Quantcast
Channel: All About Pakistan
Viewing all 4314 articles
Browse latest View live

پاکستان پاکستان سماجی شعبوں میں پسماندہ افریقی ممالک کے برابر

0
0

اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی جاری ہونے والی حالیہ رپورٹس کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں تعلیم، صحت، انصاف تک رسائی، خواتین و انسانی حقوق کے علاوہ دیگر سماجی شعبوں سے متعلق صورتحال بہت پریشان کن ہے۔
سرکاری و اقوام متحدہ کے عہدیدار بڑے واضح انداز میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان آئندہ سال تک سماجی ترقی سے متعلق کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کر پائے گا۔ جس کی وجوہات ان کے بقول ملک میں سلامتی کی صورتحال اور قدرتی آفات کے علاوہ حکومتی سطح پر عدم دلچسپی اور فعال پالیسی کا فقدان ہیں۔
عدالت عظمیٰ کو حال ہی میں پیش کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں 2000 سے زائد سرکاری اسکولوں کا وجود یا تو صرف کاغذوں تک محدود ہے یا پھر ان کی عمارتوں پر مقامی با اثر افراد یا کسی دوسرے سرکاری محکمے کا قبضہ ہے جبکہ تقریباً اڑھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کی 18 کروڑ آبادی کا نصف سے زائد غذائی قلت کا شکار ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومتوں نے ہمیشہ صرف انفراسٹکچر (بنیادی ڈھانچہ) بہتر بنانے پر سرمایہ کاری کی۔
’’نالج ریوولوشن کے دور میں انسان ہی ترقی کا ذریعہ ہے اور جس ملک میں تعلیم و صحت کی سطح بہت پسماندہ ہو اور وہاں آبادی کا دباؤ بڑھ رہا ہو تو آپ کے کتنے بھی خوبصورت منصوبے ہوں نتائج نہیں دے سکیں گے۔‘‘
انہوں نے افسوس کا بھی اظہار کیا کہ متوسط آمدن والا ملک ہونے کے باوجود پاکستان کے ’’سوشل انڈیکیٹرز‘‘ افریقہ کے ’’کم ترین ترقی‘‘ والے ممالک کے برابر ہیں۔
تاہم وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ایک پانچ سالہ منصوبہ بنایا جارہا ہے جس میں سماجی ترقی کو سب سے زیادہ ترجیح دی جائے گی۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق خواتین پر تشدد، بچوں کے حقوق کی پامالی، جبری گمشدگیاں، غیر قانونی روایتی انصاف کا نظام (جرگہ، پنچائیت)، آزادی رائے اور مذہبی آزادی کے خلاف کارروائیوں میں کوئی خاطر خواہ کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
سپریم کورٹ کے انسانی حقوق کے سیل کے سربراہ خالد ٹیپو رانا کہتے ہیں کہ گزشتہ چار سال میں تقریباً دو لاکھ درخواستوں کو نمٹایا گیا ہے۔
’’درخواست کی وصولی کے 24 گھنٹوں کے اندر اندر ہم تو اس پر کام شروع کردیتے ہیں اور ایک ہفتے میں متعلقہ محکموں سے رپورٹس طلب کرلی جاتی ہیں۔‘‘
تاہم سپریم کورٹ کے سینئیر وکیل اطہر من اللہ کہتے ہیں کہ انسانی حقوق سے متعلق سیل کے قیام کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔
’’یہ عدالتوں کا کام نہیں کہ وہ اپنے سیلز رکھے۔ جب لوگوں کی توقعات بہت بڑھ جاتی ہیں اور ہر درخواست پر اگر ہر ایک چاہتا ہے کہ اسے ریلیف ملے گا تو ہر ایک میں تو نہیں مل سکتا تو عدالتوں کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘
ملک میں بڑھتی ہوئے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے پیش نظر اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو درپیش خطرات اور ان کے حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق سپریم کورٹ میں درخواستیں بھی زیر سماعت ہیں۔
سابق وفاقی وزیر جے سالک کا کہنا تھا کہ ’’کہیں زبانوں میں تقسیم کردیا تو کہیں ذاتوں میں تقسیم کردیا، کہیں ہمیں اقلیتوں و اکثریتوں میں تقسیم کردیا گیا۔ تو قومی سوچ پیدا کرنے کے لیے ایک ادارہ ہونا چاہیے۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف اقتصادی ترقی ہی سے پاکستان میں خوشحالی ممکن نہیں بلکہ حکومت کو سماجی ترقی کو اپنی ترجیحات میں اہم مقام دینا ہوگا۔ پاکستان اس وقت تعلیم اور صحت پر مجموعی طور پر قومی پیداوار کا چار فیصد سے بھی کم خرچ کرتا ہے۔

Enhanced by Zemanta

سر زمین حرمین شریفین پر جان و دل قربان.........Pakistan and Saudi Arabia Relations

0
0


یہ ایک جانفزا منظر نامہ ہے۔ ایک معزز سعودی مہمان جاتا ہے اور دوسرا تشریف لے آتا ہے، میں اسے رحمتوں کی پھوار سمجھتا ہوں۔ سعودی حکمران صرف پاکستان کے قلبی دوست ہی نہیں، حرمین شریفین کے خادم ہونے کی سعادت بھی اللہ نے انہیں عطا کر رکھی ہے، یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔
ولی عہد شہزادہ سلیمان کی آمد تو حد درجہ اہمیت کی حامل تھی۔ پاکستان نے انہیں خوش آمدید کہا، وزیر اعظم نے ہر قسم کے پروٹوکول کو بالائے طاق رکھا اور بنفس نفیس ان کا ایئر پورٹ پر استقبال کیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کی نظر میں سعودی مہمان گرامی کی قدرو منزلت کیا تھی لیکن سعودیہ کے اصل احسانات پاکستان پر ہیں، اس نے ہر آڑے وقت میں ہماری مدد کی۔ شاہ فیصل شہید نے تو بادشاہی مسجد کو اپنے آنسووں سے تر کر دیا تھا اور امت مسلمہ خاص طور پر کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لئے انہوں نے گڑ گڑا کر دعائیں مانگیں۔ پینسٹھ اور اکہتر میں پاکستان کو بھارتی جارحیت کا نشانہ بننا پڑا مگر سعودیہ نے ہمارے لئے دامن دل وا کر دیا۔ ملک کے دفاع کو مستحکم اور فول پروف بنانے کے لئے ہم نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تو یہ سعودی عرب تھا جس نے دامے درمے سخنے ہماری مدد کا حق ادا کر دیا۔
عالمی میڈیا کہتا ہے کہ سعودیہ کو پاک فوج کی ضرورت ہے، مجھے اس دعوے کی حقیقت کا اندازہ نہین لیکن اگر ہمیں اپنی ساری فوج بھی سعودیہ میں ایئر ڈراپ کرنی پڑے تو اس میں ذرا بھی حیل و حجت سے کام نہیں لینا چاہئے، خدا نخواستہ ہم نہ بھی ہوں اور حرمین شریفین محفوظ و مامون ہوں تو اس کے لئے یہ کوئی بھاری قیمت نہیں، یہ سعودی سرزمین تھی جہاں سے نور کی کرنیں پھوٹی تھیں اور ان سے ساری دنیا بقعہ نور بن کر جگمگا اٹھی تھی، لہلہا اٹھی تھی۔
کہتے ہیں ہماری پچھلی حکومت سعودی فرمانروا کے ساتھ قربت برقرار نہ رکھ سکی، ہو سکتا ہے اس میں کوئی تساہل ہو گیا ہو، مگر ملکوں کے تعلقات حکومتوں کے مابین نہیں،عوام اور عوام کے مابین ہوتے ہیں اور ان میں سرد مہری کی کیفیت پیدا ہو بھی جائے تو محبت کی گدگدی دلوں میں یکبارگی بجلیاں دوڑا دیتی ہے، ویسے بھی جب تک اسلام آباد میں سعودی سفیر محترم موجود ہیں، فکر کرنے کی ضرورت نہیں، وہ ایک شفیق دوست اور بڑے بھائی کے طور پر سارے فاصلوں کو سمیٹ لیتے ہیں۔ بعض اوقات تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ سعودیہ کے نہیں، پاکستان کے سفیر ہیں کیونکہ انہیں ہمارے مفادات اور مسائل کی ہم سے زیادہ فکر ہوتی ہے، دو ہزار پانچ میں زلزلے نے تباہی مچائی، سعودی سفیر نے کہا کہ وہ نیا بالا کوٹ بساکر دیں گے۔ بعد میں دو مرتبہ ہولناک سیلاب نے قیامت برپا کی، سعودی سفیر بذات خود مصیبت زدگان تک پہنچے اور انکی دستگیری میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑا۔
میں سعودی مہمانوں کی آمدو رفت کو جنرل مشرف کے مقدمے کے ساتھ جوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ ہمارے میڈیا نے بے پر کی اڑائی کہ مشرف اڑنچھو ہو جائیں گے مگر سب نے دیکھا کہ مشرف یہیں ہیں اور عدالتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ اور اگر بالفرض اس کیس میں سعودی عرب کوئی ثالثی کرتا بھی ہے تو ہمیں اس مداخلت کو اپنے گھر کی اصلاح اور بہتری کے لئے خوش آمدید کہنا چاہئے۔میں نہیں سجھتا کہ سعودیہ کوئی ایسا قدم اٹھائے گا جو پاکستان اور اس کے عوام کے لئے ناگوار ہو۔
اسلامی کانفرنس کا پلیٹ فارم ہو یا اقوم امتحدہ کا ادارہ ہو، پاکستان اور سعودی عرب نے ہمیشہ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی کوشش کی ہے، اس وقت امریکہ کی کوشش ہے کہ سعودیہ کے اثرو رسوخ کو کم کردیا جائے،اس پر ایران کو مقدم سمجھا جا رہا ہے، اصولی طور پر امریکہ کو ایران سے اچھے تعلقات استوا رکرنے کا حق حاصل ہے لیکن سعودی عرب کی قیمت پر ہر گز ایسا نہیں ہونا چاہئے اور ایران کا بھی فرض ہے کہ وہ امریکہ کی چالوں کو سمجھنے کی کوشش کرے اور اسلامی دنیا کے مرکز و منبع سعودی عرب کے مفاد کے خلاف امریکی دوستی کو جوتی کی نوک پہ رکھے۔ ایک اسلامی ملک ہونے کی حیثیت سے ہمارا مفاد مشترک ہے، بالا تر ہے۔
ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اسرائیل عالم عرب کے قلب میں ایک ناسور کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ گریٹر اسرائیل کے نقشے میں سعودی عرب کے مقامات مقدسہ کو شامل کیا گیا ہے، یہ ایک جارحانہ اور استعماری سوچ ہے، مدینہ منورہ پر تو صہیونی استعمار اپنا حق جتاتا ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں کون و مکان کی سب سے محترم ہستی محو استراحت ہیں، ان کے روضہ مبارک کے خلاف صہیونیوں نے ہمیشہ سازشیں جاری رکھیں، جن کو بر وقت ناکام بنا دیا گیا، ہمیں شہر نبی کی حفاظت کے لئے ہمہ وقت سینہ سپر رہنا چاہئے، اور اس کے لئے سعودی حکومت کو ہماری جس مدد کی ضرورت ہو، ہمیں کامل مستعدی اور خوشدلی سے فراہم کرنی چاہئے۔
ہمارا قبلہ اول اسرائیل کے قبضے میں ہے، فلسطینیوں کو یہاں سے بے دخل کر دیا گیا ہے، وہ پون صدی سے کیمپوں میں بھٹک رہے ہیں، مسلمانوں پر قبلہ اول کے دروازے بند ہیں، اپنی طرف سے تو امریکہ نے نئی صلیبی جنگ چھیڑ رکھی ہے، نائن الیون کے بعد جارج بش نے یہی کہا تھا ، اب ہمیں بھی جواب میں اپنی صف بندی کرنی چاہئے اور سعودی قیادت میں قبلہ اول کی آزادی اور فلسطینی ریاست کے قیام کی کامیاب کوشش کرنی چاہئے۔
پاکستان اور سعودیہ یک قالب و یک جان ہیں، ان کے مابین کوئی دوئی اور کوئی تفریق نہیں، ہمارے دکھ کو برادر سعودی عوام اپنا دکھ تصور کرتے ہیں تو ہمیں ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا چاہئے۔ علاقائی معاملات ہوں، یا بین الاسلامی مسائل یا عالمی سیاست کا دھارا، ہماری سوچ مشترک، ہمارا عمل مشترک، ہمارے فیصلے مشترک اور ہماری راہ عمل مشترک۔ خبردار! کوئی اس میں دراڑ نہ ڈالنے پائے۔ ہمارے جان و دل سرزمین حرمین شریفین پر نثار، ہزار بار!!

بشکریہ روزنامہ 'نوائے وقت '

Pakistan and Saudi Arabia Relations

Enhanced by Zemanta

Declining Trends of Foreign Direct Investment in Pakistan

0
0

پاکستان کو جی ایس پی اسٹیٹس ملنے کے آغاز پر یہ توقع کی جا رہی تھی کہ غیر ملکی سرمایہ کاری میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوجائے گا۔ لیکن اسی دوران ملک میں امن منافی واقعات میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ توانائی بحران ابھی تک ناقابل حل دکھائی دے رہا ہے بلکہ اس کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ چند دن قبل ہی پنجاب کی صنعتوں کے لیے گیس کی فراہمی معطل کردی گئی۔ اس کے ساتھ ہی حکومتی وزرا یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ حکومت ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ اور موجودہ حجم میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو توانائی، بنیادی ڈھانچوں کی فراہمی معیشت کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے ہر ممکن سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔

چند ہفتے قبل وزیراعظم کی ہدایت پر وزیر خزانہ کی زیر صدارت دبئی میں پاکستان بزنس فورم کے اجلاس کے دوران انٹرنیشنل بزنس اینڈ انویسٹمنٹ کونسل قائم کردی گئی۔ جس کا مقصد بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور فروغ کے لیے تاجروں، صنعتکاروں، سرمایہ کاروں اور پروفیشنلز کو مشترکہ پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے۔ کونسل کے زیر اہتمام ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر ملک کو معاشی خود انحصاری کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جا رہے ہیں اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر انھوں نے پاکستان کی اقتصادی و معاشی صورت حال پر بھی روشنی ڈالی اور شرکا کو پاکستان کے اقتصادی ایجنڈے اور معاشی وژن سے بھی آگاہ کیا۔

دوسری طرف حکومتی حلقوں اور بعض ماہرین کی جانب سے اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں مسلسل کمی واقع ہوتی چلی جا رہی ہے۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ اتنی کم سرمایہ کاری ماضی میں کبھی نہ تھی، کہ مسلسل گراوٹ دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق جولائی 2013 تا جنوری 2014 ان سات ماہ کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم ایک ارب گیارہ کروڑ 61 لاکھ ڈالر رہا۔ جب کہ اسی دوران براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا انخلا 59 کروڑ 31 لاکھ ڈالر رہا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری میں مسلسل کمی کو دیکھ کر ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا دنیا پاکستان کو ناکام ریاست سمجھ رہی ہے۔ پاکستان کے بارے میں صنعتی ممالک اپنے شہریوں کو وقتا ًفوقتا ًآگاہ کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا سفر کرنے سے گریز کی کوشش کی جائے۔ لہٰذا پاکستان کو اپنا امیج بہتر بنانے کی بھی فوری ضرورت ہے تاکہ بیرون ممالک سے تاجر صنعتکار پاکستان کا رخ کریں۔

اس وقت دنیا بھر کی حکومتوں کی کوشش ہے کہ وہ اپنے اپنے ملکوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری لے کر آئیں۔ امریکا جوکہ خود کو ایک سپر طاقت کہلواتا ہے اب اپنے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے مہم چلا رہا ہے۔ امریکا کی کوشش ہے کہ امریکا میں غیر ملکی سرمایہ کار ان شعبوں میں سرمایہ کاری کریں جس سے پیداوار میں بھی اضافہ ہو، اس کے ساتھ ہی لوگوں کے روزگار میں بھی اضافہ ہو۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر غیرملکی سرمایہ کاروں کو 32 اہم منڈیوں میں سرمایہ کاری کرنے کی جانب راغب کیا جائے گا۔ کیونکہ اس وقت امریکا کی سالانہ شرح نمو 2 فیصد کے لگ بھگ ہے جوکہ دیگر ترقی یافتہ ملکوں کی نسبت کم ہے۔ شرح نمو میں اضافے کے لیے اب ماضی کی نسبت تمام کوششوں کو باہم مربوط کیا جائے گا تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو۔ امریکا میں ہی پچھلے دنوں سرمایہ کاروں کا کنونشن منعقد کیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ 2000 تک دنیا بھر میں ہونے والی کل سرمایہ کاری کا 37 فیصد امریکا میں ہوا کرتا تھا لیکن اب کل بیرونی سرمایہ کاری کا حصہ سکڑ کر 17 فیصد ہوگیا ہے۔

یورپ بھی غیر ملکی سرمایہ کاروں کی تلاش میں پیچھے نہیں ہے۔ اب ان کی نظریں عرب امرا پر لگی ہوئی ہیں۔ یورپی یونین کے رکن ملک مالٹا نے تو یہاں تک آفر کردی ہے کہ کوئی بھی غیر ملکی ساڑھے 6 لاکھ یورو کی سرمایہ کاری کرنے کے ساتھ ہی اس ملک کی شہریت بھی حاصل کرسکتا ہے۔ پہلے شہریت کے حصول کے لیے طویل عرصے تک مالٹا میں قیام کرنا ضروری تھا۔ اس طرح شہریت حاصل کرنے والوں کے لیے یورپ بھر میں سفر کرنا آسان ہوجائے گا اور سرمایہ کاری کرنا نیز قیام کرنا بھی آسان ہوجائے گا۔ اسپین نے بھی غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے زمین اور جائیداد کا حصول آسان بنادیا ہے۔ اس کے علاوہ برطانیہ نے بھی غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے ویزے کی شرائط کو انتہائی آسان کردیا ہے۔

