Valentine's Day in Pakistan
↧
↧
کراچی ادب میلہ
گزشتہ برس کی طرح اس بار بھی جرمنی، اٹلی اور فرانس کے سفیروں اور برٹش کونسل کے نمائندے نے افتتاحی اجلاس میں شرکت کی اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا جن کا لب لباب یہی تھا کہ ایسے نامساعد حالات میں اس طرح کے میلے کا کامیاب انعقاد جہاں ایک طرف منتظمین کی محنت اور صلاحیت کا ترجمان ہے وہاں عوام کی پر جوش شمولیت بھی بے حد حوصلہ افزا ہے کہ اس سے ان کی ہمت حوصلے اور فنون لطیفہ سے محبت کی شدت کا اظہار ہوتا ہے۔ تینوں نے گزشتہ سال کے دوران لکھی گئی کتابوں پر ایوارڈز کے سلسلے شروع کیے ہیں جن کا اعلان ان کے خطاب کے دوران کیا گیا اور ہر تقریر کے بعد متعلقہ ایوارڈ جیتنے والوںکو پیش بھی کیے گئے مرکزی میزبانوں یعنی امینہ سید اور ڈاکٹر آصف فرخی کے علاوہ مرکزی سپانسر HBL کے نمائندے نے بھی خوش آمدیدی کلمات کہے لیکن حاصل غزل شعر مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی کا کلیدی خطبہ ہی تھا جو اپنے عظیم دادا کی نسبت نہ صرف طویل قامت تھے بلکہ انھوں نے کپڑے بھی پورے پہن رکھے تھے۔
انھوں نے بڑے دلچسپ اور عام فہم انداز میں برصغیر کی مشترکہ تاریخ اور تہذیب کے پس منظر میں آزادی کے بعد دونوں ملکوں کی صورت حال کا جائزہ پیش کیا اور اس بات پر زور دیا کہ لڑائی جھگڑے سے معاملات نہ کبھی سلجھے ہیں اور نہ سلجھیں گے۔ سو دونوں ملکوں کو ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اب Region کی سطح پر سوچنا چاہیے کہ ساری دنیا اسی کی طرف جا رہی ہے اور یہ کہ خارج کے حالات کے ساتھ ساتھ اپنے اندر کی طرف بھی جھانکنا اور دیکھنا چاہیے کہ ہم عالمی برادری کے ممبر تو بن گئے ہیں مگر خود اپنے اپنے ملکوں کے اندر موجود تہذیبوں، زبانوں اور قومیتوں کے ساتھ مکالمہ نہیں کرتے۔ ان کی اس بات نے مجھے اس لیے بھی متاثر کیا کہ آج کل ہم بالخصوص تعلیم کے حوالے سے اندھا دھند اپنے بچوں کو نیشنل بنائے بغیر انٹرنیشنل بنانے کے خبط میں مبتلا ہیں جس کے نتیجے میں ہم اندر کی سطح پر مضبوط ہونے کے بجائے انتشار کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
پروگرام کے آخر میں علامہ اقبال کی مشہور غزل ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘ پر ناہید صدیقی کا ایک رقص رکھا گیا تھا جو میرے خیال میں نامناسب بھی تھا اور بے موقع بھی۔ نامناسب اس لیے کہ اتنی بڑی فن کارہ کا یہ مختصر سا آئٹم اس وقت پیش کیا گیا جب ایک طویل اور سنجیدہ اجلاس ختم ہورہا تھا اور حاضرین ذہنی طور پر ایک بالکل مختلف فضا میں تھے اور بے موقع اس لیے کہ اسٹیج خالی کرانے کے وقفے کے درمیان لوگ منتشر ہونا شروع ہوگئے تھے اور یوں بھی دوپہر کا وقت ایسے عمدہ کلاسیکل رقص کے لیے بہرحال کوئی موزوں وقت نہیں تھا۔ یہ بات کچھ اس لیے بھی بے تکی سی محسوس ہوئی کہ کانفرنس کی آخری شام کو ناہید صدیقی کے رقص کے لیے ایک پوری محفل پہلے سے طے شدہ تھی۔
جیسا کہ میں نے گزشتہ کالم میں واضح کیا تھا کہ افتتاحی اجلاس کے بعد مختلف ہالز اور پنڈالوں میں بہت سے اجلاس ایک ساتھ منعقد ہونا شروع ہوگئے جو بلا شبہ بہت اہم اور اعلیٰ پائے کے تھے مگر مسئلہ پھر وہی تھا کہ بیشتر لوگ اس مخمصے میں مبتلا رہے کہ وہ کس میں شریک ہوں اور کس کو چھوڑیں کہ زیادہ تر پروگرام اس قدر دلچسپ اور پرکشش تھے کہ ہر ایک اپنی طرف کھینچتا تھا مثال کے طور پر افتتاحی پروگرام کے فوراً بعد سوا بارہ سے سوا ایک تک مندرجہ ذیل چھ پروگرام ایک ساتھ چل رہے تھے۔
مونی محسن سے مکالمہ
(مباحثہ) Power of the fourth state
سب کے محبوب شاعر فیض احمد فیض
کتاب The Kashmir Dispute کی تقریب رونمائی
ناول کی دنیا
پتلی تماشا
اور کم و بیش ایسی ہی صورتحال آئندہ تین دنوں تک جاری رہی میرے سامنے کچھ احباب نے منتظمین سے اس الجھن کی شکایت کی تو ان کا کہنا یہی تھا کہ انھیں ہر روز تقریباً 25 سیشن نمٹانے کے ساتھ ساتھ کم و بیش 90 ملکی اور غیر ملکی مندوبین کو بھیadjust کرنا ہے یعنی اگر وہ عوام کو بہتر Choice دینے کے لیے ایک سیشن میں پروگراموں کی تعداد نصف کریں تو انھیں سیشن دوگنا بڑھانا پڑیں گے اور معاملہ پانچ یا چھ دنوں پر پھیل جائے گا جب کہ مصروفیت کے اس دور میں تین دنوں کے لیے بھی مندوبین کو اکٹھا کرنا ایک مہم سے کم نہیں۔ میرے خیال میں اس کا ایک ہی حل ہے کہ مندوبین اور موضوعات دونوں کی تعداد کو 40% کے لگ بھگ کم کردیا جائے۔ بصورت دیگر یہ شکایت برقرار رہے گی اور میلے میں آنے والوں کو انتخاب کے اس کڑے اور بعض صورتوں میں انتہائی مشکل امتحان سے یونہی گزرنا پڑے گا۔ میری طرح کئی دوسرے احباب نے بھی شروع شروع میں تھوڑا تھوڑا وقت ہر پسندیدہ پروگرام کو دینے کی کوشش کی لیکن اس سے یہ معاملہ سلجھنے کی بجائے مزید الجھ گیا اور ہم سب Jack of all Trades ,master of none کی منہ بولتی تصویریں بن گئے۔
KLF کے ان پروگراموں کی ایک اضافی خوبی وقت کی پابندی بھی ہے۔ سو اگر صرف تانک جھانک سے کام چلانے کی کوشش کی جائے تو اس میں بھی کامیابی نہیں ہوتی کہ درمیان میں تصویریں اتروانے، سلام دعا کرنے اور آٹو گراف لینے والوںکا ایک ایسا ہجوم پڑتا ہے کہ ٹک کر بیٹھنے یا دھیان سے سننے کا موقع کم کم ہی ملتا ہے۔ اس بار ایک اچھا اضافہ یہ دیکھنے میں آیا کہ مندوبین کی چائے پانی کے لیے ایک کمرہ الگ سے مخصوص کردیا گیا تھا جہاں آپ چند منٹ رک کر تازہ دم ہوسکتے تھے اس کے باہر والنٹیر بچے اور بچیاں ہمہ وقت موجود رہتے تھے تاکہ غیرمتعلقہ افراد آرام کے اس مختصر وقفے میں دخل اندازی نہ کرسکیں لیکن اب اس کا کیا کیا جائے کہ ہر بار وہاں دو چار ایسے دوست مل جاتے ہیں جن سے بات چیت کے دوران وقت کے گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کئی بار کوئی ایسا پروگرام بھی نکل جاتا ہے جس کی مرکزی شخصیت سے آپ شمولیت کا پکا وعدہ کرچکے ہوتے ہیں۔
کم و بیش یہی صورت حال کتابوں کے خصوصی اسٹالز کے درمیان گھومتے پھرتے بھی پیش آتی ہے کہ کئی کتابیں رستہ روک کر کھڑی ہوجاتی ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ کل ملا کر چند سیشن ہی ایسے تھے جن میں قرار واقعی قسم کی شمولیت کا موقع مل سکا (یہ اور بات ہے کہ ان میں سے تین میں، میں خود کسی نہ کسی حوالے سے شامل تھا) سو اگلے کالم میں ان کے بارے میں گفتگو ہوگی۔ چلتے چلتے پہلے دن کے آخری پروگرام یعنی مشاعرے کے بارے میں کچھ بات ہوجائے جس کی صدارت کشور ناہید نے کی اور میزبانی کے فرائض فاطمہ حسن نے انجام دیے۔ شعرأ میں زیادہ تر کا تعلق کانفرنس کے مندوبین سے ہی تھا یعنی ان سے ایک پنتھ دو کاج کاکام لیا گیا تھا البتہ کراچی کے کچھ شعرأ کو بھی شامل کیا گیا تھا حیرت کی بات یہ ہے کہ اس فہرست میں بھی کئی اہم شعرأ کے نام نہیں تھے اور جن کے تھے ان میں سے بھی کئی ایک وہاں موجود نہیں تھے البتہ برادرم سلیم کوثر کی کمی بہت محسوس ہوئی کہ وہ گزشتہ کچھ عرصے سے خاصے علیل ہیں۔ میں لاہور سے دل میں ان کی عیادت کا ارادہ کرکے چلا تھا مگر بوجوہ اس کا موقع نہ مل سکا سو ان کے لیے صحت کاملہ عاجلہ کی دعا کے ساتھ اس کالم کو ختم کرتا ہوں۔ یاد رہے تو آپ بھی ان کی صحت یابی کے لیے دعا فرمایے گا۔
↧
اخلاص کی ضرورت…
افواج پاکستان نے ملک کی سالمیت و بقا کے لیے ناقابل فراموش تاریخ رقم کی ہے، لیکن فیالوقت بیرونی دشمن سے زیادہ مملکت کو اندرونی دشمن کا سامنا ہے۔ خیبر پختونخوا، قبائل، فاٹا اور بلوچستان میں مسلح افواج کے اہلکار و افسران اپنی جانوں کی قیمتی قربانیاں دے رہے ہیں اور مملکت کی عزت و ناموس پر تن من دھن سے قربان ہو رہے ہیں۔ بیرونی دشمن کی چالبازیوں اور عالمی طاقتوں کی سازشوں کے آگے سینہ سپر ہو کر سرزمین پاک کے ایک ایک چپے کا دفاع کر رہے ہیں۔ لاپتہ افراد سے متعلق قانون کا موجود نہ ہونا، خود عدالت کے لیے مشکل امر تھا۔ اس لیے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں، تحفظ پاکستان بل بنایا گیا اور گزشتہ دنوں اس میں چند ترامیم کر کے 2014ء کے اس تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈیننس کو فوری طور پر نافذ العمل کر دیا گیا۔ تحفظ پاکستان آرڈیننس کے تحت کراچی آپریشن میں گرفتار ہونے والے متعدد ملزمان کو رینجرز نے 90 روز کے لیے تفتیشی مراکز منتقل کیا ہے جب کہ ترمیمی آرڈیننس کے بعد خفیہ اداروں و عسکری فوج کے تفتیشی یونٹس بھی کسی بھی فرد کو حراست میں لے سکتے ہیں۔
دیکھنا یہ ہو گا کہ سپریم کورٹ اس آرڈیننس پر غور و غوض کے بعد باریکی سے جائزہ لیتے ہوئے کس قدر جلد فیصلہ کرتی ہے کہ آیا یہ آرڈیننس، کسی شہری حقوق کی خلاف ورزی تو نہیں کر رہا۔ ایف آئی آر کے بعد پولیس پر فرض ہو جاتا ہے کہ وہ 24 گھنٹے کے اندر اسے متعلقہ عدالت میں پیش کرے اور اگر ضرورت محسوس ہو تو تفتیش کے لیے 14 روز کا جسمانی ریمانڈ حاصل کر سکتا ہے۔ اسی طرح عدالت پر یہ فرض ہو جاتا ہے کہ وہ مقدمے کی نوعیت کے پیش نظر پولیس کو 14 یا کم از کم 7 دن کا ریمانڈ دے۔ یہ عدالت کی صوابدید پر بھی ہے کہ وہ اگر محسوس کرے تو ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیتی ہے اور پولیس پر لازم ہو جاتا ہے کہ 14 دن کے اندر، ملزم کے خلاف چالان اور ثبوت پیش کرے۔ ملزم کو 14 دن کے لیے جوڈیشنل ریمانڈ پر عدالت جیل بھیج دیتی ہے۔
یہاں عدالت پر لازم ہوجاتا ہے کہ 3 ماہ کے اندر چالان کے مطابق مقدمہ چلائے اور گواہان و شواہد کی روشنی میں فیصلہ کرے، 3 ماہ (نوے دن) کی میعاد میں اگر چالان یا چارج فراہم نہیں ہوتا تو ملزم کو قانونی حق ملتا ہے کہ اسے عدالت ضمانت پر رہا کر دے۔ یہ ملزم کا قانونی حق ہے کہ چارج فریم نہ ہونے کی صورت میں90 دن بعد (قتل کے مقدمے کے علاوہ) ضمانت حاصل کر کے اپنے مقدمے کا دفاع کرے گا لیکن یہاں ماتحت عدالتیں صوابدیدی اختیارات استعمال کرتی نظر آتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا بھی ہوتا ہے کہ پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے مطلوبہ فرد کو گھروں سے اٹھاکر تفتیش کے نام پر نامعلوم جگہوں پر لے جاتے ہیں اور انھیں اپنی مرضی کے بعد پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح عدالتوں میں بھی مقدمات، پابندی سے نہیں چلتے اور لاکھوں ایسے مقدمات ہیں کہ ان کا برسوں تک چارج فریم ہی نہیں ہوا، اور ہزاروں ایسے مقدمات ہیں کہ پولیس نے ابھی تک برسوں گزر جانے کے بعد بھی چالان عدالتوں میں پیش نہیں کیے۔ جس کا فائدہ عمومی طور پر ملزم کو پہنچتا ہے اور وہ 249 کی کارروائی کر کے خود کو مقدمے سے بری کروا لیتا ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں قوانین کے نئے نفاذ سے زیادہ عمل درآمد کی ضرورت پر زور نہیں دیا جاتا، اور لاقانونیت کے ان عناصر کے خلاف مضبوط شواہد پیش نہیں کیے جاتے۔ مثال کے طور پر سندھ آرمز بل کو 21 فروری 2013ء میں سندھ اسمبلی نے منظور کیا اور گورنر سندھ نے 27 فروری 2013ء کو دستخط کیے۔ سندھ گورنمنٹ گزٹ میں نوٹیفکیشن مورخہ یکم مارچ 2013ء کو جاری ہو کر نافذالعمل ہوا۔ غیر قانونی اسلحے کی برآمدگی مہم حکومت نے جاری کی لیکن شدید ناکامی کا سامنا ہوا اور یہ قانون محض مذاق بن کر رہ گیا۔ کراچی ٹارگٹڈ آپریشن میں ہزاروں کی تعداد میں بے گناہوں کے سر پر غیر قانونی اسلحہ تھوپ دیا گیا اور آٹے میں نمک کے برابر ان ملزمان کو بھی فائدہ ضمانت ہوا، جو بے گناہوں کے لیے عدالتوں نے اختیار کیا۔ گو کہ اسلامک ری پبلک آف پاکستان کے آرٹیکل 12 کی رو سے کئی حق تلفیاں ہوئیں اور بنیادی حقوق متاثر ہوئے۔
