ایک مذہبی رجحان اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے محبت نظر آئی۔

نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت بلکہ عشق ہم پر فرض ہے اور یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ جب بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہم تحریر کریں گے تو لازماً صلی اللہ علیہ وسلم یا انگریزی میں (P.B.U.H) ضرور تحریر کریںگے۔ ملالہنے اپنی کتاب میں کئی جگہوں پر پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا ہے لیکن ایک جگہ پر بھی صلی اللہ علیہ وسلم (P.B.U.H) لکھنے کی زحمت نہیں کی حالانکہ اسے یہ معلوم ہونا چاہییکہ اس بات کا حکم قرآن پاک میں خود اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور نواسہ رسول حضرت امام حسینؓ کا ذکر بھی ملالہ نے ایک عام انسان کے انداز میں کیا ہے۔ انکے نام کے ساتھ بھی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر نہیں کیا ہے، یہ سراسر بے ادبی اور بدتہذیبی نہیں تو اور کیا ہے؟

اپنی کتاب میں ملالہ اپنے والد کے نظریات و خیالات سے بے حد متاثر نظر آتی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ “I Am Malal” نامی کتابملالہ یوسف زئی سے زیادہ ضیاء الدین یوسف زئی کے خیالات کی عکاسی کرتی ہے اور کتاب میں بہت سے جگہوں پر اپنے والد کے حوالے سے جو واقعات ملالہ نے درج کیے ہیں وہ اس کے والد کی لادین سوچ کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر کتاب میں ملعون سلمان رشدی کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تحریر کی گئی توہین آمیز کتاب “The Satanic Verses” کے بارے میں اپنے والد کے حوالے سے ملالہ تحریر کرتی ہے کہ ’’یہ کتاب میرے والد نے پڑھی ہے لیکن وہ اظہار رائے کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں اور یہ کہ میر امذہب اتنا کمزور نہیں کہ آزادی اظہار رائے کو برداشت نہ کر سکے‘‘۔ ملالہ کے والد کا اصرار کہ یہ آزادی اظہار رائے ہے اور ہمیں اسے برداشت کرنا چاہیے اور وہ قانون توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی غلط تصور کرتے ہیں لیکن انہیں یہ بات شاید معلوم نہیں کہ کوئی مسلمان عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر مکمل مسلمان نہیں ہو سکتا اور کوئی توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم برداشت نہیں کر سکتا۔

ملالہ نے اپنی کتاب میں قادیانیوں کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’احمد اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن حکومت انہیں غیر مسلم قرار دیتی ہے‘‘ ملالہ شاید اتنا بھی نہیں جانتی کہ قادیانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی ماننے سے انکار کرتے ہیں اس لیے وہ مسلمان کہلائے جانے کے ہرگز مستحق نہیں ہیں۔ اس کتاب میں مصنفہ نے کربلا کے واقعہ اور حضرت امام حسینؓ کی شہادت کیواقعے کو بڑے سطحی انداز میں تحریر کیا ہے حالانکہ کربلا کا واقعہ ہمارے ایک واقعہ نہیں بلکہ عظیم پیغام ہے کتاب میں تحریر ہے کہ ’’جس طرح لوگ محرم میں ماتم کرتے ہیں اور سوگ کی مجالس کا انعقاد کرتے ہیں لگتا ہے کہ یہ واقعہ کل رات کی بات ہے۔‘‘ صفحہ نمبر 76 پر کتاب میں تحریر ہے:

“He gets so emotional you would think the events had happened just the night before, not more then 1,300 years ago”

ملالہ نے اپنی کتاب میں کئی جگہوں پر اسلامی احکامات کا مذاق اڑایا ہے خاص طور پر پردے کے بارے میں اکثر جگہوں پر اپنا ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ صفحہ نمبر 55 پر ملالہ تحریر کرتی ہے: ’’سوات میں طالبان کے آنے کے بعد عورتوںکو برقعہ پہننے پر مجبور کیا جاتا، ایسا برقعہ جو کپڑے کی بنی ہوئی شٹل کاک جیسا ہوتا ہے جس میں آنکھوںکے سامنے دیکھنے کے لیے جالی ہوتی اور گرمیوںمیں یہ برقعہ تندور کی طرح گرم ہو جاتا۔‘‘
اپنے والے کے حوالے سے ایک جگہ لکھتی ہے کہ:

میرے والد ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ پردہ نقاب میں نہیں، پردہ دل میں ہوتا ہے۔ اگر پردل دل میں ہوتا ہے تو پھر اللہ تعالی قرآن میں پردے کو فرض قرار دے کر تمام مسلمان عورتوںکو باپردہ گھروں سے باہر نکلنے کی ہدایت کیوں دی؟
ملالہ اپنی کتاب میں پردے کے حوالے سے متعدد جگہوں پر ناگواری اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتی ہے باوجود اس کے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو بڑی سی چارد سے ڈھکے رہتی ہے یہی نہین بلکہ میرے خیال میں سوات کی عورتوں میں پردہ کو ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے، پردہ درحقیقت وہاں کی ثقافت ہے۔ ملالہ کی کتاب میں جنرل ضیاء الحق کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتی ہے:

وہ ڈرائونی شکل کا آدمی تھا اس کے گہرے کالے حلقے تھے اس کے لمبے دانت لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے تھے۔

کسی سے سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن اپنی تحریر و تقریر میں کسی شخص کی شکل کا مذاق اڑانا بہت زیادہ غیر اخلاقی بات ہے بلکہ گناہ ہے کیونکہ انسان کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے کی ہے اور خود قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعاولیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
’’ہم نے انسان کو بہترین صورت میں تخلیق کیا‘‘

اللہ کی تخلیق کی ہوئی شکل کا مضحکہ اڑانا، برقعہ جو ایک مسلمان عورت کی پہچان ہے کو ’’گرم تندور‘‘ کہنا داڑھی جو کہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کو ’’لائنٹین‘‘ سے تشبیہہ دینا، مردوں کی ٹخنوں سے اوپر شلوار کو مذاق اڑانا، ایسی اور اس جیسی بے شمار احمقانہ باتوں سے ملالہ کی کتاب بھری ہوئی ہے۔
میں نے جوںجوں ملالہ کی کتاب کا مطالعہ کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ اس کتاب میں صرف اسلام کے حوالے سے ہی غلط باتیں نہیں کی گئیں بلکہ پاکستان کے خلاف بھی بہت سا مواد شامل ہے۔ کتاب کے صفحہ 45 پر تحریر ہے:

پاکستان کے پچاس سالہ جشن آزادی کے موقع پر ملالہ کے والد اور ان کے دوستوں نے بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھی تھیں کیونکہ ان کے خیال میں سواتکو پاکستان میں شامل کرنے سے لوگوں کوکچھ حاصل نہیں ہوا۔

اسی طرح پاکستان کے ایٹمی دھماکوںکے بارے میں ناپسندیدگی کے اظہار کے ساتھ ایک جگہ ملالہ کے حوالے سے تحریر ہے کہ:
آج کل کے حالات میں ہم متحدہ ہندوستان میں رہتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔

یعنی ایک ایسی لڑکی جس کے والد نے پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریبات یوم احتجاج کے طور پر منائی ہو اور جو خود متحدہ ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دے وہ کیسے پاکستان کی بیٹی کہلانے کی مستحق ہو سکتی ہے؟

دوسری طرف وہ بیرون ملک رہ کر اسی پر پاکستان کی شناخت کے ساتھ انعامات و ایوارڈ وصول کر رہی ہے کیا یہ تضاد نہیں ہے؟

کتاب پڑھ کر تبصرہ کرنا میرا حق تھا، سو میںنے کیا، لیکن اس کیعلاوہ مجھے ذاتی طور پر ملالہ سے کوئی عناد نہیں۔جیسے میں ایک مسلمان پاکستانی طالبہ ہوں ویسے وہ بھی ہے اور اسی حیثیت سے میں اپنی بہن ملالہ یوسف زئی کو یہ مشورہ دوں گی کہ زندگی گزارنے کے لیے اسلام سے بہتر دنیا میں کوئی دین نہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’یہود و نصاریٰ کبھی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے‘‘ لہٰذا اس حقیقت کو تسلیم کرو اور مغرب کے کمزور سہاروں سے پیچھا چھڑائو۔ اپنے آپ کو اپنے اہل خانہ کو ان کے شر سے بچائو اور اپنی کتاب میں موجود اسلام کے حوالے سے غلط باتوں پر اپنے رب کے حضور دل سے معافی مانگو کیونکہ اللہ توبہ قبول کرنے والا اور بڑا رحیم ہے۔

عائشہ منصورخان

Malala Noble Prize

ایبولاوائرس… خطرناک صورت حال.....

