Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

Indian Democracy


Hemaqut O Matloon Mezaji by Dr. Abdul Qadeer Khan

$
0
0



Hemaqut O Matloon Mezaji by Dr. Abdul Qadeer Khan
Enhanced by Zemanta

Army, Peoples Party and Dialogue by Hamid Mir

$
0
0

 Army, Peoples Party and Dialogue by Hamid Mir

Enhanced by Zemanta

پاک بھارت کرکٹ میچ، کشمیری طلباء اور غداری مقدمہ

$
0
0

پاکستان اور بھارت کے درمیان طویل کشمکش کی وجوہات بھی بڑی طویل ہیں۔ جہاں دونوں ممالک میں متعدد جنگیں لڑی گئیں اور نفرتوں کی دیوار وقت کے ساتھ بلند ہوتی گئی۔ وہاں یہی کشمکش کھیل اور دوسرے میدانوں میں بھی واضح طور پر دیکھی جاتی رہی ہے۔ ہاکی کا میدان ہو یا کرکٹ کا کھیل۔ جب پاکستان اور بھارت کا میچ ہو گا تو جذبات الگ ہوں گے۔ منفرد ہوں گے۔ اگر پاکستان کی ٹیمیں مختلف کھیلوں کے سلسلے میں دنیا بھر کی ٹیموں کے ساتھ مقابلے میں آتی رہتی ہیں لیکن بھارت کے ساتھ میچ اور مقابلوں میں قوم کے جذبات خصوصی رنگ میں ڈھل جاتے ہیں۔ خاص طور پر جیت کا مزہ عجیب مزا بن جاتا ہے اور خدانخواستہ شکست تو بڑی ہی دلخراش صورت حال اختیار کر لیتی ہے۔

یہی کیفیت بھارت کی طرف بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ اگر یہ بات جذبات کی حد تک رہے تو سب ٹھیک ہے۔ آخر کھلاڑی بھی ملک وقوم کا حصہ ہوتے ہیں اور اپنے اپنے میدان میں ملک وقوم کے جذبات کے ساتھ ہی میدان میں اترتے ہیں۔ جیت ہار کو بھی کھیل کا بالآخر حصہ سمجھ لیا جاتا ہے لیکن اس بار کرکٹ کے میچ میں پاکستان کی جیت نے نہ صرف بھارتی عوام بلکہ سیاسی رہنماؤں اور حکومت کو بھی ایسے جذبات کی لپیٹ میں لے لیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جمہوریت کا غوغا کرنے والے اس ملک میں جمہوری قدروں کی کوئی قدر نہیں۔ کوئی برداشت نہیں اور کمزور کو دبانا بھارتی حکومت کا شیوہ ہے۔ کھیل جیسے میدان میں بھی وہ اس قدر متعصب ہو سکتے ہیں۔ یہ پہلی دفعہ پوری دنیا میں آشکارا ہوا ہے۔

واقعات کچھ اس طرح سے ہیں کہ پچھلے اتوار کو پاکستان اور بھارت کی ٹیموں کے درمیان کرکٹ میچ تھا۔ پاکستان کی ٹیم نے کرکٹ میچ جیت لیا۔ میرٹھ کی پرائیویٹ یونیورسٹی ’’سوامی ووک آنند سو بھارتی یونیورسٹی‘‘ میں پڑھنے والے 67 کشمیری طالب علموں نے جیتنے والی پاکستانی ٹیم کے حق میں نعرے لگا کر خوشی کا اظہار کیا۔ اس پر باقی طلباء ناراض ہو گئے۔ انہوں نے لڑائی کی اور کشمیری طالب علموں پر پتھراؤ کیا اور کشمیری طالب علم اپنی جان بچا کر مشکل سے اپنے کمروں میں مقید ہو گئے۔ یورنیورسٹی کی انتظامیہ اور سیاسی قائدین ان بے چارے طالب علموں کی جان کے دشمن بن گئے۔ بھارتی جنتا پارٹی کے رکن دستور ساز اسمبلی سیتا پرکاش کی قیادت میں سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس کے دفتر کا گھیراؤ کیا گیا۔ اور پولیس نے بلیک میل ہو کر ان 67 طالب علموں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے کے تحت درج کر لیا۔ یونیورسٹی نے بھی ان طالب علموں کو اپنے کورسز سے معطل کر دیا۔

یوں اس جمہوریت کے دعویدار ملک میں عدم برداشت کی مثال قائم کرتے ہوئے ان طالب علموں کے ساتھ نا انصافی کی گئی۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت میں مقدمات انصاف کے تقاضوں کو نظر انداز کر کے درج کیے جاتے ہیں۔ مخالفین کو ریاستی تلوار سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ خاص طور پر بی جے پی کو اس میں کمال حاصل ہے۔ جب یہ خبر پوری دنیا میں پھیلی تو بھارت کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی سخت ردعمل ظاہر کیا تو بوکھلا کر بھارتی حکومت نے ان طالب علموں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ تو واپس لے لیا لیکن یونیورسٹی نے ان طالب علموں کو واپس کورسز میں شمولیت کی اجازت نہیں دی۔ چنانچہ یہ طالب علم اب واپس سری نگر پہنچ گئے ہیں۔ پورے مقبوضہ کشمیر میں اس کے خلاف شدید غم و غصہ ہے اور بھارت کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی الگ ہوئی ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ آیا بغاوت کا یہ مقدمہ جو طالب علموں کے خلاف درج ہوا ہے۔ قانون کی نظر میں اس کی کیا حقیقت ہے۔ یہ مقدمہ تعزیرات ہند کی دفعہ 124اے کے تحت درج ہوا ہے۔ یہ دفعہ اس طرح سے ہے ’’جو کوئی تحریری یا زبانی طور پر، اشاروں سے یا واضح طور پر یا کسی اور طریقے سے، قانون کے مطابق بھارت میں قائم حکومت کے بارے میں نفرت کا اظہار کرتا ہے یا اظہار کرنے کی کوشش کرتا ہے یا دوسروں کو ایسا کرنے پر اکساتا ہے تو وہ پانچ سال قید کا مستوجب ہو گا اور اس پر جرمانہ بھی عائد کیا جا سکے گا یا تین سال کا مستوجب اور اس پر جرمانہ عائد کیا جا سکے گا، یا جرمانہ عائد کیا جا سکے گا۔ (وضاحت1) نفرت کے اظہار میں عدم وفاداری، دشمنی کے جذبات شامل ہیں لیکن نفرت کے اظہار میں حکومتی اقدامات کے خلاف قانونی طریقے سے تبدیلی لانے کا عمل جس میں نفرت پھیلانے کا عنصر شامل نہ ہو تو اس دفعہ کا اطلاق نہیں ہوتا (وضاحت2) نفرت کا اظہار جو کہ حکومت کے انتظامی و دوسرے اقدامات کے خلاف ہو اور نفرت پھیلانے کے زمرے میں نہ آتاہو تو بھی اس دفعہ کا اطلاق نہیں ہوتا‘‘۔

اس دفعہ کی تفصیلات دیکھنے کے بعد کوئی بھی ذی شعور اس بات کا قائل ہو جاتا ہے کہ کھیل میں جیتنے والی ٹیم کے بارے میں اچھے جذبات کا اظہار، اس کے حق میں نعرے لگانا، خوشی کا اظہار کرنا کسی طرح سے بھی بغاوت کے زمرے میں نہیں آتا۔ حد تو یہ ہے کہ بی جے پی کے رہنما جو کہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں۔ نفرت پھیلاتے ہیں وہ دراصل اس دفعہ کے تحت بغاوت کے زمرے میں آتے ہیں لیکن ان کے خلاف نہ تو ریاست کوئی کارروائی کرتی ہے۔ نہ ان کے خلاف مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔ ان معصوم کشمیریوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ صرف اس لیے درج کیا گیا کہ انہوں نے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی جیت پر خوشی کا اظہار کیا۔

پاکستان کے ساتھ کسی قسم کا تعلق بھی جرم ہے۔ چاہے اس کی ٹیم کی جیت پر خوشی ہی کیوں نہ منائی جائے۔ یہ ہے ریاستی انصاف، یہ ہے بھارتی جمہوریت۔ اس مقدمہ نے بھارت کے اندرونی حالات کی قلعی کھول دی ہے۔ خاص طور پر کشمیر کے حوالے سے نہ صرف بی جے پی کے رہنماؤں کے جذبات سامنے آ گئے ہیں بلکہ بھارتی حکومت کا رویہ بھی واضح ہو گیا ہے۔ اگر کھیل کی جیت پر داد دینا برداشت نہیں تو کشمیریوں کے حقوق کو بحالی کرنے پر کیسے رضامندی ظاہر کی جائے گی۔ یہی حقیقت ہے جو کہ نہ صرف تعصب پر مبنی ہے بلکہ لاقانونیت اور منفی رویوں کی انتہا ہے۔

عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کو بھارت کی اس ریاستی ہٹ دھرمی کا نوٹس لینا چاہیے۔ اگرچہ بھارتی حکومت نے مقدمہ تو واپس لے لیا ہے لیکن یونیورسٹی نے طالب علموں کو ابھی تک بحال نہیں کیا۔ یونیورسٹی کو بھی ان طالب علموں کو واپس لینا چاہیے تا کہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں اور آئندہ کے لیے ایسے واقعات کا سدباب کرنا چاہیے۔


بشکریہ روزنامہ 'نئی بات '

Amazing Life in Thar Desert Pakistan

Research institutes in Pakistan by Dr. Atta ur Rahman

$
0
0


Research institutes in Pakistan by Dr. Atta ur Rahman
Enhanced by Zemanta

Deeni Madaris by Bilal Ghauri

Privatisation in Pakistan : Myth and reality

$
0
0

Privatisation in Pakistan : Myth and reality by Rauf Kalasra
Enhanced by Zemanta

Security State Vs Welfare State

$
0
0

Security State Vs  Welfare State  by Amir Khakwani
Enhanced by Zemanta

حکومت کی منشا

$
0
0


کوئی مسئلہ نہیں آپ فکر نہ کر یں،اللہ خیر کر ے گا، پریشانی صحت کو خراب کر دیتی ہے، گہری سوچ دل کے عارضے کا باعث بنتی ہے ‘‘والد مرحوم کے ایک قریبی دوست ہر مشکل میں ہمارے گھر میں بیٹھ کر یہ جملے اتنی مرتبہ دہراتے تھے کہ ہم سب کو سبق کی طرح یاد ہوگئے تھے۔بچپنے میں ہم نے اِس بزرگ کی باتوں کو جادو کا منتر سمجھ لیا تھا۔لہذا جب بھی کوئی اُلٹا سیدھا کام کرتے تو دل ہی دل میں یہ تمام فقرے دس،بیس مرتبہ دہرا کر یہ سمجھ لیتے کہ بلا ٹل گئی ہے۔ جب بلا ٹل جاتی تو ہمارا ایمان ان الفاظ کی جادوئی تاثیر میں سو گنا بڑھ جاتا اور جب اپنے کیے کا بھگتنا پڑتا (جو اکثر ہوتا تھا) تو اِس کو اپنے ورد کے طریقے کی خرابی سے منسوب کرتے ہوئے یہ الزام دہراتے کہ اگلی مرتبہ یہ جملے صحیح طریقے سے ادا کریں گے تاکہ ان کا اثر زائل نہ ہو۔ آج 2014ء میں مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکومت ہمارے اس بھلائے ہوئے بزرگ کی طفل تسلیوں کو قومی پالیسی میں تبدیل کرچکی ہے۔ بالخصوص پالیسی کا وہ حصہ جو ہندوستان کے ساتھ تعلقات پر مبنی ہے۔اس ہمسایہ ملک کے ساتھ جس طریقے اور رفتار کے ساتھ محترم نواز شریف کی حکومت پینگیں بڑھا رہی ہے اُس کے بعد کوئی خاص تعویز گنڈا ہی ہمارے تجارتی مفادات کا تحفظ کر پائے گا۔اس وقت نیم خاموشی کی حالت میں میاں نواز شریف کی حکومت ہندوستان کو پسندیدہ ملک کا درجہ دینے کے بعد تجارت کے تمام دروازے کھولنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔

پچھلے کچھ عرصے میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی بات چیت بہت سی تکنیکی معلومات کے گرد گھومنے کے بعد اس نقطے پر آکر ختم ہوگئی کہ ’یہ تو کرنا ہی ہے قیمت چاہے کچھ بھی کیوں نہ چکانی پڑے‘ظاہر ہے قیمت پاکستان بلکہ پاکستان کی زراعت سے منسلک تمام لوگوں کو چکانی پڑے گی۔ ہم نے اپنے زرعی شعبے کا 90فیصد ہندوستان کے لیے کھول دیا ہے۔ مقابلہ اگر برابر کے میدان میں ہوتا تو کوئی مضائقہ نہیں تھا۔ مگر دہلی اپنے زرعی شعبے کو پچاس سے ساٹھ بلین روپوں سے زیادہ کی خاص مدد فراہم کرتا ہے۔ ہر اُس مدد کے علاوہ جو مختلف قوانین اور ضابطوں میں چھپا کر اس شعبے میں کام کرنے والوں کو دی جاتی ہے۔ وہاں سے پیدا کی ہوئی اشیا یا اُن اشیا پر بنیادکی ہوئی مصنوعات اس خاص مددکے بل بوتے پر پاکستان کے زرعی شعبے کو تہس نہس کردے گی۔ فارمز ایسوسی ایشن آف پاکستان اور کسانوں کی مختلف تنظیموں نے اس ممکنہ تباہی کو بھانپتے ہوئے خود سے احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ابھی تک ہلکی پھلکی آوازیں سامنے آئی ہیں آنے والے دنوں میں شور بڑھ جائے گا۔ زمین سے جڑے ہوئے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت اُن کے ہاتھ پاؤں باندھ کر شیروں کے پنجر ے میں پھینک رہی ہے۔جہاں سے اُن کے بچنے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے۔ بہت سے نامور ماہرین معیشت اس مسئلے کی نشاندہی کرچکے ہیں۔ چند ایک تحقیقی کالموں میں یہ واضح کیا جاچکا ہے کہ پاکستان جس جلدی میں ہے اُس کا دفاع کسی قومی مفاد کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا۔

