پہلے مطالعہ کیجیے
↧
↧
یہ میرے ساتھ نہیں ہو سکتا
اصفہانی خاندان کا تعلق کلکتہ سے تھا‘ یہ لوگ کلکتہ کے انتہائی متمول خاندانوں میں شمار ہوتے تھے‘ ابو الحسن کا تعلق اسی اصفہانی خاندان سے تھا‘ یہ کیمبرج میں پڑھتے تھے‘ وہاں قائداعظم کی تقریر سنی‘ قائداعظم کے عاشق ہو ئے اور باقی زندگی قائداعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ کی خدمت میں گزار دی‘ مسلم لیگ کے ساتھ مختلف عہدوں پر کام کیا‘ پاکستان بنا تو ابو الحسن اصفہانی کروڑوں روپے کے اثاثوں کے ساتھ پاکستان شفٹ ہو گئے‘ ڈھاکہ اور کراچی دونوں ان کے کاروباری مرکز تھے‘ ان دونوں شہروں میں ان کے کارخانے‘ کوٹھیاں‘ پلازے ‘ فارم ہاؤسز اور زمینیں تھیں‘ امریکا میں سفیر کی تعیناتی کا مرحلہ آیا تو قائداعظم نے اصفہانی صاحب کوپہلا سفیر بنا کر امریکا بھجوا دیا‘ یہ وہاں پانچ سال سفیر رہے‘ پھر دو سال برطانیہ میں ہائی کمشنر رہے‘ پھر ایک سال صنعت اور تجارت کے وفاقی وزیر بنے‘ بھٹو صاحب کا دور آیا تو انھیں افغانستان میں سفیر بنا کر بھیج دیا گیا‘ یہ اصفہانی صاحب کا سفارتی اور سیاسی پروفائل تھا جب کہ دوسری طرف یہ معاشی اور تجارتی میدانوں میں بھی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتے رہے‘ یہ صدر ایوب خان دور میں ان 22 خاندانوں میں شامل تھے جو ملک کے زیادہ تر وسائل کے مالک تھے‘ اصفہانیوں کے بارے میں کہا جاتا تھا‘ آپ پاکستان کے کسی حصے سے کوئی چیز خریدیں منافع کا ایک حصہ کسی نہ کسی ذریعے سے ہوتا ہوا اصفہانی گروپ تک پہنچ جائے گا‘ ابوالحسن اصفہانی کے تین بچے تھے‘ سکندر اصفہانی ان کے بڑے صاحبزادے تھے‘ اصفہانی صاحب سفارت اور سیاست میں مصروف رہتے تھے چنانچہ کاروبار کی ذمے داری سکندر اصفہانی کے کندھوں پر تھی‘ یہ خاندان ایوب خان اور بھٹو کے زمانے میں کھرب پتی ہو گیا‘ بھٹو صاحب نے صنعتیں قوما لیں لیکن اس کے باوجود اصفہانی خاندان کے پاس کراچی میں اربوں روپے کی پراپرٹی تھی‘ سکندر اصفہانی نے دو شادیاں کیں‘ پہلی اہلیہ سے چار بچے ٗ دوسری اہلیہ بے اولاد ہیں ۔1990ء کی دہائی میں جائیداد کا جھگڑا شروع ہوا‘ عدالتوں اور کچہریوں کا معاملہ چلا تو نوبت یہاں تک آ گئی وہ کراچی شہر جو کبھی اصفہانی خاندان کا گھر کہلاتا تھا اس شہر میں سکندر اصفہانی کے رہنے کے لیے کوئی چھت نہ بچی‘ سکندر اصفہانی سندھ کلب میں شفٹ ہو گئے‘ یہ دو سال کلب میں رہے اور دسمبر 2013ء میں سندھ کلب میں انتقال کرگئے‘ کلب سے ان کا جنازہ اٹھا‘ جنازے میں چند لوگ شامل تھے اور ان لوگوں میں ان کے خاندان کا کوئی شخص شامل نہیں تھا‘ سکندر اصفہانی فرح ناز اصفہانی کے والد اور حسین حقانی کے سسر تھے۔
یہ دولت کی بے وفائی اور دنیا کی بے ثبانی کا ایک واقعہ ہے‘ آپ اب پاکستان کے پانچ بڑے صنعتی گروپوں میں شامل ایک دوسرے خاندان کی کہانی بھی ملاحظہ کیجیے سہگل خاندان ایوب خان دور کے 22 خاندانوں میں پہلے پانچ خاندانوں میں شمار ہوتا تھا‘ یہ لوگ چکوال کے رہنے والے تھے‘ یہ دوسری جنگ سے قبل کلکتہ گئے‘ وہاں چمڑے کا کاروبار شروع کیا اور اس کاروبار پر مناپلی قائم کرلی‘ یہ لوگ قیام پاکستان کے بعد کراچی آ گئے‘ سہگل خاندان نے پچاس کی دہائی میں کوہ نور ٹیکسٹائل کے نام سے فیصل آباد اور راولپنڈی میں دو کارخانے لگائے‘ یہ کارخانے اتنے بڑے اور کامیاب تھے کہ آج بھی ان علاقوں کو کوہ نور کہا جاتا ہے‘ ایوب خان کا دور سہگل خاندان کے عروج کازمانہ تھا ٗسہگلوں نے پاکستان کا تیسرا بڑا بینک بنایا تھا‘ یہ گھی کی صنعت میں آئے‘ ریان کپڑا شروع کیا‘ کیمیکل اور مشینری کے شعبے میں آئے اور عروج کو ہاتھوں میں تھام لیا‘ محمد یوسف سہگل اس خاندان کے سربراہ تھے‘ یہ 1993ء میں فوت ہوئے‘ ان کی تدفین سے قبل خاندان میں پھوٹ پڑ گئی‘ بچے دولت اور جائیداد کے لیے لڑنے لگے اور آج اس خاندان کا صرف نام بچا ہے۔ آپ اب لاہور کے ایک فلم ساز کی کہانی بھی سنیے‘ وہ پاکستان کے چوٹی کے فلم ساز تھے‘ یہ پشاور کے رہنے والے تھے‘ یہ 21 سال کی عمر میں فلمی لائین میں آئے‘ صوبہ سرحد میں فلموں کے ڈسٹری بیوٹر بنے‘ جگت ٹاکیز اس وقت ہندوستان کی سب سے بڑی فلم کمپنی تھی‘ وہ اس کمپنی کی فلمیں ریلیز کرنے لگے‘ ایک وقت آیا جب وہ فلمساز جگت ٹاکیز کی تمام فلمیں ریلیز کرنے لگے‘ انھوں نے صوبہ سرحد میں ذاتی سینما بنالیے‘ یہ قیام پاکستان کے بعد لاہور شفٹ ہوئے‘ انھوں نے 1950ء میں ’’مندری‘‘ فلم بنائی‘ فلم کامیاب ہو گئی تو انھوں نے ایک فلمی کمپنی بنا لی‘ یہ بعد ازاں پاکستان کے معروف فلم اسٹوڈیو میں تبدیل ہو گئی‘ اس اسٹوڈیو میں سیکڑوں فلمیں بنیں۔ ملک کے درجنوں سپرسٹارزنے اس اسٹوڈیو میں آنکھ کھولی‘ وہ فلمساز لاہور کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہونے لگے‘ گلبرگ میں ان کی کئی کنال کی کوٹھی تھی‘ یہ 1974ء میں بیمار ہوئے اور گھر تک محدود ہو گئے‘ نعیم بخاری صاحب نے ان دنوں نئی نئی پریکٹس شروع کی تھی‘ یہ ان فلمساز کے ایک صاحبزادے کے وکیل تھے‘ اسی صاحبزادے نے ایک دن نعیم بخاری کو ساتھ لیا اور والد کے گھر پہنچ گیا‘ اداکار محمد علی بھی وہاں موجود تھے‘ بیٹے نے باپ سے جائیداد کا مطالبہ کر دیا‘ وہ والد سے گلبرگ لاہور والی کوٹھی لینا چاہتا تھا‘ باپ نے بیٹے کی منت کی ’’ میں بیمار ہوں‘ میں اس حالت میں کہاں جاؤں گا‘ میں آپ کو یہ کوٹھی لکھ دیتا ہوں‘ آپ کاغذات اپنے پاس رکھ لو‘ میرے مرنے کے بعد کوٹھی کا قبضہ لے لینا‘‘ بیٹے نے انکار کر دیا‘ اس کا کہنا تھا ’’ابا جی آپ کو یہ گھر ابھی خالی کرنا ہوگا‘‘ فلمساز کی صورتحال پر محمد علی اور نعیم بخاری دونوں کو ترس آ گیا‘ محمد علی نے فلمساز کے صاحبزادے کو پیش کش کی‘ زیبا بیگم کے پاس ڈیڑھ کروڑ کے زیورات ہیں‘ آپ یہ زیورات اپنے پاس رکھ لیں لیکن فلمساز کو اس گھر میں رہنے دیں‘ آپ کو جب یہ گھر مل جائے گا تو آپ میرے زیورات مجھے واپس کر دینا مگرصاحبزادہ نہ مانا‘ یہ معاملہ طول پکڑ گیا تو صاحبزادے نے بریف کیس سے پستول نکال لیا اور والد پر تان دیا‘ والد کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ وہ اٹھ کر اندر گئے‘ چیک بک لے کر آئے‘ ساٹھ ستر لاکھ روپے کا چیک کاٹا‘ یہ چیک صاحبزادے کے حوالے کیا اور آنکھیں نیچے کر کے بولے‘ آپ یہ رقم لو اور مجھے اس کے بعد کبھی اپنی شکل نہ دکھانا‘ اس نے وہ چیک جیب میں ڈالا اور نعیم بخاری کے ساتھ واپس چلا گیا‘ وہ فلمساز 1983ء میں انتقال کر گئے‘ انتقال کے وقت ان کا کوئی اپنا وہاں موجودنہیں تھا‘ نعیم بخاری صاحب کے بقول ’’یہ منظر دیکھنے کے بعد میرے دل میں پوری زندگی کے لیے دولت کی خواہش ختم ہو گئی‘‘۔
یہ صرف تین واقعات ہیں‘ آپ اگر چند لمحوں کے لیے آنکھیں کھول کر دائیں بائیں دیکھیں تو آپ کو اپنے اردگرد سیکڑوں ایسی مثالیں ملیں گی‘ آپ نے بھی درجنوں لوگوں کے عروج کا سورج زوال کے اندھیرے غار میں اترتا دیکھا ہو گا‘ ہم سے زندگی میں صرف دس چیزیں بے وفائی کرتی ہیں‘ ہم اگر ان دس بیوفاؤں کی فہرست بنائیں تو عہدہ دولت اور اولاد پہلے تین نمبر پر آئے گی‘ ہم عہدے کے لیے ایمان‘ عزت‘ سیلف ریسپیکٹ‘ اخلاقیات‘ صحت اور خاندان تک قربان کر دیتے ہیں لیکن یہ عہدہ سب سے زیادہ بے وفا نکلتا ہے ‘ میں نے زندگی میں بے شمار لوگوں کو عہدے کے لیے دوسروں کے قدموں میں بیٹھے اپنے کرتے کے دامن سے دوسروں کی رال صاف کرتے‘ دوسروں کے کتوں کو نہلاتے اور اپنی پگڑی سے صاحب کی گاڑی کا شیشہ صاف کرتے دیکھا لیکن عہدہ اس کے باوجود ان کے نیچے سے نکل گیا‘ میں نے کرسی پر بیٹھے لوگوں کو فرعون اور نمرود بنتے بھی دیکھا اور ’’نسلیں ختم کردو‘‘ جیسے احکامات جاری کرتے بھی لیکن پھر جب عہدے نے بے وفائی کی تو میں نے اپنی آنکھوں سے محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف جیسے با اختیار لوگوں کو بھی عدالتوں کے باہر گندی اینٹوں اور قلعوں کی حبس زدہ کوٹھڑیوں میں محبوس دیکھا‘ میں نے بے شمار ارب اور کھرب پتی لوگوں کو پیسے پیسے کا محتاج ہوتے بھی دیکھا‘ میں روز اسلام آباد شہر میں نکلتا اور ساتھ ساتھ سوچتا ہوں آج جہاں مارکیٹیں‘ گراؤنڈز اور سڑکیں بنی ہیں وہاں آج سے چالیس سال قبل گاؤں ہوتے ہوں گے اور ان گاؤں کے چوہدری بھی ہوتے تھے اور ان چوہدریوں کی انا بھی بانس کے آخری سرے کو چھوتی ہو گی لیکن آج وہ چوہدری‘ ان کی زمینیں اور ان کے گاؤں کہاں ہیں؟ شاید سپر مارکیٹ کے نیچے دفن ہوں یا پھر مارگلہ روڈ کی گولائیوں میں گم ہوں اور یہ صرف چالیس سال پرانا قصہ ہے‘ چار دہائیوں میں زمین کی شکل ہی تبدیل ہوگئی؟؟دولت مند غریب ہو گئے‘ مالک ملازم بن گئے اور نمبردار وقت کے سیاہ صفحوں میں جذب ہو گئے چنانچہ پھر دولت سے بڑی بے وفا چیز کیا ہوگی اور رہ گئی اولاد! میں نے بے شمار لوگوں کو اپنی اولاد سے محبت کرتے دیکھا‘ یہ لوگ پوری زندگی اپنی اولاد کے سکھ کے لیے دکھوں کے بیلنے سے گزرتے رہے لیکن پھر کیا ہوا؟ وہ اولاد زمین جائیداد کے لیے اپنے والدین کے انتقال کا انتظار کرنے لگی‘ میں نے اپنے منہ سے بچوں کو یہ کہتے سنا ’’ اباجی بہت بیمار ہیں‘ دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی مشکل آسان کر دے‘‘ اور یہ وہ باپ تھا جو بچوں کے نوالوں کے لیے اپنا ضمیر تک بیچ آتا تھا‘ میں نے ایسے مناظر بھی دیکھے‘ باباجی کے سارے بچے ملک سے باہر چلے گئے۔ بابا جی نے تنہائی کی چادر بُن بُن کر زندگی کے آخری دن گزارے‘ انتقال ہوا تو بچوں کو وقت پر سیٹ نہ مل سکی‘ چنانچہ تدفین کی ذمے داری ایدھی فاؤنڈیشن نے نبھائی یا پھر محلے داروں نے!‘ یہ ہے کُل زندگی! اولاد‘ دولت اور عہدے کی بے وفائی ان بے وفائیوں کے داغ اور آخر میں قبر کا اندھیرا ۔ یہ وہ حقیقت ہے جس سے ہر شخص واقف ہے لیکن اس کے باوجود انسان کا کمال ہے‘ یہ دیکھتا ہے لیکن اسے نظر نہیں آتا‘ یہ سنتا ہے لیکن اسے سنائی نہیں دیتا اور یہ سمجھتا ہے لیکن اسے سمجھایا نہیں جا سکتا‘ ہر روز لوگوں کو تباہ ہوتا، مرتا، ذلیل ہوتا دیکھتا ہے مگر یہ ہر بار خود کو یقین دلاتا ہے ’’ یہ میرے ساتھ نہیں ہوگا‘‘ کیوں؟ کیونکہ ’’میں دوسروں سے مختلف ہوں‘‘۔
↧
توپ کاپی میوزیم
سچی بات یوں ہے کہ واپسی کے باوجود میں ابھی تک استنبول کے سحر سے پوری طرح نکل نہیں پایا ہوں۔ دس روز کے لیے وہاں رہ کر واپس آنا ہوا تو کوئی دس منٹ نہیں گزرتے کہ کسی بدخبری سے دل و نگاہ کو واسطہ نہ پڑتا ہو۔ خیر وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا‘ اچھے دن بھی آ جائیں گے اور جلد یا بدیر ضرور آئیں گے۔ انسان ہو یا ملک ہر عروج کو زوال اور خدا مہربان اور چلن اچھا ہو تو زوال کو عروج کا حصول ناممکنات میں نہیں۔ اس مشیت ایزدی کا مشاہدہ مجھے توپ کاپی میوزیم استنبول میں گھومنے کے دوران بھی کرنے کا موقع بخوبی اور وافر ملا۔
توپ کاپی یعنی Cannon Gate جو اس وقت دنیا کی قدیم اوروسیع ترین عمارتوں میں شمار ہوتا ہے اس کا رقبہ سات لاکھ مربع میٹر ہے اور ابتداء میں New Palace کے نام سے جانا جاتا تھا۔ 1479ء میں سلطان مہمت کے علاقہ فتح کرنے کے بعد تعمیر ہونا شروع ہوا اور اس کی تکمیل میں چودہ سال کا عرصہ لگا جس کے بعد سلطنت عثمانیہ کا یہ فرمانروا اس میں منتقل ہوا۔ عثمانیہ دور میں 36 بادشاہ گزرے اور سلطنت عثمانیہ کے 624 سالہ دور حکومت کے قریب ترین صرف رومن ایمپائر کا دور گزرا۔ اس وقت کے عثمانیہ فرمانرواؤں کے قدموں تلے تین براعظم تھے۔ ان کے پاس وقت کا طاقتو ر ترین بحری بیڑہ تھا۔ توپ کاپی عمارت 400 سال تک سلاطین عثمانیہ کے رہائشی محل کے طور پر زیراستعمال رہی۔
ہر سال بیس لاکھ کے لگ بھگ سیاح توپ کاپی میوزیم دیکھنے دنیا بھر کے ممالک سے استنبول کا رخ کرتے ہیں جہاں وہ پندرہویں صدی اور اس کے بعد مسلمانوں کے دور حکومت اور ان کے عروج ہی نہیں زوال کی تاریخ کا نظارہ کرتے ہیں جب کہ مسلمان سیاح عبرت پکڑتے ہوں گے کہ محلاتی سازشیں چھتیس بادشاہوں کے قتل پر منتج ہوئیں۔