0
0


مغربی افریقی ممالک سیرالیون،گنی اور لائبیریا سے پھیلنے والا جان لیوا، خطرناک وائرس ایبولا اب آہستہ آہستہ نہیں بلکہ بڑی تیزی کے ساتھ دنیا میں پھیل رہا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے خبردار کیا ہے کہ ایبولا وائرس سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کے دارالحکومتوں میں جڑیں پکڑ چکا ہے۔ اس پر پوری دنیا میں تشویش ہے۔ امریکہ کے صدر بارک اوباما نے ایبولا وائرس کے پھیلاؤ کو ’’عالمی امن کے لیے خطرہ‘‘ قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں ایبولا مشن کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ایبولا وائرس سے مقابلے میں دنیا پیچھے رہ گئی ہے کیونکہ رواں سال دسمبر تک اس کے ہزاروں نئے واقعات سامنے آنے کا خدشہ ہے۔مشن کے سربراہ اینتھنی بین بری نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ ’وہ (ایبولا) ہم سے تیز دوڑ رہا ہے اور ریس جیت رہا ہے۔

عالمی ادارے کے نائب سربراہ آئلوارد کاکہنا ہے کہ ایبولا سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر ردعمل بگڑتی ہوئی صورت حال کے مطابق نہیں ہے۔ متاثرین میں سے 70فیصد افراد مر رہے ہیں ۔ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ابھی مجموعی طور پر دنیا بھر میں اس سے متاثر افراد کی تعداد 8914 ہے جب کہ کم از کم 4447 افراد اس کے ہاتھوں ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان میں سے 4024 ہلاکتیں مغربی افریقی ملکوں گنی، لائبیریا اور سیرالیون میں ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ نائیجیریا، سینیگال، اسپین اور امریکہ میں بھی اس مرض کے کیس درج کیے گئے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق ماضی میں پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں بھی اس وائرس سے لوگ متاثر ہوچکے ہیں ۔ امریکہ نے اپنے 4000 فوجی متاثرہ خطے میں بھجوانے کا اعلان کیا ہے جبکہ برطانیہ 750 فوجی اہلکار سیرالیون بھجوا رہا ہے۔ 

ایبولا وائرس آنے سے دنیا بھر میں چاکلیٹ کی سپلائی کے لیے خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ آئیوری کوسٹ جو دنیا میں کوکا پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، اس نے لائبیریا اورگِنی کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کرلی ہیں۔ دنیا بھر کے چاکلیٹ بنانے والی کمپنیاں تشویش کا شکار ہیں اس ضمن میں ورلڈ کوکا فائونڈیشن اب نیسلے، مارس اور دیگر ممبران سے اس کی کوکا انڈسٹری کے لیے فنڈ اکٹھا کررہی ہے تاکہ ایبولا کے خلاف پہلا قدم اٹھایا جا سکے۔19 ستمبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مغربی افریقہ میں ایبولا وائرس کے پھیلاؤ کو ’’عالمی امن اور سیکورٹی کے لیے خطرہ‘‘ قرار دیا تھا۔

 صحت سے متعلق امریکی ایجنسی کے مطابق اگر وائرس کو روکنے کے لیے اقدامات تیز نہیں کیے گئے تو آئندہ سال جنوری تک متاثرین کی تعداد 14 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔این آئی بی ڈی کے سربراہ ڈاکٹر طاہرشمسی کا کہنا ہے کہ وائرس کے پاکستان میں پہنچنے کے امکانات موجود ہیں اور ائیر پورٹ پر افریقہ سے آنے والے مسافروں کی چیکنگ کی جانی چاہئیے اور کسی مسافر کو بخار ہو تو متعلقہ اداروں کو اطلاع دینی چاہئیے ۔ پاکستان کے صدر ممنون حسین نے ملک میں ایبولا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ صدر مملکت نے ہدایت کی ہے کہ تمام صوبے ایبولا وائرس کی ادویات وافر مقدار میں اسٹاک کریں اور ہسپتالوں میں ایبولا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لیے وارڈ بھی مخصوص کیا جائے۔

اب سوال یہ ہے کہ ایبولا وائرس کیا ہے؟ یہ مرض 1976ء میں سب سے پہلے سوڈان میں ظاہر ہوا تھا، اور 2013ء تک اس کے صرف 1716 واقعات سامنے آئے تھے۔ایبولا وائرس کا نام افریقی دریا کانگو سے پڑا ہے جسے فرنچ میں ایبولا کہتے ہیں۔ یہ انسانوں اور جانوروں میں پایا جانے والا ایک ایسا مرض ہے جس کے شکار افراد میں دو سے تین ہفتے تک بخار، گلے میں درد، پٹھوں میں درد اور سردرد جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور وہ قے، ڈائریا اور خارش وغیرہ کا شکار ہوجاتے ہیں، جبکہ جگر اور گردوں کی کارکردگی بھی گھٹ جاتی ہے۔ مرض میں شدت آنے کے بعد جسم کے کسی ایک یا مختلف حصوں سے خون بہنے لگتا ہے اور اُس وقت اس کا ایک سے دوسرے فرد یا جانور میں منتقل ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ 

درحقیقت اسے دورانِ خون کا بخار بھی کہا جاتا ہے، اور جب خون بہنے کی علامت ظاہر ہوجائے تو مریض کا بچنا لگ بھگ ناممکن سمجھا جاتا ہے۔ مگر صرف خون نہیں بلکہ پسینے، تھوک اور پیشاب سمیت جسمانی تعلقات وغیرہ سے بھی یہ ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوجاتا ہے، مریض کے زیراستعمال سرنج کا صحت مند شخص پر استعمال اسے بھی ایبولا کا شکار بناسکتا ہے۔ 

کہا جاتا ہے کہ چمگادڑوں اور پھر بندروں اور گوریلوں کے ذریعے یہ افریقہ میں پہلے جانوروں اور اُن سے لوگوں میں پھیلنا شروع ہوا، اور ایبولا کے شکار افراد کی بڑی تعداد ایک ہفتے میں ہی دنیا سے چل بستی ہے۔وہ چیزیں جو ایبولا کا سبب نہیں بنتیں ان میں ہوا، پانی، خوراک، مچھر یا دیگر کیڑے شامل ہیں۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ مریض کی چھوئی ہوئی اشیاء سے یہ مرض کسی اور میں منتقل ہوسکتا ہے۔ نہ ہی متاثرہ ممالک سے آنے والے طیاروں کے ذریعے یہ کسی اور ملک میں پہنچ سکتا ہے۔ یہ فلو، خسرہ، ٹائیفائیڈ یا ایسے ہی عام امراض کی طرح نہیں ہے۔ اس کا بہت کم امکان ہوتا ہے کہ یہ کسی وبا کی طرح ایک سے دوسرے براعظم تک پھیل جائے۔ تاہم متاثرہ علاقوں سے آنے والے افراد اگر اس کا شکار ہوں تو وہ ضرور کسی ملک میں اس کے پھیلائو کا سبب بن سکتے ہیں۔ اور اسی خطرے کے ساتھ یہ مرض اب پھیل رہا ہے ‘جس کے لیے دنیا میں تشویش بھی ہے اور اس کی روک تھام کے لیے اقدامات بھی کیے جارہے ہیں۔ 

اگرچہ ابھی تک اس کا کوئی مؤثر علاج دستیاب نہیں، تاہم بیمار افراد کو ہلکا میٹھا یا کھارا پانی پلاکر، یا ایسے ہی سیال مشروبات کے ذریعے کسی حد تک بہتری کی جانب لے جایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی تکلیف کم کرنے کے لیے بلڈ پروڈکس، ڈرگ تھراپی، ایمیون تھراپی بھی کی جاتی ہے۔ اب تک اس کی کوئی ویکسین دنیا کی کسی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔ دو ویکسین پر کام ہورہا ہے اور وہ تجربات کے مراحل سے گزر رہی ہیں۔ اب اس ویکسین کی تیاری کے لیے کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ہر چند سال کے بعد براعظم افریقہ سے ایک وائرس وبا کی صورت میں کیوں پھلتا ہے اور وہ پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے کہ اس سے بڑا دنیا کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے کیا یہ اتنی ہی سادہ سی بات ہے یا بڑی عالمی قوتوں نے افریقہ کے جنگلات کو اپنی تجربہ گاہ میں تبدیل کردیا ہے جس کا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑرہا ہے۔

ایبولا وائرس کی تیاری میں امریکہ ملوث ہے؟

اخبار ’ڈیلی آبزرور‘ نے بعض دستاویزات اور ثبوتوں کی بنیاد پر ایبولا وائرس کو وجود میں لانے اور اس کے پھیلاؤ کا ذمے دار امریکہ کو قرار دیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق امریکہ نے ’’سمجھوتہ دو سو‘‘ کے کوڈ نیم کے ساتھ براعظم افریقہ میں خفیہ آپریشن کرتے ہوئے مہلک وائرس ایبولا کو وجود میں لانے اور اس کے پھیلاؤ کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا۔