ہم نے تجارت کے حوالے سے ہونی والی بات چیت میں بالکل ویسے ہی مقدمہ لڑا ہے جیسے پانی کے معاملے پر۔ ذہنی سستی اور سیاسی قیادت کی طرف سے واضح ہدایات کی غیر موجودگی میں پاکستانی ریاست کے نمایندگان تجارت کے نام پر زرعی شعبے کی نیلامی قبول کر چکے ہیں۔ قصور اُن کا بھی نہیں ہے اگر سیاسی حکمران ہندوستان کی ہر ادا پر فدا ہونا جزو ایمان سمجھتے ہیں تو پھر نوکری یافتہ طبقے کو کیا پڑی ہے کہ خواہ مخواہ حب الوطنی سے سرشار ہوکر اپنے کیریئر کا ستیاناس کرے وہ بھی خاموش رہے اور ذرایع ابلاغ کے بڑے بڑے ستون بھی اس غیر منصفانہ سمجھوتے کی نشاندہی کرنے سے قاصر رہے۔خیر ذرایع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد تو اِس حد تک ہندوستان پرست ہوگئے ہیں کہ ان میں اور اوم پوری میں فرق کرنا مشکل ہے۔ وہ ہندوستان میں بڑی منڈی پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔بھارت پرست حلقوں کا مقصد ہندوستان اور پاکستان کو یک جان اور یک جسم کرنا ہے۔1947کی تقسیم اُن کو منافع کی تقسیم نظر آتی ہے۔ وہ سرحدوں کو کاروبارکی حدوں کے طور پر لیتے ہیں۔کاروبار پھیلیںگے تب جب سرحدیں ختم ہونگیں۔اُن کو زرعی اور دوسروں شعبوں کی تباہی سے کیا لینا دینا۔ ہندوستان خوش اور وہ بھی خوش۔ امن کا کاسہ ایسے ہی نہیں اٹھایا ہوا کاروبار کی بھیک مل رہی ہے۔ میاں نواز شریف کی حکومت جس کی کاروباری جبلت بل گیٹس کی ذہانت کو پیچھے چھوڑتی ہے، اپنے لیے تاریخ میں نام پیداکرنے کے علاوہ صنعتی اور کاروباری حلقوں کی گرفت میں ہے۔ ہندوستان کے ساتھ تجارت کے معاملے پر صرف ہم خیال حلقوں سے لوگ سامنے لائے گئے۔تجاویز طلب کر نے کے بعد انھی کے ہاتھوں عمل درآمد کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔

اس سرتوڑ اور زراعت کش دوڑ میں چلانگیں لگاتی ہوئی حکومت کو ترغیب دینے میں واشنگٹن اور برسلز کے ہاتھ نمایاں ہیں۔ لندن بھی باجے بجا بجا کر حکومت کو ہندوستان کے ساتھ حتمی تجارتی ادغام کی طرف مائل کر رہا ہے۔ اسی وجہ سے حکومتی حلقوں میں آج کل اس غیر ضروری جلدی کے فوری نقصانات پر کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ معترض ہونے والے کو دقیانوسی اور دشمنان عقل قرار دیا جاتا ہے۔ جو منطق اور شواہد کے ساتھ بات کرتے ہیں اُن کے لیے وہی جملے دہرا دیے جاتے ہیں جو والد مرحوم کے دوست ہر مشکل میں کیا کرتے تھے’’کوئی مسئلہ نہیں آپ فکر نہ کر یں،اللہ خیر کرے گا،پریشانی صحت کو خراب کر دیتی ہے،گہری سوچ دل کے عارضے کا باعث بنتی ہے‘‘۔ اس ماحول میں جب سیاسی جماعتیں ذہنی اور نفسیاتی افراتفری کا شکار ہیں، جب میڈیا تھر اور شمالی وزیرستان کے درمیان چکر لگا لگا کر ہوش و حواس کھو بیٹھا ہے حکومت پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔حکومت کے ایک نمایندے نے اِن حالات میں اپنی ہندوستان پالیسی کی کامیابی کی ضمانت دیتے ہوئے جو الفاظ کہے وہ اس تمام مضمون کا ایک بہترین خلاصہ ہے انھوں نے فرمایا’’محترم صحافی صاحب ضد چھوڑ دیں ہم دونوں ممالک کو آخر اکٹھا ہو ہی جانا ہے، ٹوٹ پھوٹ کر اکٹھا ہونے سے بہتر ہے کہ شریفوں کی طرح شریفوں کے ہاتھوں اکٹھے ہوجائیں‘‘میں اُس وقت سے یہی سوچ رہا ہوں کہ میری ذاتی رائے ایک طرف اِن کی بات میں اس حد تک تو وزن ہے کہ ہم اب ایک شریف قوم بن گئے ہیں۔یہاں پر شریفوں کی منشاء ہی چلے گی۔

طلعت حسین   

صنفی آزادی کس قیمت پر؟

$
0
0

گزشتہ ہفتے خواتین کے حقوق کا عالمی دن منایا گیا، جگہ جگہ تقریبات ہوئیں، اخبارات خبروں سے بھر گئے۔ ایسا محسوس ہوا کہ ہر طرف خواتین کے ہی نعرے بلند ہو رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں ایک خبر پڑھی، سرخی دیکھ کر ایسا لگا کہ یہ بھی خواتین کے حقوق کے ضمن میں ہے لیکن جب تفصیلات پڑھیں تو معلوم ہوا کہ یہ کسی جواں مرد پروفیسر نے مردوں کے حقوق کے حوالے سے بات کر دی ہے۔

خبر کی سرخی کچھ اس طرح تھی ’’میڈیکل کالجوں میں مردوں کو 49 اور خواتین کے لیے 51 فیصد نشستیں مختص کی جائیں، پی ایم ڈی سی کی تجویز‘‘۔ اس خبر کی تفصیل پڑھی جو کچھ یوں تھی ’’میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے صدر پروفیسر مسعود حمید خان نے حکومت پاکستان کو تجویز دی ہے کہ میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں خواتین کے لیے 51 فیصد اور مردوں کے لیے 49 فیصد نشستیں اوپن میرٹ کی بنیاد پر مختص کی جائیں تا کہ صحت جیسے لازمی سروسز کے شعبے میں مرد ڈاکٹروں کی زیادہ کمی نہ ہو۔ اوپن میرٹ اچھی چیز ہے لیکن اب اس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں مرد ڈاکٹروں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس وقت ملک بھر کے میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں 65 سے 70 فیصد خواتین داخلے لے لیتی ہیں اور باقی نشستوں پر مردوں کو داخلے ملتے ہیں۔ لڑکیاں ڈاکٹر بننے کے بعد سسرال، گھر کے کام اور بچوں کی دیکھ بھال کے باعث خدمات انجام دینے سے قاصر رہتی ہیں جس کی وجہ سے اسپتالوں میں خاص طور پر شام اور رات کے اوقات میں اور خصوصاً دور دراز علاقوں اور دیہات میں زیادہ تر خواتین دستیاب نہیں ہو پاتیں۔ اس صورتحال کے باعث صحت کے شعبے میں ڈاکٹروں کی افرادی قوت دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے‘‘۔

میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے صدر کی مذکورہ بالا تجویز بلکہ کاوش قابل جرأت اور قابل داد ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب ایک عام مقرر سے لے کر وزیر اعظم تک خواتین کے مساوی حقوق کے لیے دھواں دھار تقریریں کر رہے ہوں، اپنے ملک کے حقیقی مسائل کو حل کرنے کے لیے مردوں کا کوٹہ بڑھانے کی بات کی۔بات یہ ہے کہ ہر بات میں مغرب کی تقلید کرنا یا ان کے نظریات کو بلا چوں و چرا قبول کر لینا شاید ایک بڑی تعداد کی عادت بنتی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں ہر دوسرا، تیسرا فرد کنفرمسٹ بنا پھرتا نظر آتا ہے۔ شاید اسی لیے صنفی برابری کی بات کی جاتی ہے، لیکن یہ غور نہیں کیا جاتا ہے کہ ہمارے معاشرے کی ضرورت کیا ہے؟ ہمارے معاشرے کا کلچر کیا ہے؟ ابھی پچھلے ہفتے امریکی شہرت رکھنے والے ایک پاکستانی پروفیسر وطن واپس آ کر اپنے لیکچر میں فرما رہے تھے کہ انھوں نے امریکا میں کئی اداروں میں بہت سی خواتین کو ملازمت کرتے ہوئے دیکھا مگر ہر جگہ دیکھا کہ ان کو ایک مرد سپروائز کر رہا ہے۔راقم نے اپنے ایک کالم میں پہلے بھی وزیر اعظم کی قرضہ اسکیم کے حوالے سے اس بات کی جانب توجہ مبذول کروائی تھی کہ منصوبہ بندی خواہ مردوں کی ہو یا خواتین کے روزگار اور دیگر مسائل کے حوالے سے ہو اس کو اپنے مخصوص ماحول اور معاشرے کے تناظر میں دیکھ کر بنایا جائے، محض مغرب کی اندھی تقلید میں منصوبہ بندی نہ کی جائے۔ یہاں بھی پروفیسر صاحب نے میڈیکل میں مردوں کے داخلے کی جو وکالت کی ہے اس کو محض خواتین کے حقوق کے تناظر میں نہ دیکھا جائے بلکہ معاشرتی تناظر میں ملکی ضرورت کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔ آخر یہ کون سی دانشمندی ہے کہ ایک ایسی تعداد کو جو ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد عمر بھر لوگوں کے علاج کرنے کے قابل ہوں محض اس بنیاد پر پیچھے دھکیل دیا جائے کہ اس سے خواتین کو طب کے شعبے میں آگے آنے کے مواقع کم ہو جائیں گے جب کہ خواتین کی اس تعداد کو ڈاکٹر بننے کے مواقع فراہم کر دیے جائیں جو چند سال بعد ہی کسی نہ کسی سبب گھر بیٹھ جائیں۔

ہمارے ہاں خواتین کی آزادی کی بات کی جاتی ہے مگر یہ نہیں سوچا جاتا کہ آزادی کس سے اور کس قیمت پر؟ مثلاً ایک ایسی خاتون کو جو خاندان بھر کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہی ہے اور اس کا شوہر بھی ہے، مردوں کی برابری یعنی گھر سے باہر کام کرنے کی آزادی کی کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی؟ یہی کہ وہ صبح سویرے گھر سے باہر کام کاج کے لیے نکلے، گھر سے دفتر اور واپسی گھر کے لیے سفر میں دشواری، 8 گھنٹے کی محنت مشقت اور پھر واپس گھر پہنچ کر شوہر سمیت تمام گھر والوں کی خدمت؟ گویا یہ نام نہاد آزادی مزید 8 گھنٹے کام کرنے کے لیے؟ ہمارے معاشرے میں ایسا تو ممکن نہیں کہ عورت 8 گھنٹے ملازمت کر کے آئے اور شوہر اسے چائے بنا کر پلائے، ایسا تو مغربی معاشرے میں بھی نہیں ہوتا۔ ہمارے ایک دوست خواتین کے کام کرنے کو بہت اچھا سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کی ماہانہ آمدنی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بظاہر بات تو بہت اچھی ہے کہ اس سے ماہانہ آمدنی میں اضافہ ہو جاتا ہے مگر بحیثیت مجموعی جائزہ لیا جانا چاہیے کہ اس کا معاشرے پر کیا اثر پڑتا ہے؟ مثلاً کسی شہر میں 30 فیصد ملازمتیں اگر خواتین کر رہی ہیں تو اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس 30 فیصد ملازمتوں سے مرد کے مواقع محدود ہو گئے۔

اگر یہ 30 فیصد مواقع بھی مردوں کو ملتے تو یہ 30 فیصد بیروزگار مرد یقیناً اپنی خواتین یعنی ماں، بہن اور بیوی پر ہی آمدنی خرچ کرتے۔کیا ہم نے کبھی سوچا کہ خواتین ورکرز کو مرد کے مقابلے میں کس قدر مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ دوران سفر ہراسمنٹ، کام کے دوران ہراسمنٹ، پبلک ٹرانسپورٹر انھیں سوار کرنے کو تیار نہیں حالانکہ ان کے لیے بسوں میں مخصوص جگہ ہے، اسی طرح ڈیلیوری کے موقع پر بھی چھٹیوں کے پیسے منہا کر لیے جانا۔ ہمارے ہاں خواتین کو گھر سے باہر نکالنے کی تو بات کی جاتی ہے لیکن گھر سے باہر نکلنے پر جو مسائل و مصائب ان کو جھیلنا پڑتے ہیں ان پر آواز بلند نہیں کی جاتی۔ ہم یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں گھر بیٹھی خواتین کو بے شمار مسائل کے باوجود قدرے سکون اور تحفظ تو حاصل ہوتا ہے لیکن گھر سے باہر قدم نکالنے پر معاشرہ بھی اس پر حیات تنگ کر دیتا ہے اور ریاست جو کسی مظلوم مرد کو سہارا نہیں دے سکتی وہ بھلا کسی عورت کو کیسے تحفظ فراہم کر سکتی ہے؟ہمارے ایک جاننے والے کی صاحبزادی پڑھنے میں بہت تیز تھیں ان کی والدہ بیٹی کو ڈاکٹر بنانا چاہتی تھیں مگر والد صاحب نے بیٹی کو ڈاکٹر بنانے کے بجائے حساب، کیمسٹری، انگریزی اور فزکس کا ٹیوٹر لگا کر بیٹی کو سبجیکٹ اسپیشلسٹ بنا دیا مگر ڈاکٹر نہ بننے دیا۔ ان کا موقف تھا کہ لاکھوں روپے لگا کر اپنی بیٹی کو ڈاکٹر بناتا اور شادی کے بعد سسرال والے ملازمت نہ کرنے دیتے تو ساری سرمایہ کاری ڈوب جاتی، لہٰذا میں نے بیٹی کو ان مضامین پر خاصا عبور حاصل کرا دیا جن کی ٹیوشن اور کوچنگ سینٹر میں ڈیمانڈ ہے لہٰذا اب میری بیٹی چاہے اپنے گھر میں رہے یا سسرال میں چلی جائے، ہر جگہ گھر بیٹھے میٹرک اور انٹر کے طلبا کو ٹیوشن پڑھا کر گھر کے خرچے میں ہاتھ بھی بٹا سکتی ہے۔ اسے گھر سے باہر جا کر نوکری کرنے کے لیے پاپڑ بیلنے کی ضرورت بھی نہیں۔روشن خیال افراد کے نزدیک مذکورہ صاحب کا فیصلہ شاید درست نہ ہو لیکن جس معاشرے میں وہ رہ رہے ہیں اس میں فٹ ہونے کے لیے غلط نہیں۔

 ڈاکٹر نوید اقبال انصاری

 