یہ محل جو مصطفیٰ کمال اتاترک کے حکم پر 1924ء میں میوزیم بنا دیا گیا، ایک کمال کی عمارت ہے جس میں بے شمار نادر اشیاء اور سلاطین عثمانیہ کے زیراستعمال ہر وہ چیز جس کا تصور بعض کے نزدیک ممکن اور اکثریت کے تصورات سے بعید ہو گا، موجود تھی۔ اگر ان کی صرف تفصیل ہی لکھ دی جائے تو کئی کھرب پتی بھی چکرا کر رہ جائیں کہ انھوں نے ایسے ایسے قیمتی اور محیرالعقول نوادرات کو اپنی سوچ سے بھی ماورا پایا ہے اور ان کی تصاویر جمع کی جائیں تو کئی البم بھر جائیں اور دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا جائیں۔
چونکہ توپ کاپی محل (اب میوزیم) میں صدیوں تک علاوہ مال غنیمت سلاطین کی جمع کردہ اور تحفے کے طور پر ملی اشیاء نوادرات کا درجہ ہی نہیں رکھتیں ان میں موجود سونا اور بیش قیمت ہیرے جواہرات کی مارکیٹ ویلیو ہی لگائی جائے تو بھی شاید دنیا کے امیرترین اشخاص تک کانوں کو ہاتھ لگا کر قوت خرید نہ ہونے کے باعث دستبردار ہو جائیں۔
اس میوزیم کی شہرت، عظمت، نوعیت، وسعت اور تاریخی اہمیت کی وجہ سے استنبول آنے والے سیاح سب سے پہلے اس کی متنوع غلام گردشوں، بادشاہی کمروں یا حجروں، چار Courtyards، حرم، بیرونی خزانہ، شاہی اصطبل، سروسز ونگ، مقدس تبرکات، شاہی کچن، شاہی اندرون خانہ غیرملکی سفیروں سے ملاقات کا کمرہ، سونے کا بنا جواہرات جڑا شاہی تخت، شاہی لائبریری، سلطان اور شاہی فیملی کی خوابگاہیں، سلطان کے تخلیے کا کمرہ، سلطان کی مسجد، نایاب پینٹنگز، فوارے، حرم کے خدمت گار خواجہ سراؤں کے کمرے، سیاہ فام ہجڑوں اور خدمت گار دوشیزاؤں کی رہائش گاہیں، مادر ملکہ کی خواب گاہ، حرم کا اسپتال، مادر ملکہ و سلطان کے حمام (باتھ روم)، سلطانی تخت گاہ، شہزادوں شہزادیوں اور ولی عہد کے کمرے، مقربین خاص کے کمرے، بادشاہی ہال کمرہ، سحر و افطار کے کمرے، طبیب اعلیٰ کا کمرہ ، چینی، جاپانی، جرمن، آسٹرین، فرنچ، یورپین، روسی اور ترکی مٹی، سونے، چاندی، پیتل اور شیشے سے بنے بیش قیمت اور اعلیٰ ڈیزائینوں کے ظروف سلاطین کے لیے بنائے گئے پارچات، پگڑیاں اور ٹوپیاں، کینڈل اسٹینڈ اور جڑاؤ بکس اور خنجر۔ یہ ان بے شمار نوادرات و اشیاء میں سے چند ہیں جو بے حد خوبصورت نقش و نگار سے مزین محل میں موجود ہیں جنھیں دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔
یہاں اس سونے اور ہیرے جواہرات سے جڑے توپ کاپی خنجر کا ذکر بھی ضروری ہے جو سلطان نے ایرانی حکمران نادر شاہ کو تحفے میں بھیجا لیکن اس کے قتل کے باعث واپس آ گیا لیکن اگلے شاہ ایران، مغل بادشاہ، زار روس کے بھیجے گئے ہیرے جواہرات سے سجے بیش قیمت ظروف، تلواریں اور خنجر یہاں موجود ہیں جو توپ کاپی میوزیم کی زینت او رسیاحوں کے لیے سامان حیرت ہیں۔
بغیر تحقیق و یقینی ثبوت توپ کاپی کے ایک حصے Holy Relics کے بارے میں ترک تحقیق ہی کو بنیاد بنانا مناسب ہو گا۔ میوزیم کے اس سیکشن میں حضورؐ کے نقش پا کا نمونہ دیکھ کر کئی سیاحوں کو گم سم عقیدت کی تصویر بنے وہاں کھڑے پایا۔ وہیں پر ریش مبارک کے کچھ بال بھی ایک شیشی میں ڈسپلے میں رکھے تھے جن کے بارے میں تحریر ہے کہ سولہویں صدی میں مصر کو فتح کرنے پر یہاں منتقل کیے گئے۔ ان کے علاوہ عثمانی سلاطین کو فخر تھا کہ ان کے محل میں اس عہد کا ہاتھ سے لکھا ہوا قرآن پاک کا مسودہ اور خانہ کعبہ کی چابیاں بھی ہیں۔ میوزیم کے اسی سیکشن میں کچھ تلواریں بھی ڈسپلے میں تھیں۔ ان پر حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اور خالد بن ولیدؓ کے نام تحریر تھے۔
یہیں پر حضرت داؤدؑ کی تلوار، حضرت موسیٰؑ کی چھڑی، حضرت یوسفؑ کی پگڑی اور حضرت ابراہیمؑ سے منسوب ٹوپی بھی رکھی تھی۔ یہ سب کچھ توپ کاپی میوزیم ڈسپلے میں دیکھا۔ یہ عمارت جسے اب میوزیم کہتے ہیں چار سو سال تک عثمانیہ سلاطین کی رہائش گاہ رہی۔ اس کی تزئین و آرائش مستقل ہوتی رہی۔ اس میں موجود نوادرات سلاطین جمع کرتے رہے تاآنکہ جنگ عظیم اول میں عثمانیہ سلطنت کا سورج غروب ہوا اور مصطفیٰ کمال پاشا نے شکست خوردہ بکھرتے ہوئے ملک کو سنبھالا، غیرملکی حکمرانوں کو نکال باہر کیا اور ریپبلک آف ترکی کی بنیاد رکھی۔ وہ ملک کے پہلے صدر بنے اور 1934ء میں اتاترک یعنی ترکوں کے باپ کا خطاب پایا۔ موجودہ ترکی کئی جہتوں میں ایک قابل تقلید ملک ہے لیکن پاکستان کو اس کی سطح پر پہنچنے کے لیے ایک مصطفیٰ کمال جیسے مثالی، قابل اور پرعظم رہنما کی ضرورت ہے۔
↧
The Kalash People of Pakistan
کیلاش کوہ ہندوکش میں واقع ایک قبیلہ ہے جو کہ صوبہ خیبر پختون خواہ ضلع چترال میں آباد ہے۔ یہ قبیلہ کیلاش زبان بولتا ہے جو دری زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ زبان اس خطہ میں نہایت جداگانہ مشہور ہے۔ **** وجہ تسمیہ: لسانیات کے ماہر رچرڈ سٹرانڈ کے مطابق ضلع چترال میں آباد قبائل نے یہ نام قدیم کافرستان سے مستعار لیا ہے۔ کالاشہ یا کالاش قبائل نے وقت کے ساتھ چترال میں اپنا اثررسوخ بڑھایا۔ ایک حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کیلاش نام دراصل ‘‘کاسوو‘‘ جو کہ بعد میں ‘‘کاسیو‘‘ استعمال ہوتا تھا۔ یہ نام نورستان کے قبائل نے یہاں آباد قبائل کے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔ بعد کے ادوار میں یہ کاسیو نام کالاسایو بنا اور رفتہ رفتہ کالاسہ اور پھر کالاشہ اور اب کیلاش بن گیا۔ ***** ثقافت: کیلاش قبائل کی ثقافت یہاں آباد قبائل میں سب سے جداگانہ خصوصیات کی حامل ہے۔ یہ قبائل مذہبی طور پر کئی خداؤں کو مانتے ہیں اور ان کی زندگیوں پر قدرت اور روحانی تعلیمات کا اثر رسوخ ہے۔ یہاں کے قبائل کی مذہبی روایات کے مطابق قربانی دینے کا رواج عام ہے جو ان کی تین وادیوں میں خوشحالی اور امن کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔کیلاش قبائل میں مشہور مختلف رواج اور کئی تاریخی حوالہ جات اور قصے عام طور پر روم قدیم روم کی ثقافت سے تشبیہ دیے جاتے ہیں۔تقریباً تین ہزار کیلاش اسلام قبول کر چکے ہیں یا پھر ان کی اولادیں مسلمان ہو چکی ہیں۔ یہ لوگ اب بھی وادی کیلاش کے علاقے میں رہائش پزیر ہیں اور اپنی زبان اور قدیم ثقافت کی پیروی کرتے ہیں۔ اب ان لوگوں کو ‘‘شیخ‘‘ کہا جاتا ہے اور کیلاش قبائل کی تقریباً نصف آبادی پر مشتمل یہ لوگ اپنا جداگانہ اثررسوخ رکھتے ہیں۔ کیلاش عورتیں لمبی اور کالی پوشاکیں پہنتی ہیں، جو سیپیوں اور موتیوں سے سجائی گئی ہوتی ہیں۔ کالے لباس کی وجہ سے یہ چترال میں سیاہ پوش کہلائے جاتے ہیں۔ کیلاش مردوں نے پاکستان میں عام استعمال کا لباس شلوار قمیص اپنا لی ہے اور بچوں میں بھی پاکستانی لباس عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
↧
Book Reading Habit in Pakistan
↧
↧
تیسرا دور طاقت کا تعاقب
یہ ایک پہیلی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے پاس ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی دہشت گردی سے دودو ہاتھ کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل ہے یا نہیں۔ زمینی حقائق اور عمو می شواہد تو یہ بتلا رہے ہیں کہ تیسرے دور میں اس اہم ترین قومی مسئلہ کو یہ حکومت ایسے ہی دیکھ رہی ہے جیسے ایک رکشے والا سواری کو دیکھتا ہے۔ مل گئی تو اٹھا لیں گے نہیں تو اپنی جگہ کھڑے انتظار کرتے رہیں گے۔ جمہوریت کی پو ری قوت، فیصلہ سازی کی دانش مندی اور نظام میں موجود مختلف اداروں کو اکٹھا کر کے طویل المدت اقدامات کرنے کی کو شش نہ ہونے کے برابر ہے۔ آٹھ ماہ میں سو صفحات پر مشتمل ایک مسودہ اور کل جماعتی کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ ان دو کاغذی کارروائیوں کے علا وہ، نواز شریف دہشت گردی اور ریاست کے اختیار کی مسلسل کمزوری کو روکنے کے لیے نظر یہ وقتی ضرورت سے زیادہ کی سوچ نہیں رکھتے۔ پاکستان اندرونی طور پر جگہ جگہ سے کمزور کیا جا رہا ہے۔
جوہری صلاحتیوں اور عسکری اثاثوں کے علاوہ اس وقت اس ملک میں کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ وہ ممکنہ دہشت گردی سے مکمل طور پر محفوظ ہے۔ مگر ان حا لات کے باوجود آپ ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں کہ کا بینہ کے ایجنڈے پر یہ معاملہ کتنی دفعہ اولین ترجیع کے طور پر اٹھا یا گیا۔ کا بینہ کی دفاعی کمیٹی کا ا جلاس کتنی دفعہ بلوایا گیا۔ قو می سلا متی کی کمیٹی کے جیسے ادارے بنانے کے بعد اُن کو کیسے ردی کی ٹو کر ی کی نذر کر دیا گیا۔ کتنی مرتبہ صوبائی وزراء اعلی اور مختلف جماعتو ں کے نمایندگان کو بڑھتے ہوئے قومی خطرات کے پیش نظر اکھٹا کیا گیا۔ ان سوالوں کے جوابات میں آپ کو اس حکومت کی اس معاملے سے متعلق عدم توجہی کی مثالیں مل جائیں گی۔
ہاں چند ایک ہر وقت حاضر لکھاریوں کے ذریعے اخبارات میں طرح طرح کی خبر یں چھپوا کر یہ تصور ضرور پیدا کر دیا گیا ہے کہ جیسے وزیراعظم دن رات اسی مسئلہ کے بارے میں سوچتے ر ہتے ہیں۔ اور پھر ٹیلی ویژن تو ہے ہی۔ اپنے تیسر ے دور کے شروع میں نواز لیگ کے ذرایع ابلاغ کو سنبھالنے والوں نے پاکستان کے ایک بڑے نیٹ ورک سے خوش اسلوبی سے معاملات طے کر لیے ہیں۔ جو اس حکومت کے خارجہ اور دفاعی پالیسی کے ایجنڈے کی تکمیل اور اندرونی خا میوں کو چھپانے میں اپنی خدمات پیش کر تا ہے۔ ذرایع ابلاغ کو میاں نواز شریف نے پچھلے دو ادوار میں ڈنڈے کے ذریعے سیدھا کرنے کی کوشش کی تھی‘ اس مرتبہ گاجریں کھلا کھلا کر من پسند ادارو ں کا پیٹ اتنا بھر دیا ہے کہ ان کے منہ بند ہو گئے ہیں۔ لہذا دہشت گردی پر حکومت کے گول چکر اُس مخصوص ٹی وی چینل اور اس کے اخبارات کے ذریعے سیدھی لکیر کی طرح پیش کیے جاتے ہیں۔ حکومت کا گھامڑ پن اس کی عقل مندی اور اُس کی بے وقوفیاں دانش مندی کی شمع کی طرح پیش کی جا تی ہیں۔
بڑا سوال یہ ہے کہ اگر یہ حکومت اہم ترین معاملات پر اپنا وقت صرف نہیں کر رہی تو پھر کیا کر رہی ہے۔ جو اب اتنا سادہ ہے کہ شاید نا قابل یقین لگے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ پہلے دو ادوار کی طرح اس مرتبہ بھی میاں نواز شریف خود کو اتنا طاقت ور بنوانا چاہتے ہیں کہ ملک میں ان کی داستان کے علاوہ کوئی اور سیاسی داستان باقی نہ رہے۔ اس ضمن میں نواز لیگ کی پالیسی تین عناصر پر مبنی ہے۔ پہلا عنصر پیپلز پارٹی کے ساتھ بذریعہ سابق صدر آصف علی زرداری بہتر ین دوستی اور اچھے تعلقات قائم رکھنا ہے۔ اکا دکا واقعات کے علاوہ نواز لیگ نے پچھلے ادوار کی نسبت اس مرتبہ طاقت میں آنے کے بعد پیپلز پارٹی کو رگڑنے کی کوشش نہیں کی۔ ظا ہرا ًیہ ایک بہترین جمہوری رویہ ہے۔ لیکن اصل میں یہ آصف علی زرداری اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان اُس خاموش معاہدے کا عکس ہے جس کے تحت سابق صدر نے تمام تر تنازعوں کے باوجود اپنے اثاثوں کو مکمل طور پر بچاتے ہوئے انتہائی خوش دلی سے پانچ سال مکمل کیے۔