یقینی طور پر دیکھنے کی یہ بھی ضرورت ہے کہ کیا جرائم کے خلاف پہلے سے کوئی قانون موجود ہے یا نہیں؟ کیا قانون کے مطابق مختلف اداروں کے اہلکار عمل درآمد کرتے بھی ہیں کہ نہیں؟ اگر قوانین میں کوئی سقم موجود ہے تو اس کا یکساں طور پر سب ملزمان پر نفاذ ہونا چاہیے یا پھر موجودہ نظام میں ہی کوئی خرابی ہے تو پھر ایسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔ تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈیننس کا بنیادی مقصد، حساس و خفیہ اداروں کو لاپتہ افراد کے حوالے سے کارروائیوں کو تحفظ دینا ہے۔ اس سے جبری گم شدگیوں اور لاپتہ افراد کے معاملے کو قانونی اختیار ملنے کی ایک کارروائی قرار دیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، معمولی جرائم سے لے کر دہشت گردی سے تعلق رکھنے والے جرائم کے سدباب سے زیادہ ضرورت اس بات کی رہتی ہے کہ گرفتار کیے جانے والے افراد کو محض شک شبے میں حراست میں لے کر بھیانک تفتیش کرنے سے زیادہ یقینی اس امر کو بنایا جائے کہ بے گناہ افراد کو کسی بھی نوعیت کے جرم میں اٹھایا نہ جائے لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوتا نہیں ہے۔ جرم کی شدت کے حساب سے قوانین کو مزید سخت بنائے جانا مثبت اقدام ہے لیکن دیکھنا یہ بھی ہو گا کہ کیا جرم واقعی گناہ گار پر ثابت ہو رہا ہے؟ اگر عدم شواہد کی بنا پر یا کمزور تفتیش کی بنا پر کوئی ملزم رہا ہو جاتا ہے تو اس میں کسی قانون یا عدالت کا قصور نہیں ہوتا بلکہ تفتیش کرنے والے اہلکاروں کی عدم توجہ و دل چسپی سمیت جدید آلات و ذرائع کے اسباب کو استعمال و بروئے کار نہ لانا شامل ہے۔
سیاسی جماعتیں اور باشعور عوام قانون کی عملدرآمدی چاہتے ہیں لیکن وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ کسی قانون کا غلط استعمال بھی نہ ہو، خاص کر بے گناہوں پر۔ دہشت گردی کا تعلق کسی بھی نوعیت سے ہو، وطن دشمنی کسی بھی طرف سے ہو، قوانین کا یکساں اطلاق ہونا چاہیے۔ صرف قانون بنا کر اسے پاس کر دینا اور سخت قوانین کی آڑ میں کسی مخصوص فرد یا جماعت یا گروہ کو نشانہ بنانا قطعی مناسب نہ ہو گا۔بنیادی حقوق کی خلاف ورزی و سلب ہو جانے کے کسی بھی عمل میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ عدالتوں اور تفتیش کا نظام شفاف اور غیر جانبدارانہ ہو، ماہر اور مخلص وطن پرست عملہ ہو جس کا مقصد کسی جماعت، گروہ یا فرد کے خلاف یکطرفہ یا سیاسی مقاصد کے لیے حصول نہ ہو بلکہ پہلے سے موجود قوانین کو کماحقہ عوامی مفاد اور پاکستان کی بقا و تحفظ کے لیے استعمال کرنے کا جذبہ رکھتا ہو۔
↧
ارکان پارلیمنٹ کی ٹیکس کہانی سامنے آ گئی، سات اراکین کروڑ کلب میں شامل
سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی ٹیکس ڈائریکٹری جاری 1072 نے گوشوارے جمع کرائے۔ 7 عوامی نمائندے کروڑ کلب میں شامل۔ نواز شریف نے 26 لاکھ 46 ہزار روپے، عمران خان نے 1 لاکھ 94 ہزار، چوہدری نثار نے 57 ہزار 124 روپے ٹیکس دیا۔
سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے 1072 ارکان کی ٹیکس تفصیلات منظر عام پر آگئیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے گزشتہ سال 26 لاکھ 46 ہزار 401 روپے ٹیکس ادا کیا۔ رکن سندھ اسمبلی سید اویس قادر شاہ نے سب سے زیادہ 1 کروڑ 87 لاکھ جبکہ سینیٹر عباس خان آفریدی نے 1 کروڑ 79 لاکھ روپے ٹیکس ادا کیا۔ مجموعی طور پر سات عوامی نمائندوں نے ایک کروڑ یا اس سے زیادہ ٹیکس ادا کیا۔ ایف بی آر کی طرف سے جاری کردہ ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 1172 ارکان میں سے 1072 ارکان نے سال 2013ء کے ٹیکس گوشوارے جمع کرائے جبکہ 100 عوامی نمائندوں نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیئے۔ سینیٹر عباس خان آفریدی نے سب سے زیادہ 1 کروڑ 79 لاکھ 91 ہزار 618 روپے ٹیکس ادا کیا۔ سینیٹر محمد طلحہ محمود نے 1 کروڑ 29 لاکھ 40 ہزار 990 روپے ٹیکس ادا کیا۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے 87 لاکھ 63 ہزار 691 روپے ٹیکس ادا کیا۔ شیخ فیاض الدین نے ایک کروڑ ایک لاکھ 93 ہزار 128 روپے ٹیکس جمع کرایا۔ خیبر پختونخواہ اسمبلی کے رکن نور سلیم مالک نے ایک کروڑ 15 لاکھ 12 ہزار 851 روپے ٹیکس ادا کیا۔ رکن پنجاب اسمبلی چوہدری ارشد جاوید وڑائچ نے ایک کروڑ 76 لاکھ 96 ہزار 589 روپے ٹیکس دیا۔ پنجاب اسمبلی کے ہی شیخ الالدین نے 1 کروڑ 10 لاکھ 29 ہزار 867 روپے ٹیکس جمع کرایا۔ سندھ اسمبلی کے سید اویس قادر شاہ نے 1 کروڑ 87 لاکھ 41 ہزار 549 روپے ٹیکس جمع کرایا۔ سینیٹ کے جن اراکین نے نسبتا زیادہ ٹیکس ادا کیا ان میں سینیٹر ہیمان داس نے 29 لاکھ 42 ہزار روپے، سینیٹر روزی خان کاکٹر 11 لاکھ 41 ہزار روپے، حاجی خان آفریدی 19 لاکھ 58 ہزار روپے، عثمان سیف اللہ خان نے 31 لاکھ 18 ہزار روپے زیادہ ٹیکس ادا کیا۔ اسی طرح سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے 11 لاکھ 45 ہزار روپے، میاں رضا ربانی نے 3 لاکھ 16 ہزار 542 روپے ٹیکس ادا کیا۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے 1 لاکھ 48 ہزار 868 جبکہ ڈپٹی اسپیکر مرتضی جاوید عباسی نے 1 لاکھ 17 ہزار روپے، وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی نے 12 لاکھ پانچ ہزار روپے ٹیکس جمع کرایا۔
رکن قومی اسمبلی شیخ محمد اکرم نے 10 لاکھ روپے، وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے 12 لاکھ 15 ہزار روپے سے زیادہ ٹیکس ادا کیا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 8 لاکھ 24 ہزار 891 روپے ٹیکس ادا کیا۔ تحریک انصاف کے شفقت محمود نے 1 لاکھ 68 ہزار روپے ٹیکس دیا۔ چوہدری شجاعت حسین نے 18 لاکھ 24 ہزار روپے ٹیکس ادا کیا۔ اسفندیار ایم بھنڈارا نے 32 لاکھ 13 ہزار روپے سے زیادہ ٹیکس ادا کیا۔ شیخ روحیل اصفر نے صرف 5903 روپے ٹیکس دیا۔ کے پی کے اسمبلی کے افتخار علی مشوانی نے 32 لاکھ 49 ہزار، امجد خان آفریدی نے 38 لاکھ، سردار ظہور احمد نے 20 لاکھ 28 ہزار جبکہ نوابزادہ ولی محمد خان نے 13 لاکھ روپے سے زیادہ ٹیکس دیا۔ پنجاب اسمبلی کے محمد صدیق خان نے 18 لاکھ 60 ہزار روپے ٹیکس دیا۔ جہانگیر بدر نے 2 لاکھ 59 ہزار روپے ٹیکس ادا کیا۔ نصر اللہ گھمن نے 35 لاکھ روپے ٹیکس دیا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے چوہدری محمد جعفر اقبال نے صرف 17 ہزار 6 سو 66 روپے ٹیکس ادا کیا۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر زاہد خان نے 43 ہزار 8 سو 68 روپے ٹیکس ادا کیا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے 31 ہزار روپے جبکہ وزیر اطلاعات پرویز رشید نے 20 ہزار 9 سو 59 روپے ٹیکس ادا کیا۔ ڈائریکٹری کے مطابق 449 عوامی نمائندوں نے گوشوارے جمع کرانے کے باوجود کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا۔ ٹیکس ادا نہ کرنے والوں میں سراج محمد خان، گوہر شاہ، شہریار آفریدی، سردار یعقوب ناصر بھی شامل، امیر حیدر خان ہوتی نے بھی کوئی ٹیکس جمع نہیں کرایا۔ مولانا فضل الرحمن نے گزشتہ برس 13 ہزار 462 روپے، سینیٹر رضا ربانی نے 3 لاکھ 16 ہزار 542 روپے، سینیٹر فرحت اللہ بابر نے 4 لاکھ 86 ہزار 901 روپے اور شیخ رشید احمد نے 58 ہزار 410 روپے ٹیکس ادا کیا۔ ٹیکس نہ دینے والوں میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمٰن ملک، عوامی پارٹی کے سینیٹر عبد الروٴف، سینیٹر فرحت عباس، سینیٹر ہری رام، مجاہد علی، سینیٹر میر اسرار اللہ خان زہری، سینیٹر میر محمد علی رند، سینیٹر اعظم خان ہوتی، آذاد سینیٹر ادریس خان صافی، سینیٹر نواب زادہ اکبر مگسی، سینیٹر گل محمد لاٹ، حامد الحق، ساجد نواز، گلزار خان، سردار محمد یوسف، شیر اکبر خان، مراد سعید، سلیم رحمان، ظہیر الدین خان، بلوچستان سے پاکستان مسلم لیگ کی سینیٹر روبینہ خان شامل ہیں۔
قاری محمد یوسف، صاحبزادہ طارق اللہ، صاحبزادہ محمد یعقوب، جنید اکبر، بلال رحمان، ساجد حسین طوری، غازی گلاب جمال، محمد نذیر خان، غالب خان، محمد جمال الدین، ایم این اے بسم اللہ خان، شہاب الدین خان، شاہ جی گل آفریدی، رکن قومی اسمبلی ناصر خان، پیر امیر الحسنات، رکن قومی اسمبلی افضل خان، غلام رسول ساہی، محمد طلال چودھری، غلام محمد لالی، صاحبزادہ محمد نذیر نے بھی کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا۔ رکن قومی اسمبلی نجف عباس سیال، چودھری اسد الرحمن، میاں طارق محمود، رانا عمر نذیر خان، اظہر قیوم مہرا، نوابزادہ مظہر علی، چودھری جعفر اقبال، چودھری عابد رضا میاں محمد رشید اور رائے منصب علی خان بھی ٹیکس ناد ہندگان میں شامل ہیں۔ ایف بی آر کے مطابق حتمی فہرست 28 فروری کو جاری کی جائے گی۔ باقی ماندہ نمائندے 28 فروری تک ٹیکس گوشوارے جمع کرا سکتے ہیں۔
↧
کراچی دھماکے میں شہید ہونیوالے اہلکار کئی ماہ سے تنخواہوں سے محروم تھے
کراچی کے پولیس ٹریننگ سینٹر رزاق آباد میں تربیت یافتہ کمانڈوز کو کئی ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔ 40 کمانڈوز کا تربیتی کورس دو ماہ پہلے ختم ہو چکا تھا لیکن انہیں کسی کی اجازت کے بغیر وی آئی پی سیکورٹی کورس کے نام پر روک لیا گیا ِ اور ان سے ڈیوٹی لی جا رہی تھی۔
بم دھماکے میں پولیس ٹریننگ سینٹر رزاق آباد کے کئی کمانڈوز کی شہادت کے بعد انکشاف ہوا ہے کہ اسپیشل سیکورٹی یونٹ کے متعدد کمانڈوز تنخواہوں سے محروم ہیں۔ پولیس کے اعلی حکام کی اجازت سے انہیں بھرتی تو کر لیا گیا لیکن کئی ماہ سے انہیں تنخواہ نہیں ملی۔ یہ بات اس وقت سامنے آئی جب دھماکے میں زخمی ہونے والے پولیس کمانڈو عبدالنبی کی جیب سے ایک درخواست ملی جس کے مطابق عبدالنبی کو نو ماہ سے تنخواہ ہی نہیں ملی، بیوی اور چار بچے دنیا داری کے لاکھ جتن کون جانے عبدالنبی روز کس کرب سے گزرتا ہو گا۔ ایک اور انکشاف بھی ہوا ہے کہ چالیس سے زیادہ کمانڈوز کا تربیتی کورس دو ماہ پہلے ختم ہو چکا تھا لیکن رزاق آباد ٹریننگ سینٹر کے پرنسپل مقصود میمن نے اعلی افسروں کی اجازت کے بغیر انہیں یہ کہ کر روک لیا کہ انہیں وی آئی پی سیکورٹی کورس کرایا جائے گا۔ آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی سندھ اور ڈی آئی جی ٹریننگ کو بھی پولیس اہلکاروں کی تربیت سے لاعلم رکھا گیا۔ یہ کمانڈوز دو ماہ سے کورس کر رہے تھے اس کے علاوہ ان سے وی آئی پی ڈیوٹی بھی لی جا رہی تھی قانونی طور پر وی آئی پی سیکورٹی کا کورس اے ایس آئی سے لے کر انسپکٹر تک کو کرایا جاتا ہے۔
↧
↧
ارد شیرکاوس جی: جن کی تحریریں جرأت، بصیرت اور روشن خیالی کا نمونہ تھیں
ایسے دور میں جب ہماری صحافت سے راستی کا رواج ختم ہورہا ہے،ایسی تحریروں کا سامنے آنا خوش آیندہے جنھیں حق گوئی وبیباکی کا بہترین نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
لکھنے والا وہ جس کی زبانِ قلم ہزارخوف کے باوجود دل کی رفیق رہی ۔وہ حقیقی معنوں میں کسی سے ڈرتے ورتے نہیں تھے۔بات ڈنکے کی چوٹ کہنے کا ہنرجاننے کے خواہش مندوں کو اردشیر کاوس جی کے سوا دو سوکالموں پر مشتمل مجموعے “Vintage Cowasjee”کولگ کرپڑھنا چاہیے ،جس کو ان کی دوست امینہ جیلانی نے مرتب کیا ہے۔ ارد شیر کاوس جی کی تحریروں میں تمام ترہمدردی مظلوم سے مخصوص اور لڑائی ظالم کے ساتھ نظرآتی ہے ۔ان کی نگارشات اس سادہ سی حقیقت کی ترجمان ہیں کہ دنیا میں طبقات دو ہی ہیں:ظالم اور مظلوم۔باقی باتیں اضافی ہیں مگربالادست زیردستوں کو اور ہی باتوں میں الجھائے رکھتے ہیں تاکہ ان کا دھندہ چلتا رہے۔ممتازشاعرظفراقبال کا شعرہے:
مجھے دیا نہ کبھی میرے دشمنوں کا پتا
مجھے ہوا سے لڑاتے رہے جہاں والے