لائبیریا سے تعلق رکھنے والے پروفیسر سرل بروڈریک نے اپنے مقالے میں لکھا ہے کہ مہلک وائرس ایبولا کو امریکہ کی ایک فوجی اور صنعتی کمپنی 1975ء میں اُس وقت کی جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے تعاون سے وجود میں لائی۔ اس کے بعد سے امریکی وزارت دفاع اس وائرس کو ایک جراثیمی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ پروفیسر سرل بروڈریک کے مطابق امریکہ نے 1975ء میں جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کی مدد کے ساتھ ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو میں، کہ اُس وقت جس کا نام زئیر تھا، خفیہ طور پر ایبولا کا پہلا مہلک وائرس تیار کیا۔ اس کے بعد اس مہلک اور خطرناک وائرس کو لیبارٹری میں وجود میں لایا گیا اور اس کی replication کی گئی۔ اور امریکی وزارت جنگ نے براعظم افریقہ کی سیاہ فام آبادی میں کمی کے لیے اس وائرس کو حربے کے طور پر استعمال کیا۔ میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی تحقیقات سے بھی پروفیسر سرل بروڈریک کے دعوے کی تصدیق ہوتی ہے۔ 1976ء میں زئیر کے ایک دریا کے مضافاتی علاقے میں پہلی مرتبہ ایبولا وائرس کا پتا لگایا گیا۔ پروفیسر سرل بروڈریک نے اپنے دعوے کے اثبات کے لیے کتاب ’’حساس علاقہ‘‘ کا حوالہ دیا ہے جسے 1998ء میں تحریر کیا گیا۔ اس کتاب میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ امریکہ کی صنعتی، فوجی اور طبی کمپنیوں نے کس طرح امریکہ کے اتحادی بعض افریقی ممالک کے تعاون کے ساتھ امریکہ کی قومی سیکورٹی سے متعلق معلومات کے تحفظ کے لیے خفیہ جراثیمی کارروائیوں کا آغاز کیا۔ یہ بات مسلّم ہے کہ ’’سمجھوتہ دو سو‘‘ کے کوڈ نیم سے انجام پانے والی خفیہ کارروائی کا مقصد وسیع و عریض براعظم افریقہ کے باشندوں کی آبادی میں کمی اور نسل کشی کے سوا کچھ اور نہیں تھا۔

٭٭٭ ایبولا…قاتل وائرس کی پاک افغان
سرحد پرموجودگی کی اشاعت

برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف میں 4 اپریل 2001 ء میں ٹم بوچر کے مضمون میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ’’ایبولا‘‘ وائرس پاکستان افغان سرحد پر موجود ہے۔ ٹم بوچر نے یہ رپورٹ کوئٹہ سے لکھی تھی۔

ڈاکٹر فریحہ عامر

Ebola Virus in West Africa

عالم باعمل ... مو لا نا مفتی محمود.....

0
0


مفکر اسلام مولانا مفتی محمود کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ علمی حلقے ہوں یا سیاست کی پرخاروادیاں ،درس و تدریس کا میدان ہو یا انتظامی و ملی امور، اتحاد امت کا سٹیج ہو یا ختم نبوت کا گراں قدر محاذ آپ کا نام روز روشن کی طرح عیاں ہے اور تا ابد رہیگا ۔ مفتی محمودصاحب ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور ایسی شخصیت تھے، جو اپنی ذات میں کی انجمنوں اور تحاریک کو سموے ہوے تھی۔ آپ واقعی اسم بامسمیٰ تھے۔ مفتی صاحب بیک وقت ایک محقق عالم دین ،بہترین استاد ، مدبر سیاستدان، بیدار مغزعالم مفتی، حق گوخطیب اور شب زندہ دارعارف باللہ تھے اور یہ القاب صرف فصاحت و بلاغت کی نظیر نہیں بلکہ حقیقت ہیں۔ 

علم کا یہ عالم تھا کہ بخاری شریف کی مشکل مباحث کو منٹوں میں حل کرنا آپ کا خاصہ تھا،فخرالسادات ،مجاہد ختم نبوت مولانامحمد انورشاہ کشمیری ؒکے مایہ ناز شاگرد حضرت مولانا محمد یوسف بنوری فرماتے ہیں کہ ایک بار مفتی صاحب جامعہ بنوری ٹاؤن تشریف لائے، اتفاقاً درس بخاری کا پیریڈ تھا ،میں نے حضرت مفتی صاحب سے درخواست کی کہ آج آپ نے بخاری شریف کا درس دینا ہے ۔ مفتی صاحب نے بخاری شریف جا کر کھولی اور یوں حدیث شریف کی تشریح کی اور علمی تقریر فرمائی کہ میں حیران رہ گیا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا ،جیسے وقت کے ابن حجر عسقلانی تشریف فرما ہیں اور ایسی باتیں مجھے سننے کو ملیں کہ جو اس سے پہلے کبھی نہ سنیں جبکہ یہ بخاری شریف کا ایک مشکل مقام تھااور دلچسپ بات یہ کہ آپ ایک جلسے سے فارغ ہوکر تشریف لائے تھے۔ 

تیاری کا موقع بھی نہ مل سکا۔ بس اس واقعہ نے مفتی صاحب کا علمی مقام جو کہ میری نگاہ میں پہلے کا بلند تھااور بلند کر دیا جوں حضرت مفتی صاحب کی تقریر بخاری میںاضافہ ہوتا جاتا ساتھ ہی مفتی صاحب کا قد کاٹھ بھی علمی میدان میں بلند ہوتاجاتا،درس و تدریس کا یہ عالم تھاکہ بیک وقت موضوع کے متعلق تفسیر و حدیث ،فقہ و لطائف ومعانی،فصاحت و بلاغت ،فلسفہ و کلام سے مثالیں دے کر دلائل کے انبار لگا دیتے۔ مولانا منظور احمد فرماتے ہیں کہ حضرت مفتی صاحب کو ویسے تو تمام علوم پر عبور تھا،مگر حدیث اور فقہ پر بھی گہری نظر تھی ۔

قاسم العلوم ملتان میں انہوں نے تقریبا 25 برس تک بخاری و ترمذی شریف کا درس دیا۔دوران درس پیجیدہ اور مشکل ترین مباحث کو آسان انداز میں پیش فرماتے تھے۔ مدبر سیاستدان ہونے کی یہ حیثیت تھی کہ ملک پاکستان جو خالصتا لا الہ الااللہ محمدرسول اللہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا، تو سیکولر ذہنیت کے حاملین نے شروع سے ہی آئین میں اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کی کوشش کی ،تو علامہ شبیر احمد عثمانی کے بعد جس شخصیت نے آئین ِ پاکستان کو اسلامی آئین کے قالب میں ڈھالنے کا کردارادا کیا، وہ شخصیت مفتی صاحبؒ کی ہی تھی۔ 1973ء کا آئین آپ کی ہی جہد و مساعی کا ثمر ہے جب کہ دیگر اہل علم حضرات آپ کے شانہ بشانہ رہے اوراس آئین نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر چور دروازے کے ذریعے آنے والوں کے سارے راستے بند کردیئے ہیںاور پھر نو ماہ سرحد کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز رہ کر دنیا کو دکھا دیا کہ ایک عالم دین تم سے بہتر نظام چلانا جانتا ہے اور درویشی کا یہ عالم ہے کہ وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود دال اور ساگ کے ذریعے زندگی گزاری جا رہی ہے۔ حالانکہ چاہتے تو عمدہ قسم کے کھانوں سے دسترخواںسج سکتا تھا ،لیکن آپ کے سامنے عمرثانی حضرت عمر بن عبدالعزیز کا اسوہ تھا کہ ہزاروں مربع میل کے حکمران ہیں، لیکن عید کے دن اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ کچے پیاز سے روٹی کھائی جارہی ہے۔ 

مفتی محمود صاحب نے بھی بیت المال کو اپنی ذاتی جاگیر نہ سمجھا بلکہ عوام کا حق سمجھ کر انہی پر لٹایا اور خود ایک پائی تک نہ لی اور فقط تنخواہ پر گزارہ کیا اور پھر وہ تنخواہ بھی آنے والے مہمانوں کی ضیافت پر صرف ہو جاتی اور جب وقت آیا ،تو وزرات کو بھی اصولوں کی خاطر لات ماردی اور بتادیا حقیقی بادشاہ اللہ کے غلام اور بندے دنیوی مناصب اور عہدوں کے محتاج نہیں ہوتے۔آپ بیدار مغز مفتی تھے۔ مسئلہ پر بیک وقت گرفت کرنا گویا آپ کی خاص پہچان تھی۔ مولانا مفتی محمد شفیع اور دیگر اہل علم حضرات سے فقہی مباحث پر ایسی مدلل و مفصل گفتگو ہوتی کہ بعض حضرات کوتو اپنے فتاویٰ سے رجوع کرنا بھی پڑ جاتاتھا،مناظرہ پر قدرت نے آپ کو ملکہ دیا ہوا تھا۔ عائلی قوانین کے سلسلے میں آپ کی گفتگو پاکستان کی تاریخ کا ایک لازوال حصہ ہے۔ 1947ء میں کذاب اکبر مرزا غلام احمد قادیانی کا وارث مرزا ناصر اسلامی لباس کا لبادہ اوڑھ کر اسمبلی میں آیا، تو اسمبلی کی اکثریت اس سے متاثر ہوگئی، لیکن جب مفتی محمود نے لگاتار گیارہ دن مرزا ناصر سے جرح کی ،تو اس جرح نے مرزا ناصر کو تارے دکھائے، وہیں ممبران اسمبلی کی آنکھیں کھول دیں اوروہ کہنے لگے کہ مفتی صاحب آپ کی وجہ سے ہمارا عقیدہ مضبوط ہوگیا،دیگر علماء کرام کے ساتھ مفتی صاحب کی ہی یہ مناظرانہ جدوجہد تھی کہ مرزائی غیر مسلم قرار پائے اور7 ستمبر1974ء پاکستان کی تاریخ میں وہ تاریخ ساز دن کہلایا جب سچے نبی ﷺ کی ختم نبوت کا پرچم قومی اسمبلی میں بھی لہرایا گیا اور حضور ﷺ کے بعد ہر شحض کو جو دعوی نبوت کرے یا اس جھوٹے مدعی نبوت کی تائید کرے اسکو کافر قرار دیا گیا۔ شب زندہ داری کا یہ عالم تھا کہ سیاست کی پر خارواری اور جاہ و منصب کا رنگ بڑوں بڑوں کو ڈگمگا دیتا ہے، لیکن وزیراعلیٰ کی زبان سبحان ربی الاعلیٰ کے ترانے سے ہمیشہ معطر رہی ،دن کو ممبران اسمبلی اور دیگر شخصیات کو نماز کی امامت کروائی تو رات کو تہجد کے وقت مصلے پر آنسو بہاکر اپنے رب کو راضی کیا،ایسے عظیم لوگ مائیں کم ہی جنم دیا کرتی ہیں۔ 

چنانچہ اس تقوی و للہیت اور دینی خدمات کا اللہ تعالی نے ثمر یہ دیا کہ علمی مرکز جامعہ بنوریہ میںمسئلہ دین پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے پاس بلالیا، وہ شخصیت جن کی ساری زندگی قال اللہ وقال الرسول میںگزری آخری وقت بھی ان کی زبان پر اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کا مبارک نام ہی تھا۔

حافظ حسین احمد

Mufti Mahmood - Father of Maulana Fazalur Rehman

ڈھائی کروڑ پاکستانی بچے تعلیم کے حق سے محروم........