اور اب بغیر کسی پریشانی کے آرام سے زندگی گزار رہے ہیں۔ نواز لیگ کی طرف سے الیکشن کے دنوں میں سابق وزراء کی مبینہ بدعنوانیوں کے بارے میں کان کے پردے پھاڑ دینے والی چیخ و پکار ہوا کرتی تھی۔ کیا خواجہ آصف کیا چوہدری نثار، کیا سعد رفیق اور کیا مشاہد اللہ۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ شیر بدعنوانی کو موقع ملتے ہی چیڑ پھاڑ کر رکھ دے گا۔ وزیراعلی شہباز شریف نے بدعنوانی کے خلاف بات کرتے ہوئے ناجانے کتنے مائیک توڑ دیے۔ مگر آج یہ سب مجاہد انتہائی خاموشی سے اس معاہدے کی اطاعت میں اپنا اپنا کا م رہے ہیں جو وزیراعظم نواز شریف نے خود کو مستحکم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی قیادت سے کیا ہوا ہے (معاہدے کے لیے دستاویز کی ضرورت نہیں پیغام پہنچانے والے چرند پرند ہی کافی ہیں) دوسرا عنصر کھلائو پلائو اور خوش رکھو کی آزمودہ پالیسی پر مبنی ہے۔ ٹوٹی پھوٹی قاف لیگ کے بے کس ممبران کی دل جوئی، مولانا فضل الرحمن کی اوطاق پر اشیاء خور و نوش کی مسلسل فراہمی وغیرہ اس پالیسی کا نتیجہ ہے۔ جماعت اسلامی کو پنجاب میں خوب خوش رکھا ہوا ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچ جماعتوں کو ’’کبھی نہ چھیڑیں گے ہم‘‘ کے اصول کے تحت سیاسی طور پر مثبت رابطے میں رکھا ہوا ہے۔ تیسرے عنصر کا تعلق پاکستان تحریک انصاف کا ہر حالت میں ناطقہ بند کرنے کے عمل سے ہے (اگرچہ جس طریقے سے پاکستان تحریک انصاف اپنی سیاست کر رہی ہے اسکو جکڑنے کے لیے کسی خاص اہتمام کی ضرورت نہیں۔ یہ موضوع تفصیل کے ساتھ کسی اور کالم میں اٹھائوں گا) صوبہ پنجاب میں افسر شاہی، پٹواری، تھانہ، کچہری، مقامی میڈیا اور اُن تمام ذرایع پر قابو پانا ہے جو بلدیاتی انتخابات میں اہم کر دار ادا کر سکتے ہیں، نواز لیگ کی اس پالیسی کا حصہ ہے۔ کوئی ایسا موقع جس کے ذریعے پا کستان تحر یک انصاف کو سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا۔ ملک میں سیاسی مخالفین کے ساتھ یہ رویہ نیا نہیں ہے۔ مگر جس توجہ اور دل جمعی کے ساتھ نواز لیگ نے اپنی تمام توانائیاں پاکستان تحر یک انصاف کو لگام ڈالنے کے لیے استعمال کی ہوئی ہیں اُس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ ظا ہر ہے وزیر اعظم نواز شریف خود کو کسی ایسی صورت حال سے دوچار ہونے نہیں دینا چاہتے جہاں پنجاب سیاسی طور پر ان کے ہاتھ سے نکل جائے یا وہاں پر سیا سی طاقت اس بری طرح ٹو ٹ جائے کہ نواز لیگ کی بنیا د متاثر ہونے لگے۔
دوسرے دو ادوار کی طرح تیسرے دور کا آغاز بھی میاں نواز شریف نے طاقت اکھٹا کرنے کے اس عمل سے کیا ہے جو ایک خاص حد سے آگے ایسی بیماری میں تبدیل ہو جا تا ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ جمہوریت میں خود کو استحکام دینے کی بڑی گنجا ئش موجود ہے۔ ووٹ حاصل کرنے کے بعد حکومتیں اور جماعتیں بہت سے ایسے کام بھی کر سکتی ہیں جو عمومی طور پر معیوب اور اوچھے ہتھکنڈوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ لیکن جب نصب العین مکمل طاقت کا نہ ختم ہونے والا تعاقب ہو تو جمہوریت کی گنجائش وہ پھندہ بن جاتی ہے جس میں پھنسنے کے بعد حکومت اور قوم کے لیے سانس لینا دوبھر ہو جاتا ہے۔ شریف برادران پہلے دو ادوار میں جن تجربات سے گزرے تھے اُس کے بعد طاقت کے تعا قب میں کمی آنی چاہیے تھی۔ بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا۔ مشیران بدل گئے ہیں۔ لیکن ابھی بھی میاں نواز شریف کو وہی مشورہ دیا جا رہا ہے جو اُن کے کانوں کو ہمیشہ بھاتا ہے (پے جائو میاں صاحب)
↧
پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام اور معاشی ترقی
↧
سلیپر سیل
یہ ذمے داری بہرحال وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان پر عائد ہوتی ہے‘ چوہدری نثار یقینااس بات سے اختلاف کریں گے لیکن میں بارہ بے گناہ لوگوں کا مقدمہ ان کی عدالت میں رکھتا ہوں اورفیصلہ ان پر چھوڑتا ہوں‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں 28 قائمہ کمیٹیاں ہیں‘یہ کمیٹیاں مختلف اداروں کے نمایندوں کو بلا کران سے مختلف امور پر سوال پوچھتی ہیں اور ان جوابات کی روشنی میں حکومت کو پالیسیاں بنانے کی سفارشات کرتی ہیں‘ قومی اسمبلی نے داخلہ امور پر بھی قائمہ کمیٹی بنا رکھی ہے‘ اس کمیٹی میں 19 ارکان ہیں‘ اس کمیٹی کا 19 فروری کو اجلاس تھا‘ کمیٹی نے ڈی جی نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل طارق لودھی کو طلب کر رکھا تھا‘ طارق لودھی نے اس دن انکشاف کیا‘ اسلام آباد میں دہشت گردوں کے ’’سلیپر سیل‘‘ہیں‘ یہ لوگ القاعدہ‘ طالبان اور لشکر جھنگوی سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ لوگ کسی بھی وقت ایکٹو ہو کر وفاقی دارالحکومت کا امن برباد کر سکتے ہیں‘ طارق لودھی کے اس انکشاف نے قوم کو ہلا کر رکھ دیا‘ میڈیا نے اس خبر کو اٹھالیا‘ حکومت کو اس حق گوئی پر طارق لودھی کو شاباش دینی چاہیے تھی کیونکہ پچھلے بیس برسوں میں ہماری بیورو کریسی میں جتنے زوال آئے ہیں ان میں سب سے بڑا زوال جھوٹ بھی ہے‘ ہماری بیورو کریسی سچ بولنا بھول چکی ہے‘ ان کے سامنے میز پر سیب پڑا ہو اور آپ ان سے پوچھ لیں ’’ یہ کیا ہے؟‘‘ تو یہ مر جائیں گے لیکن آپ کو یہ نہیں بتائیں گے’’ یہ سیب ہے‘‘ ایک سیکریٹری صاحب نے ایک بار مجھے بتایا‘ ہم جب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں جاتے ہیں تو ہم کسی سوال کا جواب نہیں دیتے‘ ارکان ہم پر چیختے ہیں‘ لیکن ہم سرجھکا کر خاموش بیٹھے رہتے ہیں کیونکہ ہم نے طویل تجربے سے یہ سیکھا‘ سوال کا جواب ہاں ہو یا ناں اس کا نقصان بہرحال ہمیں اٹھانا پڑتا ہے‘ میں نے ان سے پوچھا‘ آپ وہاں جاتے کیوں ہیں؟ ان کا جواب تھا‘ قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے کمیٹیوں کے اجلاس میں حاضر ہونا ہماری مجبوری ہے چنانچہ ہم جاتے ہیں‘ حاضری لگاتے ہیں اور چپ چاپ بیٹھ جاتے ہیں‘ ہم قانوناً صرف حاضر ہونے کے پابند ہیں‘ جواب دینے کے نہیں لہٰذا یہ لوگ ہمیں خاموشی پر کوئی سزا نہیں دے سکتے‘ یہ معاملہ صرف ایک سیکریٹری تک محدود نہیں بلکہ 90 فیصد سرکاری عہدیدار کمیٹیوں کے اجلاس میں خاموش بیٹھ کر واپس چلے جاتے ہیں مگر طارق لودھی نے اس دن جرأت کا مظاہرہ کیا‘ یہ پورا ڈیٹا ساتھ لے کر گئے اور ان کے پاس جو معلومات تھیں وہ انھوں نے کمیٹی کے ارکان کے سامنے رکھ دیں‘ حکومت کو اس حق گوئی پر ان کی ستائش کرنی چاہیے تھی لیکن یہ سچ چوہدری نثار صاحب کی طبع نازک پر ناگوار گزرا اور انھوں نے نہ صرف طارق لودھی کی گوشمالی کر دی بلکہ 20فروری کو پریس کانفرنس بھی فرمادی ‘ اس پریس کانفرنس کے ذریعے چوہدری صاحب نے اسلام آباد کو ملک کا محفوظ ترین شہر ڈکلیئر کر دیا‘ چوہدری نثار علی خان پورے یقین سے فرما رہے تھے‘ اسلام آباد میں کسی تنظیم کا کوئی سلیپر سیل نہیں‘ یہ شہر ہر قسم کی دہشت گردی سے محفوظ ہے‘ میں نے اس رات اپنے شو میں عرض کیا ’’ یہ شہر آج تک محفوظ تھا لیکن چوہدری صاحب کے دعوے کے بعد یہ محفوظ نہیں رہا‘ دہشت گرد اب اس دعوے کو چیلنج کے طور پر لیں گے اور یہ اسلام آباد کے محفوظ ترین علاقے پر حملہ کریں گے‘‘ اور 3 مارچ کی صبح یہی ہوا‘ پیر کی صبح نو بجے دہشت گردوں نے اسلام آباد کچہری پر حملہ کر دیا‘ دو خودکش حملے ہوئے اور پندرہ منٹ تک مسلسل فائرنگ ہوتی رہی‘ ان حملوں اور فائرنگ سے 12 افراد شہید اور 29 زخمی ہو گئے‘ شہیدوں میں ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان بھی شامل تھے چنانچہ میں وزارت داخلہ کو اس حملے کا ذمے دار سمجھتا ہوں کیونکہ سیانے کہتے ہیں‘ آوارہ بیل کو کبھی سرخ رومال نہیں دکھانا چاہیے‘ جسم پر شہد مل کر زمین پر نہیں بیٹھنا چاہیے اور سیلاب کے موسم میں اپنی تیراکی کی ڈینگیں نہیں مارنی چاہئیں اور چوہدری صاحب سے یہ غلطی ہو گئی۔
ہمیں یہ ماننا ہو گا دہشت گردی کوئی پھوڑا نہیں ہم جس پر مرہم رکھ کر یہ مسئلہ حل کر لیں گے‘ یہ خون کی بیماری ہے اور یہ خون ہمارے پورے جسم میں پھیلا ہوا ہے‘ دہشتگردی ایک سوچ ہے اور یہ سوچ اس وقت پورے ملک میں موجود ہے‘ یہ سوچ کسی خاص خطے‘ فرقے یا طبقہ فکر کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی‘ ملک کے تمام طبقے اس سوچ کے حصار میں ہیں‘ یہ لوگ طالبان بھی ہیں‘ یہ لوگ وہ بھی ہیں جو شناختی کارڈ چیک کر کے شیعہ کو قتل کر دیتے ہیں یا سنیوں کی مسجد کو اڑا دیتے ہیں‘ اس سوچ میں ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے خواہش مند نوجوان بھی شامل ہیں‘ اس میں بلوچ لبریشن آرمی کے لوگ بھی شامل ہیں‘ سندھو دیش کے لوگ بھی اور وہ لوگ بھی جو کراچی کو سندھ سے الگ کرنا چاہتے ہیں اور وہ بھی جو سکندر کی طرح صرف بریکنگ نیوز بننا چاہتے ہیں اور وہ بھی جو اپنی سوچ کو شریعت اور دوسروں کی نمازوں کو ’’کفر‘‘ قرار دیتے ہیں اور وہ بھی جن کی نظر میں ہر داڑھی والا اور ہر شلوار قمیض اور ہر پگڑی والا دہشت گرد ہے اور وہ بھی جو ہر جینز‘ ہر شرٹ اور ہر کلین شیو کو قابل گردن زنی سمجھتے ہیں اور وہ بھی جن کے امتحان میں نمبر کم آ جاتے ہیں اور وہ پورے شہر کو آگ لگانے کا اعلان کر دیتے ہیں اور وہ بھی جو بے روز گار ہیں اور وہ بھی جو غریب ہیں اور وہ بھی جنھیں پولیس اور عدالتیں انصاف فراہم نہیں کرتیں اور وہ بھی جن کے گھروں‘ دکانوں اور زمینوں پر دوسرے قابض ہیں اور وہ بھی جن کے بچوں اور بیویوں کو قتل کر دیا جاتا ہے یا اغواء کر لیا جاتا ہے اور ریاست ان کے آنسو تک نہیں پونچھتی اور وہ بھی جو اس آزاد ملک میں غلام ابن غلام چلے آ رہے ہیں اور وہ بھی جو روز اپنی جھگیوں میں بیٹھ کر اپنے اردگرد چمکتی‘ مہکتی اور ترقی کرتی زندگی دیکھتے ہیں اور وہ بھی جن کے پیارے ڈرون حملوں‘ فضائی حملوں‘ فوجی گولیوں اور پولیس کے شک کا شکار ہوتے ہیں اور‘ اور‘ اور وہ بھی جو طبقوں کی جنگ کے دوران اپنا توازن کھو بیٹھے ہیں‘ یہ سب شدت پسند بھی ہیں اور دہشت گرد بھی۔ آپ اگر ایک لمحے کے لیے غور کریں تو آپ کو لندن‘ نیویارک اور سعودی عرب میں پناہ گزین اعلیٰ خاندانوں کے چشم و چراغ اور افغان علاقوں میں چھپے طالبان میں کوئی فرق نہیں ملے گا‘ لندن میں بیٹھے سیاسی خاندانوں کے ارب پتی بچے بھی اس ملک سے نفرت کرتے ہیں اور قبائلی اور افغان علاقوں میں چھپے جنگجو بھی ملک سے بدلہ لے رہے ہیں‘ یہ ایک ہی سوچ ہے جو مختلف حلیوں‘ مختلف زبانوں‘ مختلف نسلوں اور مختلف طبقوں کی شکل میں ہمارے اردگرد گھوم رہی ہے اور اس سوچ کے حصار میں‘ میں بھی ہوں اور آپ بھی۔ ہم میں سے ہر دوسرا شخص دہشت کا سلیپر سیل ہے اور یہ سیل کس وقت ایکٹو ہو جائے ہم میں سے کوئی شخص نہیں جانتا‘ دہشت گردی کی ہزاروں وجوہات ہو سکتی ہیں مگر اس کی علامت صرف ایک ہوتی ہے اور وہ علامت ہے شدت پسندی ۔ ہم جب شدت پسند ہو جاتے ہیں‘ ہم جب خود کو ٹھیک اور دوسروں کو غلط سمجھنے لگتے ہیں‘ ہم جب خود کو مظلوم اور دوسروں کو ظالم سمجھنے لگتے ہیں اور ہم جب خود کو مومن اور دوسروں کو کافر سمجھنے لگتے ہیں تو اس وقت ہم دہشت گردی کے دھانے پر پہنچ جاتے ہیں‘ ہم میں اور دہشت گردوں میں صرف بالشت بھر کا فاصلہ رہ جاتا ہے اور ہم میں کتنے لوگ ہیں جو روز اس کیفیت سے نہیں گزرتے ؟ شاید یہ لوگ نوے فیصد ہوں اور یہ نوے فیصد لوگ دہشت گردی کے سلیپر سیل ہیں‘ ان میں سے کچھ اپنی نفرت کو کسی گروپ کے ہاتھوں فروخت کر چکے ہیں اور باقی اپنی نفرت‘ اپنے غصے اور اپنی شدت کے گاہک تلاش کر رہے ہیں‘ یہ بھی ہر وقت مرنے اور مارنے پر تیار رہتے ہیں‘ بس ان کا بس نہیں چل رہا۔
ہم جب تک سوچ نہیں بدلیں گے‘ ہم جب تک معاشرے میں انصاف اور میرٹ کے درخت نہیں لگائیں گے‘ ہم جب تک سماج میں برابری قائم نہیں کریں گے‘ ہم جب تک باصلاحیت اور ایماندار لوگوں کے لیے راستہ نہیں کھولیں گے‘ ہم جب تک مذہب‘ نسل‘ قبیلے اور زبان کو ذات تک محدود نہیں کریں گے‘ ہم جب تک عبادات کو پرائیویٹ معاملہ ڈکلیئر نہیں کریں گے‘ ہم جب تک عقائد کو عبادت گاہوں تک محدود نہیں کریں گے‘ ہم جب تک مساجد اور امام بار گاہوں کو ریاست کے دھارے میں نہیں لائیں گے‘ ہم جب تک حسد کو رشک میں تبدیل نہیں کریں گے‘ ہم جب تک ہنر کو علم اور ڈگری کا حصہ نہیں بنائیں گے‘ ہم جب تک اعلیٰ تعلیم کو مشکل ترین نہیں بنائیں گے‘ ہم جب تک ڈگری لیول پر پرائیویٹ تعلیم پر پابندی نہیں لگائیں گے‘ ہم جب تک معاشرے کو غیر مسلح نہیں کریں گے‘ ہم جب تک کھیل اور تفریح کو شخصی زندگی کا لازم حصہ نہیں بنائیں گے‘ ہم جب تک معاشرے میں کتاب کلچر کو فروغ نہیں دیں گے اور ہم جب تک ریاست کو سیکیورٹی اسٹیٹ سے ویلفیئر اسٹیٹ ‘ جسٹس اسٹیٹ یا بزنس اسٹیٹ میں تبدیل نہیں کریں گے‘ ہمارے ملک سے اس وقت تک شدت پسندی اور دہشت گردی ختم نہیں ہو سکے گی‘ آپ آج ایک ویزے پر یورپ کے 25 ممالک میں گھوم سکتے ہیں‘ آپ اس یورپ کا تقابل 1940ء اور 1920ء کے یورپ سے کیجیے‘ آپ کو یقین نہیں آئے گا‘ یہ وہی لوگ ہیں جو دس دس سال ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہے‘ جنہوں نے دنیا کی دوبڑی جنگیں لڑیں اور ان جنگوں میں دس کروڑ لوگ مارے گئے‘ یہ لوگ آج سے پچاس سال قبل جی ہاں صرف پچاس سال قبل ایک دوسرے کو نیست ونابود کر دینا چاہتے تھے لیکن صرف آدھی صدی بعد ان کی سرحدیں تک ختم ہو گئی ہیں‘ یہ کرنسی اور ویزہ تک ایک کر بیٹھے ہیں‘ کیسے؟ ان لوگوں نے صرف ایک کام کیا‘ انھوں نے شدت ختم کر دی‘ شدت ختم ہونے سے نفرت ختم ہوئی اور نفرت کے خاتمے کے ساتھ ہی قتل و غارت گری بھی ختم ہو گئی اور آج یورپ کے 25 ممالک کی چار سو نسلیں ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہ رہی ہیں مگر ہم نے ماضی میں نفرت کو کاروبار بنا لیا تھا‘ ہم نفرت کاشت کرتے تھے‘ نفرت بیچتے تھے اور نفرت خریدتے تھے اور یہ خرید وفروخت آج تک جاری ہے اور اس کا یہ نتیجہ ہے‘ ہم آج سلیپر سیلز کے رحم و کرم پر ہیں‘ ایک آج جاگ گیا ہے‘ دوسرا کل جاگ جائے گا اورتیسرے دن تیسرا آنکھ کھول لے گا‘ ہم کس کس سے لڑیں گے‘ ہم کس کس کا مقابلہ کریں گے‘ چوہدری صاحب ایک لمحے کے لیے اس پر بھی غور کیجیے‘ نفرت ختم کیجیے‘ یہ سلیپر سیل خود بخود ختم ہو جائیں گے۔