کاوس جی کی تحریریں عوام کو اصل دشمنوں کے بارے میں بتاتی ہیں ۔وہ ہمارے ہاں کے ان چنیدہ دلاورقلم کاروں میں سے تھے، جو بدی کی قوتوں کے سامنے خم ٹھونک کرسامنے آتے اورستم زدگاں کے کندھے سے کندھا ملاکرکھڑے ہوتے ۔ ضمیر کی گہرائیوں میں ڈوب کر لکھتے۔منتخب سچ بولنے سے مجتنب رہتے۔حقائق بلاکم وکاست بیان کرتے۔ وہ قائد اعظم کے تصورات سے بہت متاثر تھے اور انھی کی روشنی میں پاکستان کو آگے بڑھتے دیکھنا چاہتے تھے۔قرارداد مقاصد کو وہ قائد اعظم کی راہ سے انحراف جانتے اور قائداعظم کی 11اگست1947 کو قانون سازاسمبلی میں تقریرکے مندرجات پرعمل پیرا ہونے میں قوم کی نجات خیال کرتے، جس میںبانیٔ پاکستان نے ریاست کی اولین ذمہ داری شہریوں کے جان ومال کا تحفظ قراردیا اور یہ بھی کہا کہ پاکستان میں تمام شہریوں کو یکساں طور پراپنے اپنے عقائد کے مطابق، زندگی بسرکرنے کی اجازت ہوگی۔افسوس!ہمارے ہاں، اس کے بالکل الٹ ہوا اور اب صورتحال میں سدھار کے بجائے اور ابتری آگئی ہے ، اقلیتوں کوتوچھوڑ ہی دیں، مسلمانوں کی عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں۔
کاوس جی کا یقین تھا کہ سچ بولے بغیر قوم آگے نہیں بڑھ سکتی۔اپنے ایک کالم میں انھوں نے لکھا کہ اہل پاکستان نے خود کو یقین دلا رکھا ہے کہ سچائی ایک نایاب اور قیمتی شے ہے، جسے انتہائی تنگ دلی کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے۔ جرأت مندی کاوس جی کی تحریر کا بنیادی وصف ضرور ہے لیکن ساتھ میں دوسری امتیازی خوبیوں نے بیان اوربھی زورآور بنادیاہے۔وہ جس موضوع پرقلم اٹھاتے،اس کا گہرا ادراک انھیں ہوتا۔معلومات کا انبار بڑے سلیقے اور منظم طور سے صفحے پربکھیرتے چلے جاتے۔بیچ بیچ میںکاٹ دار جملے پڑھنے کو ملتے۔صاف شفاف ذہن سے تجزیہ کرتے۔ ان کی تحریروں کے موضوعات میں جس قدرتنوع رہا، اس عہد کے شاید ہی کسی دوسرے لکھنے والے کے ہاں ملے۔ جرنیلوں، ججوں، بیوروکریٹس اور سیاست دانوں کی کرپشن پران کا قلم خوب چلتا۔ ان کی تحریروں کی مدد سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ قوم نے اپنی صورت کو کس قدربگاڑ لیا ہے، اور اسی بنا پر کاوس جی کے خیال میں ہم مہذب کہلانے کے حق دارنہیں۔
کاوس جی کوحادثاتی کالم نویس قراردیا جاسکتا ہے۔1984ء میں فلیگ اسٹاف ہاؤس کی تزئین وآرائش کے حوالے سے کالم لکھا تو پھران کا قلم رواں ہوگیا۔اس کے بعد تواترسے’’ ڈان‘‘ میں ایڈیٹر کے نام خطوط شائع ہونے لگے،جنھیں قارئین نے سراہا۔ ۔1988ء میں انھوں نے کچھ دوستوں کی تحریک پر ’’ڈان ‘‘کے ایڈیٹر احمد علی خان کو کالم بجھوائے جو انھیں پسند آئے اور پھر ان کے ہفتہ وارکالم کا سلسلہ شروع ہوگیاجو تقریباً بائیس برس جاری رہا۔ ان کے بقول: ’’ہرہفتے لکھنا ایک طویل اور تھکا دینے والا کام ہے مگراس کا فائدہ بھی ہے۔لکھے گئے کالموں میں کئی واقعات ریکارڈ ہوجاتے ہیں اور ان جھروکوں سے ماضی میں جھانکنا اچھا لگتاہے۔‘‘ معروف صحافی خالدحسن کے مرنے پرکالم میں انھوں نے ان کی ویب سائٹ کے سرنامہ پر درج، چراغ حسن حسرت کا یہ بیان دہرایاکہ ’’کسی کو بھی صحافیوں کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے ، خاص طور سے خود صحافیوں کو کہ ان کا لکھا صبح جس اخبار میں چھپتا ہے وہ شام میں مچھلی لپیٹنے کے کام آتا ہے۔‘‘ اس سے ملتی جلتی مثال انھوں نے اپنے آخری کالم میں بھی دی ’’ برنارڈ لیون ، جنھوں نے1970سے لے کر1997ء تک لندن ٹائمز کے لیے بہت عمدہ کالم لکھے، ایک مرتبہ کالم نگاروں کوبیکری والے قرار دیا تھا۔ بیکر ہرصبح تازہ بریڈ بناتے ہیں اور یہ استعمال ہوجاتی ہے، اور اس کے بعدپھرایک اور صبح اور نئی بریڈ۔چنانچہ کالم بھی وہ تازہ بریڈ ہوتے ہیں، جو ہضم ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد اخبارات کو پڑھ کرپھینک دیا جاتا ہے۔‘‘
اردو شیر کاوس جی کے کالموں سے جو معلومات ہم تک پہنچتی ہیں، ان میں سے چند ایک کا ہم ذکر کئے دیتے ہیں۔ان تحریروںمیںغلام مصطفی کھرکے فرزند ارجمند بلال کھر کا ذکربھی ہے،جس نے بیوی پرتیزاب پھینک کرمردانگی کا ثبوت دیا۔ مختاراں مائی کی داستان غم کا بیان بھی ہے،اورجنرل (ر)پرویز مشرف کا وہ فرمان عالی شان بھی، کہ ہمارے ہاں! ویزے اور دولت کمانے کے لیے بھی ریپ کروالیا جاتا ہے۔غیرت کے نام پرجان سے گزرنے والی مظلوم بیبیوں سے انھیں ہمدردی ہے۔ گمشدہ افراد کے مسئلے پروہ آوازبلند کرتے ہیں۔حاکم وقت کے شہر میں ورود سے خلق خداکو جس عذاب سے گزرنا پڑتا ہے، اس اہم مسئلے پربھی قلم کو جنبش دیتے ہیں۔کراچی میں گٹرباغیچہ بچاؤتحریک کے روح رواںنثاربلوچ کا نوحہ بھی لکھتے ہیں،جو قبضہ مافیا کے گلے کی پھانس بن چکے تھے۔ماحول میں زہرگھولنے والوں کے بارے میں قلم حرکت میں آتاہے ۔ٹمبرمافیاکو بے نقاب کرتے ہیں۔درختوں کا کٹنا انھیں آزردہ کرتا ہے۔ بچھڑنے والے احباب کودرمندی سے یاد کرتے ہیں۔ پاکستانی تاریخ سے متعلق ایسی معلومات بھی سامنے لاتے ہیں،جوعام نظروں سے اوجھل ہیں ، جیسا کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ڈی کلاسیفائیڈ ہونے والی دستاویزات سے ایوب خان کی امریکیوں کو یہ یقین دہانی کہ اگروہ چاہیں تو پاکستانی فوج ان کی فوج بن کرکام کرسکتی ہے۔وہ ان دو جرنیلوں کا تذکرہ بھی کرتے ہیں، جونوازشریف کے پاس پاس ڈرگ ٹریڈ سے متعلق ایک منصوبے کی منظوری لینے آئے اور بے نیل مرام واپس لوٹے۔ وہ اس نام نہاد بااصول مرحوم صدر کے داماد کا کچاچٹھا بھی کھولتے ہیں۔
جس نے پیپلزپارٹی کو سبق سکھانے کے لیے جام صادق علی کی جلاوطنی ختم کراکر وزیراعلیٰ بنوایااور بقول کاوس جی اس بات کا ملحوظ نہ رکھا کہ اس سے سندھ کے عوام کس قدر خسارے میں رہیں گے 1988ء میں پیپلزپارٹی کاراستہ روکنے کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد بنوانے میں بھی جناب غلام اسحاق خان کی کوششوں کو دخل تھا۔ اس اتحاد کی تشکیل میں کردار کے بارے میں جنرل (ر) حمید گل کے اعتراف اور ایم کیو ایم حقیقی کو وجود میں لانے کا جنرل (ر) جاوید ناصر نے جو کریڈٹ لیااس کا حوالہ بھی کاوس جی دیتے ہیں۔ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین صحافیوں سے ناراض ہوکرلندن سے جن خیالات کا اظہار کرتے ہیں، ان کو تو اب الیکٹرانک میڈیا کے طفیل ہم سب سن لیتے ہیں۔وہ جس زمانے میں پاکستان میں تھے،تب بھی اہل قلم پرگرجا برسا کرتے، ایسی ایک مثال کاوس جی نے اپنے کالم میں دی ہے،جس کے مطابق1990ء کی الیکشن مہم کے دوران جرات مند صحافی رضیہ بھٹی کی ادارت میں نکلنے والے’’ نیوزلائن‘‘ کے ایک مضمون پر الطاف حسین نے ایک جلسے میں دھمکی آمیزلہجے میں اس جریدے کی ٹیم کے بارے میں خاصی سخت گفتگو کی تھی ۔آئین ساز ذوالفقارعلی بھٹو نے کس انداز میں مختصرسے عرصے میں من مرضی کی ترامیم سے آئین کاحلیہ بگاڑااس بابت بھی بتاتے ہیں، اور اسی دور میں سانگھڑ کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی گرفتاری کے شرمناک واقعہ کا ذکربھی کرتے ہیں۔1997ء میں سپریم کورٹ پرحملہ پاکستانی تاریخ میں سیاہ باب کے طور پریاد رکھا جائے گا۔اس حملے کے ذمہ دار کاوس جی کی کڑی تنقید کی زد میں آئے۔
مسلم لیگ(ن)کی حملہ آوراس حکومت سے قبل پیپلزپارٹی کی حکومت تھی، اوراس نے بھی عدلیہ کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہ کیا ۔اس ضمن میں کاوس جی خاص طورپرچیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ ناصراسلم زاہد کا حوالہ دیتے ہیں، جنھیں حکومت نے ناراض ہوکرفیڈرل شریعت کورٹ بھیج دیا۔بیوی کا تبادلہ کردیا۔داماد کو بھی تنگ کیا۔کاوس جی کی تحریروں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نوازشریف کے طرزحکمرانی کو ناپسند کرتے۔ان کے کسی فیصلے کی اگربھولے سے اس قلم کارنے تعریف کی ہے توجمعہ کے بجائے اتوار کی ہفتہ وارچھٹی کا فیصلہ ہے، جو مسلم لیگ ن کے دوسرے دورحکومت میں ہوا۔ اردشیرکاوس جی کی دانست میں اس کام کو کرنے کی خواہش 1977ء کے بعد آنے والے دوسرے حکمرانوں کے ہاں بھی رہی تو،مگر وہ جرات نہ کرسکے۔ پرویزمشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد ایک کالم میں انھوں نے لکھا کہ دوبار خراب حکومت کرنے کے باوجود وہ یہ گارنٹی دینے کو تیارنہیں کہ نوازشریف اب کبھی وزیراعظم نہیں بنیں گے ۔اور پھرہم سب نے دیکھا کہ نوازشریف تقریباً چودہ برس بعد تیسری بار وزیراعظم بن گئے اورکاوس جی کی بات رہ گئی، وگرنہ ہم نے توایسی ہستیوں کے بارے میں بھی سنا ہے، جنھوں نے مریدین کو یقین دلارکھا تھا کہ نوازشریف وزیراعظم توکجا رکن قومی اسمبلی بھی نہیں بن پائیں گے۔ اس لیے ہمارے خیال میںسیاسی معاملات کو روحانی آنکھ کے بجائے ظاہر کی آنکھ سے دیکھ کر رائے قائم کرنی چاہیے ۔
ذوالفقارعلی بھٹوکے اقتدارمیں آنے سے قبل کے زمانے سے کاوس جی ان کے شناسا تھے،وہ حکمران بنے تو نہ جانے کس بات پران سے بگڑے اور جیل بھجوادیا ۔وہ72دن قید رہے۔آخر وہ اس سزا کے کیوں سزاوارٹھہرے؟اس کی وجہ ہم آپ کو کیا بتلائیں کہ اس بارے میں مرتے دم تک خود کاوس جی کو معلوم نہ ہوسکا۔قید سے وہ بھٹو کے نام تحریری معافی نامہ لکھ کرآزاد ہوئے۔اس قسم کی تحریرچئیرمین بھٹو کے نام ان کے والد نے بھی لکھی۔ اکبربگٹی نے کاوس جی کو بتایا کہ بھٹو نے ایک باران کا لکھا معافی نامہ دکھایا تھا۔اپنے دوست کا یہ عمل انھیں خوش نہ آیا کہ خود بگٹی کی ڈکشنری میں معافی کا لفظ نہ تھا۔ ان کے خیال میںچاپلوسی وہ برائی ہے جو قوموں کو برباد کردیتی ہے،یہ بات انھوں نے اپنے اس کالم میں لکھی جس میں انھوں نے ایوب دور میں پیرعلی محمد راشدی کی خوشامد درآمد کے رویے پربات کی اور بتایا کہ کس طرح انھوں نے ایوب خان کو کنگ بن کرموروثی بادشاہت قائم کرنے کا مشورہ دیاتھا۔ حکومتی عہدہ قبول کرلینے کے بعد بڑے بڑے اصول پسند بھی حکمران کی منشاکو ہی عزیزجاننے لگتے ہیں۔
جیسا کہ کاوس جی نے ممتازقانون دان خالد انورکی مثال دی ہے کہ بطور وزیرقانون انھوں نے احتساب قوانین کو اس انداز سے ترتیب دیا کہ حکمران خاندان ان کے شکنجے میں نہ آسکے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کے سلسلے میں ان کی خدمات پر بعد از مرگ ایوارڈ دیاتوآصف علی زرداری نے قوم کو مبارکباد دی تو کاوس جی نے محترم صدرکو یاد دلایا کہ پیپلزپارٹی کی کابینہ میںبلوچستان سے تعلق رکھنے والے وہ صاحب بھی موجود ہیں، جنھوں نے غیرت کے نام پردوخواتین کو زندہ درگورکرنے کواپنی قبائلی روایات کے مطابق قرار دیااور وہ حضرت بھی وزیر ہیں جو لڑکی کو ونی کرنے والے جرگے کے رکن تھے۔سیاستدانوں کے لتے لینے والے کاوس جی نے اپنے ایک کالم میں ولیم رینڈولف ہیرسٹ کا یہ قول نقل کیا ’’سیاست دان اپنی نوکری بچانے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے حتیٰ کہ محب الوطن بھی بن سکتا ہے۔‘‘ سیاست دانوں میں وہ اصغرخان کو سب سے بڑھ کر پسند کرتے۔ 1996ء میں تحریک انصاف کا قیام عمل میں آیا توکاوس جی نے عمران خان کے نام کھلے خط میں انھیں تجویز کیا کہ سیاسی امور پرانھیں اصغرخان سے مشورت کرنی چاہیے۔ان کے کہنے پریا پھراپنی مرضی سے عمران کی سیاسی سفر میں اصغرخان سے ذہنی قربت رہی اور وہ دوسرے اصغرخان ہونے کا طعنہ اب تک سہہ رہے ہیں۔ عمران خان نے ایک تقریب میں دیرسے آنے پرعذر کیا توارد شیر نے لکھا کہ اچھا لیڈرعوام کو انتظارنہیں کراتااور اگرایسا ہوجائے تو اسے تاخیرسے آنے کا جوازپیش کرنے کے بجائے معذرت کرلینی چاہیے۔ارد شیر کاوس جی کو ہم سے بچھڑے چودہ ماہ ہوگئے ۔ان کے چلے جانے کے بعد بھی ویسے ہی حالات ہیں، جن کا رونا وہ روتے رہے۔ بقول، احمد مشتاق
تبدیلیٔ حالات کے چرچے تو بہت ہیں
لیکن وہی حالات کی صورت ہے ابھی تک