0
0


پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والی تنظیم الف اعلان نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے تعلیم کے حق سے محروم ہیں جن میں 50 فیصد سے زیادہ کا تعلق پنجاب سے ہے۔
الف اعلان کی تعلیم کے لیے مہم کے سربراہ مشرف زیدی نے ہمارے ساتھی ظہیرالدین بابر سے اپنی تازہ رپورٹ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں پانچ سے 16 سال عمر کے بچوں میں سے صرف دو کروڑ 70 لاکھ بچے سکول جا رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’سکول جانے والے بچوں میں زیادہ تر ریاستی اداروں میں پڑھ رہے ہیں لیکن بڑھتی ہوئی تعداد نجی اداروں میں پڑھ رہی ہے اور اس میں وہ بچے بھی شمار کیے گئے ہیں جو مدرسوں میں پڑھ رہے ہیں۔‘
مشرف زیدی نے سکول نہ جانے والے بچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بھی ایک بڑی تعداد ہے۔
’ایک بڑی تعداد ان کی ہے جو پیچھے رہ گئے ہیں اور سکول نہیں جاتے وہ تقربیاً ڈھائی کروڑ بچے ہیں۔‘

ایک بڑی تعداد ان کی ہے جو پیچھے رہ گئے ہیں اور سکول نہیں جاتے وہ تقریباً ڈھائی کروڑ بچے ہیں۔ یہ بچے کسی طرح کے سکول میں نہیں جا رہے۔ نہ وہ مدرسے میں ہیں، نہ سرکاری سکول میں اور نہ نجی سکول۔ وہ کسی طرح کے سکول میں نہیں جا رہے۔مشرف زیدی

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بچے کسی طرح کے سکول میں نہیں جا رہے۔ نہ وہ مدرسے میں ہیں، نہ سرکاری سکول میں اور نہ نجی سکول۔ وہ کسی طرح کے سکول میں نہیں جا رہے۔ یہ بچے سکول سے باہر ہیں۔‘
انھوں نے پنجاب میں تعلیم کی صورتِ حال کے بارے میں کہا کہ پچھلی کئی دہائیوں سے یہاں پالیسی، فنڈز اور توجہ کا فقدان رہا ہے۔ اب حالات قدرے بہتر ہیں۔

مشرف زیدی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’جس ملک میں پانچ سے 16 کے درمیان کے بچے سکول نہ جا رہے ہوں تو آج سے دس سے کے بعد کا سوچیے کہ آج جو دس سال کا بچہ ہو وہ دس سال بعد 20 سال کا ہوگا اور وہ سکول نہ گیا ہو اس کے پاس کوئی تعلیم نہ ہو اس کا مستقبل ہوگا۔

’جو بچے سکول نہ گئے ہوں اور پڑھ لکھ نہ پائے ہوں تو ان کا کیا چانس ہے کہ وہ زندگی میں کسی کے ساتھ مقابلہ کر پائیں گے اور اس ملک کا کیا چانس ہے بین الاقوامی طور پر جس ملک نے اتنے سارے بچوں کو اس طرح پالا ہو جو پڑھ لکھ نہ پائیں؟ 

یہ تو بہرحال ہونا ہی تھا.......

0
0


یہ تو بہرحال ہونا ہی تھا اور اگر یہ نہ ہوتا تو بہت پریشانی ہوتی۔
میری ایدھی صاحب سے پہلی ملاقات 2003ء میں کھارا در میں ہوئی‘ میں ان دنوں ’’سیلف میڈ کے نام سے سیلف میڈ‘‘ لوگوں پر ڈاکومنٹری فلمیں بنارہا تھا‘ یہ میری زندگی کے ان 98 ناکام منصوبوں میں سے ایک تھا جن پر میں نے بے تحاشا توانائی‘ وقت اور سرمایہ خرچ کیا‘ میں نے جن کے لیے دن رات ایک کر دیے تھے لیکن یہ اس کے باوجود ناکام ہو گئے اور میں نے جن سے یہ سیکھا‘ آپ پر جب تک اللہ تعالیٰ کا کرم نہ ہو اس وقت تک کھیت‘ پانی‘ بیج اور شاندار موسم کے باوجود آپ کے سٹوں میں دانا پیدا نہیں ہوتا۔

’’سیلف میڈ‘‘ بھی ایک ناکام منصوبہ تھالیکن یہ شروع میں شاندار اسپیڈ سے چل رہا تھا‘ آئیڈیا اچھا تھا‘پرائیویٹ میڈیا کو ابھی صرف ایک سال ہوا تھا‘ ٹیلی ویژن چینلز کو سافٹ ویئر درکار تھے‘ میرے پاس فرصت بھی تھی اور وسائل بھی۔ ٹیم بنائی‘ ملک کے 34ایسے لوگوں کی فہرست تیار کی جنھوں نے انتہائی نامساعد حالات میں آنکھیں کھولیں لیکن یہ شبانہ روز محنت کرتے ہوئے بین الاقوامی شخصیت بن گئے‘ عبدالستار ایدھی اس فہرست میں پہلے نمبر پر تھے‘ یہ آج بھی پہلے نمبر پر ہیں‘ آپ ملک میں نامور لوگوں کی کوئی فہرست بنائیں‘ آپ کے ذہن میں سب سے پہلے عبدالستار ایدھی کا نام آئے گا‘ یہ صرف ساڑھے پانچ فٹ کے 60 کلو وزنی انسان نہیں ہیں‘ یہ پاکستان کے آئفل ٹاؤر ہیں‘ یہ پاکستان کی مدر ٹریسا ہیں‘ دنیا میں جس طرح آئفل ٹاور کے بغیر پیرس اور مدر ٹریسا کے بغیر انڈیا کا تصور ممکن نہیں بالکل اسی طرح پاکستان عبدالستار ایدھی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
ہم لوگوں نے فہرست کے پہلے نام سے کام شروع کیا‘ میں کھارا در گیا‘ ایدھی صاحب سے ملاقات ہوئی‘ایدھی صاحب کے بدن پر سیاہ ملیشیا کے گھسے ہوئے کپڑے تھے‘ سر پر میلی ٹوپی تھی‘ پاؤں میں پلاسٹک کے سلیپرتھے‘ دانت میلے اور ہاتھ کالے تھے اور جسم سے پسینے کی بو آ رہی تھی‘ میں نے گفتگو شروع کی‘ معلوم ہوا ایدھی صاحب نے پوری زندگی مُردوں کے کپڑے اور جوتے پہنے‘ لواحقین مُردوں کی ذاتی اشیاء استعمال نہیں کرتے‘ یہ ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے ہیں‘ بیس سال قبل میٹھا در کا کوئی پٹھان فوت ہوا‘ اس کے گھر سے ملیشیا کے دو تھان نکلے‘ ایدھی صاحب بیس سال سے ان تھانوں کے کپڑے سلوا رہے ہیں‘ ایک جوڑا دو سال نکال جاتا ہے‘ سلیپر بھی مُردوں کے پہنتے ہیں اور ٹوپی بھی ایک نعش کا ورثہ تھی‘لوگ انھیں حاجی صاحب کہتے ہیں‘ ہفتے میں صرف ایک بار نہاتے ہیں‘ حاجی صاحب کا خیال تھا پانی قیمتی سرمایہ ہے۔
اسے نہانے میں ضایع نہیں کرنا چاہیے چنانچہ نہانے کے خلاف ہیں‘ گجرات کاٹھیاوار کے گاؤں بانٹوا میں پیدا ہوئے‘ ماں کی دوسری شادی تھی‘پہلے خاوند سے بھی بچے تھے‘ ماں کو ہمیشہ دکھی اور پریشان دیکھا‘ کراچی آ کر کپڑے کا کاروبار شروع کیا‘ کپڑا خریدنے مارکیٹ گئے‘ وہاں کسی شخص نے کسی شخص کو چاقو مار دیا‘ زخمی زمین پر گر کر تڑپنے لگا‘ لوگ تڑپتے شخص کے گرد گھیرا ڈال کر تماشہ دیکھتے رہے‘ وہ شخص تڑپ تڑپ کر مر گیا‘ نوجوان عبدالستار کے دل پر داغ پڑ گیا‘ سوچا معاشرے میں تین قسم کے لوگ ہیں‘ دوسروں کو مارنے والے‘ مرنے والوں کا تماشہ دیکھنے والے اور زخمیوں کی مدد کرنے والے‘ نوجوان عبدالستار نے فیصلہ کیا‘ میں مارنے والوں میں شامل ہوں گا اور نہ ہی تماشہ دیکھنے والوں میں‘ میں مدد کرنے والوں میں شامل ہوں گا‘ کپڑے کا کاروبار چھوڑا‘ ایک ایمبولینس خریدی‘ اس پر اپنا نام لکھا‘ نیچے ٹیلی فون نمبر لکھا اور کراچی شہر میں زخمیوں اور بیماروں کی مدد شروع کر دی‘ وہ اپنے ادارے کے ڈرائیور بھی تھے‘ آفس بوائے بھی‘ ٹیلی فون آپریٹر بھی‘ سویپر بھی اور مالک بھی‘وہ ٹیلی فون سرہانے رکھ کر سوتے تھے۔