↧
ملک میں غربت اور ٹیکس نادہندگان
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان میں 54 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے تو ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ کرنا ہوگا۔ وزیر خزانہ صاحب نے بالکل بجا فرمایا ہے۔ ملک میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے اور خط غربت سے مراد عالمی بینک کا وہ پیمانہ ہے جس کے مطابق روزانہ 1.25 ڈالر یا اس سے کم آمدنی والے افراد خط غربت سے نیچے تصور کیے جاتے ہیں۔ اس طرح پاکستانی حالات کے مطابق وہ لوگ جن کی آمدنی اندازاً روزانہ 130 روپے یا اس سے کم ہو وہ خط غربت سے نیچے تصور کیے جاتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی یہ 54 فیصد آبادی کتنی معاشی مشکلات کا شکار ہے کہ یہ لوگ دن بھر میں 130 روپے بھی نہیں کما پاتے، جب کہ اس دور میں اتنی قلیل آمدنی کے ساتھ گزارا کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑھتی ہوئی غربت کی بدولت پاکستان میں بھوک کی شکار آبادی کی صورت حال نیپال، سری لنکا، فلپائن، انڈونیشیا، زمبابوے، تاجکستان، مالی، یوگنڈا، انگولا، کینیا اور شمالی کوریا سمیت 98 ممالک سے ابتر ہے، جو انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔ اس طرح غربت ملک کا سب سے بڑا نہ سہی، بہت بڑا مسئلہ ضرور ہے۔ اگرچہ ملک میں امن و امان کی صورتحال انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن ہے، لیکن اس کے باوجود اگر عوام سے دامن گیر بڑی پریشانی کے بارے میں پوچھا جائے تو اکثریت معاشی حالات کی وجہ سے فکر مند و پریشان نظر آئے گی۔ ملک کی اکثریت کا روگ معیشت ہے۔ غربت نے یہاں کی اکثریت کو کئی نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا کردیا ہے اور انھی الجھنوں نے ملک کے 80 فیصد لوگوں کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کردیا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو غربت کی اصل وجہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے جس کی وجہ سے غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتاچلا جا رہا ہے۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے ایک خاص طبقہ اس قدر امیر ہے کہ ان کے اثاثوں کا اندازہ لگانا مشکل ہے، جب کہ دوسری طرف لوگوں کی ایک کثیر تعداد اتنی غریب ہے کہ ان کے لیے خوراک کا حصول بھی مشکل ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جن کو پیسہ خرچ کرنے کے ذرایع نہیں ملتے اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جن کو پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے خوراک میسر نہیں۔ ملک میں محنت مزدوری کرنے والے غریب خواتین و مرد کربناک صورتحال سے دوچار ہیں۔ فیکٹریوں میں ملازمت کرنے والوں سے لے کر گھروں میں کام کرنے والی ملازماؤں تک استحصال اور مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی اندوہناک داستانیں منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ ملک میں سرمایہ دار و دولت مند گروہ غریب کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر انسانی محنت کے تمام فوائد کو اپنی ذات تک محدود رکھے ہوئے ہیں اور دولت کے انبار لگا رہے ہیں، لیکن اس کے مقابل عوام کی غالب اکثریت غربت کی نچلی سطح پہ ہے اور ہوشربا مہنگائی کی وجہ سے انھیں اپنی زندگی کی سانسیں جاری رکھنے کی فکر لاحق ہے۔ پاکستان میں سیاسی لیڈروں، وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور امیر کلاس کے لوگوں کے لیے بدعنوانیوں کے وسیع میدان ہیں۔ پاکستان میں دولت، وسائل اور اقتدار پر ایلیٹ طبقہ قابض ہے، جس کے نتیجے میں امیر اور غریب میں خلیج روزبروز بڑھتی جارہی ہے۔ پارلیمنٹ میں اکثریت امرا کی ہے، جو قانون سازی میں اپنے مخصوص مفادات مدنظر رکھتے ہیں اور انھیں ریاست یا غریب عوام کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔پاکستان میں ٹیکس کی وصولی کے کمزور اور غیر مربوط نظام کی وجہ سے بہت سے بڑے لوگ بغیر ٹیکس ادا کیے بڑے بڑے اثاثے تشکیل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ریاست اپنی کمزوری کی وجہ سے بڑے بڑے نادہندگان سے ٹیکس وصول نہیں کر سکتی۔ اس سے ایک طرف تو دولت چند مخصوص ہاتھوں میں مرتکز ہوتی ہے اور دوسری طرف حکومت ٹیکسوں کی بھاری رقوم سے محروم ہوجاتی ہے۔ حکومت کے پاس ٹیکس کی یہی رقوم ہوتی ہیں جن سے غریب لوگوں کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ اس طرح امیروں کے ٹیکس ادا نہ کرنے سے غریب لوگ ترقی کے سفر میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگر حکومت تمام امیر لوگوں سے ٹیکس کی وصولی کو یقینی بنائے تو حکومت کے وسائل میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس سے ایسے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں، جو غربت میں نمایاں کمی لاسکتے ہیں۔ پاکستان میں آمدنی پر ٹیکسوں سے بچنے کا یہ حال ہے کہ کم از کم ایک کروڑ افراد کی آمدن قابل ٹیکس ہے، تاہم صرف 25 لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں کی مجموعی قومی پیداوار پر ٹیکس کی شرح نہایت کم ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کم از کم 5 ہزار ارب کے ٹیکس اکٹھے کیے جا سکتے ہیں، جب کہ ملک میں آج تک 2 ہزار ارب تک ٹیکس وصولیاں کی جاسکی ہیں۔
سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے بہت سے ارکان ٹیکس نہیں دیتے۔ پارلیمنٹ ٹیکسیشن کے حوالے سے ایسی قانون سازی کرتی ہے اور اس میں ایسے سقم چھوڑ دیتی ہے جس سے بہت سے بااثر لوگوں کو قانونی طور پر ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہوجاتا ہے حالانکہ دوسری طرف غریب اور مڈل کلاس پاکستانی جن پر انکم ٹیکس کا اطلاق نہیں ہوتا وہ اشیائے صرف پر سیلزٹیکس کی صورت میں بھاری ٹیکس دینے پر مجبور ہیں۔ درحقیقت یہاں کا ٹیکس سسٹم، ایلیٹ نے ایلیٹ کے لیے ہی بنایا ہے۔ اس سسٹم کے تحت غریب آدمی، امیرآدمی کو سبسڈی دے رہا ہے۔ حقیقی ٹیکس بیس کی عدم موجودگی میں حکومت غیرملکی امداد اور قرضوں کے لیے کشکول پکڑنے پرمجبور ہے۔ ملکی ٹیکس ریونیو میں کمی کے باعث حکومت، تعلیم، صحت اور انفرااسٹرکچر جیسی بنیادی سہولتوں میں مناسب سرمایہ کاری کرنے سے قاصر ہے اس لیے ریاست کو ملک میں کاروبار یا دیگر امور سے دولت کمانے والے طبقات کو ملک کے قانون کے مطابق ٹیکس کی ادائیگی پر مجبور کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ حکومت کو ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقوم کا استعمال بھی درست طریقے سے غریبوں کی بھلائی والے منصوبوں پر کرنا ہوگا۔
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا بھر کی حکومتوں کا دارومدار عوام و خواص کی طرف سے قومی خزانے میں جمع کرائے گئے ٹیکسوں پر ہوتا ہے، مگر پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس عوام دیتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ’’خط غربت ‘‘ سے بھی نیچے زندگی گزارنے والے لوگ ہیں، جنہیں دو وقت کی روٹی کے ہی لالے پڑے رہتے ہیں۔ ان بے بسوں اور بے کسوں پر مختلف قسم کے نجانے کتنے ٹیکس عاید ہیں۔ ہمارے ہاں بے لگام ٹیکسوں کے نام پر غریبوں کا خون تو نچوڑا جاتا ہے، جب کہ دوسری طرف بیشتر ایلیٹ کلاس کو ہر طرح کی چھوٹ دے دی جاتی ہے، جن میں بڑے جاگیردار، سرمایہ دار، سیاستدان اور وڈیرے شامل ہیں، حالانکہ دنیا کے کئی ملکوں میں امیروں سے ٹیکس لے کر وہ رقوم غریبوں کی فلاح بہبود پر خرچ کی جاتی ہیں، مگر ہمارے ہاں غریبوں سے ٹیکس لے کر امیروں بالخصوص حکمرانوں کی موج مستیوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اسے کہتے ہیں ’’یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔
↧
↧
Pakistan new world records
↧
اساتذہ پر تشدد
سندھ بھر کے کالجوں کے اساتذہ محکمہ تعلیم میں بڑھتی ہوئی کرپشن اور ترقیوں کے مطالبات کو منوانے کے لیے 25فروری کو کراچی میں سندھ سیکریٹریٹ کے سامنے جمع ہوئے ۔ یہ اساتذہ اپنے مطالبات پیش کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ ہاؤس جانا چاہتے تھے۔ پولیس حکام نے اساتذہ کو سندھ سیکریٹریٹ کے سامنے منتشر کرنے کے لیے تیسرے درجے کے لاٹھی چارج اور واٹر کینن کو استعمال کیا ،یوں بہت سے اساتذہ جن میں خواتین بھی شامل تھیں زخمی ہوگئے ۔ تیز رفتاری سے پھینکے گئے پانی کی بناء پر خواتین اساتذہ کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پولیس نے اساتذہ پر لاٹھیاں برسانے کے علاوہ 19 کو گرفتارکیا ۔رات گئے گورنر سندھ کی مداخلت پر اساتذہ تھانوں سے رہا ہوئے ۔
زخمی ہونے والے اساتذہ شہر کے مختلف اسپتالوں میں داخل کیے گئے ۔اساتذہ کی تنظیم سندھ پروفیسرز لیکچرر ایسوسی ایشن SPLAکی اپیل پر پورے سندھ میں اساتذہ نے سرکاری کالجوں میں تدریس کا بائیکاٹ کیا، اب تک علامتی بھوک ہڑتال جاری ہے ۔اساتذہ معاشرے کا امتیاز ہوتے ہیں یوں پولیس کے تشدد کا شکار ہونا انتہائی قابل مذمت ہے۔سندھ کے وزیر تعلیم نثارکھوڑو نے اس بات کا اقرار کیا کہ سندھ میں 4 ہزار سرکاری اسکول بند پڑے ہیں ۔ سندھ میں سرکاری شعبہ تعلیم کا بنیادی فریضہ ادا کرتا ہے ، سندھ حکومت کے بجٹ کی خطیر رقم تعلیم کے شعبے پر خرچ ہوتی ہے مگر سندھ میں سرکاری شعبے کی کارکردگی مایوس کن ہے ، اگر گزشتہ 30برسوں کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ سندھ میں برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے تعلیم کے شعبے کو اہمیت نہیں دی ۔ سندھ کے تعلیمی شعبے کی تباہی میں سیاستدانوں ، بیوروکریٹس اور اساتذہ بھی برابر کے شریک ہیں ۔ اس صدی کے آغاز پر جب 2002 کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ کی حکومت بنی اور علی محمد مہر اور اس کے بعد اربا ب رحیم وزیر اعلیٰ بنے تو محکمہ تعلیم کو سیاسی مقاصد کے لیے ایم کیو ایم کے حوالے کیا گیا مگر ایم کیو ایم کے وزراء تعلیم تعلیمی شعبے میں خاطر خواہ تبدیلیاں نہیں کرسکے ۔ ان کے دور میں سیاسی بھرتیوں اور دیہی علاقوں کو نظر اندا ز کرنے کے الزامات لگے۔ سندھ کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی بورڈ کے امتحانات کے شعبوں پر مختلف سیاسی جماعتوں کے حامی کارکنوں نے قبضہ کیا جس کے نتیجے میں ہر سطح پر نقل کا کاروبار گرم ہوا۔