خود سوزی، عدل اور انصاف

$
0
0

مظفر گڑھ میں زیادتی اور خود سوزی کے دل خر اش واقعے نے ہمارے سوئے ضمیر کو پھر سے جگا دیا ہے۔ اگرچہ یہ جاگنا بھی وقتی ہے مگر پھر بھی سوئے رہنے سے بہتر ہے۔ اس واقعے کو دوسرے واقعے سے جوڑ کر دیکھیں تو آپ کو اصل قصہ سمجھ آئے گا۔ پاکستان کے ایک اور شہر میں والد کے قاتلوں کی عدم گرفتاری پر دو بچوں نے خود کو جلا ڈالا۔ لڑکی جانبر نہ ہو پائی۔ اس طرح کے تمام اندوہناک اور روح تڑپا دینے والی خبروں کے پیچھے ایک ہی عنصر کارفرما ہے اور وہ ہے انصاف کی عدم دستیابی۔ پاکستان میں سب سے بڑے مظالم کا گڑھ ہے تھانہ اور کچہری۔ شہر ہو یا مضافات شہریوں کے حقوق کی پامالی اور تذلیل کے بڑے بڑے واقعات اسی نظام کے ذریعے ہوتے ہیں۔ جن ممالک میں پولیس مستعد اور جرائم پیشہ یا طاقت ور حلقوں کے تابع نہیں ہوتی وہاں پر مظلوم کو انصاف کی امید اور ظالم کو سزا کا خوف ہوتا ہے۔ برطانوی راج کے تحت چلنے والے تھانے تمام تر استحصال اور انتظامی سختی کے باوجود اس طرز میں جمہوری یقیناً تھے کہ ان کو ظالم اور مظلوم دونوں کے ساتھ نپٹنے کا انداز آتا تھا۔ ان کو ظالم اور مظلوم کا فرق بھی پتہ تھا۔ اوپر سے یہ زمین گورے نے اپنے قبضے میں کی ہوئی تھی اور یہاں کی آبادی کو غلام بنایا ہوا تھا۔ مگر غلاموں کو مطمئن رکھنے کے لیے اس نے ایسا تھانہ سسٹم تیار کر دیا تھا جو ڈاکوؤں، چوروں اور بدمعاش عناصر قلع قمع کرنے کی صلاحیت اور قانونی جواز رکھتا تھا۔

ہم نے آزادی کے بعد سب سے پہلے انسانوں کا ستیاناس کیا اور ان کو مختلف خواہ مخواہ کے تجربات میں سے گزار کر طرح طرح کے حیلے بہانے استعمال کرتے ہوئے آزاد ریاست کے نئے مالکان کے گھر کی لونڈی بنا دیا۔ 2014ء میں حال یہ ہے کہ پولیس یا حکومت کے لیے کام کرتی ہے یا نہیں کرتی۔ عوام کو ظالموں کی پہنچ سے دور رکھنے کی جو بنیادی ذمے داری پولیس کو سونپی گئی تھی اس کا نشان تک نہیں ملتا۔ جمہوری حکمرانوں نے فوجی طالع آزماؤں سے بڑھ کر تھانوں پر قبضہ کیا ہے۔ آج بھی کسی صوبائی یا قومی اسمبلی کے رکن کے گھر چلے جائیں 50 فیصد معاملات کا تعلق تھانوں سے ہی ہو گا۔ وزیر ِاعلی اپنے کام کے بہترین گھنٹے افسران اور تھانوں کے سربراہان کی پوسٹنگ اور تبادلوں پر صرف کرتے ہیں۔ ان کو علم ہے ان کی طاقت کی بنیاد عوام کے ووٹ نہیں بلکہ عوام کا گلا گھونٹنے کا وہ نظام ہے جو تھانوں کے قبضے پر بنیاد کرتا ہے۔ اسی وجہ سے تھانوں میں بالخصوص اور پولیس کے نظام میں بالعموم کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ حقیقی تبدیلی لانے کے بجائے بحث کو دھڑوں کی سیاست میں الجھا دیا جاتا ہے۔ ایک طرف پولیس والوں کا دھڑا ہے اور دوسری طرف نام نہاد DMG گروپ بھی پولیس کو انتظامیہ کے تابع کرنے کے نام پر تاخیر کی جاتی ہے۔ اور کبھی انتظامیہ سے جان چھڑانے کی وجہ سے معاملہ کھٹائی میں ڈال دیا جاتا ہے۔

جنرل مشرف کے دور میں شروع ہونے والی بحث ابھی تک جاری ہے مگر تھانے ویسے کے ویسے ہی ہیں جن کے اہلکار خود سوزی کر نے والوں پر مٹی ڈالنے کے سوا اور کچھ نہیں کرتے۔ پنجاب میں شہباز شریف میلوں ٹھیلوں کے ذریعے دوسری مسلسل پانچ سالہ مدت پوری کر رہے ہیں۔ پنجاب میں مختصر وقفوں کے علا وہ میاں صاحبان نے طویل حکومت کی ہے۔ میں پرویز الٰہی کے دور کو بھی میاں صاحبان کا دور ہی کہوں گا۔ صرف وزیر اعلیٰ کا چہرہ مختلف تھا، افسران اور نظام وہی تھا جو شریف برادران چھوڑ کر گئے تھے۔ ایک صدی کے ایک چوتھائی عرصے میں ہمارے انقلابی حکمرانوں نے کیا تبدیل کیا ہر دوسرے روز بدقسمت خاندانوں کے گھروں میں جا کھڑے ہوتے ہیں۔ بازو ہلا ہلا کر احتساب کی باتیں کرتے ہیں، تصویریں بنواتے ہیں اور خود کو پسندیدہ کالم کاروں کے ذریعے افلاطون اور ارسطو کے درجے پر فائز کرتے ہیں مگر بدلتے کچھ نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2014ء میں ٖغریبوں کی بیٹیاں ظلم کا شکار ہونے کے بعد سڑکوں پر جل مر رہی ہیں۔ پاکستان میں اصلاحات اور انقلابی تبدیلی کے نام سے جس قسم کے دھوکے ہوتے ہیں اُن کی مثال دنیا میں بہت کم ملتی ہے۔ مگر اس سے بڑا دھوکہ اُن سیاسی جماعتوں نے دیا ہے جو خود کو حزب اختلاف قرار دیتی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف آخری الیکشن میں انقلاب کا نعرہ لے کر آئی تھی۔ مگر جب سے عمران خان شریف ہوئے ہیں تب سے تھانوں کی اصطلاحات کا معاملہ دور ٹھنڈے اسٹور میں ڈال دیا گیا ہے۔ بڑی بڑی باتیں پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو بھاتی ہیں۔ امریکا، ڈرون، دہشت گردی کے خلاف (یا اس کے حق میں جنگ) وہ شہ سرخیاں ہیں جو پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو مزید اہم بناتی ہے۔

مظفر گڑھ، ملتان، تھر میں غریبوں کی اموات مٹی سے اٹے ہوئے دیہات اور گوٹھوں میں تھانوں کا ظلم یہ سب معاملے چھو ٹے ہیں۔ اِ ن کو موخر کیا جا سکتا ہے۔ غریب کی اولاد مرنے اور لٹنے کے لیے ہی پیدا ہوتی ہے۔ امیر لیڈران ان بیکار لوگوں کے دیرینہ مسائل کو اپنے سر پر سوار کر کے اپنی توجہ مسائل سے نہیں ہٹانا چاہتے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت نظام عدل کی بھی ہے۔ نچلے درجے کا انصاف کا نظام ویسا ہی ہے جیسے نچلے طبقے کی زندگیاں جمود کا شکار، تحریک سے عاری، ذمے داری سے خالی۔ ہمارے یہاں انصاف بڑے بڑے مقدمات پر ہو تا ہے۔ جتنی قانونی بحث جنرل مشرف کے مقدمے پر ہوتی ہے اگر تمام عدالتی نظام کو درست کر نے پر صرف کی جاتی تو اس قوم کا اصل میں کچھ بھلا ہو جاتا ہے مگر چھوٹے مقدمات طویل قومی بحث کا موضوع نہیں بنتے اور پھر جہاں تک ہمارا عدالتی نظام پہنچ چکا ہے وہاں سے نچلی سطح کے مقدمات اُن لوگوں کی طرح ہی نظر آتے ہیں جن کا وجود طاقت کے کھیل میں غیر ضروری ہے۔ جنرل مشرف کو سزا دلوانے پر تمام نظام تلا ہوا ہے سزا ملنی چاہیے مگر روزانہ انصاف کے متلاشی لوگ خود کشیاں کرتے پھر رہے ہیں۔ اُن کی حالت زار پر اگر تھوڑی سی توجہ دے دی جاتی تو کوئی حرج نہیں ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم طاقتور طبقوں سے برابری اور اچھائی کی توقع کر رہے ہیں۔ یہ تمام طبقات لوگوں کی پسی ہوئی ہڈیوں کے انباروں پر رہتے ہیں۔ یہ وقتی طور پر تو نیچے نظر دوڑا کر خود سوزی کے واقعات پر افسوس کا اظہار بھی کر تے ہیں۔ مگر حقیقت میں ان کے پا س عام لوگوں کے لیے کوئی وقت نہیں ہے۔ اُن کا مرنا اور جینا اِن کے لیے بے معنی ہے۔

طلعت حسین

Increase the value of Pakistan Rs

$
0
0

پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب 37 کروڑ ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ ڈالر 97 روپے 98 پیسے کا ہوکر پھر اوپر جانا شروع ہو گیا ہے۔ جب ملکی قرضوں کے بار میں 800 ارب روپے کی کمی واقع ہوئی۔ وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کے مطابق ڈالر ریٹ کی کمی کا فائدہ عوام کو پہنچایا جائے گا۔ پٹرولیم کی قیمتیں بھی کم کی جائیں گی جس سے مہنگائی میں بھی کمی واقع ہوگی۔ 7 فروری 2014 کو ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 7 ارب 59 کروڑ ڈالر تھے۔ اس دوران زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے لیے حکومتی کوششیں رنگ لے کر آئیں۔ حکومت جلد ہی زرمبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر تک لے جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے سے قبل ہی روپے کی قدر میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی تھی۔ اس کے بعد کئی ماہ تک ڈالر کی قدر میں تیزی سے اضافے کا سلسلہ برقرار رہا جس پر حکومت پر کافی تنقید کی جاتی تھی ایک وقت ایسا بھی آیا جب ڈالر 111 روپے کا ہوچکا تھا۔

اس کے بعد کچھ عرصے تک ڈالر ریٹ 105 یا 106 کے لگ بھگ بھی رہا۔ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ چند دن کے اندر ڈالر 98 روپے کا ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کا یہ دعویٰ بھی صحیح ثابت ہوگیا کہ ڈالر کو 98 روپے تک لے کر جائیں گے۔ جن دنوں ڈالر کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔ اس بات کی توقع کی جا رہی تھی کہ جلد ہی ڈالر 127 روپے تک پہنچ جائے گا۔ گزشتہ چند ماہ سے آئی ایم ایف کو قسطوں کی ادائیگی کے باعث ڈالر کی طلب میں اضافہ ہو رہا تھا جس کے منفی اثرات روپے پر مرتب ہو رہے تھے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے روپیہ شدید دباؤ کا شکار ہوکر رہ گیا تھا۔ لیکن گزشتہ دنوں ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نیز پاکستان ترقیاتی فنڈ کے نام سے دوست ممالک سے منصوبوں کے لیے رقوم کی وصولی کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر میں تقریباً 2 ارب ڈالر کے اضافے نے روپے کی قدر کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف تیل کی درآمدات کی ادائیگی میں سہولیات اور ملک میں تیل کی پیداوار 90ہزار بیرل فی یومیہ بیچنے کے ساتھ ہی توقع ہے کہ پٹرولیم کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی جائے گی۔

پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کے باعث ملک میں نقل و حمل کے اخراجات میں کمی واقع ہوگی اور وقتی طور پر عوام کو بھی اس کے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ کرایوں کی کمی کے باعث ہر شے کی قیمت میں کچھ نہ کچھ کمی واقع ہوتی ہے۔ خصوصاً اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی واقع ہوتی ہے۔ حکومت کو روپے کی قدر میں اضافے کے بعد سب سے زیادہ توجہ اس بات پر مرکوز کرنی چاہیے کہ کسی طرح گندم اور آٹے کی قیمتوں میں کمی لے کر آئے۔ حکومت کسانوں سے 30 روپے فی کلو یعنی 1200 روپے من کے حساب سے گندم خریدتی ہے جب کہ مارکیٹ میں فی کلو آٹے کی قیمت 50 روپے ہے۔ یہاں پر چکی مالکان ہول سیلرز وغیرہ کا ایک ہی بہانہ ہوتا ہے کہ نقل و حمل کے اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ پٹرولیم کی قیمتیں آئے روز بڑھتی رہتی ہیں لہٰذا آٹے اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ حکومت کو درآمد کنندگان پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ روپے کی قدر میں اضافے کے باعث پام آئل جوکہ بڑی تعداد میں بیرون ممالک سے درآمد کیا جاتاہے ۔ اس کی قیمت بھی کم ہونی چاہیے۔ بصورت دیگر ڈالر ریٹ میں کمی کا فائدہ درآمدکنندگان اٹھاتے رہیں گے اور عوام کو اس کا کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچایا جائے گا۔ آیندہ دو ہفتوں کے بعد گھی اور کوکنگ آئل کی قیمت میں کمی واقع ہونا چاہیے اس کے علاوہ چائے کی پتیوں کی قیمت بھی کم ہونے کی صورت میں عوام کے لیے چائے کی پتی سستی کرنا یہ بھی حکومت کی اہم ذمے داری ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ڈالر ریٹ میں کمی کی وجہ معاشی وجوہات نہیں بلکہ پولیٹیکل وجوہات کی بنا پر ایسا ممکن ہوا ہے۔ اگرچہ معاشی اشاریوں نے بھی مثبت اشارے دیے ہیں لیکن اس کے باوجود معیشت کے تمام مسائل اپنی جگہ پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں۔ مثلاً ابھی تک توانائی کا بحران بھرپور انداز میں موجود ہے۔ ٹیکس وصولیاں بھی زیادہ نہیں ہو رہی ہیں، ترسیلات زر میں تھوڑا بہت اضافہ ہوا ہے اور سب سے بڑا مسئلہ ابھی تک بیرونی سرمایہ کاری کا ہے جوکہ ابھی تک دہشت گردی کے واقعات کے سبب متاثر ہوچکا ہے۔ 2007 کی بات ہے جب ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 8 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران اس میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔ اب ایک ارب ڈالر سے بھی کم بیرونی سرمایہ کاری کا حجم ہے۔ لہٰذا اگر روپے کی قدر میں استحکام لانا ہے تو بیرونی سرمایہ کاری کے حجم میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملکی سرمایہ کار جوکہ بیرون ملک سرمایہ کاری کر رہے ہیں ان کو اس جانب راغب کیا جائے کہ وہ ملک میں سرمایہ کاری کریں۔ یہاں کارخانے لگائیں تاکہ لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں۔ حکومت لوگوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے بیرون ملک ورکرز بھجوانے کا عزم رکھتی ہے جس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ترسیلات زر میں اضافہ کیا جائے۔ گزشتہ 7 ماہ میں ترسیلات زر میں 11 فیصد کا اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ اسی طرح 2007 میں انوسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی کا تناسب 24 تھا آج یہ تناسب بہت ہی گرچکا ہے۔ اس میں بہتری لائے بغیر روپے کی قدر کو مستحکم کرنا انتہائی مشکل ہے۔