فون کی گھنٹی بجتی‘ یہ ایڈریس لکھتے اور ایمبولینس لے کر چل پڑتے‘ زخمیوں اور مریضوں کو اسپتال پہنچاتے‘ سلام کرتے اور واپس آ جاتے‘ ایدھی صاحب نے سینٹر کے سامنے لوہے کا گلا رکھ دیا ‘ لوگ گزرتے وقت اپنی فالتو ریزگاری اس میں ڈال دیتے تھے‘ یہ سیکڑوں سکے اور چند نوٹ اس ادارے کا کل اثاثہ تھے‘ یہ فجر کی نماز پڑھنے مسجد جاتے تھے‘ یہ ایک صبح مسجد پہنچے‘ پتہ چلا کوئی شخص مسجد کی دہلیز پر نوزائیدہ بچہ چھوڑ گیا‘ مولوی صاحب نے بچے کو ناجائز قرار دے کر قتل کرنے کا حکم جاری کر دیا‘ لوگ بچے کو مارنے کے لیے لے جا رہے تھے‘ یہ پتھر اٹھا کر ان کے سامنے کھڑے ہو گئے‘ بچہ لیا اور بچے کی پرورش شروع کر دی‘ میرے کان میں بتایا ’’وہ بچہ آج کل ملک کے ایک بڑے بینک کا اہم افسر ہے‘‘ یہ نعشیں اٹھانے بھی جاتے تھے‘ پتہ چلا گندے نالے میں نعش پڑی ہے‘ یہ وہاں پہنچے‘ دیکھا لواحقین بھی نالے میں اتر کر نعش نکالنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ عبدالستار ایدھی نالے میں اتر گئے‘ نعش نکالی‘ گھر لائے‘ غسل دیا‘ کفن پہنایا‘ جنازہ پڑھایا اور اپنے ہاتھوں سے قبر کھود کر نعش دفن کر دی‘ بازار میں نکلے تو بے بس بوڑھے دیکھے‘ پاگلوں کو کاغذ چنتے دیکھا اور آوارہ بچوں کو فٹ پاتھوں پر کتوں کے ساتھ سوتے دیکھا تو اولڈ پیپل ہوم بنا لیا‘ پاگل خانے بنا لیے‘ چلڈرن ہوم بنالیے‘ دستر خوان بنا لیے اور عورتوں کو مشکل میں دیکھا تو میٹرنٹی ہوم بنا لیے‘ لوگ ان کے جنون کو دیکھتے رہے‘ ان کی مدد کرتے رہے‘ یہ آگے بڑھتے رہے ۔

یہاں تک کہ ایدھی فاؤنڈیشن ملک میں ویلفیئر کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا‘ یہ ادارہ 2000ء میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی آ گیا‘ ایدھی صاحب نے دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس بنائی تھی‘ عبدالستار ایدھی ملک میں بلاخوف پھرتے تھے‘ یہ وہاں بھی جاتے تھے جہاں پولیس مقابلہ ہوتا تھایا فسادات ہو رہے ہوتے تھے‘ پولیس‘ ڈاکو اور متحارب گروپ انھیں دیکھ کر فائرنگ بند کر دیتے تھے‘ ملک کا بچہ بچہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے بعد عبدالستار ایدھی کو جانتا ہے‘ یہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں‘ نام کے حاجی اور نام کے مولوی ہیں‘ یہ خدمت کو اپنا مذہب اور انسانیت کو اپنا دین سمجھتے ہیں‘ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں اور یہ لوگوں سے بھی شاکی ہیں‘ یہ ہر لحاظ سے فرشتہ صفت ہیں۔ میں پورا دن ایدھی صاحب کے ساتھ رہا‘ ہم نے اگلے ہفتے شوٹنگ شروع کی‘ تین دن ایدھی صاحب کے ساتھ رہے‘ ان کی تمام اچھائیاں کھل کر سامنے آ گئیں مثلاً ایدھی صاحب نے 2003ء تک گندے نالوں سے 8 ہزار نعشیں نکالی تھیں‘ انھوں نے 16 ہزار نوزائیدہ بچے پالے تھے‘ انھوں نے ہزاروں بچیوں کی شادیاں کرائی تھیں اور یہ اس وقت تک ویلفیئر کے درجنوں ادارے چلا رہے تھے۔

ہم جب بھی انھیں بازار یا سڑک پر لے کر جاتے تھے‘ لوگ ان کے ہاتھ چومتے تھے‘ عورتیں زیور اتار کر ان کی جھولی میں ڈال دیتی تھیں‘ ہمارے سامنے ایک نوجوان اپنی اکلوتی موٹر سائیکل انھیں دے کر خود وین میں بیٹھ گیا اور ایک دکان دار نے وہ موٹر سائیکل لاکھ روپے میں خرید لی‘ میں نے ایدھی صاحب کے ساتھ چار دن گزارے‘ وہ چار دن میری زندگی کا شاندار ترین وقت تھا‘ میں جب ان سے الگ ہونے لگا تو میں نے جھک کر ان کے پاؤں چھوئے‘ ایدھی صاحب نے مجھے کھینچ لیا‘ گلے لگایا‘ میرا ماتھا چوما اور جھولی پھیلا کر مجھے دعائیں دیں‘ میں آج بھی ان کی دعاؤں کو اپنا اثاثہ سمجھتا ہوں۔

یہ تھے عبدالستار ایدھی مگر ایدھی صاحب کے ساتھ کل 19 اکتوبر 2014ء کو کیا ہوا؟ 8 مسلح ڈاکوصبح10 بجے کھارا در ان کے دفتر داخل ہوئے‘ ایدھی صاحب کے سر پر پستول رکھا‘ ان سے کہا ’’ بڈھے تمہارے کلمہ پڑھنے کا وقت آ گیا‘‘ ایدھی صاحب کے لاکرز توڑے اور 5 کلو سونا اور کروڑوں روپے کی غیر ملکی کرنسی لوٹ کر لے گئے‘ ہمارے ملک میں روزانہ تین درجن بری خبریں جنم لیتی ہیں‘ ہم ان خبروں کو روٹین کی کارروائی سمجھ کر فراموش کر دیتے ہیں لیکن ایدھی صاحب کی خبر نے پورے ملک کو اداس کر دیا‘ ملک کا بچہ بچہ ڈپریشن میں ہے‘ہم سب دل سے سمجھتے ہیں‘ عبدالستار ایدھی کے ساتھ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا مگر یہ بہرحال ہونا ہی تھا اور اگر یہ نہ ہوتا تو پریشانی ہوتی‘ کیوں؟ کیونکہ ہمارا ملک بے عزتی‘ بے آبروئی اور بے وفائی کے وائرس کا شکار ہے‘ جس ملک میں قائداعظم محمد علی جناح فٹ پاتھ‘ قائد ملت لیاقت علی خان اسٹیج اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو پھانسی گھاٹ پر مار دیے جائیں۔

جس میں حکیم سعید جیسے شخص کو گولی مار دی جائے‘ ڈاکٹر قدیر جیسے انسان کو مجرم بنا کر ٹیلی وژن پر پیش کر دیا جائے اور جس میں روز کنٹینروں ‘ اسٹیجز اورٹیلی وژن پر لوگوں کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہوں اور جس میں آپ کی جگہ تم‘ تم کی جگہ تو اور تو کی جگہ اوئے نے لے لی ہو اور جس میں الزام قانون اور شک عدالتی فیصلہ بن گیا ہو اور جس میں سیاسی قائدین کا فرمان اللہ کے احکامات سے بڑا ہو چکا ہواور جس میں لوگ اللہ سے کم اور مولوی سے زیادہ ڈرتے ہوں اور جس میں جاوید ہاشمی ہار جاتے ہوں اور عامر ڈوگر جیسے لوگ جیت جاتے ہوں اس ملک میں ایسا بہرحال ہو کر رہتا ہے‘ اس معاشرے میں ایک ایک کر کے سب لوٹ لیے جاتے ہیں‘ دیمک لگی دہلیزیں فرشتے ہوں یا انسان کسی کا بوجھ برداشت نہیں کرتیں اور ہم دیمک زدہ معاشرے کے شہری ہیں‘ ہمارے معاشرے میں ایدھی صاحب کے ساتھ بہرحال یہ ہونا ہی تھا!۔

جاوید چودھری
 بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس 

میرے پاکستان… میں شرمندہ ہوں.....