کراچی سمیت اندرون سندھ کے شہروں اور دیہاتوں میں غیر حاضر اساتذہ کا ادارہ مستحکم ہوا اور سیاسی جماعتوں نے اس ادارہ کی ترویج میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یہی وجہ تھی کہ سندھ میں 4 ہزار سے زیادہ گھوسٹ (GHOST) اسکولوں کا بار بار ذکر ہونے لگا ۔ تعلیم کے شعبے کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو واحد وزیر تعلیم تھیں جنہوں نے محکمہ تعلیم کو میرٹ کے مطابق چلانے کی کوشش کی ۔ پیر مظہر الحق وزیر تعلیم بنے تو انھوں نے گھوسٹ اسکولوں کے خاتمے ، میرٹ کی بنیاد پر بھرتیاں کرنے اور اساتذہ کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے جامع اقدامات کرنے کا اعلان کیا ۔ پیر مظہر الحق کے ان عزائم کا ہر سطح پر خیر مقدم کیا گیا مگر ان کا دور سندھ کے تعلیم کے محکمے کے لیے بدترین دور ثابت ہوا۔ اس دور میں چپڑاسی سے لے کر ڈائریکٹر تک کی اسامیاں نیلام ہوئیں ۔ پورے صوبے میں اساتذہ کے تقرر کے لیے لاکھوں روپے کی ادائیگی لازمی ہوگئی ۔ عالمی بینک نے اساتذہ کے تقرر کے لیے ایک جامع ٹیسٹ کا طریقہ کار طے کیا تھا ۔ عالمی بینک کے دباؤ پر پہلے ای بی اے اور پھر سندھ یونیورسٹی نے اساتذہ کے ٹیسٹ لیے مگر ٹیسٹ پاس کرنے والے بیشتر اساتذہ ملازمتوں سے محروم رہے ۔ دوسری طرف لاکھوں روپے ادا کرنے والے افراد اساتذہ بن گئے ۔ ان میں بیشتر وہ لوگ تھے جن کے پاس ڈگریاںتھیں مگراہلیت نہ ہونے کے برابر تھی ۔ صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ صدر زرداری نے اپنے بہنوئی ڈاکٹر فضل پیچوہو کو سیکریٹری تعلیم مقرر کرایا جنہوں نے ٹیسٹ پاس کرنے والے اساتذہ کی تنخواہیں روک دیں ۔
یوں گزشتہ ایک سال سے تقرر نامے حاصل کرنے والے اساتذہ نے عدالتوں سے رجوع کیا یا احتجاج کے ذریعے تنخواہیں حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان میں سے بعض افراد کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کی کمائی یہ ملازمتیں حاصل کرنے میں صرف کردی تھی مگر مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ملا ۔امید ہے کہ حکومت جلد انھیں تنخواہیں ادا کرے گی ۔پھر اس دوران شہر ی اور دیہی کوٹہ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ،یوں کراچی اور حیدرآباد میں یہ بات عام ہوگئی کہ شہر ی علاقوں کے افسران کو محکمہ تعلیم میں تلاش کرناجوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ 2013 کے انتخابات کے بعد جب نثار کھوڑو وزیر تعلیم بنے تو صورتحال بہت زیادہ تبدیل نہیں ہوئی ۔ گزشتہ ماہ کالجوں کے پرنسپلوں اور اساتذہ کے آڈٹ کے نام پر رشوت لینے کی شکایتیں اخبارات کی زینت بنیں کہ اب محکمہ تعلیم میں کرپشن کے نت نئے طریقہ واضح کیے گئے ہیں۔ اسکولوں اورکالجوں کے پرنسپل کے تقرر میں سینیارٹی کامعاملہ نظر انداز کردیا گیا ہے۔ ہائر سیکنڈری اسکولوں کے ہیڈ ماسٹر سے اساتذہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے DDOکے اختیارات واپس لیے گئے۔ 10اسکولوں پر ایک ہیڈ ماسٹر کو DDOکے اختیارات دیے گئے ااور تمام فنڈ اس ہیڈ ماسٹر کی تحویل میں دے دیے گئے اور دیگر ہیڈ ماسٹرز کے فنڈز استعمال کرنے کے اختیارات ختم کردیے گئے ۔یوں ایک بااختیار ہیڈ ماسٹر اعلیٰ افسروں کی ہدایت پر فنڈز استعمال کرتاہے اور اساتذہ کی تنخواہوں کے بلوں پر دستخط کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اساتذہ خاص طور پر خواتین اساتذہ کو ہر سطح پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔
بعض ماہرین کاکہنا ہے کہ ایک فرد واحد کو اختیار دینے کا مطلب کرپشن کو تقویت دینا ہے۔ کالجوں کے اساتذہ کی ترقیوں کے معاملات برسوں سے التواء کا شکار ہیں۔ اساتذہ کو معمولی کاموں کے لیے رشوت یا سفارش تلاش کرنا پڑتی ہے ۔ تمام پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے چانسلر گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العبادہیں جب انھوں نے گورنر کا عہدہ سنبھالا تو سندھ میں برسر اقتدار جماعتوں سے یہ اتفاق رائے ہوا کہ گورنر سندھ براہ راست شہری علاقوں میں قائم یونیورسٹیوں کی نگرانی کریں گے۔ دوسرے شہروں میں قائم ہونے والی یونیورسٹیوں کے معاملات وہ وزیر اعلیٰ کے مشورے سے چلائیں گے ۔ 2008 میں پیپلزپارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد اس نظام پر عمل جاری رہا ۔ انھوں نے بیوروکریسی کے ذریعے معاملات چلائے، یونیورسٹیوں کا اہم ترین ادارہ سینیٹ ہوتا ہے جس کا ہرسال اجلاس ہونا ضروری ہے۔ سینیٹ میں یونیورسٹی کا بجٹ اور دوسری انتظامی اور تعلیمی معاملات پر حتمی فیصلے ہوتے ہیں مگر گورنر سندھ یونیورسٹیوں کی سینیٹ کے اجلاسوں کی صدارت کے لیے دستیاب نہیں ہوتے۔ البتہ انھوں نے امراء کے ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی اور این ای ڈی یونیورسٹی کے ہونے والے کانووکیشن میں ضرور شرکت کی۔اس معاملے میں اگر پنجاب کی مثال لی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فوجی گورنر جنرل خالد مقبول اور پھر سلمان تاثیر،لطیف کھوسہ اور اب چوہدری سرور باقاعدگی سے یونیورسٹیوں کے سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں۔ اس ضمن میں سندھ کے سابق گورنر فخر الدین جی ابراہیم کا کردار اہم رہا جب وہ گورنر سندھ بنے تو انھوں نے ہر یونیورسٹی کے سینیٹ کے اجلاس کی صدارت کی اور موقع پر ہی فیصلے بھی کیے۔ بے نظیر بھٹو یونیورسٹی نواب شاہ کا وائس چانسلر ایم اے پاس ایک فرد کو سرچ کمیٹی بنائے بغیر وائس چانسلر مقررکردیا گیا ۔
موصوف نے تمام پی ایچ ڈی اساتذہ کو معطل کردیا تھا،اسی طرح سندھ یونیورسٹی کے اہل وائس چانسلر پیر مظہر الحق کو وجہ بتائے بغیر رخصت کیا گیا اور ڈاکٹر نذیر مغل کو وائس چانسلر بنادیا گیا جن کے دور میں ایک پروفیسر کو یونیورسٹی میں قتل کیا گیا جن کے قاتل تاحال گرفتار نہیں ہوئے اور احتجاجاََ اساتذہ نے 110دن تک ہڑتال کی ۔ اساتذہ کے احتجاج پر ڈاکٹر نذیر مغل کو رخصت پر بھیج دیا گیا، مگر بعد ازاں انھیں پھر سے وائس چانسلر بنادیا گیا ۔ گزشتہ سندھ اسمبلی نے چند منٹ میں یونیورسٹیوں کی خود مختاری کے لیے خاتمے کا قانون منظور کیا اس قانون کے تحت ایک صدی سے زائد عرصے سے قائم یونیورسٹی کے بنیادی ادارے سینیٹ،سنڈیکیٹ، اکیڈمک کونسل اور سلیکشن بورڈ کے اختیارات سلب ہوئے اور یہ اختیارات سندھ کے ایک سیکشن افسرکو منتقل ہوگئے۔ یوں اب وائس چانسلر کے اختیارات اسکول کے ہیڈ ماسٹر کے برابر ہوگئے۔ حکومت نے کراچی یونیورسٹی سے داخلہ پالیسی کا اختیار چھین لیا ۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ سندھ کی تمام یونیورسٹیوں کے اساتذہ اس قانون کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں۔اساتذہ کو یونیورسٹی کے معاملات میں شفافیت کا بحران پیدا ہوتا نظر آرہا ہے۔ بین الاقوامی اداروں کے سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ میں معیار تعلیم گررہا ہے اور معیار تعلیم گرنے کے اسباب پر کوئی بحث نہیں ہورہی ۔اساتذہ کی سر عام تذلیل اور ان پر تیسرے درجے کے تشدد پرحکومت خاموش ہے۔ عجیب المیہ یہ ہے کہ سندھ حکومت اساتذہ کی جدوجہد کو طاقت سے کچل کر معیار تعلیم کو بلند کرنے اور محکمہ میں شفافیت کے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔
↧
تعلیم کا بیوپار
جیب اجازت دے یا نہ دے اپنے بچے کو اس عزم کے ساتھ مہنگے پرائیویٹ اسکول میں داخل کرایا جاتا ہے کہ پیٹ بھر کے روٹی نہیں کھائینگے مگر اپنے بچے کو کم سے کم ایسے اسکول میں تو ضرور پڑھائینگے جہاں ہر کوئی انگریزی زبان میں بات کرتا ہو۔ یہ الگ مسئلہ ٹھہرا کہ اسکول میں داخلے والے دنوں میں تو چپراسی بھی انگریزی بولتا نظر آتا ہے۔ بعد ازاں داخلے کے چند ماہ بعد یہ راز کھلتا ہے کہ انگریزی پڑھانے والی ٹیچر بھی انگریزی پڑھانے سے قاصر ہے لیکن معاشرے میں اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے ساتھ ساتھ اس پر اسٹیٹس کا گوٹہ ٹانکنا بھی تو ضروری ٹھہرا۔ سو انگریزی اسکول جیسا بھی ہو اپنے بچے پر انگلش میڈیم کا ٹیگ ہونا ہی چاہیے۔ پاکستان میں معاشی حالات جس ڈگر پر چل رہے ہیں ان میں یہ ہر گھر کی کہانی ہے کہ انگریزی کا ٹیگ ہی بچے کا معاشی مستقبل سنوار سکتا ہے۔ اسکول فیس اور اخراجات کے بڑھنے کی صدا گھر گھر سے آتی ہے۔ امیر طبقہ امیر سے امیر تر اور غریب غربت میں دھنستا جا رہا ہے۔ رہی مڈل کلاس تو وہ ایسی دلدل میں پھنسی ہے کہ بس دم نکلنے کی دیر ہے۔
اپنی اولاد کو اچھی تعلیم دینے کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے جسم کا لہو دان کرنا پڑتا ہے اور یوں فیس دینے کی آخری تاریخ یعنی ہر ماہ کی دسویں خون خشک کر جاتی ہے۔ جو نہ دے سکے تو پندرہ کو جرمانے کے بعد،20 تاریخ کو ڈبل جرمانے کے ساتھ فیس جمع کروانا ضروری ہوتا ہے ورنہ 21 کو تو بچے کا نام ہی اسکول سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ اب وہ کون ہو گا جو اپنے بچے کو اسکول میں رسوائی کا سامنا کرنے دے لہٰذا کہیں سے بھی رقم کا انتظام کر کے فیس ادا کی جاتی ہے۔
معاملہ یہی ختم نہیں ہوتا۔ بڑا انگریزی میڈیم اسکول ہو یا چھوٹا، چونچلے اپنے عروج پر ہوتے ہیں۔ گوروں کے تمام تہوار منانا تو ہم پر فرض ٹھہرا۔ مذہبی ’’فنکشنز‘‘ میں بھی پیسے کو پانی کی طرح بہایا جاتا ہے اور یہ افسوس ناک حقیقت سامنے آتی ہے دین کی اصل روح تو کہیں فنا ہو چکی ہے جب کہ اخراجات کی مد میں آنیوالا تمام خرچہ والدین کی جیب سے پورا کیا جاتا ہے۔ 5سو، ہزار، منگوانا تو عام سی بات ہے، پھر ارتھ ڈے سے لے کر یلو، گرین، بلو، ریڈ ڈے پر دن کی مناسبت سے لباس کی تیاری الگ۔ ان سب پر رقم خرچ کرنے کے بعد سکون کا سانس لینا کسے نصیب ہے۔ کبھی بچے کو خرگوش بنانے کے لیے کپڑے ضروری ہیں، تو کبھی شیر اور بھالو کے مختلف اقسام کے فینسی ڈریس خریدنا۔ والدین کی مجبوری ٹھہری، جیب چاہے چیخ اٹھے لیکن اپنے بچے کو اسٹیٹس مینٹین رکھنے کی دوڑ میں شامل کرنا ضروری ہے۔ سو اس قسم کے فینسی ڈریس جن کی قیمت 500 روپے سے تین ہزار تک ہوتی ہے اور جنھیں بچہ فقط 15 سے 20 منٹ پہنتا ہے، خریدنا ہی پڑتے ہیں۔
یہ الگ بحث ہے کہ اسکولوں کے ساتھ اس طرح کے فینسی ڈریسز بنانے والوں کے باقاعدہ معاہدے ہوتے ہیں اور ہر لباس پہ اسکول انتظامیہ اپنا کمیشن رکھتی ہے۔ جو اسکول کمیشن نہیں لیتے وہ پروگرام تو بہر حال ضرور منعقد کرتے ہیں تا کہ اپنے اسکول کے طالبعلموں کو اینیملز سے مشابہت رکھنے والی پر فارمینس دکھانے پر ان کی تصاویر بنائیں اور نئے آنیوالے گاہکوں۔۔۔ میرا مطلب ہے والدین کو ان تصاویر کی مدد سے پھانسا جا سکے۔
اب لیجیے کورس کی کتابوں کو، جو ادارہ زیادہ مراعات اور کمیشن کی بات کرے جناب! اسی کی کتاب خریدنا ضروری ہے۔ میں آج تک یہ بات نہ سمجھ سکی کہ اردو اور انگریزی میڈیم اسکولز میں کتابوں کا معیار مختلف ہو سکتا ہے لیکن ہر انگریزی اسکول دوسرے سے مختلف کورس کیوں پڑھا رہا ہے۔ پیسے بٹورنے کا نیا حربہ یہ اپنایا گیا ہے کہ وہ اسکول جن کی لاتعداد برانچز ایک ہی شہر میں قائم ہیں، ان اسکولز میں سال شروع ہوتے ہی فیس چالان کے ساتھ ایک اور چالان تھما دیا جاتاہے اور یہ چالان کتابوں کی خرید کی مد میں جمع کروائی جانیوالی رقم کا ہوتا ہے۔
زیادہ پرانی بات نہیں کہ کسی کو یاد نہ ہو، کتابوں کی ایک فہرست اسکول کی طرف سے مہیا کی جاتی تھی اور وہ والدین جو نئی کتابیں خریدنے سے قاصر تھے وہ پرانی کتابیں اور نئی کاپیاں دیکر بچے کی پڑھائی کے خواب کو آگے بڑھاتے تھے۔ اب انھیں کتابوں کی فہرست ہی نہیں دی جاتی جس کی مدد سے وہ جان سکیں کہ کون سی کتاب خریدنی ہے اور کون سی نہیں؟ وہ اس پر مجبور ہیں کہ اسکول کے بک اسٹور یا بتائے گئے مخصوص بک اسٹور ہی سے کتابیں خریدی جائیں، یہ بھی اچھی رہی کہ کتابوں کا نام ہی نا بتایا جائے کیونکہ اس صورت میں تو والدین پرانی کتابیں خرید لیں گے اور اس طرح نا ہی اسکول انتظامیہ کی روزی میں برکت ہو گی اور نا ہی والدین پر مہنگائی کا عذاب نازل ہو گا۔