موجودہ حکومت غیرملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہے۔ وزیراعظم پاکستان چین اور ترکی کا دورہ کرچکے ہیں۔ ترک سرمایہ کاروں کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کا عندیہ دے چکے ہیں۔ لیکن بعض غیر ملکی سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہاں پر کرپشن سرخ فیتہ، توانائی بحران اور امن و امان وغیرہ کے مسائل بہت بڑی رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ورنہ پاکستان خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے انتہائی موزوں ترین ملک ہے۔ لیکن جہاں ایسے فیصلے صادر کردیے جائیں کہ صنعتوں کو گیس کی سپلائی فوری معطل کی جا رہی ہے تو ایسے میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی سی ہوگی لہٰذا حکومت کو توانائی کی تقسیم اور پیداوار میں اضافے پر بھرپور توجہ دینا ہوگی تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ممکن ہوسکے۔

Violence against women in Pakistan

0
0
 

بلوچستان کے دور افتادہ شہر لورالائی کے ایک گاؤں میں مولوی کے فتویٰ کے بعد گاؤں کے لوگوں نے ایک عورت اور مرد کو پتھراؤ کر کے ہلاک کر دیا۔ لورالائی کے گاؤں منزکی سے آنے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مرد اور عورت پر مبینہ طور پر غیر قانونی تعلقات رکھنے کا شبہ تھا۔ اس عورت اور مرد کو غسل اور کفن پہنائے بغیر اور نماز جنازہ کی ادائیگی کے بغیر دفن کر دیا گیا۔ حکام نے کچھ افراد کو گرفتار کر لیا ہے مگر مولوی مفرور ہے۔ لورالائی میں ہونے والا یہ واقعہ انسانوں کے رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر طرف جنون اور جنون کی فضا ہے اور ہر روز رونما ہونے والا کوئی واقعہ عورتوں پر تشدد کی تاریخ یاد دلاتا ہے۔ گزشتہ ماہ مظفرگڑھ میں چند لوگوں نے پنچایت کے حکم پر ایک عورت کے بازار میں کپڑے تار تار کر دیے۔ جب اس واقعے کا علم ذرایع ابلاغ کو ہوا اور حکام نے اس واقعے کے ذمے دار افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تو متاثرہ عورت نے دباؤ کی بنیاد پر اپنی شکایت واپس لے لی۔ اور حکام نے بغیر کسی مزید تحقیقات کے معاملہ داخل دفتر کر دیا۔ پنجاب، پختونخوا اور بلوچستان میں کمسن لڑکیوں کو وِنی کرنے کی خبریں روز اخبارات میں شایع ہوتی ہیں۔

باپ، دادا، چچا، ماموں اور بھائی کے جرم کی سزا کے بدلے بچیوں کو کمسنی میں متعلقہ دشمن کو ونی کر دیا جاتا ہے تا کہ دو خاندانوں کے درمیان جنگ و جدل کا ماحول ختم ہو سکے مگر اس جنگ و جدل کو ختم کرنے کی قیمت کمسن لڑکیوں کو ساری عمر دشمن خاندان میں سسک سسک کر زندگی گزارنے کے لیے زندہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ تحقیق کار سعدیہ بلوچ نے عورتوں پر تشدد اور کاروکاری کے موضوع پر کتاب تحریر کی ہے جسے انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (HRCP) نے شایع کیا ہے۔ سعدیہ بلوچ خواتین پر تشدد کے پس منظر کو بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ انسانی سماج کے آغاز پر پدر سری نظام کے آغاز سے جب زر اور زمین کے ساتھ یعنی زن کو ملایا گیا تب سے عورت کو جنسی تجارت سمجھا گیا اور تب ہی سے اپنی حاکمیت اور برتری قائم رکھنے کے لیے لازم تھا کہ مردوں کا طبقہ عورتوں پر تشدد کرے۔ اس طرح پدر سری نظام میں معاشرتی بالادستی کے لیے خود سماج، خاندان، سیاست، معیشت، مذہب پر ہی مرد کی اجارہ داری ضروری سمجھی گئی۔ عورتوں پر تشدد محض کسی مقامی خاندان یا برادری کا مسئلہ نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر عورت پر تشدد کا معاملہ اہمیت اختیار کر گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ نے عورتوں پر تشدد کے مسئلے کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا۔

اقوام متحدہ کی مختلف قراردادوں میں صنفی بنیادوں پر ہونے والا کوئی بھی پرتشدد عمل جس کے نتیجے میں انسان کو جسمانی، ذہنی یا جنسی نقصان پہنچے عورتوں پر تشدد کہلاتا ہے۔ کتاب میں تشدد کی اقسام بیان کرتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے کہ عورت جسمانی تشدد، جنسی تشدد، نفسیاتی تشدد، معاشی استحصال، سماجی استحصال، روحانی تشدد، ثقافتی تشدد، زبانی یا اخلاقی تشدد، نظر انداز کیے جانے والے تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب عورت تخلیق کے عمل سے گزرتی ہے تو بھی اس کو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح گھریلو تشدد کے بہت سے واقعات سامنے آتے ہیں جن میں آگ، مٹی کے تیل، تیزاب سے جلنے والے اعضا کے واقعات شامل ہیں۔ اس کتاب میں تحریر کیا گیا ہے کہ عمومی طور پر ایک عورت پر کیے جانے والے ظلم کی سزا دوسری عورت کو دی جاتی ہے۔ گزشتہ سال مئی میں ڈیرہ غازی خان میں ایک پنچایت نے فیصلہ دیا کہ غلام حسین کے بیٹے عبدالحمید نے سمیرا نامی لڑکی سے ناجائز تعلقات استوار کر رکھے تھے، اس بنا پر غلام حسین کو حکم دیا گیا کہ اپنی بیٹی کی شادی سمیرا کے بھائی سے کر دے۔ سمیرا کے بھائی مجاہد نے غلام حسین کی بیٹی سے نکاح کیا اور اپنی بیوی یعنی عبدالحمید کی بہن کو اپنے دوستوں کے حوالے کر دیا جنھوں نے اسے اجتماعی درندگی کا نشانہ بنایا۔ اس طرح عورتوں کو برہنہ کر کے سر عام رسوا کرنے، گنجا کرنے یا بدہیت کرنے کے کئی واقعات بھی اخبارات کے ذریعے منظر عام پر آتے رہے ہیں۔

عزت یا عزت کے نام پر قتل اور اس بنیاد پر بننے والی رسوم و روایات جیسے کاروکاری کی رسم عمومی طور پر قبائل میں پائی جاتی ہیں، یہ قبائل بلوچستان کے علاوہ جیکب آباد، لاڑکانہ، خیرپور، شکارپور،دادو اور سکھر کے علاوہ جنوبی پنجاب میں ڈیرہ غازی خان، راجن پور، مظفر گڑھ میں آباد ہیں، مگر دیگر قبائل اور برادریوں میں بھی قتل، کاروکاری اور ونی جیسی رسوم پائی جاتی ہیں۔ مذکورہ کتاب میں انکشاف کیا گیا کہ کاروکاری کے فیصلے جرگہ، پنچایت میہڑ وغیرہ میں طے پاتے ہیں، عمومی طور پر کسی بھی خاندان یا برادری کے معززین بیٹھ کر تنازعات کا فیصلہ کرتے ہیں۔ پنچایت میں شریک افراد پنچ کہلاتے ہیں، پنچایت کے فیصلے مانے جاتے ہیں، اس طرح قبائلی نظام میں قبائلی مرد مل کر فیصلہ کرتے ہیں تو وہ جرگہ کہلاتا ہے۔ بعض اوقات دو یا زیادہ قبائل کے درمیان تنازعے کے حل کے لیے مختلف قبیلوں کے سرداروں اور عمائدین پر مشتمل جرگے منعقد ہوتے ہیں۔ پنچایت اور جرگے میں عورتوں سے متعلق مقدمات پر فیصلے ہوتے ہیں مگر عورتوں کا پنچایت اور جرگوں میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ سندھ ہائی کورٹ نے چند سال قبل انسانی حقوق کے کارکن اختر بلوچ کی عرضداشت پر جرگوں کے انعقاد کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا مگر اب بھی جرگے منعقد ہوتے ہیں۔ وزرا، اراکین اسمبلی ان جرگوں میں شرکت کرتے ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ جب چاول کی فصل کٹتی ہے تو یہ وقت کاروکاری کو عملی جامہ پہنانے کا بھی بہترین وقت ہوتا ہے چونکہ لوگوں کے پاس پیسہ آتا ہے، اس پیسے کے بل بوتے پر دوسرے سے پیسہ ہتھیانا آسان ہوتا ہے، اپنے دفاع کے لیے پولیس کو رشوت دینے کے لیے پیسہ موجود ہوتا ہے، یہ موسم صرف دھان کی کٹائی کا ہی نہیں عورتوں کی گردنیں کٹنے کا ہوتا ہے۔ اگر مرد خواب میں بھی اپنی بیوی کی بے وفائی دیکھے تو اسے قتل کر دیتا ہے اور پھر کسی دشمن کو قتل کر کے غیرت کا معاملہ بنا لیتا ہے۔

مصنفہ کے مطابق یہ پدر سرانہ قبائلی نظام معاشی و اقتصادی فوائد کا حصول، افلاس، بے روزگاری، زمین کی پیداوار کم اور اخراجات زیادہ ہونا، مذہب کی غلط ترویج، ناخواندگی، تعلیمی نصاب میں صنفی بنیادوں پر تفریق پر مبنی مواد، تشدد کا کلچر، عدالتوں کے فیصلوں میں عزت کی بنیاد پر قتل کی سزائیں کم کرنا، راضی نامے، صلح معافی اور قانون دیت کا قانون وغیرہ کاروکاری کی بنیادی وجوہات میں شامل ہے۔ سعدیہ بلوچ نے ایسے وقت میں یہ کتاب تحریر کی ہے جب عورتوں پر تشدد کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ لورالائی کے گاؤں میں عورت اور مرد کو سنگسار کی سزا خطرناک صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ اگرچہ حکومت بلوچستا ن نے سنگسار کے واقعے میں ملوث 9 کے قریب افراد کو گرفتار کیا ہے مگر معاملہ محض گرفتاری سے حل نہیں ہو گا، یہ لوگ عینی شاہدوں کی عدم موجودگی کی بنا پر رہا ہو جائیں گے اور پھر سرخرو ہوں گے۔ بنیادی معاملہ یہ ہے کہ عورت پر ہونے والے تشدد کے اسباب کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ عورتوں پر تشدد کے حوالے سے کی جانے والی مختلف نوعیت کی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ مرد کی بالادستی پر مبنی معاشرہ مردوں کے ذہن کو اس طرح ترتیب دیتا ہے کہ وہ عورت کو کمتر جانتے ہیں اور عورت کو زبانی تشدد سے لے کر جسمانی تشدد کے ذریعے اپنے زیر نگرانی رکھا جاتا ہے۔ مردوں کی عورتوں کو زیر تسلط رکھنے کی سوچ کی بنا پر عورتوں اور ان کے ساتھی مردوں کو سنگسار، انھیں کاری قرار دے کر قتل، دشمن سے صلح کے لیے لڑکیوں کو ونی کیا ہے۔ پسند کی شادی کے حق کے استعمال پر موت کی سزا دینے کے طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ عورت کے پسماندہ رہنے سے غربت و افلاس کی سطح بلند ہو رہی ہے، یوں ترقی کا خواب محض خواب رہتا ہے۔ عورتوں کے سماجی، معاشی، سیاسی حقوق کے تحفظ سے انھیں بہیمانہ سزاؤں سے بچایا جا سکتا ہے۔

Haji Abdul Razzak

0
0

Abdul Razzak Yaqoob (ARY) was a wealthy Pakistani businessman based in Dubai. He was the owner of ARY Group of Companies.[2]His parents migrated from Surat, India to Karachi in 1944. He came to Dubai from Pakistan in 1969. In 1972 Yakoob established ARY and opened its first outlet in Fikri market Deira. He also started importing watches, perfumes and cigarettes. Two years later, when his brother, Mohammed Iqbal, joined him, the group branched out into dealing with food and Textiles. Besides catering to the local market, they also began exporting food-stuff to Iran. Yaqoob's current business includes a Gold and Silver trading segment. Yaqoob is known to provide financial assistance to the Pakistani government in times of need.[3]Abdul Razzak Yaqoob is head of the World Memon Organization.[4]He died on 21st of February 2014.[1] He was ill since many days.

والدین توجہ فرمائیں …!

0
0

کرسمس کے دنوں میں امریکہ بھر میں مشہور و مقبول نظم Jingle bells, jingle bells, Jingle all the way

(جِنگل بیلز جِنگل بیلز،جِنگل آل دا وے) کی گونج سنائی دیتی ہے۔ سکولوں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو یہ نظم زبانی یاد کرائی جاتی ہے بلکہ بچہ جب ہوش سنبھالتا ہے تو کرسمس کے سیزن میں اس نظم کی دھن کے ساتھ جھومنے لگتا ہے اور وہ جب بولنا سیکھتا ہے تو اسے یہ دھن از بر ہو چکی ہوتی ہے۔ یہ مشہورو معصوم نظم جیمز لارڈ نامی رائٹر نے 1857ء میں لکھی تھی اور اس نے یہ نظم کرسمس کے موقع پر ایک چرچ میں گائی تو اسے بے حد پذیرائی ملی کہ اس نظم کو کرسمس کی علامت بنا دیا گیا۔ امریکہ میں مذہبی و ثقافتی تہواروں کے موقع پر مختلف نظمیں اور گیت لکھے گئے جو ان تہواروں کی پہچان بن چکے ہیں ۔انسانی نفسیات ہے کہ جب وہ کوئی گیت سنتاہے تو لا شعوری طور پر گنگنانے لگتا ہے۔بچے بھی موسیقی کے ساتھ جھومنے لگتے ہیں۔ انسان مو سیقی کا مثبت استعمال کرسکتا ہے۔بچے دھن میں بنی نظمیں جلدی یاد کر لیتے ہیں ۔ہم نے ان باتوں کی طرف اس وقت دھیان دینا شروع کیا جب ہماری بیٹی مومنہ تین سال کی تھی اور اس نے سکول جانا شروع کیا تھا۔ اولاد کی دینی و اخلاقی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ماں پر عائد ہوتی ہے ۔ایک غیر مسلم معاشرے میں ایک مسلمان کے لئے اپنے بچے کو عقائد اقدار کی تعلیم و تربیت دینا ایک کٹھن آزمائش ہے بلکہ اس منزل سے کامیاب گزرنا ایک پل صراط ہے۔ بچے کی نفسیات چار سال کی عمر میں مکمل ہو جاتی ہے اور ان چار سالوں میں وہ جو کچھ اپنے ماحول میں دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اسے اپنے دل و دماغ کے کمپیوٹر میں محفوظ کر لیتا ہے۔ تیس سال پہلے امریکہ آئے تو بچوں کے لئے پڑھائی کی جدید سہولیات اور مواد میسر نہ تھا۔کتابیں اور آڈیو کیسٹس کا زمانہ تھا جبکہ آج انٹر نیٹ نے تعلیم کو سہل بنا دیا ہے بلکہ انٹر نیٹ کو ہی بچوں کی اصل ماں سمجھا جاتا ہے۔ مغرب میں انگریزی میں تعلیم وزبان یہاں کے ماحول میں مل جاتی ہے جبکہ مشکل مرحلہ بچوں کو اسلامی تعلیم اور اردو زبان سکھانا ہے اور دینی و اخلاقی تعلیم و تربیت ماں کی ذمہ داری ہے۔ نادان ہیں وہ ماں باپ جو مغرب میں رہتے ہوئے اپنے بچوں کے ساتھ انگریزی زبان میں بات کرتے ہیں ، شاید بچوں کے بہانے خود انگریزی سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ انگریزوں میں رہ کران کی زبان سکھانے کی ضرورت نہیں بلکہ مادری ، عربی اردو جیسی اہم زبانیں سکھانے کے لئے محنت کرنی چاہئے۔ اسلامی کلمات اور دعائیں صرف ماں اور دینی ماحول سکھا سکتا ہے۔ بیٹی نے جب سکول جانا شروع کیا تو کرسمس کے دنوں میں ’’جنگل بیلز جنگل بیلز‘‘ نظم گنگناتی رہتی۔ اس معصوم نظم سے ہمیں کوئی مخالفت نہیں بلکہ اس سے ہمیں یہ سوچنے میں مدد ملی کہ کیوں نہ ننھی مومنہ کو اسلامی نظمیں یاد کرادی جائیں تا کہ دین و دنیا کی تعلیم میں توازن رہے لہذاہم نے برطانوی نژاد نومسلم یوسف اسلام المعروف مشہور پاپ سنگر کیٹ سٹیون کی کیسٹس خریدیں۔ یوسف اسلام نے بچوں کے لئے بہت خوبصورت نظمیں لکھی ہیں جن کی دھنوں کے ساتھ بچے جھومنے لگتے تھے اور یوں اٹھتے بیٹھتے انہیں اسلامی نظمیں یاد ہو جاتی ہیں۔ نبی کریمؐ کی مدینہ منورہ میں ہجرت کے موقع پر مدینہ کے لوگوں نے دف کے ساتھ حضور ؐ کے لئے ایک استقبالیہ نظم گائی۔ ’’ طلع البدر علینا، من ثنیات الوداع‘‘ عربی کی یہ وہ مشہور و مقبول نظم ہے جو پندرہ صدیاں گزر جانے کے باوجود اپنی مقبولیت میں ایک بلند مقام رکھتی ہے۔ہم یہ عربی نظمیں کیسٹس پر لگا دیتے، ہمارے بچے انگریزی نظموں کی طرح عربی نظمیں بھی یاد کرنے لگے اور اٹھتے بیٹھتے گنگنانے لگے۔ ’’طلع البدر علینا‘‘ مدینہ طیبہ کی اس استقبالیہ نظم کا پس منظر بچوں کوبتایا تو ان میںحضورؐ کی حیات طیبہ کی کہانیاں سننے کا شوق پیدا ہو گیا۔ برطانوی سنگر اور نو مسلم کیٹ سٹیون یوسف اسلام کی لکھی ایک مشہور اسلامی نظم

Alif is for Allah, nothing but Allah;

Ba is the beginning of Bismillah;