روپے کی قدر میں تیزی سے اضافے کے باعث ایکسپورٹر کو قدرے دھچکا پہنچے گا۔ حال ہی میں جی ایس پی اسٹیٹس ملنے کے باعث برآمدات میں اضافے کی توقع پیدا ہوچکی تھی حال ہی میں یورپی یونین کی جانب سے پاکستان پر عاید کردہ پابندیوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ جس کے باعث برآمدات میں اضافے کی راہ میں پھر مشکلات بھی پیدا ہوں گی۔ لہٰذا ہوسکتا ہے کہ ملکی برآمدات میں 8 تا 10 فیصد کمی ہو۔ لہٰذا برآمدات کنندگان کو اس کا معمولی خسارہ پہنچ سکتا ہے جس کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ سستی بجلی فراہم کی جائے حکومت بجلی کے نرخوں میں کمی کرے پٹرولیم کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی جائے اس کے علاوہ جو درآمدی خام مال برآمدات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اس میں بھی کمی کی جائے تاکہ قیمت میں کمی کے باعث ایکسپورٹ کی اشیا کی لاگت میں کمی ہو جس کا فائدہ برآمد کنندگان اٹھا سکیں۔ کیونکہ برآمدات میں اضافے کے لیے ضروری ہے کہ ایسا ماحول برقرار رکھا جائے جس سے برآمد کنندگان کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔

مارچ 2008 میں اس وقت نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی روپے کی قدر میں تیزی سے کمی کا سلسلہ چل نکلا تھا۔ 2008 میں ہی ڈالر 80 روپے کا ہوچکا تھا۔ جنوری 2012 میں ایک ڈالر کی قیمت روپے تک جا پہنچی تھی۔ جولائی 2013 میں ڈالر 100 روپے کا دستیاب تھا۔ لہٰذا جنوری 2012 اور جولائی 2013 کے اٹھارہ ماہ کے عرصے میں ڈالر کی قدر میں 10 روپے کا اضافہ ہوچکا تھا۔ اگر حکومت کئی اقسام کی معاشی اصلاحات لے کر آنے میں کامیابی حاصل کرلیتی ہے تو مزید 5 یا 6 روپے کی کمی لاکر ڈالر 93 تا 95 روپے تک لے کر آنا کوئی مشکل امر نہیں ہوگا۔ کیونکہ جنوری 2008 میں ایک ڈالر 61 روپے کا دستیاب تھا۔ اور جنوری 2011 میں ایک ڈالر 85 روپے کا دستیاب تھا۔ اور جنوری 2012 میں ڈالر 89 روپے 80 پیسے کا دستیاب تھا۔ حکومت کے مطابق اس سال افراط زر کی شرح 8 فیصد تک رہنے کی توقع ہے اگر روپے کی قدر میں استحکام رہتا ہے تو مہنگائی کی شرح میں مزید کمی واقع ہوسکتی ہے۔ بشرطیکہ پٹرولیم کی قیمتیں کم کی جائیں۔

اس کے ساتھ ہی آٹا اور دیگر اشیائے خورونوش کے ساتھ تیل اور گھی کی قیمت میں کمی لائی جائے۔ لیکن یہاں پر سردست ایک مسئلہ یہ پیدا ہو رہا ہے کہ حکومت عنقریب گندم کی درآمد میں اضافہ کر رہی ہے۔ چند سال سے گندم کی درآمد نہ ہونے کے برابر تھی لیکن اب گندم درآمد کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔ لہٰذا ایک دفعہ پھر گندم کا بحران پیدا کرکے مہنگائی کو کم کرنے کی حکومتی کوششوں پر پانی پھیر دیا جائے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ بجلی کے نرخ جوکہ پہلے ہی عوام پر بہت زیادہ بار ہے۔ نیز صنعتی صارفین بھی اس کا بوجھ برداشت نہیں کر پا رہے ہیں بجلی کے نرخوں میں فوری کمی کا اعلان کرے۔ اس سے مہنگائی کی شرح میں قدرے کمی کے ساتھ صنعتی صارفین کو بجلی کے نرخوں میں کمی سے برآمد کنندگان کو بھی ڈھارس بندھے گی۔ لہٰذا روپے کی قدر میں اضافے کے ساتھ اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ روپے کی قدر کو مستحکم بھی رکھا جائے بصورت دیگر چند ہفتوں میں معاملہ برعکس بھی ہوسکتا ہے۔ روپے کی قدر مستحکم رہنے کی صورت میں ہی عوام کے لیے افراط زر میں کمی کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔

Increase the value of Pakistan Rs

Enhanced by Zemanta

Pakistan Economy : Devaluation of the dollar is fake? By Dr. Shahid Hassan

$
0
0


ڈالر کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔ بدھ کی صبح ڈالر اوپن مارکیٹ میں 98 روپے کا ہوگیا۔ پاکستانی روپیہ ڈالر پر حاوی ہوتا جارہا ہے۔ رواں ماہ کے آغاز سے اب تک ڈالر کی قدر میں 6 روپے 16 پیسے کی کمی واقع ہوئی ہے۔ ساڑھے آٹھ ماہ کے بعد ڈالر اس سطح پر آیا ہے۔ ماہرین کے مطابق ڈالر کی قدر میں کمی ملک میں رواں ماہ ڈالر کی آمد کی توقعات کے باعث ہورہی ہے، جبکہ فاریکس ڈیلرز کے مطابق عوام بھی ڈالر کو روپے میں تبدیل کروارہے ہیں۔ دوسری جانب رواں مالی سال کے دوران 10 ارب 20 کروڑ ڈالر ترسیلاتِ زر کی صورت میں موصول ہوئے، جو گزشتہ عرصے کی نسبت 11 فیصد زیادہ ہیں۔

وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر اضافے کے بعد 9.37 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی کوششوں نے مثبت نتائج دکھانا شروع کیے ہیں اور ہم جلد ہی اپنے اعلان کے مطابق مارچ کے مہینے کے آخر تک زرِ مبادلہ کے ذخائر کو دس ارب ڈالر تک لے جائیں گے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت ایک منصوبے کے تحت زرِمبادلہ میں اضافے کی پالیسی پر کاربند ہے جو کولیشن سپورٹ فنڈ، اتصالات سے بقایا جات کی وصولی اور یورو بانڈزکی وصولیوں کی مدد سے ممکن ہوگا۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں نمایاں کمی کی وجوہات کے بارے میںٹاپ لائن سیکورٹیز کے چیف ایگزیکٹو محمد سہیل کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قدر میں گراوٹ کی بڑی وجہ پاکستان ڈیویلپمنٹ فنڈ کی جانب سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد ہے جس پر ایک خوشگوار حیرت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چند ماہ پہلے کسی کو وزیرِ خزانہ کی اس بات پر یقین نہیں آرہا تھا کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر دس ارب ڈالر تک جاسکتے ہیں۔ادھر پاکستان فاریکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کے ذمہ دارسٹے باز تھے جنہوں نے مارکیٹ سے ڈالر خرید کر ذخیرہ کرلیے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اس عمل میں کچھ بینک بھی ملوث تھے جنہوں نے ڈالر خریدنے کے لیے کارٹیل بنائے جس کا ثبوت یہ ہے کہ نجی بینکوں کے پاس سرکاری بینکوں سے زیادہ ڈالر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب حکومت نے اس ضمن میں واضح اعلانات کیے تو اس کا اثر مارکیٹ پر بھی پڑا۔ روپے کی قدر میں کتنا اضافہ ممکن ہے اس بارے میں ملک بوستان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت برآمد کنندگان کے دباؤ میں نہ آئے تو اگلے تین ماہ میں ڈالر 90 روپے کی سطح پر آسکتا ہے۔

دوسری جانب ماہرِ معاشیات، انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا فرائیڈے اسپیشل سے بات چیت میں کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں اضافہ بظاہر اچھی بات ہے مگر انہیں یہ سب مصنوعی لگ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس ہم جب بھی جاتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کریں، اور یہ 2001ئ، 2008ء اور2013ء میں بھی ہوچکا ہے اور ہمیشہ روپے کی قدر میں کمی کی جاتی رہی ہے۔ اس دوران سٹے باز میدان میں آجاتے ہیں اور ضرورت سے زیادہ روپے کو گرا کر خوب دولت کماتے ہیں۔ اس سٹے بازی اور غلط کاری میں بینکوں کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔2001ء میں بھی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا تھا کہ سٹے بازی ہوئی ہے، اور2008ء میں مشیر خزانہ نے کہا تھا کہ سٹے بازی ہوئی ہے اور بینکوں کا اس میں کردار ہے، ہم ایکشن لیںگے۔ اب جو روپے کی قدر میں کمی ہوئی اس میں بھی سٹے بازی ہوئی جس میں بینکوں کا بھی کردار ہے، اور اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ہم سٹہ بازوں کے خلاف ایکشن لیں گے۔ لیکن کسی کے خلاف کبھی ایکشن نہیں ہوا، اور یہ اربوں روپے کما کر بچ کر نکل جاتے ہیں۔ اب یہ جو ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے میں بڑھی تھی اور ڈالر 98 روپے سے111 روپے کا ہوگیا تھا اس کا جواز نہیں تھا۔آئی ایم ایف چاہتا تھا کہ 103 سے 104روپے پر آجائے، مگر سٹے بازوں نے اس کو 111روپے تک پہنچا دیا۔ اسحاق ڈار نے کوشش کی کہ اس کو کم کیا جائے۔ اسٹیٹ بینک نے کوشش کی اور کہا کہ روپے کو مضبوط کریں۔ دیکھیں ایکسچینج کمپنیوں کی ایسوسی ایشن بھی آفر کرتی ہے کہ آپ کو اگر سپورٹ چاہیے تو ہم آپ کو کئی ارب ڈالر دینے کو تیار ہیں۔ تو ماضی میں تو ایسا بھی ہوا کہ 25، 30 فیصد تک مختصر مدت میں بہتری آئی ہے، اور ابھی جو ہوئی ہے وہ 10فیصد ہوئی ہے۔ یہ کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے۔ سٹے بازی تھی،اس عمل کو الٹدیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر واقعی بہتری آئی ہے تو پیٹرول کے نرخ کم ہونے چاہئیں، درآمدی اشیاء کے نرخ بھی کم ہونے چاہئیں، ٹرانسپورٹ کے کرائے کم ہونے چاہئیں۔ اگر ایسا نہیں ہے اور اِس وقت تو یہ بالکل واضح ہے کہ پاکستان کے معاشی اشاریے خراب ہیں تو روپے کی قدر کو اتنا گرانے کی ضرورت تھی اور نہ جس طرح انہوں نے ٹھیک کیا ہے اس کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ اعداد وشمار اس کی نفی کرتے ہیں۔ (1)جاری کھاتوں کا خسارہ چار سو چالیس ملین سے بڑھ کر دو بلین روپے ہوگیا ہے۔ (2) پاکستانی شرح نمو چار یا پانچ فیصد رہنے کا امکان ہے۔ (3) پاکستان کے جو تجارتیشراکت دار ہیں اُن کے یہاں مہنگائی دو فیصد ہے جبکہ ہمارے یہاں نو فیصد ہے۔ سات فیصدکا فرق تو بہرحال ہے۔ اِس مرتبہ کھیل ہوا ہے اور کھیل کا تعلق پاکستان کی سلامتی سے ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کہتا ہے کہ اگر پاکستان نے نجکاری کی تو اس کی قسمت بدل جائے گی۔ ہمیں تو پتا ہے کہ نجکاری سے کیسی قسمت بدلتی ہے! تو اب اس کی جو صحیح صورت حال ہے وہ یہ ہے کہ نواز حکومت نے ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے منشور پر عمل نہیں کیا۔ پاکستان اوورسیز چیمبر کا کہنا ہے کہ یہ اپنے منشور کے صرف ایک نکتہ پر عمل کرلیتے اور ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس لگاتے تو آپ کو ایک سال میں پچیس سو ارب روپے مل جاتے۔ ظاہر بات ہے طاقتور طبقے یہ نہیں چاہتے کہ ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس لگایا جائے۔ تو انہوں نے ایک تیر سے دو شکار اس طرح کیے کہ نجکاری کا پروگرام بنایا اور وال اسٹریٹ جرنل کو انٹرویو میں اسحاق ڈار نے کہا کہ ’’3جی، 4جی لائسنس سے ہمیں آٹھ ارب ڈالر تک وصول ہوں گے‘‘ اور یہ تاثر پیدا کیا کہ پاکستان کے محفوظ ذخائر بڑھنے والے ہیں۔ حالانکہ میرا تو خیال ہے کہ دو ارب ڈالر بھی مشکل سے آئیں گے۔ اس میں خطرناک بات یہ ہوئی ہے کہ انہوں نے اپنے انٹرویو میں یہ کہا کہ ہم پاکستان پیٹرولیم اور آئل اینڈ گیس کاپوریشن کے شیئرز بھی عالمی مارکیٹ میں فروخت کریں گے، جس میں غیر ملکی بھی شامل ہیں، اور حبیب بینک کے شیئر بھی فروخت کریں گے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ منفعت بخش اداروں کی فروخت مسلم لیگ (ن) کے منشور کا حصہ نہیں تھی۔ اب کھیل یہ ہوا جس میں عالمی مالیاتی اداروں کی دلچسپی بھی شامل ہے کہ پاکستان کے جو اہم اثاثے ہیں وہ غیر ملکیوں کے قبضے میں چلے جائیں۔ عوام کو یہ سوچنا ہوگا کہ ٹیکسوں کے ضمن میں اپنے منشور پر عمل کرنے کے بجائے قومی اثاثوں کو بیچنے کا پروگرام ان کے منشور سے متصادم ہے، اور ٹیکسوں کی جو وصولی ہے وہ سال کے سال ہوتی ہے، اگر اِس سال ڈھائی ہزار ارب بڑھتے ہیں تو اگلے سال بھی بڑھیں گے اور بعد میں بھی بڑھیں گے۔ لیکن نجکاری کا پیسہ ایک دفعہ آجاتا ہے اور وہ کھا جاتے ہیں تو کیا قوم یہ کرنے کے لیے تیار ہے! ٹیکسوں کے ضمن میں جو منشور ہے اس پر عمل نہ ہو اور نجکاری کے ضمن میں جو منشور ہے اس کے خلاف عمل ہو… ان دونوں چیزوں میں انہوں نے قوم کو مار دیا ہے۔ ابھی ڈالر کی گراوٹ کے پس منظر میں بیرون ملک سے دوست ملک کی حیثیت سے ڈیڑھ ارب ڈالر آگیا ہے۔ اس کی پوری تفصیلات نہیں ہیں۔ امریکہ کا کیا مفاد تھا، ہمارا کیا مفاد ہے، اس رقم کے عوض ہم نے ان سے کیا وعدے کرلیے ہیں، اس کو بھی دیکھنا ضروری ہے۔ آئل اینڈ گیس کارپوریشن اور پاکستان پیٹرولیم کا سالانہ منافع 209 ارب روپے ہے اور یہ منافع بڑھ رہا ہے، لیکن جب آپ ان کے شیئرز بیچ دیں گے تو اگلے سال تو منافع نہیں ملے گا! اور نجکاری کا پیسہ بھی نہیں ملے گا۔ ٹیکس آپ بڑھا نہیں رہے تو اگلے سال تو آپ کا بجٹcollapse ہونے والا ہے اور جو اثاثے آپ نے بیچے ہیں اور بیچ رہے ہیں ان کو اگر دشمن ملک خرید لے تو آپ کی معیشت دشمنوں کے حوالے ہوجائے گی۔ اور اہم بات یہ ہے کہ حبیب بینک وغیرہ کا منافع روپے میں ہوتا ہے، اور جب ان اداروں کے شیئرز آپ بیچیں گے جو اچھا منافع دے رہے ہیں تو آپ کو یہ منافع بھی نہیں ملے گا۔ تو یہ ایک تماشا ہے۔ قوم کو سوچنا ہوگا کہ یہ کیوں ہورہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اگلے برسوں میں پاکستان میں ایک معاشی بحران آئے گا جس کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ کیونکہ اِس سال مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے جو بجٹ پیش کیا ہے اس میں 2600 ارب روپے ٹیکسوں کی وصولی دکھائی ہے۔1500ارب صوبوں کو چلے گئے تو بچے 11 سو ارب… جبکہ 12 سو ارب ان کو ایک سال میں سود دینا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی آمدنی سے سود بھی ادا نہیں کرسکتے تو پورا ملک کہاں سے چلائیں گے! تو بات یہ ہے کہ یہ ایک منظم کھیل ہے۔ انہوں نے ڈالر کو ضرورت سے زیادہ گرایا ہے تاکہ کامیابی کا تاج پہن لیں اور قوم کو اس بحث میں الجھادیا کہ یہ گرا کیسے ؟ اور بڑھا کیسے؟ تو انہوں نے نجکاری کا ڈراما رچانے اور ٹیکسوں کے مسئلے کو پیچھے ڈالنے کے لیے اس بحث میں ہمیں الجھایا ہے۔ یہ گریٹ گیم کا حصہ ہے کہ ہمارے اثاثے غیر ملکیوں کے پاس چلے جائیں۔