کتابوں کے معیار اتنے اعلیٰ ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ چھوٹا سا بچہ کس طرح اس فلاسفی کو سمجھ سکے گا۔ اب مسئلہ سمجھنے نہ سمجھنے کا تو رہا ہی نہیں۔ سمجھانے کی ذمے داری تو ماں باپ کی ہے لہٰذا ٹیوشن کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ٹیوشن کی فیس کی ادائیگی ایک چھوٹے اژدہے کی مانند گلے میں لٹکی ہوتی ہے اور اسکول کی فیس کا بڑا اژدہا دو دو ماہ کی اکٹھی فیسوں کے ساتھ زبان لٹکائے ڈرا رہا ہوتا ہے پھر جیسے ہی سالانہ فیس دینے کا مہینہ یعنی اپریل شروع ہوتا ہے، یہ اژدہا پورا منہ کھول کر والدین کو نگلنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ اسکول وین کی فیس ادا کرنا تو واجب قرار پایا۔ اب ہمارا وین ڈرائیور جون جولائی میں اپنا گھر کیسے چلائے گا سو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا اس کے لیے بھی لازم ٹھہرا۔ پہیہ چلے نہ چلے دو ماہ کی تعطیلات میں یہ فیس ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ ایک اور رواج چل نکلا ہے، اسکول کی امتحان کی کاپیاں فائلیں رنگ اور رنگ برنگی شیٹیں جو کہ اسٹیشنری کے زمرے میں آتی ہیں، وہ بھی اسکول سے سال شروع ہوتے ہی خریدنا ہوتی ہیں۔ اب اس سامان سے بچہ فائدہ اٹھاتا ہے یا اسکول کا مالک، اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔
ایک معیاری انگریزی میڈیم اسکول کی فیس کم سے کم ڈھائی ہزار روپے ہے جب کہ اس سے کم فیس والے اداروں کو معیار کی فہرست میں ہم والدین ہی نہیں لاتے اور زیادہ سے زیادہ فیس 12ہزار ہے۔ اتنی فیس لینے کے باوجود ان ٹیچرز کو بھرتی کیا جاتاہے جو کم سے کم تنخواہ میں کام کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ اپنے اپنے شعبے میں مہارت رکھنے والے اساتذہ تو جیسے ناپید ہو چکے ہیں۔ آج سب سے آسان دھندا اسکول کھول کر کمائی کرنے کا بن گیا ہے۔ میں مانتی ہوں کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ ایسے مخلص لوگ بھی موجود ہیں جو اس شعبے سے ایمان داری برت رہے ہیں، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
انگریزی میڈیم اسکولز کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ میں پرائیویٹ اسکولوں کی تنظیموں سے سوال کرتی ہوں کہ آخر کیوں ایسے اصول و ضابطے مقرر نہیں کیے گئے جن کی رو سے اسکول انتظامیہ جواب دہ ہوں کہ وہ فیس کس پیمانے پر مقرر کرتے ہیں۔ کتابیں کیوں اسکول سے خریدنا ضروری ہیں۔ آئے دن ہونے والے فنکشنز پر اٹھنے والا پیسہ کس کی جیب سے جاتا ہے۔ چلیں آپ کچھ نہ کریں اتنا تو بتا دیجیے کہ انگریزی اسکولز کو آپ جتنی کیٹگریز میں تقسیم کرتے ہیں، آخر ان کیٹیگریز کی فیسیں کیوں مختلف ہوتی ہیں؟
اس اندھیر نگری میں اسکول کا کاروبار کرنے والوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔ تو اب کوئی بھی میٹرک فیل بے روزگار اپنے گھر کے احاطے میں اسکول کھول سکتا ہے، کیوں کہ یہاں قابلیت کون پوچھتا ہے۔ ہر بچہ اس بھٹی میں قابلیت کی آگ میں نہیں جلتا، بلکہ اسکول مالکان کے ہاتھوں میں ایک نئے کرارے نوٹ کی حرارت بنا رہتا ہے۔
↧
یوکرین ۔ افغانستان اور سرد جنگ؟
لیجئے! ابھی ایشیاء کے افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا مکمل نہیں ہوا کہ روس نے اپنے پڑوسی یورپی ملک اور یوکرین میں اپنے مفادات کیلئے روسی فوج کو بھیج کر یورپ اور امریکہ پر ایک بار پھر واضح کردیا کہ دو عالمی جنگوں اور سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد یورپ سرد جنگ اور تصادم کے خطرات سے پاک نہیں ہوا۔ یہ بھی ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ یوکرین میں فوج بھیجنے والا روس اور اس اقدام کی مذمت کرنے والا امریکہ دونوں ہی اپنے اپنے موقف کا جواز دیتے ہوئے جمہوریت ، آزادی، انسانی حقوق، عالمی قانون اور اقوام متحدہ کے منشور کا سہارا لے رہے ہیں۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروو نے 3؍مارچ کو جنیوا میں جو بیان دیا اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے روسی اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسی 3 مارچ کو جو بیان دیا ہے دونوں کا موازنہ کیجئے تو دونوں عالمی قوتوں کے متضاد موقف میں اعلیٰ انسانی اقدار، یوکرین کے عوام کی بھلائی ، اقوام متحدہ یوکرین کی سلامتی اور عالمی قانون کا یکساں طور پر احترام کے ساتھ ذکر ملے گا جبکہ دونوں عالمی طاقتوں کے مفادات میں ٹکرائو اور محاذآرائی تلخ زمینی حقائق ہیں۔
اس تمہید کا مقصد اس حقیقت کی نشاندہی کرنا ہے کہ عالمی یا علاقائی طاقتور اقوام ہمیشہ عالمی اصولوں، جمہوریت، آزادی، دہشت گردی، امن، استحکام اور سلامتی کی عملی تعریف اور اقدامات کا تعین اپنے مفادات کے مطابق کرتی ہیں۔ امریکہ افغانستان میں کئی ہزار امریکی فوجی لمبی مدت کیلئے افغان ، امریکہ دو طرفہ معاہدہ کے تحت مقیم رکھنا چاہتا ہے مگر گزشتہ بارہ سال سے امریکی سرپرستی، حمایت اور امداد سے افغانستان کے سربراہ مملکت حامد کرزئی معاہدہ پر دستخط سے انکاری ہیں۔ کرزئی کو اس انکار کے باعث صدر اوباما نے ناپسندیدہ قرار دے دیا اب چند دنوں میں وہ افغان صدارت سے بھی رخصت ہونے والے ہیں۔ یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ بیرونی طاقتوں کی سرپرستی سے اپنے ملکوں پر حکومت کرنے والے قائدین کی جب افادیت ختم ہوجاتی ہے تو بڑی طاقتیں انہیں ’’ٹشوپیپر‘‘ کی طرح نکال پھینکنے میں بھی دیر نہیں لگاتیں۔ گلوبلائزیشن کے جدید دور میں یہ عمل اب زیادہ واضح ہو گیا ہے۔
یہ نظریہ سازش نہیں ایک عالمی حقیقت ہے کہ عالمی اور علاقائی قوتیں کمزور اقوام اور ان کے قائدین کا رول اور عالمی امن کی تعریف اپنے مفادات کے تقاضوں کے مطابق متعین کر رہی ہیں۔ امریکہ استحکام، امن، ترقی اور جمہوریت کا حوالہ دیکر افغانستان میں اپنی فوج رکھنا چاہتا ہے لیکن انہی مقاصد کے نام پر یوکرین میں روسی فوج مداخلت کو خطرناک قرار دے کر مذمت اور مخالفت کرتے ہوئے روس کو اس اقدام کی سزا دینے اور ایک نئی سرد جنگ شروع کرنے کا خطرہ بھی مول لے رہا ہے جبکہ روس نے یوکرین میں فوج بھیجنے کے اقدام کو وہاں کے عوام کی بھلائی ،انہیں فاشسٹوں سے نجات دلانے میں مدد اور امن کا اقدام قرار دے رہا ہے۔ یہی عالمی طاقتوں کی عالمی حقیقت ہے کہ ’’جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘‘۔
موسم سرما کے اولمپکس گیمز کا زورشور ختم ہونے سے قبل ہی یوکرین میں عوامی مظاہروں اور حکومتی بحران نے یوکرین کے روس نواز صدر ینکووچ کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا تو سب کو یقین تھا کہ روس لازماً اپنے مفادات کیلئے اقدام کرے گا اور اب یہ واضح بھی ہوگیا کہ امریکہ اور یورپ کی پروا نہ کرتے ہوئے صدر پیوٹن نے یوکرین میں روسی آبادی کے اکثریتی علاقے کریمیا میں روسی فوجی دستے بھیج دیئے تاکہ بحران زدہ یوکرین میں روسی مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ روس آج بھی ایک عالمی طاقت اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں ویٹو کا حق رکھنے والا ملک ہے اور صدر پیوٹن ٹوٹے ہوئے سوویت یونین میں سے ایک گرینڈ روسی فیڈریشن کی تعمیر چاہتے ہیں۔ وہ اپنے اردگرد کی سابقہ سوویت یونین کے نو آزاد ممالک کو اپنے دائرہ اثر میں رکھنا چاہتے ہیں۔
اسی لئے وہ پہلے جارجیا میں بھی روسی فوج بھیج چکے ہیں اور دو علاقے عملاً جارجیا سے آزاد کرائے، اس وقت بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں نےاحتجاج کیا روس کو تنہا کرنے اور رابطے منقطع کرنے کے اقدامات کئے لیکن حالات و واقعات اور اپنے اردگرد کے ممالک میں اپنی مضبوط گرفت کے باعث روس ڈٹا رہا اور اس نے جارجیا کے ساتھ جنگ بندی کی شرائط پر بھی عمل نہیں کیا اور صرف ایک سال بعد ہی 2009ء میں نیٹو ممالک نے روس سے ملٹری رابطے بحال کرلئے جبکہ 2010ء میں صدر اوباما نے روس کے ساتھ سویلین نیوکلیئر سمجھوتے پر دستخط کرکے تعلقات کو بہتر بنا لیا کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے پاس روس کے خلاف جوابی عملی اقدام کرنے کے آپشن بہت محدود تھے اس کے برعکس یورپ کو روسی گیس کی سپلائی کی بڑی لازمی ضرورت بھی بے بس کردیتی ہے۔
اب تو امریکہ کو بھی ایران اور شام کے معاملات میں روسی تعاون کی بڑی ضرورت ہے لہٰذا امریکہ اور یورپی طاقتیں یوکرین میں روسی فوجی مداخلت کے باوجود تصادم نہیں چاہتیں بلکہ وقتی طور پر معاشی تعاون کی معطلی، مذمتی بیانات، یورپ کی جانب سے روسیوں پر ویزا کی پابندیاں عالمی دبائو اور حدود سے تجاوز نہ کرنے کی وارننگ تک ہی معاملات محدود رہیں گے۔ صدر پیوٹن یہ سمجھتے ہیں امریکہ اور اس کے ساتھیوں کے پاس بڑے محدود آپشن ہیں لہٰذا وہ کچھ زیادہ نہیں کرسکیں گے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، یوکرین اور دیگر رکن ممالک نے اپنی تقاریر میں روس کو عالمی قانون، معاہدہ ہلسنکی اور دیگر معاہدوں کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے یوکرین میں فوج بھیجنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے لیکن روس نے بھی کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کی یاد تازہ کرتے ہوئے یوکرین کے معزول صدر یوکونوچ کے دستخط سے روسی صدر کے نام ایک خط اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کیا ہے جس میں یوکرین کے صدر نے یوکرین سے فرار ہونے سے قبل روس سے مداخلت کی درخواست کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یوکرین انتہا پسندوں اور فاشسٹوں کے ہاتھ خانہ جنگی کی حالت میں ہے لہٰذا صدر پیوٹن یوکرین میں امن و امان کے قیام میں تعاون کریں۔
روس کی جانب سے بلائے جانے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں روسی سفیر کی جانب سے معزول صدر یوکونوچ کا یہ خط یہ ظاہر کرتا ہے کہ روس یوکرین کے منتخب صدر کی درخواست پر یوکرین میں فوجی مداخلت کر رہا ہے جبکہ امریکہ روس کو عالمی قانون ، معاہدہ ہلسنکی، معاہدہ بڈاپسٹ اور پڑوسی ملک یوکرین کی آزادی کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے رہا ہے۔ گویا اقوام متحدہ کے محاذ پر امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ کا محاذ ایک بار پھر کھل گیا ہے۔ سلامتی کونسل میں روس کو ویٹو کا حق حاصل ہے لہٰذا روس کی مرضی کے بغیر سلامتی کونسل کوئی قرارداد بھی منظور نہیں کرسکتی۔ روس کو عالمی حالات کے بہائو سے علیحدہ کرنا بھی اتنا آسان نہیں۔ روسی زبان بولنے والے مشرقی یوکرین کے تقسیم ہوجانے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ شام ، عراق ، لیبیا ، افغانستان اور دیگر ممالک پر بآسانی اقتصادی اور دیگر پابندیاں عائد کر ڈالنے والی سلامتی کونسل ویٹو کے حامل روس کے خلاف مذمتی قرارداد بھی منظور نہیں کرواسکتی مگر سلامتی کونسل میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور ان کے حامی ممالک کی مختلف دھمکیوں پر مبنی تقاریر کا زور ہے۔ پابندیوں اور اس کی قیمت ادا کرنے کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں مگر صدر پیوٹن کے رویہ اور موقف میں تاحال کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