Ta is for Taqwa, bewaring of Allah;

and Tha is for Thawab, a reward;

(الف سے اللہ، با سے بسم اللہ، تا سے تقویٰ اور ث سے ثواب) نظم کو عربی کے مکمل حروف تہجی کے ساتھ انتہائی خوبصورت انداز میں لکھا اور گایا کہ بچوں کو ازبر ہو گیا اور اردو قاعدہ (الف انار، ب بکری، ت تختی) یاد کرنے میں بھی مشکل پیش نہیں آئی۔ دین و دنیا کی تعلیم ایک ساتھ جاری رہی، ذہانت و قابلیت میں مددگار ثابت ہوئی اور ہماری بیٹی اردو،پنجابی،عربی،فارسی،جرمن زبانیں پڑھنے لگی حتیٰ کہ فلسفہ اقبال پڑھنے کے لئے جرمنی گئی۔ پنجابی صوفیانہ کلام کا انگریزی میں ترجمہ کر کے اپنے امریکی دوستوں کو شیئر کرتی۔ امریکی یونیورسٹی میںفلسفہ اقبال ؒ پر ایک پیپر لکھا جس کو اس قدر پذیرائی ملی کہ بیس سال کی عمر میں ہماری بیٹی کو ڈیوک یونیورسٹی کی ایک اسلامی کانفرنس میں بحیثیت گیسٹ سپیکر مدعو کیا گیا ۔ مغربی تعلیم و ثقافت اور تہوار مسئلہ نہیں بلکہ تشویش دینی تعلیم و تربیت سے دوری ہے۔ تعلیم کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا بلکہ مسلمان بچوں کے ساتھ ان کے اپنے والدین انصاف نہیں کر رہے۔ انسان خواہ کسی ملک میں رہتا ہو ، انہیں اپنا کھویا ہوا وقار، اعتماد، نظریات، اخلاقیات اور عقائد اسی صورت میں واپس مل سکتے ہیں کہ وہ دین اور دنیا کی تعلیم میں توازن رکھیں ورنہ فرنگی کی اترن کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

   طیبہ ضیاءچیمہ ....(نیویارک)

Enhanced by Zemanta

علم اور معلومات

0
0

ٹیکنالوجی کے فروغ اور عروج نے اس صدیوں پرانے مسئلے کو ایک نئی شکل دے دی ہے اور ایک بار پھر یہ سوال صاحبان کی فکر و نظر کے لیے غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ علم یعنی Knowledge اور معلومات یعنی Information کے درمیان موجود مطابقت اور فرق کو کس طرح سے دیکھا سمجھا اور سمجھایا جائے کہ ہماری نوجوان نسل اس فن میں بے حد مشکوک اور کنفیوز ہوتی جا رہی ہے کہ کسی انفارمیشن کا Knowledge کا درجہ حاصل کرنے کے لیے کن مراحل سے گزرنا ضروری ہے۔ ٹی وی چینلز پر بے ہنگم موسیقی کے ساتھ دن میں کئی کئی بار Breaking News نے اور کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو اس عمل کو ضرور ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے اور یوں اب ہمارا ذہن کسی چیز کو ایک ساتھ دیکھنے اور اس کے بارے میں سوچ کر کسی نتیجے پر پہنچنے کے بجائے اس مخمصے میں مبتلا رہتا ہے کہ معلومات اور علم کے درمیان کی حد فاصل کو کیسے تلاش کیا جائے۔

میں اس مسئلے پر بہت دنوں سے لکھنا چاہ رہا تھا لیکن بوجوہ اس کا موقع نہ نکل سکا۔ اتفاق سے آج کراچی سے شایع ہونے والے ماہنامہ ’’گلوبل سائنس‘‘ کے تازہ شمارے کا اداریہ نظر سے گزرا تو اس مسئلے کی شدت کا احساس پھر سے اجاگر ہو گیا۔ اردو میں سائنسی موضوعات سے متعلق گنتی کے چند رسائل ہی ایسے ہیں جنھیں صحیح معنوں میں معیاری اور قابل ذکر کہا جا سکتا ہے اور میرے نزدیک یہ جریدہ گلوبل سائنس اس مختصر سے قافلے کے قافلہ سالار کی حیثیت رکھتا ہے۔ چند دنوں قبل کراچی کے ادبی میلے میں اس کے مدیر اعلیٰ علیم احمد سے ایک بار پھر ملنے اور تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ گفتگو کے دوران معلومات اور علم کے باہمی تعلق کے موضوع پر بھی سرسری سی بات ہوئی لیکن جس مہارت اور خوب صورتی سے انھوں نے اپنے اداریے میں اس پر قلم اٹھایا ہے اسے پڑھ کر بہت لطف آیا۔میں اپنے قارئین کو اس لطف میں شامل کرنے کے لیے اس کا ایک خلاصہ ان ہی کے لفظوں میں درج کرتا ہوں۔ اس کا عنوان ہے ’’اطلاعات کی بم باری… علم کا قتل عام‘‘

’’ابتدا ہی میں اتنا جان لیجیے کہ اطلاع (انفارمیشن) اور علم (Knowledge) میں بہت گہرا تعلق ضرور ہے لیکن اطلاعات کو علم بننے کے لیے بہت سے مراحل طے کرنا پڑتے ہیں گویا جس طرح ’’آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک‘‘ بالکل اسی طرح اطلاع کو بھی علم بننے کے لیے بہت کچھ درکار ہوتا ہے۔ اس حقیقت کا اولین احساس ہمیں اس وقت ہوا جب ہم نے پہلی مرتبہ Information over load کے بارے میں پڑھا یعنی ایک ایسی کیفیت جب اطلاعات اتنی زیادہ ہو جائیں کہ ہمارا دماغ انھیں درست طور پر سنبھالنے، برتنے اور ان اطلاعات کی بنیاد پر کوئی نتیجہ اخذ کر نے کے کسی فیصلے پر پہنچنے کے قابل نہ رہے…

’’اطلاع‘‘ کو عام زبان میں معلومات بھی کہا جاتا ہے آپ چاہیں تو اسے خبر بھی کہہ لیجیے یہ اپنی ذات میں ’’کیا، کیوں، کس نے، اور کہاں‘‘ جیسے نکات کا مجموعہ ہو سکتی ہے۔ البتہ نفسیات اور اعصابیات (نیورالوجی) کے نقطۂ نگاہ سے یہ اطلاع سب سے پہلے مرحلے میں ہمارے دماغ کی ’’مختصر مدتی یادداشت‘‘ یعنی شارٹ ٹرم میموری کا حصہ بنتی ہے اس طرح کی یادداشت محض چند سیکنڈ سے لے کر چند منٹوں تک برقرار رہتی ہے۔ اگلا مرحلہ اس اطلاع کے ’’طویل مدتی یادداشت‘‘ یعنی Long term memory میں منتقل ہونے کا ہے جس کے لیے کم از کم بلا روک ٹوک اور تبدیلی کے بغیر ایک گھنٹہ درکار ہوتا ہے اس کے بعد ہی ہمارا دماغ اس کا تجزیہ کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ یہ تجزیہ فوری بھی ہو سکتا ہے اور کچھ عرصے کے بعد بھی، لاشعوری بھی ہو سکتا ہے اور شعوری بھی۔ اس دوران ہمارا دماغ اطلاع کی جزئیات کو کھنگالتا ہے اطلاع کے مختلف حصوں کو آپس میں مربوط کر کے یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت میں ہیں یا عدم مطابقت میں۔

…یادداشت میں ’’سوچ سمجھ کر‘‘ کیا جانے والا ’’اضافہ‘‘ ہی علم کہلاتا ہے جس کی نوعیت کیفیت اور کمیت کچھ بھی ہو سکتی ہے۔‘‘

اس علمی وضاحت کے بعد اپنی بات کی مزید تشریح کے لیے علیم احمد نے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سے مثالیں دے کر ثابت کیا ہے کہ ٹی وی چینلز کسی طرح سنسنی خیزی میں بازی لے جانے کے لیے منفی اور غیر مصدقہ خبروں کو اس بری طرح سے بار بار اچھالتے اور دہراتے ہیں کہ جس کو دیکھ کر ’’گوئیلز کی روح بھی تڑپ اٹھتی ہو گی‘‘ ذرائع ابلاغ کی اجتماعی نفسیات دیکھئے تو وہاں اچھی خبر کوئی خبر ہی نہیں (Good news is no news) کی سوچ حاوی نظر آتی ہے… معذرت کے ساتھ یہ انقلاب نہیں سیلاب ہے فکروں کو تباہ کرنے والا سیلاب… یہ اطلاعات کی فراوانی نہیں بم باری ہے علم کا قتل عام کرنے والی بم باری اور اس کا سب سے خطرناک اثر ہماری نئی نسل کے ذہنوں پر پڑ رہا ہے وہ کسی بھی اطلاع کا اچھا برا یا صحیح یا غلط تجزیہ تو اس وقت کر پائے گی کہ جب وہ اطلاع اس کی ’’طویل مدتی یادداشت‘‘ تک ’’درست طور پر‘‘ پہنچنے میں کامیاب ہو گی۔ یہ بات یہاں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ یہیں سے ایک بھیانک فکری معذوری کا آغاز ہوتا ہے… یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو ہماری نئی نسل کو نہایت خاموشی سے مسلسل اور بتدریج ’’غیر اعلانیہ ذہنی معذوروں‘‘ میں تبدیل کر رہی ہے وہ کیسے! ذرا یہ بھی سمجھ لیجیے

… ہمارے بازوؤں کو بوجھ اٹھانے کی عادت نہ ہو تو وہ کمزور ہو جاتے ہیں… جنھیں بیٹھے رہنے کا شوق ہوتا ہے ان کی ٹانگیں (بڑھاپے سے بہت پہلے ہی) اتنی کمزور ہو جاتی ہیں کہ چند قدم چلنے کے بعد ہی درد کرنے لگتی ہیں۔ بالکل اسی طرح اگر دماغ میں بھی اطلاع کے علم بننے کا عمل مسلسل تعطل کا شکار رہے تو پھر اس کے لیے علم تک رسائی حاصل کرنا بھی دشوار سے دشوار تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسے ’’اطلاع‘‘ کو ’’علم‘‘ تک پہنچانے کی مشق ہی نہیں رہتی اور جب یہ مشق نہیں رہتی تو پھر کند ذہنی جنم لیتی ہے۔

لوگ صرف ’’اطلاع‘‘ میں بھٹکتے رہ جاتے ہیں… بہتر یادداشت‘ اوسط ذہانت اور ’’خفیہ ایجنڈا‘‘ رکھنے والے لوگ اسی کند ذہنی کا فائدہ اٹھاتے ہیں‘‘

آپ نے دیکھا کہ علم اور معلومات کے درمیان موجود فرق پر توجہ نہ دینے سے فرد سے لے کر معاشرے کی سطح تک کیسے کیسے گھمبیر، پیچیدہ اور خطرناک مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ آدھا ادھورا یا غلط علم بے علمی اور جہالت سے بھی زیادہ تباہ کن ہو سکتا ہے اور ایسی معلومات اور اطلاعات جنھیں بغیر سوچے سمجھے، پرکھے اور Test of time سے گزارے علم کا درجہ دے دیا جاتا ہے وہ گوناگوں قسم کے فساد کا باعث اور منبع بن جاتی ہیں۔

ایک غلط خبر کی تائید اگر ایک دوسری غلط خبر سے حاصل کی جائے تو بعض اوقات ایک بہت مضحک صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے جیسے ایک صاحب نے اپنا کوئی شعر سنایا جس میں زبان وزن اور تلفظ تینوں کی غلطی تھی جب انھیں سمجھانے کی کوشش کی گئی تو وہ ایک نامعقول قسم کی بحث پر اتر آئے تنگ آ کر اعتراض کرنے والے نے کہا کہ کیا آپ اپنی بات کی تائید میں کسی ’’استاد‘‘ کی سند پیش کر سکتے ہیں۔ موصوف نے فوراً کہا ’’جی ہاں‘‘ اور ایک اور ایسا شعر سنایا جس میں اولذکر شعر میں موجود تمام فنی سقم موجود تھے اعتراض کنندہ نے پریشان ہو کر پوچھا ’’یہ سند کن استاد کی ہے؟‘‘ جواب ملا ’’یہ بھی اپنا ہی ہے‘‘ کسی غلط اور غیر مصدقہ اطلاع یا انفارمیشن کو علمی سند بنانے کا نتیجہ شیخ سعدی کے الفاظ میں کچھ اس طرح بھی نکلتا ہے کہ

خشتِ اول چو نہد معمار کج

تا ثریا می رود دیوار کج

یعنی اگر معمار پہلی اینٹ ٹیڑھی لگائے تو آسمان تک جانے پر بھی دیوار کی کجی ختم نہیں ہوتی سو اس بات کی شدید اور فوری ضرورت ہے کہ ہم معلومات اور علم کے درمیانی رشتے کو خود بھی سمجھیں اور اپنی نئی نسل میں بھی اس کا شعور پیدا کریں اور اس کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سے متعلق لوگوں کو بھی اس بات کا احساس دلائیں کہ ان کی کسی غلط، غیر مصدقہ یا غیر ذمے دار انہ اطلاع سے کس کس طرح کی خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں کیونکہ یگانہ چنگیزی نے جو یہ کہا تھا کہ

علم کیا علم کی حقیقت کیا

جیسی، جس کے گمان میں آئی

تو یہ کوئی امر واقعہ نہیں بلکہ ایک شاعرانہ خیال تھا جس کی تحسین تو کی جا سکتی ہے لیکن اس پر یقین کرنے سے سوائے بے یقینی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

امجد اسلام امجد 

نقل کی سیاہ کاریاں

0
0

چند روزپہلے ایک بہت اچھی اورنصیحت آمیز خبر پڑھنے کو ملی وہ یہ کہ چوالیس (44) جعلی امیدوار بی کام پرائیویٹ کا پرچہ حل کرتے ہوئے پکڑے گئے جامعہ کراچی کی انتظامیہ نے پہلی بار یہ قدم اٹھایا ہے کہ ان نقل کرنے والے طلبا کو کسی بھی قسم کی رعایت سے محروم کردیا گیا ہے۔ یہ طلبا اپنی قابلیت کا سکہ بٹھانے کے لیے اصل امیدوارکی جگہ پرچہ دینے آئے تھے لیکن ممتحن کی اپنے پیشے سے مخلصانہ کوشش کے نتیجے میں انھیں رنگے ہاتھوں نہ کہ پکڑا بلکہ انھیں انضباطی کارروائی کے لیے کیمپس سیکیورٹی آفس کے حوالے کردیا گیا۔ ناظم امتحانات اعلامیے کے مطابق طلبا کو تین سال کے لیے جامعہ کراچی کے امتحانی عمل سے خارج کردیا جائے گا اور ان طلبا کے لیے جاری کیا جانے والا خارجی خط پاکستان کی تمام نجی و سرکاری جامعات کو بھیج دیا جائے گا، پروفیسر ڈاکٹر ارشد اعظمی کے مطابق شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر کی ہدایت پر تعلیمی نظم و ضبط اور امتحانات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی کسی کی مداخلت برداشت کی جائے گی۔

یقیناً یہ تعلیم کے حوالے سے ایک مثبت قدم ہے ورنہ تو بارہا نقل کرنے والے طالب علم خبروں کے ذریعے منظر عام پر آئے، لیکن ان کا کسی نے بال بیکا نہ کیا ایک معمولی سی غلطی سمجھ کر نظرانداز کردیا گیا اس طرح طالب علموں کی حوصلہ افزائی کی گئی اور نتیجہ سامنے ہے کہ امتحانات کے زمانے میں بے شمار طلبا نقل کرکے پاس ہوتے ہیں اور تعلیم مکمل کرنے یا نہ کرنے کے بعد سفارش اور رشوت کی بنا پر بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں اور ایسے ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں کہ معاشرتی برائیوں، ناانصافیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ آج جو پورے ملک میں جہالت کا اندھیرا ہر سو پھیلا ہوا ہے، اس کی وجہ ہی یہ ہے کہ وہ لوگ اقتدار کی کرسی پر براجمان رہے جو دینی و دنیاوی علوم سے ناواقف تھے کتابوں کی جگہ دولت سے محبت کرنیوالوں نے ہر ادارے کو زوال کی صورت میں مبتلا کر دیا ہے۔ لیکن دوسرے تمام اداروں میں سب سے اہم ادارہ تعلیم کا ہی ہے کہ یہاں سے ہی عقل و شعور، دیانت و ذہانت کے دریا بہتے ہیں ، علم کے طالب مسافر ان ہی دریاؤں سے سیراب ہوتے ہیں اور اپنے اساتذہ کا احترام کرتے ہیں اور ان سے کچھ سیکھتے اور عمل کرتے ہیں (اس قدردانی کی وجہ اساتذہ کا کردار ہے)۔

پچھلے وقتوں میں شاگرد علم حاصل کرنے کے لیے دور دراز کا سفر طے کیا کرتے تھے، اس وقت کے معلمین حقیقتاً علم کے فروغ کے لیے صبح وشام سیکھنے اور سکھانے کے عمل سے گزرتے تھے، آج کے دور میں اساتذہ بھی طلبا کو نقل کرنے کا مفید مشورہ دیتے ہیں اور اپنی تدریسی ذمے داریوں سے چشم پوشی کرتے ہیں، ان کے اسی عمل سے طلبا پڑھائی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ہیں تو پھر علمیت و قابلیت کیونکر بڑھ سکتی ہے، ترقی کی راہیں کھلتی نہیں بلکہ مسدود ہوجاتی ہیں، آج چند گنتی کے طالب علموں کے علاوہ نقل کرنیوالے طلبا اگر عالموں کی محفل میں بیٹھ جائیں تو کسی بھی مسئلے کا حل بتانے سے قاصر رہتا ہے۔ وہ خاموش تماشائی بن جاتا ہے ایسے طالب علموں کے بارے میں ابن خلدون فرماتے ہیں کہ زیادہ تر طالب علم اسباق کو رٹتے ہیں اور علم میں تصرفات کا ملکہ پیدا نہیں کرتے یہ بہت بڑی کمی ہے، اگر خوش قسمتی سے کوئی طالب علم تعلیمی اعتبار سے بہتر ہو اور تعلیم سے فارغ ہوکر بظاہر کام بھی کرنے کے قابل معلوم ہوتا ہے لیکن ملکہ علم سے وہ پھر بھی محروم رہتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ نہ علمی مذاکروں میں مدلل گفتگو کر پاتا ہے اور نہ ہی مناظرہ کرسکتا ہے اور بحیثیت استاد کے اپنے فرائض بھی انجام نہیں دے پاتا ہے۔ یہ کمی اسی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ ان طالب علموں نے ماہرین تعلیم اور شیوخ فن سے استفادہ نہ کیا اور نہ ہی انھیں ایسے جید عالموں سے واسطہ پڑا۔