0
0


جب کبھی میں بڑے پاکستانیوں کی گنتی کرتا تھا تو اس فہرست میں سب سے پہلا نام قدرتی طور پر عبدالستار ایدھی کا آتا تھا اور آخری نام کسی سیاستدان کا۔ میں ایدھی صاحب سے کبھی ملا نہیں لیکن وہ مجھ سے ہر روز ملاقات کرتے رہے ہیں۔ میں جب بھی کسی راستے پر ایدھی ایمبولینس دیکھتا تھا اور اس کا کوئی دفتر میرے راستے میں پڑتا تھا جہاں سے پاکستانیوں کو باعزت مدد امداد ملتی تھی تو میرا دل سکون اور اطمینان کی دولت سے بھر جاتا تھا۔

مجھے کسی نے یاد دلایا کہ ریسکیو سروس بھی ایک سیاستدان پرویز الٰہی نے اپنی وزارت اعلیٰ کے زمانے میں شروع کی تھی تو میرے دل سے سیاستدانوں کے خلاف میل بھی ذرا سا دھل جاتا تھا کیونکہ میں نے اس سروس کو دو بار استعمال کیا ہے۔ اس کے تربیت یافتہ رضاکاروں نے میرے گھر کی دوسری منزل سے مریض کو بحفاظت اور بآرام نیچے اتار کر اپنی ایمبولینس میں ڈال لیا اور پھر اسپتال کی طرف ہوا ہو گئی۔ گھر والے بعد میں پہنچے جب مریض معالجوں کی تحویل میں جا چکا تھا۔ مجھے تعجب ہوا کہ ایک پیدائشی سیاستدان بھی ایسی نیکی کا کام کر سکتا ہے لیکن یہ محدود علاقے کے لیے تھا مگر ایدھی پورے پاکستان کا مدد گار اور رضا کار ہے۔ تعجب ہے کہ ہمارے برے لوگوں کو بھی خدا نے ایدھی جیسی نعمت عطا کر دی تھی۔

میں اس بوڑھے شخص پر ہمیشہ فخر کرتا رہا اور خدائے پاک کا شکر ادا کرتا رہا ساتھ ہی یہ التجا بھی کہ ایسا شخص زندہ سلامت رہے لیکن جب ایدھی کی بے حرمتی کی خبر ملی اس کے گھر سے لوگوں کی امانتوں کی چوری کی اطلاع ملی تو میں سُن ہو کر رہ گیا۔ کیا ہم پاکستانی اخلاقی زوال کے اس مقام تک پہنچ گئے ہیں کہ ایدھی کا احترام بھی ہمارے اندر باقی نہیں رہا۔ ایدھی کی عزت و وقار نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ ہمارے پاس صرف ایک ہی ایدھی ہے اور ہم اس کے پاؤں بھی دھو کر پیئں تو کم ہے۔ میں نے ان دنوں ایک جعلی لیڈر کے پاؤں میں انتہائی غیر اسلامی انداز میں جھکتے ہوئے لوگوں کو دیکھا ہے مگر ایدھی تو ہمارا پیر و مرشد ہے اس کی زندگی میں ہمیں قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے کردار کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ہمیں وہ بادشاہ یاد آتے ہیں جو ہر روز صبح سویرے نماز کے بعد اپنے حلقے کی ایک بڑھیا کے گھر میں جا کر اس کا کھانا تیار کرتے تھے اور جب کچھ دیر بعد مستقبل کا دوسرا بادشاہ آتا اور بڑھیا کو کھانا کھاتے دیکھتا تو وہیں بیٹھ جاتا کہ ابو بکر تم کچھ تو ہمارے لیے بھی چھوڑ دو۔

ہم نے انھی لوگوں کے نام پاکستان بنایا تھا ’’پاکستان کا مطلب کیا۔ لا الہ الاللہ‘‘ پاکستان بنانے والے ہمارے بزرگوں کی دعاؤں سے ہمیں کچھ اچھے پاکستانی بھی مل گئے لیکن ایدھی تو ایک مثال ہے ایک تبرک ہے جو پاکستان کو عطا کیا گیا۔ جن لوگوں نے اس کے ہاں اپنے سونے کے انبار بطور امانت رکھوائے تھے وہ تو کبھی ان کا تقاضا نہیں کریں گے اور نہ وہ خواتین جنہوں نے اپنا سرمایہ اور زیورات رکھوائے تھے۔ ایدھی کو سرمائے کی کمی کا سوال ہی نہیں ایک بار انھوں نے کہا تھا کہ میرے پاس روپیہ بہت ہے مگر کام کرنے والے کم ہیں جن کی تلاش ہے۔ ایدھی کے آنسو بہہ نکلے ہیں اسے زندگی بھرکی خدمت اور کمائی کا جو صلہ ملا ہے شاید اس سے زیادہ اس کے آنسو قیمتی تھے۔ ایدھی کی بے حرمتی اور اسے بے وقار کرنے کی کوشش ایک گناہ عظیم ہے یہ ایک ایسا ڈاکا ہے جس کی سزا اللہ تبارک تعالیٰ ہی دے گا۔

ایدھی کی بے توقیری کی خبر عام ہو چکی ہے مگر کسی حکمران کو خدا نے یہ توفیق نہیں دی کہ وہ اس بہت بڑے نادر روز گار پاکستانی کے حضور حاضری دے کر اسے کچھ تسلی دیں۔ وزیر اعظم اس کی خدمت میں کیوں حاضر نہیں ہوتے۔ کیا اللہ کی ذات ان سے اتنی ناراض ہے کہ ان سے نیکی اور نیک نامی کا یہ موقع بھی چھین لیا۔ یہی حال دوسرے حکمرانوں کا ہے جن کی بدکاریوں کی داستانیں عام ہیں لیکن ان کو نیکی کا ایک موقع ملا تو وہ اس سے محروم رہے۔ زیادہ نہیں تو کراچی پولیس کے متعلقہ ملازمین کو ان کے افسروں سمیت ہتھکڑیاں لگا کر ایدھی کے لٹے ہوئے دفتر کے باہر بطور عبرت بٹھا دیا جاتا اور صوبہ سندھ کے کسی درجہ کے حکمران کو تو خود ہی نوکری اور عہدہ سے مستعفی ہو جانا چاہیے تھا لیکن اس سب کے لیے قومی حمیت اور غیرت ضروری ہے جو موجود نہیں ہے۔
کوئی دوسرا ایدھی آئے گا یا نہیں لیکن اس ایدھی کے ساتھ پاکستانیوں نے جو سلوک کیا ہے وہ ضرور یاد رہے گا اور پاکستان کی تاریخ کو سیاہ کرتا رہے گا۔ شنید ہے پولیس کے چند اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے کہ وہ اب کسی دوسرے ایدھی کی تلاش کریں اور مالا مال ہوں۔ 

نہایت ہی دکھ اور شرم کی بات ہے کہ قوم نے ایدھی کے وقار کے چلے جانے کا سوگ نہیں منایا کوئی دھرنا نہیں ہوا بلکہ کسی نامور لیڈر نے ہمدردی کے دو بول بھی نہیں کہے کہ پاکستانی اخلاق کی دولت لٹ گئی ملک دیوالیہ ہو گیا۔ ایدھی تو رو دھو کر اس عمر میں بھی اللہ کے بھروسے پر زندہ رہے گا لیکن ہم پاکستانی کس طرح زندہ رہیں گے اس پر مجھے خود اپنے آپ پر بھی بہت تعجب ہے۔ پنجابی کا ایک بڑا ہی سخت محاورہ ہے کہ غیرت تو کبھی کنجر کی بھی جاگ اٹھتی ہے خدا جانے ہم کون ہیں۔

عبدالقادر حسن

کانگریس مرجھا گئی.....

0
0


ہریانہ اور مہاراشٹر کے ریاستی انتخابات میں کانگریس کی شکست کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ جن لوگوں نے 2014ء کے لوک سبھا کے انتخابات کے بعد سیاسی اتار چڑہاؤ پر نظر رکھی ہے ان کو پتہ تھا کہ کانگریس اب قصہ پارینہ بن چکی ہے اس پر کرپشن کے الزامات اس قدر شدید ہیں کہ عوام میں اس کی ساکھ ختم ہو چکی ہے۔ دیگر پارٹیاں بالخصوص بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو عوامی حمایت حاصل ہو رہی ہے۔