……٭……

ڈالر کی قیمت میں کمی کا رجحان جاری ہے۔ اس رجحان کے مستقبل میں پاکستان کی معیشت پر کتنے اچھے اور برے اثرات پڑیں گے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن پاکستان کے مفاد پرست طبقہ اشرافیہ کے ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے جن خدشات کا اظہار کیا اس پر سیاسی قیادت کو ضرور سوچنا ہوگا اور اس کے سدباب کے لیے سنجدہ عملی قدم اٹھانا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو خدشہ ہے کہ آج انسانوں کا پیدا کردہ مصنوعی قحط جوآہستہ آہستہ، دبے قدموں، بڑی دھیرج سے وسیع و عریض علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے کر موت سے ہمکنار کررہا ہے وہ مستقبل میں ملک کے کئی علاقوں کو تھر میں تبدیل کردے گا۔

Pakistan Economy : Devaluation of the dollar is fake? By Dr. Shahid Hassan
اے۔ اے۔ سیّد

Economy of Pakistan : ڈالر کی قیمتیں، برآمدکنندگان کیا کریں؟…

$
0
0


ڈالر کا اتنی تیزی سے نیچے آنا بظاہر تو بہت اچھی بات معلوم ہوتی ہے، اگر یہ وقتی نہیں، حقیقی ہے اور حکومت کی دیرپا پالیسی کا نتیجہ ہے تو اس کا مطلب ہے ملکی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے، اس کے دور رس نتائج نکلیں گے۔ اس سے ہماری امپورٹس کی لاگت کم ہو گی، قیمتوں میں کمی آئے گی، ہماری امپورٹس کا بڑا حصہ خام مال کا ہوتا ہے۔ جب خام مال سستا ہوگا تو تیار اشیا کی قیمتیں بھی کم ہوں گی، عوام کو ریلیف ملے گا، لیکن یہ سب اسی وقت ہوگا جب ڈالر کی یہ تنزلی برقرار رہے، مگر ماضی کا مشاہدہ یہ ہے ایسی تبدیلیاں وقتی طور پر کچھ لوگوں کو کھل کھیلنے کے لیے کی جاتی رہی ہیں۔ اس وقت بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اندرون خانہ مارکیٹ سے سستے داموں ڈالر خرید رہے ہیں۔ اگرچہ عوام کی اکثریت گھبراہٹ میں اور مزید گرنے کے خوف سے ڈالر فروخت کر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے اوپن مارکیٹ دبائو کا شکار ہے۔ حکومت کو اعلان کرنا چاہیے کہ ڈالر کی کیا قیمت رکھنا چاہتی ہے۔ روز روزکا اتنا اتار چڑھائو کچھ کو مالا مال اور کچھ کو کنگال کر سکتا ہے۔ ایک دلچسپ مکالمہ آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔

مدینہ منورہ میں میرے بیٹے نے سنایا، جو ایک عرصہ سے سعودی عرب میںقیام پذیر ہے۔ شروع کا دور تھا، ایک دن منی چینجر سے ڈالر بدلوانے گیا، اس سے ریٹ معلوم کیا۔ 3.70 ریال فی ڈالر اپنی عادت کے مطابق پوچھا، کچھ بڑھنے کا امکان ہے تو کل تک انتظار کر لوں۔ کرلو،20 سال سے میں بیٹھا ہوں، آج تک تو بڑھا نہیں۔ اس کو کہتے ہیں استحکام اورحکومت کا کنٹرول۔ وہاں پر آج بھی ڈالر 3.70 ریال میں جتنے چاہو بیچ لو اور 3.75 ریال میں جتنے چاہو خرید لو۔ پانچ حلالے کا فرق تو کبھی اس وجہ سے ہو سکتا ہے کہ وہاں پر دور تک کوئی منی چینجر کی دکان نہ ہو۔ اسی لیے ایک عرصہ تک وہاں پر قیمتوں میں استحکام رہا۔ جو کولڈ ڈرنک کا ڈبہ بیس سال پہلے ایک ریال کا تھا وہ گزشتہ سال تک بھی ایک ریال کا تھا۔ ہمارے ہاں بیس سال پہلے کی قیمتیں اپنے پوتوں یا نواسوں کو سنائیں تو ان کو یقین ہی نہیں آتا۔ ظاہر ہے جب انھوں نے چند برسوں میں یوں قیمتیں دگنی، تگنی ہوتی دیکھیں تو اتنے عرصے تک قیمتوں کا یوں مستحکم رہنا ان کے لیے کسی خواب سے زیادہ بھلا کیوں کر ہوسکتا ہے۔

اب ہم آتے ہیں اس کے دوسرے پہلو کی طرف۔ اس کے ایکسپورٹ اور ایکسپورٹر پر کیا اثرات ہوں گے۔ اس وقت ہماری نظر چھوٹے اور درمیانے ایکسپورٹر کی طرف ہے، جو چھوٹی چھوٹی فیکٹریوں میں ملبوسات وغیرہ بنا کر مختلف ممالک کو برآمد کرتے ہیں۔

وہ کاروباری جو ایک ماہ میں چار پانچ کنٹینر ایکسپورٹ کرتے ہیں، ان کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ ان کی حیثیت معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی ہے، جن کا سرمایہ محدود ہے۔ ان کے تین چار مہینے کے سودے پیشگی فروخت ہوئے ہوتے ہیں۔ انھوں نے 105 روپے کے ڈالر کے حساب سے مال بیچا ہوا ہے۔ اس کا منافع 5 سے 7 فیصد ہے۔ اس وقت پاکستانی برآمد کنندگان کو کتنے مقامی مسائل کا سامنا ہے، ان کا بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ اس پر اپنے ریجن کے ممالک سے مسابقت اور مقابلہ۔ خریدار سے ذرا سی قیمت بڑھانے کی بات کریں تو بھارتی اور بنگلہ دیشی تاجر ہم سے کم قیمت میں مال دینے کو تیار بیٹھا ہوتا ہے۔ ایسے میں اپنی قیمت پر اصرار کرنا خریدار کو کھو دینا ہوتا ہے۔ یہ ایکسپورٹر کیسے چل پائیں گے۔ حکومت کی جانب سے فوری طور پر ان کے لیے کسی رعایت کا اعلان نہ کیا گیا تو یقینی طور پر وہ اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ بے شک ان کا خام مال بھی ڈالر کے گرنے سے سستا ہونا چاہیے، مگر ان کی قیمتیں فوری کم نہیں ہوں گی، کیوں کہ جو خام مال موجود ہے، وہ تو پرانے ڈالر کے بھائو آیا ہوا ہے اور پھر ہمارے ملک میں قیمتیں کم کرنے کا رجحان بہت کم یا بہت سست ہے، کیوں کہ خام مال درآمد کرنے والے یا بنانے والے سب بڑے بڑے دیو ہیں۔

یہ سب ایک ہوکر چھوٹے برآمدکنندگان اور تاجروں کا استحصال کرتے ہیں۔ اس پر طرفہ تماشا یہ ہے کہ حکومت نے ایک عرصہ سے جنرل سیلز ٹیکس کا ریفنڈ بھی روکا ہوا ہے۔ اس طرح اس طبقہ کو تو بے حد مشکلات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اگر یہ کارخانے بند ہوگئے تو بے روزگاری میں کتنا اضافہ ہوگا۔ حکومت کے ریونیو میں کتنی کمی آئے گی۔ حکومت کا ٹریڈ ڈیفسٹ مزید بڑھ جائے گا۔ ایک دفعہ دبئی میں ایک بھارتی تاجر سے بات ہو رہی تھی کہ و ہ کس طرح اتنی کم قیمت پر مال برآمد کر لیتے ہیں، تو انھوں نے بتایا جو حکومت ریبیٹ (Rebate) دیتی ہے، وہی ہمارا نفع ہوتا ہے۔ یہ مال تو ہم خرید کے خرید یا اس سے بھی کم پر بیچ دیتے ہیں، ورنہ تو چائنا سے مقابلہ کیسے کرتے۔ پوری دنیا ہی چین سے خوف زدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی حکومتیں اپنی برآمد کی مختلف طریقوں سے حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ ہماری حکومت کو بھی اس پر بھرپور طریقے سے غور کرنا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری معیشت سنبھلنے کے بجائے بگڑ جائے، کیوں کہ معیشت برآمد (Export) بڑھنے سے اچھی ہوتی درآمد 

(Import) بڑھنے سے نہیں۔

Enhanced by Zemanta

تھرپارکر کا قحط اور کمزور حکمرانی

$
0
0

تھر کا ریگستان دنیا کا کا اٹھارواں بڑا صحرا ہے جس کا کل رقبہ 2لاکھ مربع کلو میٹر یا 77000 مربعہ میل ہے جو ہندوستان میں ریاست راجستان کے علاوہ ہریانہ صوبہ سندھ اور جنوبی پنجاب کے چولستان کے علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔یہ شمال میں دریائے ستلج مغرب میں دریائے سندھ اور جنوب میں رن آف کچھ کے کچھ علاقوں تک پہنچتا ہے اس صحرا کی تاریخ 4000 سے 10000 سال پرانی بتائی جاتی ہے۔اس کے اندر پرانے ریت کے ٹیلے 500 فٹ تک بھی اونچے ہیں۔ تھرپارکرکے علاقے میں 20کلو میٹر لمبی اور 300 میٹر اونچی پہاڑی بھی ہے اس ریگستان کی ریت تیز ہوائوں کے جھروکوں پر سوار ہوکر پرندوں کی طرح اڑتی اور اپنی جگہ تبدیل کرتی رہتی ہے اس لئے اللہ کی عطا کی ہوئی اس سرزمین کی شکل و صورت دنوں میں نہیں بلکہ گھنٹوں میں بدلتی رہتی ہے۔ دور دور پھیلی ہوئی چھوٹی چھوٹی بستیوں کے مٹی کے بنے ہوئے کچے گھروندے اور محدود زرعی زمینیں بھی فوراً ریگستان میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ پینے کے پانی کی قلت ہے زیر زمین پانی قابل استعمال نہیں ذرائع رسل و رسائل محدود ہیں۔ یہاں کوئلے کا دنیا کا چھٹا بڑا ذخیرہ موجود ہے اور زرعی زمین نایاب ہے۔یہاں قریباً 23اقسام کے Lizard،25 اقسام کے سانپ، بسٹرڈز، بلیک بکس، چنکاراز، Gazelle اور ریگستانی لومڑ پائے جاتے ہیں۔ سردیوں میں درجہ حرارت نقطہ انجماد اور گرمیوں میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک جاتا ہے۔1980 کی خانہ شماری کے مطابق تھرپارکر میں 241326 گھر تھے 2011 کے نیشنل نیوٹریشن سروے کے مطابق پاکستان کے تھر کے ریگستان میں خوراک کی کمی کے شدید بحران کی نشاندہی کردی گئی تھی لیکن حکومتی ایوانوں میں بیٹھے نا اہل اور کرپٹ وڈیروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور کوئی دوررس منصوبہ بندی نہ کی گئی۔ دانشور لوگ یہ کہتے ہیں کہ قحط یا خشک سالی یا وبائی امراض کی شدت کا تعلق خوراک کی کمی سے بہت کم ہے۔ اسکی زیادہ بڑی وجوہات غلط منصوبہ بندی، کمزور حکمرانی، کرپشن، خوراک کو شہروں اور دیہات تک پہچانے کے ناقص نظام ہیں۔ سندھ کے اس بد قسمت علاقے میں ایک دو سال پہلے مور مرنے شروع ہوئے اسکا حکومت پر کوئی اثر نہ ہوا۔ پھردوسرے جانوروں کی ہلاکتیں شروع ہوگئیں۔ پھر بھی کسی نے کوئی پروا نہ کی اسکے بعد کمزور بچوں پر بیماریوں نے یلغار کردی اور سینکڑوں معصوم بچوں کے چراغ اپنی مائوں کی گودوں میں گل ہوئے ، پھر بھی میڈیا نے سندھ کی حکومت کو جگانے کی کوشش کی جو کروڑوں روپے خرچ کرکے سندھ کے ثقافتی میلے کے انتظامات میں مصروف تھی۔