روس اپنی فوجی مداخلت کو باہمی معاہدوں اور عالمی قانون کے تقاضوں کے مطابق یوکرین کی مدد کرنے کا اقدام قرار دے رہا ہے۔ سلامتی کونسل میں امریکی سفیر سمنتھا پاورز، برطانوی سفیر مارک لائل گرانٹ روسی سفیر ویٹالی چرکن زبردست شعلہ بیانی اور سفارت کاری میں مصروف ہیں۔ چین کے سفیر غیر جانبدارانہ اور ڈائیلاگ سے مسئلہ حل کرنے کے اصولی موقف پر زور دے رہے ہیں۔ بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ کے ایام کی طرح محاذ آرائی اور مذمت کرنے کا ماحول قائم ہے اور بقیہ چھوٹے بڑے ممالک عالمی طاقتوں کی محاذ آرائی میں مشکلات سے دوچار ہیں یوکرین ہو یا افغانستان، وینزویلا ہو یا شام، لیبیا ہو یا جارجیا جیسے ممالک ہوں انہیں تو بڑی عالمی طاقتوں کے ایجنڈے اور مفادات کا حصہ بننا پڑ رہا ہے۔ نئی صدی میں گلوبلائزیشن کے تقاضے، چھوٹی یا کمزور اقوام کے حق میں نظر نہیں آتے۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد سبھی ہمارے قائدین نے امریکہ اور سوویت یونین میں جاری سرد جنگ میں دھکیل دیا تھا، جس کی قیمت پاکستان کو آج بھی ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ روس کی دشمنی اور دھمکیاں امریکہ کی امداد اور پابندیاں، خطے میں ہماری علاقائی تنہائی اور دہشت گردی کے دور کے بعد ہماری عالمی تنہائی یہ سب کچھ ہمارے قائدین کی عاقبت نااندیشی اور عالمی طاقتوں کی سرد جنگ اور رسہ کشی میں خود کو پھنسانے کا نتیجہ بھی ہے۔
عظیم ایم میاں
بشکریہ روزنامہ 'جنگ '
Russia in Ukraine
↧
↧
Keya Yeh Hay Aap Ki Pakistaniat by Hamid Mir
↧
Global Warming Effects
↧
جابرانہ ٹیکس نظام اور غربت
↧
ایک جنگل کا قصہ اور ہماری حالت زار
یہ قصہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے مگر یہاں حالات کچھ ایسے بن گئے ہیں کہ ہر مرتبہ دہرانے کے باوجود بھی یہ نیا محسوس ہوتا ہے۔ اس مرتبہ چند تخلیقی اضافوں کے ساتھ اس کو اپنی صورت حال کے حوالے سے مزید مفصل بنایا گیا ہے، پیغام بڑا واضح ہے مگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو تحریری کمزوری پر ذمے داری ڈال د یجئے گا۔ اپنی کوتاہی ہر گز نہ سمجھئے گا۔ ہماری حسین روایت یہی ہے کہ غلطی ہمیشہ دوسروں کی ہوتی ہے ۔
یہ قصہ ہے ایک چڑیا اور ایک چڑے کا جو شادی کے بعد دنیا گھومے اور پھر واپس اپنے وطن لوٹے ۔ یہاں کی تصویر نا قابل یقین تھی، باغات اجڑ گئے تھے، پھل سوکھ گئے تھے۔ شفاف اور میٹھے پانی کے چشمے زہر اگل رہے تھے۔ رنگین شاموں پر موت زدہ فضا چھائی ہوئی تھی۔ بچے کھچے جانور اور پرندے حشرات الارض کی طرح کونوں کھدروں میں منہ چھپائے پھر رہے تھے۔ کوئی بربادی سی بربادی تھی۔ ان دونوں کو اپنی شادی بھول گئی اور یہ مارے مارے ہر طرف پھرنے لگے تا کہ یہ جان پائیں کہ ان کے ملک میں کیا ایسی کوئی وباء آئی کہ جس نے زندگی چھین لی۔ ہر کوئی سچ بولنے سے کترا رہا تھا۔ ایک سوکھی شاخ پر بیٹھے ہوئے الو نے اس جوڑے کے اضطراب کو جان لیا ۔ آسمان پر دو چکر لگانے کے بعد نیچے آیا اور ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’’ میں تمہارا عذاب سمجھ گیا ہوں ، وضاحت میرے پاس موجود ہے کچھ دیر میں بیان کر دوں گا۔ لیکن تم دونوں کو کچھ وقت میرے ساتھ گزارنا ہو گا ‘‘۔ چڑے نے سجی سجائی چڑیا سے اجازت طلب کی۔ اور اس کے بعد دونوں الو کے ہمراہ ادھر ادھر بے مقصد گھومنے لگے۔ الو ان کو گھما کر بازار لے گیا جہاں پر چھوٹے چھوٹے سروں والے ایسے جانور موجود تھے جو اس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھے تھے۔ ان کی موجودگی میں الو نے چڑے کی پشت پر ایک پنجہ رسید کیا اور چڑیا کو اپنے پر کے نیچے دبا لیا۔
پیشتر اس کے کہ چڑا اس ہزیمت پر تلملاتا، الو نے ببانگ دہل بیان جاری کر دیا، جس نے اس پر سکتہ طاری کر دیا ۔ ’’یہ چڑیا میری بیوی ہے یہ چڑا اس کو لے اڑا تھا آج میں نے آپ سب کے سامنے اس کو دوبارہ حاصل کر لیا ہے‘‘۔ تمام بازار نے اس کی گواہی دی اور چڑے پر لعن طعن کی بارش کر دی۔ تمام تر اخلاقی قوت اور عزم کے باوجود چڑے کے پاس اتنی طاقت نہیں تھی کہ ہجوم پر غالب آ جاتا وہ منتوں پر اتر آیا، الو کے پاؤں پڑ گیا، اس سے معافی طلب کی اور کہا کہ اس کی دلہن جو اس کی عزت تھی واپس کر دے‘ وہ دوبارہ اس بد نصیب جگہ کا رخ نہیں کرے گا۔ الو نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا کہ چڑے کی طرح وہ بھی انصاف کا طلب گار ہے۔ باہمی فیصلہ کرنے کے بجائے اس مقدمے کو عالی مرتب بادشاہ جنگل عزت ماب ببر شیر کے پاس لیے چلتے ہیں۔ وہ ہم سب کا حکمران ہے۔ اس کے پاس قدرت بھی ہے اور طاقت بھی۔ اس سے بڑھ کہ عقل مند مشیروں کا پورا قبیلہ ہے۔ جو اپنی دانش مندی سے بادشاہ سلامت کی انصاف پسندی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ چڑے نے پہلے احتجاج کیا کہ یہ مقدمہ ہے ہی نہیں معاملہ واضح ہے، الو غاصب اور وہ خود مظلوم ہے۔ مگر حالات کی سنگینی جانتے ہوئے الو کی بات مان کر دربارکی طرف روانہ ہو گئے۔
وہاں پر اپنے تمام جاہ و جلال کے ساتھ ببر شیر محترم تخت پر براجمان تھا۔ دونوں کی بپتا سننے کے بعد ایک گہری سوچ میں مبتلا ہو گیا۔ جنگل کے کیلنڈر کے مطابق چھ ماہ سوچتا ہی رہا۔ اسی دوران تمام درباری اور مشیران ہاتھ باندھے خود بھی مراقبے میں موجود رہے۔ چھ ماہ بعد یک دم ایک جھر جھری لیتے ہوئے ببر شیر نے نظر اٹھا لی اور کہا کہ یہ معاملہ بڑا پیچیدہ ہے اس پر دو کمیٹیاں بننی چاہئیں۔ تمام درباریوں نے ببرشیر کی فراست کے قصیدے پڑھنے شروع کر دیے ہر طرف واہ واہ ہو گئی۔ اس تباہ حال خطے میں خوشی کے یہ مناظر دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ کمیٹیاں بننے کے بعد تحقیقات کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ممبران حد سے زیادہ متحرک ہو گئے ۔ ناشتے سے لے کر رات کے کھانے تک بند کمروں میںلمبی نشستیں کرنے کے بعد وہ ببر شیر کے محل سے نمودار ہوتے اور روزانہ کی تحقیق کے نتائج بیان کرتے۔ ہد ہد ان کے پیغامات کو اپنے سر اور چونچ کی نوکوں کو روشنائی میں ڈبوتے ہوئے تحریر ترتیب دیتے جو تمام جنگل میں پھیلا دی جاتی۔ اس انتظام کی وجہ سے کیا اونٹ اور کیا چیونٹی سب چڑے اور الو کے مقدمے میں گہری دلچسپی رکھنے لگے۔ ہر کسی کے ذہن میں ایک ہی سوال تھا کہ کل کمیٹیاں کیا کریں گی اس مسئلے کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ کئی ہفتے اسی شش و پنج میں گزر گئے۔ خدا خدا کر کے کیمیٹیوں نے اپنا کام مکمل کیا۔ بادشاہ سلامت کے سامنے اپنی گزارشات پیش کیں۔ ان گزارشات اور تحقیقاتی نتائج کو پڑھنے کے بعد بادشاہ سلامت نے فیصلہ صادر کیا کہ اس معاملے پر انتہائی سوچ و بچار کے بعد اور تفصیل میں جاننے کے بعد انھوں نے ایک اور کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بیان سنتے ہی تمام درباری خوشی سے ناچنے لگے۔
ہد ہدوں نے پھر سے لمبی لمبی تحریریں لکھیں اور عالی مرتب کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہوئے ہر طرف منادی کرا دی کہ انصاف ہو تو ایسا ہو ورنہ نہ ہو۔ چڑا اور چڑیا ایک اور کمیٹی کا سنتے ہی چکرا کر زمین پر گر گئے۔ الو کا منہ خوشی سے پھول کر مزید بڑا ہو گیا مگر چونکہ وہ اپنے دل میں ہمدردی کے جذبات رکھتا تھا اس نے بادشاہ سلامت کے سامنے دربار سے چند لمحے کی غیر حاضری کی اجازت طلب کی اور چڑیا اور چڑے کے ہاتھ پکڑ کر خوبصورت محل سے باہر اجاڑ اور بیابان سر زمین کے بیچ میں چلا گیا۔ چڑے کے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ چڑیا نیم بے ہوش تھی الو نے دونوں کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور ان سے یوں مخاطب ہوا کہ میں نے ’’تم دونوں کی خواہش کو اپنے طریقے سے پورا کیا ہے۔ تم اس سوال کے جواب کے لیے ہر طرف مارے مارے پھر رہے تھے کہ تمہارے وطن میں پھیلی ہوئی ابتری کی کیا وجہ ہے۔ کوئی تمہیں خونخوار ہمسائیوں کا قصہ سناتا، کوئی قدرت کے امتحان کا ذکر کرتا، اور کوئی تمہارے آباؤ اجداد کی غلطیاں گنواتا تھا۔
کوئی تمہیں مورد الزام ٹھہراتا تھا اور یہ کہتا تھا کہ تم نے اس کے جگہ کے حالات اپنے ہاتھ میں رکھے ہوتے تو آج مسلسل ماتم نہ دیکھنے کو ملتا۔ مگر تم دونوں اس وضاحتوں سے مطمئن نہیں لگ رہے تھے اور سچ کی تلاش میں تھے۔ اسی جستجو کو دیکھتے ہوئے میں تمہیں سچ تک لے گیا۔ تم نے بادشاہ سلامت کی دانش مندی کو قریب سے دیکھا ۔ ان کے مشیران کی حکمت عملی کی گہرائی کا اندازہ کر لیا۔ بینائی سے عاری ہد ہدوں کی صلاحیتوں کو پرکھ لیا۔ غرض یہ کہ تم نے جان لیا کہ یہاں پر فیصلے کیسے ہوتے ہیں اور کون کرتا ہے۔ اس حسین سر زمین کے خوابوں کو عذابوں میں تبدیل کرنے والے یہاں کے حکمران ہیں۔ طول و عرض میں پھیلی ہوئی نحوست اور بیماری ان اقدامات کا نتیجہ ہے جو یہ سب کرتے ہیں۔ اور پھر جو یہ کرتے ہیں مگر جس کے نتائج ہم سب بھگتتے ہیں‘‘۔ یہ سن کر چڑا الو کی عقل مندی کا معتر ف ہو گیا اور اس کے ساتھ وعدہ کر کے چڑیا کے ساتھ اڑ گیا کہ ان کے ہاں پہلا بچہ ہوا تو اس کا نام الو کا پٹھا رکھا جائے گا ۔
↧
↧
کرکٹ کے میدان سے ایک چنگاری
شاید ہم بھول گئے ہوں کہ1857ء کی جنگ آزادی برصغیر کے جس شہر سے شروع ہوئی تھی‘ اس کا نام میرٹھ تھا۔ یہاں وہ چنگاری چٹخی تھی جو سرّبقاء ہے۔ اس شہر کے بارے میں میرے بعض خوبصورت تاثرات ہیں۔ ہمارے سلیم (احمد) بھائی‘ ان کے استاد حسن عسکری اور کرار حسین وہیں کے تھے اور انتظار حسین بھی تو اسی شہر کی مٹی ہیں‘ مگر آج اس شہر نے جو صدمہ دیا ہے‘ اس نے مجھے ہلاکر رکھ دیا ہے۔ خیال تھا کہ اس سے بہتوں کی انکھیں بھی کھل جائیں گی‘ مگر لگتا ہے ہم بے حس ہو چکے ہیں۔ معلوم ہے کہ وہاں کیا سانحہ ہوا ہے۔
میرا ارادہ کرکٹ پرفی الحال لکھنے کا نہیں تھا۔ ڈر تھا کہ کہیں یہ اور پہلے والی جیت نجم سیٹھی کے کھاتے میں نہ ڈال دی جائے۔ ویسے بنگلہ دیش سے ہمارا وہ معاملہ نہیں جو بھارت سے ہے‘ یہ کوئی محبت اور نفرت کی بات نہیں‘ کھیل میں ہوتا یہ ہے کہ ہمارے اندر چھپا ہوا انسان باہر آجاتا ہے۔ جب مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا تھا تو چند ہی برس بعد ڈھاکا کے سٹیدیم میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ہاکی میچ ہوا تھا۔ پوری دنیا دنگ رہ گئی کہ چند ہی برس پہلے بھارت کی مدد سے پاکستان سے الگ ہونے والی قوم پاکستان کو اس طرح داد دے رہی ہے کہ بھارتیوں کو بعد میں کہنا پڑا‘ ہمیں تو یہ لگتا تھا کہ پاکستانی ہوم گرائونڈ میں کھیل رہے ہیں۔
بنگلہ دیشیوں کا اندر کا انسان باہر آگیا تھا۔پوری دنیا ششدر رہ گئی تھی۔ پھر یہاں بھارت کے ساتھ کرکٹ کا میچ ہوا تو یہی منظر دیکھنے میں آیا۔ اس بار بھی یہی ہوا کہ پاک بھارت میچ میں وہاں حاضرین کی ہمدردیاں اس طرح پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ تھیں جیسے پاکستان انہی کی ٹیم ہو۔ البتہ ہم یہ توقع نہیں رکھتے کہ پاکستان کا بنگلہ دیش سے مقابلہ ہو‘ تو وہ پاکستان کا ساتھ دیں۔ افسوس یہ مقابلہ ہوا تو بنگلہ دیشی پہلی بار اس ٹورنامنٹ میں اچھا کھیلے۔ ایسے اچھا کھیلے کہ اپنے سب ریکارڈ توڑ دیئے اور پاکستان کو بھی جیت کے لئے ایسا ٹارگٹ دیا کہ جسے حاصل کر لیا جائے تو یہ خود ایک ریکارڈ ہوگا۔ پاکستان نے یہ ریکارڈ ساز فتح حاصل کر لی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش کا میچ بھی ایک جذباتی ڈراما بن گیا تھا۔ وگرنہ بنگلہ دیش سے ہار جیت کبھی ہمارا جذباتی مسئلہ نہیں رہا۔ برا ہو سیاست کا کہ جب پہلی بار پاکستان بنگلہ دیش سے ہارا تو کہا گیا کہ ایسا پاکستان نے دانستہ بنگلہ دیش کو ٹیسٹ سٹیٹس دلانے کے لئے کیا ہے۔ ان دنوں بھی ڈھاکا میں حسینہ واجد کی حکومت تھی‘ اس نے اگلے روز بنگلہ دیش میں عام چھٹی کر دی اور ایسے الفاظ سنے کہ پوری پاکستانی قوم کا دل منہ کو آگیا۔ اب بھی وہی حسینہ واجد‘ زیادہ کروفرکے ساتھ اور زیادہ ظلم و زیادتی کے ساتھ برسراقتدار ہے۔ اس نے کرکٹ کو بھی سیاست بنا رکھا ہے‘ ڈر تھا کہ اگر وہ جیت گئے‘ تو اس کا وہ ایسا سیاسی جشن منائے گی کہ بھارت بھی اپنی شکست کا زخم بھول جائے گا۔
اس لئے اس فتح کی ایک اور طرح کی خوشی بھی ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ ہم نے اس طرح میچ جیتا ہو‘ مگر اس کی بات ہی اور ہے۔ ناقابل یقین سی جیت دکھائی دیتی ہے۔