کسی زمانے میں اندلس اور مغرب کے پایہ تخت قیروان و قرطبہ تھے وہاں علوم و فنون کے بازار گرم رہا کرتے تھے، امتداد زمانہ اور طویل تمدن کی وجہ سے تعلیم نے یہاں خوب جڑیں پھیلا لی تھیں لیکن بدقسمتی سے جب یہ شہر اجڑا تو مغرب سے تعلیم بھی ختم ہوگئی، اسی طرح مراکش کی حکومت ختم ہونے کے بعد افریقہ سے ابوالقاسم بن زیتون ساتویں صدی کے وسط میں مشرق پہنچے اور امام ابن خطیب کے شاگردوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور ان سے تمام مروجہ علوم و فنون سیکھے جب تعلیم کا بہترین طریقہ سیکھ لیا تب تیونس واپس آگئے، اسی طرح ساتویں صدی کے آخر میں ابو علی ناصرالدین مشدالی زوادہ سے اٹھے اور ابو عمرو بن حاجب کے شاگردوں سے علوم حاصل کیے اور اسی مقام پر شہاب الدین قیرون کے علوم سے مستفید ہوئے۔ اس طرح عقلی و نقلی علوم میں مہارت حاصل کرلی تب واپسی کا قصد کیا، مغرب میں آکر سبجایہ میں سکونت اختیار کی اور استادوں شاگردوں کا سلسلہ چلتا رہا اور مختلف علوم سے انھوں نے اپنا سینہ منور کیا۔ خود بھی اجالوں کی راہوں پر گامزن رہے اور فرمانبردار طلبا علم کے متوالے بھی راہ حق کی جستجو میں مصروف عمل رہے۔

دور حاضر کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ تعلیم اس قدرمہنگی کردی گئی ہے کہ غریب طالب علم کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ایک خواب بن گیا ہے، وہ خواب تو دیکھ سکتا ہے لیکن تعبیر حاصل کرنا اس کے بس کی بات نہیں۔ہمارے ملک میں تعلیمی درسگاہوں کی کمی نہیں تعلیم کے حصول کے لیے نئے نئے تعلیمی ادارے بھی کھل رہے ہیں اور عمارات کی تعمیر بھی ہو رہی ہے۔ لیکن تعلیمی ڈھانچہ جوں کا توں ہے سب سے پہلے اس میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ جماعت اول اور مونٹیسوری کی تعلیم ہی ایک طالب علم کے لیے بنیاد کی اہمیت رکھتی ہے، دیکھنا یہ ہوگا کہ ایک معصوم بچے کی تعلیم و تربیت کس طرح کی جانی چاہیے، اس کے دماغ کی خالی سلیٹ پر حروف ابجد کی شکل میں سب سے پہلے کس قسم کی تحریر لکھی جائے، کون سا درس دیا جائے، کس تہذیب و تمدن سے آشنا کیا جائے، مشرق و مغرب اور ساتھ میں اسلامی تعلیمات کے کن اوراق کا سبق دینا ناگزیر ہے؟ ان سب باتوں پر غور کرنا بے حد ضروری ہے تاکہ درست سمت کا تعین ہوسکے کسی بھی عمارت کی بنیاد کی مضبوطی عمارت کی دیواروں کو منہدم ہونے سے بچاتی ہے۔

آج مغربی تعلیمات اور مغربی تہذیب کو اپنانے کے ثمرات نظر آرہے ہیں، اسلامی تعلیمات و اقدار سے دوری کا نتیجہ علمی بددیانتی کی شکل میں موجودہ منظرنامے پر عیاں ہے۔

کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب ڈاکٹر محمد قیصر کا نقل کی حوصلہ شکنی کے لیے یہ کارنامہ ایسا ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے، نقل کرنا زہر ہلاہل سے کم نہیں، یہ وہ زہر ہے جو ناہموار معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ نقل کرنے والے طالب علموں کے ہوگئے نا، تین سال برباد۔۔۔یہ وہ سبق ہے جس سے دوسرے طالب علم فائدہ اٹھاسکیں گے اور ایسی مذموم حرکت نہیں کریں گے۔ ایسے طلبا کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ نقل سے پاس ہونیوالے کبھی اعلیٰ مرتبے پر فائز نہیں ہوسکتے ہیں اگر بدقسمتی سے ہوگئے تو پورے ملک کے امن و امان کو غارت کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ بے شک محنت اور ایمانداری انسان کو عزت و مرتبہ عطا کرتی ہے۔

نسیم انجم  

Enhanced by Zemanta

بادام کا درخت

0
0

میں نے ایک دن خواجہ صاحب سے عرض کیا ’’ہم لوگوں کے دھوکے سے کیسے بچ سکتے ہیں‘‘ فرمایا ’’یہ کام بہت آسان ہے‘ آپ لالچ ختم کر دو‘ دنیا کا کوئی شخص آپ کو دھوکا نہیں دے سکے گا‘‘ میں نے عرض کیا ’’جناب ذرا سی وضاحت کر دیں‘‘۔ فرمایا ’’ ہم دوسروں کے ہاتھوں دھوکا نہیں کھاتے‘ ہمیں ہمارا لالچ دھوکہ دیتا ہے‘ آپ اگر لالچی اور کنجوس ہیں تو آپ کو ہر روز دھوکہ دیا جائے گا اور آپ روز دھوکہ کھائیں گے بھی‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’ یہ بات لالچ کی حد تک درست ہے کیونکہ لالچی کے طمع کی زبان ہر وقت باہر لٹکتی رہی ہے لیکن کنجوس تو اپنے پیسوں کو ہوا نہیں لگنے دیتا‘ یہ گرہ کھولے گا تو اس کے ساتھ دھوکہ ہو گا ناں‘‘۔ فرمایا ’’لالچ اور کنجوسی جڑواں بہنیں ہیں‘ یہ ہمیشہ اکٹھی رہتی ہیں‘ لالچی کنجوس ہوتا ہے اور کنجوس لالچی‘ دنیا کے تمام کنجوس دولت چھپانے کی لت میں مبتلا ہوتے ہیں‘ یہ ایسے گھونسلے تلاش کرتے رہتے ہیں جہاں یہ اپنے اثاثوں کے انڈے رکھ سکیں‘ ان کی یہ تلاش انھیں فراڈیوں کے پاس لے جاتی ہے‘ فراڈیئے انھیں یقین دلا دیتے ہیں‘ ہمارے پاس نہ صرف آپ کا سرمایہ محفوظ رہے گا بلکہ یہ دوگنا اور چار گناہ بھی ہو جائے گا‘ یہ لوگ ان کے ٹریپ میں آتے ہیں اور یوں عمر بھر کے لیے کمائی سے محروم ہو جاتے ہیں.

چنانچہ آپ اگر دھوکے سے بچنا چاہتے ہیں تو کنجوسی ختم کر دیں‘ لالچ مٹا دیں‘ آپ کو کوئی شخص دھوکہ نہیں دے سکے گا‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’ جناب دولت کا دھوکہ اتنا تکلیف دہ نہیں ہوتا جتنی اذیت ناک دوستی‘ رشتے داری اور تعلق دار کی چیٹنگ ہوتی ہے‘‘ خواجہ صاحب نے قہقہہ لگایا اور فرمایا ’’ دنیا کا جو بھی رشتہ لالچ پر مبنی ہو گا اس کا اختتام تکلیف پر ہو گا‘ آپ رشتوں میں سے لالچ نکال دو‘ بیٹے کوبیٹا رہنے دو‘ بیٹی کو بیٹی‘ ماں کو ماں‘ باپ کو باپ‘ بہن اور بھائی کو بھائی بہن اور دوست کو دوست رہنے دو‘ آپ کو کبھی تکلیف نہیں ہوگی‘ ہم جب بیٹے یا بیٹی کو انشورنس پالیسی بنانے کی کوشش کرتے ہیں یا والد صاحب کو تیل کا کنواں سمجھ بیٹھتے ہیں یا پھر دوستوں کو لاٹری ٹکٹ کی حیثیت دے دیتے ہیں تو ہماری توقعات کے جسم پر کانٹے نکل آتے ہیں اور یہ کانٹے ہمارے تن من کو زخمی کر دیتے ہیں‘ رشتے جب تک رشتوں کے خانوں میں رہتے ہیں یہ دھوکہ نہیں دیتے‘ یہ انسان کو زخمی نہیں کرتے‘ یہ جس دن خواہشوں اور توقعات کے جنگل میں جا گرتے ہیں‘ یہ اس دن ہمیں لہو لہان کر دیتے ہیں‘ یہ یاد رکھو دنیا کی ہر آسائش اور ہر تکلیف اللہ کی طرف سے آتی ہے‘ دنیا کا کوئی شخص ہمیں نواز سکتا ہے اور نہ ہی ہماری تکلیف کا ازالہ کر سکتا ہے‘ ہمیں جو ملتا ہے اللہ کی طرف سے ملتا ہے‘ جو چھن جاتا ہے‘ اللہ کی رضا سے چھینا جاتا ہے‘ ہمارا چھینا ہوا کوئی واپس دلا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی شخص اللہ کی مرضی کے بغیر ہم سے کوئی چیز چھین سکتا ہے اور دنیا کے کسی شخص میں اتنی مجال نہیں وہ ہمیں اللہ کی مرضی کے بغیر نواز سکے‘ جب دیتا بھی وہ ہے اور لیتا بھی وہ ہے تو پھر لوگوں سے توقعات وابستہ کرنے کی کیا ضرورت؟‘‘۔

خواجہ صاحب نے اس کے بعد ایک حکایت سنائی‘ ان کا کہنا تھا‘ کسی محلے میں ایک خاندان آ کر آباد ہوا‘ یہ سادہ سے لوگ تھے‘ ان لوگوں نے ایک دن ہمسائے سے چاول پکانے کے لیے دیگچہ مانگا‘ ہمسایوں نے دیگچہ دے دیا‘ ان لوگوں نے چاول پکائے‘ دیگچہ واپس کیا تو اس کے ساتھ جست کا ایک چھوٹا سا پیالہ بھی تھا‘ ہمسایوں نے کہا ’’ یہ پیالہ ہمارا نہیں‘‘ دیگچہ مانگنے والوں نے جواب دیا‘ آپ کے دیگچے نے رات بچہ دیا تھا‘ یہ پیالہ وہ بچہ ہے‘ یہ آپ کا حق ہے‘ ہم آپ کا حق نہیں مار سکتے‘ ہمسائے اس عجیب و غریب لاجک پر حیران رہ گئے لیکن انھوں نے نئے آباد ہونے والوں کو بے وقوف سمجھ کر پیالہ رکھ لیا‘ ان لوگوں نے چند دن بعد دیگچی مانگی‘ یہ دیگچی اگلے دن واپس آئی تو اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی پلیٹ تھی‘ یہ پلیٹ اس دیگچی کی بچی تھی‘ ہمسایوں نے ان لوگوں کی بے وقوفی پر قہقہہ لگایا اور یہ پلیٹ بھی رکھ لی‘ اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا‘ ہمسائے کوئی نہ کوئی برتن مانگتے اور واپسی پر اس کا کوئی نہ کوئی بچہ پیدا ہو جاتا‘ ہمسائے یہ بچہ خوشی خوشی قبول کر لیتے‘ ان لوگوں کو ایک دن دیگ کی ضرورت پڑ گئی‘ آج سے تیس سال قبل دیگ بڑی لگژری ہوتی تھی‘ یہ چند لوگوں کے پاس ہوتی تھی اور لوگ انھیں رشک کی نظروں سے دیکھتے تھے‘ لوگ اس زمانے میں اپنی بیٹیوں کو جہیز میں دیگیں بھی دیتے تھے‘ بہوؤں کی دیگوں کی تعداد ان کے میکوں کی خوشحالی کا ثبوت ہوتا تھا.

ان لوگوں نے دیگ مانگی‘ دو دن گزر گئے لیکن دیگ واپس نہ آئی‘ تیسرے دن ہمسائے نے ان کا دروازہ بجایا‘ صاحب خانہ باہر نکلا‘ دیگ کے مالک نے اپنی دیگ کا مطالبہ کیا‘ ہمسائے نے افسوس سے سر جھکایا اور دکھی لہجے میں بولا ’’ کل رات آپ کی دیگ انتقال فرما گئی‘ ہم نے اسے قبرستان میں دفن کر دیا‘‘ دیگ کے مالک نے خیران ہو کر پوچھا ’’دیگ کیسے مر سکتی ہے‘‘ ہمسائے نے جواب دیا ’’جناب جیسے سارے برتن مرتے ہیں‘‘۔ دیگ کا مالک معاملے کو پنچایت میں لے گیا‘ پنچایت بیٹھی تو مدعی نے پنچایت کے ارکان سے کہا ’’ یہ شخص کہتا ہے‘ میری دیگ مر گئی‘ کیا دیگ مر سکتی ہے؟‘‘ پنچایت نے ملزم کی طرف دیکھا‘ ملزم نے نہایت ادب سے عرض کیا ’’ میں جب بھی اس سے کوئی برتن لیتا تھا‘ وہ برتن میرے گھر میں بچہ دے دیتا تھا‘ میں اس برتن کے ساتھ وہ بچہ بھی اس کے حوالے کر دیتا تھا‘ آپ اس سے پوچھئے کیا میری بات درست ہے؟‘‘ پنچایت نے مدعی کی طرف دیکھا‘ مدعی نے ہاں میں سر ہلا دیا‘ ملزم نے مسکرا کر عرض کیا ’’ جناب اگر کوئی برتن بچہ دے سکتا ہے تو وہ مر بھی سکتا ہے اور اس کی دیگ کل رات رضائے الٰہی سے انتقال فرما گئی‘‘ پنچایت نے قہقہہ لگایا اور کیس ڈس مس کر دیا‘ وہ ہمسایہ بیچارہ اپنے لالچ کے ہاتھوں مارا گیا تھا‘ برتن ادھار لینے والا بنیادی طور پر فراڈیا تھا اور یہ دوسرے فراڈیوں کی طرح ہمسائے کا لالچ بڑھاتا رہا یہاں تک کہ اس نے اپنا ٹارگٹ اچیو کر لیا۔

خواجہ صاحب نے بتایا ’’ دنیا بھر کے فراڈیئے لوگوں کو لالچ دیتے ہیں‘ یہ ہمیشہ چھوٹی سرمایہ کاری کا بڑا ریٹرن دیتے ہیں‘ آپ انھیں کھانا کھلاتے ہیں‘ چائے پلاتے ہیں اور یہ آپ کے بچوں کو پانچ دس ہزار روپے دے جاتے ہیں‘ آپ ان کے گھر چاول کی پلیٹ بھجواتے ہیں اور یہ آپ کے گھر کیک بھجوا دیں گے‘ یہ آپ سے سائیکل ادھار لیں گے اور جواب میں آپ کو نئی نکور گاڑی ادھار دے دیں گے‘ یہ آپ سے دس ہزار روپے قرض لیں گے اور بارہ ہزار واپس کریں گے‘ آپ اضافی دو ہزار روپے کے بارے میں پوچھیں گے تو یہ جواب دیں گے‘ میں نے آپ کے دس ہزار روپے فلاں کاروبار میں لگائے تھے‘ پانچ دن میں پانچ ہزار روپے منافع ہو گیا‘ میں نے تین ہزار روپے خود رکھ لیے‘ دو آپ کا حق ہے‘ آپ کو دے رہا ہوں‘ یوں آپ ان کی ایمانداری کے بھی قائل ہو جائیں گے‘ ان کے اخلاص اور نیکی کے بھی اور اس کاروبار کو بھی کریڈیبل سمجھ لیں گے جو دس ہزار روپے کی سرمایہ کاری پر پانچ دنوں میں پانچ ہزار روپے منافع دے دیتا ہے‘ یوں وہ شخص آپ کے دل میں لالچ کا پہلا بیج بونے میں کامیاب ہو جائے گا‘ وہ اس کے بعد آپ سے ادھار لیتا رہے گا‘ آپ کو منافع دیتا رہے گا یا وقت پر پیسے واپس کرتا رہے گا اور آپ کا اعتبار حاصل کرتا رہے گا یہاں تک کہ آپ اسے سرمایہ کے لیے خود رقم دینا شروع کر دیں گے‘ وہ آپ کی رقم پر آپ کو پورا منافع دے گا.

اور پھر ایک دن بڑی سرمایہ کاری کا موقع آ جائے گا‘ وہ پھولے ہوئے سانس کے ساتھ آپ کے پاس آئے گا اور آپ کو بتائے گا اس کی کمپنی جہاز خرید رہی ہے‘ یہ جہاز آدھی قیمت میں مل رہا ہے‘ کمپنی جہاز خرید لے گی‘ یہ جہاز چار دن میں پی آئی اے خرید لے گی‘ کمپنی کو سو فیصد منافع ہو گا اور یوں ہمارا سرمایہ چار دن میں دگنا ہو جائے گا‘ وہ آپ کو بتائے گا‘ ہم دس لوگ اس سودے میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں‘ ہم ایک ایک کروڑ روپے ڈال رہے ہیں‘ یہ کروڑ روپے چار دن میں دو کروڑ روپے ہو جائیں گے اور یوں آپ اس کے اس ٹریپ میں آ جائیں گے جو اس نے مہینوں کی محنت سے آپ کے اردگرد بنا تھا‘ آپ زیورات بیچیں گے‘ گھر نیلام کریں گے‘ گاڑی فروخت کر دیں گے اور جیسے تیسے کروڑ روپے پورے کر کے اس کے حوالے کر دیں گے لیکن چند دن بعد آپ کی دیگ بھی انتقال کر جائے گی‘ وہ شخص آپ کے کروڑ روپے لے کر فرار ہو جائے گا یا پھر آپ کو ایک ہفتے بعد اس جہاز کے کریشن ہونے یا کمپنی کے دیوالیہ ہونے یا پھر گھر یا بینک میں ڈاکہ زنی کی اطلاع ملے گی‘ یہ آپ کی مرحومہ دیگ کی تدفین بھی کر دے گا اور آپ اس وقت کچھ بھی نہیں کر سکیں گے.