ایک اہم تبدیلی جو ان کے جانے کے بعد رونما ہوئی، جس سے ان کی روح کو تکلیف ہوئی ہوگی وہ یہ ہے کہ قائد اعظم کی 11اگست1947ء کی جس تقریر کا حوالہ بارباران کی تحریروں میں آتا، اب بعض نابغے دھڑلے سے اس کے وجود سے ہی انکار کررہے ہیں۔
٭٭٭
’’ تمام مذہبی کٹرپن اندھا،احمقانہ اوروحشیانہ ہوتا ہے۔فرقہ وارانہ کٹرمذہبی پن اتنا ہی برا ہے جتناکہ مذہبوں کے درمیان غالی تعصب۔ کٹرمذہبی پن عقل کا گلہ گھونٹ دیتاہے اور کٹرمذہبی آدمی اپنے جوش جنوں میں سب کومجبور کرنے پرتلا ہوتا ہے کہ جس پراسے ایمان ہے،دوسرے بھی اس پرایمان لے آئیں۔ ‘‘
(11جون 2000ء)
٭٭٭
٭ ’’میری خواہش ہے کہ آنے والے سال مزید خوشیاں لائیں اور اس سرزمین کو امن نصیب ہو اور وہ لوگ جو اس ملک پرحکمرانی کرنا چاہتے ہیں، انھیں بھی تھوڑی سی عقل نصیب ہو۔‘‘
٭ ’’جہاں تک جناح صاحب کا تعلق ہے انھوں نے اپنی گیارہ اگست والی یادگارتقریر میں، جس کا چند ایک وہ لوگ حوالہ دیتے ہیں جوان کے نقش قدم پرچلنا چاہتے ہیں، اس بات کی وضاحت فرمادی تھی کہ یہ ملک کن خطوط پرگامزن ہوگا۔کچھ لوگ اپنی حکومت کے محدود نقطۂ نظر کی وضاحت کرنے کے لیے بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔جہاں تک انتہا پسندوں کا تعلق ہے، بدقسمتی سے ان کی تعداد اس ملک میں کم نہیں ہے، ان کواول تواس تقریرسے کوئی سروکارنہیں ہے،یا پھروہ اس سے اپنی مرضی کے مطالب نکالتے ہیں۔مسٹرجناح کا نظریہ اس قوم نے فراموش کردیاہے۔یہاں لفظ سیکولربغاوت کے مترادف ہے، یہاں تک کہ برداشت اور رواداری کے ذکرکو بھی مشکل ہی سے برداشت کیاجاتا ہے، جبکہ انتہا پسندی کا سایہ معاشرے میں مزید گہراہوتا جارہا ہے۔‘‘
٭ ’’اس ملک کے تمام حکمرانوں، وردی والوں اور وردی کے بغیر ، ہر دونے جناح کے پاکستان کی تلاش کاعزم کیا مگراپناڈولتا ہوا اقتداربچانے کے لیے کیا وہی جواس کے برعکس تھا۔ ‘‘
(25دسمبر 2011ء کو تحریر کردہ آخری کالم سے اقتباسات)
Ardeshir Cowasjee
↧
نقل مکانی کرنے والوں کو گھر واپسی کی اُمید
پاکستان کے پُرآشوب قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والی دادی امّاں زرماتا بی بی کے نزدیک حکومت اور پاکستان طالبان کے درمیان تاریخی امن مذاکرات سات برسوں سے جاری سورش کو ختم کرنے کے لیے کافی نہیں ہوسکتے۔
ساٹھ برس کی ضعیف خاتون نے اپنے بیٹے اور ایک پوتی دونوں ہی کو اس تصادم میں کھودیا ہے، انہوں نے اپنے گھر کو ملبے تبدیل ہوتے دیکھا اور انہیں 2012ء میں یہاں سے نقل مکانی پر مجبور کیا گیا، انہیں یقین نہیں ہے کہ ان کے خاندان کے باقی افراد کبھی یہاں لوٹ کر آئیں گے۔
ہنگو کے شمال مغربی قصبے میں اپنے عارضی گھر کے اندر انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’’میں اپنے گھر کو یاد کرتی ہوں، مجھے اپنے عزیز یاد آتے ہیں، مجھے سب کچھ یاد آتا ہے۔ امن کے لیے کسی بھی اقدام کا مطلب ہوتا ہے کہ معمول کی زندگی واپس لوٹ رہی ہے۔
زرماتا بی بی پاکستان کے ان سات لاکھ پچاس ہزار لوگوں میں سے ایک ہیں، جنہیں ملک کے اندر ہی نقل مکانی پر مجبور کردیا گیا ہے۔
یہ ملک کے اندر ہی ہجرت پر مجبور ہونے والے ایسے لوگ ہیں، جن کی داستانیں فوجی آپریشن اور خودکش حملوں کی روزآنہ کی کوریج میں شاذونادر ہی شامل ہوپاتی ہیں، جب سے سرحدی علاقوں میں عسکریت پسند اسلام آباد حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں، تب سے ان خودکش حملوں نے ملک کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
حالانکہ مبصرین وزیرِ اعظم نواز شریف کے اعلان کردہ مذاکرات کے نتائج پر شک و شبے کا اظہار کررہے ہیں، جو گزشتہ ہفتے شروع ہوئے تھے، لیکن ان مذاکرات سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والے کچھ افراد کے دل میں امیدوں کے چراغ روشن کردیے ہیں، جو برسوں کی صعوبت کے بعد اچھی خبر سننے کے لیے بے چین ہیں۔
ایک جانب سے طالبان اور دوسری طرف سے فوج کی گولہ باری کے درمیان پھنسے ہوئے ان میں سے بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ امن مذاکرات ان کے لیے کسی قسم کے پائیدار حل کا ایک بہترین موقع ہیں۔
قبائلی علاقے کے ڈسٹرکٹ خیبر سے تعلق رکھنے والے ایک ستاون سالہ بزرگ حاجی نامدار خان کہتے ہیں کہ ’’مایوسی اسلام میں گناہ ہے‘‘، وہ پشاور کے مضافات میں نقل مکانی کرنے والے لوگوں کے لیے قائم کیے گئے جلوزئی کیمپ میں 2009ء سے مقیم ہیں۔
انہوں نے کہا ’’آخر کار مذاکرات ہی ایک واحد حل ہے۔ میں پُرامید ہوں کہ حالیہ امن عمل سے کوئی حل برآمد ہوجائے گا۔‘‘
موسم کی سختی اور دیگر صعوبتیں:
پاکستان کے اندر ہی نقل مکانی پر مجبور ہونے والوں کی حالتِ زار سے قوم اس وقت واقف ہوئی، جب 2009ء میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے بعد بہت سے لوگوں کو سوات کی دلکش وادی سے نکلنے پر مجبور ہونا پڑا تھا، جو اسلام آباد سے محض 125 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
اندرون و بیرونِ ملک سے اکھٹا ہونے والے عطیات کے ذریعے انہیں خوراک، عارضی پناہ گاہیں، اور دیگر اشیائے خوردونوش فراہم کی گئیں، اور تصادم کےخاتمے پر نقلِ مکانی پر مجبور ہونے والے بہت سے افراد اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
اگرچہ سوات میں لڑائی ختم ہوچکی ہے، پاکستانی فوج اب بھی ملک کی نیم خودمختار قبائلی پٹی میں 2007ء سے جاری اندرونی طور پر پروان چڑھنے والی بغاوت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اس قبائلی پٹی کو امریکا القاعدہ کا عالمی ہیڈکوارٹرز خیال کرتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہاں خیبر کا علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، جہاں پاکستانی طالبان اور حکومت کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کے درمیان گزشتہ ایک سال سے لڑائی جاری ہے۔
ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق تقریباً سات لاکھ پچاس ہزار افراد پناہ گزینوں کے لیے قائم کیے گئے کیمپوں میں مقیم ہیں، اکثر کرائے کے گھروں یا دوستوں و رشتہ داروں کے ساتھ آباد علاقوں میں رہ رہے ہیں۔
ایک تخمینے کے مطابق چالیس ہزار کے قریب ایسے بدقسمت لوگ ہیں جو پشاور، کرّم قبیلے کے ڈسٹرکٹ اور ہنگو میں کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
ان کیمپوں میں جہاں تک نظر دوڑائیں دور دور تک خیمے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں پانی اور بجلی کا انتظام نہیں ہے اور یہاں کے رہائشیوں کو موسم گرما کی جھلسادینے والی گرمی برداشت کرنی پڑتی ہے، جب درجۂ حرارت پچاس سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے، اس سے پہلے موسم سرما کے دوران انہیں نقطۂ انجماد صفر سے نیچے کی سخت سردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
↧
سٹیل ملز۔ کرپشن اور نا اہلیوں کی دردناک داستان
نیشنل سکول آف پبلک پالیسی کے ایگزیکٹو ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کی دعوت پر میں 10فروری کو لاہور گیا۔ قومی اہمیت کا یہ ادارہ مال روڈ پر واقع ہے۔میری معروضات کا عنوان تھا منیجنگ پبلک اور پرائیویٹ انٹرپرائزز مجھے کہا گیا کہ میں میں اپنی توجہ سٹیل ملز کی کیس ہسٹری پر مرکوز رکھوں۔اس سینئر ترین کورس کے شرکاء میں کچھ صوبائی وزرائ، ایم این اے جنرلز ‘ ججز، بیورو کریٹس اور پرائیویٹ سیکٹر کی بہت تجربہ کار شخصیات کے علاوہ سابق مشیر خزانہ سلمان شاہ صاحب بھی شامل تھے جنہوں نے مباحثے کو کنٹرول کرنا تھا۔ یہ دوگھنٹوں کا ایک سیشن تھا۔ جس میں راقم نے جو چند اہم نکات کورس کے شرکاء کے سامنے رکھے وہ مختصراً پیش خدمت ہیں۔
1947 میں جب پاکستان وجود میں آیا تو ولیکا سمیت چند ٹیکسٹائل ملز کے علاوہ پاکستان کے صنعتی سیکٹر میں ویرانہ تھا۔ اس وقت سٹیل یا دفاعی پیداوار جیسے پیچیدہ اور مشکل کارخانے کی تعمیر کی بات کرنا ایسا ہی تھا جیسے آج آپ میزائل ٹیکنالوجی کے حصول کی بات کرتے ہیں۔ بہرحال اہل بصیرت قیادت موجود تھی اس لئے خان لیاقت علی خان نے دسمبر 1951 میں واہ فیکٹری کی بنیاد رکھ کر یہ مشکل فیصلے کیے اس کے بعد فیلڈ مارشل ایوب خان نے پہلے پنجسالہ منصوبے میں لوہے اور فولاد کی صنعت کا تصور دیا۔
جنرل یحییٰ خان نے ماسکو میں جاکر سٹیل ملز کے معاہدے پر دستخط کئے اور ذوالفقار علی بھٹو نے کراچی سے 42 کلو میٹر دور پپری کے ریگستان میں ساحل سمندر پر سٹیل ملز کی جگہ کا خود بطور وزیراعظم انتخاب کیا۔ اُنکے ہمراہ سابق گورنر بیرسٹر کمال اظفر بھی تھے جنہوں نے مجھے یہ قصہ سنایا۔ دفاع اور سٹیل کے یہ سارے کارخانے پبلک سیکٹر میں اس لئے لگائے گئے کہ اس وقت پرائیویٹ سیکٹر میں اتنی جان نہ تھی۔
19000 ایکڑ جگہ سندھ حکومت سے بھٹو صاحب کے احکامات پر 76 پیسے فی گز کے حساب سے 50 ملین روپے کی خریدی گئی اسکی ساری رقم مرکزی حکومت نے سندھ حکومت ادا کردی اس زمین کا سٹیل ملز کے نام انتقال بھی مکمل ہوگیا یہ Mutation راقم نے اپنے دور میں کروائی تھی اب یہ زمین سندھ حکومت کی نہیں بلکہ مرکزی حکومت کی ہے لیکن اس پر صرف انڈسٹری لگ سکتی ہے کسی اور مقصد کیلئے یہ جگہ استعمال نہیں کی جاسکتی۔ ضروری عملے کیلئے سٹیل ٹائون کھڑا کیا گیا جس میں 4000 کواٹرز ہیں گلشن حدید میں بھی 600 ملازمین کیلئے گنجائش رکھی گئی جہاں اب لاکھوں کی آبادی کے مکان بن چکے ہیں۔165 میگا واٹ کا بجلی گھر،100 بستروں کا ہسپتال ساحل سمندر پر اپنی Jetty،4.3 کلو میٹر نجی کنوئیر بیلٹ، سمندر سے ایک چینل کاٹ کر مل تک لایا گیا،سپورٹس سٹیڈیم، سٹوڈنٹ ہاکی گرائونڈ،400 طلبا کی رہائش کے ساتھ ایک کیڈٹ کالج،12دوسرے تعلیمی ادارے، معذور بچوں کا سکول، حدید ویلفیئر ٹرسٹ، میٹا رجیکل انسٹی ٹیوٹ جو 25ایکڑ پر ہے اور جس میں 500 نشستوں والا ایک ایڈیٹوریم ہے۔ویسٹ واٹر پلانٹ،96 ایکڑ پر فیبریکشن فیکٹری، لاہور گلبرگ، اسلام آباد ایمنسٹی روڈ اور کراچی ڈرگ روڈ پر مارکیٹنگ دفاتر، سٹیل ٹائون میں آفیسرز میس اور 51 بہترین5 سٹار گیسٹ رومز،2کلو میٹر محیط میں قائداعظم پارک،110کلو میٹر لمبی بہترین سڑکیں72 کلو میٹر کی ریلوے لائن،18ریل انجنز اور بجلی کی HT لائنز کیلئے 10 کلو میٹر لمبی سرنگیں شامل ہیں اس کے علاوہ 200ایکڑ جگہ عریبین (SEA) کنٹری کلب کیلئے سٹیل ملز نے لیز پر دی ہوئی ہے۔ نیشنل ہائی وے اور سپر ہائی وے دونوں ساتھ ہیں اور یہ مل پورٹ قاسم کی گود میں ہے کراچی سے پشاور تک جانے والی قومی ریلو ے لائن بھی وہاں سے گذرتی ہے۔
ان تمام حقائق وسائل کے باوجود تقریباً ہر حکومت نے اس ادارے کو اپنی سیاسی بھرتیوں کا گڑھ سمجھا، فرنٹ مینوں کے ہاتھوں لوٹا، سینکڑوں سٹیل ملز سے تنخواہ لینے والے آئوٹ سائیڈر (باہرلے) کراچی کی سیاسی پارٹیوں کے دفتر میں کام کرتے تھے سارے لوہے کے پتنگ سٹیل ملز سے بنتے، یونین ورکرز کے لبادے میں بہت سے لوگوں نے ملز کی سینکڑوں گاڑیاں اور ٹیلی فون بے جا استعمال کئے۔ سٹیل ملز کی بسیں بھٹو صاحب کی برسی پر سینکڑوں میل دور لاڑکانہ تک سیاسی کارکنوں کو اٹھا کر جاتی رہیں خام مال کے سودے ہوں یا بحری جہازوں کا فریٹ، سکریپ بیچنے کی بات ہو یا فالتو پرزے منگوانے کیلئے ٹینڈر کا قصہ ہو۔سب نے مل کر اس قومی سطح کے سب سے بڑے ادارے کو بے رحمی سے لوٹا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ احتساب کے کٹہرے میں کسی کو کھڑا نہیں کیا گیا۔ ایک چیئر مین پابند سلاسل ہے لیکن اس کو استعمال کرنے والی سیاسی قوتیں دوبارہ اقتدار میں آنے کی تیاری میں ہیں اُن پر قانون کی کوئی گرفت نہیں وہ بھٹیاں جو میری موجودگی میں 94 فیصد Capicity پر چل رہی تھیں آج مکمل بجھنے کیلئے آخری ہچکیاں لے رہی ہیں۔