ہریانہ کی مثال ہی لیجیے جہاں ماضی میں بی جے پی کے 10 سے زیادہ امیدوار کبھی کامیاب نہیں ہوئے مگر اس بار اس پارٹی نے تن تنہا اپنی حکومت بنا لی ہے۔ اس سے پارٹی کی تیز رفتار ترقی کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ بھی کہ مہاراشٹر میں شیو سینا نے کانگریس کا تختہ الٹ دیا ہے جب کہ بی جے پی نے بھی اتنی نشستیں جیت لی ہیں کہ ان دونوں پارٹیوں کو مکمل اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ کیا سیاسی منظر نامہ میں یہ حیرت انگیز تبدیلی نریندر مودی کی اس کشش کا نتیجہ ہے جو اس نے قوم پر طاری کر دی ہے تاہم اب یہ بات مزید بحث مباحثہ کا موضوع نہیں رہی۔ اور نہ ہی اب اس بات میں کوئی شک رہا ہے کہ بی جے بی ایک قومی پارٹی کے طور پر ابھر آئی ہے اور مودی ایک قومی لیڈر بن چکے ہیں۔ یہ درست ہے کہ مودی قومیت پرستی کو ترب کے پتے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ وہ علاقائی عصبیت کو ہوا دے رہے ہیں جب کہ سیکولر قوتیں بزدلی سے ہمت ہار رہی ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ہریانہ اور مہاراشٹر جو بصورت دیگر دونوں ہی ترقی پسند ریاستیں ہیں مگر وہاں سے بہت کم تعداد میں عورتیں کامیاب ہوئی ہیں۔ اس کی ذمے داری پارٹیوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے محض چند خواتین امیدواروں کو کھڑا کیا ۔ اس سے ووٹروں کی دقیانوسی سوچ بھی ظاہر ہوتی ہے۔ آزادی کے تقریباً سات عشروں کے بعد بھی عورتوں کو ان کا جائز حق نہیں مل سکا۔
میں نہیں سمجھتا کہ کانگریس آیندہ دس سال تک بھی اقتدار میں واپس آ سکے گی۔ اور اس کے لیے بھی نئے جوش و جذبے اور نئی قیادت کی ضرورت ہو گی اور چونکہ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی خاندانی سیاست سے آگے نہیں دیکھ سکتیں لہٰذا پارٹی کی حالت میں بہتری کی کوئی امید نہیں۔ وہ سالہا سال سے راہول گاندھی کی کامیابی کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ مگر وہ اب تک یہ نہیں سمجھ سکیں کہ نہ تو اس کو کوئی مقبولیت حاصل ہوئی ہے اور نہ ہی موصوف میں ایسی کوئی صلاحیت موجود ہے کہ وہ میدان مار سکے۔

کانگریس کی بدنظمی صاف نظر آ رہی ہے اور پارٹی کے اندرونی حلقوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی اس کا ثبوت ہے۔ کانگریس کے پرانے وفاداروںنے جرأت کا مظاہر کرتے ہوئے راہول گاندھی اور ان کی ٹیم کے خلاف آواز بلند کی ہے اور انھیں شکست کا ذمے دار قرار دیا ہے لیکن اس قسم کی آوازوں کی پارٹی میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ پارٹی کو سونیا اور راہول گاندھی ہی چلاتے ہیں اور اب جب کہ دونوں ناکام ہو چکے ہیں تو عوام کس کے پاس جائیں؟ دونوں نے مبینہ طور پر ایک مرتبہ مستعفی ہونے کی پیشکش کی تھی لیکن کانگریس کی وفادار ورکنگ کمیٹی نے ان کے استعفے منظور کرنے سے انکار کر دیا۔ دونوں خود ہی پارٹی ہیں اور خود ہی پارٹی قیادت ہیں اور دونوں یہ کوشش کرتے ہیں کہ خاندان سے باہر دیگر عناصر کو اندر نہ آنے دیا جائے۔

منطقی طور پر لوک سبھا اور بعض ریاستوں کے انتخابات میں شکست کے بعد راہول کا سیاسی کیرئیر ختم ہوجانا چاہیے۔ لیکن خاندانی سیاست میں اس اہم مسئلہ پر بات چیت کی کوئی گنجائش نہیں۔ کانگریس کی بقا کے لیے گاندھی فیملی کو کلیدی حیثیت دی جاتی ہے۔ راہول پارٹی کے لیے بہت اہم ہے بالخصوص اس صورت میں جب کہ سونیا کی صحت درست نہیں ہے۔ راہول کے سیاسی کردار کے بارے میں شکوک و شبہات کے باوجود پارٹی میں ایسے سرپھروں کی کمی نہیں جو سمجھتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن وہ لیڈر کا کردار ادا کرنے لگے گا۔ گویا کانگریس اور سونیا کی حکمت عملی بس یہیں تک محدود ہے۔ پارٹی کے دیگر رہنما جب راہول کو تنقید سے تحفظ دینے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک مضحکہ خیز صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ اے کے انتھونی کی رپورٹ میں پارٹی کے مایوس کن نتائج کی ذمے داری راہول کے بجائے تنظیمی خامیوں پر عائد کی گئی ہے۔ ہریانہ اور مہاراشٹر میں ہونے والی انتخابی مہم سے راہول کو باہر نکال لینا چاہیے تھا کیونکہ اس کی موجودگی سے منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے۔
ایک اچھی بات یہ ہے کہ سونیا نے ایک خط میں یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ پارٹی کی سابقہ حیثیت کی بحالی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ پارٹی لیڈروں کے نام اس کے اس خط کے مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں ان کے لیے حوصلہ افزائی کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جس سے ان میں اعتماد بحال ہوا ہے لیکن یہ راستہ بہت طویل ہے اور اس کے لیے انتھک جدوجہد درکار ہو گی۔

پارٹی کے جو لیڈر ہمت ہار بیٹھے تھے ان کے لیے اس خط نے اعتماد کی بحالی کا کام کیا ہے اور انھوں نے تسلیم کیا ہے کہ راہول کے طرز عمل کے برعکس اس کی والدہ کے خط میں بہت ہمدردانہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جس سے اس مشکل و قت میں ان کو حوصلہ ملا ہے لیکن ان کو اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر راہول اپنے انھی مشیروں پر کیوں انحصار کر رہا ہے جنہوں نے گزشتہ دو برس میں اس کو بار بار انتخابی ہزیمت سے دوچار کیا ہے۔
سادہ حقیقت یہ ہے کہ کانگریس والوں کے لیے گاندھی خاندان کے پاس جانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں کیونکہ آزادی کے بعد سے یہی خاندان پارٹی چلاتا رہا ہے۔ جواہر لعل نہرو کو برگد کے اس درخت کی مثال تصور کیا جاتا ہے جس کی گھنیری چھاؤں کے نیچے اور کوئی پیڑ پودا پنپ ہی نہیں سکتا۔ کانگریس انھی پر انحصار کرتی تھی اور ان کی وفات کے بعد ان کی جگہ لینے والا اور کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ ان کی بیٹی اندرا گاندھی جس کی خود نہرو نے پرورش کی تھی ابتدا میں پارٹی والوں کے نزدیک قابل قبول نہیں تھی۔ تاہم رفتہ رفتہ اس نے چوٹی کا مقام حاصل کر لیا۔

کانگریس کا خاتمہ ممکن ہے ملک کے لیے اچھا نہ ہو کیونکہ اس نے سیکولرازم کے فلسفے کے تحت ملک کو ایک نظریاتی پلیٹ فارم فراہم کیا ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ کانگریس کا خلاء جو عناصر پُر کر رہے ہیں وہ ملک کی یکجہتی کے منافی ہیں۔ وہ ملک کو فرقہ بندی میں تبدیل کر رہے ہیں۔ منی پور اور دہلی کے عوام پر حملے ایک تازہ مثال ہیں۔ بدقسمتی سے مودی کو آر ایس ایس کی آشیر باد حاصل ہے جو کہ حکومتی امور میں بھی مداخلت کرتی ہے۔

آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت کا بھارت کے سرکاری ٹی وی دور درشن پر نمودار ہو کر آر ایس ایس کے فلسفے پر روشنی ڈالنا اور یہ دعویٰ کرنا کہ ان کی پالیسی حکومت کا لازمی جزو ہے افسوسناک ہے۔ فی الوقت مودی تعمیر و ترقی کی بات کر رہے ہیں اور آر ایس ایس کے فلسفے کو بڑھاوا دینے کی کوشش نہیں کر رہے۔ لیکن ان کے لیے آر ایس ایس سے فاصلہ بڑھانا ناگزیر ہے کیونکہ اس میں ان کی ساکھ برقرار رہ سکتی ہے۔ مسلمان خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں حالانکہ وہ بھی اتنے ہی اچھے ہندوستانی ہیں جتنے کہ ہندو ہیں۔ مسلمانوں کو اعتماد دیا جانا چاہیے لیکن مودی یہ کس طرح کرتے ہیں یہ ان کا مسئلہ ہے۔ مگر یہ کام ضرور کیا جانا چاہیے۔

کلدیپ نائر
بہ شکریہ روزنامہ ’’ایکسپریس


A group of Pakistani soldiers carry their guns uphill along the K2 base camp trek

0
0

A group of Pakistani soldiers carry their guns uphill along the K2 base camp trek in the Karakoram mountain range in Pakistan. A local porter receives 700 Pakistani Rupee ($6.8) per day and usually carries 55 pounds. Owners of mules can earn three times as much, as their animals carry 165 pounds.

The world's second largest mountain, K2 and Broad Peak (R)

0
0
The world's second largest mountain, K2 (seen in the distance), and Broad Peak (R), are illuminated by the moon at Concordia, the confluence of the Baltoro and Godwin-Austen glaciers, in the Karakoram mountain range in Pakistan.

The Baltoro glacier in the Karakoram mountain range in Pakistan

0
0
Trekkers and porters hike down the Baltoro glacier in the Karakoram mountain range in Pakistan.

Japanese trekkers climbs the rock-covered Baltoro glacier in the Karakoram

0
0
A group of Japanese trekkers climbs the rock-covered Baltoro glacier in the Karakoram mountain range in Pakistan.

دھرنوں کے بعد کیا ہوگا؟....