میں نے جس بات سے آغاز کیا تھا‘ اس کی تلخی کم کرنے کے لئے شاید ذہن دوسری طرف نکل گیا ہے۔ یہ اتنا ہولناک واقعہ ہے کہ دل دہل کر رہ جاتا ہے۔ افسوس اس پر اپنا ضمیر خاموش ہے۔ یہ واقعہ اسی میرٹھ شہر میں پیش آیا جہاں67 کشمیری طلبہ یونیورسٹی ہاسٹل میں باقی طلبہ کے ساتھ میچ دیکھ رہے تھے۔ بھارت ہار گیا‘ پاکستان جیت گیا۔ اس پر وہاں بیٹھے ان طلبہ نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا دیئے۔ بس پھر کیا تھا‘ فوراً پولیس کو بلا کر انہیں ہاسٹل سے نکال دیا گیا‘ بعد میں وائس چانسلر نے انہیں یونیورسٹی سے بھی یہ کہہ کر خارج کر دیا یہ غدار اب پاکستان جا کر تعلیم حاصل کریں۔
ایک زمانہ تھا بھارت کا عام مسلمان بھی ایسے جذبات رکھتا تھا۔ اب اسے ایسا دبا دیا گیا ہے کہ وہ بیچارہ بولتا بھی نہیں۔ صرف یہی نہیں ادھر مقبوضہ کشمیر میں بھی ایک نوجوان نے اس میچ کا نتیجہ سننے پر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تو اسے بھارتی فوجیوں نے ذبح کر ڈالا۔ میں تو حیران ہوں کہ میرٹھ سے دوسری تحریک آزادی کیوں شروع نہیں ہوگئی۔ یہی تو وہ شے ہے جہاں وہ چنگاری چٹخی تھی جو سرّبقا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ کام کسی ایرے غیرے یا غنڈے‘ شودے نے نہیں کیا۔ پڑھے لکھے طبقے سے سر زد ہوا ۔ دوسرا سانحہ بھارت کی مسلح افواج کے جوانوں کا ردعمل ہے۔
دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارا دانشور اس کا تذکرہ یوں کرتا ہے جیسے کوئی معمولی بات ہو۔ کہتا ہے آزادی پورے برصغیر کے لئے صدمات لے کر آئی۔ گویا یہ سب آزادی کا شاخسانہ ہے‘ تقسیم ہند کا کیا دھرا ہے۔ اس سوچ پر ماتم نہ کیا جائے تو اور کیا کیا جائے۔ یہ ایسی ہی عقل کی چاند ماری ہے جیسے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی پر یہ لوگ تان اس پر توڑتے ہیں کہ سب قرار داد مقاصد کا نتیجہ ہے۔ نہ وہ قرارداد پاس ہوتی‘ نہ یہاں اسلام کا چرچا ہوتا۔ نہ مولوی کو اتنی طاقت ملتی اور نہ طالبان پیدا ہوتے۔ ہے نا یہی طریق استدلال۔ ذرا ایک لمحے کے لئے غور کرکے بتائیے کہ اس پس منظر میں یہ بات کرنا کھلی غداری نہیں ہے۔ بھارتی ذہنیت سے کام لیا جائے تو ان لوگوں کو یہ مشورہ نہیں دینا چاہئے کہ جائو بھارت چلے جائو۔ وہاں تمہارے نظریات کو بھی پذیرائی ملے گی اور تمہارے اسلوب حیات کے لئے تمام دروازے کھلے ہوں گے۔ یہ انتہائی شقی القلبی کی بات ہے کہ آدمی اس موقع پر حب الوطنی سے تہی ہو تو کم از کم حق و انصاف کی تو بات کر دے۔ کون اعتبار کرے گا آپ کی باقی باتوں کا۔ سیاست پر آپ کے تجزیئے بھی تو پھر اسی نظر سے دیکھنا ہوں گے۔
سیاسی تجزیوں کی بات آگئی تو ویسے ہی ہوتے ہیںجیسا وہ کرکٹ پر کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں رچرڈ‘ لارا‘ اظہر الدین سب ٹھیک‘ مگر کرکٹ میں کوئی کھلاڑی شاہد آفریدی سے بہتر نظر نہیں آتا۔ یہ وہ موقع نہیں کہ میں اس پر تبصرہ کروں‘ اس وقت تو آفریدی ہمارا ہیرو ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دوسرا آفریدی کوئی ہے نہیں‘ مگر جوش میں ہوش کا دامن تو ہاتھ سے نہ چھوٹے۔
میں نے پھر کوشش کی ہے کہ کشمیریوں کے ساتھ پیش آنے والے اس سانحے کی تلخی کم کرکے بیان کروں‘ یہ میں نے کچھ اچھا بھی نہیں کیا۔ کم از کم سمجھ دار لوگ تو اس کا احساس کریں اور صحیح صحیح بتائیں کہ ہندوستان میں تعصب کی آگ کس قدر شدید ہے۔ ہم جو بار بار انڈیا کی وسیع القلبی کے گن گاتے اور خود پر تبریٰ بھیجتے رہتے ہیں‘ ہمیں اندازہ ہونا چاہئے کہ یہ نفرت بھارت کے خمیر میں ایسی گندھی ہوئی ہے کہ اسے آسانی سے نکالا نہیں جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ کشمیریوں کے دلوں میں دہکنے والی آزادی کی یہ آتش چنار سرد نہیں کی جا سکتی ۔
آخر عالمی ضمیر کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی کہ کشمیر بھارتیوں کا ہے نہ ہو سکتا ہے۔
اور ہمارے لال بجھکڑ بھی کیوں نہیں سمجھتے کہ ایسا نہیں کہ ہم ہی برے ہیں اور دوسرے پوتر ہیں۔
چلتے چلتے‘ ایک بات اور۔ وہ یہ کہ آج کل ہمارے اکثر دوستوں کے سر پر بنگلہ دیش کی محبت کا بھوت سوار ہے۔ یقینا وہ ہمارے بھائی ہیں‘ ہمیں آج بھی دل و جان سے عزیز ہیں‘ مگر بنگلہ دیش کا مقدمہ ایسے نہ لڑو کہ یہ حسینہ واجد کا مقدمہ بن جائے۔ کئی بار قوموں پر غلط قیادت مسلط ہوجاتی ہے اور یہ تاریخ کا جبر ہوتا ہے۔ یہ تو تاریخ ہی کا جبر نہیں‘ سامراج کا جبر بھی ہے۔ کچھ سمجھو نا۔
سجاد میر
بشکریہ روزنامہ 'نئی بات '
↧
"صحراتھرکی پیاس ! "
مئی کی تپتی دھوپ میں صحرا کے سفر کے دوران جب ہمارے ڈرائیور نے ایک
ٹیلے کی چوٹی سے اترتے ہی جیپ کو بریک لگائی تو میں نے پوچھا کیا ہوا؟ وہ بولا ادھر دیکھیں ایک شخص ہماری جانب آنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے وہ شخص زمین پر گر گیا۔ ڈرائیور بولا یہ پیاس سے مرنے کو ہے۔اس نے جیپ سے واٹر کولر نکالااور ہم سب اس کی طرف روانہ ہوئے ۔ وہ شخص زمین پر دراز تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ ڈرائیور نے واٹر کولر اس کے منہ کے قریب لا کر ٹونٹی کو تھوڑا سا کھولا پانی کا پہلا قطرہ جب اس کے ہونٹوں کو چھواتو اس نے بمشکل زبان نکال کر قطرے کی نمی کو چھونے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی اس کی پلکوں میں بھی ہلکی سے حرکت ہوئی ، میں نے ڈرائیور سے کہا جلدی سے پانی اس کے منہ میں ڈالیں، وہ بولا ایک دم پانی پلانا اس کے لیے خطر ناک ہو گا ، ایسی صورتحال میں قطرہ قطرہ پانی ہی دینا بہتر ہے۔ ڈرائیور قطرہ قطرہ پانی اس کے منہ میں ڈالتا رہا۔اس کی خشک زبان اور ہونٹ نرم تر ہوتے رہے۔ آخر اس نے آنکھیں کھول دیں۔
میں نے اس طرح زندگی لوٹنے اور "پیاس کی آس"کا یہ منظر پہلی بار دیکھا۔ یہ لمحہ پانی کے حوالے سے ـ"رحمت رب جلیل"کی ایک تفسیر تھا۔ ہم پینے کی میٹھے پانی کو کس طرح ضائع کرتے ہیں اور صحراکے باسی اپنی پیاس بجھانے کا پانی حاصل کرنے کے لیے میلوں کا سفر کرتے ہیں۔ ہوش میں آنے کے بعد اس شخص نے بتایا کہ وہ"گلہ بان"ہے گزشتہ ہفتے جب وہ بھیڑ بکریوں کا ریوڑ ادھر لایا تو قریبی "ٹوبے" (بارش کا پانی کا ذخیرہ) میں کافی پانی تھا۔ لیکن ہفتہ بھر کی تیز دھوپ نے اسے خشک کر دیا ۔ میں آج جب یہاں پہنچا تو میرے پاس پینے کا پانی ختم ہو چکا تھا اور قریب و جوار میں کوئی ٹوبہ بھی نہ تھا۔واپس جانے کی سکت نہ تھی، آپ کی گاڑی دیکھ کر دور سے اس کی جانب بھاگا تو پیاس کی وجہ سے ہمت جواب دے گئی اور گر گیا۔اللہ بھلا کرے آپ نے مجھے دیکھ لیا ورنہ ریت کے ٹیلے کی اوٹ میں اگر آپ کی نظر نہ پڑتی تو میں لقمہ اجل بن جاتا۔ اس واقعے نے مجھے ہلاکر رکھ دیا۔
ایک نیوز رپورٹر کے طور پر یہ منظر میرے ذہن پر ایسا نقش ہو ا ہے کہ بھلائے نہیں بھولتا۔صحرائے تھر میں قحط سالی اور ٹیلی ویژن پر انسانی جسم کے پنجر دیکھ کر تین دہائی قبل کے اس واقعے نے میں ایک بار پھر جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔مجھے ٹیلی ویژن رپورٹر کی حیثیت سے زندگی کے بڑے اونچ نیچ دیکھنے کو ملے ہیں۔ قدرت نے پاکستان کو چاروں موسم،میٹھے پانی کے دریا، پہاڑ، زرخیز زمین اور معدنی دولت سے مالا مال سر زمین عطا کی ہے۔ تھر کا یہ علاقہ جہاں لوگ پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں وہاں زیر زمین کوئلے کے معدنی ذخائر کے انبار لگے ہیں ۔ ہم نہ تو زیر زمین اس ذخیرے سے فائدہ اٹھا سکے اور نہ ہی تھر کے باسیوں کی جن کی تعداد بمشکل دو لاکھ بھی نہیں، انہیں پینے کے پانی کی فراہمی کا اہتمام کر سکے۔
حکومت تھر اور سندھ کے کلچر کو نمایاں کرنے پر ارب ہا روپے(ایک اندازے کے مطابق 6ارب روپے) خرچ کر کے ناچ گانے کا اہتمام کرتی ہے لیکن چند کروڑ روپوں کے منصوبے شروع کرکے تھر کے عوام کو پانی فراہم نہیں کر سکتی یا قحط اور خشک سالی کے ایام میں انہیں متبادل "IDPs"یعنی اندرونی مہاجر بنا کر چند ماہ کے لیے خوراک کا انتظام کرنے سے قاصر ہے۔ یہ کیسی حکومت ہے ؟ کیا پیپلز پارٹی جن کے قائد کا نعرہ روٹی ، کپڑا اور مکان تھا، وہ اپنے سندھ کے غریب ہاریوں کے لیے کپڑا اور مکان تو دور کی بات ، ان کے لیے پانی اور روٹی کا انتظام کرنے سے بھی قاصر ہے۔ یہ مجرمانہ غفلت قابل معانی نہیں۔ پیپلز پارٹی کے انہی حکمرانوں کو پانچ سال وفاق میں مقتدر رہنے کے بعد عوام نے صرف ایک صوبے تک محدود کر دیا۔کیا انہیں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ سندھ کے ان غریب عوام کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کم از کم ایک اجلاس ہی بلا لیتے۔این ڈی ایم اے نے حکومت سندھ کو دو ماہ قبل وارننگ دی تھی کہ اس بار تھر میں بارشیں کم ہونے کی بناء پر خشک سالی کا خطرہ ہے اس لیے پیش بندی کر لی جائے، لیکن "جوں تک نہیں رینگی"بلکہ پیپلز پارٹی اور حکومت سندھ کی قیادت اس عرصے میں "سندھی ثقافت"کے نام پر جو کچھ کرتی رہی وہ ٹی وی ناظرین سے چھپا ہوا نہیں۔تھر کا معاملہ تو بڑی دور کی بات ہے سندھ میں ان کی حکومت کے دوران بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے مزار کے زیر یں کمرے میں جو"حرکات"تسلسل سے ہوتی رہی ہیں اور ٹی وی چینلز نے اس کے دستاویزی ثبوت بھی عوام کے سامنے پیش کئے ہیں اس کے بعد کہنے کو کیا رہ گیا ہے۔
مجموعی طور پر پاکستان سال ہا سال سے بیڈ گورننس کا شکار ہے لیکن سندھ کی حد تک تو ان واقعات نے حکومتی مجرمانہ غفلت اور بے حسی کو طشت از بام کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے جس طرح تھر کے واقعے کا سوو موٹو نوٹس لیا ہے اس طرح مزار قائد کے واقعے پر بھی نوٹس ایک قومی تقاضہ ہے۔صحرائے تھر کی دل ہلا دینے والی خبروں نے کیا ہمارے قومی احساس کو جھنجوڑا ہے یا پھر یہ بھی خبروں کے انبار میں ایک اور ایسی خبرہے جس میں درجنوں ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہونے کا بیان ہے۔اس واقعے کی ذمہ داری بھی ماضی کی طرح ایک دوسرے پر ڈالی جا رہی ہے۔ امدادی کاموں کے اعلانات او ر فوٹو سیشن کی تیاریاں ہو رہی ہیں لیکن کوئی نہیں جو ترجیحاً صحرا کے ان باسیوں کی زندگی کو تبدیل کرنے کی سنجیدہ منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہو۔
تھر کے متاثرہ عوام کے لیے وفاقی اور پنجاب کی حکومت نے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے وہ تو ایک فریضہ ہیں لیکن بحریہ ٹائون کے ملک ریاض نے ذاتی حیثیت میں 20کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کر کے ایک کارخیر کیا ہے۔ دوسرے مخیر حضرات کو بھی اس جانب توجہ دینی چاہئیے۔اسی طرح این جی اوز، سیاسی جماعتوں اور میڈیا کو بھی تھر کو فوکس کرنا چاہیے۔یہ ایک قومی المیہ ہے۔ تھر کی صورت حال ایک رات میں پیدا نہیں ہوئی۔توانائی کا بحران اور دہشت گردی بھی راتوں رات سامنے سامنے نہیں آئی۔ ان سب کی وجہ ہماری حکومتوں کی سمت اور ترجیحات کا درست نہ ہونا ہے ۔ہمارا معاشرہ، معاشی، سیاسی، سیکورٹی اور اخلاقی اعتبار سے شدید انحطاط کا شکار ہے۔ حکومتوں کو صحیح سمت پر رکھنے کا ایک صرف اورصرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے کہ متحرک سول سوسائٹی۔ سول سوسائٹی کو چاہئیے کہ وہ عدلیہ اور میڈیا پر اپنا دبائو بڑھائے۔ میڈیا نشاندہی کرتا رہے اور عدلیہ انصاف کا ترازو پکڑے رکھے تب ہی سمت درست ہو گی۔ تازہ مثال اسلام آباد کچہری میں ہونے والی دہشت گرد کارروائی ہے جہاں پولیس حکام سے پہلے میڈیا پہنچ گیا اور تھر کی صورتحال بھی میڈیا ہی سامنے لایا ورنہ سندھ کی حکومت تو اپنے وسائل اور صلاحیتیں صرف اور صرف بلاول کو مستقبل کا وزیر اعظم بنانے کی تربیت میں صرف کر رہی تھی۔
وفاقی حکومت کو یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ بجلی اور گیس کے بحران میں ڈوبی قوم کو دس سال بعد پانی کے بحران کا سامنا ہوگا۔اس کے لیے پیش بندی کی ضرورت آج ہے، ورنہ دہشت گردی اور توانائی کے بحران کو حل کرنے کی طرح پانی کے مسئلے کو حل کرنے کا سرا بھی آئندہ حکومتوں کے ہاتھ سے نکل جائے گا ۔
Thar Drought
↧
Drought in Thar : Who is Responsible?
↧
More Pages to Explore .....