خام مال کے Yards جہاں کوئلے اور خام لوہے کے پہاڑ لگے ہوئے تھے ہماری ملک دشمنی کا رونا رو رہے ہیں بلاسٹ فرنسز اور کوک اوون بیٹریز کے خام مال کی بھوک سے ہوش ہے جو اربوں کا نقصان ہے۔ ملازمین کو کئی ماہ کی تنخواہ نہیں ملی، بنک (LC) ایل سی کھولنے پر تیار نہیں اور سٹیل ملز کے اس عظیم الشان ادارے میں ایک صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ سٹیل ملز دراصل ہماری کرپشن اور نا اہلیوں کی دردناک داستان ہے۔ نواز شریف کی پچھلی حکومت نے 1998 میں اس مل کو ایک ترکی کی کمپنی کو آگے بیچنے کی بات کی تو وہ مسئلہ آگے نہ چل سکا۔1999 میں میاں صاحب نے ECC کی ایک میٹنگ میں سٹیل ملز کی Restructuring کا فیصلہ کیا جس کو 2000 میں پرویز مشرف حکومت نے عملی جامہ پہنایا جس سے سٹیل ملز کے حالات کچھ بہتر ہوئے اس وقت سٹیل ملز 19 ارب روپے کی مقروض تھی جس میں سے 12ارب روپے اس کو ادا کرنے تھے اور باقی 7ارب روپے جو خالص سود تھا وہ موخر کردیا گیا۔ جنوری 2004 میں جب میں سٹیل ملز پہنچا تو یہ ادارہ 7.68 ارب روپے کے قرضے کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا 13دسمبر 2006 کو جب میں ملز سے سبکدوش ہوا تو اس کے سارے قرضے اتارنے کے بعد سٹیل ملز میں 6ارب روپے کا خام مال 4ارب روپے کا تیار مال 2ارب روپے کے فالتو پرزے اور 10ارب روپے بنک میں بچت کی شکل میں موجود تھے۔ حکومت کو 6 ارب روپے کا تاریخ میں پہلی دفعہ انکم ٹیکس اور کوئی 12ارب روپے سیلز ٹیکس کی ادائیگی اس کے علاوہ تھی۔
آج سٹیل ملز کا مجموعی خسارہ 87 ارب اور کل قرضہ 106 ارب روپے ہوچکا ہے۔میں نے سامعین کو بتایا کہ چین کے اندر سینکڑوں ادارے آج بھی پبلک سیکٹر میں بہت کامیابی سے چل رہے ہیں اس کی دو بڑی وجوہات ہیں ۔ سرکاری اداروں میں لوگ میرٹ پر تعینات کئے جاتے ہیں کوئی سیاسی بھرتی نہیں اور دسری بڑی وجہ یہ ہے کہ کرپشن میں ملوث بڑے سے بڑے چیف ایگزیکٹو کو تخت دار پر لٹکادیاجاتا ہے لیکن اس میں مشکل نہیں کہ دنیا میں آج جو سوچ ہے وہ یہی ہے کہ حکومتوں کا حجم بہت چھوٹا ہوناچاہئے ان کو کاروبار میں ملوث نہیں ہوناچاہئے حکومت کو خود بالکل نظر نہیں آناچاہئے بلکہ اس کی اچھی حکمرانی کی شکل میں بہترین کارکردگی اس کی پہچان ہونی چاہئے۔ ترقی یافتہ ممالک میں پولیس کا سپاہی بھی سڑک پر نظر نہیں آتا لیکن قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوئی جرأت نہیں کرسکتا۔
2006 میں ہونے والی سٹیل ملز کی نجکاری کو سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اس لئے منسوخ نہیں کیاتھا کہ ادارے کی نجکاری کرنا غلط تھی بلکہ اس لئے کہ نجکاری کے طریقہ کار میں گھپلے تھے 20ستمبر 2004 کے ایک خط کے تحت جب نجکاری کمشن نے سٹیل ملز کی نجکاری سے متعلق مجھ سے رائے مانگی تو میں نے کراچی کے ٹاپ کلاس مالیاتی اور قانونی امور کے ماہرین سے رہنمائی حاصل کرنے کے بعد یکم اکتوبر 2004 کو یہ نجکاری کا مندرجہ ذیل طریقہ اختیار کرنے کی رائے دی تھی۔
’’یعنی پہلے سٹیل ملز کے مزید حصص بیچ کر مالی حالت بہتر کی جائے پھر اس کی توسیع ہو اس کے بعد اس کے حصص عوام یا فیکٹری کے مزدوروں کے آگے بیچ دئیے جائیں اور حکومت آہستہ آہستہ اپنی ملکیت سے دستبردار ہوجائے۔‘‘اب تو حالات ناگفتہ بہ ہیں جن کو سدھارنے کیلئے حکومت کو جلد کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔
↧
How to Deal with International Terrorism in Pakistan by Dr. Abdul Qadeer Khan
↧
↧
Valentine's Day, Basant and New Year by Ataul Haq Qasmi
↧
مشتاق احمد یوسفی ,ایک رجحان ساز اور صاحب اسلوب مزاح نگار
مشتاق احمد یوسفی ایک رجحان ساز اور صاحب اسلوب مزاح نگار ہیں، یوسفی صاحب اردو کے مزاحیہ ادب کا ایک ایسا نام ہیں جنھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آپ کے بارے میں اگر میں (ناچیز) یہ کہوں کہ آپ مزاح کی امتیازی اور جداگانہ روایت کے موجد بھی ہیں اور آخری رکن بھی۔ انھوں نے بلاشبہ اردو ادب کو مزاح کے میدان میں بے پایاں عزت دی۔ اردو مزاح کا کوئی بھی دور ان کے بغیر ناممکن ہے، یوسفی صاحب اردو زبان وادب کے صف اول کے ادیبوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ یوسفی صاحب کا آبائی وطن جے پور جسے ’’پنک سٹی‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ضلع ٹونک، راجستھان، بھارت ہے وہ وہاں کے مقامی مسلمان تھے۔ ان کے باپ دادا جے پور میں نسلوں اور پشتوں سے آباد تھے، یہ علاقہ حرف عام میں راجپوتانہ بھی کہلاتا ہے۔ یوسفی صاحب کا حلقہ احباب بے حد وسیع ہے اور یہاں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انسان محض اپنی ذات میں محدود ہوکر زندگی کا حسن کشید نہیں کرسکتا اسی لیے دوستی کی اہمیت اور افادیت زندگی کے کسی مرحلے پر بھی رد نہیں کی جاسکتی اور ایسے شخص کے مفلس ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے۔ جس کا کوئی دوست نہ ہو، یوسفی صاحب آپ ہرگز بھی مفلس نہیں ہیں ازراہ مذاق، وہ انگریزی ادب میں زیادہ پسندیدہ لکھنے والے مارک ٹوین (Mark Twain) ہیں اسٹیفن لیکاک (Stephen Leacock) کے بھی متاثر ہیں اور اردو ادب میں غالب کے اثرات ان کے فکر و فن پر زیادہ غالب ہیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ اردو کے تقریباً تمام مستند اسالیب کی جھلک ان کے یہاں دکھائی بھی دیتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی بتانی ضروری ہے کہ یوسفی صاحب نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ’’مشتاق احمد‘‘ کے قلمی نام سے کیا۔ شاید یوسفی کا قلمی نام یوں رکھ لیا ہو کہ ان کے ادبی کاموں میں جو برجستہ حسن ہے وہ حضرت یوسف کی خوبصورتی سے لیا گیا ہو، وہ فرماتے ہیں، بینکنگ کی وجہ سے مجھے ادب میں تو کوئی تکلیف نہیں ہوئی لیکن ادب کی وجہ سے مجھے Banking میں بہت تکلیف ہوئی، معاملہ اس کے برعکس بھی ہوسکتا تھا۔ مشتاق احمد یوسفی کا پہلا باقاعدہ مطبوعہ مضمون ’’صنف لاغر‘‘ ہے جو طباعت کے لیے سب سے پہلے معروف ادبی جریدے ماہنامہ ’’ادب لطیف‘‘ کے مدیر میرزا ادیب نے شایع کیا، ان کی باقاعدہ ادبی زندگی کی ابتدا 1955 کے زمانے میں ہوئی۔ یہ حیران کن بات ہے کہ یوسفی صاحب نے کبھی فکاہیہ کالم نہیں لکھے آج کل تو وہ لوگ بھی فکاہیہ کالم لکھ رہے ہیں یا ایسے لوگ بھی مزاح نگاری اور مزاحیہ شاعری کر رہے ہیں جن کو مزاح کی ا،ب،پ،ت بھی نہیں پتا۔ جب کہ یوسفی صاحب کو پوری حروف تہجی ازبر یاد ہے۔ یوسفی صاحب کی 5 فروری 1941 کو مشتاق احمد یوسفی کے نام سے ان کی کتاب ’’پہلا پتھر‘‘ اپنے بارہ مضامین پر مشتمل پہلی کتاب ’’چراغ تلے‘‘ شایع ہوئی اور اس کتاب کے تقریباً 9 سال کے بعد ’’خاکم بدہن‘‘ جنوری 1970 میں لاہور سے شایع ہوئی۔
لوگ کیوں، کب اور کیسے ہنستے ہیں جس دن ان سوالوں کا صحیح صحیح جواب مل جائے گا انسان ہنسنا چھوڑ دے گا۔ یوسفی صاحب کہتے ہیں کراچی والے آگے ہوکر کراچی کی برائی کرتے ہیں لیکن کوئی اور ان کی ہاں میں ہاں ملا دے تو خفا ہوجاتے ہیں۔بے ساختہ ہنسی خالصتاً فطری ردعمل ہے، یہ جذبہ کن وجوہات کے زیر اثر انسان کے اندر وقوع پذیر ہوتا ہے، کافی پیچیدہ اور دیرینہ سوال ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی ہنسی کے اظہار پر بحث ہوتی رہی ہے۔ John Keats کی ایک نظم Why did the psychology of laughter جوکہ گریگ (J.Y.T Garag) کی معروف کتاب ہے اس میں ایسی تین سو تریسٹھ (363) کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے جو ہنسی سے متعلق بحث کرتی ہیں۔ اندروں انسان جب حبس کی فضا جنم لیتی ہے تو اچانک کسی صورت وہ جام جذبات سے لبریز ہوجاتا ہے اور وہ بے ساختہ ہنسنے لگتا ہے‘‘۔ ہنسی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی شے ہوتے ہوتے رہ جائے اور انسانی توقعات ایک بلبلے کی طرح پھٹ کر ختم ہوجائیں۔ تاہم یہ ہنسی کی کوئی حتمی تعریف نہیں ہے درست ہے کہ ’’ہنسنا‘‘خوشی کے احساس کا نام ہے، اور احساس کوئی مجسم چیز نہیں ہے جسے مثال کے طور پر ہاتھ سے چھو کر پیش کیا جاسکے لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ کیا ہر ہنسی، خوشی کا اظہار ہوا کرتی ہے، کیونکہ جو لوگ اپنے دکھ درد اپنے دل میں چھپا کر ہنس رہے ہیں ان کی ہنسی، دل لگی اور مذاق کو کیا نام دینا چاہیے۔ مزاح نگاری کے اہم حربوں میں مزاحیہ صورت واقعہ (Humor of situation) مزاحیہ کردار نگاری “Humor of character” لفظی مزاح (Pun) تعریف (Parody) موازنہ (Comparison) تشبیہہ (Simile) اور قول محال (Paradon) شامل ہوتے ہیں۔
مزاح نگاری میں مسلسل ترسیل علم اور پڑھنے پڑھانے کا عمل دخل رہتا ہے، مزاح پکھڑ پن کا بھی نام ہے جو آج کل رائج بھی ہے، لیکن ایک ایسا مزاح جو جذبات کو مجروح کیے بغیر، بنا کسی کی دل آزاری سے عاری ہو وہ صرف مطالعے ہی سے وجود میں آتا ہے، یوسفی صاحب کی تحریروں میں طنز اور مزاح اصلاح معاشرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، وہ پچھلے کئی برسوں سے اس عرق ریزی کے ذریعے اپنے قارئین و سامعین کو زمانے کی تلخیوں سے روشناس کروا رہے ہیں۔ ان کے جملوں کی کاٹ دو دھاری تلوار کا کام کیا کرتی ہے۔ سید ضمیر احمد جعفری شاعری میں، اس کے علاوہ دلاور فگار، ضیا الحق قاسمی نے بھی عمدہ مزاح اپنے قاری کو دیا ہے لیکن میرے خیال میں اب تک یوسفی صاحب ہی وہ واحد زندہ جاوید ہستی ہیں جو بلاتامل اچھا اور مثبت مزاح تخلیق کر رہے ہیں۔
یوسفی صاحب کے کردار ایک، ان کا فن دوئم، ان کی مزاح نگاری، ان کی متنوع شخصیت چار آپ کس کس بات کو مختصر سے کالم میں قلم بند کرسکتے ہیں، یہ تو دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ یوسفی صاحب کی نثر طنز و مزاح کی دلکش آمیزش سے ترتیب پاتی ہے ، موضوعات کا تنوع ان کے ہاں سب سے اہم اور مقامیت کے جگر آفاقیت کا وصف نمایاں ہے۔ تحریف نگاری (Parody) ان کا من پسند آلہ مزاح ہے، لیکن مزاح زیادہ تر گفتگو، تبصرے، خیال، بحث اور مکالموں کے ذریعے سے پیدا کرتے ہیں، یوسفی صاحب طنز و مزاح نگاری کے لیے مضمون، آپ بیتی، خاکہ، تاریخ، مرقع، افسانہ، ناولٹ، ناول جیسی اصناف کو استعمال میں لائے ہیں (آپ ہیں کیا) تاریخ دان ہیں، محقق ہیں، نقاد ہیں، مورخ ہیں، ان کے سدا بہار اسلوب کی تشکیل میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
بقول پروفیسر ڈاکٹر محمد علی صدیقی:
’’یوسفی صاحب نظیر اکبر آبادی کی طرح سرسید جیسی شخصیت پر پبتیاں کستے تھے اور سرسید اپنے کام میں جتے رہتے تھے، کبھی کبھی کسی سے کدورت دوسرے کو عزت دوام بخشتی ہے، یوسفی صاحب پر بھی پبتیاں کسی گئیں اگر یوسفی صاحب ان پبتیوں پر کان دھرتے تو آج وہ مشتاق احمد کے نام سے جانے جاتے۔
Mushtaq Ahmad Yusufi
↧
مذاکرات کا کوہِ گراں
↧
پاک سعودی تعلقات مزید وسیع کرنے کی ضرورت
سعودی عرب اور پاکستان کی دوستی ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ سعودی عرب نے قدرتی آفات سمیت ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ اتوار کو سعودی ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے صدر مملکت ممنون حسین سمیت دیگر وزراء سے ملاقاتیں کیں اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال کیا۔ اس دورے کے دوران سعودی ولی عہد نے ان نیک خواہشات کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان کو خوشحال‘ توانا اور معاشی میدان میں متحرک دیکھنے کے خواہشمند ہیں اور ضرورت پڑنے پر وہ اپنے پاکستانی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ پاک سعودی تعلقات تاریخی اور منفرد ہیں‘ دونوں ایک دوسرے کے قریب ترین دوست اور حلیف ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعلقات کوئی نئی بات نہیں‘ پاکستان میں سعودی فوجی اہلکار ایک عرصے سے تربیت حاصل کرتے چلے آ رہے ہیں۔ سعودی دفاعی ضروریات پوری کرنے میں بھی پاکستان نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے جسے وہاں کی حکومت قدر اور تحسین کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