0
0


طاہرالقادری نے سیاست کے سمندرمیں’’ریاست‘‘کا پتھر کیا پھینکا‘‘جواربھاٹے نے سیاسی ایوانوں میں ہلچل ہی مچا دی تھی۔علامہ صاحب 67دن تک شاہراہ دستور پر انقلاب کی صدائیں بلند کرتے رہے مگر کوئی شنوائی نہ ہوسکی۔آنے والے دنوں میں سردی کی شدت اور محرم الحرام کے تقدس کو مدنظر رکھتے ہوئے بدھ کی رات بالآخر علامہ قادری نے دھرناختم کرنے کااعلان کرہی دیا۔قادری صاحب!دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرنے اتنی جلدی میں لاہور سے تشریف لائے کہ اپنی واپسی سے عمران خان تک کو بھی مطلع نہیں کیا۔آج دو ماہ کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد شاہراہ دستور،کابینہ ڈویژن اورپاک سیکریٹریٹ سمیت ریاست کی نشانی سمجھی جانے والی تمام سرکاری عمارتیں ایک بار پھر آزاد دکھائی دے رہی ہیں۔علامہ طاہر القادری اور ان کے رفقاء نے خد اخدا کرکے شاہراہ دستور کی جان تو چھوڑ دی مگر کچھ نئی اقدار ضرور متعارف کرا گئے ہیں۔اگر علامہ طاہر القادری برابری اور انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو وہ بالکل درست ہے مگر ان کا طریقہ ٹھیک نہیں تھا۔

اختیارات کی آپس میں بند ر بانٹ ہی حکومتوں کے لئے مسائل پیدا کرتی ہے۔اگر قادری دو ماہ تک برابری کے حوالے سے امریکہ اور یورپی ممالک کی مثال دیتے رہے تواس پر کسی کو اختلاف نہیں ہونا چاہئے۔
قارئین کو شاید یہ پڑھ کر حیرت ہو کہ پاکستان کے 280آرٹیکلز کے مقابلے میں امریکہ کا آئین صرف 7آرٹیکلز پر مشتمل ہے۔مگر اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کہ ان بڑوں نے جنہوں نے اپنی جدوجہد کا آغاز (liberty,equality,Fraternity) کے مشہور و بلند بانگ نعرے سے کیا انہوں نے امریکہ کے آئین میں سب سے زیادہ جگہ انسانی حقوق کو دی۔امریکہ کا آئین لکھنے کے لئے اس وقت کے بڑوں میں جن میں جینوسن ،میڈائسن اور واشنگٹن جیسے گوہر نایاب مل بیٹھے اور آئین کے خدوخال وضع کرنے کے لئے اپنی توانائیاں صرف کیں ۔نتیجہ ً1787میں دنیا کا بہترین آئین وجود میں آیا ۔امریکی معاشرہ جس پر اگر آج ساری دنیا رشک کرتی ہے۔ تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اس معاشرے میں انسانی حقوق کو تحفظ حاصل ہے۔مساوات و برابری ہے،انسان کی قدر ہے اور وہ تمام اصول جو پیغمبر آخر الزماںﷺ نے اپنی امت کو دئیے ،امریکہ اور اس جیسے معاشرے اس کی زندہ تعبیر ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم نے آزادی حاصل کی ،اسلام کے نام پر الگ ملک بھی حاصل کرلیا ،اس دین کے نام پر جس کی نہ صرف تعلیمات بلکہ عبادات میں بھی برابری ،مساوات اور انسانی حقوق کا درس ہے۔

علامہ طاہر القادری کے غیر جمہوری مطالبات کی فہرست طویل مگر حکومت وقت کی اولین ذمہ داری ہے کہ جائز مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرے اور ملک کی و قوم کی بہتری کے لئے انہیں تسلیم کرے۔طاہر القادری کے شاہراہ دستور سے جانے کے بعد عمران خان کا دھرنا اب صرف علامتی ہی رہ جائے گامگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ حکومت معاملات کی سنجیدگی سے رو گردانی شروع کردے۔محرم الحرام کا ایک ماہ حکومت کے پاس سنہری موقعہ ہوگا کہ وہ اپنی خامیوں کا تدارک کرکے بہتری کی جانب پیشرفت کرے۔ علامہ طاہر القادری اور عمران خان سے ہٹ کر اب تو سندھ سے بھی تبدیلوں کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ بلاول بھٹو کی ایک غلطی نے اپنی ہی حکومت کے لئے مشکلات کا پہاڑ کھڑا کردیاہے اور سندھ کے سیاسی بحران کا نقصان مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت کو بھی ہوا ہے۔

آصف زرداری اب تک سیاسی بساط پر شطرنج کے سب سے کامیاب کھلاڑی سمجھے جاتے تھے۔گزشتہ دور اقتدار میں ان کی سب چالیں کامیاب ہوئیں۔اقتدار کے آخری ایام میں اسٹیبلشمنٹ نے ڈاکٹر طاہر القادری کی صورت میں’’تُرپ‘‘کا جو پتہ پھینکا ،اس کا توڑبھی انہوں نے اس خوبصورتی سے نکالا کہ سب حیران رہ گئے۔اور پھر اصلاحات کے علمبرداروں کو چکمہ دیکر بروقت الیکشن کرانے میں بھی کامیاب ہو گئے مگر حال ہی میں ان کے بیٹے پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ان سے مشورہ کئے بغیر ایسی تقریرکی کہ پوری ملکی سیاست پرلرزہ طاری ہو گیا۔ حتی کہ نوجوان خون نے سندھ میں اپنی اتحادی ایم کیو ایم کو بھی نہ بخشا۔میری اطلاعات کے مطابق بلاول اورآصف زرداری صاحب کے درمیان اب بھی کچھ معاملات پر شدید اختلافات ہیں۔

بلاول کے اسٹاف افسر حشام ریاض شیخ انہیں اردو سکھاتے اور آج کل سیاسی تربیت دے رہے ہیں۔ حتی کہ بلاول جلسوں میں تقاریر بھی حشام ریاض کی مشاورت سے کرتے ہیں۔سانحہ کارساز کی ساتویں برسی کے موقع پر کی گئی تقریر بھی انہی صاحب نے تیار کی تھی اور اس کی حتمی منظور ی آصف زرداری سے نہیں لی گئی تھی۔اس لئے پی پی پی کے لئے بلاول کی تقریر کے بعد مسائل پیدا ہوئے۔بلاول بھٹو قابل نوجوان سیاست دان ہیں۔سب سے بڑھ کر بینظیر بھٹو کے جانشین ہیں۔جن سے آج بھی عوام کی جذباتی و نظریاتی وابستگی ہے مگر بلاول کو ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جب بینظیر بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالی تھی تو وہ پارٹی کے سینئر رہنماؤں ڈاکٹر مبشر،مصطفی کھر جیسے افراد کو مشاورت کے لئے ترجیح دیتی تھیںاور ان کے تجربے سے سیکھتی تھیں۔بلاول کو بھی چاہئے کہ اپنی والدہ کے سیاسی نقش قدم پر چلے۔بلاول کے پاس یہ سنہری موقع ہے کہ وہ پی پی پی میں ایک مرتبہ پھر روح پھونک سکتے ہیں۔اپنی سیاسی زندگی کے پہلے بڑے جلسے میں ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی اور اپنی خالہ صنم بھٹو کے ساتھ ان کی اسٹیج پر آمد نے یہ تو واضح پیغام دے دیا کہ بلاول ہی بھٹو خاندان کی نئے روح رواں ہیں۔ضنم بھٹو اب اس دنیا میںذوالفقار علی بھٹو کی واحد وارث ہیںاور قارئین کی اکثریت آگاہ ہوگی کہ صنم بھٹو نے کبھی سیاسی جلسوں میں شرکت نہیں کی۔

کراچی کے جلسے میں بلاول کے ساتھ ان کی آمد پی پی پی کے جیالوں کے لئے واضح پیغام تھا۔مگر ان سب حقائق سے ہٹ کر بلاول کو تدبر کا مظاہر کرنا چاہئے نہ کہ کوئی غیر سنجیدہ قدم اٹھاکر وہ اپنے لئے مشکلات پیدا کریں۔سندھ حکومت سے ایم کیو ایم کی علیحدگی کے بعد مستقبل قریب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کو مشکل پیش آئے گی۔پیپلز پارٹی کے ارباب اختیار کی پوری کوشش ہوگی کہ ایم کیو ایم سے تعلقات بحال کئے جائیںکیونکہ زرداری کبھی نہیں چاہیں گے کہ وہ سندھ میں اپنے لئے ایک اور مخالف کھڑا کرلیں۔
ان حالات میں وفاقی حکومت کی اب یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے آپ کو مزید مسائل میں الجھانے کے بجائے ان کا حل تلاش کرے۔انقلاب کی آس لگائے اسلام آباد آنے والے آج اپنے گھروں کو تو لوٹ گئے ہیں مگر سونامی خان مٹھی بھر افراد کے ساتھ اب بھی ڈی چوک پر براجمان ہیں۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے اور حالیہ سیاسی بحرانوں سے چھٹکارا نصیب ہو تو بلاتاخیر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی معاونت سے حلقہ بندیاں تشکیل دے کر غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات کرانے کا فوری اعلان کریں۔عوام کی اکثریت اب کسی ایک فرد کے پاس طاقت کو برداشت نہیں کر تی اور آپ اب تک یہ نہیں سمجھ پارہے۔بہتر ہوگا کہ اختیارات کو جتنا ہوسکتا ہے تقسیم کریں وگرنہ ملک کے ہر کونے سے آنے والی مڈٹرم الیکشن کی صدا زور پکڑ جائے گی اور پھر کوئی اسے روک نہیں پائے گا۔

حذیفہ رحمان
بشکریہ روزنامہ "جنگ

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live