ایک دانشور نے کہا تھا کہ قحط ایسے ممالک میں نہیں پڑتے جہاں جمہوری حکومتیں ہوتی ہیں یعنی ایسی حکومتیں جن کے قائدین اپنی جیبیں بھرنے کی بجائے لوگوں کا سوچیں ایسی جمہوریت میں قائدین کے دل عوام کے دلوں کیساتھ دھڑکتے ہیں۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جمہوری حکومتوں کو اقتدار میں آنے کیلئے عوام کے ووٹ چاہئے ہوتے ہیں ۔ اگر اقتدار میں جمہوری حکومت حاکمیت کا صحیح حق ادا نہ کرسکے تو جمہوری طریقوں کے عین مطابق اُن کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ سے حکومتیں ٹوٹ جاتی ہیں، بد قسمتی سے پاکستان میں جمہوریت برائے نام ہے۔ جمہوری انداز میں اتخابات تو ہوتے ہیں لیکن منتخب ہوکر زیادہ تر وہی لوگ سامنے آتے ہیں جن کے پاس زیادہ دولت ہو، بے زبان قسم کی بڑی برادری ہو ایسے امیدواروں کو انتخابات میں کامیاب کروانے والے اُن ٹاوٹوں کی کمی نہیں ہوتی جو انتخابات کے فوراً بعد منتخب امیدواروں کیساتھ ملکر کرپشن میں برابر کے حصہ دار بن جاتے ہیں۔ ٹکٹ کے حصول کیلئے بنیادی شرط ریاست سے نہیں بلکہ قائد سے وفاداری ہے۔ بین الاقوامی رسالے اکانومسٹ نے کہا ہے کہ اکیسویں صدی میں جمہوریت اس لئے زوال پذیر ہونا شروع ہوگئی ہے کہ ہم صرف انتخابات کے انعقاد کو جمہوریت سمجھتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد اداروں کو مضبوط کرنے کی بجائے کمزور کردیتے ہیں ہمارے سیاسی کلچر میں میرٹ ایک گالی سے کم نہیں اہل لوگوں کی پہلے تو سیاسی جماعتوں میں گنجائش نہیں اگر آجاتے ہیں تو ان کو پارٹی لیڈر شپ کیلئے خطرہ تصور کیاجاتا ہے۔ تھرپارکر کے حوالے سے عرض یہ ہے کہ یہ کمزور حکمرانی کی داستان ہے پاکستان میں خوراک کی کمی نہیں چونکہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہر نعمت سے نوازا ہے ۔گندم ہم برآمد بھی کرسکتے ہیں اور کرتے رہے ہیں اسلئے مسئلہ خوراک کا نہیں بلکہ غریب لوگوں کی خوراک تک رسائی کا ہے۔اس کیلئے قائدین کے دلوں میں خوفِ خدا، احساسِ ذمہ داری، پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور اخلاص پر مبنی حکمتِ عملی کے علاوہ اچھی حکمرانی کے اوصاف ہونے چاہئیں اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں حکمرانی کے سنگین چیلنجز بھی موجود ہیں ان کا مقابلہ کرنے کیلئے اہل، خواندہ ،دلیر، صحت مند نوجوان قیادت کی اشد ضرورت ہے۔سندھ جیسے صوبے کو چلانا قائم علی شاہ کی ساری خوبیوں کے باوجود نوے سالہ چیف منسٹر کے بس کی بات بالکل نہیں۔ اس عمر میں انسان اگر بستر سے اٹھ کر خود جوتے پہن لے یا پھر غسل خانے تک خود پہنچ جائے تو پاکستان کی آب و ہوا اور اوسط عمر اور معاشی و معاشرتی ماحول میں اسکو اللہ کی بہت بڑی نعمت سمجھاجاتا ہے۔ یہ ایک قدرتی نظام ہے عمر رسیدہ لوگوں کے اعصاب کمزور ہونے شروع ہوجاتے ہیں قوتِ سماعت و بینائی متاثر ہوتے ہیں یہی وجہ ہے جو سوال وزیراعلیٰ سندھ کو خود اٹھاناچاہئے تھا وہ وزیراعظم نے پوچھا کہ پسماندگی اگر قحط کا سبب بن سکتی ہے تو چولستان میں بچوں مویشیوں اور پرندوں کی اموات کیوں نہیں ہورہیں۔ وزیراعظم کے اس سوال کے بعد سناٹا تھا۔ سوال یہ بھی پوچھاجاسکتا تھا کہ ہندوستانی تھر میں قحط سالی اور وبائی بیماریوں کی یلغار اور بچوںکی اموات کیوں نہیں ہورہی۔ موسمی حالات تو بالکل ایک جیسے ہیں۔

قارئین سچی بات یہ ہے کہ موجودہ ملکی نظام اور سیاسی ماحول میں پاکستان میں صحیح آسامیوں پر صحیح لوگ تعینات کرنا مشکل ہے۔سندھ اور بلوچستان میں حالات اور بہت خراب ہیں کچھ سیاستدان منتخب ہوکر وزیر بن جاتے ہیں اور چونکہ انہوں نے دوبارہ بھی منتخب ہونا ہوتا ہے اس لئے اُن کی وزارتوں میں وزارت کا سرکاری کام کم اور اُنکے حلقہ انتخاب کا سیاسی کام زیادہ ہوتا ہے۔ انتظامیہ کی چھوٹی بڑی پوسٹ پر وہ اُن آفیسروں کو تعینات کرواتے ہیں جو اہل نہیں بلکہ وفادار ہوں ایسے ہی لوگ تھرپارکر میں تعینات ہیں کوئی وزیر کا بیٹا ہے اور کوئی بھائی یا رشتہ دار۔1994 میں جب میں حکومت میں ملٹری سیکرٹری تھا تو اس وقت سندھ پولیس میں DSP کی 34 آسامیاں بنائی گئیں۔میری ساری کوششوں کے باوجود کہ میرٹ پر ان لوگوں کا انتخاب کیاجائے فیصلہ یہ ہوا کہ ہر ایم پی اے اور ایم این اے کو ایک یا دو آسامیاں الاٹ کردی جائیں وہ اپنے خاندان یا حلقے سے اپنی مرضی کے ڈی ایس پی لگوالیں ۔آج وہ لوگ SSP ہیں اسلئے مجھے کراچی کی موجودہ صورتحال پر حیرانگی نہیں ہوتی ۔یہ کڑوے حقائق ہیں جن کو تبدیل کیے گئے بغیر ملک کو معاشی خوشحال کی راہ پر گامزن نہیں کیاجاسکتا۔

تھرپارکر کا قحط اور کمزور حکمرانی

 

Traffic accidents and precautions

$
0
0


اگر بات صرف انسانی ہلاکتوں کی تعداد کے اعتبار سے کی جائے تو یہ حیرت انگیز حقیقت سامنے آتی ہے اس ملک میں دہشت گردی اور بم دھماکوں سے چار گنا زائد اموات جس مسئلے پر ہوتی ہیں اس پر نہ ملکی سطح پر سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں، نہ ہی عوام میں آگہی کے لیے کوئی باقاعدہ مہم چلائی جاتی ہے، نہ ہی اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی جامع منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ اس مسئلے کے حل نہ ہونے کے سبب ملک میں سالانہ 12 ہزار لوگ جاں بحق اور لگ بھگ 50 ہزار کے قریب زخمی ہوجاتے ہیں۔

یہ مسئلہ کیا ہے؟ اس کے بارے میں نیشنل ہائی وے اینڈ موٹر وے پولیس انسپکٹر جنرل ذوالفقار احمد چیمہ نے گزشتہ ہفتے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آگاہ کیا کہ بم دھماکوں سے چار گنا زائد لوگ روڈ ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کی تعداد سالانہ بالترتیب 12 ہزار 50 ہزار بنتی ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں مزید آگاہی فراہم کرتے ہوئے کہا کہ ٹریفک حادثات کی اکثریت میں 18 سے 30 سال کے افراد شامل ہوتے ہیں جو روڈ سیفٹی اصولوں اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے جاتے ہیں۔ انھوں نے یہ بات بھی بتائی کہ 80 فیصد حادثات تیز رفتاری، غیر محتاط ڈرائیونگ اور موبائل وغیرہ کے دوران ڈرائیونگ استعمال کے سبب ہوتے ہیں۔ اسی طرح حادثات میں زخمی ہونے والے افراد کی 60 سے 70 فیصد تعداد محض سیٹ بیلٹ نہ باندھنے والی ہوتی ہے۔

اسکول کے بچوں کی وین اور بسوں کے حادثات کی دلخراش خبریں ابھی کچھ عرصے قبل ہی نظر سے گزری ہیں جب کہ یہ سلسلہ رکتا نہیں سال بھر جاری رہتا ہے۔ بچوں کے اسکول کی وین اور بسوں یا مسافر بسوں کو چلانے والے تو عام ڈرائیور ہوتے ہیں جو یقیناً پڑھے لکھے نہیں ہوتے، ظاہر ہے کہ جب پڑھے لکھے نہیں تو شعور بھی زیادہ نہیں ہوتا۔ قانون کی بالادستی نہ ہونے کے سبب ایک اسکول وین سے لے کر انٹرسٹی ٹرانسپورٹ کے ڈرائیوروں تک کی غلطی کا خمیازہ مسافروں کو بھگتنا پڑتا ہے۔

ان حادثات کا دوسرا پہلو ان لوگوں پر مشتمل ہے جو ان پڑھ نہیں تعلیم یافتہ بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں۔ کراچی جیسا شہر جہاں ملک کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ اپنی نجی گاڑیاں خود چلاتے ہیں، قانون کی صبح و شام کھلی خلاف ورزیاں کرتے ہیں اور یہی قانون کی خلاف ورزیاں پھر حادثات پر منتج بھی ہوتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ سڑکوں پر چلتے ٹریفک سے کسی قوم کے کلچر اور مزاج کا اور ان کے شعور کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے، یقیناً یہ بات کراچی جیسے شہر پر بھی صحیح ثابت ہوتی ہے۔ ٹریفک جام کا ایک بڑا سبب اس شہر کے بیشتر لوگوں کا جلدی کرنے اور دوسرے کے حق کو روندتے ہوئے اپنی گاڑی نکالنے کی کوشش کرنا ہے اور یہ سب کچھ اس خطرناک انداز میں کیا جاتا ہے کہ لوگ حادثات کا شکار ہوکر گرتے رہتے ہیں، کچھ دیر کو ایک مجمع جائے حادثہ پر جمع ہوتا ہے اور پھر چند منٹوں بعد سب کچھ رواں دواں ہوجاتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، لیکن شہر کے سول جیسے بڑے اسپتال کے گیٹ پر آپ کھڑے ہوجائیں تو معلوم ہوگا کہ ہر 5 منٹ بعد کوئی نہ کوئی چیختی چلاتی ایمبولینس حادثے میں زخمی ہونے والے افراد کو لا رہی ہوتی ہے۔

صبر و تحمل کا مزاج جہاں زندگی کے دیگر شعبوں میں ختم ہوکر رہ گیا ہے وہیں سڑکوں پر گاڑیاں دوڑاتے لوگوں میں بھی صبر وتحمل مشکل سے ہی نظر آتا ہے، منزل پر محض پانچ دس منٹ پہلے پہنچنے کے لیے وہ رسک لیا جاتا ہے کہ جس میں حادثہ ہوجائے تو کم ازکم پانچ چھ ماہ بیڈ ریسٹ کرنا پڑتا ہے۔ یہی کچھ حال گاڑیوں کے پارک کرنے کے حوالے سے بھی دیکھا جاسکتا ہے، ہم میں سے ہر دوسرا شخص اس قدر جلدی میں دکھائی دیتا ہے کہ کبھی لب سڑک اور کبھی بیچ سڑک ہی گاڑی روک کر خریداری شروع کردیتا ہے۔ ایسی غلط پارکنگ کے باعث شاپنگ سینٹر اور بازاروں کے قریب خاص کر ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ہم سب مل کر صبح و شام ٹریفک جام کرنے میں اپنا اپنا کردار تندہی سے انجام دے رہے ہوتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ اس ٹریفک جام کے باعث ایمبولینس بھی مریضوں کو بروقت اسپتال نہیں پہنچا سکتی۔ غلط اوور ٹیکنگ اور ہارن کا غلط استعمال تو کوئی جرم ہی نہیں سمجھا جاتا۔

بہرکیف ایک اور خطرناک بات جس کی طرف توجہ دلانا نہایت اہم ہے وہ نو عمر اور کم عمر بچوں کو موٹرسائیکل اور گاڑیاں چلانے کے لیے والدین کی طرف سے آزادی دینا ہے۔ کم از کم کراچی جیسے بڑے شہر میں یہ ایک خطرناک ترین غلطی ہے جس کے باعث خود ان نوعمروں کی جان خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ راقم کے ایک محلے دار نے شادی کی تقریب میں جاتے ہوئے موٹرسائیکل پر تو اپنے نوعمر بیٹے اور بچوں کو سوار کرادیا اور خود کار میں شادی ہال جانے لگے۔ بیٹے نے شو بازی کرتے ہوئے شادی کی کار سے آگے پیچھے موٹرسائیکل دوڑانا شروع کردی اور ایک غلطی کے باعث حادثہ ہوگیا جس میں بچہ ہلاک اور لڑکے کی ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر ہوگیا۔ ایک اور واقعے میں دو نوجوان لڑکے کار کی ریس لگاتے ہوئے تیز رفتاری کا مظاہرہ کر رہے تھے، انھوں نے ہمارے ایک عزیز کو جو سڑک کنارے رکشے کے انتظار میں تھے ایسی ٹکر ماری کہ وہ دو فرلانگ دور جاگرے اور ان کے ہاتھ پاؤں کی ہڈیوں میں فریکچر ہوگیا۔ ایک اور واقعے میں گیارہویں جماعت کا لڑکا اپنی سالگرہ کے دن اپنے دوستوں کو لے کر کیک خریدنے جا رہا تھا اور دوستوں کو دکھانے کے لیے اتنی تیز کار چلائی کہ کار چلتے چلتے الٹ گئی، دوست تو زخمی ہوگئے مگر وہ خود سالگرہ والے دن ہلاک ہوگیا۔

ایسے نہ جانے کتنے واقعات ہیں۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ٹریفک حادثات میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کو نظرانداز نہ کیا جائے، حادثات میں ہلاک وزخمی ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، ہم ڈینگی وائرس کے سبب گنتی کی ہلاکتوں پر احتیاطی تدابیر کے لیے بھاگتے پھرتے ہیں، کیا اتنی بڑی تعداد میں ہونے والے نقصانات سے بچنے کے لیے صبر و تحمل سے ڈرائیو نہیں کرسکتے؟ صبر وتحمل اور قانون کو اپناکر ڈینگی اور بم دھماکوں سے بھی خطرناک حملوں (حادثات) سے بچا جاسکتا ہے۔ آئیے آج سے عہد کریں اور ان باتوں پر عمل کریں کہ (1) موٹرسائیکل بغیر ہیلمٹ کے نہ چلائیں گے اور چین کور بھی مکمل طور پر لگا کر رکھیں گے کیونکہ اکثر اوقات خواتین کے دوپٹے یا کپڑے موٹرسائیکل کی چین میں آجاتے ہیں جس سے وہ گر کر زخمی ہوجاتی ہیں۔ (2) گاڑی چلاتے وقت سیٹ بیلٹ بھی باندھیں گے کیونکہ حادثات میں زخمی ہونے والوں کی شرح 60 سے 70 فیصد ایسے ہی لوگوں کی ہے۔