تیل کی دولت سے مالا مال امیر ملک سعودی عرب کا عالمی سطح پر اہم مقام ہے دوسری جانب پاکستان دفاعی میدان میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے مگر مالی مسائل مزید پیشرفت میں آڑے آ رہے ہیں۔ یہ خوش آیند امر ہے کہ بدلتے ہوئے حالات کا درست ادراک کرتے ہوئے دونوں ممالک دفاعی شعبے میں مزید تعاون بڑھانے پر غور کر رہے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے سعودی ولی عہد سے ملاقات کے موقع پر یہ بالکل درست تجویز پیش کی کہ دونوں ملک دفاعی پیداوار کے مشترکہ منصوبے شروع کر سکتے ہیں‘ اس سے نہ صرف دونوں ملک دفاعی آلات میں خود کفیل ہو سکتے ہیں بلکہ یہ سامان عالمی مارکیٹ میں بھی پیش کر سکتے ہیں۔ اگر پاکستان اور سعودی عرب مشترکہ دفاعی منصوبے شروع کرتے ہیں تو اس کا فائدہ دونوں ممالک کو پہنچے گا۔ مالی وسائل ملنے سے پاکستان دفاعی میدان میں جہاں بڑی تیزی سے ترقی کرتے ہوئے عالمی مارکیٹ میں اپنا اسلحہ فروخت کر کے کثیر زرمبادلہ کما سکتا ہے وہاں سعودی عرب کو بھی امریکا اور یورپ کے مقابلے میں سستا اسلحہ ملے گا اور وہ دفاعی لحاظ سے بھی مضبوط ہوگا۔ پاک سعودی تعلقات کا دائرہ کار دیگر شعبوں تک بڑھانا ناگزیر ہو چکا ہے۔
پاکستان کو اس وقت توانائی بحران کا سامنا ہے اور توانائی کے منصوبے شروع کرنے میں مالی مشکلات سدراہ ہیں‘ یہ اربوں ڈالر کے منصوبے ہیں۔ اگر سعودی عرب ان منصوبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کے ساتھ ساتھ بلاسود آسان شرائط پر قرضے فراہم کرے تو پاکستان توانائی کے بحرانی گرداب سے بآسانی نجات پا سکتا ہے ۔ پٹرولیم مصنوعات میں بھی سعودی عرب پاکستان کی مدد کر کے اس کے مالی مسائل حل کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ توانائی کے متعدد منصوبوں میں تیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ سستا تیل ملنے سے پاکستان اپنے توانائی کے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک میں باہمی تجارتی تعلقات زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کے لیے مشترکہ چیمبرز آف کامرس قائم کرکے اہم پیشرفت کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اپنے ہاں سستی زمینیں فراہم کرے تو وہاں پاکستانی تجارتی مارکیٹیں اور پلازے قائم کر کے پاکستانی مال بڑے پیمانے پر فروخت کیا جا سکتا ہے‘ اس طرح پاکستانی تاجروں کو سعودی عرب کی صورت میں بڑی تجارتی منڈی مل جائے گی۔
پاکستان سعودی حکومت سے زیادہ سے زیادہ تجارتی سہولتیں حاصل کرنے کی کوشش کرے اس کے علاوہ جو پاکستانی ورکرز سعودیہ میں کام کر رہے ہیں ان کی ملازمت کے تحفظ کے لیے بھی زیادہ سے زیادہ رعایتیں حاصل کی جائیں تاکہ وہ زیادہ بہتر اور آزادانہ ماحول میں کام کر سکیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب پاکستانی انجینئرز‘ ٹیکنیشن اور ڈاکٹرزکی خدمات سے فائدہ اٹھا کر جہاں ترقی کے میدان میں آگے بڑھ سکتا ہے وہاں پاکستان کے مالی مسائل حل کرنے میں بھی مدد کر سکتا ہے۔ زراعت‘ طب‘ سائنس اور دیگر شعبوں میں مشترکہ تحقیقاتی ادارے قائم کیے جائیں‘ اس سے دونوں ممالک سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں عالمی سطح پر اہم مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا دائرہ مزید شعبوں تک پھیلایا جائے۔
Pakistan and Saudi Arabia Relations
↧
↧
ہم کیوں نہ شکر کریں
ایک جگہ ایک کمرے میں دو افراد سے کہا گیا کہ وہ کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھیں اور بتائیں کہ انھوں نے کیا دیکھا۔چنانچہ دونوں افراد نے باری باری کھڑکی سے باہر دیکھا تو ایک نے کہا کہ اسے گلی میں گندگی نظر آئی جب کہ دوسرے نے بتایا کہ اسے آسمان پر اڑتے پرندے نظر آئے۔ یہ حسن نظر اور یہ سوچ کا انداز ہی دراصل قوموں کی ترقی یا تنزلی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستانی قوم عام طور پر مایوس نظر آتی ہے۔ جو زندگی کے مختلف پہلوؤں پر شاکی اور رنجیدہ ہے حالانکہ ایسے بے شمار پہلو ہیں جن پر خوش اور مطمئن بھی رہا جا سکتا ہے مگر اس طرف ان کی نظریں اٹھتی ہی نہیں۔ دراصل انسان کے اندر خوشی اور انبساط کی کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ شکر ادا کرتا ہے۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ سوچ کا کون سا انداز اور فکر کا کون سا رخ ہمیں خوشی اور مسرت کی طرف لے جاسکتا ہے جس سے ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی مایوسی اور بد دلی کو کسی حد تک کم یا ختم کیا جاسکتا ہے کہ یہی وہ عمل ہے جو قوموں کو ترقی کی طرف لے جاتا ہے۔
ہم میں سے اکثر لوگوں نے شاید اس بات کو محسوس ہی نہیں کیا کہ یہ ہم سب پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنی بہترین امت میں پیدا کیا اور ایمان پر ہماری آنکھ کھولی۔ پھر ہم اس بات پر کیوں نہ شکر کریں۔ انسان کے سدھار میں اس کی اپنی سوچ، احساس اور جذبہ جو مثبت کردار ادا کرتے ہیں وہ بڑے سے بڑا قانون نافذ کرنے والا ادارہ بھی نہیں کر سکتا۔
ہمیں تاریخ کا سبق یاد رکھنا چاہیے کہ مسلمانوں کی عظیم سلطنت عثمانیہ عربی اور عجمی کا تفرقہ پیدا کرکے ختم کردی گئی اور ہندوستان کی عظیم مغلیہ سلطنت اغیار کو رعایتیں دے دے کر خود اپنی قبر کھود بیٹھی۔
ہمارے ملک پاکستان کے پاس وسیع رقبہ ہے جو کئی ترقی یافتہ ممالک کی نسبت بڑا ہے۔ ہماری سرزمین بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اس کے پاس دریا ہیں، ٹھاٹھیں مارتا ہوا وسیع و عریض سمندر ہے۔ قدرتی اجناس پھل اور سبزیاں بڑی مقدار میں یہاں پیدا ہوتے ہیں۔ قدرت کے سارے موسم اعتدال کے ساتھ یہاں اپنی بہاریں دکھاتے ہیں۔ پہاڑ، جنگل، چٹیل میدان سب کچھ یہاں موجود ہیں۔ باصلاحیت اور محنتی افرادی قوت کی اگرچہ ہمارے ملک میں اب قلت نہیں ہے مگر پچھلے چالیس (40) برسوں سے بڑی تعداد میں پاکستانیوں کا باہر ممالک میں جانا اور اپنا قیمتی وقت، محنت، طاقت اور علم اپنے وطن عزیز پر صرف کرنے کی بجائے بیرون ممالک کو شاداب کرنے پر لگانا ہمارے ملک کے لیے کوئی بہتر نتائج پیدا نہیں کر رہا۔ گوکہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ملک میں بیروزگاری ہے اور لوگ بہتر روزگار کے لیے بیرون ملک چلے جاتے ہیں مگر یہ مسئلے کا مستقل حل تو نہیں۔ باہر جانے والے ہمارے زیادہ تر ہم وطنوں کی زندگیاں بھی زیادہ خوش کن نہیں ہوتیں انھیں ان کی اجرت اور تنخواہیں بھی وہ نہیں ملتیں جو بیرونی ممالک ان کے ہم پلہ اپنے شہریوں کو دیتے ہیں وہ ایک دوسرے درجے کے شہری کی طرح ڈرے سہمے اپنی زندگی کے دن وہاں گزار رہے ہوتے ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کی تمام تر افرادی قوت (بشمول بیرون ملک پاکستانی) اپنے تمام تر علم، تجربے ، طاقت اور مالی وسائل سے اپنی اسی سرزمین پر سجدہ شکر بجا لاتے ہوئے یہاں سے سونا نکالنے کی کوشش کریں۔میں نے ایک طویل عرصہ اعلیٰ تحقیقی اور انتظامی عہدوں پر کام کیا ہے۔
میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ ہمارے ملک میں اکثر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ مناصب پر فائز افراد جب غیر ملکیوں سے ملتے ہیں تو مرعوب ہوجاتے ہیں اور نہ تو اپنا مطمع نظر صحیح طور پر بیان کر پاتے ہیں۔ یہاں میں ایک امریکی بزنس مین رابرٹ۔ ای۔مولیگن (Robert E. Mulligan) سے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کروں گی جب وہ 1989 میں قائد اعظم پر اپنی ایک فلم بنانے کے سلسلے میں پاکستان تشریف لائے۔ ایک غیر رسمی ملاقات میں انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ قائد اعظم پر فلم بنا رہے ہیں اور اپنی اس فلم کا ابتدائی یا تعارفی جملہ انھوں نے قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی ایک تقریر سے لیا ہے پھر انھوں نے مجھے وہ جملہ پڑھ کر سنایا۔ یہ وہی جملہ تھا جس کی عام طور پر غلط ترجمانی کی جاتی رہی ہے۔ جس کا مقصد اس وقت مذہبی رواداری کے اظہار کے سوا اور کچھ نہ تھا کیونکہ پاکستان کے قیام پر ہندوؤں کی بڑی تعداد جو یہاں رہائش پذیر تھی وہ ڈر کر ہندوستان جا رہی تھی۔
میں نے مولیگن صاحب سے پوچھا کہ انھوں نے اپنی فلم کے لیے قائد اعظم کی اس متذکرہ تقریر کا یہ جملہ کیوں منتخب کیا ہے؟ جب کہ قائد اعظم کی ایسی بے شمار تقاریر ہیں جن میں انھوں نے پاکستان کی ریاست و حکومت کے مسلم خدوخال کا بڑے واضح انداز میں جائزہ لیا ہے اس پر میں نے مولیگن صاحب کو اپنے آفس (قائد اعظم اکادمی) میں ہی اچھا خاصا لیکچر بھی دے ڈالا۔ انھوں نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا البتہ ہنس کر کہنے لگے کہ ’’آپ نے یہ بنیادی سوال (Fundamental Question) مجھ سے کیا ہے۔ میں پاکستان کے کئی شہروں میں گیا ہوں اور بہت لوگوں سے ملا ہوں مگر کسی نے بھی مجھ سے یہ سوال نہیں کیا جو آپ کر رہی ہیں‘‘۔ اس کے بعد رابرٹ مولیگن دوبارہ بھی میرے آفس میں مجھ سے ملنے آئے اور امریکا جاکر انھوں نے مجھے کئی خطوط بھی لکھے۔ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ میری گفتگو کا ان پر کیا اثر ہوا مگر مجھے اتنا معلوم ہے کہ جناب رابرٹ مولیگن کی متذکرہ فلم کے بارے میں ہمیں کوئی مزید خبر موصول نہیں ہوئی۔ یہاں ہمیں یہ بتانا مقصود ہے کہ ملکی اور غیر ملکی سطح پر پاکستان کے کسی بھی پہلو کی غلط ترجمانی کی حوصلہ شکنی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کا وقار ہر سو بلند نہ ہوسکے۔
ہمیں اس بات کا بھی شکر ادا کرنا چاہیے اور خوش ہونا چاہیے کہ ہمارے ہاں شادی کا نظام مستحکم ہے اور رشتہ ازدواج میں بندھنے والے مرد اور عورت کی اولین کوشش ہوتی ہے کہ ان کی شادی قائم رہے اور وہ عمر بھر ایک دوسرے کا ساتھ نبھاتے ہیں ہمارے ملک میں بیرونی ممالک کی نسبت طلاق کے واقعات بہت کم ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی ممالک میں بزرگوں کے بے شمار ادارے کھلے ہیں جہاں عمر رسیدہ افراد اپنا وقت گزارتے ہیں ہم کیوں نہ شکر کریں کہ ہمارا پاکستانی معاشرہ ان معاملات میں بہت اچھا ہے۔
↧
مثبت طرز عمل…ذہنی سکون، ترقی وخوشحالی کازینہ
نسانی فطرت کئی قسم کے رویوں کا مجموعہ ہے۔ کچھ لوگ منفی میں سے بھی مثبت پہلو نکال لیتے ہیں جبکہ کچھ کا طرز عمل اور رویہ مثبت میں سے بھی منفی پہلو کشید کرلیتا ہے۔
اول الذکر رجائیت پسند جبکہ موخر الذکر قنوطیت پسند کہلاتے ہیں۔ رجائیت پسند لوگ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھی بھر پور طریقے سے انجوائے کرتے ہیں جبکہ قنوطیت پسند لوگوں کو بڑی بڑی خوشیاں بھی مطمئن نہیں کرسکتیں۔ رجائیت پسند لوگوں کی نظر ہمیشہ روشن پہلوئوں پر مرکوز ہوتی ہے جبکہ قنوطیت پسند لوگ روشنی میں بھی اندھیرے کے متلاشی رہتے ہیں۔ رجائیت پسند لوگوں کو معاشرے میں عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور لوگ انہیں ہمیشہ خوش آمدید کہتے ہیں کیونکہ یہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو غموں سے نکال کر خوشی دینے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس قنوطیت پسند لوگوں کو پسند نہیں کیا جاتا اور لوگ ان سے کترا کر گزر جانے کو پسند کرتے ہیں۔ قنوطیت پسند لوگ معاشرے سے کٹ کر تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ عمل انہیں مردم بیزار بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ زیر نظر مضمون میں ہم آپ کو کچھ نکات بتائیں گے کہ جن پر عمل کرکے آپ زندگی میں مثبت طرز عمل اپناسکتے ہیں اور ہر دلعزیز بن سکتے ہیں۔آپ کو ترقی، خوشحالی اور ذہنی سکون بھی میسر ہو سکے گا۔