یہ دنیا کے تمام فراڈیوں کی تکنیک ہے‘ یہ کبھی سرمایہ کاری کے نام پر لوٹتے ہیں‘ یہ کبھی ڈبل شاہ بن جاتے ہیں‘ یہ کبھی اسلامی سرمایہ کاری یا مضاربہ کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں‘ یہ کبھی بانڈز کا کاروبار کرتے ہیں‘ یہ کبھی جعلی ڈالرز کے ذریعے لوگوں کو ان کے سرمائے سے محروم کر دیتے ہیں‘ کبھی سونے کی دیگ کی خوش خبری سناتے ہیں اور کبھی کسی مرحوم شہزادے کا خزانہ لے کر مارکیٹ میں آ جاتے ہیں اور اپنے اپنے حصے کے لالچی لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں‘ یہ سب لوگ دیگچی کے بچے دے کر آپ کی دیگ کھانے کے ایکسپرٹ ہوتے ہیں‘ یہ لوگ جب بھی آپ کے سامنے آئیں‘ آپ ایک بات ذہن میں رکھ لیں‘ اگر بادام کا کوئی درخت سڑک پر لگا ہو اور یہ درخت باداموں سے لدا ہوا ہو تو آپ جان لیں اس کے تمام بادام کڑوے ہیں کیونکہ بادام کا درخت اور اس کا میٹھا صرف آپ کا انتظار نہیں کر سکتا۔


بشکریہ روزنامہ 'ایکسپریس '

2014عالمی محرکات کی تبدیلی

0
0

کئی بین الاقوامی مطبوعات میں تیزی سے تغیر پذیری کی جانب گامزن اس دنیا میں وقوع پذیر ہونے والی تذویراتی پیش رفتوں کا جائزہ لیا گیا ہے، ان میں کچھ جائزے عالمی منظرنامے کے ان کلیدی رجحانات سے آگہی کیلئے معاون ہیں جس سے دنیا کی خوشحالی اور استحکام کو خطرات لاحق ہیں۔ گزشتہ مہینوں میں شائع ہونے والی 2 رپورٹوں کی نوعیت اور اطلاقی وسعتیں مختلف تھیں تاہم ان میں عالمی تبدیلی کی فطرت اور سمت کے حوالے سے کئی باتیں بصیرت آمیز تھیں۔ ان میں دنیا کی تصویر کشی اس طرح کی گئی ہے کہ یہ اہم جغرافیائی و تذویراتی تغیرات سے گزر رہی ہے اور اسے مربوط و پیچیدہ چیلنج درپیش ہیں۔

اس سلسلے کی پہلی مطبوعہ رپورٹ لندن میں قائم انٹرنیشنل انسٹیٹوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز (آئی آئی ایس ایس) کا عالمی امور پر سالانہ جائزہ ہے۔ دوسری مطبوعہ اشاعت 2014ء کے عالمی ایجنڈے پر عالمی اقتصادی فورم (ڈبلیو ای ایف) کی رپورٹ ہے، یہ رپورٹ دنیا بھر کے مختلف شعبوں کے 1500 ماہرین کی آراء کے سروے پر مشتمل ہے جس میں حکومتی عہدیدار، تدریس کے شعبے سے وابستہ افراد، کاروباری شخصیات، سول سوسائٹی کے ارکان اور نوجوان شامل ہیں، ان افراد کے سامنے 2014ء اور اس کے بعد کے رجحانات اور چیلنجوں کی نشاندہی کا سوال رکھا گیا تھا۔ امریکی نیشنل انٹیلی جنس کونسل کی جانب سے متبادل دنیاؤں کے حوالے سے مرتب کردہ ایک اور رپورٹ دسمبر2013ء میں جاری کی گئی۔ اس رپورٹ میں 2030ء میں بڑے رجحانات اور کایا پلٹ پیشرفتوں اور اس سے متعلق ممکنہ تناظر کی نشاندہی کی گئی ہے۔ حالانکہ آئی آئی ایس ایس کا تذویراتی سروے گزشتہ برس کی پیشرفتوں پر تبصرہ ہے، اس کے جائزے کا مرکز نگاہ طویل مدتی تذویراتی رجحانات ہیں۔ اس کی 2013ء کی رپورٹ کا بنیادی موضوع یہ ہے کہ سیاسی رہنما اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد درپیش معاملات کی رفتار اور بہاؤ سے حکمت عملی کے تحت نبردآزما ہو رہے ہیں۔

گزشتہ برس کی طرح 2014ء میں حکمت عملی کے تحت بسر کرنے والا سال ہے۔ رپورٹ کے مطابق حکمت عملی پر مبنی ان مختلف ردعمل کا نتیجہ مایوسی کی صورت میں نکلا، جس میں تنازعات کیلئے حل کی کمی اور بین الاقوامی سطح پر تناؤ نامناسب انتظام کاری شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق عارضی حل دیگر غیر اطمینان بخش طرزعمل کیلئے وقت حاصل کرنے کا بہترین طریقہ ثابت ہوا۔ اس بارے میں رپورٹ میں شام کے مسئلے پر بین الاقوامی ردعمل اور مشرق وسطیٰ میں ابھرنے والی تحریکوں کی مثالیں بطور حکمت عملی کی گنجائش کے حوالے سے دی گئی ہیں۔ رپورٹ میں اصرار کیا گیا کہ کئی لوگ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ حکمت عملی ہمہ گیر نہیں اور ناممکن ہوچکی ہے۔ ایسا محض 7/24 کے نیوز میڈیا کے وضع کردہ ماحول کے باعث ہی نہیں ہوا جس نے طویل مدتی منصوبہ بندی کرنے کی ممالک کی استعداد کو کم کردیا ہے بلکہ اس کی وجہ قیادت کی ناکامی اور وسیع ترمقاصد کا تعاقب کیلئے تیار نہ ہونا ہے جس سے پائیدار نتائج حاصل کئے جا سکتے تھے۔

تذویراتی مقاصد مرتب کرنا اور پھر ان پر سختی سے کاربند رہنا ایک بڑے چیلنج کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اسی طرح بڑی طاقتوں اور چھوٹے ممالک کی جانب سے تسلسل کے ساتھ خارجہ پالیسی پر کاربند رہنا بھی ایک چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔ آئی آئی ایس ایس کی رپورٹ میں اس پیشرفت پر اظہار افسوس کے ساتھ بین الاقوامی امور کی موثر تذویراتی طرزفکر کی تبدیلی پر سمجھوتے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس کیلئے حکومتوں کا معاشروں اور حکومتوں کا اپنے رہنماؤں سے زیادہ قربت درکار ہے۔ اس رپورٹ میں دلیل پیش کی گئی ہے کہ تذویراتی نتائج کی حامل پیشرفتوں کیلئے وسیع اور گزشتہ دنوں میں اپنائی جانے والی تذویرات سے زیادہ مربوط تذویرات کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں اس یقین کا اظہار کیا گیا ہے کہ اگر آگے ایسا نہیں ہوا تو دنیا میں تذویراتی انتشار کا تسلسل قائم رہے گا۔

امریکی پالیسی کا جائزہ لیتے ہوئے رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ اوباما کی جانب سے بین الاقوامی امور سے دوری اختیار کرنے اور ملک کے داخلی امور پر توجہ مرکوز کرنے کا طرزعمل امریکہ کی جانب سے دنیا کے دیگر ممالک میں کم مداخلت کے دور کی نوید سناسکتا ہے۔ رپورٹ میں امریکی خارجہ پالیسی کو مسائل کے حل کیلئے ذرائع کی فراہمی کے طور پر یا نئے سمتیں افشاں کرنے کے بجائے ضابطہ کاروں کا سلسلہ قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ ممالک میں عسکری مداخلتوں کی ایک دہائی کے بعد جنم لینے والے جنگ سے اکتاہٹ رجحان اور عسکری قوت کی حدود کو تسلیم کئے جانے اور ساتھ ہی داخلی سطح پر معاشی بحالی کے چیلنج سے گھرا ہونا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2008ء کے اقتصادی بحران کے دورس اثرات مرتب ہوئے اور دنیا کئی اطوار سے تبدیل ہو گئی اور مغرب دنیا کے شورش زدہ علاقوں میں الجھنے سے احتراز کرنے کی راہ پر گامزن ہوا۔ آئی آئی ایس ایس اور ڈبلیو ای ایف کی رپورٹوں میں مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کو دنیا کے سب سے بڑے تذویراتی مسئلے کے طور پر گردانا ہے۔

ڈبلیو ای ایف رپورٹ میں جواب دہندگان نے 2014ء میں مشرق وسطیٰ میں معاشرتی تناؤ کے سب سے برے رجحان کے طور پر نشاندہی کی ہے۔ تینوں مطبوعات میں ایک ہی موضوع کی بازگشت نظر آئی جو کہ تیزی سے تبدیلی سے ہمکنار ہوتے ہوئے دور میں حکومتوں کی کارکردگی پر نمایاں ہوتی ہوئی عوامی ناراضی اور بڑھتی ہوئی توقعات تھیں۔ ڈبلیو ای ایف کی جانب سے جن 10 اہم رجحانات کا حوالہ دیا گیا اس میں کئی اس جانب نشاندہی کرتے ہیں۔ جن میں ایک رجحان عوام کا دنیا کی معاشی پالیسیوں پر کم ہوتا ہوا اعتماد ہے اور یہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جبکہ معاشی تناؤ کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا جارہا ہے۔ اسی سے متعلق ایک اور رجحان آمدنی میں عدم مساوات کا بھی ہے جس نے ترکی سے لے کر برازیل تک احتجاج کو ہوا دی۔ ساختیاتی بے روزگاری بھی ریاستوں کے داخلی استحکام پر اثر انداز ہو رہی ہے اور عالمی تحفظ کیلئے ایک چیلنج بن کر سامنے آرہی ہے۔ ڈبلیو ای ایف رپورٹ کے مطابق عوام کی جانب سے ایک رہنما کی جگہ دوسرے کو لانے کا مطالبہ ان کی نہ پوری ہونے والی ضروریات کی غمازی کے سوا کچھ نہیں۔ عالمگیریت کے ثمرات کی غیرمساوی تقسیم سے ترقی پذیر ممالک میں سماجی اور سیاسی عدم استحکام کا خطرہ بڑھے گا کیونکہ یہاں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے اور ملازمتوں کے مواقع کم ہیں لیکن اگر سخت چیلنج درپیش ہیں تو ڈبلیو ای ایف کی رپورٹ میں آئندہ دور میں مواقع کی بھی نشاندہی کی ہے،2014 ء کے 10 چوٹی کے رجحانات میں ایشیاء میں متوسط طبقے کے ابھرنے کی بھی نشاندہی کی گئی ہے، اس رپورٹ میں کشور مہبوبانی نے اپنا حصہ ڈالتے ہوئے رجحانات کی اس پیشرفت کو حیرت انگیز اور تاریخ کی بھونچال برپا کردینے والی سب سے بڑی تبدیلی قرار دیا۔

ان کا کہنا ہےکہ مثبت پیشرفت سے ایشیاء میں معیار زندگی میں بہتری آنے اور غربت میں کمی ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے تاہم وہ بھی اس حوالے سے محتاط ہیں کہ اس پیشرفت سے دنیا کے وسائل پر طلب کا زور بڑھے گا جسے بہرحال پورا کرنا پڑے گا۔ رپورٹ کے اس حصے میں ایشیاء میں غیرمساوی معاشی ریکارڈ کا تذکرہ نہیں کیا گیا جبکہ خطے کے کچھ ممالک اہم اصلاحات کرکے غیرمعمولی ترقی حاصل کررہے ہیں، دوسری جانب خطے کے دیگر ممالک اصلاحات سے پہلو تہی کرکے معاشی جمود کا شکار ہیں اور اس لئے براعظم ایشیاء کے رواں صدی میں ترقی کی جانب ہونے والے ممالک کی فہرست سے علیحدہ ہو گئے۔ ڈبلیو ای ایف کی رپورٹ میں آئندہ برسوں کیلئے عالمی ایجنڈے کے خدوخال وضع کئے گئے اور زیر زمین چٹانوں سے گیس نکالنے کے عمل کے مستقل اور اس کے تذویراتی و جغرافیائی اثرات پر بھی خامہ فرسائی کی گئی۔

توانائی کے شعبے میں یہ پیشرفت عالمی منظر نامے میں کایا پلٹ ثابت ہو سکتی ہے اور توانائی کے شعبے میں انقلاب کا موجب بن سکتی ہے۔ تینوں رپورٹوں میں اس پیشرفت کے دورس تذویراتی و جغرافیائی اثرات پر روشنی ڈالی گئی۔ امریکہ کے توانائی کے شعبے میں خودانحصاری کے امکانات کو تینوں رپورٹس میں واشنگٹن کی جانب سے اس زمرے میں مشرق وسطیٰ کے مرکز نگاہ کی تبدیلی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ آئی آئی ایس ایس کی رپورٹ نے پہلے ہی اس محرک کو امریکہ کی جانب سے مشرق وسطیٰ کی سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا عکاس قرار دیا گیا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ ماہ امریکی صدر باراک اوباما نے کانگریس کے مشترکہ خطاب کے دوران کہا تھا کہ امریکہ توانائی کے شعبے میں خودانحصاری حاصل کرنے کے ہدف کے سلسلے میں گزشتہ دہائیوں کے مقابلے میں پہلے سے زیادہ قریب ہے۔ ڈبلیو ای ایف کی رپورٹ میں ان ممالک کی فہرست بھی جاری کی گئی ہے جہاں زیرزمین چٹانوں میں گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور تکنیکی طور پر اس کا حصول ممکن ہے۔

اس ضمن میں چین سرفہرست، امریکہ چوتھے جبکہ ارجنٹائن کا نمبر دوسرا ہے۔ این آئی سی گلوبل ٹرینڈذ رپورٹ میں طرز حکمرانی کے خلاء کو تبدیلی کا ایک اہم محرک قرار دیا ہے جو کہ یہ تعین کرے گی کہ آئندہ دودہائیوں میں کس قسم کی دنیا ابھر کر سامنے آئے گی۔ رپورٹ نے ایک کلیدی سوال پیش کیا کہ طاقت کے تقسیم ہونے اور کئی مختلف کرداروں کے معرض وجود میں آنے سے آیا حکمرانی اور بین الاقوامی اداروں کی اشکال معروضی دور کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں وضع کریں گی یا اس کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گی۔ رپورٹ کے مطابق کچھ ممالک جمہوری خسارے کے باعث مشکلات میں گھرے رہیں گے، ان کی ترقیاتی سطح ان کی طرز حکمرانی کی سطح کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے جبکہ دیگر ممالک تیزرفتار سماجی و سیاسی تبدیلی کے موڑ پر مستحکم تبدیلیاں کرنے سے قاصر رہیں گے۔

طرز حکمرانی کے چیلنجوں پر ایک معروف امریکی اسکالر جوزف نائی شائنز نے بھی روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے ڈبلیو ای ایف رپورٹ میں یہ دلیل پیش کی ہے کہ جمہوریتوں کو لازمی طور پر منتخب حکومتوں پر کھوئے ہوئے اعتماد کی بحالی اور انفارمیشن ایج کے نئے چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کیلئے کام کرنا چاہئے تاہم اس موضوع پر آخری الفاظ ایک ایسی کاروباری شخصیت کی جانب سے آئے جس کا نام رپورٹ میں درج نہیں ہے، ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں ایک ایسے جمہوری نمونے کو وضع کرنا ہوگا جس میں رہنماؤں کو معاشرے کے طویل مدتی مفاد کیلئے اپنے قلیل دور حکومت کی قید سے آزادی ملے۔ اس بات کا اطلاق پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک پر بھی ہوتا ہے۔


بشکریہ روزنامہ 'جنگ '

چین کی محنتی قوم

0
0

مشہور چینی کہاوت ہے کہ ’’دورکے رشتے دار سے قریب کا پڑوسی زیادہ اچھا ہے‘‘ اس کہاوت کو چین کے لوگوں نے سچ بھی کر دکھایا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین پاکستان کا ایک پڑوسی دوست جس نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کی دامے درمے سخنے ہرممکن مدد کی ہمیشہ کی طرح آج بھی پاکستان، امریکا، بھارت کی دوستی سے گومگو کی زد میں ہے۔ چینی وزیراعظم کا بیان ہمیں تقویت دیتا ہے کہ ’’پاک چین دوستی نسل درنسل آگے بڑھ رہی ہے۔ پاک چین سفارتی تعلقات کی اس سال 63ویں سالگرہ ہے تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ چین ضرورت کے وقت کام آنے والا حقیقی دوست ہیں۔ پا کستان کے انقلابی شاعر حبیب جالب نے پاک چین دوستی پر ایک نظم میں کہا تھا کہ

چین اپنا یار ہے

اس پر جان نثار ہے

غرض پاک چین دوستی ایک خوبصورت بندھن ہے اس کی صلاحیتوں پر نظر کی جائے تو ہم میں اور ان میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ افسوس بھی ہوتا ہے ہم اتنے اچھے پڑوسی ملک سے کچھ کام کی باتیں کیوں سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے ایک زندہ اور محنتی قوم ہونے کے ناتے چینی عوام چھٹیوں کو سارا دن گھر میں ٹی وی کے آگے بیٹھ کر یا سو کر نہیں گنواتی۔ وہ فالتو اوقات ضایع کرنے کے بجائے ملک کی خدمت کو ترجیح دیتے ہیں۔ شہری ان اوقات میں کوئی فلاحی کام مثلاً پودے لگانا یا ساحل سمندر کے کنارے رضا کارانہ صفائی کا کام انجام دیتے ہیں۔ چینی قوم بڑی باصلاحیت محنتی اور سادہ قوم ہیں، ہزاروں سال قبل جب مغربی قومیں بربریت اور جہالت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں اس وقت فرزندان چین نے مل جل کر بامقصد زندگی بسر کرنا اور بامقصد چیزیں بنانا سیکھ لی تھیں۔