(3) اپنے کم عمر بچوں کو گاڑی یا موٹرسائیکل مین شاہراہوں پر چلانے کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ حادثات میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کی اکثریت ان ہی پر مبنی ہوتی ہے۔

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری

Traffic accidentsand precautions

بلوچستان : عوام کہاں جائیں

$
0
0

بلوچستان کے حالات اسی طرح سے ہیں جس طرح پہلے تھے۔ صوبہ دہشت گردی، انتہا پسندی، پسماندگی، اغوا برائے تاوان سمیت دیگر کئی مسائل میں کمی کے بجائے اضافے سے دوچار ہے۔ عوام نے عام انتخابات کے بعد نئی صوبائی حکومت سے کئی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں کہ بلوچستان میں پائی جانے والی شورش زدہ کیفیت میں کمی واقع ہوگی لیکن یہ وہ صوبہ ہے کہ جہاں وزیراعلیٰ کی نامزدگی مسئلہ بنی رہی اور پھر چار ماہ تک صوبائی کابینہ بڑی لے دے کے بعد بنی، یعنی سیاسی صورت حال ہی مستحکم بنیادوں پر ہی قائم نہیں ہوسکی، جب کہ ان دنوں اتحادی جماعتوں میں کھینچا تانی جاری ہے۔ ن لیگ جو کہ ابتدا ہی سے صوبہ کی بڑی جماعت بن کر ابھری اور اس نے وزیراعظم میاں نواز شریف کی معاملہ فہمی کے باعث وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑا مگر وہ اب نالاں ہے۔ مالک بلوچ مسلسل انھیں نظر انداز کر رہے ہیں، اس حوالے سے ان کے تحفظات ہیں جوکہ خاطر میں نہیں لائے جارہے۔ اس کشمکش صورت حال کی وجہ سے قیام امن اور عوام کا تحفظ مسلسل خطرات سے دوچار ہے۔

مسائل کے انبار لگ رہے ہیں، معاشی ترقی ابتری کی جانب رواں دواں ہے۔ عوامی حلقے اپنے مسائل کے حل کے لیے سرگرداں ہیں۔ 11 مئی 2013 سے قبل بھی صوبہ آگ کی لپیٹ میں تھا اور اب بھی اس میں کمی واقع نہیں ہورہی۔ زائرین سابقہ دور میں بھی لقمہ اجل بن رہے تھے جب کہ موجودہ دور میں بھی انھیں عدم تحفظ کے خطرات لاحق ہیں۔ یہ کہا جانا بے جا نہ ہوگا کہ اب بھی حکومتی رٹ نہیں دکھائی دیتی البتہ حکومت اپنی رٹ کی رٹ لگاتی دکھائی دیتی ہے۔ سیاسی، مذہبی اور عام افراد سمیت حکومتی شخصیات کا اغوا عام بات ہوگئی ہے۔ چند دن قبل صوبے کے قبائلی و مذہبی رہنما سید احمد شاہ قبائلی رہنماؤں کی جدوجہد کے بعد چھ ماہ کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بازیاب ہوئے تھے کہ ڈسٹرکٹ کچ کے ڈپٹی کمشنر عبدالحمید ابڑو اور تمپ کے اسسٹنٹ کمشنر محمد حسین بلوچ اغوا ہوگئے اور افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ان کی بازیابی کے لیے جانے والی ٹیم بھی اغوا کرلی گئی۔ ذمے داری کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ نے قبول کی۔ اہم بات یہ ہے کہ صوبے میں کئی علیحدگی پسند تنظیمیں اپنی مذموم کارروائیوں میں مصروف ہیں مگر ان کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات نہیں کیے جارہے۔

درست ہے کہ مشرف دور میں بلوچستان کے حالات گمبھیر صورت حال اختیار کر گئے لیکن بعد کی حکومتیں اس پر بہتری لانے میں ناکام کیوں رہیں۔ ایڈولف ہٹلر نے کہا تھا کہ کسی بھی قوم پر کاری ضرب لگانی ہو تو سب سے پہلے اس ملک کی فوج کو اس قوم کی نظروں میں اس قدر مشکوک بنادیا جائے کہ وہ اپنے ہی محافظوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے۔ یہی صورت حال یہاں پائی جاتی ہے۔ پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کے اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔ صوبے میں زلزلے کے بعد امدادی کارروائیوں میں سب سے بڑھ کر پاک آرمی نے خدمات انجام دیں لیکن مسلسل انھیں روکنے کی کوشش کی گئی۔ مختلف مقامات پر امداد و بحالی پر مامور ٹیموں کو ہدف بناکر نقصان پہنچایا گیا حالانکہ فوج کا کسی بھی لحاظ سے محاذ آرائی کا ارادہ نہ تھا۔ شرپسندی بہرکیف عروج پر ہے، جو خود ان کے لیے اور صوبہ بھر کے پسماندہ عوام کے لیے نقصان کا باعث ہے۔ 2013 میں ایف سی کے 360 اہلکار شہید کیے گئے۔ پولیس بھی مسلسل خطرات کے باوجود فرائض کی انجام دہی میں مصروف عمل ہے۔

لاپتہ افراد کی تعداد میں بھی کمی واقع نہیں ہورہی۔ کچھ لوگ تاوان کی ادائیگی کی صورت میں رہا یا بازیاب ہوئے مگر ایک بڑی تعداد اب بھی لاپتہ کے زمرے میں شمار ہورہے ہیں۔ مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی ایک المیہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ماما قدیر خواتین سمیت ایک قافلے کی صورت گزشتہ سال ستمبر سے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مسئلہ عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے لانگ مارچ کر رہے تھے۔ کسی حد تک اس حوالے سے پیش قدمی بھی نظر آئی۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو سرگرم دیکھا گیا لیکن خضدار کے علاقے توتک میں اجتماعی قبر کے انکشاف نے تشویش کی ایک نئی لہر کو ہوا دی ہے۔ یہ ایسا دل گداز واقعہ ہے کہ اگر یورپ یا کسی اور متمدن ملک میں ایسا کوئی سانحہ رونما ہوتا تو ممکن ہے لوگ حواس باختہ ہوجاتے، آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا، انسانی حقوق کی تنظیمیں واویلا مچادیتیں۔ لیکن بلوچستان چونکہ ملک کا پسماندہ صوبہ ہے اور یہاں عرصہ دراز سے کشت و خون کا بازار گرم ہے روزانہ کی بنیاد پر لاشیں گر رہی ہیں اسی وجہ سے نظر انداز کرنا یا سرکاری سطح پر خاموشی اختیار کرنا غیر معمولی کیفیت نہیں۔ بھلا ہو ہمارے ملک کی عدلیہ کا جو اس صورت حال میں بھی عوام کی داد رسی کے لیے متحرک ہے کہ موجودہ چیف جسٹس نے اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے از خود نوٹس لیا اور اجتماعی قبر کی تحقیقات کا بیڑا اٹھایا۔ اس سے قبل قومی اسمبلی میں بی این پی مینگل نے اس حوالے سے آواز بلند کی مگر ان کی یہ آواز حکومتی بنچوں تک باز گشت نہ پیدا کرسکی۔ دوسری جانب اس سانحے کے چند دن بعد ہی سبی کے بیدار قبرستان کے قریب پانی کے جوہڑ سے ایک تشدد زدہ نوجوان کی بوری بند لاش ملی جو کہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔

الغرض یہ کہ صوبے کے سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے عوام قدرتی گیس سے محروم ہیں۔ حالانکہ یہ گیس اس صوبے کی پیداوار ہے، اسکول بند ہیں، اسپتالوں میں ڈاکٹرز نہیں، سڑکیں خستہ حالی کا شکار ہیں۔ اول تو عوام عدم تحفظ کے باعث گھروں میں ہی محصور ہیں اور اگر نکلیں بھی تو نوگو ایریاز کے باعث محدود حد تک کسی قسم کی سرگرمی انجام دے سکتے ہیں۔ ناراض بلوچوں سے مذاکرات کا راگ الاپا جارہاہے جب کہ صوبائی حکومت اختیارات سے بہرہ ور نہیں۔ عدالتوں کے احکامات پر عملدرآمد نہیں ہورہا جو عسکریت پسندوں کو توانائی پہنچانے کا باعث ہے جس سے نہ صرف معاشی و اقتصادی معاملات پر قدغن ہے بلکہ ریاست کمزور کی جارہی ہے اور عالمی سطح پر صوبے کا چہرہ مسخ ہورہا ہے۔ اب کون بتائے کہ بلوچستان کے مسائل جن سے عوام مسلسل نبرد آزما ہے ان کو حل کون کرے گا۔ حکمران یقین دہانیوں پر زور دیتے ہیں اور صوبے میں سیاسی صورت حال مستحکم نہیں۔ عوام کا پرسان حال کون ہوگا؟

مجاہد حسین

مرحبا سعودیہ!

$
0
0


ڈالر نیچے آ گیا ہے اور ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی شہرت بام عروج کو چھو رہی ہے۔ مگر اصل کمال تو ہمارے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کا ہے جس نے کسی شرط کے بغیر پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر دینے کااعلان کر دیا اور اطلاعات کے مطابق آدھی رقم سٹیٹ بنک میں جمع کرائی جا چکی ہے، ابھی اور پیسے آنے ہیں اور ڈالروں کا نیا ڈھیر تین ارب کی حد کو چھونے والا ہے۔

میں رپورٹر ہوتا تو سب سے پہلے یہ خبر دینے کا اعزاز حاصل کرتا مگر ایک کالم نویس کی حیثیت سے گزشتہ بدھ کو شائع ہونے والا میرا کالم بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا۔ اصل میں گزشتہ ہفتے میری ملاقات اپنے راوین دوست اور سٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر سعید احمد کے ساتھ ایم ایم عالم روڈ کے ایک پوش ہوٹل فریڈیز میں ہوئی۔ وہاں چھ دوست اور بھی موجود تھے اور سب کے سب ایک دوسرے سے چوالیس برس بعد مل رہے تھے ، گورنمنٹ کالج سے نکلنے کے بعد کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا ،والی صورت حال تھی، اب زندگی آخری موڑ پر ہے اور ہر ایک کو پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ہوش آئی ہے۔

دوستوں کی اس محفل میں کچھ کو تو چائے پیتے ہوئے پتہ چلا کہ سعید احمد کس اعلی منصب پر فائز ہیں۔ چائے پی کر باہر نکلے تو پھر یہ عقدہ کھلا کہ یہ ہوٹل بھی ہمارے ایک کلاس فیلو زاہد کبیر کی ملکیت ہے، سو اس کا شکریہ کہ اس نے دوستوں کی یہ محفل سجائی۔خواجہ عرفان انور بھی اس منڈلی میں موجود تھے، وہ خواجہ خورشید انور کے صاحبزادے ہیں، امریکہ میں رہتے ہیں،ان سے تفصیلی ملاقات کا احوال پھر سہی! چار عشروں کی باتیں پھیلتی چل گئیں، پتہ ہی نہ چل سکا کہ کس وقت سہہ پہر ،شام میں ڈھل گئی اور باہر نکلے تو گھنے بادل شہر پر برس چکے تھے اور رات نکھری ہوئی تھی۔ سونے کی تیاری کرنے لگا تو سعید صاحب کا فون آ گیا کہ ڈالر نیچے آ گیا ہے، ان سے کافی معلومات ملیں اور انہی کی بنیاد پر اگلے روز میں نے ڈالر کا بھونچال کے عنوان سے کالم لکھا۔ ڈالر بعد میں مزید گرا اور گرتا چلا گیا۔ تو یار لوگوں نے اس کی وجوہات کی ٹوہ میں جانے کی کوشش کی۔ یہ راز جلد کھل گیا کہ امریکی ڈالر کی صحت کی خرابی کی وجہ سعودی ڈالر ہیں۔ میرے کالم میں ڈیڑھ ارب سعودی گرانٹ کی خبر موجود تھی مگر میں نے اسے جان بوجھ کر نہیں اچھالا کہ نیکی کرنے والا خود ڈھنڈورا نہیں پیٹنا چاہتا تھا۔

اب ہر طرف سے سوالات کی بوچھاڑ ہے، سوال وہی ہیں جو پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے سعودی دورے کے پس منظر میں پوچھے گئے، پھر سعودی مہمانوں کی لگاتار آمد کی وجہ سے ان سوالوں میں شدت پیدا ہو گئی۔ درمیان میں منور حسن اور مولانا سمیع الحق اچانک عمرے پر گئے تو عمر عیار کی زنبیل کی طرح مباحث نے تیزی پکڑ لی۔

بڑا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان نے سعودی عرب کے ڈالروں کی وجہ سے اپنی شام پالیسی میں تبدیلی کر لی ہے۔ اس سوال کا جواب دینے کے لئے ایک اور سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے دورے، ترکی کے زیادہ ہیں یا سعودی عرب کے، کبھی وزیر اعظم نوازشریف، کبھی خادم اعلی شہباز شریف اور کبھی ہمارے دوست کالم نگار اجمل نیازی استنبول میں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ شام کے مسئلے پر ترکی کا رویہ کیا ہے۔ ترکی نیٹو کا رکن ہے اور اس کے جیٹ طیارے، ٹینک اور توپیں جب چاہے ، شام کی سرکاری فوجوں کو نشانے پر رکھتی ہیں۔اسی ترکی کی میٹرو بس اور نجانے کتنے منصوبوں کا پھل ہم لاہور میں بیٹھے کھا رہے ہیں مگر ہم میں سے کسی نے ترکی پر اعتراض نہیں کیا کہ وہ شام کے حکمران بشارالاسد کا مخالف کیوں ہے۔ مگر اب سعودی عرب نے ہمیں یکا یک ڈیڑھ ارب ڈالر کی خطیر رقم عطیہ کر دی ہے تو ہمیں ایک دم بشارالاسد کی ہمدردی کا عارضہ لاحق ہو گیا ہے اور ہر کوئی شام کی خود مختاری کا فلسفہ بھگار رہا ہے۔ ہماری حکومت کو بھی نجانے کیوں احساس گناہ لاحق ہے اور اس کے ذرائع وضاحتیں کر تے پھر رہے ہیں کہ پاکستان نے سعودی امداد کے بدلے اپنی شام پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ ترکی صدیوں میں اتنی بڑی مدد نہیں کر سکتا جو سعودی عرب نے آن واحد میں پاکستانیوں کی ہتھیلی پر رکھ دی ہے۔