خود کو تبدیلی پر مائل کریں
خوشی کوئی ایسا عنصر نہیں ہے کہ جسے آپ ہر طرز عمل اپنا کر حاصل کرسکتے ہیں بلکہ خوشی کے حصول کی خاطر آپ کو اپنے رویہ اور طرز عمل دونوں میں تبدیلی کرنا پڑے گی۔ پہلے تو اس نکتے پر غور کریں کہ کیا یہ تبدیلی آپ کیلئے ترقی اور خوشی کے در وا کرے گی۔ اس مقصد کیلئے آپ اپنی زندگی کے وہ تین واقعات یاد کریں کہ جس نے آپ کی شخصیت کو موڑنے میں اہم کردار ادا کیا، آپ کو خوشی سے روشناس کروایا اور آپ کو پسندیدہ شخصیت بننے میں مدد دی۔ ان واقعات میں آپ کی دیرینہ دوست سے ملاقات، اپنے پسندیدہ مقام یا شہر کی طرف سفر یا تعلیمی میدان میں کامیابی وغیرہ ہو سکتے ہیں۔ بہتر ہے کہ ان کو لکھ کر اپنے کمرے میں ایسی جگہ آویزاں کریں کہ وقتاً فوقتاً آپ کی نظر اس پر پڑتی رہے اور آپ کے ارادوں کو مہمیز عطا کرتی رہے۔
نئے اور مختلف ماحول کا انتخاب
جب ہم پریشان اور ذہنی الجھائو کا شکار ہوتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی پریشانیاں بھی دیوہیکل نظر آتی ہیں۔ ریسرچ نے یہ ثابت کیا ہے کہ نیا اور مختلف ماحول اس حالت سے چھٹکارا دلانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ مثلاً اگر پڑھتے ہوئے آپ کا دماغ کسی نقطے پر اٹک جاتا ہے اور آپ اسے حل کرنے سے قاصر ہیں تو ذہن پر بوجھ ڈالنے کے بجائے کوئی اور کام شروع کردیں یا کسی باغیچے وغیرہ میں ٹہلنے کیلئے چلے جائیں۔ ماحول کی تبدیلی آپ کے ذہن سے بوجھ ہٹا دے گی اور آپ پھر دوبارہ تازہ دم ہوکر نئے سرے سے پڑھائی شروع کردیں۔ یہ عمل یقینا آپ کا مسئلہ حل کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا کیونکہ تازہ دم ہونے کے بعد آپ کا دماغ مسئلے کے حل کیلئے نئی جہتوں پر کام شروع کردے گا اور یہی جہتیں آپ کی ممد و معاون ثابت ہوں گی۔
خود کو توانائی سے بھر پور رکھیں
سب کو یہ حقیقت معلوم ہے کہ تھکن اور بھوک انسان کو خوشی کے احساسات سے دور کردیتی ہے مگر بھوک اور تھکن کے اثرات اس سے کہیں زیادہ مضر ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ آپ کے نروس سسٹم پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے جو آپ کی صحت کیلئے زہر قاتل ہے۔ اگر آپ نیند پوری نہیں کرتے تو آپ ذہنی الجھن کا شکار رہتے ہیں۔ نیند کی کمی آپ کی قوت فیصلہ اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں کمی یعنی منفی اثرات پیدا کرتی ہے، مگر اگر آپ نے نیند پوری لی ہے اور سیر شکم ہیں تو آپ کی سوچنے سمجھنے اور جانچنے پرکھنے کی صلاحیت پوری طرح بیدار ہوتی ہے جو ایک مثبت پہلو ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق عدالتوں کے جج صاحبان لنچ سے پہلے صرف 20% لوگوں کو پیرول یا ضمانت پر رہائی دیتے ہیں جبکہ لنچ کے بعد وہ سیر شکم ہوتے ہیں تو یہی تناسب 20 فیصد سے بڑھ کر 60 فیصد ہوجاتا ہے۔
منفی اور مثبت پہلو مدنظر رکھیں
یاد رکھیں کہ ماحول جتنا بھی خراب ہو، اس میں جتنے بھی منفی پہلو ہوں مگر مثبت پہلو بھی بہر حال ضرور موجود ہوتے ہیں، بات صرف ان کو ڈھونڈنے کی ہے۔ اگر آپ کبھی کسی ایسی سچوایشن میں گھر جائیں تو اپنے ذہن سے مسئلے کے حل کو نکال کر صرف ایک منٹ کیلئے اس کے منفی اور مثبت پہلوئوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ کو 10 منفی پہلو نظر آئیں گے تو یقینا 5 مثبت پہلو بھی نظرآئیں گے جو آپ کیلئے مسئلے کو سلجھانے میں معاون ہوں گے۔ منفی پہلوئوں پر بھی غور کریں اور انہیں بطور چیلنج قبول کریں تو آپ کا ذہن زیادہ بیدار اور چست انداز میں عمل پیرا ہوگا ۔
گفتگو کیلئے صحیح افراد کا انتخاب کریں
ہم زیادہ تر اپنے مسئلے بہنوں، بھائیوں اور دوستوں سے ہی ڈسکس کرتے ہیں۔ ہر مسئلے پر ہر دفعہ ایک ہی قسم کے لوگوں سے بات چیت کرنے کا یہ مطلب ہے کہ آپ کو ہمیشہ وہی گھسے پٹے جملے اور خیالات سننے کو ملیں گے۔ ہر دفعہ ایک ہی قسم کے لوگوں سے ایک ہی قسم کی گفتگو نئی جہتوں سے متعارف نہیں کرواتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ ایسے لوگوں سے گفتگو کریں جن سے آپ نے پہلے صلاح مشورہ نہ کیا ہو۔ اس مقصد کیلئے آپ اپنے سے کمر عمر، زائد العمر، اپنی پروفیشنل فیلڈ اور اسٹیٹس سے کم یا زیادہ حیثیت کے حامل لوگوں سے گفتگو کرسکتے ہیں۔ آپ کو یقینا ایسے کئی نکات سے آشنائی حاصل ہوگی کہ جن سے آپ پہلے نابلد تھے۔ یہ نئی معلومات یقینا آپ کیلئے ممدو معاون ثابت ہوں گی۔
ذہنی دبائو کو چینلائز کریں
ذہنی دبائو یا ٹینشن قوت فیصلہ اور صحت کا دشمن ہوتا ہے۔ یہ کسی بھی قسم کے برے حالات کو بدترین بناسکتا ہے اور خاص طور پر حافظے اور ذہنی صلاحیتوں پر منفی انداز میں اثر انداز ہونے کی قوت سے مالا مال ہوتا ہے۔ اس لیے خود کو ذہنی دبائو اور پریشانی میں مثبت سوچ کی طرف مائل کرنے کی پریکٹس کریں۔ ریسرچ نے ثابت کیا ہے کہ جو لوگ خود کو یہ سکھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں وہ سردرد، کمر درد اور دیگر کئی قسم کے عارضوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔ سب سے پہلے تو آپ دبائو یا پریشانی کی بنیادی وجہ تلاش کریں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ظاہری طور پر آپ جس چیز کیلئے پریشان ہیں باطنی طور پر مسئلہ وہ نہ ہو، مثلاً اگر آپ نے کوئی پریڈینٹیشن دینی ہے اور آپ دبائو میں ہیں تو ہوسکتا ہے کہ آپ کا مسئلہ پریزینٹیشن نہ ہو بلکہ آپ اس لیے پریشان ہوں کہ آپ کا باس آپ سے مطمئن ہوگا یا نہیں۔اس طرح اگر آپ پریشانی کی بنیادی وجہ تلاش کرلیں تو اس کا حل ڈھونڈنا آسان ہوجائے گا ۔
درست نہج پر ڈال کر مثبت رویے کا حصول ممکن بناسکتے ہیں۔
Think Positive
↧
ہماری کیا بات ہے!
نہ جانے قومیں اور ریاستیں خود کو خوامخواہ کی مصیبت میں کیوں مبتلا رکھتی ہیں۔ زندگی گزارنے کے اور بھی بہت سے ڈھنگ ہیں جن کو اپنانے سے مشقت اور محنت کم لگتی ہے۔ خوامخواہ پسینہ اور خون ایک نہیں کرنا پڑتا۔ نظام چلتا رہتا ہے۔ جارجیا جیسے ملک میں حکمرانوں کو کیا پڑی تھی کہ وہ ایک سابق وزیر ِاعظم کو بدعنوانی کے الزام میں مقدمات میں الجھا دیں، جیل میں ڈال دیں۔ یعنی سزا کا عمل شروع کر دیں۔ تھوڑے بہت پیسے اس نے بنا لیے تو کیا غضب کیا۔ وہ طاقت ہی کیا جس کو فائدے کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ اس پر تمام نظام کو تلملانے کی کیا ضرورت تھی۔ برداشت کر لیتے تو آج خوامخواہ خبریں نہ بن رہی ہوتیں۔ عجیب بیوقوفانہ حرکت کی انھوں نے، اسی قسم کی حرکت اٹلی کے برلسکونی نے کی۔ اتنا طاقت ور آدمی عدالت کے ہتھے چڑھ گیا۔ تاحیات طاقت میں واپس آنے پر پابندی لگ گئی۔ اطالوی قوم میں برداشت کا مادہ نہ جانے کم کیوں ہو گیا۔
برطانیہ کو دیکھیں جمہوریت سے اتنا نام کمایا ہے کہ اچھا برا سب اچھا ہی لگتا ہے۔ مگر پھر جب چند ایک نمایندگان نے کچھ ہزار پاؤنڈ آگے پیچھے کر دیے تو اُن کی درگت بنانے لگ گئے۔ سزائیں ہوئیں سیاست سے نکال دیا۔ ایک ممبر کو علاقے کا کوڑا کرکٹ اٹھانے پر بھی مامور کیا گیا۔ ایسے اقدامات کیے بغیر بہترین زندگی گزاری جا سکتی تھی۔ ہمیں ہی دیکھ لیں کیسے اطمینان سے سب کچھ یعنی جمہوریت وغیرہ چلا رہے ہیں۔ اس ملک کو جی بھر کر کھایا ہے۔ قومی وسائل سے گلچھڑے اڑاے ہیں۔ لوہے کو ہاتھ لگا کر سونا کر دیا ہے۔ پھر بھی کچھ برا نہیں ہوا۔ یہ ملک نہیں ٹوٹا، سر اٹھا کر چلتے ہیں۔ منتخب حکومتیں انھی کرپشن کے انباروں سے بنی ہیں مگر پھر بھی دنیا کا ہر سربراہ سات سلام کرتا ہے۔ ہم سے جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے لیکچر سنتا ہے۔ بدعنوانی ختم کرنے کے لیے جستجو کرنا ضروری نہیں۔ جو ہو گیا سو ہو گیا۔ پیسہ ملک کا ہو، دولت عوام کی ہو لیکن ہے تو پاکستانی ہاتھوں میں ہی۔ کس کے پاس زیادہ ہے کس کے پاس کم پیسہ تو ہر جگہ ہے۔ پھر اتنی سعی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
ایران کے حکمرانوں کو بھی ہر نکتہ سمجھ نہیں آتا۔ کہنے کو تو ہزاروں سال پرانی تہذیب ہے مگر بنیادی قسم کی دانش مندی کے تقاضے بھی پورے نہیں کرتے۔ ہم سے اپنے مغوی بارڈر گارڈز کا پوچھ رہے ہیں۔ پریشان ہورہے ہیں۔ ان کے اغواء شدہ شہری زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ بھئی اتنے زیادہ لوگ ہیں، ایران میں چند ایک غائب بھی ہو گئے تو کیا قیامت آ گئی۔ کسی گروپ نے دوچار اغواء کر لیے تو اس میں بلبلانے کی کیا بات ہے اور پھر ہمیں دھمکی دینے کا کیا جواز ہے۔ ایران کے آرمی جرنیل کو ستو پینے چاہئیں تا کہ خون کا ابال کم ہو جائے۔ یہ کہنا کہ ایران پاکستان کی سرزمین پر خود کارروائی کر کے ان گارڈز کو چھڑائے گا غیر ضروری منصوبہ ہے۔ حالات خراب ہوں گے وقت ضایع ہو گا۔ کدورتیں بڑھیں گی۔ بھائی چارہ کم ہو جائے گا۔ ہم سے سیکھ لیں کہ اغواء کیے ہوئے گارڈز کے معاملے کو کیسے طے کیا جاتا ہے۔ یہ مہینے ہفتوں تک نہیں سالوں تک لٹکائے جا سکتے ہیں۔ 2010 میں اگر کوئی سیکیورٹی اہلکار گم ہوا تو 2014میں مل جائے گا۔ صبر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اس دوران کوئی حادثہ بھی ہو سکتا ہے۔ اغواء شدگان کی گردنیں تن سے جدا بھی ہو سکتی ہیں۔ ان کو بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ دیکھیں ہم کس خوبصورتی سے حامد کرزئی کو سر آنکھوں پر بٹھا ئے ہوتے ہیں۔ اِن کی راہ میں پلکیں بچھا تے ہیں، وہ جہا ں کہتے ہیں ہم چلے جاتے ہیں۔
کبھی ترکی میں کبھی امریکا میں اگر ملاقات کے لیے دہلی بلائیں گے تو بھی ہم سر کے بل جائیں گے۔ اُن کو خوش کر نے کے لیے ہم نے بہترین طریقہ اپنایا ہوا ہے۔ پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی عزت ماب حامد کرزئی نے پاکستان کے ریاستی اداروں کو ترکی میں بیٹھ کر شدید تنقید کا نشا نہ بنایا تو محترم وزیراعظم نے تدبر اختیار کرتے ہوئے عسکری قیادت کو کرزئی صاحب کے سامنے وضاحت کا کہا۔ پھر وضاحت کر دی گئی، افغان صدر مطمئن ہوئے یا نہیں ہوئے ہمیں علم نہیں۔ اُن کے ذہن میں کیا ہے وہ خود جانتے ہیں یا اُن کا ڈاکٹر جو اُن کی مشکل بیماریوں کے لیے دوائیوں کی لمبی چوڑی فہرست تیار کرتا ہے۔ مگر ہم نے تو اپنا کام کر دیا۔ وہ لوگ جو افغانستان میں موجود ہیں اور ہم پر حملے کرتے ہیں اُن کا قصہ اُٹھاتے تو ماحول خراب ہو جاتا۔ تعلقات پر آنچ آ جاتی اور کچھ ایسا ہو جاتا کہ شاید آخر میں ہمیں کابل کو دھمکی بھی دینی پڑتی۔ کتنی بُرائی پھیلتی، ہم پیار، محبت اور اچھائی کو پھیلا نے پر مامور ہیں۔
زند ہ قومیں اور اُن کی قیادت کھاؤ، پیو، موج اڑاو کے فارمولے پر عمل درآمد کرتی ہیں۔ ریاست کو چلانے کے لیے ہر وقت کی پریشانی، کبھی دہشت گردی سے نپٹتے، کبھی معاشی بدحالی سے، کبھی کوئی آپریشن کی پخ چھوڑ دیتا ہے اور کبھی پاکستان کے مفادات کے تحفظ کی گٹھڑی سر پر لاد دیتا ہے۔ زندگی گزارنے کا یہ تو کوئی ڈھنگ نہیں۔ یہ ایک ہی مرتبہ ملتی ہے۔ ایسی بک بک میں پھنسنے کا کیا فائدہ۔ وقت ضایع ہوتا ہے، محنت کر نی پڑتی ہے۔ قربانی دیے بغیر گزارہ نہیں ہو تا ایسی تنگی اب ہر کوئی قائداعظم تو نہیں ہے کہ کام، کام اور بس کام کر کے ٹی بی کروا لے۔ جب آرام، آرام اور حرام کے ساتھ گزارہ چل رہا ہے تو اسی ڈگر کو بہتر ین سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ ہمارا ’’اشٹائل‘‘ ہے دوسری اقوام اس سے سبق حاصل کر سکتی ہیں۔ ہماری کیا بات ہے!