انھوں نے سب سے پہلے کاغذ اور چھاپے خانے ایجاد کر کے دنیائے علم پر ایک احسان عظیم کیا۔ دنیا میں عرصہ دراز تک چین میں کتابوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی چین میں پہلا ناول چھ سو سال ق م میں لکھا گیا۔ چین کی ابتدائی لکھی گئی تاریخ پر زیادہ تر انسانی رنگ غالب ہے۔ 1929 میں سویڈن کے ماہر ارضیات ڈا کٹر اینڈرسن کو چین کے ایک غار میں ایسے انسانی ڈھانچے ملے جو اس بات کا ثبوت تھے کہ چین میں انسانی تاریخ تقریبا 5لا کھ سال پرانی ہے۔ چین کی قدیم بادشاہت مختلف خاندانوں جن میں شنگ خاندان، منگ خاندان ،چاؤ خاندان، تنگ خاندان، سن خاندان، یان خاندان، ہانگ خاندان، بان اور سنگ خاندان شامل تھے، چین مغرب میں 5ہزار میل تک بلند پہاڑیوں اور ریگستانوں میںگھرا ہوا ہے۔ مشرق میں بحر الکاہل تک بکھرا ہوا ہے۔ محل وقوع کے لحاظ سے کافی بڑا ملک ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایے کہ اس کے ایک صوبے سنکیانگ کا رقبہ انگلستان، جرمنی اور فرانس سے بھی بڑا ہے۔

اتنے بڑے محل وقوع کے باوجود چینی فطری طور پر دنیا سے الگ رہنے کے خواہشمند تھے ان کے فلسفیوں کی تعلیمات نے انھیں اور بھی قدامت پسند اور کنارہ کش کر دیا تھا۔ وہ صلح جو اور امن پسند طبیعت رکھتے تھے، دیوار چین بنانے کی وجوہ بھی شاید یہی رہی ہو گی جو انھیں تاتاریوں کے حملے سے بچنے میں بھی مددگار ثابت ہوئی تھی۔ یہ دیوار چین جسے دنیا ’’دی گریٹ وال آف چائنا‘‘ کے نام سے جانتی ہے، یہ دیوار 300 ق م میں شہنشاہ ہو آن لی نے بنوائی تھی اس کی لمبائی 15میل اور چوڑائی 25فٹ ہے اس کی لمبائی کی بناء پر اسے چاند سے بھی دیکھا جا سکتا ہے چین کی اکثریت بدھ مت کی پیروکار ہے۔ ان کے مذہبی فلسفیوں میں لاؤتسی اور کنفیوشس خاصے مشہور ہوئے۔ خاص طور پرکنفیوشس کے افکار نے ان کے خیالات میں کافی تبدیلیاں پیدا کیں حتیٰ کہ اس کی وفات کے بعد بھی ہر شہر میں اس کے نام کے مندر تعمیر کیے گئے آج بھی اس کے معتقدین کی تعداد کروڑوں میں ہے جو پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔

اہل مغرب کے قدم چین کے شہر کینٹین میں سب سے پہلے پڑے اور مشہور زمانہ افیون جنگ کا آغاز ہوا جس میں چینیوں کی شکست کے بعد مغربی ملکوں نے یہاں پر اپنے قدم جمالیے ان مغربی ملکوں نے انھیں اپنے زیرنگیں رکھنے کے لیے افیون کا عادی بنا دیا تھا۔ چینیوں نے ایک طویل جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی۔ ہزاروں چینی انقلابیوںکو ایک دن میں تہ تیغ کیا گیا یہاں تک کہ چائنا کی سڑکیں مدتوں خون شہیداں سے رنگین رہیں، چینی قوم ان شہیدوںکی قربانی کبھی نہیں بھولی جنھوں نے اپنی جانوں کا نذارنہ پیش کر کے وطن کو آزادی سے ہمکنار کیا ان شہیدوںکی یاد میں چینی قوم 4مئی کو یوم بیداری مناتی ہے۔

اپنی آزادی کے بعد چینی قوم نے تیزی سے ترقی شروع کی وہ قوم جو پوری دنیا میں افیونی قوم کے لقب سے مشہور تھی اس نے ثابت کر دکھایا کہ اگر پوری قوم متحد ہو کر حالات کا مقابلہ کرے اس کے لیڈرز نیک نیتی سے ملک کی تعمیر میں حصہ لیں تو وہ ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے۔ وہاں کے عوام اپنے قائد ماوزے تنگ کے افکار پر سختی سے عمل پیرا ہیں جنھوں نے محنت کی عظمت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہر چینی اپنے ہاتھ سے کام کرے کہ کسی شخص کے لیے تھوڑا ساکام کرنا مشکل نہیں ہوتا جو چیز مشکل ہے وہ ہے تمام عمر اچھے کام کرنا، محنت کرو گے تو تجربہ ہو گا اور تجربہ ہی علم کا سونا اور معراج ہے۔

چینی قوم انھی افکار کی روشنی میں نیا انفراسٹرکچر تیارکرنا شروع کیا، پورے ملک میں سڑکوںکا جال بچھا دیا گیا، ریلوے لائنیں، بندرگاہیں اور ائیرپورٹس بنائے گئے تعلیم اور صحت کو سب کے لیے عام کیا گیا۔ دنیا میں سب سے بڑی فورس چین کے پاس ہے اس وقت چین کا گروتھ ریٹ پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے آج دنیا میں ہر گھر، محلہ، دکان، اسپتال، کارخانے غرض ہر جگہ ’’میڈان چائنا‘‘ چھایا ہوا ہے، چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہونے کے باوجود بہبود آبادی کے مسائل کا شکار نہیں ہوا۔ ایک بڑی آبادی والا ملک ہونے کے ناتے سب سے بڑی افرادی قوت چین کے پاس ہے جو تقریبا 50کروڑ کے لگ بھگ ہے یورپ اس وقت چین کی مصنوعات کا سب سے بڑا خریدار ہے۔

اس کے بعد امریکا کا نمبر آتا ہے چین نے یہ مقام اپنی محنت اور ایمانداری سے حاصل کیا۔ اس وقت ہمارے صدر اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی چین کے دورے پر ہیں وہ یقینا وہاں ملک کی امداد کے لیے گئے ہیں لیکن! کاش ہمار ے حکمران تھوڑی سی محنت، ایمانداری اور دانشوری بھی پڑوسی دوست سے لا سکتے کہ چینی دانشور اپنی کہاوتوں اور محاوروں کے لیے بھی خاصے مشہور ہیں۔ ان کی کہاوت ہے کہ ’’اگر ایک سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو مکئی لگاؤ اگر دس سال کی منصوبہ بندی کرناچاہتے ہو تو درخت لگاؤ اور اگر صدیوں کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہو تو اپنے عوام کی تربیت کرو انھیں بہترین تعلیم دو۔‘‘

عینی نیازی  

 

نوجوان سرمایہ کاری کیسے کریں

0
0


ہمارے نوجوان انتہائی باصلاحیت ہیں اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو جنوبی ایشیائی خطے میں پاکستانی نوجوان بہت بہتر ذہنی اور جسمانی قوت کے مالک ہیں ان کا سب سے بڑا مسئلہ مناسب روزگارکی فراہمی ہے۔ اپنے کاروبار کا خود مالک ہونا ایک ایسا خوش آیند خواب ہے جو ہر نوجوان بلاشبہ دیکھتا ضرور ہے۔ بہتیرے شاید اس ایک محض سراب سمجھتے ہوں کیونکہ وہ اس کے بنیادی تقاضوں سے یا تو لاعلم ہوتے ہیں یا محروم ہوتے ہیں۔

سرمایہ ایک کاروبارکی اولین ضرورت ہے انتہائی خوش قسمتی کی بات ہے کہ وزیر اعظم یوتھ بزنس لون اسکیم نے نوجوانوں کے لیے ایک باعزت روزگار کے بڑے گیٹ کی کنجی فراہم کردی ہے لیکن اس بڑے گیٹ سے اندر داخل ہونے کے بعد مرحلہ وار کئی دروازے آئیں گے جن سے گزرنے کے لیے ہر نوجوان کو کچھ ذاتی خوبیاں خود پیدا کرنی ہوں گی۔ وہ ہیں مسلسل محنت، بلند حوصلہ اور ارادے کی پختگی۔ ان خوبیوں کو اگر دیانتداری کا جامہ پہنا دیا جائے تو یہ کسی بھی کاروبار کی کامیابی کی ضمانت بن جاتے ہیں۔

کاروبار کئی قسم کے ہوسکتے ہیں ۔ سائنس، ٹیکنالوجی کی ترقی جدید دنیا کی آسائشوں نے نت نئے کاروبار کی دنیا آباد کردی ہے۔ نہ صرف ترقی پذیر بلکہ ترقی یافتہ ممالک جیسے کہ امریکا، چین، یورپ ان کی معیشت کے ستون چھوٹے کاروباروں سے پیوستہ ہیں صرف امریکا میں 27 ملین چھوٹے کاروبار ہیں۔ چین نے آزادانہ معاشی ترقی کا سفر 1978 سے شروع کیا اور اس ملک میں 1992 تک چھوٹے کاروبار کا جال بچھ گیا تھا۔

ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ کاروبار شروع کرنے کے لیے مقامی حالات، ڈیمانڈ، سپلائی، پوزیشنز کا جائزہ لیں، صنعتی علاقوں میں جائیں اپنے دوست اقارب جو کسی کاروبار سے منسلک ہوں ان کے پاس کچھ وقت گزاریں اور اپنی ذہنی استعداد، قابلیت، معلومات اور دلچسپی کے مطابق کسی کاروبار کا انتخاب کریں۔ وہ کوئی چھوٹا کارخانہ لگا سکتے ہیں جس میں اوزار بن سکیں یا خوراک کی فراہمی کے لیے پیکیجنگ یا ٹریڈنگ جیسے مال ایک جگہ سے دوسری جگہ سپلائی کرنا بھی متوقع شعبے ہوسکتے ہیں۔ خدمات میں کاروبار کے لیے بھی وسیع مواقعے موجود ہیں بوتیک قائم کرنا، خواتین کے لیے بیوٹی پارلر، بچوں کا ڈے کیئر سینٹر، الغرض کئی امکانات موجود ہیں اگر کسی نوجوان کے علاقے میں کھیلوں کے میدان ہیں مگر بچے بیٹ بال، ہاکی یا دیگر اشیا کے خریدنے کے لیے دور جاتے ہوں تو وہاں وہ سپلائی بیس بن سکتا ہے۔ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ہر پراڈکٹ جو مارکیٹ میں موجود ہے اس کے پیچھے ایک پورا مارکیٹ میکنزم موجود ہے۔ خام مال کی تیاری سے مکمل پراڈکٹ تیار ہونے تک اس کی سپلائی چین میں کئی اسٹیک ہولڈرز ہیں جن سے ایک آپ بن سکتے ہیں۔ کیا آپ آپ کو معلوم ہے کہ جو پراڈکٹ آپ نے منتخب کی ہے اس میں ٹیکنالوجی کی کیا اہمیت ہے کیونکہ جو پراڈکٹ جتنی زیادہ عمدہ ٹیکنالوجی سے تیار ہوگی مارکیٹ میں اس کی قیمت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔

کہا جاتا ہے کہ چھوٹے کاروبار میں جدت اور نئے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی بڑی وسعت ہوتی ہے کیونکہ یہ انفرادی گاہکوں کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔ ہنری جان ہینز نے ابتداً چھوٹے پیمانے پر اچار، کیچپ بنائے اور گھوڑا گاڑی پر سپلائی کیے آج Heinz پراڈکٹ ایک عالمی چین اسٹور ہے، سائمن ووڈ ورڈز نے پہلا Yu Susli ریسٹورنٹ ایک جاپانی ریسٹورنٹ کی طرز پر کھولنے کی کوشش کی اور آج اس فوڈ چین سے سب واقف ہیں۔

ایک نوجوان جو کاروبار شروع کرنا چاہتا ہے وہ پہلے بنیادی نکات طے کرلے جیسے کہ (1)۔کیا کام کرنا چاہیے۔ (2)۔کاروبار کا نام سوچیں۔(3)۔اپنی ٹیم بنائیں مگر اختیارات اپنے پاس رکھیں کیونکہ سرمایہ آپ کا ہے۔ (4)۔کاروبار کی بنیادی باتیں لکھ لیں۔(5)۔بزنس پلان بنائیں۔(6)۔آپریشنل پلان بنائیں۔

اس وقت چھوٹے کاروبار کے لیے حکومت کی طرف سے نہ صرف سرمایہ فراہم کیا جا رہا ہے بلکہ یقینی طور پر حکومت اس اسکیم کو کامیاب کرنے کے لیے کوشاں رہے گی اور نوجوانوں کو ہر معاملے میں ممکنہ سپورٹ حاصل رہے گی مگر چونکہ کچھ عرصے کے بعد آپ نے سرمایہ واپس بھی بتدریج کرنا ہے اپنے فکسڈ اور جاری اخراجات نکالنے ہیں اور کچھ منافع بھی کمانا ہے۔ لہٰذا ابتدائی دور آپ سے بہت زیادہ سنجیدگی اور سوچ و بچار کے متقاضی ہیں سب سے زیادہ ضروری مارکیٹ ریسرچ اور سروے ہیں جو آپ لامحالہ کرتے ہیں اگرچہ ہر کاروبار کے لوازمات مختلف ہوتے ہیں لیکن کچھ بنیادی ستون ایسے ہیں جن کے لیے آپ رقم کا تعین پہلے سے کرلیں گے۔ مختصراً ہم چند کا ذکر کردیتے ہیں مثلاً فکسڈ اخراجات یا کاروبار کی لوکیشن کا مرحلہ بہتر ہوگا کہ جو جگہ، بلڈنگ یا کارخانہ کرایہ پر لیں وہ کسی حد تک آپ کی رہائش سے قریب تر ہو اسی فہرست میں مشنری، اوزار، میز، کرسیاں، کمپیوٹر آئیں گے۔ جاری اخراجات میں سب سے اہم ہنرمند کاریگر یا ورکرز وغیرہ، مارکیٹ کا جائزہ لے کر اجرتوں کے متعلق جو معلومات ہو ان کو لکھ لیں اور کم ازکم ڈیڑھ سال کے لیے تنخواہوں کی رقم محفوظ رکھیں۔ زیادہ بہتر صورتحال یہ ہوگی کہ کام کے گھنٹوں کے لحاظ سے ابتداً اجرأت طے کریں کیونکہ ایک پروجیکٹ کے لیے کام کرنے والے ورکرز چاہیے ہیں اس کے بعد سب سے اہم تخمینہ جاری اخراجات کا ہوگا جس میں اندازہ کرنا ہوگا کہ کتنے اخراجات باقاعدگی کے ساتھ کرنے ہوں گے ایک انتہائی ضروری امر فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں نوجوانوں کو لازم ہے کہ جدید دنیا کے نظام کے ساتھ ہم آہنگ رہیں۔ اگرچہ بیشتر نوجوان کمپیوٹر چلانے سے واقف ہوتے ہیں اگر نہیں تو اپنے فکسڈ انوسٹمنٹ میں ایک کمپیوٹر سسٹم خریدنے کی گنجائش پیدا کریں کمپیوٹر چلانا سیکھیں انٹرنیٹ کی سہولت حاصل کریں اگر Wi-Fi آسانی سے میسر نہ ہوسکے تو PTCL کی USB اسٹک خریدیں اور اپنے مجوزہ کاروبار کے بارے میں مکمل آگہی حاصل کریں۔ یہ نوجوانوں کے ذہنوں میں وسعت پیدا کرے گا اور ان کے اندر آگے بڑھنے کے جذبے کو جلا بخشے گا۔ کمپیوٹر آپ کو Cash Flow بنانے میں بڑی مدد دے گا آپ کو قلیل عرصے میں اندازہ ہوجائے گا کہ آپ کا کاروبار کیا رخ اختیار کر رہا ہے۔ بروقت آپ اس پوزیشن میں ہوں گے کہ اپنی حکمت عملی کا دوبارہ جائزہ لیں اور اس کو مارکیٹ عوامل سے ہم آہنگ کرلیں۔

آخر میں ایک بہت مفید مشورہ پیش کیے دیتے ہیں وہ تمام نوجوان جو چھوٹے کاروبار کے لیے قرض حاصل کر رہے ہیں اور اپنا ذاتی کاروبار قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں انھیں چاہیے کہ وہ Facebook یا کسی دوسری سوشل سائٹ پر Small Business Group کے نام سے ایک نیٹ ورک قائم کریں اور انھیں جو بھی مشکلات یا پریشانیاں پیش آرہی ہیں وہ اسے دوسروں کے سامنے لائیں اور اس کے مختلف پہلوؤں پر ڈسکس کریں۔ یقین کریں کہ تبادلہ خیال سے بہتر کوئی حکمت عملی نہیں ہوسکتی ہوسکتا ہے کہ کاروبار قائم کرنے، اسے چلانے یا اس کی مارکیٹنگ کرنے کے سلسلے میں نوجوانوں کو کسی خاص علاقے یا کسی شعبے میں جو رکاوٹیں نظر آرہی ہوں کسی دوسرے کے پاس اس کا بہتر حل موجود ہو۔ نیٹ ورکنگ کریں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کریں اور معاشی پہیے کا فعال حصہ بنیں۔