سعودی عرب ہماری امداد نہ بھی کرتا تو ہمیں اس کے اشارہ ابرو پر اپنی ہر پالیسی تبدیل کر لینی چاہئے، سعودی عرب سے دوستی اور محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم چوںچراں نہ کریں۔ کیا کبھی سعودی عرب نے ماضی میں ہماری پالیسیوں کو دیکھ کر ہماری مدد کا فیصلہ کیا تھا، کیا سوشلزم کا علم بردار بھٹو، شاہ فیصل کے لئے اس قدر عزیز نہ تھا کہ اس کی دعوت پر لاہور میں اسلامی کانفرنس کا اجلاس طلب کیا گیا ا ور شاہ فیصل نے بنفس نفیس ا س میں شرکت کی۔ کیا بھٹو کی مائو کیپ سے بدک کر سعودی عرب نے ہمارے ایٹمی پروگرام میں دامے درمے سخنے مدد دینے سے کبھی گریز کیا۔ سعودی عرب ہمیشہ پاکستان کے عوام کا دوست رہا، اس نے حکمرانوں کی شکلیں دیکھ کر اپنی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں کی، زرداری صاحب کا معاملہ الگ ہے کہ وہ خود سعودی عرب کو دور بھگانے کے چکر میں پڑے رہے۔ اب شریف برادران کی حکومت میں تو پاکستان کو سعودیہ کے تمام نخرے اٹھانے چاہئیں، مگر ہم نے الٹا سرد مہری دکھائی اور سعودی ولی عہد کو دفاعی ضروریات کے لئے نئی دہلی جانا پڑا۔اس سعودی عرب نے صرف شریف بردران کی ہی میزبانی نہیں کی، ذرا حساب لگا لیجئے کہ کتنے لاکھ پاکستانی خاندان سعودی عرب میں محنت مزدوری کرنے والے پاکستانیوں کی وجہ سے پل رہے ہیں، پل کیا رہے ہیں ، خوش حالی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اور پھر حرمین شریفین کو ہم کیسے فراموش کر سکتے ہیں، سعودی عرب پر آج اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ کرم ہے مگر یہ سرزمین چودہ سو برسوں سے ہمیں ڈالروں کے لئے تو عزیز نہیں تھی۔ ہم تو خدا کے گھر اور پیارے نبی ﷺ کے عشق سے سرشار قوم ہیں۔ ہماری مسجدوں میں دردو سلام کی محفلیں سجتی ہیں اور ہم ہر لمحہ حرمین کی زیارت کے لئے تڑپتے ہیں۔ تو حرمین شریفین کے خادمین بھی اسی طرح ہمارے لئے محترم اور لائق عزت ہیں۔ وہ ہمارے دکھ درد میں برابر کے شریک رہے ہیں، پہلی افغان جنگ کا بڑا خرچہ سعودیہ نے اٹھایا اور لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کے اخراجات کا بڑا حصہ سعودیہ نے برداشت کیا۔اب ہماری معیشت کو سدھارنے کا چیلنج درپیش ہے تو سعودیہ ایک بار پھر ہمارا ہاتھ تھامنے کے لئے پیش پیش ہے۔

میرا خیال ہے کہ ابھی تو شروعات ہیں، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا، سعودی عرب کا ادھار تیل آنے لگا تو ہمارے سب دلدر دور ہو جائیں گے۔ انشا اللہ! فی الحال وزیرخزانہ اسحا ق ڈار اور معزز سعودی سفیرڈاکٹرعبدا لعزیز ابراہیم صالح الغدیر کو پاکستان کے سب سے بڑے سول اعزاز سے نوازا جانا چاہئے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو تو ان کے کالج نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دے کر نواز دیا اور حمزہ میاں کو جلسے جلوسوں کا فن آتا ہے ، وہ ریس کورس میں ایک میلہ اور سجائیں اور پاک سعودی تعاون پر مرحبا سعودیہ! مرحبا سعودیہ! کے نعرے بلند کرنے کا ایک ریکارڈ بنائیں۔


بشکریہ روزنامہ "نوائے وقت"

Enhanced by Zemanta

دارالخلافہ یا دا رالخرافات

$
0
0

ہمارے یہاں اور کچھ ہو یا نہ ہو تصویریں بڑی غضب کی چھپتی ہیں۔ ملکی ترقی اور خوشحالی کے بہترین نمونے سامنے آتے ہیں۔ کل کے اخباروں میں وزیر اعظم نواز شریف اور چین کے اسٹیٹ گرڈ کارپوریشن کے صدر جیازی کیانگ کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔ دونوں سرخ پھولوں کے گلدستوں کے ارد گرد بیٹھے دو پرچموں کے سائے میں محو گفتگو ہیں۔ جیازی متوجہ ہیں، وزیر اعظم اپنے مخصوص انداز میں خوشگوار تاثرات کے ساتھ کچھ فرما رہے ہیں۔ وزیر اعظم ہاؤس کے مہنگے صوفے، ٹیلی فون، سنہری لکیروں والی تپائیا ں، سب کچھ ایک مکمل اور جاذب نظر لمحے کو تفصیل کے ساتھ تصویر کی صورت میں پیش کر رہا ہے۔ اس خبر کے ساتھ وزیر اعظم کا چھپا ہوا بیان بھی پاکستان کی زبردست نمایندگی کرتا ہے۔ خبر کے مطابق وزیر اعظم نے چینی مہمان کو یہ ضمانت دی کہ ان کی سرمایہ کاری اور اثاثے پاکستان میں محفوظ رہیں گے۔ اور بین الاقوامی کمپنیوں کو بہترین اور آسان شرائط پر پاکستان میں ترقی کا عمل تیز کرنے کے لیے خاص سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ خبر میں چائنا کے حوالے سے 35 ارب ڈالر کی اگلے پانچ سال میں سرمایہ کاری کا عندیہ بھی موجود ہے۔ کیوں کہ چین سے ہماری دوستی ہمیشہ سے ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری رہی ہے۔

لہٰذا وزیر اعظم کے ساتھ تمام فیصلہ ساز افراد اس میٹنگ میں موجود تھے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف، نجکاری کمیشن کے چیئرمین محمد زبیر، سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین مصباح اسمعیل، وزیر اعظم کے پرسنل سیکریٹری جاوید عالم اور ہمیشہ سے خوش لباس اور چاک و چوبند ہر دم حاضر ڈاکٹر آصف کرمانی، اس گروپ کی موجودگی سے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ یہ میٹنگ کتنی اہم تھی۔ ہم اس میٹنگ کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس خوبصورت ماحول پر کوئی اعتراض کر سکتا ہے جو بذریعہ کیمرہ قوم تک پہنچایا گیا۔ لہٰذا اخباروں میں کچھ اور بھی لکھا گیا جس پر توجہ دینا ضروری ہے۔ جس دن پاکستان چین تعاون اور وزیر اعظم کا بیان صفحہ اول کی زینت بنا اس روز ملک کے ایک اور اہم ادارے یعنی عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان کے بیان بھی چھپے ہوئے تھے ۔ اسلام آباد کچہری حملے کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے معزز بینچ کے اراکین، تصدق حسین جیلانی، عظمت سعید اور خلجی عارف حسین نے حالات حاضرہ پر اپنے ریمارکس کے ذریعے کچھ یوں تبصرہ فرمایا ’’ضلعی عدالت پر حملہ ریاست کی ناکامی کی علامت ہے، ریاست شہریوں کو زندہ رہنے کا حق دینے کی ذمے دار ہے جس پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ حملہ کرنے کا الزام قبول کرنے والی تنظیم نجانے اصلی بھی یا نہیں ہے ہو سکتا ہے فرضی نام ہو ، حکومت کو بتانا چاہیے کہ واقعے کا اصل ذمے دار کون ہے۔

حالات بہت خراب ہیں‘ حکومت کب تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشا دیکھتی رہے گی، لوگوں کی زندگیاں غیر محفوظ ہو چکی ہیں ۔ گھر سے کام کے لیے جانے والے ہر شخص کے اہل خانہ اس کی بحفاظت واپسی کے شدت سے منتظر رہتے ہیں بہت ہو گیا اب یہ معاملات ختم ہونے چاہئیں ۔ حملہ کرنے والی تنظیم کو بخوبی علم ہے کہ اگر حکومت کو ان کے بارے میں پتہ چل بھی جائے تو کون سا حکومت نے ان کے خلاف کارروائی کر لینی ہے‘‘۔ اسی اخبار جس میں وزیر اعظم ہشاش بشاش چینی دوست کے ساتھ باہمی تعلقات مزید گہرے کر رہے تھے۔ تھر کے حوالے سے بھی کئی خبریں چھپی ہوئی تھی جن میں مزید بچوں کی اموات اور بڑھتے ہوئے مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی۔ ان خبروں کے مطابق مرکز اور صوبائی حکومت کی کوششوں کے باوجود کئی طویل دن اور رات گزرنے کے بعد بھی اس علاقے میں سب لوگوں تک امداد نہیں پہنچ پا رہی۔ ڈاکٹروں کی تعیناتی، گندم اور دوائیوں کی فراہمی، متحرک این جی اوز، ذرایع ابلاغ کے نمایندوں کی بھرمار (جن میں سے چند ایک دوستوں کو اب معلوم ہوا ہے کہ تھر پاکستان کا حصہ ہے) اس سب اچھل کود کے باوجود ہم اپنی سر زمین پر مرتے ہوئے بچے نہیں بچاپا رہے ہیں۔

میرا نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران شاید حقیقت کو ذہن سے جھٹک کر منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف اور ان کا خاندان کاروباری ہے۔ اگر ان کو یہ اخبار پڑھنے کو ملے جس میں ملک کے ججز صاحبان شہریوں کی جان کے بارے میں فکر مند ہوں۔ تہذیب کے ختم ہو جانے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہوں۔ جہاں پر عدالتیں اپنے تحفظ کے لیے حکومت سے سیکیورٹی کی طالب ہوں اور منصف یہ کہہ رہے ہوں کہ حملہ آور تنظیموں کی روک تھام نہیں کی جا رہی اور ان کی طاقت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ریاست بے بس نظر آتی ہے۔

وہاں پر کیا میاں صاحب خود سرمایہ کاری کریں گے؟ پاکستان سے باہر سرمایہ جانے کی رفتار پاکستان کے اندر سرمایہ آنے کی مقدار سے کہیں زیادہ ہے۔ جو لوگ سرمایہ کاری کو ملک میں فروغ دینے کے لیے بڑے بڑے بیانات داغ رہے ہیں وہ اپنے بچوں سمیت عملًا اس ملک سے جا چکے ہیں۔ ان کی چھٹیاں، علاج، کاروبار سب کچھ اس ملک سے باہر منتقل ہو چکا ہے۔ جس ملک کے وزیر اعظم کے اپنے بچے ملک سے باہر کاروبار کر نے کو ترجیع دے رہے ہوں وہاں پر گلدستے حاضر محفل کرنے کے باوجود اب کیسے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے دل موہ لیے گئے۔ ہاں پیسہ آئے گا مگر اس طریقے سے جیسے سعودی عرب سے آیا یا جیسے امریکی امداد آتی رہتی ہے۔ یہ ممالک نجی کمپنیوں کی طرح اپنی شرائط منوا گئے۔ آپ یہ کہہ کر عوام کو بے وقوف بناتے رہے گے کہ ہم کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کر رہے لیکن حقیقت اس سے بالکل بر عکس رہے گی۔ خیبر پختونخوا سے کراچی تک اور اب کراچی سے اسلام آباد تک اندرونی حالات کو درست کیے بغیر آپ ذرایع ابلاغ کو اشتہارات کے ذریعے اچھی تشہیر پر مامور تو کر سکتے ہیں مگر اصل سرمایہ کاروں کو مائل نہیں کر سکتے۔یا مائل کرنے کے بعد ان کی اندھا دھند منافع خوری پر ہاتھ نہیں رکھ سکتے۔

اس ضمن میں ایک اور خبر کا ذکر بھی ضروری ہے۔ اندرونی سلامتی کی پالیسی کے بعد ایک خبر میں وزیر داخلہ چوہدری نثار کا یہ بیان پڑھا کہ ملک کے دارالخلافہ کی حفاظت کا بہترین منصوبہ بنا لیا گیا ہے۔ حفاظت کے اس بہترین منصوبے میں کلیدی کردار رینجرز کو سونپ دیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ حیران کن اور متضاد بات شاید ہی کوئی اور ہو ۔ رینجرز خصوصی سیکیورٹی کا نفاذ کرنے والا ادارہ ہے۔ اس کو غیر معمولی حالات میں طلب کیا جاتا ہے۔ غیر معمولی حالات دو قسم کے ہو سکتے ہیں، ایک جب بحران اتنا بڑھ جائے کہ پولیس اور انتظامیہ تمام تر کوشش کے بعد اس پر قابو نہ پا سکیں اور دوسرا جب پولیس اور انتظامیہ اس حد تک ناکارہ ہو جائے کہ اپنے بنیادی کام سر انجام نہ دے پا رہی ہوں۔ کراچی کی مثال دی جا سکتی ہے۔ یہاں پر رینجرز کو بدترین حالات کے پیش نظر اہم ذمے داریاں اور طاقت سونپی گئی ہیں۔ اس شہر کے بعض حصوں میں اندرونی جنگ کا سا سماں ہے۔ روزانہ درجنوں ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ ایسی نفسا نفسی ہے کہ جس پر صوبائی حکومت بے بسی کی حالت میں مرکز سے مدد طلب کر رہی ہے۔ رینجرز کا کراچی میں لگایا جانا سرکاری اعتراف ہے کہ حالات بے قابو ہو رہے ہیں۔ مگر اسلام آباد میں رینجر ز پر انحصار کرنے کی پالیسی کو بہترین سیکیورٹی منصوبے کے طور پر متعارف کروا کے بغلیں بجائی جا رہی ہیں۔ گھروں اور دفاتر کے سامنے ایل ایم جی تانے رینجرز ریت کی بوریوں کے پیچھے سے جب لوگوں کو نظر آتے ہیں تو اس سے تحفظ کا احساس بڑھتا نہیں، جو ہے وہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ مگر چوں کہ ہمارے پاس ایک بہترین جمہوری نظام ہے لہٰذا کوئی کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ کسی بیان یا امید میں منطق یا حقیقت کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ بس تصویر چھپنی چاہیے۔ لمحاتی خوشگوار کیفیت بنانا واحد قومی ہدف بن چکا ہے۔ اگر یہ روایت برقرار رہی تو جلد ہی اسلام آباد کو داالخلافہ نہیں دارالخرافات کہنا پڑے گا۔


بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live