طلعت حسین
بشکریہ روزنامہ 'ایکسپریس '
↧
پھر وہی چین
میں آپ کو ایک بادشاہ کا قصہ سنانا چاہتا تھا لیکن ایک مختصر سی خبر سامنے آ گئی جو تحریر میں لمبی ہو گئی۔ آج یہی سہی۔ خبر یہ کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف چین کے دورے پر چلے گئے ہیں جو وہاں چار پانچ روز تک نئے چین اور پرانے چین کو دیکھیں گے۔ منٹوں سیکنڈوں میں تعمیر ہونے والی نئی بلند عمارتیں اور قدیم دیوار چین۔ یہ سب چین کے عجوبے ہیں۔ ابھی وزیراعلیٰ نے چین کی سرزمین پر قدم نہیں رکھا کہ ہمارے صدر صاحب بھی ان کے تعاقب میں چین پہنچ رہے ہیں۔ ہمیں ایک طاقت ور دوست مل گیا ہے چنانچہ ہم کمزور لوگ حسب روایت اپنے طاقت ور دوست کے ہاں بار بار آتے جاتے ہیں اور اپنی کمزوری کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، نیا کٹورا ملا ہے اور پیئے چلے جا رہے ہیں خواہ پیٹ پھٹ ہی جائے۔
یوں تو ہم ایک مدت سے چین جا رہے ہیں مگر ہم نے پاکستان سے ایک برس بعد نمودار ہونے والے نئے چین کی ترقی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ مانگا بہت کچھ ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ مجھے ایک بار چین جاکر بڑی شرمندگی ہوئی۔ میں چین کے ایک مشہور اسٹور پر پہنچا۔ ان دنوں ڈالر کے ریٹ شریفانہ ہوتے تھے اور ڈالر کے بدلے بہت سارے چینی سکے مل جاتے تھے اس لیے میری جیب بھری ہوئی تھی۔ میں نے اسٹور میں داخل ہوتے ہی خوبصورت کپڑوں کے تھان دیکھے جو پہلے سے موجود پاکستانی خواتین دیکھ رہی تھیں اور مجھے بتا رہی تھیں کہ میں خواتین کے لیے کون سا کپڑا خریدوں لیکن مجھے تو اعلیٰ قسم کی بوسکی کی ضرورت تھی۔ ’دو گھوڑا بوسکی‘۔ معلوم ہوا کہ ہمارے ہاں چین کی یہ مقبول ترین بوسکی خود چین میں دستیاب نہیں ہے۔ یہ صرف برآمد کرنے کے لیے بنتی ہے مقامی طور پر فروخت کرنے کے لیے نہیں۔ میں اس بوسکی کے تھان خریدنا چاہتا تھا مگر وہاں تو اس کا ایک گز بھی دستیاب نہیں تھا۔ مایوس ہو کر میں نے خواتین کے لیے کچھ کپڑے خرید لیے اور شاپنگ ختم ہو گئی۔
میں کہہ رہا تھا کہ ہم نے چین سے مانگا بہت ہے۔ اپنی ایک بات پھر دہرا رہا ہوں۔ بھارت سے ایک جنگ کے زمانے میں (ہم کبھی بھارت کے ساتھ تجارت کے علاوہ جنگ بھی کر لیا کرتے تھے) ایوب خان نے ائیر مارشل اصغر خان کو اسلحہ کے لیے چین بھیجا۔ ائیر مارشل بتاتے ہیں کہ ایک بہت بڑے جہاز میں اکیلا بیٹھا عجیب محسوس کر رہا تھا۔ بہر کیف چین میں وزیر اعظم چو این لائی سے ملاقات ہوئی اور جو مانگا وہ مل گیا بلکہ کچھ زیادہ ہی کیونکہ چین کے پاس جو نئے ہتھیار موجود تھے اور ابھی چینی توشہ خانے میں پہنچے ہی تھے وہ بھی وزیر اعظم نے دے دیے۔ وزیر اعظم چو این لائی سے فارغ ہو کر میں نے ایک چینی افسر سے کہا کہ کیا بابا ماؤزے تنگ سے ملاقات ممکن ہے۔ اس افسر نے کچھ مہلت مانگی اور کچھ وقت بعد یہ خوشخبری ملی کہ یہ ملاقات ہوگی اور فلاں وقت پر ہو گی۔ میں حاضر ہوا۔ بے حد تپاک سے ملے اور باتوں باتوں میں پوچھا کہ چو این لائی نے میری ضرورت پوری کی ہے یا نہیں۔ میں نے ہاں میں جواب دیا تو یہ بزرگ مسکرا کر کہنے لگا، خیال کرنا چو این لائی بہت کنجوس ہے، وہ کہیں پرانا اسلحہ نہ دے دے۔
چین آج دنیا کی ایک بڑی طاقت ہے اور بہت پھیل چکا ہے لیکن وہ کمزور پاکستان کا پھر بھی دوست ہے، ایک ایسا دوست جس پر آپ بھروسہ کر سکتے ہیں۔ چین کے کاروباری تعلقات بھارت کے ساتھ بھی ہیں اور بہت بڑھ بھی چکے ہیں لیکن پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات جماندرو قسم کے ہیں۔ فوجی اور مالی امداد کے علاوہ ہمیں ہزاروں سال پرانی چینی دانش کی روشنی بھی ملتی رہتی ہے، اب یہ ہماری سمجھ اور عقل پر منحصر ہے کہ یہ ہمارے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہے یا دل و دماغ میں بھی اترتی ہے۔ ہمارے یہ درمیانے یا پست قد کے زرد رو دوست جن کے چہروں پر اب خوشحالی کی سرخی نمودار ہو رہی ہے اپنی اس آزاد زندگی اور اس سے پہلے کی ہزاروں برس کی زندگی میں معجزے دکھائے ہیں جو چین کی سرزمین پر جگمگا رہے ہیں اور اس قوم کے دست ہنر کو یاد دلاتے ہیں۔ عالمی ضرب المثل ہے کہ قدرت نے عرب کی زبان‘ فرنگی کے دماغ اور چینی کے ہاتھ کو خاص مہارت عطا کی ہے اور ہم نے یہ سب دیکھا ہے۔
ان دنوں ہمارے دو اہم لیڈر بیک وقت چین کی سرزمین کے مہمان ہیں۔ ایک صدر مملکت دوسرے ہمارے زبردست قسم کے کارکن وزیر اعلیٰ دیکھیں یہ دونوں ہمارے لیے کیا لاتے ہیں۔ چینیوں کے دروازے کھلے ہیں اور ہم مانگنے میں ماہر خصوصاً ان سے جن کے ساتھ ہمارا تکلف کا رشتہ نہیں ہے۔ اگر کوئی میرے جیسے فقیر کی بات مانے تو ہمیں اس وقت اسلحہ سے زیادہ چینی دانش کی اشد ضرورت ہے۔ ہم چاروں طرف سے جان کے خطروں کی زد میں ہیں۔ غریب کی جورو سمجھ کر ہمیں ہر کوئی آنکھیں دکھا رہا ہے اور تو اور اب ایران فوجیں بھیجنے کی دھمکی بھی دے رہا ہے۔ بھارت اور افغانستان تو جو ہیں وہ ہیں معلوم ہی ہے اب تک تو ہم دکانداری کی باتیں ہی کر رہے تھے لیکن اب کچھ سوچیں کہ یہ بھارت ہی ہے جو کسی دوسرے کے منہ اور ہاتھ سے ہمارے در پے ہے۔ ہم بہت لالچ دیتے ہیں لیکن بھارت کا وزیر تجارت ہماری ہر پیش کش پر تھوک دیتا ہے۔ ہم تو اچھے تاجر بھی نہیں۔ یہ ہنر بھی چین سے سیکھ لیں۔ کوالالمپور میں ملائیشیا کا سربراہ کہہ رہا تھا ہماری تجارت زیادہ تر چینیوں کے ہاتھ میں ہے اور چینی اس میں اس قدر ماہر ہیں کہ ہم بے بس ہیں۔ ہمارے دو تجارت پیشہ لیڈر چین میں ہیں۔ کیا وہ چین سے کوئی ہنر سیکھ کر آئیں گے یا چینی کھانوں سے لطف اندوز ہو کر؟
↧
↧
Income Tax Details of Pakistani Parliamentarians
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے جاری کردہ اراکین پارلیمنٹ کے ٹیکس
گوشواروں کی ڈائریکٹری اس عہد کی ’’ طلسم ہوشربا ‘‘ ہے، ’’ پڑھتا جا ..... شرماتا جا ..... کے مصداق ان گوشواروں میں ملک کے قومی راہنمائوں، جغادری لیڈروں، وزیروں، مشیروں اور دیگر اراکین پارلیمنٹ نے اپنے ہاتھوں سے خود یہ پول کھولا ہے کہ وہ اپنی نیک کمائیوں میں سے قومی خزانہ میں ٹیکس کی شکل میں کیا کچھ ادا کرتے ہیں۔ ان راہنمائوں میں وزیراعظم سے لے کر عام ارکان اسمبلی تک شامل ہیں۔
ڈائریکٹر ی کے مطابق تمام ارکان پارلیمنٹ نے اپنا نیشنل ٹیکس نمبر حاصل کر رکھا ہے۔ 1172۔ ارکان پارلیمنٹ میں سے 1072۔ ارکان نے رواں مالی سال کے اختتام پذیر ہونے تک ٹیکس گوشوارے جمع کرائے۔ ان میں سے سو ارکان نے گوشوارے جمع کرانے کی زحمت گوارہ نہ کی۔ قومی اسمبلی کے 319 ارکان نے انکم ٹیکس ریٹرن بھری۔ جن میں سے 108 نے کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا، ارکان سینٹ کی طرف سے ٹیکس ادائیگی کی صورت حال قدرے بہتر رہی۔ اس ضمن میں ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والے 86۔ ارکان میں سے صرف 3 نے کوئی ٹیکس نہیں دیا جبکہ 14 سینٹرز نے ٹیکس رول پر اپنا نام ہونے کے باوجود ریٹرن فائل نہیں کرایا۔ اس طرح پنجاب اسمبلی کے 353 ٹیکس گوشوارے داخل کرانے والے ارکان میں سے 176 نے کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا، جبکہ ٹیکس رول پر نام ہونے کے باوجود ریٹرن فائل کرنے والے ارکان کی تعداد صرف 18 رہی، سندھ اسمبلی کے ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والے 53۔ ارکان اسمبلی میں سے 95 نے انکم ٹیکس کی مد میں کوئی رقم سرکاری خزانے میں جمع نہیں کرائی جبکہ 15 ۔ ارکان نے ٹیکس رول پر نام ہونے کے باوجود گوشوارے جمع نہیں کرائے۔ خیبر پختون خواہ اسمبلی سے 97۔ ارکان نے ٹیکس ریٹرن جمع کرائی، مگر ان میں سے 61 ۔ ارکان نے کوئی ٹیکس ادا نہ کیا۔ اسی طرح 27۔ ارکان کے نام ٹیکس رول پر درج تھے۔ مگر انہوں نے گوشوارے جمع نہیں کرائے۔ بلوچستان اسمبلی سے ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والے 61 ارکان ہیں۔ 44۔ ارکان نے اپنی آمدنیوں پر کوئی ٹیکس نہیں دیا، جبکہ 4۔ ارکان نے سرے سے ریٹرن فائل ہی نہ کی۔
ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق ملک کی بعض اہم شخصیات نے اپنی آمدن میں ٹیکس کی شکل میں جو رقوم قومی خزانہ میں جمع کرائیں اس کی تفصیل اس طرح ہے۔
وزیراعظم نوازشریف نے 26 لاکھ 64ہزار، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے 36 لاکھ 44 ہزار، وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 8 لاکھ 24 ہزار، حمزہ شہباز شریف نے 43 لاکھ 83 ہزار، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک لاکھ 94 ہزار، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے 13 ہزار، قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے راہنما خورشید شاہ نے 64 ہزار، سینٹر رضا ربانی نے 3 لاکھ اعتزاز احسن نے 87 لاکھ، سینٹر عبدالنبی بنگش نے 4 لاکھ 73 ہزار، وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے 2 لاکھ، مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے 18 لاکھ 24 ہزار، چودھری پرویز الہٰی نے 7 لاکھ 91ہزار، قومی اسمبلی کے رکن جمشید دستی نے 20ہزار وفاقی وزیر کامران مائیکل نے 69 ہزار 65 روپے، عوامی مسلم لیگ کے قائد شیخ رشید نے 58 ہزار، وزیر دفاع خواجہ آصف نے 58 ہزار 7 سو 29 روپے، مشاہد اللہ خان نے 31 ہزار 6 سو ایک روپے، متحدہ قومی موومنٹ کی رکن قومی اسمبلی نسرین جلیل نے 43 ہزار 3 سو 31 روپے، فاٹا کے سینٹر عباس خان آفریدی نے ایک کروڑ 80 لاکھ، سینٹر طلحہ محمود نے ایک کروڑ 29 لاکھ، قومی اسمبلی کے رکن شیخ فیاض نے ایک کروڑ ایک لاکھ، خیبر پختون خوا کے رکن اسمبلی نور اسلم نے ایک کروڑ 15 لاکھ 12 ہزار، جبکہ عبدالحسیب خان نے سب سے زیادہ 2 کروڑ 45 لاکھ روپے ٹیکس جمع کرایا۔
اس فہرست میں ایسے عوامی راہنما بھی شامل ہیں جن کی ٹیکس ریٹرن کا فگر صرف دو ہندسوں پر محیط ہے یعنی انہوں نے ایک سو روپے سے بھی کم انکم ٹیکس جمع کروایا، حاتم طائی کی سخاوت کو لات مارنے والے ان نیک نام عوامی نمائندوں میں محترمہ عائشہ ناز تنولی، محمد زین الہٰی اور عزت مآب طاہر بشیر بھی شامل ہیں۔ جنہوں نے اپنی آمدن میں سے بالترتیب 88 روپے 72 روپے اور 55 روپے کی رقم قومی خزانہ کو دان کی۔ غریب غربا ارکان اسمبلی میں وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک، تحریک انصاف کے مرکزی راہنما جاوید ہاشمی، وفاقی وزیر سردار یوسف، طاہر مشہدی اور گل محمد لاٹ نے تو سرے سے ہی اپنے گوشوارے جمع نہیں کرائے۔
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا بھر کی حکومتوں کا دارومدار عوام و خاص کی طرف سے قومی خزانہ میں جمع کرائے گئے ٹیکسوں پر ہوتا ہے مگر ساری دنیا میں پاکستان وہ نرالا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ ٹیکس عوام دیتے ہیںان میں سے بیشتر وہ لوگ ہیں جو ’’ خطِ غربت ‘‘ سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں انہیں ہر وقت دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے رہتے ہیں۔ ان بے بسوں اور بے کسوں پر صرف بجلی کی مَد میں ہی کئی طرح کے ٹیکس عائد ہیں۔ ہمارے ہاں بے لگام ٹیکسوں کے نام پر غریبوں کا خون نچوڑا جارہا ہے دوسری طرف بیشتر ایلیٹ کلاس سرے سے ہی کوئی ٹیکس ادا نہیں کررہی، جن میں بڑے جاگیر دار، سرمایہ دار بھی شامل ہیں حالانکہ دنیا کے کئی ممالک میں امیروں سے ٹیکس لے کر وہ رقوم غریبوں کی فلاح بہبود پر خرچ کی جاتی ہیں.... یہی گڈ گورنس ہے۔ مگر ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے اور آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، یہاں غریبوں سے ٹیکس لے کر امیروں بالخصوص حکمرانوں کی موج مستیوں اورٹور ٹپوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔
ٹیکس ڈائریکٹری ایک ایسا آئینہ ہے جس میں اقتدار کے بھوکوں اور خالی جیبوں کا دعوی کرنے والے ارب پتی سیاستدانوں کا کچا چٹھا کُھل کر سامنے آگیا ہے۔ اس میں سرے سے اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا کہ ان معزز اراکین پارلیمنٹ کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟ ایک سو روپیہ ٹیکس کی بھی گنجائش نہ رکھنے والے لیڈر کا کچن کیسے چلتا ہے؟ ان کے، ان کے بیوی بچوں اور خاندان کے دیگر افراد کے پاس کتنے پلاٹ، کوٹھیاں، فیکٹریاں، پلازے اور زرعی زمین ہے عوام کو ان کے بارے میں بھی معلومات فراہم کی جانی چاہئیں تاکہ وہ آئندہ بہتر انداز میں اپنے نمائندوں کا انتخاب کرسکیں۔ بلاشبہ FBR نے اراکین پارلیمنٹ کے ٹیکس گوشواروں کی ڈائریکٹری جاری کرکے ایک احسن اقدام اٹھایا ہے مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ جو ارکان غلط گوشوارے جمع کراکے بددیانتی کے مرتکب ہوئے ہیں انہیں آئین پاکستان کی روح سے پارلیمنٹ کی رکنیت سے نااہل قرار دیا جائے۔
Income Tax Details of Parliamentarians Pakistan
↧
The tragedy of missing persons in Baluchistan
↧
Halal & Haram Food
↧
More Pages to Explore .....