شاہدہ قیصر 

How to earn money online without investment

0
0


سترہ سالہ اکبر کے والد اچانک فوت ہوئے،تو گھر چلانے کی ذمے داری اس کے کاندھوں پر آپڑی۔ اکبر ابھی ایف ایس سی کر رہا تھا۔اس کی خواہش تھی کہ وہ ایسا کام کرے، جس سے نہ صرف آمدن ہو بلکہ وقت ملنے پر وہ تعلیم بھی جاری رکھے۔ بدقسمتی سے اسے کوئی راہنمائی دینے والا نہ مل سکا۔ لہٰذا اس نے تعلیم چھوڑی اور ایک کمپنی میں بحیثیت سیلز مین کام کرنے لگا۔اکبر ہی نہیں کئی پاکستانی نوجوانوں کے ساتھ یہ المناک ماجرا پیش آتا ہے کہ مناسب راہنمائی نہ ملنے پر وہ اپنی زندگی کی راہ متعین نہیں کر پاتے۔ ذیل میں ایسے کاروبار پیش ہیں، جنھیں جز وقتی یا کل وقتی طور پر اپنانا ممکن ہے۔ یوں تھوڑے بہت تجربے سے بھی آمدن کا نیا ذریعہ کھل جاتا ہے۔ ٭آن لائن اور کمپیوٹر کاروبار: 1۔ آن لائن ٹیوشن… اگر آپ کسی مضمون کے ماہر ہیں تو طلبہ و طالبات کو آن لائن تعلیم دیجیے اور مقررہ فیس وصول کیجیے۔ 2۔ای بے (bay - E) پہ خریدوفروخت کیجیے… نیٹ پر ای بے اشیا خرید و فروخت کرنے کی سب سے بڑی سائٹ ہے۔ وہاں آپ مختلف اشیا خریدنے بیچنے کا بزنس شروع کر سکتے ہیں۔ 3۔ای بکس لکھیے… اگر آپ اچھے لکھاری ہیں تو ای بکس لکھ کر انھیں آن لائن فروخت کریں۔ 4۔ڈومین تاجر بنیے… سوچ بچار کے بعد ایسے ناموں والے ڈومین خریدئیے ،جنھیں آپ بعدازاں اچھی قیمت میں بیچ سکیں۔ 5۔مارکیٹنگ کیجیے… آپ آن لائن افراد یا کمپنیوں کی مصنوعات فروخت کیجیے اور کمیشن پائیے۔ 6۔بلاگر بنیے… اگر آپ اچھا لکھ سکتے ہیں تو بلاگر بن جائیے۔ کئی ویب سائٹس آپ کی تخلیقات خرید سکتی ہیں۔ 7۔آ ن لائن مارکیٹنگ… اگر آپ یہ تجربہ رکھتے ہیں کہ آن لائن مارکیٹنگ کیونکر کی جاتی ہے، تو کمپنیوں کی اشیا کمیشن پر فروخت کیجیے۔ 8۔ورچوئل اسسٹنٹ بنیے… کئی آن لائن کمپنیوں کو ایسے افراد درکار ہوتے ہیں، جو گاہکوں کو ڈیل کر سکیں۔ لہٰذا انھیں بعوض تنخواہ اپنی خدمات پیش کریں۔ 9۔کاروباری ویب سائٹ بنائیے… اس ویب سائٹ پر افراد یا کمپنیوں کی اشیا فروخت کیجیے اور کمیشن پائیے۔ 10۔ڈیٹا انٹری کیجیے… کمپنیوں کا ڈیٹا انٹر کیجیے اور اپنی خدمات کا معاوضہ لیجیے۔ 11۔ای بک شاپ… اپنی ویب سائٹ کھولیے اور اس پر دنیا بھر کے ناشران کی کتابیں کمیشن پر فروخت کیجیے۔ 12۔ ویب ڈویلپر بنیے… کمپنیوں کو ویب سائٹ بنانے میں مدد دیجیے۔ ٭مشاورتی (Consulting) کاروبار: 13۔سیلز کسنلٹنٹ بنیے… اگر آپ کو سیلز کا تجربہ ہے تو کمپنیوں کو بعوض مشاہرہ اپنی تجاویز دیجیے تاکہ وہ اپنی مصنوعات کی فروخت بڑھا سکیں۔ 14۔ایچ آر مشیر بنیے… اگر آپ ایچ آر کے ماہر ہیں تو انسانی وسائل (ہیومن ریسورس) کے سلسلے میں کمپنیوں کو مشورے دیجیے۔ 15۔ٹیکنالوجی مشیر… ٹیکنالوجی کے ماہرین تو اس شعبے میں کمپنیوں کو اپنی خدمات بامعاوضہ فراہم کیجیے۔ 16۔سٹارپ اپ… آپ اس ہنر سے واقف ہیں کہ کوئی نیا کاروبار کیونکر شروع کیا جائے،تو اس ضمن میں لوگوں کو مشورے دیجیے۔ 17۔ماہر حکمت عملی… اگر آپ حکمت عملی (Strategies) بنانے کے ماہر ہیں،تو کمپنیوں کو مدد دیجیے تاکہ وہ اپنا کام بہترکر سکیں۔ 18۔پروجیکٹ مینجمنٹ… کسی بھی منصوبے کا انتظام و انصرام بھی (سپیشلائزیشن) کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہٰذا آپ اس ہنر میں ماہر ہیں، تو اسے کام میں لاتے ہوئے اپنی آمدن بڑھائیے۔ ٭کم لاگت والے کاروبار: 19۔ استعمال شدہ اشیا… متوسط اور نچلے طبقوں میں استعمال شدہ اشیا کی بہت کھپت ہے اور یہ کاروبار کم روپوں سے شروع کرنا ممکن ہے۔ 20۔پیشہ ور آرگنائزر… دوسروں کی تقریبات حتیٰ کہ کاروبار منظم یعنی آرگنائز کیجیے۔ 21۔فنڈ ریزر… بعض مرد و زن فنڈز جمع کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ مختلف منصوبوں اور فلاحی سرگرمیوں کے سلسلے میں فنڈز جمع کرنے کا کام کر سکتے ہیں۔ 22۔ باورچی بنیے… لیکن وہ والا نہیں جو ہوٹلوں میں کھانے پکاتا ہے بلکہ گھر میں کھانے پکا کر کمپنیوں یا افراد کو فراہم کیجیے۔ 23۔چلتا پھرتا مکینک بنیے… اگر آپ کاریں یا موٹر سائیکلیں ٹھیک کر سکتے ہیں تو موٹر سائیکل پکڑئیے اور گلیوں سڑکوں میں گھومے پھرئیے۔ اچھا خاصا کام مل جائے گا۔ 24۔موبائل دکان دار… آج کل وقت کی کمی کے باعث خریداری کرنا کٹھن مرحلہ بن چکا ہے چناںچہ آپ یہ کاروبار شروع کر سکتے ہیں کہ گھروں سے آرڈر لیجیے اور مقررہ فیس لے کر انھیں مطلوبہ سامان فراہم کر دیں۔ 25۔ایک ڈالر (100روپے) دکان… ایسی دکان کھولیے جس میں بیشتر اشیا 100روپے سے کم قیمت رکھیں۔ 26۔محقق بنیے… کئی کمپنیاں کوئی نیا منصوبہ شروع کرنے سے قبل تحقیق کرتی ہیں۔ اگر آپ تحقیق کا تجربہ رکھتے ہیں تو یہ ہنر آپ کے کام آئے گا۔ ٭…٭…٭

How to earn money online without investment


 

وینزویلا: ردانقلاب کے منڈلاتے سائے

Withdrawal of U.S. troops from Afghanistan by Shamshad Ahmed


Pakistan Economy and Privatization by Dr. Shahid Hassan

0
0


 Pakistan Economy and Privatization by Dr. Shahid Hassan

Enhanced by Zemanta

....حیاتیاتی ہتھیار.....Biological Weapons

0
0

حکومت، سیاست اور سیادت کی تاریخ میں جنگیں ایک ناگزیر لازمے کا درجہ رکھتی ہیں۔ حکومتیں عوام و خواص پر، اپنے حلیف اور حریف ممالک پر دھاک بٹھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ عسکری قوت جمع کرتی ہیں۔ جدید سائنس اور سائنس دانوں نے حکومتوں کے لیے ایسے ایسے ہلاکت خیز ہتھیار تیار کیے ہیں جو ایک سے زائد مرتبہ اس کرہِ ارضی کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسی اشیاء کو ہلاکت خیز بنا دیا گیا ہے کہ جن کا تصور بھی عام فرد کے لیے محال ہو مثلاً حیاتیاتی عناصر وغیرہ۔

ان کاوشوں میں سائنس دانوں نے حشرات الارض کو بھی تختہِ مشق بنایا اور انھیں ایسی خطرناک انواع میں تبدیل کر دیا، جو کبھی بھی کہیں بھی ہلاکت تقسیم کر سکے۔ ارضِ پاک میں جب گزشتہ چند برسوں سے ڈینگی کا مرض بڑھا تو ساتھ ہی ساتھ یہ افواہیں بھی گردش کرنے لگیں کہ یہ بیرونی قوتوں کی سازش ہے۔ حقیقتِ حال اللہ بہتر جانتے ہیں یا حکومتوں کے علم میں ہو گی۔ لیکن افواہیں ضرور ہیں اور بقول یوسفی صاحب ہمارے ہاں کی اکثر افواہیں درست بھی ثابت ہو جایا کرتی ہیں۔ شُنید ہے کہ امریکا کے ’’ڈی کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹس‘‘ بتاتے ہیں کہ 1956ء سے1958ء تک امریکی فوج نے سوانا، جارجیا اور اے وون پارک فلوریڈا میں ایسے مچھر اور حشرات چھوڑے تھے جنھیں ’’حیاتیاتی ہتھیار‘‘ کے طور پر تجربہ کیا گیا تھا۔ اسی دوران علاقے کے مکین حیرت انگیز طور پر مختلف النوع امراض کے نرغے میں رہے۔ مثال کے طور پر شدید بخار، برونکائٹس، ٹائیفائیڈ، سیفلائٹس وغیرہ۔ نیز اسی دوران کئی اموات بھی ہوئیں۔

’’کیوبا‘‘ کئی دہائیوں سے امریکی ستم ظریفی کا شکار بتایا جاتا ہے۔1981ء میں کیوبا میں ڈینگی بخار وبا کی طرح پھیلا۔ اس نے کم از کم 158 شہریوں کی جان لی۔ ان میں سے51 بچے تھے۔ کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو نے اس وبا کا ذمے دار امریکا کو ٹھہرایا اور اسے کیو با کے خلاف امریکی حیاتیاتی جنگ قرار دیا۔ امریکا نے اگرچہ 1972ء کے حیاتیاتی کنونشن پر دستخط تو کیے ہیں لیکن امریکا سمیت کئی ممالک پر گاہے بہ گاہے حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری کا الزام عائد ہوتا رہا ہے۔ امریکا اور مغربی مما لک دیگر کئی ممالک سے تو مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس طرح کے الزامات کے لیے اپنی تنصیبات کا غیر ملکی ماہرین اور مندوبین سے معائنہ کروائیں لیکن وہ خود اپنے لیے یہ اصول پسند نہیں کرتے۔ کیوں؟

اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو 1800ء سے قبل کی ایسی کوئی مثال نظر نہیں آتی جب حشرات کو بہ طور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہو البتہ دیگر حیاتیاتی مظاہر کو جنگی حکمتِ عملی کے طور پر استعمال کرنے کی مثالیں موجود ہیں۔ 600 قبل مسیح (ق م) کی بات ہے جب ایتھنز کے ’’سالون‘‘ نے اپنے مخالفین کو زک پہنچانے کے لیے دریا کے پانی کو حدیقی پودے کی جڑ سے زہریلا کر دیا تھا۔ ’’کیرا‘‘ کے لوگوں نے جب وہ پانی پیا تو وہ شدید اسہال میں مبتلا ہو گئے۔ یوں سالون نے وہ جنگ آسانی سے جیت لی۔200 قبلِ مسیح میں دوسری ’’پیونک جنگ‘‘ کے دوران تاریخ کے عظیم کمانڈر ’’ہنی بال‘‘ کے سواروں کے رسالہ دار ’’جنرل مھابل‘‘ نے عجیب حکمتِ عملی اپنائی۔ اُس نے جنگ کے دوران محاذ سے اس طرح پسپائی اختیار کی جیسے اُسے شکست ہوئی ہو۔ پیچھے ہٹتے ہوئے اس نے جلدی میں شراب کا ایک ذخیرہ بھی چھوڑ دیا۔

دشمنوں نے مال غنیمت سمجھ کر فتح کے جشن میں خوب ہی مفت کی شراب لُنڈھائی لیکن جنرل نے اس شراب کو ’’مینڈاگورا ‘‘ کی جڑ کے شیرے سے لبریز کر دیا تھا۔ اسے پیتے ہی دشمن گہری غنودگی میں چلے گئے۔ جنرل مھابل واپس پلٹا اور سوئے ہوئے مدہوش دشمنوں کی گردنیں اتارنا اُس کے لیے کچھ بھی دشوار ثابت نہ ہوا اور یہ 1343ء کی بات ہے جب منگول تاتار جانی بیگ نے بحر اسود کے کنارے کریمیا، یوکرین کے سواحلی شہر کُفّہ (موجودہ فیوڈوسیا) کا محاصرہ کیا۔ یہ محاصرہ تین برس تک جاری رہا۔ تین برس کے محاصرے کے بعد جانی بیگ نے گوپھن کے ذریعے طاعون ذدہ اجسام اور مُردوں کو شہر پناہ کی دیواروں پر پھنکوا دیا۔ شہر میں طاعون پھوٹ پڑا۔ لوگ شہر چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ منگولوں نے باآسانی فتح پائی لیکن یہ واقعی یورپ میں طاعون پھیلنے کا سبب بنا 1348ء سے1350ء یورپ کا وہ تاریک دور ہے جب یہاں ہر طرف طاعون کا دور دورہ تھا۔ حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کی یہ پہلی باقاعدہ مثال ہے پھر تو یہ سلسہ چل ہی پڑا تھا۔1763ء میں استعماری قوتوں نے بھارت میں چیچک اسی طرح پھیلائی تھی۔

حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کی تاریخ مہذب دنیا کے سیاہ کارناموں سے اَٹی پڑی ہے۔ حشرات کو بہ طور ہتھیار استعمال کرنے کی پہلی باقاعدہ مثال امریکی سول وار کے دوران کی ہے جب ’’ہارلیکوئن‘‘ کو استعمال کیا گیا۔ اس کیڑے نے فصلوں کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔ بہ ہر حال یہ الزام بھی کبھی ثابت نہیں کیا جا سکا۔ جاپان نے چین سے جنگ کے دوران 1937ء سے1945ء تک متعدد مرتبہ کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار استعمال کیے۔ روس بھی اس طرح کے تجربات میں کسی سے پیچھے نہ رہا۔ اس مقصد کے لیے روس نے بھی دیگر مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کی طرح تمام تر تجربات انسانوں ہی پر کیے۔ عام شہریوں، جنگی قیدیوں اور سیاسی قیدیوں کو چلتی پھرتی تجربہ گا ہ بنا دیا گیا۔1941ء میں ایک ایسا ہی عفونت زدہ قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کی وجہ سے منگولوں کے علاقے میں وبا پھوٹ پڑی۔ روس نے فوراً ہی وبا پر قابو پا لیا۔ دراصل روسیوں نے تمام عفونت زدہ منگولوں کو بم باری کر کے ختم کر دیا۔ یوں وبا بھی ختم ہوئی۔

امریکیوں نے تو خیر ابتداء ہی سے حیاتیاتی ہتھیاروں کی اہمیت کو محسوس کر لیا تھا۔ وہ 1920ء ہی سے اس ’’کارِعفونیت‘‘ میں مصروف ہیں۔ جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد اگست 1945ء میں امریکا نے ’’مین ہٹن‘‘ پراجیکٹ کے لیے4000 شہریوں، فوجیوں اور سائنسدانوں کا انتخاب کیا۔ جنگ کے دوران صرف حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری پر امریکا نے ساڑھے 4سے 5کروڑ ڈالر خرچ کیے تھے۔ سرد جنگ کے دوران ہر دو جانب سے کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کے الزامات سامنے آئے۔ چین نے امریکا پر الزام لگایا تھا کہ اس نے شمالی کوریا پر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں۔ 1952ء میں چین نے ایسے کئی شواہد جمع کیے تھے۔ ویت نام کی جنگ کے دوران بھی ایسے کئی الزامات سامنے آئے۔ امریکی جنرل اسٹب نے 1962ء میں کانگریس کو بتایا کہ ایسے حشرات تیار کیے گئے ہیں جو موسم اور دیگر حشرات کے مقابلے میں زیادہ سخت جان ہیں۔ لیکن اس بارے میں حکومتیں ابتدا ہی سے شدید اخفا کا شکار ہیں۔1975ء کے بعد سے تو جب معاہدے پر دستخط ہو گئے اور حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری غیر قانونی قرار پا گئی تو یہ تمام تر معاملہ انتہائی اخفا میں چلا گیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ ترقی یافتہ ممالک ترقی کی کس منزل پر ہیں،انعام یافتہ مصنف اور یونی ورسٹی آف یومنگ کے پروفیسر ’’جیفری اے لاک ووڈ کی کتابیں اس موضوع پر وقیع سمجھی جاتی ہیں۔

آج کے دور کی ایک بد نما حقیقت یہ بھی ہے کہ دنیا بھر کی طاقت ور حکومتیں ملٹی نیشنلز کے اثر سے خالی نہیں۔ کچھ پسِ پردہ ہاتھ اور عوامل ہوتے ہیں جو اشرافیہ کو نوازتے ہیں اور انھیں اشرافیہ بناتے ہیں۔ وہ حکومت میں آنے کے بعد ان بڑی کمپنیوں کے خلاف کوئی قانون سازی کس طرح کر سکتے ہیں؟ جب بھی کہیں کوئی وبا پھوٹتی ہے تو اس کا صاف اور سیدھا مطلب ہے، بڑا دھندا، بڑی کمائی۔ فارما کمپنیوں کی دواؤں، انجیکشنوں، ویکسینوں کی دھڑا دھڑ فروخت۔ اسپتالوں ڈاکٹروں کی کمائیاں۔ کیا اس سے انکار ممکن ہے؟ کیا یہ تمام تر سرمایہ کاری جدید سائنس کے بغیر اور مہذب ممالک کی حکومتوں کے بغیر ممکن ہے؟

برطانوی لیبارٹری ’’اوکزی ٹیک‘‘ نے ڈینگی بخار سے نپٹنے کے لیے جینیاتی متغیر مچھر تیار کیے۔2009ء میں یہ جزائر غرب الہند کے جزیرے ’’گرینڈ کے مین‘‘ میں چھوڑے گئے۔2010ء میں ایسے 30 لاکھ مچھر خفیہ طریقے سے چھوڑے گئے۔ سوال یہ ہے ملٹی نیشنلز، کو حکومتوں کو اور سائنس دانوں کو کیا یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایسے خطرناک اور جینیاتی طور پر متغیر حشرات دنیا بھر میں چھوڑتے پھریں جو انسانی لُہو پر پلتے ہوں۔ کیا انسانیت کے یہ دشمن تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ کہلائے جا سکتے ہیں؟

Biological Weapons

Why Should We Respect Our Teachers?

0
0






 Why Should We Respect Our Teachers?



Enhanced by Zemanta

میاں نواز شریف اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ

0
0

حیران کن امر ہے کہ حامد کرزئی پاکستان کو بدترین تنقید کا نشانہ بنانے کے باوجود پچھلی حکومت کی طرح موجودہ حکومت کا بھی منظورِ نظر ہے۔افغانستان کا موجودہ صدر جو اسلام آباد کی مہمان نواز ی سے برسوں مستفید ہوتا رہا، اپنا گھر بار، بچے، سیاسی مستقبل اور جان کا تحفظ یعنی سب کچھ اس سرزمین کے صدقے حاصل کرتا رہا۔ آج کل پاکستان کے بارے میں زہر افشانی کے سوا منہ کھولتا ہی نہیں۔ میں نے پچھلے ایک آرٹیکل میں ذکر کیا تھا کہ ترکی میں حامد کرزئی نے آدھے گھنٹے کے قریب عسکری اور انٹیلی جنس اداروں کی افغانستان کے خلاف مبینہ سازشوں کا بے لاگ ذکر کیا اور کیسے وزیر اعظم پاکستان کی موجودگی میں ہمارے نمایندگان معذرت خواہانہ انداز میں وضاحتیں کرتے رہے۔ کیا اس وقت یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ پاکستان کے نقطہ نظر کی وضاحت کی جاتی اور الزام تراشی کے اس کھیل کو پاک فوج کی طرف پھینکنے کے بجائے چھکا لگا کر کابل کے صدارتی محل کے اوپر پھینک دیا جاتا۔ مگر ہندوستان کے بارے میں پالیسی اہداف کی تکمیل میں یہ رد عمل رکاوٹ کا باعث بن سکتا تھا۔

وزیر اعظم نواز شریف اس تیسرے دور میں جو بڑا کام کرنا چاہتے ہیں‘ اس کا ایک کونا دہلی کے ساتھ انتہائی برادرانہ تعلقات کا قیام ہے اور دوسرا سرا کابل کو ہر حال میں خوش رکھنے کی شعوری کوشش ہے۔ پاکستان کے لیے یورپی یونین کی طرز پر جنوبی ایشیا میں ایک خاص ماحول پیدا کرنے کی جو خواہش اور پالیسی موجودہ حکومت اپنائے ہوئے ہے اس میں ہمسائیوں کے ساتھ منہ ماری یا سخت گیر رویہ کسی طور صحیح بیٹھتا نہیں ہے۔ موجودہ حکومت پاکستان کو ایک تجارتی اور توانائی کی راہداری میں بدلنا چاہتی ہے۔ جو دہلی سے چلنے والے مال کو یورپی مارکیٹ میں پہنچانے اور اس طرف سے آنے والی اشیاء کو ہندوستان اور اس سے آگے بھجوانے کا رستہ بن سکے۔ کابل، دہلی اور اسلام آباد وہ بنیاد ہے جس پر جنوبی ایشیا کے اس پرانے تصور کی نئی عمارت تشکیل ہوتی ہے۔ میاں نواز شریف کا خیال ہے کہ وہ ہر کام کر سکتے ہیں۔ علاقے میں اتنی بڑی تبدیلی لانے کے بعد وہ سیاسی طور پر اس انتہائی مقبولیت کو بھی پا لیں گے کہ ان کے سیاسی مخالفین ان کے سامنے بونے نظر آئیں گے۔

خود کو سیاسی طور پر مستحکم کرنے کے لیے دفاعی اور خارجہ امور پر توجہ ہی نہیں دی جا رہی۔ روایتی سیاسی پیچ و خم سے بنے ہوئے داؤ پیچ بھی کھیلے جا رہے ہیں۔ اپنے پچھلے دو ادوار سے اگر نواز لیگ نے کچھ سیکھا ہے تو یہ کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کو کم کیے بغیر وہ ذہنی طور پر خود کو ہمیشہ غیر محفوظ تصور کریں گے۔ آپ اس کو اصلی جمہوریت سے محبت بھی کہہ سکتے ہیں اور طاقت جمع کرنے کا خبط بھی۔ مگر اس مرتبہ میاں نواز شریف کی سیاسی کتاب میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ طاقت کے توازن کے فارمولے پر عمل در آمد کی کوئی گنجائش نہیں۔ ترکی کے قائد رجب طیب اردگان سے متاثر ہو کر انھوں نے اپنے تجربات کو باقاعدہ پالیسی کی شکل دیدی۔ ابھی تک ان کو اس میدان میں کافی کامیابی حاصل ہو چکی ہے۔ بہت سے ایسے معاملات جہاں پر عسکری قیادت روایتی طور پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا کرتی تھی اب وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے گرد ان کے پسندیدہ سیاسی سرکاری افسر خود سے طے کر رہے ہیں۔ اپنی آزاد فیصلہ سازی کا اظہار وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل مشرف کے معاملے پر واضح کر دیا ہے۔ مستند اطلاعات کے مطابق موجودہ آرمی چیف کی طرف سے اس معاملے پر وزیر اعظم نواز شریف نے کسی قسم کے غیر معمولی تعاون سے انکار کر دیا ہے۔ ہاں یہ ضرور کہا ہے کہ جنرل مشرف کو جیل میں جانے کے بعد شاید صدارتی اختیارات کے ذریعے معافی دلوا دیں۔ مگر مقدمات سے نجات اور جیل جانے سے بچانے میں وزیر اعظم نواز شریف نے کسی قسم کا کوئی کردار ادا کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔

یہ اس پالیسی میں بڑی تبدیلی ہے جو میاں صاحبان نے پچھلے آرمی چیف کے دور میں اپنائی ہوئی تھی۔ اس دور میں چار پانچ مرتبہ وزیر اعلی پنجاب اور وزیر داخلہ چوہدری نثار، جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقاتوں میں جنرل مشرف کے معاملے کو دوستانہ انداز سے حل کرنے کے مختلف رستے تلاش کرتے رہے تھے۔ اس وقت فوج کی قیادت کو یہ پیغام دیا جا رہا تھا کہ میاں نواز شریف اپنے تیسرے دور میں خواہ مخواہ کے تنازعوں میں پڑ کر سول اور ملٹری تعلقات کا ماحول خراب نہیں کرنا چاہتے۔ مگر وہ پالیسی تبدیل ہو گئی ۔ اس کے علاوہ سفارتکاروں کی تعیناتی اور وزیرستان میں آپریشن جیسے معاملات پر بھی میاں نواز شریف نے خود کو واحد فیصلہ ساز قوت کے طور پر متعارف کروا دیا ہے۔ نواز لیگ کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ موجودہ موافق ماحول میں وہ تمام ایسے کام کر سکتی ہے جو شاید اس سے پہلے ممکن نہ تھے۔ آنے والے دنوں میں آپ دفاعی بجٹ، اسٹیبلشمنٹ کی مراعات، ترقی اور تعیناتی کے نظام پر موجودہ حکومت کی طرف سے بڑے اقدامات کی توقع کر سکتے ہیں۔ میاں نواز شریف ذہنی اور عملی طور پر خود کو سیاسی طاقت دلوانے کے لیے اس رستے پر چلنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔ ان کے نزدیک قابو میں لائی ہوئی اسٹیبلشمنٹ ان کی سیاسی طاقت کا اظہار بھی ہے اور اس کے تحفظ کی ضمانت بھی۔ یہاں پر دو سوال اٹھائے جا سکتے ہیں۔ پہلا کیا میاں نواز شریف کی یہ پالیسی جمہوری اصولوں کے خلاف ہے؟ اور دوسرا کہ طاقت کی سیاست کے اس کھیل میں ان کی پالیسی سیاسی مخالفین بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں کیا ہے؟ ان دونوں سوالوں کا جواب اگلے کالم میں دیا جائے گا جو اس سریز کا اختتامی کالم ہو گا۔

Enhanced by Zemanta

افرادی قوت اور ترسیلات زر

0
0

حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے سعودی عرب اور خلیجی ملکوں کو 6 لاکھ تربیت یافتہ پاکستانی کارکنوں کی خدمات فراہم کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستانی حکام نے گزشتہ دنوں سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کے ہمراہ آئے ہوئے سعودی ترقیاتی فنڈ کے وفد سے ابتدائی بات چیت مکمل کرلی ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے پاکستانی کارکنوں کی تربیت پر آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کویت اور قطر نے بھی پاکستانی کارکنوں کی درآمد پر عاید پابندی ختم کردی ہے۔ قطر نے گزشتہ 8 سال اور کویت نے گزشتہ 12سال سے پاکستانی افرادی قوت پر پابندی عاید کر رکھی تھی۔ 1990 میں کویت عراق جنگ کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی اپنا مال و متاع، بھری ہوئی دکانیں، ورکشاپس اور دیگر تجارتی و کاروباری ذرایع ہنگامی طور پر چھوڑ کر پاکستان واپس آگئے تھے۔

اس دوران بہت سے پاکستانیوں کو شدید نقصان بھی اٹھانا پڑا تھا۔ لیکن بعد میں بحالی کا عمل شروع ہونے کے ساتھ بڑی تعداد میں پاکستانی کویت لوٹ گئے تھے۔ کویت جانے والے پاکستانیوں نے وہاں کی تعمیر وترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہی حال مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک میں جانے والے پاکستانیوں کا ہے۔ مشرق وسطیٰ جانے والے پاکستانیوں کے عمل کا آغاز 1973 کے بعد سے ہوا تھا، جب تیل کی پیداوار کے حامل عرب ممالک نے پٹرولیم کی قیمتیں 2 ڈالر فی بیرل سے بڑھاکر 10 ڈالر فی بیرل کردیا تھا۔ اور ان ملکوں میں دولت کی ریل پیل شروع ہوچکی تھی۔ ان ہی دنوں ترقی یافتہ ممالک کی بڑی بڑی کمپنیوں نے ان ملکوں میں ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا جس کے لیے بڑی تعداد میں افرادی قوت کی ضرورت تھی۔ لیکن اس وقت کی حکومت نے کارکنوں کو باقاعدہ تربیت دے کر انھیں فنی و تکنیکی تربیت سے لیس کرکے برآمد کرنے کے بجائے بحیثیت مزدور انتہائی کم تربیت یافتہ بلکہ ناخواندہ افراد کو بھی بیرون ملک جانے دیا ۔ جس کے باعث جلد ہی وہاں منصوبوں کی تکمیل کے بعد ان لوگوں کی ضرورت باقی نہ رہی اور 1980 کی دہائی میں بڑی تعداد میں پاکستانی وطن واپس لوٹ آئے۔

پاکستان کو اس وقت بڑی تعداد میں بیرونی زرمبادلہ کی ضرورت ہے اور بیرون ملک پاکستانی مختلف ممالک میں جاکر مختلف معاشی سرگرمیوں میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن خصوصاً مشرق وسطیٰ کے ممالک میں پاکستانی غیر تربیت یافتہ کم تعلیم یافتہ ہونے کے باعث زیادہ معاوضہ حاصل نہیں کرپاتے۔ جس کی وجہ سے انھیں بہت سے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے بہت سے پاکستانی دیار غیر میں غیر قانونی طور پر مقیم ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے سعودی عرب نے اپنے ہاں مقیم غیر ملکی کارکنوں کی اس بات پر پکڑ دھکڑ شروع کی تھی کہ آیا وہ وہاں رہنے اور کام کرنے سے متعلق تمام قانونی شرائط پوری کرتے ہیں یا نہیں؟ تو بہت سے پاکستانیوں کو کئی قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ چند دن قبل کی یہ خبر اطمینان بخش ہے کہ سعودی عرب نے اپنے ہاں مقیم غیر قانونی پاکستانیوں کو قانونی درجہ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ سعودی عرب میں 20 لاکھ سے زاید پاکستانی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ تمام پاکستانی وہاں کے معاشرے میں مدغم بھی ہوچکے ہیں۔ عربی زبان باآسانی بول لیتے ہیں۔ وہاں پر چھوٹا موٹا کاروبار اور ملازمت غرض جس شعبے میں بھی کام کر رہے ہیں یہ تمام پاکستانی قابل تحسین خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اور یہ بات بھی ہے کہ سعودی عرب میں مزید افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ لیکن دیگر ممالک کے شہریوں نے بھرپور کوشش کرکے اپنی جگہ بنا رکھی ہے اور وہ لوگ مزید افرادی قوت لاتے چلے جا رہے ہیں۔ جب کہ پاکستانی ناخواندہ کم ہنرمند اور غیر تربیت یافتہ ہونے کی بنیاد پر دیگر ممالک کی طرح تیزی سے پاکستانیوں کی آمد کا سلسلہ جاری نہیں ہے۔ اب جب کہ حکومت نے اس بات کا تہیہ کرلیا ہے کہ سعودی عرب، کویت، قطر وغیرہ کو افرادی قوت برآمد کی جائے گی اور انھیں تربیت بھی فراہم کی جائے گی تو اس عمل کو انتہائی شفاف طریقے سے انجام دینے کی ضرورت ہے۔

یہ بات درست ہے کہ افرادی قوت ملکی تعمیر و ترقی کے لیے انتہائی اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان جسے زرمبادلہ کی انتہائی سخت ضرورت ہے اپنی افرادی قوت برآمد کرنے پر مجبور ہے۔ اس وقت پاکستان کو لگ بھگ سالانہ 12 ارب ڈالرز تک کا زرمبادلہ حاصل ہورہا ہے جسے دگنا کرنے کے لیے موجودہ حکومت کوشاں ہے۔ ملک میں جہاں ہر تیسرا شخص بیروزگار نظر آرہا ہے خصوصاً دیہی علاقوں میں مستور بیروزگاری بڑے پیمانے پر موجود ہے جوکہ پاکستان کی زرعی معیشت کی لازمی جز کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ پاکستان جہاں چھوٹے پیمانے پر زمینیں رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ وہاں ایک کنبے کے جتنے بھی افراد ہوتے ہیں وہ ایک چھوٹے سے قطعہ اراضی پر ہی اپنی محنت کر رہے ہوتے ہیں۔ جہاں 7 یا 8 افراد اسی چھوٹی سی زمینداری پر گزارہ کر رہے ہوتے ہیں۔ جب ملک میں صنعتی ترقی ہو رہی تھی نئے نئے کارخانے اور ملیں قائم ہو رہی تھیں ان دنوں یہ افراد دیہی علاقوں سے نکل کر قریبی قصبوں یا شہروں میں جاکر ملوں اور کارخانوں میں ملازمتیں اختیار کرلیتے تھے۔ لیکن اب ایسی صورتحال نہ ہونے کے باعث زرعی شعبے میں مستور بیروزگاری پائی جاتی ہے۔ لہٰذا حکومت اس طرف توجہ دے کر ایسے افراد کو فنی تربیت مہیا کرے تاکہ وہ خلیجی ممالک جاکر زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ بھجوا سکیں۔

اس کے علاوہ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ حکومت خلیجی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ایسی سہولیات فراہم کرے یا ایسے ذرایع کی طرف راغب کرے جس سے ان ملکوں میں مقیم پاکستانیوں کے لیے زرمبادلہ بھیجنے میں آسانی ہو۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک پاکستانی بینک نے سعودی عرب کے ایک بینک کے ساتھ شراکت کا معاہدہ کیا ہے تاکہ سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کو ملک میں رقوم کی ترسیل میں آسانی فراہم ہو۔ اس طرح ان دونوں بینکوں کے اشتراک سے پاکستانیوں کو سعودی عرب کے ہر اطراف سے پاکستان رقوم کی ترسیل میں انتہائی آسانی میسر آجائے گی۔ زرمبادلہ کی ترسیل کے مسائل پر قابو پایا جاسکے گا۔

گزشتہ نومبر میں پاکستان اور کویت کے مابین افرادی قوت بھجوانے کے حوالے سے معاہدہ ہوا تھا۔ کویت میں ایک لاکھ 20 ہزار پاکستانی برسر روزگار ہیں۔ حکومت کو سعودی عرب کویت قطر اور دیگر کئی ممالک کو مین پاور ایکسپورٹ کے لیے مختلف سیکٹرز پر بھرپور توجہ دینا ہوگی۔ پاکستانی افرادی قوت کی سب سے بڑی برآمدی مارکیٹ سعودی عرب ہے۔ جہاں سے پاکستانی ورکرز سب سے زیادہ رقوم وطن بھجواتے ہیں۔ جولائی 2013 تا جنوری 2014 کے دوران سعودی عرب سے 2 ارب 59 کروڑ 66 لاکھ 60 ہزار ڈالرز پاکستان ترسیل کی گئیں جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی مدت یعنی 7 ماہ کے دوران 2 ارب 19 کروڑ 20 لاکھ 20 ہزار ڈالرز کی ترسیلات زر ہوئیں۔ رواں مالی سال جولائی 2013 تا جنوری 2014 کے 7 ماہ کے دوران بیرون ملک پاکستانی ورکرز کی جانب سے 9 ارب 3 کروڑ 34 لاکھ 10 ہزار ڈالر کی ترسیلات زر ہوئیں۔ جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی مدت کے دوران 8 ارب 20 کروڑ 63 لاکھ 40 ہزار ڈالرز کی ترسیلات زر کے ساتھ 10.08 فیصد اضافہ ہوا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو افرادی قوت کو ضروری اور فنی و تکنیکی تربیت کی فراہمی کے ساتھ برآمد کی جانب بھرپور توجہ دینا ہوگی تاکہ ملک کو زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ حاصل ہوسکے جس سے ترسیلات زر میں اضافہ ممکن ہوسکے گا۔

Viewing all 4314 articles
Browse latest View live